آئمۂ
تلبیس
آئمۂ
تلبیس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نام کتاب: | ائمہ تلبیس یا غارتگران ایمان |
نام مصنف : | ابوالقاسم رفیق دلاوریؒ |
صفحات : | ۷۵۲ |
قیمت : | ۳۰۰ روپے |
طبع اوّل : | مئی ۲۰۱۰ء |
مطبع : | ناصر زین پریس لاہور |
ناشر: | عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان فون:061-4783486 |
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرض مرتب
الحمدﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ من لانبی بعدہ۰امابعد!
حضرت مولانا ابوالقاسم محمدرفیق دلاوریؒ بہت بڑے عالم دین اور بہت ہی نامور صاحب قلم رہنما تھے۔ آپ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا۔ آپ کی کسی بھی عنوان پر تحریر حرف آخر کا درجہ رکھتی تھی۔ آپ کی دیگر کتب کے علاوہ چار کتابوں کو بہت ناموری اور قبولیت عامہ وتامہ نصیب ہوئی۔
۱… سیرۃ کبریٰ(دوجلدوں میں)
۲… شہادت سیدنا عثمان غنیؓ
۳… رئیس قادیان۔
اور چوتھی کتاب ’’آئمہ تلبیس‘‘ جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ کتاب خیرالقرون کے زمانہ سے اس دور کے ملعون مرزا قادیانی تک کے تمام جھوٹے مدعیان نبوت کے سچے حالات پر مشتمل ہے۔ حضرت مولانا ابوالقاسم رفیق دلاوریؒ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندیؒ کے شاگرد تھے۔ آپ کو حق تعالیٰ نے علم نافع نصیب فرمایا تھا۔ آپ کی یہ تصنیف اوّلاً دارالتصنیف لاہور والوں نے پھر مکتبہ تعمیر انسانیت نے شائع کی۔ اب عرصہ سے نایاب تھی۔ دوستوں کا تقاضہ تھا۔ مکتبہ والے حضرات کی کتب شائع کرنے میں اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ دوستوں کا خیال ہوا کہ حضرت مرحوم کا ہم پر حق ہے۔ ان کی یہ کتاب شائع ہونی چاہئے اور پھر یہ کہ مجلس کے موضوع سے متعلق ہے۔ اس دوران میں کراچی کے کسی مکتبہ نے ’’جھوٹے مدعیان نبوت‘‘ کے نام سے اس کتاب کو شائع کردیا۔ گویا حضرت مصنفؒ کا تجویز کردہ نام ہی بدل دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کی تخریج وتحقیق کا کام مولانا محمدتوصیف سے مکمل کرایا گیا۔ جدید حوالہ جات سے کتاب پر نئے سرے سے اتنی محنت ہوگئی ہے کہ باالکل نئی چیز تیار ہوگئی۔ پہلے کی تمام لاہوری اشاعتیں لیتھوپر تھیں۔ اب جدید کمپیوٹرائز کتابت کرانے سے کتاب سے استفادہ کرنا سہل نہیں بلکہ اسہل ہوگیا ہے۔ انشاء اللہ اس کتاب کی اشاعت سے اللہ رب العزت کی رضا اور رحمت دوعالمﷺ کی شفاعت کبریٰ کے حصول کی توقع محسوس کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایسے فرمادیں۔ اس کریم کے خزانہ میں کیا کمی ہے۔ مصنف مرحوم نے یہ کتاب ۴؍جنوری۱۹۳۷ء کو مکمل فرمائی تھی۔ والسلام!
فقیراﷲوسایاملتان … ۱۶؍۵؍۲۰۱۰ … ۱۴۳۱ھ
فہرست مضامین!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دیباچہ
الحمدﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ خیرخلقہ سیدنا محمد خاتم النبیین وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۰ امابعد!
مدت سے یہ خیال راقم الحروف کے دل و دماغ میں موجزن تھا کہ ایک ایسی جامع تاریخ مرتب کی جائے جس میں ان تمام مشاہیر کے حالات وواقعات بیان کئے گئے ہوں۔جنہوں نے حضرت رسالتمآبﷺکے عہد سعادت سے لے کر آج تک الوہیت،نبوت، مسیحیت، مہدویت اور اس قسم کے دوسرے جھوٹے دعووں کو اپنی دکان آرائی اور زرطلبی کا وسیلہ بنایا اور مذہبی فضا کو مکدر کر کے عالم اسلام میں ہلچل ڈالے رکھی۔ گو یہ کام بہت دشوار اور محنت طلب تھا مگر میں نے اپنی علمی بے بضاعتی کے باوجود متوکلاً علی اللہ اس کام کو اپنے ذمہ لیا اور آج یہ تاریخ قوم کے سامنے پیش کر کے توفیق الٰہی کا شکریہ ادا کرنے کے قابل ہوا ہوں۔
ائمہ مضلین کے متعلق حضرت خیر البشر ؐ کی پیشین گوئی
یہ حقیقت اظہر الشمس ہے کہ ملت حنیفی کی سب سے بڑی مصیبت ائمہ ضلال کا وجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت مخبر صادقﷺنے وابستگان اسوہ محمدیؐکو جس طرح اپنے بعد کے دوسرے مفاسد وفتن کی اطلاع دی۔ اسی طرح ان کے کذب و زور سے بھی بڑے شد ومد سے متنبہ فرمایا تاکہ انکی دجالی فتنہ انگیزیاں ارباب ایمان کو ورطہ ہلاک میں نہ ڈال سکیں۔ لیکن صد ہزار افسوس ہے ان لوگوں کی سرشاری ضلالت پر جو حضرت صادق مصدوق ﷺ کی تنبیہہ کے باوجود آنکھوں پر پٹی باندھے اور کانوں میں روئی ٹھونسے خسران ابدی کے بحر متلاطم میں کود رہے ہیں۔ انبیاء و مرسلین کے سرتاج جناب احمد مختار ﷺ نے آج سے چودہ صدیاں پیشتر فرما دیا تھا:
’’انما اخاف علٰی امتی الائمۃ المضلین وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلہم یزعم انہ نبی اللہ وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی(مسند امام احمدبن حنبلؓ عن ثوبانؓ ج۵ ص۲۷۸)‘‘ {مجھے اپنی امت کے حق میں گمراہ کرنے والے اماموں (یعنی خانہ ساز نبیوں) کی طرف سے بڑا کھٹکا ہے ۔ اور میری امت میں ضرور تیس کذاب (جھوٹے) پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک اس بات کا مدعی ہو گا کہ وہ خدا کا نبی ہے۔ حالانکہ میں آخری نبی ہوں ۔میرے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا۔}
اور بخاری و مسلم کی ایک متفق علیہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قریباً تیس کی تعداد قیامت تک جا کر پوری ہو گی۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی۔ جب تک قریباً تیس دجال کذاب ظاہر نہ ہولیں۔ ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہو گا کہ وہ اللہ کا فرستادہ ہے۔
اس میں شبہہ نہیں کہ اگر مجرد دعویٰ نبوت کا لحاظ کیا جائے تو مفتریوں کی تعداد آج تک شاید تیس ہزار سے بھی متجاوز ہو چکی ہوگی۔کیونکہ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جس میں پانچ سات برساتی نبیوں کے ظہور کی خبر اطراف و اکناف عالم سے نہ آ جاتی ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت خیر البشر ﷺ نے تیس یا کم و بیش کذابوں کے غلغلہ انداز عالم ہونے کی جو اطلاع دی ہے وہ کامیاب اور ذی جاہ متنبی ہیں۔ نہ یہ کہ جس ہرزہ سراے کوے نادانی نے بھی یہ کہہ دیا کہ میں فرستادہ خدا ہوں ۔ وہی سالار انبیاء ﷺ کی پیشین گوئی کا مصداق بن جائے ۔ غرض ایسا مفتری ان تیس مفتریوں کے زمرہ میں قطعاً داخل نہیں ہوسکتا۔ جسے اپنے وطن سے باہر کوئی جانتا تک نہ ہو۔ بلکہ وہی لوگ اس ’’طائفہ علیہ‘‘ میں داخل ہیں جن کے فتنہ کو ہمہ گیر شہرت و نمود حاصل ہو۔
رہا یہ سوال کہ آج تک ایسے مشہور مدعیان نبوت کتنے گزرے ہیں جو تقدس مآبی کی عبا پہن کر لوگوں کو زندقہ و دہریت کی تعلیم دیتے رہے؟۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک ایسے کامیاب متنبیوں کی تعداد جن کا نام اقصاے عالم تک پہنچا اور ان کے فتنہ نے عالمگیر حیثیت اختیار کی بہ مشکل بیس بائیس تک پہنچتی ہے ۔ اس سے معلوم ہو گاکہ دجال اعور کے ظہور سے پہلے عالم اسلام کو ابھی مزید آٹھ دس شہرہ آفاق مفتریوں سے سابقہ پڑ نا ہے ۔ حافظ حقیقی ہمیں ان کے شر سے بچائے اور ہر مسلمان کو استقامت علی الایمان کی توفیق بخشے۔ آمین!
مفتریوں کے علامات و خصائص
لیکن یاد رہے کہ حضرت مخبر صادق ﷺ نے صرف مفتریوں کی تعداد پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ امت مرحومہ کی رہنمائی کے لئے ان کی بعض علامتیں بھی بیان فرما دی ہیں ۔ یہاں تین حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔ پیغمبرﷺ کے صحابی حضرت حذیفہ ؓ کا بیان ہے کہ اور لوگ تو آنحضرت ﷺ سے خیر و خوبی کے متعلق استفسار کیا کرتے تھے۔ لیکن میں شر اور فتنہ کی نسبت دریافت کیا کرتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اس میں مبتلا ہونے کا خطرہ تھا۔ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ! ہم جاہلیت کے تاریک ترین دور میں بڑے زیاں کار تھے ۔ خدائے ذوالمنن نے ہمیں نعمت اسلام سے سرفراز فرمایا ۔ لیکن یہ تو فرمایئے کہ اس خیر و برکت کے بعد جو ہمیں حاصل ہے کوئی فتنہ تو
رونما نہیں ہوگا؟۔ حضور نے فرمایا ’’بے شک ہوگا۔‘‘ میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ! اس فتنہ کے بعد بھی کوئی بھلائی عرصۂ ظہور میں آئے گی ؟۔ فرمایا’’ ہاں! لیکن اس میں کدورت ہوگی۔‘‘ میں نے پوچھا کدورت کس قسم کی ہوگی؟۔فرمایا۔’’ ایسے ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو میری راہ ہدایت سے منحرف ہو کر اپنا علیحدہ طریقہ اختیار کریں گے۔جو شخص ان کی بات پر کان دھرے گا اور عمل پیرا ہو گا اسے جہنّم واصل کرکے چھوڑیں گے۔‘‘میں نے کہا یا رسول اللہ! ان کی علامت کیا ہے ؟۔ فرمایا’’وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے(یعنی مسلمان کہلائیں گے) ان کاظاہر تو علم و تقوے سے آراستہ ہو گا۔ مگر باطن ایمان و ہدایت سے خالی ہو گا ۔وہ ہماری ہی زبانوں کے ساتھ کلام کریں گے‘‘۔میں نے گذارش کی یا رسول اللہ! تو پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟۔ فرمایا ’’ اے حذیفہ! جب ایسا وقت آ جائے تو مسلمانوں کی جماعت کا التزامی طور پر شریک حال رہنا اور مسلمانوں کے امام و خلیفہ کی انحراف ورزی نہ کرنا۔‘‘میں نے عرض کی ’’ یا رسول اللہ! اگر ایسا وقت ہو کہ مسلمانوںکی کوئی جماعت ہی نہ رہے اور ان کا کوئی امام بھی نہ ہو تو پھر کیا کرنا ہو گا؟۔ فرمایا’’ اگر ایسی حالت رونما ہو تو بھی گمراہ فرقوں سے الگ رہنا۔ اگرچہ تمہیں درختوں کے پتے اور جڑیں چبا کر ہی گزر اوقات کرنا پڑے۔ اور تا دم مرگ اسی طرز بود دماند پر مجبور رہو۔
(بخاری ج۲ص۱۰۴۹)
آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا کہ: ’’ وہ ہماری ہی زبانوں کے ساتھ کلام کریں گے۔‘‘ یہ مطلب ہے کہ بظاہر تو قرآن و حدیث ہی سے استدلال کریں گے۔ لیکن بعید اور لچر تاویلیں کرکے ان کا مفہوم بدل دیں گے۔ ان کی زبان پر توقال اللہ و قال رسول ہوگا۔ لیکن وہ فی الحقیقت اس شعر کا مصداق ہوں گے ؎
یاراں چہ عجب شان دورنگی دارند
مصحف بکف و دین فرنگی دارند
اس طرح حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ فخر بنی آدم ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ قیامت سے پیشتر کانا دجال ظاہر ہو گا اور اس سے پہلے تیس کے قریب دجال کذاب عرصہ شہود میں آئیں گے۔‘‘ عرض کیا گیا:’’ یارسول اللہ! ان کی علامت کیا ہو گی؟۔‘‘ فرمایا:’’ وہ تمہارے سامنے ایسا طریقہ پیش کریں گے جس پر تم پہلے سے نہ ہو گے اور اس نئے طریقے سے تمہارے دین کو بگاڑیں گے۔ سو جب ایسے شخصوں کو پائو تو ان سے الگ رہو اور انہیں بر اجانو۔‘‘
(کنزالعمال ج۱۴ ص ۲۰۰حدیث نمبر ۳۸۳۸۰)
ایک اور روایت ملاحظہ ہو: ’’عن ابی ھریرۃؓ قال قال رسول اللہ ﷺ
یکون فی اخر الزمان دجالون کذابون یاتونکم من الاحادیث مالم تسمعوا انتم ولا اباء کم فایاکم وایاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم (مسلم ج۱ ص۱۰)‘‘ {حسب روایت ابو ہریرہؓ سید الخلق ﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانے میں دجال کذاب (جھوٹے نبی) ظاہر ہوں گے۔ وہ تمہارے سامنے ایسی ایسی باتیں پیش کریں گے جو نہ صرف تم نے بلکہ تمہارے آباؤاجدادنے بھی نہ سنی ہوں گی ۔ خبردار ان سے بچنا اور اپنے دامنِ ایمان کو ان سے محفوظ رکھنا۔ مبادا تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہ میں ڈال دیں ۔}
ایک روایت میں آخری زمانہ کے الفاظ بھی مروی ہیں۔ یا تو یہ روایت بالمعنی ہے یا اس سے قیامت تک کے کذابوں کا احاطہ کرنا مقصود ہے ۔ تاکہ غلط اندیش و حق فراموش فرقے یہ نہ کہہ سکیں کہ آنحضرت ﷺ کی پیشین گوئی میں زمن نبوت کے قریب تر زمانہ کے کذاب مراد ہیں۔ عہد رسالت سے بعید تر زمانہ کے دجال مقصود نہیں۔ اس حدیث نے قریب و بعیدہر عہد کے جھوٹے مدعیوں کا احاطہ کر لیا۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعثت نبی آخر الزمان ﷺ کے بعد سے لے کر قیامت تک کا زمانہ آخری زمانہ ہی ہے۔
مدعیان نبوت کا کفر و ارتداد
اس کتاب میں ائمہ تزدیر کے زمرہ میں بعض ایسے لوگ بھی آ گئے ہیں جو انجام کار اپنے جھوٹے دعووں سے تائب ہو گئے اور ا ن شاء اللہ العزیزان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو گا۔ لیکن اس لحاظ سے کہ ان کا فتنہ کسی زمانہ میں عالمگیر تھااور انہوں نے حصولِ زرو مال کے نصب العین میں کامیاب ہونے کے باوجود رجوع الی الحق کیا۔ ان کے نظائر کا پیش کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ تھا ۔ مدعیان باطل کی بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ چونکہ سلسلہء نبوت حضرت خاتم النبیین ﷺ کی ذاتِ گرامی پر ختم ہو گیا اور انقطاع دور نبوت کا عقیدہ قطعی اور اجماعی ہے ۔اس بناء پر تمام مدعیان نبوت اور ان کے پیرو عندا لشرع کافر ومرتد ہیں۔ مدعی نبوت کے کفر وارتداد کے متعلق علاّمہ علی قاریؒ لکھتے ہیں:
’’دعویٰ النبوۃ بعد نبینا ﷺ کفر بالاجماع(شرع فقہ اکبر مطبوعہ دھلی ص۲۰۶)‘‘ {ہمارے نبی ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔}
تمام علمائے حق اس بات پر متفق ہیں کہ مرتدعندالشرع واجب القتل ہے۔ اور یہ خیال کہ مسیلمہ کذاب جو نبوت باطلہ کا مدعی تھا خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لیکن آپ نے اس کے قتل کا حکم نہ دیاصحیح نہیں۔ کیونکہ جب مسیلمہ مدینہ منورہ آیا ہے تو اس
وقت تک وہ مدعی نبوت نہ تھا۔
مدعیان مسیحیت و مہدویت کا کفر و اسلام
انجیل متی میں جناب مسیح علیہ السلام کی ایک پیشین گوئی درج ہے کہ: ’’جھوٹے مسیح اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘ یہ پیشین گوئی خود ذات بابرکات جناب مسیح علیہ السلام کو چھوڑ کر ان تمام لوگوں پر صادق آ تی ہے جو مدعیان مسیحیت ہوئے یا ہوںگے۔ خواہ کوئی مدعی عیسائی ہو یا موسائی، مسلمان کہلاتا ہو یا کسی دوسرے دین کا پیرو ہو۔ لیکن ابولعجبی دیکھو کہ یہ لوگ ہمیشہ اپنے تئیں سچا اور دوسرے مدعیوں کو جھوٹا بتاتے رہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ مرزا غلام احمدقادیانی نے لکھا تھا کہ عیسائیوں نے بھی مجھے مخاطب کر کے بار بار لکھا ہے کہ انجیل میں ہے کہ جھوٹے مسیح آئیں گیااور اس طرح پر انہوں نے مجھے جھوٹا مسیح قرار دیا ہے۔ حالانکہ خود ان دنوں میں خاص لندن میں عیسائیوں میں سے جھوٹا مسیح پگٹ نام موجود ہے جو خدائی اور مسیحیت کا دعویٰ کرتا ہے اور انجیل کی پیش گوئی کو پورا کر رہا ہے۔
(اعجاز احمدی ص ۳۷،خزائن ج۱۹۲ ص ۱۴۷حاشیہ)
چونکہ زمانہ کے مقتضا،یا مغربی تعلیم کی ’’برکت‘‘ سے خدا شناسی کا نور دھندلا پڑگیا ہے۔ اکثر ابنائے تعلیم جدید عقیدئہ نزول مسیح علیہ السلام کے منکر ہیں۔ لیکن یادرہے کہ ایسی غیر معقول روشن خیالی جو تعلیمات نبویہ کی مخالفت پر مبنی ہو ہلاکت سرمدی کا ذریعہ ہے۔ اگر ان عقل فروشوںکی دیدئہ بصیرت کھلی ہوتی تو غور کرتے کہ جب یہ لوگ خود اپنے شکم تک کی اندرونی کیفیت سے واقف نہیں۔ ان کی عقل نارسا کی کمند مصالح و حکم خداوندی کے فلک رفیع کے کنگرہ تک کیونکر پہنچ سکتی ہے؟۔ نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ بیشمار احادیث صحیحہ اور بعض آیات قرآنی سے ثابت اور قطع الدلالتہ ہے۔اس کے متعلق تمام اہل حق کا اجماع ہے ۔ حضرت سیدّالانبیاء ﷺ کے تمام اصحابؓ جو فلک ہدایت کے انجم درخشاں تھے اس عقیدہ پر متفق تھے اور کوئی صحابی ایسا نہ مل سکے گا جس نے اس عقیدہ کی صحت سے انکار کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے حق بالاتفاق اس شخص کو کافر قرار دیتے ہیںجو مدعی نبوت ہو یا حضرت ابن مریم علیہ السلام کے سوا کسی دوسرے شخص کو مسیح موعود خیال کرتا ہو۔
اس کتاب میں ایسے لوگوں کا بھی بکثرت تذکرہ ملے گا جو نبوت سے کمتر درجہ یعنی مہدویت کے مدعی ہوئے۔ دعویٰ مہدویت کفر نہیں اور نہ کسی جھوٹے مدعی کو مہدی سمجھنا ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔اس بناء پر محمد بن تومرت، محمد احمد مہدی سوڈانی اور اس قسم کے دوسرے مہدیوں اور ان کے پیروئوں کو دائرہ اسلام میں داخل سمجھنا چاہیے۔ بشرطیکہ کسی نے ضروریات دین میں سے
کسی عقیدہ کا انکار نہ کیا ہو۔ لیکن چونکہ یہ لوگ اہلسنت و جماعت کے اجماعی مسلک سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔ اس لئے ان کے بدعتی ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ البتہ سیدمحمد جونپوری کی نسبت کہا جاتا ہے کہ ان کا دعویٰ مہدویت محض غلبہء حال کے باعث تھا۔ اگر ایسا ہے تو وہ اس دعوے کے باعث اہل سنت و جماعت کے دائرہ سے بھی خارج نہیں ہوئے۔
ضروری التماس
’’ائمہ تلبیس‘‘ میںبتقضائے ضرورت کہیں کہیں مذاہب باطلہ کا بطلان بھی ثابت کیا گیا ہے۔ اس سے یہ مقصد نہیں کہ ان کے خلاف محاذجنگ قائم کیا جائے۔ بلکہ مقصود یہ کہ فرقہ حقہ اہل سنت و جماعت کے پیرو بدعتی فرقوں سے کنارہ کش رہ کر سلف صالح اور اخیارامت کی صراط مستقیم کے سختی سے پابند رہیں ۔ لیکن یہ بعد و ہجران عقائد ،عبادات اور مذہبی امور تک محدود رہنا چاہیے۔ کیونکہ غیر اسلامی ادیان کے مقابلہ میں ان تمام فرقوں سے اتحاد کیا جا سکتا ہے جو مسلمان کہلاتے ہیں۔
میں نے اپنی ناچیز استعداد کے مطابق کوشش کی ہے کہ واقعات کو ان کے صحیح رنگ میں پیش کروں۔ تاہم میرا گمان ہے کہ کتاب غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔ اس لئے اہل نظر سے ملتمس ہوں کہ جو جو اغلاط دیکھیں از راہ عنایت مجھے مطلع کر دیں۔ تاکہ اگر اشاعت ثانی کی نوبت آئے تو ان کی اصلاح کر دوں۔
لاہور۴جنوری ۱۹۳۷ء
خاکسار: ابوالقاسم رفیق دلاوری!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
باب :۱ … صاف ابن صیاد مدنی
عہد جاہلیت میں کہانت کا شیوع
حضرت بشیر و نذیر ہاشمی علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بعثت سے پیشتر عرب میں عام دستور تھا کہ لوگ غیب کی خبریں اور مستقبل کے حالات معلوم کرنے کے لئے کاہنوں کی طرف رجوع کرتے تھے اور خصومات کا معاملہ بھی زیادہ تر انہی کی مرضی اور صواب دید پر موقوف رہتا تھا۔ چونکہ یہ مدعیان غیب دانی مرجع انام اور قبلہ حاجات بنے ہوئے تھے۔ ابنیائے کرام کی روحانی تعلیمات بھی اسی طائفہ کی دکان آرائیوں میں گم ہو رہی تھیں۔ لیکن جب مرغان حرم نے توحید کی نغمہ سرائی کی اور حضرت خلاصہ موجودات سید العرب و العجم سیدنا محمد ﷺ کی بعثت پر کشور انسانیت کی از سر نو تعمیر و تاسیس کا کام شروع ہواتو کاہنوں کی بساط مقتدائی یکسر الٹ گئی اور کوئی شخص ان کا پرسان حال نہ رہا۔ جس طرح نیّراعظم کی ضیا پاشیوں میں کرمک شب تاب قعرگمنامی میں مستور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سحر و کہانت کی ہمہ گیر تاریکیاں بھی آفتاب رسالت کے طلوع ہوتے ہی نابود ہوگئیں اور ظلمت سحر و کہانت کی جگہ آسمانی تعلیمات کا نور مبین افق عالم پر لمعہ افگن ہوا۔ کہانت ونجوم کے ان دکانداروں میں صاف نام کا ایک یہودی بھی تھا۔ جو ناموس الٰہی کے آخری ایام سعادت میں مدینہ منورہ میں ظاہر ہوااور اسلامی حلقوں میں ابن صیاد کی کنیت سے مشہور ہے۔
کیاابن صیادمسلمان تھا
ابن صیاد سحر و کہانت میں یدطولیٰ رکھتا تھا۔ گو نبوت کا مدعی تھا۔ لیکن کسی روایت سے یہ امر پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچا کہ وہ کسی دن دوسرے خانہ ساز نبیوں کی طرح باقاعدہ بے ہمتائی و یکتائی کی مسند غرور پر بیٹھا ہو اور کسی نے اس کے دعوٰے نبوت کی تصدیق کر کے اس کی متابعت کی ہو۔ ابن صیاد بعد میں بظاہر مسلمان ہو گیا تھا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اسلام شائبہ نفاق سے پاک نہ تھا۔ جس کے بہت سے دلائل و شواہد پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں کہ وہ جناب رسالت مآب ﷺ کی نبوت کو بعض دوسرے یہود کی طرح صرف عرب کے ساتھ مخصوص مانتا تھا۔ اور تصدیق رسالت کے باوجود خود بھی مدعی نبوت تھا۔ حالانکہ کوئی شخص جناب خاتم الانبیاء ﷺ کی بعثت کے بعد دعویٰ نبوت کر کے دائرہ اسلام میں داخل نہیں رہ سکتا۔ اس کے علاوہ حضرت ابوسعیدخدریؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابن صیاد کے سامنے دجال کا ذکر آیا۔ میں نے اس سے
ازراہ مذاق کہا ’’ تیرا برا ہو کیا تو دجال ہونا پسند کرتا ہے۔‘‘ کہنے لگا کہ اگر وہ تمام قدرت جو دجال کو دی جائے گی۔ مجھے عطا کی جائے تو میں دجال بننا ناپسند نہ کروں۔‘‘
(صحیح مسلم ص۳۹۸ج۲)
ابن صیاد کا یہ جواب اس کے دلی خیالات و عقید کا صحیح آئینہ ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے دل پر شیفتگی و اسلام و ایمان کے نقش کہاں تک مرتسم تھے؟۔
ابن صیاد، قتل و استہلاک سے کیوں بچا رہا
ایک مرتبہ امیر المومنین عمر ؓ کی رگ غیرت اسکے دعوے نبوت پر جنبش میں آگئی۔ انہوں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یارسول اللہ! اگر اجازت ہو تو میں اس کی گردن مار دُوں؟۔ حضورؐ نے فرمایا کہ اگر ابن صیاد وہی دجال منتظر ہے تو تم اس پر کسی طرح قابو نہ پا سکو گے (کیونکہ وہ لا محالہ قرب قیامت تک زندہ رہ کر عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ہاتھ سے قتل ہو گا) اور اگر ابن صیاد دجال معہود نہیں تو اس کے قتل کرنے سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔
(مسلم ج۲ ص ۳۹۸)
ظاہر ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد ہر وہ شخص جو نبی اور مہبط وحی ہونے کا مدعی ہو۔ کافر اور واجب القتل ہے۔ لیکن ابن صیاد باوجود ادّعائے نبوت قتل سے اس لئے محفوظ رہا کہ آئین خداوندی نے لڑکوں کے قتل کی اجازت نہیں دی۔ اگر وہ بالغ ہوتا تو پھر دعوے نبوت کے ساتھ کسی آمرزش ور عایت کا مستحق نہ تھا۔ ہم روز مرہ دیکھتے ہیں کہ جو شخص حکومت وقت کے خلاف غدّاری کرتا ہے۔ یا اس پر کسی سازش یا جنگجوئی کا الزام عاید ہوتاہے۔ وہ کشتنی و گردن زدنی قرار پاتا ہے۔ اسے حبس دوام بعبور دریائے شور کی سزا دی جاتی ہے یا وہ نشانہ بندوق بنایا جاتا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ جو شخص شہنشاہ ارض و سماء کی روحانی مملکت میں غدر و فساد کرے اور دین الٰہی میں رخنہ اندازی کا مجرم ہو۔ وہ کس درجہ قابل مواخذہ نہ ہوگا؟۔
منع قتل کی دوسری وجہ یہ تھی کہ یہود ان دنوں ذمی تھے اور ان سے اس شرط پر صلح ہوئی تھی کہ ان سے کسی حال میں تعرض نہ کیا جائے گا۔ چنانچہ ’’شرح السنتہ‘‘ کی روایت میں صاف یہ الفاظ موجود ہیں کہ اگر ابن صیاد دجال موعود نہیں تو تمہیں کسی طرح مناسب نہیں کہ ایک ذمی کو قتل کرو۔‘‘
(مشکوٰۃ ص۴۷۹)
ابن صیاد سے سرورعالم ؐ کا دلچسپ مکالمہ
روایات صحیحہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابلیسی طاقتیں خوردسالی سے ہی اس کے باطن میں اپنی طاغوتی کذب آفرینیاں القا کر رہی تھیں اور وہ حدبلوغ سے قبل ہی اظہار نبوت کر رہاتھا۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پیغمبر خدا ﷺ ابن صیاد کی طرف تشریف لے
گئے۔ امیر المومنین عمر فاروق ؓبھی ساتھ تھے۔ابن صیاد عالم طفلی میں قلعہ بنی مغالہ کے اندر جو یہود کا ایک قبیلہ تھا۔ لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اسے اپنی طرف راجع کر کے فرمایا کیا تو اس بات پر بقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا فرستادہ ہوں؟۔ ابن صیاد نے کہا میں اس کو تسلیم کرتا ہوںکہ آپ امیوں کے (یعنی عرب والوں کے جو اکثر ناخواندہ تھے) نبی ہیں۔ پھر ابن صیاد نے حضور ﷺ سے دریافت کیا’’ کیا آپ بھی مجھے رسول اللہ مانتے ہیں۔؟‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’ میں تو اللہ جل وعلا اور اس کے تمام (سچے) نبیوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ لیکن یہ تو بتا کہ تو جو نبوت کا دعوے دار ہے تجھے کیا دکھائی دیتا ہے۔؟‘‘اس نے جواب دیا کہ ’’ میرے پاس ایک صادق آتا ہے اور ایک کاذب۔‘‘ غالباً اس کا منشاء یہ تھا کہ اس کے پاس ایک فرشتہ آ تا ہے اور ایک شیطان۔ یہ دونوں اس کے دل پر امور غیبیہ القا کر جاتے ہوںگے۔ابن صیادکے خود اپنے بیان سے اس کے دعوئے نبوت کا بطلان ثابت ہوگیا۔ کیونکہ انبیاء کرام کی خبریں ابلیسی اکاذیب سے قطعاًمبرا ہوتی ہیں۔ بخلاف کاہنوں کے کہ ان کی بعض اطلاعیں سچی ہوتی ہیں اور بعض جھوٹی۔ یہ سن کر حضرت رسالت مآب ﷺ نے فرمایا’’ تجھ پر صدق اور کذب مختلط ہو گیاہے۔‘‘ اب آنحضرت ﷺ نے صحابہؓ پر اس کا بطلان ظاہر کرنے کے لئے علیٰ رؤس الاشہاد اس کا امتحان کرنا چاہا۔ چنانچہ فرمایا’’ اچھا میں ایک کلمہ اپنے دل میں سوچتا ہوں بتائو کہ وہ کونسا کلمہ ہے۔؟‘‘جناب سرور انبیاء ﷺ نے قرآن پاک کی یہ آیت جس کے پانچ کلمے ہیں اپنے ذہن میں ملحوظ رکھی۔
’’یوم تاتی السمآء بدخان مبین‘‘ {جس دن کہ آسمان پربیّن دھواں ظاہر ہوگا۔}
ابن صیادنے کہ وہ دھواں ہے ۔ ابن صیاد پانچ الفاظ کے کلام میں سے صرف ایک لفظ بتا سکا۔ جب حضورﷺ نے دیکھا کہ اس کا حال عام کاہنوں کا سا ہے جو القائے شیطانی کی بدولت بعض امور غیبیہ معلوم کر لیتے ہیں تو فرمایا کہ تو اپنی بساط سے بڑھ کر قدم نہیں مار سکتا اور نہ اس درجے سے تجاوز کر سکتا ہے جو کاہنوں کو حاصل ہے اور جب تو دوسروںکے دلی خطرات کو پوری طرح نہیں بتا سکتا تو نبوت کا دعویٰ چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ رب قدیر انبیاء کو لوگوں کے دلی ارادوں اور راز ہائے پنہانی پر علیٰ وجہ الکمال مطلع فرما دیتا تھا۔ بخلاف منجموں اور کاہنوں کے کہ جنود ابلیس ان پر کلمات قدسیہ میں سے کوئی ایک کلمہ القا کر دیتا ہے۔
جس دن خیر البشر ﷺ نے ابن صیاد سے اپنے معہود ذہنی کے متعلق سوال کیا۔ اس کے بعد آپﷺ کو ابن صیاد کے مزید حالات معلوم کرنے کا اشتیاق ہوا۔ چنانچہ آپﷺ دوسرے
دن حضرت ابی بن کعب انصاریؓ کو ساتھ لے کر اس نخلستان کو تشریف لے گئے۔ جہاں ابن صیاد مقیم تھا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ وہ ایک چادر تانے بستر پر دراز ہے اور چادر میں سے غن غن کی آواز آرہی ہے۔ آپ اس حقیقت کے پیش نظر کہ جب کسی کے مفسدہ کا خوف ہو تو افشاء راز اور اظہار حقیقت جائز ہے۔ درخت خرما کی شاخوں کی آڑ میں ہو لئے۔ تا کہ اس کے یہ جاننے سے پیشتر کہ آنحضرتﷺ تشریف فرماہیں۔ اس کی گنگناہٹ کا مفہوم اور مفاد سمجھ سکیں جو مخفی اور نا قابل فہم تھا۔ ابن صیاد کی ماں آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر پکاراٹھی۔‘‘ دیکھو صاف ! محمد ﷺ تشریف لائے ہیں۔ ابن صیادحضورﷺ کی تشریف آوری سے مطلع ہو کر خاموش ہو گیا۔ اگر اس کی ماں خاموش رہتی تو اس کی باتوں سے اس کی حقیقت حال پر مزید روشنی پڑ سکتی ۔ اس کے بعد پیغمبر خدا ﷺ نے ظہور دجال کے متعلق ایک نہایت فصیح و بلیغ خطبہ دیا اور واپس تشریف لے آئے۔
(مسلم ج ۲ص۳۹۸)
حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ اس طرح ایک اور مرتبہ جناب خواجہ عالم ﷺ اور حضرات شیخینؓ مدینہ طیبہ کے ایک کوچہ میں ابن صیادسے ملے۔ آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے پوچھا کہ کیا تو میری رسالت کا قائل ہے۔؟ کہنے لگا کیا آپ بھی مجھے رسول اللہ مانتے ہیں۔؟ آپ نے فرمایا ’’آمنت باﷲ و ملئکتہ وکتبہ ورسلہ‘‘ اور چونکہ تو کذاب ہے۔ اس لئے تجھ پر ایمان نہیں لا سکتا۔‘‘اس کے بعد حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ تجھ پر کیا بشارتیں آتی ہیں۔؟اس نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ عرش پانی پر کھڑا ہے۔ فرمایا’’ تو عرش ابلیس کو سطح آب پر دیکھتا ہوگا۔‘‘ بعض احادیث نبویہ میں وساوس کے متعلق مذکور ہے کہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھا کر اپنی ذریات کو فسوں سازیوں اور فتنہ انگیزیوں کے لئے لوگوں کے پاس بھیجتا ہے۔ ابن صیاد ا سی ا بلیسی تخت کو پانی پر دیکھ کر گمان کرتا تھا کہ یہ عرش الٰہی ہے ۔اس کے بعد حضور علیہ التحیتہ والسلام نے دریافت فرمایا’’ کبھی کچھ اور بھی دیکھاہے۔؟‘‘ جواب دیا میں دو صادق اور ایک کاذب (یا دو کاذب اور ایک صادق)کو دیکھا کرتا ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا’’ اس شخص پر اپنا معاملہ مختلط ہو گیا ہے اور اسے اپنی نسبت بھی یقین نہیں کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا۔‘‘
(مسلم ج۲ ص ۳۹۷)
ابن صیاد بارگاہ نبویؐ میں
حضرت ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابن صیادنے جناب نبی الرحمتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جنت کی مٹی کا حال پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ سفیدی میں میدے کی مانند ہے اور اس کی بو خالص کستوری کے مشابہ ہے۔(صحیح مسلم ج۲ ص۳۹۸) اس روایت سے پتہ چلتا
ہے کہ ابن صیاد کبھی کبھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہوتا تھا۔ لیکن کسی روایت سے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ابن صیاد نے کس سال بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر بیعت اسلام کی اور کتنی مرتبہ آستانہ نبوت میں حاضر ہوا۔؟ لیکن یہ امر تعجب خیز ہے کہ ابن صیاد جیسا کاہن مدعی نبوت عہد رسالت میں خاص مدینتہ الرسولؐ کے اندر موجود ہو۔ یوم حرہ کے واقعات ہائلہ تک جو یزید بے دولت کے عہد ظلمت میں ظہور پذیر ہوئے۔ ہزار ہا صحابہ کو اس سے وقتاًفوقتاً ملنے کا اتفاق ہوا ہو اور پھر اس کو اغوا کوشیوں کے حالات اور سوانح حیات شرح و بسط کے ساتھ نہ مل سکیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس نے دوسرے متنبیوں اور خانہ ساز مسیحوں کی طرح اپنے تقدس کی دکان جمانے اور لوگوں کے لئے باقاعدہ دام تزویر بچھانے کا قصد ہی نہ کیا۔ بلکہ کچھ تو اپنے غلبہ حال اور دجالی حرکات کے باعث لوگوں سے بہت کچھ الگ تھلگ رہتا تھااور کچھ صحابہؓ کرام سے بوجہ اپنے کذب آفرین دعادی کے چھپتاتھا۔ اس لئے غالب گمان یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات حیات کو گوشہء عزلت میں زیادہ گذارتا ہوگا۔ اور یہی اس کے سوانح حیات بکثرت نہ پائے جانے کی علّت ہے۔
کیا ابن صیاد ہی دجال اکبر ہے؟
بعض علماء نے ابن صیاد کو وہی دجال اکبر سمجھا ہے۔ جسے مسیح علیہ السلام قرب قیامت کو قتل کریںگے۔ لیکن حقیقت یہ ہی کہ وہ دجال اکبرتو نہیں تھا۔ البتہ ان دجالوں میں سے ایک ضرور تھا جوجھوٹے دعوئوں کے ساتھ خلق خدا کو گمراہ کر رہے ہیں۔ جن حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ ابن صیادہی دجال اکبر ہے اور یہ کہ وہی نہایت مسن اور طویل العمر ہو کر اخیر زمانے میں ظاہر ہوگا۔ اور روئے زمین پر فساد برپا کرئے گا۔ ان کے دلائل یہ ہیں:
محمد بن مکندرکہتے ہیں کہ میں نے جابرؓ بن عبداﷲؓ کو اس بات پر حلف اٹھاتے دیکھا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے ۔ میں نے کہا تعجب کی بات ہے کہ آپ اس بارے میں اللہ کی قسم کھاتے ہیں۔؟ جابرؓ نے جواب دیا کہ امیر المومنین عمرؓ نے میری موجودگی میں آنحضرت ﷺ کے روبرو اس بات پر قسم کھائی تھی اور حضورؐ نے اس بات پر انکار یا اعتراض نہیں کیا تھا۔
(مسلم ج۲ ص ۳۹۸)
اس روایت کے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ امیر المومنین عمرؓ نے ابن صیادمیں بعض دجالی علامتیں دیکھ کر اسے ہی دجال یقین کر لیاتھا۔اور ان کے حلف کا اصل مبنیٰ یہ تھا کہ ابن صیاد ان دجالوں یعنی عیاروں میں سے ہے جو دعویٰ نبوت کے ساتھ فتنہ انگیزی کریں گے۔ ان کی سوگند کا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ وہ دجال اکبر ہے۔ اور شارع علیہ الصلوٰۃ وا لسلام کے سکوت کی وجہ یہ تھی کہ آپ اس وقت تک آسمانی اطلاع نہ پانے کے باعث خود متردّد تھے کہ ابن صیاد جس میں دجالی
علامتیں پائی جاتی ہیں۔ دجال موعود ہے یا نہیں۔؟ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ نے تمیم داریؓ کی زبان سے عرب کے ایک جزیرہ میں دجال کے قید ہونے کا واقعہ سنا تو اس وقت آپؐ پر دجال کی شخصیت متحّقق و متعین ہو گئی۔
دو صحابیوں کی ابن صیاد کے والدین سے گفتگو
ابن صیادکو دجال اکبر سمجھنے والے علماء کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ابوبکرہؓ نے رسول اکرمﷺ سے روایت کی کہ دجال کے والدین کے یہاں تیس سال تک کوئی اولاد پیدا نہ ہوگی۔ اس کے بعد ان کے گھر ایک کانا لڑکا متولد ہوگا۔ جس کے بڑے بڑے دانت ہوں گے اور دنیاوی لحاظ سے نہایت حقیر اور کریہہ المنظر ہو گا۔ نیند کے وقت اس کی آنکھیں تو سوئیں گی۔ لیکن دل (بوجہ ہجوم وساوس و خیالات فاسدہ کے جو شیطان القا کرے گا اسی طرح ) بیدار رہے گا(جسطرح سید کائنات ﷺ کا قلب مبارک کثرت افکار صالحہ اور وحی و الہامات کے پے درپے وارد ہونے کی وجہ سے نہ سوتاتھا) اس کی ناک پرندے کی چونچ کی ماند گول ہوگی۔اس کی ماں بہت فربہ اندام اور لحیم و شحیم ہوگی۔ اور اس کے ہاتھ بہت لمبے ہوںگے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓہ کہتے ہیں کہ ہم نے مدینہ کے ایک یہودی کے گھر میں ایک کانا لڑکا پیدا ہونے کا حال سنا۔میں اور زبیرؓ بن عوام اس کے والدین سے ملے اور انہیں ان تمام صفات سے متصف پایا جو جناب رسول اکرم ﷺ نے دجال کے ماں باپ کے متعلق بیان فرمائے تھے۔ ہم نے پوچھا تمہارا کوئی فرزند بھی ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ تیس سال تک تو ہمارے ہاں کوئی اولادنہ تھی ۔ لیکن اب ایک کانا اور بڑے بڑے دانتوں والا حقیر سا لڑکا متولد ہوا ہے۔ اس کی آنکھیں تو سوتی ہیں مگر دل بیدار رہتاہے۔ ہم وہاں سے چلے تو ہم نے لڑکا بھی قریب ہی دھوپ میں پڑا پایا۔ یہ لڑکا جو پست آواز سے گنگنا رہا تھا سر کھول کر بولا تم نے کیا کہا۔؟ ہم نے کہا کیا تو نے ہماری بات سنی۔؟ کہنے لگا۔ بیشک! گو میری آنکھیں سو جاتی ہیں۔ لیکن میرا قلب بیدار رہتا ہے۔‘‘
(ترمذی ج۲ ص۵۰)
لیکن علماء کے نزدیک یہ حدیث ضیعف ہے۔ کیونکہ اس کے رواۃ میں ایک شخص علی بن زید بن جدعان منفرد ہے اور وہ قوی نہیں۔ علاوہ بریں یہ روایت بقول شیخ ابن حجر عسقلانی ؒ درایتہ بھی ناقابل اعتماد ہے۔ کیو نکہ ابوبکرؓہ ۸ھ میں ایمان لائے اور صحیحین میں ہے کہ جب وہ سید المرسلینﷺ کی خدمت میں باریاب ہوئے تو وہ قریب البلوغ تھے۔ انہوں نے وصال نبوی سے صرف دو ہی سال پیشتر مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کی تھی۔ پس ظاہر ہے کہ ابوبکرؓہ نے ابن صیادکو اس کے زمانہء ولادت میں مدینہ طیبہ میں ہرگز نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ ابن صیاد اور اس کے
والدین کا دجالی صفات و علامات سے موصوف ہونا۔ اس بات کو مستلزم نہیں کہ ابن صیاد ہی دجال اکبر تھا۔ کیونکہ دو صفتوں کا اتحاد دو موصوفوں کے اتحاد کو مستلزم نہیں۔‘‘
ابن صیادسے حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کی ملاقات
ابن صیادپر دجال ہونے کا شبہ اس بنا پر بھی کیا جاتا تھا کہ وہ شکل و شباہت اور شمائل میں دجال اکبر سے بہت بڑی مماثلت رکھتا تھا۔ چنانچہ جس طرح دجال کی ایک آنکھ دانہء انگور کی مانند پھولی ہوگی۔ اسی طرح ابن صیاد کی ایک آنکھ بھی ابھری ہوئی تھی۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں ابن صیاد سے ملا تو دیکھا کہ اس کی ایک آنکھ پھولی ہوئی اور اوپر کو اٹھی ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا کہ تمہاری آنکھ میں کب سے یہ خرابی پیدا ہوئی۔؟ بولا میں نہیں جانتا ۔ میں نے کہا بندہء خدا تیری آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے اس کی خرابی کا حال معلوم نہ ہو سکا۔ ابن صیاد کہنے لگا کہ اگر خدائے قادروتوانا چاہے تو تمہارے ہاتھ کی اس چھڑی میں بھی ایسی ہی آنکھ پیدا کر دے۔‘‘ ابن صیاد کے اس جواب کا منشاء یہ تھا کہ حق تعالیٰ اس بات پرقادر ہے کہ جمادات میں بھی آنکھ پیدا کردے اور جس طرح اس جماد کو اپنی آنکھ کا شعور اور آشوب چشم کا احساس نہیں ہوگا۔ اسی طرح ممکن ہے کہ انسان بھی کثرت اشغال و ہجوم افکار کی وجہ سے مانع ادراک اشیاء کو اسی طرح مدرک نہ کر سکے۔جس طرح لوگ فرط غم اور وفور مسرت کے وقت بھوک کا مطلق احساس نہیں کرتے۔ حضرت عبداﷲبن عمرؓ فرماتے ہیںکہ اس کے بعد ابن صیاد گدھے کی سی آواز کے ساتھ چیخنے لگا۔ یہ آواز ایسی کریہہ اور بھیانک تھی کہ میں نے کسی گدھے کی بھی ایسی مکروہ آواز نہیں سنی تھی۔ میرے احباب کا خیال تھا کہ میں نے ابن صیاد کو اپنی لاٹھی سے اتنا پیٹا تھا کہ لاٹھی ٹوٹ گئی۔ حالانکہ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیا پیش آیااور وہ کیوں چیخا۔؟ اسی طرح ابن صیاد کے ایک یہودی رفیق نے یہ گمان کیا تھا کہ میں نے اس کے گھونسا رسید کیا۔ حالانکہ یہ خیال بھی سراپا غلط تھا۔
(صحیح مسلم ج۲ص۳۹۹)
حدیث جساسہ سے جو عنقریب سپرد قلم ہو گی۔ اس بات کا قطعی علم ہو گیا تھا کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیںہے۔لیکن مسلمانان مدینہ ابن صیاد کے دجالی صفات اور اس کی ہیئت کذائی کا لحاظ کرتے ہوئے بہت دن تک اس شبہ میں پڑے رہے کہ شاید یہی شخص قرب قیامت کو دجال کی حیثیت سے ظاہر ہو، اور یہی وجہ تھی کہ ابن صیاد اہل مدینہ کے لئے سامان کندہ زنی بنا ہوا تھا اور لوگ اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے تھے۔ نافع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کی کسی سڑک پر ابن عمرؓ کی ابن صیادسے ملاقات ہوئی۔ حضرت ابن عمرؓنے اس سے کوئی ایسی بات کر دی جس سے وہ بڑا غضبناک ہوا۔ اس کے بعد عبداﷲ بن عمرؓ اپنی خواہر محترمہ ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ کے پاس
آئے۔ ام المؤمنینؓ اس سے پیشتر سن چکی تھی کہ ان کے بھائی عبداﷲ بن عمرؓ ابن صیادسے کوئی بات کہہ کر اس کی اشتعال انگیزی کا باعث ہوئے تھے۔ ام المؤمنین ؓ نے فرمایا ’’ خدا تم پر رحم کرے ۔ تم نے ابن صیاد کو کیوں مشتعل کیا۔؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ دجال کسی بات پر غضبناک ہو گا اور پھر یہی غیظ و غضب اس کے خروج کا باعث بن جائے گا اور چونکہ یہ احتمال ہے کہ یہی شخص دجال اکبر ہو۔ اس لئے یہ بات کسی طرح مناسب نہیں کہ اسے برانگیختہ کر کے باب فتن کھولا جائے۔‘‘
(صحیح مسلم ج۲ ص ۳۹۹)
ابن صیاد کا استدلال اپنے دجال ہونے کی نفی پر
احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ دجال مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں داخل نہ ہو سکے گا اور تعجب ہے کہ جن حضرات نے ابن صیاد کو دجال اکبر یقین کیا۔ ان کا ذہن ان روایات صحیحہ کی طرف کیوں منتقل نہ ہوا؟۔ ایک روایت میں خود ابن صیاد نے بھی اسی ارشاد نبوی سے استدلال کر کے اپنے دجال ہونے کی نفی کی تھی۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ سے مکہ مکرمہ کو جاتے ہوئے میں ابن صیاد کا رفیق سفر تھا۔ اثناء گفتگو میں وہ مجھ سے کہنے لگا کہ میں نے لوگوں سے اتنا دکھ اٹھایا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ رسا درخت سے باندھ کر اس کا پھندا گلے میں ڈال لوں اور پھانسی لے لوں۔ میں نے پوچھا آخر اس کی کیا وجہ ہے؟۔ کہنے لگا وجہ یہ ہے کہ لوگ مجھے دجال سمجھتے ہیں ۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ دجال لاولد ہو گا اور میں صاحب اولاد ہوں؟۔ کیا یہ پیغمبر علیہ السلام نے یہ نہ فرمایا تھا کہ دجال کافر ہو گا اور میں مسلمان ہوں؟۔ اور کیا سرور دو عالم علیہ الصلوٰۃ وا لسلام نے یہ نہ فرمایا تھا کہ دجال مکے اور مدینے میں داخل نہ ہو گا ۔ لیکن میں مدینے میں پیدا ہوا اور وہیں سے آ کر مکہ معظمہ جا رہا ہوں؟۔
(مسلم ج۲ ص۳۹۸)
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ابن صیاد واقعہ حرہ میں جبکہ یزید کا لشکر اہل مدینہ پر غالب آیا، مفقود ہو گیا۔ بظاہر یہ روایت اس بیان کے منافی ہے جس میں مذکور ہے کہ وہ مدینے میں مرا اور اس پر نماز جنازہ پڑھی گئی۔اگر اس روایت کا مفہوم عام اور موت کو بھی شامل ہے تو کچھ منافات نہیں۔کیونکہ دونوں کا ماحصل یہ ہو سکتا ہے کہ وہ واقعہ حرہ میں مرا اور اسکی نماز جنازہ پڑھائی گئی۔
دجال اکبر ایک جزیرہ میں قیدہے
تمیم داریؓ کے بیان سے جو دجال کی شخصیت کے بارہ میں نص ہے۔ اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ابن صیاد دجال منتظر نہیں۔ کیونکہ جن دنوں ابن صیاد بچوں کے ساتھ مدینہ مطہرہ کی
گلیوں میں کھیل رہا تھا۔ انہی ایام میں یا شاید اس سے بھی پیشتر تمیم داریؓ نے دجال کو عرب کے ایک جزیرہ میں پابہ زنجیر دیکھا۔ اب تمیم داریؓ کے دلچسپ مشاہدات کی روایت جو علماء میں ’’حدیث جساسہ‘‘ کے نام سے شہرت رکھتی ہے۔ ملاحظہ ہو:
فاطمہ بنت قیسؓ ایک صحابیہؓ کہتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں گئی اور نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ حضورﷺ نماز سے فارغ ہو کر منبر پر بیٹھے اور آپ نے حسب عادت مسکرا کر فرمایا کہ سب آدمی اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں۔ اس کے بعد فرمایا کیا جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا؟۔ صحابہ عرض گذار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول اعلم ہیں۔ ارشاد ہوا میں نے کسی ترغیب یا ترہیب کے لئے تمہارے اجتماع کی خواہش نہیں کی۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تمیم داری ایک عیسائی تھے جو خلعت اسلام سے سرفراز ہوئے۔ اب انہوں نے دجال کے متعلق ایک واقعہ بیان کیاہے جو ان ربانی تعلیمات سے مطابقت رکھتاہے جو میں دجال کے متعلق تمہارے سامنے پیش کرتا رہا ہوں۔ چونکہ یہ ماجرا تمیم کے عینی مشاہدہ پر مبنی تھا۔ اس لئے حضورﷺ نے لوگوں کے ازدیاد یقین کے لئے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا۔ تمیم داریؓ کا بیان ہے کہ میں نے جہاز میں سوار ہو کر سمندر کا سفراختیار کیا۔ قبیلہ لخم اور جذام کے بھی تیس آدمی میرے رفیق سفر تھے۔ اتنے میں سمندر میں ایسا طوفان آیا کہ جہاز سمندر کے طول و عرض میں بحالت تباہ چکر کاٹتا رہا۔ لیکن ساحل بحر تک نہ پہنچ سکا۔ آخر موجوں کے خوفناک تھپیڑے کھاتا ہوا ایک مہینہ کے بعد بصد خرابی کنارے لگا۔ ہم ایک جزیرہ میں اترے۔اثنائے راہ میں ایک عجیب قماش کی عورت ملی جس کے بہت لمبے لمبے بال تھے۔ ہم نے اس سے دریافت کیا تو کون ہے؟۔ کہنے لگی میں جساسہ یعنی مخبرہ ہوں جو دجال کو خبریں پہنچاتی ہوں۔ تم لوگ سامنے والے دیر میں جائو۔وہاں دجال کو دیکھو گے ۔ ہم نے دیر کا رخ کیا ۔ وہاں پہنچ کر ایک اتنا بڑا قوی ہیکل مرد دیکھا کہ اس سے پیشتر اس قدوقامت کا انسان کبھی نظر سے نہ گذرا تھا۔ یہ شخص سلاسل و اغلال میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ گھٹنوں اور ٹخنوں کے بیچ میںسے نکل کر گردن سے بندھے تھے۔ ہم اس کو ہ پیکر انسان کو دیکھ کرمحو حیرت رہ گئے۔ ہم نے پوچھا تو کون ہے؟۔
وہ… چونکہ تم نے مجھے اس حال میں دیکھ لیا۔ اس لئے میں اپنے تئیں تم سے مخفی نہ رکھوں گا ۔ لیکن پہلے تم یہ تو بتائو کہ تم کون ہو اور یہاں کس طرح آنا ہوا؟۔
ہم… ہم عرب کے رہنے والے ہیں۔ ہم نے بحری سفر اختیار کیا تھا۔ لیکن ہمارا
جہاز طوفان میں گھر کر مہینہ بھر سر گردان رہا۔ آخر ہم بحالت تباہ اس جزیرہ میں آ پہنچے۔ ایک اعجوبۂ روز گار جساسہ ہم سے کہنے لگی کہ تم لوگ اس شخص کی طرف جائو جو دیر میں ہے۔ پس ہم لوگ عجلت سے تیرے پاس پہنچے۔
وہ… اچھا یہ تو بتائو کہ نخل بیسان ہنوز بار آور ہوا یا نہیں؟۔
ہم… بیسان کے نخلستان میں برابر پھل آ رہا ہے۔
وہ… لیکن یاد رکھو کہ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب کہ بیسان میں کھجوروں کے درخت ثمر آور نہ ہوں گے۔ اس کے بعد سوال کیا کہ بحیرہ طبریہ میں ابھی پانی موجود ہے یا خشک ہوچکا؟۔
ہم… اس میں تو پانی بافراط موجود ہے۔
وہ… وہ وقت دور نہیں جبکہ ( قرب قیامت کو) اس کا پانی خشک ہو جائے گا۔ اس کے بعد دریافت کرنے لگا کہ کیا چشمہ زغرمیں پانی آ رہا ہے؟۔ اور وہاں کے لوگ اس پانی سے زراعت کر رہے ہیں؟۔
ہم… اس میں تو پانی کی بہتات ہے اور لوگ اس سے اپنی زمینوں کو خوب سیراب کر رہے ہیں۔
وہ… اچھا یہ تو بتائو کہ امیوں کے نبی نے ظاہر ہو کر کیا کچھ کیا ہے؟۔
( امیوں کے نبی کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت ﷺ خاص عرب ہی کی رہنمائی کے لئے مبعوث ہوئے۔ چنانچہ عرب کے بعض یہود کا یہی عقیدہ تھا یا ممکن ہے کہ اس نابکار نے ازراہ تعریض یہ طوفان باندھا ہو کہ آنحضرت نادانوںاور جاہلوں کیلئے مبعوث ہوئے۔)
ہم… وہ اپنی قوم پر غالب آئے اور لوگوںنے ان کی اطاعت کر لی ہے۔
وہ… ہاں ان کے لئے اطاعت و سرافگندگی ہی بہتر تھی۔ اس کے بعد کہنے لگا۔
اب میں اپنی نسبت بھی بتا دوں کہ میں مسیح (دجال )ہوں اور مجھے عنقریب یہاں سے نکلنے کی اجازت ملے گی۔ میں روئے زمین میں ہر جگہ دورہ کروں گا اور دنیا میں کوئی آبادی ایسی نہ ہو گی جہاں چالیس دن کی مدت میں پہنچ نہ جائوں۔ باستثناء مکہ اورطیبہ کے۔ کیونکہ ان دو شہروں میں مجھے داخلہ کی اجازت نہیں ہے۔ جب میں مکہ یا طیبہ میں داخل ہونے کی کوشش کروں گا تو معاً تیغ برہنہ فرشتہ موجود ہو کر میرے اقدام میں مزاحم ہونے لگے گا۔
یہ واقعہ بیان کرکے جناب سید کائنات ﷺ نے اپنا عصا منبر پر مار کر تین مرتبہ فرمایا یہی طیبہ ہے۔ یہی طیبہ(مدینہ منورہ) ہے۔
(مسلم ج۲ ص ۴۶،۴۴،باب الجساسہ و ابو داؤد بالفاظ مختلفہ)
باب ۲ … اسود عنسی
جب حضرت سیدکون ومکان ﷺ حجتہ الوداع سے مراجعت فرمائے مدینہ منورہ ہوئے تو آپ کی صحت مزاج اعتدال سے منحرف ہو گئی اور گو طبیعت جلد سنبھل گئی۔ لیکن منافقوں کی طرف سے ناسازیٔ طبع کی خبر کچھ ایسے برے عنوان سے پھیلائی گئی تھی کہ استبداد خود سری کے مادے مختلف رنگوں میں ظہور کرنے لگے اور بہت سے منافقوں کو اپنا کفر عالم آشکار کرنے کا حوصلہ ہو گیا۔ نفس امارہ کے جن پجاریوں نے علالت نبویؐ کی خبر پاتے ہی اپنے ایمان و اسلام کو خیر باد کہہ دیا۔ اسودعنسی ان میں سب سے پیش پیش تھا۔ اس نے نہ صرف نعمت ایمان سے ہجر و حرمان قبول کیا۔بلکہ اس کی بوالہوسی نے خود ساختہ نبوت کا تاج بھی اسکے سر پر رکھ دیا۔
حضرت خیرالبشرؐ کی پیشینگوئی
رنجوریٔ اوّل کے چند ماہ بعد حضرت سیدالخلق ﷺ اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ دنیائے رفتنی و گزشتنی کو الوداع کہہ کر رفیق اعلیٰ سے جا ملے ہیں۔ بروز شنبہ ۱۰ ربیع اوّل ۱۱ھ کو خواجۂ ﷺ حالت مرض میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدّیقہ ؓ کے مکان پر تشریف لائے اور یکشنبہ کے دن مرض نے شدت اختیار کر لی۔ آپ نے انہی ایامِ مرض میں فرمایا کہ میں نے (خواب)اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن دیکھے۔ مجھے ان سے نفرت ہوئی تو ان پر پھونک دیا۔ معاً دونوں کنگن معدوم ہو گئے۔ ان دو کنگنوں کی تعبیر یہی دو جھوٹے دجال ہیں کہ میں جن کے درمیان میں ہوں۔ ایک مسیلمہ یمامہ والا۔ دوسرا اسودیمنی۔ آپ نے انہی ایام مرض میں وحی الٰہی سے اطلاع پا کر یہ بھی فرمایا کہ ’’ اسود فلاں روز اور فلاں مقام پر قتل کیا جائے گا۔چنانچہ ویسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘
(جذب القلوب الی دیارالمحبوب، حجج الکرامہ ناقلاً عن البقاعی)
ابتدائی حالات اور دعوے نبوت
اسود کا اصل نام عیہلہ بن کعب بن عوف عنسی تھا۔ لیکن سیاہ فام ہونے کی وجہ سے اسود کے نام سے مشہور ہو گیا تھا۔ عنس قبیلہ مذحج کی ایک شاخ تھی۔ علاقہ، یمن کے ایک موضع میں جس کا نام کہف خار ہے پیدا ہوا اور وہیں نشوونمو پایا۔ شعبدہ گری اور کہانت میں اپنا جواب نہ رکھتا
تھااوراس زمانہ میں یہی دو چیزیں باکمال ہونے کی بہت بڑی دلیل سمجھی جاتی تھیں۔ اسود کی ذات میں شیریں کلامی اور تحمل و بردباری کا جوہر بدرجہء اتم و دیعت تھا۔ اس لئے عامتہ الناس جلد اس کی کمند، خدع میں پھنس جاتے تھے۔ اس کے لقب میں اختلاف ہے۔ بعض نے اسے ذوالخماربتایا یعنی اوڑھنی والا لکھا ہے۔ کیونکہ وہ ہر وقت چادر اوڑھے اور عمامہ باندھے رہتا تھا۔اور بعض نے اس کا لقب ذوالحمار بتایا ہے اور لکھا ہے کہ اس کے پاس ایک سدھا ہوا گدھا تھا۔ جب اس کی طرف مخاطب ہو کر کہتا کہ اپنے خدا کو سجدہ کر، تو وہ فوراً سر بسجود ہو جاتا۔ جب بیٹھنے کو کہتا تو جھٹ بیٹھ جاتا اور جب کھڑا ہونے کا حکم دیتا تو وہ نیم قد اور بعض اشاروں پر سر و قد کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب اہل نجران نے اسود کے ادعائے نبوت کی خبر سنی تو اسے بغرض امتحان اپنے ہاں مدعو کیا۔ یہ لوگ اس کی چکنی چپڑی باتوں پر فریفتہ ہو گئے اور جب اس نے گدھے کی نشست و برخاست سے اپنا ’’اعجاز کرشمہ‘‘ بھی دکھا دیا تو انہوں نے نقد ایمان نذر کر کے اس کی پیروی اختیار کر لی۔ اسی طرح قبیلہ مذحج نے بھی اسود کی نئی تحریک کو سمعاً وطاعتہً قبول کر لیا۔
حضرت سرور عالمﷺ حکومت یمن کو مختلف افراد میں تقسیم فرماتے ہیں
جس وقت باذان اور اہل یمن حلقہ اسلام میںداخل ہوئے تھے۔اس وقت سرور انبیاءﷺ نے یمن کی ساری حکومت باذان کو تفویض فرمائی تھی وہ مدت العمر یہاں کے والی رہے۔ باذان کی رحلت کے بعد آپؐ نے یمن کی حکومت تقسیم کر کے گیارہ افراد کے دست اختیار میں دے دی ۔ نجران پر عمرو بن حزم کو حاکم مقرر فرمایا۔ نجران اور زبید کا درمیانی علاقہ خالد بن سعید کو تفویض فرمایا۔ ہمدان، عامر بن شہر کو دیا گیا۔ صنعا کی حکومت شہر بن باذان کو عطا ہوئی۔ طاہر بن ابو ہالہ عک اور اشعریوں کے والی بنائے گے ۔ ابو موسی کو مارب کی اور فردہ بن مسیک کو مراد کی امارت پر سرفراز فرمایا گیا۔ جند کی سرداری یعلی بن امیہ کے زیر فرمان دی گئی۔ حضر موت کی حکومت زیاد بن لبید انصاری کو مفوض ہوئی۔ اور سکاسک اور سکون پر عکاشہ بن ثور کو اور بنو معاویہ بن کندہ پر مہاجر کو عامل مقرر فرمایا گیا۔ مگر مؤخر الذکر کے تقرر کے بعد ہی حضور سید کون و مکان علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طبیعت سخت علیل ہو گئی۔ اس لئے ان کا جانا ملتوی رہ گیا۔ آخر حضورؐ کے وصال کے بعد امیر المومنین ابوبکرؓ نے انہیں ان کی حکومت پر روانہ فرما دیا۔
اسود کی ملک گیری اور اسکا فوری عروج و اقبال
اسود نے دعویٰ نبوت کے بعد تھوڑی سی جمعیت بہم پہنچا کر ہاتھ پاؤںمارنے شروع کئے۔ سب سے پہلے اہل نجران کو گانٹھ کر نجران پر چڑھ دوڑا اور عمرو بن حزم اور خالد بن سعید بن
عاص کو وہاں کی حکومت سے بے دخل کر دیا۔ اسی طرح اسود کا وزیر قیس بن عبد یغوث مرادی بھی جس کے ہاتھ میں اسودی لشکر کی قیادت تھی۔ فردہ بن مسیک ان پر چڑھ آیا جو مراد پر عامل تھے اور انہیں منہدم کر کے وہاں پر قابض ہو گیا۔ نجران سے فارغ ہو کر اسود نے صنعا کا رخ کیا۔ یہاں شہر بن باذان نے اس کا مقابلہ کیا۔ لیکن مغلوب ہو کر جرعہ شہادت پی لیا۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ اپنی بے سروسامانی کا لحاظ کرتے ہوئے صنعا سے روانہ ہوئے اور مارب میں ابو موسیٰ کی طرف ہوکر گذرے۔ ابوموسیٰ نے دیکھا کہ حفظ و دفاع کا کوئی سامان نہیں ناچار وہ بھی حضرت معاذ بن جبل ؓ کے ہمراہ چل کھڑے ہوئے۔ حضرت معاذؓ تو سکون میں ٹھہرے اور ابو موسیٰ کاسک کو چلے گئے۔ اسی طرح طاہر بن ابو ہالہ جبل صنعاء میں جا پناہ گزین ہوئے اور وہ لوگ جو قبیلہ مذحج میں سے اسلام پر قائم رہے۔ انہوں نے فردہ کے پاس جا پناہ لی۔اس وقت اسودی اقبال کا یہ عالم تھاکہ فتح و ظفر ہر وقت حکم کی منتظر تھی۔ غرض یمن کا سارا ملک اسود کے حیطۂ اقتدار میں چلا گیا اور وہ شرقاً غرباً صحرائے حضر موت سے طائف تک اور شمال میں بحرین سے احساتک اورجنوب میں عدن تک کا مالک ہو گیا۔ اسود کی حکومت ملک کے طول و عرض میں اس سرعت سے پھیلی جس طرح آگ گھاس پھوس کے مکان کے ایک سرے میں لگ کر آ ناً فاناً دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہے۔ جب پہلی مرتبہ شہر بن باذان سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی ہے تو اس وقت اس کے پاس صرف سات گھڑ چڑھوں اور کچھ سانڈنی سواروں کی جمعیت تھی۔ لیکن اب اس کی سلطنت کو بڑا استحکام نصیب ہوا۔ ان واقعات سے اکثر اہل یمن اسلام کے صراط صدق و صواب سے منحرف ہو کر اسود کی نبوت پر ایمان لے آئے۔ اب عمرو بن حزم اور خالد بن سعید مدینہ منورہ پہنچے اور تمام دل خراش واقعات حضرت سید کائنات ﷺ کے سمع مبارک تک پہنچے۔
جب یمن کے سارے علاقے اسود کے علم اقبال کے سایہ میں آ چکے تو اس نے عمرو بن معد یکرب کو اپنا نائب مقررکیا ۔ یہ وہی شخص ہے جو پہلے خالد بن سعید بن عاص کی مجلس شورٰی کا رکن تھا۔ لیکن پھر مرتد ہو کر اسلامی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا اور خالد بن سعید کے مقابلہ سے بھاگ کر اسود کے ظل عاطفت میں جاپناہ لی تھی۔ اب حضر موت کے مسلمانوں کو یہ خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں اسود ان پر بھی فوج کشی نہ کرے یا حضر موت میں بھی اسود کی طرح کوئی نیا دجال کذاب نہ اٹھ کھڑا ہو۔ اس لئے حضرت معاذ بن جبل ؓ نے بڑی دانشمندی اور معاملہ فہمی سے کام لے کر استمالت قلوب کے لئے قبیلہ سکون میں نکاح کر لیا۔ جس سے قبیلہ کے لوگ ان سے عطوفت اور محبت کا برتائو برتنے لگے۔
اسود کے خلاف نفرت و عناد کا جذبہ
اب اسود یمن کا بلا شرکت غیرے مالک بن کر کوس انا ولا غیری بجا رہا تھا ۔ لیکن حکومت پر فائز ہونے کے بعد اس میں پہلی سی تواضع و منکسر المزاجی باقی نہ رہی تھی۔ غرور و انانیت نے حلم و خاکساری کی جگہ لے لی تھی اور ہر وقت فرعونیت کا تاج پہنے یکتائی اور بے ہمتائی کے نشہ میں سرشار تھا۔ گو قیس بن عبد یغوث سپہ سالار نہایت صبر و سکون کے ساتھ اسود کے تمام نرم و گرم احکام کی تعمیل کرتاتھا۔ لیکن اسود کی نخوت اور فرعون مزاجی نے اس کو سخت کبیدہ خاطر اور متنفر کردیا تھا۔ اسود نے شہر بن باذان کی جان ستانی کے بعد ان کی بیوی آزاد کو جبراً اپنے گھر ڈال لیا تھا اور آزاد کا عم زاد بھائی فیروز دیلمی جو شاہ حبشہ کا بھانجا تھا آزاد کو اس کے پنجہ بیداد سے نجات دلانے اور اس کا قرار واقعی انتقام لینے کے لئے بری طرح دانت پیس رہا تھا۔ اتنے میں وبر بن یخنس ازدی کے ہاتھ سکون اور یمن کے مسلمانوں کے نام حضرت فخر کون و مکان ﷺ کا ایک فرمان آیا جس میں اسود کی سرکوبی کا حکم تھا۔ ارباب ایمان اس فرمان سے نہایت قوی دل ہوئے۔ اور اسود کو نیچا دکھانے کا عزم صمیم کر لیا۔ اتنے میں مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ قیس بن عبد یغوث پر اسود کا کچھ عتاب نازل ہوا ہے اور قیس اسود سے سخت کشیدہ خاطر ہے۔ اس لئے قیس کو بھی اپنا راز دار اور شریک کار بنا لیا۔
قتل کے مشورے
صنعاء کے بعض مسلمان اسود کی فوج گراں کے مقابلہ میں اپنے حربی ضعف کو بخوبی محسوس کر رہے تھے۔ اس لئے انہوں نے بجائے عسکری اجتماع کے راز دارانہ سرگرمیوں سے کام لینا چاہا۔ یہاں کے مسلمانوں نے قرب و جوار کے لوگوں سے نامہ و پیام کر کے اسود کے خلاف ناراضی کا ایک جال پھیلا دیا۔ اس اثنا میں اسود کو اس کے مؤکل نے بتا دیا کہ تمہارے قتل کی پخت وپز ہو رہی ہے۔ اسو د قیس کو بلا کر کہنے لگا’’ مجھے میرے مؤکل نے حکم دیا ہے کہ میں قیس کو چاہ ہلاکت میں ڈال دوں ۔ کیونکہ وہ اعداء سے مل گیاہے۔ ‘‘قیس ہر طرف خطرہ کی آندھیوں کو محیط پا کر بطور دفع الوقتی قسم کھا کر کہنے لگا حضور کے تقدس اور عظمت کا سکہ میرے لوح دل پر اس درجہ منقوش ہے کہ اس قسم کے کافرانہ وسوسے میرے دل میں کبھی بار نہیں پا سکتے۔ یہ سن کر اسود قیس کے خون سے درگذرا۔ اس کے بعد قیس موقع پا کر مسلمانوں کے پاس آیا اور اسود سے جو باتیں ہوئی تھیں وہ سب بالتفصیل بیان کیں۔ اب اسود نے فیروز دیلمی اور حشنس دیلمی کو جو مسلمانوں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتے تھے بلا کر دھمکایا۔ مگر انہوں نے دفع الوقتی سے کام لے کر اپنا پیچھا
چھڑایا۔ اسود مسلمانوں کی طرف سے ہنوز کھٹکا ہوا تھا اور ارباب ایمان بھی اس کی طرف سے مطمئن نہ تھے کہ اس اثناء میں عامر بن شہر ، زی زود، ذولکلاع اور ذی ظلیم کی طرف سے خطوط آئے جن میں لکھا تھا کہ ہم تمہاری عون و نصرت کے لئے ہر طرح سے حاضر ہیں۔ بات یہ تھی کہ سید خلقﷺ نے ان کے پاس اس مضمون کے فرمان بھیجے تھے کہ وہ اسود کے خلاف حرب آزما ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے صنعاء کے مسلمانوں کو جہاد کی تحریک کی تھی۔ اسی طرح فخر بنی آدم ﷺ نے اہل نجران کو بھی شریک جہاد ہونے کو لکھا تھا اور نجران والوں نے تعمیل ارشاد کا تہیہ کرکے صنعاء والوں کو اپنے عزائم کی اطلاع دے دی تھی۔ یہاں سے فیروز اور حشنس نے اطراف وا کناف کے ان تمام مسلمانوں کو جہنوں نے اسود کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی تحریک کی تھی یہ جواب دیا کہ جب تک ہم اپنا کام مستحکم نہ کر لیں۔ اس وقت تک تم لوگ کوئی اقدام عمل نہ کرنا۔ جب اسود کو ان سب باتوں کی اطلاع ہوئی تواسے اپنی ہلاکت کا کامل یقین ہو گیا۔
اسود کی جان ستانی میں آزاد کے شریک کار ہونے کی درخواست
اب حشنس دیلمی فیروز دیلمی کی عم زاد بہن آزاد کو گانٹھنے کے لئے اسود کے محل سرائے میں گیا۔ جس پر اسود نے اس کے شوہر شہر بن باذان کے واقعہ شہادت کے بعد جبراً قبضہ کر رکھا تھا۔ اور کہا تم جانتی ہو کہ یہ لعین تمہارے والد اور شوہر کا قاتل ہے اور اس نے تمہیں جبراً وقہراً گھر میں ڈال رکھا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ اس کی جان ستانی میں ہماری معاون اور شریک راز بنو۔ آزاد کہنے لگی ’’واﷲ میرے لئے اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے اس نابکار سے بڑھ کر مکروہ اور قابل نفرت چیز کوئی نہیں۔ یہ کمبخت نبوت کا مدعی ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ نہ تو حقوق اللہ ادا کرتا ہے اور نہ اسے محرمات ہی سے پرہیز ہے۔ تمہارا جو کچھ ارادہ ہو اس کی مجھے برابر اطلاع دیتے رہو۔ میں اس کارخیر میں جان و دل سے تمہاری مدد کروں گی۔‘‘ اس اثناء میں اسود نے ایک قاصد بھیج کر قیس کو بارادئہ قتل اپنے پاس بلایا۔ قیس مذحج اور ہمدان کے دس مسلح جوان لے کر اسود کے پاس گیا۔اسود کون دس محافظوں کی موجودگی میں یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ قیس کو قتل کرے۔ کہنے لگا۔ قیس !میں نے تجھ سے سچ سچ نہیں کہہ دیا کہ تو میرے قتل کی سازش میں شریک ہے؟۔ مگر تو ہر مرتبہ جھوٹ بول کر دفع الوقتی کر رہا ہے۔ چنانچہ میرے مؤکل نے مجھے یہ مشورہ دیا ہے کہ ’’ میں قیس کے ہاتھ قطع کردوں۔ ورنہ وہ ضرور میری گردن مار دے گا۔‘‘قیس نے کہا یہ قطعاً غلط ہے ۔ میں آپ کو رسول اللہ مانتا ہوں اور حضور کے مؤکل کو بھی سچا پیامبر یقین کرتا ہوں۔ لیکن وحی میں غلطی کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اس لئے ساز باز کا الزام بالکل بے بنیاد ہے ۔ آپ بدگمانی کو پاس نہ پھٹکنے
دیجئے۔ میں ہر طرح سے حضور کا غلام اور چاکر ہوں اور حضور کے ہر حکم کی تعمیل کو باعث سعادت یقین کرتا ہوں اور اگر آپ میری طرف نظر ترحم سے نہ دیکھیں گے تو میں اپنی آپ کو ہلاک کر ڈالوں گا۔‘‘یہ باتیں سن کر اسود کا خیال بدل گیااور قیس کو جانے کی اجازت دی۔ قیس وہاں سے نکل کر اپنے مسلمان دوستوں سے ملا اور یہ کہہ کر چلا آیا کہ بس اب اپنا کام پورا کر دو۔ اسود محل سرائے سے اٹھ کر باہر آیا۔ تمام لوگ اس کی تعظیم کے لئے سروقد اٹھ کھڑے ہوئے ۔ قصر کے باہر قریباً سو گائیں اور اونٹ بندھے تھے۔ ان کے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ وہاں تینوں مسلمان بھی موجود تھے۔ فیروز کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا۔ فیروز! کیا وہ بات جو تیری نسبت مجھے بتائی گئی ہے غلط ہے؟۔ اور پھر تلوار دکھا کر کہنے لگا کہ میرا ارادہ ہے کہ تجھے ذبح کر ڈالوں۔‘‘ فیروز نے کہا حضور والا ! آپ کو شاید معلوم نہیں کہ حضور کی حرم محترم میری عم زاد بہن ہے اور ہم اس بات پر بڑے نازاں ہیں کہ حضورنے ہمیں سسرالی قرابت سے مشرف فرمایا۔ اگر حضرت اعلیٰ منصب نبوت پر فائز نہ ہوتے تو ہم کسی بڑی سے بڑی قیمت پر بھی اپنی قسمت حضور کے ہاتھ پر فروخت نہ کرتے۔ حضور کی اطاعت میں ہمیں ہر طرح دین و دنیا کی فلاح نصیب ہے۔‘‘ اتنے میں ایک شخص نے اسود کے سامنے فیروز کی چغلی کھائی اور کہنے لگا کہ سرکار! یہ فیروز آپ کا جانی دشمن ہے۔ آپ اس کی سخن سازیوں سے دھوکا نہ کھائیے۔ فیروز بھی سن رہا تھا ۔ اسود نے عتاب آمیز نگاہوں سے فیروز کی طرف دیکھ کر کہا ’’میں سب کچھ جانتا ہوں۔ اس لئے عزم صمیم کر چکا ہوں کہ کل کے روز فیروز اس کے رفقاء کو ضرور موت کے گھاٹ اتروا دوں گا۔
نقب لگا کر محل میں گھس جانے کا مشورہ
اب یہ لوگ وہاں سے چلے آئے اور قیس کو بلا کر باہم مشورہ کرنے لگے۔ حشنس نے یہ رائے دی میں آزاد کے پاس جا کر اس کی رائے معلوم کرتا ہوں۔ اگر وہ اس کام میں ہمارا ہاتھ بٹائے تو بس اسے ٹھکانے لگا دیں۔ حشنس نے آزاد کے پاس جا کر اپنا خیال ظاہر کیا۔ آزا د کہنے لگی ’’ اسود آج کل نہایت چوکنا اور ہوشیار ہو گیا ہے۔ اس حصہ مکان کے سوا محل میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پہرہ چوکی نہ ہو ا۔البتہ اس مکان کے عقب سے نقب زنی کا موقع ہے۔ اگر تم لوگ سرشام اس طرف جا کر نقب لگائو تو وہاں تمہیں کوئی آدمی نہ دیکھ سکے گا ۔ اس وقت جو چاہو کر سکتے ہو۔ وہاں اسود کو کوئی معاون بھی نہ مل سکے گا۔ تمہیں اس جگہ شمعدان روشن ملے گااور اسلحہ بھی موجود ہوں گے۔‘‘ اتنے میں اسود بھی دیوان خانہ سے نکل کر حرم سرائے میں آیا اور حشنس کو اپنی بیوی سے باتیں کرتے پایا۔ اسود نے سخت غضب ناک ہو کر پوچھا تو یہاں کیوں آیا ؟۔ یہ کہہ کر ایک گھونسا
حشنس کے اس زور سے رسید کیا کہ وہ نیچے گر پڑا ۔ یہ دیکھ کر آزاد نے ایسی بری طرح چیخناچلانا اور شور مچانا شروع کیا کہ اسود مبہوت رہ گیا۔ آزاد ناک بھون چڑھا کر اور اسود کو ڈانٹ بتا کے کہنے لگی’’یہ میرا دودھ شریک بھائی مجھ سے ملنے کو آیا ہے۔ اور تو سخت بے حیائی کے ساتھ اس سے ایسا وحشیانہ سلوک کرتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر آزاد اسود کو سخت سست کہنے لگی۔ اسود حشنس کو چھوڑ کر آزاد سے معذرت کرنے لگا اور اس سے بصد مشکل اپنا قصور معاف کرایا۔ وہاں سے اٹھ کر حشنس اپنے دوستوں کے پاس آیا اور اپنی سرگذشت بیان کی۔ یہ لوگ کہنے لگے اب ہم اسود کے شر سے مامون نہیں ہیں فوراً بھاگنے کا انتظام کرنا چاہیے۔ ان لوگوں پربد حواسی طاری تھی اور عالم اضطراب میں کہیں چمپت ہو جانے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ اتنے میں آزاد کا غلام حشنس کے پاس آیا اور پیغام دیا کہ جو بات میرے اور تمہارے درمیان قرار پائی ہے اس میں تغافل نہ کرنا۔‘‘ حشنس نے اس کے جواب میں کہلا بھیجا کہ ہماری طرف سے انشااﷲ اس کام میں ہرگز سستی نہ ہو گی۔ اور غلام کو ہر طرح تشفی دے کر روانہ کیا۔ ان لوگوں نے فیروز سے کہا کہ تم بھی آزاد کے پاس جائو۔ اور اس سے بالمشافہ گفتگو کر کے اس بات کو پکا کر لو۔ چنانچہ فیروز نے جا کر بات چیت کی ۔ آزاد نے فیروز سے بھی وہی باتیں کہیں جو اس سے پیشتر حشنس سے کہہ چکی تھی۔ فیروز نے کہا ہم ان اندرونی کمروں میں نقب لگائیں گے۔ فیروز یہی باتیں کر رہا تھا کہ اتنے میں اسود بھی وہاں پہنچ گیا۔ اور اجنبی مرد کو اپنی ہم نشین کے پاس بیٹھے دیکھ کر اس کی رگ غیرت جنبش میں آ گئی ۔ اس پر آزاد کہنے لگی ’’تم نے شاید اسے پہچانا نہیں یہ میرا عم زاد اور دودھ شریک بھائی ہے اور میرا قریب کا رشتہ دار اور محرم ہے۔‘‘ اسود نے آزاد کے خوف سے اور تو کچھ نہ کیا البتہ فیروز کو وہاں سے نکال دیا۔
اسود کی جان ستانی
جب شام کی سیاہ چادر فضائے عالم پر محیط ہو گئی تو ان لوگوں نے جا کر اپنا کام شروع کردیا۔ اور نقب لگا کر اندر گھس گئے۔ وہاں شمعدان روشن تھا۔ ان میں سے ہر شخص کو فیروز ہی کی قوت بازو پر زیادہ بھروسا تھا ۔ کیونکہ وہ سب میں شہہ زور اور قوی ہیکل تھا۔ ان لوگوں نے فیروز کو آگے کیا اور خود ایسے موقع پر ٹھہرے رہے جو پہرہ داروں اور فیروز کے بیچ میں تھا۔ ان لوگوں کا یہ قیام اس پیش بندی پرمبنی تھاکہ اگر بالفرض پہرہ دار فیروز پر حملہ آور ہوں تو یہ لوگ اس کے آڑے آئیں۔ جب فیروز دروازہ کے قریب پہنچا تو اس نے بڑے زور سے خراٹوں کے آواز سنی اور دیکھا کہ آزاد پاس بیٹھی ہوئی ہے اور بوالعجبی دیکھو کہ جیسے ہی فیروز دروازہ میں جا کر کھڑا ہوا اس کے مؤکل نے اسود کو اٹھا کر بٹھادیا۔ اب اسود اپنے شیطان کی طرف سے یوں گویا ہوا کہ فیروز!تجھے
مجھ سے کیا سروکار ہے جو یہاں آیا ہے ؟۔ فیروز کو یہ اندیشہ ہوا کہ اگر اس وقت لوٹتا اور موقع کو ہاتھ سے جانے دیتا ہوں تو وہ اور اس کے ساتھی بھی مارے جائیں گے اور آزاد بھی زندہ نہ بچے گی۔ اس لئے پھرتی کر کے اسود سے لپٹ گیا۔ فیروز بلند بالا اور قوی الجثہ جوان تھا۔ اس نے اسود کی منڈی پکڑ کر اس طرح زور سے مروڑی جس طرح دھوبی کپڑے کو نچوڑتے وقت بل دیتا ہے اور معاً اس کی گردن توڑ ڈالی ۔ جب فیروز نے اسود کو ہلاک کر کے باہر جانے کا قصد کیا تو آزاد نے لپک کر اس کا دامن پکڑ لیا اور کان میں کہنے لگی کہ اسے زندہ کیوں چھوڑے جاتاہے:
لگا نہ رہنے دے جھگڑے کو یار تو باقی
رکے نہ ہاتھ ابھی ہے رگ گلو باقی
آزاد یہ سمجھ رہی تھی کہ اسود ہنوز زندہ سلامت ہے ۔ فیروز نے کہا اطمینان رکھو۔ میں نے اسے ہلاک کر کے تمہیں اس کے پنجۂ جور سے نجات دلا دی۔ مرنے کے بعد اسود کے منہ سے اس طرح خر خر کی آواز آ رہی تھی جیسے کوئی بیل ڈکارتا ہو۔ یہ عجیب و غریب آواز سن کر محل کے پہرہ دار دوڑے اور دریافت کرنا شروع کیا کہ یہ آواز کیسی ہے؟۔ آزاد نے آگے بڑھ کر انہیں اندر آنے سے روک دیا اور کہنے لگی خاموش رہو ۔ ہمارے پیغمبر پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ وہ خاموش ہو کر چلے گئے۔ فیروز باہر نکل کر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں نے اسود کا کام تمام کر دیا۔ اس پر فیروز کے رفیق اندر کو دوڑے اور دیکھا کہ اسود کے منہ سے بدستور خر خر کی آواز آ رہی ہے۔ حشنس نے بڑھ کر پیش قبض سے اس کا سر تن سے الگ کر دیا۔ اب قاتلوں نے باہم مشورہ کیا کہ اپنے دوسرے ہم مشربوں کو اس سانحہ سے کیونکر مطلع کریں۔ آخر یہ تجویز قرار پائی کہ علی الصباح اس کی عام منادی کر دی جائے۔ جب صبح ہوئی تواسود کے مارے جانے کی باقائدہ منادی کی گئی۔ اس خبر کی اشاعت پر صنعاء کے مسلمان اور کافر دونوں متوحش ہوئے اور شہر میں ہلچل مچ گئی۔ اب حشنس دیلمی نے اذان کہنی شروع کی جس میں ’’اشھدان محمد ارسول اﷲ‘‘ کے بعد یہ الفاظ بھی تھے ’’اشھدان عیھلۃ کذاب‘‘ اس ندا کے بعد مسلمانوں نے اسود کا سر کفار کی طرف پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر اسود کے پیروؤں اور محافظوں نے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹنا اور مسلمان بچوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں نے اس کے جواب میں ستر اسودی کافروں کو پکڑ کر بند کر دیا۔ آخر اعداء مرعوب ہوگئے۔ انطفائے فتنہ کے بعد کفار نے اپنے آدمیوں کا جائزہ لیا تو ستر آدمی مفقود پائے۔ چنانچہ مسلمانوں سے درخواست کی کہ ان کے آدمی رہا کر دیئے جائیں۔ مسلمانوںنے کہا
کہ تم ہمارا لوٹا ہوا مال واپس کرو اور ہمارے بچوں کو لائو تو ہم تمہارے آدمی چھوڑ دیں گے۔ چنانچہ باہم مبادلہ کر لیا گیا۔
فضائے یمن پر اسلامی پرچم
اس کے بعد جب وہاں مسلمانوں کا قرار واقعی تسلط ہو گیا۔ تو اسودی لوگ صنعا اور نجران کے درمیان صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی کی نذر ہوئے۔ اس طرح صنعا و نجران اہل ارتداد کے خاروجود سے پاک ہو گیا۔ حضور سرور عالم ﷺ کے عمال اپنے اپنے علاقوں میں بحال کئے گئے۔ صنعا کی امارت کے متعلق تھوڑی دیر تک کچھ مناقشہ جاری رہا۔ لیکن آخر کار سب نے حضرت معاذ بن جبلؓ کی حکومت پر اتفاق کر لیااور ان کے پیچھے نماز پڑھی۔
اس قضیہ سے فارغ ہو کر ایک قاصد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا ۔ اس وقت تک آفتاب رسالت سمائے ہدایت پر برابر لمعہ افگن تھااور حضور ؐ کویہ تمام واقعہ بذریعہ وحی معلوم ہو چکا تھا ۔ مہبط وحی ﷺ نے علی الصباح صحابہؓ سے فرمایا کہ آج رات اسود مارا گیا۔ صحابہ ؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہ! کس کے ہاتھ سے ہلاک ہوا؟۔ فرمایا ایک مسلمان کے ہاتھ سے جو ایک بابرکت خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا۔ اس کا نام کیا ہے؟۔ فرمایافیروز۔‘‘
چند روز کے بعد جب قاصد اسود کے مارے جانے کی خبر لے کر مدینۃالرسول میں پہنچا تو سرور کون مکان علیہ التحیۃ و السلام اس وقت رحمت الٰہی کے آغوش میں استراحت فرما چکے تھے اور امیر المومنین ابوبکرصدیقؓ نے مسند خلافت کو اپنے مبارک قدموں سے زینت بخشی تھی۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ کو اپنے عہد حکومت میں سب سے پہلی جو بشارت ملی وہ اسود ہی کے قتل کا مژدہ جانفزأ تھا۔ امیر المومنین نے اس نامہ کے جواب میں اہل یمن کو ایک مکتوب لکھا جس میں اسود کی ہلاکت پر بہت کچھ اظہار خوشنودی فرمایا تھا۔
فیروز کہتے ہیں کہ جب ہم اسود کو قعر عدم میں پہنچا چکے تو اسلامی عملداری حسب سابق عود کرآئی۔صنعا میں مسلمانوں کے امیر حضرت معاذ بن جبل ؓ تھے۔ ان ایام میں تمام مسلمان بڑی خوشیاں منا رہے تھے۔ اور دنیا جہاں میں کوئی چیز ایسی دکھائی نہ دیتی تھی جو ہمارے آئینہ دل کو ٹھیس لگا سکتی ۔ البتہ مضافات میں اسود کے تھوڑے سے سوار شر انگیزی کرتے دکھائی دیتے تھے۔مگر ہمیں اطمینان تھا کہ ہماری ادنیٰ سی توجہ انہیں ٹھکانے لگا دے گی۔ لیکن چشم فلک کو ہماری یہ خوشی ایک آنکھ نہ بھائی اور اچانک یہ خبر آئی کہ حضرت سید العرب و العجم ﷺ نے اس سرائے فانی کو الوداع
کہدیا۔ اس خبر کے پہنچتے ہی سارا معاملہ درہم برہم ہو گیا۔ اور قبائل مرتدین نے تمام عرب کے اندر ہلچل مچادی۔‘‘
(ابن اثیر و ابن خلدون)
فرقان حمید کی نقالی
اسود مدعی نبوت تھا اس لئے ضرور تھا کہ وہ کوئی آسمانی کلام بھی اپنے دام افتادوں کے سامنے پیش کرتا ۔ اس نے قرآن پا ک کی نقل کرتے ہوئے کچھ عبارتیں لکھ رکھی تھیں جنہیں اس کے پیرو برہان مقدس کے مماثل خیال کرتے تھے۔ مثلاً لکھا تھا:’’ والمائسات میسا والدارسات درسا یحجون جمعا و فرادی علی قلائص بیض وصفر(الدعاۃ)‘‘
یاد رہے کہ اسود کا فتنہ تین چار مہینہ سے زیادہ عرصہ ممتد نہیں ہوا۔
(الکامل فی التار یخ لابن اثیر،ج ۲ ص۲۰۴)
باب ۳ … طلیحہ اسدی
طلیحہ بن خویلداسدی قبیلہ بنو اسد کی طرف منسوب ہے جو نواح خیبر میں آباد تھا۔ اس شخص نے حضرت رسالت مآب ﷺ کے عہد سعادت میں مرتد ہو کر سمیرا میں اقامت اختیار کی اور وہیں دعویٰ نبوت کر کے اغوائے خلق میں مصروف ہوا۔ تھوڑے ہی دن میں ہزار ہا لوگ اس کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے۔
طلیحہ کی شریعت
طلیحہ نے چند اکاذیب اپنی طرف سے جوڑ جاڑ کر ان کو مسجع کیااور اپنی نئی شریعت لوگوں کے سامنے اس شکل میں پیش کی کہ نماز میں صرف قیام کو ضروری قرار دیا۔ رکوع و سجود کو حذف کردیا۔رکوع و سجود کے متعلق کہا کرتا تھا کہ خدا ئے بے نیاز مونہوں کے خاک پر رگڑنے سے مستغنی ہے اور وہ تمہاری پشت کی خمیدگی سے بھی نیاز ہے ۔ معبود برحق کو کھڑے ہو کر یاد کر لینا کافی ہے۔ دوسرے احکام اور عبادات کے متعلق بھی بہت سی باتیں اختراع کی تھیں۔ کہا کرتا تھا کہ جبرئیل امین ہر وقت میری مصاحبت میں رہتے ہیںاور وزیر کی حیثیت سے تمام امور مہمہ میں مشورے دیتے ہیں۔
حضرت سید المرسلین ؐ کو (معاذاﷲ)طلیحی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت
اب طلیحہ نے اپنی عم زاد بھائی یا برادر زادہ کو جس کا نام حیال یا حبال تھا۔ دنیا کے ہادیٔ
اعظم علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاس اپنی نبوت کی دعوت کے لئے مدینہ روانہ کیا۔ حیال بارگاہ نبویؐ میں پہنچا اور صورت حال بیان کر کے حضرت سید الاولین و الآخرین علیہ الصلوٰۃ و السلام کو (معاذاﷲ) طلیحی نبوت پر ’’ایمان‘‘ لانے کی دعوت دی۔ حیال نے اپنے اثبات میں دعویٰ میں کہا کہ طلیحہ کے پاس ذوالنون (روح الامین) آتا ہے ۔ آپ نے فرمایا’’تم لوگوں نے محض ذوالنون کا نام کہیں سے سن لیا ہے۔‘‘ حیال اس کے جواب میں نہایت مغرورانہ لہجہ میں کہنے لگا ’’ واہ صاحب! آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا وہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے جس کو لاکھوں مخلوق اپنا ہادی اورنجات دہندہ یقین کرتی ہے۔‘‘ آنحضرت ﷺ اس گستاخی پر ناخوش ہوئے اور فرمایا’’ خدا تمہیں ہلاک کرے اور تمہار ا خاتمہ بخیر نہ ہو۔‘‘چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حیال حالت ارتداد ہی میں قتل ہو کر واصل جہنم ہوااور دنیا سے نامراد گیا۔
طلیحہ کی پہلی جنگ اور اس کی ہزیمت و فرار
حیال کی مراجعت کے بعد پیغمبر خدا ﷺ نے حضرت ضرار بن ازور ؓ کو اپنے ان عمال اور قبائل کے پاس تحریک جہاد کی غرض سے روانہ فرمایاجو طلیحہ سے قریب واقع تھے۔ ضرارؓ نے علی ابن اسد، سنان بن ابوسنان، اور قبیلہ قضاعہ اور قبیلہ بنو ورتا، وغیرہ کے پاس پہنچ کر آنحضرت ﷺ کا پیغام پہنچایا۔انہوں نے اس ارشاد کو لبیک کہااور حضرت ضرار ؓ کے ماتحت مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت کو جہاد کی غرض سے بھیج دیا۔ لشکر اسلام واردات کے مقام پر خیمہ زن ہوا اور ادھر کفار نے بھی لائو لشکر جمع کیا اور دونوں طرف سے صف آرائی شروع ہوئی ۔ دل دادگان توحید و جان نثاران رسالت شیر غران کی طرح دشمن پر جھپٹ پڑے اور جو سامنے آیا اس کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر گرادیا۔ پیروان طلیحہ نے جانوں پر کھیل کر مسلمانوں کے نرغہ کو روکنے کی بہتیری کوشش کی۔ لیکن شجاعان اسلام کے مقابلہ میں کسی طرح عہدہ برا نہ ہو سکے اور سخت بدحواسی کے ساتھ بھاگ کھڑے ہوئے۔ لشکر اسلام مظفرومنصور واپس آیا۔ لیکن ضرارؓ ہنوز مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے کہ حضرت مفخرموجودات ﷺ دنیا کی سرائے فانی سے رخصت ہو کر عالم عقبیٰ کے دارالخلد کو تشریف لے گئے۔
حضرت اسامہ کے لشکر کی روانگی میں التواء
معلوم ہوگا کہ حضرت زید بن حارثہؓ نے جو سرور عالم ﷺ کے آزاد غلام اور متبنّٰی تھے۔ ملک شام میں موتہ کے مقام پر نصاری کے ہاتھ سے شربت شہادت نوش فرمایا تھا۔ اس بنا پر محرم ۱۱ھ میں حضرت خیرالورٰیﷺ نے شام کی طرف لشکر بھیجنے کا عزم فرمایا تھا۔ آپ نے اس مہم کی
قیادت حضرت زید شہید ؓ کے فرزند گرامی حضرت اسامہ ؓ کو تفویض فرماتے ہوئے حکم دیا تھا کہ وہ شام جا کر بلقا اور داردم کی سرحد تک ترکتازکریں۔اور اعدائے اسلام کو اپنے شہید باپ کے قتل کی قرار واقعی سزا دیں ۔ لیکن منافقوں نے ارباب ایمان کو بد دل کرنے کے لئے یہ بحث کھڑی کر دی تھی کہ رسول خدا ﷺ نے مہاجرین و انصار پر ایک غلام کو امیر و سردار بنا دیا ہے۔‘‘اہل نفاق کی شر انگیزی کا حال حضورﷺ کے سمع مبارک تک پہنچا تو آپؐ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے اس سے پیشتر اسامہؓ کے باپ زید بن حارثہؓ کی امارت پر بھی طعن کیا تھا۔ حالانکہ زید ؓ کی طرح اسامہؓ میں بھی امارت کی صلاحیت موجود ہے۔ حضورؐ کے اس ارشاد کا منشاء یہ تھا کہ اسلام اپنے تمام پیروئوں کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ غلام ہویا آقا۔ذاتی قابلیت و صلاحیت شرط ہے۔اکثر اکابر صحابہ جن میں صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظم ؓ جیسے جلیل اقدر مہاجر بھی داخل تھے ۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ کے ہمراہ رکاب ہوئے۔ یہ لشکر ابھی چلنے ہی کو تھا کہ حضورؐ سید الاکرمین علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اس مرض سے دوچار ہونا پڑا جس میں آپؐ نے اس سرائے فانی کو الوداع کہا تھا۔ اور چونکہ حضورؐ کا مرض روزبروز اشتداد پکڑتا گیااور اس قسم کی متوحش خبریں پیہم آنے لگیں کہ یمن میں اسود عنسی نے ، یمامہ بن مسیلمہ نے اور بنی اسد کے اندر طلیحہ نے خروج کیا ہے۔ جیش اسامہؓ کی روانگی میں مزید التوا ہو گیا۔
قبائل عرب کا ارتداد
امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ قبائل کے ارتداد سے پہلے علام الغیوب کے علم محیط میں یہ بات قرار پا چکی تھی کہ سید کائنات ﷺ کے زمن سعادت میں اور نیز خلفائے راشدین کے عہد بابرکت میں کچھ لوگ اسلام لانے کے بعد سعادت ایمانی سے محروم ہو جائیں گے ۔ اس لئے حق تعالیٰ نے پیشین گوئی کے طور پر اس آیت میں پہلے سے ان کے ارتداد کی اطلاع دے دی:
’’یا ٓیھا الذین امنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یأتی اللہ بقوم یحبہم ویحبونہ اذلۃ علی المؤمنین اعزۃ علے الکافرین یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم(مائدہ: ۵۴)‘‘ {مسلمانو!یادرکھو کہ تم میں سے جوکوئی اپنی دین سے پھرجائے گا خدائے قادروتواناان کی جگہ جلد ایسے لوگوںکو پیدا کردے گا جو خدائے برترکے محبوب ہوںگے اوران کواﷲ تعالیٰ سے محبت ہوگی۔وہ اہل ایمان کے حق میں متواضع اور مہربان اور منکروںکے مقابلے میں تیزاور درشت طبع ہوںگے۔ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اورامورخیرکے اجراء،حسنات ومبرات پرعمل کرنے میں کسی کی ملامت(اور خندہ زنی)کی پروانہیںکریںگے}
چنانچہ اس آیت کی تنزیل کے کچھ عرصہ بعد اس پیشینگوئی کا اس طرح ظہور ہوا کہ عرب کے گیارہ فرقے مرتد ہوگئے۔ تین فرقے خود آنحضرت ﷺ کے آخری ایام سعادت میں بدیں تفصیل مرتد ہوئے کہ قبیلہ مذحج اسودعنسی کے ساتھ ایمان سے دست بردار ہوا۔دوسرا مرتد فرقہ بنی حنیفہ تھا جسے مسیلمہ کذاب کی رفاقت نے اسلام سے منحرف کیا۔ تیسرا قبیلہ بنی اسد تھاجو طلیحہ کی پیروی کر کے سعادت ایمان سے محروم ہوا۔ اور انجام کار حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہاتھ سے شکست کھا کر از سر نو مشرف بااسلام ہوا۔ان قبائل کے علاوہ سات اور فرقے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد میں زکوٰۃ کے منکر ہو کر فاقد الایمان ہوئے ۔اسی طرح قبیلہ غسان نے امیر المومنین عمر فاروقؓ کے عہد میں دین حق سے مفارقت اختیار کی۔
حضرت خیرالبشر ﷺ کا وصال اور اس کے دردناک نتائج و عواقب
جب آفتاب رسالت رحمت الٰہی کے شفق میں غروب ہوا تو اسلامیوں پر رنج و الم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ کوئی مومن قانت ایسا نہ تھا جس کی آنکھیں اس واقعہ ہائلہ کے ماتم میں خون فشانی نہ کر رہی ہوں۔ اس وقت نہ صرف عالم ارضی نیرّ ہدایت کی ضیا بخشیوں سے محروم رہ گیا۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کا قومی نظام اور سیاسی اقتدار بھی زیروزبر ہونے لگا۔ یہ وقت صحابہ کرامؓ کے لئے ابتلا و آزمائش کا ایک نیا دور تھا۔ جونہی وصال نبویؐ کی خبر اکناف ملک میں پھیلی اکثر قبائل عرب کا زور ایمان متلاطم ہوا اور منافقوں کو اپنا کفر عالم آشکار کرنے کی جرأت ہوئی۔ کیونکہ حضورﷺ کا وصال لوگوں کے لئے ایک مقیاس الایمان تھا۔ جو ان کے کفر و ایمان کی صحیح کیفیت بتا رہا تھا۔اس وقت نہ صرف منافقوں کو اپنا کفر برملا ظاہر کرنے کا حوصلہ ہو گیا۔ بلکہ عرب کے اکثر قبائل مرتد ہوگئے۔ اس پر مستزادیہ کہ یہود و نصاری بھی ہر طرح فساد و سرکشی پر آمادہ نظر آئے۔ بنی ﷺ کے ظل عاطفت کا فقدان مسلمانوں کی قلت تعداد اور اعداء کی کثرت وغیرہ وہ اسباب تھے۔ جنہوںنے بقول ابن اثیر مسلمانوں کا وہی حال کر دیا جو بارش کی شب ظلام میں بکریوں کا ہو جاتا ہے۔
مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ کی کشتی خاطر اس عام شورش اور ہمہ گیر بغاوت کو دیکھ دیکھ کرگرداب تفکرمیں ڈگمگا رہی تھی اور ہر مومن قانت کا دل اس حادثہ فاجعہ سے داغ داغ ہو رہاتھا۔ ایسے نازک وقت میں جناب ابوبکر صدیقؓ ہی کا دل گردہ تھاجس نے سفینہ ملی کو گرداب فنا سے بچا لیا۔ ورنہ ناموس ملت بیضا پر ایک ناقابل تلافی چرکا لگنے میں کوئی کسر باقی نہ رہ گئی تھی۔
حضرت صدیق اکبر ؓ کو جیش اسامہ کی روانگی پر اصرار
جب مسلمانوں نے دیکھا کہ امیر المومنین ابوبکرؓ ایسے نازک اور پر آشوب دور میں بھی بدستور جیش اسامہ ؓ کی روانگی پرمصر ہیں۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول اللہ! اس وقت یہی لوگ یعنی اسامہؓ کا لشکر ہی اسلامی جمعیت کی کل کائنات ہے اور عرب کی جو حالت ہو رہی ہے۔ اس نے دلوں میں قلزم غم کی طغیانی برپا کر رکھی ہے۔ اس لئے یہ کسی طرح مناسب نہیںکہ موجودہ حالت میں مسلمانوں کی جمیعت کو منتشر کر کے مدینہ منورہ کو اعداء کے حملوں کا آماجگاہ بنایا جائے۔امیرالمومنین نے فرمایا واﷲ اگر مجھے یہ بھی معلوم ہوجائے کہ لشکر اسامہ ؓ کی روانگی کے باعث مجھ پر آسمان ٹوٹ پڑے گا یا مجھے زمین نگل جائے گی تو بھی میں اسے ضرور روانہ کروںگا۔کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے جو حکم دیا اسے پورا کر کے رہوںگا۔ امیر المومنین نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا جس میں مسلمانوں کو شریک غزاہونے کی تحریص فرمائی اور کہا کہ اسامہ ؓ کے لشکر والے اپنے لشکرگاہ کی طرف چلے جائیں۔ سب لوگ حسب فرمان لشکر میں شامل ہو گئے اور اس طرح مسلمان مدینہ منورہ میں خال خال رہ گئے۔
اب حضرت اسامہؓؓ نے جناب عمر فاروقؓ کو جوان کی فوج میں داخل تھے۔ امیر المومنین ابوبکر ؓکی خدمت میں اس پیغام کیساتھ بھیجا کہ اگر حکم ہو تو میں اس لشکر کو آپ کے پاس واپس لے آئوں۔ کیونکہ اسلام کی ساری جمعیت اور قوم کے تمام اکابر میرے لشکر میں شریک ہیں۔ اس لئے مجھے خلیفہ رسالت ، حرم رسول اللہ اور مسلمانان مدینہ کی طرف سے بڑا کھٹکا ہے کہ مبادا مشرک حملہ آور ہوکر انہیں تباہ وبرباد کر جائیں۔ اس کے علاوہ بعض انصار نے حضرت عمرؓ سے یہ بھی کہا کہ آپ جا کر خلیفہ رسول اللہ کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کر دیجیے کہ گو اسامہ ؓ غلام اور غلام زادہ ہیں۔فاروق اعظمؓ جیسے جلیل القدر صحابی سے کسی دینی یا دنیاوی فضیلت میں برابری نہیںکر سکتے اور عمر میں بھی چھوٹے ہیں۔ مگر رسول اللہ ﷺ کا فرمان سر آنکھوں پر ہے۔ تا ہم اتنی مہربانی فرمائی جائے کہ کسی ایسے شخص کو سر عسکر مقرر فرمایا جائے جو اسامہ ؓ سے عمر میںبڑا ہو۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ عمرؓ کی کیا مجال ہے کہ جس شخص کو رسول اللہ ﷺ نے لشکر کا سردار تجویز فرمایا ہو۔ اس کے حکم اور اطاعت سے ذرا بھی سرتابی کرے اور اس کی جگہ کسی اور شخص کا امیر بنایا جانا گوارہ کرے۔
بہرحال حضرت عمرؓ جناب اسامہؓ کے حکم سے امیر المومنین کے پاس گئے اوران کا پیغام پہنچادیا۔ خلیفہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا بھی خوف ہو کہ جیش اسامہ ؓ کی روانگی کے
باعث مجھے بھیڑیئے اور شیر پھاڑ کر کھا جائیںگے۔ تب بھی میں اسامہؓ کو ضرور روانہ کروںگا اور گو میرے پاس یہاں تک کہ ایک آدمی بھی نہ رہ جائے مگر سردار دو جہاں علیہ الصلوٰۃ و السلام کے فیصلہ کو کبھی مسترد نہ کروںگا۔ پھر جناب عمرؓ نے عرض کیا کہ انصار کی یہ خواہش ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کو امیر لشکر مقرر فرمائیں جو اسامہؓ سے عمر میں بڑا ہو ۔یہ سن کر امیر المومنین ناخوش ہوئے اور فرمایا کہ حبیب کردگارعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے تو اسامہؓ کو لشکر کا سردار بنایا تھا۔ مگر افسوس تم لوگ چاہتے ہو کہ میں انہیں معزول کر دوں ۔ بخدا یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ یہ تھا امیرالمومنین صدیق اکبرؓ کا بنظیر استقلال اور رسول اکرم ﷺ کی محبت و شیفتگی کا جذبہ کہ سارا عرب دشمن ہے اور ہر وقت دارالخلافہ پر حملوں اور یورشوں کا کھٹکا ہے۔ مگر آپ کی جبیں استقلال پر شکن تک نہیں پڑی اور آپ کو اس بات پر برابر اصرار ہے کہ رسول اﷲﷺ کی مرضی مبارک کا بہرحال احترام کیا جائے۔ یہی وہ صفات تھے جن کی بدولت آپ صدیق اکبر ؓ اور افضل البشر بعد الانبیاء کہلائے۔
جیش اسامہؓ کی روانگی
اب امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ مدینہ سے نکل کر لشکر گاہ تشریف لے گئے اور اسامہؓ کی مشایعت فرمائی۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ خلیفہ رسول اللہ ﷺ تو پیدل جا رہے تھے اور اسامہؓ سوار تھے۔ حضرت اسامہ ؓ نے عرض کیا اے خلیفہ رسول اللہ! یا تو آپ بھی سوار ہو جایئے۔ ورنہ مجھے اجازت دیجیے کہ گھوڑے سے اتر پڑوں۔ فرمایا اس کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس میں تو میرا سراسر نفع ہے کہ ایک ساعت کے لئے اپنے قدموں کو فی سبیل اللہ گرد آلود کر لوں۔ جب امیر المومنین لوٹنے لگے تو اسامہؓ سے فرمایا کہ اگر تمہارے نزدیک نامناسب نہ ہو تو عمرؓ کو میری رفاقت و اعانت کے لئے میرے پاس چھوڑ جائو۔ اسامہؓ نے انہیں بخوشی اجازت دی۔ امیر المومنین ؓ نے رخصت کے وقت حضرت اسامہؓ کو وصیت کی کہ کسی معاملہ میں کسی شخص سے خیانت نہ کرنا۔ کسی سے غدر و فریب سے پیش نہ آنا۔ افراط و تفریط سے بچنا۔ کسی کے ناک کان نہ کاٹنا۔ بچوں، بوڑھوں مریضوں اور عورتوں پر رحم کرنا۔ کسی درخت کو نہ کاٹنا۔ بکری ، گائے اور اونٹوں کو بلا ضرورت اکل ذبح نہ کرنااور فرمایا عنقریب تمہارا گذر ایسے لوگوں پر ہوگا جو صوامع و معابد میں عزلت گزیں ہیں۔ ان سے اور ان کے مال واسباب سے تعرض نہ کرنا اور ان سب باتوں کے علاوہ ان جملہ ہدایات کو اپنے لئے چراغ راہ بنانا جو رسول اللہ ﷺ نے تمہیں تلقین فرمائی تھیں۔
حیال کا قاصد مدینہ منورہ میں
قبیلہ بنو اسد کی آبادی جنہوں نے طلیحہ کا نیا دین قبول کیا تھا اتنی بڑھ گئی تھی کہ سمیرا میں
ان کی گنجائش نہ رہی۔ اس لئے ان لوگوں کو دو فریق میں منقسم ہونا پڑا۔ ایک فریق ابرق میں اقامت گزیں ہوا اور دوسرا ترک وطن کرکے ذی القصہ کو چلا آیا۔ مؤخر الذکر فریق کی طلیحہ نے امداد کی اور اپنے بھائی حیال کو ان لوگوں پر امیر بنا کر بھیج دیا۔ حیال ان لوگوں کا بھی حاکم تجویز ہوا جو قبائل دئل ، لیث اور مذلج سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت اسامہؓ کی روانگی کے بعد جب اشرار مرتدین کو معلوم ہوا کہ مدینہ میں خلیفہ کے پاس کوئی جمیعت حفظ و دفاع کے لئے باقی نہیں رہی تو ان کی رگ شر و فساد جنبش میں آئی۔ اور غطفان کا ایک وفد اور حیال کا قاصد دارالخلافہ مدینہ کو آئے۔اس سفارت سے حقیقی مقصد دو تھے۔ ایک تو امیرالمومنین کا آئندہ طرز عمل معلوم کرنا۔ دوسرا برای العین یہ دیکھنا کہ دارالخلافہ میں مسلمانوںکی جمعیت کس قدر ہے۔
زکوٰۃ دینے سے انکار
ان لوگوں نے آتے ہی معافی زکوٰۃ کی سلسلہ جنبانی شروع کر دی اور کہنے لگے کہ ہمارے قبائل حسب سابق نماز تو پڑھیںگے۔ مگر آٔیندہ بیت المال میں زکوٰۃ بھیجنے سے انہیں معاف رکھا جائے۔ جناب صدیق اکبرؓ نے اس درخواست کو مسترد فرما دیا اور سمجھایا کہ احکام الٰہی میں کمی بیشی اورترمیم و تنسیخ ناممکن ہے۔ امیر المومنینؓ نے پند و موعظۃ کی بہتیری تبریدیں پلائیں۔ مگر انہوں نے اپنی ضد نہ چھوڑی۔ آخر امیر المومنین نے فرمایا۔ واﷲ اگر وہ لوگ زکوٰۃ کے اونٹ کی ادنی رسی دینے سے بھی انکار کریں گے تو بھی میں ان کے خلاف جہاد و قتال کروںگا۔ کیونکہ زکوٰۃ بھی اسلام کے فرائض پنجگانہ میں داخل ہے۔
یاد رہے کہ اسلام کے دور حکومت میں اس کفر زارہندوستان کے موجودہ انگیریزی عہد کی طرح نہ تو مزارعین کے سے مفلوک الحال طبقہ کو مال گذاری کی اتنی گراں بار رقمیں ادا کرنی پڑتی تھیں اور نہ لوگوں سے آج کل کے نام نہاد مہذب زمانہ کی طرح اس قدر گراں ٹیکس اور مہا ٹیکس (سپر ٹیکس) وصول کئے جاتے تھے۔ موجودہ زرلگان کے بجائے بارانی زمینوں کی پیدوار کا عشر یعنی دسواں حصہ مقرر تھا اورجن اراضی کی آب رسانی کاشتکاروں کی ذاتی محنت و مشقت پر موقوف تھی ان کا لگان پیدائش کا بیسواں حصہ لیا جاتا تھا۔ ارباب زر اور اہل نصاب ہر قسم کے ٹیکس سے آزاد تھے۔ البتہ یتیموں اور بیوائوں کی کفالت ، مذہبی و تمدنی ضروریات ، مصالح ملکی اور مہام سلطنت کے انصرام کے لئے ان سے ہر سال مال کا چالیسواں حصہ یعنی ایک سال گزر جانے کے بعد ڈھائی روپے سیکڑہ زر زکوٰۃ وصول کر کے خزانہ بیت المال میں داخل کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے عہد حاضر کی طرح کوئی شخص ازخود بجا یا بیجا زر زکوٰۃ خرچ کرنے کا مجاز نہ تھا۔ بلکہ عشر کی طرح
زکوٰۃ کا مال بھی سرکاری خزانہ میں جس کوبیت المال کہتے تھے جمع کیاجاتا تھا۔ اور جس طرح غیر مسلم حکومتوں میں ٹیکس اور مال گذاری کے محکمے روپیہ وصول کرتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی عملداری میں سرکاری عمال زکوٰۃ وعشر وصول کرتے تھے۔
امیر المومنین ابو بکر صدیقؓ کا بے نظیر استقلال
جب قبائل کا وفد ناخوش ہو کر مدینہ منورہ سے واپس جانے لگاتو ایک جلیل القدر صحابیؓ نے امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ قبائل عرب بے سروپا وحشی ہیں۔عرب کے مختلف حصوں میں طوفان معاندت اٹھ رہے ہیں۔خانہ ساز نبی اپنی اپنی جگہ پر شورش برپا کر رہے ہیں۔ یہود نصاریٰ فتنہ انگیزی کے لئے الگ گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں۔مصلحت وقت یہ ہے کہ باالفعل لوگوں کی تالیف قلوب کی جائے اور جب تک اساس خلافت مستحکم نہ ہو جائے۔ ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ یہ سن کر برافروختہ ہوئے اور فرمایاکہ حضور سرورکائناتﷺنے انتقال فرمایا ۔نبوت منقطع ہوگئی۔وحی الٰہی کا سلسلہ موقوف ہو گیا۔سارا عرب دشمنی پر آمادہ ہے اور میں اپنی حربی کمزوری کا بھی بخوبی احساس رکھتا ہوں۔لیکن باایں ہمہ خدا کی قسم! جس قدر زر زکوٰۃ وہ آنحضرت ﷺ کے حضورمیں بھیجتے تھے۔ اگر اس میں سے ایک حبہ بھی کم کریں گے تو میں ان کے خلاف زرم خواہ ہوں گا اور اگر بالفرض تم لوگوں میں سے کوئی بھی میرا ساتھ نہ دے گا تو میں ان سے تن تنہا مقابلہ کر کے جاں سپاری کا فرض ادا کروں گا۔ لیکن یہ کبھی ممکن نہیں کہ اسلام کا کوئی رکن توڑا جائے ۔ شعائر الہٰیہ کی توہین ہو ۔ ملت مصطفویؐ کے چراغ ہدایت کو کفر کی آندھیاں گل کرنے میں ساعی ہوںاور میں اسے گوارا کر لوں۔ کیا حامل وحی علیہ الصلوٰۃوالسلام کی رحلت کے بعد اسلام یتیم ہو کرکسمپرسی کی حالت میں مبتلا ہو جائے گا؟۔ کیا فریضہ الٰہی کی بیکسی دیکھ کر ہم حاشیہ برداران ملت کی رگ حمیت میں جنبش نہ پیدا ہوگی؟۔صحابی مذکور نے عرض کیا۔ امیر المومنین ! آپ بجا فرماتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ کفار سے اسی وقت تک مقاتلہ کرو جب تک وہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ نہ کہیں۔ مگر موجودہ صورت میں جب کہ وہ اقرار توحید و رسالت میں ہمارے شریک حال ہیں۔ آپ ان کے خلاف کیونکر ہتھیار اٹھا سکتے ہیں؟۔ امیر المومنین ؓ نے فرمایا کہ میں ایسے لوگوں پر جو کلمہ شہادت اور نماز و زکوٰۃ میں تفریق کرتے ہیں ضرور لشکر کشی کروں گا۔ صحابی یہ سن کر لا جواب ہو گئے اور سمعنا و اطعنا کہہ کر سر جھکا دیا۔ امیر المومنین عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ خدائے قدوس نے امیرالمومنین ابوبکرؓ کا انشراح صدر فرما دیاتھا اور آپ کے دل میں نور صداقت کا ایک روزن کھل گیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ رب العزۃ قیام حق کے لئے جن
نفوس قدسیہ کا شرح صدر فرما دیتا ہے۔ دنیا کی کوئی غیر اللہ طاقت ان کے قلعہ استقامت کی مضبوط دیواروں کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ امیرالمومنین کا عزم و ثبات دیکھ کر دوسرے صحابہؓ کے بھی حوصلے بڑھ گئے۔ بجھی ہوئی طبیعتوں میں ولولہ پیدا ہوااور ہمت و جرأت نے گویا سنبھالا لیا۔اب ایلچی بے نیل ومرام مدینہ طیبہ سے رخصت ہوئے اور امیرالمومنین کا جواب قبائل کو جا سنایا اور بیان کیا کہ اس وقت مدینہ میں بہت تھوڑے مسلمان موجود ہیں ۔ امیر المومنین نے ان کی مراجعت کے بعد حضرت علی مرتضٰی ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور جناب عبداﷲ بن مسعودرضی اللہ عنہم کو انصار مدینہ کا افسر مقرر فرمایااور چونکہ آپ کو یقین تھا۔ کہ اعدائے اسلام بہت جلد مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوںگے۔مسلمانان مدینہ کو حکم دیا کہ وہ ہر وقت مسجد نبویؐ میں حاضر رہا کریں۔
مرکز خلافت پر حیال کا حملہ
وفد کو واپس گئے ابھی تین ہی دن گزرے تھے کہ حیال سر شام مدینہ منورہ پر آچڑھا۔ غنیم کے سپاہی رات کے وقت انقاب مدینہ پر چڑھ آئے۔ وہاں مسلمان مجاہد موجود تھے۔ انہوں نے مزاحمت کی۔ جب امیر المومنین کو اس حملہ کی اطلاع ہوئی توآپ اہل مسجد کو آب کش اونٹوں پر سوار کرکے غنیم کے مقابلہ پر آئے اور منہزم کر کے ذی حسی کے مقام تک ان کا تعقب کیا۔ حیال اپنی کچھ فوج ذی حسی میں اس غرض سے چھوڑ آیا تھا کہ بوقت ضرورت اس سے مدد لے گا۔ذی حسی میں حیال کی وہ محفوظ فوج امیر المومنین کے مقابلہ میں نکل پڑی ۔ان لوگوںنے برآمد ہوتے ہی مسلمانوں کے سامنے خالی مشکیں کہ جن میں ہوا بھر کر ان کے منہ رسیوں سے مضبوط باندھ رکھے تھے۔ زمین پر لڑھکا دیں ۔ اس سے وہ اونٹ جن پر مسلمان مجاہد سوار گے بھڑک گئے اور وہ اپنے اپنے سواروں کو لئے ایسے بے اوسان ہو کر بھاگے کہ مدینہ ہی میں آ دم لیا۔ اس واقعہ سے کسی مسلمان کو تو چشم زخم نہ پہنچا مگر اعداء کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ مسلمانوںکی ہوا بگڑ چکی ہے۔
امیر المومنین ابو بکرؓ کی پہلی فتح
اب امیر المومنین وقت سحر تک مسلمانوں کو لڑائی کے لئے آراستہ کرتے رہے۔ اور صبح صادق سے پہلے پیادہ پا دشمن کے سر پر جا پہنچے۔ حریف کو مجاہدین اسلام کے پہنچنے کی اس وقت خبر ہوئی جب مسلمان اس ٹیلے پر پہنچ گئے جہاں مرتدین نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ مسلمانوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگا کر کفار کو تہ تیغ کرنا شروع کیا۔ اس اچانک تاخت سے اعداء بد حواس ہوگئے۔ مجاہدین ملت نے کفار کو اپنی شمشیر زنی کا خوب تختۂ مشق بنایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بقیتہ السیف دشمن طلوع سے قبل ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے مال غنیمت سمیٹ کر دشمن کا تعاقب
کیا۔ یہاں تک کہ ذی القصہ سے بھی آگے تک بھگا کر ایک مقام پر قیام کیا۔ اب امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ نے نعمان بن مقرن کو کچھ آدمی دے کر خود وہاں سے مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے۔ یہ کامیابی حضرت خلافت مآبؓ کی سب سے پہلی فتح تھی اور اصل یہ ہے کہ امیر المومنین کی شجاعت پاک نفسی اور قوت ربانی کے جذبہ نے آشوب ایام کو فتح سے بد ل دیا۔ ورنہ مسلمانوں کی جمعیت اتنی قلیل تھی کہ وہ اعداء کے مقابلہ میں کسی طرح عہدہ برا ٓ نہ ہو سکتے تھے۔ اور یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ صحابہ کرام ؓ قدوسیوں کی ایک ایسی جاں سپار جماعت تھی جس نے وطن کی فانی الفتون اور خون کے رشتوں کو ایمان اور اخوت اسلامی کے پاک رشتہ پر قربان کر دیا تھا۔ اس لئے ان سے پیش پانا کوئی آسان کام نہ تھا۔
امیر المومنین صدیق اکبرؓ کی فاتحانہ یلغار
اس وقت پیروان طلیحہ اپنی ہزیمت پر ماردم بریدہ کی طرح پیچ و تاب کھار ہے تھے۔ مگر کوئی بس نہ چلتا تھا۔ آخر اپنے جوش انتقام کو تسکین دینے کے لئے بنی عبس اور ذبیان نے اپنے اپنے قبائل کے مسلمانوں کو پکڑ کر شہید کر ڈالا۔جب اس سانحہ جانگزا کی اطلاع مدینہ منورہ پہنچی تو امیر المومنین ابوبکر صدیق ؓ نے قسم کھائی کہ جتنے مشرکوں نے مسلمانوں کو تہ تیغ کیا ہے۔ میں بھی اتنے بلکہ ان سے بھی زیادہ کافروں کو خاک و خون میں تڑپائے بغیر چین نہ لوںگا۔ دو مہینے اور تین روز کے بعد حضرت اسامہ بن زیدؓ بھی مظفر و منصور شام سے مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے۔ امیر المؤمنین نے انہیں مدینہ منورہ میں اپنا نائب و خلیفہ مقرر کیااور جو لشکر حضرت اسامہؓ کے ہمرکاب گیا تھااسے بھی دارالخلافہ میں چھوڑا تاکہ مجاہدین خود اور ان کی سواریاں چند روز تک سستا لیں۔اور خود اپنی قلیل سی جمعیت کو لے کر کوچ کیا۔ اس وقت مسلمانوں نے بہتیری منتیں کیں اور قسمیں دیں کہ آپ خود مشقت جہاد گوارہ نہ فرمائیں۔ مگر آپ نے ایک نہ سنی اور فرمایا کہ میں اس مہم کو بہ نفس نفیس اس لئے انجام دینا چاہتا ہوں کہ مجھے دیکھ کر تمہارے اند رجہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ موجزن ہو۔
امیر المومنین ابوبکرصدیقؓ اب اعداء کی سرکوبی کے لئے ذی حسی اور ذی القصہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ نے منزل بہ منزل جا کر مقام ابرق میں ڈیرے ڈالے اور حرب و قتال کی تیاریوں میں مصروف ہوئے۔ محمدیوںکو دیکھ کر اعداء پر عالم مدہوشی طاری ہو گیا۔ امیرالمومنین نے میدان کارزار میں اپنی شجاعت کے خوب جوہر دکھائے اور جیش موحدین نے دھاوے کر کر کے سرزمین ارتداد میں بھونچال ڈال دیے۔اس رزم و پیکار کا نتیجہ یہ ہوا کہ امیر المومنین نے گروہ مرتدین کے ایک مشہور سردار خطیہ کو قید کر کے بنی ذیبان کے سارے علاقے پر تسلط جمالیا ۔ بنی
عبس اور بنی بکر نے میدان جان ستاں سے بھاگ کر اور نہایت عجلت کے ساتھ اہل و عیال کو ساتھ لے کر طلیحہ کے پاس جا پناہ لی اور ان کی چرا گاہوں میں مسلمانوں کے جانور چرنے لگے۔ اس شاندار فتح کے بعد بعض صحابہ نے عرض کیا کہ امیر المومنین اب آپ جلد مستقر خلافت کی طرف رجوع فرمائیں۔ کیونکہ خوف ہے کہ مبادا منافق لوگ دارالخلافہ میں کوئی تازہ فتنہ نہ کھڑا کر دیں۔ اس لئے آپ نے مدینہ منورہ کو عود فرمایا۔
جیش اسلامی کی تقسیم گیارہ دستوں میں
جب حضرت اسامہؓکے مراجعت فرما لشکر نے تھوڑے دن تک آرام کر لیا۔ تو اتنے میں زرزکوٰۃ کے پہنچنے سے بیت المال میں مال و زر کی اتنی فراوانی ہو گئی کہ تمام مایحتاج و ضروریات پوری ہونے کے بعد بہت سازرنقد فاضل بچ رہا۔ اب امیر المومنین نے تمام فوج کو گیارہ دستوں میں منقسم فرمایا اور ہر ایک دستہ کے لئے الگ الگ لواتیار کروائے پہلا جھنڈا حضرت خالد بن ولیدؓ کو دیا اور نہیں طلیحہ کی سرکوبی پر مامور فرمایا اور حکم دیا کہ طلیحہ کی مہم سے فارغ ہو کر مالک بن نویرہ کے طرز عمل کا مطالعہ کرو۔ اگر وہ سرکشی پر آمادہ نظر آئے تو بطاح جا کر اس کی گوشمالی کرو۔ دوسرا لوا حضرت عکرمہ ؓ بن ابوجہل کو دے کر مسیلمہ کذاب کی طرف روانہ فرمایا۔ جب قبیلہ غطفان اور بنو اسد نے طلیحہ کی پیروی اختیار کی تھی تو ان کی دیکھا دیکھی حاتم طائی کے خاندان بنی طے نے بھی اپنی قسمت طلیحہ سے وابستہ کر دی تھی۔ چونکہ قبیلہ طے کی گوشمالی بھی لابد تھی۔ اس لئے امیرالمومنین نے حضرت عدیؓ بن حاتم طائی کو جو سرور کائنات ﷺ کے صحابی تھے۔ ان کے قبیلہ طے کی جانب روانہ فرمایا۔ غرض ہر ایک دستہ فوج پر ایک ایک والی مقرر کیا۔ جب سب لشکر مرتب ہو گیا۔ تو سب گیارہ امیر اپنی اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہو گئے۔
امیر المومنین نے ہرایک امیر کو پند و نصائح کر کے ہر ایک سے ان پر عمل درآمد کرنے کا عہد لیا اور تمام مرتدین کے نام خواہ وہ کسی قبیلہ اور ملک سے تعلق رکھتے تھے ایک ہی فرمان تحریر فرمایا جس میں اس بات کی تحریک تھی کہ وہ توبہ کر کے پھر اسلام کی طرف رجوع کریں۔ورنہ انجام ہلاکت کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔
طلیحہ سے بنو طے کی علیحدگی اور قبول اسلام
امیر المومنین ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عدی ؓ بن حاتم طائی کو حضرت خالدؓ بن ولید کی روانگی سے پیشتر ہی ان کے قبیلہ طے کی جانب روانہ فرما دیا تھا۔ اور حضرت خالد ؓ بن ولیدکو طلیحہ کے مقابلہ میں عدی بن حاتمؓ کے پیچھے بھیج کر حکم دیا تھا کہ وہ جنگی کاروائی بنی طے ہی سے شروع کریں ۔
ان سے فراغت حاصل کر کے بزاخہ کی جانب جو طلیحہ کا لشکر گاہ تھا ترکتاز کریں۔ اس مقام پر یہ جتلا دینا بھی ضرور ہے کہ جب عبس اور ذیبان نے تاب مقادمت نہ لا کر امیر المومنین کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار کی تھی تو اس وقت وہ بزاخہ کے مقام پر طلیحہ کے پاس چلے گئے تھے جو سمیرا سے نکل کر بزاخہ میں ٹھہرا ہواتھا۔ اس وقت طلیحہ نے بنی طے کے بطون جدیلہ اور غوث کے پاس آدمی بھیجے کہ وہ آکر اس سے ملحق ہو جائیں۔ چنانچہ وہ لوگ اس کے لشکر میںشامل ہو گئے تھے۔جب حضرت عدی بن حاتم طائی ؓ اپنی قبیلہ طے میں پہنچے تو انہیں اسلام کی دعوت دی اور انحراف ورزی و سرکشی کے عواقب سے متنبہ کیا۔ اتنے میں حضرت خالد بن ولیدؓ کا لشکر بھی بنی طے کے سر پر پہنچ چکا تھا ۔ طے نے سر انقیاد جھکا دیا اور حضرت عدیؓ سے استدعا کی کہ آپ خالد بن ولیدؓ کے پاس جا کر انہیں یہاں سے پیچھے ہٹنے کو کہیں۔ تا کہ ہم طلیحہ کے لشکر سے منقطع ہو کر علیحدگی اختیار کر سکیں۔ کیونکہ اگر خالد ؓ کا لشکر ہمارے سرپر پڑاہوگااور ہم ایسی حالت میں طلیحہ کی فوج سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیں گے تو طلیحہ ہمیں زندہ نہ چھوڑے گا۔ عدی ؓ حضرت خالد ؓ کے پاس گئے اور ان سے قبیلہ طے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ حضرت خالدؓ نے اپنا لشکر کچھ دور پیچھے ہٹا لیا ۔اب بنو طے نے اپنے ان بھائی بندوں کے پاس آدمی بھیجے جو طلیحہ کی فوج میں شامل تھے اور انہیں اپنے پاس واپس بلا لیا ۔ پھر بنی طے مسلمان ہو کر حضرت خالد ؓ کے پاس چلے آئے۔
بنی طے کے قبول اسلام کے بعد حضرت خالد ؓ نے قبیلہ جذیلہ پر لشکر کشی کا عزم فرمایا۔ حضرت عدی ؓ نے کہا ذرا ٹھہریئے۔ ایک دفعہ جا کر افہام و تفہیم کا فرض دوبارہ ادا کرلوں۔ عدیؓ ان کے پاس پہنچے اور اسلام کے محاسن اور کفر کے معایب بیان کر کے انہیںدعوت اسلام دی ۔ انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور سب مسلمان ہوگئے۔ عدی ؓ نے وہاں سے آ کر حضرت خالد ؓ کو یہ مژدہ سنایا۔ جذیلہ والوں کے قبول حق کی استعداد کی داد دینی چاہیے کہ وہ نہ صرف اسلام لا کر سعادت دارین کے سرمایہ دار بنے ۔ بلکہ ان کے ایک ہزار سوار بھی جہاد کی نیت سے لشکر اسلام میں آ داخل ہوئے۔
طلیحہ سے معرکہ اور حیال کی ہلاکت
اب حضرت سیف اللہ خالدؓ بن ولید نے عکاشہؓ بن محصن اور ثابتؓ بن ارقم کو کچھ فوج دے کر طلیعہ کے طور پر طلیحہ کی طرف روانہ فرمایا ۔ طلیحہ نے ان کے مقابلہ میں اپنے بھائی حیال کو بھیجا۔ ایک جھڑپ ہوئی جس میں عکاشہؓ نے حیال کے نقش وجود کو صفحۂ ہستی سے محو کر دیا۔ جب حیال کے مارے جانے کی خبر طلیحہ کو پہنچی تو وہ خود فوج کو حرکت دے کر عکاشہؓ کے مقابلہ کو نکلا اور
اپنے بھائی سلمہ کو بھی ساتھ لیا ۔ اس معرکہ میں طلیحہ نے عکاشہؓ کو اور سلمہ نے ثابتؓ کو شہید کر دیا اور پھر دونوں اپنے اپنے مستقر کو لوٹ گئے۔ جب حضرت خالد بن ولیدؓاپنی فوج کو لئے آگے بڑھے تو یہ متوحش خبر ملی کہ عکاشہؓ اور ثابتؓ دونوں میدان جان ستان کی نذر ہوئے۔ مسلمانوں کو ان دونوں حضرات کے قتل کا بڑا قلق ہوا۔
قبیلہ بنی طے کی فوجی امداد
چونکہ اس حادثہ سے لشکر اسلام میں کسی حد تک بددلی پھیل گئی تھی۔ حضرت خالدؓ نے فوراً نبرد آزما ہونا خلاف مصلحت سمجھا۔ بلکہ وہیں ٹھہر کر اپنے لشکر کی تجہیز و ترتیب میں مصروف رہے۔
اسی سلسلہ میں قبیلہ بنی طے سے جو مسلمان ہو چکے تھے کمک بھی طلب کی۔ بنی طے نے جو عدی ؓ بن حاتم طائی کے ہم قوم تھے جواب دیا کہ بنی قیس کے مقابلہ کے لئے تو ہم ہی کافی ہیں اوران سے ضرور معرکہ آرا ہوں گے۔ مگر بنی اسد جو طلیحہ کے ساتھ ہیں۔ وہ ہمارے حلیف ہیں۔ ہم ان سے کسی طرح جنگ آزما نہیں ہو سکتے ۔ حضرت خالدؓ نے کہا بہتر ہے تم جس فریق سے چاہو مقابلہ کرو۔ میں تمہیں تمہاری مرضی اور اختیار پر چھوڑتا ہوں ۔لیکن حضرت عدیؓ نے اپنی قوم کا یہ عذر قبول نہ کیا اور کہنے لگے کہ اگر یہ لشکر ان لوگوں کے مقابلہ پر جا ئے جو قریب کے رشتہ دار ہیں تو میں اپنے قریب ہی کے رشتہ داروں پر جہاد کروںگااور میں تمہارے حلف و معاہدہ کی بنا پر بنی اسد کے جہاد سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔ لیکن حضرت خالد ؓ نے جو ہر بات کی تہہ کو پہنچتے تھے اور سپہ سالار ہونے کے ساتھ ہی انتہا درجہ کے مدبر اور عالی حوصلہ بھی تھے۔ حضرت عدیؓ سے فرمایا کہ کسی فریق سے بھی لڑو۔ جہاد دونوں قبیلوں پر ہوگا۔ اس لئے یہ بات کسی طرح قرین صواب نہیں کہ اپنی قوم سے اختلاف رائے کر کے انہیں پریشانی اور آزمائش میں ڈالو۔ وہ جس فریق سے بھی مبارزۃ خواہ ہوں اسی سے مقابلہ کرو۔ اب خالدؓ نے طلیحہ کے خلاف جنگ آزما ہونے کی تیاریاں کر کے اس کے لشکر گاہ کا رخ کیا۔ بزاخہ کے مقام پر فریقین میں مڈبھیڑ ہوئی۔ اس وقت بنی عامر وہیںقریب بیٹھے اس بات کے منتظر تھے کہ کس فریق کی فتح ہوتی ہے۔ کیونکہ انہوں نے یہ قرار دیا تھا کہ جس فریق کا پلہ بھاری ہو گا۔ اپنی قسمت اسی کے دامن دولت سے وابستہ کر دیںگے۔ اس وقت بنی فزارہ کا سردار عینیہ بن حصن اپنی قوم کے سات سو آدمی لئے طلیحہ کا حق رفاقت ادا کر رہا تھا۔
آتش کدہ حرب کی شعلہ زنی اور طلیحہ کا انتظار وحی
جب طلیحہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی قیامت خیز آتش حرب پوری طرح شعلہ زن
ہوئی تو طلیحہ اپنے شیطانی القاء کے انتظار میں میدان کارزار کی ایک طرف چادر اوڑھ کر بیٹھ گیا اور بولا اب مجھ پر وحی نازل ہوگی۔ حضرت خالدؓ نے اس شدت سے حملے کئے کہ غنیم کے منہ پھیر دیئے۔ جب عینیہ کو اپنی شکست کا خطرہ محسوس ہوا تو وہ طلیحہ کے پاس گیااور دریافت کرنے لگا کہ جبرئیل نے کوئی مژدہ فتح سنایا یا نہیں؟۔ طلیحہ نے کہا جبرئیل ہنوز تشریف نہیں لائے ۔ عینیہ کہنے لگا جبرئیل کب آئیں گے؟۔ اور بولا واﷲ مسلمانوں کے مقابلہ میں ہماری طاقت جواب دے رہی ہے اور بری طرح کچومر نکل رہا ہے ۔ عینیہ لوٹ گیا اور میدان جنگ میں کمال شجاعت اور جان بازی سے لڑنے لگا۔ پھر دوسری اور تیسری مرتبہ طلیحہ سے جا کر دریافت کرنے لگا کہ کہیٗے جبرئیل تشریف لائے یا نہیں؟۔ طلیحہ نے کہا۔ ہاں! جبرئیل آئے تھے۔ عینیہ نے دریافت کیا۔ پھر وہ کیا کہہ گئے؟۔طلیحہ نے کہا جبرئیل رب جلیل کا یہ پیغام پہنچا گئے ہیں :
ان لک رحیً کر حاہ و حدیثا لا تنساہ! تیرے لئے بھی شدت جنگ ایسی ہی ہوگی جیسی کہ خالدؓ کے لئے ہے اور ایک معاملہ ایسا گذرے گا کہ تو اسے کبھی فراموش نہ کرے گا۔
لشکر اعداء کی ہزیمت و پسپائی
عینیہ کو یہ سن کر اس بات کا یقین کامل ہوگیاکہ یہ شخص کاذب اور خانہ ساز نبی ہے۔ آخر میدان جنگ میں آ کر اپنے آدمیوں سے کہنے لگا کہ طلیحہ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ طلیحہ اور اس کے پیروؤںپر ایک ایسا حادثہ گذرے گا جو کبھی فراموش نہ ہوگا۔ یعنی ہم لوگ ذلت آفرین شکست کھائیںگے۔ اس لئے بنی فزارہ مفت میں اپنی جانیں برباد نہ کرواور اپنے گھروں کو لوٹ چلو۔ کیونکہ طلیحہ بڑا دجال وکذاب ہے۔ وہ لوگ سنتے ہی میدان جان ستان سے منہ موڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔ طلیحہ کے دوسرے پیروئوں نے بھی فرار کو رزم و پیکار پر ترجیح دی ۔ غرض طلیحہ کو فیصلہ کن ہزیمت ہوئی۔ اس ہزیمت کے ساتھ طلیحہ کی تمام تر امیدیں اور آرزوئیں خاک میں مل گئیں اور اس کی بساط نبوت ہمیشہ کے لئے الٹ گئی۔ طلیحہ نے ایک گھوڑا اپنے لئے اور ایک اونٹنی بیوی نوار کے واسطے پہلے سے تیار کر رکھی تھی ۔ جب مسلمان سوار طلیحہ کو گرفتار کرنے کے قصد سے بڑھے تو وہ جھٹ گھوڑے پر سوار ہوا اور بیوی کو ساتھ لے کر بڑی تیزی سے بھاگااور مسلمانوں کے ہاتھ سے بچ گیا۔ بھاگتے وقت بنی فزارہ سے کہہ گیا کہ جس کسی سے ممکن ہو۔ وہ بھی اسی طرح اپنی جلیس کو لے کر اڑ جائے۔ یہاں سے وہ شام کی طرف گیااور قبیلہ کلب میں جا کر رہنے لگا۔
طلیحہ کی ہزیمت و فرار کے بعد عینیہ بن حصن گرفتار ہوگیا۔ وہ امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ کے پاس پکڑا آیا۔جب مدینہ کے بچوں نے اسے دیکھا کہ مشکیں بندھی ہوئی ہیں اور مرتد ہونے
سے قبل وہ اس کی بڑی عزت و اکرام دیکھ چکے تھے تو کہنے لگے کہ اے دشمن خدا! تو ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگیا۔ یہ کیا غضب کیا؟۔ اس نے جواب دیا کہ میں مسلمان ہی کب ہوا تھاجو بعد کو مرتد ہوا؟۔ امیر المومنین نے اس کی جان بخشی فرما دی ۔ مرتد کی سزا قتل ہے۔ لیکن چونکہ اس نے یقین دلایا کہ وہ شروع ہی سے مسلمان نہیں تھا۔ اس لئے بچ گیا۔
طلیحہ کا کلام وحی
طلیحہ کا ایک اور رفیق بھی گرفتار ہوا تھاجو طلیحہ کا محرم راز تھا ۔ حضرت خالد ؓ نے اس سے پوچھا کہ طلیحہ اپنی نبوت کی کیا کیا باتیں بتایا کرتا تھا؟۔ اس نے کہا اس کے کلام وحی میں سے یہ بھی تھا:
والحمام والیمام والصر والصوام قد ضمن قبلکم بالحوام لیبلغن ملکنا العراق و الشام! قسم ہے اہلی پرندوں ، جنگلی پرندوں، اور ترمتی کی جو خشک زمین میں رہتی ہے کہ زمانہ ماضی میں سالہا سال سے یہ قرار پا چکا ہے کہ ہمارا ملک عراق اور شام تک وسعت پذیر ہوگا۔
اس جنگ میں غنیم کو کوئی آدمی قید نہ ہوا۔ کیونکہ انہوں نے پہلے ہی اپنے حریم کی حفاظت کر لی تھی۔ چونکہ یہ لوگ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ اس لئے ہر قسم کے آفات سے مصئون رہے۔ گو مسلمانوں کو اس معرکہ میں دشمن کے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے کوئی مال غنیمت بھی نہ ملا۔لیکن ان کے قبول اسلام کی کامیابی ہزار غنیمتوں سے بہتر تھی۔
طلیحہ کا قبول اسلام
اس کے بعد بنی اسد اور غطفان خلعت اسلام سے مشرف ہوئے تو طلیحہ بھی مسلمان ہوکر امیر المومنین عمر ؓ کے عہد حکومت میں شام سے حج کو آیااور مدینہ پہنچ کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ امیر المومنین عمرؓ نے اس فرمایا کہ تم نے ان من گھڑت الفاظ کو وحی الٰہی سے تعبیر کر کے خدا پر افتراء کیا کہ خدائے برتر تمہارے مونہوں کے خاک پر رگڑنے سے مستغنی ہے اور وہ تمہاری پشت کی خمیدگی سے بھی بے نیاز ہے۔ اور جھاگ دودھ کے اوپر ہی رہتا ہے۔ طلیحہ نے کہا امیر المومنین یہ بھی کفر کے فتنوں میں ایک فتنہ تھا۔ جسے اسلام نے بالکلیہ معدوم کر دیا۔ پس اب مجھ پر ان باتوں کا کوئی الزام نہیں۔یہ سن کر امیر المومنین عمرؓ خاموش ہوگئے۔(اس باب کے مندرجات ابن اثیر ، ابن خلدون عربی ج۳ ص۴۰۶، بلازری اور الرسالۃ الدعاۃ سے ماخوذ ہیں)
باب۴ … مسیلمہ کذاب
۱… مسیلمہ کی خانہ ساز نبوت
اسلام کے قرن اول میں جن گم کردگان راہ نے خانہ ساز نبوت کا لباس فریب پہن کر خلق خدا کو خسران ابدی کی لعنت میں گرفتار کیا۔ ان میں مسیلمہ بن کبیر بن حبیب سب سے زیادہ کامیاب اور سربرآوردہ متنبی تھا۔یہ شخص کذاب یمامہ کے لقب سے مشہور ہے۔ابو ثمامہ اور ابوہارون اس کی کنیتیں تھیں۔مسیلمہ نے حضور سرور دو جہاں ﷺ کے عہد رحمت میں ایسے وقت میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ جبکہ اس کا سن سو سال سے بھی متجاوز تھا۔ وہ عمر میں حضرت خیر البشر ﷺ کے والد محترم حضرت عبداﷲ سے بھی بڑا تھا۔ جناب عبداﷲ کی ولادت سے پہلے یہ شخص عام طور پر رحمان یمامہ کے نام سے مشہور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب حضرت ختم المرسلین ﷺ کی بعثت پر قرآن نازل ہوا اور قریش نے حضورﷺ کی زبان سے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سنی تو قریش کا ایک آدمی بیساختہ بول اٹھا کہ اس میں رحمان یمامہ کا ذکر ہے۔
مسیلمہ دربار نبوی میں
جب فخر بنی آدم سیدنا محمد ﷺ کی رسالت کاغلغلہ اقصائے عالم میں بلند ہوا۔ اور اہل آفاق سر چشمہ نبوت سے سیراب ہونے کے لئے اکناف ملک سے امنڈ آئے تو مسیلمہ نے بھی وفد بنی حنیفہ کی معیت میں آستانہ نبوی میں حاضر ہو کرآپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مگر ساتھ ہی یہ درخواست بھی پیش کر دی کہ حضورﷺ اسے اپنا جانشین مقرر فرما دیں۔ یہ عرضداشت لغویت میں کچھ ایسی خفیف نہ تھی کہ مزاج اقدس پر گراں نہ گزرتی اور آپ اس کو نظر انداز فرما دیتے۔ اس وقت آپ کے سامنے کھجور کی ایک ٹہنی رکھی تھی۔ آپ نے فرمایا اے مسیلمہ ! اگر تم امر خلافت میں مجھ سے یہ شاخ خرما بھی طلب کر وتو میں دینے کو تیار نہیں۔ مگر بعض صحیح روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے حضورﷺ کی بیعت نہ کی تھی۔ بلکہ بیعت کو مشروط ٹھہرایا تھا اور کہا تھا کہ اگر آپ مجھے اپنا جانشین متعین فرمائیں یا اپنی نبوت میں شریک کریں۔ تو میں بھی حضورﷺ سے بیعت کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیلمہ منصب نبوت کو عطائے الٰہی کے بجائے ایک دنیاوی اعزاز سمجھتا تھااور شاید اسی زعم فاسد کی بنا پر وہ متمنی تھا کہ آنحضرت ﷺ اسے نبوت میں شریک و سہیم بنالیں۔ لیکن حضورﷺ کے اس حق پژوہانہ جواب نے اس کے نخل آرزو کو بالکل خشک کر دیا۔
دعویٰ نبوت کا محرک اور اس کا آغاز
جب مسیلمہ ادھر سے مایوس ہوا تو اس کے دل و دماغ میں از خود نبوت کی دکان کھول دینے کے خیالات موجزن ہوئے۔ وہ ذاتی وجاہت اور قابلیت کے لحاظ سے ابنائے وطن میں ممتاز اورطلاقت لسانی اور فصاحت و انشاء پردازی میں اقران واماثل میں ضرب المثل تھا اور یہی وہ چیزتھی جو اسے ہر آن انجاح مقصد کا یقین دلا رہی تھی۔ مدینہ منورہ سے وہ انہی خیالات کی پخت و پز کرتے ہوئے یمامہ گیا۔ وہاں پہنچ کر دعوائے نبوت کی ٹھان لی اور اہل یمامہ کو یقین دلایا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی نبوت میں شریک کر لیا ہے۔ اب اس نے اپنی من گھڑت وحی و الہام کے افسانے سنا سنا کر اپنی قوم (بنو حنیفہ) کو راہ حق سے منحرف کرنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بعض ’’خوش اعتقاد ‘‘ لوگ جناب سید المرسلین ﷺ کی رسالت کے ساتھ اس کی نبوت کے بھی قائل ہوگئے۔ جب مسیلمی اغوا کوشیوں کی اطلاع آستانہ نبوت میں پہنچی تو حضور خواجہ دو عالم ﷺ نے قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک ممتاز رکن رحال بن عنفوہ نام کو جو نہار کے نام سے بھی مشہور تھا اور چند روز پیشتر یمامہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آیا تھا۔ اس غرض سے یمامہ روانہ کیا کہ مسیلمہ کو سمجھا بجھا کرراہ راست پر لائے۔مگر یہ شخص بنی حنیفہ کے لئے خمیر مایہ فساد ثابت ہوا۔ اس نے یمامہ پہنچ کرالٹا مسیلمہ کا اثر قبول کر لیااور سید کائنات ﷺ کے ساتھ مسیلمہ کی نبوت کا بھی اقرار کیا اور اپنی قوم سے بیان کیا کہ خود محمد رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ مسیلمہ نبوت میں میرا شریک ہے۔ بنوحنیفہ نے اس کی شہادت پر وثوق کر کے مسیلمہ کی نبوت مان لی اور ساری قوم اس کے دام ارادت میں پھنس کر مرتد ہو گئی۔ اب مسیلمہ نے اپنی دکان خدع کو پوری سرگرمی سے چلانا شروع کیا۔ یہ وہ وقت تھا جبکہ دجالی ارواح ہر طرف سے ہجوم کر کے مسیلمہ کے دل و دماغ پر متسلط ہونے لگے اور اس کے باطن میں القائے شیطانی کا سر چشمہ موجیں مارنے لگا ۔ مسیلمیت کی ترقی و اشاعت میں نہار (رحال بن عنفوہ) کا ہاتھ بہت کام کر رہا تھااور اس جدید مسلک کے نشرو توزیع میں اس کی وہی حیثیت تھی جو حکیم نور الدین بھیروی کو مرزائیت کی ترقی میں حاصل تھی ۔ نہار نے مسیلمہ کی بساط نبوت کو انجام کار ایسے اوج ر فعت پر جا بچھایا کہ کسی دوسرے متنبی کا ہاتھ وہاں تک نہ پہنچ سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مسیلمہ اس کی حد سے زیادہ خاطر مدارت کرتا تھا۔
بعض لوگ مسیلمہ کو کذاب یقین کرنے کے باوجود محض قومی عصبیت کی بنا پر اس کے پیرو ہو گئے تھے ۔ ایک مرتبہ طلیحہ نمری یمامہ گیا اور لوگوں سے پوچھنے لگا کہ مسیلمہ کہاں رہتا ہے؟۔ وہ لوگ بگڑ کر کہنے لگے’’خبر دار‘‘ آیندہ سرکار عالم کا نام کبھی زبان پر نہ لانا۔ بلکہ رسول اللہ کہہ
کرپکارنا۔ طلیحہ نے کہا میں اسے دیکھے اور اس سے کلام کئے بغیر رسول اللہ نہیں مان سکتا۔ آخر مسیلمہ کے پا س گیا اور دریافت کرنے لگا کیا تم ہی مسیلمہ ہو؟۔ اس نے کہا ہاں۔ پوچھا تمہارے پاس کون آتا ہے؟۔ کہنے لگا رحمان۔ طلیحہ نے پوچھا روشنی کے وقت آتا ہے یا تاریکی میں؟۔ کہا تاریکی میں۔ طلیحہ بولا میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ تو کذاب ہے اور محمد ﷺ صادق ہیں۔ محمد ﷺ کے پاس انبیاء سلف کی طرح دن کی روشنی میں وحی نازل ہوتی ہے۔ تاہم میرے لئے ربیعہ کا جھوٹا نبی قبیلہ مضر کے سچے نبی سے بہرحال عزیز و محبوب ہے ۔ یہ طلیحہ مسیلمہ کے ساتھ جنگ عقرباء میں بحالت کفر ہلاک ہوا۔
تیس میں سے ایک دجال
اس کے تھوڑے دن بعد بنو حنیفہ کا ایک اور وفد مدینہ منورہ آیا۔ ان لوگوں کو مسیلمہ کی تعریف و تقدیس میں بڑا غلو تھا۔ یہ لوگ اس کے اقوال کو لوگوں کے سامنے وحی آسمانی کی حیثیت سے پیش کر رہے تھے۔ جب حضرت خیر البشر ﷺ کو وفد کی اس مائوف ذہنیت کا حال معلوم ہوا اور آپ نے یہ بھی سنا کہ بنو حنیفہ نے اسلام سے منحرف ہو کر مسیلمہ کا نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے تو حضورؐ نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا جس میں حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا کہ مسیلمہ ان تیس کذابوں میں سے ایک کذاب ہے جو دجال اعور سے پہلے ظاہر ہونے والے ہیں۔ اس دن سے مسلمان مسیلمہ کو مسیلمہ کذاب کے نام سے یاد کرنے لگے۔
مسیلمہ کا مکتوب حضرت سید المرسلینؐ کے نام اور اس کا جواب
کسی نے بالکل سچ کہا کہ ’’دروغ گو را حافظہ نباشد‘‘ اور علم النفس کا یہ ایک مسلم اصول ہے کہ جو شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا رہے۔ وہ آخر کار اپنے تئیں سچا سمجھنے لگتا ہے اور یہ بات اس کے ذہن سے اتر جاتی ہے کہ یہ محض اس کا دماغی اختراع تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی اصول کے ماتحت مسیلمہ بھی اپنے آپ کو رسول برحق محمدمصطفی ﷺ کی نبوت میں شریک سمجھنے لگا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ اس نے کمال جسارت و بے باکی کے ساتھ فخر انبیاء ﷺ کو ایک خط لکھا جس کے الفاظ یہ تھے:
’’من مسیلمۃ رسول اللہ الی محمد رسول اللہ اما بعد فانی قد اشرکت معک فی الامروان انا نصف الارض و لقریش نصفہا ولکن قریشاً قوم یعتدون‘‘ { مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام۔ معلوم ہو کہ میں امر نبوت میں آپ کا شریک کار ہوں (عرب کی) سر زمین نصف ہماری اور نصف قریش کی ہے ۔ لیکن
قریش کی قوم زیادتی اور بے انصافی کر رہی ہے۔}
اور یہ خط اپنی قوم کے دو شخصو ں کے ہاتھ مدینہ منورہ روانہ کیا۔ پیغمبر علیہ السلام نے ان سے فرمایا۔ مسیلمہ کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟۔ انہوں نے جواب دیا ہم بھی وہی کہتے ہیں جو ہمارے پیغمبر کا ارشادہے۔ آنحضرت نے فرمایا اگر قاصد کا قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔ اس دن سے دنیا میں یہ اصول مسلم اور زبان زد خاص و عام ہو گیا کہ قاصد کا قتل جائز نہیں۔ مسیلمہ کے خط کے جواب میں حضرت صادق مصدوق علیہ التحیہ و السلام نے لکھوا بھیجا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ الکذاب سلام علی من اتبع الھدے اما بعد فان الارض للہ یر ثہا من یشاء من عبادہ و العاقبۃ للمتقین‘‘ { بسم اللہ الرحمن الرحیم! منجانب محمد رسول اﷲ۔ بنام مسیلمہ کذاب۔ سلام اس شخص پر ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد معلوم ہو کہ زمین اللہ کی ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بنا دیتا ہے اور عاقبت کی کامرانی متقیوں کیلئے ہے۔}
مسیلمہ کے اخلاق و عادات
مسیلمہ نہایت متواضع اور متحمل مزاج تھا۔ لوگوں کی زشت خوئی اور بد سگالی پر صبر کرتا اپنے مخالفوں سے بھی درگذر کرتا۔ اگر کوئی شخص اس کے خلاف ستیزہ جوئی سے کام لیتا تو انتقام لینے کے بجائے اسے نرمی سے سمجھاتا اور یہ وہ صفات ہیں جو کسی مدعی کاذب کو اس کے بام مقصد تک پہنچانے میں بہت کچھ معین ثابت ہوتے ہیں ۔ مسیلمہ کے مؤذن کا نام عبد اللہ بن نواحہ تھا اور جو شخص اس کی اقامت کرتا تھا۔ اس کوحجیر بن عمیر کہتے تھے۔ حجیر کہا کرتا تھا ’’ اشہد ان مسیلمۃ یزعم انہ رسول اﷲ‘‘ { میں اس بات کی شہادت دیتا ہوںکہ مسیلمہ رسول اللہ ہونے کا مدعی ہے} ایک دن مسیلمہ اس سے کہنے لگا ’’افصح حجیر فلیس فی المجمجۃ خیر‘‘ حجیر بات صاف صاف کہو۔ کیونکہ بات کے ادل بدل کرنے میں کوئی خوبی نہیں۔
مسیلمی عقائد
مرزا غلام احمد کے اصول و عقاید کی طرح متنبی یمامہ کے بھی بہت سے عقائد و احکام اسلام سے ملتے جلتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں شخصوں نے اسلام ہی کے بہت سے اصول لے کر ان میں الحاد و زندقہ کی آمیزش کر لی اور اپنے اپنے پنتھ بنا لئے۔ جن مسائل میں مسیلمی یا بقول ان کے ’’ صادقی‘‘ اسلام سے مختلف ہیں۔ ان میں سے بعض ہدیہ قارئین کرام ہیں: کہتے ہیں کہ عامۃ المسلمین کا خیال ہے کہ رب کردگار نے ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا۔ مگر اس نے انکار کیا اور
وہ راندئہ درگاہ ہوگیا۔ یہ مقولہ کفر ہے۔ کیونکہ حق تعالیٰ سجدہ ٔ غیر کا حکم نہیں فرماتا۔ چنانچہ ’’فاروق ثانی‘‘ میں لکھا ہے کہ ابلیس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ رب قدیر نے آدم علیہ السلام کو عمل نیک و بد کا پورا اختیار دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بندوں کے نیک و بد اعمال کا محاسبہ فرمائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسجود تو فی الحقیقت رب کرد گار تھا۔ لیکن آدم علیہ السلام محض جہت قبلہ کا حکم رکھتے تھے۔ یعنی جس طرح کعبہ معلی کی طر منہ کر کے رب جلیل کوسجدہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ملائکہ نے آدم علیہ السلام کی طرف رخ کر کے معبود برحق کو سجدہ کیا تھا۔مسیلمی کہتے ہیں کہ یوں نہ کہو کہ خدا کا کوئی جسم نہیں۔ ممکن ہے کہ جسم ہو اور اجسام مخلوق سے مماثلت نہ رکھتا ہواور کہتے کہ ید، بصراور سمع کے الفاظ جو محمد علیہ السلام پر قرآن میں نازل ہوئے اور جو کچھ کہ مسیلمہ رسول کی کتاب ’’فاروق اول‘‘ میں وارد ہوا ہے۔ سب حق ہے۔ لیکن رب قدیر کا ہاتھ، کان، آنکھ، مخلوق کے ہاتھ، پائوں، چشم و گوش کی مانند نہیں۔ کسی اور وضع و ہیت کے ہیں ۔ان کا بیان ہے کہ لقاء ورویت باری تعالیٰ پر ایمان لانا واجب ہے۔ کیونکہ ہر چیز جو موجود ہے۔ سر کی آنکھوں سے دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے اور رویت بصر یا رویت بلا بصر کی قید لگانا فضول ہے۔ کہتے ہیںکہ عالم کے قدم و حدوث اور اس کی ابدیت و عدم کی بحث میں نہیںپڑنا چاہیے اور کہتے ہیں کہ یہ خدائے واحد کی نوازش اور موہبت کبریٰ ہے کہ مسیلمہ رسول کو ہم نشین (سجاح مدعیۂ نبوت ) بھی مرسلہ ہی عطا ہوئی۔ حالانکہ کسی دوسرے نبی کی بیوی نبیہ نہیں ہوئی اور کہتے ہیں کہ چونکہ مسیلمہ نبی کو ابوبکر (صدیقؓ) کے حکم سے شہید کیا گیا اور عمر، عثمان،علی(رضی اللہ عنہم) بھی ان کے اس فعل کے محرک و مؤید تھے۔ اس لئے خدائے شدید العقاب نے غضبناک ہو کر خلفائے اربعہ کو لعن خلائق میں اسی طرح مبتلا کر دیا۔ جس طرح یہود کوقتل مسیح علیہ السلام کی وجہ سے ذلت و خواری میں مبتلا کیا۔ دیکھ لو کہ شیعہ لوگ کس طرح ابوبکر، عمر ، عثمان(رضی اللہ عنہم) کو گالیاں دے رہے ہیں اور خارجیوں اور ناصبیوں نے حضرت علی ؓ کے خلاف دشنام گوئی کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔
اس کا جواب یہ کہ اگر حضرات خلفائے اربعہ (رضی اللہ عنہم) کے خلاف روافض یا خوارج نے اس بنا پر دشنام گوئی اور سب و شتم کا ناپاک شیوہ اخیتار کر رکھا ہے کہ وہ مسیلمہ کے قتل کے ذمہ دار یا مؤید تھے تو پھر جناب مسیح ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (معاذ اللہ) کو ن سا جرم کیا تھا جس کی پاداش میں یہود انہیں دو ہزار سال سے گالیاں دیتے چلے آ رہے ہیں؟۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو مسیلمی بیان بھی سخت لغواور ناقابل التفات ہے اور کہتے ہیں کہ محمد علیہ السلام کے وقت میں جہت قبلہ معین نہ تھی۔کبھی آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرتے تھے
کبھی استقبال کعبہ کی طرف منہ کرتے تھے اور کبھی کسی تیسری جانب توجہ فرماتے تھے اور محمد ﷺ کی رحلت کے بعد جہت معین یعنی ہمیشہ کعبہ کی طرف منہ کرنا (معاذ اللہ) اصحاب محمد مصطفیٰﷺ کی جاری کردہ بدعت ہے۔ اور کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے بعد حضرت مسیلمہ رسول کو حکم ہوا کہ محراب کی طرف منہ کرنا اور جہت معین کی طر ف متوجہ ہونا کفر اور شرک کی علامت ہے۔ کیونکہ ایسی حالت میں کہ پیکر انسانی اور جانور وغیرہ قبلہ بنائے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ کسی گھر کو قبلہ بنانا کہاں تک روا ہے؟۔ پس نماز کے وقت جدھر چاہیں منہ کر لیا کریں اور نیت کریں کہ میں بے جہت نماز اداکرتا ہوں اور متعدد آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حضرت مسیلمہ کو مخبر صادق اور خدا کا برگزیدہ پیغمبر یقین کرے۔ ورنہ اس کا اسلام مسلم نہ ہو گا اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیلمہ جناب محمد ﷺ کی رسالت میں اسی طرح شریک تھے جس طرح ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کی نبوت میں ان کے ساجھے تھے اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک ہی پیغمبر ہادی و رہنما ہے۔ لیکن ہمارے دو پیغمبر ہیں ۔ ایک محمد رسول اﷲؐ اور دوسرے مسیلمہ رسول اللہ اور ہر امت کے کم از کم دو پیغمبر ہونے چاہئیں۔ کیونکہ پیغمبر قیامت کے دن شاہد ہوں گے اور دو شاہدوں سے کم کی شہادت معتبر نہیں۔ بلکہ دو سے جس قدر زیادہ ہوں گے۔ اسی قدر بہتر ہو گا۔ پیروان مسیلمہ اپنے تئیں رحمانیہ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ مسیلمہ کو رحمان کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں اسی کی طرف اشارہ ہے اور بسم اللہ کے یہ معنی ہیں کہ خدائے مسیلمہ رحیم ہے اور کہتے ہیں کہ فرقان محمدیؐ حضرت مسیلمہ ہی کا معجزہ ہے ۔قرآن نے فصحائے عرب کی زبان بند کر دی تھی۔ اسی طرح حق تعالیٰ نے مسیلمہ پر ایک صحیفہ نازل فرمایا جو ’’فاروق اوّل‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس نے بھی فصحاء کا ناطقہ بند کر دیا تھا اور ان دونوں صحیفوں یعنی قرآن اور فاروق اول کو محمد ﷺ اور مسیلمہ کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ان دونوں آسمانی کتابوں کی قراء ۃ دنیا اور آخرت میں سود مند ہے۔ لیکن ان کی تفسیر کرنا ذنب عظیم ہے اور کہتے ہیں کہ ایزد متعال نے حضرت مسیلمہ کو ایک اور واجب التعظیم کتاب بھی عطا فرمائی تھی جس کا نام ’’فاروق ثانی‘‘ ہے اور کہتے ہیں کہ محمد ﷺ اور مسیلمہ کی تعلیمات میں کوئی خلاف و تضاد نہیں اور اگر کہیں مسیلمہ کا کلام اور ان کی آسمانی کتاب اقوال محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیلمہ حضرت محمد ﷺ کے بعد تک زندہ رہے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کی رحلت کے بعد بعض احکام قرآن فرمان ایزدی سے اسی طرح منسوخ ہو گئے۔ جس طرح خود
حضرت محمد ﷺ کے عین حیات میں بعض آیتیں دوسری آیات کی ناسخ ہوئیں۔
مسیلمی شریعت کے احکام
مسیلمہ جیسے کار آگاہ فرزانہ روز گار مدعی سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ استمالت قلوب کے لئے شریعت محمدی( علیٰ صاحبہا التحیہ والسلام)کے مقابلہ میں کوئی ایسا یسیر العمل آئین پیش کرتا جو شرعی تکلیفات اور پابندی احکام کی ’’تلخ کامیوں‘‘ سے آزاد ہوتا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ایک ایسے عامیانہ اور رندانہ مذہب و مسلک کی بنیاد ڈالی جو شرمناک قسم کی خواہشات نفسانی کے حبس واحتراز سے اصلا بے نیاز تھا۔ سب سے پہلے اس نے حرمت خمر سے انکار کر کے عہد جاہلیت کی رسم کہن کا اعادہ کیا۔ اس کے بعد یہ حیا سوز نغمہ چھیڑ دیا کہ چار پائوں کی طرح انسان بھی توالد و تناسل میں فطرۃً آزاد ہے۔ ازدواجی تعلقات محض انتظام خانہ داری کے لئے ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہیںکہ مرد وزن عقد مناکحت کے دائرہ میں محصور و مجبور ہیں۔ چنانچہ اس کی کتاب’’فاروق ثانی‘‘ میں زنا کو مناح لکھا ہے۔ کیونکہ مسیلمہ کے نزدیک وہ بھی ایک لذت ہے۔اس مطلق العنانی کا یہ اثر ہوا کہ ہرطرف فواحش کے شرارے بلند ہوئے اور فساق اور ہواوہوس کے پرستار جوق در جوق اس کے حلقہ ء ارادت و نیاز مندی میں داخل ہونے لگے۔مسیلمی شریعت کے ماتحت اباحت پسند طبائع کو ہوس رانیوں او ر نشاط فرمائیوں کا اچھا خاصہ حیلہ مل گیا۔شراب خواری تو تحلیل زنا سے پہلے ہی حلال کردی گئی تھی۔ ان فواحش نے ملک کو فسق و فجور کا گہوارہ بنا دیا اور لطف یہ ہے کہ باوجود ان فاسقانہ تعلیمات کے ’’خوش عقیدہ‘‘ لوگ اسے نبی اور رسول برحق ہی یقین کرتے تھے۔ اوائل میں تحلیل زنا کے ساتھ شادی پر کوئی قیود عائد نہ کئے۔ لیکن اس کے بعد زنا کو تو علی حالہ جائز رکھا۔ البتہ شادی پر بہت سے قیود عاید کر دیئے ۔ لیکن ان قیود کا منشا شاید یہی تھا کہ زنا و حرام کاری میں سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔ مطلق العنانی کے پہلے دور کے بعد اس نے حکم دیا کہ جس شخص کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو جائے وہ بیوی سے اس وقت تک قربت نہ کرے جب تک یہ لڑکازندہ ہو۔ ہاں اگر مر جائے تو دوسرا لڑکا متولد ہونے تک اس سے مباشرت کرے۔ امت مسیلمہ کے نزدیک نکاح میں گواہوں کے روبرو ایجاب و قبول کی حاجت نہیں۔ بلکہ زن ومرد کا خلوت میں ایجاب و قبول کر لینا کافی ہے۔ ہنود کی طرح مسیلمیوں کے نزدیک بھی اقرباء میں شادی کرنا مذموم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ گو محمد ﷺ کے عہد مبارک میں چچا ، پھوپھی، ماموں اور خالہ جیسے اقارب کی لڑکی سے نکاح کرنا جائز تھا۔ لیکن آپ کی رحلت کے بعد حرام ہو گیا۔ اس حرمت کی مثال وہی ہے جس طرح کہ ایام سلف میں دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا جائز تھا۔ جناب محمد علیہ السلام کے زمانہ میں حرام ہو گیا۔ چنانچہ
حضرت مسیلمہ کے پاس فرمان ایزدی پہنچا کہ عقد ہمیشہ اس شخص کی دختر سے کیا جائے جس کے ساتھ پہلے کوئی قرابت نہ ہو۔مسیلمہ لوگ نصاری کی طرح تعدد ازواج کو جائز نہیں سمجھتے۔ اگر تعدد کی خواہش ہو تو شیعوں کی طرح ان کے نزدیک متعہ کے طریق پر تعدد ازواج جائز ہے اور کہتے ہیں کہ ختنہ کرنا حرام ہے۔ کیونکہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔ مگر عقل کے اندھوں نے یہ نہ خیال کیا کہ اگر ختنہ کرنے میں یہود کی مشابہت ہے۔ تو ترک ختنہ میں نصاری اور مشرکین کی مطابقت لازم آتی ہے۔
مسیلمی صوم و صلوٰۃ
مسیلمی لوگ ماہ رمضان کے روزے نہیں رکھتے۔ بلکہ اس کی ممانعت کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ روزہ کی جگہ شبہ رکھنا چاہیے۔ اور وہ یہ کہ غروب سے لے کر طلوع آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے پرہیز کریں۔مسیلمہ نے تین نمازیں،ظہر، عصر، مغرب مقرر کی تھیں اور حکم دیا تھا کہ تینوں نمازیں مختلف جہات میں ادا کی جائیں۔ مثلاً نماز ظہر مشرق کی طرف منہ کر کے ادا کی ہے تو عصر کے وقت مغرب کا رخ کرے ۔ وہ چکڑالویوں اور شیعوں کی طرح نماز سنت ادا نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے زعم میں نماز تو وہی ہو سکتی ہے جس کے لئے معبودبرحق نے حکم دیا ہو۔ نہ یہ کہ پیغمبر خود ہی اپنی مرضی سے ادا کرنے لگے۔ ہاں اگر فرض نماز کے بعد چاہیں تو کلام الٰہی قرآن یا فاروق اوّل پڑھیں اور اذکار و اوراد میں مصروف رہیں۔ چکڑالویوں کی طرح ان کے نزدیک نماز میں رسول خدا ﷺ پر درود پڑھنا بلکہ آپ کا نام ہی نہ لیناچاہیے۔ کیونکہ ان کے زعم باطل میں اس طرح عبادت الٰہی کے اندر مخلوق کی عبادت شامل ہو جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی طرح حضرت مسیلمہ پر بھی نمازیں تو شروع میں پانچ ہی فرض ہوئی تھیں۔ لیکن اوقات پنجگانہ میں صبح اور عشاء کی دو نمازیں حضرت مسیلمہ نے بحکم الٰہی اپنی منکوحہ سجاح کے مہر میں جو وہ بھی ایک مرسلہ تھیں بخشدی ۔
(دبستان مذاہب ص۲۹۷،۲۹۹)
مسیلمی لوگ نماز میں قرآن نہیں پڑھتے۔ بلکہ اس کی جگہ کتاب ’’ فاروق اوّل‘‘ کے کچھ اناپ شناپ فقرے یا اشعار پڑھ لیتے ہیں۔ اصمعی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ایک اعرابی کے پاس قیام کیا۔ وہ مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا۔ پہلی رکعت میں اس نے پڑھا :’’وقد افلح من حیم فی سلاتہ۰ واطعم المسکین من مخلاتہ۰ وحاط من بعیرہ و شاتہ‘‘ {اس شخص نے فلاح پائی جس نے اپنی نماز پست آواز میں پڑھی اور اپنے تھیلے میں سے مسکین کو کھانا کھلایا اور اپنے اونٹوں اور بکریوں کو منزل گاہ پر لے آیا}پھر رکوع اور سجدہ کر کے
دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوا اوراس میں قرأت کی جگہ پڑھا: بنونا بنوا بائنا و بناتنا۰ بنوھن ابنا ء الرجال الا باعد! ہمارے بیٹے، ہمارے پوتے، ہماری بیٹیاں، ہمارے نواسے اور ہمارے دور کے قرابت دار مردوں کی اولاد۔پھر رکوع و سجود کر کے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوا اور اس میں یہ شعر پڑھا:ویوسف از ولاہ ابنا ء علتہ۰ فاصبح فی قعرالرکیتہ ثاویا! جب سوکن کے بیٹے یوسف کے قریب ہوئے تو یوسف پانی والے کوئیں کی تہ میں پہنچ گئے۔جب وہ تینوں رکعتیں پڑھ کر فارغ ہوا تو میںنے کہا کہ تم نے قرأ ت کی جگہ یہ سب کیا پڑھا ہے؟۔ اس کو تو قرآن پاک سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔ کہنے لگا۔ اصمعی! میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ آج سے چالیس سال پیشتر میری پھوپھی نے اس کو مسیلمہ رسول اللہ سے سیکھا تھا۔
(الدعاۃ ص۹۳)
مسیلمہ کا کلام وحی
تقدس کے دکاندار اور خانہ ساز نبی اپنے سلسلہ تزویر میں کلام الٰہی کو بھی نفس و شیطان کا بازیچۂ لہو و لعب بنانا چاہتے ہیں اور کلام خداوندی جو دنیا میں قیام صداقت کے لئے نازل ہوا تھا۔ اس کے نام سے مکر و فریب کا کاروبار جاری کرتے ہوئے ذرا بھی خدا سے نہیں شرماتے۔ مسیلمہ نے قرآن پاک کے مقابلے میں بعض مسجع عبارتیں لکھ کر ان کو کلام الٰہی کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ مگر اہل علم اور اصحاب بصیرت کے نزدیک سامان خندہ زنی کے سوا ان کی کوئی حیثیت نہیں چہ جائیکہ ایسے کلام خرافات التیام کو (معاذ اللہ) کلام الٰہی کے مقابلہ میں پیش کیا جا سکے۔ مسیلمہ کا ’’کلام وحی‘‘ ایسا مضحکہ خیز ہے کہ ارباب ذوق سلیم کی محفلیں مارے ہنسی کے لوٹ جاتی ہیں۔ اس نے سورہ ٔ العادیات کے مقابلہ میںلکھا تھا:
’’والزارعات زرعا والحاصدات حصداً والزارمات قمحاً والطاحنات طحناً والخابزات خبزاً والثاروات ثرواًواللاقمات لقماً اھالتہً وسمناًلقد فضلتم علیٰ اھل الو بروما سبقکماھل المدرریقکم فامنعوہ والمعینیے فاووہ والباغی فتاووہ‘‘ قسم ہے کھیتی کرنے والوں کی اور قسم ہے کھیتی کاٹنے والوں کی اور قسم ہے بھوسہ صاف کرنے کے لئے گیہوں کو ہوا میں اڑانے والوں کی اور قسم ہے آٹا پیسنے والوںکی اور قسم ہے روٹی پکانے والوں کی اور قسم ہے سالن پکانے والوں کی اور قسم ہے تیل اور گھی کے لقمے کھانے والوںکی کہ تم کو صوف والے (بادیہ نشین) عربوں پر فضیلت دی گئی ہے اور مٹی (سے مکان بنانے) والے (شہری عرب بھی) تم سے بڑھ کر نہیں ہیں تم اپنی روکھی سوکھی روٹی
کی حفاظت کرو۔ عاجز و درماندہ کو پناہ دو۔ اور طالب اور مانگنے والے کو اپنے پاس ٹھہرائو۔
سورۂ فیل کے جواب میں لکھا تھا:
’’الفیل وما الفیل لہ ذنب و بیل و خرطوم طویل ان ذلک من خلق ربنا االجلیل‘‘ ہاتھی ! اور وہ ہاتھی کیا ہے؟۔ اس کی بدنما دم او ر لمبی سونڈ ہے ۔ یہ ہمارے رب جلیل کی مخلوق ہے۔
ان الفاظ کو بھی وحی الٰہی کی طرف منسوب کیا تھا۔
’’یا ضفدع بنت ضفدع نقی ماتنقین اعلاک فی الماء واسفلک فی الطین لا الشارب تمنعین ولا الماء تکدرین‘‘ اے مینڈکی۔ مینڈکی کی بچی! اسے صاف کر جسے تو صاف کرتی ہے۔ تیرا بالائی حصہ تو پانی میں ہے اور نچلا حصہ مٹی میں ہے۔ نہ تو تو پانی پینے والے کو روکتی ہے اور نہ پانی کو گدلا کرتی ہے۔
رسالہ ’’ الدعاۃ‘‘ میں جھوٹے مدعیوں کے حالات میں مصر سے شائع ہوا ہے۔ مسیلمہ کذاب کا یہ ’’کلام وحی‘‘ بھی درج ہے:
’’سبح اسم ربک الاعلے الذی یسع علی الحبلیٰ فاخرج منہا نسمۃ تسعیٰ من بین اضلاع و حشی فمنہم من یموت ویدس فی الثرٰی ومنہم من یعیشوریبقی الی اجل و منتہی واﷲ یعلم السر و اخفے ولا تخفے علیہ الاخرۃ والاولی۰ اذکرونعمتہ اللہ علیکم واشکروھا اذجعل الشمس سراجاً والغیث ثجاجاً وجعل لکم کباشاً ونعاجاً وفضت و زجاجاً و ذھباودیباخا من نعمتہ علیکم ان اخرج لکم من الارض رماناًو عنباوریحاناً و حنطتہً وزوانا۰ واللیل الدامس والذئب الھمامس ما قطعت اسید من رطب ولا یابس۰ واللیل الا سحم والدب لادلم والجذع الا زلم ما انتھکت اسید من محرم۰ وکان یقصد بذلک نصرۃ اسید علیٰ خصومۃٍ لھم۰والشاء والوانھاوا عجبہا السود و البانہا والشاۃ السوداء واللبن الا بیض انہ لعجب محض۰ انا اعطیناک الجواھر فصل لربک و ھاجران مبغضک لفاجر۰ والمدیات زرعاًوالحاصدات حصداً والدارسات قمحاً والطاحنات طحناً والخابزات خبزاً والثاردات ثرداً واللاقمات لقما لحماً و سمناً لقد فضلتکم علی اھلاالوبر وما سبقکم اھل المدررفیقکم فامنعوہ والمعترفآ ووہ والباغی
فناوئوہ۰ والشمس و ضحا ھا فی ضوئہا و مجلاھا والیلا اذغدھا یطلبہالیغشا ھا ادرکھا حتی اتا ھا واطفأ نورھا فمحا ھا ۰ وقد حرم المذق فقال مالکم لا تمجعون‘‘
علامہ خیر الدین آفندی الوسی سابق وزیر طونس نے کتاب’’ الجواب الفسیح‘‘ میں عبد المسیح نصرانی کا قول نقل کیا کہ میں نے مسیلمہ کا پورا مصحف پڑھا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایک ضخیم کتاب ہی تیار کر ڈالی تھی اور دعویٰ یہ تھا کہ وہ ’’الہامی‘‘ کتاب ہے۔
مسیلمہ کے معجزات باہرہ
مسیلمی خصائص نبوت میں ایک نہایت دلچسپ اور مہتمم بالشان یہ امر تھا کہ اعجازنمائی کے طور پر وہ جو کچھ کہتا اور جس بات کا بھی ارادہ کرتا۔ اس کے بر عکس اور خلاف مدعیٰ ظاہر ہوتا تھا۔ اور یہ بات اس زمانہ کے عجائبات قدرت میں شمار کی جاتی تھی اور سنت اللہ اس طرح جاری ہے کہ جھوٹے مدعیوں کو دنیاوی حیثیت سے جس درجہ وقار بھی کیوں نہ حاصل ہو جائے وہ دینی عزت اور عظمت کے لحاظ سے کبھی سرفراز و کامگار نہیں ہو سکتے۔ ان کی غرض مندانہ تعلی اور دروغ بافی ان کی دعائوں کو شرف استجابت و قبول سے محروم رکھتی ہے اور غیرت خداوندی ان کی خود غرضانہ پیش گوئیوں کے پورا ہونے میں ہمیشہ مزاحم رہتی ہے۔ خصوصاً مسیلمہ کے بارہ میں تویہ کلیہ کچھ ایسی غیرمتعارف قوت و سرعت کے سات نمایاں ہوتا تھا کہ ان واقعات کو جناب سالار انبیاء ﷺ کی اعجازی…کارفرمائی کے سوا اور کچھ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ایک عورت مسیلمہ کے پاس آئی اور کہنے لگی ہمارا نخلستان سرسبزی سے محروم ہے اور کوئیں بھی خشک ہو گئے ہیں۔آپ حضرت مجیب الدعوات سے ہمارے لئے پانی اور نخلستان کی شادابی کی اسی طرح دعاء کیجیے جس طرح جناب محمدﷺ نے ساکنان ہزمان کے لئے دعا فرمائی تھی۔ مسیلمہ نے نہار سے پوچھا ۔محمد رسول اﷲﷺنے اہل ہزمان کے واسطے کس طرح دعا کی تھی؟۔ نہار نے کہا جناب خیرالانام ﷺ نے ان کے کنویں کا پانی لیا اور اس سے غر غرہ کرکے انہی کنوؤں میں ڈال دیا۔ اس سے کنویں کا پانی متلاطم ہو کر چشمہ کی طرح ابل پڑا تھا۔اسی طرح آنحضرتﷺ کی دعا سے خرما کے درختوںمیں شاخیں پھوٹ آئیںاور تمام چھوٹے چھوٹے پودوں میں کلیاں نکل پڑیں اور مسیلمہ نے بھی اسوہ ٔ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی کرکے اپنا آب دہن کنویں میں ڈلوایا۔ لیکن قدرت الٰہی نے اس کا الٹا اثر یہ دکھایا کہ کنویں کا پانی اور بھی نیچے اتر گیا۔ خرما کے درخت پہلے سے بھی زیادہ سوکھ گئے اور دعا کرانے والے مدت العمر مسیلمہ کی جان کو روتے رہے۔
ایک دفعہ نہارنے مسیلمہ سے ذکر کیا کہ حضرت سید کائنات ﷺ بچوں کے سر پر برکت کے ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔ مسیلمہ نے بھی معجزہ نمائی کے طور پر بنی حنیفہ کے چند اطفال کے سروںاور ان کی ٹھوریوں پر ہاتھ پھیرا۔ مگر اسکا یہ معکوس اثر ظاہر ہوا کہ تمام لڑکے گنجے ہو گئے اور تتلانے لگے۔
ایک مرتبہ مسیلمہ نے سنا کہ محمد ﷺ کے لعاب دہن سے آشوب چشم اچھا ہوگیا۔ مسیلمہ نے بھی کسی مریض کی آنکھ پر آب دہن لگا دیا۔مگر وہ بیچارہ ہمیشہ کیلئے بصارت سے ہی محروم ہوگیا۔ ایک دفعہ کسی شیر دار بکری کے تھن پر افزونی شیر کی غرض سے ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعادی تو معاً اس کا سارا دودھ خشک ہو گیا۔ ایک مسیلمی بیوہ نے درخواست کی کہ میرے بہت سے فرزندان عزیز وحشت سرائے دنیا سے رخصت ہو کر خلد آباد عاقبت کو چلے گئے۔ اب صرف دو باقی ہیں حق تعالیٰ سے ان کی بقا اور درازیٔ عمر کے لئے دعا فرمایئے۔اس نے دعا کی اور فرزند کلان کی کبر سنی کا مژدہ سنا کر پسر خورد کی مدت عمر چالیس سا ل بتائی۔ جب وہ غم نصیب شادان و فرحاں مکان پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ بڑا لڑکا کنوئیں میں گر کر مرگیاہے اور چھوٹا فرزند جس کے سنین عمر چالیس سال بتائے تھے۔ حالت نزع میں دم توڑ رہا ہے ۔ غرض تھوڑی دیر میں وہ بھی اپنی دکھیا ماں کو داغ مفارقت دے کررہگزائے عالم آخرت ہوا۔
مسیلمہ کذاب کا ایک عقلی معجزہ
چونکہ مسیلمہ خوارق عادات دکھانے سے قاصر تھا اور لوگوں کو معجزات کی قسم سے نبوت کی کوئی نہ کوئی علامت ضرور چاہیے۔ اس لئے اس نے اپنی جودت طبع سے بعض ’’عقلی معجزے‘‘ تجویز کر لئے تھے اور بوقت ضرورت انہی سے اعجاز نمائی کا کام لیتا تھا۔ ان میں سے ایک معجزہ یہ تھا کہ اس نے تنگ منہ والی بوتل میں بیضہ مرغ ڈال رکھا تھا۔ اور جب کبھی کسی طرف سے اعجاز نمائی کا مطالبہ ہوتا تو اسی انڈے کو پیش کر دیتا اور کہتا تھا کہ تنگ منہ کی بوتل میں انڈے کو داخل کرنا قوت بشری کے حیطہء امکان سے خارج ہے اور اگر کسی کو دعویٰ ہو تو ایسا کر دکھائے۔ حالانکہ اس نے انڈے کو چند روز تک سرکے میں رکھ کر نرم کر لیا تھا۔ اس طرح انڈا بوتل میں باآسانی داخل ہو گیا تھا۔ اور کہتے ہیں کہ سب سے پہلا وہی شخص ہے جس نے بیضہ کو بوتل میںداخل کیا۔
(الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ البیرونی، خوارزی مطبوعہ لیپزگ، جرمنی، ۱۸۷۸ء ص۱۰۹)
گمان غالب یہ ہی کہ دور حاضر میں بسیط ارض پر کوئی متنفس مسیلمہ کذاب کا نام لیوا نہ پایا جائے گا ۔لیکن صاحب بستان مذاہب کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ آج سے تین سوسال
پہلے کم از کم ایک مسیلمی سر زمین ایران میں موجود تھا۔ چنانچہ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ ۱۰۵۳ھ میں محمد قلی نام ایک شخص سے مشہد میں میری ملاقات ہوئی ۔ وہ مسیلمہ کذاب کا پیرو تھا۔ اس نے مسیلمہ کے بہت سے فضائل و معجزات بیان کئے ۔ منجملہ ان کے ایک یہ بتایا کہ اس کے اشارے پر چاند نیچے اتر آیااور اس کے اصحاب کی موجودگی میں اس کی گود میں آ بیٹھا۔ اس کا گذر خشک درختوں پر ہوا۔ اس نے دعا کی تو سب سرسبز ہوگئے۔ اسی طرح طفل نوزائیدہ نے اس کی نبوت کی شہادت دی۔ یہ دیکھ کر سعادت مندوں کی ایک جماعت اس پر ایمان لے آئی۔ (دبستان مذاہب ص۲۹۷) لیکن ظاہر ہے کہ کوئی مسیلمی اپنے مقتدا کے کسی معجزہ کے کسی راست باز عینی شاہد کا نام نہیں بتا سکتا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسیلمی معجزات کو ڈھکوسلہ محض مسیلمیوں کا دماغی اختراع ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ: ’’پیران نمی پرند مریدان مے پرایند‘‘
۲ … محاربات مسیلمہ کذاب
جس وقت امیرالمومنین ابوبکرصدیقؓ مرتدین عرب کی سرکوبی کے لئے لشکر روانہ فرمایا۔اسی وقت ابوجہل کے بیٹے حضرت عکرمہؓ کو فوج کی قیادت تفویض فرما کر مسیلمہ کذاب سے لڑنے کو یمامہ کی طرف جانے کا حکم دیا۔ پھر ان کے بعد شرحبیل بن حسنہ کو ان کی کمک کی غرض سے روانہ فرمای۔ لیکن عکرمہؓ نے حالات پر قابو پائے اور ماحول کا کافی مطالعہ کئے بغیر نہات عجلت کے ساتھ شرحبیل کی آمد سے پہلے ہی لڑائی چھیڑ دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عکرمہؓ کو ہزیمت ہوئی۔ مسیلمہ اور اس کے پیرو فتح کے شادیانے بجاتے میدان جنگ سے واپس ہوئے ۔ جب شرحبیل کو اس ہزیمت کی اطلاع ہوئی تو وہیں ٹھہر گئے۔ حضرت عکرمہ ؓ نے اپنی ہزیمت کا حال امیرالمومنین ؓ کی خدمت میں لکھ بھیجا۔ جناب صدیق اکبر ؓ نے اس کا یہ جواب دیا کہ تم نے میری ہدایت پر عمل نہ کیا۔ میں نے کہہ دیا تھا کہ شرحبیل کو تمہارے پیچھے روانہ کرتا ہوں۔ جب تک وہ پہنچ جائیں تو اس وقت لڑائی شروع کرنا۔ لیکن افسوس ہے کہ تم خود تو استادی جانتے نہیں اور شاگردی کو عیب سمجھتے ہو۔ تمہیںشرحبیل کے پہنچے بغیر حملہ میں اقدام نہ کرنا چاہیے تھا۔ خیر جو کچھ ہوا سو ہوا۔ اب مدینہ کی طرف رخ نہ کرنا۔کیونکہ یہاں آ کر لوگوں کو پست ہمت اور شکستہ دل کر دو گے ۔ البتہ آ گے جا کر حذیفہ اور عرفجہ سے مل جائو اور ان کے ماتحت رہ کر عمان اور مہرہ والوں کا مقابلہ کرو۔ جب اس جنگ سے فراغت حاصل ہو تو اپنا لشکر لے کر مہاجر بن ابی امیہ کے پاس یمن اور حضر موت کو چلے جائو۔اور شرحبیل کو لکھا کہ تم خالد بن ولیدؓ کے صوبوں کی طرف چلے جائواور جب مسیلمہ کی لڑائی میں کامیاب ہو جائو تو قضاعہ کا رخ کرواور عمروبن عاص ؓ کے ساتھ مل کر مرتدین قضاعہ سے جہاد کرو۔
اس اثناء میں حضرت خالد بن ولیدؓ بطاح سے فارغ ہو کر مدینہ گئے اور امیر المومنینؓ کو تمام واقعات زبانی کہہ سنائے آپ نے حضرت خالدؓ کو مسیلمہ کے خلاف معرکہ آراء ہونے کا حکم دیا اور مسلمانوں کا ایک لشکر گراں ان کے ساتھ کر دیا۔ مہاجرین پر حضرت حذیفہؓ اور حضرت زید بن خطابؓ امیر مقرر کئے اور حضرت ثابت بن قیس ؓ اور حضرت براء بن عازبؓ کو انصار کی قیادت عطا فرمائی ۔ حضرت خالد ؓ مدینہ سے نکل کر برق و باد کی طرح یمامہ کی طرف بڑھے ۔ گو اس وقت مسیلمہ او بنی حنیفہ کا طوطی بول رہا تھا اور مسیلمہ کے چالیس ہزار جنگ آزما سپاہی یمامہ کے دیہات اور وادیوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ تاہم باوجود قلت تعداد مسلمانوں کا جوش جہاد اور ولولہ شہادت ابل رہا تھااور وہ مسیلمی مرتدین سے جنگ آزما ہونے کے لئے بپھر رہے تھے۔
بنی حنیفہ کی دوسری کامیابی
حضرت عکرمہؓ کی طرح شرحبیل نے بھی عجلت کر کے جناب خالد بن ولیدؓ کی آمد سے پہلے مسیلمہ کی حربی قوت کا اندازہ کئے بغیر جنگ کی طرح ڈال دی ۔ جس میںانہیںبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ جب حضرت خالد بن ولیدؓ کو مسلمانوں کی مکرر ہزیمت کا علم ہوا تو شرحبیل کو سخت ملامت کی اور کہا کہ ہماری آمد کا انتظار کئے بغیر کیوں پیش دستی کی۔ تمہاری شتاب زدگی کا نتیجہ یہ ہے کہ دشمن کی جمعیت پہلے ہی سے بھی فزوں تر ہو گئی ہے اور اعداء کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ ایک تو خود مسیلمہ کے پاس پہلے سے جمعیت کثیر تھی۔ جس میں یوماًفیوماً ترقی ہور ہی تھی۔ دوسرے سجاح کی باقی ماندہ فوج بھی مسیلمہ سے مل گئی تھی(جس کا تذکرہ سجاع کے حالات میں قلمبند ہو گا) اس لئے مسیلمہ کی قوت بہت بڑھ گئی تھی۔
اصحاب بدرؓ کی شرکت جہاد
اس اثناء میں خلیفہء رسول اللہ ﷺنے حضرت خالد ؓ کی کمک کے لئے ایک دستہ فوج بھی روانہ فرما دیا جس کے سر عسکر سلیط تھے۔ امیر المومنین نے سلیط کو حکم دیا تھا کہ وہ خالد کی امداد کے لئے ان کے عقب میں رہیں۔ تا کہ غنیم خالد کو عقب سے ضرب نہ لگا سکے۔ اس موقع پر حضرات شیخینؓحضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ میں اس بارہ میں اختلاف رائے تھاکہ غازیان بدر کو بھی لڑائی میں بھیجنا چاہیے یا نہیں۔ حضرت صدیقؓ فرماتے تھے کہ ان سے لڑائی میں مدد لینے کی اتنی ضرورت نہیں ہے جس قدر کہ ان کی دعا اور برکت کی حاجت ہے۔ کیونکہ ان پاک بازوں کی برکت سے رب ذی المنن اکثر آفات و بلیات کو رفع فرما دیتا ہے۔ مگر حضرت عمر ؓ کی یہ رائے تھی کہ زیادہ نہیں تو ان حضرات کو کم از کم فوجوںکی امارت پر ضرور مقرر کیا جائے۔ آخر
امیرالمومنین ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمر ؓ کی رائے سے اتفاق کر لیا اور اصحاب بدر رضی اللہ عنہم بھی ان معرکوں میں شریک ہوئے۔
مجاعہ کی گرفتاری
جب مسیلمہ کو معلوم ہواکہ اسلام کے سپہ سالار خالد بن ولیدؓ اس کی سرکوبی کے لئے آپہنچے تو اس نے بھی اپنے لشکر کو یمامہ سے حرکت دی اور عقرباء کے مقام پر لا جمع کیا۔ مسیلمہ کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ ایک جداگانہ سریہ لے کر مسلمانوں کے مقابلہ پر آیا۔ لیکن مسیلمہ تک پہنچنے میں صرف ایک دن کا راستہ باقی تھا کہ حضرت خالد ؓ نے شرحبیل بن حسنہؓ کو مقدمۃ الجیش پر مقرر کرکے آ گے بڑھنے کا حکم دیا۔ اتفاق سے رات کے وقت مجاعہ سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ شرحبیل نے نہایت بے جگری کے ساتھ مجاعہ پرہلہ بول دیا اور مجاعہ کے آدمیوںکے مارتے مارتے ان کا کھلیان کر دیا۔ مجاعہ تن تنہا موت کا شکارہونے سے بچا۔ مگر گرفتار کر لیا گیا۔
اسلام اورکفر کی آویزش
اس واقعہ کے بعد حضرت خالدؓ بھی پہنچ گئے اور عقرباء کے میدان میں ڈیرے ڈال کرحرب و قتال کی تیاریوں میں مصروف ہوئے۔دوسرے دن آتش حرب شعلہ زن ہوئی۔لشکر اسلام میں مہاجرین کا رایت سالم مولیٰ ابو حذیفہؓ کے ہاتھ میں تھا۔ انصار کا جھنڈا حضرت ثابت بن قیسؓ اٹھائے تھے ۔ دوسرے قبائل عرب کے علم اپنے اپنے سرداران قبیلہ کے ہاتھ میں تھے۔ مسیلمہ اپنا خیمہ و خرگاہ اپنی پشت پر چھوڑ آیا تھا۔ نہار الرحال بن عنفوہ جس کا ذکراوپر آچکاہے مسیلمہ کا مشیر خاص اور سر عسکر تھا۔ اس معرکہ میں مسیلمہ کے ہمراہ چالیس ہزار فوج تھی اور اسلامی لشکر صرف تیرہ ہزار تک شمارہواتھا۔ مسیلمہ کا بیٹا شرحبیل رجز خوانی کر کے بنو حنیفہ کو جوش دلانے لگا۔ اس نے کہا اے بنو حنیفہ! آج تم اپنی شرم و غیرت کے لئے لڑو۔ کیونکہ اگر تم نے اپنی پیٹھ دکھائی تو تمہاری عورتیں اور لڑکیاں مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں گی۔ اس لئے چاہیے کہ تم اپنے ننگ و ناموس پر اپنی جانیں قربان کر دو۔ حضرت خالد ؓ نے پہلے اتمام حجت کے لئے مسیلمہ اور اس کے پیروؤں کو دین حق کی دعوت دی۔ مگر انہوں نے گوش قبول سے نہ سنا۔ صحابہ کرامؓ نے بھی پند و موعظ کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا لیکن ان کے والہانہ یقین و اعتقاد کی گرمجوشی میں کسی طرح فرق نہ آیا۔ اب دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں۔ مرتدین کی طرف سے سب سے پہلے نہار مسلمانوں کے خلاف زرم خواہ ہوا اور بڑی پامردی سے مقابلہ کر کے حضرت زید بن خطاب ؓ کے ہاتھ سے جو امیر المومنین عمر فاروقؓ کے بھائی تھے مارا گیا۔ اس وقت
گھمسان کا رن پڑا۔ دونوں طرف کے دلاور داد شجاعت دے رہے تھے اورمعلوم ہوتا تھا کہ یہی معرکہ فریقین کی قسمت کا فیصلہ کر دے گا۔ اسلام اور کفر کی یہ ایسی زبر دست آویزش تھی کہ اس سے پیشتر مسلمانوں کو ایسے زبردست معرکہ سے شاید کبھی پالا نہ پڑا ہوگا۔
لشکر اعداء نے سپہ سالار کی اہلیہ محترمہ سے تعرض نہ کیا
لشکر اسلام نے لڑتے لڑتے حضرت خالدؓ کا حکم پا کر پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ یہا ں تک کہ بنی حنیفہ کو حضرت خالدؓ کے خیمہ تک پہنچنے کا موقع مل گیا۔ جہاں مجاعہ قید تھا۔ مسیلمی فوج حضرت خالد کے خیمہ میں آ داخل ہوئی۔ اس وقت خیمہ میں حضرت خالد ؓ کی اہلیہ محترمہ موجود تھیں۔خیمہ میں ایک طرف مجاعہ زنجیروں سے جکڑا تھا۔ جسے حضرت خالدؓ پیچھے ہٹتے وقت اپنی بیگم صاحبہ کی نگرانی میں دے آئے تھے ۔ بنی حنیفہ نے حضرت خالدؓ کی حرم محترم کو قتل کرنا چاہا۔ مگر مجاعہ اس میں مزاحم ہوا اور کہا کہ عورت ذات سے تعرض کرنا شیوہء مردانگی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ اس وقت میری ہمسایہ اور نگران حال ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ عورت کا خیال چھوڑ کر مردوں کی جا خبر لو۔ انہوں نے یہ خیال کرکے کہ یہ اسلامی سپہ سالار کی حرم ہیں۔ ممکن ہے کہ مسلمانوںکو فتح ہو ۔ اس صورت میں معلوم نہیں کہ مسلمان اس کا کس شدت سے انتقام لیں ۔ آپ کی حرم محترم سے کوئی تعرض نہ کیا ۔ البتہ خیمہ کو پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا۔
حضرت ثابتؓ ،زیدؓ اورابو حذیفہؓ کی رجز خوانی
اب بنو حنیفہ آگے بڑھ کر مسلمانوں سے از سر نو مبارزت خواہ ہوئے ۔ اس وقت مسلمان نشہء شہادت و جان بازی سے سر شار تھے۔ ثابت بن قیسؓ نے لشکر اسلام کو مخاطب کر کے کہا اے ملت موحدین کے بہادرو!اپنی جانوں پر کھیل جائو اور دشمن کی کثرت تعدادسے مرعوب ہو کر پست ہمتی سے کام نہ لو۔ الٰہی! میں اہل یمامہ کے ارتداد سے بیزار اور اہل ایمان کی کم ہمتی سے عذر خواہ ہوں۔ یہ کہہ کر وہ نہایت بے جگری سے غنیم کے قلب لشکر میں جا گھسے اور داد شجاعت دے کرجام شہادت پی لیا۔ اس کے بعد امیر المومنین عمر بن خطابؓ کے برادر معظم حضرت زید بن خطابؓ نے مہاجرین و انصار کو مخاطب کر کے کہا۔ اے ارباب ایمان!میںنے نہار کی زندگی کا چراغ گل کیا۔ لیکن اب میں اس وقت تک کسی سے ہم کلام نہ ہوںگا۔ جب تک کہ اعداء کو منہزم نہ کرلوںیا خود ہی جرعۂ شہادت نہ پی لوں۔ اے توحیدکے علمبردارو! توحید کی امانت تمہارے سینوں میں ودیعت ہے۔ اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے تمہیںکوئی غیر اللہ طاقت مرعوب نہیں کر سکتی۔ اعداء کی کثرت اور اپنی قلت تعداد سے خالی الذہن ہو کر دشنمن کا صفایا کر دو۔
حضرت ابو حذیفہ ؓ نے کہا اے شمع جمال احمدی کے پروانو! آج رسول اللہ کے دین پر کٹ مرو۔ اے توحید کے جان نثارو ! تم اعلاء کلمتہ اللہ کی خاطر دنیا میں بھیجے گئے ہو۔ آج توحید کی لاج رکھ لینا اے حاملان قرآن! قرآن اور اس کے آسمانی احکام دنیا سے مٹنے نہ پائیں۔
حضرت خالدؓ نے ہلہ بول دیا
اب حضرت خالد ؓ نے یک بیک ہلہ بول دیا اور لشکر اسلام، اللہ اکبرکے نعرے بلند کرکے بنی حنیفہ پر اس طرح ٹوٹ پڑا۔ جس طرح گرسنہ شیر اپنے شکار پر جھپٹتا ہے ۔ اہل ارتداد اس حملہ کی تاب نہ لا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ آتش حرب جوش و خروش کے ساتھ شعلہ زن ہوئی۔ اس وقت کبھی تو مسلمانوں کا پلہ بھاری ہو جاتا اور کبھی مرتدوں کا ۔ انہی معرکوں میں سالم مولیٰ ابو حذیفہؓ اور زید بن خطابؓ وغیرہ بڑے بڑے اکبر ملت شربت شہادت سے سیراب ہوگئے۔ یہ دیکھ کر حضرت خالدؓ نے حکم دیا کہ کوئی ایسا نشان قائم کرو۔ جس سے فوراً معلوم ہوسکے کہ ہمارا کون سا پہلو کمزور ہے اور کس حصہ فوج کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ تا کہ اس کی فوراً تلافی کی جاسکے۔ آخر نشان قائم کئے گئے۔ لیکن مسلمانوں کو اتنا نقصان جان برداشت کرنا پڑا کہ اس سے پیشتر کسی لڑائی میں اس کا تجربہ نہ ہوا تھا ۔ مہاجرین ، انصار اور اہل قریٰ کی بہت بڑی تعداد میدان جانستان کی نذر ہو گئی۔
مسیلمہ کی ہمت مردانہ
مسلمانوں کی مسلسل جد وجہد اور ولولہ انگیزیورشوں کے باوجود مسیلمہ میدان کارزار میں اس طرح جم کر لڑ رہا تھا کہ گویا کوئی آہنی برج قائم ہے۔ باوجود ضعف پیری کے اس نے ذرہ بھر اپنی جگہ سے جنبش نہ کی ۔ بنی حنیفہ اس کے ارد گرد خوب داد شجاعت دے رہے تھے ۔ حضرت خالد سیف اﷲؓ نے یہ محسوس کیا کہ جب تک مسیلمہ کو موت کے گھاٹ نہ اتارا جائے دشمن پر غلبہ پانا محال ہے۔ اس لئے آپ اس کو شش میں سرگرم عمل ہوئے کہ کوئی موقع ملے تو خود مسیلمہ پر چرکا لگایا جائے۔ بنی حنیفہ کے مقتولوں کی تعداد گو شہدائے مسلمین سے بہت زیادہ تھی۔ مگر انہیںاپنی کثرت تعداد کے لحاظ سے اتنے مقتولوں کی کچھ زیادہ پروا نہ تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے جوش میں کسی طرح کمی نہ آئی تھی اور ان کے اندر اسلامی حملوں سے کسی خاص ضعف کے آثار نمایاں نہ ہوئے تھے۔
خالدی کارنامے
اب حضرت خالدؓ تن تنہا میدان کارزار میں نکلے۔ اس وقت ع کس شیر کی آمد ہے کہ
رن کانپ رہا ہے، کا صحیح نقشہ لوگوںکے سامنے تھا۔ حضرت خالدؓ نے اپنے مقابلہ میں مبارز طلب کیا۔اب دو دو سورما حریفوں کا سامنا ہونے لگا۔ حضرت خالدؓ کے مقابلہ پر جو مسیلمی آیا۔ آپ نے تلوار کے ایک ہی ہاتھ سے اس کا کام تمام کر دیا۔ غرض حضرت خالدؓ نے تن تنہا مسیلمی لشکر کے تمام بڑے بڑے نامی گرامی سورمائوں کو قعر عدم میں پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ لشکر اعداء میں ہل چل مچ گئی اور نسیم فتح مسلمانوں کے رایتِ اقبال پر چلنے لگی۔ اب حضرت خالدؓ نے مسیلمہ کو پکارا اور چند دوسرے مطالبات کے علاوہ از سر نو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس نے یہ مطالبات مسترد کردیئے۔حضرت خالدؓ گھوڑا دوڑا کر اس کی طرف لپکے اور اسے لڑائی پر مجبور کرنا چاہا۔ مگر وہ طرح دے کر دور نکل گیا اور اس کا لشکر بھی تاب مقاومت نہ لا کر منتشر ہو گیا۔ اب بنی حنیفہ نے مسیلمہ سے کہا کہ عون و نصرت الٰہی کے جو وعدے تم کیا کرتے تھے۔ وہ عون خداوندی کیا ہوئی؟۔ کہنے لگا ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے اہل و عیال اور ننگ و ناموس کے لئے لڑے۔ یہ موقع ان باتوں کے دریافت کرنے کا نہیں ہے۔
براء بن مالک کی شجاعت و جانبازی
محکم بن طفیل نے جو مسیلمی لشکر کے میمنہ پر تھا اب مسیلمی لشکر کو ایک نہایت وسیع و عریض باغ میں جو وہاںسے قریب واقع تھا۔ گھس جانے کو کہا۔ بنی حنیفہ جھٹ باغ میں پناہ گزین ہوئے اور محکم بن طفیل ایک ساعت تک مصروف پیکار رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے اسے قتل کیا۔ جناب عبد الرحمن نے ایسے وقت میں اس کی گردن پر نیزہ مار کر اسے ہلاک کیا جبکہ وہ اپنی قوم کو خطبہ دیتا اور بنی حنیفہ کی لڑائی کے لئے بانگیختہ کر رہاتھا۔ بنی حنیفہ نے باغ کا دروازہ مضبوطی سے بند کر لیا تھا۔ مسلمانوں میںبراء بن مالک ایک نہایت سورما بہادرسپاہی تھے۔ انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ سے درخواست کی کہ مجھے خدا کے لئے اس باغ میں ڈال دو۔ انہوںنے فرمایا کہ ہم تمہیں دشمن کے ہاتھوں میں کیونکر دیدیں؟۔ براء نے قسم دلائی کہ مجھے ضرور اندر ڈال دو۔ ان کے اصرار و الحاح پر انہیں حدیقہ کی دیوارپر چڑھا دیا گیا۔ وہ اندر کو کودے اور حدیقہ کے دروازہ پر جا کر کمال شجاعت کیساتھ سیکڑوں ہزاروں دشمنوں سے لڑنے لگے اور نہایت بہادری کے ساتھ دروازہ پر قبضہ کر کے اسے مسلمانوںکے داخلہ کے لئے کھول دیا ۔ اسلامی لشکر فوراً اندر داخل ہونے لگا۔ باغ میں نہایت خونریز لڑائی ہوئی جس میں جانبین کا سخت نقصان ہوا۔ بنی حنیفہ نے نہایت بہادری سے مقابلہ کیا۔ اور اس وقت تک کمزوری کا اظہار نہ کیا۔ جب تک کہ مسیلمہ کا نقش وجود صفحہ ہستی سے محو نہ ہوگیا۔ یہ باغ جس میں مسیلمہ اور اس کے ہزارہا پیروبھیڑ بکری کی طرح ذبح
کیے گئے۔ اباض کے نام سے موسوم تھا۔ لیکن بعد کو کثرت موت کے باعث حدیقہ الموت کے نام سے مشہور ہو گیا۔ آخر جب خلیفہ مامون عباسی کا زمانہ آیا تو اسحاق بن ابی قمیصہ نے اس جگہ ایک عالیشان جامع مسجد تعمیر کرائی۔
مسیلمہ کاقتل
جب مسیلمہ کو فلاح و رستگاری کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو زرہ اور خود پہن کر گھوڑے پر سوار ہوا اور ایک دستہ افواج کو ساتھ لے کر لڑتا بھڑتا باغ سے باہر نکلا۔ جوںہی باغ سے باہر آیا سید الشہداء حمزہ ؓ کے قاتل وحشی نے جو اس سے پیشتر مسلمان ہو چکا تھا اور لشکر اسلام میں شامل تھا اسے ایسا نیزہ مارا کہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کر سکا۔ معاً وہیں ٹھنڈا ہو گیااورحضرت زید بن خطابؓ نے رحال بن عنفوہ کو جرعۂ مرگ چکھا کر واصل جہنم کیا۔ مسیلمہ کے قتل میں دراصل دو مسلمانوں نے حصہ لیا تھا ۔ ایک وحشی نے اور دوسرا ایک انصاری نے ۔ پہلے وحشی نے ایک نیزہ رسید کیا۔ جونہی اس پر نیزہ پڑا انصاری نے اسے اپنی تلوار پر لے لیا۔ وحشی نے مسیلمہ کا سر قلم کر کے نیزے پر چڑھایا اور ایک عیار و فتنہ گر متنبی جس نے زمانے میں ہلچل ڈال رکھی تھی۔ اس حسرت آباد دنیا سے بصد حسرت و اندوہ کوچ کر گیا۔ وحشی بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ میں حالت کفر میں ایک مقدس ترین ہستی کو جام شہادت پلا کر جہنم کے طبقہ اسفل کا مستحق ہو چکا تھا۔ لیکن اس منعم لا یزال کا شکرواحسان ہے کہ جس نے دین اسلام کا ربقہء سعادت میری گردن ڈالا اور تائید الٰہی نے ایک بد ترین انسان کو میرے ہاتھ سے قتل کرا کے کسی حد تک میرے جرم کی تلافی کرا دی۔
لشکر اسلام کی فتح
جب مسیلمہ مارا گیا تو بنی حنیفہ سخت بد حواسی کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ جن پر چاروں طرف سے تلوار پڑنے لگی۔ گو بنی حنیفہ نے بھی اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مگر قدوسیوںنے طاغوتیوں کو مار مار کر ان کے پڑخچے اڑا دیئے۔آخر قصر ارتداد کو پیوند خاک ہونا پڑا اور مسیلمی اقبال آناًفاناً دامن ادبار میں روپوش ہو گیا۔ان معرکوں میں بنی حنیفہ کے اکیس ہزار اور اہل اسلام کے چھ سو آدمی کام آئے تھے۔یہ تعداد (ابن اثیرج۲ص۲۲۳)نے لکھی ہے ۔لیکن حسب بیان (ابن خلدون ج۲ص۴۱۱) شہدائے اسلام کی تعداد ایک ہزار اسی تھی۔
ایک مسیلمی نے حضرت ثابت بن قیسؓ کی ٹانگ کاٹ ڈالی تھی۔ لیکن ان کی شجاعت دیکھئے کہ انہوںنے اس کو وہی ٹانگ اس زور سے ماری کہ معاً طائر روح قفس عنصری سے پرواز کرگیا۔ مگر اس صدمہ کی وجہ سے انہوں نے خود بھی عنان حیات دار آخرت کو پھیر دی۔
حضرت سیف اللہ کفار مقتولین کی لاشوںپر
اختتام جنگ پر حضرت خالد بن ولید ؓ مجاعہ کو اپنے ساتھ لئے مقتولین اعداء کی طرف گذرے اور حکم دیا کہ مسیلمہ کی لاش تلاش کی جائے۔ چنانچہ مقتولوں کی دیکھ بھال شروع ہوئی۔ خالدؓ رفتہ رفتہ محکم الیمامہ کی لاش پر پہنچے جو ایک وجیہہ آدمی تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کیا یہی مسیلمہ ہے؟مجاعہ نے کہا یہ وجیہہ و خوبرو آدمی محکم بن طفیل ہے۔ پھر ایک کم رو،زرد فام چپٹی ناک والے آدمی کی لاش پر سے گزرے۔ مجاعہ کہنے لگا جس لاش کی آپ کو تلاش ہے۔ وہ یہی ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت خالدؓ نے فرمایا اچھا وہی یہ شخص ہے جس نے تم لوگوں کو گمراہ کر کے دنیا اور عقبی میں روسیاہ کیا؟۔ اس کے بعد رویجل، دمیم اور اخنیس کی لاشوں کو دیکھ کر کہاکہ کیا یہی تمہارے سردار تھے اور یہی تم پر حکومت کرتے تھے؟۔
مجاعہ کی حیرت انگیز فریب کاری
مجاعہ انتہائی عیاری اور فریب کاری سے کام لے کہنے لگا کہ یہی لوگ میرے سردار تھے۔ لیکن آپ ان لوگوں کے قتل پر نازاں نہ ہوں۔ کیونکہ جن لوگوں سے آپ کو اب تک سابقہ پڑا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ لڑائی کے لئے بپھر رہے تھے اور دوسروں پر سبقت کر کے طرح جنگ ڈال دی تھی۔ حالانکہ بنی حنیفی کی فوجوں کی فوجیں اور ان سے زیادہ جنگ آزما بہادر نبرد آزما ہونے کے لئے ہنوز پیچھے ہیں۔ جن سے قلعے اور حصون بھرے پڑے ہیں۔ اس لئے مناسب ہے کہ ان لوگوں کے پاس جلد سے جلد صلح کا پیغام بھیجئے اور اپنے تحفظ و بقا کے لئے مصالحت و آشتی کا شیوہ اختیار کیجئے اور اگرآپ مصالحت پر آمادہ ہوں تو مجھے رہا کر دیجئے۔ تا کہ اپنی قوم کے پاس جا کرآپ کی طرف سے مصالحت کی سلسلہ جنبانی کروں۔ چونکہ لشکر اسلام کو بہت بڑا مال غنیمت ہاتھ آیا تھا اور حضرت خالدؓ لشکریوں کو کمر کھول دینے کا حکم دے چکے تھے۔ اس وجہ سے مجاعہ سے کہنے لگے کہ میں تجھے قید سے رہا کئے دیتا ہوں تو اپنی قوم میں جا اور ان کو اطاعت اختیار کرنے پر آمادہ کر۔ میںان سے صرف ان کی جانوں کے متعلق صلح کر لوں گا۔
عورتوں اور بچوں کو مسلح کر کے فصیلوں پر کھڑا کر دیا
مجاعہ یہاں سے اہل یمامہ کے پاس گیا۔اس وقت قلعوں میں عورتوں بچوں بیماروں اور شیوخ فانیہ کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ مجاعہ نے انہی کو ہتھیاروں سے مسلح کیا۔ عورتوں سے کہ کہ وہ اپنے سر کے بال کھول کر چھاتی پر ڈال دیںاور اسلحہ لے کر شہر پناہ کی فصیل پر چڑھ جائیں۔ پھر وہ
حضرت خالدؓ کے پاس واپس آیا اور کہنے لگا کہ قلعہ والے تو آپ کے شرائط صلح کو ہرگز منظور نہیں کرتے۔ خالدؓ نے یمامہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کی فصیلیں ہتھیاروں سے چمکتی نظر آئیں۔ حضرت خالدؓ کو یہ دیکھ کر یقین آگیا کہ غنیم کے قلعے فوجوں سے معمور ہیںاور مسلمان لڑتے لڑتے بہت تھک گئے تھے اور لڑائی شروع ہوئے بھی ایک عرصہ گذر چکا تھا۔اس لئے جناب خالدؓ نے مجاعہ سے ان کا نصف مال و اسباب اور زمین مزروعہ وغیرمزروعہ اور باغات اور قیدی لے کر صلح کر لینے پر رضامندی کااظہارفرمایا۔ مجاعہ نے اس سے انکار کیا۔آخر حضرت خالدؓ نے چوتھائی مال و اسباب وغیرہ منظور کرکے صلح کرلی۔
مجاعہ نے حیلہ گری کو قومی خدمت سے تعبیرکیا
جب معاہدہ صلح لکھا جا چکا اورحضرت خالدؓ قلعے کھول کر ان میں داخل ہوئے تو یہ معلوم کرکے ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہاںعورتوںاورضعیفوں کے سوااورکوئی نہیں ہے۔ خالدؓ نے مجاعہ سے کہا کمبخت! تو نے میرے ساتھ دغا کی اور فریب سے صلح نامہ لکھوایا۔ مجاعہ نے عرض کی اے امیر المسلمین! اگر میں یہ حیلہ نہ کرتاتومیری قوم میں کسی کی استطاعت باقی نہ رہتی۔ میرا قصورمعاف فرمایئے۔میں نے ان کی رسوائی کے خوف سے حیلہ سازی کی اور اپنی قوم کی جس قدر خدمت مجھ سے ہو سکی میں نے کی۔ افسوس ہے کہ اس وقت قوم مسلم میں ہزاروں ننگ اسلام افراد ایسے ہیں جو اپنے ذاتی مفاد اورحصول عزوجاہ کے لئے اسلام کو زخمی کرتے اور اغیار کا دست جبرواستبداد مضبوط کر رہے ہیں۔ایسے بدبختوں کو مجاعہ کے طریق عمل سے سبق آموز ہونا چاہئے۔ حضرت خالدؓ مجاعہ کا جواب سن کر خاموش ہو گئے اور باوجود یکہ یہ معاہدہ دھوکے اور فریب کاری کی بنا پر لکھا گیا تھا۔لیکن چونکہ عہد کی پابندی مسلمان کا لازمی شعار ہے۔ حضرت خالدؓ نے اس معاہدہ کو علی حالہا قائم رکھا۔ مجاعہ کی تحریک سے بنی حنیفہ کے سات ممتاز افراد منتخب ہوئے۔ جہنوں نے حضرت خالدؓ سے صلح کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسیلمی عقائد سے توبہ کر کے از سر نو حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔یاد رہے کہ یمامہ کی جنگ اور فتح ۱۲ھ کا واقعہ ہے۔
امیر المومنین کا فرمان کہ تمام بالغ مسیلمی بجرم ارتداد قتل کئے جائیں
اس اثنا میں امیر المومنین ابو بکر صدیقؓ نے مسلمہ بن وقش کے ہاتھ حضرت خالدؓ کے نام ایک فرمان بھیجا جس میں لکھا تھا کہ اگر خدائے عزیز و برتر مرتدین پر فتحیاب کرئے تو بنی حنیفہ میں سے جس قدر افراد بالغ ہو چکے ہوںوہ سب بجرم ارتداد قتل کئے جائیں اور عورتیں اور کم سن لڑکے حراست میںلے لئے جائیں۔ لیکن امیر المومنین کا فرمان پہنچنے سے پیشتر حضرت خالد
معاہدہ کی تکمیل کر چکے تھے۔اس مجبوری سے اس حکم کا نفاذ نہ ہو سکا۔
(تاریخ ابن خلدون ج۲ص ۴۱۱حالات مسیلمہ کذاب)
چند سال پیشتر مرزائیوں نے افغانستان میں نعمت اللہ مرتد کے سنگسار ہونے پر یہ کہتے ہوئے بڑا ادھم مچایا تھا کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہیں۔ لیکن مرزائی لوگ حضرت صدیق اکبرؓ کو خلیفۂ رسولﷺ مانتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ آپ کے اس حکم کو دلیل راہ بنائیں۔ اگر امیر المومنین کیا یہ حکم منشائے شریعت کے مطابق تھا اور ’’علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین‘‘ اور ’’ اقتدوا بالذین من بعدے ابابکر و عمر ‘‘ کے بموجب یقیناً منہاج شریعت کے عین مطابق اور واجب الاتباع ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جن لوگوں نے اسلام کے طریق قویم کو چھوڑ کر کسی متنبی کا مسلک ضلال اختیار کیا۔ وہ وقت کے مسلمان حاکم کے حکم سے واجب القتل نہ قرار پائیں۔
مفتوح نو مسلموں کا وفد مدینہ منورہ کو
حضرت خالدبن ولیدؓ نے بنی حنیفہ کے ایک گروہ کو وفد کی حیثیت سے امیر المومنین کے حضور میں اپنے عریضہ کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ کیا جس میں مسیلمہ کے مارے جانے اہل یمامہ پر فتح پانے، معاہدہ صلح مرتب ہونے اور بنی حنیفہ کے از سر نو اسلام لانے کا مفصل حال درج تھا۔ امیرالمومنین ابوبکر صدیقؓ نے اہل وفد کو بکمال عزت باریاب فرمایا اور ان لوگوں سے مسیلمہ کی من گھڑت وحی کا کلام سنا۔ امیر المومنین نے فرمایا واﷲ یہ خالق ارض و سما کا کلام نہیں ہو سکتا۔ وہ ذات بے ہمتا ہر قسم کے عیوب سے پاک و منزہ ہے۔ اس کے بعد امیر المومنین نے اہل وفد سے فرمایا جائو اپنی قوم میں رہواور اسلام پر استقامت اور ثابت قدمی کا ثبوت دو۔ جس سے اللہ اور اس کا رسول برحق ؐ خوش ہوں۔
حضرت فاروق اعظمؓ کا عتاب فرزند گرامی پر
اس معرکہ میں جس طرح خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے فرزند گرامی حضرت عبد الرحمن ؓ شریک ہوئے۔ اسی طرح خلیفۂ ثانی عمر فاروق ؓ کے صاحبزادہ جناب عبداﷲ بن عمرؓ بھی شریک غزا تھے۔ جب لشکر اسلام مظفر و منصور مدینہ منورہ آیااور حضرت عبداﷲ ؓ نے اپنی والد محترم سے ملاقات کی تو حضرت فاروق اعظم ؓ نے ان سے فرمایا۔ یہ کیا بات ہے کہ تمہارا چچا(حضرت زید بن خطابؓ) تو شہید ہوااورتم زندہ ہو؟۔ تم زیدؓ سے پہلے کیوں نہ مارے گئے؟۔ کیا تمہیں شہادت کا شوق نہ تھا؟۔ جناب عبداﷲؓ نے عرض کیا۔ اے والد محترم! چچا صاحب اور میں دونوں نے حق
تعالیٰ سے شہادت کی درخواست کی تھی۔ ان کی دعا مستجاب ہوئی۔ لیکن میں اس سعادت سے محروم رہا۔حالانکہ چچا صاحب کی طرح میں نے بھی تمنائے شہادت کی تکمیل میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا تھا۔
صحابہ کرام ؓ جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے
جنگ یمامہ میں حضرت سرور کائنات ﷺ کے جو اصحاب رضوان اللہ علیہم شہید ہوئے۔ ابن اثیر نے ان میں سے مندرجہ ذیل انتالیس حضرات کے اسمائے گرامی قلمبند کئے ہیں۔(۱) عباد ابن بشر انصاری اشہلی جو غزوہ بدراور دوسرے غزوات میں شریک تھے۔(۲)عباد ابن حارث انصاری جو جنگ احدمیں شریک تھے۔(۳)عمیر ابن اوس شریک احد۔(۴)عامر ابن ثابت بن سلمہ انصاری۔(۵)عمارہ ابن حزم انصاری جو غزوہ بدر میں شریک تھے۔(۶)علی بن عبید اللہ ابن حارث۔(۷)عائز ابن ماعص انصاری۔(۸)فروہ بن نعمان جو جنگ احد میں شریک تھے۔(۹) قیس ابن حارث بن عدی انصاری شریک جنگ احد۔(۱۰)سعد بن جماز انصاری شریک غزوہ احد۔(۱۱) ابو دجانہ انصاری بدری۔(۱۲)سلمہ بن مسعود ابن سنان انصاری۔ (۱۳)سائب بن عثمان ابن مظعون جو مہاجرین حبش میں داخل اور جنگ بدر میں موجود تھے۔ (۱۴)سائب ابن عوام جو حضرت زبیرؓ کے حقیقی بھائی اور سید المرسلینﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ (۱۵)طفیل ابن عمر والدوسی شریک غزوہ خیبر۔ (۱۶) زرارہ ابن قیس انصاری۔ (۱۷)مالک ابن عمروسلمی بدری۔(۱۸)مالک ابن امیہ سلمی بدری۔ (۱۹)مالک ابن عوس ابن عتیک انصاری جو احد میں شریک تھے۔ (۲۰)معن ابن عدی جو عقبہ اور بدر وغیرہ غزوات میں شریک تھے۔ (۲۱)مسعود ابن سنان اسود شریک غزوہ احد۔ (۲۲) نعمان ابن عصر بدری۔ (۲۳)صفوان۔ (۲۴) اور مالک عمرو السمی کے بیٹے جو بدری تھے۔ (۲۵)ضرار ابن ازور اسدی جنہوں نے خالدؓ کے حکم سے مالک بن نویرہ کو قتل کیا۔ (۲۶) عبداﷲ بن حارث سہمی۔ (۲۷)عبداﷲ ابن مخرمہ بن عبدالعزی جو بدر وغیرہ غزوات میں شریک تھے۔ (۲۸)عبداﷲ ابن عبداﷲ بن ابی ابن سلول(مشہور منافق کے بیٹے)جو بدری تھے۔ (۲۹)عبداﷲ ابن عتیک انصاری بدری۔ (۳۰)شجاع بن ابی وہب اسدی بدری۔ (۳۱)ہریم ابن عبداﷲ مطلبی قرشی اور (۳۲)ان کے بھائی جنادہ۔ (۳۳) ولید ابن عبد شمس بن مغیرہ مخزومی جو خالدؓ کے عم زاد بھائی تھے۔ (۳۴)ورقہ ابن ایاس بن عمرو انصاری بدری۔ (۳۵) یزید ابن اوس جو فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے تھے۔ (۳۶)ابو حبہ ابن غزیہ انصاری جو
احد میں موجود تھے۔ (۳۷)ابوعقیل بلوی بدری۔ (۳۸)ابو قیس ابن حارث سہمی جو مہاجرین حبش میں داخل اور جنگ احد میں شریک تھے۔ (۳۹) یزید بن ثابت جوزید ابن ثابت انصاری کے بھائی تھے۔(رضی اللہ عنہم)
علامہ بلاذری نے جو فہرست دی ہے۔ اس میں حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ جو امیر معاویہؓ کے ماموں اور بدری صحابی ہیں اور ان کے غلام ابو عبد اللہ سالم اور بعض دوسرے حضرات کے نام بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض مورخین نے چند اور نام بھی بتائے ہیں:
(باستثناء ان حالات و واقعات کے جن کے حوالے صفحات کے اخیر میں خط کے نیچے درج کئے گئے ہیں۔اس باب کی مضامین ابن اثیر ج۲ص۱۶۶، ابن خلدون اور بلاذری کی البدان سے ماخوذ ہیں۔
باب۵ … سجاح بنت حارث تمیمیہ
جس طرح موسم برسات کے آغاز میں بسیط ارض پر طرح طرح کی نئی مخلوق ظاہر ہونے لگتی ہے۔ سینکڑوں قسم کے کیڑے مکوڑے ادھر ادھر رینگتے دکھائی دیتے ہیں اور ہزاورں لاکھوں پتنگے فضائے محیط پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح حضرت مفخر موجودات ﷺ جب قصر نبوت کی تکمیل فرما کر اس خراب آباد عالم صوری سے اوجھل ہوے۔ بیسوں ہوا پرست مدعی اٹھ کھڑے ہوئے اور بہتوں نے خود ساختہ نبوت کی دکانیں کھول کر اپنے تقدس کی ڈفلی بجانی شروع کر دی۔ سجاح بھی انہیں برساتی نبیوں میں سے ایک نبیہ تھی۔ جسے مسیلمہ کذاب کی دیکھا دیکھی نبوت کی دکان آرائی کا حوصلہ ہوا۔ بعض مورخوںنے اسے سجاح بنت حارث بن سوید بن عقفان لکھا ہے۔ دوسروں نے سے سویدبن یربوع کی دختر قرار دیا ہے۔ ہوازن کے قبیلہ بنی تمیم میں پیدا ہوئی اور اس کا نشوونما عرب کے شمال مشرق میں اس سرزمین میں ہوا جو آج کل عراق عرب کہلاتا ہے اور شائد اسی کو دو دریاؤں دجلہ وفرات کے مابین واقع ہونے کی وجہ سی الجزیرہ بھی کہتے ہیں۔ سجاح مذہباً عیسائی اور نہایت فصیحہ و بلیغہ اور بلند حوصلہ عورت تھی۔ اسے تقریر و گویائی میں یدطولیٰ حاصل تھا اور جدت فہم، جودت طبع اور اصابت رائے میں نظیر نہ رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ اپنے زمانہ کی مشہور کاہنہ تھی اورکہا کرتی تھی کہ میری اور سطیح کی ایک ہی رائے ہے اور ان سب خوبیوں پر مستزاد یہ کہ ابھی شباب کا عالم اور دلربائی کا زمانہ تھااور ظاہر ہے کہ یہ جملہ صفات ایسے نہ تھے جو کسی کی صیدا فگنی میں ناکام و بے مراد رہتے۔
دعویٰ نبوت
جب سجاح نے اپنی ہونہار فطرت پر نظر کی اور دیکھا کہ مسیلمہ نے بستر پیری پر دعویٰ نبوت کر کے اتنا عروج و اقتدار حاصل کرلیا۔ اسے بھی اپنی جوہر خداداد سے فائدہ اٹھاکر کچھ کرنا چاہیے۔ تو مسیلمہ کی طرح نبوت کا کاروبار جاری کرنے کے قضیہ پر غور کرنے لگی۔ آخر جونہی سیدالعرب و العجم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خبر وفات سنی نبوت اور وحی الٰہی کی دعویدار بن بیٹھی۔ سب سے پہلے بنی تغلب نے اس کی نبوت کو تسلیم کیا۔ جن کی وجہ سے اس میں ایک گونہ قوت آ گئی۔ ہذیل بن عمران جو بنو تغلب کا ایک نامور سردار اور عیسوی المذہب تھا۔دین مسیحی چھوڑ کر سجاح پر ایمان لے آیا۔ سجاح کو جب اتنی قوت حاصل ہو گئی تو اس نے تبلیغ و دعوت کا سلسلہ شروع کیا۔ چنانچہ مسجع ومقفا عبارتوں میں خطوط لکھ لکھ کر تمام قبائل کو اپنے کیش جدید کی دعوت دی۔ جن کی وجہ سے صد ہا عرب نعمت اسلام سے محروم ہو کر ہاویہ جہالت و بادیہ ضلالت میں سرگردان ہونے لگے۔ مالک ابن ہبیرہ ریئس بن تمیم کے نام ایک خط لکھا تھا۔ وہ اس مکتوب کی فصاحت و بلاغت دیکھ کر اس کا گرویدہ ہو گیا۔ سر آنکھوں پر چل کر جبہہ سا ہوا اور ترک اسلام کر کے مرتد ہو گیا۔ بہت سے دوسرے قبائل بھی ترک اسلام کر کے سجاح کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ جن میں احنف بن قیس اور حارث بن بدر جیسے معزز شرفاء اس کی حمایت میں نمایاں سرگرمی کا اظہار کررہے تھے۔ اس کے بعد زیاد ابن ہلال بنی ایاد کے لوگوں کے ساتھ، عقہ ابن ہلال بنی نمر کے ساتھ سلہل بن قیس بن شیبان کی معیت میں اس کے لشکر میںآ شامل ہوے اور سجاح کے جھنڈے تلے ایک لشکر جرار جمع ہو گیا۔ اس لئے اب وہ اپنے سب سے بڑے دشمن یعنی اسلام کے (معاذ اللہ) قلع قمع کی تدبیریں سوچنے لگی۔ حضرت سید العرب و العجم ﷺ کے وصال کے وقت قبیلہ بنی تمیم کے اندر اسلامی عمال اس تفصیل سے تھے۔ قبائل رباب، عوف، اورانباء میں زبرقان بن بدر قبائل مقاعس اور بطون میں قیس بن عاصم، بنو عمرو بن صفوان بن صفوان، بنو مالک میں وکیع بن مالک اور حنظلہ میں مالک بن نویرہ۔ جب خواجہ عالم ﷺ کے وصال کی خبر مشہور ہوئی تو صفوان صدقات بنی عمرواور زبرقان رباب، انباء اور عوف کے صدقات لے کر خلیفہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے۔ لیکن قیس ابن عاصم مقاعس و بطون کے صدقات وصول کر کے مستقبل کے انتظار میں بیٹھا رہا۔ باقی رہے وہ لوگ جو اسلام پر ثابت قدم تھے۔ وہ ان لوگوں کے فتنہ و فساد میں الجھ گئے جو عواقب امور کا انتظار کر رہے تھے یا علانیہ مرتد ہو گئے تھے۔ اس اثناء میں سجاح بنت حارث نے بھی دعوئے
نبوت کے ساتھ خروج کیا اور اپنے پیرووں کو لئے ہوئے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے اور مسلمانوں سے لڑنے چلی۔
عروج اقبال کا دور
بنی تمیم میں اختلاف تو پہلے ہی تھا۔ سجاح کے خروج نے آگ پر تیل کا کام دیا۔ مالک بن نویرہ نے سجاح سے مصالحت کرلی اور اسے مدینہ پر فوج کشی کرنے سے روکا اور کہا کہ آپ سردست مسلمانوں سے کسی طرح عہدہ برآ نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے سجاح نے اسلامیوں سے الجھنے سے پیشتر عربوں کو باہم لڑانے اور غیر مسلم اعداء سے نبٹنے کی صلاح ٹھرائی۔ مالک بن نویرہ نے اسے بنی تمیم پر حملہ کرنے کی تحریک کی۔ سجاح کا لشکر سیل کی طرح بن تمیم پر جا پڑا۔ بنی تمیم سجاح کے حملہ کی تاب نہ لا کر بے اوسان بھاگے اور وکیع بن مالک سجاح سے مل گیا۔ البتہ قبایل بنی رباب اور ضبہ نے متفق ہو کر سجاح کا خوب جم کر مقابلہ کیا۔ ایک گھمسان کارن پڑا۔ جس میں سجاح کو ہزیمت ہوئی اور اس کے کئی زبردست اور کارآزمودہ افسر گرفتار ہو گئے۔ لیکن اس کے بعد دونوں قبیلوں نے سجاح سے مصالحت کر لی۔ اب سجاح اپنی سابق قرار داد کے بموجب اپنا لائو لشکر لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوئی۔ جب نباح کے مقام پر پہنچی تو اوس بن خزیمہ نے بنی عمرو کو لے کرراستہ ہی میں اس پر حملہ کر دیا۔ فریقین میں بڑا بھاری رن پڑا۔ سجاح کے پیرووں میں سے ہذیل اور عقبہ گرفتار ہو گئے۔ لیکن پرفن سجاح کی حکمت عملی کامیاب ہوئی اور فریقین نے ان شرائط پر کہ اوس بن خزیمہ سجاح کے قیدیوں کو چھوڑ دے اور سجاح بلاد اوس میںکسی قسم کی دست درازی نہ کرے مصالحت کرلی اور اس واقعہ کے بعد مالک بن نویرہ اور وکیع بن مالک اس سے علیحدہ ہو کر اپنی قوم میں چلے گئے۔ سجاح نے انہیں باز رکھنے کی بہتیری کوشش کی۔ لیکن بالآخر ان کی اعانت سے دست بردار ہونا پڑا۔
سجاح کی فوج کشی یمامہ پر
سجاح نے اسی رات ایک مسجع عبارت تیار کی اور صبح کے وقت فوج کے سرداروں کو جمع کر کے کہنے لگی کہ اب میں وحی الٰہی کی ہدایت کے بموجب یمامہ پر حملہ کرنا چاہتی ہوں۔ یمامہ وہ جگہ تھی جہاں مسیلمہ کذاب مشہور مدعی نبوت کوس انا ولا غیری بجا رہا تھا۔ سجاح فوج کثیر کے ساتھ ارض یمامہ کی طرف روانہ ہوئی۔ ادھر امیر المومنین ابو بکر صدیق ؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک لشکر جرار کے ساتھ سجاح کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا۔ شرحبیل بن حسنہ اور حضرت عکرمہ ؓبن ابی جہل بھی ساتھ تھے۔خالدؓ آگے بڑھے تو خبر ملی کہ اسلام کے دو مشترک
دشمن باہم نبرد آزما ہونے کو ہیں تو وہاں سے پیچھے ہٹ آئے۔
جب مسیلمہ کو سجاح کے دعویٰ نبوت اوراس کے لشکر کے سر پر آپہنچنے کی اطلاع ملی تو اس کی کشتی خاطر دریائے اضطراب میں ہچکولے کھانے لگی۔ مسیلمہ نے یہ خیال کر کے کہ اگر سجاح سے تعرض کیا جائے گا اوراس سے مڈبھیڑ کی نوبت آئے گی تو ادھر ثمامہ بن اثال یمامہ میں اس ضرور چھیڑ چھاڑ کرے گا اور دوسری طرف شرحبیل بن حسنہ بھی عساکر اسلام کو لے کر شبخون اور غارتگری پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اس لئے اس نے آج کل کی یورپین قوموں کی طرح حرب وپیکار کے بجائے عیاری و کیادی سے کام لینا چاہا۔ چنانچہ سجاح کے پاس ہدایا و نفائیس بھیج کر اس سے دوستی پیدا کرنے کا ڈھنگ ڈالا اور کہلا بھیجا کہ پہلے عرب کے کل بلاد نصف ہمارے تھے اورنصف قریش کے۔ لیکن چونکہ قریش نے بدعہدی کی۔ اس لئے وہ نصف میں تمہیں دیتا ہوں اور یہ بھی پیغام دیا کہ مجھے آپ کی ملاقات کا کمال اشتیاق ہے۔ اگر حاضری کی اجازت ہو تو بڑی زرہ نوازی ہوگی۔ سجاح نے ملاقات کی اجازت دی۔
عشق و محبت کی کمند میں پھانسنے کی تدبیر
مسیلمہ بنی حنیفہ کے چالیس ہوشیار پیرووں کو ساتھ لے کر سجاح کے پاس پہنچا اور بڑے تپاک اور الفت سے ملا۔ اس کی صورت و سیرت اور صباحت و ملاحت کا نظر غائر سے مطالعہ کیا اور حالات گرد و پیش کا اندازہ کر کے یقین ہو گیا کہ اس سے جنگ و جدال کے ذریعہ سے پیش پانا دشوار ہے۔ عورت ذات عشق و محبت کے کمند میں پھنسا کر ہی رام کی جا سکے گی۔ مسیلمہ نے سجاح سے درخواست کی کہ آپ میری دعوت قبول کریںاور میرے خیمہ تک تشریف لے جا کر مجھے سرفراز فرمائیں۔ وہیں پہنچ کر میں آپ کی رنگین بیانی سے فائدہ اٹھائوں گااور اسی مقام پر ہم دونوں اپنی اپنی نبوت کا تذکرہ درمیان میں لائیں گے۔ سجاح جو پیرایہ حزم و دور اندیشی سے بالکل عاری تھی فوراً رضامند ہو گئی اور یہ بھی وعدہ کر لیا کہ دونوں کے آدمی خیمہ سے دور رہیںگے۔ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اس کامیابی پر اس پیرفرتوت کی باچھیں کھل گئیں اور چشم دل حصول مقصد کے نور سے روشن ہو گئی۔ مسیلمہ ملاقات کر کے واپس آیااور جوش مسرت اور فرط انبساط سے پھولا جامے میں نہ سماتا تھا۔ حکم دیا کہ ایک نہایت خوش نما اور پر تکلف خیمہ فوراً نصب کیا جائے۔ اس حکم کی آناًفاناً تعمیل ہوئی۔ مسیلمہ نے اس محبوب دلنواز کا کشور دل فتح کرنے کے لئے اسے اعلی قسم کے اسباب عشرت اور سامان زینت سے آراستہ کیا۔انواع و اقسام کے عطریات مہیا کئے اور خیمہ کو ہر طرح سے بنا چنا کے حجلہء عروسی بنا دیا۔ جب تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں تو حور طلعت سجاح بن سنور
کے اور جوبن نکھار کے حسن و لطافت کے پھول برساتی معشوقانہ انداز کے ساتھ خراماں خراماں آپہنچی۔ مسیلمہ نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نہایت نرم اور گدگدے ریشمین گدیلے پر بٹھایا اور اس سے میٹھی میٹھی باتیں شروع کیں۔ خوشبو کی لپٹوں نے سجاح کو مست و مسرور کر دیا تھا۔ مسیلمہ جانتا تھا کہ جب عورت خوشبو سے مست ہوتی ہے تو وہ مرد کی طرف جلد مائل ہوتی ہے اور گو مسیلمہ اس وقت نہایت سن رسیدہ تھا۔ لیکن اس کے قویٰ کچھ زیادہ مضمحل نہ ہوئے تھے۔ مسیلمہ نے کہا اگر جناب پر حال ہی میں کوئی وحی نازل ہوئی ہو تو سنایئے۔ سجاح بولی نہیں۔پہلے آپ اپنی وحی کے الفاظ سنائیں۔ کیونکہ میں پھر بھی عورت ذات ہوں۔اس جواب سے مسیلمہ بھانپ گیا کہ سجاح میں نبوت کا حوصلہ اس کی نسبت بہت پست ہے اور سجاح کی پیغمبری بھی اس کے دعوئے نبوت کی طرح محض بناوٹی اور خانہ ساز ہے۔
چٹ منگنی پٹ بیاہ
اب مسیلمہ اپنی نبوت سے محبت و عشق بازی کا کام لینے لگااور بولا مجھ پر یہ وحی اتری ہے۔ الم ترالی ربک کیف فعل بالحبلے اخرج منہانسمۃ تسعی بین صفاق وحشی! کیا تم اپنے پروردگار کو نہیں دیکھتے کہ وہ حاملہ عورتوں سے کیا سلوک کر تا ہے۔ ان سے چلتے پھرتے جاندار نکالتا ہے جو نکلتے وقت پردوں اور جھلیوں کے درمیان لپٹے ہوتے ہیں۔
چونکہ یہ وحی بمقتضائے جوانی سجاح کی نفسانی خواہشوں سے مطابقت رکھتی تھی۔ شباب کی امنگوں نے گد گدانا شروع کیا اور بولی اچھا کوئی اور وحی بھی سنایئے۔ جب مسیلمہ نے دیکھا کہ اس نازنین نے اتنی نوک جھونک کو گوارا کر لیا اور برا ماننے کے بجائے خوش ہوئی تو اس کا حوصلہ اور بڑھا۔ تکلف، شرم اور جھجک کا پردہ درمیان سے اٹھ گیا اور کہنے لگا حق تعالیٰ نے یہ آیتیں بھی نازل فرمائی ہیں: ان اللہ خلق للنساء افراجاً وجعل الرجال لھن ازواجاً فتولج فہن ایلا جاًثم نخرجنا اذانشاء اخراجاً فینتجن لنا سخالاً انتاجاً! (ابن اثیر ج۲ ص۲۱۳) وغیرہ چونکہ مضمون سخت فحش ہے۔ اس لئے ترجمہ قلم زد کر دیا گیا۔
اس شرمناک اور شہوت انگیز ابلیسی وحی نے سجاح پر پورا پورا اثر کیا۔اب کیا تھا۔ مسیلمہ کی منہ مانگی مراد پوری ہوئی۔ کہنے لگا۔ سنو خدائے برتر نے نصف زمین مجھے دی تھی اور نصف قریش کو۔ مگر قریش نے ناانصافی کی۔ جس کی وجہ سے رب العزت نے قریش سے ان کا نصف حصہ چھین کر تمہیں عطا کر دیا۔ لیکن کمال صدق و اخلاص سے کہتا ہوں کہ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ تم مجھے اپنی ہم نشینی کیلئے قبول کرو اور ہم تم دونوں باہم عقد کرلیں۔ کیونکہ اگر ہماری یہ دونوں فوجیں مل
گئیں تو ہم سارے عرب پر قبضہ کر لیںگے۔ اب اس کمزور دل عورت پر مسیلمہ کا جادو پوری طرح چل چکا تھا۔ بولی مجھے منظور ہے۔ یہ حوصلہ افزا جواب سن کر مسیلمہ کے دل کا کنول کھل گیااور وفور مسرت سے کہنے لگا۔ پھر دیر کاہے کی ہے؟۔ آئوذرا گلے لگ جائو۔ اب گستاخی و بیحیائی کا حوصلہ اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ مسیلمہ مندرجہ ذیل نشاط انگیز، مہیج اور نہایت فحش اشعار زبان پر لایا:الاقومی الی المجذع، فقد ھیئی لک المضجع، فان شئت فرشناک وان شئتی علی اربع، وان شئتی بثلثیہ، وان شئتی بہ اجمع! اس کے بعد چند، ان سے بھی زیادہ فحش اشعار زبان پر لایا۔ سجاح خوشبوئوں سے پہلے ہی برانگیختہ ہو چکی تھی۔ فواحشات نے اسے اور بھی دو آتشہ کر دیا۔ چنانچہ نظام حواس درہم برہم ہو گیا اور شرم کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ ہوائے دل ہوس راشد عناں گیر شکیب از سینہ بیروں جست چوں تیر۔ آخر بی حیائی کا منہ کھول کر بے خود وار کہنے لگی۔ اچھا اپنی خواہش جس طرح چاہو پوری کر لو۔ یہ سن کر مسیلمہ کا نخل امید بارور ہوا اور نہایت مسرت کے لہجہ میں مسکرا کر کہنے لگا۔ ہاں مجھے بھی ایسا ہی کرنے کا حکم ملا ہے۔ الغرض ہر دو شیفتگان محبت نے ’’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘‘ کے مشہور مقولہ پر عمل کر کے باہمی رضا مندی سے چٹ منگنی پٹ بیاہ کی مثل پوری کر دکھائی اور بغیر کسی کو اطلاع کئے اندر ہی اندر باہم عقد کر لیا۔
دلہا دلہن بساط عیش پر
باہر دونوں مدعیان نبوت کے پیرو انجام ملاقات معلوم کرنے کے لئے چشم برراہ اور گوش بر آواز بنے ہوئے تھے اور خوش اعتقاد امتی یہ گمان کر رہے تھے کہ ہر مسئلہ پر بہت کچھ ردوقدح ہو رہی ہو گی اور بحث و اختلاف کے تصفیہ کے لئے وحی خداوندی کا انتظار کیا جاتا ہوگا۔ مگر یہاں دونوں پر شوق دلہا دلہن بساط نشاط اور سریر طرب پر بیٹھے بہارکامرانی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ شوق وصال اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ تین دن تک باہر نہ نکلے۔ خصوصاً مسیلمہ کی بلند طالعی کا کیا کہنا ہے کہ جسے آفتاب حیات کے لب بام آنے پر بھی سجاح جیسی ہمپایہ محبوبہ گلغدار کی دولت وصل میسر ہوئی اور جس نے اس پیر فرتوت کے مردہ دل کو حیات تازہ بخشدی اور اس نیرنگ ساز کی قدرت کے کرشمے دیکھو کہ جس نے دشمن خونخوار کو محبوب دلنواز کی حیثیت سے پہلو میں لا بٹھایا۔
سجاح کا مہر
جب تین روز کے بعد ارمان بھرے دلوںکی آرزوئیں پوری ہوگئیں تو سجاح اپنی نبوت کو خاک میں ملا کر اور مسیلمہ سے شکست کھا کر عرق انفعال میں ڈوبی اپنے لشکر میں واپس آئی۔ اس کے سرداروں اور فوجیوں نے جن کے صبر و انتظار کا پیالہ لبریز ہو چکا تھا۔ صورت دیکھتے ہی
پوچھا کہ مسیلمہ سے کیا ٹھری؟۔اس نے جواب دیا کہ وہ بھی نبی برحق ہے۔میںنے اس کی نبوت تسلیم کر کے اس سے نکاح کر لیا ہے۔ کیونکہ تمہاری مرسلہ کو ایک مرسل کی اشد ضرورت تھی۔ انہوں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ مہر کیا قرار پایا؟۔ سجاح نے شرمگین آنکھیں نیچی کر لیں۔نادم چہرہ زمین کی طرف جھک گیااور نہایت سادگی کے عالم میں کہنے لگی کہ میں مسیلمہ سے یہ بات پوچھنا تو بھول ہی گئی۔ معتقدوں نے بصد نیاز عرض کیا حضور بہتر ہے کہ آپ اسی وقت تشریف لے جا کر اپنے مہر کا تصفیہ کر لیجئے۔ کیونکہ کوئی عورت مہر کے بغیر اپنے آپ کو کسی کی زوجیت میں نہیں دیتی۔ سجاح جو اپنا جوہر عصمت بے داموں بیچ چکی تھی۔ ان کے مجبور کرنے سے اس وقت خجلت زدہ پلٹی۔ لیکن اس اثناء میں مسیلمہ نہایت شتاب زدگی کے ساتھ رخصت ہو کر اپنے قلعہ میں متحصن ہوچکا تھا اور دروازے بند کر لئے تھے۔ وہ دل میں اس بات پر سہما ہوا تھا کہ مبادا سجاح کے پیرو اس عقد کو اپنی توہین خیال کر کے اس پر یورش کر دیں۔ سجاح قلعہ پر پہنچی۔ جب دروازے پر پہنچ کر اطلاع کرائی تو مسیلمہ کو اس قدر خوف دامن گیر ہورہا تھا کہ اسے باہر آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ چھت پر آکر سامنے کھڑا ہو اور پوچھا اب کس لئے آنا ہوا؟۔ سجاح کہنے لگی مجھ سے نکاح تو ہوا۔ مگر میرا مہر تو بتائو؟۔مسیلمہ نے دریافت کیا۔ تمہارے ساتھ تمہارا مناد بھی آیا ہے؟۔ سجاح نے جواب دیا ہاں شیث بن ربیع میرا مؤذن موجود ہے۔مسیلمہ نے اس سے کہا تم جا کر منادی کر دوکہ محمد ﷺ خدا کے پاس سے پانچ نمازیں لائے تھے۔ رب العزت نے ان میں سے عشاء اور صبح کی نمازیں مومنوں کو سجاح کے مہر میں معاف کر دیں۔
سجاح یہ مہر پا کر واپس چلی تو اس کے اصحاب کبار میں سے عطا ابن حاجب، عمرو ابن ایہم، غیلان ابن خرشہ اور اس کا مؤذن شیث بن ربیع نہایت خاموش اور شرمسار اس کے ہمراہ رکاب جا رہے تھے۔ عطا بن حاجب نے اپنی حالت پر غور کیا تو اسے استعجاب سا معلوم ہوا اور اس نے یہ شعر پڑھا:
امست نبینا انثی نطوف بھا واصبحت انبیاء الناس ذکرانا! ہماری پیغیبر عورت ہے۔ جسے ہم ساتھ لئے پھرتے ہیں۔ حالانکہ اور لوگوں کے پیغمبر مرد ہوتے ہیں۔
شرائط صلح
مسیلمہ سے صلح تو ہو گئی تھی۔ دوسرے دن شرائط صلح کے متعلق گفتگو شروع ہوئی۔ مسیلمہ نے کہا میں تمہیں علاقہ یمامہ کے ایک سال کے محاصل دیتا ہوں۔ نصف تو اب لے لو اور باقی نصف کے لئے اپنا کوئی مختار چھوڑ جائو۔ سجاح نے یہ شرط قبول کر لی اوراپنے معتمدین میں سے
ہذیل، عقبہ اور زیاد کو یمامہ میں چھوڑ کر خود اپنا لاؤ لشکر لئے جزیرہ کی طرف واپس روانہ ہوئی۔ اتفاق سے حضرت خالدؓ بن ولید اسلامی لشکر لئے ہوئے اس سے سرراہ ملاقی ہوئے۔ سجاح کی فوج اسلامی لشکر کو دیکھتے ہی بد حواس ہو کر بھاگی اور خود سجاح جزیرہ میں جا کر مقیم ہو گئی۔حضرت خالد بن ولیدؓ علم اسلامی لئے ہوئے یمامہ پہنچے۔ مسیلمہ قتل ہوااور جن لوگوں کو سجاح ملک کی نصف آمدنی وصول کرنے کے لئے یمامہ میں چھوڑ گئی تھی۔ وہ پہلے ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔
سجاح کا قبول اسلام
سجاح کے بہت سے سمجھ دار امتی نکاح کے واقعہ سے بداعتقاد ہو کر اس سے الگ ہوگئے تھے اور اس دن سے اس کی جمعیت میں بجائے ترقی کے انحطاط شروع ہو چلا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے دارلخلافہ مدینہ پر حملہ کرنے کا خیال ہمیشہ کے لئے دل سے نکال دیا۔آخر کار وہ قبیلہ بنی تغلب میں جس سے وہ نانہالی قرابت رکھتی تھی۔ رہ کر امن و امان اور خموشی کی زندگی بسر کرنے لگی ۔ یہاں تک کہ جب حضرت امیر معاویہؓ کا زمانہ آیاتو ایک سال سخت قحط پڑا جس میں انہوں نے بنی تغلب کو بصرہ میں آباد کرایا۔ سجاح بھی ان کے ہمراہ بصرہ میں آگئی اور اس نے اور اس کی ساری قوم نے اسلام قبول کر لیا۔ سجاح سے مسلمان ہونے کے بعد پوری دینداری اور پرہیز گاری ظاہر ہوئی اور اس نے اسی حالت ایمان میں تو سن حیات کی باگ ملک آخرت کو پھیر دی۔ حضرت سمرہ ابن جندبؓ نے جو حضور سرور کائنات ﷺ کے صحابی اور ان دنوں بصرہ کے حاکم تھے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
(الکامل فی التاریخ،ج۲ص۲۱۶)
باب۶ … مختار ابن ابو عبید ثقفی
فصل:۱…خارجی سے شیعہ بننے کے اسباب
مختار کے والد حضرت ابوعبید مسعود ثقفیؓ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے۔ مگر یہ خود فیض یاب خدمت نہ تھا اور گوذی علم آدمی تھا۔ لیکن اس کا ظاہر باطن سے متغائر اور افعال و اعمال تقویٰ سے عاری تھے۔اوائل میں خارجی المذہب تھا اور اسے اہل بیت نبوت سے جو بغض و عناد تھا۔ اس کا اندازہ اس تحریک و تجویز سے ہو سکتا ہے جو اس نے حضرت امام حسن مجتبیٰؓ کے خلاف اپنے چچا کے سامنے پیش کی تھی۔
امام حسن مجتبیٰؓ پر قاتلانہ حملہ
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ امیر المومنین علی مرتضی کرم اللہ وجہہ،صفین سے مراجعت
فرمائے کوفہ ہونے کے بعد ازسر نو تجہیز لشکر میںمصروف ہو گئے تھے اور چالیس ہزار آدمیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور عہد کیا تھا کہ مدت العمر حضرت خلافت مآبؓ کا ساتھ نہ چھوڑیںگے۔ بعد میں یہ لوگ شیعان علیؓ کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت امیر المومنین علی ؓ شام کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ آپ کو کوفہ میں جرعہ شہادت پلا کر روضۂ رضوان میں پہنچا دیا گیا۔ جناب علی مرتضیٰؓ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادہ حضرت حسن مجتبیٰؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔اس وقت جناب حسن مجتبیٰؓ نے بیعت کرنے والوں سے یہ شرط کی کہ وہ لوگ ہر حالت میں اطاعت پذیر رہیں گے۔ جس سے صلح کروں اس سے صلح کریں گے اور جس سے جنگ کروں اس جنگ آزماہوںگے۔اس شرط پر شیعان علیؓ آپ کی طرف سے بدگمان ہوگئے اور کہنے لگے۔ یہ ہمارے مفید مطلب نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کا ارادہ جنگ آزما ہونے کا ہی معلوم نہیں ہوتا۔ حضرت حسن ؓ کی بیعت کو تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ ایک شیعہ صاحب نے آپ پر برچھی کا وار کر دیا(تاریخ طبری ج۲ص۲۱۶) جو اوچھا پڑا۔ آپ زخمی ہوئے۔ مگر بچ گئے۔ حضرت امام حسنؓ شیعان علیؓ کی اس شقاوت پسندی پر سخت ملول ہوئے۔ لیکن ضبط و تحمل سے کام لے کر خاموش ہو گئے۔
حضرت حسن مجتبیؓ کا مال واسباب لوٹ لیا
اس اثناء میں آپ کو اطلاع ملی کہ امیر معاویہؓ فوج گر ان کے ساتھ دارلخلافہ کوفہ پر حملہ آور ہونے کے لئے شام سے چل پڑے ہیں۔ یہ سنتے ہی امام حسن مجتبیؓ بھی اس لشکر کی معیت میں جس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ امیر معاویہؓ کے مقابلہ کے لئے روانہ ہوئے۔ جب امیر معاویہؓ کی فوج مسکن کے مقام پر پہنچی تو امام حسنؓ نے اس وقت مدائن میں نزول اجلال فرمایا۔ جناب حسنؓنے حضرت سعدابن عبادہ انصاریؓ کے صاحبزادہ قیسؓ کو بارہ ہزار فوج کے مقدمتہ الجیش کا سردار بنا کر لشکر شام کے مقابلہ میں روانہ فرمایا۔ خود امام حسنؓ ابھی مدائن ہی میں اقامت گزیں تھے کہ کسی نے بآواز بلند پکار دیا کہ قیسؓ ابن سعدؓ شہید ہو گئے۔ یہاںسے بھاگ چلو۔ یہ سنتے ہی شیعان علیؓ جناب حسن مجتبیؓ کے خیمہ میں گھس گئے اور آپ کا مال و اسباب لوٹنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ جس فرش پر آپ تشریف فرما تھے۔ اسے بھی آپ کے نیچے سے کھینچ لیا گیا۔ حضرت حسن مجتبیؓ بے یارومددگار مدائن کے مقصورہ بیضاء میں جا پناہ گزین ہوئے۔
(تاریخ طبری ج۳ص۱۶۵)
امام حسنؓ کو گرفتار کر کے امیر معاویہؓ کے حوالہ کرنیکی ترغیب
ان دنوں حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفیؓ کے بھائی سعد ابن مسعود ثقفی مدائن کے حاکم
تھے اورمختارابن ابو عبید ثقفی بھی جس کا نام زیب عنوان ہے مدائن میں تھا۔ حضرت حسنؓ کو عالم بیکسی میں دیکھ کر اپنے چچا سعد ابن مسعود ثقفی سے کہنے لگا کہ چچا صاحب!اگرآپ کو ترقی جاہ واقتدار کی خواہش ہو تو میں ایک آسان ترکیب بتاتا ہوں۔ جناب سعد نے کہا وہ کیا ہے؟۔بولا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما تن تنہا ہیں۔ ان کو گرفتار کر کے معاویہؓ کے پاس بھیج دیجئے۔ چچا نے کہا۔خدا تجھ پر لعنت کرے۔ کیا میں رسول خدا ﷺ کے فرزند پر حملہ کروں اور ان کو گرفتار کرلوں؟۔ تو تو بہت ہی براآدمی ہے۔(ایضاً)جب جگر گوشئہ بتولؓ نے حضرات شیعہ کی یہ ’’شفقتیں‘‘ دیکھیں۔ جن کا اوپر ذکر ہوا اور اپنے آپ کو بے یارومددگار پایا تو مجبوراًامیر معاویہؓ سے مصالحت کر کے ان کے حلقہء اطاعت میں داخل ہوگئے۔
مختار کی تبدیلی مذہب
جن ایام میں مختار نے اپنے چچا کو حضرت حسن مجتبیؓ کی گرفتاری کا شرمناک مشورہ دے کر اپنی مکارانہ ذہنیت کا ثبوت دیا تھا۔ ان دنوں وہ خارجی مذہب کا پیرو تھا اور اہل بیت نبوت کا سخت عناد رکھتا تھا۔لیکن امام حسینؓ کی شہادت کے واقعہ ہائلہ کے بعد جب اس نے دیکھا کہ مسلمان کربلا کے قیامت خیز واقعات سے سخت سینہ ریش ہو رہے ہیں۔اور استمالت قلوب کا یہ بہترین موقع ہے اور اس نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ اہل بیت کا بغض وعناد اس کے بام ترقی پر پہنچنے میں سخت حائل ہے۔ تو اس نے خارجی پنتھ سے دست بردار ہو کر حب اہل بیت کا دم بھرنا شروع کردیا۔ ان ایام میں وہ نفعا نام ایک گاؤں میںسکونت پذیر تھا۔ جب سنا کہ امام حسین ؓ کے عم زاد بھائی مسلم بن عقیل کوفہ آئے ہیں۔ تو وہ اپنے ہوا خواہوں کو لے کر کوفہ پہنچا۔ عبید اللہ ابن زیاد نے جو یزید کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا۔ عمرو ابن حریث نام کے ایک شخص کو جھنڈا دے کر کوفہ کی جامعہ مسجد میںبٹھا رکھا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر مختار پر کچھ بد حواسی طاری ہو گئی اور سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے۔ یہ دیکھ کر عمروہ ابن حریث نے اس کو اپنے پاس بلایا اور امان دی ۔جاسوسوں نے ابن زیاد کو اطلاع کر دی تھی کہ مختار، مسلم ابن عقیل کی مدد کے لئے آیا ہے۔ اس لیے مختار کو بلا بھیجا۔ جب وہ حاضر ہوا تو کہنے لگا۔ کیا تم وہی شخص ہوجوابن عقیل کے لئے جماعتیں لے کر آئے ہو؟۔مختار نے کہا ہرگز نہیں۔ میں تو یہاںآکرعمرو کے جھنڈے تلے مقیم ہوں۔گوعمروابن حریث نے اس کی تصدیق کی۔ مگر ابن ذیاد نے اس کے منہ پر اس زور سے تھپڑ رسید کیا کہ اس کی آنکھ زخمی ہو گئی اور کہنے لگا اگر عمرو کی شہادت نہ ہوتی تو میں تم کو خنجر خونخوار کی نذر کردیتا۔اس کے بعد مختار کو قید کر دیا۔ اس سے پیشتر حضرت عبداﷲؓ ابن عمرؓنے مختار کی بہن صفیہ بن ابوعیبد سے نکاح کر لیا تھا۔مختار نے
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ کسی طرح میری رہائی کی کوشش فرمایئے۔حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے یزید کے پاس اس کی سفارش کی۔ یزید نے عبیداﷲ کے نام فرمان بھیجا کہ مختار کو چھوڑ دیا جائے۔ عبیداﷲ ابن زیاد نے اسے چھوڑ دیا۔ مگر یہ حکم دیا کہ تین دن کے اندر کوفہ سے چل دو۔ مختار کوفہ سے بری ہوکر حجاز کی طرف چلا گیا۔
ابن زیاد سے انتقام لینے کا عہد
جب مختار واقصہ سے آگے بڑھا توابن عرق سے اس کی ملاقات ہوئی۔اس نے آنکھ کا حال دریافت کیا۔ مختار نے کہا کہ ایک زانیہ کے بچے نے اس کو مجروح کر دیا ہے۔ پھر قسم کھائی کہ خدا مجھے ہلاک کرے۔ اگر میں ابن زیاد کے جسم کے تمام جوڑ الگ الگ نہ کر دوں۔ اس کے بعد کہنے لگا تم عنقریب سن لوگے کہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ ظاہر ہوا ہوں اور شہید مظلوم، سیدالمسلین ابن بنت رسول اللہ ﷺ یعنی حسینؓ ابن علیؓ کے خون کا انتقام طلب کرتا ہوں۔اس کے بعد کہنے لگا۔خداکی قسم!میںحسینؓ مظلوم کے بدلے میںاتنے ہی آدمیوں کی جانیں لوں گا۔ جس قدر کہ یحییٰ ابن زکریاعلیہ السلام کے خون کے بدلے قتل ہوئے تھے۔ یہ کہ مختار وہاں سے چل دیااورابن عرق محو حیرت رہ گیا۔ یہاں سے مختار نے مکہ معظمہ جا کر کچھ عرصہ تک اقامت کی اور یزید کی موت کے بعد جب اہل عراق نے حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تو ابن زبیرؓ کے پاس مزید پانچ مہینہ تک مکہ معظمہ میں مقیم رہا اور جب دیکھا کہ ابن زبیرؓ اس سے کسی کام میںاعانت نہیںچاہتے تو اس نے یہ کاروائی شروع کی کہ اہل کوفہ میں سے جوکوئی ابن زبیرؓ کے پاس آتا۔ اس سے اہل کوفہ کے خیالات و امیال کا حال دریافت کرنے لگتا۔ چنانچہ ایک دن وہاں کے ایک سربرآوردہ شخص نے بتایا کہ گو اہل کوفہ حضرت ابن زبیرؓ کی اطاعت میں راسخ قدم ہیں۔ لیکن ان میں ایک ایسی جماعت بھی موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ان کی رائے کے مطابق ان کو مجتمع کرئے تو تھوڑے ہی عرصہ میں روئے زمین کو فتح کر سکتا ہے۔مختار نے کہا خدا کی قسم! میں اس کام کے لئے موذوں ترین شخص ہوں۔ میں ان کے ذریعہ سے شہسواران باطل کو مغلوب کروں گا اور ہر گردن فراز سرکش کی گردن توڑ دوںگا۔ یہ کہہ کر وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اورکوفہ کی راہ لی۔ اثنائے سفر میں جن جن لوگوں میںسے گذرتا۔ ان کو سلام کر کے کہتا کہ تم کو نصرت و کشائیش کار مبارک ہو۔ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ تمہیں مل گیا ہے۔ بنو کندہ، بنو ہند، بن وہمدان وغیرہ قبائل میں جا کر بیان کیا کہ مجھے وصی کے بیٹے مہدی نے (یعنی حضرت محمد بن حنفیہؓ نے جو امیر المومنین علیؓ کے صاحبزادہ تھے)تم لوگوں کے پاس امین، وزیر، شیخ اور امیر بنا کر بھیجا
ہے اور حکم دیا ہے کہ ملحدین کو قتل کروں۔ اہل بیت اطہار کے خون کا انتقام لوں اور ضعفاء کو جابروں کے پنجہء ظلم سے نجات دلاؤں۔ لہٰذا تم لوگوں کا فرض ہے کہ قبول دعوت کا شرف اولیت حاصل کرو۔ ان قبائل نے اس دعوت کو لبیک کہا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
فصل:۲…ولایت کوفہ کو زیر نگیں کرنے کے جوڑ توڑ
کربلا کے خونین حوادث کے بعد عمرو ابن حریث کوفہ میں ابن زیاد کا قائم مقام تھا اور خود ابن زیاد بصرہ میں رہتا تھا جب ۶۴ھ میں یزید مرا اور اموی حکومت کا ڈھچر ڈھیلا پڑ گیا تو اہل کوفہ نے عمرو ابن حریث کو کوفہ کی حکومت سے برطرف کر کے حضرت عبد اللہ بن زبیر سے بیعت کر لی۔ جنہوں نے یزید کے بعد حجاز اور عراق کی عنان فرمانروائی اپنے ہاتھ میںلی تھی۔ جب یزید کو طعمۂ اجل ہوئے چھ مہینے کا عرصہ گزر گیا تو وسط رمضان میںمختار کوفہ پہنچا۔ اس کے ایک ہفتہ بعد حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کی طرف سے عبد اللہ ابن یزید انصاری کوفہ کے امیر اور ابراہیم ابن محمد ابن طلحہ خراج کوفہ کے والی مقرر ہو کر کوفہ پہنچے۔ مختارنے اہل کوفہ کو قاتلین امام حسینؓ سے جنگ آزما ہونے کی دعوت دینی شروع کی اور کہا کہ میں محمد بن حنفیہؓ کی طرف سے وزیر اور امین ہو کر تمہارے پاس آیا ہوں۔ مختار کوفہ کے محلوں اورمسجدوں میں جاتا اور امام حسینؓ اور دوسرے اہل بیت اطہار کے مصائب کا ذکر کر کے ٹسوے بہانے لگتا۔نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تحریک جڑ پکڑنے لگی اور رجوع خلائق شروع ہوا۔ عبداﷲ بن یزید انصاری حاکم کوفہ کو بتایا گیا کہ مختار ایک بڑی جمعیت بہم پہنچا کر کوفہ پر قبضہ کیا چاہتا ہے۔ عبد اللہ نے کہا کہ یہ خیال محض سوء طن پر مبنی ہے مختار امام حسینؓ کے خون کا مطالبہ کرتا ہے۔خدا اس پر رحم کرے اس کو چاہیئے کہ علانیہ اپنی جمعیت کے ساتھ نکلے اور ابن زیاد اور دوسرے قاتلین حسینؓ کا قلع قمع کر دے اور اگر ابن زیاد مختار سے برسر مقابلہ ہوا تو میں مختار کی ہر طرح سے امداد کروں گا۔
مختار کی اسیری و رہائی
چند روز کے بعد بعض اشراف کوفہ نے عبد اللہ ابن یزید انصاری اور ابراہیم ابن محمد ابن طلحہ کو بتایا کہ مختار خود تم لوگوں پر شہر ہی کے اندر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ اسے گرفتار کر کے زندان میں ڈال دو اور ساتھ ہی محبوس نہ کرنے کے انجام بد سے متنبہ کر دیا۔ چنانچہ انہوں نے مختار کو محبس میں ڈال دیا۔ کچھ دنوں کے بعد مختار نے حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کے پاس جن کے گھر میں اس کی ہمشیر تھی پیغام بھیجا کہ میں مظلوم اور مقید ہوں۔ عبداﷲ ابن یزید اورابراہیم ابن طلحہ سے سفارش کر کے مجھے محبس سے نکلوایئے۔ حضرت ابن عمرؓ نے ان دونوں کو اس کے لئے لکھ دیا
اورانہوں نے ان کی سفارش قبول کر کے مختار کو قید سے مخلصی بخشی۔ لیکن رہا کرتے وقت اس سے حلف لے لیا کہ پھر کبھی حیلہ جوئی اور بغاوت نہ کروںگااور اگر ایسا کروں تو مجھ پر لازم ہو گا کہ کعبہ معلی کے پاس جا کر ایک ہزار اونٹوں کی قربانی کروں اور اپنے تمام غلام اور لونڈیوں کو آزاد کروں۔
حلف کی خلاف ورزی کا عزم صمیم
قید سے رہا ہونے کے بعد مختار اپنے ایک دوست سے کہنے لگا۔ان کو خدا کی مار! یہ لوگ کیسے احمق ہیں۔ وہ اپنی حماقت سے سمجھ رہے ہیں کہ میں ان سے وفا کروں گا۔ انہوں نے مجھ سے حلف اٹھوایا ہے۔ لیکن اس حلف کو میںکبھی پورا نہ کروںگا۔ چنانچہ جب میں نے قسم کھائی تو اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ اس کے پورا کرنے کی نسبت اس کا توڑنا صد ہزار درجہ بہترہے اور ان لوگوں سے تعرض نہ کرنے کی بجائے ان پر حملہ کرنا اشد ضروری ہے۔ رہا اونٹوں کی قربانی اور غلاموں کی آزادی کا مسئلہ۔ سو یہ میرے لئے تھوکنے سے زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ میری زندگی کا نصب العین یہ ہے کہ کہ کسی طرح یہ کار عظیم و خطیر پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے۔ پھر خواہ میرے پاس ایک غلام بھی نہ رہے۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ مختار کے پیرووں کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ جناب عبداﷲ ابن زبیرؓ نے عبداﷲ ابن یزید اور ابراہیم ابن محمد کو معزول کر کے ان کی جگہ عبداﷲ ابن مطیع کو عامل کوفہ مقرر کر دیا۔جیسے ہی عبداﷲ ابن مطیع نے کوفہ میں قدم رکھا۔ اسے کہا گیا کہ مختار کی جمعیت بہت بڑھ گئی ہے اور وہ کوفہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ مختارکو قید کر کے اس کا فتنہ کا سدباب کر دیجئے۔
ابن مطیع نے مختار کو بلا بھیجا مگر وہ بیماری کر حیلہ کر کے اس کی گرفت سے بچ گیا۔ لیکن بیچارے ابن مطیع کو کیا معلوم تھاکہ یہ شخص تھوڑے ہی روز میں اس کے پرچم اقبال کر پامال کر دے گا۔ بہر حال جب حملہ کی تیاریاں مکمل ہو چکیں تو مختار نے خروج کاحکم دے دیا۔
امام محمد ابن حنفیہؓ کے جعلی خط سے مطلب براری
ایک شخص نے مختار سے کہا کہ شرفائے کوفہ نے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ ابن مطیع کیساتھ ہو کر تم سے لڑیں۔ البتہ اگر ابراہیم ابن اشتر ہماری دعوت قبول کر لے تو اس کی وجہ سے ہم اپنے حریف کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک بہادر سردار اور ایک شریف النفس باپ کا فرزند ہے اور اس کا قبیلہ بھی کثیر التعداد ہے۔یہ سن کر مختار نے چند آدمی بھیج کر اس سے شریک کار ہونے کی درخواست کی۔ ان لوگوں نے جا کر اس تعلق اورانس کو بھی کھول کر بیان کیا
جو ابراہیم کے والد کو حضرت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھا۔ ابراہیم نے جواب دیا کہ میں امام حسینؓ اوران کے اہل بیت کے خون کا انتقام لینے میںاس شرط پر تمہارا ساتھ دے سکتا ہوں کہ مجھے ہی والیء امر بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ آپ اس منصب کے اہل ہیں۔ لیکن اس لحاظ سے کہ مختار مہدی(حضرت محمد بن حنفیہ)کی طرف سے ہمارے پاس بھیجا گیا ہے اور وہی اس رزم و پیکار پر مامور ہوا ہے اور ہمیں اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ تمہارے والی امر بنائے جانے کی کوئی سبیل نہیں۔ابراہیم نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اور یہ سفارت ناکام واپس آئی۔ اب مختار نے ابراہیم کے نام ایک جعلی خط لکھا اور تین دن کے توقف کے بعد خود دس بارہ آدمیوں کو ساتھ لے کر ابراہیم کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ دیکھئے! یہ امیر المومنین محمد بن علی (امام محمد بن حنفیہؓ) کا خط ہے۔ وہی مہدی جو خدا کے انبیاء ورسل کے بعد آج روئے زمین میں افضل ترین خلق ہیں اور اس جلیل القدر انسان کے صاحبزادہ ہیں جو کچھ عرصہ پیشتر صفحہ ہستی کا بہترین آدمی تھا۔ وہ آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس کام میں ہماری اعانت کریں۔ ابراہیم نے وہ جعلی خط لے کر پڑھا۔ اس میں لکھا تھا منجانب محمد المہدی بنام ابراہیم بن مالک اشتر۔ سلام علیک! میں نے تم لوگوں کے پاس اپنا وزیر اور امین بھیج کر اس کو حکم دیا ہے کہ وہ میرے دشمن سے جنگ کرے اور میرے اہل بیت کے خون کا بدلہ لے۔ تم خود بھی اس کے ساتھ ہو جاؤ اور اپنے قبیلہ اور دوسرے اطاعت کیش لوگوں کوبھی لے جاؤ۔ اگر تم نے میری مدد کی اور میری دعوت کو قبول کیا۔ تو تم کو بڑی فضیلت حاصل ہو گی۔ ابراہیم نے اس خط کو پڑھ کر کہا کہ محمد ابن حنفیہؓ نے بارہا میرے پاس خط بھیجے ہیںاور میںنے بھی ان کو خطوط لکھے ہیں۔ ان خطوط میں وہ ہمیشہ اپنا اور اپنے والد ہی کا نام (محمد بن علی) لکھتے رہے ہیں۔ لیکن سمجھ میں نہیں آ تاکہ انہوں نے اس خط میں اپنی عادت مستمرہ کے خلاف اپنے والد محترم کے اسم گرامی کی جگہ اپنا لقب مہدی کیوں زیب رقم فرمایا؟۔ مختار کہنے لگا وہ زمانہ اور تھا اور یہ اورہے۔ ابراہیم نے کہا پھر یہ کیوںکر معلوم ہو کہ یہ خط انہوںنے بھیجوایا ہے؟۔ مختارکے تمام ساتھیوں نے اس کی شہادت دی کہ واقعی یہ خط حضرت محمد مہدی ہی نے بھیجا ہے۔ گو ان گواہوں کی وہی حیثیت تھی جو قادیانی ’’معجزات‘‘ کے شاہدان’’عدل‘‘ کی ہوا کرتی تھی۔ تاہم ابراہیم کو انکار و استرداد کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ صدر فرش سے ہٹ کر مؤدب ہو بیٹھا اور مختار کو صدر نشین کرکے اس سے بیعت کر لی۔اب ابراہیم نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے دوسرے متعلقین کو بلایا۔ جب سب جمع ہو چلے تو لائحہ عمل پر بحث ہوئی۔ آخر قرار پایا کہ بتاریخ ۱۴ ربیع الاول ۶۶ھ پنجشبنہ کی رات کو خروج کریں۔
فصل:۳…کوفہ کی تسخیراورولایتوں میں عمال کا تقرر
عبداﷲ ابن مطیع کو معلوم ہو چکا تھا کہ مختار عنقریب حملہ آور ہوا چاہتا ہے۔ اس لئے اس نے شرفائے شہر کی قیادت میں فوج اور پولیس کے آدمی بھیج کر شہر کی ناکہ بندی کر دی۔ اس انتظام کا یہ مقصد تھا کہ مختار اور اس کے پیرو خوفزدہ ہو کر خروج سے باز رہیں۔ لیکن جو لوگ مکمل تیاریوں کے بعد رزم و پیکار کے لئے بھپر رہے تھے۔ وہ بھلا اس انتظام سے کیونکر مرعوب ہو سکتے تھے؟۔ اس اثناء میں مختار نے نواح کوفہ کے ایک مقام پر تمام حربی تیاریاں مکمل کر لیں۔ یوم معہود کو مختار طلوع فجر تک فوج کی ترتیب و آراستگی سے فارغ ہوگیا۔ اور تڑکے ہی دونوں طرف سے حملہ ہوا۔ دن بھر تلوار چلی۔ آخر سرکاری فوج کو ہزیمت ہوئی اور مختار نے قصر امارت کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ تین دن تک جاری رہا۔ جب ابن مطیع کی قوت مدافعت بالکل جواب دے بیٹھی تواس کے ایک فوجی افسر شیث ابن ربعی نے اس سے کہا کہ اب اپنی اور اپنے ساتھیوں کی خیر منایئے۔ اس وقت نہ آپ اوروں کو بچا سکتے ہیں اورنہ اپنے تئیں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ابن مطیع نے کہا اچھا بتاؤ۔ کیا کیا جائے؟۔ شیث نے کہا میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے اور ہمارے لئے امان طلب کیجئے۔ابن مطیع نے جواب دیا کہ مجھے اس شخص (مختار) سے امان مانگتے ہوئے نفرت ہوتی ہے۔ خصوصاًایسی حالت میں جبکہ حجاز اوربصرہ ہنوز امیر المومنین(عبداﷲ ابن زبیرؓ) کے زیر نگیںہیں۔ شیث نے کہا۔ اگر یہی خیال ہے تو پھر آپ نہایت راز داری کے ساتھ کہیں نکل جایئے۔ بالفعل آپ کوفہ ہی میں کسی قابل اعتماد آدمی کے ہاں ٹھر سکتے ہیں۔ اس کے بعد موقع پا کر اپنے آقا کے پاس مکہ معظمہ چلے جایئے گا۔ دوسرے اشراف کوفہ نے بھی عبداﷲ بن مطیع کو یہی رائے دی۔ ابن مطیع قصر امارت سے نکل کر ابوموسیٰ کے مکان میں جا چھپا۔ اس کی روانگی کے بعد ابن مطیع کے آدمیوں نے دروازہ کھول دیا اور ابراہیم بن اشتر سے کہا کہ ہم امان چاہتے ہیں۔ اس نے کہا تمہیں امان ہے۔ یہ لوگ قصر سے نکلے اور مختار سے بیعت کر لی۔مختار قصر میں داخل ہوا اور وہیں رات بسر کی ۔ صبح کو شرفائے کوفہ اس سے مسجد اور قصر کے دروازہ پر ملاقی ہوئے اورکتاب اللہ ، سنت رسول اللہ اور اہل بیت کے خون کی انتقام جوئی پر بیعت کی۔اس کے بعد مختار اشراف کوفہ سے حسن سلوک کرتا رہا۔
ہزیمت خوردہ دشمن سے حسن سلوک
اس اثناء میں اسے بتایا گیا کہ ابن مطیع ابو موسی کے مکان میں ہے۔ یہ سن کروہ خاموش ہو گیامگر اس کی بلند ہمتی دیکھو کہ شام کے وقت ایک لاکھ درہم ابن مطیع کے پاس بھیج دیئے۔ اور کہلا بھیجا کہ اس کو اپنی ضروریات پر خرچ کرو۔ مجھے معلوم ہے جہاں تم اقامت گزیں ہو اور یہ بھی جانتا
ہوں کہ بے زری اور تہی دستی نے تمہیں شہر چھوڑنے سے روک رکھا ہے۔ لیکن اس حسن سلوک کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کسی زمانہ میں ان دونوں میں بڑی دوستی رہ چکی تھی۔ مختار نے کوفہ کے بیت المال میں نوے لاکھ کی رقم پائی جس میں سے اس نے ان پانچ سو تین بہادروں میں جو ابن مطیع کے محاصرہ قصر کے دوران میںلڑے پانچ پانچ سو درہم اور ان چھ ہزار متحاربین کو جو محاصرہ کے بعد ایک رات اور تین دن تک اس کے ساتھ رہے تھے دو دو سو درہم فی کس تقسیم کر دیئے۔
کون کون سے ملک مختار کے حیطۂ اقتدار میں آئے
اس فتح سے مختار حجاز مقدس اور بصرہ کی ولایت کو چھوڑ کر باقی ان تمام ممالک پر قابض ہوگیا جو حضرت عبداﷲ ابن زبیرؓ کے زیر نگین تھے۔ یہ وہ وقت تھا جبکہ اس نے اپنی اعلی ترین اوج و عروج کی تصویر اپنی آنکھوں سے دیکھ لی اور نظر آیا کہ اسلامی دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اس کے علم اقبال کے آگے سرنیاز جھکائے ہے۔ اب اس نے ابراہیم بن اشتر کے چچا عبداﷲ ابن حارث کو آرمینیا کی حکومت تفویض کی۔ عبدالرحمن بن سعید کو موصل کا گورنر بنایا۔ اسحاق ابن مسعود کو مدائن کی سرزمین دی۔ اسی طرح دوسرے علاقے بھی ممتاز سرداروں کے زیر فرمان کر کے سب کو اپنی اپنی حکومتوں پر روانہ کر دیا۔
یاد رہے کہ یہ عبد اللہ بن مطیع جسے مختار نے مغلوب کیا وہی عبداﷲ بن مطیع ہے جس سے امام حسینؓ کی کوفہ جاتے ہوئے ایک چشمہ پر ملاقات ہوئی تھی اور اس نے کہا تھا۔ اے ابن رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ نے ان اطراف میں کس طرح قدم رنجہ فرمایا؟۔ یہ کہہ کر آپ کو اپنے مکان پر لے گیا اور نہایت خاطر مدارات سے پیش آیا تھااور جب امام حسینؓ نے اس کو اپنے وجوہ قدوم سے مطلع کیا تو کہنے لگا۔ اے فرزند رسول اللہ! میں آپ کو حرمت اسلام کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اس خیال سے باز آئیے۔ میں آپ کو حرمت قریش اور حرمت عرب کا واسطہ دیتا ہوں کہ اس عزم سے درگذر فرمایئے۔ خداکی قسم! اگر آپ وہ چیز طلب فرمائیں گے جو بنو امیہ کے دست اقتدار میں ہے تو وہ آپ کو ہرگز زندہ نہ چھوڑیں گے۔آپ کو خدائے یگانہ کا واسطہ کوفہ جا کر اپنے آپ کو بنو امیہ کے دست بیداد میں نہ دیجئے۔ غرض بہت منت سماجت کی تھی۔ مگر امام حسینؓ نے بعض مجبوریوں کی بناء پر اس مخلصانہ درخواست کو مسترد فرما دیا تھا۔
فصل:۴… شہدائے کربلا کے قتل و استہلاک کا انتقام
کوفہ اور اس کے صوبجات پر عمل و دخل کرنے کے بعد مختار نے ان لوگوں کے خلاف دارو گیر کا سلسلہ شروع کیا جو امام حسینؓ اور خاندان نبوت کے دوسرے ارکان کے قتل و استہلاک
میں شریک تھے یا اس کے ذمہ دار تھے۔ اب ہر ایک کے وقائع ہلاک درج کئے جاتے ہیں۔
عبید اللہ ابن زیاد کی ہلاکت
عبید اللہ ابن زیاد وہی شقی ازلی ہے جس نے حضرت امام حسینؓ کا اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑا جب تک کہ اس کی خون آشامی نے انہیں ریاض فردوس میں نہ بھیج دیا۔ اس نے اہل بیت اطہار پر جن کی محبت جزء ایمان ہے۔ وہ ظلم توڑے کہ جن کو سن کر دل پاش پاش ہو جاتا ہے۔ یزیدی عہد بے دولت کے آغاز میں یہ شخص بصرہ کا حاکم تھا اور چونکہ یزید اس سے ناخوش تھا۔ اس کو بصرہ کی حکومت سے برطرف کر دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب امام حسینؓ نے اپنے عم زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ روانہ فرمایا اور ہزار ہا آدمیوں نے مسلمؓ کے ہاتھ پر امام حسین ؓ کی بیعت کی تو یزید نے جناب مسلمؓ کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی حکومت بھی ابن زیاد کو تفویض کر دی اور لکھا کہ میں تم سے خوش ہوں۔تم کوفہ جا کر وہاں کے حالات کی اصلاح کرو۔ اس شخص نے کوفہ جا کر حضرت مسلم بن عقیل کا نقش وجود جس بے دردی اور شقاوت کے ساتھ صفحہ ہستی سے محو کیا اور جس سفاکی کے ساتھ حضرت مسلم کے میزبان ہانی بن عروہ کی جان لی۔ اس کے بیان سے تاریخ کی روح لرز جاتی ہے۔ اسی شخص نے اپنے سپہ سالار عمرو بن سعد کو لکھا تھا کہ حسینؓ اور ان کے اہل بیت کے پاس دریائے فرات کا پانی نہ پہنچے دو۔ چنانچہ اس نے اس حکم کے بموجب پانچ سو سواروں کی ایک جمعیت دریا اور امام حسینؓ کے قیام گاہ کے درمیان حائل کر کے پانی پینے میں مزاحمت کی۔ یہی وہ شخص تھا جس نے عمرو بن سعد کو حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہل بیت کی جان ستانی کا حکم دیا تھا۔
بلندی سے گرا کر قاصدوں کی جان ستانی
یہی وہ شخص ہے جس نے حضرت امام حسینؓ کے قاصدوں کی نہایت سنگ دلی کے ساتھ جان لی تھی۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کی اطلاع ملنے سے پہلے امام حسینؓ نے کوفہ جاتے ہوئے قیس ابن مسہر صیدادی کے ہاتھ اہل کوفہ کے نام ایک خط روانہ فرمایا تھا۔قیس قادسیہ پہنچے تو حصین بن نمیر نے جو راستہ میں امام حسین ؓ کی مزاحمت کے لئے یزیدی فوجیں لئے پڑا تھا۔ ان کو گرفتار کر کے کوفہ بھیج دیا۔ ابن زیاد کی ناپاکی سیرت اور خبث ضمیر سے بھلا کسی عفو و در گذر کی کہاں امید ہو سکتی تھی۔ اس نے قیسؒ کو حکم دیا کہ قصر امارت کی بلند چھت پر چڑھ جاؤ اور(معاذاﷲ)کذاب ابن کذاب حسینؓ ابن علیؓ پر سب و شتم کرو۔ قیس اوپر چڑھ گئے اور خالق کردگار کی حمد وثناء کے بعد کہا۔ خدا کی قسم! حسین ابن علی ؓ روئے زمین کی تمام مخلوق میں بہترین
اور افضل ترین انسان ہیں۔ آپ مخدومۂ جہان حضرت فاطمہ زہراؓ بنت رسول اﷲﷺ کے صاحبزادہ ہیں۔ ان کی دعوت حق کو لبیک کہو۔ میں ان سے حاجر کے مقام پر جدا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے حضرت حسینؓ کی جگہ ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت بھیجی اور حضرت علی مرتضیؓ کے حق میں دعائے مغفرت کی۔ابن زیاد نے حکم دیا کہ اس شخص کو قصر کے نیچے پھینک دو۔ قصر امارت نہایت بلند تھا۔ان کو نیچے دھکیل دیا گیا۔ زمین پر پہنچ کر جسم پاش پاش ہو گیا اور آنکھیں بند کرتے ہی حوران جنت کی گود میں پہنچ گئے۔ حضرت امام حسینؓ کوہنوز اس سانحہ کا علم نہیں تھا کہ قیس کی روانگی کے بعد اپنے رضاعی بھائی عبد اللہ بن بقطر کو حضرت مسلم ابن عقیل کے پاس روانہ فرما دیا۔ امام ہمام کو اس وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مسلمؓ شہید ہو کر جنت الفردوس میں پہنچ چکے ہیں۔ حصین ابن نمیر نے عبد اللہ کو بھی گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیا۔ ابن زیاد نے قیس کی طرح ان کو بھی حکم دیا کہ قصر امارت پر چڑھ جاؤاور (معاذ اللہ) کذاب ابن کذاب پر لعنت کرو۔ اس کے بعد میں دیکھوں گا کہ تمہارے متعلق کیا فیصلہ کرنا چاہیے۔ وہ اوپر چڑھ گئے اور حضرت حسینؓ کے قدوم کا اعلان کر کے ابن زیاد پر لعنت کرنے لگے۔ وہ بھی ابن زیاد کے حکم سے قصر سے گرا دئے گئے۔ ان کی ہڈیاں چکنا چور ہو گئیں۔ ابھی کچھ رمق باقی تھی کہ ایک یزیدی آگے بڑھا اور ان کو ذبح کر کے واصل بحق کر دیا۔
ابن زیاد کی سیاہ دلی کا اندازہ ان جاںگسل واقعات سے بھی ہو سکتا ہے جو حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد رونما ہوئے۔
حضرت زینبؓ کا درد انگیز نوحہ وفغاں
جب شہدائے کربلا کی جاںستانی کے بعد عمر بن سعد حضرت امام حسینؓ کے اہل بیتؓ کو ابن زیاد کے پاس کوفہ لے چلا تو ان کو امام حسینؓ اور دوسرے شہداء کی پامال لاشوں کے پاس سے لے گزرا۔
خواتین اہل بیتؓ اس دردناک منظر کو دیکھ کر ضبط نہ کر سکیں۔ اور آہ وفریاد کی صدائیں بلند ہو گئیں۔ حضرت امام حسینؓ کی خواہر محترمہ جناب زنیبؓ نے رو کر کہا۔ اے محمدؐ! آپ پر آسمان کے فرشتوں کا درود و سلام! دیکھئے۔ بیچارے حسینؓ اس چٹیل میدان میں خون میں لتھڑے ہوئے، اعضا بریدہ پڑے ہیں۔ بدن ٹکڑے ٹکرے ہے۔ آپ کی بیٹیاں قیدی ہیں اور آپ کی اولاد مقتول بے کفن پڑی ہے۔ تیز ہوائیں ان پر خاک اڑا رہی ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ دوست دشمن کوئی نہ تھا جو ان کے درد انگیز نوحہ سے اشکبار نہ ہو گیا ہو۔
حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک ابن زیاد کے سامنے
اس کے بعد تمام شہداء کے سر کاٹے گئے۔ کل بہتر سر تھے۔ شمر ابن ذی الجوشن عمروابن حجاج اور قیس ابن اشعث یہ تمام سر ابن زیاد کے پاس لے گئے۔ حمید بن مسلم روایت کرتا ہے کہ حسینؓ کا سر، ابن زیاد کے روبرو رکھا گیا۔مجلس حاضرین سے لبریز تھی۔ ابن زیاد کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ چھڑی آپ کے لب مبارک پر مارنے لگا جب اس نے بار بار یہی حرکت کی تو حضرت زیدؓ ابن ارقمؓ چلا اٹھے!ان لبوں سے اپنی چھڑی ہٹا لے۔ قسم خدا کی!میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے لب مبارک ان ہونٹوں پر رکھتے تھے اور ان کا بوسہ لیتے تھے۔ یہ کہہ کر وہ زاروقطار رونے لگے۔ ابن زیاد بگڑ کر کہنے لگا۔ خدا تیری آنکھوں کو رلائے۔واﷲ اگر توبوڑھا ہو کر سٹھیا نہ گیا ہوتا تو ابھی تیری گردن مار دیتا۔حضرت زید ابن ارقمؓ یہ کہتے ہوئے مجلس سے چلے گئے کہ اے عرب آج کے بعد سے تم غلام ہو۔ تم نے ابن فاطمہؓ کو قتل کیا۔ ابن مرجانہ (ابن زیاد) کو حاکم بنایا۔ وہ تمہارے نیک انسان قتل کرتا اور تمہارے شریروں کو مقرب بناتا ہے۔ تم نے ذلت پسند کرلی۔ خدا انہیں مارے جو ذلت قبول کرتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ واقعہ خود یزید کی طرف منسوب ہے۔ مگر صحیح یہی ہے کہ ابن زیاد نے چھڑی لگائی تھی۔
اہل بیت نبوت کی شان میںشرمناک دریدہ دہنی
جب اہل بیت کا تباہ حال قافلہ ابن زیاد کے سامنے پیش ہوا تو اس وقت حضرت زینبؓ نے نہایت ہی حقیر لباس پہنا ہوا تھا۔وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ ان کی کنیزیں انہیں اپنے بیچ میں لئے تھیں۔ ابن زیاد نے پوچھا یہ کون بیٹھی ہے؟۔ حضرت زینبؓنے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ تین مرتبہ یہی سوال کیا ۔ مگر وہ خاموش رہیں۔ آخر ان کی ایک کنیز نے کہا کہ یہ جناب حضرت زینبؓ بنت فاطمہؓ ہیں۔ ابن زیاد کہنے لگا کہ اس خدائے ودود کا شکر ہے کہ جس نے تمہیں رسوااورغارت کر کے تمہارے خاندان کو بٹہ لگایا۔ حضرت زینبؓ نے جواب دیا کہ تمام تر حمد و ستائش اس ذات برتر کے لئے ہے جس نے محمدﷺ کے ذریعہ سے ہمیں عزت بخشی اور ہمیں پاک وصاف کیا۔ نہ کہ جیسا تو کہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ فاسق رسوا ہوتے ہیں۔ اور فاجروں کے نام کو بٹہ لگتا ہے۔ ابن زیاد نے کہا تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے خاندان سے کیا سلوک کیا؟۔ حضرت زینبؓ نے فرمایا کہ علم خداوندی میں ان کی شہادت مقدر تھی۔ اس لئے وہ اپنے مقتل میںپہنچے۔ لیکن عنقریب رب جلیل تجھے اور انہیں ایک جگہ مجتمع کر کے انصاف کرے گا۔یہ سن کر ابن زیاد برافروختہ ہوا اور عالم غیظ میں کہنے لگاکہ خدا نے تیرے سرکش سردار اور تیرے اہل بیت کے نافرمان باغیوں کی
طرف سے میرا کلیجہ ٹھنڈا کر دیا۔ یہ سن کر حضرت زنیبؓ اپنے تئیں سنبھال نہ سکیں۔ بے اختیار رو پڑیں اور کہا تو نے میرے بھائی اور دوسرے قرابت داروں کو قتل کر ڈالا۔ میرا خاندان مٹا ڈالا۔ میری شاخیں کاٹیں اور میری جڑ اکھاڑ دی۔ اگر انہی باتوں سے تیر کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے تو واقعی تو نے اپنی مراد پائی۔ ابن زیاد نے مسکرا کر کہا۔ یہ شجاعت ہے۔ تیراباپ بھی شاعر اور شجاع تھا۔ حضرت زینبؓ نے کہا عورت کو شجاعت سے کیا سروکار؟۔ میں جو کچھ کہہ رہی ہوں یہ رنج و غم کی آگ ہے جو میرے مجروح دل میں سلگ رہی ہے۔ حضرت زین العابدین علیؓ بن حسینؓعلیل ہونے کی وجہ سے قتل سے بچ گئے تھے۔ جب ابن زیاد نے ان کو دیکھا تو پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟۔ فرمایا علی بن حسینؓ ۔ کہنے لگا کیا اللہ نے علی بن حسینؓ کو ہلاک نہیں کیا؟۔ جناب زین العابدینؓ نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ ابن زیاد نے کہا تم بولتے کیوں نہیں؟۔ فرمایا میرا ایک بڑا بھائی تھا۔ اس کا نام بھی علی تھا (علی اکبر) لوگوں نے اسے شہید کر ڈالا۔ ابن زیاد بولا نہیں۔ یوں کہو خدا نے اسے ہلاک کیا۔ علی خاموش ہو گئے۔ابن زیاد نے کہا تم کیوں نہیں بولتے؟۔ اس پر زین العابدینؓ نے یہ آیت پڑھی:’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا۰ وما کان لنفس ان تموت الا باذن اﷲ‘‘ { خدا ہی موت کے وقت جانیں لیتا ہے۔ کوئی بھی بغیر اس کے اذن کے مر نہیں سکتا۔) اس پر ابن زیاد چلایا۔ خدا تجھے مارے تو بھی انہیں میں سے ہے۔ پھر اس کے بعد ابن زیاد نے چاہا انہیں بھی قتل کر ڈالے۔ لیکن زنیبؓ بیقرار ہو کر چیخ اٹھیں۔ میں تجھے خدا کا واسطہ دیتی ہوں۔ اگر تو مومن ہے اور اس لڑکے کو ضرور ہی قتل کرنا چاہتا ہے تو مجھے اسی کے ساتھ مار ڈال۔ امام زین العابدین نے بلند آواز سے کہا۔ اے ابن زیاد ! اگر تو ان عورتوں سے اپنا ذرا بھی رشتہ سمجھتا ہے تو میرے بعد ان کے ساتھ کسی متقی آدمی کو بھیجنا جو اسلامی معاشرت کے اصول پر ان سے برتاؤ کرئے۔ ابن زیاد دیر تک زینبؓ کو دیکھتا رہا۔پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔رشتہ بھی کیسی عجیب چیز ہے۔ واﷲ مجھے یقین ہے کہ یہ سچے دل سے لڑکے کے ساتھ قتل ہونا چاہتی ہے۔اچھا! لڑکے کو چھوڑ دو۔ یہ بھی اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ جائے۔
ابن عفیف کا واقعہ شہادت
اس کے بعد اجتماع کے لئے منادی کرائی گئی۔ لوگ جامع مسجد میں جمع ہوئے اور ابن زیاد نے منبر پر چڑھ کر یوںگوہر افشائی کی۔ہر قسم کی حمد و ثناء کا مستحق وہ پروردگار عالم ہے جس نے حق اوراہل حق کوغالب کیااور امیرالمومنین یزید اور اس کی جماعت کی عون و نصرت فرمائی اور کذاب ابن کذاب حسینؓ ابن علیؓ (معاذ اللہ) اور اس کی جماعت کو غارت کیا۔ یہ سن کر ایک نیک
نہاد مسلمان عبد اللہ ابن عفیف ازدی نام اٹھے اور اس بدنہاد کو مخاطب کر کے کہنے لگے۔ اے ابن مرجانہ! (مرجانہ ابن زیاد کی ماں کا نام تھا) کذاب ابن کذاب تو تو ہے اور تیرا باپ اور وہ جس نے تجھے والی بنایا۔ اے ابن مرجانہ! کیا تو انبیاء کی اولاد کو قتل کرتا ہے اور ساتھ ہی صدیقوں کا سا کلام کرتا ہے؟۔ ابن زیاد نے کہا۔ اسے میرے پاس پکڑ لاؤ۔ابن زیاد نے اس جرم ناآشنا کو جرم حق گوئی میں نہنگ شمشیر کے حوالے کر دیااور حکم دیا کہ اس کی نعش کو لٹکا دیا جائے۔چنانچہ نعش اطہر کو وہیں صحن مسجد میں لٹکا دیا گیا۔ پھر امام حسینؓ کے سر مبارک کی تمام شہر میں تشہیر کی گئی۔ اور کوفہ کی کوئی جگہ ایسی نہ تھی۔ جہاں اس کو پھرایا نہ گیا ہو۔
ابن زیاد کو بھائی اور ماں کی لعنت ملامت
جب عمر ابن سعد نے حضرت امام حسینؓ کے حادثہ شہادت کے بعد کوفہ کو مراجعت کی تو ابن زیاد نے اس سے کہا کہ عمر مجھے وہ خط دے دو جو میں نے تم کو حسینؓ کے قتل و استہلاک کے متعلق لکھا تھا۔ اس نے کہا۔ میں نے تمہارے حکم کی تعمیل کر دی تھی۔ اس نے کہا وہ چھٹی واپس دے دو۔ عمر نے کہا۔ وہ ضائع ہو چکی ہے۔ ابن زیاد نے کہا۔ نہیں ضرور دے دو۔ کہا وہ تلف ہو گئی تھی۔ ابن زیاد نے کہا وہ تمہیں ضرور دینی پڑے گی۔ عمر نے کہا وہ کربلا ہی میں چھوٹ گئی تھی اوراگر وہ چٹھی مدینے پہنچ گئی تو کم از کم میں تو معذور سمجھا جاؤںگا۔ اس کے بعد عمر بن سعد نے ابن زیاد سے کہا۔ خداکی قسم! میں نے تم کو حسینؓ کے بارہ میں بہت سمجھایا تھا اور نصیحت کی تھی۔ لیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ اس گفتگو کے وقت عبید اللہ بن زیاد کا بھائی عثمان بن زیاد بھی موجود تھا۔ وہ کہنے لگا کہ قتل حسینؓ سے تو کہیں یہ بہتر تھا کہ زیاد کی نسل کے ہر مرد کی ناک میں قیامت تک غلامی کی نکیل پڑی رہتی۔ اور مغیرہ کی روایت ہے کہ امام حسینؓ کی شہادت کے بعد ابن زیاد کی ماں مرجانہ نے اپنے بیٹے عبید اللہ سے کہا۔ او خبیث! تو نے ابن رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے۔ تجھے جہنم سے نکل کر کبھی جنت کی شکل تک دیکھنا نصیب نہ ہوگی۔
شہدا کے سر ہائے مبارک اور پسماندگان اہل بیتؓ کی دمشق کو روانگی
اس کے بعد ابن زیاد نے حضرت حسینؓ کا سر بانس پر نصب کر کے زحر بن قیس کے ہاتھ یزید کے پاس دمشق بھیج دیا۔ غاز بن ربیعہ کہتا ہے کہ جس وقت زحر بن قیس پہنچا۔ میں یزید کے پاس بیٹھا تھا۔ یزید نے اس سے سوال کیا۔کیا خبرہے؟۔ قاصد نے جواب دیا۔فتح ونصرت کی بشارت لایا ہوں۔ حسینؓ بن علیؓ اپنے اٹھارہ اہل بیت اور ۶۰ حمایتیوں کے ساتھ ہم تک پہنچے۔ ہم
نے انہیں بڑھ کر روکا اورمطالبہ کیا کہ اپنے آپ کو ہمارے حوالہ کر دیں۔ ورنہ لڑائی لڑیں۔ انہوں نے اطاعت پر لڑائی کو ترجیح دی۔ چنانچہ ہم نے طلوع آفتاب کے ساتھ ہی ان پر ہلہ بول دیا جب تلواریں ان کے سروں پر پڑنے لگیں۔ تو اس طرح ہر طرف بھاگنے اور جھاڑیوں اور گڑھوں میں چھپنے لگے جس طرح کبوتر باز سے بھاگتے اور چھپتے ہیں۔ پھر ہم نے ان سب کا قلع قمع کر دیا۔ اس وقت ان کے لاشے برہنہ پڑے ہیں۔ ان کے کپڑے خون میں تر بتر ہیں۔ ان کے رخسار غبار سے میلے ہو رہے ہیں۔ ان کے جسم دھوپ کی شدت اور ہوا کی تیزی سے خشک ہو رہے ہیں۔گدھوں کی خوراک بن گئے ہیں۔
یزید کے تاثرات
راوی کہتا ہے یزید نے یہ سنا تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ کہنے لگا۔ بغیر قتل حسینؓ کے بھی میں تمہاری اطاعت سے خوش ہو سکتا تھا۔ ابن سمیہ (یعنی ابن زیاد) پر خدا کی لعنت! واللہ اگر میں وہاں ہوتا تو حسینؓ سے ضرور درگذر کر جاتا۔خدا حسینؓ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ قاصد کو یزید نے کوئی انعام نہیں دیا۔
یزیدکے غلام قاسم بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ جب حضرت حسینؓ اور ان کے اہل بیت کے سر یزید کے سامنے رکھے گئے تو اس نے یہ شعر پڑھا:’’ یفلقن ھاما من رجالا عزۃ۰ علینا وھم کانوااعق واظلما‘‘ {تلواریں ایسوں کے سر پھاڑتی ہیں جو ہمیں عزیز ہیں۔ حالانکہ دراصل وہی حق فراموش کرنے والے ظالم تھے۔} پھر کہا واﷲ اے حسینؓ!اگر میں وہاں ہوتا تو تجھے ہرگز قتل نہ کرتا۔
حضرت حسینؓ کے سر کے بعد ابن زیاد نے اہل بیت کو بھی دمشق روانہ کر دیا۔ شمر ابن ذی الجوشن اور محضر ابن ثعلبہ اس قافلے کے سردار تھے۔ امام زین العابدین راستہ بھر خاموش رہے۔ کسی سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ یزید کے دروازے پر پہنچ کر محضر بن ثعلبہ چلایا۔ میں امیر المومنین کے پاس (معاذاﷲ) فاجر کمینیوں کو لایا ہوں۔ یزید یہ سن کر خفا ہوا۔ کہنے لگا۔ محضر کی ماں سے زیادہ کمینہ اور شریر بچہ کسی عورت نے نہیں جنا۔
پھر یزید نے شام کے سرداروں کو اپنی مجلس میں بلایا۔ اہل بیت کو بھی بٹھایا اور امام زین العابدین سے مخاطب ہوا۔اے علی! تمہارے ہی باپ نے میرا رشتہ کاٹا۔ میرا حق بھلایا۔ میری حکومت چھینناچاہی۔ اس پر خدا نے اس کے ساتھ وہ کیا جو تم دیکھ چکے ہو۔ امام زین العابدین نے جواب میں یہ آیت پڑھی:’’ ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی
انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبرا ھا۰ ان ذلک علے اللہ یسیر۰ لکیلا تا سواعلے ما فاتکم ولا تفرحوا بما اتا کم ۰واﷲ لا یحب کل مختال فخور‘‘ {تمہاری کوئی مصیبت بھی نہیں جو پہلے سے لکھی نہ ہو۔ یہ خدا کے لئے بالکل آسان ہے۔ یہ اس لئے کہ نقصان پر تم افسوس نہ کرو اور فائدہ پر مغرور نہ ہو۔ خدا مغروروں اور فخر کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔} یہ جواب یزید کو ناگوار ہوا۔ اس نے چاہا اپنے بیٹے خالد سے جواب دلوائے۔ مگر خالد کی سمجھ میںکچھ نہ آیا۔ تب یزید نے خالد سے کہا۔کہتا کیوں نہیں:’’ما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم و یعفواعن کثیر‘‘ {جو مصیبت آتی ہے خود تمہارے اپنے ہاتھوں آتی ہے اور بہت سی غلطیاں تو خدا معاف کر دیتا ہے۔}
حضرت زینبؓ کی بیباکانہ گفتگو
حضرت فاطمہؓ بنت علیؓؓ سے مروی ہے کہ جب ہم یزید کے سامنے بٹھائے گئے تو اس نے ہم پر ترس ظاہر کیا۔ ہمیں کچھ دینے کا حکم دیا۔ بڑی مہربانی سے پیش آیا۔ اسی اثناء میں ایک سرخ رنگ کا سیاہ دل شامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔امیر المومنین! یہ لڑکی مجھے عنایت کر دیجئے۔ اور میری طرف اشارہ کیا۔ اس وقت میں کمسن اور خوبصورت تھی۔ میں خوف سے کانپنے لگی اور اپنی بہن زینب کی چادر پکڑ لی۔ وہ مجھ سے بڑی تھیں۔انہوں نے پکار کر کہا۔ تو کمینہ ہے۔ نہ تجھے اس کا اختیار ہے نہ اسے (یزید کو)اس کا حق ہے۔ اس جرأت پر یزید کو غصہ آگیا۔ کہنے لگا تو جھوٹ بکتی ہے۔ واﷲ! مجھے یہ حق حاصل ہے اگر چاہوں۔ زنیبؓ نے کہا ہرگز نہیں! خدا نے تمہیں یہ حق ہرگز نہیں دیا۔ یہ بات دوسری ہے کہ تم ہماری ملت سے نکل جاؤ اور ہمارا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کر لو۔ یزید اور بھی زیادہ برا فروختہ ہوا۔ کہنے لگا۔ دین سے تیرا باپ اور تیرا بھائی نکل چکا ہے۔زنیبؓ نے جواب دیا۔کیا اللہ کے دین سے،میرے نانا کے دین سے،میرے باپ کے دین سے تو نے ، تیرے باپ نے، تیرے دادا نے، ہدایت نہیں پائی؟۔ یزید چلایا اے دشمن خدا! تو جھوٹی ہے۔ حضرت زینبؓ بولیں۔تو زبردستی حاکم بن بیٹھا ہے۔ظلم سے گالیاں دیتا ہے۔ اپنی قوت سے مخلوق کو دباتا ہے۔ حضرت فاطمہؓ بنت علیؓ کہتی ہیں۔ یہ گفتگو سن کر شاید یزید شرمندہ ہو گیا۔ کیونکہ پھر کچھ نہ بولا۔مگر وہ خدا نا ترس شامی پھر کھڑا ہوا۔ اوروہی بات کی۔ اس پر یزید نے غضبناک آواز میں اسے ڈانٹ پلائی۔دور رہو کمبخت! خدا تجھے ہلاک کرے۔ اس کے بعد دیر تک خاموشی رہی۔ پھر یزید شامی روساء و امراء کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا۔ان لوگوں کے بارے میںکیامشورہ دیتے ہو؟۔ بعضوں نے سخت کلامی کے ساتھ بدسلوکی کا مشورہ دیا۔ مگر نعمان ابن بشیر
نے کہا۔ان کے ساتھ وہی کیجئے جو رسول اﷲﷺ انہیں اس حال میں دیکھ کر کرتے۔ حضرت فاطمہؓ بنت حسینؓ نے یہ سن کر کہا۔ اے یزید! یہ رسول اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ اس نسبت کے ذکر سے یزید کی طبیعت بھی متاثر ہوگئی اور اس کے درباری اپنے آنسو نہ روک سکے۔ بالآخر یزید نے حکم دیا کہ ان کے قیام کے لئے علیحدہ مکان کا انتظام کر دیا جائے۔
ملکہ کی غمگساری
اس اثناء میں اس حادثہ فاجعہ کی خبر یزید کے گھر میں عورتوں کو بھی معلوم ہو گئی۔ ہند بنت عبداﷲ، یزید کی بیوی نے منہ پر نقاب ڈالا اور باہر آ کر یزید سے کہا۔امیرالمومنین! کیا حسین ابن فاطمہ بنت رسول اللہ کا سر آیا ہے؟۔ یزید نے کہا۔ہاں! تم خوب روؤ۔بین کرو۔رسول اللہ کے نواسے اور قریش کے اصیل پر ماتم کرو۔ابن زیاد نے بہت جلدی کی۔ قتل کر ڈالا۔ خدا اسے بھی قتل کرے۔ اس کے بعد یزید نے حاضرین مجلس سے کہا۔تم جانتے ہو یہ سب کس بات کا نتیجہ ہے؟۔ یہ حسینؓ کی اجتہادی غلطی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے سوچا کہ میرے باپ یزید کے باپ سے افضل ہیں۔ میری ماں یزید کی ماں سے افضل ہے۔میرے نانا یزید کے نانا سے افضل ہیں اور میں خود بھی یزید سے افضل ہوں۔ اس لئے حکومت کا بھی یزید سے زیادہ میں مستحق ہوں۔ حالانکہ ان کا یہ سمجھنا کہ ان کے والد میرے والد سے افضل تھے۔صحیح نہیں۔ علیؓ اور معاویہؓ نے باہم جھگڑا کیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ کس کے حق میں فیصلہ ہوا؟۔ رہا ان کا یہ کہنا کہ ان کی ماں میری ماں سے افضل ہے توبلاشبہ یہ ٹھیک ہے۔ فاطمہؓ بنت رسول اللہ میری ماں سے کہیں افضل ہیں۔ اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ ان کے نانا میرے نانا سے افضل ہیں۔ تو قسم خدا کی! کوئی بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا رسول اللہ سے افضل بلکہ رسول اللہ کے برابر کسی انسان کو نہیں سمجھ سکتا۔ حسینؓ کے اجتہاد نے غلطی کی۔ وہ یہ آیت بالکل بھول گئے:مالک الملک توتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعزمن تشاو وتزل من تشاء بیدک الخیر۰انک علی کل شیء قدیر!
پھر اہل بیتؓ کی خاتونیں یزید کے محل میں پنچائی گئیں۔ خاندان معاویہؓ کی عورتوں نے انہیں اس حال میں دیکھا تو بے اختیار رونے پیٹنے لگیں۔
یزید کی زودپشیمانی اور سعی تلافی
پھر یزید آیا تو فاطمہ بنت حسینؓ نے جو جناب سکینہؓ سے بڑی تھیں۔ اس سے کہا اے یزید! کیا رسول اﷲﷺ کی لڑکیاں کنیزیں ہو گئیں؟۔ یزید نے کہا اے میرے بھائی کی بیٹی ایسا
کیوں ہونے لگا؟۔ فاطمہؓ نے کہا بخدا ہمارے کان میں ایک بالی بھی نہیں چھوڑی گئی۔یزید نے کہا تم لوگوں کا جتنا گیا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ میں تمہیں دوںگا۔ چنانچہ جس نے اپنا جنتا نقصان بتایا اس سے دوگنا تگنا دے دیا گیا۔یزید کا دستور تھا روز صبح شام کے کھانے میں زین العابدین علی بن حسینؓ کو اپنے ساتھ شریک کیا کرتا۔ ایک دن حضرت حسنؓ کے کم سن بچے عمرو کو بھی بلایا اور ہنسی سے کہنے لگا۔ تو اس سے لڑے گا؟ اور اپنے لڑکے خالد کی طرف اشارہ کیا۔ عمرو بن حسنؓ نے اپنے بچپنے کے بھولے پن میں جواب دیا۔ یوں نہیں۔ ایک چھری مجھے دو ایک چھری اسے دو۔ پھر ہماری لڑائی دیکھو۔ یزید کھلکھلا کر ہنس پڑااور عمرو بن حسنؓ کو گود میں اٹھا کر سینے سے چمٹا لیا اور کہا۔سانپ کا بچہ بھی سانپ ہی ہوتا ہے۔ یزید نے اہل بیت کو کچھ دن اپنا مہمان رکھا۔ اپنی مجلسوں میں ان کا ذکر کرتا اور بار بار کہتا۔کیا حرج تھا اگر میں خود تھوڑی تکلیف گوارا کر لیتا۔ حسینؓ کو اپنے گھر میں اپنے ساتھ رکھتا۔ ان کے مطالبہ پر غور کرتا۔ اگرچہ اس کی وجہ سے میری قوت میں کچھ کمی ہی کیوں نہ پڑ جاتی۔ لیکن اس سے رسول اللہ ﷺ کے حق اور رشتہ داری کی تو حفاظت ہوتی۔ خدا کی لعنت ابن مرجانہ (ابن زیاد)پر جس نے حسینؓ کو لڑائی پر مجبور کیا۔ حسینؓ نے کہا تھا میرے ہاتھ میںاپنا ہاتھ دیں گے یا مسلمانوں کی سرحدوں پر جا کر جہاد میں مصروف ہو جائیں گے۔ مگر ابن زیاد نے ان کی کوئی بات بھی نہ مانی اور قتل کر ڈالا۔ان کے قتل نے تمام مسلمانوں میں مجھے مبغوض بنا دیا۔ خدا کی لعنت ابن مرجانہ پر۔ خدا کا غضب ابن مرجانہ پر۔
اہل بیت کی مدینہ منورہ کو مراجعت
پھر جب اہل بیت کو مدینہ بھیجنے لگا تو امام زین العابدین سے ایک مرتبہ اور کہا۔ ابن مرجانہ پر خدا کی لعنت۔ واﷲ اگر میں حسینؓ کے ساتھ ہوتا اوروہ میرے سامنے اپنی کوئی شرط بھی پیش کرتے تو میں اسے ضرور منظور کر لیتا۔ میں ان کی جان ہر ممکن ذریعہ سے بچاتا۔ اگرچہ ایسا کرنے میںخود میرے کسی بیٹے کی جان چلی جاتی۔لیکن خدا کو وہی منظور تھا جو ہو چکا۔دیکھو مجھ سے برابر خط وکتابت کرتے رہنا جو ضرورت پیش آئے مجھے خبر دینا۔بعد میں حضرت سکینہؓ برابر کہا کرتی تھیں۔ میں نے کبھی کوئی ناشکر انسان یزید سے زیادہ اچھا سلوک کرنے والا نہیں دیکھا۔ یزید نے اہل بیت کو اپنے ایک معتبر آدمی اور فوج کی حفاظت میں رخصت کر دیا۔اس شخص نے راستہ بھر ان مصیبت زدوں سے اچھا برتاؤ کیا۔ جب یہ منزل مقصود پر پہنچ گئے تو حضرت زینبؓ بنت علیؓ اور حضرت فاطمہ بنت حسینؓ نے اپنی چوڑیاں اور کنگن اسے بھیجے اور کہا۔ یہ تمہاری نیکی کا بدلہ ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کہ تمہیں دیں۔ اس شخص نے زیور واپس کر دیئے اور کہلابھیجا۔واﷲ! میرا
یہ برتاؤ کسی دنیاوی طمع سے نہیں تھا۔ رسول اﷲﷺ کے خیال سے تھا۔ اہل بیت کی آمد سے بہت پہلے مدینہ میں یہ جاںگسل خبر پہنچ چکی تھی۔ بنی ہاشم کی خاتونوں نے سنا تو گھروں سے چلاتی ہوئی نکل پڑیں۔حضرت عقیلؓ بن ابی طالب کی صاحبزادی آگے آگے تھیں۔ اور یہ شعر پڑھتی جاتی تھیں: ’’ماذا تقولون ان قالالنبی لکم۰ ماذا فعلتم وانتم اخرالامم‘‘ {کیا کہو گے جب نبی تم سے سوال کریںگے کہ اے وہ جو سب سے آخری امت ہو} ’’ بعترتی و باھلی بعد مفتقدی۰ منہم اساری ومنہم ضرجوا بدم‘‘ { تم نے میری اولاد اور خاندان سے میرے بعد یہ کیا سلوک کیا کہ ان میں سے بعض قیدی ہیں اور بعض خون میں نہائے پڑے ہیں۔}
ابن زیاد کا بصرہ سے شام کو فرار
جب یزید کا پیمانہ عمر لبریز ہوااور اس نے تو سن حیات کی باگ ملک آخرت کی طرف پھیری۔ تو ابن زیاد کا کب اقتدار بھی آناًفاناً غروب ہوگیا۔ وہ بصرہ اور کوفہ دونوں مملکتوں کا والی تھا۔ لیکن یزید کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دونوں حکومتیں اس کے ہاتھ سے نکل گئیں۔اہل کوفہ نے ابن زیاد کے نائب عمروہ ابن حریث کو کوفہ سے نکال دیا اور بصرہ میں جہاں ابن زیاد خودرہتا تھا۔ لوگ اس کے خلاف عدم تعاون کا حربہ استعمال کرنے لگے۔ چنانچہ جس کام کا وہ حکم دیتا اس کی تعمیل نہ ہوتی اور جو رائے پیش کرتا اس کی تردید کر دی جاتی۔ اگر ابن زیاد کسی مجرم کے لئے حبس کا حکم دیتاتو لوگ اس کے اہلکاروں اور ملزم کے درمیان حائل ہو جاتے اور ابن زیاد منہ تکتا رہ جاتا۔
اس اثناء میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے ہاتھ پر مکہ معظمہ میں بیعت خلافت ہو چکی تھی۔ ان کی طرف سے سلمہ ابن ذویب حنظلی وارد بصرہ ہوا۔ وہ ایک جھنڈا لے کر بازار میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔ اے لوگو! میرے پاس آؤ میں تم کو حرم کے پناہ گزیں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی طرف بلاتا ہوں۔ لوگ اس کے ہاتھ پر جناب ابن زیبرؓ کی بیعت کرنے لگے۔ جب ابن زیاد کو اس کا علم ہوا تو بہت گھبرایا۔ چونکہ ابن زبیرؓ سے بیعت کرنے والوں کی جماعت آناًفاناً بڑھ گئی اور انہوں نے ابن زیاد کے خلاف علم انحراف بلند کر دیا۔ اس لئے ابن زیاد نے اپنے فوجی افسروں کو حکم دیا کہ وہ اس کے ہم رکاب ہو کر پیروان ابن زبیرؓ سے جنگ کریں۔ لیکن روسائے فوج نے اس کو باتوں میں ہی ٹرخا دیا۔ اب ابن زیاد نے اس کام میں بھایئوں، رشتہ داروں اور دوسرے متعلقین کا تعاون حاصل کرنا چاہا۔ وہ کہنے لگے کہ اس وقت ہمارا کوئی خلیفہ نہیں جس کے لئے ہم مخالفوں سے برسر جنگ ہوں۔اگر موجودہ حالات میں لڑائی کانتیجہ تمہارے خلاف ہو تو کوئی ایسی
مرکزی حکومت نہیں جس کے پاس تم چلے جاؤ اور وہ تمہاری مدد کرے۔ پھر کہنے لگے۔ہم نے بصرہ میں جائدادیں خریدرکھی ہیں۔لڑائی میں ہم مغلوب ہو گئے تو لوگ ہمیں ہلاک کر کے ہماری جائدادوں پر قبضہ جما لیں گے۔ غرض خویشوں نے بھی جواب دے دیا اور وہ بے بسی اور حرمان و یاس کی مجسم تصویر بن کر رہ گیا۔ وہ ابھی انہی اضطراب آفرین نامرادیوں کے حصار میں گھرا تھا کہ اسے اپنی جاں کے لالے پڑ گئے۔ کیونکہ اہل بصرہ نے اس کے قتل پر اتفاق کر لیا تھا۔ اب ابن زیاد کے لئے بجز اس کے کوئی چارہ کار نہ تھاکہ کہیں بھاگ کر جان بچائے۔ اس غرض کے لئے اس نے حارث ابن قیس نام ایک ازدی ریئس کو بلایا اور کہنے لگا۔میرے والد نے مجھے وصیت کی تھی کہ اگر کبھی امداد کی حاجت ہو تو قبیلہ ازد کو اختیار کرنا۔ اس لئے یہاں سے بھاگنے میں میری مدد کرو۔ اس نے کہا میں دن کے وقت تو تم کو امان دے کر نہیں لے جا سکتا۔ کیونکہ خوف ہے کہ اس کوشش میں تمہارے ساتھ کہیں میں بھی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ رات کے وقت تمہیں اپنے پیچھے سوار کر کے لے چلوں۔ تا کہ ظلمت شب میں تمہیں کوئی پہچان نہ سکے۔ ابن زیاد نے کہا یہ رائے نہایت صائب ہے۔ چنانچہ حسب قرار داد حارث رات کی تاریکی میں اس کو اپنے پیچھے سوار کر کے لے اڑا۔ اس وقت بیت المال میں ایک کڑور نوے لاکھ کی رقم جمع تھی۔ ابن زیاد نے اس کا کچھ حصہ اپنے ساتھ لیا اور باقی نہایت رازداری کے ساتھ اپنے خاندان کے لوگوں اور دوسرے متعلقین میں تقسیم کر دیا۔ جب حارث ابن زیاد کو لے جا رہا تھا تو یہ جہاں سے گزرتے ابن زیاد حارث سے بار بار پوچھتا کہ اب ہم کہاںہیں؟۔ کیونکہ راستے میں جو اسلامی قبائل بھی آباد تھے وہ ابن زیاد کے دشمن جاں تھے۔ جب قبیلہ بنو سلیم میں پہنچے تو ابن زیاد کے دریافت کرنے پر حارث نے کہا کہ اب ہم بنو سلیم میں سے گذر رہے ہیں۔ یہ سن کر ابن زیاد بولا۔ اب انشااﷲ! ہمارے لئے سلامتی ہے۔ پھر جب بنو ناجیہ میں گزرتے وقت ابن زیاد نے یہی سوال کیا اور حارث نے بنو ناجیہ کا نام بتایا تو ابن زیاد نے کہا (انشا اللہ! اب ہم ضرور نجات پا جائیں گے۔ بنوناجیہ نے پوچھا تم کون ہو؟۔ حارث نے کہا میں حارث بن قیس ہوں۔ بنو ناجیہ کا ایک شخص ابن زیاد کو پہچانتا تھا۔ اس نے دیکھتے ہی کہا ابن مرجانہ اور جھٹ ایک تیر مارا جو ابن زیاد کے عمامہ میں لگا۔ حارث نے سواری کو زیادہ تیز کر دیا اور دونوں بچ کر نکل گئے۔ الغرض ابن زیاد اسی طرح بہ ہزار خرابی و رسوائی شام پہنچا۔ جہاں ابھی تک بنو امیہ کی حکومت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا۔
ابن زیاد کی ہلاکت
جب ۶۴ھ میں حضرت عبداﷲ ابن زبیرؓ کے ہاتھ پر مکہ معظمہ میں بیعت ہوئی تو انہوں
نے بعض بنو امیہ کو ارض حجاز سے شام کی طرف جلا وطن کر دیا تھا۔ انہی مخرجین میں عبدالملک کا باپ مروان ابن حکم بھی تھا۔ مروان کی یہ خواہش تھی کہ وہ جا کر عبداﷲ ابن زبیرؓ سے بیعت کرے۔ ابن زیاد کو مروان کے عزم بیعت کی اطلاع ہوئی تو مروان سے کہنے لگا۔ میں تمہارے اس ارادے پر سخت شرم محسوس کر رہا ہوں۔ مروان نے کہا کہ ابھی تک کچھ نہیں بگڑا ہے۔غرض ۶۴ھ میں مروان کے ہاتھ پر بیعت ہو گئی۔ اس کے بعد مروان نے ابن زیاد کو ایک لشکر دے کر موصل کی طرف روانہ کیا۔ موصل میں اس وقت مختار کا عامل عبد الرحمن ابن سعید تھا۔ وہ مقابلہ کی تاب نہ لا کر تکریت کو چلا گیا اور مختار کو اپنی ہزیمت و پسپائی کی اطلاع دے دی۔ مختار نے یزید ابن انس اسدی کو تین ہزار منتخب و جنگ آزمودہ فوج کے ساتھ ابن زیاد کے مقابلہ پر بھیجا۔ اس نے تو سن ہمت کی باگ اٹھائی اور باد وبرق کی طرح موصل جا پہنچا۔ جب ابن زیاد کو اس کی آمد کا علم ہوا تو اس نے تین ہزار کے مقابلہ میں چھہ ہزار فوج بھیج دی۔ لیکن یزیدبن انس یہاں پہنچتے ہی ناگہاں مرض موت میں گرفتار ہوا اور اس کا مرض دم بدم ترقی کرنے لگا۔ جب نقارہ جنگ پر چوب پڑی تو یزید شدت مرض کے باوجود ایسی حالت میں گدھے پر سوار ہو کر نکلا کہ اسے آدمی تھامے ہوئے تھے۔ یزید نے اپنی فوج کو آراستہ کیا۔ اور ساتھ ہی وصیت کر دی کہ اگر میں مر جاوں تو ورقا ء ابن عازب تمہارا امیر ہوگا۔ لڑائی کے دوران میں کبھی تو وہ شدت مرض کی وجہ سے غش کھاجاتا تھا اور کبھی ہوش میں آ جاتا تھا۔ باایں ہمہ اہل شام کو ہزیمت ہوئی اور مختار کی فوج نے اس کے پڑاو پر قبضہ کر لیا۔ یزید ابن انس اسی روز بوقت مغرب اس سرائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اس ہزیمت کے بعد ابن زیاد اسی ہزار فوج لے کر مقابلہ کے لئے بڑھا۔ یہ دیکھ کر مختار کی فتح مند فوج نے اپنی عافیت اسی میں دیکھی کہ کوفہ کو واپس چلی جائے۔ جب مختار کو ان حالات کی اطلاع ہوئی تو اس نے ابراہیم بن اشتر کو سات ہزار سواروں کی جمعیت کے ساتھ موصل روانہ کیا اور یہ بھی سمجھا دیا کہ اگر یزید ابن انس کی فوج کو دیکھو تو اسے اپنی قیادت میں واپس لے جانا۔ ابراہیم اپنی فوج کو یہ واقعات ذہن نشین کرتے ہوئے روانہ ہوا کہ ابن زیاد نے حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہل بیتؓ کے ساتھ کیا برتائو برتا؟۔ ان کو کس طرح قتل کیا اور ان کا پانی بند کیا؟۔ یہ درد انگیز حالات سنا سنا کر اپنے آدمیوں کو ابن زیاد کے خلاف جوش دلاتا رہا۔ جب وہاںپہنچے اور مقابلہ ہوا تو ابن زیاد کو باوجود ہشت چند فوج رکھنے کے ہزیمت ہوئی۔اس ہزیمت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ عمیر بن حباب نام ابن زیاد کا ایک فوجی سردار جو در پردہ ابن زیاد کا دشمن تھا۔ اپنی سپاہ کو بددل کرنے کے لئے لڑتے لڑتے بھاگ کھڑا ہوا۔نتیجہ یہ ہوا کہ شامی فوج نے راہ فرار اختیار کی۔ مختار کی فوج نے شامیوں کا تعاقب کیا۔ وہ لوگ بھاگتے وقت
عالم بد حواسی میں اس کثرت سے نہر میں غرق ہو گئے کہ مغرقین کی تعداد مقتولین سے بڑھ گئی۔ فاتحین نے مال غنیمت سے خوب ہاتھ رنگے اور اپنے مستقر کو واپس آئے ابراہیم بن اشتر اپنے فوجی افسروں سے کہنے لگا کہ میں نے ابھی ایک شخص کو ایک جھنڈے کے نیچے نہر خاز کے کنارے اپنے ہاتھ سے قتل کیا ہے۔ اس کا پتہ لگاؤ۔ اس کے کپڑے بہت معطر پاوگے۔ دونوں ہاتھ مشرق کی طرف اور پاؤں مغرب کی جانب ہوںگے۔اسے تلاش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ابن زیاد بدنہاد تھا۔ جس نے ابراہیم کی ضرب سے ہلاک ہوکر زندگی کی رسوائی سے نجات پائی۔اس کا سرکاٹ کر باقی جسم نذر آتش کر دیا گیا۔اب ابراہیم نے نامہ فتح کے ساتھ ابن زیاد اوراس کے روساء کے سر مختار کے پاس بھیج دیئے۔ جب یہ سر کوفہ کے قصر امارت میں پڑے تھے تو ایک پتلا سا سانپ وہاں آیا اس نے گھوم گھوم کر سروںکو دیکھا۔آخر ابن زیاد کے منہ میں گھس کر ناک میں آنکلا۔ پھر ناک سے داخل ہو کر منہ میںجا کر سر نکالا۔ اس نے کئی مرتبہ ایسا ہی کیا۔ اس واقعہ کو محدث ترمذیؒ نے اپنی کتاب جامع میں نقل کیا ہے۔
عمر ابن سعد کا قتل
یہ عمر حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ کا ناخلف بیٹا تھا جو حضرت سرور انبیاء ﷺ کے جلیل القدر صحابی اور عشرہ مبشرہ میں داخل تھے۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص ﷺ وہی بزرگ ہیں جنہیں فخر کونین سیدنامحمدﷺ ماموں کے معزز لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرتﷺکی مادر محترمہ قبیلہ بنو زہرہ سے تھیں اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی اسی قبیلہ کے چشم و چراغ تھے۔جابرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب سعد ابن ابی وقاصؓ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے۔ حضرت خیرالانام ﷺ نے فرمایا کہ سعد میرے ماموں ہیں۔ اور پھر حضرت سعدؓ کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت اورمابہ الفخر چیز ہو سکتی ہے کہ آپﷺ نے یہاںتک فرما دیا کہ اگر کسی دوسرے شخص کا ماموں بھی (ایسا بلندپایہ)ہو جیسا کہ میرا تو وہ اسے پیش کرے۔ (ترمذی ج۲ ص۲۱۶) اور حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ وہ سابقین اسلام میں سے تیسرے تھے۔(صحیح بخاری ج۱ص۵۲۷) یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ کو چھوڑ کر ان سے پہلے صرف ایک ہی صحابی شرف ایمان سے مشرف ہوئے تھے۔ لیکن خدائے برتر کی شان بے نیازی ملاحظہ ہو کہ اتنے بڑے جلیل القدر صحابی عاشق رسول اکرم ﷺ کا بیٹا کربلا کے معرکہ میں حضور سرور عالم کے فرزند کے قاتلوں کا قائد و رہنما تھا۔ فسبحان الذی یخرج الحی من المیت و مخرج المیت من الحی!
قتل حسینؓ سے اعراض یا رے کی حکومت
عمر ابن سعد کربلا کی یزیدی افواج کا قائد اعظم تھا۔ اس تقرر کا باعث یہ ہوا کہ ابن زیاد نے اسے چار ہزار فوج کی کمان دے کو کوہ ستبی کی طرف روانہ کیا تھا جس پر دیلم نے حملہ کر کے عمل و دخل کر لیاتھا۔ابن زیاد نے ابن سعد کو قیادت لشکر کے ساتھ رے کی حکومت کا فرمان بھی لکھ دیاتھا۔ چنانچہ عمرو نے اپنے لشکر کے ساتھ کوچ کر کے حمام اعین کے مقام پر ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ لیکن حرمان نصیبی کا کمال دیکھو کہ جب امام حسینؓ کی تشریف آوری کا غلغلہ بلند ہوا تو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو بلا کر کہا کہ بالفعل تم حسینؓ کا قضیہ نبٹا لو۔اس کو سرانجام دینے کے بعد خدمت مفوضہ کے لئے چلے جانا۔ عمرو نے امام حسینؓ کے مقابلہ پرجانے کے لئے معافی چاہی۔ ابن زیاد کہنے لگا کہ معافی اسی صورت میں ممکن ہے کہ رے کی حکومت کا فرمان واپس کر دو۔ عمرو نے کہا اچھا مجھے غور کرنے کے لئے ایک دن کی مہلت دو۔ چنانچہ اس نے اپنے اعزہ و اقارب اور ہوا خواہوں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جناب رسول خدا ﷺ کے فرزند گرامی کی تباہی و استیصال کی طرف قدم اٹھانا ایمان سے ہاتھ دھونا ہے۔ ابن سعد کا بھانجا مغیرہ کہنے لگا۔ ماموں! میں تم کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ امام حسینؓ کے مقابلہ پر ناجانا۔ خدا کی قسم! اگر بالفرض تمہیں ساری کائنات کے اموال و خزائن اور ربع سکون کی بادشاہت سے بھی دست بردار ہونا پڑے تو بھی ابن رسول اﷲﷺ کے خون کا دھبہ اپنے دامن عمل پر نالگانا۔اس سے قطع نظر حضرت حسینؓ تمہارے جد قرشی ہیں اور صلہ رحمی کا اقتضا ء یہ ہے کہ حقوق قرابت پرچند روزہ دنیاوی اقتدار کو قربان کر دو۔ عمرو نے کہااچھا میں ایسا ہی کروں گا۔ اب وہ رات بھر اسی ادھیڑ بن میںمصروف رہا کہ دو باتوںمیں سے کس کو اختیار کروں؟۔ اس وقت اس مضمون کے اشعار اس کی زبان پر تھے۔ کیا میں رے کی رغبت دل سے نکال دوں یا حسینؓ کے قتل میں شرکت کروں؟۔ حسینؓ کے قتل کی سزا تو ایسی آگ ہے جس سے بچنے کے لئے کوئی حجاب نہیں ہے اور رے کی حکومت میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ آخر صبح کو ابن زیاد کے پاس جا کر کہا کہ لوگوں نے سن لیا ہے کہ تم نے مجھے ولایت رے کا عامل مقرر کیا ہے۔اگر اس کا نفاذ کر دو تو بہتر ہے۔ اور اس حسینؓ کے مقابلہ پر جانے کے لئے اشراف کوفہ میں سے کسی ایسے شخص کا انتخاب مناسب ہے جو فن محاربہ میں مجھ سے زیادہ تجربہ کار ہو۔ یہ کہہ کر چند آدمیوں کے نام لئے۔ ابن زیاد بولا۔ میں نے اس بارہ میں تم سے کوئی مشورہ نہیں طلب کیا تھا۔ اگر لشکر لے کر جاتے ہو تو جائو۔ ورنہ رے کی حکومت کا فرمان واپس کر دو۔ عمرو کہنے لگا اچھا میں جاتا ہوں۔ غرض عمرو فوج لے کر حضرت حسینؓ کے مقابلہ میںروانہ ہوااور امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ کی ایک
مشہور پیشین گوئی پوری کر دی۔ چنانچہ ابن سیرینؒ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے عمرو بن سعد سے کہا تھا کہ اگر تم کبھی ایسے مقام میںہو کہ تمہیں جنت اور دوزخ میں سے کسی ایک کو اختیاروانتخاب کرنے کی نوبت آئے تو تم ضرور دوزخ ہی کو ترجیح دو گے۔
ابن سعد کا افتخارکہ سب سے پہلے میں نے امام حسینؓ پر تیر چلایا
جب عمر ابن سعد نے یزیدی افواج کی عنان قیادت اپنے ہاتھ میں لی تو اس کے بعد اس نے اپنی باطل پرستی اور حق فراموشی کا مظاہرہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ چنانچہ معرکہ کربلا کے آغاز میں سب سے پہلے اس نے چلے میں تیر جوڑ کا چلایا اور کہا۔سب لوگ گواہ رہنا کہ سب سے پہلے میں نے ہی تیر چلایا ہے۔ مقام عبرت ہے کہ عمرو کے باپ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ تو حسب روایت قیس ابن ابو حاذم تابعی ہمیشہ اس بات فخر کیا کرتے تھے کہ میں عرب میں سب سے پہلا وہ شخص ہوں جس نے راہ خدا میں تیر چلایا۔ (بخاری ج۱ص۵۲۸)لیکن ان کے نابکار بیٹے کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے فرزندرسولؓ پر تیر چلانے میں سب پر سبقت کی۔عمرو نے اسی باطل نوازی پر اکتفا نہیںکیا کہ تیر چلا کر لڑائی کا آغاز کر دیا ہو۔ بلکہ اس کی قسادت قلبی کے اس وقت اور بھی زیادہ جوہر کھلے تھے جب اس نے حضرت امام مظلوم کی جان ستانی کے بعد ابن زیاد کے حکم کی تعمیل میں اپنے لشکر کو خطاب کر کے بآواز بلند کہا کہ کون اس بات پر آمادہ ہے کہ حسینؓ کی طرف جائے اور اپنے گھوڑے سے اس کی لاش کوروند ڈالے۔ چنانچہ دس سوار گئے اور انہوں نے اپنے گھوڑوں کے پاؤں سے آپ کی نعش اطہر کو بہت بری طرح روندنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے جسد مبارک کی ہڈیاں اور پسلیاں اور اعضاء بالکل ریزہ ریزہ کر ڈالے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون! کاش ظالموں کے بہیمانہ جذبات کی تسکین محض امام ہمام کی جان لینے سے ہی ہوجاتی اور انہیں درندگی اور خباثت نفس کے اس مظاہرۂ عظیم کی ضرورت نہ پڑتی۔ تعجب ہے کہ ان نابکاروں کو اسلامی گھرانوں میںپیدا ہونے کے باوجود کس قانون کس اخلاق اور کون سی تہذیب نے اس کی اجازت دی تھی کہ وہ حضرت سید الشہداؓ کے جسد اطہر کو اپنی سبعیٔت کا تختہ مشق بناتے؟۔
حضرت زنیبؓ کا عبرتناک استفسار اور عمرو کی اشکباری
اس میں شبہ نہیں کہ جاہ طلبی کی شدت انہماک نے عمرو کے دل و دماغ پر جمودوبے حمیتی کی موٹی تہیں چڑھا رکھی تھیں۔ تاہم اس لحاظ سے کہ اس نے ایک جلیل القدر صحابی کے آغوش تربیت میں پرورش پائی تھی۔ اس کا دل اہل بیت اطہار کی مصیبت پر کسی نہ کسی وقت ضرور پسیجتا تھا۔ چنانچہ جب حضرت حسینؓ میدان دغا میں تنہا رہ گئے اور اعدائے نافرجام آپ پر چاروںطرف
سے حملے کر رہے تھے تو حضرت زینبؓ خیمہ سے باہر نکلیں اور کہنے لگیں۔اے کاش! آسمان ٹوٹ پڑتا اور زمین کو ڈھانپ لیتا۔ اتنے میں عمر ابن سعد ان کے قریب آیا۔ حضرت زینبؓ نے اس سے کہا کہ اے عمرو! کیا ابو عبد اللہ (یعنی امام حسینؓ) شہید ہو جائیں گے اور تم دیکھتے رہو گے؟۔ یہ سن کر عمرو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اس کے رخساروں اور ڈارھی پر گرنے لگے اور اس نے جناب زینبؓ کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیا۔ یہ اشک باری زبان حال سے اس حقیقت کا اظہار کر رہی تھی کہ گوحب جاہ وریاست نے مجھے گروہ اشرار میں داخل کر رکھا ہے۔ لیکن میرا دل آپ حضرات کی ہمدردی سے بیگانہ نہیں ہے۔ عمرو نے اس ہمدردی اور انصاف پسندی کا اس وقت بھی ثبوت دیا تھا۔ جبکہ شمر، امام زین العابدین علی ابن حسینؓ کو بحالت رنجوری و علالت جرعہ شہادت پلانا چاہتا تھا اور عمرو بن سعد نے وہاں آکر حکم دیا تھا کہ عورتوں کے خیمہ میں کوئی نہ جائے اور نہ کوئی شخص اس مریض لڑکے سے کسی قسم کا تعرض کرے۔ اور یہ بھی حکم دیاکہ اگر کسی نے ان کے مال و متاع میں سے کچھ لیا ہو تووہ واپس کر دے۔
عمرو بن سعد اور اس کے بیٹے کا قتل
ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد ایک دن مختار نے اپنے حاشیہ نشینوں سے کہا کہ کل میں ایک ایسے شخص کو ہلاک کروں گا جس کے بڑے پاؤں،گڑی ہوئی آنکھیں اور گھنی بھویں ہیں اور جس کے قتل سے اہل ایمان اور ملائکہ مقربین خوش ہوں گے۔ حاضرین مجلس میں ہثیم بن اسود نخعی نام ایک کوفی تاڑ گیا کہ مختار کی مراد عمرو بن سعد ہے۔ ہشیم نے گھر جا کراپنے بیٹے کو یہ اطلاع دینے کے لئے ابن سعد کے پاس بھیجا کہ مختار نے تمہارے استہلاک کا تہیہ کر لیا ہے۔ یہ دیکھ کر عمرو نے عبداﷲ بن جعدہ بن ہبیرہ کے پاس جا کر منت سماجت کی کہ مختار سے مجھے امان دلا دو۔ مختار عبداﷲ بن جعدہ کا اس بنا پر بہت احترام کرتا تھا کہ انہیں امیرالمومنین علیؓ سے قرابت تھی۔ یعنی وہ حضرت علیؓ کی خواہر محترمہ حضرت ام ہانیؓ کے پوتے تھے۔ عبداﷲ نے مختار کے پاس سفارش لکھ بھیجی۔ مختار کی عادت تھی کہ وہ مرزا غلام کام احمد قادیانی کی طرح ایسی لچک دار اور گول مول بات لکھا کرتا تھا کہ جس میں بوقت ضرورت انکار کرنے یا دوسرا مفہوم مراد لینے کی بہت گنجائش رہتی تھی۔ مختارنے بدیں الفاظ وعدہ امان لکھ دیا۔ یہ وعدہ امان مختار بن ابو عبیدہ کی جانب سے عمرو بن سعد کے لئے لکھاجاتا ہے۔ تمہاری جان،مال، اعزہ، اقرباء اور اولاد کو امان دی جاتی ہے۔ تم سے تمہارے سابقہ اعمال کا اس وقت تک کوئی مواخذہ نہ کیا جائے گا۔ جب تک تم ہمارے احکام کی تعمیل کرو گے۔مختار ابن ابوعبید نے اللہ کے سامنے یہ عہد واثق کیا ہے کہ وہ اس عہد امان کا ایفا کرے گا۔ بجز
اس صورت کے کہ کوئی حدث (نیا واقعہ) رونما نہ ہو۔ استثناء کے عربی الفاظ یہ تھے۔ ان حدث حدثا! ان الفاظ کے معنی بظاہر یہ تھے کہ میں نے اس امان بخشی کے عہد کو نہیں توڑوںگا۔ لیکن چونکہ ’’حدث‘‘ عربی زبان میں خروج ریح اور بے وضو ہونے کو بھی کہتے ہیں۔ مختار نے متذکرہ صدر تحریر میں ’’حدث‘‘ سے بے وضو ہونا مراد لیا تھا۔ یعنی اس نے دل میں امان نامہ کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا تھا کہ وہ بے وضو نہ ہو۔ لیکن چونکہ وہ اس کے بعد بارہا بے وضو ہوتا رہا۔ اس لئے وعدہ امان غطربود ہو گیا۔
دوسری صبح کومختار نے عمرو کو ابو عمرہ نام ایک شخص کے ہاتھ بلا بھیجا۔مختار نے جاتے وقت ابو عمرہ کو سمجھا دیا کہ اگر کوئی موقع ملے تو اس کو ٹھکانے لگا دینا۔عمرو اٹھا۔ مگر چلتے ہوئے اپنے جبے میں اٹک کر گر پڑا۔ ابوعمرہ نے اسی وقت تلوار کا وار کر کے اس کا کام تمام کر دیااور اس کا سر کاٹ کر دارالامارت کوفہ میں مختار کے پاس بھیج دیا۔ جب عمرو کا سر مختار کے سامنے رکھا گیا تو اس وقت عمرو بن سعد کا بیٹا حفص بھی اس کے پاس بیٹھا تھا۔ مختارنے حفص سے پوچھا پہچانتے ہو کہ یہ سر کس کا ہے۔ اس نے کہاہاں! مگر باپ کا سایہ اٹھ جانے کے بعد اب زندگی بے لطف ہے۔ یہ سن کر مختار نے اس کی بھی گردن مارنے کا حکم دیا اور اس کے مقطوع سر کو بھی عمرو کے سر کے ساتھ رکھوا دیا مختار عمرو کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا یہ حسینؓ کے بدلے میںاور پھر حفص کے سر کی طرف اشارہ کر کے بولا یہ علیؓ بن حسینؓ کے بدلے میں۔ گو ان دونوں کو ان دونوں سے کوئی نسبت نہیں۔ اس کے بعد مختار قسم کھا کر کہنے لگا کہ اگر میں بنوقریش کے ثلث آدمیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دوںتو وہ سب مل کر امام حسینؓ کی ایک پور کے برابر بھی نہیں ہو سکتے۔ اب مختار نے عمر اور اس کے بیٹے کا سر حضرت محمد بن حنفیہؓ کے پاس مکہ معظمہ بھجوا دیا۔ جو امام حسینؓ کے سوتیلے بھائی تھے اور لکھا کہ میں امام حسینؓ کے قاتلوں کی فکر میں ہوں۔ بعض کو قتل کر چکا ہوں اور دوسروں کی تلاش میںہوں۔
شمر ابن ذی الجوشن کی جاں ستانی
امام حسینؓ کی مخالفت میں شمر کی وہی حیثیت تھی جو فخر بنی آدم سیدنا احمد مجتبیٰ ﷺ کی عداوت و ایذا رسانی میں ابو جہل کی تھی۔ ان دونوں کے حالات پڑھ جاؤ۔قسوت و تیرہ دلی میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے سکوگے اور اگر ان دونوں میں کچھ فرق نظر آئے گا تو صرف کفر اور دعویٰ اسلام کا فرق ہوگا۔ باطن کا حال بجز علام الغیوب عزاسمہ‘ کے کوئی نہیں جان سکتا۔ لیکن شمر کا ظاہر قطعاً اس بات کی شہادت نہیں دیتا کہ اس کو ایمان واسلام سے کچھ بھی حصہ ملا تھا۔ ذیل میں
چند واقعات درج کئے جاتے ہیں۔ جن سے بسہولت اندازہ ہو سکے گا کہ اس کو ایمان واسلام سے کہاں تک تعلق تھا؟۔
امام حسینؓ کے شرائط صلح کو مسترد کرا دیا
آغاز جنگ کربلا سے پہلے حضرت امام حسینؓ نے عمرو بن سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ آج رات کو اپنے اور میرے لشکر کے درمیان مجھ سے ملو۔ عمر حسب الارشاد وہاں آیا اور دونوں میں دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد ابن سعد اور امام حسینؓ میں تین چار اور طویل ملاقاتیں ہوئیں۔ انجام کار امام حسینؓ نے تین شرطیں پیش کیں۔ یا تو مجھے حجاز واپس جانے دو۔ یا مسلمانوں کی کسی ایسی سرحد پر بھیج دو جس کو تم پسند کرو۔ یا یزید کے پاس دمشق روانہ کر دو۔ تا کہ میں اور وہ ہربات کا خود ہی تصفیہ کر لیں۔ یہ وہ آخری شرائط تھے جو چار پانچ دن کی بحث و تمحیص کے بعد امام حسینؓ نے منظور کئے تھے۔ عمر کو اس بات کا یقین تھا کہ ابن زیاد اس میں کسی نہ کسی شرط کو ضرور منظور کر لے گا۔ چنانچہ عمر نے ابن زیاد کو لکھا کہ خدا نے آگ بجھا دی ہے اور اتفاق کی صورت پیدا کردی ہے۔ حسینؓ نے انجام کار یہ تین شراطیں پیش کی ہیں۔ اب ان شرائط میں تمہارے لئے وجہ رضا مندی اور امت کے لئے وجوہ اصلاح و فلاح موجود ہیں۔ ابن زیاد یہ خط پڑھ کر خوش ہوا اور عمرو کی نسبت کہنے لگا کہ یہ ایسے شخص کا خط ہے جو اپنے امیر کا بہی خواہ اور اپنی قوم کا شفیق ہے۔ میں ان شرائط کو قبول کرتا ہوں۔ بدقسمتی سے شمر ابن ذی الجوشن ایسا تیرہ دل شخص بھی اس مجلس میں موجود تھا۔ وہ جھٹ کھڑا ہو گیا اور ابن زیاد سے کہنے لگا جب حسینؓ‘‘ تمہاری زمین میں اور بالکل تمہارے پہلو میں اترا ہوا ہے تو آپ یہ شرطیں کیوں منظور کرتے ہیں؟۔ اس کے بعدشمر کہنے لگا خدا کی قسم! اگر وہ تمہارے بلاد سے واپس چلا گیااور اس نے اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں نہ دیا تو وہ جا کر بڑی قوت حاصل کر لے گا اور تم لوگ کف افسوس ملتے رہ جاؤ گے۔ اس کے بعد بولا خدا کی قسم! حسینؓ اور عمرو ساری ساری رات اپنے لشکروں کے مابین باہم دوستانہ گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ یہ سن کر ابن زیاد کا خیال بدل گیااور شمر سے کہنے لگا۔اچھا تم میرا خط لے کر عمرو کے پاس جاؤ اوراگر میرے حکم کی تعمیل کرے تو اس کی اطاعت کرواور اگر اعراض کرے تو تم ہی اس فوج کے امیر بن جاؤاور عمر کا سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دو۔ اس کے بعد عمرو بن سعد کے نام یہ خط لکھ کر شمر کو دیا کہ میںنے تم کو حسینؓ کی طرف اس لئے نہیں بھیجا تھا کہ تم اس کو امیدیں دلاؤ یا اس پر مہربانی کرو یا مجھ سے اس کی سفارش کرو۔ دیکھو اگر حسینؓ اور اس کے ساتھی میرے حکم کی تعمیل کریں تو ان کو میرے پاس بھیج دو۔لیکن اگر اس سے انکار کریں تو ان پر حملہ کر کے قتل کر دو۔ جب حسینؓ قتل ہو جائے تو گھوڑوں
سے اس کے سینے اور پشت کو روند ڈالو۔ کیونکہ وہ عاق، شاق، قاطع اور ظالم ہے۔ اگر تم نے میرے حکم کی تعمیل کی تو ہم تمہیںاطاعت شعاروں کی سی جزا دیں گے اوراگر سرتابی کرو تو ہماری فوج سے علیحدہ ہو کر اس کو شمر کے حوالے کر دو۔ جب شمر عبید اللہ ابن زیاد کا خط لے کر عمرو کے پاس پہنچا تو عمرو کہنے لگا۔ خدا تجھے غارت کرے۔ یہ میرے پاس کیا لے آیا ہے؟۔میرا خیال ہے کہ تو نے ہی ابن زیاد کو شرائط صلح کے قبول کرنے سے باز رکھا ہے۔ افسوس! تونے سارا معاملہ جس کے سدھر جانے کی پوری امید تھی درہم برہم کر دیا۔ واﷲ حسینؓ کبھی اطاعت نہ کریں گے۔ کیونکہ ان کے پہلو میں ان کے باپ کا سا دل ہے۔ شمر نے کہا اچھا۔ اب یہ بتاؤ کہ تمہاری کیا مرضی ہے؟۔ عمرو نے جس پر جاہ طلبی کا بھوت سوار تھا جواب دیا کہ میں حکم کی تعمیل کروں گا۔
حضرت حسینؓ کے سوتیلے بھائیوں کو امان
جس وقت ابن زیاد نے عمر کے نام خط لکھ کر شمر کو دیا تھا۔ اس وقت کوفہ کا ایک رئیس عبداﷲ ابن ابو محل نام، ابن زیاد کے پاس بیٹھا تھا جن ایام میں امیر المومنین علیؓ نے کوفہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا تھا۔آپ عبد اللہ ابن ابو محل کی پھوپھی ام البنین بنت حزام کو اپنے حبالہ نکاح میں لائے تھے۔ جن کے بطن سے امیر المومنین علیؓ کے صاحبزادے عباس،عبداﷲ، جعفراور عثمان (رضی اللہ عنہم) پیدا ہوئے تھے۔ عبداﷲ ابن ابو محل نے ابن زیاد سے کہا کہ اگر تمہاری رائے ہوتو ہماری پھوپھی کے بیٹوں کو امان دے دو۔ ابن زیاد نے امان کا حکم لکھ کر شمر کو دے دیا۔ جب شمر کوفہ سے کربلا آیا تو امام حسینؓ کے قیام گاہ کے پاس جا کر عباس ابن علیؓ اور ان کے بھائیوںکو بلایا۔ وہ آئے تو شمر کہنے لگا اے میری بہن کے بچو! تم چاروں کو امان ہے۔ انہوںنے جواب دیا۔ خدا تم پر اور تمہاری ماں پر لعنت کرے۔ اگر تم ہمارے ماموں ہو تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم کو تو امان دیتے ہو۔ لیکن رسول خدا ﷺ کے فرزند کے لئے امان نہیں ہے؟۔ شمر نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اور واپس چلا گیا۔ چونکہ امام حسینؓ نے ابن زیاد کے پاس جانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لئے شمر فوج لیے ہوئے مقابلہ کے لیے نکلا۔ امام حسینؓ کے لشکر میں سے زہیر ابن قین گھوڑے پر سوار ہو کر شمشیر بکف آگے بڑھے اور کہا۔ اے اہل کوفہ! خدا کے غضب سے ڈرو۔ اس وقت تک ہم بھائی بھائی ہیںاور ایک ہی دین پر ہیں۔ یاد رکھو! حضرت فاطمہ ؓ کافرزند، سمیہ کے بچے کی نسبت دوستی اور معاونت کا زیادہ حق دار ہے۔ سمیہ جو عام طور پر سمیہ زانیہ کے نام سے مشہور ہے۔ ابن زیاد کی دادی تھی۔ یزید کے دادا ابوسفیان بن حرب نے اس سے عہد جہالت میں زنا کیا تھا اور اس ناجائز تعلق سے عبید اللہ کا باپ زیاد پیدا ہوا تھا۔ جناب زہیر نے کہا!اگر تم اپنے نبی کے نواسے کی
امداد نہیں کرتے، نہ سہی۔ لیکن تم خدا سے پناہ مانگو کہ تم ان کے قتل کے مجرم بنو۔ میری رائے میں سب سے بہتر یہ ہوگا کہ تم لوگ امام حسینؓ اور ان کے عم زاد بھائی یزید بن معاویہ کو خود ہی آپس تصفیہ کر لینے دو۔یقین ہے کہ یزید تم سے امام حسینؓ کے قتل کئے بغیر بھی خوش ہو سکتا ہے۔ اس کے جواب میں شمر نے ان پر ایک تیر چلا دیا اور کہنے لگا۔ بس چپ رہ۔ خدا تجھے غارت کرے۔ تو تو بک بک کر کے ہمارا دماغ چاٹ گیا۔ زہیر نے یزید کو امام حسینؓ کا عم زاد بھائی اس لئے بتایا کہ دونوں قریشی تھے۔
شمر کی دریدہ دہنی
عاشورہ کے دن امام حسینؓ نے اپنے اصحاب کو لڑائی کے لئے تیار کر کے نماز صبح ادا کی۔ اس وقت آپ کے ساتھ بتیس سوار اور چالیس پیادے تھے۔ عمرو بن سعد بھی نماز صبح سے فارغ ہو کر اپنی فوج کے ساتھ مقابلہ کو نکلا۔ امام حسینؓ نے زہیر بن قین کو میمنہ پر اور حبیب ابن مظہر کو میسرہ پر مقرر فرمایا اور جھنڈا اپنے بھائی عباس بن علیؓ کو دیا۔ آپنے اپنے آدمیوں کو اس انداز سے ترتیب دیا کہ اہل بیت کے خیمے ان کے عقب میں تھے۔ حضرت امامؓ نے رات ہی کو خیموں کے پیچھے کی زمین کھدوا کر ایک طویل خندق بھی بنوا دی تھی۔ جو تیاری کے بعد ایک چھوٹی سی خشک نہر بن گئی تھی۔ یہ تدبیر اس لئے کی گئی کہ عقب سے حملہ نہ ہو سکے۔ آپ نے حکم دیا کہ لکڑیاںاورشاخیں جمع کر کے اس گہرائی میں بھر دیں اوران کو آگ لگا دیں۔جب اعداء کے لشکر لکڑیوں کوسلگتے اورشعلے بلند ہوتے دیکھا تو شمر لعین نے پکار کر امام حسینؓ سے کہا کہ تم نے تو قیامت سے پہلے ہی دوزخ میں پڑنے کا سامان کر لیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس میںجلنے کا تو تو سب سے زیادہ مستحق ہے۔
اہل بیت کے بچوں اور مخدرات عالیہ کو آگ میں جلا دینے کا اقدام
اہل حق کی طرف سے کلبی نام ایک بزرگ نے نہایت شجاعت کے ساتھ لڑ کر ایک کاری زخم کھایا۔ جب وہ دم توڑ رہے تھے تو ان کی بیوی باہر نکل کر اپنے شوہر کے پاس آئیں اور ان کے چہرے سے گرد و غبار صاف کر کے کہنے لگیں۔آپ کو جنت مبارک ہو۔ یہ دیکھ کر شمر نے اپنے غلام رستم کو حکم دیا کہ جا کر اس عورت کو بھی اس کے شوہر کے پاس پہنچا دو۔اس نابکار نے آتے ہی کلبی شہید کی بیوی کے سر پر اس زور سے ڈنڈا رسید کیا کہ وہ بیچاری آناًفاناً اپنی مظلومیت کی چادر اوڑھے عالم بالا کو چلی گئیں۔پھر شمر حملہ کرتے کرتے اس غرض سے حضرت امام حسینؓ کے خیموں تک پہنچ گیا کہ ان کو مکینوں سمیت جلا دے۔ مخدرات اہل بیت چیخنے اور نکل نکل کر بھاگنے لگیں۔ امام حسینؓ نے بآواز بلند کہا کہ اے شمر! تو میرے اہل بیت کو جلاتا ہے۔ خدا تجھے آگ میں
جلائے۔ حمید ابن مسلم جو کوفی فوج کا ایک رکن رکین تھا۔ شمر سے کہنے لگا کہ یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ تم انہیں خدا کا عذاب دو۔(یعنی آتش سوزاں میں جلاؤ)۔ عورتوں کی جان لو اور ریاض ملت کے نودمیدہ غنچوں کو قطع کرو۔ حالانکہ تم مردوں ہی کے قتل سے اپنے امیر کو خوش کر سکتے ہو۔ لیکن وہ سنگ دل ناہنجار نہ مانا۔ آخر شبت ابن ربع ریئس کوفہ نے اسے اس حرکت سے منع کیا تو بمشکل باز آیا۔
امام زین العابدینؓ کی جاںستانی کا نامبارک عزم
جب امام حسینؓ کے تمام اقرباء اور جان نثار اموی ستم آرائی کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوگئے اور حضرت ممدوح یکہ و تنہا میدنا کار زار میں رہ گئے تو اعدائے نافرجام نے ان پر چپ و راست سے حملے شروع کر دیئے۔ حضرت حسینؓ نے اپنے تحفظ و دفاع کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک مرتبہ تو داہنی طرف کے اشقیاء پر حملہ کر کے ان کو بھگا دیتے اور پھر بائیں طرف کے دشمنوں کو جا کر پامال کرنے کی کوشش فرماتے۔ خود یزیدی لشکر کے مقتدرلوگوں کو اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ کسی فرد واحد کو جو بالکل بے یار و مددگار ہو۔ ان سے زیادہ مربوط ، پرجوش، قوی دل اور جری نہیں دیکھا گیا۔ کیونکہ ان کے حملہ آور چپ و راست سے اس طرح چھنٹ چھنٹ کر الگ ہو جاتے تھے جس طرح کوئی شیر چوپاؤں کے ریوڑ پر جا پڑے اور وہ بدحواس ہو کر چاروں طرف بھاگیں۔ حضرت حسینؓ اس وقت بہادر شہسوار کی طرح پا پیادہ ہی لڑ رہے تھے۔آپ تیروں کے واروں کو روکتے جاتے تھے اور اعداء کی صفوں میں جہاں کہیں تخلل پیدا ہوتا تھا اسی جگہ حملہ آور ہو کر کہتے جاتے تھے۔خدا کی قسم! تم میرے بعد خدا کے کسی ایسے بندے کو نہ قتل کرو گے جس کا قتل میری جاں ستانی سے زیادہ تم پر قہر الٰہی نازل کرے۔ منتقم حقیقی تم سے میرا ایسا انتقام لے گا کہ جس کا تم لوگوں کو سان گمان نہ ہوگا۔ امام حسینؓ اس طرح بہت دیر تک تا بڑ توڑ حملے کرتے اور حفظ و دفاع کا اسلوب اختیار کرتے رہے۔آخر نہایت تھک کر سستانے کے لئے وہیں بیٹھ گئے۔ اس وقت آپ کے جسد اطہر پر تلواروں،نیزوں اور تیروں کے ۶۷ زخم تھے۔ اس حالت میں اعداء چاہتے تو قاطبۃً حملہ کر کے آپ کو رفیق اعلیٰ کے پاس پہنچا سکتے تھے۔ مگر ان کی یہ حالت تھی کہ ہر کوئی ایک دوسرے کی پناہ لیتا پھرتا تھا اور چاہتا تھا کہ دوسرے لوگ اس کام کو انجام دیں اور وہ خود نہ کرے۔ یہ کیفیت دیکھ کر شمر نے لوگوں کو للکارکر کہا تمہار برا ہو۔تم لوگ کس انتظار میں ہو۔ اس شخص کو ہلاک کیوں نہیں کر دیتے۔ یہ سن کر چاروں طرف سے حملے ہوئے اور آپ کو آناًفاناًریاض فردوس میں پہنچا دیا گیا۔ اس کے بعد شمر اپنے تیرہ دل ساتھیوں کو لے کر حضرت امام زین العابدین علی بن حسینؓ کی طرف
چلا جو علیل تھے اور علالت ہی کی وجہ سے شریک کار راز نہ ہو سکے تھے۔ شمر نے ان کو شربت شہادت پلاکر خاندان نبوت کی آخری زندہ یادگار کو بھی دنیا سے معدوم کر دینا چاہا۔ لیکن ایک کوفی رئیس حمید بن مسلم نے کہا کیا تم بچوں کو بھی قتل کرو گے؟۔ وہ رک گیا۔ اتنے میںعمر ابن سعد نے آکر سب کو وہاںسے ہٹا دیا۔
مختار نے اپنے غلام ذربی کو شمر ابن ذی الجوشن کی تلاش میں روانہ کیا۔ شمر کے ایک رفیق کار مسلم ابن عبد اللہ ضیابی کا بیان ہے کہ مختار کے غلام ذربی نے ہمار تعاقب کیا اور ہمیں آلیا۔ ہم اپنے دبلے پتلے تیز رو گھوڑوں پر کوفہ سے نکل چکے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ اپنا گھوڑا اڑاتا ہوا چلا آ رہا ہے۔ جب وہ قریب آیا تو شمر ہم سے کہنے لگا کہ تم اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگائو اور مجھ سے دور چلے جاؤ۔ غالباً یہ غلام میری ہی تاک میں آیا ہے۔ ہم نے اپنے گھوڑوں کو ایڑ دی۔ اتنے میں غلام نے آ کر شمر پر حملہ کیا۔ پہلے تو شمر نے مدافعت پر اکتفاء کیا ۔ اس کے بعد ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ ذربی کو قتل کر کے شمر کلتانیہ نام ایک گاؤں میں پہنچا جو دریا کے کنارے واقع تھااور گاؤں سے باہر ایک ٹیلے کے پاس فروکش ہوا۔ ہم بھی ساتھ تھے۔ اس کے بعد شمر نے گاؤں کے ایک کسان کو بلاکر پہلے تواسے مرعوب کرنے کے لئے پیٹا۔ پھر کہا کہ میرا یہ خط مصعب ابن زبیرؓ کے پاس بصرہ لے جاؤ۔ مصعب ابن زبیرؓ حضرت امام حسینؓ کے داماد۔ یعنی جناب سکینہؓ کے شوہراور اپنے بھائی حضرت عبداﷲ ابن زبیرؓ کی طرف سے بصرہ کے حاکم تھے۔ شمر نے اس خط میں درخواست کی تھی کہ مجھے اپنی حفاظت میںلے لو۔ کسان یہ خط لے کر بصرہ روانہ ہوا۔ راستہ میں ایک ایسے گاؤں میںپہنچا جہاں ابو عمرہ نام مختار کا اہل کار رہتا تھا۔ کسان کو اس گاؤں کا ایک اورکسان ملا جس سے اس کی پرانی ملاقات تھی۔ وہ اس سے شمر کی بدسلوکی اور ایذاء رسانی کا شکوہ کرنے لگا۔ یہ دونوں کھڑے ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ ابو عمرہ کا ایک سپاہی ان کے پاس سے گزرا۔جس کا نام عبد الرحمن ابن ابو کنود تھا۔ اس نے کسان کی باتیں سن کر خط لے لیا اور پڑھ کر پوچھنے لگا۔ شمر کہاں ہے؟۔ اس نے اس کا پتہ بتایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ وہ اس جگہ سے تین فرسنگ کے فاصلہ پر ہے۔ اب یہ لوگ شمر کی طرف چلے۔ میں اس رات شمر ہی کے ہمراہ تھا۔ ہم لوگوں نے شمر سے کہا۔کاش تم ہمیں اس گاؤں سے لے چلتے۔ہم یہاں سخت خوف زدہ ہیں۔ شمر نے کہا یہ خوف اسی کذاب (مختار) کی چیرہ دستیوں کا نتیجہ ہے۔ اس مقام پر ریچھوں کی بڑی کثرت تھی۔ میں نیم بیدار تھا۔ اتنے میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے
خیال کیا کہ یہ ریچھ ہوں گے۔ مگر جب آواز زیادہ شدید ہوئی تو میں جاگ اٹھا اور یقین ہوا کہ یہ ریچھوں کی آواز نہیں ہے۔ اتنے میں گھوڑوں کے سوار ٹیلے سے اتر کر ہمارے پاس پہنچ گئے اور آتے ہی صدائے تکبیر بلند کی۔ ہم اپنے گھوڑوں کو وہیں چھوڑ کر پیدل ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ سب شمر پر ٹوٹ پڑے۔ شمر نے بڑی پھرتی سے نیزہ اٹھایا اور ہر طرف وار کرنے لگا۔ وہ اس وقت یہ رجزیہ اشعار پڑھ پڑھ کر مقابلہ کر رہا تھا۔(ترجمہ: تم نے کچھار کے ایک دلیر اور خون آشام شیر کو برانگیختہ کیا ہے جو مضبوط اور توانا ہے اور کندھے توڑتا ہے۔ وہ کبھی دشمن کے مقابلہ میں عاجز و کمزور ہو کر نہیں سوتا۔ بلکہ لڑتا اور لڑاتا رہتا ہے۔ ان کو تلوار کی ضرب سے جدا کرتا اور اپنے نیزے کو سیراب کرتا ہے) اب شمر نے نیزہ چھوڑ کر تلوار اٹھائی اوراس سے لڑتا رہا۔ آخر عبدالرحمن ابن ابو کنود نے اس کے ایک ایسی تلوار ماری کہ لڑکھڑا کر گرااور جان دے دی۔ جب وہ ہلاک ہو گیا تو یہ لوگ اس کی نجس لاش کو کتوں کی غذا بننے کے لئے ایک گڑھے میں پھینک کر اپنے گاؤں کو واپس چلے آئے۔
دوسرے اشقیاء کی ہلاکت
خولی ابن یزید کا قتل اور سنان ابن انس کا فرار
جب ارباب زیغ کی برق جورو ستم حضرت حسینؓ کے اقرباء اور اعوان و انصار پر گر کر ان کو بے جان کر چکی اور حضرت امام حسینؓ بے یارومددگار رہ گئے تو اعداء نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ زخموں سے تو پہلے ہی نڈھال ہو رہے تھے۔ زرعہ ابن شریک تمیمی نے آپ کے بائیں ہاتھ اور دوش مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ اس کے بعد سب لوگ آپ کے پاس سے ہٹ گئے۔ اس وقت جناب ممدوح کی یہ حالت تھی کہ کبھی تو کھڑے ہو جاتے تھے اور کبھی منہ کے بل گر پڑتے تھے۔ ایسی حالت میں سنان ابن انس نخعی نے آپ پر نیزے کا وار کیا اورآپ زمین پر گر پڑے۔ اب سنان نے اپنے رفیق کار خولی ابن یزید سے کہا کہ اب تم وار کر کے سر کو تن سے جدا کر دو۔ اس نے چاہا کہ ایسا کرے۔ مگر ضعف اور کپکپی کی وجہ سے اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب نہ ہوا۔آخر سنان نے خود گھوڑے سے اتر کر آپ کو شربت شہادت پلایا اور آپ کا سر مبارک کاٹ کر خولی کے ہاتھ میں دے دیا۔ حضرت امام حسینؓ کی جان لینے میں جن اشقیاء نے سب سے زیادہ سرگرمی دکھائی۔ وہ سب کے سب شمر لعین کے کوفی چیلے چانٹے تھے۔ اس قیامت خیز حادثہ کے بعد یزیدی سپاہیوں نے سنان سے کہا۔ تم نے حسینؓ کی جان لے کر سب سے بڑے ’’خطرناک‘‘ عرب کو قتل کیا
ہے۔ اب تم اپنے امیر کے پاس جا کر انعام طلب کرو۔ وہ جا کر عمرو بن سعد کے خیمہ کے دروازے پر بلند آواز سے یہ شعر پڑھنے لگا۔(ترجمہ) میری رکاب کو سونے اور چاندی سے بھر دو۔ کیونکہ میں نے ایک نامور سردار کو قتل کیا ہے۔ میںنے ایسے شخص کی جان لی ہے جو بلحاظ مادر و پدر اور بااعتبار حسب و نسب بہترین شخص تھا۔
عمرو ابن سعد نے پہرہ داروں سے کہا۔ اس کو میرے پاس لے آئو۔ جب وہ عمرو کے سامنے گیا تو عمرو نے اسے ایک لکڑی مار کر بٹھلا دیااور کہا کہ تو دیوانہ ہے جو ایسی بہکی ہوئی باتیں کرتا ہے۔ آخر جب مختار نے مقاتلین امام حسینؓ کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا تو یہ بصرہ کی طرف بھاگ گیا۔ پھر معلوم نہیں کہ اس کا کیا حشر ہوا؟۔ مختار نے اس کے مکان کو منہدم کرا دیا۔
خولی ابن یزید حضرت امام حسینؓ پر قاتلانہ حملے کرنے سے پہلے آپ کے تین بھائیوں جعفر ابن علیؓ، عبد اللہ بن علیؓ اور عثمان ابن علیؓ کو جرعہ شہادت پلا چکا تھا ۔ ان تینوں کی والدہ ام البنین کوفہ ہی کی رہنے والی تھیں۔ یہی خولی امام حسینؓ کا سر مبارک کربلا سے اپنے ہمراہ کوفہ لایا تھا۔ خولی سر مبارک کو لئے ہوئے قصر امارت میں پہنچا تو قصر کو بند پا کر اپنے گھر چلا آیا اور سر کوایک بلند مقام پر رکھ کر اپنی خواب گاہ میں داخل ہوااور اپنی بیوی عیوف بنت مالک سے جو حضر موت کی رہنے والی تھی کہنے لگا۔ میں تیرے لئے ہمیشہ کی دولت مندی لایا ہوں۔ یہ دیکھ حسینؓ کا سر تیرے گھر میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے کہا بد بخت ڈوب مر !لوگ تو سونا چاندی لاتے ہیں اور تو ابن رسولﷺ کا سر لایا ہے۔ خدا کی قسم! اب میرا اور تیرا سر دونوں ایک مکان میں جمع نہیں ہوسکتے۔ اس نیک سرشت خاتون کا بیان ہے کہ اس وقت ایک نور آسمان کی طرف سے امام حسینؓ کے سر مبارک کی طرف آرہا تھا اور ایک سفید پرند اس کے اردگرد منڈلاتادکھائی دے رہا تھا۔ جب مختار نے اپنے سلسلہ داروگیر میں اپنے آدمی خولی ابن یزید کے پکڑنے کو بھیجے تو وہ روپوش ہوگیا۔ مختار کے آدمی اس کو ڈھونڈتے ہوئے اس کے مکان پر پہنچے۔ اس کی بیوی جو اسی وقت سے اس کی دشمن ہو گئی تھی جب کہ وہ حضرت حسینؓ کا سر مبارک اپنے گھر میںلایا تھا۔ ان سے پوچھنے لگی تم لوگ کیا چاہتے ہو؟۔ انہوں نے کہا تمہارا شوہر کہاں ہے؟۔ اس نے زبان سے تو لاعلمی ظاہر کی۔ مگر ہاتھ کے اشارے سے اس کے چھپنے کی جگہ بتا دی۔ یہ اس جگہ پہنچے اور دیکھا کہ وہ اپنے سر پر ایک ٹوکرا رکھے بیٹھا ہے۔ یہ اسے باہر کھینچ لائے۔ مختار اس وقت کوفہ میں ایک جگہ چہل قدمی کر رہا تھا۔ اس وقت ابن کامل بھی اس کے ساتھ تھا۔ اتنے میں ایک قاصد نے آ کر اطلاع دی کہ خولی گرفتار ہو گیا ہے۔ مختار وہاں پہنچا اور حکم دیا کہ اس کو اس کے گھروالوں کے سامنے لا کر قتل کرواور پھر آگ میں جلا دو۔ چنانچہ اس
حکم کی تعمیل ہوئی اور جب تک اس کی لاش جل کر خاکستر نہ ہو گئی۔ مختار وہیں ٹھہرا رہا۔
حصین ابن نمیر کا قتل
حصین ابن نمیر کوفہ کے محکمہ پولیس کا افسر اعلی تھا۔ جب حضرت امام حسینؓ کی آمد آمد تھی تو ابن زیاد نے اسے کربلا کی یزیدی فوج کے زرہ پوش سواروں کا بھی افسر بنا دیا۔ اس کی شقاوت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز کا وقت قریب آیا تو ابو ثمامہ صائدی امام حسینؓ کی خدمت میں عرض پیرا ہوئے۔میری جان آپ پر قربان ہو اے ابن رسولﷺ میری خواہش ہے کہ خدائے تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملوں کہ میں نے اس وقت کی نماز ادا کر لی ہو۔ امام حسینؓ نے فرمایا۔ تم نے نماز کو یاد کیا ہے۔ خدا تم کو مصلیوں اور ذاکروں کے زمرہ میں داخل کرے۔ ہاں اب نماز کا وقت شروع ہے۔ مگر ذرا جا کر فریق مقابل سے کہہ دو کہ تھوڑی دیر کے لئے حملہ آوری سے رک جائیں۔ تا کہ ہم نماز ادا کر لیں۔ حصین ابن نمیر نے پکار کر کہا تمہاری نماز قبول نہ ہوگی۔ حبیب ابن مظاہر نے جو امام حسینؓ کے جان نثاروں میں تھے جواب دیا۔او گدھے! تو سمجھتا ہے کہ آل رسولﷺ کی نماز قبول نہ ہوگی اور تیری قبول ہو جائے گی؟۔ حبیب نے آگے بڑھ کر اس کے گھوڑے کے چہرے پر تلوار ماردی۔ حصین لڑکھڑا کر گرا۔ مگر اس کے ساتھیوں نے اسے بچا لیااور شاید اسی روز کا واقعہ ہے کہ امام حسینؓ پر تشنگی نے غلبہ کیا۔ آپ پانی پینے کے لئے دریائے فرات پر گئے۔ حصین ابن نمیر نے آپ پر ایک تیر پھینکا جو رخ انور پر لگا۔ امام حسینؓ نے اپنے خون کو اپنے ہاتھ میں جمع کر کے آسمان کی طرف پھینکااور خدائے قدوس کی حمد و ثنا کے بعد کہا۔ الٰہی! میں تیرے پاس اس سلوک کی شکایت کرتا ہوں جو تیرے نبی کے نواسے سے روا رکھا جا رہا ہے۔الٰہی! ان ظالموں کو چن چن کر ہلاک کر۔ لیکن ایک روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے آپ کے چہرہ منور پر تیر مارا تھا۔ وہ حصین ابن نمیر نہ تھا۔ بلکہ قبیلہ بنو ابان کا ایک شخص تھا۔خدائے شدید العقاب نے اسے پیاس کے مرض میں مبتلا کر دیا کہ کبھی پانی سے سیر ہی نہ ہوتا تھا۔ ہر چند اس کے لیے پنکھے جھلے جاتے تھے اور سرد پانی اور شربت دیا جاتا تھا۔ مگر اس کی پیاس نہیں بجھتی تھی۔ ہر وقت یہی کہتا تھا کہ مجھے پانی دو۔ پانی دو۔ پیاس نے مجھے مار ڈالا۔ کچھ عرصہ تک اسی عذاب میں مبتلا رہا۔ آخر اس کا پیٹ اونٹ کے شکم کی طرح پھول کر پھٹ گیا اوروہ ہلاک ہو گیا۔ حصین بن نمیر بھی ابن زیاد کے ساتھ جنگ موصل میں قتل ہوا تھا۔ اس کا حملہ آور شریک ابن جدیر تغلبی تھا۔ وہ اس کو ابن زیاد سمجھ کر چمٹ گیا اور آواز دی کہ جلد آؤاورابن زانیہ(ابن زیاد) کو ہلاک کر دو۔چنانچہ مختار کی فوج کے آدمی پہنچے اور ابن نمیر پر حملہ کر کے اسے خاک ہلاک پر لٹا دیا۔
مرہ ابن منقذ پر حملہ اور اس کا فرار
مرہ ابن منقذ عبدی نے امام حسینؓ کے صاحبزادہ علی اکبرؓ کو جام شہادت پلایا تھا۔ علی اکبرؓ کی والدہ لیلی بنت ابو مرہ بن عرضہ بن مسعود ثقفی تھیں۔ جناب علی اکبرؓ نے میدان جانستان میں آکر ابھی یہ رجزیہ اشعار ہی شروع کئے تھے کہ مرہ نے ان پر نیزے کا وار کیا۔ وہ گر گئے اور اعداء نے بڑھ کر ان کو تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ امام حسینؓ ان کی یہ حالت دیکھ کر کہنے لگے۔ اے میرے بچے! جن لوگوں نے تجھے قتل کیا ہے۔ خدا ان کو قتل کرے۔ اف! یہ لوگ خدائے عزیز و جبار کا مقابلہ کرنے اور رسول اﷲﷺ کی آبرو ریزی میں کس قدر بیباک ہیں؟۔ بیٹا! تیرے بعد دنیا ایک چٹیل میدان ہے۔ پھر امام حسینؓ اپنے چند جان نثاروں کو ساتھ لے کر ان کی طرف گئے اور فرمایا کہ اپنے بھائی کو اٹھا لے چلو۔ حکیم ابن طفیل کی جانستانی کے بعد مختار نے حضرت علی اکبرؓ کے قاتل مرہ ابن منقذ کی طلب میں آدمی بھیجے۔ یہ بڑا جنگجو آدمی تھا۔ مختار کے آدمیوں نے جا کر اس کا مکان گھیر لیا۔ وہ اپنے تیز رو گھوڑے پر سوار ہو کر ہاتھ میںنیزہ لئے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے برآمد ہوااور حملہ آوروں پر نیزہ زنی کرتا رہا۔ مگر اس کے نیزہ سے کسی کو گزند نہ پہنچا۔ ابن کامل نے تلوار سے اس پر وار کئے۔ وہ ان کو اپنے بائیں ہاتھ سے روکتا گیا۔اس طرح تلوار اس کے ہاتھ میں اتر گئی۔ یہ دیکھ کر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ گھوڑا اسے اس تیزی سے لے اڑا کہ یہ لوگ اسے کسی طرح نہ پاسکے ۔ یہاں سے وہ بصرہ کی طرف بھاگ گیا۔مگر اس کے بعد اس کا ہاتھ ہمیشہ کے لے شل اور بیکار ہوگیا۔
زید بن رقاد حبانی کی ہلاکت
حضرت مسلم ابن عقیل کو جو جناب امام حسینؓ کے عم زاد بھائی تھے کربلا کے قیامت خیز خونین حوادث سے تھوڑے ہی دن پہلے ابن زیاد نے کوفہ کے قصر امارت کی چھت پر قتل کرایا تھا۔ ان کے دو خورد سال فرزند تو انہی کیساتھ کوفہ میں ابن زیاد کے تیر جفا کا نشانہ بن کر دنیا سے گزر گئے تھے۔ تیسرے صاحبزادہ عبداﷲ جو ان دونوں سے بڑے تھے۔حضرت امام حسینؓ کے ساتھ کربلا آئے ہوئے تھے۔ زید ابن رقاد جبانی نے ان کی جان لے کر دنیا اور عقبی کی رسوائی خرید لی۔ یہ نابکار خود از راہ فخر اس بات کا مدعی تھا کہ میں نے عبد اللہ بن مسلم کو جرعہ مرگ پلایا تھا۔ یہ شخص کہا کرتا تھا کہ جب میں نے عبداﷲ کے تیر مارا تواس نوجوان نے اپنی پیشانی کو پیکان سے محفوظ رکھنے کے لئے اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ مگر میرے تیر نے اس ہاتھ کو پیشانی کیساتھ ایسا پیوست کر دیا کہ وہ اسے پیشانی سے ہٹا نہ سکا جب اس کا ہاتھ پیشانی سے کسی طرح علیحدہ نہ ہو سکا تو اس نے دعا مانگی
الٰہی!جس طرح ہمارے دشمنوں نے ہمیں ذلیل کیا ہے توبھی ان کو ایسا ہی ذلیل کر اور جس طرح انہوں نے ہمیںقتل کیا ہے اسی طرح تو بھی انہیں ہلاک کر۔ اس کے بعد میں نے ایک اور تیر چلایا۔ جس نے اس لڑکے کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد میں اپنے مقتول کے پاس آیا جس تیر سے اس کی ہلاکت واقع ہوئی تھی وہ تو میں نے آسانی سے اس کے شکم میں سے نکال لیا۔مگر دوسرے تیر کو جو پیشانی پر لگا تھا نکالنے کی بہت جدوجہد کی۔ اس کی لکڑی تو میرے ہاتھ میںآگئی مگر پیکان پیشانی ہی میں پیوست رہا اور اسے میں نہ نکال سکا۔ مختار نے اس کی تلاش کے لئے پولیس روانہ کی۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو وہ تلوار لے کر ان کی طرف بڑھا۔ابن کامل نے جو پولیس افسر تھا اپنے آدمیوں سے کہا کہ کوئی شخص اس پر تلوار یا نیزہ نہ چلائے۔ بلکہ تیروں اور پتھروں سے ہی اس کا کام تمام کر دو۔ چنانچہ اس پر پتھروں اور تیروں کا مینہ برسنے لگا۔ وہ زخمی ہو کر گر پڑا۔ ابن کامل نے کہا کہ اگر کچھ رمق باقی ہو تو اسے باہر لے کر آؤ۔ وہ باہر لائے تو ابھی زندہ تھا۔ ابن کامل نے آگ منگوا کر اسے زندہ ہی آگ میں جھونک دیا۔
عمرو ابن حجاج زبیدی کی ہلاکت
جس طرح بہت سے ٹوڈی لوگ اپنی سرکارپرستی پر فخر کیا کرتے ہیں۔اسی طرح عمرو ابن حجاج کو بھی اپنے امیر المومنین (یزید) کی وفادار رعایاء ہونے کا بڑا گھمنڈ تھا۔ کربلا کے ایک معرکہ میں اعداء دست بدست لڑائی کرنے کی غرض سے آگے بڑھے۔ لیکن ان کا جو آدمی بھی مقابلہ پر آیا۔ وہ وہیں کھیت ہو رہا۔ یہ دیکھ کر عمرو بن حجاج نے جو میمنہ کا افسر تھا چلا کر یزیدی فوج سے کہا کہ اے شہسوارو! کیا تمہیں معلوم ہے کہ کس سے لڑ رہے ہو؟۔ تم ایسے لوگوں سے برسر پیکار ہو جو موت کے خواہاں ہیں۔ خبردار آیندہ کوئی شخص ان سے دست بدست مبارزہ کرنے کے لئے نہ نکلے۔ کیونکہ یہ مٹھی بھر آدمی ہیں۔ ان میں سے بچ کر کوئی مشکل ہی سے جا سکے گا۔ تم تو ان پر سنگباری ہی کرتے تو بھی ان کو مستاحل و معدوم کر سکتے تھے۔
اہل کوفہ اپنی طاعت اور جماعت کا التزام رکھو اور اس شخص (امام حسینؓ) کے قتل میں مطلق تردد نہ کرو۔ جس نے دین میں رخنہ اندازی کی اور امام(یزید) سے برسر خلاف ہوا۔ امام حسینؓ نے اس کا بیان سن کر فرمایا۔ اے عمروہ ابن حجاج! کیا تم لوگوں کو میرے خلاف مشتعل و برانگیختہ کرتے ہو؟۔ کیا ہم نے دین میں رخنہ اندازی کی ہے یا تم نے؟۔ واﷲ!جب تمہاری روحیں قبض کی جائیں گی اور تم دنیا سے بصد حسرت ویاس کوچ کرو گے۔ تب تم پر حقیقت حال کھلے گی۔ جو اشقیاء پانی کی بندش پر متعین تھے۔ عمرو ابن حجاج ان کا افسر تھا۔ جب امام حسینؓ اور آپ کے
انصار پر پیاس کا غلبہ ہوا تو آپ نے اپنے بھائی عباسؓ کو بلایا۔ تیس سوار بیس پیادے اور بیس مشکیں ان کیساتھ کر دیں اور پانی کے لئے روانہ کیا۔ یہ لوگ رات کے وقت دریا پر پہنچے۔ جناب نافعؒ ابن ہلال علم لئے ہوئے سب سے آگے بڑھ گئے۔ عمرو ابن حجاج پکارا۔کون ہے؟کیوں آئے ہو؟ نافع نے کہا۔ پانی پینے آئے ہیں۔ ابن حجاج نے کہا۔ تم لوگوں کو پانی پینے کی اجازت نہیں۔ ہم یہاں اسی لئے متعین ہیں کہ پانی نہ لینے دیں۔ نافع نے پیادوں سے کہا کہ تم جا کر پانی بھرو۔ پیادے دوڑ پڑے اور سب نے اپنی اپنی مشکیں بھر لیں۔ عمرو ابن حجاج نے اپنی جمعیت کے ساتھ ان پر حملہ کر دیا۔جناب عباسؓ ابن علی ؓ اور ان کے سواروں نے جوابی حملہ کر کے سب کا منہ پھیر دیا۔ اب عباس نے پیادوں سے کہا کہ تم لوگ جلدی سے نکل جاؤاور خود دشمن کو روکنے کے لئے ٹھہرے رہے۔ اتنے میں عمرو پھر پلٹ پڑااور مقابلہ شروع کر دیا۔ نافع بن ہلال نے ایک یزیدی پر نیزہ کا وار کر کے اس کو ہلاک کر دیااور انصار حسینؓ بھری ہوئی مشکیں لے کر صحیح و سلامت اپنے خیموں میں پہنچ گئے۔ مختار نے عمرو کی گرفتاری کے لئے آدمی بھیجے۔ اس کے کان میں بھنک پڑ گئی۔جھٹ اس باد پیما پر سوار ہو کر واقصہ کی راہ لی اور قیامت تک کے لئے مفقود ہو گیا۔ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ مختار کے آدمیوں نے اسے ایسے حال میں جا پکڑا جبکہ و شدت تشنگی سے جان بلب تھا۔ انہوں نے ہلاک کرکے اس کا سر اتار لیا۔
عبدالرحمن بجلی کا قتل
عبدالرحمن بجلی جناب مسلم بن عوسجہ کا قاتل ہے جو کوفہ میں جناب مسلم ابن عقیلؓ کے سب سے بڑے معاون تھے۔ جناب مسلم ابن عقیلؓکی شہادت کے بعد مسلم ابن عوسجہ نے جیسے ہی سنا کہ امام حسینؓ تشریف لا رہے ہیں۔ تو یہ آکر ان کے شریک حال ہوگئے۔ امام حسینؓ کے اعوان وانصار میں مسلم ابن عوسجہ اسدی سب سے پہلے زخمی ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ عمرو ابن حجاج نے حضرت امام حسینؓ پر فرات کی طرف سے حملہ کیا۔ تھوڑی دیر تک جنگ ہوتی رہی۔ جب عمرو ابن حجاج حملہ کرکے پلٹا تو معلوم ہوا کہ مسلم ابن عوسجہ زخم خوردہ زمین پر پڑے ہیں۔ ابھی کچھ رمق باقی تھی کہ حضرت امام حسینؓ ان کے پاس آئے اور کہا۔ مسلم ! خدا تم پر رحم کرے۔ پھر حبیب ابن مظاہر نے ان کے قریب آکر کہا۔اے ابن عوسجہ!مجھے تمہارے قتل کا بڑا قلق ہے۔ لیکن تمہیں بہشت مبارک ہو۔ ابن عوسجہؒ نے نہایت آہستگی سے جواب دیا۔ خدا تم کو بھی خیر و خوبی مبارک کرے۔ حبیب نے کہا میں بھی ابھی تمہارے ہی پاس آنے کو ہوں۔ ورنہ تم سے کہتا کہ کچھ وصیت کر جائو۔ مسلم ابن عوسجہ نے امام حسینؓ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ بس ان پر اپنی جان فدا
کرنا۔ حبیب نے کہا۔ واﷲ! میں ایسا ہی کروں گا۔ جب مسلم ابن عوسجہؒ کی روح نے تن سے مفارقت اختیار کی تو ان کی کنیز ان کا نام لے لے کر بین کرنے لگی۔ عمرو ابن حجاج کے لشکر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے کہ ہم نے مسلم ابن عوسجہ کو قتل کر دیا۔ شیث ابن ربعی کوفی جو یزیدی لشکر میں ایک سر برآوردہ رئیس تھا۔اپنے آدمیوں سے کہنے لگا۔خدا تمہیںغارت کرے۔ اپنے عزیزوں کو اپنے ہی ہاتھ سے قتل کرتے ہواور پھر خوشیاں مناتے ہو اور عزیز بھی مسلم ابن عوسجہ ایسا شخص جو کوفہ کا مایہ ناز تھا۔اس کے بعد کہنے لگا۔ واﷲ! میں نے آذربیجان کے معرکہ میں بچشم خود دیکھا تھا کہ ابھی مسلمانوں کے سوار کافروں کے مقابلہ میں آنے بھی نہیں پائے تھے کہ مسلم ابن عوسجہ چھ کافروں کو موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔ افسوس تم ایسے مجاہد فی سبیل اللہ کی جان لے کر خوش ہورہے ہو۔ مسلم بن عوسجہ کو عبدالرحمن بجلی اور مسلم ابن عبداﷲ ضیابی نے قتل کیا تھا۔مختار نے حکم دیا کہ عبدالرحمن ابن ابو خشارہ بجلی اور کوفہ کے فلاں فلاں یزیدی اشقیاء حاضر کئے جائیں۔ پولیس عبدالرحمن بجلی کے ساتھ زیاد ابن مالک صبعی، عمران ابن خالد قشیری اور عبد اللہ ابن قیس خولانی کو بھی پکڑ لائی۔ مختار نے ان سے کہا۔ اے صالحین امت کے قتل کرنے والو! اور اے سید شباب اہل الجنتہ کی جان لینے والے بھیڑیو! آج خدا نے تم سے خوب انتقام لیا ہے۔ یہ کہہ کر حکم دیا کہ سب کر گردنیں ماردی جائیں۔ چنانچہ فوراً حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ اپنے سینہ پر رنج کے صد ہزار داغ لے کر اس عبرت کدہ ہستی سے چلے گئے۔
مالک ابن نسیر بدی کی جانستانی
مالک ابن نسیر بدی وہی شقی ہے جس کے پاس حضرت حسینؓ کی ٹوپی تھی۔غالباً شہادت ہی کے روز کا واقعہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ تن تنہا میدان کارزار میں کھڑے رہے۔ کسی نے تعرض نہ کیا اور صبح کا بہت سا وقت اسی حالت میں گذر گیا۔ جب کبھی کوئی کوفی آپ کی طر ف آتا تو جھجک کر واپس چلا جاتا اور آپ کو ضررپہنچانے اور اپنے سر گناہ عظیم لینے کی جسارت نہ کرتا۔آخر قبیلہ بنو کندہ کا ایک شخص مالک ابن نسیر بدی آپ کی طرف بڑھا اور تلوارسے آپ کے سر مبارک پر وار کیا جس سے آپ کی ٹوپی کٹ گئی۔ سر خون آلود ہوگیااور ٹوپی خون سے بھر گئی۔ امام حسینؓ نے اس سے کہا۔خدا ظالوں کے ساتھ تیرا حشر کرے۔ پھر امام حسینؓ نے اس خون سے لتھڑی ہوئی ٹوپی کو سر سے اتار کر پھینک دیااور دوسری ٹوپی پہن لی۔ بدی نے پہلی ٹوپی اٹھالی اور اپنے اہل و عیال میں لاکر اسے دھونے لگا۔ یہ دیکھ کر اس کی بیوی نے کہا۔ کیاابن رسول اﷲﷺ کا چھینا ہوا لباس تو میرے گھر لاتا ہے؟۔ میرے پاس سے چلا جا۔ یہ شخص اس کے بعد سخت مفلس و قلاش ہو گیا اور
ساری عمر فقر و فاقہ میں گذاری۔ انجام کار جب مختار نے پکڑ دھکڑ شروع کی تو بدی اور چند دوسرے اشقیاء کوفہ سے قادسیہ کو بھاگ گئے۔ مختار نے مالک ابن عمرو نہدی نام ایک افسر کو ان کی گرفتاری کے لے بھیجا۔ اس نے انہیں جا پکڑا اور عشاء کے وقت مختار کے پاس لے آیا۔ مختار نے ان سے کہا اے اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اس کی کتاب اور آل رسولؐ کے دشمنو! حسینؓ بن علیؓ کہاں ہیں؟۔ میرے پاس حسینؓ کو لاؤ۔ تم نے اس برزگ ہستی کو قتل کیا۔ جس پر نماز میں درود سلام بھیجنے کا تم کو حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا۔ اللہ امیر پر رحم کرے۔ ہمیں جبراً ان کے مقابلہ پر بھیجا گیا تھا۔آپ ہم پر احسان کریں اور چھوڑ دیں۔ مختار نے کہا۔ تم نے اپنے نبیؐ کے نواسے پر کیوں احسان نہ کیا؟۔ اس پر تم کو کیوں رحم نہ آیا؟۔ انہیں کیوں پانی نہ پینے دیا؟۔ اس کے بعد بدی سے خطاب کر کے کہا۔ کیوں بے بدی کے بچے! تو جناب امام حسینؓ کی ٹوپی اتاری تھی؟۔ عبد اللہ ابن کامل نے کہا۔ ہاں جناب! یہی وہ شخص ہے۔ مختار نے حکم دیا کہ بدی کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں قطع کر کے چھوڑ دو۔تا کہ یہ اسی طرح تڑپ تڑپ کر جان دے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ اسی طرح جان نکلتے نکلتے ہلاک ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے دونوں ساتھی بھی نہنگ شمشیر کے حوالے کر دیئے گئے۔
حکیم ابن طفیل طائی کا قتل
مختار نے اپنے افسر پولیس عبداﷲ ابن کامل کو حکم دیا کہ حکیم ابن طفیل طائی کو بھی گرفتار کیا جائے۔ اس نے مقتل کربلا میں حضرت عباس علم بردار کے لباس و اسلحہ پر قبضہ کیا تھا اور حضرت امام حسینؓ کے تیر مارا تھا۔ یہ شخص کہا کرتا تھا کہ میرا تیر حسینؓ کے پاجامے میں اٹک کر رہ گیاتھااور اس سے ان کو کوئی گزند نہیں پہنچا تھا۔ابن کامل نے اس کو گرفتار کیا اور مختار کے پاس لے چلا۔ان دنوں حضرت عدی ابن حاتمؓ جو پیغمبر خداﷺ کے صحابیؓ تھے کوفہ میں تشریف فرما تھے۔ چونکہ یہ شخص حضرت عدی ابن حاتم طائیؓ کا ہم قوم تھا۔ حکیم ابن طفیل کے اقرباء روتے پیٹتے ان کے پاس فریاد رسی کے لئے پہنچے اور جناب عدی ؓ کو قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ حکیم بالکل بے گناہ ہے۔ اس نے اہل بیت نبوت کے خلاف کسی کام میں حصہ نہیں لیا۔ حضرت عدیؓ سفارش کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ حضرت عدیؓ نے پہلے عبداﷲ ابن کامل سے مل کر سفارش کی۔اس نے کہامیں اس کے متعلق کچھ نہیں کر سکتا۔ امیر مختار حاکم مجاز ہیں۔حضرت عدیؓ نے کہا میں مختار کے پاس بھی جاتا ہوں۔ اس سے پیشتر مختار نے بہت سے ملزموں کو حضرت عدیؓ کی سفارش پر چھوڑ دیا تھا۔ مگر ان لوگوں میںسے کسی پر آل رسولؐ کے قتل کا الزام نہیں تھا۔ جب حضرت عدیؓ قصر امارت کی طرف
روانہ ہوئے۔تو شیعوں نے ابن کامل سے کہا ہمیں خوف ہے کہ امیر مختار اس خبیث کے متعلق حضرت عدیؓ کی سفارش قبول کر لیںگے۔ حالانکہ اس کا جرم ثابت ہے۔ اس لئے اگر اجازت دو تو ہم حکم رہائی سے پہلے ہی اس کا کام کر دیں۔ ابن کامل نے انہیں اجازت دے دی۔ انہوں نے حکیم کو جس کی مشکیں بندھی ہوئی تھیں ایک جگہ نشانہ بنا کر کھڑا کیا اور کہا تو نے حضرت عباسؓ کے کپڑے اتارے تھے۔ ہم بھی تیرے کپڑے اتارتے ہیں۔ چنانچہ اس کو برہنہ کر دیا۔ پھر اس سے کہا کہ تو نے امام حسینؓ کو صرف ایک تیر کا نشانہ بنایا تھا۔ ہم بھی تجھے ایک ہی تیر کا نشانہ بناتے ہیں۔چنانچہ اس کے ایک ایسا تیر مارا جو پیام مرگ ثابت ہوا۔کہتے ہیں کہ گو تیر ایک ہی تھا۔ لیکن اس کی ساخت اس قسم کی تھی کہ اس میں سے بہت سے پیکان نکل کر آلگے۔ جب حضرت عدیؓ مختار کے پاس پہنچے تو اس نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی اور اپنے پاس بٹھایا۔ عدیؓ نے اپنے آنے کی غرض بیان کی۔ مختار نے کہا کیا آپ پیغمبر خدا ﷺ کے تربیت یافتہ ہو کر اس امر کو روا رکھتے ہیں کہ امام حسینؓ کے قاتلوں کو مجھ سے طلب فرمائیں۔ حضرت عدیؓ نے کہا کہ آپ کو اس کے متعلق غلط اطلاعیں پہنچی ہیں۔ مجھے کامل یقین دلایا گیا ہے کہ وہ بالکل بے گناہ۔ مختار نے کہا۔اچھا میں آپ کی خاطر اسے چھوڑے دیتا ہوں۔ اتنے میں ابن کامل بھی وہاں پہنچ گیا۔ مختار نے پوچھا حکیم کیا ہوا؟۔ ابن کامل نے کہا میں مجبور تھا شیعوں نے کسی طرح نہ مانا۔ یاد رہے کہ اس باب میں جہاں کہیں شیعہ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے آج کل کے رافضی مراد نہیں ہیں۔ جو حضرت سید الاولین والآخرینﷺ کے اصحاب کبارؓ کو گالیاں دیتے ہیں بلکہ شیعان علیؓ سے مراد صرف حامیان علیؓ ہیں۔یعنی وہ لوگ جو علی رغم اہل شام حضرت امیر المومنین علیؓ کے معاون و ناصر تھے۔
عثمان ابن خالد جہنی کا قتل
ایک دن مختار نے عبداﷲ ابن کامل کو حکم دیاکہ عثمان ابن خالد جہنی اور بشر ابن سوط قابضی کو گرفتار کر لاؤ۔ یہ دونوں اشخاص حضرت امام حسینؓ کے مقابلہ میں برسر پیکار تھے اور جناب عبدالرحمن ابن عقیل ابن ابی طالبؓ کو شہید کر کے ان کے لباس اور اسلحہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ عبد اللہ ابن کامل عصر کے وقت ایک بڑی جمعیت کے ساتھ بنی دہمان کی مسجد میں پہنچا اور ان لوگوں سے کہا کہ اگر عثمان ابن خالد میرے پاس نہ لایا گیا تو میں تم سب کی گردن مار دوں گا۔بنو دہمان نے کہا۔ ہمیں مہلت دیجئے۔ ہم اسے تلاش کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کی تلاش شروع ہوئی۔ چونکہ مختار کی طرف سے قاتلان اہل بیت کے خلاف داروگیر کا سلسلہ زور شور سے جاری تھا۔ یہ دونوں کوفہ سے اس کوشش میں نکلے تھے کہ جزیرہ کو بھاگ جائیں۔ بنی دہمان نے ان دونوں کو ایک احاطہ میں
پایااور انہیں اپنے ساتھ عبد اللہ بن کامل کے پاس لے آئے۔ اس نے انہیں دیکھ کر کہا۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے تم پر قابو ملا۔ ابن کامل انہیں لے کر روانہ ہوا۔ جب بنو جعد کے کنوئیںپر آیا تو دونوں کی گردن ماردی اور دارالامارت پہنچ کر مختار کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ مختار نے حکم دیاکہ واپس جاؤ اور ان کی لاشوں کو نذر آتش کر دواور جب تک لاشیں جل نہ جائیں۔ ان کے دفن کرنے کی ممانعت کردو۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی۔
عمرو ابن صبیح صیدادی کی ہلاکت
عمرو ابن صبیح صیدادی نے حضرت عبد اللہ ابن عقیل ابن ابی طالبؓ کو شہید کیا تھا۔ جب رات کا زیادہ حصہ گذر چکا اور سب لوگ سو گئے تو پولیس گرفتاری کے لئے اس کے مکان پر پہنچی۔ یہ اس وقت مکان کی چھت پر بے خبر سو رہا تھا۔ تلوار اس کے سرہانے رکھی تھی۔ پولیس نے اچانک سرپر پہنچ کر پہلے تلوار پر قبضہ کیا ۔ پھر اس کو گرفتار کرلیا۔جب اس نے اپنی تئیں پولیس کی گرفت میں دیکھا تو کہنے لگا۔ اللہ اس تلوار کا برا کرے۔ یہ مجھ سے کس قدر قریب تھی۔ لیکن اب کتنی دور ہو گئی۔ یہ لا کر مختارکے سامنے پیش کیا گیا۔ اس وقت مختار نے اسے اپنے قصر ہی میں قید کرا دیا اور صبح کو دربار عام میں حاضر کیا۔ جب بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور یہ شخص سلاسل و اغلال میں جکڑا ہوا اس کے سامنے حاضر کیا گیا تو مختار کو خطاب کر کے نہایت ڈھٹائی سے کہنے لگا۔ اے کافر و فاجر! اگر میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تم کو معلوم ہو جاتا کہ میں کمزور اور پست ہمت نہیں ہوں۔ میری دلی آرزو یہ تھی کہ میں تمہارے بجائے کسی دوسرے شخص کے ہاتھ سے مارا جاتا۔ کیونکہ میں تمہیں بدترین خلائق سمجھتا ہوں۔ کاش! اس وقت میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں تجھے مزا چکھا دیتا۔ اس کے بعد اس نے پولیس افسر عبد اللہ ابن کامل کی آنکھ پر زور سے طمانچہ رسید کیا۔ ابن کامل ہنسا اور اسے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر مختار سے کہنے لگا۔ یہ شخص کہتا ہے کہ میں نے آل محمدﷺ کو زخمی کیا اور ان پر نیزہ بازی کی۔ اب آپ اس کے بارہ میںکیا حکم دیتے ہیں؟۔ مختار نے کہا نیزے مار مار کر اس کا کام تمام کردو۔ چنانچہ اس حکم کی فوراً تعمیل کر دی گئی۔
اسی طرح مختار نے بہت سے دوسرے دشمنان آل رسولؐ کا بھی قلع قمع کیا۔ لیکن بخوف طوالت اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے جو حضرات اخذ و بطش کے مزید کارنامے معلوم کرنا چاہیں۔ وہ تاریخ ابن جریر طبری اور تاریخ کامل ابن اثیر کی طرف رجوع فرمائیں۔
فصل:۵…دعویٰ نبوت و وحی، شیعہ بننے کی غرض و غایت
اوپر لکھا جا چکا ہے کہ مختار کو ابتداء میں اہل بیت نبوت سے کوئی محبت و ہمدردی نہ تھی۔
بلکہ خارجی المذہب ہونے کے باعث آل محمد ﷺ سے بغض و عناد رکھتا تھا۔ لیکن اس کے بعد مصلحتاً اپنے تئیں شیعہ اور محب اہل بیت ظاہر کر کے مقاتلین امام حسینؓ کے درپئے انتقام ہوا۔پس یزیدیوں کا قلع قمع جو اس سے صورت پذیر ہوا۔ اس کی تہ میں دراصل استمالت قلوب اور حب جاہ وریاست کا جذبہ کام کر رہا تھا۔چنانچہ ایک مرتبہ کسی نے اس سے کہا کہ اے ابا اسحاق! تم کس طرح اہل بیت کی محبت کا دم بھرنے لگے۔ تمہیں تو ان حضرات سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ کہنے لگا کہ جب میں نے دیکھا کہ مروان نے شام پر تسلط جما لیا ہے ۔ عبد اللہ ابن زبیرؓ نے مکہ معظمہ میں حکومت قائم کر لی ہے۔ نجدہ یمامہ پر قابض ہوگیا ہے اور ابن حازم نے خراسان دبا لیا ہے تو میں کسی عرب سے ہٹیا نہیں تھا کہ چپ چاپ بیٹھا رہتا اور حصول مملکت کے لئے ہاتھ پاؤں نہ مارتا۔ میں نے جدوجہد کی اور ان بلاد پر عمل و دخل کر کے ان کا ہم پایہ ہو گیا۔
(تاریخ طبری عربی ج۳ص ۴۹۱،الدعاۃ مطبوعہ مصر ص۶۳)
مختار محبان اہل بیت اور شیعان علیؓ کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کر کے نہ صرف خود فائز المرام ہوا۔ بلکہ دشمنان اہل بیت سے مظلومین کربلا کا انتقام لے کر اہل بیت کی مقتدر ہستیوں کو بھی اپنا ممنون احسان بنا لیا۔ چنانچہ جب مختار کوفہ میں قتل ہوا ہے تو جناب عبداﷲ ابن زبیرؓ نے مکہ معظمہ میں عبداﷲ بن عباسؓ سے کہا۔ کیا آپ نے اس کذاب کا حال سنا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے پوچھا کذاب کون؟۔ ابن زبیر ؓ نے کہا مختار۔ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ہاں میں مختار کے قتل کا حال سن چکا ہوں۔ ابن زبیرؓ کہنے لگے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس کو کذاب کہنا پسند نہیں کرتے اور آپ کو اس کی ہلاکت کا صدمہ ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا۔ ہاں! مختار وہ شخص تھا جس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا۔ ہمارے خونوں کا انتقام لیا اور ہمارے سینوں کی آگ بجھائی۔ اس کی خدمات کا صلہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اسے گالیاں دیں یا اس کی موت پر اظہار مسرت کریں۔‘‘
(تاریخ کامل ابن اثیرج۴ص۷۲)
دعویٰ نبوت کی بناء
جب مختار نے قاتلین امام حسینؓ کے تہس نہس کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اس قسم کی بہجت افزا خبریں فضائے عالم میںگونج رہی تھیںکہ دشمنان اہل بیت کے گلے پر چھری رکھ کر محبان آل عباسؓ کے زخم ہائے دل پر ہمدردی و تسکین کا مرہم رکھا ہے تو پیروان ابن سبا اور غلاۃ شیعہ نے اطراف واکناف ملک سے سمٹ کر کوفہ کا رخ کیااور مختار کی حاشیہ نشینی اختیار کر کے تملق و چاپلوسی
کے انبار باندھنے شروع کر دیئے۔بات بات میں مدح و ستائش کے پھول برسائے جاتے اور مختار کو آسمان تعلی پر چڑھایا جاتا۔ بعض خوشامد پسندوں نے تو یہاں تک کہنا شروع کیا کہ اتنا بڑا کار عظیم و خطیر جو اعلیٰ حضرت کی ذات قدسی صفات سے ظہور میں آیا ہے۔ نبی یا وصی کے بغیر کسی بشر سے ممکن الوقوع نہیں۔ اس تملق شعاری کا لازمی نتیجہ جو ہو سکتا تھا وہی ظاہر ہوا۔مختار کے دل و دماغ میں انانیت وپندار کے جراثیم پیدا ہوئے جو دن بدن بڑھتے گئے اورانجام کار اس نے بساط جرأت پر قدم رکھ کرنبوت کا دعوی کر دیا۔
(الفرق بین الفرق،مطبوعہ لبنان ص ۳۶ مکمل حالات)
اس دن سے اس نے مکاتبات و مراسلات میں اپنے آپ کو مختار رسول اللہ لکھنا شروع کر دیا۔دعویٰ نبوت کے ساتھ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ خدائے برتر کی ذات نے مجھ میں حلول کیا ہے اور جبرئیل امین ہروقت میرے پاس آتے ہیں۔جب حضرت عبداﷲ ابن زبیرؓ کے بھائی مصعب ابن زبیرؓ عامل بصرہ نے کوفہ پر حملہ کر کے مختار کو قتل کیا ہے۔ اس سے پہلے مختار نے بصرہ پر تسلط جمانے کے لئے سازشوں کا جال پھیلا رکھا تھااور وہاں کی مقتدر ہستیوں کو گانٹھنے میں کوشاں تھا۔اس سلسلہ میں اس نے بصرہ کے روساء مالک ابن مسمع اور زیاد بن عمرو کو ایک خط لکھا جس میں مرقوم تھا کہ تم میری دعوت کو قبول کرو اور میرے حلقہ اطاعت میںآجاؤ۔دنیا میں جو کچھ تم چاہو گے تم کو دیا جائے گااور آخرت میں جنت کا تمہارے لئے میں ضامن ہوتا ہوں۔ یہ خط پڑھ کر مالک از راہ مذاق زیاد سے کہنے لگا کہ مختار دنیا و عقبی کی نعمتیں تم کو بخش رہا ہے۔ بس اب کس چیز کی کمی ہے؟۔ زیاد ہنس پڑا اور ازراہ مذاق کہنے لگا۔ بھائی میں تو وعدوں پر کسی کا ساتھ نہیں دے سکتا جو کوئی ہمارے سامنے سونے چاندی کا ڈھیر لگائے گا اسی کی رفاقت اختیار کریںگے۔ مختار نے احنف ابن قیس نام ایک رئیس کو یہ خط لکھا تھا۔ السلام علیکم! بنی مضر اور بنی ربیعہ کا برا ہو۔احنف اپنی قوم کو اس طرح دوزخ کی طرف لے جارہا ہے کہ وہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ ہاں تقدیر کو میں بدل نہیں سکتا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم مجھے کذاب کہتے ہو۔ مجھ سے پہلے انبیاء کو بھی اسی طرح جھٹلایا گیا تھا۔ میں ان میں سے اکثر سے فائق و برتر نہیں ہوں۔ اس لئے اگر مجھے کاذب سمجھا گیا تو کیا ہوا۔
(تاریخ طبری عربی ج۳ص۴۶۸)
ایک مرتبہ کسی نے حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ سے کہا کہ مختار نزول وحی کا مدعی ہے۔ انہوں نے فرمایا۔مختار سچ کہتا ہے خود خدائے برتر نے اس وحی کی اطلاع اس آیت میں دی ہے ’’وان الشیاطین لیوحون الی اولیاء ہم‘‘ {شیاطین اپنے دوستوں پر وحی نازل کیا کرتے ہیں۔}
مختاری د عاوی و اکاذیب کے متعلق مخبر صادقﷺ کی پیشینگوئی
مختار کی کذب آفرینیوں کے متعلق خود مخبر صادقﷺ کی پیشینگوئی بھی کتب حدیث میں مروی ہے۔ چنانچہ (ترمذی ج۲ص۲۳۱) عبد اللہ ابن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’ثقیف کذاب و مبیر‘‘ {قوم بنی ثقیف میں ایک کذاب پیدا ہو گا اور ایک مفسد وبلاکو} علماء نے کذاب کو مختار پر اور مبیر کو حجاج بن یوسف پر محمول کیا ہے۔چنانچہ مسلم نے اپنی صحیح، ج۳ص۳۱۲ میں روایت کیا ہے کہ حضرت اسماء (ذات النطاقینؓ بنت حضرت ابوبکرصدیقؓ) نے حجاج بن یوسف سے کہا کہ رسول خداﷺ نے ہم سے فرمایا تھا کہ قبیلہ سقیف میں ایک کذاب ظاہر ہوگا اور ایک مبیر۔ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا یعنی مختار ثقفی اور مبیر تو ہے۔ اس طرح عدی بن خالد سے مروی ہے کہ پیغمبر خداﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں تین دجالوں سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ! آپ نے تو ہمیں دجال اور اور اکذب الکذابین(مسیلمہ) کے متعلق اطلاع دی تھی۔ اب تیسرا شخص کون ہے؟۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ایک فتنہ گر ہوگا۔ جسے لوگ عارف باﷲ سمجھیں گے۔ حالانکہ وہ ایک ایسا دجال ہوگا جو سیاہ بھیڑیے سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔ آل محمدؐ کی محبت کو ظاہر کر کے بندگان خدا کو کھا جائے گا۔ حالانکہ اسے میری سنت سے کوئی دورکا بھی واسطہ نہ ہوگا۔
(المستدرک ج۵ص۷۱۷حدیث ۸۶۱۲)
دوسرے کا گھر جلا کر پیشین گوئی پوری کر لی
جھوٹے مدعی، تائید ربانی اور نصرت الٰہی کی دولت سے محروم ہوتے ہیں۔ اس لئے نقل کو اصل ظاہر کرنے کے لئے انہیںحیلہ جوئیوں اور ناجائز تدبیروں سے کام لینا پڑتا ہے۔مختار بھی اسی اصول کے ماتحت اپنی من گھڑت وحی،معجزات اور پیشینگوئی کے پورا کرنے کے لئے عجیب وغریب چالاکیاں کیا کرتا تھا۔ مثلاً ایک مرتبہ لمبا چوڑا عربی الہام تالیف کیا۔ جس کے آخری الفاظ یہ تھے۔ ورب السماء لینزلن نار من السماء فلیحرقن داراسماء! ضرورآگ آسمان سے نازل ہو گی اور اسماء کا گھر جلا دے گی۔جب اسماء بن خارجہ کو اس مختاری الہام کی اطلاع ہوئی تو اپنے گھر کا تمام مال و اسباب نکال کر وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گیا۔ لوگوں نے نقل مکانی کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگا۔ مختار نے میرا گھر جلنے کی پیشینگوئی کی ہے۔ اس لئے اب وہ اپنا الہام پورا کرنے کے لئے ضرور میرا مکان نذر آتش کر دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ رات کی تاریکی میں ایک شخص کو بھیج کر آگ لگوا دی اور اپنے حلقہء مریدین میں ڈینگیں مارنے لگا کہ میری پیشینگوئی پوری
ہوئی۔ لوگوں نے دیکھ لیا کہ کس طرح آگ آسمان سے اتر کر مکان بھسم کرگئی۔
(الفرق بین الفرق ص۳۲مطبوعہ لبنان)
خیالی فرشتوں کی طرف سے مختاری فوج کی امداد
قرآن پاک اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ غزوات بدر و حنین میں خدائے قارد و توانا نے قلیل التعداد اور بے سروسامان مسلمانوں کی اعانت کے لئے ملائکہ مقربین روانہ فرمائے۔ یہ پیغمبر خدا ﷺ کا معجزہ تھا۔ ایک مرتبہ مختار نے بھی عجیب ہنر مندی کے ساتھ یہ معجزہ اپنے پیروئوں کو دکھایا۔ چنانچہ جب اس نے ابراہیم بن اشتر کو ابن زیاد کے محاربہ کے لئے موصل روانہ کیا تو اس کی مشایعت کے لئے پیدل چلنے لگا۔ ابراہیم نے کہا۔ اے ابو اسحاق!سوارہوجاؤ۔ کہنے لگا۔نہیں میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرے قدم آل محمدؐ کی عون و نصرت میں غبار آلود ہوں۔ اس طرح دو فرسنگ تک ساتھ چلاگیا۔ وداع کے وقت لشکر کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ خدا ئے قدوس نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں کبوتروں کی شکل میں فرشتے بھیج کر تمہاری امداد کروں گا۔ اب اس نے اپنے بعض خاص مقرب ورازدار غلاموں کو چند کبوتر دے کر حکم دیا کہ تم لوگ لشکر کے پیچھے چلے جاؤ۔ جب لڑائی شروع ہو جائے تو کبوتروں کو پیچھے سے لشکر کے اوپر کی طرف اڑا دینا۔ چنانچہ غلاموں نے ایسا ہی کیا۔ فوج میں شور مچ گیا کہ فرشتے آگئے۔ اس ’’آسمانی امداد‘‘ کے بعد مختاری لشکر کے حوصلے بڑھ گئے اوراس نے اپنی فتح کا یقین کرتے ہوئے دشمن پر اس بے جگری سے حملہ کیا کہ اس کے چھکے چھڑا دیئے۔ یہاں تک کہ لشکر شام منہزم ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔
(الدعاۃ ص۶۶)
جس طرح مختار نے کبوتر بھیج کر اپنی فوج کو جل دیا۔ اس طرح ایک خارجی قیدی بھی اس قسم کی حیلہ گری سے مختار کو چکمہ دے کر رہا ہوا تھا۔ایک دفعہ خارجیوں سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی۔ مختار کو فتح ہوئی۔ بہت سے خارجی قتل ہوئے اور بہت سے قید کر لئے گئے۔ انہی قیدیوں میں ایک شخص کو سراقہ بن مرداس بارقی کہتے تھے۔ اس شخص کو یقین تھا کہ مختار اس کے دیکھتے ہی قتل کا حکم دیگا۔ اب یہ سوچنے لگا کہ قتل سے بچنے کے لئے کسی حیلہ گری سے کام لینا چاہیے۔ چنانچہ جب پہرہ دار اس کو مختار کے سامنے پیش کرنے لگے تو ان سے کہنے لگا کہ نہ تم لوگوں نے ہمیں ہزیمت دی اور نہ قید کیا۔ بلکہ منہزم اور اسیر کرنے والے دراصل وہ ملائکہ آسمانی تھے جو ابلق گھوڑوں پر سوار ہو کر تمہاری سپاہ کے اوپر ہمارے خلاف لڑ رہے تھے۔ یہ سن کر مختار کی باچھیں گل گئیں۔ عالم مسرت میںمست ہو کر جھومنے لگا اور بارقی کو رہائی کا حکم دے کر کہا کہ تم منبر پر چڑھ کر تمام لوگوں کے
سامنے اپنا مشاہدہ بیان کرو۔ اس نے منبر پر چڑھ کر وہی مقولہ دہرا دیا۔مختار کہنے لگا۔ واقعی ملائکہ میری نصرت کے لئے بھیجے گئے تھے۔ کوفہ سے نکل کر بارقی بصرہ گیا اور مصعب بن زبیر کی فوج میں جا شامل ہوا۔ اس کے بعد مختار کو یہ تین بیت لکھ بھیجے۔
الاابلغ ابا اسحاق انی رایت البلق دھما مصمتات۰ اری عینی مالم تنظراہ کلانا عالم بالترھات۰ کفرت بوحیکم وجعلت نذرا اعلی قتالکم حتی للمات! ہاں ذرا ابو اسحاق(مختار) کو یہ خبر پہنچا دو کہ میں نے یکرنگ سفید اور سیاہ گھوڑے دیکھے تھے۔ میں اپنی آنکھوں کو ایسی چیز دکھاتا ہوں جو انہوں نے نہیں دیکھی ۔ ان خرافات کو ہم دونوں خوب سمجھتے ہیں۔ میں نے تمہاری وحی سے انکار کیا اور منت مان لی کہ جب تک دم میںدم ہے تم سے عربدہ خواہ رہوںگا۔
(الفرق بین الفرق ص ۳۳ مطبوعہ لبنان)
جھوٹی پیشینگوئی پر تاویل کاری کا ملمع
جس طرح مرزائی لوگ اپنے مقتداء کی جھوٹی پیشینگوئیوں پر سخن سازی کا ملمع کر کے اس کو سچا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح مختاری گرگے بھی اپنے پیرومرشد کے الہاموں پر تاویل سازی کا ملمع چڑھایا کرتے تھے۔ جب مختار ابن زیاد کے مقابلہ میںابراہیم بن اشتر کی قیادت میں لشکر بھیج کر واپس آیا تو اب اس نے الہامات اور پیشینگوئیوں کا منہ چڑانا شروع کیا۔ چنانچہ اپنے سحرزدگان باطل سے کہنے لگا۔ حزب اللہ نے نصیبین میں یااس کے قریب ہی دشمن سے اس کے قیام گاہ کے پاس سارا دن شمشیر زنی کی ہے اور دشمن کی بڑی تعداد اس وقت نصیبین میں محصور ہے۔ اس کے بعد جب قاصد ابن زیاد کے قتل اور لشکر شام کی ہزیمت کی بشارت لے کر آئے تو مختار کہنے لگا۔اﷲ والو! کیا میں نے قبل از وقوع اس کی فتح کی بشارت نہیں دی تھی۔ سب نے کہا۔ واقعی آپ نے پہلے سے کہہ رکھا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ مژدہ فتح کی آمد پر مجھ سے میرے ایک ہمدانی ہمسایہ نے کہا کہ اے شعبی!کیا تم اب بھی ایمان نہیں لاؤ گے؟۔ میں نے کہا کس بات پر ایمان لاؤں؟۔ کیا میں اس بات پر ایمان لاؤں کہ مختار عالم الغیب ہے۔ اس پر تو میںہرگز ایمان نہیں لاؤں گا۔ ہمدانی کہنے لگا۔ کیا ہمارے نبی مختارعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ نہیں کہہ دیا تھا کہ ہمارے دشمنوں کو شکست فاش نصیب ہو گی؟۔میں نے جواب دیا کہ اس نے تو کہا تھا کہ دشمن کو نصیبین کے مقام پر شکست ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ واقعہ دریائے خاز ر علاقہ موصل میں پیش آیا۔ ہمدانی بولا اے شعبی۔ خدا کی قسم! جب تک تم دردناک عذاب کا مشاہدہ نہ کرو گے۔ ایمان نہ لاؤگے۔ اس ہمدانی کا نام سلمان بن عمیر تھا۔ یہ بھی جنگ حروراء میں مختار کے ساتھ کام آیا۔
(تاریخ طبری عربی ج۳ص ۴۸۲)جس طرح شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشین گوئی کے ایک شعر میں لفظی تحریف کر کے غلام احمد قادیانی نے منہ کی کھائی تھی۔ اسی طرح مختار کو بھی ایک بزرگ کی پیشینگوئی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی پاداش میں ذلت سے ہمکنار ہونا پڑاتھا۔ ایک مرتبہ کسی بزرگ نے پیشینگوئی کے رنگ میں کہا تھا کہ مذار کے مقام پر بنی ثقیف کے ایک شخص کو عظیم الشان فتح نصیب ہوگی۔ یہ پیشینگوئی ہر وقت مختار کے دماغ میں گونج رہی تھی۔ چونکہ مختار خاندان بنی ثقیف میں سے تھا۔ اس کو رہ رہ کر یقین ہوتا تھا کہ یہ پیشین گوئی میری ہی نسبت کی گئی ہے۔ حالانکہ اس کا اشارہ حجاج بن یوسف ثقفی کی طرف تھا۔ جس نے عبدالرحمن بن اشعث کو مختار کے قتل کے کچھ عرصہ بعد مذار کے مقام پر ہزیمت دی۔ بہرحال اس پیشینگوئی کے بل بوتے پر مختارنے اپنی فتح کی پیشینگوئی کر دی اور اپنے سپہ سالار احمر بن شمیط کو مصعب کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے مذار بھیج دیا۔ وہاں لڑائی ہوئی۔ ابن شمیط مارا گیا اور مختار کو ذلت و ناکامی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔
(تاریخ طبری عربی ج۳ص ۴۸۵)
مختار کا تابوت سکینہ
بنو اسرائیل میں ایک صندوق چلا آتا تھا۔ جسے تابوت سکینہ کہتے تھے۔ یہ صندوق بعض انبیائے سلف کے تبرکات کا حامل تھا۔جب کبھی بنی اسرائیل کو کسی دشمن کا مقابلہ درپیش ہوتا تو اس صندوق کو اپنے لشکر کے ساتھ میدان جنگ میںلے جاتے۔حق تعالیٰ اس کی برکت سے فتح دیتا۔ مختار نے بھی تابوت سکینہ کی حیثیت سے ایک کرسی اپنے پاس رکھ چھوڑی تھی۔ جسے وہ لڑائی کے موقع پر لشکر کے ساتھ بھیجا کرتا تھا اور اس کے پیرووں کو یقین تھا کہ یہ حضرت علیؓ کی کرسی ہے اور اس کی برکت سے دشمن مغلوب ہو جاتا ہے۔اب اس کرسی کااصل ماجرہ سنئے۔ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ کی حقیقی بہن کا نام حضرت ام ہانیؓ تھا جو صحابیات میں داخل ہیں۔ حضرت ام ہانیؓ کے پوتے طفیل بن جعدہ بن ہبیرہ مخزومی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ آشوب روزگار نے مجھے ایسی بری طرح قعر مذلت و ادبار میں ڈالا کہ ابھرنے کی کوئی تدبیر برروئے کار نہ آئی۔ ہزار جتن کئے۔ مگر شومئی قسمت نے ساتھ نہ چھوڑا۔آخر صبر کی باگ ہاتھ سے نکل گئی اور میں عالم اضطراب میں اس بات پر غور کرنے لگا کہ کوئی حیلہ بنا کر کسی بڑے سرمایہ دار سے کوئی رقم ایٹھنی چاہئے۔ نیرنگیٔ فلک کے کرشمے دیکھئے کہ اسی دماغی کدو کاوش کے اثناء میں مجھے اپنے تیلی ہمسایہ کے پاس ایک بہت پرانی کرسی پڑی دکھائی دی۔ جس پر اس قدرروغن جم گیا تھا کہ لکڑی بالکل نظر نہ آتی تھی۔میں نے دل میں خیال کیا کہ چلو اسی کرسی سے کچھ مطلب براری کریں۔ چنانچہ میں نے وہ کرسی تیلی کے ہاں
سے منگوا لی اور مختار کے پاس جا کر کہا کہ ایک بات درمکنون کی طرح میرے صدف دل میں پنہاں تھی اور میں آپ سے ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مگر پھر یہی مناسب سمجھا کہ بیان کر دوں۔ مختار نے کہا ہاں ضرور بیان کرو۔ میں نے کہا حضرت علی مرتضیٰ ؓ کی کرسی ہمارے گھرانے میں چلی آتی ہے اور اس کرسی میں ایک خاص اثر و تصرف ہے۔ مختار نے کہا سبحان اللہ! آج تک تم نے اس کا تذکرہ کیوں نہ کیا؟۔ اچھا ابھی جا کر میرے پاس لاؤ۔ میں نے گھر میں جا کر اس کا جما ہوا تیل کھرچا اور گرم پانی سے دھو کر خوب صاف کیا تو بہت خوبصورت نکل آئی۔ اس نے خوب روغن زتیون پیا تھا۔ اس لئے اب بہت چمک دار ہو گئی تھی۔ اب یہ کپڑے سے ڈھانپ کر مختار کے پاس لائی گئی۔ مختار نے مجھے بارہ ہزار درہم (قریباً تین ہزار روپے) انعام دیئے۔ اس فتوح نے میرے مصائب کی زنجیر کاٹ دی اور شاہد کامرانی و مقصدوری نے اپنا جمال جہاں آرا دکھا کر خوش حال کر دیا۔ طفیل بن جعدہ کہتے ہیں کہ مختار اس’’ نعمت غیر مترقبہ‘‘پر جامے میں پھولا نہیں سماتا تھا۔ اس نے منادی کرائی کہ سب آدمی جامع مسجد میں جمع ہو جائیں۔ لوگ جوق در جوق کوفہ میں آنے لگے۔ مختار نے سب لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں بیان کیا کہ ملل سابقہ میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جس کا نمونہ اور تمثیل اس امت مرحومہ میں موجود نہ ہو۔ بنی اسرائیل کے پاس ایک تابوت تھا۔ جس میں آل موسیٰ علیہ السلام اورآل ہارون علیہ السلام کا بقیہ موجود تھا۔اسی طرح ہمارے پاس بھی ایک تحفہ موجود ہے۔ یہ کہہ کر مختار نے کرسی برداران کو حکم دیا کہ اسے کھول دو اور کرسی منظر عام پر لائی گئی۔ سبائی فرقہ کے لوگ جوش مسرت میں کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر نہایت گرم جوشی سے تین تکبیریں کہیں۔ یہ دیکھ کر شبث بن ربعی رئیس کوفہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے مضر کے گروہ! ورطۂ زیغ و کفر میںمت پڑو۔ ان الفاظ سے شبث کا یہ مقصد تھا کہ اگر بالفرض یہ کرسی حضرت علیؓ ہی کی یادگار ہے۔ تاہم اس میں اتنا تقدس سرایت نہیں کر گیا کہ اس کی عظمت تمہارے حق میں بنی اسرائیل کے بچھڑے کی حیثیت اختیار کرئے۔ یہ سن کر خوش عقیدہ سبائی جوش غضب میں بپھر گئے۔ مسجد میں خلفشار مچ گیااور شبث کو دھکے دے کر مسجد سے نکال دیا گیا۔
کرسی کی عظمت کا غلو حد کفر تک پہنچ گیا
جب خبر آئی کہ عبید اللہ بن زیاد شامیوں کی فوج کے ساتھ موصل کی طرف بڑھا ہے اور مختار نے اس کے مقابلہ میں ابراہیم بن اشتر کو روانہ کیا تو شیعان کوفہ نے اس کرسی پر حریر و دیباج لپیٹ کر اس کا جلوس نکالا۔ سات آدمی داہنی طرف سے اور سات بائیں جانب سے اس کو تھامے ہوئے تھے۔ تابوت سکینہ کی طرح یہ کرسی لشکر کے ساتھ بھیجی گئی۔ قضائے کردگار سے اس لڑائی میں
شامیوں کی ایسی درگت ہوئی کہ اس سے پیشتر انہیں کبھی ایسا روز بد دیکھنا نصیب نہ ہوا تھا۔ اس بناء پر شیعہ حضرات اس ’’تابوت سکینہ‘‘ کے حصول پر حد سے گذری ہوئی خوشیاں اور مجنونانہ مسرتوں کا اظہار کرنے لگے اور ان کی نظر میں کرسی کا تقدس کائنات کی ہر چیز سے بڑھ گیا۔ کوئی شیعہ ایسا نہ تھا جو آپے سے باہر اور طفلانہ مزاجی کی خوشیوں میں غرق نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس کے متعلق ان کا افراط کفر بواح کی حد تک پہنچ گیا۔ طفیل کہتے ہیں کہ یہ افسوسناک حالت دیکھ کر میں اپنی حرکت پر نادم ہوا کہ میں نے یہ کیا فتنہ کھڑا کر دیا؟۔ اس کرسی کے سب سے پہلے محافظ حضرت ابو موسی اشعریؓ کے بیٹے موسیٰ تھے۔ جو مختار کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ چونکہ ان کی والدہ ام کلثوم جناب پیغمبر خداﷺ کے عم زاد بھائی حضرت فضل بن عباسؓ کی صاحبزادی تھیں۔ اس لئے مختار موسیٰ سے بہت کچھ حسن سلوک کرتا تھا۔آخر جب کرسی کو تولیت کے متعلق موسیٰ پر طعن و تشنیع کی گرم بازاری ہوئی تو انہوں نے یہ کرسی موشب برسمی کی تحویل میں دے دی اور پھر مختار کی وفات تک وہی اس کا متولی رہا۔ اس کرسی کے متعلق اعشی ہمدانی نے چند اشعار کہے تھے۔ جن کا ترجمہ یہ تھا۔ ’’میں اس بات کا گواہ ہوں کہ تم سب عبداﷲ بن سبا کی امت ہو۔ اے شرک کے پاسبانو! میں تم سے خوب واقف ہوں۔میںحلفاً کہتا ہوں کہ تمہاری کرسی تابوت سکینہ نہیں ہے۔ گو اس پر کئی کئی غلاف چڑھے ہوئے ہیں اور شبام،نہدااور حارث اس کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہیں۔ تاہم یہ تابوت سکینہ سے کوئی نسبت نہیں رکھتی۔ میں تو وہ شخص ہوں جسے آل محمدﷺ سے محبت و شغف ہے اور اس وحی الٰہی کا پیرو ہوں جو مصاحف میں درج ہے۔‘‘
(تاریخ طبری عربی ج۳ص۴۷۶)
مورخین نے لکھا ہے کہ مختار ہی نے شیعوں میں رسم تعزیہ داری جاری کی تھی۔ جس سے یقین ہوتا کہ یہی کرسی تعزیہ داری اور کاغذی تابوت سازی کی اصل بنا تھی۔
جناب محمد بن حنیفہ کا خط شیعان کوفہ کے نام
شیعہ عربی میں گروہ وجماعت کو کہتے ہیں۔ حضرت امیر معاویہؓ اور شامیوں کے مقابلہ میں جو لوگ امیر المومنین علی مرتضیٰؓ کے حامی و ناصر تھے۔ وہ شیعان علیؓ کے نام سے مشہور تھے۔ مگر اس کے بعد جب عبداﷲ بن سبا یہودی نے ایک ایسے عفونت آمیز مسلک کی بنیاد ڈالی جس میں پیغمبر خدا ﷺ کے اصحاب کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دوسرے صلحاے امت کی دشنام دہی کو جزعبادت ٹھہرایا تھا تو سبائی پنتھ کے خلاف مسلمانوں میں ایک عام ہیجان اور جذبہ نفرت پیدا ہوگیا۔ یہ دیکھ کر پیروان ابن سبا نے شیعان علی ؓ کا روپ دھار لیا ور تشیع کے لباس میں مسلمانوں کے دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے لگے۔اب سبائی مذہب کے اختلاط سے شعیان علیؓ دو گروہوں میں منقسم
ہو گئے۔ شیعہ اور غالی شیعہ گو تھوڑے عرصہ میں تمام شیعان علیؓ غالی شیعہ بن کر شیعان ابن سبا بن گئے۔ لیکن مختارکے عہد حکومت تک کوفہ میں غالی اور غیر غالی دونوں گروہ پائے جاتے تھے اور غلوآمیز شعیت مختار کی سرپرستی میں ترقی کر رہی تھی۔ اس وقت حسب بیان علامہ ابن جریر طبری کوفہ میں ہند بنت متکلفہ نام کی ایک عورت تھی۔ جس کے مکان میں تمام غالی شیعہ جمع ہوکر باہم صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔ اسی طرح ایک اور عورت لیلیٰ بنت قمامہ کے مکان میں بھی غالی شیعہ جمع ہوتے تھے ۔ لیلیٰ کا بھائی رفاعہ بن قمامہ گو شیعان علیؓ میں سے تھا۔ لیکن غالی نہ تھا۔ اسی وجہ سے لیلیٰ کو اس سے نفرت تھی۔ اسی طرح کوفہ میں ابوحراس اورابو حارث کندی دو مرد بھی ایسے تھے جو غالی شیعوں کا ملجاء وماوٰی بنے ہوئے تھے۔ ابو عبد اللہ جدلی اور یزید بن سراحیل نے ان دو عورتوں اور دو مردوںکے غلو کی حالت دیکھی تو ان کے متعلق حضرت محمد بن حنیفہؓ کو مکہ معظمہ لکھ بھیجا جو امیر المومنین علیؓ کے صاحبزادے تھے اور جنہیں مختار اور شیعان کوفہ نے ’’مہدی موعود‘‘ قرار دے رکھا تھا۔ جناب محمد بن علیؓ، محمد بن حنیفہؓ کے نام سے اس لیے مشہور ہو گئے تھے کہ ان کی والدہ قبیلہ بن حنیفہ میں سے تھیں۔حضرت محمد بن حنیفہؓ نے یزید بن شراحیل کے ہاتھ ایک خط شیعان علیؓ کے نام لکھا جس میں انہوں نے ان کو اہل غلو کے شر سے بچنے کی ہدایت کی۔ خط کا مضمون یہ تھا۔ یہ خط محمد بن علیؓ کی طرف سے ہمارے ان شیعوں کے نام ہے جو کوفہ میں ہیں۔ تمہیں چاہیے کہ مجالس اور مساجد میں جمع ہو کر خفیہ اور علانیہ اللہ کو یاد کرو اور یقین جانو کہ مخلوقات میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو سوا حکم ربانی کے کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکے۔حضرت ابن حنیفہؓ نے اس خط میں رفض سے پہلو تہی کرنے کے علاوہ اشارۃً مختار کے جھوٹے دعووں سے بچنے کی بھی ہدایت فرما دی۔
ابن حنیفہؓ کو مختار کی طرف سے جانستانی کا خطرہ
جب مکہ معظمہ میں حضرت محمد بن حنیفہؓ کے پاس متواتر اس قسم کی افسوسناک خبریں پہنچنے لگیں کہ مختار دین حنیف میں روز افزوں رخنہ اندازیاں کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے فتنہ رفض ترقی پذیر ہے تو انہوں نے بذات خود عراق تشریف لے جانے کا عزم فرمایا۔ جب مختار نے یہ خبر سنی تو اسے خوف ہوا کہ حضرت محمد بن حنیفہؓ کے قدوم پر شیعہ لوگ جو اس کے دام تزدیر میںپھنسے ہیں۔ اس سے الگ ہو جائیں گے اور اس کی ریاست و سیادت معرض زوال میں آجائے گی۔ یہ سوچ کر وہ حضرت ابن حنیفہؓ کے قدوم میں مزاحمت پیدا کرنے کے لئے ایک عجیب و غریب چال چلا۔ اپنی مجالس میں علانیہ کہنا شروع کیا کہ ہم مہدی کی بیعت میں داخل ہیں۔ لیکن سچے مہدی کی ایک علامت ہے۔ جس کسی میں وہ علامت پائی جائے گی۔ وہی پیغمبر علیہ السلام کی پیشین گوئی کا
مصداق ہو گا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ وہ علامت کیا ہے؟۔ کہنے لگا کہ اس پر تلوار کا ایک وار کیا جائے۔ اگر تلوار کاٹ نہ کرے تو وہ مہدی ہے۔ مختار کا یہ مقولہ حضرت ابن حنیفہؓ کے سمع مبارک تک پہنچا تو انہوں نے عراق آنے کا ارادہ فسخ کر دیا۔ کیونکہ انہیں یقین ہو گیا کہ مختار انہیں کوفہ میں قتل کرادے گا۔
(الفرق بین الفرق ص۳۱،۳۲م لبنان)
ابن زبیر ؓ کو چکمہ دے کر حجاز مقدس پر قبضہ جمانے کی نامراد کوشش
جب ابن زیاد نے مختارکی آنکھ زخمی کر کے اسے کوفہ سے نکل جانے پر مجبور کیاتھا تو مختار نے مکہ معظمہ جا کر حضرت عبداﷲ بن زبیر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی اوران کی طرف سے اس شامی فوج کا مقابلہ کیا تھاجو یزید (بن معاویہؓ) نے حصین بن نمیر سکوتی کے زیر قیادت دمشق سے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے خلاف مکہ معظمہ روانہ کی تھی۔ اور یزید کی موت کے بعد محاصرہ اٹھا کر دمشق واپس گئی تھی۔ لیکن اس بیعت واطاعت پذیری کے باوجود مختار نے اپنے مطاع کے خلاف یہ غداری کی کہ کوفہ آکر حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کے عامل عبد اللہ بن مطیع کو کوفہ سے نکال دیا اور ولایت کوفہ کی حکومت اپنے عنان اختیار میں لے لی۔ مختار جس طرح غدار اور بے وفا تھا۔ اسی طرح پرلے درجہ کا فریب کار اور حیلہ ساز بھی تھا۔ اور دعویٰ نبوت کے باوجود ایسی ایسی شطرنجی چالیں چلتا تھا کہ مغرب کے شیاطین سیاست کو بھی شاید ایسی روباہ بازیاں نہ سوجھتی ہوں گی۔ اس کی حیلہ سازیوں کی ایک آدھ مثال مشتے نمونہ خروارے پیش کی جاتی ہے۔
جب مختار کوفہ پر اچھی طرح دخیل ہو چکا تو حضرت ابن زبیرؓ کو لکھا کہ اگر آپ مجھے دس لاکھ درہم عطا فرمائیں تو میں عبد الملک بن مروان پر حملہ کر کے آپ کو شامیوں کی مصیبت جنگ سے بچا دوں۔حضرت ابن زبیرؓ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ثقیف کا یہ مکار مجھ سے کب تک مکر وفریب کرتا رہے گا۔ جب یہ حیلہ کاریگر نہ ہوا تو مختار نے حضرت ابن زبیرؓ کو ایک اور چکمہ دے کر حجاز مقدس پر قبضہ جمانا چاہا۔ واقعہ یہ تھا کہ یزید (بن معاویہؓ) کے مرنے کے بعد شام میں مروان بن حکم کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ مروان کی ہلاکت کے بعد جب اس کا بیٹا عبد الملک سریر سلطنت پر بیٹھا تو اس نے ارادہ کیا کہ تسخیر مکہ معظمہ کا جو کام یزید کی موت کے باعث تعویق میں پڑ گیا تھا۔ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے۔ چنانچہ اس غرض کے لئے اس نے ایک لشکر جرار حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کے مقابلہ میں روانہ کیا۔ جو بہت دن تک وادی القری میں ڈیرے ڈالے پڑا رہا۔ یہ دیکھ کر مختار نے بہت کچھ اخلاص و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو لکھا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ عبد الملک بن مروان نے آپ کے خلاف عربدہ جوئی
کی خواہش کی ہے اور اس غرض کے لئے ایک فوج بھیجی ہے۔ اگر آپ پسند فرمائیں تو میں چاہتا ہوں کہ آپ کی امداد کے لئے کمک بھیجوں۔
جناب عبداﷲ بن زبیرؓ نے جواب دیا کہ اگر تمہیں میری اطاعت منظور ہے تو کوفہ میں لوگوں سے میری بیعت لو اور میری امداد میں اپنی فوج بھیج کر اس کوحکم دو کہ وادی القری میں عبدالملک کی فرستادہ فوج کے مقابلہ میں جا کر لڑے۔یہ خط پا کر مختار نے شرجیل بن درس ہمدانی کو تین ہزار فوج کے ساتھ مدینہ جانے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ مدینہ پہنچتے ہی اپنی رسید سے مطلع کرنا اور مزید ہدایات کا انتظار کرنا ۔مختار کا اصل مدعا یہ تھا کہ جب یہ فوج جا کر مدینہ منورہ پر قابض ہو جائے تو مدینہ کی حکومت کے لئے کسی کو کو فہ سے عامل بنا کر بھیج دے اور پھر شرجیل اپنی فوج لئے ہوے ابن زبیرؓ پر چڑھ دوڑے اور ان کو محصور کر لے۔ شرجیل تین ہزار فوج کے ساتھ مدینہ روانہ ہوا۔ اب حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کو یہ خوف دامن گیر ہوا کہ مباداً مختار نے کوئی فریب کیا ہو۔ اس لئے انہوں نے مکہ معظمہ سے عباس بن سہل بن سعدؓ کو دو ہزار فوج کی قیادت میں مدینہ طیبہ روانہ فرمایا۔جب عباس مدینہ پہنچا تو اتنے میں عراقی لشکر آ نمودار ہوا۔ شرجیل نے آتے ہی اپنی فوج کی جنگی ترتیب قائم کر دی۔میمنہ میسرہ مضبوط کر لئے اور پانی پر قبضہ کر لیا۔ عباس ایسی حالت میں ان کے پاس پہنچا کہ اس کی سپاہ میں کوئی جنگی نظام قائم نہ تھا۔ تمام سپاہی علیحدہ علیحدہ چل رہے تھے۔ عباس نے رقیم میں شرجیل سے ملاقات کی اور دیکھا کہ شرجیل پانی پر پوری جنگی ترتیب کے ساتھ فروکش ہے۔ عباس نے شرجیل کو سلام کیا اور کہا کہ میں تم سے تخلیہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ شرجیل تنہائی میںاس ملا۔ عباس نے پوچھا کہ کیا تم عبد اللہ بن زبیرؓ کی اطاعت میں ہو؟۔ اس نے کہا۔ ہاں! میں ان کی اطاعت میں ہوں۔ عباس نے کہا کہ وادی القری میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کا دشمن فروکش ہے۔ تم ہماری رفاقت میں اس کے مقابلہ پر چلو۔ شرجیل نے کہا مجھے تمہارے احکام بجا لانے کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی۔ مجھے صرف یہ حکم ملا ہے کہ مدینہ پہنچ کر ٹھہروں اور پھر جو مناسب سمجھوںکروں۔ عباس نے کہا اگر تم ابن زبیرؓ کی اطاعت میں ہو تو انہوں نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تم کو اور تمہاری فوج کو اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں وادی القری لے جاؤں۔شرجیل نے مکرر یہی جواب دیا کہ تمہاری اطاعت کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ اس مدور منطق پر عباس کو یقین ہو گیا کہ شرجیل یہاں کسی فاسد ارادہ سے آیا ہے۔ مگر عباس نے اس گفتگو کو اس خوبی سے نباہا کہ شرجیل کو اس بات کا مطلق احساس نہ ہوا کہ عباس اس کے مخالفانہ رویہ کو بھانپ گیا ہے۔ خاتمہ سخن پر عباس نے شرجیل سے کہا اچھا جو قرین مصلحت ہو کرو۔میں تو عنقریب اپنی فوج لئے وادی القری کو چلا
جاؤں گا۔ اس ملاقات کے بعد عباس بھی پانی کے ایک مقام پر آ کر اقامت گزیں ہوااور پھر چند قیمتی اشیاء جو مکہ معظمہ سے ساتھ لے گیا تھا۔ تحفۃً شرجیل کو بھیجیں۔ اس کے علاوہ آٹے کی بوریاں اور چرم کشیدہ بھیڑیں بطور ضیافت روانہ کیں۔ اس وقت شرجیل کی فوج کے پاس سامان رسد تھڑ گیا تھا۔انہوںنے اس ضیافت کو غنیمت سمجھا۔آٹا اور گوشت کے پہنچتے ہی اہل لشکر پانی لانے اور کھانا پکانے میں مصروف ہو گئے اور ان کی جنگی ترتیب باقی نہ رہی۔ جب عباس مختار کے لشکر کو غافل کرنے میں پوری طرح کامیاب ہو گیا۔ تو اب اس نے اپنی فوج میں ایک ہزار جوانمرد جو نہایت بہادروجنگ آزمودہ تھے منتخب کئے اور انہیں لے کر شرجیل کے خیمہ کی طرف بڑھا۔شرجیل نے انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر خطرہ کا احساس کیا اور جھٹ اپنی فوج کا للکارا۔ لیکن ابھی پورے سو جوان بھی اس کے پاس جمع نہ ہوئے تھے کہ عباس اس کے سر پر پہنچ گیا۔اس وقت شرجیل بآواز بلند چیخنے لگا کہ اے حزب اللہ!میرے پاس آؤ اور ظالموں سے جو شیطان ملعون کے پیرو ہیں لڑو۔ عباس رجز خوانی کرتا ہوا عراقیوں پر ٹوٹ پڑا۔ شرجیل اپنے ستر جوانوں کے ساتھ طعمہ اجل ہو گیا۔ اب عباس کی فوج نے ما ما رکر عراقیوں کے پرخچے اڑا دیئے اور تین ہزار آدمیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر آناًفاناً نذر اجل کر دیا۔ البتہ دو سو جوان اس طرح بچ گئے کہ جن لوگوں کو ان کے قتل کا کام سپرد ہوا تھا۔ ان میں سے بعض آدمیوں نے رحم کھا کر ان کو چھوڑ دیا۔ یہ دو سو آدمی عراق کی طرف منہ کر کے بھاگے۔ لیکن ان کی بھی اکثریت راستہ میںہلاک ہو گئی۔جب مختار کو اس لشکر کی بربادی کا علم ہوا تو کہنے لگا کہ نابکار فاجروں نے خدا کے برگزیدہ بندوں کو قتل کر دیا ہے۔ مگر یہ مقدر ہو چکا تھا اور وہ پورا ہوا۔
(تاریخ طبری عربی ج۳ ص ۴۷۳،۴۷۰)
مختار کا فرقہ کیانیہ
مختار کے مرنے کے بعد مختارکا مستقل گروہ کیسانیہ کے نام سے دنیا کے سامنے آیا۔ کیسانیہ کی تسمیہ میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ خود مختار کا اصل نام کیسان تھا اور بعض کا خیال ہے کہ کیسان حضرت علیؓ کے غلام کا نام تھا۔چونکہ اس کے زیر ہدایت مختار نے قاتلین حسینؓ علیہ السلام کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس لئے اس کے فرقہ کو کیسانیہ کہنے لگے۔ پھر کیسانیہ کے بھی مختلف فرقے ہیں۔لیکن یہ تمام فرقے دو مسئلوں میں باہم متفق ہیں۔ ایک تو سب کے سب ابن حنیفہؓ کو امام مانتے ہیں۔ چنانچہ مختار بھی انہی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا تھا۔ دوسرے ان کے زعم میں خدائے بیچوں ازلی نہیں۔ بلکہ اس کے لئے بھی بدء و آغاز ہے۔ چنانچہ یہ لوگ ہر اس شخص کو کافر سمجھتے ہیں جو خدائے عزوجل کے لیے ابتداء تسلیم نہ کرے۔ کیسانیہ میں محمد بن حنیفہؓ کے متعلق ایک
اور اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد وہی امام تھے۔ چنانچہ جنگ جمل میں امیر المومنین علیؓ کا جھنڈا انہی کے ہاتھ میںتھا۔ دوسرے کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے بعد ان کے فرزند حضرت حسن مجتبیٰؓ امام تھے۔ان کے بعد منصب امامت حضرت حسینؓ کو تفویض ہوا۔ لیکن جب امام حسینؓ یزید کی طلب بیعت کے وقت مدینہ سے مکہ گئے تو امامت اپنے بھائی محمد بن حنیفہؓ کے سپرد کر گئے۔ کیسانیہ کی ایک شاخ کریبیہ ہے۔ جو ابو کرب ضریر کے پیرو ہیں۔ان کا اعتقاد ہے کہ امام محمد بن حنیفہؓ زندہ ہیں۔ ان پر آج تک مرگ طاری نہیں ہوئی۔ وہ اس وقت جبل رضوی میں تشریف فرما ہیں۔ان کے آگے دو چشمے بہہ رہے ہیں۔ایک پانی کا ہے دوسرا شہد کا ۔ وہ انہی چشموں سے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں۔ان کی داہنی جانب ایک شیر بیٹھا ہے اور بائیں طرف چیتا۔یہ دونوں جانور دشمنوں سے ان کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس وقت تک برابر محافظت کرتے رہیں گے جب تک کہ آپ کو خروج و ظہور کا حکم نہ ہو۔ اور بعض کے نزدیک ان کے بعد ان کے فرزند ابو ہاشم عبد اللہ کو منصب امامت ملا تھا۔ان میں سے راوندی گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ابو ہاشم کے بعدان کی وصیت کے بموجب امامت محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب کی طر ف منتقل ہو گئی ہے۔
(الفرق بین الفرق ص ۲۶ م لبنان)
چونکہ مختار کے حالات وواقعات نے غیر معمولی طوالت اختیار کرلی ہے۔ اس لئے بغرض اختصار اس کا وہ الہامی کلام قلم انداز کیا جاتا ہے جو اس نے بمنزلہ قرآن کے پیش کیا۔ جو حضرات اس مقفی ومسجع خطابت کے مطالعہ کا اشتیاق رکھتے ہوں وہ علامہ عبدالقاہر کی کتاب الفرق بین الفرق ص۳۴،۳۵ اور کتاب الدعاۃ ص۶۴،۶۵ کی طرف رجوع فرمائیں۔
فصل:۶…مصعب بن زبیرکاکوفہ پرحملہ اورمختار کا قتل
ابراہیم بن اشتر کوفی مختار کا دست راست تھا۔ مختار کو جس قدرترقی وعروج نصیب ہوا۔ وہ سب ابراہیم بن اشتر کی شجاعت، اوالعزمی اور حسن تدبیر ہی کا رہین منت تھا۔ ابراہیم جدھر گیا شجاعت و اقبال مندی کے پھریرے اڑاتا گیا اور جس میدان کا رخ کیا۔ فتح و ظفر ہاتھ باندھے سامنے آموجود ہوئی۔ ابراہیم ہر میدان میں مختار کے دشمنوں سے لڑااور اس کے علم اقبال کو ثریا تک بلند کر دیا۔ البتہ ایک موقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ ابراہیم نے اسے تنہا چھوڑ دیا ہے اور یہی وہ وقت ہے جبکہ مختار کا کوکب زوال و فنا کی شفق میں غروب ہو گیا ہے۔جس محاربہ میں مصعب بن زبیر والی بصرہ نے کوفہ پر حملہ کر کے مختار کے شجرہ حیات کو مستاصل کیا ہے۔ اس میں ابراہیم نے مختار کا ساتھ نہ دیا۔ بلکہ موصل میں الگ بیٹھا مختار کی ذلت و بربادی کا تماشہ دیکھتارہا۔
ابن جریر طبری، ابن اثیر وغیرہ مورٔخوں نے اس عقدہ کا کوئی حل پیش نہیں کیا کہ ابراہیم نے اس موقع پر اس سے کیوں بے اعتنائی برتی۔ البتہ علامہ عبد القاہر بغدادی نے حقیقت حال کے چہرہ کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ابراہیم کو معلوم ہواکہ مختار نے علی الاعلان نبوت اور نزول وحی کا دعویٰ کیا ہے تو وہ نہ صرف اس کی اعانت سے دست کش ہوگیا۔ بلکہ اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے بلاد جزیرہ پر قبضہ جما لیا۔ (الفرق بین الفرق ص ۳۳ م لبنان)مصعب ابن زبیر کو ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ آیا۔ اس سے پیش تر روسائے کوفہ اور مختار کے تعلقات سخت کشیدہ ہو چکے تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں خدا اور اس کے برگزیدہ رسولؐ کی محبت کا نور ضیاء افگن ہے۔ مختار کی ان سرگرمیوں کو نظر استحسان سے دیکھے گا جو اس نے دشمنان آل رسولؐ کی تخریب واستیصال کے لئے شروع کر رکھی تھیں اور روسائے کوفہ بھی اس کام میں اس کے قدر شناس اور مویٔد تھے۔ لیکن اہل کوفہ کو انہی ایام سے جبکہ ابراہیم بن اشتر ہنوز مختار کا رفیق کار تھا۔ مختار کے خلاف کچھ شکایتیں پیدا ہو گئی تھیں۔ جن کی وجہ سے انہوں نے اس کے خلاف علم مبارزت بلند کر دیا تھا اور مختار نے ابراہیم کی مدد سے ان کو سرکوب کر دیا تھا۔ اس وقت تو یہ لوگ زک پا کر خاموش ہو گئے اور نفرت و عناد کی چنگاری دب گئی۔ لیکن جب ابراہیم نے مختار کا ساتھ چھوڑ دیا تو روسائے کوفہ کی رگ انتقام جنبش میں آئی اور انہوں نے چاہا کہ جس طرح بن پڑے مختار کو کچل کر خاک فنا میں ملا دیا جائے۔
روسائے کوفہ کا ورود بصرہ اورحملہ آور ہونے کی اشتعال انگیزی
اس قرار داد کے بموجب شبث بن ربعی، محمد بن اشعث اور بعض دوسرے ہزیمت خوردہ روساء نے بصرہ جا کر مصعب بن زبیر کو برا نگیختہ کرنے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ سب سے پہلے شبث بصرہ پہنچا۔اس وقت وہ ایک خچرپر سوار تھا۔ جس کی دم اور کان کے کنارے قطع کر دیئے تھے اس نے اپنی قبا کو بھی چاک کر دیا تھا اور بآواز بلند پکار رہا تھا۔ یا غوثاہ یا غوثاہ ! (داد رسی کیجئے۔ امداد کو پہنچئے۔) حاضرین مجلس نے مصعب کو بتایا کہ ایک شخص دروازے پر فریاد رسی کے لئے کھڑا ہے اور اس کی یہ حالت ہے کہ قباء پھٹی ہوئی ہے اور خچر کی دم اور کان کٹے ہیں۔ مصعب سمجھ گیا کہ شبث ہوگا اور حکم دیا کہ اندر بلا لو۔ شبث نے دربار میںپہنچ کر صورت حال عرض کی۔ دوسرے سربرآوردہ کوفی بھی مصعب کے پاس پہنچے اور مختاری چیرہ دستیوں کی داستانیں سنا کر کہا کہ ہم انتہا درجہ کے مظلوم ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے ہی غلام اورآزاد غلام ہم پر چڑھ آئے ہیں۔ آپ ہماری اعانت کیجئے اور ہمارے ساتھ مل کر مختار پر فوج کشی فرمایئے۔
مصعب کی یلغار کوفہ پر
مختار نے حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کے عمال سے کوفہ اور اس کے ملحقات کی حکومت چھین کر خود سری اختیار کر لی تھی۔ اس کے علاوہ حضرت ابن زبیرؓ کے خلاف بہت سی دوسری کینہ جوئیوںاور خون آشامیوں کا بھی مرتکب ہوا تھا۔ اس بنا پر ان کے بھائی مصعب بن زبیر انتقام کے لئے بہت دن سے دانت پیس رہے تھے۔ جب روسائے کوفہ نے آکر حملہ آور ہونے کی تحریک کی۔ تو مصعب ایک لشکر جرار لے کر کوفہ کی طرف بڑھے۔ ادھر مختار کو معلوم ہوا تو اس نے بھی احمر بن شمیط اور عبداﷲ بن کامل کے زیر قیادت اپنی سپاہ کو حرکت دی۔ جب لشکروں کی مڈبھیڑ ہوئی تو احمر بن شمیط اور عبد اللہ بن کامل دونوں میدان جان ستاں کی نذر ہو گئے اور بصریوں نے مختار کی فوج کو مار مار کر اس کے دھوئیں بکھیر دیئے۔ اب مصعب نے عباد بن حسین کو رسالہ دے کر مختار کی ہزیمت خوردہ فوج کے تعاقب میں روانہ کیا اور حکم دیا کہ جو قیدی بھی تمہارے ہاتھ لگے اس کی گردن مار دو۔ اس طرح مصعب نے محمد بن اشعث کوفی کو بھی اہل کوفہ کے رسالہ کے ساتھ ابن شمیط کی منہزم فوج کے تعاقب میں روانہ کیا اور کہا اب موقع ہے کہ تم دل کھول کر اپنا بدلہ لے لو۔ ہزیمت خوردہ کوفی فوج کے لئے کوفی لوگ بصریوں سے بھی زیادہ سخت تھے۔ جس شخص کو پکڑتے۔ بلا دریغ موت کی گھاٹ اتار دیتے اور کوئی قیدی ایسا نہ تھا جسے انہوںنے معاف کیا ہو۔ جب مختار کو اپنے سپہ سالاروں کی ہلاکت اور اپنے لشکر کی بربادی کا علم ہوا تو کہنے لگا کہ موت کا آنا لازمی امر ہے اور جس موت میں مرنا چاہتا ہوں وہ وہی موت ہے جس پر ابن شمیط کا خاتمہ ہوا۔
جب مختار کو معلوم ہوا کہ مصعب کی فوج خشکی اور تری کے دونوں راستے عبور کر کے اس کے قریب پہنچ گئی ہے تو اس نے بھی کوفہ سے جنبش کی اور مقام سلجین پر آکر ڈیرے ڈال دیئے۔ سلجین مختلف دریاوں کا سنگم ہے۔ اس مقام پر دریائے حیرہ،دریائے سلجین، دریائے قادسیہ اور دریائے پرسف فرات سے ملتے ہیں۔ مختار نے اس سنگم پر ایک بند بنوا کر دریائے فرات کا پانی روک دیا۔ اس طرح فرات کا تمام پانی معاون دریاوں میں چڑھ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بصری فوج جو کشتیوں میں بیٹھی چلی آرہی تھی۔ ان کی کشتیاں کیچڑ میںپھنس گئیں۔یہ حالت دیکھ کر بصریوں نے کشتیاں چھوڑ دیں اور پاپیادہ کوچ کرنا شروع کیا۔ ان کا رسالہ ان کے آگے دریائے فرات کے بند تک پہنچ گیا اور اس کو منہدم کر کے کوفہ کی باگیں اٹھا ئیں۔جب مختار کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ بھی مقابلہ کے لئے آگے بڑھا اور مقام حرورا میں پہنچ کر مورچے تیار کرائے۔ قصر اور مسجد کو مستحکم کیا اور قصر میں بڑی عجلت کیساتھ وہ تمام سامان فراہم کیا جس کی حالت محاصرہ میں ضرورت
پیش آتی ہے۔اتنے میں مصعب بھی حروراء پہنچ گئے جو ولایات بصرہ کوفہ کی حد فاضل ہے۔ آتش حرب شعلہ زن ہوئی۔گو مصعب کی فوج میں محمد بن اشعث رئیس کوفہ جس نے دوسرے کوفی روساء کے ساتھ بصرہ جا کر مصعب کو حملہ آور ہونے کی ترغیب دی تھی۔ اپنے تمام دستہ فوج کے ساتھ کام آیا۔ تاہم مختار کی فوج کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑااور وہ مقابلہ کی تاب نہ لا کر سخت بدحالی کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی۔ جتنی دیر تک فوج برسر مقابلہ رہی۔ مختارنہایت بے جگری سے لڑتا رہا۔آخر فوج کی ہزیمت نے اس کو بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔اب وہ پسپا ہو کر کوفہ پہنچااور قصر امارت میں متحصن ہو گیا۔ دوسرے دن مختار کی ہزیمت خوردہ سپاہ بھی کوفہ پہنچ گئی۔ ہزیمت و پسپائی کے وقت مختار کا ایک افسر اس سے کہنے لگا کہ کیا آپ نے (وحی آسمانی سے اطلاع پا کر) ہم سے فتح و نصرت کا وعدہ نہیں کیا تھا؟۔ اور یہ نہیں کہاتھا کہ ہم دشمن کو مار بھگائیں گے؟۔ مختار نے کہا۔کیا تم نے کتاب اللہ میں یہ آیت نہیں پڑھی:یمحواﷲ ما یشآء و یثبت و عندہ ام الکتاب! حق تعالیٰ جس حکم کو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بحال رکھتا ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں لوح محفوظ ہے؟۔
قصر کا محاصرہ اور محصورین کی بدحالی
مختار قریباً بیس ہزار فوج حروراء لے گیا تھا۔ان میں سے کچھ آدمی تو مارے گئے۔کچھ کوفہ پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں روپوش ہو گئے اور آٹھ ہزار آدمی مختار کے پاس قصر میں جا داخل ہوئے۔ اب مصعب کی فوج کوفہ پہنچی اور قصر کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ چار مہینہ تک جاری رہا۔ مختار ہرروز اپنے رسالہ کے ساتھ قصر میں سے برآمد ہو کر کوفہ کے بازاروں میں دشمن سے دودو ہاتھ کرتا اور کچھ زیادہ نقصان پہنچائے بغیر واپس جاتا۔ محصورین کی حالت دن بدن نازک ہونے لگی۔یہ دیکھ کروہ اہل شہربھی جو مختار کے مخالف تھے دلیر ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب کبھی مختار کا رسالہ حملہ کرنے کے لئے قصر سے نکلتا تو مکانات کی چھتوں پرسے ان پر اینٹیں،پتھر اور کیچڑ اورغلیظ پانی ڈالا جاتا۔ محاصرین نے سامان رسد کی آمد بالکل مسدود کر رکھی تھی۔ اس وقت محصورین کی بسر اوقات کی یہ صورت تھی کہ بہت سی عورتیں اپنے اپنے مکانات سے اشیاء خود و نوش کسی چیز سے ڈھانک کر لے چلتیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا کہ وہ نماز کے لئے جامع مسجد میں جا رہی ہیں یا کسی عزیز ویگانہ سے ملنے جاتی ہیں اور جب قصر امارت کے پاس پہنچتیں تو مختار کے آدمی ان کے لئے دروازہ کھول دیتے اور اس طرح کھانا پانی ان کوفیوں کے پاس پہنچ جاتا جو مختار کی فوج میں تھے۔جب مصعب کو اس کی اطلاع ہوئی تو شہر کے تمام چور رستوں پر پہرے بٹھا دیئے اور کوشش کی کہ کوئی
شخص محل تک نہ پہنچ سکے۔ تا کہ محصورین بھوکے پیاسے ہی ہلاک ہو جائیں۔ اس وقت ان کی یہ حالت تھی کہ میٹھا پانی باہر سے نہیں آ سکتا تھا۔قصر کے اندر جو کنواں تھا اس کا پانی سخت نمکین تھا۔ مگر محصورین شدت تشنگی کی حالت میں یہی پانی پینے لگے۔بیت المال میںشہد بکثرت موجود تھا۔ پانی کی تکلیف دیکھ کر مختار نے حکم دیا کہ کنوئیں میں شہد ڈال دیا جائے۔ تاکہ پانی کا مزہ بدل کر پینے کے قابل ہو جائے۔ اس طرح اکثر لوگ سیراب ہو جاتے تھے۔ اب مصعب نے محاصرین کو قصر امارت سے اور زیادہ قریب رہنے کا حکم دیا۔ بعض اوقات مصعب کے فوجی دستے محل کے اس قدر قریب پہنچ جاتے تھے کہ مختار کے ان آدمیوںپر جو قصر میں دکھائی دیتے بسہولت تیری اندازی کی جاتی۔اب یہاں تک دیکھ بھال کی جانے لگی کہ محل کے اردگرد جو عورت بھی کسی طرف سے آتی دکھائی دیتی اس کا نام و پتہ، منزل و مقصود اورآمدورفت کی غرض و غایت دریافت کی جاتی۔ ایک دن تین عورتیں گرفتار کی گئیں۔ یہ اپنے خاوندوں کے پاس جو قصر میں محصور تھے۔ کھانا لے کر جا رہی تھیں۔ جب مصعب کے سامنے پیش کی گئیں تو انہیں بلا عقوبت واپس بھیج دیا۔ ایک مرتبہ مصعب کی فوج کے کچھ بصری اور کوفی نوجوان جو جنگ کی افتادوں سے بے خبر تھے بغیر کسی سردار کے بازار میں نکل پڑے اور مختار کو ’’ابن دومتہ‘‘ کے خطاب سے پکارنے لگے۔ مختار قصر کی چھت پر برآمد ہوا اور کہنے لگا۔معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کوفہ یا بصرہ کا کوئی معتبر سردار نہیں ہے۔ ورنہ یہ کبھی مجھے اس نام سے نہ پکارتے۔ مختار نے ان کوغیر منتظم حالت میں دیکھ کر چاہا کہ تہس نہس کر دے۔ چنانچہ قصر سے باہر نکل کر ان پر تاخت کرنے کا ارادہ کیا اور دو سو آدمیوں کے ساتھ ان پر حملہ کیا۔ قریباً سو تو وہیں کھیت رہے اور باقی اس طرح بے اوسان بھاگے کہ ایک پرایک گرا پڑتا تھا۔ مگر تھوڑے فاصلہ پر پہنچتے پہنچتے مختار کے دستہ نے انہیں بھی جا لیا اور مار مار کر ان کا کھلیان کر دیا۔
فوج کی دون ہمتی اور بے وفائی اور مختارکا قتل
جب محاصرہ کی سختی روز افزوں ناقابل برداشت ہونے لگی تو ایک دن مختار اپنے لشکر کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ یاد رکھو کہ جس قدر محاصرہ طویل ہو گا تمہاری طاقت جواب دیتی جائے گی اس لئے بہتر ہے کہ باہر نکل کر کھلے میدان میں داد شجاعت دیں اور لڑتے لڑتے عزت سے جانیں دے دیں۔ اگر تم بہادری سے لڑے تو میں اب بھی فتح کی طرف سے مایوس نہیں ہوں۔ مگر انہیں اس کی ہمت نہ پڑی اورجنگ کے لئے باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔البتہ صرف انیس آدمیوں نے رفاقت پر آمادگی ظاہر کی۔ مختار مخلفین سے کہنے لگا۔خدا کی قسم! میں کسی کو اپنا ہاتھ نہ پکڑنے دوں گا۔اگر تم نے میرا ساتھ نہ دیااورمیں نے باہر نکل کر جنگ شروع کی اور مارا گیا تو تم اور بھی زیادہ
ذلیل و خوار ہو جائوگے اور اگر تم نے اپنے تئیں دشمن کے حوالے کر دیا اور اعداء نے قابو پا کر تم کو قتل کرنا شروع کیا تو یاد رکھو کہ تم لوگ ایک دوسرے کے منہ تکنے لگو گے اور کہو گے۔ اے کاش!ہم نے مختار کا کہا مانا ہوتا۔ اگر اس وقت میرا ساتھ دو اور بالفرض تم کو فتح نہ ہو تو بھی شرافت اور عزت کے ساتھ تو مرو گے۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔آخر مختار خوشبو اور عطر لگا کر انیس آدمیوں کے ساتھ قلعہ سے برآمد ہوا۔باہر نکل کر ایک شخص سائب ابن مالک نے علیحدگی اختیار کرلی۔ اب اس نے باقی ماندہ اٹھارہ آدمیوں کی رفاقت میں مقابلہ شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں تمام ساتھی نذر اجل ہو گئے۔آخر مختار خود بھی ان مقتولوں پر ڈھیر ہو رہا۔ یہ حادثہ ۱۴ رمضان ۶۷ھ کو رونما ہوا۔ اس وقت مختار کی عمر۶۷سال کی تھی۔ مختار کے قتل کے دوسرے دن اس کے ایک افسر بحیر بن عبداﷲ مکی نے مختار کی قلعہ گیر فوج سے کہا کہ سب آدمی باہر نکلو اور لڑ کر عزت کی موت مر جاؤ اور یاد رکھو کہ اگر تم نے دون ہمتی کا ثبوت دے کر اپنے تئیں دشمن کے حوالے کیا تو بھی اعداء تم کو زندہ نہ چھوڑیں گے۔ لیکن ان لوگوں نے انکار کیا اور اپنے تئیں بصری فوج کے سپرد کر دیا۔
بصریوں نے ان کو پابجولاں باہر نکالا۔آخر مصعب نے روسائے لشکر کی خواہش اور رائے عامہ کے بموجب مختار کی فوج کے تمام آدمیوں کو تہ تیغ کرنے کا حکم دیا۔ اب بحیر بن عبداﷲ مکی کو مصعب کے سامنے پیش کیا گیا۔ بحیر کہنے لگا۔ تمام حمد و ثناء کا مستحق وہی خالق کردگار ہے جو اس وقت تمہاری آزمائش کر رہا ہے کہ ہمیں معاف کرتے ہو یا نہیں؟۔ اے امیر! اس وقت دو امور آپ کے سامنے ہیں۔رضائے الٰہی اور اس کی ناراضی۔ جو شخص معاف کرتا ہے۔ خدا اسے معاف کرتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کو عزت بخشتا ہے۔ لیکن جو شخص سزا دیتا ہے۔ وہ قصاص سے مامون و محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اے ابن زبیر! ہم تمہارے اہل قبیلہ اور مسلمان ہیں۔ ترک یا دیلمی نہیں ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ تم صاحب قدرت ہو کر معاف کر دو۔ یہ باتیں سن کر مصعب اور تمام حاضرین کو اس پر رحم آگیا اور مصعب نے اسے رہا کر دینے کا ارادہ کیا۔ لیکن عبدالرحمن بن محمد جس کا باپ محمد بن اشعث اس لڑائی کی بھینٹ چڑھ چکا تھا اور دوسرے کوفی روساء جو اس لڑائی کے اصل محرک وبانی تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے کہ آپ لوگ یا توان لوگوں پر رحم کیجئے یا ہم پر۔ یہ دیکھ کر مصعب نے اس سب کے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ مقتولین کی تعداد چھ ہزار تھی۔
مختار کی ایک بیوی کا قتل بجرم ارتداد
مصعب کے حکم سے مختار کے دونوں ہاتھ کاٹے گئے اور مسجد کے پاس کیلوں سے ٹھونک کر نصب کر دئے گئے۔ اب مختار کی بیویاں مصعب کے سامنے پیش کی گئیں۔ ایک کو ام ثابت بنت
سمرہ کہتے تھے اور دوسری کا نام عمرہ بنت نعمان تھا۔ مصعب نے ان سے پوچھا کہ مختار کے دعویٰ نبوت و وحی کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟۔ ام ثابت نے جواب دیا کہ جس معاملہ میں ہماری رائے دریافت کی جاتی ہے۔اس کے متعلق ہمارے لئے بجز اس کے کوئی چارہ کار نہیں کہ ہم آپ کی رائے کی تائید کریں۔ یہ سن کر مصعب نے اسے رہائی دے دی۔ مگر عمرہ نے کہا۔ مختار خدا کے نیک بندوں میں سے تھے۔اﷲ تعالیٰ اپنا مخصوص رحم و کرم ان کے شامل حال کرئے۔ اس جواب پر مصعب نے اسے محبس میں بھیج دیا اور اس کے متعلق اپنے بھائی جناب عبداﷲ بن زبیرؓ کو لکھا کہ یہ عورت اس بات کی مدعی ہے کہ مختار نبی تھا۔ اس سے کیا سلوک کیا جائے؟۔ جناب عبداﷲ بن زبیر حضرت سید الاولین و الآخرینﷺ کے پھوپھی زاد بھائی کے فرزند اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے خواہر زادہ تھے۔انہوں نے لکھ بھیجا کہ اگر اس کا یہیں عقیدہ ہے تو(وہ ختم نبوت کی منکر اور مرتدہ ہے) اسے (بوجہ ارتداد) قتل کیا جائے۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں اسے محبس سے نکال کر حیرہ اور کوفہ کے درمیان لائے۔پولیس کے ایک آدمی نے جس کا نام مطر تھا تلوار کے تین ہاتھ رسید کئے۔ عمرہ نے عرب کے دستور کے بموجب اپنے اعزہ و اقارب کو مدد کے لئے پکارا۔ عمرہ کے بھائی ابان بن نعمان نے یہ فریاد سنی۔ فوراً مطر کی طرف جھپٹا اور زور سے ایک تھپڑ اس کے رسید کر کے کہنے لگا۔حرامزادے! تو نے اسے قتل کیا ہے۔ خدا تیرے ہاتھ کو قطع کرے۔ مطر نے ابان کو پکڑ لیا اور اسے مصعب کے پاس لے آیا مصعب نے حکم دیا کہ اس کو چھوڑ دو۔کیونکہ یہ اپنی ہمشیرہ کے قتل کا وحشت انگیز اور جانکاہ منظر دیکھ کر کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
(اس باب میں جو واقعات قلبند کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ماخذ تو ساتھ ہی ساتھ بتا دیئے گئے ہیں۔لیکن جن واقعات و حوادث کے تحت میں کوئی حوالہ درج نہیں وہ سب تاریخ طبری اور تاریخ کامل ابن اثیر سے ماخوذ ہیں)
باب ۷ … حارث کذاب دمشقی
حارث بن عبدالرحمن بن سعید منبی و مشقی پہلے ابو جلاس عبدی قریشی کا مملوک تھا۔ حصول آزادی کے بعد ا س کے دل میں یاد الٰہی کا شوق سرسرایا۔ چنانچہ بعض اہل اللہ کی دیکھا دیکھی رات دن عبادت الٰہی میں مصروف رہنے لگا۔سدرمق سے زیادہ غذا نہ کھاتا۔کم سوتا۔ کم بولتااوراسقدر پوشش پر اکتفا کرتا جو ستر عورت کے لئے ضروری تھی۔ یہاں تک کہ تقشف اور تبتل و انقطاع کو غایت قصویٰ تک پہنچا دیا۔ اگر یہ زہد و ورع،ریاضتیں اور مجاہدے کسی مرشد کامل کے ارشاد و افادہ کے ماتحت عمل میں لائے جاتے تو اسے قال سے حال تک پہنچا دیتے اور معرفت الٰہی کا نور مبین
اس کے کشور دل کو جگمگا دیتا۔ لیکن اس غریب کو معلوم نہ تھا کہ جو لوگ کسی رہبر کامل کی صحبت میں رہ کر منازل سلوک طے کرنے کی بجائے از خود ریاضت وانزدا کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔شیطان ان کا رہنما بن جاتا ہے اور اس وقت تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک کہ انہیں ضلالت وہلاکت ابدی کے تحت الثری تک نہ پہنچادے۔
شیطان کے طرق اغوا و تضلیل
شیطان کا معمول ہے کہ وہ طرح طرح کی نورانی شکلیں اختیار کر کے بے مرشد ریاضت کشوں کے پاس آتا ہے۔ انہیں انواع واقسام کے سبز باغ دکھاتا ہے۔ کسی سے کہتا ہے کہ توہی مہدی موعود ہے۔ کسی کے کان میں یہ پھونک دیتا ہے کہ آنے والا مسیح تو ہی ہے۔کسی کو حلال وحرام کی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ کسی کو اپنی طرف سے نبوت و رسالت کا منصب بخش جاتا ہے۔ لیکن حرمان نصیبی اور حق فراموشی کا کمال دیکھو کہ عابد اس نورانی شکل کو شیطان نہیں سمجھتا۔بلکہ اپنی حماقت سے یہ یقین کرتا ہے کہ خود خداوند عالم نے اپنا جمال مبارک دکھایا ہے۔ اسی نے ہم کلامی کا شرف بخشا ہے۔ اسی نے اسے مہدویت یا مسیحیت یا نبوت کے منصب جلیل پر سرفراز فرمایا ہے۔ ذیل میں صلحاے امت کے چند ذاتی تجربے اور مشاہدے سپرد قلم کئے جاتے ہیں۔ تا کہ قارئین کرام کو معلوم ہو سکے کہ جنود ابلیس عباد و زہاد کو راہ حق سے منحرف کرنے کے لئے خدع و دجل کے کیسے کیسے سنہری رو پہلی جال بچھاتا ہے؟۔
حضرت غوث الاعظمؒ اور شیطان کی آواز
امام عبد الوہاب شعرانیؒ اور شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ ناقل ہیں۔سید ضیاء الدین ابونصر موسیٰ کہتے ہیں کہ میرے والد امجد حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی قدس سرہ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں سفر میں تھا ۔ میرا گذر ایک ایسے دشت میں ہوا جہاں پانی ناپید تھا۔ میں چند روز وہاں رہا۔ مگر پانی پر دسترس نہ پا سکا۔ جب تشنگی نے حد سے زیادہ غلبہ کیا تو حق تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ابر کا ایک ٹکڑا متعین فرما دیا۔ جس سے وقتاًفوقتاً پانی کے قطرے گرتے اور میں تسکین پاتا۔ انہی ایام میں ایک رات ایسا نور بلند ہوا کہ جس نے شب دیجور میں آفاق عالم کو منور کر دیا۔ نور میں سے ایک عجیب و غریب صورت نمودار ہوئی۔ اس نے آواز دی۔ اے عبدالقادر!میں تیرا پروردگار ہوں۔ میں نے تجھ پر وہ سب کچھ حلال کیا جو دوسروں کے لئے حرام و ناجائز قرار دے رکھا ہے جو کچھ تو چاہے اختیار کر اور وہ ہر فعل کر لے جس کی طرف تیری طبیعت کا میلان ہو۔ میں سوچنے لگا کہ الٰہی! یہ کیا ماجرا ہے۔ مجھ سے پیشتر نبوت وولایت کے لاکھوں شہباز فضائے قرب میں پرواز کرتے
رہے۔ ان میں سے کسی کو اتنے بلند نشیمن آزادی میں جگہ نہ دی گئی اور کسی سے حلال و حرام کا تقید دور نہ ہوا۔ آخر میں کون ہوں کہ مجھے ایسا نادر و عدیم المثال حکم سنایا جاتا ہے؟۔ میں نے معاً نور فراست سے محسوس کیا کہ یہ صدائے اغوائے شیطان ہے۔ میں نے اعوذباﷲ من الشیطان الرجیم! پڑھ کر کہا۔ اے ملعون! دور ہو۔ کیا بکتا ہے؟۔ناگہا وہ نور ظلمت سے بدل گیا اور اس نورانی صورت کا بھی نام و نشان باقی نہ رہا۔ پھر آواز آئی۔ اے عبدالقادر!آج تو اپنے علم کی بدولت مجھ سے بچ گیا۔ ورنہ میں نے اسی طرح ستر سالکان طریقت کو راہ حق سے ایسا پھیر دیا کہ ان میںسے کوئی بھی اپنے مقام قرب پر قائم نہ رہ سکا۔یہ کیسا علم ہے جو تجھے حاصل ہے اور کیسی ہدایت ہے جس سے تو ممتاز ہے۔ میں نے کہا ’’ ﷲ الفضل و المنۃ و منہ الھدایۃ فی البدایۃ والنہایۃ‘‘ {اللہ ہی کا فضل و احسان ہے۔ وہی سرچشمہ رشد وسعادت ہے اور ابتدا و انتہا میں اسی سے توفیق ہدایت ملتی ہے۔}
یہاں یہ معلوم کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جس نورانی پیکر نے حضرت غوث الثقلینؒ سے حلال و حرام کی قید اٹھائی تھی اسی ’’ذات شریف‘‘ نے مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی آزادی اور مطلق العنانی کا تمغہ عطا کیا تھا۔ چونکہ حضرت محبوب سبحانیؒ اپنے علم وعمل میں کامل و یکتا تھے۔ابلیس کا آپ پر کوئی بس نہ چلا۔ لیکن بیچارے مرزا غلام احمد قادیانی جیسے شخص سے اس بات کی کوئی امید نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ شیطان کے پنجہ اغوا سے بچ رہتا۔ بہرحال معلم الملکوت نے مرزا قادیانی سے قریب ہو کر کسی قدر پردہ اپنے’’ پاک‘‘ اور روشن چہرہ پر سے جو نور محض ہے اتار کر مرزا قادیانی کو الہام کیا:
اعمل ماشئت فانی قد غفرت لک! اے مرزا تو جو چاہے سو کر لیا کر۔ کیونکہ میں نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیئے ہیں۔
(خزائن ج۱ ص۶۶۸،براہین احمدیہ ص۵۶۰)
سید الطائفہؒ کا شاگرد شیطان کی کمند خدع میں
سید الطائفہ حضرت شیخ ابوالقاسم جنید بغدادی قدس سرہ کا ایک ناقص مرید اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھا کہ میںکامل ہو گیا ہوں۔اب مجھے صحبت شیخ کی احتیاج نہیں۔ اسی خیال خام کو دل میں پختہ کر کے اس نے حضرت جنیدؒ کی صحبت ترک کر دی اور عزلت نشینی اختار کر کے ذکر و فکر میں مصروف ہوا۔تھوڑے ہی روز کے بعد وہ ہر شب دیکھنے لگا کہ فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور اسے اونٹ پر سوار کر کے عالم بالا کو لے جاتے ہیںاور ریاض فردوس کی سیر کراتے ہیں۔ ایک دفعہ اس نے اپنے بعض مخلص احباب سے ذکر کیا کہ میں بارگاہ رب العزت میں اس درجہ رفیعہ پر
پہنچا ہوں کہ ملائکہ میری خدمت پر مامور ہیں اور ہر شب سوار کر کے مجھے گلستان بہشت کی سیر کراتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ خبر حضرت جنیدؒ کے سمع مبارک تک پہنچی۔ آپ اس برخود غلط مرید کے پاس تشریف لے گئے اور اس کی زبان سے عروج و صعود کی کیفیت سن کر فرمایا آج رات کو جب جنت میں پہنچو تو ذر ’’ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ‘‘ پڑھ دینا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ ناگاہ کیا دیکھتا ہے کہ تمام شیاطین بھاگ رہے ہیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہے اور مردوں کی ہڈیاں سامنے پڑی ہیں۔ یہ شخص چونکا۔ اپنی کوتاہی و گمراہی سے توبہ کر کے حضرت جنیدؒ کے کاشانہ زہد پر حاضر ہوااور تجدید بیعت کر کے پیر کے برکت انفاس سے درجہ کمال کو پہنچا۔اب اسے معلوم ہوا کہ جب تک مرید درجہ کمال تک نہ پہنچ جائے۔ اس کاشیاطین کی مغویانہ دست برد سے محفوظ رہنا محال ہے۔ یہ ایک حقیقت مسلمہ ہے کہ کوئی شخص دار دنیا میں خالق بیچوں عزاسمہ کو ظاہری آنکھوں سے جو سر میں ہیں ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام طالب دیدار ہوئے تو انہیں بھی’’لن ترانی‘‘ ہی جواب ملا تھا۔ البتہ عالم آخرت میں اہل جنت کو ایسی آنکھیں عطا کی جائیں گی جو بے کیف وغیر مرئی خدا کو دیکھ سکیںگی۔
شیطان کا تخت
مولانا عبدالرحمن جامیؒ نے نفحات الانس میں ابو محمد خفاف کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک جگہ مشائخ شیراز کا مجمع تھا جس میں ابو محمد خفاف بھی موجود تھے۔ گفتگو مشاہدہ کے بارہ میں شروع ہوئی۔ ہر ایک نے اپنے اپنے معلومات پیش کئے۔ ابو محمد خاموشی سے سب کچھ سنتے رہے۔ لیکن خود کچھ بیان نہ کیا۔ جصاص نے کہا کہ آپ بھی کچھ فرمایئے۔ انہوں نے کہا یہی تحقیقات کافی ہیں۔ جصاص نے اصرار کیا تو ابو محمد خفاف کہنے لگے کہ یہ جس قدر گفتگو تھی۔ حد علم میں تھی۔ لیکن مشاہدہ کی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ حاضرین نے کہا۔ذرا اس کی وضاحت فرما دیجیے۔ بولے مشاہدہ یہ ہے کہ حجاب اٹھ کر معائنہ ہو جائے۔علماء نے پوچھا۔ یہ آپ کو کیونکر معلوم ہوا؟۔ کہا کہ ایک مرتبہ میں تبوک میں فقر و فاقہ اختیار کئے ہوئے مناجات میں مشغول تھا کہ یک بیک حجاب اٹھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ عرش پر حق تعالیٰ جلوہ افروز ہے۔ میں دیکھتے ہی سجدے میں جا پڑا اور عرض کیا ’’یا مولا ماھذا مکانی و موضعی منک‘‘ {الٰہی تو نے مجھے اپنی رحمت سے کیسے ہی بلند درجہ پر پہنچایا ہے؟۔}یہ سن کر سب لوگ گرداب حیرت میں غوطے کھانے لگے۔ جصاص ابو محمد سے کہنے لگے چلئے ایک بزرگ کی ملاقات کر آئیں اور انہیںابن سعدان محدث کے پاس لے گئے۔ جب وہاں پہنچے تو شیخ ابن سعدان تعظیم و تکریم سے
پیش آئے۔ جصاص نے ان سے کہا کہ حضرت جو حدیث آپ نے بیان فرمائی تھی:’’قال النبی ﷺ ان للشیطان عرشاً بین السماء اذا اراد العبد فتنۃً کشف لہ عنہ‘‘ وہ ذراسنا دیجئے۔شیخ نے بسند متصل وہ روایت سنائی۔
’’قال النبیﷺ ان للشیطان عرشاً بین السماء والارض اذا ارادا العبد فتنۃ کشف لہ عنہ‘‘ {حضرت سید العرب و العجم ﷺ نے فرمایا کہ آسمان اور زمین کے درمیان شیطان کا ایک تخت ہے۔ جب کسی انسان کو فتنہ میں ڈالنا اور گمراہ کرنا چاہتا ہے تو وہ تخت دکھا کر اپنی طرف مائل کرتا ہے۔}
ابو محمد کہنے لگے کہ ذرا ایک دفعہ پھر پڑھیے۔ انہوں نے حدیث کا اعادہ کیا۔ ابو محمد یہ سن کر زار زار رونے لگے۔ دیوانہ وار اٹھ کر بھاگے اور کئی روز تک غائب رہے۔ جصاص کہتے ہیں کہ جب تھوڑے روز کے بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ اتنے روز تک کہاں تھے؟۔ کہا اس کشف ومشاہدہ کے وقت سے جتنی نمازیں پڑھی تھی۔ ان سب کی قضا کی۔ کیونکہ وہ سب ابلیس کی پرستش کی تھی اور کہا اب اس کی ضرورت ہے کہ جہاں شیطان کو سجدہ کیا تھا۔وہیں جا کر اس پر لعنت کروں۔ پھر وہ چلے گئے اور دوبارہ ملاقات نہ ہوئی۔
یہاں موقع کی مناسبت سے یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی ایک شیطان کے شرف زیارت سے مشرف ہوا کرتے تھے۔ بلکہ اس سے اس درجہ انس اور بے تکلفی ہو گئی تھی کہ مذاق اور دل لگی تک نوبت پہنچتی تھی۔آخر شیطان بھی تو اپنا معبود نما جلوہ ہرکس وناکس کو نہیں دکھاتا۔اس چشمہء سعادت سے سیراب ہونے کے لئے بھی کچھ صلاحیت درکار ہے۔ صید ایسا ہو جس کے ساتھ لاکھوں دوسرے شکار بھی خود بخود کھنچے چلے آئیں۔ وہ شکار ہی کیا جو اکیلا دام میں پھنس کر رہ جائے اور دوسروں پر اس کا کوئی اثر نہ ہو۔ بہرحال مرزاقادیانی ’’ضرورۃالامام‘‘ میں امام الزمان کی چھٹی علامت میں رقم فرماہیں:
’’امام الزماں کا ایسا الہام نہیں ہوتا کہ جیسے کلوخ انداز درپردہ ایک کلوخ پھینک جائے اور بھاگ جائے اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھااور کہاں گیا؟۔ بلکہ خدائے تعالیٰ ان سے بہت قریب ہو جاتا ہے اور کسی قدر پردہ اپنے پاک اور روشن چہرے پر جو نور محض ہے۔ اتار دیتا ہے اوروہ اپنے تئیں ایسا پاتے ہیں کہ گویا ان سے کوئی ٹھٹھا کر رہا ہے اور یہ کیفیت دوسروں کو میسر نہیں آتی۔ پس میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خدا کے فضل سے وہ امام الزماں میں ہوں۔‘‘
(ضرورۃ الامام، خزائن ج ۱۳ص۴۸۳)
شیخ ابن عربیؒ کے پیر طریقت اور تلبیس ابلیس
ابلیس اہل خلوت کو راہ راست سے منحرف کرنے میںایسے ایسے کمال رکھتا ہے کہ انسانی علم و عمل کے بڑے بڑے قلعے اس کی ادنیٰ فسوں طرازیوں سے آناًفاناً زیر وزبر ہوجاتے ہیں۔ اگر توفیق الٰہی اور ہدایت ازلی رفیق حال ہو تو انسان اس کی مغویانہ دست برد سے ہر وقت محفوظ ہے۔ ورنہ جو بخت خفتہ اور طالع گم گشتہ اپنی قسمت کی باگ اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ وہ ان کو ایسی بری طرح پٹکتا ہے کہ جس کا جھٹکا مشرق و مغرب تک محسوس ہو۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن آپ کو اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ اس منصب کے اور بھی دعویدار گذر چکے ہیں۔ جس طرح شیطان مع اپنی ذریات کے بدء آفرینش سے ایک حالت پر چلا آتا ہے۔اس کے طرق اضلال میں بھی یک رنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ فتوحات مکیہ باب ۸۱ میں فرماتے ہیں کہ ہمارے پیر طریقت سے بھی اوائل میں کہا گیا تھا کہ تم مسیح موعود ہو۔ لیکن چونکہ وہ ہر چیز کو کتاب و سنت کی عینک سے دیکھنے کے عادی تھے۔ حق تعالیٰ نے انہیں شیطان کے دام تزویر سے محفوظ رکھا۔
حارث پر جنود ابلیس کی نگاہ التفات
جب جنود ابلیس نے حارث کو اپنی نگاہ التفات سے مخصوص کر کے اس پر القا و الہام کے دروازے کھولے تو اس کو عجیب قسم کی چیزیں دکھائی دینے لگیں جو پہلے کبھی مشاہدہ سے نہیں گذری تھیں۔ اس کے سر پر کیسی عیسیٰ نفس شیخ طریقت کا ظل سعادت لمعہ افگن نہیں تھا۔ جس کی طرف یہ رجوع کرتا اور وہ اسے شیطانی اغوا کوشیوں پر متنبہ کر کے صرصر ضلالت سے بچاتا۔اس کا باپ موضع حولہ میں رہتا تھا۔ اس کو لکھ بھیجاکہ جلدی سے میری خبر لو۔ مجھے بعض ایسی چیزیں دکھائی دے رہی ہیں جن کے متعلق خوف ہے کہ مبادا شیطان کی طرف سے ہوں۔ یہ پڑھ کر گم کردۂ راہ باپ نے اس کو ورطہء ہلاک سے نکالنے کے بجائے الٹا گمراہی کے جال میں پھنسا دیا اور لکھ بھیجا۔بیٹا! تو اس کام کو بے خطر کر گزر جس کے لئے تجھے حکم ہوا ہے۔ کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ہل انبئکم علی من تنزل الشیاطین تنزل علے کل افاک اثیم (الشعراء:۲۲۱)‘‘ {کیا میںتم کو بتلاؤں کی شیاطین کس پر اترا کرتے ہیں؟۔ وہ ایسے لوگوںپر نازل ہوتے ہیں جو دروغ گو بد کردار ہیں۔}
اورتو نہ دروغ گو ہے اور نہ بدکردار۔اس لئے تو اس قسم کے اوہام کو اپنے پاس نہ
پھٹکنے دے اور بلا تأمل اس کی تعمیل کر جس کے لئے تجھے ارشاد ہوتا ہے۔لیکن حارث کے باپ کا یہ استدلال بالکل باطل تھا۔ کیونکہ اس سے اگلی آیت کے الفاظ ’’یلقون السمع‘‘ {شیاطین کی اطلاعیں سننے کے لئے کان لگائے رہتے ہیں} سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت ان کاہنوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جنہوں نے غیب دانی کے دعویٰ کے ساتھ تقدس مآبی کی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ وہی لوگ شیاطین سے روابط پیدا کرتے اور ان سے غیب کی باتیں سننے کے لئے کان لگائے رکھتے تھے۔ غرض آیت کے مفہوم میں قطعاً یہ چیز داخل نہیں کہ شیاطین کاہنوں کے سوا کسی دوسرے شخص سے تعرض نہیں کرتے۔ ابلیسی لشکر کا تو فرض منصبی ہی یہ ہے کہ بنی آدم کو ورطہء ہلاک میں ڈالے۔ وہ کفار،فجار اور عوام کو تو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ ان کے مساعی تزویر کے بغیر ہی ان کی خواہشات کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ البتہ خواص پر اپنا پنجہء اغوا مارنے سے کبھی نہیں چوکتے۔ خواص میں جن نفوس پر کسی مسیحا نفس ہادی کا روحانی فیض پرتو افگن ہو وہ ان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ لیکن بے مرشد لوگ کٹ پتلی کی طرح ان کے اشاروں پر رقص کرنے لگتے ہیں۔
حارث کے استدراجی تصرفات
وہ شخص جو سد رمق غذا پر اکتفا کرے۔ کم سوئے۔ کم بولے۔ ہر وقت عبادت الٰہی یا پوجا پاٹ میں مصروف رہے اور نفس کشی کا شیوہ اختیار کر کے اپنے اند رملکوتی صفات پیدا کرئے۔ اس سے عادت مستمرہ کے خلاف ایسے محیر العقول افعال صادر ہوتے ہیں جو دوسروں سے ظاہر نہیں ہوسکتے۔ ایسے لوگ اگر اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے خرق عادت کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر اور اصحاب زیغ ہوں تو ایسا فعل استدراج کے نام سے موسوم ہے۔ یہ تصرفات محض ریاضت اور نفس کشی کا ثمرہ ہیں۔ ان کو تعلق باﷲ سے کوئی واسطہ نہیں۔ہاں اگر کوئی بزرگ شریعت اور طریقت کا جامع ہو۔اتباع سنت اور اقتداء سے سلف صالح کے ساتھ ریاضت اور نفس کشی کا مسلک اختیار کرے تو یہ چیز البتہ قرب خداوندی میں نہایت درجہ مؤثر ہے۔چونکہ حارث نے سخت زاہدانہ اور متقشفانہ زندگی اختیار کر رکھی تھی اور دائم العبادات، معمور الاوقات تھا۔اس سے بھی ماوراء عقل افعال صادر ہوتے تھے۔چنانچہ مسجد میں ایک پتھر پر انگلی مارتا تو وہ تسبیح پڑھنے لگتا۔موسم گرما میں لوگوں کو سرما کے فواکہ اور پھل کھلاتا۔ جاڑوں میں تابستان کے میوے پیش کرتا اور کہا کرتا کہ آئو میں تمہیں موضع دیر مراں (مضافات دمشق) سے فرشتے نکلتے دکھاوں۔چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ نہایت حسین و جمیل فرشتے بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جا رہے ہیں ۔ظاہر ہے
کہ جب مرزا غلام احمد قادیانی جیسے شخص کو پیرووںکی ایک بڑی جماعت مل گئی۔ جس کی ذات میںنہ کوئی علمی اورعملی خوبی ودیعت تھی اور نہ کوئی دوسرا امتیازی وصف پایا جاتا تھا تو پھر عوام کا لانعام حارث جیسے شخص کی عقیدت اور پیروی سے کیونکر تخلف کرسکتے تھے۔ جس کے خوارق و کرامات کی جلوہ نمائیاں عوام کو خیرہ چشم کر رہی تھیں۔ہزار ہا سرگشتگان بادیہء ضلالت آئے اور اس کے آستانہ زہد کی جبہ سانی کرنے لگے۔
بیت المقدس کو فرار
جب حارث کے استدراجی کمالات نے دوررس شہرت اختیار کی تو ایک دمشقی رئیس قاسم بن بخمیرہ نام اس کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ تم کس بات کے مدعی ہو؟۔ کہنے لگا۔ میں نبی اللہ ہوں۔ قاسم کہنے لگا۔ اے عدواﷲ! تو جھوٹا ہے۔حضرت ختم المرسلین ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ قطعاًبند ہوچکاہے۔ان دنوں عبدالملک بن مروان خلافت اسلامیہ کے تخت پر جلوہ افروز تھا۔ قاسم نے جا کر خلیفہ عبدالملک سے ملاقات کی اور حارث کی فتنہ انگیزیوں کا حال مشرح بیان کیا۔ عبدالملک نے حکم دیا کہ حارث کو گرفتار کرکے میرے سامنے پیش کیا جائے۔ جب پولیس گرفتاری کے لئے مکان پر پہنچی تو اس کا وہاں کوئی کھوج نہ مل سکا۔ حارث دمشق سے بھاگ کر بیت المقدس پہنچااور نہایت رازداری کے ساتھ اپنی فتنہ انگیزیوں میں مصروف ہوا۔یہاں اس کے مرید ایسے لوگوںکی تلاش میں رہتے تھے جو باخدا لوگوں کی ملاقات کے شائق ہوں۔ انہیں جہاںکہیں اس ذہنیت کا آدمی نظر آتا۔ اس کو ساتھ لے جاتے اورحارث سے ملاقات کرا کے اپنی جماعت میں داخل کرنے کوشش کرتے۔ایک مرتبہ ایک بصری کو اپنے ساتھ لے گئے جو بیت المقدس میں نووارد تھا۔ جب اس نے توحید الٰہی کے متعلق حارث کی نکتہ آفرینیاں سنیں تو اس کے حقائق و معارف پر عش عش کرگیا۔ لیکن جب حارث نے بتایا کہ میںنبی مبعوث ہوا ہوں تو کہنے لگا کہ آپ کی ہر بات پسندیدہ اور خوشگوار ہے۔ لیکن آپ کے دعویٰ نبوت کے ماننے میں مجھے تامل ہے۔ حارث نے کہا۔نہیں نہیں تم سوچو اور غور کرو۔ اس وقت تو بصری بلا تسلیم دعویٰ مجلس سے اٹھ کر چلا گیا۔لیکن دوسرے دن پھر آیا اورکہنے لگا کہ آپ کا کلام نہایت مرغوب ہے۔ آپ کی باتیں خوب دل نشین ہوئی ہیں۔ میں آپ پر اورآپ کے دین مستقیم پر ایمان لاتا ہوں۔ غرض بادی النظرمیں وہ حارث کی جماعت میں داخل ہو گیا اور شب و روز وہیں رہنا شروع کیا۔یہاں تک کہ حارث کے مخصوص مریدوں میں شمار کیا جانے لگا۔
جب بصری نے حارث کے تمام جزئی و کلی حالات معلوم کر لئے تو ایک دن کہنے لگا یا
نبی اللہ! میں بصرہ کا رہنے والا ہوں۔اتفاق سے بیت المقدس آیا اور سعادت ایمان نصیب ہوئی۔ اب میں چاہتا ہوں کہ بصرہ واپس جا کر لوگوں کو آپ کی نبوت کی دعوت دوں۔ حارث نے کہا۔ ہاں! تم ضرور اپنے وطن میں رہ کر اس خدمت کو انجام دو۔ اب اس نے پتہ لگایا کہ خلیفہ عبدالملک کہاں ہے؟۔ معلوم ہوا کہ اس وقت وہ صنبرہ میںفروکش ہے۔ وہاں جا کر خلیفہ سے ملاقات کی اور حارث کی شرانگیزیوں کا تذکرہ کیا۔عبدالملک نے کہا۔ وہ کہاںہے؟۔ بصری نے کہا کہ وہ بیت المقدس میںفلاں جگہ چھپا ہوا ہے اور کہا کہ اگر کچھ آدمی میرے ساتھ روانہ کر دیئے جائیں تو میں اسے گرفتار کر کے بارگاہ خسروی میں پیش کر سکتا ہوں۔ خلیفہ نے چالیس فرغانی سپاہی اس کی تحویل میں دے دیئے اور ان کو حکم دیاکہ اس کے ہر حکم کی تعمیل کریں۔ اس کے بعد اپنے عامل بیت المقدس کے نام بھی ایک فرمان لکھوایا جس میں بصری کو حسب ضرورت ہر قسم کی امداد بہم پہنچانے کی تاکید کی۔
سلاسل کا ازخود کٹ کر گرنا حارث کی گرفتاری اور ہلاکت
بصری پیادوں کو لے کر بیت المقدس آیا اوررات کے وقت حارث کے قیام گاہ پر پہنچا۔یہ شخص سپاہیوں کو ایک آڑ میں کھڑا کر کے پہلے خود گیا۔ لیکن دربان نے دروازہ کھولنے سے انکار کیا اور بولا کہ گو تم حضرت کے خدام میں داخل ہو۔ تاہم اتنی رات گئے کسی کے لئے داخلہ کی اجازت نہیں۔ لیکن بصری نے سخن طرازی اور فسوں وفسانہ سے رام کر کے اسے دروازہ کھولنے پر رضامند کر لیا۔ جب دروازہ کھلا تو بصری نے معاً سپاہیوں کو بھی بلا لیا۔یہ دیکھ کر دربان اور دوسرے پیروان حارث کے ہوش اڑ گئے اور عالم سراسیمگی میں چیخنے چلانے لگے اور بولے افسوس! تم لوگ ایک بنی اللہ کو قتل کرنا چاہتے ہو۔ جسے خدا نے آسمان پر اٹھا لیا ہے۔ جب بصری اور اس کے رفقائے کار اندر گئے تو حارث مفقود تھا۔ چاروں طرف نگاہ دوڑائی مگر اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔حارث اس وقت خطرے کا احساس کر کے ایک طاق میں چھپ گیا تھا جو مریدوں نے اس کے اختفا ء کے لئے بنا رکھا تھا۔ بصری سے تو کوئی بات مخفی نہیں تھی۔ اس نے طاق میں ہاتھ ڈال کرٹٹولنا شروع کیا تو ہاتھ حارث کے کپڑے سے چھو گیا۔ اس نے حارث کو پکڑ کر نیچے کھینچ لیا۔ اور فرغانیوں کو حکم دیا کہ اس کو جکڑ لو۔ انہوں نے زنجیر گردن میں ڈال کر دونوں ہاتھ گردن سے باندھے اور لے چلے۔ جب درہ بیت المقدس میںپہنچے تو حارث نے قرآن کی یہ آیت پڑھی:
قل ان ضللت فانما اضل علی نفسی وان اھتدیت فبما یوحی الیّ ربی(۳۴:۵)! اے رسول!آپ کہہ دیجئے کہ اگر میں بفرض محال راہ راست کو چھوڑ دوں تو یہ حق
فراموشی مجھ پر وبال ہو گی اور اگر راہ ہدایت پر مستقیم رہوں تو یہ اس کلام کی بدولت ہے جس کو میرا رب مجھ پر نازل کررہا ہے۔
اس آیت کا پڑھنا تھا کہ گلے اور ہاتھ کی زنجیر ٹوٹ کر زمین پر جا پڑی۔ یہ دیکھ کرپیادوں نے زنجیر اٹھا کر پھر ہاتھ گلے سے باندھے اور اپنے ساتھ لے چلے۔ جب دوسرے درہ پر پہنچے تو حارث نے مکرر یہ آیت پڑھی اور زنجیر ٹوٹ کر زمین پر جا رہی۔ پیادوں نے پھر سلاسل کو اٹھایا اور سہ بارہ جکڑ کر لے چلے۔آخر دمشق پہنچ کر خلیفہ عبدالملک کے سامنے پیش کیا۔ خلیفہ نے دریافت کیا کہ کیا واقعی تم مدعی نبوت ہو؟۔ تو حارث نے کہا۔ ہاں!لیکن یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ جو کچھ کہتا ہوں وحی الٰہی کے بموجب کہتا ہوں۔ خلیفہ نے ایک قوی ہیکل محافظ کو حکم دیا کہ اس کو نیزہ مار کرہلاک کر دو۔ نیزہ مارا گیا۔ لیکن کچھ اثر انداز نہ ہوا۔ یہ دیکھ کر حارث کے مریدوں نے کہنا شروع کیا کہ انبیاء اللہ کے جسم پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ خلیفہ نے محافظ سے کہا۔شاید تم نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ نہیں مارا؟۔ اب کی مرتبہ اس نے بسم اللہ پڑھ کر وار کیا تو وہ بری طرح زخم کھا کر گرااور جان دیدی۔یہ ۶۹ھ کا واقعہ ہے۔
(دائرۃالمارف جلد۶ص۶۴۴،الدعاۃ ص۷۳،۷۶ ناقلاًعن تغلیس ابلیس و ابن عساکر)
شیخ ابن تمیہؒ نے کتاب ’’الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان‘‘ میں لکھا کہ حارث کی ہتھکڑیاں اتارنے والا اس کا کوئی شیطان دوست تھا اور اس نے گھوڑوں کے جو سوار دکھائے تھے۔ وہ ملائکہ نہیں جنات تھے۔
باب ۸ … مغیرہ بن سعید عجلی
مغیرہ بن سعید عجلی فرقہ مغیریہ کا بانی ہے۔ جو غلاۃ و روافض کاایک گروہ تھا۔ یہ شخص خالد بن عبداﷲ قسری والئی کوفہ کا آزاد غلام اور بڑا غالی رافضی تھا۔ مغیرہ حضرت امام محمد باقر ؒ کی رحلت کے بعد پہلے امامت کا اور پھر نبوت کا مدعی ہوا۔
احیاء موتیٰ اور غیب دانی کا دعویٰ
مغیرہ کا دعویٰ تھاکہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کی مدد سے مردوں کو زندہ اور لشکروں کو منہزم کر سکتا ہوں۔ کہا کرتا تھا کہ اگر میں قوم عاد، ثمود اور ان کے درمیانی عہد کے آدمیوں کو زندہ کرنا چاہوں تو کر سکتا ہوں۔ یہ شخص مقابر میں جا کر بعض ساحرانہ کلمات پڑھتا تھا تو ٹڈیوں کی وضع کے چھوٹے چھوٹے جانور قبروں پر اڑتے دکھائی دیتے تھے۔ محمد بن عبد الرحمن ابو
لیلیٰ کا بیان ہے کہ بصرہ کے ایک صاحب طلب علم کے لئے آ کر ہمارے ہاں ٹھہرے۔ ایک دن میں نے اپنی خادمہ کو حکم دیا کہ یہ دو درہم لے جا اور ان کی مچھلی خرید لا۔ یہ حکم دے کر میں اور بصری طالب العلم مغیرہ بن سعید کے پاس گئے۔ مغیرہ مجھ سے کہنے لگا کہ اگر تمہاری خواہش ہو تو میں تمہیں بتا دوں کہ تم نے اپنی خادمہ کو کس کام کے لئے بھیجا ہے؟۔ میںنے کہا کہ نہیں۔پھر کہنے لگا۔ اگر چاہو تو میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ تمہارے والدین نے تمہارا نام محمد کیوں رکھا تھا؟۔ میں نے کہا نہیں۔ پھر کہنے لگا کہ تم نے اپنی خادمہ کو دو درہموں کی مچھلی خریدنے کے لئے بھیجا ہے۔ یہ سنتے ہی ہم دونوں اس کے پاس سے اٹھ کر چلے آئے۔ غرض مغیرہ کو سحر میں کامل دستگاہ حاصل تھی اور اس نے نیر نجات و طلسمات دکھا کر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔
(تاریخ طبری ج۴ ص۱۷۴)
عقاید و تعلیمات
مغیرہ کہتا تھا کہ معبود حقیقی کا نور کا ایک پیکر انسانی صورت پر ہے۔ اس کے دل سے حکمت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اس کے اعضا حروف تہجی کی صورت پر ہیں۔ الف اس کے دونوں قدموں کی مانند ہے۔ عین اس کی دونوں آنکھوں کے مشابہ ہے۔ کہتا تھا کہ اللہ کے سر پر نور کا تاج رکھا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کی آفرینش کا قصد کیا تو اپنے اسم اعظم سے متکلم ہوے۔معاً اس اسم نے پرواز کی اور تاج کی شکل اختیار کر کے اس کے فرق مبارک پر آگیا۔چنانچہ کہتا تھا کہ آیت ’’سبح اسم ربک الاعلے‘‘ میں اسم اعلیٰ سے یہی تاج مراد ہے اور کہتا تھا کہ جب رب العزت نے کائنات عالم کو پیدا کرنا چاہا تو اعمال عباد کو اپنی انگلیوں سے لکھا۔جب رب الارباب اپنے بندوں کے ذنوب و معاصی پر غضبناک ہوا تو اس کا جسم عرق آلود ہو گیا جس سے دو دریا بہ نکلے۔ ایک شیریں اور دوسرا تلخ۔ پھر خدائے قدوس نے دریائے شیریں کی طرف نظر کی تو اس کی شکل وصورت دریا میں منعکس ہوئی۔ حق تعالیٰ نے اپنے پرتو جمال کا کچھ حصہ لے کر اس سے سورج اور چاند بنائے اور باقی ماندہ عکس کو فنا کر دیا۔ تاکہ اس کا کوئی شریک باقی نہ رہے۔پھر دریائے شیریں سے شیعہ پیدا کئے اور دریائے تلخ سے کفار (یعنی غیر شیعہ) کی تخلیق فرمائی۔
(کتاب الخطط مقریزی جلد۴ص۱۷۶)
پھر اس نے اپنی امانت آسمانوں، زمین اورپہاڑوں کے سامنے پیش کی۔ لیکن انہوں نے اس امانت کے اٹھانے سے انکار کیا۔ یہ امانت کیا تھی؟۔ اس بات کا عہد تھا کہ وہ سب علیؓ کی خلافت میں مزاحم نہ ہوں گے۔ لیکن انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا۔ چنانچہ عمر بن خطابؓ نے ابوبکرصدیقؓ سے کہا کہ وہ اس بار امانت کو اٹھا کر علیؓ کو اس سے روک دیں اور عمر ؓ نے اس شرط پر
معاونت کا وعدہ کیا کہ وہ اپنے بعد انہیں خلیفہ بنائیں گے۔ ابوبکرؓ نے اس امانت کو اٹھا لیااور ان دونوں نے غلبہ پا کر علیؓ کو اس سے روک دیا۔ یہ شخص تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی باستثناء ان حضرات کے جنہوں نے حضرت علی ؓ کی رفاقت اختیار کی۔(معاذاﷲ) تکفیر کرتا تھا۔
(الفرق بین الفرق ص۱۸۳م لبنان)
مغیرہ کی جھوٹی پیشنگوئی اورمریدوں کا نذرانہ لعنت
مغیرہ کا عقیدہ تھا کہ حضرات علیؓ، حسنؓ، حسینؓ کے بعد امامت جناب محمد بن عبد اللہ بن حن مثنیٰ ابن امام حسنؓ مجتبیٰ بن امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ کی طرف منتقل ہو گئی جو نفس ذکیہ کے لقب سے مشہور تھے۔ اس شخص کا استدلال اس حدیث نبوی سے تھا۔ جس میں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت مہدی علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے کہ ان کا اور ان کے والد کا نام میرے اور میرے والد کے نام کے موافق ہوگا۔ محمد بن عبداﷲ حسنی ہیں۔جنہوں نے خلیفہ ابوجعفر منصور عباسی کے عہد خلافت مین خروج کر کے حجاز مقدس پر قبضہ کر لیا۔ منصور نے ان کے مقابلہ میں عیسیٰ بن موسیٰ کے زیر قیادت مدینہ منورہ فوج بھیجی تھی اور جناب نفس ذکیہ اس معرکہ میں جرعہ شہادت پی کر دارالخلد چلے گئے تھے۔ یہ ۱۴۵ھ کا واقعہ ہے۔ لیکن مغیرہ اس سے چھبیس سال پہلے خلیفہ ہشام بن عبدالمالک اموئی کے عہد خلافت میں علف تیغ بن چکا تھا۔جناب نفس ذکیہؒ کے سانحہ قتل کے بعد مغیرہ کے پیرووں کی ایک بڑی جماعت اس پر لعنت کرنے لگی کہ اس نے محمد بن عبداﷲ معروف بہ نفس ذکیہؒ کو مہدی آخر الزمان قرار دے کر اور یہ کہ جھوٹ بولا تھا کہ یہی روئے زمین کے مالک ہوں گے۔حالانکہ نفس زکیہؒ سپاہ منصورہ کے ہاتھ سے قتل ہو گئے اور نہ صرف روئے زمین کے بلکہ اس کے بیسویںحصہ کے بھی مالک نہ ہوسکے۔
البتہ ایک گروہ بدستور اپنی خوش اعتقادی پر ثابت قدم رہا۔ مؤخر الذکر جماعت نے مرزائیوں کی طرح سخن سازی سے کام لے کر اپنے دل کو بہلا لیا اور یہ کہنا شروع کیا کہ حضرت محمد بن عبد اللہ نفس زکیہؒ قتل نہیں ہوئے بلکہ وہ کوہ حرا میں جا کر مستور ہو گئے ہیں اور جب انہیں حکم ہوگا تو ظاہر ہو کر رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگوں سے بیعت لیں گے اور مخالف احزاب و جیوش کو منہزم کر کے روئے زمین پرعمل ودخل کر لیں گے۔ جب ان لوگوں سے سوال کیا جاتا کہ پھر وہ شخص کون تھا جسے خلیفہ ابو جعفر منصور کے لشکر نے نذر اجل کیا تو اس کا یہ مضحکہ خیز جواب دیتے کہ وہ ایک شیطان تھا کہ جس نے محمد بن عبداﷲ نفس زکیہ کی شکل و صورت اختیار کر لی تھی۔غرض روافض کی
مؤخر الذکر جماعت اس بنا پر محمدیہ کے نام سے موسوم ہے کہ یہ لوگ محمد بن عبد اللہ نفس زکیہؒ کی آمد کے منتظر ہیں۔
(الفرق بین الفرق ص۱۸۴م لبنان)
مغیرہ کے زندہ نذر آتش کئے جانے کا ہولناک منظر
جب خالد بن عبد اللہ قسری کو جو خلیفہ ہشام بن عبد الملک کی طرف سے عراق کا امیر تھا معلوم ہوا کہ مغیرہ مدعی نبوت ہے اور اس نے طرح طرح کی شناعتیں جاری کر رکھی ہیں تو اس نے ۱۱۹ھ میں اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ اس کے چھ مرید بھی پکڑے گئے۔ خالد نے مغیرہ سے دریافت کیا کہ کیا تمہیں نبوت کا دعویٰ ہے؟۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر اس کے مریدوں سے پوچھا کہ کیا تم اس کو نبی یقین کرتے ہو؟۔ انہوں نے بھی اس کا اقرار کیا۔ خالد نے مغیرہ کو ارتداد کی وہ بڑی سے بڑی سزا دینی چاہی جو اس کے خیال میں سما سکی۔ اس نے سرکنڈوں کے گٹھے اور نفط منگوایا۔خالد نے مغیرہ کو حکم دیا کہ ایک گٹھے کو اٹھا لے۔ مغیرہ اس سے رکا اور ہچکچایا۔ خالد نے حکم دیا کہ مارو۔معاً اس کے سر پر کوڑے پڑنے لگے۔ مغیرہ نے گھبرا کر گٹھا اپنی آغوش میں اٹھا لیا اسے اس گٹھے سے باندھ دیا گیا۔ اب اس پر اور گٹھے اورروغن نفظ ڈال کر آگ لگادی گئی اورمغیرہ تھوڑی دیر میں جل کر راکھ کا ڈھیر ہو گیا۔
(تاریخ طبری عربی ج۴ص۱۷۴)
اس میں شبہ نہیں کہ اسلامی نقطہ نظر سے انقطاع نبوت کے بعد کسی کا ادعائے نبوت کوئی ایسا معمولی سا جرم نہیں جس کی سزا قتل سے کم تجویز کی جا سکے۔ لیکن جان ستانی کا جو طریقہ خالد نے اختیار کیا وہ کسی طرح مستحسن نہ تھا۔ قتل کے موزوں طریقے بھی تھے جو اختیار کئے جا سکتے تھے۔ کسی کو آگ میں زندہ جلا دینا ایک وحشیانہ فعل ہے۔ جو جاہلیت کے عہد مظلم کی یادگارہے۔ چنانچہ خود جناب شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس ارشاد سے اس کی ممانعت فرما دی ہے کہ کسی کو عذاب اللہ کے ساتھ معذب نہ کرو۔ عذاب اللہ سے یہی احراق فی النار کا عذاب مراد ہے۔ خدا وند عالم کے سوا کسی کو اس کا استحقاق نہیں کہ کسی ذی روح کو آگ میں جلائے۔
باب۹ … بیان بن سمعان تمیمی
بیان بن سمعان تمیمی مغیرہ بن سعید عجلی کا معاصر تھا۔ فرقہ بیانیہ جو غلاۃ روافض کی ایک شاخ ہے اسی بیان کا پیرو ہے۔ بیان نبوت کا مدعی تھا اور کہا کرتا تھا کہ میں اسم اعظم کے ذریعے زہرہ کو بلا لیتا ہوں۔ہزارہالوگ حسن ظن کے سنہری جال میں پھنس کر اس کی نبوت کے قائل ہو گئے۔بیان حضرت امام زین العابدینؓ کی تکذیب کرتا تھا۔ اس نے حضرت امام محمد باقر ؒ جیسی جلیل
القدر ہستی کو بھی اپنی خانہ ساز نبوت کی دعوت دی تھی اور اپنے خط میں جو عمر بن عفیف کے ہاتھ امام ممدوح کے پاس بھیجا۔ لکھا تھا کہ اسلم تسلم و ترتقے من سلم فانک لاتدری حیث یجعل اللہ النبوۃ! (تم میری نبوت پر ایمان لاؤ تو سلامت رہو گے اور ترقی پاؤگے۔ تم نہیں جانتے کہ خدا کس کو نبی بناتا ہے۔)کہتے ہیں کہ امام محمد باقرؒ یہ خط پڑھ کر بہت خشمناک ہوئے اور قاصد سے فرمایا کہ اس خط کو لے جاؤ۔وہ بے تائل نگل گیا اور معاً تڑپ کر جان دے دی۔ اس کے بعد امام نے بیان کے حق میں بھی بددعا کی۔ چنانچہ چند ہی روز میں خالد قسری کے ہاتھوں قتل ہو کر طعمہ اجل ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقؒ نے بیان پر لعنت کی ہے۔
(منہاج السنہ شیخ ابن تمیہ)
عقیدہ تناسخ و حلول میں ہنود کا اتباع
بیان ہندو کی طرح تناسخ ورجعت اور حلول کا قائل تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میرے جسم میں خدائے کرد گار کی روح حلول کر گئی ہے اور اس کے متبعین اس کو اسی طرح خدا کا اوتار یقین کرتے تھے جس طرح ہندو رام چندر جی اور کرشن جی کو خدائے برتر کا اوتار گمان کرتے ہیں۔ بیان اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں کہ ذات خداوندی ہر چیز میں حلول کرتی ہے۔قرآن پاک کی متعدد آیتیں پیش کرتا تھا۔لیکن ظاہر ہے کہ آیات قرآنی سے اس قسم کا استدلال ایسا ہی انوکھا اور عجیب وغریب ہو گا جس طرح کہ آج کل کے گم کردگان راہ مرزائی بعض آیات قرآنی سے اپنا عقیدہ جریان نبوت ثابت کرنے کی مضحکہ خیز کوشش کیا کرتے ہیں۔بیان کا دعویٰ تھا کہ مجھے قرآن کا صحیح بیان سمجھایا گیا ہے۔ اور آیات قرآنی کا وہ مطلب و مفہوم نہیں جو عوام سمجھتے ہیں۔اسی واسطے اس کو بیان کہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ عوام سے اس کی مراد علمائے امت کی جماعت تھی۔ ورنہ عامتہ الناس تو قرآن پاک کا مطلب و مفہوم اور اس کے حقائق و معارف سمجھنے سے قطعاً قاصر ہیں۔ اور یہ کچھ بیان پر موقوف نہیں۔بلکہ ہر جھوٹا مدعی ازراہ خود غرضی ہمیشہ حاملین شریعت ہی کو خطا کار بتایا کرتا ہے اور خود باوجود مجسمہ جہل ہونے کے مصیب بننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فریب کاری کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی انتہا درجہ کا جاہل کندہ ناتراش یہ کہنے لگے کہ دنیا بھر کے نامی گرامی ڈاکٹر اور حکیم خواص ادویہ اور تشخیص امراض سے نابلد ہیں۔ البتہ میں ایک ایسا شخص ہوں جس کو علم طب میں کامل بصیرت حاصل ہے۔
دور نہ جاؤ مرزا غلام احمد قادیانی ہی کو دیکھ لو۔ علماء تو درکنار اس شخص نے تو خود حامل وحی علیہ الصلوٰۃ والسلام تک کو (معاذ اللہ) خطا کار بتایا اور یہاں تک لکھ مارا کہ آنحضرتﷺ پر مسیح بن مریم علیہ السلام اور دجال اور یاجوج ماجوج اور دابۃ الارض کی حقیقت منکشف نہ ہوئی۔ (خزائن ج
۳ ص۴۷۳، ازالہ اوبام ص۶۹۱)اس کے یہ معنی ہوئے کہ جس چیز تک (معاذاﷲ) حضرت مہبط وحیﷺ کے علم و فہم کی رسائی نہ ہوئی تھی وہ قادیانی پر منکشف ہو گئی۔
فرقہ بیانیہ کا خیال ہے کہ امامت محمد بن حنیفہؒ سے ان کے فرزندابو ہاشم عبداﷲ بن محمد کو تفویض ہوئی۔ پھر ابو ہاشم سے ایک وصیت کی بنا پر بیان بن سمعان کی طرف منتقل ہوگئی۔ بیانیہ اپنے زعیم و مقتداء کے حقیقی منصب و مقام کے متعلق مختلف البیان ہیں۔ بعض تو اس کو نبی مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے بیان نے شریعت محمدی(علی صاحبہاالتحیۃوالسلام) کا ایک حصہ منسوخ کردیااور بعض اسے معبود برحق خیال کرتے ہیں۔بیان نے ان سے کہا تھا کہ خدا کی روح انبیاء اور آئمہ کے اجساد میں منتقل ہوتی ہوتی ابو ہاشم عبداﷲ بن محمد بن حنیفہ میںپہنچی۔ وہاں سے میری طرف منتقل ہوئی۔ یعنی حلولی مذہب کے بموجب خود ربوبیت کا مدعی تھا۔ اس کے پیرو کہتے ہیں کہ قرآن کی یہ آیت بیان ہی کی شان میں وارد ہوئی ہے۔ ’’ھذا بیان للناس وھدے و موعظۃ للمتقین(آل عمران:۱۳۹)‘‘ (یہ لوگوں کے لئے بیان اور متقین کے لئے ہدایت (موعظۃ ہے) چنانچہ خود بیان نے بھی کہا ہے ’’انا البیان وانا الھدی والموعظۃ‘‘ (میں ہی بیان ہوں اور میںہی ہدایت و موعظہ ہوں۔)
امیرالمومنین حضرت علی المرتضیؓکی خدائی کا اعتقاد
بیان کا دعویٰ تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اسم اعظم کے ذریعہ سے لشکر کو ہزیمت دے سکتا ہوں اور زہرہ کو بلاتا ہوں اوروہ میرے پکارنے پر جواب دیتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ معبود ازلی ایک نوری شخص ہے کہ چہرہ کے سوا جس کا تمام بدن فنا ہو جاتا ہے۔چنانچہ قرآن پاک کی ان دو آیتوں کو اپنے بیان کی تائید میں پیش کرتا تھا ’’کل شیء ھالک الاوجھہ (قصص:۸۹)‘‘ ’’کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذولجلالہ والاکرام (الرحمن۲۶،۲۷)‘‘ مگر ان کا یہ زعم باطل ہے۔ کیونکہ وجہ اللہ کے معنے ذات خداوندی ہے اور اگر بفرض محال خدائے برتر کے دوسرے اعضاء جسم کو فنا پذیر مان لیا جائے تو چہرہ کے فانی اور زوال پذیر ہونے میں بھی کوئی مانع نہیں ہو سکتا۔(الفرق بین الفرق ص۱۸۰ م لبنان)بیان، حضرت امیر المومنین علی مرتضیؓ کی خدائی کا یقین رکھتا تھا اور اتحاد کا قائل تھا۔ یعنی کہتا تھا کہ خالق ارض و سما کا ایک جزو علی علیہ السلام کے جسد مبارک میں حلول کر کے ان سے متحد ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان کے اندر وہی قوت الٰہی تھی جس کی بدولت انہوں نے درخیبر اکھاڑا تھا۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد وہ جزو الٰہی جناب محمد بن حنیفہ کی ذات میں پیوست ہوا۔ان کے بعد ابو ہاشم عبداﷲبن محمد کے جسم میں جلوہ گر
ہوا ۔جب وہ بھی دارلخلد کو رخصت ہو گئے تو وہ بیان بن سمعان یعنی خود اس کی ذات کے ساتھ متحد ہو گیا۔ بیان یہ بھی کہا کرتا تھا کہ آسمان اور زمین کے معبود الگ الگ ہیں۔ ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ میںنے امام ابو عبد اللہ جعفر صادقؒ سے عرض کیا کہ بیان آیت ’’وھو الذی فی السمآء الہ وفی الارض الہ‘‘ کی یہ تاویل کرتا ہے کہ آسمان کا الہ اورہے اور زمین کا اور۔اور آسمان کا الہ زمین کے معبود سے افضل ہے۔امام جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ زمین و آسمان کا معبود ایک ہی خدائے واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور بیان، دجال کذاب ہے۔ اور کتاب منہج المقال میں ہے کہ امام ابو عبداﷲ جعفر صادقؒ فرماتے تھے کہ ارشاد خداوندی ’’ھل انبئکم علے من تنزل الشیاطین۰ تنزل علے کل افاک اثیم‘‘ {کیا میں بتلا دوں کہ شیاطین کن لوگوںپر اترتے ہیں؟۔ہردروغ گو بدکردگارپر} سے مراد سات اشخاص ہیں۔ مغیرہ بن سعید عجلی اور بیان بن سمعان تمیمی اور اسی قماش کے پانچ اور اشخاص۔ علامہ عبدالقاہر بغدادی’’الفرق بین الفرق‘‘ میں لکھتے ہیں کہ فرقہ بیانیہ ملت اسلام سے خارج ہے۔ کیونکہ یہ لوگ بیان کو معبود یقین کرتے ہیںاور اس گروہ کے جو افراد بیان کو نبی سمجھتے ہیں۔ وہ بھی اسی شخص کی مانند ہیں۔ جو مسیلمہ کذاب کو نبی گمان کرتا ہے اور یہ دونوں فریق اسلامی فرقوں سے خارج ہیں۔(ایضاً ص ۱۸۱) اسی پر مرزائیوں کو قیاس کر لینا چاہیے جو مرزا غلام احمدقادیانی کو نبی مانتے ہیں۔
ہلاکت کا بھیانک نظارہ
باب سابق میں لکھا جا چکا ہے کہ خالد بن قسری عامل کوفہ نے مغیرہ بن سعید عجلی کو زندہ جلا دیا تھا۔ بیان بھی اسی وقت گرفتار کر کے کوفہ لایا گیا تھا۔ جب مغیرہ جل کر خاک سیاہ ہو چکا تو خالد نے بیان کو حکم دیا کہ سرکنڈوں کا ایک گٹھا تھام لے۔ اس نے فوراً لپک کر ایک گٹھہ بغل میں لے لیا۔ یہ دیکھ کر خالد نے کہا تم پر افسوس ہے کہ تم ہر کام میں حماقت اور تعجیل سے کام لیتے ہو۔ کیا تم نے مغیرہ کا حشر نہیں دیکھا؟۔ اس کے بعد خالد کہنے لگا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اپنے اسم اعظم کے ساتھ لشکروں کو ہزیمت دیتے ہو۔ اب یہ کام کرو کہ مجھے اور میرے عملہ کو جو تیرے درپئے جانستانی ہیں۔ ہزیمت دے کر اپنے آپ کو بچا لو۔ مگر وہ جھوٹا تھا۔ لب کشائی نہ کر سکا۔آخر مغیرہ کی طرح اس کو بھی زندہ جلاکر بے نشان کردیا گیا۔
(تاریخ طبری عربی ج۴ ص ۱۷۵،الفرق بین الفرق ص۱۸۱)
باب ۱۰ … ابومنصورعجلی
یہ شخص ابتداء میں حضرت امام جعفر صادقؒ کا معتقد اور رافضی غالی تھا۔جب امام ہمام
نے اسے عقاید رفضیہ کے باعث اپنے ہاں سے خارج کر دیا تو اس نے کبیدہ خاطر ہوکر خود دعویٰ امامت کی ٹھان لی۔ چنانچہ اخراج کے چند ہی روز بعد یہ دعویٰ کیاکہ میںامام محمد باقرؒ کا خلیفہ وجانشین ہوں اور ان کا درجہ امامت میری طرف منتقل ہو گیا ہے۔ یہ شخص اپنے تئیں خالق کرد گار کا ہم شکل بتاتا تھا۔ اس کا بیان تھا کہ امام محمد باقرؒ کی رحلت کے بعد میں آسمان پر بلایا گیا۔ اور معبود برحق نے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا کہ اے بیٹا! لوگوں کے پاس میرا پیغام پہنچا دے۔ دعویٰ امامت سے پہلے تو کہا کرتا تھا کہ قرآن کی آیت ’’وان یروا کسفا من السمآء ساقطا یقولوا سحاب مرکوم(طور:۴۴)‘‘ میں جو کسف کا لفظ ہے۔ اس سے امیرالمومنین علیؓ مراد ہیں۔لیکن اس کے بعد یہ کہنا شروع کیا کہ اس لفظ سے میری ذات مقصود ہے۔ مرزائیوں کی طرح نصوص صریحہ کی عجیب و غریب تاوئلیں کیا کرتا تھا۔ مثلاً قیامت اور جنت و دوزخ کا منکر تھا اور اس کی تاویل میں کبھی تو یہ کہتا کہ جنت سے نعیم دنیا اور دوزخ سے مصائب دنیا مراد ہیںاور کبھی یوں گوہر افشانی کرتا کہ جنت سے وہ نفوس قدسیہ مراد ہیں جن کی محبت و دوستی واجب ہے اوروہ آئمہ اہل بیت ہیں اور دوزخ سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی عداوت فرض و واجب ہے۔ مثلاً ابوبکرؓ،عمرؓ، عثمانؓ، معاویہؓ۔اسی طرح کہتاتھاکہ قرآن حکیم میں فرائض سے مراد حضرت علیؓ اور ان کی اولاد مراد ہے اور محرمات سے حضرت ابوبکرؓ وغیرہ مقصود ہیں۔ ابو منصور اس بات کا بھی قائل تھا کہ نبوت حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی ذات گرامی پر ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ رسول اور نبی قیامت تک مبعوث ہوتے رہیںگے۔ اور عجب نہیں کہ مرزائیوں کے مقتدا نے نبوت کے جاری رہنے کا عقیدہ اسی شخص سے حاصل کیا ہو۔ابو منصور کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جو کوئی امام تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سے تمام تکلیفات شرعیہ اٹھ جاتے ہیں اور اس کے لئے شریعت کی پابندی لازم نہیں رہتی۔ اس کی تعلیمات شنیعہ میں یہ چیز بھی داخل تھی کہ جو شخص ایسے چالیس آدمیوں کو قتل کردے جو عقاید میں ابو منصور سے مختلف الخیال ہوں تو اسے قرب خداوندی میں جگہ مل جاتی ہے۔ ابو منصور کا یہ بھی عقیدہ تھاکہ جبرائیل امین نے پیغام رسانی میں خطا کی۔ انہیں حضرت علیؓ کے پاس بھیجا گیا تھا۔ لیکن وہ غلطی سے جناب محمد ﷺ کو پیغام الٰہی پہنچا گئے(غنیۃالطالبین) اس کے کسی شاعر نے کہاہے:
جبریل کہ آمد زبر خالق بیچوں
در پیش محمدؐ شد و مقصود علیؓ بود
علامہ عبد القاہر نے لکھا ہے کہ ابو منصوراور اس کا گروہ قیامت اور جنت و دوزخ کا انکار کرنے کے باعث دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ علامہ عبد القاہر کو منصور عجلی
کے اس عقیدہ کا علم نہیں ہوا کہ اس کے نزدیک نبوت جاری ہے۔ ورنہ وہ اس کے اس عقیدہ کو بھی ان عقاید کفریہ میں شامل کرتے جن کی وجہ سے ابو منصور اور اس کے پیرودائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جب یوسف بن عمر ثقفی کو جو خلیفہ ہشام بن عبد الملک کی طرف سے عراق کا والی تھا۔ ابو منصور عجلی کی تعلیمات کفریہ کا علم ہوا تو اس نے اسے گرفتار کرا کے کوفہ میں دار پر چڑھا دیا۔
(الفرق بین الفرق ص۱۸۶)
باب۱۱ … صالح بن طریف برغواطی
کہتے ہیں کہ صالح بن طریف یہودی الاصل تھا۔ اس کا نشوونمو سرزمین اندلس کے ایک قلعہ برباطہ میں ہوا۔ وہاں سے مشرق کا رخ کیا اور عبید اللہ معتزلی سے تحصیل علم کرتا رہا۔ پھر سحر میں دستگاہ حاصل کی۔ وہاں سے سخت عسرت اور شکستہ حالی کے عالم میں تامستا کے مقام پر پہنچا جو مغرب اقصیٰ میں ساحل بحر پر واقع ہے۔ وہاںبربری قبائل کو دیکھا جو بالکل جاہل اور سراپا وحشی تھے۔ اس نے انہی لوگوںمیں بود و باش اختیار کر لی۔ان کی زبان سیکھی اور سحر اور نیر نجات سے گرویدہ بنا کر ان پر حکومت کرنے لگا۔۱۲۵ھ یا ۱۲۷ھ میں دعویٰ نبوت کیا ۔ اس وقت خلیفہ ہشام بن عبدالملک اسلامی ممالک کا فرمانروا تھا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں صالح کی حکومت کو وہ اوج و عروج نصیب ہواکہ شمالی افریقہ میںاس کے کسی ہم عصرتاجدار کو وہ عظمت و شوکت حاصل نہ تھی۔ادعائے نبوت کے علاوہ صالح کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہی وہ مہدی اکبر ہے جو قرب قیامت کو ظاہر ہو کر جناب مسیح بن مریم علیہ السلام کی مصاحبت اختیار کریںگے اور حضرت مسیح علیہ السلام جن کے پیچھے نماز پڑھیںگے۔ اس شخص کے کئی نام تھے۔عربی میں صالح کے نام سے مشہور تھا۔سریانی میں اسے مالک کہتے تھے۔ فارسی میں اس کا نام عالم تھا اور عبرانی میں وہ روبیل اور بربری میں واربا کے ناموں سے موسوم تھا۔ واربابربری زبان میں خاتم النبیین کو کہتے ہیں۔
صالح کا قرآن اور اس کی مضحکہ خیز شریعت
صالح کہتا تھا کہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی طرح مجھ پر بھی قرآن نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی قوم کے سامنے جو قرآن پیش کیا۔ اس کی اسی سورتیں تھی۔ ان میں سے بعض کے یہ نام تھے۔ سورۃ الدیک۔ سورۃ الحجل۔ سورۃ الحجر۔ سورۃ فیل۔سورۃ آدم ۔سورۃ نوح۔ سورۃ فرعون۔سورۃ موسی۔ سورۃ ہارون۔ سورۃ ہاروت وماروت سورۃ ابلیس۔ سورۃ الاسباط۔سورۃ الجراد۔سورۃ غرائب الدنیا۔خوش اعتقادوں کے نزدیک موخرالذکر سورہ میں بے شمار اسرار حقائق
درج تھے۔ احکام حلال و حرام بھی مذکور تھے۔ اور یہی وہ صورت تھی جسے اس کے مرید نماز میںپڑھنے کے مامور تھے۔اس نے اپنالقب صالح المومنین رکھا تھا اور کہتا تھاکہ میں وہی ’’صالح المومنین‘‘ جس کا ذکر محمدرسول اللہ ﷺ کے قرآن میں آیا ہے۔اب اس کی شریعت کی اعجوبہ نمائیاں ملاحظہ ہوں۔ کتاب القرطاس میں لکھا ہے کہ صالح کے پیرو رمضان کے بجائے رجب کے روزے رکھیں۔ اس نے اپنے پیروؤں پر دس نمازیں فرض کی تھیں۔پانچ دن میں پانچ رات میں۲۱محرم کے دن ہر شخص پر قربانی واجب کی۔وضو میں ناف اور کمر کا دھونا بھی مشروع کیا۔ حکم دیا کہ کوئی شخص غسل جنابت نہ کرے۔ البتہ جو کوئی زنا کا مرتکب ہو۔ وہ زنا کے بعد ضرور غسل کرے۔ اس کے پیرو صرف اشاروں سے نماز پڑہتے ہیں۔البتہ آخری رکعت کے اخیر میں پانچ سجدے کر لیتے ہیں۔ کھانے پینے کے وقت ’’باسمک یا کستائی‘‘ کہتے ہیں۔ ان کے زعم میں اس کی تفسیر بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ صالح نے حکم دیا کہ جس عورت سے اور جتنی عورتوں سے چاہیں شادی کریں۔ البتہ چچا کی بیٹی سے عقد ازدواج نہ کریں۔
کاش! اس کافلسفہ ہمیں بھی معلوم ہو جاتا۔ ان کے ہاں طلاق کی کوئی حد نہیں۔یہ لوگ دن میں ہزار مرتبہ طلاق دے کر بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ بیوی ان باتوں سے ان پر حرام نہیں ہوتی۔ صالح نے حکم دیا تھا کہ چور کو جہاں دیکھو قتل کر دو۔ کیونکہ اس کے خیال میں چور تلوار کی دھار کے سوا گناہ سے کسی طرح پاک نہیں ہو سکتا۔ اس کی شریعت میںہر حلال جانور کا سر کھانا حرام اور مرغی کا گوشت مکروہ تھا۔ مرغ کا ذبح کرنا اور کھانا حرام قرار دیا اور حکم دیا کہ جو کوئی مرغ ذبح کرئے یا کھائے وہ ایک غلام آزاد کرئے اور حکم دیا کہ اس کے پیرو اپنے حکام کا لعاب دہن (تھوک) برسبیل تبرک چاٹ لیا کریں۔ چنانچہ صالح لوگوں کے ہاتھوں پر تھوکا کرتا تھا اور وہ اسے خود چاٹ لیتے یا مریضوں کے پاس حصول شفا کی غرض سے لے جاتے۔
صالح سینتالیس سال تک دعویٰ نبوت کے ساتھ دینی اور دنیاوی امور کا کفیل و نگران حال رہا۔آخر عمر میں تبتل وانقطاع کا اشتیاق ہوا اوراپنے کفریات کے باوجود بزعم خود کاملۃً ذہاب الی اللہ کا سودا سر میں سمایا۔چنانچہ ۱۷۴ھ میں تاج و تخت سے دست بردار ہو کر پایۂ تخت سے کہیں مشرق کی طرف جا کر عزلت گزیں ہو گیا۔ جاتے وقت اپنے بیٹے الیاس کو وصیت کی کہ میرے دین پر قائم رہنا۔ چنانچہ نہ صرف الیاس بلکہ صالح کے تمام جانشین پانچویں صدی ہجری کے اواسط تک ارث تاج و تخت کے علاوہ اس کی ضلالت اور خانہ ساز نبوت کے بھی وارث رہے۔
(الاستقصاء لاخباردول المغرب الاقصیٰ مطبوعہ مصر جلداول ص۵۱)
الیاس بن صالح وصیت کے بموجب اس کے تمام کفریات پر عامل و مصر رہا۔یہاں تک کہ پنجاہ سالہ حکومت واغوا کوشی کے بعد ۲۲۴ھ میں طعمہ اجل ہوگیا۔ اس کے بعد الیاس کا بیٹا یونس حکومت پر بیٹھا۔ یہ شخص نہ صرف اپنے باپ دادا کے کفریات پر عمل پیرا رہا۔ بلکہ دوسروں کو بھی جبراًوقہراً ان کا پابند بنانے کی کوشش کی۔ یونس کا ظلم و عدوان یہاں تک بڑھا کہ اس نے تین سو اسی قصبات و دیہات کو نذر آتش کر کے خاک سیاہ کر دیا اور اس کے جرم نا آشنا باشندوں کو محض اس ’’قصور‘‘ پر موت کے گھاٹ اتار دیا کہ وہ اس کا اور اس کے آباء کا مسلک اختیار نہیں کرتے تھے۔ اس طرح اس کی تیغ جفا نے قریباً آٹھ ہزار کلمہ گوؤں کو نہنگ اجل کے حوالے کر کے دارالخلد میں پہنچا دیا۔ ان ظلم آرائیوں کے بعد یونس نے حج کا قصد کیا تھا۔ اور اس پر یہ مثل صادق آئی۔ نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ اس سے پیشتر اس کے خاندان کے کسی شخص نے حج نہیں کیا تھا۔آخر چالیس سال کی ظالمانہ حکومت کر کے ۲۶۸ھ میں ہلاک ہو گیا۔اس کے بعد ابو غفیر محمد بن معاذ ملک برغواطہ کا بادشاہ ہوا۔ اس نے بھی اپنے آباء کی رسم کہن کے بموجب دعویٰ نبوت کیا۔ سعید بن ہشام مصمودی نے اس کے متعلق ایک نظم لکھی تھی۔ جس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ لکھتے ہیں:
وھذی امۃ حلکواوضلوا | وعاروالاسقواماء معینا | |
سیعلم الہ تامسنا اذاما | اتوایوم القیامۃ مقطعینا | |
یقولون النبی ابو غفیر | فاخزی اللہ ام الکاذبینا | |
ھنالک یونس و بنو ابیہ | یقودون البرابر حائرینا |
اب غفیر کی چوالیس بیویاں تھیں اور شاید اتنی ہی یا اس سے کسی قدر زیادہ اولاد تھی۔ یہ شخص تیسری صدی کے اواخر میں انتیس سال حکومت کر کے ہلاک ہو گیا۔
اس کے بعد اس کا بیٹا ابوالانصار عبد اللہ تخت نشین ہوا۔ اور اپنے آبا ئواجداد کا طریقہ رائج کیا۔آخر چوالیس سال حکومت کر کے راہی ملک عدم ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ابو منصور عیسٰی بائیس سال کی عمر میں باپ کا جانشین ہو کر آسمان شہرت پر نمودار ہوا۔اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس کی نبوت کو بڑا عروج نصیب ہوا۔ یہاں تک کہ ملک مغرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا۔ جس نے اس کی عظمت و شوکت کے سامنے سر انقیادو خم نہ کیا ہو۔اس کو ایک غنیم بلکین بن زیری بن مناد صنہاجی سے جنگ آزما ہونا پڑا۔ جس میں اس کو ہزیمت ہوئی اور ۳۶۹ھ میں اٹھائیس سال تک
دعویٰ نبوت کے ساتھ کوس لمن الملک الیوم بجا کر میدان جان ستان کی نذر ہو گیا۔اس کے بیشمار پیرو قید ہو کر قیروان لائے گئے۔ ابو منصور عیسیٰ کے بعد غالباً ابو حفص عبداﷲ ابو منصور عیسیٰ کی اولاد میں سے تھا۔ وارث تاج و تخت ہوا۔ شاید یہی وہ بادشاہ ہے کہ صالح نے جس کے عہد سلطنت میں عود کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر صالح نے نہ تو اس کے زمانہ حکومت میں کبھی اپنا جلوہ دکھایا اور نہ اس کے بعد ہی کسی کو اس کی شکل دیکھنی نصیب ہوئی۔ مگر ظاہر ہے کہ صالح کی گمراہ امت نے بھی آج کل کے مرزائیوں کی طرح شرمسار ہونے کی بجائے سخن سازی اور تاویل کاری کے ہتھیار تیز کر لئے ہوں گے۔ ابو منصور عیسیٰ کی ہلاکت کے بعد برغواطہ کے اقبال نے دامن ادبار میں منہ چھپالیا۔ چنانچہ ابو منصور عیسی کے بعد تامستالگاتار اسی سال تک شجاعان اسلام کی یورشوں کا آماجگاہ بنا رہا۔ یہاں تک کہ مرابطون نے ۴۵۱ھ میں تسلط کر کے وہاں فرقہ حقہ اہل سنت و جماعت کی حکومت قائم کر دی۔
(لاستصقاء جلد اوّل ص۱۰۳)
برغواطی حکمران جو مرزا قادیانی سے زیادہ عرصہ تک دعویٰ نبوت پر قائم رہے
مرزائی لوگ یہ کہہ کر ناواقفوں کو مغالطہ دیا کرتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا مفتری نہیں گزرا جو مرزا قادیانی کی طرح ۲۳ سال کی طویل مدت تک اپنے دعویٰ پر قائم رہا ہو اور جلد ہلاک نہ ہو گیا ہو۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی سچے نبی تھے۔ اگرچہ مرزائی لوگ اپنے پیش کردہ معیار حق و باطل کو کلام الٰہی اور ارشادات نبویہ کی روشنی میں ہرگز ثابت نہیں کر سکتے۔اور صادق کے صدق اور کاذب کے کذب میں کسی مدت دعویٰ کو قطعاً کوئی دخل نہیں۔ تاہم میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر مرزائیوں کی ضد پوری کردوں۔ متذکرہ صدر واقعات سے جو کتاب ’’الاستقصاء لاخبار دول المغرب الاقصی‘‘ (جلد اول صفحات ۵۱،۱۰۳) سے ماخوذ ہیں۔
قارئین کرام اس نتیجہ پر پہنچے ہوںگے کم از کم مندرجہ ذیل تین بادشاہ مرزا غلام احمد قادیانی کی مدت دعاوی سے بھی زیادہ عرصہ تک دعویٰ نبوت کے ساتھ اپنی قوم پر حکمران رہے۔ ملاحظہ ہو:
باب۱۲ … بہا فرید زوزانی نیشاپوری
ابو مسلم خراسانی کے عہد دولت میں جو خلافت آل عباسؓ کا بانی تھا۔بہا فرید بن ماہ فروزین نام ایک مجوسی جوزوزان کا رہنے والا تھا۔خواف ضلع نیشا پور کے قریب سیراوند نام کے ایک قصبہ میں ظاہر ہوا۔ یہ بھی نبوت و وحی کا مدعی تھا۔
باریک قمیص سے اعجاز نمائی کا کام
بہا فرید اوائل عہد میں زوزان سے چین کی طرف گیا۔ وہاں سات سال تک قیام کیا۔ مراجعت کے وقت دوسرے چینی تحائف کے علاوہ سبز رنگ کی ایک نہایت باریک قمیص بھی ساتھ لایا۔ اس کا کپڑا اس قدر باریک تھا کہ قمیص آدمی کی مٹھی میں آ جاتی تھی۔ چونکہ اس زمانہ تک لوگ زیادہ باریک کپڑوں سے روشناس نہ ہوئے تھے۔ بہا فرید نے اس قمیص سے معجزہ کا کام لینا چاہا۔ چین سے واپس آ کر رات کے وقت وطن پہنچا۔ کسی سے ملاقات کئے بغیر رات کی تاریکی میں سیدھا بت خانہ کا رخ کیا۔اور مندر پر چڑھ کر بیٹھ رہا۔ جب صبح کے وقت پجاریوں کی آمد و رفت شروع ہوئی تو آہستہ آہستہ لوگوںکے سامنے نیچے اترناشروع کیا۔ لوگ یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے کہ سات سال تک غائب رہنے کے بعد اب یہ بلندی کی طرف سے کس طرح آرہا ہے؟۔ لوگوں کو متعجب دیکھ کر کہنے لگا۔ حیرت کی کوئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خداوند عالم نے مجھے آسمان پر بلایا تھا۔ میں برابر سات سال تک آسمانوں کی سیر و سیاحت میں مصروف رہا۔ وہاں مجھے جنت اور دوزخ کی سیر کرائی۔ آخر رب کردگار نے مجھے شرف نبوت سے سرفراز فرمایااور یہ قمیص پہنا کر زمین پر اترنے کا حکم دیا۔ چنانچہ میں ابھی ابھی آسمانوں سے نازل ہو رہا ہوں۔ اس وقت مندر کے پاس ہی ایک کسان ہل چلا رہا تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے خود اسے آسمان سے نازل ہوتے دیکھا ہے۔ پجاریوں نے بھی اس کے اترنے کی شہادت دی۔ بہا فرید کہنے لگا کہ خلعت جو مجھے آسمان سے عنایت ہوا زیب تن ہے۔ غور سے دیکھو کہ کہیں دنیا میں بھی ایسا باریک اور نفیس کپڑا تیار ہو سکتا ہے؟۔ لوگ اس قمیص کو دیکھ دیکھ کر محو حیرت تھے۔ غرض آسمانی نزول اور عالم بالا کے معجزہ خلعت پر یقین کر کے ہزار ہا مجوس اس کے پیرو ہو گئے۔ اب اس نے ادعائے نبوت کے ساتھ لوگوں کے سامنے نئے دین کا خوان دعوت بچھایا اور لوگ دھڑادھڑ دام تزویر میںپھنسے لگے۔ جس طرح ہمارے مرزا غلام احمد قادیانی نے ازراہ مآل اندیشی حضرت
سید الانبیاءﷺ کی نبوت کی بھی تصدیق کی۔ اسی طرح بہا فرید نے مجوس کے مقتداء رزتشت کو سچاپیغمبر تسلیم کیااور جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے دین اسلام میں سینکڑوں قسم کی رخنہ اندازیاں کیں۔ اسی طرح اس نے مجوس کے اکثر شرائع واحکام پر خط تنسیخ کھینچ ڈالا اور لوگوں سے بیان کیا کہ زرتشت کے تمام پیروؤں پر میری اطاعت فرض ہے۔ کہا کرتا تھا کہ میرے پاس نہایت رازداری کے ساتھ احکام الٰہی پہنچا کرتے ہیں۔
بہا فریدی شریعت کی بوالعجبیاں
بہافرید نے بیسیوں خرافات جاری کئے تھے۔ ان نے اپنی امت پر سات نمازیں فرض کیں۔پہلی نماز خدائے برتر کی حمد و ستائش کو متضمن تھی۔ دوسری آسمانوں اور زمیں کی پیدائش سے متعلق تھی۔ تیسری حیوانات اور ان کے رزق کی طرف منسوب تھی۔چوتھی دنیا کی بے ثباتی اور موت کی یاد و تذکیر پر مشتمل تھی۔ پانچویں کا تعلق بعثانہ یوم عدالت سے تھا۔ چھٹی میں ارباب جنت کی راحت اور اہل دوزخ کے مصائب کی یاد تازہ کی جاتی تھی۔ ساتویں نماز میں صرف اہل جنت کی بختاوری اور اقبال مندی کو شرح وبسط سے بیان کیا گیاتھا۔ بہا فرید نے اپنے پیروؤں کے لئے ایک فارسی کتاب بھی مدون کی اور حکم دیا کہ تمام لوگ آفتاب کو سجدہ کریں۔ لیکن سجدہ کے وقت دونوں گھٹنے زمین پر نہ لگیں۔ بلکہ ایک زانو سے سجدہ کیا جائے۔ استقبال قبلہ کے بجائے حکم تھا کہ آفتاب کی طرف منہ کر کے نمازیںادا کیں جائیں۔ سورج جس رخ پر ہوتا تھا۔ اسی طرف منہ کیا جاتا تھا۔ بال کاٹنے یا مونڈنے کی ممانعت تھی۔ بلکہ حکم تھا کہ سب لوگ اپنے گیسو اور کاکل چھوڑ دیں۔اس کی شریعت کا ایک یہ بھی حکم تھا کہ جب تک مویشی بڈھا اور لاغر نہ ہو جائے اس کی قربانی نہ دیں۔ شرب خمر کی ممانعت کی اور حکم دیا کہ چارسو درہم سے زیادہ کسی عورت کا مہر نہ باندھا جائے۔
بہا فرید کا قتل
جب ابو مسلم خراسانی نیشاپور آیا تو مسلمانوں اور مجوسیوں کا ایک وفد اس کے پاس پہنچا اور شکایت کی کہ بہا فرید نے دین اسلام اور کیش مجوس میں فساد و رخنہ اندازیاں کر رکھی ہیں۔ ابومسلم نے عبد اللہ بن شعبہ کو اس کے حاضر کرنے کا حکم دیا۔ بہا فرید کو معلوم ہوگیا کہ اس کی گرفتاری کا حکم ہوا ہے۔ فورا نیشاپور سے بھاگ نکلا۔ عبداﷲ بن شعبہ نے تعاقب کر کے اسے جبل بادغیس پر جا لیا اور گرفتار کرکے ابو مسلم کے سامنے لا حاضر کیا۔ ابو مسلم نے دیکھتے ہی خنجر خارا شگاف کا وار
کیا اور سر قلم کر کے اس کی نبوت کا خاتمہ کر دیااور حکم دیا کہ اس کے گم کردگان راہ پیرو بھی قعر ہلاک میں ڈالے جائیں۔ وہ بہا فرید کی گرفتاری سے پہلے ہی بھاگ چکے تھے۔ اس لئے بہت تھوڑے آدمی ابو مسلم کی فوج کے ہاتھ آئے۔ اس کے پیرو بہا فریدیہ کہلاتے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ان کے نبی کے خاص خادم نے انہیں اطلاع دی تھی کہ بہافرید ایک مشکیں گھوڑے پر سوار ہوکر آسمان پر چڑھ گیا تھا اور وہ کسی مستقبل زمانہ میں آسمان سے نازل ہو کر اپنے اعداء سے انتقام لے گا۔
(الٓاثار الباقیہ عن القرون الخالیہ للبیرونی۲۱۰،۲۱۱)
باب ۱۳ … اسحاق اخرس مغربی
اسحاق اخرس ملک مغرب کا رہنے والا تھا۔ اہل عرب کی اصطلاح میں مغرب شمالی افریقہ کے اس حصہ کا نام ہے جس میں مراکش،تونس،الجزائر وغیرہ ممالک داخل ہیں۔ اسحاق ۱۳۵ھ میں اصفہان میں ظاہر ہوا۔ ان ایام میں ممالک اسلامیہ پر خلیفہ سفاح عباسی کا پرچم اقبال لہرا رہا تھا۔اہل سیر نے اس کی دکان آرائی کی کیفیت اس طرح لکھی ہے کہ پہلے اس نے صحف آسمانی قرآن،توارۃ،انجیل اور زبورکی تعلیم حاصل کی۔پھر جمیع علوم و سمیہ کی تکمیل کی۔ زمانہ دراز تک مختلف زبانیں سیکھتا رہا۔ مختلف قسم کی صناعیوں اور شعبدہ بازیوں میں مہارت پیدا کی اور ہر طرح سے باکمال اور بالغ النظر ہو کر اصفہان آیا۔
کامل دس سال تک گونگا بنا رہا
اصفہان پہنچ کر ایک عربی مدرسہ میں قیام کیا اور یہیں کی ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں کامل دس سال تک کنج عزلت میں پڑا رہا۔ یہاں اس نے اپنی زبان پر ایسی مہر سکوت لگائے رکھی کہ ہر شخص اسے گونگا یقین کرتا رہا۔ اس شخص نے اپنی نام نہاد جہالت و بے علمی اور تصنع آمیز عدم گویائی کو اس ثبات و استقلال کے ساتھ نباہا کہ دس سال کی طویل مدت میں کسی کو وہم و گمان تک نہ ہوا کہ اس کی زبان کو بھی قوت گویائی سے کچھ حصہ ملا ہے۔یا یہ شخص ایک علامہ دہر اور یکتائے روزگار ہے۔ اسی بنا پر یہ اخرس یعنی گونگے کے لقب سے مشہور ہو گیا۔ ہمیشہ اشاروں سے اظہار مدعا کرتا۔ ہر شخص سے اس کا رابطہ مودت و شناسائی قائم تھا۔ کوئی بڑا چھوٹاا یسا نہ ہوگا جواس کے ساتھ اشاروں کنایوں سے تھوڑی بہت مذاق کر کے تفریح طبع نہ کر لیتا ہو۔ اتنی صبر آزما مدت گزار لینے کے بعد آخر وہ وقت آ گیا جب وہ مہر سکوت توڑ دے اور کشور قلوب پر اپنی قابلیت اور نطق و گویائی کا سکہ بٹھا دے۔اس نے نہایت رازداری کے ساتھ ایک نہایت نفیس قسم کا روغن تیار
کیا۔اس روغن میں یہ صنعت تھی کہ اگر کوئی شخص اسے چہرے پر مل لے تو اس درجہ حسن وتجلی پیدا ہو کہ کوئی شخص شدت انوار سے اس کے نورانی طلعت کے دیکھنے کی تاب نہ لا سکے۔اس طرح اس نے خاص قسم کی دورنگ دار شمعیں بھی تیار کر لیں۔ اس کے بعد ایک رات جبکہ تمام لوگ محو خواب و استراحت تھے۔ اس نے وہ روغن اپنے چہرہ پر ملا اور شمعیں جلا کر سامنے رکھ دیں ان کی روشنی میں چہرہ میں ایسی رعنائی،دلفریبی اور چمک دمک پیدا ہوئی کہ آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں۔اس کے بعد اس نے اس زور سے چیخنا شروع کیا کہ مدرسہ کے تمام مکین جاگ اٹھے۔جب لوگ اس کے پاس آئے تو اٹھ کر نماز میں مشغول ہو گیا اور ایسی خوش الحانی اور تجوید کیساتھ بآواز بلند قرآن پڑھنے لگا کہ بڑے بڑے قاری بھی عش عش کر گئے۔
صدر المدرسین اور قاضی شہر کی بدحواسی
جب مدرسہ کے معلمین اور طلبہ نے دیکھا کہ مادرزاد گونگا باتیں کر رہا ہے اور قوت گویائی کے ساتھ اسے اعلی درجہ کی فصاحت اور فن قراۃ و تجوید کا کمال بھی بخشا گیا ہے اور اس پر مستزادیہ کہ اس کا چہرہ ایسا درخشان ہے کہ نگاہ نہیں ٹھہر سکتی تو لوگ سخت حیرت زدہ ہوئے۔خصوصاً صدر مدرس صاحب تو بالکل قوائے عقلیہ کھو بیٹھے۔صدر مدرس صاحب جس درجہ علم وعمل اور صلاح وتقویٰ میں عدیم المثال تھے۔ اسی قدر اہل زمانہ کی عیاریوں سے ناآشنا اور نہایت سادہ لوح واقع ہوئے تھے۔ وہ بڑی خوش اعتقادی سے فرمانے لگے۔ کیا اچھا ہو اگر عماید شہر بھی خدائے قادروتوانا کے اس کرشمہ قدرت کا مشاہدہ کر سکیں۔اب اہل مدرسہ نے صدرمدرس صاحب کی قیادت میں اس غرض سے شہر کا رخ کیا کہ اعیان شہر کو بھی خداوند عالم کی قدرت قاہرہ کا یہ جلوہ دکھائیں۔ شہر پناہ کے دروازہ پر آئے تو اس کو مقفل پایا۔ چابی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ناکام رہے۔ ان لوگوں پر خوش اعتقادی اور گرمجوشی کا بھوت اس درجہ سوار تھا کہ شہر کا مقفل دروازہ اور اس کی سنگین دیواریں بھی ان کی راہ میں حائل نہ رہ سکیں۔ کسی نہ کسی تدبیر سے شہر میں داخل ہو گئے۔اب صدر مدرس صاحب تو آگے آگے جا رہے تھے اور دوسرے مولوی صاحبان اور ان کے تلامذہ پیچھے پیچھے۔سب سے پہلے قاضی شہر کے مکان پر پہنچے۔ قاضی صاحب رات کے وقت اس غیر معمولی ازدحام اور اس کی شور وپکار سن کر مضطربانہ گھر سے نکلے اور ماجرا دریافت فرمایا۔بدنصیبی سے قاضی صاحب بھی پیرایہ حزم ودوراندیشی سے عاری تھے۔انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو۔ سب مجمع کو ساتھ لے کر جھٹ وزیر اعظم کے در دولت پر جا پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا۔ وزیر با تدبیر نے ان کی رام کہانی سن کر کہا کہ ابھی رات کا وقت ہے۔ آپ لوگ جا کر اپنی اپنی جگہ آرام کریں۔ دن کو
دیکھا جائے گا کہ ایسی بزرگ ہستی کی عظمت شان کے مطابق کیا کاروائی مناسب ہوگی؟۔ غرض شہر میں ہلڑ مچ گیا۔ باوجود ظلمت شب کے لوگ جوق در جوق چلے آرہے تھے اور خوش اعتقادوں نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ قاضی صاحب چند روسائے شہر کو ساتھ لے کر اس بزرگ ہستی کا جمال مبارک دیکھنے کے لئے مدرسہ میں آئے۔ مگر دروازہ کو مقفل پایا۔ اسحاق اندر ہی براجمان تھا۔ قاضی صاحب نے نیچے سے پکار کر کہا۔ حضرت والا! آپ کو اسی خدائے ذوالجلال کی قسم! جس نے آپ کو اس کرامت اور منصب جلیل سے نوازا۔ ذرا دروازہ کھولیے اور مشتاقان جمال کو شرف دیدار سے مشرف فرمائیے۔ یہ سن کر اسحاق بول اٹھا۔ اے قفل!کھل جا۔ اور ساتھ ہی کسی حکمت عملی سے کنجی کے بغیر قفل کھول دیا۔ قفل کے گرنے کی آواز سن کر لوگوں کی خوش اعتقادی اور بھی دو آتشہ ہو گئی۔ لوگ بزرگ کے رعب سے ترساں و لرزاں تھے۔ دروازہ کھلنے پر سب لوگ اسحاق کے روبرو نہایت مؤدب ہو کر جا بیٹھے۔قاضی صاحب نے نیاز مندانہ لہجہ میں التماس کی کہ حضور والا! سارا شہر اس قدرت خداوندی پر متحیر ہے۔ اگر حقیقت حال کا چہرہ کسی قدر بے نقاب فرمایا جائے تو بڑی نوازش ہوگی۔
اسحاق کی ظلی بروزی نبوت
اسحاق جو اس وقت کا پہلے سے منتظر تھا۔ نہایت ریاکارانہ لہجہ میں بولا کہ چالیس روز پیشتر ہی فیضان کے کچھ آثار نظر آنے لگے تھے۔ آخر دن بدن القائے ربانی کا شرچشمہ دل میں موجیں مارنے لگا۔ حتیٰ کہ آج رات خدائے قدوس نے اپنے فضل مخصوص سے اس عاجز پر علم و عمل کی وہ وہ راہیں کھول دیں کہ مجھ سے پہلے لاکھوں رہروان منزل اس کے خیال اور تصور سے بھی محروم رہے تھے۔اور وہ وہ اسرار و حقائق منکشف فرمائے کہ جن کا زبان پر لانا مذہب طریقت میں ممنوع ہے۔ البتہ مختصراً اتنا کہنے کا مجاز ہوں کہ آج رات دو فرشتے حوض کوثر کا پانی لے کر میرے پاس آئے۔ مجھے اپنے ہاتھ سے غسل دیااور کہنے لگے السلام علیک یا نبی اللہ! مجھے جواب میں تامل ہوااور گھبرایا کہ واﷲ اعلم۔ یہ کیا ابتلاء ہے؟۔ ایک فرشتہ بزبان فصیح یوں گویا ہوا۔ یا نبی اللہ! افتح فاک باسم اللہ الا زلی! ( اے اللہ کے نبی!بسم اللہ کہہ کر ذرا منہ تو کھولئے۔) میں نے منہ کھول دیا اور دل میں بسم اللہ الا زلی کا ورد کرتا رہا۔ فرشتہ نے ایک سفید سی چیز میرے منہ میں رکھ دی۔ یہ تو معلوم نہیں کہ وہ چیز کیا تھی؟۔ البتہ اتنا جانتا ہوں کہ وہ شہد سے زیادہ شیریں، مشک سے زیادہ خوشبو اور برف سے زیادہ سرد تھی۔ اس نعمت خداوندی کا حلق سے نیچے اترنا تھا کہ میری زبان گویا ہو گئی اور میرے منہ سے یہ کلمہ نکلا۔ اشھد ان لاا الہ الا اللہ واشہدان محمد
رسول اللہ! یہ سن کر فرشتوں نے کہا محمد ﷺ کی طرح تم بھی رسول اللہ ہو۔ میں نے کہا۔ میرے دوستو! تم یہ کیسی بات کہہ رہے ہو۔ مجھے اس سے سخت حیرت ہے۔ بلکہ میں تو عرق خجالت میں ڈوبا جاتا ہوں۔ فرشتے کہنے لگے۔ خدائے قدوس نے تمہیں اس قوم کے لیے نبی مبعوث فرمایا ہے۔ میںنے کہا جناب باری نے تو سیدنا محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام روحی فداہ کو خاتم الانبیاء قرار دیا۔ اور آپ کی ذات اقدس پر نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ اب میری نبوت کیا معنی رکھتی ہے؟۔ کہنے لگے درست ہے۔ مگر محمدﷺ کی نبوت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور تمہاری بالتبع اور ظلی وبروزی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرزائیوں نے انقطاع نبوت کے بعد ظلی بروزی نبوت کا ڈھکوسلہ اسی اسحاق سے اڑایا ہے۔ ورنہ قرآن و حدیث اور اقوال سلف صالح میں اس چیز کا کہیں وجود نہیں۔ بلکہ خود شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علیؓ کو امر خلافت میں جناب ہارون علیہ السلام سے جو ایک غیر شرعی اور تابع نبی تھے۔ تشبیہ دے کر آیندہ کے لئے ہر قسم کی نبوت کا خاتمہ کر دیا۔ اب ظلی بروزی نبوتوں کا افسانہ محض شیطانی اغوا ہے۔
اسحاق کے معجزات باہرہ
اس کے بعد اسحاق نے حاضرین سے بیان کیا کہ جب ملائکہ نے مجھے ظلی بروزی نبوت کا منصب تفویض فرمایا تو میں اپنی معذوری ظاہر کرنے لگا اور کہا دوستو! میرے لئے نبوت کا دعویٰ بہت سی مشکلات سے لبریز ہے۔کیونکہ بوجہ معجزہ نہ رکھنے کے کوئی شخص میری تصدیق نہ کرے گا۔ فرشتوں نے کہا۔ وہ قادر مطلق جس نے تمہیں گونگا پیدا کرکے متکلم اور فصیح و بلیغ بنا دیا وہ خود لوگوں کے دلوں میں تمہاری تصدیق کا جذبہ پیدا کرے گا۔ یہاں تک کہ زمین و آسمان تمہاری تصدیق کے لئے کھڑے ہو جائیں گے۔ لیکن میں نے ایسی خشک نبوت کے قبول کرنے سے انکار کیا اور اس بات پر مصر ہوا کہ کوئی نہ کوئی معجزہ ضرور چاہیے۔ جب میرا اصرار حد سے گذر گیا تو فرشتے کہنے لگے۔ اچھا معجزات بھی لیجئے۔جنتی آسمانی کتابیں انبیاء پر نازل ہوئیں۔ تمہیں ان سب کا علم دیا گیا۔ مزید براں کئی ایک زبانیںاور کئی قسم کے رسم الخط تمہیں عطا کئے۔ اس کے بعد فرشتے کہنے لگے کہ قرآن پڑھو۔ میں نے جس ترتیب سے قرآن نازل ہوا تھا پڑھ کر سنا دیا۔ انجیل پڑھوائی۔ وہ بھی سنا دی۔پھر تورات، زبور اور دوسرے آسمانی صحیفے پڑھنے کو کہا۔ وہ بھی سب سنا دئے۔ مگر میرے قلب منور پر جو ان کتب مقدسہ کا القاء ہوا تو اس میںکسی تحریف، تصحیف اوراختلاف قرأت کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ بلکہ جس طرح ان کی تنزیل ہوئی تھی۔ اسی طرح یہ بے کم وکاست میرے دل پر القاء کی گئیں۔چنانچہ فرشتوں نے فوراً اس کی تصدیق کر دی۔ ملائکہ نے
صحف سماویہ کی قرأت سن کر مجھ سے کہا۔ قم انزر الناس! (اب کمر باندھ لو اور لوگوں کو غضب الٰہی سے ڈرائو۔) یہ کہ کر فرشتے رخصت ہو گئے اور میںجھٹ نماز اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو گیا۔ آج رات سے جن انوار و تجلیات کا میرے دل پر ہجوم ہے۔زبان اس کی شرح سے قاصر ہے۔ غالباً ان انوار کے کچھ آثار میرے چہرے پر بھی نمایاں ہو گئے ہوںگے۔ یہ تومیری سرگذشت تھی۔اب میں تم لوگوں کو متنبہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جو شخص خدا پر،محمدﷺ پر اور مجھ پر ایمان لایا۔ اس نے فلاح و رستگاری پائی اور جس نے میری نبوت سے انکار کیا۔اس نے سیدنا محمدﷺ کی شریعت کو بیکار کردیا۔ ایسا منکر ابد الآباد جہنم کا ایندھن بنا رہے گا۔
عساکر خلافت سے معرکہ آرائیاں
عوام کا معمول ہے کہ جونہی نفس امارہ کے کسی پجاری نے اپنے دجالی تقدس کی ڈفلی بجانی شروع کی اس پر پروانہ وار گرنے لگے۔ اسحاق کی تقریر سن کر عوام کا پائے ایمان ڈگمگا گیا اور ہزارہا آدمی نقد ایمان اس کی نذر کر بیٹھے اورجن لوگوں کا دل نور ایمان سے متجلی تھا۔وہ بیزار ہو کر چلے گئے۔ حاملین شریعت نے گم کردگان راہ کو بہتیرا سمجھایا کہ اخر س دجال کذاب اور رہزن دین وایمان ہے۔ لیکن عقیدت مندوں کی خوش اعتقادی میں ذرا فرق نہ آیا۔ بلکہ جوں جوں علمائے حق انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا جنون خوش اعتقادی اور زیادہ بڑھتا تھا۔آخر اس شخص کی قوت اور جمعیت یہاں تک ترقی کر گئی کہ اس کے دل میں ملک گیری کی ہوس پیدا ہوئی۔ چنانچہ خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی کے عمال کو مقہور و مغلوب کر کے بصرہ عمان اور ان کے توابع پر قبضہ کرلیا۔ بڑے بڑے معرکے ہوئے۔ آخر عساکر خلافت مظفرومنصور ہوئے اور اسحاق مارا گیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے پیرو اب تک عمان میں پائے جاتے ہیں۔
(کتاب الاذکیا،الشیخ ابن الجوزی و کتاب المختارو کشف الاسرار العلامہ عبدالرحمن بن ابی بکر الدمشقی المعروف بالجویری)
باب۱۴ … استاد سیس خراسانی
جن ایام میں اسلامی سیاسیات کی باگ دوڑ خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی کے ہاتھ میں تھی۔ استاد سیس نام ایک مدعی نبوت ہرات باغیس ، سجستان وغیرہ اطراف خراسان میں ظاہر ہوا۔ دعویٰ نبوت کے بعد عامتہ الناس اس کثرت سے اس کے دام تزویر میں پھنسے کہ چند ہی سال میں اس کے پیرووں کے تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ اتنی بڑی جمعیت دیکھ کر اس کے دل میں استعمار اور ملک گیری کی ہوس پیدا ہوئی اور وہ خراسان کے اکثر علاقے دبا بیٹھا۔ یہ دیکھ کر اجثم عامل مروروز
نے ایک لشکر مرتب کیا اور استاد سیس سے جا بھڑا۔ استاد سیس کی قوت بہت بڑھی ہوئی تھی۔ اس نے اجثم کے لشکر کا بیشتر حصہ بالکل غارت کر دیا اور خود اجثم بھی میدان جانستانی کی نذر ہوگیا۔ اجثم کے مارے جانے کے بعد خلیفہ نے اور بھی سپہ سالار فوجیں دے کر روانہ کئے۔ مگر یا تو مارے گئے یا سرکوب ہو کر واپس آئے۔جب استاد سیس نے خلیفہ کے آخری سپہ سالار کو پسپا کیا تو اس وقت خلیفہ منصور بدان کے مقام پر خیمہ زن تھا۔ عساکر خلافت کی پیہم ہزیمتوں اور پامالیوں پر خلیفہ سخت پریشان ہوا۔ آخر خازم بن خزیمہ نام ایک نہایت جنگ آزمودہ فوجی افسر کواس غرض سے ولی عہد سلطنت مہدی کے پاس نیشا پور بھیجا کہ اس کی صوابدید کے بموجب استاد سیس کے مقابلے پر جائے۔ مہدی نے اسے تمام نشیب و فراز سمجھا کر چالیس ہزار کی جمعیت سے روانہ کیا۔ خازم کی اعانت کے لئے اور بھی آزمودہ کار افسر روانہ کئے گئے۔ بکار بن مسلم عقیلی نام ایک مشہور سپہ سالار بھی خازم کے ماتحت روانہ کیاگیا۔ اس وقت خازم کے میمنہ پر ہثیم بن شعبہ،میسرہ پر نہار بن حصین سعدی اورمقدمہ پر بکار بن مسلم عقیلی متعین تھا ۔جھنڈا زبرقان کے ہاتھ میں تھا۔ خازم نے میدان کارزار میں جا کر اچھی طرح دیکھ بھال کی اور غنیم کو دھوکا دینے کی غرض سے بہت سی خندقیں بنوائیں اورمورچے قائم کئے اور ہر ایک خندق کو دوسری سے بذریعہ سرنگ ملا دیا۔ ان سب کے علاوہ ایک خندق اتنی بڑی کھدوائی جس میں خازم کا سارا لشکر سما سکتا تھا۔مؤخر الذکرخندق کے چار دروازے بنوائے۔ ہر دروازے پر ایک ایک ہزار چیدہ سپاہی کارآزمودہ سرداروں کی قیادت میں متعین کئے۔ سیس کے پیرو بھی سازوسامان سے لیس ہو کر مقابلہ کوآئے۔ ان کے ساتھ بھی پھائوڑے، کدال اور ٹوکریاں تھیں۔ انہوں نے پہلے اس دروازہ سے جنگ شروع کی۔ جس طرف بکار بن مسلم تھا۔بکار اور اس کی فوج اس بے جگری سے لڑی کہ سیس کے دانت کھٹے کر دیئے۔ ادھر سے ہٹ کر وہ اس طرف کو جھکا جس دروازہ پر خود خازم مستعد جنگ کھڑا تھا۔ اسی طرح پیروان سیس میں سے حریش نام ایک فوجی سرداربھی اہل سجستان کو اپنے ہمراہ لئے ہوئے بقصد جنگ خازم کی طرف بڑھا۔ خازم نے حریف کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ہثیم بن شعبہ کا بکار کی طرف سے نکل کر حریف پر عقب سے حملہ کرنے کا حکم دیا اور خود خازم سینہ سپر ہو کر حریش کے مقابلہ پر آیا۔ اور نہایت پامردی سے تنور حرب گرم کیا۔ اس اثنا میں حریش کے پیچھے سے لشکر ہثیم کے پھریرے ہوا میں اڑتے دکھائی دیئے۔ خازم کے لشکریوں نے جوش جہاد میں نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔ اسی طرح خازم نے بھی نعرہ تکبیر بلند کیا اور اپنی اجتماعی قوت سے یکبارگی ہلہ بول دیا۔ جونہی سیس اور حریش کی ہمرکاب فوجیں بقصد فرار پیچھے ہٹیں۔ ہثیم کی سپاہ نے انہیں تلواروں اور نیزوں پر رکھ لیا۔ اتنے
میںنہار بن حصین اپنی فوج کے ساتھ میسرہ سے اور بکار بن مسلم اپنی جمعیت کے ساتھ اگلی جانب سے نکل کر غنیم پرحملہ آور ہوئے اور بہت دیر تک قتل اور خونریزی کا بازار گرم رہا۔ عساکر خلافت نے دشمن پر اتنی تلوار چلائی کہ میدان جنگ میں ہر طرف مرتدین کی لاشوں کے انبار لگ گئے۔ اس معرکہ میں سیس کے قریباً سترہ ہزار آدمی کام آئے اور چودہ ہزار قید کر لئے گئے۔ سیس بقیتہ السیف تیس ہزار فوج کو پہاڑ کی طرف لے کر بھاگا اور وہاں اس طرح جا چھپا جس طرح خرگوش شکاریوں کے خوف سے کھیتوں میں جا چھپتا ہے۔اب خازم فتح و ظفر کے پھریرے اڑاتا ہوا پہاڑ پر پہنچا اور محاصرہ ڈال دیا۔ اتنے میںشاہزادہ مہدی نے ابوعون کی قیادت میں بہت سی کمک بھیج دی۔ ابوعون اپنی فوج لے کر اس وقت پہنچا جب استاد سیس محصور ہو چکا تھا۔ آخر سیس نے محاصرہ سے تنگ آ کر اپنے تئیںخازم کے سپرد کر دیا۔ استاد سیس اپنے بیٹوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ خازم نے مہدی کے پاس فوراً فتح کامژدہ لکھ بھیجا۔ جونہی یہ بہحت افزاء خبر مہدی کے پاس پہنچی۔ اس نے اپنے باپ خلیفہ منصور کے پاس فتح و نصرت کا تہنیت نامہ لکھا۔
(تاریخ طبری عربی ج۴ ص۴۹۵،تاریخ ابن اثیر ج۵ ص۱۹۰)
یاد رہے کہ یہی مہدی خلیفہ ہارون رشید کا باپ تھا۔کہتے ہیں کہ استاد سیس خلیفہ مامون کا نانا یعنی مراجل مادرمامون کا باپ تھا اور اس کا بیٹا غالب جس نے فضل بن سہل برمکی کو قتل کیا تھا۔ خلیفہ مامون (بن رشید) کا ماموں تھا۔
باب۱۵ … ابو عیسیٰ اسحاق اصفہانی
ابو عیسیٰ اسحاق بن یعقوب اصفہان کا ایک یہودی تھا۔جو الوہیم(عابداﷲ) کے لقب سے مشہور تھا۔ یہودکا ایک مذہبی گروہ جسے عیسویہ کہتے ہیں۔ اسی کی طرف منسوب ہے۔ یہ شخص نبوت کا مدعی تھا۔ یہود حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃ و السلام کو بنی اللہ نہیں مانتے۔ بلکہ وہ آج تک اس مسیح کی آمد کے منتظر چلے آتے ہیں جس کے ظہور کی بشارت جناب موسیٰ علیہ السلام نے دی تھی۔ابو عیسیٰ نے دعویٰ کیا کہ میں مسیح منتظر کا رسول ہوں۔اس کا بیان تھا کہ مسیح منتظر سے پہلے یکے بعد دگرے پانچ رسول مبعوث ہوںگے۔جن کی حیثیت جناب مسیح موعود کی سی ہوگی۔یہ اس بات کا مدعی تھاکہ خالق کرد گار مجھ سے ہم کلام ہوا ہے اور مجھے اس بات کا مکلف بنایاہے کہ میں بنی اسرائیل کو غاصب قوموں اور ظالم حکمرانوں کے پنجہء بیداد سے مخلصی بخشوں۔اس کا دعویٰ تھا کہ مسیح بنی آدم میں سب سے افضل ہے۔اسے تمام انبیائے گذشتہ پر شرف و برتری حاصل ہے اور اس کی
تصدیق ہر شخص پرواجب ہے۔کہا کرتا تھا کہ میں مسیح موعودکا داعی ہوں اورداعی بھی مسیح ہوتا ہے۔اس نے بھی اپنے پیرووں کے لئے ایک کتاب مدون کر کے اس کو منزل من اللہ بتایا۔ اس میں اس نے تمام ذبائح کو حرام قرار دیا ہے اور طیور ہوں یا بہائم علی الاطلاق ہرذی روح کے کھانے سے منع کیا ہے۔ اپنے پیرووں پر دس نمازیں فرض کیں۔ ان کے اوقات معین کر دیئے اور ہر ایک کو قیام نماز کی سخت تاکید کی۔ اس نے یہود کے بہت سے احکام شریعت کی جو توراۃ میں مذکور ہیں مخالفت کی۔ بے شمار یہود نے اس کی متابعت اختیار کی اور حسب مصداق’’پیران نمی پرند مریداں می پرانند‘‘بے شمار آیات و معجزات کو اس کی طرف منسوب کردیا۔جب جمعیت بہت بڑھ چلی تو اس نے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے۔رے میں خلیفہ ابو جعفر منصور کے لشکرسے اس کی مڈبھیڑ ہوئی۔ لڑائی سے پہلے اس نے اپنے ہاتھ کی لکڑی سے زمین پر ایک خط کھینچ کر اپنے پیرووں سے کہا کہ تم لوگ اس خط پر قائم رہو اور اس سے آگے نہ بڑھو۔دشمن کی مجال نہیں کہ اس خط سے آگے بڑھ کر تم پر حملہ آور ہو سکے۔آخر جب رزم و پیکار کے وقت لشکر منصور پیش قدمی کرتا ہوا خط کے پاس پہنچا اوراس نے دیکھا کہ اس کے جھوٹ کا پول کھلنے والا ہے تو جھٹ اپنے پیروؤں سے علیحدہ ہوا اور خط پر پہنچ کر لڑائی شروع کر دی اس کو دیکھ کر اس کے پیرو بھی خط پر آگئے اور آتش حرب شعلہ زن ہوئی۔ گو مسلمان بھی بکثرت شہید ہوئے۔ لیکن انہوںنے مارتے مارتے دشمن کا بالکل ستھرائو کر دیا۔ ابو عیسیٰ مارا گیا اور اس کے اکثر پیرو بھی علف تیغ ہو کر دینا سے نابود ہو گئے۔
باب۱۶ … حکیم مقنع خراسانی
حکیم مقنع خراسانی کے نام میں اختلاف ہے۔ اکثر مورٔخین نے عطا لکھا ہے اور بعض نے ہشام یا ہاشم بتایا ہے۔حکیم کے لقب سے مشہور تھا۔ یہ مرو کے پاس ایک گاؤں میں جس کو ’’کازہ کیمن دات‘‘ کہتے تھے۔ایک غریب دھوبی کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش کے وقت کسی کو کیا خبر تھی کہ ایک دن یہی غریب دھوبی کا لڑکا تاریخ عالم کے صفحات پر شہرت دوام کا خلعت حاصل کرے گا۔ نہایت طباع و ذہین تھا۔ اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر علم وفضل کی طرف متوجہ ہوا۔ اپنی تمام بے سروسامانیوں کے باوجود اس نے علوم نظریہ میں وہ درجہ حاصل کیا کہ نواح خراسان میں کوئی شخص اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ خصوصاً علم بلاغت، حکمت، و فلسفہ شعبدہ و حیل، طلسمات وسحر اور نیر نجات میں سر آمد روزگار تھا۔ اس نے اپنی جودت طبع سے عجیب و غریب چیزیں
ایجاد کیں اور صنائع و بدائع کے ذریعہ سے بہت جلد آسمان شہرت و ناموری پر چمکنے لگا۔ لیکن اس کی خلقت میں ایک ایسا عیب تھا جس کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں گو نہ فرق پڑتا تھا۔وہ یہ کہ نہایت کریہہ المنظر پست قامت حقیر اور کم رو شخص تھا اور اس پر طرہ یہ کہ واحد العین تھا۔ یعنی ایک آنکھ کانی تھی۔ جسے دیکھ کر دلوں میں اس کی طرف سے نفرت پیدا ہوتی تھی۔اس عیب کے چھپانے کے لئے وہ ہر وقت سونے کا ایک خوبصورت اور چمکدار چہرہ تیار کر کے منہ پر چڑھائے رکھتا اور بغیر اس نقاب کے کسی کو اپنی شکل نہ دکھاتا تھا۔ علامہ عبدالقاہر بغدادی نے طلائی کی جگہ ریشمین چہرہ لکھا ہے۔ عجب نہیں کہ زربفت کی قسم کا کوئی ریشمین نقاب ہو۔ بہرحال اس تدبیر سے اس نے لوگوں کی نفرت کو گرویدگی سے بدل دیا اوراسی نقاب کی وجہ سے لوگوں میں مقنع(نقاب پوش) مشہور ہوگیا۔ چہرہ چھپائے رکھنے کی اصل بنا تو یہ تھی۔ لیکن کبھی کوئی شخص اس سے نقاب پوشی کی وجہ دریافت کرتا تو کہہ دیتا کہ میں نے اپنی شکل و صورت اس لئے تبدیل کر رکھی ہے کہ لوگ میری روئیت ضیا پاش کی تاب نہیں لا سکتے اوراگر میںاپنا چہرہ کھول دوں تو میرا نور دنیا و مافیہا کو جلا کر خاکستر کر دے۔
مقنع کا چاند
ابن خلدون، ابن جریر طبری اور دوسرے قابل اعتماد مورٔخین اسلام نے اپنی تاریخوں میں مقنع کے چاند کا کہیں ذکر نہیں کیا۔لیکن ’’ماہ نخشب‘‘ کودنیائے ادب میں جو غیر فانی شہرت حاصل ہے اور بعض اسلامی تاریخوں میں اس کا جس شدومد سے تذکرہ موجود ہے۔اس کی بناء پر اس کے چاند کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کہتے ہیں کہ اس نے سمر قند کے قریب علاقہ نخشب میں کوہ سیام کے پیچھے کنوئیں کے اندر یہ چاند پارے اور دوسرے کیمیائی اجزاء سے تیار کیا تھا۔ یہ چاند غروب آفتاب کے بعد پہاڑ کے عقب سے طلوع کر کے آسمان پر روشن رہتا اور صبح صادق سے پہلے غروب ہو جاتا۔اس طرح چاندنی راتوں میں دو چاند ایک دوسرے کے مقابل آسمان پر پرتو افگن رہتے۔ بعض مورٔخین نے لکھا ہے کہ اس کی روشنی پندرہ میل تک پہنچتی تھی اور بقول بعض وہ ایک مہینہ کی مسافت سے نظر آتا تھا۔ یہ چاند اسی طرح دومہینہ تک طلوع و غروب ہوتا رہا۔ لوگ اکناف و اطراف ملک سے اس کے دیکھنے کو آتے اور دیکھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہتی۔ خصوصاً خوش اعتقاد مرید تو اسے اپنے مقتداء کی ربانی قوت کا تصرف اور بہت بڑا معجزہ یقین کرتے تھے۔ حالانکہ اس نے یہ عمل ہندسہ اور انعکاس شعاع قمر کے طریق پر کیا تھا۔ چنانچہ مقنع کی ہلاکت کے بعد لوگوں نے اس کنوئیں کی تہہ میں ایک بڑا طاس پارے سے بھرا ہوا پایا۔ گو یہ معلوم نہ ہو سکا
کہ وہ کونسا طریق عمل کام میں لاتا تھا اور اس ماہتاب میں اس نے کس طرح برقی روشنی پیدا کر دی تھی۔ لیکن عہد حاضر کے بعض اہل تحقیق کا خیال ہے کہ ماہ نخشب کا یہ طلوع و غروب مبالغہ آمیز ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مقنع نے اس برقی چاند کو کسی بلند پہاڑ کی چوٹی پر قائم کیا ہو گا۔ جو کئی منزلوں سے نظر آتی ہو گی۔ وہ چاند اس چوٹی سے ذرا بلند ہو کر ٹھر جاتا ہو گا۔ جس میں اس قدر برقی روشنی ہوگی جو چند منزلوں سے نظر آسکے۔ یہ چاند رات بھر یا جب تک وہ چاہتا کلہء کوہ پر طلوع کر کے قائم رہتا ہو گا۔ بہرحال عربی علمی ادب میں ’’ماہ نخشب‘‘ یا ’’بدر مقنع‘‘ کا بہت تذکرہ پایا جاتا ہے اور شعراء نے اس سے تشبیہات کا کام لیا ہے۔ حسب بیان ابن خلکان ابو العلاء معری نے ماہ نخشب کے موضوع پر ایک طویل قصیدہ لکھا تھا۔ جس کا یہ شعر مشہور ہے:
افق انما البدرالمقنع راسہ
ضلال وغی مثل بدر المقنع
اسی طرح ابوالقاسم ہبتہ اللہ کا بھی ایک قصیدہ زبان زد عام و خاص ہے جس کا ایک شعر یہ ہے:
الیک فما بدر المقنع طالعًا
یاسحر من الحاظ بدرالعمم
اس شعر میں شاعر ناصح سے کہتا ہے کہ جا اور اپنا کام کر۔ کیونکہ مقنع کا چاند بھی طلوع کے وقت میرے دستار بند محبوب کی نگاہ ناز سے زیادہ سحر آفرینی نہیںکر سکتا۔
مقنع کا دعویٰ الوہیت او اس کی مشرکانہ تعلیمات
دوسرے ملاحدۂ زماں کی طرح مقنع کے ہفوات کی بنیادیں بھی زرتشتی عقاید اور بت پرست فلسفیوں کے خیالات پر قائم کی گئی تھیں۔ اس کابدترین مذہبی اصول مسئلہ تناسخ تھا۔ جس کی بنا پر اس نے الوہیت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ حق تعالیٰ میرے پیکر میں ظاہر ہوا ہے یا یوں کہئے کہ میں خدا کا اوتار ہوں۔چونکہ مدعی الوہیت کے لئے تصرف فی الاکوان کی حاجت ہے۔ اس ضرورت کے لئے اس نے چاند کی کرشمہ سازی دکھائی تھی۔ لیکن مقنع نے خدائی کی مسند صرف اپنے لئے ہی خالی نہیں رکھی۔ بلکہ تمام انبیاء علیہم الاسلام کو مظہر خداوندی قرار دیا اور کہا کہ خدائے قدوس سب سے پہلے آدم علیہ السلام کی صورت میں جلوہ گر ہوااور یہی وجہ تھی کہ ملائکہ کو ان کے سجدہ کرنے کا حکم ہوا۔ ورنہ کیونکر جائز اور ممکن تھا کہ ملائکہ غیر اللہ کے سجدے کے لئے مامور ہوتے اور ابلیس اس سے انکار کرنے کی وجہ سے مستوجب عذاب اورمردود ابدی ہو
جاتا؟۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ کیونکہ بنا برتحقیق آدم علیہ السلام فی الحقیقت مسجود نہیں تھے۔ بلکہ محض جہت سجدہ تھے۔ مقنع کہتا تھا کہ آدم علیہ السلام کے بعد حق تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی صورت میں حلول کیا۔ پھر یکے بعد دیگرے ذات خداوندی تمام انبیاء کی صورتوں میں ظاہر ہوتی رہی۔ انجام کار خدائے برتر صاحب الدولۃ ابو مسلم خراسانی کی صورت میںنمایاں ہوا اور اب رب العزۃ اسی شان سے میرے پیکر میں جلوہ فرما ہے۔ میں اس زمانہ کا اوتار ہوں۔ اس لئے ہر فرد بشر کا فرض ہے کہ مجھے سجدہ کرئے اور میری پرشتش کرے۔ تا کہ فلاح ابدی کا مستحق ہو۔ہزارہا ضلالت پسند لوگ اس کے دعویٰ الوہیت کو صحیح جان کر اس کے سامنے سر بسجود ہونے لگے۔یہ شخص ابو مسلم خراسانی کو جسے خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی نے اس کی شوریدہ سری کی بنا پر قتل کرا دیا تھا۔ حضرت سید الاولین والآخرینﷺ سے (معاذاﷲ) افضل بتاتا تھا۔یہ تو اس کی زندقہ شعاری کا حال تھا۔اب اس کی تعلیمات کا اخلاقی پہلو ملاحظہ ہو۔ اس نے تمام محرمات کو مباح کر دیا۔اس کے پیرو بے تکلف پرائی عورتوں سے متمتع ہوتے تھے۔اس کے مذہب میں مردار اور خنزیر حلال تھے۔مقنع نے صوم و صلوٰۃ اور تمام دوسری عبادتیں برطرف کردیں۔ اس کے پیرو مسجدیں بنواتے اور ان میں مؤذں نوکر رکھتے ہیں۔ لیکن کوئی شخص وہاں نماز نہیں پڑھتا۔ البتہ اگر کوئی بھولا بھٹکا پردیسی مسلمان ان کی مسجد میں چلا جائے تو مؤذں اور مقنع کے دوسرے پیرو موقع ملنے پر اس کے خون سے ہاتھ رنگین کر کے اس کی نعش کو مستور کر دیتے ہیں۔ لیکن چونکہ اسلامی حکمرانوں کی طرف سے ان پر بڑی سختیاں ہوئیں۔ اس لئے اب وہ ایسا کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔
مقنع کی ہوس استعمار اور قلعوں کی تعمیر
جب مقنع کا حلقہ مریدین بہت وسیع ہو گیا تو اس نے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی تدبیریں شروع کیں۔ چنانچہ اس غرض کے لیے اس نے دوزبردست قلعے تیار کرائے۔ایک کو دثیق کہتے تھے اور دوسرے کا نام سیام تھا۔ جو پہاڑ میں واقع تھا۔ قلعہ سیام مظبوطی میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔اس کی فصیل کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ سو سے زیادہ بڑی اینٹیں جو اس زمانہ میں قلعوں کی تعمیر کے لئے تیار کی جاتی تھیں دیوارکے عرض میں لگی تھیں۔ اس کے علاوہ قلعہ کے اردگرد ایک نہایت عریض خندق تھی اور قلعہ کی قوت مدافعت کا یہ عالم تھا کہ اس میں کئی سال کا سامان رسد اور اسلحہ جنگ کا بہت بڑا ذخیرہ ہر وقت مہیا رہتا تھا۔ مقنع نے اور بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے قلعے تعمیر کرائے اوران میں مضبوطی سے قدم جما لئے اور نہایت بیباکی سے خراسان کے
مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف دھما چوکڑی مچا دی۔اس اثناء میںبخارا اورصغد میں باغیوں اور دوسرے شوریدہ سروں کی ایک جماعت پیدا ہو چکی تھی۔ جن کو مبیضہ کہتے تھے۔گوان لوگوں کو مقنع کی من گھڑت خدائی سے تو کوئی سروکار نہ تھا۔ لیکن اپنے سیاسی مصالح کا خیال کر کے مقنع کے ساتھ ہو گئے تھے۔علاوہ ازیں ترکوں سے بھی مقنع کو بڑی تقویت پہنچی۔ جو اس وقت تک دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ اسلام کے بدترین دشمن تھے اور اکثر اوقات خلافت اسلامیہ کے سرحدی علاقوں میں تاخت وتاراج کرکے بھاگ جایا کرتے تھے۔ اب مقنع اور اس کی اتحادی جماعتوں کا یہ معمول ہو گیا کہ جہاں موقع پایا مسلمانوں پر حملہ کر کے قتل و غارت کا میدان گرم کیا اور رفوچکر ہو گئے۔
پیروان مقنع سے عساکر خلافت کی صف آرائیاں
خلیفہ مہدی نے ابو نعمان جنید اور لیث بن نصر کو فوج دے کر پیروان مقنع کے مقابلہ پر بھیجا۔ لیکن اسلامی لشکر کو ہزیمت ہوئی۔ لیث کا بھائی محمد بن نصر اور اس کا برادرزادہ حسان یاتمیم اس معرکہ میں کام آئے۔ جب خلیفہ کو اس ناکامی کا علم ہوا تو اس نے ان کی کمک پر جبریل بن یحییٰ کو روانہ کیا اور باغیان بخارا وصغد کے مقابلہ میں اس کے بھائی یزید بن یحییٰ کو مامور فرمایا۔ چار مہینہ تک بخارا کے بعض قلعوں پر لڑائی ہوتی رہی۔ بالآخر عساکر خلافت مظفر و منصور ہوئے اور بنوک شمشیر اس قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ مقنع کے سات سو پیرو نہنگ شمشیر کا لقمہ بن گئے۔ ہزیمت خوردہ لوگوں میں سے جو زندہ بچے۔ وہ بھاگ کر قلعہ سیام میں چلے گئے۔ جہاں خود مقنع موجود تھا۔ مگر جبریل نے بھی جان نہ چھوڑی۔اعداء کا تعقب کرتا اور بھگوڑوں کو مارتا کاٹتا قلعہ سیام پر بجلی کی طرح جا کڑکا اور اس وقت تک ان کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک وہ قلعہ میں نہ جا چھپے۔اب خلیفہ نے ابو عون نام ایک سپہ سالار کو مقنع کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ مگر جب اس نے کچھ زیادہ مستعدی اور اوالعزمی کا ثبوت نہ دیا تو معاذ بن مسلم کو ستر ہزار فوج اور چند آزمودہ کار سپہ ساروں کے ساتھ مقابلہ کو روانہ کیا۔ معاذ بن مسلم کے مقدمۃ الجیش کا افسر اعلی سعید بن عمرو حریشی تھا۔ اتنے میں ایک اور مسلمان سپہ سالار عقبہ بن مسلم بھی ایک بڑی جمعیت کے ساتھ جیش موحدین میں آ شامل ہوا۔ ان دونوں نے اتفاق رائے سے طوادیس کے مقام پر مقنع کے لشکر پر حملہ کیا۔ مقنع کی جمعیت پہلے ہی حملہ میں ٹوٹ گئی اور اس کے جنگ آور نہایت بے ترتیبی سے بھاگ نکلے اور سینکڑوں کھیت رہے۔ہزیمت خوردہ فوج نے قلعہ سیام میں مقنع کے پاس جا
دم لیا۔یہ دیکھ کر مقنع نے فوراً قلعہ بندی کی اور تمام مورچوں کو مضبوط کیا۔ معاذ بن مسلم نے پہنچتے ہی محاصرہ ڈال دیا۔لیکن اس کے بعد خود معاذ بن مسلم اور سعید بن عمرو حریشی میں باہم سخت کشیدگی ہو گئی۔ سعید نے خلیفہ کے پاس معاذ کی شکایت لکھ بھیجی اور یہ بھی درخواست کی کہ اگر مجھے تنہا مقنع کے مقابلہ پر مامور فرمایا جائے تو میں اس کا فوراً قلع قمع کر سکتا ہوں۔ خلیفہ مہدی نے اس کی درخواست منظور کر لی۔چنانچہ سعید بن عمرو حریشی بلا مشارکت معاذ مقنع کے مقابلہ پر مستعد ہوا۔ لیکن معاذ نے پھر بھی بے نفسی سے کام لیا اوراسلامی عزت وناموس کا لحاظ کر کے اپنے بیٹے کو سعید کی مدد پر بھیج دیا۔ کاش ہمارے مسلمان لیڈر معاذ کی مثال سے سبق آموز ہوکر اسلامی مفاد کو ذاتیات پر قربان کرنے کی عادت مذموم چھوڑ دیں۔
ملتان سے دس ہزار کھالوں کی روانگی
سعید حریشی زمانہ دراز تک اس کوشش میں منہمک رہا کہ کسی طرح اسلامی لشکر خندق کو عبور کر کے فصیل قلعہ تک پہنچے۔ لیکن کوئی کوئی تدبیر سازگار نہ ہوئی۔مساعی تسخیر کو شروع ہوئے متعدد سال گزرگئے۔لیکن ہنوزروزاوّل تھا۔اس اثناء میں اسلامی لشکر کو بہت سا جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کیونکہ موسمی خرابیوں کے علاوہ سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ مقنع کے پیرو اسلامی لشکر پر جو کھلے میدان میں محاصرہ کئے پڑا تھا۔ ہر وقت قلعہ سے تیر چلاتے اور سنگ باری کرتے رہتے تھے۔لیکن باایں ہجوم مشکلات، سعید نے ہمت نہ ہاری اور اپنی جدوجہد کو نہایت اولوالعزمی کے ساتھ جاری رکھا۔اب اس نے لوہے اور لکڑی کی بہت لمبی لمبی سیڑھیاں بنوانے کا انتظام کیا تا کہ سیڑھیوں کو خندق کے دونوں سروں پر رکھ کر پار ہو جائیں۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ کیونکہ خندق کی چوڑائی مسلمان انجینئروں کے اندازہ سے زیادہ نکلی۔اب سعید نے خلفیہ مہدی کو لکھا کہ ہزار جتن کئے۔ لیکن قلعہ تک رسائی نہیں ہو سکی۔اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ خندق کو پاٹ دیا جائے۔ان دنوں ہندوستان میں صوبہ سندھ اور پنجاب کاجنوبی حصہ خلافت بغداد کے زیر نگین تھا۔ خلیفہ نے اپنے عامل سندھ کو لکھا کہ گائے بیل اور بھینس کی جس قدر کھالیں فراہم ہو سکیں جلد ان کے بھجوانے کا انتظام کیا جائے۔ شائد اس زمانہ میں اسلامی قلمرو میں بوریاں نہ ملتی ہوں گی۔ورنہ ریت بھرنے کے لئے بوریاں کھالوں سے زیادہ کارآمد تھیں۔ فرمان خلافت کے بموجب ملتان سے گائے بیل اور بھینس کی دس ہزار کھالیں بھیج دی گئیں۔ سعید نے ان کھالوں میں ریت بھروا کر ان کو خندق میں ڈلوانا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد خندق پٹ گئی
اور محاصرین قلعہ کے پاس پہنچ گئے۔ اب حصار شکن آلات سے کام لیا جانے لگا اور اس کے ساتھ ہی قلعہ پر حملے شروع کر دئے گئے۔ مقنع کے پیروؤں نے گھبرا کر مخفی طور پر امان طلب کی۔سعید نے امان دے دی۔چنانچہ تیس ہزار آدمی قلعہ کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔اب مقنع کے پاس صرف دو ہزار جنگ آور باقی رہ گئے۔
مقنع کی خدائی کا خاتمہ
جب سعید نے محاصرہ میں زیادہ سختی کی تو مقنع نے اپنی ہلاکت کا یقین کر کے اپنے اہل وعیال کو جمع کیا اور بقول بعض مورٔخین جام زہر پلا پلا کر سب کو نذراجل کر دیا اور انجام کار خود بھی زہر کا پیالہ پی لیا۔ مرتے وقت اپنے عقیدت مندوں سے کہنے لگا کہ بعد از مرگ مجھے آگ میں جلا دینا۔ تا کہ میری لاش دشمن کے ہاتھ میں نہ جائے۔لشکر اسلام نے قلعہ میں داخل ہو کر مقنع کا سر کاٹ لیا اور خلیفہ کے پاس حلب بھیج دیا اور بعض کہتے ہیں کہ قلعہ میںجس قدر چوپائے اور مال واسباب تھا۔ پہلے اس کو جلانے کا حکم دیا۔پھر ساتھیوں سے کہا کہ جس شخص کو اس بات کی خواہش ہو کہ میرے ساتھ خلد بریں میں پہنچ جائے۔ وہ اس آگ میں میرے ساتھ کود پڑے۔ سب خوش اعتقادوں نے حکم کی تعمیل کی اور آگ میں کود کے خاک سیاہ ہو گئے۔جب لشکر اسلام قلعہ میں داخل ہوا توکسی انسان یا چارپایہ کا نام ونشان نہ پایا۔یہ ۱۶۳ھ کا واقعہ ہے۔اس کے اکثر پیروجو اکناف ملک میں زندہ رہ گئے۔مقنع کی تباہی اور فقدان سے اور زیادہ فتنے میںپڑے اور یہ اعتقاد کر بیٹھے کہ مقنع آسمانوں پر چلا گیا ہے۔ماوراء النہر میں مقنع کے پیروؤں کو مبیضہ کہتے تھے۔امید نہیں کہ آج تک ان کا کوئی اثر باقی ہوگا۔
کتاب ’’صواعق محرقہ‘‘ میں مقنع کے ہلاک ہونے کی ایک اور دلآویز حکایت لکھی ہے۔اس میں مذکور ہے کہ جب مقنع محاصرے سے تنگ آ گیا تو بہت سی آگ جلائی اور اپنے ساتھیوں کو خوب شراب پلائی۔جب وہ نشے میںمدہوش ہوگئے تو انہیں موت کے گھاٹ اتار کر آگ کے بلند شعلوں میںجھونکتا گیا۔پھر خود ایک بڑی دیگ میں تیزاب بھر کر اس میں بیٹھ گیا اور تیزاب کی تاثیر سے تحلیل ہو کر بے نام و نشاں ہو گیا۔ محاصرین کو ابھی تک یہ گمان تھاکہ تمام محصورین قلعہ میں موجود ہیں۔ ایک عورت بیماری کی وجہ سے قلعہ کے ایک کونے میں دبکی پڑی تھی۔جب اسے افاقہ ہوا تو قلعہ میں تنہائی سے گھبرائی اور دیوار پر چڑھ کر محاصرین کو پکارا کہ قلعہ میں میرے سوا کوئی نہیں ہے۔سپاہی سیڑھیاں لگا کر دیواروں پر چڑھ گئے اور قلعے کے دروازے کھول دیئے۔ لشکر اسلام قلعے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ واقعی قلعہ خالی ہے۔مقنع کے بعض معتقد جو
پہلی لڑائیوں میں اس سے علیحدہ ہو گئے تھے سن کر نہایت تاسف کرنے لگے کہ وہ فی الحقیقت خدا تھا۔ افسوس کہ ہم نے آخر تک اس کا ساتھ نہ دیا۔ ورنہ ہم بھی اسی کے ساتھ آسمانوں پر چڑھ جاتے۔ مقنع کی آتش فتنہ چودہ سال تک شعلہ زن رہ کر ۱۶۳ھ میں منطفی ہوئی۔
(تاریخ طبری عربی ج۴ص۵۶۶، تاریخ ابن خلدون عربی ج۳ص۲۱۴، الفرق بین الفرق ص۱۹۵)
باب ۱۷ … عبد اللہ بن میمون اہوازی
عبد اللہ بن میمون اہواز کا رہنے والا تھا جو مضافات کوفہ میں ہے۔ فنون شعبدہ،سحر وطلسمات میں یدطولیٰ رکھتا تھا۔ نبوت و مہدویت کا مدعی تھا۔اوائل میں حضرت امام جعفر صادقؒ اور ان کے صاحبزادہ اسماعیل کی خدمت میں رہا کرتا تھا۔ اسماعیل کی رحلت کے بعد ان کے فرزند محمد کے پاس رہنے لگا۔چنانچہ ان کے ساتھ مصر بھی گیاتھا۔اس نے محمد کے انتقال کے بعد ان کے غلام مبارک نام کو اس غرض سے کوفہ بھیجا کہ لوگوں کو مذہب اسماعیلیہ کی دعوت دے۔ وہاں وہ مذہب اسماعیلی کے داعی کی حیثیت سے مدت تک کام کرتا رہا۔ اس اثناء میں عبداﷲ بھی پہلے کوہستان عراق میں اور پھر شہر بصرہ میں جاکر اسما عیلی مذہب کی اشاعت و ترویج میںکوشاںرہا۔
اسماعیلیہ اور شیعہ اثنا عشریہ کا اختلاف
موقع کی رعایت سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسماعیلیہ اور شیعہ اثنا عشریہ کا اختلاف امامت بھی بیان کر دیا جائے۔ امام جعفر صادقؒ کے دو صاحبزادے تھے۔ بڑے اسماعیلؒ جنہوں نے پدر بزرگوار کی زندگی میں امانت حیات ملک الموت کے سپرد کی۔ دوسرے امام موسی کاظمؒ جو اثناء عشریہ کے نزدیک امام جعفر صادقؒ کے بعد امام ہوئے اورجن کی نسل سے شیعہ لوگ بارہ اماموں کا سلسلہ پورا کرتے ہیں۔ لیکن اسماعیلیہ امام جعفر صادقؒ کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسماعیل کو امام برحق تسلیم کرتے ہیں۔جب ان پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اسماعیل بن امام جعفرصادقؒ تو اپنے والد امجد کے عین حیات رحمت الٰہی کے جوار میں چلے گئے تھے۔ایسی حالت میں ان کی جانشینی بالکل بے معنی ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ امامت پہلے امام کی زندگی میں بھی دوسرے کی طرف منتقل ہو سکتی ہے۔ اسماعیلیہ اسماعیلؒ کے بعد محمد بن اسماعیلؒ کو امام برحق مانتے ہیں اور امام موسی کاظمؒ کی امامت کے منکر ہیں۔عبداﷲ اہوازی پہلے تو کچھ مدت تک لوگوں کو خالص اسماعیلی مذہب کی دعوت دیتا رہا۔ لیکن بعد کو اس نے اس مسلک میں
کچھ ترمیمیں کر کے اس میں الحاد و بیدینی کے جراثیم داخل کر دیئے اور پھر تھوڑے عرصہ کے بعد اپنی نبوت و مہدویت کا بھی ڈھنڈورہ پیٹنے لگا۔
باطنی طریقہ کی بنا وتاسیس
مشہور یہ کہ عبداﷲ بن میمون ہی باطنی فرقہ کا بانی ہے۔لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔باطنی کفریات کا بانی و موسس دراصل عبداﷲ کا باپ میمون بن ویصان معروف بہ قداح اہوازی مجوسی تھا۔جوامام جعفر صادقؒکا آزاد کردہ غلام تھا۔یہ شخص درپردہ اسلام کا بدترین دشمن تھا۔ جب اسے والئی عراق نے کسی جرم میں قید کیا تواس نے عزم صمیم کر لیا کہ جس طرح پولس نے مسیحیت میںکفروشرک کی آمیزش کرکے اس کوبگاڑدیا تھا۔اسی طرح اسلام میں بھی الحادوزندقہ کے جراثیم داخل کرکے اس کو بگاڑدیاجائے۔چنانچہ اس جذبہ کے ماتحت اس نے قید خانہ ہی میں باطنی مسلک کے اصول قائم کئے۔ قید سے رہا ہونے کے بعد میمون نے اپنے بیٹے عبداﷲ کو پہلے تو شعبدہ بازی اور ڈھٹ بندی کی اور پھر اپنے ملحدانہ مسلک کی تعلیم دی۔اس سے پیشتر عبداﷲ نے مسلمان ہوکر اسماعیلی مذہب اختیار کر رکھا تھا اور اسماعیلی مذہب کا نہایت سرگرم رکن تھا۔عبداﷲ کو باپ کے وضع کئے ہوئے باطنی اصول پسند آئے اور اس نے اسماعیلی مذہب کو خیر باد کہہ کر باپ کا طریقہ اختیار کرلیااور باطنی مسلک کی دعوت و تبلیغ شروع کر دی۔اب عبداﷲ نے اپنے باطنی پیروؤں کو باپ کی نسبت سے میمونیہ کہنا شروع کیا۔ لیکن وہ باطنیہ کے نام سے موسوم کئے جانے لگے اور اسی نام سے دنیا میں مشہور ہوئے۔کچھ عرصہ کے بعد عراق میں ان کو قرامطہ اور مزدکیہ اور خراسان میں مزدکیہ اور ملحدہ بھی کہنے لگے۔عبداﷲ نے باطنی مذہب کی ترویج کے لئے خلف نام ایک زیرک ولسان شخص کو اپنے نائب کی حیثیت سے خراسان،کاشان، طبرستان اور قم کی طرف روانہ کیا۔خلف نے وہاں کے لوگوں کو مذہب میمونیہ کی دعوت دی اور کہا کہ اہل بیت اطہار کا یہی مسلک ہے۔ نام نہاد مسلمانوں نے اپنی طرف سے مذہب تراش لئے ہیں۔تکلفات اور تشریعات کی تنگی میں پھنس گئے ہیںاور لذائذ و نفاس سے محروم ہو رہے ہیں۔جب روسائے اہل سنت کو اس کی مغویانہ سرگرمیوں کا علم ہوا تو اسے گرفتار کرنے کا ارادہ کیا۔وہ رے کی طرف بھاگ نکلا۔لیکن وہاں کچھ مدت تک بے تعرض اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہ کر موت سے ہم آغوش ہوگیا۔احمد اس کا جانشین مقرر ہوا۔ احمد بن خلف نے اس زمانہ کے ایک مشہور شاعر غیاث نام کو جو علوم عقلیہ اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ چالاکی اور غداری میں بھی سرآمدروزگار تھا۔ ۲۰۲ھ میں باطنی مذہب کا داعی مقرر کر کے عراق کی طرف بھیجا۔غیاث نے پہلے پہل اصول مذہب باطنیہ میں ایک کتاب
تصنیف کرکے اس کا نام البیان رکھا۔اس کتاب میں باطنی مذہب کے مطابق صوم، صلوٰۃ، وضو، حج، زکوٰۃ وغیرہ احکام کے معانی بیان کرکے ان پر بزعم خود شواہد لغت قائم کئے۔ البیان میں لکھتا ہے کہ شارع علیہ السلام کی مراد وہی ہے جو باطنی بیان کرتے ہیں اور مولویوں نے جو کچھ سمجھا ہے غلط محض ہے۔غیاث کی کوششوں سے باطنی مذہب کو بڑی رونق نصیب ہوئی۔آزاد خیال لوگوں کو یہ نیا طریقہ جو کمال درجہ کی آزادی اور بیباکی سے ہم کنار تھا۔ بہت پسند آیا۔ ہزار ہا آدمی اس کے معتقد ہو گئے اور اطراف واکناف ملک میں اس کی دعوت کا غلغلہ بلند ہوا۔اس وقت سے تشیع میں الحاد و فلسفہ کی مزید آمیزش شروع ہوئی۔ سینکڑوں ’’خوش اعتقاد‘‘ اس کے حلقہء درس میں روزانہ شامل ہوتے تھے۔اس نے علماء اہل سنت سے مناظرے کئے۔ مگر ہر میدان میں شکست کھائی۔ تاہم اس کی مفسدہ انگیزی روزافزوں ترقی پذیر رہی۔ اس اثناء میںکسی نے اس سے کہہ دیا کہ روسائے اہل سنت تجھے گرفتار کرنے کی فکر میں ہیں۔یہ سن کر وہ مرو کی طرف بھاگ گیا اور مخفی طور پر اشاعت مذہب میں سرگرم رہا۔مدت کے بعد پھر رے کا قصد کیا۔لیکن راستے میںمر گیا۔عبداﷲ بن میمون اس کے مرنے کی خبر سن کر ایسا مغموم ہوا کہ بیمار ہو گیا۔ آخر جانبر نہ ہو سکا اورتو سن حیات کی باگ عالم آخرت کی طرف پھیر دی۔
باطنی فرقہ کے اصول و عقاید
اسماعیلی مذہب چھوڑنے کے بعد عبداﷲ بن میمون نے جس باطنی طریقہ کی دعوت کی طرح ڈالی۔اس کا پہلااصول یہ تھا کہ نصوص کے ظاہر الفاظ پر عمل کرنا حرام اور ان کے باطن پر عمل کرنا فرض ہے۔ چونکہ تمام نصوص میں تحریف کرتا تھا۔اس لئے حشرونشر اور جزاء وسزا کابھی منکر ہوگیا۔ باطنیہ کے نزدیک شرائع اسلام کے جس قدر احکام وارد ہوئے ہیں۔ان کے ظاہری معنی قطعاً مرادنہیں۔ بلکہ وہ ہر آیت قرآنی کی اپنی مرضی کے مطابق ایسی بے ہودہ ولچر تاویل کرتے تھے جسے ظاہری الفاظ سے کوئی لگاؤ نہ ہوتا تھا۔ باطنیوں کی زندہ مثال آج کل کے مرزائی ہیں۔لیکن مرزائیوں اور باطنیوں میں یہ فرق ہے کہ مرزائی تو عموماً انہی آیتوں اور روایتوں میں تحریف و تبدیل کرتے ہیں جو مرزائی ہفوات کے خلاف ہیں۔ بالخصوص مرزا غلام احمد قادیانی کی خانہ ساز مسیحیت پر پانی پھیرنے والی ہیں اور دوسرے مرویات کو انہوںنے بے تعرض علی حالہا چھوڑ دیا ہے اور اہل سنت وجماعت کی طرح ان کے ظاہری الفاظ سے جو معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ زیادہ تر انہی کو واجب العمل ٹھرایا ہے۔ لیکن باطنیوں کے نزدیک تمام احکام ماؤل ہیں اورکسی آیت و روایت سے وہ مطلب مراد نہیںجو ظاہری الفاظ سے مفہوم ہوتا ہے۔ بلکہ ان سے باطنی رموز واشارات مراد
ہیں۔جو امام معصوم کی تعلیم ہی سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ باطنیہ کہتے ہیں کہ شریعت کا ایک ظاہر ہوتا ہے جسے منزیل کہتے ہیں اورایک باطن ہے جو تاویل کہلاتا ہے۔ ظاہر باطن نہیں جس کا ظاہر نہیں۔ ورنہ وہ محض خیالی ہے۔ چنانچہ قرآن کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ مگر ظاہر جو لغت سے مفہوم ہوتا ہے۔ ہرگز قابل اعتقاد وعمل نہیں۔بلکہ حقیقی مقصود اورقابل اعتقاد وعمل وہی ہے جواس کا باطن ہے۔ مثلاً نماز کا باطن امام وقت کی اطاعت ہے۔روزہ کا باطن یہ ہے کہ اپنے مذہب ومسلک کو اغیار سے مخفی رکھا جائے اور حج کا باطن امام کے حضور میں پہنچنا ہے۔باطنیہ نے احکام شرعی میں جو جو تحریفیں کیں۔ وہ ان کی کتابوں میں بطور مصطلحات فقہ شرح وبسط سے مذکورہیں۔جن میں سے بعض ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
الفاظ | وہ معنی جو باطنیہ نے مراد لئے | |
ملائکہ | باطنی فرقہ کے داعی و مناد | |
جبرائیل | محمدکی عقل وفراست | |
شیاطین | ظاہر پر عمل کرنے والے | |
جن | گنوار لوگ | |
نبی | ناطق حق | |
وحی | اساس حق گوئی | |
قیامت | کسی چیز کا اپنی اصل کی طرف عود کرنا | |
جنت | جسمانی راحت | |
دوزخ | جسمانی تکلیف | |
کعبہ | محمد | |
باب | علیؓ | |
تلبیہ | اجابت مدعو | |
طواف | آئمہء طاہرین کے گھر | |
میقات | وقت اجابت | |
صفا | محمدؐ |
مروہ | وصی | |
نار ابراہیم | نمرود کے غصہ کی آگ | |
ذبح اسماعیل | اسماعیل ؑ سے جدید عہد لیا گیا۔ | |
یاجوج ماجوج | علمائے ظاہر | |
طوفان نوحؑ | کثرت علم نوح | |
کشتی نوحؑ | جزیرہ جس میں امت نوحؑ محصور ہوئی | |
عصائے موسیٰ | موسیٰ کی دلیل و حجت | |
اذان | لوگوںکو امام کی اطاعت پر آمادہ کرنا | |
نماز | امام سے موالات کرنا | |
نمازباجماعت | متابعت امام معصوم | |
حج | امام کی زیارت کے لئے جانا | |
روزہ | امام کا راز افشاء نہ کرنا | |
زکوٰۃ | دل کی صفائی اور پاکیزگی | |
غسل | توبہ کر کے امام سے دوبارہ عہد کرنا | |
وضو | امام سے آئین مذہب حاصل کرنا | |
تیمم | امام کی غیبت میں نقیب سے آئین مذہب حاصل کرنا | |
زنا | بلاعہدومیثاق افشائے سرامام باطنیہ | |
احتلام | نادانستہ اغیار سے افشائے راز کرنا | |
جنابت | بھید ظاہر کرنا | |
مسیح کا مردے زندہ کرنا | دلوں کو علم و ہدایت سے زندہ کیا۔ |
(الفرق بین الفرق ص۲۲۳)
باطنیہ نے اسی طرح سے صد ہا مسائل میں ظاہر کی باطنی تاویل و تحریف کی ہے۔ اس تحریف کاری نے دین حنیف کو بالکل ایک موہوم چیز اور موم کی ناک اور بچوں کا کھیل بنا دیا۔ان تحریفات سے بالکل عیاں ہے کہ ان باطنی ملاعنہ سے تو یہود ونصاریٰ ہزاردرجہ اچھے تھے۔جو
ملائکہ،قیامت،جنت،دوزخ،شیاطین،وحی،نارابرہیم،طوفان نوح، کشتی نوح،اعصائے موسیٰ وغیر ذالک من الامور! کو اسی رنگ میں تسلیم کرتے ہیں۔جس طرح اہل ایمان کا عقیدہ ہے۔ باطنیہ کہتے تھے کہ ظاہر بمنزلہ پوست کے اور باطن بمنزلہ مغز کے ہے۔ اس لئے ہم پوست کو چھوڑتے اور اس کے مغز کو لے لیتے ہیں۔لیکن اس زندقہ پسندی نے تمام قرآن اور مجموعہ احادیث نبویہ کو بالکل بیکار کردیا۔ اہل سنت وجماعت کے نزدیک احکام ونصوص کے ظاہری الفاظ سے جو کچھ لغت کی رو سے سمجھ آتا ہے۔ وہ بتما مہا واجب العمل ہے۔اہل حق کے نزدیک دین الٰہی ظاہر ہے جس کا کوئی باطن نہیں۔باوجود اس کے رموزواشارات بھی ہیں جو ظاہری الفاظ کے منافی نہیں۔مثلاًموسیٰ اور فرعون کا وجود اہل سنت کے نزدیک ثابت ہے اور جو واقعات ان کے باہم رونما ہوئے وہ بھی مسلم ہیں۔ باوجود اس کے اگر کوئی شخص ان وقائع سے مثلاً روح و نفس کا قضیہ مراد لے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر یہ کہنا کہ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا کوئی وجود ہی نہ تھا اور قرآن میں جہاں کہیں موسیٰ اور فرعون کی آویزش کا ذکر ہے۔ وہاں روح اور نفس ہی کی کشمکش مراد ہے بالکل لغو اور صریح کفر و بے دینی ہے۔
باطنیہ کے بعض دوسرے عقاید
باطنیوں نے خالق کردگار کو صفات الوہیت سے عاری قرار دے کر رب العالمین کو بالکل بیکار اور معطل بنا دیا۔کہتے تھے کہ اگر ذات باری کو صفات سے متصف مانا جائے تو تشبیہ لازم آئے گی اور خالق، مخلوق کے مشابہ ہو جائے گا۔پس ان کے زعم میں خدا کو مثال کے طور پر صفت وجود کے ساتھ متصف نہ کرنا چاہیے۔ یعنی اسے موجود نہ ماننا چاہیے۔بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ وہ معدوم نہیں ہے۔ اسی طرح اسے قادر، عالم،حی، کے صفات سے بھی موصوف نہ ماننا چاہیے۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہے کہ وہ عاجز نہیں۔جاہل نہیں۔میت نہیں اور اگر خدا کو اس لحاظ سے قادر کہا جائے کہ اس نے دوسروں کو قدرت عطا کی تو جائز ہے۔لیکن اگر اسے اس اعتبار سے قادر کہیں کہ اس میں قدرت ہے تو ایسا کہنا شرک ہے۔اسی طرح خدا کی طرف صفات کی نسبت محض اس وجہ سے کی جا سکتی ہے کہ اس نے مخلوق کو وہ صفتیں عطا کیں اور اگر اس عقیدہ سے یہ صفتیں اس کی طرف منسوب کی جائیں کہ اس میں وہ صفتیں پائی جاتی ہیں تو ایسی نسبت ان کے نزدیک معصیت ہے۔ باطنیہ کو معجزات انبیاء سے بھی انکار ہے۔ وہ ہنود کی طرح قیامت کے منکر اور تناسخ کے قائل ہیں۔ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام سے پہلے بھی بہت بشر گذر چکے ہیں۔دنیا کو ہنود کی طرح حادث نہیں بلکہ قدیم مانتے ہیں۔بہن بیٹی سے شادی کرتے ہیں۔چنانچہ قروانی باطنی نے سلیمان بن حسن کو
اپنے ایک رسالہ میں لکھا کہ مجھے اس شخص پر تعجب آتا ہے جو صاحب عقل و خرد ہونے کا مدعی ہو اور اس کے گھر میں حسینہ و جمیلہ بہن و بیٹی ہو تو خود اس سے شادی نہ کرے اور اجنبی لوگوں کے حوالے کردے۔اگر یہ جاہل جانتا کہ وہ اپنی بہن یا بیٹی کا خود سب سے زیادہ مستحق ہے تو کسی اجنبی کو کبھی تفویض نہ کرتا۔ قیروانی نے یہ بھی لکھا کہ اصحاب شریعت نے لوگوں کو خواہ مخواہ نماز، روزہ، حج وغیرہ قسم کے جھمیلوں میںپھنسا رکھا ہے اور ناحق طرح طرح کی پابندیاں عائد کر کے خلق خدا کو لذات و تنعمات سے محروم کر رہے ہیں۔
(الفرق بین الفرق ص۲۲۴،۲۲۵)
یہ لوگ ہر عورت کو بلانکاح حلال سمجھتے ہیں۔جو حج کرے یا نماز پڑھے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان عقائدواعمال سے قارئین کرام اس نتیجہ پر پہنچے ہوںگے کہ باطنی لوگ دہریوں اور بت پرستوں سے بھی بدتر ہیں۔کیونکہ وہ لوگ بھی کسی اخلاق کے پابند ہوتے ہیں۔ لیکن باطنی ملاحدہ ساری دنیا سے گئے گذرے ہیں۔
باطنیوں کے طریق ہائے دعوت
باطنیہ نے اپنی دعوت و تبلیغ کے لئے کئی قسم کے حیلے اختیار کر رکھے تھے اور انہوں نے مرزائیوں کی طرح تمام ملک میںپروپگنڈے کا زبردست جال بچھا رکھا تھا۔داعی کے لئے یہ لازمی شرط تھی کہ وہ فن تلبیس کا پورا ماہر ہو۔ اس میں ظاہر کو مأول کر کے باطن کی طرف پھیرنے کی کامل استعداد ہو۔ دعاۃ کو ہدایت تھی کہ وہ کسی ایسے گھر میں داخل نہ ہوں جہاں چراغ جل رہا ہو۔ یعنی کسی ایسی جگہ تبلیغ نہ کریںجہاں علم کلام کا کوئی عالم موجود ہو۔ کیونکہ کسی متکلم کی موجودگی میں باطنی دعوت کے پنپنے کی کوئی امید نہ تھی(کلام اس علم کا نام ہے جس میں اسلامی اصول و عقائد کو عقلی دلائل و براہین سے ثابت کیا جاتا ہے) ان کو یہ ہدیت تھی کہ بنجر زمین میں تخم ریزی نہ کریں۔ یعنی کسی ایسے ذی علم راسخ الاعتقاد مسلمان کے سامنے اپنے ملحدانہ خیالات کا اظہار نہ کریںجس کے اثر پذیر ہونے کی امید نہ ہو۔ وہ اس کے بھی مامور تھے کہ آغاز دعوت سے پہلے اس امر کی خوب تحقیق کر لیا کریںکہ ان کا زیر تبلیغ آدمی کن خیالات و عقائد کا دل دادہ ہے۔پھر یہ دعوت اصناف بھی ایک طرح پر نہ تھی۔ جو شخص جن جذبات و امیال کا پیرو ہوتا تھا۔ اس سے انہی مسائل میں گفتگو کرکے اس کو باطنی الحاد کی ترغیب دی جاتی تھی۔ پس جس شخص کو داعی دیکھتا تھا کہ عبادات کی طرف مائل ہے تو اس پر زہد وعبادت ہی کا جال پھینکتا۔پھر اس سے عبادات کے معانی اور فرائض کے علل ووجوہ دریافت کرتا اور اسی بحث و تمحیص میں اس کو ورطہ شبہات میں ڈال دیتا تھااور جس کو دیکھتا کہ شوخ طبع اوربیباک ہے۔ اس سے کہتا کہ عبادت خواہ مخواہ کی زحمت بلکہ حماقت ہے۔ عقل
مند آدمی کا فرض ہے کہ حصول لذات میں کوتاہی نہ کرے اور جس کو دیکھتا کہ اسے دین کے متعلق کچھ شکوک ہیں یا معاد اورثواب و عقاب میں کچھ خلجان ہے تو اس کے سامنے صراحۃً ان چیزوں کی نفی کرتا۔اسے استباحت حرمات کی ترغیب دیتا اور اس کے سامنے اس قسم کے اشعار پڑھنے لگتا:
أأترک لذۃ الصہباء صرفاً
لما وعدوہ من لحم و خمر
حیاۃ ثم موت ثم نشر
حدیث خرافۃ یا ام عمرو
جس کسی کو دیکھتا کہ غلاۃ رافضہ میں سے ہے۔ مثلاً اس کا تعلق سبابیہ، بیانیہ، منصوریہ یا خطابیہ میں سے کسی جماعت سے ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا اور اس کے سامنے آیات واحادیث کی باطنی تاویلیں پیش نہ کرتا۔ کیونکہ وہ لوگ خود ہی ضلالت و کجروی کے بموجب تاویل وتحریف کے ورطہ میں پڑے ہیں۔ البتہ اگر دیکھتا کہ روافض میں سے زیدی یا امامی ہے۔صحابہ کرامؓ پر طعن و تشنیع کرنے سے خوش ہوگا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف و شنام گوئی کی غلاظت اچھالنے لگتا۔ اس کو تاکید کرتا کہ بنی تیم اور بنی عدی کے بغض میں ثابت قدم رہے۔(بنو تیم قریش کے ایک قبیلہ کا نام ہے جس میں امیر المومنین ابوبکرؓ پیدا ہوئے اور بنو عدی امیرالمومنین عمر فاروقؓ کے قبیلہ کا نام تھا)اور اسے اسماعیل بن عباد رافضی کے یہ شعر پڑھ کر اپنی مائل طرف کرتا:
دخول النارفی حب الوصی
وفی تفضیل اولاد النبی
احب الیّ من جنات عدن
اخلدھا بتیم او عدی
علامہ عبدالقاہر بغدادی نے ان اشعار کا یہ جواب دیا ہے:
أتطمع فی دخول جنات عدن
وانت عدوتیم او عدی
وھم ترکوک اشقی من ثمود
وہم ترکوک افضح من دعی
وفی نارالجحیم غداً متصلے
ازا عاداک صدیق النبی
اور باطنی داعی جس کسی کو حضرات شیخین یعنی حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی طرف مائل دیکھتا تو اس پر حضرات شیخینؓ کی مدح و ستائش کے پھول برسانے لگتا اور کہتا کہ تاویل شریعت میں بھی ایک خاص خط ہے۔چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تاویل ہی کا علم حاصل کرنے کے لئے مکہ معظمہ سے غار تک اور غار سے مدینہ منورہ تک حضرت سیدالمر سلین ﷺ کی مصاحبت اختیار کی۔ اور جب شیخینؓ کا محب تاویل مذکور کے متعلق سوال کرتا تو وہ اس سے حلف اور عہد و میثاق لیتا کہ جو کچھ اسے بتایا جائے اسے کسی کے سامنے ظاہر نہ کرے گا۔پھر اس پر علی التدریج بعض تاویلیں ظاہر کرتا۔اگر وہ اس تاویل کو قبول کر لیتا۔تواسے باقی ماندہ تاویل بھی بتا دیتا۔ ورنہ اسی میں الجھا کر ارکان شریعت میں شکوک اور وساوس پیدا کر دیتا۔یہاںصرف چند طرق اضلال نمونۃً عرض کئے گئے ہیں۔ جو حضرات باطنیہ کی اغوا کوشیوں کے مزید نظائر پر مطلع ہونا چاہیں۔ وہ کتاب الفرق بین الفرق صفحات۲۲۲،۲۲۷ کا مطالعہ فرمائیں۔
ہندوستان میں باطنیہ کی فتنہ پرور دعوت
اہل ایمان کو دین حنیف سے نافردرمیدہ کرنے کا ایک باطنی ہتھکنڈا یہ تھا کہ وہ جس مقام پر دیکھتے کہ مسلمان کمزور اور قلیل التعداد ہیں اور کوئی اسلامی حکومت بھی ان کی فریاد رسی کے لئے موجود نہیں۔ وہاں اسلام کے مذہبی شعائر کا مضحکہ اڑاتے۔ کسی کو نماز پڑھتا دیکھتے تو اس کی نقلیں اتارنے لگتے۔ اگر کوئی مومن عازم بیت اللہ ہوتا تو ارکان حج کی نقالی کر کے اسے عزم حج سے باز رکھنے کی کوشش کرتے۔ باطنیہ کی دعوت کا جال فارس،عراق اور خراسان سے گزر کر ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا۔ ہندوستان میں شہر ملتان ان کا بڑا مرکز تھا۔یہاںان لوگوں کی بڑی اکثریت تھی اور مسلمان بہت اقلیت میں تھے۔ یہاں بھی باطنیہ نے مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کسی مسلمان کی مجال نہ تھی کہ وہ ان اعمال کو جو باطنی مشرب کے خلاف تھے انجام دے سکے یا مسلمانوں کو اتنی آزادی ہو کہ جمعہ،عیدین یا دوسرے اسلامی شعائر علانیہ ادا کر سکیں۔ آخر خداوند عالم نے سلطان محمود غزنوی کو ابر رحمت کی طرح ہندوستان بھیج دیا۔ جب سلطان نے ملتان فتح کیا اور یہاں کے باطنیوں کی چیرہ دستیاں اور ظلم آرائیاں اس کے گوش زد ہوئیںتو اس نے باطنی شیاطین دعوت کو جو خمیر مایہ فساد تھے گرفتارکر کے عفریت شمشیر کے حوالے کردیا اوردوسرے باطنیوں کا جو ان کے معاون وشریک کار تھے بایاں بایاں ہاتھ کٹوا کر حکم دیا کہ خبردار! آیندہ کسی کے مذہب میں ایسی بے جا مداخلت نہ کرنا۔سلطان محمودؒ ملتان کے فرمانروا ابوالفتح لودھی کو جو باطنی المشرب تھا گرفتار کر کے اپنے ساتھ غزنی لے گیا۔ یہی وہ شخص تھا جس کی شہ پا کر
شعائر اللہ کی توہین کی جاتی تھی اور ملت حنیفی باطنی ملاحدہ کے ہاتھوں یتیمی اور کسمپرسی کے حصار میں گھری ہوئی تھی۔
(ایضاً ص۲۱۹،۲۱۷)
باب۱۸ … بابک بن عبداﷲ خرمی
پیدائش اور طفولیت
بابک کا باپ جسے عبداﷲ کہتے تھے۔ مدائن کا ایک تیلی تھا۔ اس نے آذربیجان کی سرحد پر ایک گاؤں میں جو بلال آباد کے نام سے موسوم ہے۔سکونت اختیار کر لی تھی۔ بابک کا باپ عالم شباب میںاپنی پیٹھ پر تیل کا برتن رکھ کر برستاق کے دیہات میں تیل بیچا کرتا تھا۔ اس اثناء میں ایک عورت سے اس کی آشنائی ہو گئی۔ اور ناجائز تعلق عرصہ دراز تک قائم رہا۔ ایک مرتبہ اس عورت کے گاؤں کی چند عورتیں اپنی بستی سے نکل کر کسی طرف جا رہی تھیں۔ راستہ میں انھیں پیاس لگی تو پانی پینے کے لئے ایک چشمہ پر گئیں۔ وہاں پہنچ کر کچھ ترنم کی سی آواز سنائی دی۔ یہ عورتیں اس آواز پر گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ وہی تیلی ان کے گاؤں کی عورت سے رنگ رلیوں میں مصروف ہے اور پاس شراب رکھی ہے۔یہ دفعتہ ان کے سر پر جا پہنچیں۔تیلی بھاگ گیا۔ اس عورت کو انہوںنے بالوں سے پکڑ لیا۔ کھینچتی ہوئی اپنے گاؤں کو لائیں اور اسے بستی والوں سے بری طرح ذلیل کرایا۔ اس کے بعد تیلی نے اس کے باپ سے عقد تزویج کی درخواست کی۔چنانچہ اس عورت سے اس کا باقائدہ نکاح ہوگیا اور اس کے بعد بابک متولد ہوا۔ پس ظاہر ہے کہ جن مورٔخوں نے بابک کو ولدالزنا لکھا ہے۔ انہوں نے غلطی کی ہے۔ کیونکہ بابک کا تولد نکاح سے پہلے تعلقات کا نتیجہ نہ تھا۔ بابک کی پیدائش کے تھوڑے ہی دن بعد اس کا باپ کوہ سبلان کو گیا اور وہیں مارا گیا۔ اب بابک کی ماں دایہ گیری کا کام کرنے لگی۔بابک نے ہوش سنبھالا تو گائیں چرانے پر نوکر ہو گیا۔ جب دس سال کا تھا تو ایک مرتبہ اس کی ماں دوپہر کے وقت اس کے پاس چراگاہ میں گئی تو دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے سویا ہے۔ لیکن کپڑا کھل جانے سے برہنہ ہو رہا ہے۔جب اس کی ماں قریب گئی تو اس کے سینہ اور سر کے ہربن مو کو خون آلودہ پایا۔ اس نے بابک کو بیدار کیا۔ وہ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ماں نے جو خون دیکھا تھا اس کا تذکرہ کیا۔لیکن اب اس کے بالوں خون کا نام و نشان نہ تھا۔ اس کی ماں کا بیان ہے کہ میں نے اس واقعہ سے جان لیا تھا کہ میرا بیٹا بہت کچھ عروج حاصل کرے گا۔ چند سال تک مویشی چرانے کے بعد بابک برستاق کے ایک رئیس شبل بن منقی ازدی کے پاس ملازم رہا۔ اس عرصہ میں اس نے
شبل کے غلاموں سے طنبورہ بجانا بھی سیکھا۔ برستاق کو الوداع کہہ کر تبریز پہنچا اور وہاں دو سال تک محمد بن رواد ازدی نام ایک رئیس کے پاس نوکری کرتا رہا۔ وہاں سے اپنی ماں کے پاس موضع بلال آباد میں چلا آیا۔ اس وقت اس کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔
چترحکومت کی سایہ افگنی اورآقا کی بیوی سے شادی
آذربیجان کے پہاڑوں میں ایک قصبہ بذ کے نام سے موسوم تھا۔ اس سلسلہء کوہ میں دو رئیس برسر اقتدار تھے۔جن میں باہم رقابت تھی۔ ایک کو ابو عمران کہتے تھے اور دوسرے کا نام جاویدان بن سہرک تھا۔ کوہ بذ کی ملکیت کے متعلق ان میں ہمیشہ جھگڑے قضیے برپا رہتے تھے۔ ہرایک کی یہی تمنا تھی کہ اس سرزمین کو اپنے حریف کے خار وجود سے پاک کر کے بلا شرکت غیرے ریاست کا مالک ہو جائے۔ ایام گرما میں دونوں ہر سال برسرپیکار رہتے۔ لیکن موسم سرما کے شروع میں جب برف پڑنے لگتی تو مجبوراً عربدہ جوئی سے دستبردار ہو جاتے۔ایک سال جاویدان دو ہزار بکریوں کا ریوڑ لے کر بذ سے شہر زنجان کی طرف روانہ ہوا۔ جو قزوین کی سرحد پر ہے۔وہاں بکریاں فروخت کر کے بذ کی طرف مراجعت کی۔ راستہ میںجب موضع بلال آباد پہنچا تو شدید برف باری شروع ہو گئی جس کے باعث انقطاع سفر ناگزیر تھا۔موضع بلال آباد کے ایک آدمی سے کہا کہ کوئی ایسا مکان بتاؤ۔ جہاں ہم چند روز قیام کر سکیں۔وہ شخص اسے بابک کی ماں کے پاس لے گیا۔ بابک اور اس کی ماں نے اس کی بڑی خاطرمدارات کی۔ جاویدان جتنے دن وہاں رہا بابک نے اپنی خدمت گذاری سے اس کو بہت خوش کیا۔ جاتے وقت جاویدان بابک کی ماں سے کہنے لگا کہ اگر تم اپنا بیٹا میری ملازمت میں دے دو تو میں پچاس درہم ماہانہ تنخواہ دوں گا اور یہ رقم ہر مہینہ تمہارے پاس پہنچ جایا کرے گی۔(درہم قریباً چارآنے کا ہوتا تھا) بابک کی ماں رضامند ہو گئی اور بابک جاویدان کے ساتھ کوہ بذ چلا گیا۔ تھوڑے روز میں جاویدان اور ابو عمران میں پھر سلسلہ رزم و پیکار شروع ہوا۔ ابوعمران مارا گیا اور جاویدان نے اس کے تمام املاک پر قبضہ کرلیا۔
بابک ایک جوان رعنا تھا۔ جاویدان کی عورت اس پر فریفتہ ہو گئی اوردونوں میں فاسقانہ تعلقات قائم ہوگئے۔تھوڑے عرصہ میں جاویدان مرگیا اور قبل اس سے کہ کسی کو جاویدان کے مرنے کی اطلاع ہو۔ اس کی بیوی رات کے وقت بابک سے کہنے لگی کہ جاویدان مر گیا ہے اورمیری خواہش ہے کہ تمہیں برسر حکومت کر کے تم سے باقاعدہ شادی کر لوں۔ بابک کہنے لگا میں تمہارے شوہر کا ایک ادنیٰ خادم تھا۔ لوگ میری متابعت پر کس طرح رضامند ہوںگے؟اور تمہاری قوم میرے ساتھ تمہارے عقد ازواج کو کیونکر گوارہ کرے گی؟۔عورت نے کہا کہ میں نے ایک حل
تجویز کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میں ان لوگوں کو اپنے ڈھب پر لانے میںکامیاب ہوجاؤں گی۔ بابک نے کہا تم نے کیا حیلہ تراشا ہے؟۔بولی میں کل تمام قوم کو جمع کر کے ان سے کہوں گی کہ جاویدان نے اپنی وفات سے پہلے کہا تھا کہ آج رات میں نے مرنے کاقصد کیا ہے۔ لیکن میری روح میرے بدن سے نکلتے ہی بابک کے بدن میں داخل ہو جائے گی اور اس کی روح سے متحد ہوجائے گی۔ میرے بعد بابک ہی میری قوم کا سردار ہوگا۔ وہ جبابرہ کو ہلاک کر کے مزدکیہ کو ازسر نو عروج بخشے گا اور قوم کے پسماندہ لوگوں کو آسمان عزت پر بٹھائے گا۔ یہ سن کر بابک کا ساغردل خوشی سے چھلک گیا اور کہنے لگا۔ ہاں ہاں! کوئی ایسی ہی تدبیر کرو۔ دوسرے دن عورت نے جاویدان کے لشکر کو جمع کر کے اس کے مرنے کی اطلاع دی۔ عماید سپاہ پوچھنے لگے کہ اس نے رحلت سے پہلے ہم کو بلا کر کیوں وصیت نہ کی؟۔ عورت بولی کہ تم لوگ دیہات میں متفرق ہو رہے تھے۔ اگر تم کو طلب کرکے اجتماع عام کا انتظام کیا جاتا تو خوف تھاکہ عربوں کی طرف سے کوئی فتنہ نہ اٹھ کھڑا ہو۔اب جو کچھ وہ وصیت کر گیا ہے۔ اس کو سن لو۔ میں دیکھوں گی تم اس کی وصیت بجا لاتے ہو یا نہیں؟۔ سرداران لشکر کہنے لگے کہ جب ہم نے زندگی میں کبھی مخالفت نہ کی تو اب اس کے مرنے کے بعد کیا خلاف کریں گے؟۔کہنے لگی کہ جاویدان کل بالکل صحیح و سالم تھا۔اچانک کہنے لگا کہ میں نے دنیا کو الوداع کہنے کا عزم کر لیا ہے۔ اس لئے آج ہی رات اس سرائے فانی سے کوچ کر جاؤں گا۔ لیکن میری روح نکل کر اس نوجوان خادم بابک کے بدن میں داخل ہو جائے گی اور یہی نوجوان اس سرزین کا مالک ہوگا۔ اورمجھے تاکید کی کہ جب میں مر جاؤںتو میری قوم کو اس کی اطلاع کر دینا اور یہ بھی جتلا دینا کہ جو شخص میری وصیت سے اعراض کرے گا اورمیری عزیز ومحبوب خواہش پر اپنی رائے اور مرضی کو ترجیح دے گا۔ وہ ہمارے دین سے خارج ہو جائے گا۔ یہ سن کر سب قائدین لشکر نے سمعنا واطعنا کہہ کر گردنیں جھکا دیں اور بولے ہمیں حسب وصیت اس نوجوان کی متابعت منظور ہے۔ اب اس عورت نے ایک بیل منگوایا اور اس کو ذبح کرا کے اس کی کھال کو پھیلانے کا حکم دیا۔ اس کھال پر ایک تشت رکھا گیا جو شراب سے لبریز تھا۔اس کے بعد روٹیاں منگوائی گئیں اوران کے ٹکڑے تشت کے گرد جمع کر دیئے گئے۔اب عورت نے حکم دیاکہ ایک ایک آدمی آئے اور کھال پر پاؤں رکھ کر روٹی کا ٹکڑا اٹھائے اور شراب میں ڈبو کر کھا لے۔ پھر کہے کہ اے بابک کی روح! میں تجھ پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جس طرح اس سے پیشتر جاویدان کی روح پر ایمان لایا تھا۔اس کے بعد بابک کے سامنے حاضر ہوااور اس کا ہاتھ چوم کر اس سے بیعت کرے۔ تمام حاضرین نے اس حکم کی تعمیل کی۔ پھر سب کو کھانا کھلایا گیا۔فراغت کے
بعدبادہ گل گوں کادور چلا۔اب صرف بابک سے نکاح کئے جانے کی رسم باقی تھی۔یہ اس طرح انجام دی گئی کہ عورت نے بابک کو اپنے فرش پر بٹھایا۔اپنا بیش قیمت لباس منگوا کر زیب تن کیا اور دلہن بن کے خود ہی رسوم نکاح ادا کرنے لگی۔اس کی شراب وصل نے بابک کو پہلے ہی بیخود اور سرمست بنا رکھا تھا۔ جوبن کے نکھارنے اس کی آتش عشق کو اور بھی بھڑکا دیا۔عقد نکاح یوں انجام پایا کہ عورت نے ایک گلدستہ منگوایا اور اٹھا کر بابک کے ہاتھ میں دے دیا۔بس یہی تزویج تھی۔
(کتاب الفہرست لابن ندیم مطبوعہ لیپزگ جرمنی،۳۴۳،۳۴۴)
معلوم ہوتا کہ کہ جاویدان اور اس کے پیرودین مزدک (مجوس) کے پیروتھے۔
شرمناک اخلاقی تعلیمات
اب وہ وقت تھا جبکہ بابک کا گلشن آرزو پوری بہارپرتھا اور اقبال کی کامرانی دیکھ کہ کس طرح ایک ادنیٰ سا چاکر آسمان عزت پر نمودارہوا اور اس کا رایت عروج آناًفاناً سیہربریں سے باتیں کرنے لگا۔بابک پہلے اسماعیلی تھا۔پھر مزدکی بنا۔پھر خود ایک فرقہ کی بنا ڈالی جسے بابکیہ اخرمیہ سبعیہ حرمیہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔پہلے تو یہی کہتا رہا کہ مجھ میں جاویدان کی روح ہے۔ اس کے بعد یہ کہنا شروع کیا کہ خدا کی روح نے بھی میرے اندر حلول کیا ہے۔ اس نے اپنے پیرووں کو عقیدہ تناسخ کی تعلیم دی اور ہنود کی طرح کہتا تھا کہ روحیں انسانوں اورحیوانوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔چونکہ بابک نے ہر قسم کے مذہبی اور اخلاقی قیود اٹھا کر عیش و عشرت کا بازار گرم کیا۔ پیرووں کو حرام کاری، شراب خوری اور دوسرے فواحشات کی اجازت دی۔ یہاں تک کہ ماں، بیٹی، اوردوسرے محرمات ابدیہ سے بھی عقد مناکحت جائز کر دیا۔ اس لئے اس کے پیرووں کو خرمیہ بھی کہنے لگے۔کیونکہ خرم عیش و فرح کو کہتے ہیں۔ بابک کا معمول تھا کہ جب اسے معلوم ہوتا کہ فلاں شخص کی بیٹی یا بہن نہایت حسین ہے تو اس کے پاس طلبی کاپیغام بھیجتا۔ اگر اس نے بھیج دی تو خیر۔ ورنہ اس کو گرفتار کر کے نہنگ شمشیر کے حوالے کر دیتا اور حسینہ پر جبراً قبضہ کر لیتا۔
(تلبیس ابلیس عربی ص۲،۱ لابن جوزی)
ظاہر ہے کہ بابک کی اخلاقی تعلیم دنیا بھر کے فواحش کا مجموعہ اور سخت قابل نفرت تھی۔ تاہم جاویدان کی قوم کے علاوہ ویلم اور اہل ہمدان و اصفہان نے بھی اپنی قسمت اس سے وابستہ کردی۔
بابک کی پہلی مہم اورعامل موصل کی شہادت
جب بابک کے پیرووں کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ گئی تو اس نے ۲۰۱ھ میں خلافت
اسلامیہ کے خلاف علم بغاوت و خود سری بلند کر دیا۔ ان دنوں خلیفہ مامون عباسی بغداد کے تخت خلافت پر جلوہ افروز تھا۔ تین سال تک تو بعض داخلی جھمیلوں نے بابک کی طرف متوجہ ہونے کا موقع نہ دیا۔ اس کے بعد ۲۰۴ھ میں خلیفہ مامون نے عیسیٰ بن محمد عامل آرمینیا و آذربیجان کو حکم دیا کہ بابک کے قلع قمع کا انتظام کرے۔ لیکن بعض مجبوریوں کی بنا پر عیسیٰ بن محمد اس مہم کو سر انجام دینے سے قاصر رہا۔۲۰۹ھ میں خلیفہ نے علی بن صدقہ معروف بہ زریق کو آرمینا اورآذربیجان کی حکومت سپرد کی اور ساتھ ہی جنگ بابک کی تاکید فرمائی۔زریق نے ایک تجربہ کار سپہ سالار احمد بن جنید کو بابک جمعیت کے توڑنے اور بابک کو اسیر کر لانے پر متعین کیا۔ لیکن ابن جنید بابک کو قید کرنے کے بجائے خود ہی شکست کھا کر قید ہوگیا۔چونکہ زریق گورنری کے فرائض انجام دینے کا اہل ثابت نہ ہوا۔اس لئے مامون نے اس کی جگہ ابرہیم بن لیث کو آرمینا اور آذربیجان کے عمل پر بھیج دیا۔ زریق نے خلیفہ کے مقابلہ میں علم خودسری بلند کر کے موصل اور آذربیجان کے درمیان تمام پہاڑی علاقہ پر قبضہ کر لیا اور اسی پر اکتفا نہ کیا۔ بلکہ موصل پر بھی چڑھائی کر دی۔اس معرکہ میں سید بن انس گورنر موصل مارا گیا اور زریق نے موصل پر عمل و دخل کرلیا۔خلیفہ مامون اس خبر وحشت اثر کے سننے سے سخت برہم ہوا۔ اور ۲۱۲ھ میں محمد طوسی نے موصل کی طرف نہفت کی اور زریق کو نیچا دکھا کر موصل واپس لے لیا۔مہم موصل سے فارغ ہو کر محمد طوسی نے بابک خرمی پر چڑھائی کی اور نہایت مستعدی وہوشیاری سے اس کو ہزیمت دیتا ہوا مضافات مقبوضہ کا انتظام کرتا ہوادامن کوہ تک جا پہنچا اور بابک تھوڑی دیر تک دامن کوہ میں لڑکر پہاڑ پر چڑھ گیا۔ محمد بن حمید طوسی نے جوش کامیابی میں اس کا تعاقب کیا۔ جب کوئی تین کوس تک چڑھ گیا تو بابکیوںنے کمین گاہ سے نکل کر محمد پر دفعتہ حملہ کیا اور بابک بھی لوٹ کر معاً محمد پر ٹوٹ پڑا۔ محمد بن حمید کا لشکر گھبرا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ مگر خود اس کے قدم ثبات کو ذرا جنبش نہ ہوئی اور وہ نہایت ثابت قدمی و استقلال سے لڑتا ہوا پیچھے کو ہٹا۔ سو اتفاق سے بابکیوں کے ایک گروہ نے محمد بن حمید کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ محمد زخمی ہو کر گرا اور تڑپ کر دم توڑ دیا۔ جب یہ خبر بارگاہ خلافت میں پہنچی تو خلیفہ مامون کو سخت صدمہ ہوا۔ خلیفہ مامون بابک کی سرکشی اور اس کی فتوحات سے آگ بگولہ ہو رہا تھا اور انتقام کے لئے ہر وقت دانت پیستا تھا۔لیکن اتفاقات ایسے پیش آئے کہ اس کے بعد کوئی اور مہم بابک کی گوشمالی کے لئے نہ بھیج سکا اور فرشتہ موت نے پیام اجل آسنایا۔
بابک کی پہلی دو ہزیمتیں
بابک نے شہر بذ کو اپنا ملجاء و مامن بنا رکھا تھا اوراس نے اکثر شاہی قلعہ جات کو جو
اردبیل اور آذربیجان کے بابین واقع تھے۔ ویران و مسمار کر دیا تھا۔جب خلیفہ معتصم نے ۲۱۸ھ میں اپنے بھائی خلیفہ مامون کے انتقال پر تخت خلافت کو زینت دی تو اب سعید محمد بن یوسف کو اس مہم پر مامور کیا۔ چنانچہ ابو سعید نے قلعہ جات کو جنہیں بابک نے ویران و برباد کر دیا تھا۔ از سر نو تعمیر کرایا اور انہیں فوج،آلات حرب اور غلہ کی کافی مقدار سے مضبوط و مستحکم کیا اور اس اثناء میں بابک کے کسی سریہ نے ان بلاد پر شب خون مارا۔ابوسعید نے اس کا تعاقب کیا اور نہایت اولوالعزمی سے لوٹ کا تمام مال واپس لیا۔ بے شمار بابکیوں کا قتل اور اکثر کو گرفتا کیا اور مقتولوں کے سر اور کثرالتعداد قیدی ایک عرضداشت کے ساتھ خلیفہ معتصم کے پاس بھیج دئے۔ یہ پہلی ہزیمت تھی جو بابکیوں کو عساکر خلافت سے نصیب ہوئی۔ دوسری ہزیمت محمد بن بعیث کے ذریعہ سے ہوئی۔جو بابک کا معین و مددگار تھا۔ یہ شخص آذربیجان کے ایک قلعہ میں فروکش تھا اور بابک کی سرایا اور افواج کو رسد پہنچایا کرتا تھا۔اتفاق سے واقعہ مذکورہ کے بعد بابک کا ایک سپہ سالار عصمت نام اس قلعہ کی طرف سے ہوگزرا۔ محمد بن بعیث نے اس کی دعوت کی اور اسے عزت و احترام سے ٹھرایا۔ لیکن رات کے وقت حالت غفلت میں اس کو گرفتار کر کے خلیفہ معتصم کے پاس بھیج دیا اور اس کے تمام رفقاء کو قتل کر ڈالا۔ خلیفہ نے عصمت سے بابک کے بلاد اور قلعوں کے اسرار و خفایا دریافت کئے۔ عصمت نے تمام اسرار اور جنگی مواقع ظاہر کردیئے۔تاہم معتصم نے اسے رہا نہ کیا اور افشین حیدر کو جبال کی عملداری مرحمت فرما کر بابک کے مقابلہ پر بھیجا۔ افشین نے میدان کارزار میںپہنچ کر پہلے رسد کا انتظام کیا اور راستوں کو خطرات سے پاک کرنے کے خیال سے تھوڑی تھوڑی مسافت پر چوکیاں بٹھائیں اورکارآزمودہ اور تجربہ کار سپہ سالاروں کو گشت اور دیکھ بھال پر متعین کیا۔ یہ لوگ اردبیل سے اس کے لشکرگاہ تک شب و روز گشت کیا کرتے اور رسد اور اکل مایحتاج کو بحفاظت تمام معسکر میںپہنچاتے اور جب بابک کا کوئی جاسوس گرفتار ہوتا تو افشین اس سے بابک کے اخلاق برتاؤ اوراحسانات کو دریافت کرتا۔اور اس سے دو چند احسانات سے گر انبار کرکے اسے رہا کر دیتا۔
بابک کی پیہم کامیابیاں
اس کے بعد خلیفہ نے بغاکبیر کو کثیر فوج اورمال واسباب کے ساتھ افشین کی کمک پر روانہ کیا۔ بابک یہ سن کر بغاکبیر پر شب خون مارنے کے ارادہ سے چلا۔ جاسوسوں نے افشین تک یہ خبر پہنچا دی۔افشین نے بغا کو لکھ بھیجا کہ تم قافلہ کے ساتھ قلعہ نہر تک آؤ اور قافلہ کی روانگی کے بعد پھر اردبیل کو مراجعت کرو۔ بغا نے اس ہدایت پر عمل کیا۔ بابک پھر یہ خبر پا کر کہ بغا کا قافلہ نہر کی
طرف روانہ ہو گیا ہے۔اپنے چیدہ چیدہ سپاہیوں کا ساتھ لے کر نکل کھڑا ہوا۔جس دن بغا سے ملنے کا وعدہ تھا۔ افشین اس روز چپکے سے نکل کر اردبیل کو چلاگیا اوربغا کو بحفاظت تمام ابوسعید کے مورچہ میںلے آیا۔ اس اثنا میں بابک قافلہ تک پہنچ گیا۔ والی قلعہ نہر بھی قافلہ کے ہمراہ تھا۔بغا سے تو مڈبھیڑ نہ ہوئی۔ البتہ والئی قلعہ نہرسے مقابلہ ہوا۔ بابک نے ان لشکریوں کو جو قافلہ کے ساتھ تھے تہ تیغ کرکے تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔اثناء راہ افشین کے سپہ سالاروں میں سے ہثیم نام ایک افسر سے دوچار ہو گیا۔ اس کو بھی زک دی۔ ہثیم ایک قلعہ میں جا چھپا۔ بابک نے وہاں پہنچ کر محاصرہ ڈال دیا۔لیکن اس اثناء میں افشین اپنا لشکر لئے ہوئے آ پہنچا اوردفعتہ بابکیوں پر حملہ کردیا۔ اس ناگہانی حملہ سے بابک بقیتہ السیف کے ہمراہ بھاگ کر ہوقان پہنچا۔ لیکن بابک وہاں سے پلٹ کر ایسی چال چلا کہ افشین کے لشکر کا راستہ کاٹ لیا۔ رسد وغلہ کا آنا موقوف ہو گیا۔ اب افشین کا لشکر رسد کے نہ آنے سے بھوکوں مرنے لگا۔ افشین نے والئی مراغہ سے رسد طلب کی۔ لیکن بدقسمتی سے اثناء راہ میں بابکیوں نے اس کو لوٹ لیا۔ یہ خبر پا کر بغا اپنا تمام مال واسباب کسی طرح بابک کے ہاتھوں سے بچا کر افشین کے لشکر گاہ میں لایا اور لشکریوں میں تقسیم کر دیا۔
عساکر خلافت کی ہزیمتیں
اب افشین نے مطمئن ہو کر اپنے سپہ سالاروں کے بابک پر حصار ڈالنے کی غرض سے بڑھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ قلعہ بذ سے ۶میل کے فاصلے پر پہنچ کر مورچے قائم کئے اور بغا نے قریہ بذ میں داخل ہو کر لڑائی چھیڑ دی اور سخت کشت و خون کے بعد اپنے لشکر کا بڑا حصہ اس معرکہ کی نذر کرکے محمد بن حمید سپہ سالار کے مورچہ میں واپس آیا۔افشین نے اس کے امداد طلب کرنے پر اپنے بھائی فضل، ابو جوشن، احمد بن خلیل اور جناح الحور کو بغا کی کمک پر روانہ کیا اور حکم دیا کہ فلاں روز فلاں وقت بابک پر یکباری حملہ کرنا۔ میں بھی اس دن وقت معہودہ پر اس سمت سے حملہ آور ہوںگا۔ سو اتفاق سے بغا وغیرہ برسات اور شدت سرما کی وجہ سے یوم مقرر پر حملہ نہ کرسکے اور افشین نے تنہا حملہ کر دیا۔ تاہم بابک تاب و مقاومت نہ لا کر پیچھے ہٹا۔افشین نے بڑھ کر اس کے مورچہ پر قبضہ کر لیا۔دوسرے دن بغا وغیرہ کثرت باران اور شدت سرما سے تنگ آ کر کسی قائد کی رہبری سے ایک پہاڑی پر جو افشین کے لشکرگاہ کے قریب تھی چڑھ گئے۔ یہاں بھی انہیں اسی سردی اور بارش سے سابقہ پڑا۔ مزید براں برف بھی پڑ گئی۔ ہاتھ پاؤں جواب دے بیٹھے۔ دو دن اسی حالت میں گزرے۔ادھر بابک نے موقع پا کر افشین پر شب خون مارا اور اسے لڑ کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ دوسری طرف بغا کی فوج نے غلہ ورسد تھڑ جانے کی وجہ سے شوروغل مچانا شروع کیا۔ بغا
نے مجبور ہو کر قلعہ بذ کے عزم سے اور نیز بغرض دریافت حال افشین وہاں سے کوچ کیا دور نکل آنے پر افشین کا حال معلوم ہوا۔اب بغا بابک کے خوف سے پھر اسی پہاڑی کی طرف لوٹا اور کثرت فوج اور تنگی راہ کی وجہ سے دوسری راہ اختیار کی۔ بابک کے متجسس سپاہیوںنے تعاقب کیا۔ بغا نے ان کی طرف سے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور نہایت سرعت سے اس تنگ و دشوار گزار راستہ کو طے کیا۔ اس اثناء میں رات کی سیاہ چادر عالم کائنات پر محیط ہو گئی۔بغا نے مال و اسباب کی حفاظت کے خیال سے دامن کوہ میں ڈیرے ڈال دیئے اور چاروں طرف سپاہیوں کو پہرہ پر مقرر کیا۔ تھکے ماندے تو تھے ہی سب کے سب سو گئے۔ بابک نے موقع پا کر چھاپہ مارا اور تمام مال واسباب لوٹ لیا ۔ بغا بحالت تباہ خندق اول میں چلا آیا جو اسفل کوہ میں واقع تھی۔
دارلخلافہ سے مزید افواج کی روانگی
جب خلیفہ کو عساکر خلافت کی متواتر ہزیمتوں اور ناکامیوں کا علم ہوا تو اس نے جعفر خیاط کی سرکردگی میں میں ایک فوج گراں افشین کی کمک پر روانہ کی اور اتباخ کی وساطت سے تیس لاکھ درہم مصارف جنگ کے لئے بھیجے۔اس فوجی اور مالی امداد سے افشین قوی دل ہوگیا اور اس کی قوت بڑھ گئی۔ چنانچہ فصل ربیع کے اوائل میں بابک سے معرکہ آراء ہونے کی غرض سے آہستہ آہستہ قلعہ بذ کی طرف بڑھنے لگا۔ رات کے وقت سپاہیوں کو پہرہ پر مقرر کرتا اور رات ہی کے وقت گشت کرنے کے لئے فوج کو بھیجتا جس کے ساتھ خود بھی جاتا۔ رفتہ رفتہ قلعہ بذ کے بالمقابل ایسے مقام پر پہنچے۔جہاں تین پہاڑیاں ایک دوسری سے متصل واقع تھیں۔ان تینوں پہاڑیوں کے مابین ایک وسیع میدان تھا۔ افشین نے یہیں قیام کیا اورایک راستہ چھوڑ کر باقی تمام راہوں کو پتھروں سے چن دیا۔ انہی پہاڑیوں کے قریب بابک کا لشکر بھی پڑا تھا۔افشین روزانہ نور کے تڑکے نماز ادا کر کے نقارہ بجواتا۔لشکری اس نقارہ کی آواز سن کے تیارہو جاتے۔پھر مقابلہ شروع ہوتا۔ جب تک جدال وقتال میں مصروف رہتا نقارہ بجتا رہتا اور جب جنگ کو روکنا مقصود ہوتا۔ نقارہ بند کر دیتے اور جب پیش قدمی کا ارادہ ہوتا تو درہ کوہ پر ایک لشکر متعین کیا جاتا جو اس قدرتی قلعہ کی محافظت کرتا۔ ادھر بابک نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ جب افشین حملہ آور ہوتا تو چند آدمیوں کو اسی گھاٹی کے نیچے کمین گاہ میں بٹھا دیتا اور بابک کی عادت تھی کہ ہمیشہ معدودہ چند آدمیوں کو ساتھ لاتا اورباقی فوج کمین گاہ میں رہتی۔ افشین نے ہر چند تجسس کیا۔ مگر یہ راز نہ کھل سکا۔ افشین عموماً جعفر خیاط،احمد بن خلیل اورابو سعید کو تین تین دستہ فوج کے ساتھ یکے بعد دیگرے میدان کارزار میں بھیجتا اور خود ایک بلند مقام پر بیٹھ کر لڑائی کا منظر دیکھتا۔ اس مقام سے بابک کا
قلعہ اور محل سرائے بھی دکھائی دیتے تھا۔افشین نماز ظہر ادا کر کے مراجعت کرتا اور اس کے واپس ہوتے ہی اس کی فوجیں بھی یکے بعد دیگرے میدان جنگ سے ترتیب وار واپس ہوتیں۔
بابک اس طولانی جنگ سے گھبرا گیا۔ایک روز حسب معمول لشکر اسلام واپس ہوا۔ اتفاق سے جعفر خیاط پیچھے رہ گیا۔بابک کا لشکر میدان خالی سمجھ کر قلعہ بذ سے نکل پڑا۔ جعفر خیاط نے بڑھ کر حملہ کیا اور بآواز بلند اپنے لشکریوں کو پکارا۔جعفر کی فوج غنیم پر لوٹ پڑی اور لڑائی دوبارہ چھڑ گئی۔ جعفر خیاط کی فوج میں سے ابو دلف کے ساتھ ایک گروہ مطوعہ یعنی رضاکاروں کا تھا۔ان رضاکاروں نے افشین کی مرضی پائے بغیر اس شدت کا دھاوا کیا کہ دیکھنے والے یہ سمجھ رہے تھی کہ یہ لوگ کمندیں ڈال کر قلعہ پر چڑھ جائیںگے۔ جعفر نے افشین سے پانچ سو تیر اندازوں کی امداد طلب کی۔ افشین نے کہلا بھیجا کہ تم امدادی فوج کا انتظار نہ کرو۔جہاں تک ممکن ہو آہستہ آہستہ حکمت عملی سے واپس چلے آؤ۔کیونکہ جنگ کا عنوان خطرناک ہو رہا ہے۔ اس عرصہ میں رضا کار مجاہد حملے کرتے ہوئے قلعہ بذ تک پہنچ گئے۔میدان جنگ فریقین کے شوروغل سے گونج رہا تھا۔ بابک کے وہ سپاہی جو کمین گاہ میں تھے یہ سمجھ کر کہ دشمن قلعہ تک پہنچ گیا کمین گاہ سے نکل آئے۔ افشین پراس قلعہ کا سا را راز اور کمین گاہ کا حال کھل گیا۔ چونکہ لڑائی میں طول ہو گیا تھا۔ فریقین لڑتے لڑتے تھک گئے تھے اور آفتاب بھی گوشہء مغرب میں پہنچ گیا تھا۔جعفر نے آہستہ آہستہ لڑتے لڑتے اپنے مورچہ کی طرف واپس آنا شروع کیا۔ مغرب تک لڑائی بالکل بند ہوگئی۔دونوں حریف اپنے اپنے قیام گاہ پر آئے اور کمریں کھولیں۔
رضا کار مجاہدین کی شجاعت
جعفر نماز مغرب ادا کر کے افشین کے پاس آیا۔ افشین نے عدول حکمی اور خلاف مرضی جنگ میں اقدام کرنے سے ناراضی کا اظہار کیا۔ جعفر اپنے قائد اعظم کے امداد نہ بھیجنے پر اظہار ملال کرنے لگا۔غرض دونوں نے معقول وجوہ پیش کئے۔ صفائی ہو گئی۔ اب رضاکاروں نے حاضر خدمت ہو کر قلت رسد و مصارف کی شکایت کی۔افشین نے جواب دیا کہ جو شخص قلت مصارف اورگرسنگی کی تکالیف پر صبر کر سکے۔ وہ ہمارے ساتھ رہے۔ ورنہ اپنا راستہ لے۔ امیر المومنین کے لشکر میں بفضلہ تعالیٰ جنگ آوروں کی کمی نہیں۔ رضاکار مجاہد یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ ہم تو قلعہ بذ کو بات کی بات میں فتح کر لیتے۔ مگر امیر عسکر ناحق التواء ڈال کر ہم لوگوں کو ثواب جہاد سے محروم کرتا ہے۔ اگر ہم کو اب بھی حملہ کا حکم دے تو ہم دشمن کو اپنی تلوار کے جوہر دکھا دیں۔ جاسوسوں نے یہ باتیں افشین کے کانوں تک پہنچائیں۔اس نے مجاہدوں کو طلب کر کے تسلی دی اور علی
الصباح جنگ کا حکم دیا۔ جس وقت رضا کاروں نے دھاوا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا خود بھی اسی وقت حملہ کرنے کا وعدہ کیا۔ افشین نے ان لوگوں کو مال و اسباب،پانی، خوراک اور آلات حرب خاطر خواہ دیا۔ زخمیوں کو میدان جنگ سے اٹھا لانے کے لئے خچروں پر محملیں رکھوا دیں اور جعفر کو اسی مورچہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔ جہاں تک کل بڑھ گیا تھا۔
دوسرے روز علی الصباح تیر اندازوں،نفاطوں اور نامی گرامی جنگ آزماوں کو منتخب کرکے ایک لشکر مرتب کیا اور رضا کار مجاہدوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے میدان جنگ میں آیا۔ بابک کے لشکر نے قلعہ سے تیر باری شروع کی۔ جعفر کی فوج اپنے آپ کو بابک کے حملوں سے بچاتی ہوئی قلعہ بذ کی فصیلوں تک پہنچ گئی۔اب جعفر کمال مردانگی و استقلال سے دروزہ بذ پر پہنچ کر لڑنے لگا۔یہاں تک کہ دوپہر ڈھل گئی۔ افشین نے حسب ضرورت ان لوگون کے لئے کھانا اور پانی روانہ کیا اور سفر مینا کو بھی قلعہ بذ کی فصیلوں کے توڑنے کے لئے پھاوڑے اور کدالوں کے ساتھ بھیجا۔ بابک یہ دیکھ کر قلعہ کا دروازہ کھول کر نکل آیا اور رضاکاروں کو اپنے پر زور حملہ سے قلعہ بذ کی فصیل سے پیچھے ہٹا دیا۔ حالت جنگ نہایت خطرناک تھی۔ کبھی تو بابک کا لشکر رضاکاروں کو قلعہ کی فصیل سے پسپا کر دیتا تھااور کبھی رضا کار بابکیوں کو مارمار کر قلعہ میں بھگا دیتے تھے۔غرض اس کشمکش میںشام ہو گئی اور رات نے اپنے سیاہ دامان سے آفتاب عالمتاب کو چھپا لیا۔افشین نے اپنے لشکر کو مراجعت کا حکم دیا۔دونوں حریف اپنے اپنے قیام گاہ پر واپس آئے اور لطف یہ ہے کہ اس جنگ کے بعد ہر فریق کو اپنی کامیابی کی طرف سے ناامیدی سی ہوگی اور بہت سے رضاکار اپنے اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔
قلعہ بذ پر لشکر اسلام کا قبضہ
دوہفتہ کے بعد افشین نے پھر جنگ کی تیاری کی۔ لشکر کو چار حصوں میں منقسم کیا۔ ایک حصہ کو جس میں ایک ہزار تیرانداز تھے۔ آدھی رات کے وقت اس پہاڑ کی طرف روانہ کیا۔جو قلعہ بذ کے قریب تھا اور جس کے دامن میں بابک کا نامی سپہ سالار آذین صف آرا تھا اور ان کو یہ ہدایت کر دی کہ جونہی جعفر کو بذ کی طرف بڑھتے ہوئے پاؤ۔بابک کے لشکر پر حملہ کر دو۔دوسرے حصہ کو اس ٹیلہ کے نیچے کمین گاہ میں چھپا دیا۔ جس کی چوٹی پر بابک کے سپاہی کمین گاہ میں بیٹھا کرتے تھے۔ تیسرے دستہ فوج کو محافظت کی غرض سے لشکرگاہ میں چھوڑا اورچوتھے حصہ کو مسلح ومرتب کرکے علی الصبح اس مورچہ کی طرف آیا جہاں گذشتہ معرکوں میں ٹھہرتا تھا۔جعفر خیاط چند نامی افسروں کے ساتھ اس پہاڑی کی طرف بڑھا جس کے دامن میں آذین سپہ سالاربابک نے صف
آرائی کی تھی۔ آذین نے جعفر کو بڑھتے ہوئے دیکھ کر تیر چلانے شروع کئے۔ ادھر سے جعفر نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔دوسری طرف سے ان تیراندازوں نے بھی آذین پر تیر باری شروع کر دی جو نصف شب سے پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھے تھے۔ آذین اس دو طرفہ مار سے بدحواس ہوگیا۔وہاں سے وادی کی طرف بھاگا تو ٹیلہ کے نیچے سے دوسرے کمین گاہ والوں نے بھی اپنے خاراشگاف تیروں سے اس کا خوب استقبال کیا۔ بابک نے عنوان جنگ بگڑا ہوا دیکھ کر افشین سے درخواست کی کہ مجھے جنگ سے صرف اتنی مہلت دو کہ میںاپنے اہل و عیال کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرسکوں۔ بعد ازاں قلعہ بذ کی کنجیاں تمہارے حوالے کر دوںگا۔افشین نے نفی یا اثبات میں کوئی جواب نہ دیاتھا کہ اتنے میں خبر پہنچی کہ عساکر اسلام نے قلعہ بذ پر قبضہ کر لیا ہے اور خدا کے فضل سے اس کے بلند میناروں پر خلیفہ المسلمین کا جھنڈا نصب ہو گیا ہے۔ افشین سجدہ شکر بجا لا کر قلعہ بذ میں داخل ہوااور بہت سا مال غنیمت اور قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
بابک نے اپنے اہل و عیال کو دوسرے مقام پر منتقل کر دیا تھا ۔ بھاگتے وقت جس قدر مال و اسباب اٹھا سکا اٹھا لے گیا۔ افشین نے ملک آرمینا کو بابک کے فرار کا حال لکھ کر اس کی گرفتاری کے نہایت تاکیدی احکام بھیجے۔ اس کے بعد جاسوس نے آکر یہ خبر دی کہ بابک اس وقت اس وادی میں ہے جس کا ایک کنارہ آذربیجان سے ملحق ہے اوردوسرا سرا آرمینیا تک پھیلا ہوا ہے۔ افشین نے اسی وقت چند آدمی اس کی گرفتاری پر متعین کئے۔ مگر گنجان درختوں اور پہاڑیوں نے بابک کو ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھا۔ اس اثناء میں خلیفہ معتصم نے بابک کے امان دینے کا حکم بھیج دیا۔افشین نے اس فرمان کا بابک کے ساتھیوں میںسے ایک شخص کو جو اس کے امن کا خواستگار تھا۔حوالہ کر کے بابک کے پاس بھیجا۔ بابک بجائے اس کے کہ پروانہ امان دیکھ کر خوش ہوتا۔ الٹا جوش غضب میں آ کر افشین کے دو سپاہیوں کو قتل کر ڈالا اور اس وادی سے اپنے بھائیوں عبداﷲ اور معاویہ اوراپنی ماں کو ساتھ لے کر بعزم آرمینیا نکل کھڑا ہوا۔اتفاق سے ان محافظین میں سے اس پر کسی کی نظر پڑگئی۔جو گرفتاری کے لئے متعین کئے گئے تھے۔ محافظ نے اپنے سردار ابواسفاع سے جا کے کہہ دیا کہ بابک بھاگا جا رہا ہے۔ابو السفاع نے تعاقب کا حکم دیا۔ انہوں نے ایک چشمہ میں جا کے اسے گھیر لیا۔ بابک خود تو سوار ہو کر بھاگ گیا۔مگر اس کی ماں اور اس کا بھائی معاویہ گرفتار ہو کر افشین کے پاس بھیج دیئے گئے۔
بابک کی گرفتاری اورہلاکت
اب بابک آرمینیا میں جا کر روپوش ہوا۔جاسوس اس کے پیچھے پیچھے تھے۔زادراہ ختم ہو چکا تھا۔اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو کچھ زرنقد دیکر کھانا لانے کو بھیجا۔اتفاق سے کسی پولیس افسر کی اس پر نظر پڑ گئی۔ چال ڈھال سے تاڑ گیا۔سہل بن ساباط پولیس کا افسر اعلیٰ اس شخص کو لئے ہوئے بابک کے پاس آیا۔ بابک کا چہرہ پولیس کو دیکھتے ہی فق ہوگیا۔ سہل بن ساباط بابک کو بہ تملق وچاپلوسی دم پٹی دے کر اپنے قلعہ میں لایا اور چپکے سے افشین کو اس کی اطلاع کر دی۔ افشین نے دو فوجی افسروں کو بابک کی گرفتاری پر مامور کیا۔ جب یہ پہنچ گئے تو ابن ساباط نے ان لوگوں کو قلعہ کی ایک جانب چھپا دیا اور بابک کو شکار کھیلنے کے حیلہ سے میدان کی طرف لے چلا۔ ان افسروں نے موقع پا کر حالت غفلت میں بابک کو گرفتار کر لیا اور افشین کے پاس لائے۔ افشین نے اس حسن خدمت کے صلہ میں ابن ساباط کو ایک لاکھ درم اورایک پیٹی جواہر نگار مرحمت فرمائی۔ اس کے بعد افشین کی طلبی پر عیسیٰ بن یوسف بن اسطقانوس والئی بلقان نے عبداﷲ برادر بابک کو جو ایک مدت سے اس کے پاس پناہ گزین تھا۔ افشین کے پاس بھیج دیا۔ افشین نے دونوں بھائیوں کو ایک ساتھ قید کر دیا اور بابک کی گرفتاری کی ایک اطلاع بارگاہ خلافت میں بھیج دی۔ خلیفہ نے ماہ شوال ۲۲۲ھ میںافشین کے نام حکم بھیجا کہ ان دونوں قیدیوں کو لے کر سامرہ آؤ۔مرزند سے سامرہ تک ہر منزل پر خلیفہ معتصم کے حکم پرافشین کا انتہائی عزت و احترام سے استقبال کیا جاتا تھا اور خلیفہ کا خاص قاصد خلعت فاخرہ اور ایک راس عربی گھوڑا لئے ہوئے افشین سے ملتا تھا۔ جب افشین سامرہ کے قریب پہنچا خلیفہ معتصم کا بیٹا واثق باﷲ اراکین سلطنت کو لئے ہوئے بغرض استقبال سامرہ سے باہر آیا اورکمال توقیر سے قصر مطیرہ میں ٹھرایا۔افشین نے اسی قصر میں بابک کو بھی اپنے زیر حراست رکھا۔ خلیفہ کے حکم سے افشین کے سر پر تاج رکھا گیا۔ بیش قیمت خلعت پہنایا گیا۔ بیس لاکھ درہم انعام دیئے اوردس لاکھ درہم اس کی فوج میں تقسیم کئے گئے۔ یہ واقعہ صفر ۲۲۳ھ کا ہے۔انہی ایام میں جبکہ بابک قصر مطیرہ میں مقید تھا۔ خلیفہ معتصم محل آیا اور بابک کو سر سے پاؤں تک بنظر غور دیکھتا رہا اور چلا گیا۔ دوسرے دن خلیفہ معتصم دربار عام میں رونق افروز ہوا۔ لوگوں کو حسب مراتب دربار عام سے قصر مطیرہ تک بٹھایا اور بابک کو ہاتھی پر سوار کر کے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ کسی شخص نے بابک سے کہا کہ تم اپنی زندگی میں ایسی ایسی بدکرداریوں کے مرتکب ہوئے جو تم سے پہلے شاید کسی انسان سے سرزد نہ ہوئی ہوں گی۔ اب ان کا خمیازہ بھگتنے کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن اب تجھے صبر سے کام لینا چاہیے۔بابک نے کہا تو عنقریب میرے ثبات واستقلال کو دیکھے گا۔خلیفہ معتصم نے اس کا ایک ہاتھ قطع کرنے حکم دیا۔ اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ لیکن
بابک نے جھٹ خون سے اپنا چہرہ رنگ لیا۔ کسی نے پوچھا کہ چہرہ پر خون لگانے کی کیا وجہ ہے؟۔ کہنے لگا ایسا نہ ہو کہ خون نکلنے سے چہرہ پیلا پڑ جائے اور یہ لوگ سمجھنے لگیں کہ بابک موت سے ڈر گیا۔ اس کے بعد اس کے دوسرے اعضا قطع کئے گئے۔ اس اثناء میں اس کی طرف سے اضطراب و بے چینی کی کوئی ادنیٰ علامت بھی ظاہر نہ ہوئی۔
محاربات بابک کے مالی و جانی نقصانات
افشین آخری مہم میں بزمانہ حصار بابک غلہ اور مصارف سفر وقیام کے علاوہ جس روز میدان جنگ میں جاتا تھا۔ دس ہزار یومیہ صرف میں لاتا تھا اور جس دن اپنے مورچے میں رہتا تھا پانچ ہزار خرچ کرتا تھا۔ بابک کا فتنہ بیس سال تک ممتد رہا۔ ان معرکوں میں دو لاکھ پچپن ہزار پانسو اور دوسری روایت کے بموجب ایک لاکھ پچپن ہزار مسلمان جرعہ شہادت سے سیراب ہوئے۔ سات ہزار چھ سو مسلمان عورتیں اور بچے اس کے پنجہ ظلم سے چھڑائے گئے۔ ان سب قیدیوں کو بغداد لا کر ایک وسیع احاطہ میں ٹھرایا گیا۔ ان میں سے جس کسی کا والی و وارث آتا اس سے شہادت لی جاتی اور بعد ثبوت ولایت و وراثت اس کے حوالے کر دیا جاتا۔
(تاریخ طبری عربی ج۵ص ۲۲۰،تاریخ ابن خلدون عربی ج۳ص۲۵۵، تاریخ ابن اثیر ج ۶ ص ۱۸،الفرق بین الفرق ص۲۰۱)
بابکیہ کی ایک جماعت ابن جوزیؒ کے زمانہ تک موجود تھی۔کہتے ہیںکہ اس جماعت میں سال بھر میں خوشی کی ایک رات مقررہے۔اس تقریب میں تمام مرد اورعورتیں ایک مکان میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر چراغ گل کر دیئے جاتے ہیں اور مرد اندھیرے میں دوڑ کر جس عورت پر قابو ملے اس کو پکڑ لیتے ہیں اور ان سے ناجائز تمتع حاصل کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ شکار ہے اور شکار مباح ہے۔شاید یہ رات عید غدیر خم کے نام سے موسوم ہے۔
(تلبیس ابلیس عربی ص۸۲،۸۳)
باب۱۹ … احمد بن کیال بلخی
احمد بن کیال بلخی فارسی اور عربی کا بہت بڑا مصنف گزرا ہے۔بڑا فصیح وبلیغ اور بلند پایہ مقرر تھا۔ ابتداء میں لوگوں کو اہل بیت نبوت کی طرف بلاتا تھا۔ لیکن کچھ مدت کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ میں ہی امام زماں ہوں۔جونہی دعویٰ مہدویت کیا۔ ہزارہا ارباب علم وفضل نے جن پراس کی سحرنگاری،جادو بیانی اور منقح گوئی کا جادو چل چکا تھا۔ اس کے دعوؤںکے آگے سر تسلیم خم کردیا۔ ایک مرتبہ اپنے مزعومہ مقامات مہدویت سے ترقی کرتے کرتے کہنے لگا کہ میں قائم ہوں اور بیان کیا کہ جو شخص عالم آفاق عالم علوی اور عالم النفس(یعنی عالم سفلی) کے مناہج بیان کرنے پر قادر
ہو۔ اورانفس پرآفاق کی تطبیق کر سکے۔ وہ امام ہے اور قائم وہ شخص ہے جو کل کو اپنی ذات میں ثابت کرے اور ہر ایک کلی کو اپنے معین جزئی شخص میں بیان کر سکے اور یاد رکھو کہ اس قسم کا مقرر سوائے احمد کے کسی زمانے میں نہیں پایا گیا۔ احمد اپنے آپ کو تمام انبیاء سے افضل کہتا تھا۔ اس کا بیان تھا کہ انبیاء و رسل اگرچہ پیشوا ہیں۔لیکن وہ اہل تقلید کے مقتداء ہیں۔جو اندھوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ حالانکہ قائم (احمد)اہل بصیرت اور اصحاب دانش کا پیشرو ہے۔
کہتا تھا کہ عالم تین ہیں۔اعلیٰ،ادنیٰ،انسانی۔عالم اعلیٰ میں پانچ مکان ہیں۔ ایک مکان الاماکن جو بالکل خالی اور سب کو محیط ہے۔نہ اس میں کوئی رہتا ہے اور نہ اس کی کوئی روحانی تدبیر کرتا ہے اور شرع میں عرش سے مراد یہی مکان الاماکن ہے۔اس سے نیچے مکان نفس اعلیٰ اور اس کے نیچے مکان نفس ناطقہ اور اس کے نیچے مکان نفس حیوانیہ ہے۔سب کے نیچے نفس انسانی کا مکان ہے۔نفس انسانی نے چاہا کہ عالم نفس اعلیٰ تک صعود کرے۔ چنانچہ حیوانیت اور ناطقیت کو اس نے قطع کیا۔ لیکن جب نفس انسانی نفس اعلیٰ کے قریب پہنچا تو وہاں تھک کر متحیر اور حسرت زدہ رہ گیا اور اس کے اجزاء متعفن ہو کر مستحیل ہو گئے۔جس سے وہ عالم سفلی میں گر پڑا ۔پھراسی حالت عفونت اور استحالہ میں ایک مدت تک پڑارہا۔اس کے بعد نفس اعلی نے اپنے انوار کا ایک جزواس میں ڈالا۔جس سے اس عالم کی تراکیب حادث ہوئیں اور آسمان و زمین،مرکبات،نبات،حیوان اورانسان پیدا ہوئے اور ان تراکیب میں کبھی خوشی کبھی رنج کبھی سلامتی کبھی محنت واقع ہوئیں۔یہاں تک کہ قائم ظاہرہوا۔ جواسے کمال تک پہنچا دے اور تراکیب منحل ہو جائیںاور متضادات باطل اور روحانیات جسمانیات پرغالب آ جائیں۔جانتے ہو۔ وہ قائم کون ہے؟۔ یہی عاجز احمد ہے۔
احمد اپنے قائم ہونے پر اس طرح استدلال کرتا تھا کہ دیکھو اسم احمد چاروں عالموں کے مطابق ہے۔الف… نفس اعلیٰ کے مقابلے میں۔حا…نفس ناطقہ کے مقابل۔میم… نفس حیوانیہ کے مقابل۔ اور دال… نفس انسانیہ کے مقابل ہے۔ پھر غور کرو کہ احمد کے چار حرف جیسے عوالم علویہ روحانیہ کے مقابلے میں تھے۔اسی طرح وہ سفلی جسمانی عالم کے مقابلے میں بھی ہیں۔ کہتا تھا کہ میرے نام کے حرفوںمیں الف انسان پر دلالت کرتا ہے۔ حا حیوان پر ۔میم طاہر پر اور دال مچھلی پر اور حق تعالیٰ نے انسان کواحمد کی شکل پر پیدا کیا۔ قد الف،حا دونوں ہاتھ۔پیٹ میم اور پاؤں دال کی شکل پرہیں۔باطنی فرقہ کی طرح تاویل و تحریف کا بڑا دلدادہ تھا۔
(الملل و النحل، الجزء الاول ص۱۸۱،۱۸۴،علامہ شہرستانی)
باب ۲۰ … یحییٰ بن فارس ساباطی
یحییٰ بن فارس ساباطی مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح مسیح موعود ہونے کا مدعی تھا۔خلیفہ معتز کے ایام خلافت میں ملک مصر کے اندر تینس کے مقام میں ظاہر ہوا۔ جو شخص نصوص قطعیہ اور تصریحات نبوی ﷺ کو پس پشت ڈال کر بتاویل وتحریف مسیح بنا ہو۔اگر وہ جناب عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی دوسری خصوصیتوں سے عاری ہو تو اس کے لئے کم از کم اتنی قدرت تو ناگزیر ہے کہ لوگوں کو حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح کوئی مسیحائی دکھا دے اورآنجناب کے جن معجزات باہرہ کو قرآن حکیم کی سند اعتبار حاصل ہے۔ ان کو منظر عام پر لاسکے۔یحییٰ ساباطی کو زعم مسیحیت کیساتھ اس بات کا بھی دعویٰ تھا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزے دکھا سکتا ہے۔
۱…معجزات مسیح کا تذکرہ قرآن مجید میں
قرآن پاک میں حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کا دو مقامات پر ذکر آیا ہے۔ حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام ردائے نبوت کے عطا کئے جانے پر اپنی قوم بنی اسرائیل کے پاس پیغام خداوندی لے کرآئے تو آپ نے جن معجزات کو اپنی نبوت کے ثبوت میں پیش فرمایا تھا۔وہ سورہ آل عمران میں مذکور ہیں۔ اور جہاں خود خدا وند عالم عزاسمہ نے مسیح علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاددلا کر معجزات عیسوی کا اظہار فرمایا۔اس کا تذکرہ سورہ مائدہ میں ہے۔ان دو سورتوں میں خدائے قدوس کی لسان وحی نے جو معجزات عیسوی بیان فرمائے۔ ان میں سے چند یہ ہیں: (۱)… مٹی کا پرند بنا کر اس میں پھونک مارنا اور اس کا پرواز کرنا۔(۲)… مردہ کو زندہ کر دکھانا۔ (۳)…مادرزاد اندھے اور برص کے مریض کو تندرست کر دینا۔ یہاں یہ عرض کر دینا ضرورہے کہ انبیاء علیہم السلام کو ضروریات وقت کے مطابق ایسے معجزات عطا کئے جاتے تھے کہ جن کے مقابلہ میں ان کے مخالفوں اورمنکروں کی طاقت وصلاحیت جواب دے بیٹھتی تھی اور وہ مغلوب ومقہور ہو جاتے تھے۔ جناب مسیح علیہ السلام کے عہد مبارک میں حکمائے یونان کا دور دورہ تھا۔ جالینوس جیسے اطبائے حاذق اپنی حکمت پژوہی اورمہارت طب کا دمامہ عظمت بجا رہے تھے۔ مسیح علیہ السلام کو ان کے طبی کمالات سے بڑھ چڑھ کر احیائے اموات اور مادر زاد اندھے اور مجذوم ومبروص کو صحیح و سالم کرنے کا معجزہ عطا ہوا۔ یہ ایسے لاعلاج مرض ہیں کہ جن پر آج تک کوئی طبیب قابو نہیں پا سکا۔حکمائے یونان جناب مسیح علیہ السلام کے آیات بینات کے سامنے غائب وخاسررہ گئے۔ معجزات سہ گانہ مذکورہ میں سے اعجاز اول کے متعلق التماس ہے کہ مسیح علیہ السلام نے چند
مرتبہ جو مٹی کے پرند بنائے۔ وہ آپ کے اعجازی تصرف سے تھوڑی دورتک اڑے اورگر کر ہلاک ہو گئے۔ ان کو دوسرے پرندوں کی طرح پوری حیات وزیست نہیں بخشی گئی تھی۔ معجزہ ثانی کے متعلق گزارش ہے کہ آپ نے صرف تین چار مرتبہ مردوں کو ان کر قبروں میں سے زندہ برآمد کر دیا تھا۔ وہ ایک ایک دو دو دن یا چند گھنٹوں کے بعد طعمہ اجل ہو کر از سر نو زمرہ اموات میں جا شامل ہوئے تھے۔ غرض خالق کردگار نے مسیح علیہ السلام کو تخلیق و آفرینش کی قدرت دے کر اپنی صفت خالقیت میں شریک نہیں کر لیا تھا۔ بلکہ محض جزئی اور عارضی قدرت بخش کر اپنے برگزیدہ رسول کی عظمت وبرتری کا اظہار مقصود تھا۔ پس مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ اعتراض سخت لغو اور مضحکہ خیز ہے کہ:
’’ اگر خدا تعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے اپنی خدائی کی صفتیں بندوں کو دے سکتا ہے تو بلاشبہ اپنی ساری صفتیں خدائی کی ایک بندے کو دے کر پورا خدا بھی بنا سکتا ہے۔‘‘
(خزائن ج۳ص ۲۵۲،ازالہ اوہام ص۲۹۸حاشیہ)
نصاریٰ کا زعم باطل کہ مسیح کا احیائے اموات ان کی الوہیت کو مستلزم ہے
اسی طرح نصاریٰ کا مسیح علیہ السلام کے احیائے اموات اور دوسرے معجزات سے ان کی خدائی پراستدلال کرنا بھی باطل ہے۔چنانچہ رب جلیل نے فرمایا ہے:
’’لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ھوالمسیح ابن مریم۰ قل فمن یملک من اللہ شیأ ان ارادا ان یھلک المسیح ابن مریم وامہ ومن فی الارض جمیعا۰ وﷲ ملک السموت والارض وما بینہما یخلق ما یشآء۰ واﷲ علی کل شیٔ قدیر‘‘ {ان لوگوں نے بلا شبہ کفر اختیار کیا جو کہتے ہیں کہ مسیح بن مریم ہی خدا ہیں۔اے رسولﷺ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر حق تعالیٰ مسیح اور ان کی والدہ اور تمام سکان ارض کو ہلاک و برباد کردینا چاہے تو کوئی نہیں جو اسے اس ارادہ سے باز رکھ سکے۔آسمان و زمین میں سب کچھ اللہ ہی کا ہے۔ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر بات پر قدرت رکھتا ہے۔}
ان آیات میں حق تعالیٰ نے الوہیت مسیحؑ کے عقیدہ فاسدہ کا تین دلائل سے رد فرمایا ہے۔ (۱) فمن یملک سے جمیعاً تک حضرت مسیح کے واقعہ گرفتاری اور سجن کی طرف اشارہ کرکے ان کا محکوم و منقاد الٰہی ہونا ظاہر کیا ہے۔ جو سراسر خدائی کے خلاف ہے۔(۲) ﷲ ملک السموت والارض میں رب العزت اپنے غنائے ذاتی کو ظاہر فرما کر اولاد سے استغناء واستبراء کا اظہار فرماتا ہے۔ (۳) یخلق مایشاء میں حضرت مسیح علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے سے جن لوگوں کے دل میں ان کی الوہیت کا واہمہ پیدا ہوتا تھا۔ اس کو دور فرماتا ہے۔یعنی یہ کوئی
مشکل بات نہیں۔ ہم جس طرح چاہیں پیدا کر سکتے ہیں۔ احیاء موتیٰ سے جناب مسیح علیہ السلام کی خدائی پر استدلال کرنے کا اس آیت میں بھی رد فرمایا گیا ہے:
’’ھوالذی یصورکم فی الارحام کیف یشآء‘‘ {معبود حقیقی تو وہ ذات واحد ہے جو اپنی مشیت و ارادہ کے موافق تمہیں تمہاری ماؤں کے رحم میں شکل و صورت بخشتا ہے ۔}
یعنی مسیح علیہ السلام چند مردوںکو زندہ کر کے کسی طرح معبود نہیں قرار دیئے جاسکتے۔ کیونکہ اس سے تو ہر شخص یہی سمجھے گا کہ حق تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کی عزت افزائی کے لئے معجزہ کے طور پر انہیں چند مرتبہ یہ قدرت بخش دی اور یہ حقیقت کہ ان کے احیاء اموات کو عالمگیر حیثیت حاصل نہ تھی۔ اس بات پر صراحتاً دال ہے کہ وہ الہ نہ تھے۔ کیونکہ الہ ومعبود حقیقی کی تو یہ شان ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے قطرہ منی کو رحم مادر میں نہایت عجیب و غریب طریقہ سے انسان کی شکل میں متشکل کر دیتا ہے۔اگر مسیح علیہ السلام کو موت و حیات پر پوری قدرت ہوتی تو وہ کم از کم ان اعداء ہی کو موت کے گھاٹ اتارتے یا کم از کم ان کا شر دفع کرسکتے۔ جنہوںنے حسب اعتقاد نصاری جناب مسیحؑ کو گرفتار کر کے صلیب پر چڑھایا تھا۔
ایک اور مقام پر خدائے حکیم نے اپنے لئے حی و قیوم کے الفاظ سے بھی عیسائی عقیدہ کا بطلان ظاہر فرمایا ہے۔ یعنی سچا معبود وہی ہو سکتا ہے جو حی و قیوم ہو اور ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام ان صفات سے عاری تھے۔ کیونکہ وہ شکم مادر سے پیدا ہوئے اور اکل و شرب کے محتاج تھے۔دوسرے انسانوں کی طرح بول و بزار اور حدث میں مبتلا تھے اور نصاریٰ کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ بنی اسرائیل نے انہیں صلیب پر چڑھا کر قتل کیا اورآپ اپنے تئیںان کے شر سے نہ بچا سکے۔ پس ثابت ہوا کہ وہ حی و قیوم اور معبود برحق نہ تھے۔
۲…مرزا غلام احمد سے مطالبہ کہ مسیح ہو تو کوئی مسیحائی تو دکھاؤ
اہل بصیرت سے مخفی نہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی ایک فرضی اورخیالی حمل کے ذریعہ عیسیٰ بن مریم بن گئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کتاب کشتی نوح ص ۴۶،۴۸میں اپنے ابن مریم بن جانے کو نہایت مضحکہ خیز پیرایہ میں بوضاحت بیان فرمایا ہے۔غرض جب انہوں نے اپنے عیسیٰ بن مریم بن جانے کا اعلان کیا تو بعض اہل علم حضرات کی طرف سے مطالبہ ہوا کہ اگر تم عیسیٰ بن مریم ہو تو وہ اعجازی کمالات بھی دکھاؤجو جناب عیسی ابن مریم علیہما السلام کی ذات اقدس میں ودیعت تھے۔ مرزا قادیانی کے پاس بجز سخن سازی کے رکھا ہی کیا تھا؟۔ اس مطالبہ کے جواب میں بساط
جرأت پر قدم رکھ کر سرے سے معجزات مسیح علیہ السلام ہی کا انکار کر دیا اورجھٹ قرآن پاک کے ارشادات پر اپنی ملحدانہ تحریف کاری کا روغن قاز ملنے لگے۔ چنانچہ لکھا کہ: ’’بعض لوگ بحوالہ آیت قرآنی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح مریم انواع و اقسام کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مر کر زندہ کر دیا کرتے تھے۔چنانچہ اسی بنا پر اس عاجز پر اعتراض کیا ہے کہ جس حالت میں مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے تو پھر آپ بھی کوئی مٹی کا پرندہ بنا کر دکھلائے۔‘‘(خزائن ج۳ص۲۵۱،ازالہ ص۲۹۶حاشیہ) ’’سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دیدی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو۔ جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے۔ یا اگر پرواز نہیں تو پیروں پر چلتا ہو۔ کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کا کام درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہوجاتی ہے۔پس اس سے کچھ تعجب نہ کرنا چاہیے کہ حضرت مسیح نے اپنے دادا سلیمان کی طرح اس وقت کے مخالفین کو یہ عقلی معجزہ دکھایا ہو۔چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ اکثر صناع ایسی ایسی چڑیاں بنا لیتے ہیں کہ وہ بولتی بھی ہیں اورہلتی بھی ہیں اور دم بھی ہلاتی ہیں۔ بلکہ بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز بھی کرتی ہیں۔‘‘(خزائن ج۳ص۲۵۴،ازالہ ص۳۰۲حاشیہ)’’عمل الترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں۔ ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں۔‘‘ (خزائن ج۳ص۲۵۶،ازالہ ص۳۰۶حاشیہ)’’حضرت مسیح بن مریم باذن وحکم الٰہی الیسع نبی کی طرح اس عمل الترب میں کمال رکھتے تھے۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا۔ تو خدا تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘(خزائن ج۳ص۲۵۷)’’مسیح اپنی روح کے ذریعہ سے جس کو روح القدس کے فیضان سے برکت بخشی گئی تھی۔ ایسے ایسے کام اقتداری طور پر دکھاتا تھا اور قرآن شریف کی آیات بھی بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ مسیح کے ایسے عجائب کاموں میں اس کو طاقت بخشی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ ایک فطرتی طاقت تھی۔ جو ہر ایک فرد بشر کی فطرت میں مودع ہے۔ مسیح سے اس کی کچھ خصوصیت نہیں۔ مسیح کے معجزات تو اس تالاب کی وجہ سے بے رونق اور بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے بھی پہلے مظہر عجائبات تھا۔ جس میں ہر قسم کے بیمار اور تمام مجذوم ،مفلوج،مبروص وغیرہ ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہو جاتے تھے۔لیکن بعد کے زمانوں میں
جو لوگوں نے اس قسم کے خوارق دکھلائے اس وقت تو کوئی تالاب بھی موجود نہیں تھا۔‘‘
(خزائن ج۳ص۲۶۳،ازالہ ص۳۲۱حاشیہ)
غرض اس لحاظ سے کہ اعجاز نمائی مرزاقادیانی کے بس کا روگ نہیں تھا۔انہوں نے اس بکھیڑے اور جنجال سے بچنے کی یہ آسان ترکیب نکالی کہ سرے سے معجزات مسیح علیہ السلام ہی کا انکار کر دیا اور آخرکار یہاںتک لکھ مارا کہ: ’’عیسائیوں نے آپ (یسوع مسیح) کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ کہ آپ سے کبھی معجزہ ظاہر نہیں ہوا۔ممکن ہے کہ آپ سے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کا علاج کیا۔ ہو مگر بدقسمتی سے اسی زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا۔اسی تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے اور اسی تالاب نے فیصلہ کر دیا کہ اگر آپ سے کوئی معجزہ ظاہر ہوا تو وہ معجزہ آپ کا نہیں۔ بلکہ اسی تالاب کا معجزہ ہے۔آپ کے ہاتھ میں (معاذاﷲ) سوائے مکر اورفریب کے کچھ نہیں تھا۔‘‘(خزائن ج۱۱ص۳۹۱،ضمیمہ انجام آٹھم۷ حاشیہ) لیکن بوالعجبی دیکھو کہ اس کے بعد مرزا قادیانی نے کتاب نصرۃ الحق ص۳۱ میں معجزات مسیح علیہ السلام کی تصدیق کر کے اور یہ لکھ کر پنے بیانات کی خود ہی تردید کر دی کہ: ’’یہود نے مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے۔ مگر ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔‘‘
۳…یحییٰ ساباطی کی اعجاز نمائیاں
مرزا غلام احمد قادیانی نے تو معجزات مسیح علیہ السلام کا انکارکرکے معترضین سے پیچھا چھوڑایا۔ لیکن یحییٰ ساباطی نے ایسا نہیں کیا تھا اورنہ مرزا قادیانی کی طرح اس میںاتنی جرأت تھی کہ مصر میں رہ کر قرآن پاک کے نصوص صریحہ کا صاف انکار کرتا۔جہاں کے باشندوں نے مسٹر مارماڈیوک پکتھال کے انگریزی ترجمہ قرآن کا داخلہ مصر میں یہ کہہ کر بند کر دیاتھا کہ عربی ہماری مادری زبان ہے۔ ہمیں کسی ترجمہ قرآن کی ضرورت نہیں۔ یہ ملک جہاں معجزات مسیح علیہ السلام کا انکار کیا گیا۔ خراب آباد ہندوستان ہے۔ جہاں کے بعض حلقوں میں کبھی سنگریزہ کیا۔ اس سے بھی کہیں ادنیٰ وارذل چیز لعل وگہر کی قیمت پا جاتی ہے۔ یحییٰ بن فارس ایک حاذق طبیب اور فلاسفر تھا۔ اس نے سمندر کے کنارے ایک صومعہ بنا رکھا تھا۔جب اس سے کہا گیا کہ تم مسیح موعود ہو تو مسیح علیہ السلام کے سے معجزے بھی دکھاؤ۔ تو اس نے علیٰ رغم قادیانی ببانگ دہل اس پر آمادگی ظاہر کی اور برملا دعویٰ کیا کہ میں حسب فرمائش مردہ زندہ کر سکتا ہوں۔ برص اور جذام کھو سکتا ہوں۔ پانی پر چل سکتا ہوں۔چنانچہ علامہ عبد الرحمن بن ابوبکر دمشقی معروف بہ جوبری کتاب المختار و کشف الاسرار میں لکھتے ہیں کہ اس شعبدہ بازی کے ذریعہ سے لوگوں کو مردہ زندہ کر کے دکھا دیا۔
(میں نے اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ حیدرآباد دکن میں دیکھا تھا۔اس باب کے تمام اقتباسات اسی نسخہ سے ماخوذ ہیں۔یہ کتاب دمشق میں چھپ چکی ہے۔ لیکن افسوس کہ باوجودبسیار کوشش اس پر دسترس نہ پا سکا)
مردہ قبر سے نکل کر باتیں کرنے لگا
چنانچہ ایک مرتبہ یحییٰ ایک شخص کے وارثوں سے جسے مرے تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہنے لگا کہ اگر چاہو تو میں تمہاری میت زندہ کر سکتا ہوں۔انہوں نے کہااگر ایسا کرو تو آپ کی نوازش ہوگی۔ اس نے کہا کفن کاایک ٹکڑا کاٹ لاؤ۔ وہ قبر کھول کر ایک ٹکڑا قطع کر لائے۔ یحییٰ نے اس کو وزن کیا اور پھر اس کا ہم وزن ناریل اور جند بیدستہ لیا۔ موخرالذکر اشیاء کو باریک کرکے تینوں کا ایک فتیلہ بنایا اورقبر پر جا کر اہل میت کے سامنے اس کو سلگایا اور کچھ پڑھنا شروع کیا۔ جب بتی سے دھواں اٹھ رک چاروں طرف پھیلنے لگا۔تو اہل میت کو ایسا محسوس ہوا کہ گویا مردہ کفن پھاڑ کر قبرمیں اٹھ کھڑا ہوا ہے۔اب انہوں نے اس سے چند باتیں دریافت کیں۔ جس کا اس نے صاف لفظوں میں جواب دیا۔ اس واقعہ کے بعد ہر جگہ یحییٰ کی مسیحائی کا چرچہ ہونے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے ہر طرف سے اپنی اپنی میتوںکو اٹھائے اس کے صومعہ کا رخ کیا اور آ آ کر منتیں کرنے لگے کہ ہمارے مردہ کو بھی زندہ کر کے ہم سے ہم کلام کرادو۔ مگر ایک مرتبہ کی کرشمہ سازی کے بعد اس نے دوبارہ احیائے میت سے انکار کر دیا۔ لیکن یاد رہے کہ مردہ کا قبر سے اٹھ کر باتیں کرنا محض تخیل تھا۔ کوئی واقعی چیز نہ تھی۔ اس کی نظیر ساحرین فرعون کی رسیاں اور لاٹھیاں ہیں جو حاضرین کو دوڑتی دکھائی دی تھی۔ چناچہ قرآن پاک کی اس آیت میں اس کا تذکرہ ہے ’’فاذا حبالھم و عصیہم یخیل الیہ من سحر ھم انھا تسعیٰ(۲۰:۲۸)‘‘ {ان کی نظربندی سے ساحروں کی رسیاں اور لاٹھیاں موسیٰ علیہ السلام کی ایسی معلوم ہونے لگیں کہ گویا چلتی اور دوڑتی ہیں۔}
مبروص کو شفایاب کرنے کا راز
یحییٰ برص کے مریض کو شفا بخشنے کا معجزہ کام میں لاتا تھا۔اس کی نوعیت یہ تھی کہ وہ پودینہ، ہڑتال ورقی اورتخم کرفس کو ہموزن لے کر باریک کرتا تھا اور اس سفوف کو تر گوبر میں رکھ کراتنے دن تک زمین میں گاڑ دیتا تھا کہ اس میں سفید کیڑے پیدا ہو جاتے تھے۔ان کیڑوں کو
کسی شیشی میں ڈال کر روغن بنا لیتا تھا۔اس روغن کی تیاری کے بعد اس کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ شہر کے کسی سربرآوردہ آدمی کو مصنوعی طور پر برص میں مبتلا کر دے۔ اس غرض کیلئے اپنے ایک راز دار ملازم کو حمام میں بھیج دیتا۔ وہ بے خبری میںکسی رئیس کے جسم پر یہ روغن ذرا سا لگا دیتا۔ رئیس کے بدن پر اسی دن برص کے داغ ظاہر ہو جاتے ۔شہر میں یحییٰ ہی مرجع خلائق طبیب تھا۔ جب مریض اس کی طرف رجوع کرتا تو وہ شیطرج ہندی نام ایک دوا جسے چیتا بھی کہتے ہیں۔ باریک پیس کر اور تیز سرکہ میں حل کر کے ان داغوں پر لگا دیتا۔چونکہ یہ داغ بالکل تازہ اور محض عارضی حیثیت رکھتے تھے۔شیطرج کے لگانے سے تھوڑی ہی دیر میں دور ہو جاتے۔
کوڑھیوں کو شفا بخشنے کی حیلہ گیری
یحییٰ نے جذامیوں کو شفایاب کرنے کا یہ حیلہ بنا رکھا تھا کہ بادروج(جنگلی تلسی)برگ بیلا ڈونا (لچھما لچھمی)اوربرگ عطلم(؟)کو ہم وزن لے کر پانی میں جوش دیتا۔ جب ربع پانی جل جاتا تو اپنے چند آدمیوں کو اس سے وضو کرادتیا۔نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کے چہرے اور ہاتھ اور پاؤں جذامیوں کے اعضاء کی طرح بدنما اور ماؤف سے نظر آنے لگتے۔اب وہ دیاروامصار میں اپنے جذام کی خوب تشہیر کرتے۔ جب ہر شخص کو معلوم ہو جاتا کہ یہ اہل بلا ہیں تو ایک بڑے مجمع میں یحییٰ کے پاس آکردرخواست کرتے کہ آپ مسیح زماں ہیں۔ ہمارا جذام دور کر دیجئے۔ یحییٰ پانی گرم کراکر اس میں انگلیاں ڈالتا اور ان کو اس پانی سے غسل کرنے کا حکم دیتا۔ چونکہ وہ جذام محض نمائشی ہوتا تھا۔ غسل سے دوا دھل کر ہاتھ پاؤں اور چہرہ صاف اورچمکدار نکل آتا۔ لوگ یہ سمجھتے کہ حضرت مسیح موعود کی برکت وتوجہ سے کوڑھی صحیح و سالم ہوگئے۔
پانی پر چلنے کا معجزہ
حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ و السلام کو پانی پر چلنے کا معجزہ بھی عطا کیا گیا تھا۔ یحییٰ پانی پر چلنے کا معجزہ اس طرح دکھاتا تھا کہ اپنے کف ہائے پا پر ایک مصالحہ لگا کر سمندر کے کنارے پانی میں اترتا۔ بڑی بڑی مچھلیاں اس بو پرآکر اس کے پاؤں چاٹنا چاہتیں۔یہ اپنے دونوں پاؤں کسی بڑی مچھلی کی پیٹھ پر رکھ دیتا۔ اب مچھلی جہاں جہاں پانی میں جاتی یہ بھی اس پر سوار رہ کر ساحل بحر کے چکر لگاتا۔ قدم اٹھتے دکھائی نہ دیتے تھے باہر کے لوگ یہی سمجھتے کہ اعجازی طاقت سے سطح آپ پر چل رہا ہے۔ اس دوا کے تین اجزاء بیان کئے جاتے ہیں۔باروج(جنگلی تلسی) سرگین آدمی اور حب العنار(؟) تینوں کو ہم وزن لے کر باریک کرتا اور روغن چنبیلی میں ملا لیتا۔
(کتاب المختارو کشف الاسرار للجوبری)
باب ۲۱ … علی بن محمد خارجی
علی بن محمد بن عبدالرحیم نام، قبیلہ عبدالقیس کا ایک شخص وردیفن مضافات رے میں پیدا ہوا۔ خوارج کے فرقہ زاراقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتداء میں اس کی وجہ معاش یہ تھی کہ خلیفہ متنصر عباسی کے بعض حاشیہ نشینوں کی مدح و توصیف میں قصائد لکھ کر کچھ انعام حاصل کر لیا کرتا تھا۔ جب امراء کی مجلسوں میں آمدورفت کرنے سے کچھ رسوخ پیدا ہوا تو اس کے دل میں سرداری اور گروہ بندی کے خیالات موجزن ہوئے۔۲۴۹ھ میں بغداد سے بحرین چلا گیا اور دعویٰ نبوت کر کے لوگوں کو اپنے اتباع کی دعوت دینے لگا۔ اس کا بیان تھا کہ مجھ پر بھی کلام الٰہی نازل ہوتا ہے۔اس نے اپنا ایک ’’صحیفہ آسمانی‘‘بنا رکھاتھا۔ جس کی بعض سورتوں کے نام سبحان،کہف، اور ص تھے۔کہتا تھا کہ خدائے برتر نے میری نبوت وامامت کی بہت سی نشانیاں ظاہر فرمائی ہیں۔بعض حضرات نے علی بن محمد خارجی کی جگہ بہبود زنگی کو مدعی نبوت قرار دیا ہے۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ زنگیوں کا گمراہ کرنے والا یہی علی بن محمد مدعی نبوت تھا اور بہبود زنگی اس کا امیر البحر تھا۔ بحرین کے اکثر قبائل نے علی بن محمد خارجی کی متابعت اختیار کر لی۔ وہیں اس نے ایک بڑی جمعیت بہم پہنچا لی اور بحرین کے بعض عماید اس کی فوج کے افسر مقرر ہوئے۔ قریباً پانچ سال تک بحرین میں اقامت گزین رہنے کے بعد ایک مرتبہ اپنے پیرووں سے کہنے لگا کہ مجھے خدا کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ یہاں سے بصرہ جاؤں اور وہاں کے لوگوں کو نجات اخروی کا راستہ دکھاؤں۔ چنانچہ ۲۵۴ھ میں چند پیرووں کی رفاقت میں بصرہ چلا آیا۔بصرہ میں بنو صبیعہ کے ہاں فروکش ہوا۔ ان دنوں محمد بن رجا بصرہ کا عامل تھا اور بلالیہ و سعدیہ کے قبائل میںآتش فساد بھڑک رہی تھی۔ علی بن محمد خارجی نے فریقین میںسے ایک کے ملانے کی کوشش کی۔ راز افشاء ہو گیا۔ محمد بن رجا عالم بصرہ نے چند سپاہیوں کو اس کی گرفتاری پر متعین کیا۔علی خارجی یہ خبر پا کر بھاگ کھڑا ہوا۔اس کا بیٹا بیوی اورچند ساتھی گرفتار کرلئے گئے۔علی بہزار خرابی بغداد پہنچا۔ ایک برس تک مقیم رہ کر پروپیگنڈا میں مصروف رہا۔اس کے بعد روساء بلالیہ وسعدیہ نے متفق ہو کر محمد بن رجا عالم بصرہ کو نکال دیا اور بصرہ کے قید خانہ کا دروازہ توڑ کر قیدیوں کر رہا کر دیا۔ رفتہ رفتہ واقعات کی خبر بغداد میں علی خارجی تک پہنچی۔اس نے میدان خالی پا کر رمضان ۴۵۵ھ میں بصرہ کی طرف مراجعت کی۔
حبشی غلاموں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کرنے کی عجیب وغریب چال
بصرہ پہنچ کر علی بن محمد نے قصر قرشی میں قیام کیا اورآتے ہی اعلان کر دیا کہ جو جو حبشی
غلام میری پناہ میں آجائیں گے میں ان کو آزاد کر دوں گا۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ حبشی غلام اطراف واکناف ملک سے بھاگ بھاگ کر اس کے پاس آنے شروع ہوئے۔ایک جم غفیر جمع ہوگیا۔ اس نے ایک پرجوش تقریر کر کے ان کو ملک و مال دینے کا وعدہ کیا۔ حسن سلوک اوراحسان کرنے کی قسم کھائی ایک ریشمین ٹکڑے پر ’’ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسہم واموا لہم بان لہم الجنۃ‘‘ آخر آیت تک لکھ کر رایت بنایا اور ایک بلند مقام پر نصب کر ادیا۔ زنگی غلاموں کے آقاؤں کا رنگ پتلا پڑگیا۔ایک ایک دو دو کر کے علی کے پاس اپنے غلاموں کی نسبت کہنے سننے کو آئے۔ علی نے اشارہ کر دیا۔ زنگی غلاموں نے اپنے آقاؤں کو مارنا اور قید کرنا شروع کیا۔ شرفاء بصرہ یہ رنگ دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ آخر علی نے تمام لوگوں کو جنہیں حبشی غلاموں نے قید کر رکھا تھا رہا کر دیا۔ الغرض علی خارجی کا رایت اقبال کامیابی کی ہوا میں لہرانے لگا۔ ملک کے ہر چہار طرف سے زنگی غلام جوق در جوق اس کے جھنڈے تلے آ کر اپنے کو غلامی سے آزاد کراتے جا رہے تھے۔یہ شخص ہر وقت ان لوگوں کو اپنی ولولہ انگیز تقریروں سے ابھارتا اور ملک و مال پر قبضہ کرنے کی تحریص کر رہا تھا۔جب حبشی غلاموں کی ایک بڑی جمعیت اس کے جھنڈے تلے مرنے مارنے کو تیار ہو گئی تو ترکتاز کرتے ہوئے سواد،دجلہ،ایلہ اور قادسیہ کو تاخت وتاراج کیا۔ جہاں کہیں حکام نے مقابلہ کیا ہزیمت اٹھائی۔ان واقعات سے اس کی قوت اور بھی بڑھ گئی۔اہل بصرہ آئندہ خطرات کا لحاظ کر کے چار دفعہ علی کے مقابلہ پر آئے۔ مگر ہر مرتبہ ہزیمت اٹھائی۔زنگیوں نے ہردفعہ ان کے سامان جنگ اور آلات حرب چھینے اورفتوحات سے زنگی غلاموں کی جرأت بہت زیادہ بڑھ گئی۔اس طوفان بلا کے فرو کرنے کو دربار خلافت سے یکے بعد دیگرے دو سپہ سالار بھیجے گئے۔ مگر دونوں ہزیمت کھا کے اورمال واسباب چھوڑ کے بھاگ کھڑے ہوئے۔ زنگی مال ودولت سے مال ومال ہوگئے۔ اہل بصرہ نے پانچویں مرتبہ پھر مقابلہ کیا۔ لیکن شکست کھائی اور ان کے ہزارہا آدمی کام آئے۔ اہل بصرہ نے ان واقعات سے خلیفہ کو مطلع کیا۔ دربار خلافت سے ایک ترک افسر جعلان نام ایک فوج گراں کے ساتھ اہل بصرہ کی کمک پر بھیجا گیا۔چھ مہینہ تک جنگ وپیکار برپا رہی۔ آخر جعلان جنگ سے دست بردار ہو کر بصرہ چلا آیا۔زنگیوں نے کامیابی کیساتھ اس کے لشکرگاہ کو لوٹا۔
علی خارجی کے فتوحات
علی خارجی نے ۲۵۲ھ میں بزور تیغ ایلہ میں گھس کر وہاں کے گورنر عبید اللہ بن حمید اور اس کی مختصر فوج کو تہ تیغ کر دیا اور شہر کو آگ لگا دی۔ایلہ جل کر خاک سیاہ ہوگیا۔ اب اہواز تک
سارا علاقہ علی کے حیطہ اقتدار میںآگیا۔ زنگیوں نے اہواز کو خاطر خواہ لوٹا اورابراہیم بن مدبر وہاں کے عامل کو گرفتار کر لیا۔ اہل بصرہ زنگیوں کے خوف سے شہر خالی کر کے اطراف و جوانب میں بھاگ گئے۔ ۲۵۷ھ میں خلیفہ معتمد نے سعید بن صالح ایک مشہور سپہ سالار کو زنگیوں کی گوشمالی پر متعین کیا۔ سعید نے میدان جنگ میںپہنچ کر زنگیوں پر حملہ کیا او ر پہلے ہی حملہ میںانہیں میدان جنگ سے بھگا دیا۔وہ دوبارہ اپنی قوت کو مجتمع کر کے لڑنے کو بڑھے۔ سعید کو اس معرکہ میں ناکامی ہوئی اور اس کے اکثرساتھی کام آ گئے۔سعید خائب وخاسر دارالخلافہ سامرا (متصل بغداد) واپس چلا آیا۔
اب خلیفہ معتمد نے جعفر بن منصور خیاط کو جو بڑے بڑے معرکوں میں نام پا چکا تھا متعین فرمایا۔ جعفر نے پہلے کشتیوں کی آمدورفت روک دی۔جس سے زنگیوں کی رسد بند ہو گئی۔ اس کے بعد زنگیوں سے جنگ کرنے کو روانہ ہوا۔ مگر شکست کھا کر بحرین چلا آیا۔جس وقت سے جعفر دریا میں زنگیوں سے شکست کھا کر واپس چلا آیا تھا۔ ان کے مقابلے پر جانے سے جی چراتا اور کشتیوں کی اصلاح،خندقوں کی کھدائی اور مورچہ بندی پر اکتفا کر رہا تھا۔ اس اثناء میں علی بن ریان نے جو زنگیوں کا ایک سپہ سالار تھا۔اس پر محاصرہ ڈالنے کی غرض سے بصرہ پر چڑھائی کر دی۔آخر نصف شوال ۲۵۷ھ میں بصرہ کو بزور تیغ فتح کیا اور وہاں کے باشندوں کو نہایت سفاکی سے قتل و غارت کرکے واپس آیا۔اس پر بھی اس کے بیرحم دل کو تسکین نہ ہوئی۔ دوبارہ سہ بارہ قتل و غارت کرتا ہوا بصرہ گیا۔ اہل بصرہ نے امان طلب کی ۔علی بن ریان نے امان دے کر لوگوں کو دارالامارۃ میںجمع ہونے کا حکم دیا۔جب تمام لوگ مجتمع ہو گئے تو سب کو جرعہ شہادت پلا دیااور مسجد جامع اوراکثر محلات بصرہ کو آگ لگا دی۔
جب بصرہ کی تباہی و بربادی کی خبریں بغداد(سامرہ) پہنچیں تو خلیفہ معتمد نے ایک سپہ سالار محمد معروف بہ مولد کو ایک لشکر جرار کے ساتھ بصرہ کی جانب روانہ کیا۔مولد رخصت ہو کر بصرہ آیا۔ لوگوں نے رو رو کر زنگیوں کے ظلم و جور کی شکایت کی۔ مولد نے ان کو اور اپنے لشکر کو مرتب کرکے زنگیوں پر دھاوا کیا۔ علی خارجی نے اپنے جنگی افسر یحییٰ بن محمد کو مولد کے مقابلہ پر بھیجا۔دس روز تک لڑائی ہوتی رہی۔ کوئی نتیجہ نہ نکلا۔علی خارجی نے ابو لیث اصفہانی کو یحییٰ بن محمد کی کمک پر بھیجا اور حالت غفلت میں شب خون مارنے کی ہدایت کی۔غرض زنگیوں نے مولد کے لشکر پر شب خون مارا۔ رات بھر۔ صبح سے شام تک لڑائی ہوتی رہی۔ مغرب کے وقت مولد نے شکست کھائی۔ زنگیوں نے اس کے لشکرگاہ کو لوٹ لیا۔ زنگیوںنے جامدہ تک منہزم لشکر کا تعاقب کیا۔
شاہزادہ ابوالعباس کی روانگی اوراسلامی قشون قاہرہ کے فتوحات
اس کے بعد مسلسل نو سال تک دارالخلافہ سے سپہ سالار فوجیں دے کر بھیجے جاتے رہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی زنگیوں کی تاب مقاومت نہ لا سکا۔ سب کے سب تمام مال واسباب اعداء کی نذرکر کے بھاگ آتے رہے۔ آخر خلیفہ نے زنگیوں کی سالہا سال کی کامیابیوںاور عساکر سلطانی کو ہزیمتوں سے ملول ہو کر اپنے بھتیجے ابوالعباس معتضد بن موفق کو زنگیوں کی مہم پر روانہ کیا۔ ابوالعباس وہ شخص ہے جو آئندہ چل کر خلیفہ معتمد کے بعد سریر خلافت پر متمکن ہوا اور معتضد باﷲ کے لقب سے مخاطب کیا گیا۔ ابو العباس ربیع الثانی ۲۶۶ھ کو دس ہزار فوج پیادہ و سوار کی جمعیت سے زنگیوں کی طرف روانہ ہوا۔علی خارجی نے اس مہم کے لئے بے شمار فوجیں فراہم کی تھیں۔ اس نے سن رکھا تھا کہ ابوالعباس ایک نوجوان شاہزادہ ہے۔ جسے معرکہ آرائی میں مطلق دخل نہیں ہے۔اس سے اس نے یہ خیال قائم کر رکھا تھا کہ اول تو ابو العباس ہماری کثرت فوج سے خائف ہو کر برسر مقابلہ نہ آئے گا اور اگر مقابلہ کرنے کی جرأت بھی کی تو ایک ہی حملہ میں اس کے دانت کھٹے کر دیئے جائیں گے کہ کبھی لڑائی کا نام نہ لے گا۔ ابوالعباس نے ایک قصبہ میں جس کا نام صلح تھا۔پہنچ کر فریق مقابل کی خبریں لانے کے لئے جاسوس دوڑائے۔ جاسوسوں نے آکر اطلاع دی کہ زنگیوں کا لشکر بھی آن پہنچا ہے۔ چنانچہ ان کے لشکر کا پہلا حصہ قصبہ صلح کے کنارے پر ہے اورآخری حصہ لشکر نشیبی واسط تک پھیلا ہوا ہے۔ ابو العباس متعارف راستہ چھوڑ کر غیر معروف راہ سے مقابلہ کے لئے روانہ ہوا۔ اثناء راہ میں غنیم کے مقدمۃ الجیش سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ ابو العباس نے پہلے تو اپنے پر زور حملہ سے زنگیوں کو پیچھے ہٹا دیا۔ مگر مصلحتاً خود پیچھے کو ہٹا۔زنگی اس کی پسپائی سے قوی دل ہو کر بڑھ چڑھ کر حملے کرنے لگے۔ ابو العباس نے اس سے پیشتر دریا کی راہ سے جنگی کشتیوں کا ایک بیڑا بھی روانہ کیا تھا۔ جس کی قیادت ابوحمزہ نصری کے سپرد تھی۔چنانچہ نصیر بھی ابوالعباس کے حسب ہدایت اپنی فوجوں کو ایک طرف لئے پڑا تھا۔ جب زنگی بڑھ چڑھ کر حملہ آور ہونے لگے تو ابوالعباس نے للکار کر کہا نصیر! کیا دیکھتے ہو؟۔ یہ کتے اب آگے نہ بڑھنے پائیں۔ نصیر یہ آواز سن کر ایک دوسری جانب سے جس طرف کہ زنگیوں کو کوئی وہم وگمان بھی نہ تھا۔ اپنا اپنا ٹڈی دل لئے ہوئے نکل پڑا۔زنگی حواس باختہ ہو گئے اور کچھ سوجھائی نہ دیا کہ کیا کریں۔ عالم سراسمیگی میں دریا کی طرف بھاگے۔ ابوالعباس نے رومال یا جھنڈی کے اشارہ سے جنگی کشتیوں کی فوج کو بھی معاً حملہ کاحکم دیا۔غرض حبشی چاروں طرف سے حملہ کی زد میں آگئے۔ آخر گھبرا کر جدھر راستہ پایا بھاگ کھڑے ہوئے۔ عساکر خلافت نے چھ کوس تک تعاقب
کیا اور جو کچھ غنیم کے لشکر گاہ میں تھا لوٹ لیا۔یہ پہلی فتح تھی جو شاہی فوج کو سالہا سال کی متواتر اور مسلسل ہزیمتوں کے بعد زنگیوں کے مقابلہ میں نصیب ہوئی۔
ابوالعباس نے واسط سے ایک کوس ہٹ کر پڑاو کیا۔اب دونوں فریق ازسر نو اپنی اپنی فوج کی اصلاح اور ضروریات حرب کی ترتیب میں مصروف ہوئے۔ایک ہفتہ کے بعد زنگیوں کا ایک سپہ سالار سلیمان بن جامع اپنے لشکر کو تین حصوں میں منقسم کر کے تین طرف سے حملہ کرنے کی غرض سے ابو العباس کی طرف بڑھا اور چند دستہ فوج کو کشتیوں پر سوار کر کے براہ دریا حملہ کرنے کا حکم دیا۔ ابو العباس اور نصیر نے اپنی ہمت دریائی حملہ کی روک تھام پر مبذول کی اور اس کے مقابلہ میں اپنی فوج کو خشکی پر دست بدست لڑنے کا اشارہ کیا۔ ہنگامہ کارزار گرم ہوا۔ دوپہر تک آتش حرب شعلہ زن رہی۔ ظہر کے قریب زنگی ہمت ہار بیٹھے اور نہایت افراتفری اور بے ترتیبی کے ساتھ بخوف جان بھاگنے لگے۔ ظہر کے بعد زنگیوں کے لشکرمیں عام بھگدڑ مچ گئی۔ ابوالعباس لشکر غنیم کو موت کے گھاٹ اتارنے اور قید کرنے میں مشغول ہوا اور زنگیوں کی جنگی کشتیاں گرفتار کر لی گئی۔ ہزاروں زنگی موت کی گھاٹ اترے۔ ابوالعباس مظفرومنصور اپنے لشکرگاہ کو واپس آیا۔
زنگیوں نے لشکر خلافت کے راستہ میں گڑھے کھود دیئے
زنگیوں نے اپنی ہزیمت وفرار کے بعد خلیفہ المسلمین کے لشکر کی ایذا رسانی کے لئے یہ شیطنت کی کہ آیندہ جس طرف سے لشکر خلافت کا گزر ہونے والا تھا۔ اس راستہ میں بڑے بڑے کنوئیں اور گڑھے کھود کر انہیں گھاس پھوس اور مٹی سے پاٹ دیا۔ ابوالعباس کی فوج اپنی فتح کے نشہ میں سرشار اعداء کی چالوں سے غافل تھی۔بوقت مراجعت اسی راستہ سے ہو کر گزری۔ مگر غنیمت ہے کہ ابھی دو چار ہی سوار ان گڑھوں میں گرے تھے کہ متنبہ ہوگئی۔ شاہی لشکر نے اس راستہ کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کر لی۔ابوالعباس کو زنگیوں کی اس کمینہ حرکت پر سخت طیش آیا اور نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے کام لینے لگا۔پہلی فتح کے بعد عساکر خلافت نے فتوحات کا دروازہ کھولا تو اس کے بعد زنگیوں کو بہت سی ہزیمتوں ہوئیں۔ جن کی تفصیل کو بخوف طوالت قلم انداز کیا جاتا ہے۔جب علی خارجی کو اپنی ناکامیوں کا علم ہوا تو اپنے دونوں سپہ سالاروں علی بن ابان اور سلیمان بن جامع کو متفرق و منتشرہو کر لڑنے پر ملامت کی اور دونوں کو مجموعی قوت سے ابوالعباس کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔اس وقت تک ابوالعباس تنہا زنگیوں کے مقابلہ پر لڑ رہا تھا اور اس نے نصرت الٰہی کے بل پر باوجود نوعمری اور ناتجربہ کاری کے نہایت نمایاں کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ جب خلیفہ کے بھائی موفق کو عساکر خلافت کی فتوحات کا حال معلوم ہوا تو سجدہ شکر بجا لایا اور جب یہ سنا کہ علی
ابن ابان اور سلیمان یکجا ہو کر اس کے بیٹے ابوالعباس پر حملہ آور ہوا چاہتے ہیں تو خلیفہ کے استصواب رائے سے بہ نفس نفیس ۲۶۷ھ میں ایک بھاری فوج کے ساتھ بغداد سے کوچ کر دیا۔ جب واسط پہنچا تو اپنے ہونہار فرزند ابوالعباس سے ملا۔ موفق نے ابوالعباس کے فوجی افسروں کو خلعت گرانبہا اور فوج کو انعامات سے سرفراز فرمایا۔ ابوالعباس باپ سے رخصت ہو کر لشکرگاہ میں واپس آیا۔ دوسرے دن موفق نے نہر شداد پر جا کر قیام کیا۔ تیسر ے روز ابوالعباس نے محاصرہ کے قصد سے منیعہ کی طرف کوچ کیا۔ موفق بھی دریا کی طرف سے منیعہ کی طرف بڑھا اور ۸ ربیع الثانی ۲۶۷ھ کو دونوں باپ بیٹا نے دو طرف سے منیعہ پر دھاوا کیا۔ زنگیوں کو موفق کی خبر نہ تھی۔دریا کی طرف سے حالت غفلت میں جھرمٹ باندھ کر ابوالعباس کے مقابلہ پر جمع ہوئے۔آتش جنگ شعلہ زن ہوئی۔ اس اثناء میں موفق نے دریا کی طرف سے حملہ کر دیا۔ زنگی فوجیں اس اچانک اور غیر متوقع حملہ سے بدحواس ہو کر جوں ہی حفاظت شہر کی طرف مائل ہوئیں۔ ابو العباس کے سپاہی بھی انہی کے ساتھ شہر میں گھس پڑے۔زنگیوں کا خوب قتل عام ہوا۔ ہزاروں زنگی قید ہوئے۔ موفق اس فتح کے بعد اپنے کیمپ میں واپس آیا۔ تقریباً ڈیرھ ہزارمسلم خواتین زنگیوں کے پنجہ ظلم سے رہا کی گئیں۔ بے حساب رسد وغلہ ہاتھ آیا۔زنگیوں کا سپہ سالار شعرانی اپنی بچی کھچی ہزیمت خوردہ فوج کو لے کر جنگل میں جا چھپا۔
منصورہ پر عساکر خلافت کا قبضہ
اس اثناء میں جاسوسوں نے موفق کی خدمت میں حاضر ہو کر گوش گزار کیا کہ سلیمان ابن جامع اس وقت حوانیت میں مقیم ہے۔ موفق یہ سن کر اٹھ کھڑا ہوا۔ فوج کو فوراً تیاری کا حکم دیا۔ اپنے ہونہار فرزند ابوالعباس کو دریا کی راہ سے جنگی کشتیوں کو لے کر بڑھنے کر اشارہ دیا اور خود خشکی کی راہ سے کوچ کر کے منیعہ پہنچا۔زنگیوں سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ شام تک ہنگامہ کارزار گرم رہا۔ رات کے وقت ایک زنگی افسر نے ابوالعباس کے پاس آ کر امان کی درخواست کی۔ابوالعباس نے امان دے کر سلیمان بن جامع کا حال دریافت کیا۔اس نے جواب دیا کہ ابن جامع اس وقت اپنے شہر منصورہ میں مقیم ہے۔ابن جامع نے طہشا کو منصورہ کے نام سے موسوم کر رکھا تھا۔ ابوالعباس یہ سن کر اپنے باپ موفق کی خدمت میں واپس آیا اور اسے ان واقعات سے مطلع کیا۔ موفق نے فوراً منصورہ کی طرف بڑھنے کا حکم صادر کیا اور خود بھی اس کے بعد ہی کوچ کر دیا۔ طہشا(منصورہ) کے قریب پہنچ کردو میل کے فاصلہ پر مورچہ بندی کی۔دوسرے دن زنگیوں سے مقابلہ ہوگیا۔ دن بھر لڑائی ہوتی رہی۔آخر مغرب کا وقت
آگیا۔ موفق اپنے کیمپ کو واپس آیا اور زنگیوں کا لشکر منصورہ واپس گیا۔
موفق نے آخر شب میں بیدار ہو کر اپنے لشکر کو مرتب کیااور جنگی کشتیوں کو دریا کی راہ سے منصورہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔اس اثناء میں سپیدہ صبح نمودار ہوا۔ موفق نماز صبح باجماعت ادا کر کے دیر تک مالک الملک جل سلطانہ کی جناب میں حضور قلب سے دعا کرتا رہا۔ جوں ہی افق پر سرخی نمایاں ہوئی۔ دھاوا کا حکم دے دیا۔ عساکر خلافت کا ایک دستہ شیر غران کی طرح ڈکارتا ہوا شہرپناہ کے قریب پہنچ گیا۔ ابوالعباس اس دستہ کا قائد تھا۔ زنگیوں نے سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا۔ دوپہر تک بڑے زوروشور سے لڑائی ہوتی رہی۔ آخر زنگیوں کے پیراکھڑ گئے۔عساکر خلافت نے تعقب کیا۔ زنگیوںنے اپنی خندقوں کے پاس پہنچ کر پھر لڑائی شروع کی۔ اس اثناء میں جنگی کشتیاں دریا کی راہ سے شہر کے کنارے پر پہنچ گئیں۔ خلیفہ کی دریائی فوج نے خشکی پر اترکر شہر کے ایک حصہ پر قبضہ کر لیا اور اس اثناء میں ابوالعباس کا دستہ فوج خندق پر لکڑی کا ایک مختصر سا پل بنا کر عبور کر گیا۔ زنگیوں نے گھبرا کر شہر میں داخل ہونے کا قصد کیا۔ مگر ناکام رہے۔کیونکہ ایک حصہ پر اس سے قبل خلیفہ کی فوج قابض ہو چکی تھی اور لحظ بہ لحظہ بقیہ حصہ شہر بھی سپاہ خلیفہ کے قبضہ میں جا رہا تھا۔ غرض زنگی بری طرح منہزم ہوئے۔ ہزاروںقتل اور ہزارہا قید کئے گئے۔ابن جامع بقیتہ السیف کو لے کر بھاگ گیا۔ فاتح فوج نے دشمن کا تعاقب کیا۔مگر ابن جامع بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ موفق نے کامیابی کے ساتھ شہر پر قبضہ کر لیا۔دس ہزار مسلمان عورتوں اور بچوں کو جن میں زیادہ تر سادات کے زن وفرزند تھے۔خارجیوں کی غلامی سے نجات دلائی گئی۔سلیمان بن جامع کے اہل و عیال بھی گرفتار ہو گئے۔ اس کے بعد موفق اور زنگیوں میں متعدد لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں لشکر خلافت ہمیشہ مظفر ومنصور رہا۔موفق نے غنیم کے اکثربلاد فتح کر لئے۔۲۹ ذی الحجہ ۲۶۷ھ کو زنگیوںکے مقابلہ میں جو فتح ہوئی۔ اس کے بعد زنگیوں کے بعض منہزمین نے امان اور جان بخشی کی درخواست کی۔ جس کو موفق نے بطیب خاطر منظور فرمایا۔ زنگیوں کا نامور سپہ سالار ریحان بن صالح مغربی بھی امان کا طالب ہوا۔
شہر مختارہ کا محاصرہ اور بہبود زنگی کی ہلاکت
اب عساکر خلافت نے شہر مختارہ کا محاصرہ کیا۔موفق اور اس کے فرزند نے مختار کے قریب پہنچ کر دو میل کے فاصلہ پر ڈیرے ڈال دیئے۔موفق نے رات کے وقت نقشہ جنگ اور فصیلوں کی کیفیت کا معائنہ کرنے کے لئے شہر کے اردگرد چکر لگایا۔ فصیلیں نہایت مستحکم تھیں۔ چاروں طرف چوڑی چوڑی خندقیں شہر کو اپنے آغوش حفاظت میں لئے ہوئے تھیں۔موفق نے شہر
پناہ کی مضبوطی دیکھ کر امید و بیم کی کشمکش میں مراجعت کی۔ علی الصباح دریا کی راہ سے کشتیوں کے ساتھ ابوالعباس کو بڑھنے کا حکم دیا اورخود فوج مرتب کر کے خشکی کی راہ سے مختارہ پر دھاوا کیا۔ ابوالعباس نے نہایت چابک دستی سے اپنی جنگی کشتیوں کو شہر پناہ کی دیوار سے ملادیا۔قریب تھا کہ خشکی پر اتر پڑتا۔ زنگیوں نے دیکھ لیا۔ شوروغل مچاتے ہوئے دوڑ پڑے اور منجنیقوںسے سنگ باری شروع کردی۔ موفق نے یہ رنگ دیکھ کر ابوالعباس کو واپس آنے کا اشارہ کیا ۔ابوالعباس کی کشتیوں کے ساتھ زنگیوں کی دو کشتیاں بھی ملاحوں اور سپاہیوںسمیت چلی آئیں۔ ان لوگوں نے امان کی درخواست کی۔موفق نے نہ صرف انہیں امان دی۔ بلکہ انعام واکرام سے بھی نوازا اور مرہون منت کیا۔ اس حسن سلوک کا یہ اثر ہوا کہ طالبان امان کی آمد شروع ہو گئی۔ علی خارجی نے یہ رنگ دیکھ کر فوراً دہانہ دریا پر چند آدمیوں کو مامور کیا۔ تا کہ اس کی جنگی کشتیاں حریف کے سایہ عاطفت میں جا کر طالب امان نہ ہو سکیں۔اب علی خارجی نے اپنے امیر البحر بہبود زنگی کو دریا کی طرف سے حملہ کرنے کا حکم دیا۔ ابوالعباس مقابلہ پرآیا۔ نہایت خون ریز جنگ کے بعد بہبود کو شکست ہوئی۔اس کے بعد بہبود نے یہ شیوہ اختیار کیا کہ ایک جنگی کشتی پر تھوڑی سی فوج لئے ہوئے دریا میں گشت کرتا رہتا تھا۔ چونکہ اس نے مسلمانوں کو مغالطہ دینے کے لئے اپنی کشتی پر عباسی پھریرا نصب کر رکھا تھا۔ اسلامی جنگی کشتیوں کا بیڑا یہ خیال کر کے کہ یہ بھی کوئی اسلامی کشتی ہے۔ معترض نہ ہوتا اور یہ موقع پا کر ان پر ہاتھ صاف کر جاتا تھا۔ایک بار ابو العباس کے کان میں بہبود کے کرتوت کی بھنک پڑ گئی اور ابو العباس کے ہاتھ بھی لگ گیا۔مگر کسی طرح بھاگ جانے میں کامیاب ہوگیا۔اس کے بعد حسب معمول ایک اسلامی کشتی پر حملہ آور ہوا۔ اہل کشتی نے نہایت بہادری سے مقابلہ کیا۔جس وقت دونوں کشتیاں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں۔ موفق کے ایک غلام نے لپک کر اس کے پیٹ میں ایک ایسا نیزہ مارا کہ جگر کے پار ہو گیا۔ بہبود تڑپ کر دریا میں گر گیا اور ہمیشہ کے لئے دریا کے جگر میںبسیرا کر لیا۔ موفق نے اہل کشتی اور اس غلام کو انعامات دئیے۔جس طرح بہبود کا مارا جانا موفق کے فتوحات کبریٰ کا پیش خیمہ تھا۔ اسی طرح یہ زنگیوں کے ادبارکا بھی مقدمہ تھا۔اس شخص کے مارے جانے سے عسکراسلامی کو بہت بڑی راحت اورعافیت نصیب ہوئی۔
مختارہ کا محاصرہ اور پچاس ہزار زنگیوں کا حلف اطاعت
۱۵شعبان ۲۶۷ھ کو موفق نے پھراپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا۔ پچاس ہزار عباسی فوج کا سیلاب دریا اور خشکی کی طرف سے مختارہ کی طرف بڑھا۔اس معرکہ میں زنگیوں کی تعداد تین لاکھ تھی۔ مگر موفق نے باوجود قلت تعداد اس خوبی سے شہر کا محاصرہ کیا کہ حریف کے دانت کھٹے
کردیئے۔ موفق نے منادی کرا دی کہ جس شخص کو اپنی جان عزیز ہو۔ وہ ہم سے امن کا خواستگار ہو اور جس کو اپنی جان دوبھر ہو۔ اپنے مال و اسباب کو لاوارث، بچوں کو یتیم اور بیویوں کر بیوہ کرنا ہو، وہ ہماری شمشیر ہائے خارا شگاف کے مقابلہ پر آئے۔ یہ رعایت خاص وعام باشندگان مختارہ اور زنگی فوج کے لئے ہے۔ خواہ سردار ہوں یا سپاہی۔ اس مضمون کے رقعے بھی لکھ لکھ کر اور تیروں سے باندھ کر شہر میں پھنکوائے۔چنانچہ اکثر زنگی سپاہیوں اور مختارہ کے باشندوں نے حاضر ہو کر امان کی درخواست کی۔جنہیں موفق نے امان دینے کے ساتھ خلعت اورانعامات سے سرفراز فرمایا۔ ان نوازشات کا نتیجہ یہ ہوا کہ محاصرہ میں لڑائی کی نوبت نہیں آئی۔بلاجدال و قتال علی خارجی کا جتھہ ٹوٹ گیا اور اس کے اکثر ساتھی اس سے علیحدہ ہو کر موفق کے لشکر میں چلے آئے۔ مختارہ محصور تھا۔ مگر موفق پھر بھی لوگوںکو اپنے احسان اور حسن سلوک سے گرانبار کر رہا تھا۔ اس حکمت علمی سے ہزارہا زنگی آئے دن گرویدہ احسان ہو کر موفق کے لشکر میں چلے آرہے تھے۔ چنانچہ رمضان کے اخیر تک پچاس ہزار زنگیوںنے عباسی علم کے سایہ میں آکر حلف اطاعت اٹھایا۔
موفق مختارہ کو حالت محاصرہ میں چھوڑ کر وہاں سے ایک مقام پر خیمہ زن ہوا۔ وہاں موفقیہ نام ایک شہر آباد کرنے کاحکم دیا۔ شہر کا بنیادی پتھر اپنے ہاتھ سے رکھا۔ فوجی چھاونی اور جنگی کشتیاں بنانے کا حکم دیا۔تھوڑے دنوں میں فوجیوں، سرداروں اور عوام کے بے شمار مکان تیار ہوگئے۔ جامع مسجد بن گئی اور دارالامارۃ کی تعمیر بھی تکمیل کو پہنچ گئی۔ تمام ممالک محروسہ میں آبادی کے لئے تجار کے نام گشتی فرمان بھیج دیئے۔ بات کی بات ہر قسم کے سامان اورمایحتاج کی دکانیں کھل گئیں۔ کھانے پینے کے ضرورتیں مہیا ہونے لگیں۔ موفق ایک مہینہ تک اسی انتظام میں مصروف رہا۔
لشکر اسلام پر حالت نماز میں حملہ کرنے کی سازش
ماہ شوال میں علی خارجی نے طول محاصرہ اور طوالت قیام بلاقتال سے مضطرب و پریشان ہو کر اپنے سپہ سالار علی بن ابان کو موفق پر حملہ کرنے کے غرض سے روانہ کیا اور ہدایت کردی کہ رات کے وقت تاریکی میں بغیر روشنی کے دریا عبور کرواور نہایت تیزی سے چار پانچ کوس کا چکر کاٹ کر صبح صادق کے نمودار ہونے پر ایسے وقت میں کہ موفق کی فوج ادائے نماز میں مصروف ہو۔ پس پشت حملہ کر دو اور جونہی تم حملہ کرو گے میں بھی معاً مقابلہ پر آجاؤںگا۔ علی نے اس رائے کو نظر استحسان سے دیکھ کر تیاری کر دی اور اس قرارداد کے بموجب آدھی رات سے پہلے دریا عبور کر گیا۔ جاسوسوں نے یہ خبر موفق تک پہنچا دی۔ موفق نے اسی وقت ابوالعباس کو علی بن ابان کی مدافعت
ومعرکہ آرائی پر روانہ کیا۔ابوالعباس نے بیس جنگی جہاز اور پندرہ کشتیاں دریا کی حفاظت پر مامور کیں۔ تا کہ علی بن ابان بحالت ہزیمت دریا عبور نہ کرسکے اور خود ایک ہزار سواروں کی جمعیت سے اس راستہ پر جا کر کمین گاہ میں چھپ رہا جس طرف سے علی آنے والا تھا۔ جونہی علی ابن ابان اس راہ سے گذرا۔ ابوالعباس نے حملہ کر دیا۔زنگی اس اچانک و غیر متوقع حملہ سے بے اوسان ہو کر بھاگے۔ عباسی سواروں نے تلواریں نیام سے کھینچ لیںاور زنگیوں کو اپنی شمشیر زنی کا خوب تختہ مشق بنایا۔ زنگی مخبوط الحواس ہو کر دریا کی طرف بھاگے۔بحری فوج عبور کی راہ میں حائل ہوئی اکثر زنگی کام آئے۔ بہتیرے دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے اور بے شمار قید کر لئے گئے۔ صبح ہوتے ہوتے لڑائی کا خاتمہ ہوگیا۔
طلوع آفتاب کے قریب ابوالعباس نے میدان جنگ ہی میں نماز صبح ادا کی۔پھر قیدیوں اور مقتولوں کے سروں کو لئے ہوئے اپنے باپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔موفق نے اسے فرط محبت سے گلے لگا لیا۔ دعائیں دیں۔لڑائی کے حالات استفسار کئے۔ اور دوپہر کے قریب حکم دیا کہ قیدیوں اور مقتولوں کے سروں کو کشتیوں میںبار کر کے علی خارجی کے محل سرائے کے سامنے دکھلانے کی غرض سے لے جائو۔ علی خارجی اور اس کے پیرووں کو اس واقعہ کی ہنوز کوئی اطلاع نہ تھی۔ تمسخر سے کہنے لگے موفق نے یہ رنگ اچھا جمایا ہے۔زنگی دلاوروںکو خوفزدہ کرنے کی کوشش میں ان سیاہ بخت زنگیوں کو قیدی بنایا ہے جو شامت اعمال سے اس کے پاس جا کر امان کے خواہاں ہوئے اور یہ سر تمام مصنوعی ہیں۔ انسانوں کے سر نہیں۔ مگر خوب نقل اتاری ہے۔ جاسوسوں نے خارجی کا یہ مقولہ موفق کے گوش گذار کیا۔ موفق نے حکم دیا کہ ان سروں کو منجنیقوں (جنگی گوپھنوں) میں رکھ کر محصوروں کے پاس پھینک دو۔جب ایسا کیا گیا تو ایک ہنگامہ قیامت برپا ہو گیا۔ جو دیکھتا چلانے لگتا۔ علی خارجی بھی سروں کے دیکھنے کو آیا۔ضبط نہ کر سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
اس کے بعد ابوالعباس اور زنگیوں میں متعدد دریائی لڑائیاں ہوئیں۔ سب میں ابوالعباس فتح مند رہا۔ حتیٰ کہ زنگیوں کی رسدآنا بند ہو گئی۔ اتنے میں شہر کا غلہ بھی اختتام کے قریب پہنچ گیا۔ زنگیوں کے بڑے بڑے سورما اور نامی سردارفاقہ کشی اور شدت محاصرہ سے تنگ آ کر شہر سے نکلے اورامان کی درخواست کی۔ موفق نے انہیں امان دے کر صلے دیئے اوراپنے خاص مصاحبین کے زمرہ میں داخل کرلیا۔ علی خارجی نے اپنی روز افزوں،ابتری کا احساس کر کے اپنے دو افسروں کو دس ہزار فوج کی جمعیت سے شہر کی غربی جانب سے نکل کر تین طرف سے عساکر خلافت پر حملہ آور ہونے اور رسد کی آمد بند کرنے کا حکم دیا۔جاسوسوں نے جھٹ یہ خبر موفق کے
کانوں تک پہنچا دی۔ جب زنگیوں نے دریا سے خشکی پر اترنے کا قصد کیا تو خلیفہ کے لشکر نے اچانک حملہ کردیا۔ ہزاروں قتل ہوئے۔سینکڑوں نے دامن دریا میں جا بسیرا کیا اور باقی ماندہ گرفتار ہو گئے۔ زنگیوں کی چار سو کشتیاں گرفتار کر لی گئیں۔اس معرکہ سے زنگیوں کی رہی سہی قوت بھی ٹوٹ گئی۔اس پر طرہ یہ تھا کہ چونکہ موفق کے پاس پناہ گزینوں کی تعداد یوماًفیوماً بڑھتی جاتی تھی۔ اس لئے محاصرین کی قوت ترقی پذیراور محصورین کی جمعیت زوبزوال تھی۔علی خارجی نے دوبارہ ناکہ بندی کا انتظام کیا۔ چیدہ چیدہ سرداروں کو راستہ کی محافظت پر مامورکیا اور دوافسروں کو حکم دیا کہ موفق کے لشکر میں امان حاصل کر کے جاؤ اور اس سے کہو کہ طول حصار سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ آئو ہم تم کھلے میدان میں لڑ کر اپنی اپنی قسمت کا فیصلہ کر لیں۔
نہروں کا عبور اور فصیل شہر پر محاصرین کا قبضہ
موفق نے اس پیام پر ابوالعباس کو غربی نہر کی جانب حملہ کرنے کو روانہ کیا۔شہر کی یہ سمت زنگی سردارعلی بن ابان کے سپرد تھی۔ ہنگامہ کارزار گرم ہوا۔ شوروغل سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے۔دوپہر ہوتے ہوتے ابوالعباس کی فتح اور علی بن ابان کی شکست کے آثار ہویدا ہوئے۔ ظہر کے قریب علی بن ابان اپنے مورچہ سے بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے کو ہٹا۔ اس اثنا میں خارجی نے سلیمان بن جامع کو ایک تازہ دم دستہ فوج کے ساتھ ابن ابان کی کمک پر روانہ کیا۔ جس سے علی کے قدم پھر جم گئے۔ شام تک گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی۔ بالآخر ابوالعباس مظفر و منصور ہوا اور زنگی شہر کی طرف بھاگ نکلے۔
اب موفق نے نہرتراک کی جانب سے عام حملہ کرنے کا ارادہ کیا اورحکم دیا کہ نہر کے عبور کرنے کا پورا سامان رات ہی کے وقت سے مہیا رکھا جائے۔ موفق نے افسروں سے فرمایا خدا پر توکل رکھو۔اسلام کی عزت رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ضرور ہم کو ہمارے ارادوں میں کامیاب فرمائے گا۔سرداران فوج حملہ کی تیاری میں مصروف ہوئے۔ علی الصباح تیار ہو کر موفق کے خیمہ کے پاس آئے اور سلامی دی۔ موفق نے لشکر کو مرتب کر کے نہر اتراک کے عبور کا حکم دیا اور خود بھی ۲۶ ذی الحجہ ۲۶۷ھ کو بسم اللہ مجریہا و مرسٰہا پڑھتا ہوا لشکر کے ساتھ چلا۔ شہر کا یہ حصہ جس طرف موفق کا لشکر سیلاب کی طرح بڑھا جاتا تھا نہایت مضبوط تھا۔ موقع موقع پر منجنیقیں نصب تھیں۔ آلات حرب بھی بکثرت موجود تھے۔علی خارجی سلیمان بن جامع اور علی بن ابان بھی اسی طرف تھے اور بظاہر یہاں کی تسخیر بالکل محال نظرآتی تھی۔
علی خارجی نے موفق کے لشکرکو اس طرف بڑھتا دیکھ کر سنگ باری کا حکم دیا۔ منجنیقیں
نہایت تیزی سے چلنے لگیں۔ تڑاتڑ پتھر بسنے لگے۔قدراندازوں نے روح وتن کر فیصلہ کرنے کو تیر کمانیں اٹھا لیں۔ ایسی حالت میں نہر کا عبور کرنا اور پھر عبور کے بعد شہر پناہ کی دیواروں کے قریب پہنچنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جب موفق کا لشکر نہر کے قریب پہنچا تو اس جاںستان و زہرہ گداز منظر کو دیکھ کر آگے بڑھنے سے رک گیا۔ موفق نے للکار کے کہا۔ میرے شیرو! کیا یہ منجنیقیں جنہیں یہ سیاہ بخت زنگی چلا رہے ہیں تمہارے عزم و ثبات اور مردانگی کی راہ میں حائل ہو جائیں گی؟۔ مجھے یقین ہے کہ تمہاری جوانمردی اور دلاوری کے مقابلہ میں ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ یہ آواز نہ تھی بلکہ ایک برقی قوت تھی جو چشم زدن میں لشکر کی اس طرف سے دوسرے سرے تک دوڑ گئی۔ جاں نثاران ملت بے تامل بات کی بات نہر عبور کر گئے۔ نہ تیروں کی برسات کا خوف کیا۔ نہ سنگباری کی کچھ پروا کی۔اب موفق کا لشکر شہر پناہ کی دیوار کے نیچے پہنچ کر اسے منہدم کرنے اور سیڑھیاں لگا کر اس پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔خلیفہ کے بہادر سپاہی سیڑھیاں لگا کر فصیل شہر پر چڑھ گئے اور لڑ بھڑ کر اس پر قبضہ کر لیا۔ دولت عباسیہ کا علم نصب کر دیا گیا۔ منجنیقوں اورآلات حصار شکنی میں آگ لگا دی۔زنگیوں کا ایک جم غفیر مارا گیا۔
زنگیوں کی مزید ہزیمتیں
دوسری طرف ابوالعباس مصروف پیکار تھا۔اس کے مقابلہ میں زنگی سپہ سالار علی بن ابان گیا ہوا تھا۔ابوالعباس نے اس کو پہلے ہی حملہ میں شکست دی اور ہزاروں زنگی تہ تیغ ہوئے۔ علی بن ابان نے بھاگ کر شہر پناہ کا دروازہ بند کر لیا۔ابوالعباس کا فتح مند لشکر جوش کامیابی میں دیواروں تک پہنچ گیا اور اس میں ایک روزن کر کے بزورتیغ گھس پڑا۔سلیمان بن جامع سینہ سپر ہوکر مقابلہ پر آگیا۔آخر ابوالعباس اپنی فوج لے کر واپس آ گیا اور زنگی مزدورں نے فوراً اس روزن کو بند کر دیا۔ مگر دوسری طرف موفق کی فوج نے شہر پناہ کی دیواروں میں متعدد روزن کر لئے اور خندق پر ایک ہنگامی پل بھی بنا لیا جس سے بآسانی تمام لشکر شاہی عبور کر گیا۔ یہ دیکھ کر زنگیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ شاہی فوج بعض کو قتل اور بعض کو گرفتارکرتی دیر ابن شمعان تک چلی گئی اور اس پر قبضہ کر کے آگ لگا دی۔اس مقام پر زنگی خوب جان توڑ کر لڑے۔ مگر آخرکار شکست کھا کر اپنے مقتداء کے پاس جا دم لیا۔ خارجی خود سوار ہو کر میدان کارزار میںآیا اوراپنے لشکر کو جوش دلا دلا کر لڑانے لگا۔ مگر کسی کے قدم نہ تھمتے تھے۔ہر شخص لڑنے پر بھاگنے کو ترجیح دیتا تھا۔آخر علی خارجی کے خاص خاص افسر بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔اتنے میں رات کی تاریکی نے فتح مند فوج کو حملہ سے روک دیا اور موفق اپنی فوجوں کو لے کر واپس آگیا۔
محرم ۲۶۸ھ میں زنگیوں کے ایک بہت بڑے معتمد علیہ اور نامور سپہ سالار جعفر بن ابراہیم معروف بہ سبحان نے موفق کی خدمت میں حاضر ہوکر اطاعت و انقیاد کی گردن جھکا دی اور امان کا خواستگار ہوا۔موفق نے اسے امان دے کر خلعت فاخرہ سے سرفراز فرمایا اور انعام و اکرام سے گرانبار کیا۔دوسرے دن خارجی کو دکھانے کی غرض سے اس کو ایک چھوٹی سی کشتی پر سوار کرا کر علی خارجی کے محل سرا کی طرف روانہ کیا۔ خارجی کے چند فوجی افسر محل سرا سے اس رنجدہ منظر کو دیکھ رہے تھے۔ جس وقت سبحان کی کشتی محل سرا کے قریب پہنچی۔سبحان نے ایک دلچسپ اور معنی خیز تقریر میں علی خارجی اور اس کے ساتھیوں کے معائب اور خلیفہ اور اس کے وابستگان دولت کے حسن اخلاق کو بالتفصیل بیان کیا اور واپس چلا آیا۔ اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ زنگیوں میں باہم سرگوشیاں ہونے لگیں۔بہت سے نامی روسا اور منتخب سردار مخفی طور پر موفق کے پاس طلب امان کے لئے کشاں کشاں چلے آرہے تھے۔
اب موفق نے انہدام شہر پناہ کی طرف عنان توجہ پورے طور پر منعطف کی اور راستہ کے فراخ کرنے میں سر توڑ کوشش کرنے لگا۔ اکثر خود بھی مزدوروں کے ساتھ شہر پناہ کی دیوار منہدم کرنے میں شریک ہو جاتا تھا اور کبھی جوش میں آ کر شمشیر بکف میدان جنگ میں جا پہنچتا۔آخر کئی روز کی جنگ اور شبانہ روز جانکاہیوں کے بعد نہر سلمٰی کی جانب شہر پناہ کا بہت بڑا حصہ منہدم ہوگیا۔ شہرکی شمالی جانب دو پل تھے۔ جن پر اس وقت تک محاصرین کا قبضہ نہ ہوا تھا۔ محصورین اکثر انہی پلوں سے عبور کر کے شاہی لشکر پرآپڑتے تھے اور نقصان کثیر پہنچا کر واپس چلے جاتے تھے۔ موفق نے ان پلوں کی حالت سے مطلع ہو کر ایسے وقت میں جبکہ زنگیوں سے گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی ایک دستہ فوج مزدوروں کی معیت میں ان کے توڑنے پر بھیج دیا۔ زنگیوں نے مزاحمت کی۔ مگر ناکام رہے۔ شاہی لشکر نے اسے دوپہر تک توڑ ڈالا۔اس کے بعد موفق کی ہمرکاب فوج ایک اور جانب سے شہر پناہ کی دیوار توڑ کر گھس پڑی اور قتل غارت کرتی ہوئی ابن شمعان کے مکان تک بڑھ گئی۔ جہاں علی خارجی کے دودفاتر تھے۔زنگیوں نے ہر چند مزاحمت کی۔ مگر کامیاب نہ ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد شہرپناہ کی دیوار منہدم ہو گئی اور فتح کے آثار نمایاں ہو چلے۔
موفق کا شدید مجروح ہونا اور معرکہ کارزار کا سہ ماہ التوا
مگر سوئے اتفاق سے ۲۵ جمادی الاول ۲۶۹ھ کو ایک معرکہ میں موفق کے سینہ پر ایک تیر آلگا۔ چونکہ زخم بہت گہرا تھا صاحب فراش ہو گیا۔لڑائی ملتوی ہو گئی۔ آخر تین مہینہ کے بعد زخم مندمل ہوا۔ بڑی دھوم دھام سے غسل صحت کیا اور عساکر اسلامیہ میں پھر چہل پہل نظر آنے لگی۔
لشکریوں کے دل خوش اور چہرے ہشاش بشاش ہو گئے۔لیکن زنگیوں نے اس مدت میں شہر پناہ کی منہدم دیواروں کو پھر درست کر لیا اور حفاظت کے لئے جا بجا فوجیں متعین کردیں۔موفق نے حصول صحت کے بعد پھر دھاوا کیا اور شہر پناہ کے توڑنے کا حکم صادرفرمایا۔اسلامی فوجیں سیلاب کی طرح شہر پناہ کی دیواروں سے نہر سلمیٰ کے قریب جا کر ٹکر کھانے لگیں۔ جنگ کا بازار گرم ہوگیا۔ زنگی لشکر غازیان اسلام کی مدافعت پر کمر بستہ تھا اور مسلمان تھے کہ جان پر کھیل کر پلے پڑتے تھے۔ ایک دن جبکہ اس طرف جنگ جانستان نمونہ قیامت پیش کر رہی تھی۔موفق نے جنگی بیڑے کو نشیبی نہرابن خصیب کی جانب سے حملہ کرنے کا اشارہ کیا۔امیرالبحر نے حکم پاتے ہی اپنے بیڑہ کو اس تیزی سے وہاں پہنچا دیا کہ زنگیوں کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ وہ بے خبری میں اپنی پوری حربی طاقت سے نہر سلمیٰ کے قریب عساکر اسلامیہ سے مصروف پیکار رہے۔ادھر بحری فوج نے زنگیوں کے ایک محل سرا کو جلادیا۔جو کچھ پایا لوٹ لیا۔ اورسکان محل کو گرفتار کر لیا۔غروب کے وقت عساکر خلافت مظفر ومنصور میدان کارزارسے فرودگاہ پر واپس آئے۔اگلے دن نمازصبح ادا کرکے دھاوا کیا۔ اسلامی مقدمۃ الجیش انکلا خبیت کے محل تک قتل و غارت کرتا ہوا پہنچ گیا۔علی بن ابان سپہ سالار نے نہروں میں جو محل سرائے کے چاروں طرف تھیں پانی جاری کرنے اور خلیفۃ المسلمین کے لشکر کے بالمقابل متعدد خندقیں کھودنے کا حکم دیا۔ تا کہ وہ انکلا کے محل تک نہ پہنچنے پائے۔
کشتیوں کی چھتوں پر مانع احراق ادویہ کا ضماد
موفق نے حریف کی اس کاروائی سے مطلع ہو کر فوراً اپنی ہمرکاب فوج کو چار دستوں میں تقسیم کر کے ایک کو خندق اور نہر کے پاٹنے پر متعین فرمایا اوردوسرے دستہ فوج کو دجلہ کی جانب سے خارجی کے قصر پر حملہ کا اشارہ کیا۔اسی تیسرے دستہ کو للکار للکار کر لڑا رہا تھا۔جونہی جنگی کشتیاں شہرپناہ کے قریب پہنچیں اوپر سے سنگباری اورآتشباری ہونے لگتی۔ مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑتا تھا۔ایک شبانہ روز اسی طرح تصادم رہا۔ موفق نے یہ رنگ دیکھ کر کشتیوں کی چھتوںکو لکڑی کے تختوں سے پاٹ کر انہیں ادویہ مانع احراق سے رنگنے کا حکم دیا۔نفاطین اور نامی جنگ آوروں کی ایک جماعت کو اس بات پر متعین فرمایا۔جو تمام رات اہتمام جنگ میں مصروف رہنے کی وجہ سے نہ سوئی۔ موفق فوج کو بڑھا وے دیتا اوراس سے انعامات کے وعدے کرتا رہا۔اسی رات کو علی خارجی کے سیکرٹری محمد بن شمعان نے حاضر ہو کر امان کی درخواست کی۔موافق نے اسے خلعت سے سرفراز فرمایا اور عزت و احترام سے ٹھہرایا۔اگلے دن صبح ہوتے ہی لڑائی چھڑگئی۔موفق نے زنگیوں کی جمعیت کو پراگندہ ومنتشر کرنے کے خیال سے ابوالعباس کو زنگی سپہ سالاروں کے
مکانات جلانے کا حکم دیا۔ اگلے دن صبح ہوتے ہی لڑائی چھڑ گئی۔موفق نے زنگیوں کی جمعیت کو پراگندہ و منتشر کرنے کے خیال سے ابوالعباس کو زنگی سپہ سالاروں کے مکانات جلانے کا حکم دیا۔ اس اثناء میں تمام جنگی جہازوں کی چھتوں پر ایسی ایسی دواؤںکا ضمادکر دیا گیا تھا جن پر آگ مطلقاً اثر نہ کرتی تھی۔چنانچہ یہ بیڑہ قصر کی جانب دجلہ کی طرف سے بڑھا۔زنگیوں نے آتشباری شروع کی۔ مگر بے نتیجہ رہی۔ جنگی بیڑہ نہایت تیزی سے آتشبازی کرتا ہوا۔علی خارجی کے قصر کے نیچے جا لگا۔ نفاطوں نے روغن نفت کی پچکاریاں بھر بھر کر محل پر پھینکنی شروع کیں۔ چنانچہ اس ترکیب سے قصر کی بیرونی عمارت جلا کر خاک سیاہ کر دی گئی۔ زنگی محل سرا کے اندر جا چھپے۔دجلہ کے کنارے پر جس قدر مکانات تھے۔ اسلامی لشکر نے سب کوآگ لگا دی۔ بڑے بڑے عالیشان ایوان وقصورآگ کا ایندھن بن رہے تھے۔ کوئی فرو کرنے والا نہ تھا۔تمام اسباب کو آگ نے چشم زدن میں نیست و نابود کر دیا اور کچھ اس عام آتشزنی سے بچ رہا۔اسلامی فوج نے پہنچ کر لوٹ لیا۔ قریش اور سادات کی بے شمار خواتین زنگیوں کے قبضہ سے واگزارکرائی گئیں۔زنگی سرداروں کے سربفلک محل جل کر تودہ خاک ہوگئے۔
محصورین کی بد حالی انسان انسانوں کو کھانے لگے
علی خارجی اپنے اور اپنے سرداروں کے مکان جل جانے کے بعد نہرابی حصیب کی شرقی جانب چلا گیا۔ تاجر اور دکانداربھی ادھر کو اٹھ گئے۔ رسد کی آمد بالکل مسدود ہو گئی۔ شہر کے ذخائر تمام ہو گئے اور ضعف واضمحلال کے آثار نمایاں ہوئے۔ محصورین نے پہلے تو گھوڑوں اور گدھوں کا صفایا کیا۔پھر انسانوں نے انسانوںکو کھانا شروع کر دیا۔ مگر باایں ہمہ علی خارجی کی جبین استقلال میں ذرا شکن نہ پڑی۔موفق شرقی جانب کے منہدم کرنے میں اسی سرگرمی سے مصروف رہا جیسا کہ غربی جانب کے انہدام میں مشغول تھا۔ یہ سمت نہایت مستحکم بنی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے دھس اور نہایت بلند اور چوڑی دیواریں چاروں طرف محافظت کر رہی تھیں۔جا بجا منجنیقیںنصب تھیں۔ آلات حصار شکن بھی بکثرت موجود تھے۔اسلامی لشکر اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ موفق نے للکارا۔ مگر بلندی کی وجہ سے نہ چڑھ سکے۔سیڑھیاں لگائیں۔پھر بھی کامیابی نہ ہوئی۔آخر کمند ڈال کر دشمن کے پھریروں کو کھینچا۔ان کاگرنا تھا کہ زنگی بھاگ کھڑے ہوئے۔ نفاطوں نے روغن نفط کی ہزاروں پچکاریاں خالی کر دیں۔ سارا محل لمحہ بھی میں جل کر خاکستر ہو گیا۔ فوج نے اس محل کو بھی خوب لوٹا۔ خارجی کے خاص خاص مصاحب امان کے خواستگار ہوئے۔ موفق نے نہایت سیر چشمی سے انہیں امان دی۔ انعام اور صلے بخشے۔ ان لوگوں نے موفق کو ایک بہت بڑے بازار کا پتہ
بتا دیا۔جو بہار کے نام سے آباد تھا۔اس بازار میں بڑے بڑے تاجر اور ساہوکار رہتے تھے۔ زنگیوں کو اس سے بہت بڑی مدد ملتی تھی۔موفق نے اس پر دھاوا کر دیا اوراسے جلا دینے کے قصد سے نفاطوں کو لے کر بڑھا۔زنگیوں نے جی توڑ کر مقابلہ کیا۔ خلیفہ کے لشکر نے آگ لگا دی۔سارا دن جنگ اور آتشزنی کا بازار گرم رہا۔فریقین کے ہزارہا آدمی کھیت رہے۔ آخر موفق نے مختارہ کی شہر پناہ کو نہر غربی تک جلا کر خاکستر کر دیا۔ اس سمت میں خارجی کے ممتاز فوجی افسر ایک چھوٹے سے قلعہ میں حفاظت کا سامان کئے پناہ گزین تھے۔ جب کبھی موفق کا لشکر مصروف جدال ہوتا تو یہ دائیں بائیں سے نکل کر حملہ آور ہوتے اورسخت نقصان پہنچاتے تھے۔ موفق نے اس قلعہ کو بھی فتح کر لیا اور مسلمان عورتوں اور بچوں کے جم غفیر نے قید کی مصیبت سے نجات پائی۔
شہر پر قبضہ اور علی خارجی کا قتل
۲۷ محرم ۲۷۰ھ کو موفق نے شہر پر قبضہ کر لیا اورمسلم قیدیوں کو رہائی نصیب ہوئی۔ خلیل اورابن ابان گرفتار ہوگئے۔علی خارجی چند فوجی افسروں کو ساتھ لے کر نہر سفیانی کی طرف بھاگ گیا۔ اسلامی فوج تعاقب کرتی ہوئی نہایت تیزی سے اس کے سر جا پہنچی۔گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی۔ بہت سے زنگی افسر مارے گئے۔ کئی ایک بھاگ گئے اور بہت سے گرفتارہوئے۔خارجی بھی تاب مقاومت نہ لا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ آخر منتہائے نہرابی خصیب تک بڑھتا چلا گیا۔چنانچہ عساکر اسلامی نے اس کا تعاقب کر کے اسے جا لیا۔ اس کا سرکاٹ کر نیزے پر چڑھا لیا۔موفق نے سجدہ شکر ادا کیا اورمظفر منصور اپنے خرگاہ میں لوٹ آیا۔انکلا اور مہلبی پانچ ہزار زنگیوں سمیت گرفتار ہوئے۔ موفق نے اس مہم کو سر کرکے بلاد اسلامیہ میں زنگیوں کی واپسی اور امن دینے کا گشتی فرمان نافذ کردیا۔ اور چند روز تک امن و امان قائم کرنے کے خیال سے موفقیہ میں مقیم رہا اور ابوالعباس کو بغداد بھیج دیا۔ ابوالعباس ۱۵جمادی الثانی ۲۷۰ھ کو بغداد پہنچا۔اہل بغداد نے بڑی خوشیاں منائیں اور شہر میں چراغاں کیا گیا۔ زنگیوں کے خانہ ساز نبی نے آخر رمضان ۶۵۵ھ میں خروج کیا تھا۔ انجام کار اپنی حکومت کے چودہ برس چار مہینے بعد یکم صفر ۲۷۰ھ کو ماراگیا اور اس کے تمام مقبوضات از سر نو عباسی علم اقبال کے سایہ میں آ گئے۔ ابن اثیر اور ابن خلدون نے اکثر جگہ زنگیوں کے سردار کا نام حبیت لکھا ہے۔میرے خیال میں یہ علی بن محمد ہی کا دوسرا نام یا لقب ہے۔علی بن محمد اہل بیت نبوت کا بد ترین دشمن تھا۔ خصوصاًامیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ سے سخت عناد رکھتا تھا۔ اس عاقبت نااندیش نے ایک تخت بنوا رکھا تھا۔جسے جامع مسجد کے صحن میں بچھواتا اور اس پر بیٹھ کر امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ پر (معاذ اللہ)لعنت کرتا۔اس کے پیرو بھی
اس شیطنت میں اس کے ہم صفیر ہوتے۔ اس نابکار نے ایک مرتبہ اپنے لشکر میں سادات عظام کی خواتین محرمہ کو دو دو تین تین درم میں بذریعہ نیلام عام فروخت کیا تھا اور ایک ایک زنگی نے دس دس سیدانیاں گھر میں ڈال رکھی تھی۔
(تاریخ کامل عربی ج۶ص۳۲۶،۲۰۶، تاریخ طبری عربی ج ۵ص ۵۶۰،۵۷۵، تاریخ ابن خلدون عربی ج۳ص۳۰۰،۳۲۶)
باب۲۲ … حمدان بن اشعث قرمط
حمدان بن اشعث معروف بہ قرمط سواد کوفہ کے ایک چاہ کن کا بیٹا تھا۔بیل پر سوار ہوا کرتا تھا۔ اس بنا پر اس کو کرمیط کہتے تھے۔ جس کا معرب قرمط ہے۔شروع میں زہد و تقشف کی طرف مائل تھا۔ لیکن ایک باطنی کے ہتھے چڑھ کر سعادت ایمان سے محروم ہوگیا۔ایک مرتبہ گائوں کا ریوڑ دوسرے گائوں کو لئے جا رہا تھا۔ راہ میں اس کو ایک باطنی فرقہ کا داعی ملا۔ حمدان نے باطنی سے پوچھا آپ کہاں جائیں گے؟۔داعی نے اسی گائوں کا نام لیا۔ جہاں حمدان کو جانا تھا۔حمدان نے کہا آپ کسی بیل پر سوار ہو لیں۔ اس نے کہا۔ مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا۔ حمدان نے پوچھا کیا آپ حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے؟۔داعی نے جواب دیا۔ ہاں! میرا ہر کام حکم کے ماتحت انجام پاتا ہے۔ حمدان نے سوال کیا کہ آپ کس کے حکم پر عمل کرتے ہیں؟۔ کہنے لگا میں اپنے مالک اور تیرے اور دنیا وآخرت کے مالک کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔ حمدان نے کہا کہ وہ تو اللہ رب العالمین ہے۔ اس نے کہا تو سچ کہتا ہے۔حمدان پوچھنے لگا۔ آپ وہاں کس غرض سے جارہے ہیں۔ بولا! مجھے حکم ملا ہے کہ وہاں کے باشندوں کو جہل سے علم، ضلالت سے ہدایت اور شقاوت سے سعادت کی طرف لاؤں۔ان کو ذلت و ناداری کے گرداب سے نکالوں اور انہیں اتنا کچھ بخش دوں جس سے وہ تونگر ہو جائیں۔حمدان نے کہا۔ خدا آپ کا بھلا کرئے۔ مجھے بھی آپ جہالت اور ضلالت کے گرداب سے نکالئے اور مجھ پر ایسے علم کا فیضان کیجیے جس سے میں زندہ وجاوید ہو جائوں اور جن امور کا آپ نے ذکر کیا ہے ان کی مجھے اشد ضرورت ہے۔ باطنی فریب کار کہنے لگا۔ مجھے یہ حکم نہیں ہے کہ اپنا سربستہ راز ہر شخص پر ظاہر کرتا پھروں۔ بجز اس شخص کے جس پرمجھے پورا اعتماد ہو اور پھر ایسے معتمد علیہ سے پوری طرح عہد نہ لے لوں۔ حمدان نے کہا آپ اپنے عہد کی تو تشریح فرمایئے۔ میں دل وجان سے اس کی تعمیل اور پابندی کروںگا۔ داعی نے کہا تو اس بات کا عہد کر کہ امام وقت کا بھید جو تجھ پر ظاہر کروں کسی سے نہ کہے گا۔ حمدان نے اسی طرح قسمیں کھائیں اور عہد و میثاق کو استوار کیا۔ جس طرح اس نے خواہش کی۔اب داعی نے اس کو اپنے فنون اغواء کی تعلیم
دینی شروع کی۔ یہاں تک کہ اس کو راہ سے بے راہ کر دیا۔ اس دن سے حمدان الحاد کے سرغنہ اور باطنی فرقہ کے مناد کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ انجام کار اس کے باطنی پیرو اس کی نسبت سے قرمطی یا قرامطہ کہلانے لگے۔
قرمطہ عقاید واحکام
حمدان بن اشعث حسب بیان مقریزی (تلبیس ابلیس عربی ص۸۳)۲۶۴ھ میں اور حسب تحریر ابن خلدون ۲۷۸ھ منصہء شہود پر ظاہر ہوا۔ اس کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ باطنی فرقہ کے خلاف اس نے تاویل کاری کے باطنی اصول کے ساتھ بعض ظاہری احکام کو بھی اپنے مذہب میں داخل کر لیا تھا۔یہ شخص امام محمد بن حنیفہؒ کے فرزند احمد کو رسول اللہ بتاتاتھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ میں ہی مہدی ہوں جس کا زمانہ دراز سے انتظار کیا جا رہا تھا۔چونکہ زہدوتقشف اور صلاح و تقویٰ کا اظہار کرتا تھا۔ اہل دیہات اس کے دعویٰ کو صحیح یقین کر کے اس کے گرویدہ ہوگئے اور متابعت اختیارکی۔ان کا عقیدہ تھا کہ قرمط ہی وہ شخص ہے جس کی احمد بن حنیفہؒ نے بشارت دی تھی۔ اس نے اپنے پیرووں پر رات دن میں پچاس نمازیں فرض کیں۔جب انہوں نے شکوہ کیا کہ نمازوں کی کثرت نے انہیں دنیاوی اشغال اور کسب معاش سے روک دیا ہے تو بولا۔ اچھا میں اس کے متعلق ذات باری کی طرف رجوع کروںگا۔چنانچہ چند روز کے بعد لوگوں کو ایک نوشتہ دکھانے لگا۔جس میں حمدان کو خطاب کرکے لکھا تھا کہ تم ہی مسیح ہو۔تم ہی عیسیٰ ہو۔تم ہی کلمہ ہو۔تم ہی مہدی ہو۔تم ہی محمد بن حنیفہ ہو اور تم ہی جبریل ہو۔ اس کے بعد کہنے لگا کہ جناب مسیح بن مریم علیہما السلام میرے پاس انسانی صورت میں آئے اور مجھ سے فرمایا کہ تم ہی داعی ہو۔تم ہی حجۃ ہو۔ تم ہی ناقہ ہو۔ تم ہی دابہ ہو۔ تم ہی روح القدس ہو۔ اورتم ہی یحییٰ بن زکریا(علیہما السلام) ہو اوربیان کیا کہ پہلے چار دفعہ اللہ اکبر۔ پھر دو مرتبہ اشہدان لا الہ الا اللہ اور پھر ایک مرتبہ یہ کلمات کہیں اشہدآدم رسول اﷲ۔اشہد ان لوطاًرسول اﷲ۔اشہدان ابراہیم رسول اﷲ۔اشہدان موسیٰ رسول اﷲ۔اشہدان عیسیٰ رسول اﷲ۔اشہدان محمدرسول اﷲ۔اشہدن احمد بن محمد بن حنیفہ رسول اﷲ۔ اس نے سال بھر میں صرف دو روزوں کا حکم دیا۔ ایک روزہ ماہ مہر جان کا اور دوسرا نوروز کا، شراب کو حلال اور غسل جنابت کو برطرف کر دیا۔ تمام درندوں اور پنجے سے شکار کرنے والے جانوروں کو حلال بتایا۔ کعبہ معلیٰ کی بجائے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا۔ حکم دیا کہ مرد اور عورتیں مل جل کر نماز ادا کریں۔جمعہ کی جگہ دو شنبہ کو تعطیل منانے کا حکم دیا اور تاکید کی کہ اس دن لوگ کام کاج سے قطعاً دست بردار رہیں۔
(کتاب الخطط مقریزی جلد۴ ص ۱۸۳،کتاب الدعاۃ ص ۱۱۱،۱۱۲)
نماز پڑھنے کا طریقہ
جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے قرآن کی آیات اور ان کے بعض حصوں کے سرقہ کو اپنا کلام وحی بنا لیا ہے(دیکھو کتاب حقیقت الوحی مولفہ مرزا غلام احمد ص ۷۰،۱۰۸، خزائن ج ۲۲ص۷۰،۱۸۱)اسی طرح حمدان نے بھی آیات قرآنی اور احادیث نبویہ کے الفاظ میں قطع و برید کر کے ایک سورت تیار کی تھی اورحکم دیا تھا کہ اس کے پیرو پہلے تو نماز میں تکبیرتحریمی کے بعد وہ استفتاح پڑھیں جو اس کے زعم میں احمد بن حنیفہؒ پر نازل ہوئی تھی اور اس کے بعد قرأت قرآن کی جگہ اسی سورت کو پڑھا کریں۔وہ خودساختہ سورت یہ تھی۔
الحمد ﷲ بکماتہ و تعالی باسمہ المتخز لا ولیائہ باولیائہ قل ان الاھلہ موافق للناس ظاھر ھا لیعلم عدد اسنین والحساب والشہور االایام وباطنہا اولیائی الذی عرفوا عبادی وسبیلی اتقونی یا اولی الالباب وانا الذی لا اسئل عما افعل وانا العلیم الحکیم وانا الذی ابلوعبادی و امتحن خلقی فمن صبر علیٰ بالئی و محنتی و اختیاری القیۃ، فی جنتی داخلدۃ، فی نعمتی ومن زل عن امری و کذب رسلی اخذتہ، مھاناً فی عذابی و اتممت اجلے و اظہرت امری علے السنۃ رسلی وانا الذی لم یعل علی جبار الا وضعتہ ولا عزیز الا ازللتہ ولیس الذی اصرعلے امری ودام علی جھالتہ وقالوالن ابرح علیہ عاکفین و بہ موقنین اولئک ھم الکفرون!
خدا کی حمد وثناء اس کے کلمہ کے ساتھ ادا کرتا ہوں۔ اس کا نام بلند و برتر ہے۔وہ جو اپنے دوستوں کودوستوں سے تقویت دیتا ہے۔کہو کہ لوگوں کے لئے ہلال کے وقت مقرر کر دئے گئے ہیں۔ تا کہ ان سے ظاہر میں برسوں کی تعداد اور حساب اور مہینے اور دن معلوم ہوں اور ہلال کا باطن میرے ان دوستوںکے لئے ہے۔ جنہوں نے میرے بندوں کو میری راہ دکھائی۔اے صاحبان عقل وخرد۔ مجھ سے ڈرو میں وہ ہوں جس سے میرے فعل پر کوئی محاسبہ نہ ہوگا۔ میں جاننے والا اور بردبار ہوں میں وہ ہوں جو اپنے بندوں کو مبتلا کرتا ہوں اور اپنی مخلوق کا امتحان کرتا ہوں جو کوئی میری بلا۔ میری محنت اور میرے اختیار پر صبر کرے گا۔ اسے اپنی جنت میں داخل کروں گا اور اپنی نعمت جاوداں عطا کروںگا۔ اور جس نے میرے حکم سے سرتابی کی اور میرے رسولوں کو جھٹلایا۔ میں اس کو ذلت کے ساتھ عذاب میں مبتلا رکھوں گا۔ میں نے اپنی اجل کا اتمام کیا ہے اور میں نے اپنے امر کو رسولوں کی زبان سے ظاہر فرما دیا ہے۔ میں وہ ہوں کہ جب کوئی سرکش تعلی کرتا ہے تو
اسے پست کر دیتا ہوں اور کوئی جابر اور گردن فراز ایسا شخص نہیں جسے میں ذلیل نہ کردوں۔ وہ آدمی برا ہے جو اپنے فعل پر مصر رہے اور اپنی جہالت پر اڑا رہے اور یہ کہے کہ ہم اس کام پر مصر رہیں گے۔ ایسے لوگ ہی کافر ہیں۔
حمدان نے حکم دیا تھا کہ اس سورہ کے بعد رکوع کریں اور رکوع میں دو تین مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں۔ سبحان ربی رب العزۃو تعالی عما یصف الظالمون! پھر سجدہ میں جائیں اور کہیں اللہ اعلے اللہ اعلے اللہ اعظم اللہ اعظم!
(تاریخ کامل عربی ج۶ ص۳۶۳،۳۶۶،تاریخ ابن خلدون عربی ج ۳ ص۳۳۴)
حمدان کی گرفتاری اور حبس سے فرار
جب حمدان کی جمعیت بڑھنے لگی تو اس نے اپنے پیرووں میں بارہ آدمی نقیب مقرر کئے اور ان کو حکم دیا کہ وہ مختلف بلاد میں پھیل کر اس کے مذہب کی تبلیغ کریں اور ان سے کہا تم حواریان مسیح علیہ السلام کی مانند ہو۔ جب ہیصم عامل کوفہ کو معلوم ہوا کہ حمدان نے دین اسلام کے مقابلہ میں ایک نیا آئین جاری کیا ہے اور اس کی جمعیت دن بدن بڑھ رہی ہے تو اسے گرفتار کر لیا اس خیال سے کہ مبادا کس حیلہ بھاگ جائے۔ قید خانہ کی بجائے اپنے پاس قصر امارت کی ایک کوٹھڑی میں بند کر کے مقفل کردیا۔ اس کی کنجی اپنے تکیہ کے نیچے رکھ دی اور قسم کھائی کہ اس کو قتل کئے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ ہصیم کے گھر کی ایک لونڈی بڑی رحمدل تھی۔جب اسے معلوم ہوا کہ یہ شخص قتل کیا جانے والا ہے تو اس پر رقت طاری ہو گئی۔جب ہصیم سو گیا تو کنجی لے کرکوٹھڑی کا دروازہ کھولا اور حمدان کو آزاد کرکے کنجی اسی جگہ پر رکھ دی۔جب صبح کے وقت ہیصم نے اس غرض سے دروازہ کھولا کہ اسے موت کے گھاٹ اتار دے تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت و استعجاب کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہ غائب ہے۔جب یہ خبر کوفہ میں مشہور ہوئی تو لوگ اس غیبوبت کی وجہ سے فتنہ میں پڑے اور اس کے پیرووں نے یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ خدائے قدوس نے حمدان کو آسمانوں پر اٹھا لیا۔ لیکن اس کے بعد مضافات میں مریدوں اوربعض دوسرے لوگوں سے اس کی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے پوچھا کہ حاکم کوفہ نے تو آپ کو مقفل کر رکھا تھا۔ آپ کس طرح نکل آئے۔ بڑے ناز وغرورسے کہنے لگا۔ کوئی شخص میری آزار رسانی میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ سن کر ان کی عقیدت پہلے سے بھی دو چند ہو گئی۔ چونکہ اسے ہر دم یہ خطرہ رہتا تھا کہ دوبارہ گرفتار کر لیا جاؤں گا۔ اس لئے نواح شام کی طرف بھاگ گیا۔ کہتے کہ قرمط نے علی بن محمد خارجی کے پاس جا کر کہا تھا کہ میں ایک مذہب کا بانی اور نہایت صائب الرائے ہوں۔ اور ایک لاکھ مبارز میرے پیرو ہیں۔ آؤ ہم اور تم مذہبی
مناظرہ کر کے ایک خیال و مذہب پر متفق ہو جائیں۔ تا کہ بوقت ضرورت ایک دوسرے کے معین ومددگاررہیں۔ علی بن محمد خارجی نے اس رائے کو پسند کیا۔ چنانچہ بہت دیرتک مذہبی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی۔ لیکن متفق الرائے نہ ہو سکے۔اس لئے قرمط واپس آکر عزلت نشین ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا کوئی حال معلوم نہ ہو سکا۔اس کے مذہب کاایک اصول یہ تھا کہ جو شخص قرمطی مذہب کا مخالف ہو۔ اس کا قتل واجب ہے اور جو شخص مخالف ہو اور برسر مقابلہ نہ ہو۔ اس سے جزیہ لیا جائے۔
(ایضاً ص ۳۶۶)
ابو سعید جنابی اور اس کا بیٹا ابو طاہرقرمطی ، زکرویہ، یحییٰ بن زکرویہ، اور علی بن فضل یمنی جنہوںنے عرصہ دراز تک عالم اسلام کے خلاف ہلچل مچائے رکھی۔ اسی قرمط کے چیلے چانٹے یا ماننے والے تھے۔ اسلام پر چند اولیں صدیوں میں جو آفتیں نازل ہوئیں اور پیروان توحید کو جن مصائب وآلام سے دوچار ہونا پڑا۔ ان میں سے ایک فتنہ قرامطہ بھی ہے۔ان ملاعنہ کی قوت یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ خلفائے بنی عباس تک ان بھیڑیوں کا نام سن کر کانپ جاتے تھے۔آخر میں تو یہ مصر کے سلاطین بنی عبید کی گرفت سے بھی آزاد ہوگئے تھے اور خراسان سے شام تک ہرشہران کے دست ستم سے چیخ اٹھا تھا۔ یہ لوگ یہاں تک کورباطن اور معاندین اسلام تھے کہ بیت اللہ کے ہدم پر آمادہ ہو گئے اور حجر اسود کو اکھاڑ کر عمان لے گئے جو ان کا مستقر دولت تھا۔ اس حادثہ جانگداز کی تفصیل ابو طاہر قرمطی کے تذکرہ میں آئے گی۔
ہندوستان میں قرمطی مذہب کا حدوث
باب ۱۷ میں علامہ عبدالقاہر کی کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘ کے حوالہ سے لکھا جا چکا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے ملتان آ کر باطنیوں کو خوب گوشمال کیا تھا۔ لیکن تاریخ فرشتہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دراصل باطنی نہیں تھے۔ بلکہ قرمطی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں تو قرمطی بھی باطنیہ ہی کی ایک شاخ ہے۔ لیکن ان میں ایک بین فرق یہ ہے کہ قرامطہ نے عام باطنی مسلک کے خلاف بعض ظاہری احکام کو بھی جز مذہب بنا لیا تھا۔اس کے علاوہ قرامطہ نے یہوداسماعیلیہ اور خوارج کے فرقہ ازاراقہ کے بعض اصول بھی اپنے کیش و مذہب میں داخل کرلئے تھے۔ حمدان قرمط ۲۶۴ھ یا ۲۷۸ھ میں ظاہر ہوا تھا۔چونکہ باطنیہ کی طرح قرمطی مناد بھی اپنے مذہب کی نہایت سرگرمی سے اشاعت کرتے رہتے تھے۔ اس لئے یہ مذہب دور دور تک پھیل گیا۔ یہاں تک کہ قریباً سواسو سال کے بعد ہندوستان میں سندھ اور ملتان نے بھی قرمطی اثر قبول کر لیا تھا۔ تواریخ ہند کا مطالعہ کرنیوالوں کو معلوم ہوگا کہ ۳۹۶ھ میں سلطان محمود غزنوی ملتان پر لشکرکشی
کرنے کے لئے غزنی سے ہندوستان آیا تھا۔اس یورش کی وجہ یہ تھی کہ ابو الفتح داود بن نصیر قرمطی والی ملتان نے اپنی قلمرو میںقرمطی الحاد و زندقہ پھیلا رکھا تھا۔اس سے قطع نظر ابوالفتح سلطان کو بعض دوسری مہمات میں منہمک پا کر بعض ایسی حرکات ناشائستہ کا مرتکب ہوا تھا جو سلطان پر سخت شاق گزریں۔ حالانکہ ابوالفتح کا باپ نصیر اور اس کا دادا شیخ حمید امیر سبکتگین اور خود سلطان محمود سے ہمیشہ رابطہ،خلوص اور نیاز مندانہ طریق ادب ملحوظ رکھتے تھے۔ ابوالفتح سلطان کی آمد کی خبر سن کر سخت سراسیمہ اور بدحواس ہوا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ سلطان ان حدود کو اسی کی بداعمالیوں کی سزا دینے کے لئے آ رہا ہے۔اب اس نے بجز اس کے کوئی چارہ کار نہ دیکھا کہ راجہ انند پال والی لاہور کو سلطان کو پیش قدمی سے مطلع کر کے اس سے مدد مانگے۔ چنانچہ راجہ نے ازراہ عاقبت نااندیشی اپنے جذبات تعصب سے مغلوب ہوکر فوراً ابوالفتح کا ساتھ دینے کی ٹھان لی۔ جھٹ لاؤ لشکر لے کا عازم پشاور ہوا اور راستہ ہی میں کسی جگہ سلطان کا سد راہ ہوا۔سلطان، انند پال کی یہ جسارت دیکھ کر سخت برھم ہوا اورحکم دیا کہ زندقہ ملتان کی تو بعد میں خبر لی جائے گی۔ پہلے انند پال کو اس جرأت کی قرار واقعی سزادی جائے۔غرض عساکر محمودی نے راجہ کی فوج کو مار مار کر اس کے پڑخچے اڑا دیئے اور میدان جنگ میں ہر طرف کشتوں کے پشتے دکھائی دینے لگے۔ راجہ نے بری طرح شکست کھائی اور بقیۃ السیف کو لے کر بھاگا۔ لشکر سلطانی نے دریائے چناب کے کنارے قصبہ سوہدرہ تک اس کا تعاقب کیا۔ جب راجہ نے دیکھا کہ لشکر سلطانی کسی طرح پیچھا نہیںچھوڑتا تو لاہور کی سمت چھوڑ سراسیمہ وار کشمیر کی طرف بھاگا۔ سلطان نے یہ حکم دے کر کہ اب راجہ جدھر جاتا ہے جانے دو۔ملتان کا رخ کیا۔ابوالفتح کے اوسان خطا ہوئے اور یہ دیکھ کرکہ آج تک جس کسی نے سلطان سے جنگ آزمائی کا حوصلہ کیا۔ چاہ مذلت میںگرااورخاک نامرادی اپنے چہرہ بخت پرڈالی۔ قلعہ بند ہوکرنہایت عجزوزاری کے ساتھ کہلابھیجا کہ میں قرمطی مسلک سے توبہ کرتا ہوں اورعہدکرتا ہوںکہ ہر سال بیس ہزار درم سرخ بطور خراج بارگاہ سلطانی میںبھیجتا رہوںگا اور الحاد وزندقہ سے احترازواجتناب کر کے اپنی قلمرو میں احکام شرعی جاری کروں گا۔ سلطان نے اس درخواست کو منظور کیا اور سات روز کے بعد محاصرہ اٹھا کر غزنی کی طرف مراجعت کی۔مگر ابوالفتح کی یہ پیشکش محض دفع الوقتی پر مبنی تھی۔ سلطان کی مراجعت کے بعد اس معاہدہ کو بالائے طاق رکھ دیا۔ اس لئے سلطان۴۰۰ھ میں فتح و نصرت کے پھریرے اڑاتا ہوا دوبارہ ملتان آیا اور قرمطی حکومت کا نام ونشان مٹا دیا۔بہت سے قرامطہ و ملاحدہ تہ تیغ ہوئے۔سلطان ابوالفتح کو اس کی بد عہدی کی پاداش میں گرفتارکرکے غزنی لے گیا اور غور کے قلعہ میں قید کر دیا۔یہاں تک کہ وہ حالت سجن ہی میں
بارحیات سے سبکدوش ہو گیا۔ سلطان کے جانشین مدت مدید تک ملتان پر حکومت کرتے رہے۔ لیکن جب دولت غزنویہ میں زوال و انحطاط کے آثار نمایاں ہوئے تو قرامطہ پھر ملتان پر چڑھ دوڑے اوروہاں از سرنوعمل ودخل کر لیا۔آخر سلطان معزالدین محمد سام نے انہیں منہزم کر کے علاقہ ملتان کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔
یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ جب سلطان محاصرہ ملتان سے دست کش ہو کر غزنی کو واپس گیا تو راجہ انند پال پھر لاہور آ براجا۔انندپال کو یقین تھا کہ اب کی مرتبہ سلطان کبھی جرم بخشی نہ کرے گا۔ اس لئے بجائے عفو جرم کی درخواست کے ابھی سے حرب وقتال کی تیاریوں میں مصروف ہوا۔ جب سلطان کو اس جنگی تیاریوں کی اطلاع ہوئی تو راجہ انند پانی کو گوشمالی کے لئے پھر عنان توجہ ہندوستان کی طرف پھیری۔ یہ خبر سن کر انند پال سخت بدحواس ہوا اور دھرم کا واسطہ دے کر ہندوستان بھر کے ہندوستان بھر کے ہندو راجاؤں سے سلطان کے مقابلہ میں مدد مانگی۔ چنانچہ اجوبن، گوالیار، کالنجر، قنوج دہلی اور بہت سی دوسری ریاستوں کے راجے اپنا اپنا لاؤ لشکر لے کر سلطان سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے پنجاب میں آموجود ہوئے۔ لیکن تائید ایزدی سلطان کی پشت پناہ تھی۔ اس نے ہندوستان بھر کی متحدہ افواج کو فیصلہ کن شکست دی۔اب راجہ انند پال کے حواس درست ہوئے اور نہایت تضرع و ابتہال کے سات طالب عفو درگزر ہوا۔سلطان بڑا رحم دل بادشاہ تھا۔اس نے راجہ کے تمام سابقہ جرائم پر خط عفو کھینچ کر اس کو پنجاب کی حکومت پر بحال کر دیا۔ لیکن اب انند پال ایسا سیدھا ہوا کہ اس کے بعد اس سے کبھی ایسی حرکت سرزد نہ ہوئی۔جومزاج ہمایوں کے خلاف ہوتی۔ چنانچہ جس سال سلطان نے تھانیسر کاعزم کر کے پنجاب سے گزرنے کا قصد کیا تو اس خیال سے کہ عبورراہ کے وقت راجہ کی مملکت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ انند پال کے پاس پیغام بھیجا کہ میں تھانیسر کا عازم ہوں۔ مناسب ہے کہ تمہارے چند امراء ہمارے موکب ہمایونی میں مشایعت کریں۔ تا کہ تمہارا ملک ہماری فوج کی پامالی سے محفوظ رہے۔ راجہ انندپال اطاعت پذیری کو بقائے دولت کا ذریعہ یقین کر کے بعجلت تمام اسباب ضیافت مہیا کرنے میں مصروف ہوا اوراپنی مملکت کے تاجروں اور بقالوں کو حکم دیا کہ ہر قسم کی ضروریات اور اجناس لشکر سلطانی میں لے جا کر ایسا انتظام کریں کہ کسی چیز کی تھڑ نہ آنے پائے اور دو ہزار سوار اپنے بھائی کے ہمراہ کر کے شہنشاہ کواکب سپاہ کے حضور میں بھیجے اور ہر طرح سے اظہار عجز ونیازی کیا۔
(تاریخ فرشتہ ص۱۲۵،۱۲۸ج۱)
ہندوستان میں بمبئی،گجرات اوردکن کے بوہرے انہی قرامطہ کی یادگار ہیں جو ایران
اورعراق سے سندھ اور ملتان میں آئے اور ان میں بعض حکمران بھی رہے اور گو ان کے اسلاف کے خیالات میںاور اسماعیلی عقاید میں بعد المشرقین تھا۔ تاہم مرور زمانہ کے ساتھ یہ لوگ آہستہ آہستہ اسماعیلی مذہب کی طرف مائل ہوتے گئے۔چنانچہ آج کل ان لوگوں نے راسخ الاعتقاد اسماعیلیوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
باب ۲۳ … ابو سعید حسن بن بہرام جنابی قرمطی
۲۸۱ھ میں ایک شخص یحییٰ بن مہدی نام قطیف مضافات بحرین میں وارد ہو کر علی بن معلی بن حمدان کے مکان میں فروکش ہوا اور بیان کیا کہ مجھے حضرت مہدی آخر الزمان علیہ السلام نے اپنا ایلچی مقرر کرکے روانہ فرمایا ہے اور عنقریب وہ بھی خروج کیا چاہتے ہیں۔ مورٔخوں نے نہیں بتایا کہ یہ کس خانہ ساز مہدی کا داعی تھا۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ یہ عبید اللہ کا پیام بر ہوگا۔ کیونکہ ان ایام میں اسماعیلی دعاۃ نے عبید اللہ کے حق میں نہایت زبردست پروپیگنڈا شروع کررکھا تھا۔
شیعان قطیف سے جعلی مہدی کے مطالبات
یحییٰ کا میزبان علی بن معلی نہایت غالی شیعہ تھا۔اس نے شیعان قطیف کو جمع کرکے مہدی کا خط جس کو یحییٰ نے پیش کیا تھا پڑھ کر سنایا۔ تا کہ مضافات بحرین میں اس کی خبرکی شہرت ہوجائے۔ ہم اہل سنت و الجماعت بھی حضرت محمد بن عبداﷲ معروف بہ مہدی علیہ السلام کی تشریف آوری کے متوقع ہیں۔ لیکن روایات صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا ظہور مکہ معظمہ میں ایسے دورآشوب میںہوگا۔ جبکہ قیامت کی علامت قریبہ کا ظہور شروع ہو چکا ہوگا۔ اس کے برخلاف شیعہ لوگ ہر زمانہ میں حضرت مہدی علیہ السلام کے کوکبۂ جلال کے منتظر رہے ہیں۔ چنانچہ آج کل بھی وہ رات دن حضرت مہدی علیہ السلام کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا کرتے ہیں۔ شیعان قطیف نے خانہ ساز مہدی کے خط کو نہایت خلوص اور اطاعت شعاری کے ساتھ سنا اور سب نے حلف اٹھایا کہ جب حضرت مہدی علیہ السلام ظہور فرما ہوں گے۔ ہم ان کے ہمرکاب اعداء سے لڑیںگے۔ ان شیعان قطیف کا سرگروہ ابوسعید جنابی تھا۔ جو خروج کے لئے بپھر رہا تھا۔یحییٰ اس واقعہ کے بعد تھوڑے دن کے لئے غائب ہو گیا۔ دوسری مرتبہ کہیں سے ایک اور خط لے آیا جس میں فرضی مہدی کی طرف سے اہل قطیف کی اطاعت پذیری اور اقراررفاقت کا شکریہ ادا کیا تھا اور لکھا تھا کہ ہر شیعہ چھتیس چھتیس دینار (قریباً ایک سو اسی اسی روپیہ) یحییٰ کی نذر کرے۔ بوالعجبی دیکھو کہ شیعان قطیف نے اس حکم کی بطیب خاطر تعمیل کی اور جس کسی کو اتنا زرنقد میسر نہ تھا
اس نے قرض دام کر کے جس طرح بھی بن پڑا اس مطالبہ کو پورا کیا۔ یحییٰ ہزارہا روپیہ وصول کر کے پھرغائب ہو گیا۔چند روز کے بعد تیسرا خط لایا جس کا یہ مضمون تھا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے مال کا خمس (پانچواں حصہ) امام الزمان کے لئے یحییٰ کے حوالے کرے۔شیعان قطیف کی خوش اعتقادی اور مذہبی حمیت دیکھو کہ انہوں نے اس خواہش کا بھی نہایت خندہ پیشانی اور کمال مستعدی سے خیر مقدم کیا۔ غرض یحییٰ بن مہدی آئے دن قبائل قیس میں ایک نہ ایک خط یہ ظاہر کر کے کہ یہ مہدی آخر الزمان کی جانب سے ہے برابر پیش کرتا رہا۔ انہی ایام میں حسب بیان ابراہم صانع ایک مرتبہ یحییٰ بن مہدی سعید جنابی کے گھر آیا اورسب نے مل کر کھانا کھایا۔ کھانے سے فارغ ہو کر ابو سعید گھر سے نکلا اور اپنی بیوی سے کہتا گیا کہ وہ یحییٰ کے پاس جا کر اسے اپنی طرف مائل کرئے اور اگر آمادہ ہو جائے تو انکار نہ کرے۔جب اس شرمناک واقعہ کی اطلاع حاکم قطیف کو ہوئی تو اس نے یحییٰ کو گرفتار کر کے بری طرح پیٹااور اس کا سر اور داڑھی مونڈادی۔ یہ دیکھ کر ابوسعید اپنے اصل وطن موضع جنابا کو بھاگ گیا اور یحییٰ بہزار ذلت ورسوائی قبائل بنی کلاب عقیل وخریس کے پاس چلا گیا۔یہ لوگ ابو سعید کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ابو سعید جنابی کی جمعیت بہت بڑھ گئی۔
(الکامل فی التاریخ ج۶ص ۳۹۷)
بصرہ اور ہجرکی تسخیر اور قیدیوں کا زندہ نذرآتش کیا جانا
ظاہر ہے کہ حصول جمعیت کے بعد ابو سعید کا جذبہ خروج جو بہت دن سے عمال خلافت کے خلاف عربدہ جوئی کے لئے بپھر رہا تھا۔ کسی ہنگامہ خیزی کے بغیر کسی طرح تسکین نہیں پا سکتا تھا۔ اس لئے وہ خروج مہدی علیہ السلام کی طرف سے خالی الذہن ہو کر خود ہی ۲۸۶ھ میں دعویٰ مہدویت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔پہلے قرب وجوار کے قصبات و دیہات کو تاراج کیا۔ پھر بعزم تسخیر بصرہ کی طرف عنان عزیمت موڑ دی۔ احمد بن محمد بن یحییٰ واسطی والئی بصرہ نے دربار خلافت میں اس قضیہ کی اطلاع کی۔ خلیفہ معتضد باﷲ نے محافظت بصرہ کے خیال سے شہر پناہ بنانے کا حکم دیا۔ جس کی تعمیر پر چودہ ہزار دینار صرف ہوئے۔ جس وقت ابو سعید ۲۸۷ھ میں بصرہ کے قریب پہنچا۔ بغداد سے بھی عباس بن عمر غنوی عامل فارس دوہزار سوار لئے ہوئے بصرہ کی مدافعت کو آپہنچا۔ سواروں کے علاوہ متطوعہ یعنی رضاکار پیادوں اور غلاموں کا بھی جم غفیر تھا۔ بصرہ سے تھوڑے فاصلہ پرابو سعید سے تصادم ہوگیا۔ صبح سے شام تک بڑے زوروشور سے آتش جنگ شعلہ زن رہی۔دوسرے دن پھر لڑائی شروع ہوئی۔ جس میں ابوسعید کی فتح ہوئی۔ اور عباس غنوی گرفتار ہو گیا۔ ابو سعید کی فوج نے شاہی لشکر گاہ کو چاروں طرف سے گھیر کر لوٹ لیا اور جس قدر مبارز ہاتھ
آسکے قید کر لئے۔ اب ابوسعید نے سینکڑوں من لکڑی جمع کرائی اور اس کو آگ دکھا دی۔جب شعلے بلند ہوئے تو اس کی فوج ایک ایک مسلمان قیدی کو اٹھااٹھا کر زندہ آگ میں جھونکتی گئی۔ یہاں تک کہ تمام قیدی دنیاوی آگ میں جل کر باغ جنان کو چلے گئے۔ابو سعید نے اس جنگ سے فراغت پا کر ہجر کا عزم کیا اور بلا مزاحمت وہاں پر قبضہ کرلیا۔
(ایضاًص۳۹۸)
ابو سعید بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود بڑا زندیق تھا۔ گو قرمطی مشہور تھا۔ لیکن قرامطہ کے مسلک کے خلاف باطنی طریقہ کا دلدادہ تھا۔ کہتا تھا کہ حشر و نشر اور معاد و حساب کے سارے قصے فضول اور من گھڑت ہیں اور جو شخص کسی کو صوم و صلوٰۃ وغیرہ ظاہری اعمال کی ترغیب دے۔ اس کا قتل کرنا واجب ہے۔(کتاب لمختارللجوبری و ابن خلدون) یہ شخص انتہا درجہ کا سفاک تھا۔ اس نے بے شمار مسلمانوں کو جرعہ شہادت پلایا۔بہت سی مسجدیں منہدم کیں۔سینکڑوں مصاحف مقدس نذرآتش کئے اوربیشمارعازمان حج کے قافلے لوٹے۔ان تمام سفاکیوں کے باوجود وحی آسمانی کا مدعی تھا۔جب لڑائی لڑتا تو کہتا کہ مجھے ابھی ابھی فتح و ظفر کا وعدہ دیا گیا ہے۔
(تلبیس ابلیس عربی ص۸۴)
ابو سعید کا قتل
۳۰۱ھ میں ابو سعید اپنے خادم صقلبی کے ہاتھ سے حمام میں مارا گیا۔اس کا کام تمام کرکے خادم، ابو سعید کی قوم کے ایک رئیس کبیر کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ چلئے! میرا آقا آپ کو یاد کرتا ہے۔ وہ آیا تو اس کوبھی ہلاک کر دیا۔ پھر ایک اور قرمطی رئیس کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میرے سردار نے آپ کو طلب فرمایا ہے ۔وہ آیا تو اس کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔اسی طرح دو اور سربرآوردہ قرمطیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ان کی جان ستانی کے بعد پانچویں کے پاس جا کر اس کو بغرض قتل بلا لایا۔ لیکن وہ آتے ہی صورت حالات کو بھانپ گیا اور صقلبی کا ہاتھ پکڑ کر چیخنے چلانے لگا۔ لوگ آ جمع ہوئے اورعورتیں رونے لگیں صقلبی اور اس پانچویں شخص میں تھوڑی دیر تک مقابلہ ہوتا رہا۔ آخر لوگوں نے آکر صقلبی کی گردن مار دی۔ابو سعید نے اپنے بڑے بیٹے سعید کو اپنا ولی عہد بنا رکھا تھا۔ لیکن اس کا چھوٹا بیٹا ابوطاہر سلیمان اپنے بڑے بھائی سعید کو مغلوب کر کے باپ کا جانشین ہو گیا۔ خلافت عباسیہ میں ان دنوں کوئی دم خم باقی نہ تھا۔ خلیفہ بغداد میں اتنی سکت نہ تھی کہ اسے مغلوب و مقہور کر کے مسلمان قیدیوں کو چھڑا لے۔ناچار قاصدوں کے ہاتھ ایک خط بھیجنے پر اکتفا کیا اور ان کو حکم دیا کہ مسلمان قیدیوں کی رہائی کی سلسلہ جنبانی کر کے اس سے مناظرہ کریں اوراس کے فساد مذہب کے دلائل پیش کریں۔ ابوسعید نے خلیفہ کی چٹھی کی طرف کوئی التفات نہ کیا
اور چٹھی قاصدوں کے ہاتھ واپس بھیج دی۔جب قاصد ہجر سے لوٹ کر بصرہ پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ ابوسعید مارا گیا ہے اور اس کا بیٹا ابو طاہر اس کا جانشین ہوا ہے۔ قاصدوں نے بغدادآکرخلیفہ کو اپنی ناکامی سفارت کی اطلاع دی۔خلیفہ نے کہا کہ اب تم ابوطاہرکے پاس خط لے جاؤ۔ چنانچہ قاصد دوبارہ ہجر گئے۔ ابو طاہر نے قاصدوں کا اعزاز واکرام کیا۔ قیدیوں کو رہا کر کے بغداد بھیج دیا اور خط کا بھی جواب لکھ بھیجا۔
(الکامل فی التاریخ ج۶،ص۴۸۲)
ابوسعید جنابی کے مرنے کے بعد اس کے پیرؤوںنے اس کی قبر پر بڑا گنبد تعمیر کر کے اس پر گچ کا ایک پرندہ بنا دیا اور مشہور کیا کہ جب یہ پرندہ پرواز کرے گا تو ابو سعید اپنی قبر سے اٹھ کھڑا ہوگا۔ ان گم کردگان راہ نے اس کی قبر کے پاس گھوڑا باندھا اور خلعت، کپڑے اور ہتھیار رکھے۔ ان لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ جو شخص مر جائے اور اس کی قبر کے پاس گھوڑا باندھا جائے تو وہ جب کبھی اٹھے گا سوار ہو گااور اگر گھوڑا نہ باندھا گیا ہوگا تو پا پیادہ ٹھوکریں کھاتا پھرے گا۔ ابو سعید کے پیرؤوں کے دلوں میں اس کی اتنی وقعت تھی کہ جب ان کے سامنے اس کا نام لیا جاتا تو اس پر درود بھیجتے۔ لیکن حضرت سید الاولین وآلاخرین علیہ التحیہ والسلام کا ذکر مبارک آتا تو درود نہ بھیجتے اور کہتے کہ جب ہم رزق ابو سعید کا کھاتے ہیں تو ابوالقاسم (سید کائناتﷺ) پر کیوں درود بھیجیں۔
(تلبیس ابلیس ص۸۴)
باب۲۴ … زکرویہ بن ماہروقرمطی
زکرویہ بن ماہروقرمط کا ایک داعی تھا۔ حامل وحی اورحضرت مہدی علیہ السلام کے ایلچی ہونے کا مدعی تھا۔اس کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ میری سواری کا ناقہ مامور ہے جو شخص اس کے ہمراہ ہوگا وہ ہمیشہ فتح یاب ہوگا۔یہ شخص اس امر کا احساس کر کے قرامطہ کے نیست ونابود کر دینے کی کوشش میں خلیفۃالمسلمین کی طرف سے فوجوں پر فوجیں سواد کوفہ کی طرف بھیجی جا رہی ہیں۔دفاع کے لئے کھڑا ہوا۔پہلے بنو اسد اور طے کے بادیہ نشینوں کے پاس گیا اور قرمطی مذہب کے نشروتوزیع کی کوشش کی۔ ان لوگوں نے اس تحریک کو نفرت و استکراہ کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ اب اس نے اپنے بیٹوں کو قبیلہ کلب بن وبرہ میں بھیجا۔ انہوں نے بھی انکار کیا۔البتہ اس قبیلہ کی ایک شاخ جسے قلیص بن ضمضم بن عدی کہتے تھے۔اس مذہب کی طرف مائل ہوگئی اور زکرویہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کی رفاقت اختیارکی۔خلیفہ معتضد عباسی کا غلام شبل نام رصافہ کی جانب سے زکرویہ پر حملہ آور ہوا۔لیکن زکرویہ فتحیاب ہوا اور شبل شہید ہو گیا۔ زکرویہ فتح کے شادیانے بجاتا ہوا واپس گیا۔اب
خلافت مآب کی طرف سے احمد بن محمد طائی کے غلام نے اس کا نام بھی شبل تھا فوج کشی کی۔ زکرویہ نے اس کے مقابلہ میں اپنے ایک فوجی سردار ابوالفوارس خلف بن عثمان کو فوج دے کر روانہ کیا۔ شبل کو فتح نصیب ہوئی اور ابوالغوارس گرفتار ہوگیا۔ شبل نے اسے بغداد لا کر دربار خلافت میں پیش کیا۔
خلیفۃ المسلمین کو قیدی کا طعنہ کہ آل عباسؓ کو خلافت کا کوئی استحقاق نہیں
خلیفہ معتضد نے ابوالفوارس کو خطاب کر کے فرمایا کہ کیا تم لوگوں کا واقعی یہ اعتقاد ہے کہ حق تعالیٰ اور اس کے انبیائے کرام کی روحیں تمہارے جسموں میں حلول کر گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے تم لوگ اپنے تئیں گناہوں اورلغزشوں سے معصوم سمجھتے ہو؟۔ابوالفوارس نے ناک بھوں چڑھا کر جواب دیا۔اگرہم میں روح اللہ نے حلول کیا ہے تواس میں تمہارا کیا نقصان ہے اوراگر روح ابلیس حلول کرگئی ہے تواس سے تمہیں کیا فائدہ؟۔اس کے بعد بولا۔ اس لغو بیانی کو چھوڑو اور کوئی ایسی بات کروجو فائدہ بخش اور نتیجہ خیز ہو۔ خلیفہ معتضد نے کہا کہ اچھا تم ہی ان باتوں کو چھیڑو جن سے فائدہ اور نفع کی امید ہو۔ کہنے لگا کہ جب رسول خدا ﷺ نے اس دارفانی سے کوچ کیا تو تمہارے مورث اعلیٰ عباس بن عبدالمطلبؓ بقید حیات موجود تھے۔مگر نہ تو خود خلافت کے مستدعی ہوئے اورنہ لوگوں نے ان سے بیعت کی۔ ابوبکرؓ نے وفات پائی تو عمر ؓ کو اپنا جانشین بناگئے۔اس وقت بھی عباس ؓ زندہ تھے اور عمرؓ کے پیش نظر تھے۔ مگر عمر ؓ نے نہ تو عباسؓ کو اپنا ولی عہد بنایا اور نہ انہیں ارباب حل وعقد کی جماعت میں جو چھ افراد پر مشتمل تھی داخل کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمہارا مورث اعلی امر خلافت کا مستحق نہ تھا۔کم از کم ابوبکر اور عمر(رضی اللہ عنہما) نے تمہارے مورث کو اس مہتمم بالشان ذمہ داری کا اہل نہ سمجھا۔پھر حیرت ہے کہ تم لوگ کس استحقاق سے مدعی خلافت ہو اور خلیفہ بنے بیٹھے ہو؟۔ خلیفہ معتضد سے اس اعتراض کا کچھ جواب نہ بن پڑا۔جھلااٹھا اور حکم دیا کہ اس کی کھال کھینچ کر جوڑ الگ کر دو۔ اس فرمان کی فوراًتعمیل ہوئی اور اس بدنصیب نے آناًفاناً زندگی کی رسوائی سے نجات پائی۔
(الکامل فی التاریخ ج۶ص۴۰۹،۴۱۰،ابن خلدون عربی ج۳ ص۳۴۹،۳۵۰)
مجلس شوری پر انتخاب سلیفہ کا انحصار
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ معتضد کے علمی اور تاریخی معلومات بہت محدود تھے۔ ابولفوارس کے اعتراض کا یہ جواب تھا کہ خلفائے بنو امیہ (باستشنائے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ) نہایت ظالم اور فاسق تھے۔ بنو فاطمہؓ میں سے پہلے حضرت امام حسینؓ نے پھر ان کے پوتے جناب
زید بن امام زین العابدینؓ نے پھرحضرت زید کے فرزند یحییٰ بن زیدؒ نے مختلف اوقات میں بنو امیہ سے انتزاع خلافت کی کوششیں فرمائیں۔ لیکن نہ صرف ناکام رہے۔ بلکہ اپنی عزیز جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس عہد آشوب میں ضررویات ملی زبان حال سے پکار رہی تھی کہ خدا کا کوئی ایسا بندہ یا جماعت میدان عمل میں نکلے جو اہل ایمان کو بنو امیہ کے دست بیداد سے نجات دلائے۔بنو عباس کھڑے ہوئے اورانہوں نے بنوامیہ سے حکومت چھین کر ان سے بہتر خلافت قائم کی اور مسلمانوں کے جراحت دل پر ہمدردی کا مرہم رکھا۔گوآل عباس کی خلافت بھی علی منہاج النبوۃ نہیں تھی۔تاہم اس میں شبہ نہیں کہ خلافت راشدہ کے بعد عباسی سلطنت ہی ایک ایسی حکومت تھی جوہر اعتبار سے دین حنیف اور پیروان ملت حنیفی کی پشت پناہ ثابت ہوئی۔خلافت راشدہ کے بعد جس قدر سلطنتیں بھی اسلامی حکومتوں کے نام سے عرصہ شہود میں جلوہ گر ہوئیں۔ ان میں کوئی حکومت من حیث المجموع عدل وانصاف،خدمات ملی، اعلاء کلمتہ اﷲ،نفاذشریعت مصطفوی(علی صاحبہا التحیۃ والسلام) خدمت حرمین شریفین، علم نوازی اور معارف پروری میں خلافت بنو عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ خصوصاً قرامطہ،باطنیہ اور بنو عبید تو اپنے بدعات و کفریات کی وجہ سے قطعاً اس قابل نہ تھے کہ ان کی حکومتوں کو اسلامی حکومت قرار دیا جا سکے۔چہ جائیکہ ان کا کوئی فرمانروا خلیفہ المسلمین ہو سکتا۔ اگر حضرات شیخین(رضی اللہ عنہما) نے جناب عباسؓ کو بعض دوسرے جلیل القدر صائب الرائے صحابہؓ کی موجودگی میں ارباب شوریٰ میں داخل نہ کیا یا ان کے لئے خلافت کی وصیت نہ کی۔ تو یہ ان کے نااہل ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ اور نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آئندہ چل کران کی اولاد بھی اس صلاحیت سے عاری ہو گئی۔
بنو عباس کے اخذ بیعت کے وقت مسلمانوں میں کوئی ایسی جماعت موجود نہ تھی جن میںآل عباس سے بڑھ کر یا کم از کم ان کے برابر ہی شرائط خلافت پائے جاتے ہوں اور وہ برسر اقتدار ہو کر مسلمانوں کے سیاہ و سپید کی مالک ہوئی ہو۔ پس خلفائے بن عباس ہی عالم اسلام کے جائزاور صحیح خلفاء تھے اور یہ مسئلہ فرقہ حقہ اہل سنت و جماعت اور شیعوں میں مختلف فیہ ہے کہ خلافت منصوص چیز ہے یا اس کا مدار مجلس شورٰی کے فیصلہ پر ہے؟۔ ہم لوگ مجلس شوریٰ کے فیصلہ یا مسلمانوں کے اتفاق رائے یا قوم کی اطاعت پذیری کو اس کا مدار علیہ ٹھراتے ہیں اور شیعہ اسے منصوص سمجھتے ہیں۔صحیح مسلم میں ایک روایت ہے کہ حضرت خیرالبشرﷺ نے اپنے مرض و صال میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا کہ اپنے والد (حضرت ابو بکر صدیقؓ) اور بھائی (جناب عبدالرحمن بن ابوبکرؓ) کو میرے پاس بلالاؤ۔ تاکہ میں تمہارے والد کے لئے ایک دستاویز
لکھ دوں۔مبادا کل کو کوئی اور شخص (خلافت کی) آرزو کرنے لگے یا اپنا استحقاق ظاہر کرئے۔ حالانکہ ابوبکرصدیقؓ کے سوا کوئی دوسرا شخص مستحق خلافت نہ ہوگا۔ پھر حضورسرور کائنات ﷺ نے یہ کہہ کر اس عزیمت کو فسخ فرما دیا کہ خداوند عالم (حضرت ابوبکرصدیقؓ) کے سوا دوسروں کی خلافت سے انکار کرے گا اور مومن بھی اس کو مسترد کر دیں گے۔
(مشکوۃ ص۵۵۵)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رحمت عالمﷺ جناب صدیق اکبرؓ کو اپنے روبرو منصب خلافت تفویض فرمایا چاہتے تھے۔ لیکن چونکہ آپ انتخاب امامت و امارت کا ایک مستقل اصول وآئین قائم کر جانا چاہتے تھے۔اس لئے آپ نے وصیت یا دستاویز کو غیر ضروری خیال فرمایا اور ابوالعجبی دیکھو کہ شیعہ لوگ خلافت و امامت کو منصوص خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ خود امیر المومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنی خلافت کی حقیقت پر یہ دلیل پیش فرمائی تھی کہ حضرات مہاجرین وانصار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے ان کو خلیفہ منتخب کیا۔چنانچہ شیعوں کے مشہور مجتہد رضی نے کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ میں امیر معاویہؓ کے نام امیر المومنین علیؓ کی مندرجہ ذیل چٹھی درج کی ہے:
’’اما بعد فان بیعتی یا معاویۃ لزمتک وانت بالشام فانہ بایعنی القوم الذین بایعوا ابابکر و عمر و عثمان علیٰ مابایعوھم علیہ فلم یکن للشاہدان یختارولا للغائب ان یردوانما الشوریٰ للمہاجرین والانصار فان اجتمعوا علیٰ رجل و سموہ اماماً کان ﷲ رضے فان خرج منہم خارج بطعن اوبدعۃ ردوہ الیٰ ما خرج منہ فان ابیٰ قاتلوہ علیٰ اتباعہ غیر سبیل المؤمنین والا ہ اللہ ماتولی واصلیہ جھنم و ساء ت مصیرا‘‘
{اے معاویہ! ملک شام میں میری بیعت تم پر لازم ہو گئی۔ کیونکہ میرے ہاتھ پر انہی لوگوں نے بیعت کی جنہوںنے حضرات ابوبکر،عمراورعثمان(رضی اللہ عنہم)کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور اسی امر پر بیعت کی جس پر ان سے کی تھی۔پس نہ تو حاضر کو اپنی مرضی پر چلنے کا اختیار رہااور نہ غائب کے لئے مسترد کرنے کی گنجائش رہی۔ بلا شبہ شوری مہاجرین وانصار کا معتبرہے۔ پس اگر یہ حضرات کسی شخص پر جمع ہو جائیں اوراس کو امام بنا لیں۔توخدا کے نزدیک بھی وہ پسندیدہ ہوگا اوراگر کوئی شخص ان سے بہ سبب کسی طعن یا بدعت کے علیحدگی اختیار کرے تو اس کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے۔اگر وہ قبول نہ کرے تواس سے قتال کیا جائے۔ کیونکہ اس نے مسلمانوں کی راہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کیا اور حق تعالیٰ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور اس کو دوزخ میں ڈالے گا جو بری جگہ ہے۔}
(تحفہ اثنا عشریہ مصنفہ شاہ عبدالعزیزؒ مطبوعہ لکھنؤ ص ۲۹۹)
اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو بھی مسلمان اپناامیر بنا لیںیا قوم اس کی اطاعت کرلے وہی عنداﷲ جائز امام المسلمین ہوتا ہے۔ شیعہ لوگ امیر المومنین حضرت علیؓ کے متذکرہ صدرمکتوب کے متعلق کہا کرے ہیںکہ یہ الزامی دلیل ہے۔ مگر یہ خیال غلط ہے۔ کیونکہ ’’فان اجتمعوا علی رجل وسموہ اماماً…… الخ‘‘ کو الزام سے کوئی تعلق نہیں۔
یحییٰ بن زکرویہ کا قتل
زکرویہ کے قرمطی پیرو سواد کوفہ میں شبل سے شکست کھا کر ۲۹۰ھ میں شام کی طرف بھاگ گئے اوردمشق میں قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا۔ان ایام میں دمشق کی عنان حکومت احمد بن طولون کے غلام طبغج کے ہاتھ میں تھی۔قرامطہ سے اس کی کئی دفعہ معرکہ آرائیاں ہوئیں۔ لیکن اسے ہر مرتبہ ہزیمت ہوئی۔ آخر طبغج نے اپنے آقا احمد بن طولون والئی مصر سے امداد طلب کی۔ چنانچہ مصری سپاہ اس کی امداد کو پہنچی۔میدان مبارزت ازسرنوگرم ہوا۔ زکرویہ کا بیٹا یحییٰ ماراگیا اور بقیۃ السیف نے اس کے بھائی حسین بن زکرویہ کے پاس جا پناہ لی۔ علی بن زکرویہ اپنے بھائی یحییٰ کے مارے جانے کے بعد فرات کی جانب بھاگ گیاتھا۔ قرامطہ کی منتشر جماعت اس کے پاس جمع ہونے لگی۔ جب قرامطہ کی جمعیت بڑھی تو علی نے طبریہ کی طرف پیش قدمی شروع کی اور پہنچتے ہی اسے لوٹ لیا۔ حسین بن حمدان سپہ سالار افواج بغداد نے یہ خبر پا کر علی کی گوشمالی پر کمر باندھی۔علی یمن کوبھاگ گیا اور وہیں اپنے دعاۃ اور ہوا خواہوں کو جمع کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ یمن کے اکثر شہروں پر قبضہ کر لیا۔آخر صنعاء کی جانب بڑھا۔ جو یمن کا صد مقام ہے۔ والیٰ صنعا شہر چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ علی نے شہر کو خوب لوٹا۔ان واقعات کے اثناء میں زکرویہ نے بنی قلیص کے پاس جنہوں نے سماوا میں مدت سے بودوباش اختیار کر لی تھی۔عبد اللہ بن سعید موسوم بہ ابو غالم کو خط دے کر بھیجا جس میں لکھا تھا کہ مجھے بذریعہ وحی معلوم ہوا ہے کہ صاحب الشامہ حسین موسوم بہ احمد اور اس کا بھائی یحییٰ موسوم بہ شیخ بہت جلد پھر آنے والے ہیں۔ بعد ازاں امام زمان ظاہر ہوںگے اور تمام روئے زمین کو عدل وانصاف سے معمور کر دیںگے۔ چنانچہ ابو غانم نے قبیلہ کلب میں پہنچ کر ان خیالات کی اشاعت کی اور ان لوگوں کو مذہبی سپاہی بنا کر شام کا رخ کیا۔بلاد شام کو پامال کرتا ہوا دمشق پر جا پڑا۔ مگراہل دمشق نے اسے مار بھگایا۔اس کے بعد اردن پر جا چڑھا۔ والی اردن مارا گیا اور یہ مظفر و منصور طبریہ کی طرف بڑھا اسے بھی خوب لوٹا دربار خلافت میں ان واقعات کی خبر پہنچی تو خلیفہ مکتفی نے ایک لشکر جرار حسین بن حمدان کی سرکردگی میں بغداد سے روانہ کیا۔ابو غانم یہ خبر پا کر سماوا کی طرف بھاگا۔ شاہی فوج نے تعاقب کیا۔ ہزارہا قرمطی شدت تشنگی سے ہلاک ہوئے۔ غرض خلیفہ
کے سپہ سالار نے ۲۹۳ھ میں اسے قتل کر ڈالا جس سے اس کی جمعیت منتشر ہوگئی۔
حجاج پرجوروتغلب کے طوفان اوران کی جانستانی
ان واقعات کے بعد قرمطی جمع ہو کر دریہ نام ایک موضع میں گئے۔ جہاں زکرویہ کئی سال سے بخوف جان چھپا ہوا تھا۔ قرامطہ نے یہاں اس کو ایک باولی میں مخفی کر رکھا تھا جس کے کواڑ آہنین اور نہایت مضبوط تھے۔ قرمطیوں نے باولی کے دروازے کے پاس ایک تنور بھی بنا رکھا تھا۔ جب کبھی زکرویہ کو گرفتاری کا خطرہ لاحق ہوتا تو جھٹ ایک عورت کھڑی ہو کر اس تنور میں ایندھن جلانے لگتی۔اس تنور کر دیکھ کر لوگ اس خیال سے واپس چلے آتے کہ زکرویہ یہاں نہیں ہوگا۔ اس انتظام کے علاوہ انہوں نے ایک کمرہ بھی بنا رکھا تھا جس کے کواڑ کے پیچھے ایک بڑا سا طاق تھا۔جب کمرے کا کواڑ کھلتا تو وہ طاق کے منہ کو ڈھک لیتا۔اگر کوئی شخص زکرویہ کی تلاش میں اس کمرے میں آتا تو وہاں کسی شخص کو نہ پاتا۔ حالانکہ زکرویہ بسا اوقات اس طاق میں چھپا ہوتا تھا۔ قرامطہ اس کے پاس پہنچے اوراس کو دیکھ کر سربسجود ہو گئے۔ اس کے بعد اسے ہاتھوں پر اٹھا کر باہر لائے اور اس کو ولی اللہ کے لقب سے یاد کرنے لگے۔اب اطراف و جوانب کے مناد بھی جو اس کے مذہب کی تعلیم و تلقین کرتے پھرتے تھے۔ آآکر اس کے پاس جمع ہو گئے۔ زکرویہ نے ان پر اپنی طرف سے قاسم بن احمد کو بحیثیت نائب مقرر کیا اور انہیں اپنے حقوق وفرائض جتلائے جو ان پر واجب تھے اور یہ بھی ہدایت کی کہ ان کی دینی دنیوی فلاح اسی میں ہے کہ وہ اپنے امیر کے دائرہ اطاعت سے ذرا بھی قدم باہر نہ نکالیں۔ان دعویٰ کے ثبوت میں زکرویہ نے آیات قرآنی پیش کیں جن کے معانی و مطالب میں آج کل کے مرزائیوں کی طرح من مانی تاویل و تحریف کی۔ خلیفہ مکتفی نے ان کی سرکوبی کے لئے فوجیں روانہ کیں۔لیکن قرامطہ نے انہیں سواد کوفہ میںپسپا کر دیا اور ان کے لشکر گاہ کو لوٹ لیا۔ اس کے بعد زکرویہ حاجیوں کا قافلہ لوٹنے کو بڑھا۔حلوان کو تاخت وتاراج کرتا ہوا واقصہ کو جا گھیرا۔ وہاں والوں نے قلعہ بندی کر لی۔ قرامطہ نے مضافات کے چشموں اور کنوؤں کا پانی خراب کر دیا۔ جب دربار خلافت میں یہ خبریں پہنچیں تو خلیفہ مکتفی نے محمد بن اسحاق کے زیر قیادت قرامطہ کے استیصال کے لئے فوج روانہ کی۔ مگر یہ فوج قرامطہ کو کہیں نہ پاسکی۔ اس لئے بے نیل ومرام واپس آئی۔اب زکرویہ نے حاجیوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ حجاج نے باوجود یکہ تین دن کے بھوکے پیاسے تھے۔ پامردی سے مقابلہ کیا۔ مگر قرامطہ کی بڑھتی ہوئی قوت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ امان کے خواستگار ہوئے۔ زکرویہ نے پہلے تو جان بخشی کا وعدہ کر کے ان کے مال واسباب کو لوٹا۔ لیکن پھر بد عہدی کر کے ان کو تہ تیغ کردیا۔ ان حاجیوں کے مال
واسباب کے ساتھ سوداگروں اور بن طولون کے قیمتی اسباب بھی تھے۔ جن کو بنی طولون نے مصر سے مکہ معظمہ کو روانہ کیا تھا اورمکہ سے بغداد بھیج رہے تھے۔اس کے بعد زکرویہ بقیۃ السیف حجاج کو حمص میں جا گھیرا۔ ہزارہا بے گناہ حجاج شہید ہوئے۔
زکرویہ کی ہلاکت
خلیفہ مکتفی نے ایک فوج گراں و صیف بن صوارتکین کے زیرقیادت روانہ کی۔ اس فوج میں نامی گرامی سپہ سالار بھیجے گئے تھے۔ یہ فوج خفان کی راہ سے روانہ ہو کر قرامطہ تک پہنچی۔ دوروزہ جنگ کے بعد قرمطی شکست کھا گئے۔ زکرویہ کے سر پر زخم کاری لگا۔جس کی وجہ سے وہ بھاگنے میںکامیاب نہ ہوا اورگرفتار ہو کر لشکرگاہ میں لایا گیا۔ اس کے ساتھ اس کا نائب قاسم بن احمد اس کا بیٹا اور اس کا معتمد سب گرفتار ہوگئے۔زکرویہ زخموں سے جانبر نہ ہوا۔چھٹے روزمرگیا۔ وصیف نے اس کی نعش کو بشارت نامہ فتح کے ساتھ بغداد بھیج دیا۔خلافت مآب کے حکم سے نعش تو صلیب پر چڑھائی گئی اورسر کاٹ کر خراساتن کے ان حاجیوں کے پاس بھیج دیا گیا۔ جنہیں اس نے لوٹا اورقتل کیا تھا۔ اس وواقعہ سے قرامطہ کا زور ٹوٹ گیا۔بقیۃ السیف شام کی طرف بھاگے۔ حسین بن حمدان کی اس کی خبر لگ گئی۔ اس نے ان جان باختوں پر یورش کی اوران کوخوب تہ تیغ کیا۔اب تمام شام وعراق مٰں ان کے قتل و استہلاک کا بازارگرم ہوگیا۔
(الکامل فی التاریخ ج۶ ص۴۲۸،۴۳۴)
باب ۲۵ … یحییٰ بن زکرویہ قرمطی
ایک شخص خوزستان سے سواد کوفہ میں آ کر مدت تک ریاضات شاقہ میں مشغول رہا۔ یہاں تک کہ کثرت عبادات کی وجہ سے تمام اقران و اماثل پر اس کی فوقیت مسلم ہو گئی۔اس کے زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ بوریا بن کرگذراوقات کرتا اور کسی سے کوئی نذرانہ وہدیہ قبول نہ کرتا۔اس پر مستزادیہ کہ بڑا منقح گو اور شیریں بیان واعظ تھا۔ یہاں تک کہ اس کے پند و نصائح سنگین دلوں کو پانی کر دیتے۔ جب کچھ عرصہ اسی حالت میں گزر گیا اور عقیدت مندوں کے دلوں کو اچھی طرح مٹھی میں لے لیا اور ان کی خوش اعتقادی کا اندازہ کر کے دیکھ لیا کہ اب ہر بات چل جائے گی تو پہلے تمہیداً تقلید کا مسئلہ چھیڑ دیا کہ دین میں آئمہ و مجتہدین امت کی پیروی ضروری نہیں۔جب عقیدت شعاروں نے اس کو تسلیم کر لیا تو ایک دن کہنے لگا کہ اجماع بھی بے اصل ہے۔پھر احادیث صحیحہ کی ایسی ہی تاویلیں کرنے لگا جیسی آج کل کے مرزائی کر رہے ہیں۔جب لوگوں نے ان سب باتوں پر آمنا و صدقناکہہ دیا تو بطور امتحان چند مسائل ایسے بیان کیے۔جو اجماع امت
اور احادیث نبویہ کے بالکل خلاف تھے۔ عقیدت مندوں نے اسی پر عمل درآمد شروع کر دیا۔اس امتحان کے بعد ایک دن یہ راز افشا کیا کہ حدیث ’’من لم یعرف امام زمانہ‘‘ کے رو سے امام زمانہ کو معلوم کرنا نہایت ضروری امر ہے۔ مگر یاد رکھو کہ امام زمان کا اہل بیت نبوت سے ہونا لازمی ہے اور وہ عنقریب ظاہر ہونے والے ہیں۔
کے رو سے امام زمانہ کو معلوم کرنا نہایت ضروری امر ہے۔ مگر یاد رکھو کہ امام زمان کا اہل بیت نبوت سے ہونا لازمی ہے اور وہ عنقریب ظاہر ہونے والے ہیں۔
(الکامل فی التاریخ ج۶ص ۴۰۹)
باب۲۶ … حسین بن زکرویہ معروف بہ صاحب الشامہ
زکرویہ کا بیٹا حسین اپنی باطنی الحاد پسندیوں کے باوجود مہدویت کا مدعی تھا۔اس نے اپنے تئیں احمد کے نام سے موسوم کر کے اپنی کنیت ابوالعباس رکھی تھی۔ بادیہ نشینوں کے اکثر قبائل نے اس کو مہدی موعود یقین کرتے ہوئے اس کی پیروی اختیار کی۔اس کے چہرہ پر ایک تل تھا۔ جس کی نسبت کہا کرتا تھا کہ یہ حق تعالیٰ کی ایک نشانی ہے۔اسی تل کی بنا پر صاحب الشامہ کے لقب سے مشہور ہو گیا تھا۔یہ شخص اپنے تئیں مہدی امیر المومنین کے لقب سے ملقب کرتا تھا۔ تھوڑے دنوں میں اس کا عم زاد بھائی عیسیٰ بن مہدی اس کے پاس آیا اس نے اس کو مدثر کا لقب دیا اور بتایا کہ تم ہی وہ مدثر ہو جس کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔اس نے عیسیٰ کو اپنا ولی عہد بنایا۔ حسین نے اپنے
خاندان کے ایک لڑکے کو مطوق کا لقب دیا تھا۔ غرض کچھ عرصہ تک خاموشی کے ساتھ اپنے پیرووں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہا۔ اس کے بعد ان کو مرتب و مسلح کر کے دمشق پر چڑھ دوڑا اور جاتے ہی شہر کا محاصرہ کر لیا۔دمشق عرصہ تک محصور رہا۔آخر اہل دمشق نے تنگ آ کر کچھ زرنقد پیش کیا اور مصالحت کر لی۔یہاں سے فارغ ہو کر حمص کر رخ کیا اور اس کو تسخیرکرکے منبروں پر اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔ پھر حماۃ اورمعرۃالنعمان پر فوج کشی کی۔ان مقامات پر قتل و نہب کا بازار گرم کیا اوراپنی شقاوت پسندی سے عورتوں اور بچوں تک سے درگذر نہ کیا۔ یہاں سے بعلبک کی طر ف عنان توجہ موڑ دی۔وہاں پہنچ کر قتل عام کا حکم دے دیا۔بعلبک میں یہ قیامت برابر اس وقت تک برپا رہی جب تک معدودے چند آدمیوں کے سوا شہر کی تمام آبادی بے نام ونشان نہ ہوگئی۔یہاں سے سلمیہ کی طرف گیا۔اہل شہر نے شہرپناہ کے دروازے بند کر لئے۔ان کو دم دلاسہ دے کر اور امان کا وعدہ کر کے اطاعت پر آمادہ کیا۔ وہاں کے باشندوں نے شہر کے دروازے کھول دیئے۔ اس سیاہ دل نے شہر میں داخل ہوتے ہی عہدامان کو بالائے طاق رکھ دیااور بعلبک کی طرح یہاں بھی قتل عام کا بازار گرم کر دیا۔یہاں تک کہ مکتبوں کے صغیر سن بچے اور چوپائے بھی اس کی تیغ جفا سے نہ بچ سکے۔ اس کے بعد سلمیہ کے دیہات کا رخ کیا۔ اور بادیہ نشینوں کو قتل کرتا اور قیدی بناتا پھرا ۔ آخر۲۹۱ھ میں خلیفہ مکتفی عباسی نے بہ نفس نفیس لشکر آراستہ کر کے اس کی گوشمالی پر کمر باندھی۔ یہ اس وقت حماۃ کے باہر ایک میدان میں پڑا تھا۔خلیفہ نے اپنی فوج کے ہراول کو بڑھنے کا حکم دیا۔ حماۃ کے باہر طرفین کی فوج صف آرا ہوئی۔سخت جدال و قتال کے بعد حسین کو ہزیمت ہوئی۔ سینکڑوں ہزاروں قرمطی مارے گئے اور بقیۃ السیف حلب کی طرف بھاگے۔ خلیفہ نے ابن طولون کے آزاد غلام بدر کو قرامطہ کے تعاقب میں روانہ کیا۔بدر منزل بہ منزل ان کو شکست دیتا جاتا تھا اور منہزمین کمال بے سروسامانی کے ساتھ گیدڑوں کی طرح بھاگے چلے جاتے تھے۔اس اثناء میں خلیفہ المسلمین نے ایک اور فوج قرامطہ کے تعاقب اور سرکوبی کو روانہ کی۔ یحییٰ بن سلیمان اس فوج کا قائد تھا۔ یحییٰ نے کاٹتے چھانٹتے ان کا بری طرح صفایا کیا۔ حسین بخوف جاں مضافات کوفہ میں روپوش ہوگیا۔مدثر اور مطوق بھی اس کے ساتھ تھے۔ آخر حسین بہ تبدیل ہیئت رحب پہنچا۔ جاسوسوں نے جو سایہ کی طرح ساتھ لگے تھے والی رحبہ کو اس کی آمد کی اطلاع کر دی۔حاکم رحبہ نے ان کو گرفتار کر کے خلیفۃالمسلمین کے پاس برقہ بھیج دیا۔خلیفہ نے حسین صاحب الشامہ کو پہلے دو سو درے لگوائے۔اس کے بعد صلیب پر چڑھا دیا۔ اس کے دونوں ساتھی بھی عفریت شمشیر کے حوالے کر دیئے گئے۔خلیفہ نے اس مہم سے فارغ ہوکر اپنے لشکر ظفر پیکر کے ساتھ بغداد کو
مراجعت کی۔
(الکامل فی التاریخ ج۶ص ۴۱۷،۴۲۱)
واجب الاطاعت مادر مشفقہ سے قسی القلب مرتد بیٹے کا سفاکانہ برتاؤ
جب مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی خانہ زاد مسیحیت کی ڈفلی بجانی شروع کی تو ظاہری مفارقت و انقطاع کے ساتھ ان کا دل بھی یگانوں کی مہر و محبت سے بیگانہ ہوگیا۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنی بیاہتا بیوی محترمہ حرمت بی بی کی جو خان بہادر مرزا سلطان احمد کی والدہ تھیں اور اپنے فرزند مرزافضل احمد کی نماز جنازہ تک نہ پڑھی اور اپنی جرم نا آشنا بہو کو جو حقیقی ماموںزاد بھائی کی بیٹی تھی۔ محض اس قصور پر طلاق دلانے کی نامراد کوشش کی کہ اس کے والد مرزا علی شیر بیگ جو محترمہ محمدی بیگم کے پھوپھا تھے۔ ان کی آسمانی منکوحہ (محمدی بیگم طال عمرہا)سے شادی کرا دینے کی کیوں کوشش نہیں کرتے؟۔اور آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے پیرو مرزائیت کا بپتسمہ لینے کے بعدکس طرح مسلمانوں کے دشمن اور خویش واقارب سے نافرورمیدہ ہو جاتے ہیں۔لیکن یہ کچھ مرزائیوں ہی پر موقوف نہیں۔اس قماش کے جتنے لوگ بھی اسلام سے علاقہ توڑ کر کوئے ضلالت میں سرگشتہ وحیران ہوتے ہیں۔ ان کے دل میں یہودونصاریٰ سے بھی کہیں زیادہ اسلام اوراہل اسلام کی عداوت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک سیاہ دل قرمطی کا روح فرسا واقعہ لکھا جاتا ہے۔ جس نے مرتد ہونے کے بعد اپنی واجب الاطاعت ماں پر محض اس بنا پر قاتلانہ حمہ کیا تھا کہ وہ دین حنیف کی پیرو تھی۔ابوالحسین نام ایک بغدادی طبیب کا بیان ہے کہ حسین بن زکرویہ قرمطی کی ہلاکت کے ایام میں ایک عورت میرے پاس آئی اورکہنے لگی کہ میرے شانے پر بہت گہرا زخم ہے۔ میں اس لئے آئی ہوں کہ اس کا کچھ علاج کرو۔ میں نے کہا تھوڑی دیر بیٹھو۔ ابھی ایک عورت آئے گی جو عورتوں کا علاج معالجہ کرتی ہے۔ابوالحسین کہتے ہیں کہ یہ عورت زاروقطار رورہی تھی اور سخت محزون تھی۔میںنے پوچھا تمہار کیا ماجریٰ ہے اور یہ زخم کس طرح آیا ہے؟۔ کہنے لگی میرا بیٹا بہت مدت سے مفقود تھا۔میں نے اس کی تلاش میں دنیا بھر کی خاک چھانی اور بہت سے شہروں اور قصبوں میں پھری۔ لیکن کوئی کھوج نہ ملا۔ آخری مرتبہ شہر رقہ سے چلی تو راستہ میںقرمطی لشکر نظر آیا۔ میں لشکر میں جا کر دیکھ بھال کرنے لگی۔ تو اتفاق سے وہیں مل گیا۔ میں نے اس کا حال دریافت کیا اور خبر خیریت نہ بھیجنے کا شکوہ کرتے ہوئے اس کے خویش و اقارب کے حالات بیان کرنے لگی۔ وہ کہنے لگا۔ان قصوں کو جانے دو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم کس دین پر ہو؟۔ میںنے کہا کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہم دین اسلام کے پیرو ہیں؟۔ کہنے لگا جس دین پر ہم پہلے تھے وہ باطل ہے۔ سچا دین وہی ہے جس کا میں آج کل پیرو ہوں۔ یعنی قرمطی دین۔ یہ سن کر میرے ہوش
اڑ گئے اوروہ مجھے حالت استعجاب میں چھوڑ کر چل دیا۔میں چند روز تک ایک ہاشمی خاتون کے پاس جو قرمطیوںکی قید میں تھی رہی۔ اس کے بعد میں چند آدمیوں کے ہمراہ بغداد واپس آنے لگی۔ جب تھوڑے فاصہ پر پہنچی تو میرا ناخلف بیٹا پیچھے سے دوڑا آیا اور نہایت بے رحمی اور شقاوت قلبی سے مجھ پر تلوار کا وار کیا۔ مجھے شدید زخم آیا۔ اگر ساتھ والے دوڑ کر مجھے نہ بچا لیتے تو میری جان کی خیر نہ تھی۔ میںوہاں سے افتان و خیزان بحال تباہ بغداد پہنچی۔ابھی حال میں جو قرمطی قیدی بغداد آئے ہیں۔ میںنے اس میں ناہنجار بیٹے کو بھی ان قیدیوںمیں دیکھا۔ وہ لمبی ٹوپی پہنے اونٹ پر سوار تھا۔ میں نے اس سے خطاب کر کے کہا۔ خدا تیرا برا کرئے اورتجھے اس قید محسن سے کبھی مخلصی نہ دے۔
(الکامل فی التاریخ ج۱ص۴۱۸)
باب ۲۷ … عبید اللہ مہدی
عبید اللہ کی جائے ولادت صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکی۔ غالباً کوفہ کا رہنے والا تھا۔ یہی مصر کے عبیدی فرمانرواؤں کا مورث اعلیٰ ہے۔جنہیں مہدویہ، علویہ، فاطمیہ، اسماعیلیہ بھی کہتے ہیں۔
فصل:۱… نسب،دعوائے مہدویت، بدعات وکفریات
نسب
عبید اللہ اپنے تئیں ہاشمی کہتا اور سیدۃ النساء حضرت فاطمتہ زہراؓ کی اولاد بتاتا تھا۔ لیکن اکثر مؤرخوں نے اس کے فاطمی ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس کے نسب پر طعن کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ حسین بن محمد بن احمد بن عبد اللہ بن میمون قداح اہوازی کا بیٹا تھا اورمیمون اہوازی مجوسی تھا۔ عبید اللہ نے جب ملک مغرب میں جا کر اپنے علوی ہونے کا دعوی کیا تو علمائے نسب میں سے کسی نے اس کا دعویٰ تسلیم نہ کیا۔ البتہ جہلاء نے اس کے خاندان کو فاطمی کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس لئے وہ قرشی مشہور ہوگیا۔کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بنو عبید کا پانچواں حکمران عزیز باﷲ منبر پر چڑھا تو اس نے چند اشعار ایک کاغذ پر لکھے۔ جن کا ترجمہ یہ ہے:
’’ میںنے ایک مکروہ نسب آدمی کو جامع مسجد کے منبر پر دیکھا۔اگر تو اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو بتلا کہ ساتویں پشت میں تیرا بزرگ کون تھا۔اگر تجھے اپنے قول کی تصدیق ہے تو اپنا نسب بتلا۔انساب بنی ہاشم تو ایسے ہیں کہ بڑے بڑے طامعین کا دست تصرف بھی ان سے قاصر ہی رہا۔‘‘
اسی عزیز نے ایک مرتبہ ایک خط اندلس (اسپین) کے اموی خلیفہ کے نام مشربہجوددشنام لکھا۔شاہ اسپین نے اس کے جواب میں ارقام فرمایا۔حمد و صلوٰۃ کے بعد معلوم ہو کہ تجھے ہمارا نسب معلوم تھا توتو نے ہماری توہین ودشنام دہی پر قدرت پائی۔اگر ہمیں بھی تیرا نسب معلوم ہوتا توتیری طرح ہم بھی طعن و تشنیع کر سکتے۔ اس میں یہ تلمیح تھی کہ تو ایک گمنام خاندان کا آدمی ہے۔ عزیز کو بہ جواب شاق گذرا۔ لیکن خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک مرتبہ ابن طباطبا علوی نے عبید اللہ سے اس کا حسب و نسب پوچھا تو اس نے اپنی نصف تلوار میان سے کھینچ کر کہا کہ یہ میرا نسب ہے اور کچھ اشرفیاں امراء اور حاضرین دربار کی طرف پھینک کر کہا کہ یہ میراحسب ہے۔ یہ روایتیں تاریخ الخلفاء میں منقول ہیں۔(تاریخ الخلفا عربی ص ۱۰) لیکن ابن خلدون نے اپنے مقدمہ تاریخ میں عبیداﷲ کے علوی النسب ہونے کو تسلیم کیا ہے اور لکھا ہے کہ اگر عبید اللہ اوراس کے جانشین ملحد اور شیعہ غالی تھے تو یہ تشیع والحاد ان کے صحیح النسب ہونے میں مانع نہیں ہو سکتا اور نہ حالت کفر والحاد میں کسی کا ذریۃ رسولؐ ہونا اس کو کچھ نفع دے سکتا ہے۔
دعویٰ مہدویت
عبید اللہ نے ۲۷۰ھ میں مہدویت کا دعویٰ کر کے اپنے تابعین کا نام مہدویہ رکھا۔ ۲۷۸ھ میں اس نے حج کیا۔ قبیلہ بنو کنانہ کے لوگ اس کی مہدویت پر ایمان لا کر اس کے ساتھ ہولئے اور اس کے ساتھ ملک مغرب میں چلے گئے۔اس کے پیرو عبید اللہ کے مہدی موعود ہونے کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جناب پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے ’’علی راس ثلثمائۃ تطلع الشمس من مغربھا‘‘ (۳۰۰ھ کے شروع میں آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع کرئے گا۔) اور کہتے تھے کہ اس حدیث میںآفتاب سے عبید اللہ مہدی کی ذات اور مغرب سے ملک مغرب مراد ہے۔(دبستان مذاہب ص۸۶) حالانکہ یہ روایت قطعاً موضوع اورخود ساختہ ہے اور یہ تاویل بھی سخت مہمل اور ملحدانہ ہے۔اسماعیلیہ تو بناے اسلام کے منہدم کرنے والے تھے۔ ان میں سے کسی کے حق میں مخبر صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام بھلا اس قسم کی پیشین گوئی کیوں فرمانے لگے تھے؟۔ عبید اللہ اپنے دعوئے مہدویت پر باون سال یعنی ۲۷۰ھ سے اپنی وفات یعنی ۳۲۲ھ تک قائم رہا اور اس نے ۲۴ سال ایک مہینہ بیس دن حکومت کی۔ابن اثیر نے تاریخ کامل میں اس کے دعویٰ مہدویت کی مدت ۲۴ سال ایک مہینہ اوربیس روز لکھی ہے۔ لیکن فی الحقیقت یہ مدت اس کی حکمرانی کی ہے۔(الکامل فی التاریخ ج۷ص۹۹) سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ عبید اللہ نے ۲۷۰ھ میںدعوئے مہدویت کیا۔اس حساب سے اس کی میعاددعویٰ تقریباً باون سال ہوتی ہے۔
عبید اللہ اوراس کے جانشینوں کا رفض اورعلمائے اہل سنت کا قتل
گو عبید اللہ اوراس کے جانشین باطنی المشرب تھے۔لیکن رعایا کی تالیف قلوب کے لئے بعض ظاہری ارکان کو بھی بجا لاتے تھے۔یہ لوگ درپردہ اپنے عقاید فاسدہ کے شیوع میں ہروقت کوشاں تھے اور اپنے مخلص دوستوں کو مسلک باطنیہ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ بظاہراسماعیلی تھے۔ ان کے عہد حکومت میں مصر کے اندر اسماعیلی مذہب عام طور پر پھیل گیا۔ قاضی مفتی سب اسماعیلی ہوتے تھے۔جو کوئی اس مذہب کے خلاف عمل کرتا۔اسے سخت سزائیں دی جاتی تھی۔ عبید اللہ صحابہ کرامؓ اورازواج طاہراتؓ کی ہمیشہ ہجو کرتا۔ دوسرے روافض کی طرح اس کا بھی مقولہ تھا کہ حضور سید عالم ﷺ کے رحلت کے بعد سوائے پانچ صحابیوں کے حضرت علی المرتضیٰ، حضرت مقداد بن اسود، حضرت سلمان فارسی، حضرت عماربن یاسر، حضرت ابوزر غفاری رضی اللہ عنہم کے رسول خدا ﷺ کے تمام اصحاب رضی اللہ عنہم (معاذاﷲ) مرتد ہو گئے تھے۔ حالانکہ دشمنان اہل بیتؓ اطہار یعنی نواصب و خوارج (معاذاﷲ) ارتداد بعد رسول اللہ ﷺ کی یہی غلاظت امیر المومنین علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے حق میں اچھالتے ہیں۔افسوس رافضی خارجی اور ناصبی حرمان نصیب ان اخیار امت کے خلاف زبان طعن دراز کر کے اپنی عاقبت تباہ کر رہے ہیں۔ جن کے لئے امت مابعد کو اس ارشاد خداوندی میں دعاء واستغفار کا حکم دیا گیا تھا۔
’’والذین جآؤمن بعد ھم یقولون ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک رؤف رحیم (۵۹،۱۰)‘‘ {وہ لوگ جو سابقین امت کے بعد عرصہ شہود میں آئے۔ وہ ان کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پرودگار! ہمیں اور ہمارے ان اخوان ملت کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے خلاف غبار وکدورت اور جذبہ عناد نہ پیدا ہونے دے۔ اے رب! تو بڑا شفیق اور رحیم ہے۔}
لیکن یہ اعدائے دین تحیۃ دعا واستغفار کی جگہ گالیوں کا ’’تحفہ‘‘ بھیجتے تھے اور بوالعجبی دیکھو کہ اس دشنام دہی کو اپنی حماقت سے عبادت و طاعت خیال کر رکھا ہے:
دشنام بمذہبے کہ طاعت باشد
مذہب معلوم و اہل مذہب معلوم
چونکہ علمائے اہل سنت و جماعت عبید اللہ اور اس کے اخلاف کے دجالی دعوؤں کی تردید کرتے تھے۔ اس لئے عاملین شریعت کی جانوں کے لالے پڑے رہتے تھے۔چنانچہ منقول
ہے کہ عبید اللہ اور اس کے جانشینوں نے بے شمار علماء و صلحاء کو محض اس جرم میں جرعہ شہادت پلادیا کہ وہ صحابہ کرامؓ سے حسن عقیدت رکھتے تھے۔ لیکن آفرین ہے ان کی قوت ایمانی پر کہ کسی نے اصحاب رسولﷺ سے تبرا نہ کیا اور اپنی عزیز جانوں کو دوستداران حضرت سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت پر نثار کر دیا۔عبید اللہ کی عادت تھی کہ فقہا و محدثین کو بلا بھیجتا۔جب وہ آجاتے تو اسی مجلس میں بھیڑ بکری کی طرح ذبح کرادیتا۔اس کے داعی عبید اللہ کی نسبت آپس میں کہا کرتے کہ مہدی ابن رسول اللہ اور حجۃ اللہ ہیں۔ اس کے جواب میں دوسرے کہتے کہ یہی اﷲ، یہی خالق، اور یہی رازق ہیں۔ایک مرتبہ ایک مسلمان خاتون نے شاہ عزیز عبیدی کولکھ بھیجاکہ تجھے قسم ہے اس خدا کی جس نے یہود کو میثا کے طفیل رفعت دی۔ عیسائیوں کو ابن نطور کی ذات سے عزت بخشی اور اسلام کو تیری ذات سے ذلیل کیا۔ میرے اس معاملہ کی طرف توجہ کر۔ میثا یہودی شام کا حاکم اور ابن ناطور مصر کا ایک عیسائی تھا۔ جوعلمائے امت بنو عبید کی سلطنت میں قیام پذیر ہوئے۔ وہ شروع میں تو اس عزم سے ٹھہر گئے تھے کہ مسلمانوں کو ان کے عقائد شنیعہ سے بچائیں گے۔ لیکن بعد کو یا تو خود ہی ان کے خدع و فریب کا شکار ہوگئے اور ان سے بیعت کر لی یا قتل ہو گئے۔سیوطی لکھتے ہیں کہ عبیدیوں کا خاندان اسلام کے حق میں تاتاریوں سے بھی زیادہ خطرناک اورمضرت رسان ثابت ہوا۔ حسب بیان قاضی عیاض ابو محمد قیروانی مالکیؒ سے کسی نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص شاہان مصر کے عقاید اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے تو کیا وہ ان کے عقائد اختیار کر لے یا قتل ہو جائے؟۔ انہوںنے جواب دیا کہ قتل کو ترجیح دے۔ کیونکہ اس میں حیات ابدی ہے اور ان کے عقاید اختیار نہ کرے۔ کیونکہ اس میں ہلاک و خسران سرمدی ہے۔ اور فرمایا کہ اگر شروع میں ان کے عقاید معلوم نہ ہوں تو انسان معذور ہے۔لیکن ان کا علم ہو جانے پر ان کے ملک سے بھاگ جانا لابد وضرور ہے۔ اگر کوئی شخص وہیں رہ پڑا تو پھر خوف و اکراہ کا عذر قابل سماعت نہ ہوگا۔ کیونکہ جہاں شریعت غراء کی توہین کی جائے۔ وہاں قیام کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔
(تاریخ الخلفاء سیوطی عربی ص۱۱)
عبیدیوں کی بعض دوسری ضلالت پسندیاں
بنوعبید کے بعض دوسرے عقاید یہ تھے کہ ہر مرد کو اٹھارہ اٹھارہ عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ وہ اس آیت سے تمسک کرتے تھے ’’ فانکحوا ما طاب لکم من النسآء جشن وثلاث وربع (۴،۳)‘‘ {ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں مرغوب ہوں۔دو دو، تین تین، یا چار چار تک} غرض انہوںنے جمہور امت کے خلاف سب اعداد کا مجموعہ یعنی اٹھارہ عورتوں سے
نکاح جائز کر لیا تھا۔عبیدیوں میںسے بعض کا قول تھا کہ امام حکومت وولایت کے وقت گناہوںسے پاک ہوتا ہے۔گو اس سے پیشتر معصوم نہ ہو اور بعض کے نزدیک اس سے پیشتر بھی معصوم ہوتا ہے۔ عبیدیوں کا یہ بھی مقولہ ہے کہ اہام کا حکم مومن اور مومنہ پر واجب الاتباع ہے۔ گو جانبین کی مرضی کے خلاف ہو۔ پس اگر امام کسی عورت کا عقد کسی مرد کے ساتھ کر دے تو یہ عقد دونوں پر لازم ہوجاتا ہے اور ان کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں۔ اسی طرح تمام معاملات بیع واجارہ میں بھی ان کے نزدیک امام کا حکم نافذ ہے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے تھا کہ امام کا خدائے برتر کے ساتھ ہم کلام ہونا ضرور ہے۔ عبیدیوں کا عقیدہ تھا کہ حق تعالیٰ نے پہلے آدم علیہ السلام کے جسم میں پھر نوح علیہ السلام کے جسد میں پھر دوسرے انبیاء کے اجساد میں اورپھر علی ابن ابی طالبؓ کے جسم میں حلول کیا۔ اسی عقیدہ کے پیش نظر ایک شاعر نے کہا تھا۔
حل بر قادۃ المسیح
حل بھا ادم و نوح
حل بھا اللہ ذوالمعالیٰ
وکل شیٔ سواہ ریح
(کتاب الدعاۃ بحوالہ عیون التواریخ ص۲،۸)
اسماعیلیوں کے نزدیک امام ظاہر بھی ہوتے ہیں اور باطن بھی۔شیعہ اثنا عشریہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔ اسماعیلی کہتے ہیں کہ بارہ کی کوئی قید نہیں۔ امام بے شمار ہو سکتے ہیں۔ اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ امیرالمومنین علی مرتضیٰ، امام حسن مجتبیٰ،امام حسین،امام زین العابدین، امام محمد باقر،امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہم) کے بعد جناب اسماعیل ساتویں امام تھے۔لیکن یہ سات امام ظاہر تھے۔پھر ان کے بعد تین امام باطن گذرے جو عالم کائنات میں نمودار نہیں ہوئے۔ البتہ ان کے نقیب جو تعداد میں بارہ بارہ ہوتے تھے۔علانیہ ہدایت خلق میں مصروف رہے۔ اسماعیلیہ کے نزدیک یہ تین امام مخفی تھے۔ پہلے منشوربن محمد مکتوم،دوسرے جعفرمصدق،تیسرے حبیب۔ ان کے بعد سے پھر آئمہ ظاہر کا سلسلہ شروع ہوا۔ جن میں سب سے پہلا عبید اللہ مہدی۔ دوسرا ابوالقام ملقب بہ قائم بامراﷲ۔اسی طرح بارہ دوسرے خلفاء کے نام گنوا کر چودہ عبیدی فرمانرواؤں کو آئمہ دین کی حیثیت سے شمار کرتے ہیں۔ عبید اللہ کے ایک جانشین معزعبیدی نے حکم دیا تھا کہ خطیب خطبوں میںیہ الفاظ کہا کریں۔الھم صل علی محمد المصطفے وعلی علی مرتضے وعلی فاطمۃ البتول وعلے الحسن والحسین
سبط الرسول وصل علی الائمۃ آباء امیرالمومنین المعز باﷲ! اوراذان میں حی علی خیر العمل ایزاد کیا گیا۔ عبیدیوں کی حکومت کے باعث مصراورشام میں خوب رفض پھیلا۔ یہاں تک کہ منادی کی گئی کہ نماز تراویح کہیں نہ پڑھی جائے۔ سیوطی لکھتے ہیں کہ عبیدیوں کی خلافت صحیح نہ تھی۔ ان کی خلافت کے غیر صحیح ہونے کا سب سے پہلا سبب یہ ہے کہ وہ زندیق و ملحد تھے۔ انہی کے عہد حکومت میں ابنیائے کرام کی شان میں دریدہ دہنی کی گئی۔ شراب مباح ہو گئی اور سجدے کرائے گئے۔ عبیدی خاندان میں جو تاجدارسب سے بہترگذرا ہے۔ وہ بھی ایسا رافضی تھا کہ جس نے پیغمبر خدا ﷺ کے اصحابؓ کو گالیاں دینے کا حکم دیا۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کی نہ بیعت جائز تھی اور نہ امامت صحیح تھی اور اگر یہ صحیح العقیدہ مسلمان ہوتے تو بھی ان کی خلافت صحیح نہیں تھی۔ کیونکہ انہوں نے ایسے وقت میں لوگوں سے بیعت لی۔جبکہ ایک عباسی خلیفہ جس سے پہلے بیعت کی جا چکی تھی موجود تھا۔ ایک وقت میں دو اماموں کی بیعت جائز نہیں۔ جس سے پہلے بیعت ہو چکی ہو وہی جائز خلیفہ سمجھا جائے گا۔
(تاریخ الخلفاء سیوطی عربی ص۱۱،۱۲)
فصل:۲…عبیدی سلطنت کا قیام
تیسری صدی کے اواخر میںاسماعیلی جماعت کا سب سے ممتاز رکن عبید اللہ کا باپ محمد حبیب تھا۔ یہ ضلع حمص کے موضع سلمیہ کا رہنے والا تھا۔ اس کی زندگی کی عزیز ترین خواہش یہ تھی کہ کسی طرح سلطنت کی داغ بیل ڈال سکے۔ اس کا آفتاب حیات لب بام تھا اور چاہتا تھا کہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے عبید اللہ کو آسمان عروج پر پہنچا جائے۔ چنانچہ اس نے اسی غرض سے اسماعیلیوںمیں پروپگینڈا شروع کر دیا کہ عبید اللہ مہدی موعود ہے۔ محمد حبیب دیکھ رہا تھا کہ عرب اعراق یا وسط ایشیا کے دوسرے ممالک میں قیام سلطنت کا خواب کسی طرح پورا نہیں ہو سکتا۔اس لئے اس کی نظریں باربار افریقہ کی طرف اٹھ رہی تھیں۔اسلامی تاریخوں میں افریقہ سے ہمیشہ شمالی افریقہ مراد ہوتا ہے۔ جس کے تین حصے ہیں۔ مغرب ادنیٰ جس میں تونیس،قیروان اور طرابلس واقع ہیں۔ مغرب اوسط جس میں تلمسان وغیرہ امصار واقع الجزائر داخل ہیں۔ مغرب اقصیٰ جس میں فاس مراکش، طوس وغیرہ کا علاقہ شامل ہے۔ محمد حبیب کوشمالی افریقہ میں قیام سلطنت کے کامیاب ہونے کی اس لئے زیادہ امید تھی کہ یہ خطہ ہمیشہ جھوٹے مدعیوں کا ملجا و ماوٰی اور مذہبی اختلافات کا گہوارہ رہا ہے۔ بربریوں کی ضعیف الاعتقادی اور توہمات پسندی ہر قسم کے الحاد وزندقہ کے قبول کرنے کے لئے آمادہ پائی گئی ہے۔ تقدس ورہنمائی کے جس دکاندار کا اپنے وطن میں کوئی پرسان حال نہ ہوتا تھا۔ وہ شمالی افریقہ کے بربریوں میں جا کر قسمت آزمائی کرتا۔وہاں
لوگ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور اس کی تحریک جدید کا نہایت گرمجوشی سے خیر مقدم کیا جاتا۔ اس کے علاوہ بربر کا علاقہ مرکز خلافت بغداد سے بہت دور تھا اور یہاں کے باشندے جنگجوئی اور شورہ پشتی میں شہرہ آفاق تھے۔ اس لئے خلفائے عباسیہ ان کی خودسری سے ہمیشہ اغماض فرماتے۔کیونکہ شمالی افریقہ کو پوری طرح زیراقتداررکھنے کا خرچ اوراتلاف نفوس وہاں کے مداخل سے بدرجہا زائید رہتا تھا۔یہی وہ اسباب تھے جن کی بنا پر لوگوں نے باہر سے جا کر وہاں بڑی بڑی خود مختار سلطنتیں قائم کر لیں۔ محمد حبیب کو کسی ایسے آدمی کی تلاش تھی جو افریقہ جا کر اس کے بیٹے عبید اللہ مہدی کے حق میں پروپیگنڈا کرے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک نہایت ذہین اورہوشیار چالاک مرید ابوعبداﷲ حسن بن احمد اس سے ملنے آیا جو صنعا کا رہنے والا تھا۔ ابو عبداﷲ تمام دوسرے صفات میں یکتا تھا۔ البتہ مذہبی تعلیم کی اس میں کچھ کمی تھی۔محمد حبیب کو یقین ہوا کہ اگر اس کی تربیت کی جائے تو اس سے مقصد براری ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اسے ایک اسماعیلی عالم ابو حوشب کے حوالے کیا۔ یہ شخص کچھ زمانہ اس کے زیر تربیت رہا۔ جب فارغ التحصیل ہوگیا تو محمد حبیب نے ابوحوشب کو حکم دیا کہ ابو عبداﷲ کو تمام نشیب و فراز سمجھا کر افریقہ روانہ کرو۔ تا کہ وہاں لوگوں کو عبید اللہ کی مہدویت کی دعوت دے۔
ابو عبداﷲ کا عزم افریقہ
ابو حوشب نے ابو عبداﷲ کو یمنی حاجیوں کے ہمراہ مکہ معظمہ روانہ کیا اور عبداﷲ بن ابو ملاحف کو بھی اس کے ساتھ کر دیا اور روانہ کرتے وقت بہت کچھ روپیہ پیسہ دیا۔ ابو عبداﷲ اور عبداﷲ نے موسم حج میں مکہ معظمہ پہنچ کر کتامٔہ کے حجاج کا پتہ لگایا اور انہی میں جا کے ٹھہرے۔یہ لوگ ابوعبداﷲ کے زہد و تقویٰ کو دیکھ کر اس کے گرویدہ ہو گئے۔اس کی صحبت میں آ آ کر بیٹھنے لگے اور جویائے حال ہوئے۔ آخر انہوں نے پوچھا آپ کا ارادہ یہاں سے کہاں جانے کا ہے؟۔ ابوعبداﷲ نے ان پر اپنا ارادہ ظاہر نہ کیا اور اپنی منزل مقصود کو مخفی رکھ کر کہنے لگا۔ مصر جاؤںگا۔یہ جواب سن کر وہ خوش ہوئے کہ خیر مصر تک تو ایسے نیک نفس اور زاہد شخص کا ساتھ رہے گا۔اب ابوعبداﷲ ان لوگوں کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوا۔راستہ میں اپنے رفیقان سفر سے باتوں باتوں میں ان کے شہروں،ان کی سرزمین، ان کے قبائل اور ان کی حکومت کے حالات پوچھتا رہا۔ ایک مرتبہ پوچھنے لگا۔ تمہارا سلطان کون ہے؟۔اور اس کی حکومت کیسی ہے؟۔انہوں نے کہا ہمیں سلطان کی اطاعت نہیں کرنی پڑتی۔ اس لئے کہ وہ ہم سے دس دن کی مسافت پر رہتا ہے۔ پوچھا اور تمہارے لوگ اسلحہ سے بھی کام لیتے ہیں؟۔ انہوںنے کہا اور اس کے سوا ہمارا شغل ہی کیا
ہے؟۔ الغرض ابوعبداﷲ ان کے حالات پوچھتا ہوا مصر پہنچا۔یہاں ان عقیدت کیش ہمراہوں سے رخصت ہونے لگا۔ انہوں نے پوچھا۔ آپ کس غرض سے مصر آئے ہیں؟۔ کہا طلب علم کے لئے۔ انہوں نے کہا اس غرض کے لئے تو ہمارا ملک مصر سے زیادہ موزون ہے۔آپ وہیں چلئے۔ ہم آپ کی خدمت کریںگے۔ الغرض ابوعبداﷲ نے جب ان سے خوب اصرار کرا لیا تو ساتھ جانے پر راضی ہوگیا اور ان کے ہمراہ کتامہ کی راہ لی۔
کتامہ میں ورود
یہ قافلہ ۱۵ربیع الاوّل ۲۸۸ھ کو کتامہ پہنچا۔اہل کتامہ نے اس کے آنے کا حال سنا تو مصر ہوئے کہ آپ ہماری ہی بستی میں اقامت گزیں ہوں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کی رفاقت کریں گے اور جو آپ کا دشمن ہوگا اس سے لڑیں گے۔ ابو عبداﷲ نے کہا۔ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ مقام ’’فج الخیار‘‘ کہاں ہے؟۔ یہ ایک غیر معروف بستی تھی جس کا کبھی کسی مغربی رفیق سفر نے اس سے ذکر نہیں کیا تھا۔ اس کی زبان سے اس بستی کا نام سن کر سب لوگ دنگ رہ گئے اور اسے اس کے کشف باطنی پر محمول کیا اور بتایا کہ فج الاخیار قبیلہ، بنی سلیمان کے علاقے میں ہے۔ ابو عبد اللہ نے کہا تو میں وہیں جا کر رہوںگا۔لیکن باری باری اور وقتاًفوقتاً تمہارے یہاں آکے تم سے بھی مل جایا کروں گا۔ سب نے منظور کیا اور وہ ان لوگوں سے رخصت ہو کر کوہ انکجان پر پہنچا۔جس کی ایک وادی ’’فج الاخیار‘‘ کی بستی واقع تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے لوگوں سے کہا۔اس مقام کا نام فج الاخیار ہے اور محض تمہاری خوبیوں کی وجہ سے یہ نام پڑگیا ہے۔اخباروآثار میںآیا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کو حضرت رسول خدا ﷺ کی طرح اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ اخیار لوگ ان حضرت کے ناصر ومددگار ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جن کا نام لفظ ’’کتمان‘‘ سے نکلا ہوگا۔ اس لئے مجھے امید ہے کہ انہی اخیار لوگوں کی بستی’’فج الاخیار‘‘ ہوگی۔اور وہ علاقہ’’کتامہ والے‘‘ ہوں گے۔جن کے وطن کا نام لفظ ’’کتمان‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کی زبان سے یہ رمز سنتے ہی سب لوگ اور زیادہ اس کے گرویدہ ہو گئے اوراس نے طرح طرح کے کرشمے اورشعبدے دکھا دکھا کران لوگوں کو اپنا فرمانبردار غلام بنا لیا۔
اورچند روز میں اس کی دینداری،نیک نفسی اوراس کے مکاشفات وکرامات کی شہرت دور دور تک ہو گئی اور اطراف و جوانب سے اہل بربرآ آ کے اس کے ہاتھ چومنے لگے۔اب ابوعبداﷲ اور عبداﷲ نے لوگوں کو یہ تلقین شروع کی کہ رسول خدا ﷺ نے بنصوص جلیلہ وارشادات واضحہ حضرت علیؓکے حق میں خلافت وامارت کی وصیت فرمائی تھی۔جس سے صحابہؓ نے
(عیاذآباﷲ) اعراض و عدول کر کے علیؓ کے سوا دوسروں کو خلیفہ بنا لیا۔اس بنا پر ان صحابہؓ سے تبراء کرنا واجب ہے جنہوں نے وصیت نبوی سے انحراف کیا۔ حالانکہ یہ صریح بہتان ہے۔اگر خدا کے برگزیدہ رسولؐ نے حضرت علیؓ کے حق میں وصیت فرمائی ہوتی تو کس کی مجال نہیں تھی کہ اس کی خلاف ورزی کرتا۔
ابوعبداﷲ نے لوگوں کو بتایا کہ علیؓ نے اپنے بیٹے حسنؓ کو پھر حسنؓ نے اپنے بھائی حسینؓ کو۔حسینؓ نے اپنے فرزند علی معروف بہ زین العابدینؓ کو۔ زین العابدین نے اپنے فرزند محمد باقرؒکو۔ محمد باقرؒ نے اپنے بیٹے جعفر صادقؒ کو۔ جعفر صادقؒ نے اپنے بیٹے اسماعیلؒ کو۔اسماعیلؒ نے اپنے بیٹے محمد مکتوم کو۔محمد مکتوم نے اپنے بیٹے محمد جعفر مصدق کو۔جعفر مصدق نے اپنے بیٹے محمد حبیب کو اور محمد حبیب نے اپنے فرزند گرامی عبید اللہ مہدی کو اپنا وصی اور سریر خلافت کا جانشین اور وارث مقرر فرمایا تھا۔ علمائے کتامہ جمع ہوکر ابوعبداﷲ سے مناظرہ کرنے کو آئے۔ اس نے مناظرہ سے انکار کیا۔ اس کے باوجود زوداعتقاد عوام اس کے بھرے میں آگئے۔آخر آتش فساد مشتعل ہوئی۔ مگر معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ اب ابو عبداﷲ اور عبداﷲ نے وقت بے وقت لوگوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے ہم کو اسی جگہ قیام کرنے کی تلقین کی تھی اور وہ عنقریب خروج کیا چاہتے ہیں۔ ان کے معین وانصار وہ لوگ ہوں گے جو اپنے زمانہ کے اخیار ہوںگے۔ان کے انصار کا نام لفظ کتمان سے مشتق ہے جو صاف طور سے ظاہرنہیں فرمایا۔مگر قرینہ یہ کہتا ہے کہ غالباً یہیں اہل کتامہ ہوں گے۔ اب ابوعبداﷲ کا اثردن بدن زیادہ بڑھنے لگا۔ جب اس کے اثر و اقتدار کی خبر امیر افریقہ ابراہیم بن احمد بن اغلب کو ہوئی۔تواس نے شہر میلہ کے عامل کولکھ کر اس کی کیفیت دریافت کی۔ عامل نے لکھ بھیجا کہ وہ بالکل معمولی شخص ہے۔اس قابل نہیں کہ حضور اس کا کچھ خیال فرمائیں۔ وہ موٹا جھوٹا لباس پہنتا ہے اور لوگوں کو نیکوکاری اور زہد وتقویٰ اور عبادت الٰہی کی تاکید کیا کرتا ہے۔ یہ جواب سن کر فرماں روائے افریقہ مطمئن ہوگیا۔اب ابوعبداﷲ کا اثر یہاں تک بڑھا کہ حاکم بربر کے احکام بے اثر ہونے لگے۔لیکن اس کے بعد ایسے اسباب پیش آئے کہ اہل کتامہ میں ابوعبداﷲ کے خلاف سخت جذبہ عناد پیدا ہوا اوراکثر لوگ اس کے قتل پر متفق ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر ابو عبد اللہ روپوش ہوگیا۔مگر اس کے جانے کے بعد لوگوں میں باہم سرپھٹول ہونے لگا۔ اس شورش کی اطلاع حسن بن ہارون نام ایک شخص کو ہوئی جو علاقہ کتامہ کے اکابر و معززین میں سے تھا اورایک دولتمند شخص تھا۔اس نے فوراًابو عبداﷲ کو اپنی حمایت میں لے لیا اور اس کی طرف داری میں اٹھ کھڑا ہوا۔اب حسن بن ہارون اور ابوعبداﷲ دونوں جا کر شہر ناصرون
میں مقیم ہوئے۔جہاں ہر طرف سے بربرکے قبائل اس کی زیارت کوآنے لگے اور اس کی شان وشوکت دن بدن بڑھنے لگی۔ خصوصاً اس لئے کہ حسن بن ہارون کا سا رئیس اس کا انیس ورفیق تھا۔
ابو عبداﷲ کا عروج و اقبال
ابوعبداﷲ نے سب سے پہلے سواروں کا رسالہ بھرتی کرنا شروع کیا اور ان کی سپہ سالاری حسن بن ہارون کو دی۔اب ابوعبداﷲ نے روپوشی کی نقاب الٹ دی۔ میدان میں سامنے آیا اور مخالفوں کے مقابل اشتہار جنگ دے دیا۔ مختلف لڑائیاں ہوئیں۔جن میں ہمیشہ وہی فتح مند ہوتا رہا اور ان لڑائیوں میں لوٹ کا مال جمع کرتے کرتے ناصرون میں بہت سی دولت جمع کرلی۔ اب اس نے مخالفوں کے آئندہ حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے ناصرون کے گردا گرد خندق کھدوالی اور پوری طرح جنگی تیاریاں کر لیں اور ازروئے معاہدہ عام اہل کتامہ و بربر کا حاکم بن گیا۔ اب وہی ابوعبد اللہ اسماعیلی ایک اجنبی ملا اورشکستہ حال مسافر کی شان سے اس سرزمیں میں وارد ہوا تھا۔اپنی حکمت عملی سے ایک چھوٹا سا فرمانروا بن گیا۔ ان کامیابیوں سے اس کا ایسا حوصلہ بڑھا کہ شہر میلہ پر جو تاجدار افریقہ کے ایک نائب کا مستقر حکومت تھا حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔جب اس واقعہ کی خبر امیر افریقہ ابراہیم بن احمد کو ہوئی تو اپنے بہادر بیٹے احول کو قیروان سے دس ہزار فوج کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ابوعبداﷲ نے شہر سے نکل کر مقابلہ کیا۔ لیکن شکست کھائی اور میدان چھوڑ کر بھاگا۔احول نے تعاقب کیا۔ابو عبداﷲ نے یہاںسے بھاگ کر کوہ انکجان کاراستہ لیا۔شاہی لشکر اس کے تعاقب میں چلا جاتا تھا کہ یکایک شدید برف باری شروع ہو گئی۔ جس کے باعث احول کو تعاقب سے دست بردارہونا پڑا۔اس نے ابوعبداﷲ کو تو پہاڑوں پر چھوڑا اور خود ابوعبداﷲ کے مستقر شہرناصرون پر چڑھ گیا۔اس کو فتح کرکے لوٹا اورآگ لگا کر خاک سیاہ کردیا۔ اسی طرح اس کے شہر میلہ پر دھاوا کر کے اس کو غارت کیا اورجب دیکھا کہ ابوعبداﷲ کا کوئی رفیق اور طرف دار نہیں ملتا تو قیروان واپس چلا گیا۔ اس معرکہ کے بعد ابوعبداﷲ نے کوہ انکجان میں ایک شہر آباد کر کے اس کا نام دارلہجرۃ رکھا۔ اس اثناء میں ابراہیم بن احمد والی افریقہ نے وفات پائی اور اس کی جگہ پرابوالعباس افریقہ کا فرمانروا ہوا۔مگر تھوڑے ہی روز میں اس نے بھی ملک عدم کی راہ لی۔ اب زیادۃ اللہ کو افریقہ کی گورنری مرحمت ہوئی۔ زیادۃ اللہ نہایت عیاش، ہوا پرست اور امور سلطنت سے غافل تھا۔ اس بدبخت نے احول کو محض اس خیال پر کہ مبادا مخل عیش و راحت ہو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ جب احول ایک بھاری لشکر مرتب کر کے ابوعبداﷲ کی گوشمالی کے لئے اس کے
قریب پڑا ہوا تھا تو زیادۃ اللہ نے اسے حیلہ ومکر سے طلب کر کے قتل کر ڈالا۔
ابوعبداﷲ کی طرف سے عبید اللہ کے قدوم افریقہ کی درخواست
محمد حبیب نے اپنی وفات کے وقت امارت وامامت کی اپنے بیٹے عبید اللہ کے حق میں وصیت کی اور اس سے کہا کہ میرے نورعین!تم ہی مہدی موعود ہو۔میرے بعد تم ہجرت بعیدہ کروگے۔ طرح طرح کے مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن صبر واستقلال کو اپنا رفیق راہ بنانا۔ غرض محمدحبیب کے انتقال کے بعد عبید اللہ کے زمام امامت اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے داعیوں کو دور دور بھیجا۔انہی ایام میں ابوعبداﷲ نے اہل کتامہ کا ایک وفد عبیداﷲ کے پاس روانہ کیا اور اپنے فتوحات کی اطلاع دے کر یہ ظاہر کیا کہ ہم لوگ آپ کے قدوم میمنت لزوم کے لئے چشم براہ ہیں۔جلد تشریف لایئے۔رفتہ رفتہ یہ خبریں بغداد پہنچیں۔خلیفہ مکتفی عباسی نے عبید اللہ کی گرفتاری کا حکم دیا۔ عبید اللہ فرمان خلافت کی اطلاع پاتے ہی اپنے بیٹے نزارکو ساتھ لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ عبید اللہ نے سرزمین حمص سے نکل کر مغرب کا راستہ لیا۔لڑکے کے علاوہ خدام واصحاب کی بھی ایک جماعت ساتھ تھی۔یہ لوگ طے منازل کر کے مصر پہنچے۔ عبیداﷲ سوداگروں کا لباس پہنے سرزمین مصر میں داخل ہوا۔ان دنوں عیسیٰ نوشری خلفیہ بغداد کی طرف سے مصر کا گورنر تھا۔اس اثناء میں خلیفہ مکتفی باﷲ عباسی کی طرف سے عبیداﷲ کی گرفتاری کا فرمان بھی عامل مصر کے نام پہنچ گیا۔ اس فرمان میں عبید اللہ کا حلیہ بھی درج تھا۔عیسیٰ نوشری نے جاسوسوں اور مخبروں کو ہر طرف عبید اللہ کی تلاش میں پھیلا دیا۔نوشری کے کسی مصاحب نے عبیداﷲ کو اس سے مطلع کر دیا۔ عبید اللہ اپنے اپنے رفقاء و خدام کو لئے ہوئے وہاں سے نکلا۔مگر اتفاق سے خود نوشری سے ملاقات ہوگئی۔ نوشری اس کی صورت شکل چال ڈھال سے تاڑ گیا کہ ہو نہ ہو۔عبید اللہ یہی ہے۔ فوراً گرفتار کر لیا اتنے میں دوپہر ہو گئی۔دستر خوان بچھا۔نوشری نے عبید اللہ کو کھانے کے لئے کہا۔اس نے روزہ کا عذر کیا۔ نوشری نے باتوں باتوں میں عبید اللہ سے حقیقت حال دریافت کرنے کی کوشش کی۔ مگر ناکام رہا۔ عبید اللہ نے اسے ایسے فقرے دیئے کہ نوشری کو اس کے بے خطا ہونے کا یقین ہو گیا۔ نوشری نے ابھی عبید اللہ کو رہا نہ کیا تھا کہ اس کا بیٹا ابوالقاسم نزار اپنے شکاری کتے کو ڈھونڈتا ہوا آپہنچا۔ نوشری نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟۔ بتلایا گیا کہ یہ عبیداﷲ کا بیٹا ہے۔نوشری نے اس سے یہ خیال قائم کیا کہ اگر یہ شخص خلافت کا مدعی ہوتا تو اس کا بیٹا شکاری کتے کی تلاش میں موت کے منہ میں نہ چلا آتا۔عبیداﷲ کو رہا کر دیا۔عبید اللہ مصر سے بعجلت تمام طے مسافت کرنے لگا۔ راہ میں طاخونہ کے مقام پر قزاقوں سے سابقہ پڑگیا۔کل مال واسباب لوٹ لے گئے جن میں چند
کتابیں بھی ملاحم کے متعلق تھیں جو اس کو اباعن جد وراثت میں ملی تھیں۔ان کتابوں کے تلف ہونے کا عبیداﷲ کو سخت صدمہ ہوا۔
عبید اللہ کوچ کرتا ہوا طرابلس پہنچا۔عبیداﷲ نے یہاں سے ابوالعباس برادر ابوعبداﷲ کو کتامہ کی طرف روانہ کیا۔چنانچہ وہ جاتے ہوئے قیروان پہنچا۔ زیادۃ اللہ گورنر افریقہ کو ابوالعباس کے پہنچنے سے قبل ہی ان واقعات کی اطلاع ہوچکی تھی۔اس نے سراغ رسانوں کی وساطت سے اسے گرفتار کرلیا۔ اس سے عبید اللہ کے حالات دریافت کئے۔ابوالعباس نے بتلانے سے انکار کیا۔ زیادۃ اللہ نے اسے سجن میں ڈال دیا اور عامل طرابلس کو عبیداﷲ کی گرفتاری کا حکم بھیجا۔ یہ خبر کسی طرح عبیداﷲ تک پہنچ گئی۔طرابلس کو خیرباد کہ کر سلجمامہ کا قصد کیا۔یہاں ابن مدورا کے گروہ والے تھے۔ انہوں نے عبید اللہ کی بڑی آؤبھگت کی اورعزت واحترام سے ٹھہرایا۔اس اثناء میں حاکم سلجماسہ کے نام زیادۃ اللہ کی وساطت سے خلیفہ مکتی کا فرمان آپہنچا جس میں لکھا تھا کہ یہی شخص مہدویت کا مدعی ہے۔اسی کی طلبی کے خطوط کتامہ سے آرہے ہیں۔اسے گرفتار کر کے فوراً قید خانہ میں ڈال دو۔ والی سلجماسہ نے عبید اللہ کو گرفتار کرکے قید کردیا۔
ابوعبداﷲ کا سلسلہ فتوحات
زیادۃ اللہ گورنر افریقہ نے پہلے تو کچھ خیال نہ کیا۔لیکن ابو عبداﷲ کی بڑھتی ہوئی جمعیت اوربلادافریقہ کواپنے حوزہ تصرف سے نکلتے دیکھ کرذرا چوکنا ہوا اور اپنے ایک عزیز ابراہم بن خنیش کو امیر لشکرمقرر کرکے چالیس ہزار فوج کے ساتھ کتامہ کی طرف روانہ کیا۔ اس مہم میں چیدہ چیدہ سپہ سالاراور نامور جنگجو سپاہی شامل تھے۔یہ لشکرقسطیلہ پہنچ کر ٹھہر گیا۔ابو عبد اللہ یہ خبر پا کر پہاڑ کی ایک بلند چوٹی پر چڑھ گیا اوراچھی طرح مورچہ بند ہوگیا۔ابراہیم کامل چھ مہینے تک اپنا لشکر لئے ہوئے ابو عبداﷲ کے اترنے کے انتظار میں دامن کوہ میں پڑا رہا۔ آخرمجبور ہو کر ساتویں مہینہ شہر کرمتہ پر حملہ کر دیا۔ کیونکہ یہاں بھی ابو عبداﷲ کی تھوڑی سی فوج رہتی تھی۔ پرچہ نویسوں نے ابوعبداﷲ کو اس کی خبر کردی۔ اس نے اپنے رسالہ کو ابراہیم کے لشکر پر شبخون مارنے کو بھیج دیا۔ ابراہیم ابھی کرمتہ تک پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ ابوعبداﷲ کے سواروں نے پہنچ کر چھاپہ مارا۔ابراہیم کے ہوش وحواس جاتے رہے اورکمال بے سروسامانی سے ہزیمت اٹھا کر قیروان کی طرف بھاگا۔ابوعبداﷲ نے مژدہ فتح عبید اللہ کی خدمت میں روانہ کیا۔جو اس وقت سلجماسہ کے قیدخانہ میں تھا۔ابوعبداﷲ نے اس خط کو اپنے ایک معتبردوست کے ذریعہ سے سلجماسہ روانہ کیا تھا اور یہ ہدایت کر دی تھی کہ جس طرح ممکن ہو یہ خط عبید اللہ مہدی تک پہنچاؤ۔چنانچہ قاصد نے سلجماسہ پہنچ
کر قصابوں کا بھیس بدلا اور گوشت بیچنے کے حیلہ سے قیدخانہ میںداخل ہو کرعبید اللہ کو ابوعبداﷲ کا خط دیا۔ابو عبداﷲ اس مہم سے فارغ ہوکر شہر طیہ کی طرف بڑھا اورایک مدت تک اس کا محاصرہ رکھنے کے بعد اس کو فتح کر کے شہر بلزمہ کا رخ کیا۔ اہل بلزمہ نے مقابلہ کیا۔ابو عبداﷲ نے اس کو بھی مسخر کرلیا۔ زیادۃ اللہ والی افریقہ نے ان واقعات سے مطلع ہوکرایک ایک لشکر جرارہارون طبنی کی سرکردگی میں روانہ کیا۔ طبنی نے شہردار ملوک پر فوج کشی کی۔دارملوک کے باشندوں نے اس سے پیشتر ابوعبداﷲ کی اطاعت قبول کر لی تھی اور اسے اپنا امیر تسلیم کر لیا تھا۔طبنی نے دارملوک کی شہر پناہ کو منہدم کرکے بزور شمشیرشہر پر قبضہ کرلیااور اس کے بعد ابوعبداﷲ کی طرف بڑھا۔راہ میں ابوعبداﷲ کی گشتی فوج سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ ابوعبداﷲ کی گشتی فوج مرعوب ہو کر بے ترتیبی اور ابتری کے ساتھ بھاگنے لگی۔جب ابوعبداﷲ کو اس کی اطلاع ہوئی تووہ بذات خاص پیام اجل کی طرح طبنی کے سر پرآپڑا۔طبنی کی فوج بے لڑے بھڑے بھاگ کھڑی ہوئی۔ اسی داروگیر میں طبنی نے غنیم کے ہاتھ سے جام اجل پی لیا۔ ابوعبداﷲ نے کامیابی کے ساتھ شہر عیسیٰ پر بھی قبضہ کرلیا۔اس واقعہ سے زیادۃ اللہ سانپ کی طرح پیچ وتاب کھانے لگا اورایک بہت بڑا لشکر مرتب کرکے ۲۹۵ھ میں ابو عبداﷲ پر حملہ کرنے کے قصد سے روانہ ہوا۔جب اربس پہنچا تو بعض مصاحبوں نے یہ رائے دی کہ آپ بذات خاص ابوعبداﷲ کے مقابلہ پر نا جایئے۔ کیونکہ اگر خدانخواستہ نتیجہ خاطر خواہ نہ ہوا تو ہم لوگوں کو کوئی ملجا وماویٰ نہ رہ جائے گا۔ زیادۃ اللہ نے اس رائے کو پسند کیا اور لشکر کو اپنے ایک عزیز ابراہیم بن ابواغلب کے ماتحت ابوعبداﷲ کے مقابلہ میں بھیج کر خود دارلحکومت قیروان کو مراجعت کی۔
سلطنت بن اغلب کا زوال
ابوعبداﷲ کواس کی خبرلگ گئی۔فوراً باغایہ پر دھاوا کردیا۔عامل باغایہ شہر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ابوعبداﷲ نے شہر پرقبضہ کر کے اپنی کامیابی کا پرچم گاڑدیا۔ اس کے بعد عنان توجہ شہر مرماجنہ کی طرف پھیردی۔اہل مرماجنہ نے قبضہ دینے سے اعراض کیا۔ آخر لڑائی تک نوبت پہنچی اور والیٰ مرماجنہ ماراگیا۔ابوعبداﷲ نے شہر پر عمل ودخل کرکے نیقاش کی طرف قدم بڑھایا۔اہل نیقاش نے اطاعت کر کے شہرسپرد کر دیا۔نیقاش کے مفتوح ہونے پر ہر طرف سے امان کی درخواستیں آنے لگیں۔ بہت سے قبائل نے بخوف جان حاضر ہو کر گردن اطاعت جھکا دی۔ابوعبداﷲ نے سب کو امان دی اورچندافسروں کو ان کا بلاد کا انتظام سپرد کر کے خود ایک دستہ فوج کے ساتھ مسکیانہ کا رخ کیا۔ یہاں سے تبہ، حجاز،قصرین اورقادہ کا رخ کیا۔ یہ مقامات یکے بعد دیگرے بلا جنگ وقتال
مفتوح ہوتے گئے۔ابراہیم بن ابی اغلب نے ان واقعات کی خبر اربس میں سنی۔ اس نے یہ خیال کر کے رقادہ میں زیادۃ اللہ والی افریقہ اقامت گزین ہے۔ لیکن اس کے پاس کوئی بڑا لشکر نہیں ہے۔ اربس سے رقادہ کی طرف رخ کر دیا۔ابوعبداﷲ رقادہ سے رخ پھیرکر قسطیلہ کی طرف بڑھا اوروہاں پہنچ کر محاصرہ ڈال دیا۔اہل قسطیلہ نے امان حاصل کر کے شہر حوالے کر دیا۔ ابوعبد اللہ نے قسطیلہ پر عمل ودخل کر کے باغایہ کی طرف مراجعت کی اور لشکر کے بیشتر حصہ کو باغایہ میں چھوڑ کر کوہ انکجان کی جانب مراجعت کی۔ابراہیم بن اغلب جو والی افریقہ کی افواج کا افسر اعلی تھا۔میدان خالی پا کر باغایہ پہنچا اور ابوعبداﷲ کی فوج کا محاصرہ کر لیا۔ابوعبداﷲ نے یہ خبر پا کر بارہ ہزار کی جمعیت سے پھر باغایہ کی طرف کوچ کیا۔ابراہیم اپنی کامیابی سے مایوس ہوکر اربس کی طرف لوٹ آیا۔ ۲۹۶ھ میں ابوعبداﷲ نے ایک لاکھ فوج کی جمعیت سے ابراہیم پر لشکر کشی کی اورچند دستہ ہائے فوج کو ابراہیم پر عقب سے حملہ کرنے کا حکم دیا۔اربس کے قریب ایک میدان میں نہایت گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ گو ابراہیم نے خوب داد شجاعت دی مگر اپنے افسروں کی دون ہمتی اوربزدلی سے ہزیمت اٹھائی۔ آخر بھاگنے پر مجبور ہوا۔ابوعبداﷲ نے نہایت بے رحمی سے ابراہیم کے لشکر کو پائمال کیا اور مال واسباب جوکچھ پایا لوٹ لیا۔یہاں سے فارغ ہو کر شہر اربس میں داخل ہوا۔ اہل سنت وجماعت کی جان ومال اورناموس کو لشکریوں پرمباح کردیا اور وہاں ایک شبانہ روز قتل عام کا بازارگرم رہا۔
جب ان زہرہ گداز حوادث کی اطلاع زیادۃ اللہ والی افریقہ کو ہوئی تو وہ حواس باختہ رقادہ سے مصرکو بھاگا۔اہل رقادہ نے اپنے حکمران کو بھاگتے ہوئے پایا تو انہوں نے بھی سراسیمہ وار قیروان اورسوسہ کا رخ کیا۔بدمعاش اور آوارہ مزاج عوام نے بنی اغلب کے محل سرائے کو لوٹ لیا۔ ابراہیم بن ابواغلب نے قیروان پہنچ کر دارالامارۃ میں قیام کیا۔ روساء شہر اورامراء مملکت جمع کرکے انہیں ابوعبداﷲ کے خلاف ابھارنے کی کوشش کی اوران سے مال وزر کی مدد مانگی۔ انہوںنے معذرت کی اورکہا کہ ہم عوام تجارت پیشہ لوگ ہیں۔ہمارے پاس اس قدر مال وزر کہاں ہے کہ آپ کی اعانت کر سکیں؟۔ اس کے علاوہ ہم جنگ وجدل سے بھی مطلق بے بہرہ ہیں کہ دشمن سے لڑکرہی آپ کی مددکر سکیں۔ابراہیم یہ سن کر خاموش ہوگیا۔یہ لوگ دارالامارۃ سے اٹھ کر واپس آئے۔جب اوباشوں اور بازاریوں کو اس گفتگو کا علم ہوا تو وہ دارالامارۃ پرٹوٹ پڑے اور ابراہیم کو بات کی بات میں وہاں سے نکال دیا۔ابراہیم نے بہتیرے ہاتھ پیر مارے۔ مگر بنی اغلب کا ستارہ اقبال غروب ہو رہا تھا۔ اس لئے تمام نقش آرزو بن بن کر بگڑ گئے اور بجائے کامیابی
کے ہر طرف ذلت ورسوائی کا سامنا ہوا۔جونہی ابوعبداﷲ نے زیادۃ اللہ کے فرار کی خبر سنی۔رقادہ کی طرف کوچ کر دیا۔اہل قیروان ملنے کو آئے۔ابوعبداﷲ نے سب کو امان دی اور عزت واحترام سے پیش آیا۔ابوعبداﷲ نے رقادہ کے محل اورامراء دولت کے مکان اہل کتامہ پر تقسیم کردیئے۔ لوگوں نے آتش جنگ کے فرو ہونے پراپنے اپنے شہروں میں مراجعت کی۔ابوعبداﷲ نے تمام شہروں میں عمال مقرر کئے۔جدید سکے مسکوک کرائے جن کی ایک طرف بلغت حجۃاﷲ اور دوسری طرف تفرق اعداء اللہ لکھوایا۔آلات حرب پر عدۃ فی سبیل اللہ کندہ کرایا اورگھوڑوں کی رانوں پر الملکﷲ۔
عبید اللہ بحیثیت مہدی امیرالمومنین
جب ابوعبداﷲ نے افریقہ پر کہیں تو بزور شمشیر اور کہیں حکمت عملی سے عمل ودخل کرلیا۔ تواس کا بڑا بھائی ابوالعباس محمد اس کے پاس رقادہ آگیا۔ابوعبداﷲ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ابوعبداﷲ نے اپنے بھائی ابوالعباس اور ابازاکی کوافریقہ میں نائب مقرر کیا اور خود فوج کو حرکت دے کر بلاد مغرب کا رخ کیا۔ابوعبداﷲ کے خروج کرتے ہی ملک مغرب میں تہلکہ مچ گیا۔بڑے بڑے قبائل جن کا دنیا لوہا مانتی تھی ان کے دل میں ابوعبداﷲ کا ایسا ہول سمایا کہ اس کے راستہ سے ادھرادھر سرک گئے اور اکثر نے طوعاً یا کرہاً اطاعت کی گردن جھکا دی۔ابوعبداﷲ رفتہ رفتہ سلجماسہ کے قریب پہنچا جہاں عبید اللہ قید تھا۔الیسع بن مدراروالی سلجماسہ کو ابوعبداﷲ کے قریب آپہنچنے کی خبر لگی تو قید خانہ میں جا کر عبید اللہ سے اس کے حالات دریافت کئے اور یہ بھی پوچھا کہ کیا ابوعبداﷲ تمہاری اعانت کے لئے آرہا ہے؟۔عبید اللہ نے قسم کھائی کہ میں ابوعبداﷲ کو نہیں جانتا۔میں تو ایک تجارت پیشہ آدمی ہوں۔اس کے لڑکے ابوالقاسم نزار سے استفسار کیا۔اس نے بھی اپنے حالات مخفی رکھے۔ان کے ساتھیوں سے کشف حال کی کوشش کی۔انہوں نے بھی کانوں پر ہاتھ رکھے ۔ والی سلجماسہ نے جھلا کر سب کو پٹوایا۔
اس واقعہ کی خبر ابوعبداﷲ تک پہنچی اسے نہایت شاق گزرا۔ مگر چارہ کار ہی کیا تھا۔ ایک تلطف آمیز خط مشتمل بر اظہار محبت و عقیدت والی سلجماسہ کے نام روانہ کیا۔الیسع تاڑ گیا کہ اس میں ضرور کوئی چال پنہاں ہے۔خط کو چاک کر کے پھینک دیااور مغلوب الغضب ہو کر قاصد کو قتل کرڈالا ۔اس سے ابوعبداﷲ کو زیادہ اشتعال پیدا ہوا اور اس نے نہایت تیزی اور شتاب زدگی سے قطع منازل کرتے ہوئے سلجماسہ پہنچ کر شہر کو محاصرہ میں لے لیا۔والی سلجماسہ ایک خفیف سی جھڑپ کے بعد ہی ناامید ہو گیا اوراپنے اہل وعیال اور بنی اعمام کو لے کر رات کے وقت شہر سے بھاگ
گیا۔ صبح کو اہل سلجماسہ نے ابوعبداﷲ کے پاس حاضر ہو کر اطاعت قبول کرلی۔ابوعبداﷲ ان کے ساتھ قید خانہ میں آیا۔ دروازہ کھول کر عبیداﷲ اور اس کے بیٹے ابوالقاسم کو رہا کر کے انہیں گھوڑوں پر سوار کرادیا۔آگے آگے ابوعبداﷲ تھا اور پیچھے پیچھے قبائل سلجماسہ کے امراء و روساء تھے۔ ابوعبداﷲ بلند آواز سے پکارتا جاتا تھا کہ ھذا مولٰی کم ۰ھذا مولٰی کم! (یعنی عبیداﷲ تمہارامولیٰ وسردار ہے۔یہی تمہارا آقا ہے) اور فرط مسرت سے روتا جاتا تھا۔یہاں تک کہ لشکر گاہ میں پہنچا۔ عبیداﷲ کو خیمہ میں اتارا اوروالی سلجماسہ کے تعاقب میں چند سواروں کو روانہ کیا۔اگلے دن الیسع والی سلجماسہ گرفتار ہوکرا ٓگیا۔ابوعبداﷲ نے پہلے تو اسے کوڑوں سے پٹوایا اور پھر موت کے گھاٹ اتاردیا۔ابوعبداﷲ اور عبید اللہ اس مقصد براری کے بعد چالیس روز تک سلجماسہ میں خیمہ زن رہے۔ اکتالیسویں روز افریقہ کی طرف مراجعت کی۔ابوعبداﷲ ماہ ربیع الثانی ۲۹۷ھ میں رقادہ پہنچا اور عبید اللہ کی بیعت خلافت کی۔
انکجان میں اموال غنیمت اورمغلوب حکومتوں کے خزانے پیش کئے گئے۔ عبید اللہ نے سب اپنی تحویل میں لے لئے اوران میں سے کسی کو پھوٹی کوڑی تک نہ دی۔ ابوعبداﷲ عبید اللہ کو لئے ہوئے ماہ ربیع الٓاخر ۲۹۷ھ میں رقادہ پہنچا اورعبید اللہ کی بیعت خلافت کی تجدید کر کے اسے مہدی امیر المومنین کے لقب سے ملقب کیا۔اسی تاریخ سے بنی اغلب کی حکومت افریقہ سے، دولت بنی مدرار کی سلجماسہ سے، بنی رستم کی تاہرات سے اٹھ گئی اور عبید اللہ ان تمام ممالک کافرمانروا بن گیا۔ عبید اللہ کو رقادہ کے ایک محل میں ٹھہرایا گیا اورابوعبداﷲ نے حکم دیا کہ جمعہ کے دن تمام بلادوامصار میں عبید اللہ کے نام کا خطبہ پڑھا جائے۔
ابوعبداﷲ کا عبرتناک انجام
جب تمام لوگ عبید اللہ کے ہاتھ پر بیعت کر چکے اور اس کا نظام حکومت روبراہ ہو چکا تو اس نے سلطنت کے تمام کلی و جزئی امور کی باگ اپنے دست اختیار میں لے کر ابوعبداﷲ اور اس کے بھائی ابوالعباس کو مسلوب الاختیار کر دیا۔یہ دونوں بھائی جو تھوڑے ہی روز پیشتر سلطنت کے سیاہ و سپید کے مالک اور خود اختیارفرمانروا تھے۔ اب ایسے بے دست وپا ہوئے کہ کسی ادنیٰ چیز پر اسی کے عزل و نصب کا بھی انہیں اختیار نہ رہا۔یہ دیکھ کر ابوالعباس کو بڑا قلق ہوا۔ اپنے بھائی ابوعبداﷲ سے کہنے لگا کہ تم نے بلادوامصارفتح کئے اورایک عظیم الشان سلطنت قائم کی۔لیکن اس کے بعد عنان فرمانروائی ایسے ناقدرشناس ہاتھوں میں دے دی۔جس نے تمہیں اور مجھے بالکل عضو معطل بنا دیا ہے۔ حالانکہ عبیداﷲ کا فرض تھا کہ تمہارا حق پہچانتا اورتمہارے پیردھو دھو کر
پیتا۔ابوعبداﷲ پہلے تو بھائی کو ٹالتا اور ایسی افتراق انگیز باتوں سے منع کرتا رہا۔ لیکن انجام کار وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ اب وہ دست حسرت و تاسف ملنے لگا کہ میں نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔آخر ایک دن یہ سوچ کر کہ شاید عبید اللہ ڈھب پرآجائے اس کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میں کتامہ کا بڑا مزاج شناس ہوں۔ اس لئے اگر آپ قصر شاہی میں تشریف فرما رہیں اور کتامہ کے سیاہ و سپید کا اختیار بدستور میرے ہاتھ میں رہنے دیں تو اس میں آپ کا وقار بہت زیادہ ہوگا۔مگر عبیداﷲ کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا کہ اس کے بھرے میں آجاتا۔خصوصاًایسی حالت میں جبکہ اسے دونوں بھایئوں کی مخالفانہ گفتگو کا علم ہو چکا تھا۔اس نے ابوعبداﷲ کی ایک نہ سنی اور اسے بلطائف الحیل ٹال دیا۔ لیکن یہ ابوعبداﷲ کی مآل نااندیشی تھی کہ اتنی بڑی سلطنت عبید اللہ کے حوالے کر دی اور جب اس حماقت کا ارتکاب کر بیٹھا تو اسے چاہیے تھا کہ یا تو تفویض حکومت کے بعد چپ چاپ اپنے وطن صنعاء کو واپس چلا آتا۔ یا اگر وہیں رہنا منظور تھا تو اپنے دل ودماغ کو جاہ و اقتدار کے جذبات سے یکسر خالی کر کے تادم واپسی کنج عزلت میں بیٹھ رہتا۔اب اس کے لئے صاحب اختیار رہ کر رقادہ میں عافیت کے ساتھ بودوباش رکھنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ کیونکہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں سماسکتیں۔
عبیداﷲ سے مطالبہ کہ اپنی مہدویت کا ثبوت دو
اب ابوالعباس نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ وہ مہدی نہیں جسے ہم واجب الاطاعت سمجھتے اورلوگوں کو اس کی متابعت کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ کیونکہ مہدی موعود علیہ السلام کی آمد پر تو حجت الٰہی ختم ہوجائے گی اوران کے ہاتھ پر معجزات باہرہ اورآیات بینات کا بکثرت ظہور ہوگا۔اکثر لوگ ان باتوں سے متاثر ہوگئے۔کتامہ کا ایک شخص جو شیخ المشائخ کے لقب سے مشہور تھا۔عبیداﷲ کے پاس پہنچا اورکہنے لگا اگرآپ مہدی آخرالزمان ہیں تو کوئی معجزہ دکھایئے۔کیونکہ ہمارے دلوں میں تمہاری نسبت اشتباہ پیدا ہو گیا ہے۔عبیداﷲ نے تلوار کے ایک ہی وارسے اس کا کام تمام کر دیا۔یہ واقعہ کسی بھیانک منظر کا اشارہ کر رہا تھا۔اس لئے ابوعبداﷲ کو اپنی ہستی بھی خطرے میں نظر آئی۔ اب ابوعبداﷲ نے اس صورت حالات کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے ابوزاکی کے مکان پر اجتماع عظیم کی دعوت دی۔چند افرادکو چھوڑ کر کتامہ کے تمام قبائل اس میں شریک ہوئے۔ ابوالعباس نے بہت سی دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ عبیداﷲ وہ سب خزائن جو انکجان میں اس کے روبرو پیش کئے گئے تھے۔بے ڈکار ہضم کر گیا ہے۔ اس نے سپاہ اور فوجی عہدہ داروں کو اس میں سے ایک حبہ تک نہ دیا۔غرض فیصلہ ہوا کہ عبیداﷲ کو موت کے گھاٹ اتاردیا
جائے۔عبیداﷲ کے جاسوس بھی اس اجتماع میں شریک تھے۔ انہوںنے عبید اللہ کو تمام واقعات کی اطلاع دی۔اب عماید سلطنت نے عبیداﷲ کے دربار میں آنا جانا ترک کردیا۔عبیداﷲ نے سب سے پہلے ابوزاکی کا قلع قمع ضروری خیال کیا۔ چنانچہ اس کو طرابلس کا گورنر بنا کے بھیج دیا اور ساتھ عامل طرابلس کے نام حکم بھیجا کہ جونہی ابوزاکی تمہارے پاس پہنچے اسے خوابگاہ عدم میں سلادو۔عامل طرابلس نے اس کو قتل کر کے اس کا سر عبید اللہ کے پاس بھیج دیا۔اس اثناء میں عبید اللہ نے ابوعبداﷲ اور ابوالعباس کو بھی ہلاک کراکے شہر خموشان میں بھجوادیا۔کتامہ میں عبید اللہ کے خلاف متعدد فتنے اٹھے۔ لیکن اس نے نہایت پامردی سے ان کا مقابلہ کر کے سب کو دبا دیا۔ ان معرکوں میں بہت سے اہل کتامہ اور اہل قیروان مارے گئے۔اب کتامہ نے ایک خوردسال لڑکے کو اپنا حکمران بنایا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہی مہدی آخر الزمان ہے۔پھر یہ کہنے لگے کہ یہ لڑکا نبی ہے اور اس کی طرف وحی ہوتی ہے اور ابوعبداﷲ کے متعلق یہ اعتقاد کر لیا کہ وہ مرا نہیں۔اب عبیداﷲ کے مقابلہ کے لئے انہوں نے زبردست حربی تیاریاں شروع کر دیں۔عبیداﷲ کو ان واقعات کا علم ہوا تو اپنے لڑکے ابوالقاسم نزار کو اس نئے مہدی کے پیرووں کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ابوالقاسم نے جا کر ان کی یورش اور ان کو ہزیمت دے کر سمندر کی طرف بھگا دیا اور وہ لڑکا بھی ماراگیا۔ جسے مہدی بنایا گیا تھا۔
اسماعیلی مذہب کی جبری اشاعت اورعلمائے اہلسنت کی جانستانی
عبیداﷲ نے اخذ بیعت کے بعد ہی اپنے منادوں اور مبلغوں کا جال تمام افریقہ میں پھیلا دیا۔یہ لوگ ہر طرف مذہب اسماعیلی کی تعلیم دے رہے تھے۔جسے برائے نام چند نفوس کے سوا کسی نے قبول نہ کیا۔عبید اللہ نے جبروتعدی کا حکم دیا۔اس پر بھی جب یہ مذہب ترقی پذیر نہ ہوا تو علمائے اہل سنت و جماعت کے قتل کا حکم دیا۔یہاں تک کہ بے شمار حاملان شریعت و علمبرداران رشد وہدایت عبیدی تیغ جفا کی نذرہوگئے۔ان کے مال واسباب اوراہل وعیال کتامہ پر تقسیم کر دیئے گئے اور جن لوگوں نے اسماعیلی تحریک قبول کی۔ انہیں بڑی بڑی جاگیریں دیں اور زرومال سے نہال کردیا۔ان واقعات کے بعد عبیداﷲ نے شہرمہدویہ کو اپنا دارلخلافہ بنایا جو تونس کے قریب ہے۔
مصر پر فوج کشی
۳۰۲ھ میں عبیداﷲ نے ایک لشکر جرار اپنے نامور سپہ سالار خفاشہ کتامی کی قیادت میں
اسکندریہ کی طرف روانہ کیا۔چنانچہ خفاشہ نے اسکندریہ پر قبضہ حاصل کر کے مصر کی طرف قدم بڑھایا۔ دربار خلافت میں اس کی خبر پہنچی۔خلیفہ مقتدر نے مصر کی حفاظت کے لئے اپنے خادم مونس کو ایک فوج گراں کے ساتھ بغداد سے روانہ کیا۔مونس مصر کے قریب پہنچ کر خفاشہ سے معرکہ آرا ہوا۔متعدد جنگوں اور خونریزیوں کے بعد عبیدی لشکر کو شکست فاش ہوئی اورخفاشہ بقیۃ السیف کو لے کر مغرب کی طرف بھاگ گیا۔خلیفہ کے لشکر نے اسکندریہ پر ازسرنو قبضہ کر لیا۔اس معرکہ میں سات ہزار عبیدی مقتول و مجروح ہوئے۔
عبیداﷲ نے اس کے بعد ۳۰۷ھ میں پھر مصر فتح کرنے کا ارادہ کیا۔چنانچہ اپنے بیٹے ابوالقاسم کوایک لشکر گراں کے ساتھ مصر کی جانب روانہ کیا۔ ابوالقاسم ربیع الثانی ۳۰۷ھ میں اسکندریہ پہنچا اور اس پر تسلط کر کے مصر کی طرف بڑھا۔ حیرہ میں داخل ہو کر صعید پر بھی قابض ہوگیا۔ اوراہل مکہ معظمہ کو اسماعیلی مذہب قبول کرنے کو لکھا۔اہل مکہ نے اس تحریک کو نفرت کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ جب بغداد میں ان واقعات کی خبر پہنچی تو خلیفہ مقتدر نے مونس خادم کو ابوالقاسم کی مدافعت پر روانہ کیا۔ فریقین میں بہت سی لڑائیاں ہوئیں۔ مونس کو فتح نصیب ہوئی۔ اس لڑائی کے بعد مونس کو دربارخلافت سے مظفر کا لقب دیا گیا۔ اثناء جنگ میں اسی جنگی جہاز ابوالقاسم کی کمک کو پہنچ کر اسکندریہ کے قریب لنگر انداز ہوئے۔خلیفہ مقتدر نے طرطوس سے پچیس جہازوں کا ایک بیڑہ ابولیمین کی سرکردگی میں روانہ کیا۔اسکندریہ کے قریب دونوں بیڑوں کامقابلہ ہوا خلیفۃ المسلمین کے بیڑے کو باوجود قلت تعداد وقلت سپاہ فتح نصیب ہوئی۔بنو عبید کے اکثر جہازدوران جنگ میں جلادیئے گئے۔یعقوب کتابی اور سلیمان خادم جو عبیدی لشکر کے افسر تھے۔ گرفتار کر لئے گئے۔ سلیمان تو مصر کے قید خانہ میں ڈالا گیا اور یعقوب پابجوالان بغداد بھیجا گیا۔اس شکست سے عبیدیوں کی کمر ہمت ٹوٹ گئی اور کمک کا آنا منقطع ہوگیا اورجو لشکر یہاں موجود تھا۔ اس میں وبا پھوٹ پڑی اور سینکڑوں انسان اورگھوڑے طمعہ اجل بن گئے۔ باقی ماندہ عبیدی لشکر نے افریقہ کو مراجعت کی۔ لشکر شاہی نے تعاقب کر کے اسے اپنے حدود سے نکال دیا۔لیکن اس واقعہ کے قریباً پچاس سال بعد یعنی ۳۵۶ھ میں عبیدی سپہ سالار جوہر نے پھر مصر پر حملہ کیا اور وہاں کے کمسن اخشیدی فرمانروا احمد بن علی کو مغلوب کرکے مصر پر قبضہ کرلیااور شہر قاہرہ کی بنیاد ڈالی۔اس کے کچھ عرصہ بعد شام بھی عبیدی قلمرو میں شامل ہوگیا۔عبیداﷲ ۳۲۲ھ میں مرا۔ اس کے بعد اس کی اولاد میں تیرہ فرمانروا ۵۶۷ ھ تک برسر حکومت رہے۔
(الکامل فی التاریخ ج۶ص۴۴۶،۴۶۴)
باب ۲۸ … علی بن فضل یمنی
۲۹۳ھ میں علی بن فضل نام ایک شخص جو ابتداء میں اسماعیلی فرقہ کا پیرو تھا۔مضافات سے صنعاء میں اس دعویٰ کے ساتھ آیاکہ وہ نبی اللہ ہے۔ان ایام میں یمن کا حاکم خلیفہ مکتفی عباسی کی طرف سے اسعد بن ابو جعفر تھا۔علی بن فضل بہت دن تک اہل صنعاء کو اپنی خانہ ساز نبوت کی دعوت دیتا رہا۔ لیکن کوئی شخص تصدیق پر آمادہ نہ ہوا۔ جب تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں تو اس نے کسی عقلی تدبیر سے لوگوں کو رام کرنا چاہا۔چنانچہ ایک دوا جس کو بصرہ میںواخن اور مصر میں لسامالدرفیل؟کہتے ہیں حاصل کر کے اس کا گودا لیا۔اسی طرح چھ اور اجزا چھپکلی کی چربی اور شحم جردون(جس کے خالص ہونے کی یہ پہچان ہے کہ اسے آگ پر ڈالا جائے تو آگ فوراً بجھ جاتی ہے اور کانچ کا چونہ، شنگرف،پارہ اور زرنگار فراہم کئے اوران سب سے نصف وزن یعنی ساڑھے تین جز گائے کا گوبر اور ان اجزاء کا ربع پونے دو جز گھوڑے کی پیشانی کے بال لے کر کوفتنی دواؤں کو باریک کیا اور چربیوں کو ملا کر سرکے میں معجون تیار کی۔ پھر گولیاں بنا کر ان کو سایہ میں خشک کیا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ رات کے وقت ایک بلند مکان پر چڑھ کر یہ گولیاں دہکتے ہوئے کوئلوں پر ڈال دیں۔ان سے سرخ رنگ کا دھواں سا اٹھنے لگا۔یہاں تک کہ تمام فضائے بسیط پر محیط ہوگیا اورایسا معلوم ہونے لگا کہ کرہ ہوا کرہ نار بن گیا ہے۔ پھر اس نے کوئی ایسا افسوں کیا کہ دھوئیں میں بے شمار ناری مخلوق دکھائی دینے لگی۔یہ ناری آدمی آگ کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ان سواروں کے ہاتھ میں نیزے تھے اور آپس میں لڑتے اورایک دوسرے پر حملے کر رہے تھے۔ یہ وحشت ناک منظر دیکھ کرلوگ گھبرا اٹھے اوران پرواہمہ سوارہوا کہ انہوں نے ایک نبی اللہ کی دعوت کو ٹھکرا دیا تھا۔ اس لئے خدائے شدیدالعقاب کی طرف سے نزول عذاب کا منظر دکھایا گیا ہے۔یہ دیکھ کر ہزارہا حماقت شعار تہی دستان قسمت نے اپنی متاع ایمان اس کے سپرد کر دی۔ان سرگشتگان کوئے ضلالت میں سینکڑوں لکھے پڑھے لوگ بھی تھے۔ جنہیں علمی جہلاء کہنا زیبا ہے۔ علمائے امت نے بہتیرا سمجھایا کہ اس شعبدہ گر کے فقروں میں آ کر سعادت ایمان سے محروم نہ ہوں۔مگر کون سنتا تھا۔ ان پر اس عیارکا پوری طرح جادو چل چکا تھا۔بجز قلیل التعداد لوگوں کے کوئی شخص راہ راست پر نہ آیا۔ لیکن عوام کا لانعام اور علمی جہلاء کی یہ کوش اعتقادی کس قدرماتم انگیز ہے کہ جونہی کسی مسیلمہ زمان، سامری وقت نے ذخارف دنیا کی تحصیل،ملت حنیفی کی خانہ براندازی اوروحدت قومی کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے اپنے الحاد و زندقہ کے طبہ تہی پر چوب لگائی۔ زبون طالع عقیدت کیش
اپنے تمام قوائے عقلیہ کھو کر پروانہ واراس کی طرف دوڑتے اور اس شعر کامصداق بنتے ہیں:
کیوں وہ صیاد کسی صید پہ تو سن ڈالے
خودبخود صید چلے آتے ہیں گردن ڈالے
اوردام تزویرمیں پھنسنے سے پہلے اتنی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ وارثان علوم نبوت کے استصواب رائے سے کسی مدعی کے دعوؤں کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کریں۔بلکہ یہ بندگان مسحور اپنی نادانی سے خود ہی یک طرفہ رائے قائم کرکے خسران ابدی کے حاشیہ بردار بن جاتے ہیں اور حرمان نصیبی کا کمال دیکھو کہ اگر کوئی انہیں تصویر کا دوسرا رخ دکھانا چاہے تو کسی طرح آمادہ نہیں ہوتے۔میں نے ایک مرتبہ کوشش کی کہ ایک مرزائی ملاقاتی کو مقدمہ بہاولپور کا فیصلہ پڑھنے پر آمادہ کرسکوں۔ لیکن اس نے ایک نہ سنی اور یہ کہتا ہوا میرے پاس سے بھاگ گیاکہ میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس فیصلہ میں ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر وارتداد کے بہت سے وجوہ بیان کئے ہیںاور بدلائل ثابت کیا ہے کہ مرزائی فرقہ کا اسلام سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔
علی بن فضل کی مجلس میں ایک شخص پکارکرکہا کرتا تھا:اشہد ان علی بن افضل رسول اللہ! لیکن معلوم ہوتا ہے کہ دعویٰ رسالت کے ساتھ اسے کسی حد تک خدائی کادعویٰ بھی تھا۔ چنانچہ جب کسی اندھے پیرو کے نام کوئی تحریر بھیجتا تو عنوان تحریراورہوتا۔ من باسط الارض وداحیہا ومزلزل الجبالومرسہا علی بن الفضل الی عبدہ فلان بن فلان! (یہ تحریر زمین کے پھیلانے والے اور ہانکنے والے اور پہاڑوں کے ہلانے اور ٹھرانے والے علی بن فضل کی جانب سے اس کے بندہ فلاں بن فلاں کے نام ہے)
اس نے بھی اپنے مذہب میں تمام محرمات کو حلال کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ آب حرام (شراب) اوربیٹیوں سے عقد نکاح بھی روا تھا۔انجام کار بعض شرفائے بغداد غیرت ملی اور ناموس اسلامی سے مجبور ہو کر اس کی ہلاکت کے درپئے ہوئے۔ اور ۳۰۳ھ میں اس کو جام زہر پلواکر قعر عدم میں پہنچا دیا۔علی بن فضل کا فتنہ انیس سال تک ممتد رہا۔ (مذاہب اسلام بحوالہ نزہت الجلیس و سنیتہ الانیس جلد اول صفحہ ۳۰۸وکتاب المختار و کشف الاسرار للجویریؒ) لیکن تعجب ہے کہ صنعا کے حکام نے انیس سال تک اس سے کیوں تعرض نہ کیا؟۔ اور لوگوں کے متاع ایمان پر ڈاکے ڈالنے کے لئے اسے اتنا طویل عرصہ کیوں کھلا چھوڑ دیا؟۔ مرزا غلام احمد قادیانی تو نصاریٰ کی عملداری میںتھے۔اس لئے ان کے لئے داردنیا میں اپنے دعوئوں اور زندقہ شعاریہ کا کوئی عاجل خمیازہ بھگتنے کا کوئی موقع
نہ تھا۔لیکن جائے تعجب ہے کہ کوئی شخص اسلامی قلمرو میں رہ کر دس پندرہ روز سے زیادہ مدت تک ملت میں رخنہ اندازیاں کرتا رہے اورخدا کی عاجزمخلوق پر رحم کر کے اس کو اس کے شر سے نہ بچایا جائے؟۔ جونہی ابن فضل نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ حکام کا فرض تھا کہ اس کی رگ جان کاٹ کر اسے موت کی نیند سلا دیتے۔
باب۲۹ … ابوطاہر قرمطی
جب ابوسعید جنابی ۳۰۱ھ میں اپنے خادم کے ہاتھ سے مارا گیا تو اس کا چھوٹا بیٹا ابو طاہر سلیمان قرمطی اپنے بڑے بھائی سعید کو مغلوب ومقہور کرکے باپ کا جانشین ہو گیا اور مقامات ہجر،احسا، قطیف، طائف، بحرین کی حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ ابوطاہر خدا کا اوتار ہونے کا مدعی تھا اور کہتا تھا کہ رب العالمین عزاسمہ کی روح میرے جسم میں حلول کر گئی ہے۔ یہ شخص اسلام اوراہل اسلام کے حق میں تاتاریوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ابوطاہر نے عنان حکومت ہاتھ میں لینے کے دس سال بعد تسخیر بصرہ کا قصد کیا۔ ان دنوں خلیفہ المسلمین کی طرف سے سبک مغلمی بصرہ کا امیر تھا۔ ابوطاہر نے ایک ہزار سات سو آدمیوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں بصرہ پر دھاوا کیا۔ سیڑھیاں لگا کر شہر پناہ کی دیواروں پر چڑھ گیا اورمحافظوں کوتہ تیغ کر کے شہر میں گھس پڑا۔ قرمطیوں نے ابو طاہر کے حکم سے شہر کے دروازے کھول کر قتل عام شروع کر دیا۔ پیچارہ سبک نہایت افراتفری اور بے سروسامانی کے عالم میں مقابلہ پر آیا۔ لیکن عہدہ برآ نہ ہو سکا اور داد مردانگی دے کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔اب قرمطیوں نے رعایا پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔اہل شہر جان کے خوف سے بھاگے۔ سینکڑوں نے بوقت فرارہمیشہ کے لئے قعر دریا میں بسیرا کر لیا اور ہزارہا کلمہ گو قرمطی تیغ جفا کی نذر ہو کر دارآخرت میں چلے گئے۔ابوطاہر بصرہ میں سترہ دن تک ٹھہرا رہا۔اس کے بعد جس قدر مال واسباب اورعورتیں و بچے قید کر کے لے جا سکا۔ساتھ لے کر اپنے مستقر دولت ہجر کی طرف عود کیا۔خلیفہ مقتدر نے سبک شہید کی جگہ محمد بن عبداﷲ فاروقی کو بصرہ کی امارت تفویض فرمائی۔
بیگناہ حاجیوں پر دست تطادل ہزارہا حجاج کامظلومانہ قتل
ابوطاہر اپنے قرمطی اور باطنی پیش رووں سے کہیں بڑھ کر اسلام کے درپئے استیصال تھا۔ چونکہ خلافت بغداد ضعف و انحطاط کے ضغطہ میں مبتلا تھی۔ اس لئے اس کورباطن کو جسد اسلام پر چرکے لگانے کا موقع ہاتھ آگیا۔ بصرہ کی غارت گری کے بعد اس نے مسلمانوں کی مقدس ترین
جماعت یعنی حجاج کو قتل وغارت کرکے اسلام کے جگر میں ہاتھ ڈالا۔چنانچہ ۳۱۲ھ میں حاجیوں کو ان کی واپسی کے وقت لوٹنے اور قتل کرنے کی غرض سے ایک عظیم الشان لشکر کے ساتھ بیر کی جانب روانہ ہوا۔ یہاں پہنچ کر حاجیوں کے ایک قافلہ سے جو سب سے آگے تھا مقابل ہوا۔اہل قافلہ کو اس کی اطلاع نہ تھی۔حالت غفلت میں جا رہے تھے کہ دفعتہً ابوطاہر نے حملہ کر دیا۔اہل قافلہ مدافعت نہ کرسکے۔ انہیں بری طرح لوٹا۔جب پچھلے حاجیوں کو اس واقعہ ہائلہ کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے قتل وغارت کے خوف سے فید میں قیام کر دیا۔لیکن زادراہ ختم ہوگیا۔ابوالہیجاء بن حمدانی والی طریق کوفہ بھی اسی قافلہ میں تھا۔اس نے اہل کوفہ کو وادی القری کی طرف مراجعت کرنے کی رائے دی۔مگر اہل قافلہ نے بہت دور نکل آنے کی وجہ سے اس تجویز کو پسند نہ کیا۔آخر کوفہ کی راہ سے روانہ ہوئے۔ابوطاہر نے یہ خبر پا کر ان پر بھی حملہ کر دیا۔ابو الہیجا اور خلیفہ مقتدر کے ماموں احمد بن بدر کو گرفتار کر لیا۔حاجیوں کا تمام مال واسباب لوٹ کر ان کی عورتوں اور بچوںکو قید کر لیا اور ہجر کی جانب مراجعت کی۔ حجاج کو اسی کف دست میدان میں عالم بیکسی میں چھوڑ دیا۔جن میں سے اکثر نے شدت تشنگی و گرسنگی اور تمازت آفتاب کی تاب نہ لا کر امانت حیات ملک الموت کے سپرد کر دی اور باقی ماندہ حاجیوں کا اکثر حصہ بہزار خرابی ودشواری حجاز سے بغداد واپس آیا۔ بعد چندے ابوطاہر ابواہ پہنچا اور احمد کو مع ان قیدیوں کے جو اس کے پاس تھے رہا کر دیا اور خلیفہ مقتدر کو لکھا کہ بصرہ اور اہواز مجھے دے دیئے جائیں۔خلافت مآب نے منظور نہ فرمایا۔ اس بنا پر ابوطاہر نے ہجر سے پھر بقصد تعرض حجاج کوچ کیا۔ جعفر بن ورقا شیبانی والی کوفہ و طریق مکہ اس خطرہ کو پیش نظر رکھ کر ایک ہزار فوج سے جو اسی کی قوم سے مرتب کی گئی تھی۔ قافلہ حجاج سے پیشتر روانہ ہوگیا تھا اور اسی طرح ثمال والی بحر ،جنا صفوانی اور طریف لشکری بھی چھ ہزار کی جمعیت سے حفاظت کے لئے قافلہ حجاج کے ساتھ تھے۔ ابوطاہر سے جعفر بن ورقا کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ بدنصیبی سے جعفر کو ہزیمت ہوئی۔ شاہی فوج بھی بھاگ کھڑی ہوئی اور ابوطاہر کوفہ تک حجاج اور شاہی فوج کا تعاقب کرتا چلا آیا۔ دروازہ کوفہ پر نہایت خونریز جنگ ہوئی اور ہزارہا حاجی شہید ہوئے۔شاہی لشکر کے چھکے چھوٹ گئے۔اکثر لڑائی میں کام آئے۔ باقی ماندہ فوج بھاگ کھڑی ہوئی اور جناصفوانی گرفتار ہوگیا۔ ابوطاہر کوفہ پر قبضہ کر کے چھ روز تک شہر کے باہر پڑا رہا۔تمام دن جامع مسجد میں رہتا اور رات کو اپنے لشکرگاہ میں جا کر قیام کرتا۔غرض مال واسباب فراواں لے کر ہجر کی جانب لوٹ گیا۔ ہزیمت یافتہ گروہ بغداد پہنچا تو لوگوں میں سنسنی پھیل گئی۔چنانچہ اگلے سال کسی نے ابو طاہر کے خوف سے حج کا قصد نہ کیا۔
عساکر خلافت کے مقابلہ میں ابوطاہر کی مزید کامیابیاں
۳۱۴ھ میں خلیفہ مقتدر نے یوسف بن ابی الساج کو آزربیجان سے دارلخلافہ بغداد میں طلب فرما کر بلاد شرقیہ کی حکومت تفویض کی اور ابوطاہر سے جنگ کرنے کی غرض سے واسط کی جانب روانہ کیا۔جب یوسف واسطہ کے قریب پہنچا تو جاسوسوں نے خبر دی کہ ابو طاہر اپنا لشکر مرتب کر کے کوفہ گیا ہے۔ چنانچہ یوسف واسط کی بجائے کوفہ کو بچانے کے لئے روانہ ہوا۔ سواتفاق سے ابوطاہر یوسف سے ایک روز پیشتر کوفہ پہنچ گیا۔شاہی عمال بخوف جاں کوفہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ابوطاہر نے پہنچتے ہی شہر کوفہ کے ساتھ ان تمام غلوفات اور ذخائر پر بھی قبضہ کر لیا جو حکام نے یوسف کے لئے پیشتر سے فراہم کر رکھے تھے۔ دوسرے دن یوسف پہنچا تو شہر کی حالت نہایت ابتر پائی۔ تاہم نامہ وپیام شروع کیا۔ یوسف نے ابوطاہرکو عباسی علم کی اطاعت کا پیام دیا۔ابوطاہر نے جواب کہلا بھیجا کہ ہم پر حق تعالیٰ کے سوا کسی کی اطاعت فرض نہیں ہے۔یوسف نے اعلان جنگ کردیا۔ اگلے دن صبح سے رات تک فریقین میں گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی۔آخر یوسف کی فوج شکست کھا کربھاگی اوریوسف مع اپنے چند سپاہیوں کے گرفتار ہو گیا۔یوسف لڑتے لڑتے زخمی ہوگیا تھا۔قرمطی اسے اپنے لشکر گاہ میں اٹھا لائے۔ابوطاہر نے یوسف کے معالجہ پرایک طبیب کومقررکیا۔
شاہی فوج نے کوفہ سے بھاگ کر بغداد میں جا دم لیا۔ اب ایک سپہ سالار مونس مظفر نام علم خلافت کی حمایت اورقرامطہ کی سرکوبی کے لئے کوفہ کو روانہ ہوا۔ اتنے میںیہ خبرآئی کہ قرامطہ کوفہ سے عین التمر کی جانب روانہ ہوگئے ہیں۔اس اثناء میں مونس کی خواہش کے بموجب بغداد سے پانچ سو جنگی کشتیاں روانہ کی گئیں۔جن میں نامورآزمودہ سپاہی تھے۔ تا کہ قرامطہ کو دریائے فرات عبور کرنے سے مانع ہوں اور انبار کی حفاظت کے لئے ایک فوج خشکی کی طرف سے بھی روانہ کی گئی۔ قرامطہ نے کوفہ سے روانہ ہو کر انبارکررخ کیا۔اہل انبار نے یہ خبر پا کر پل توڑ دیا اورکشتیاں ہٹا دیں۔ابوطاہر نے فرات کے غربی ساحل پر پہنچ کر قیام کیا۔ حدیثہ سے کشتیاں منگوا ئیں اور تین سو قرمطیوں کوانہی کشتیوں کے زریعہ سے خشکی پراتاردیا۔ شاہی فوج مقابلہ پر آئی۔ مگر پہلے ہی حملہ میں شکست کھا کر بھاگی۔قرامطہ نے انبار پر قبضہ کا لیا۔اس اندوھناک حادثہ کی خبر بغداد پہنچی۔ خلیفہ نے نصر حاجب کو ایک فوج گراں کے ساتھ قرامطہ کے مقابلہ میں روانہ کیا۔ نصرمنزلیں طے کرتا ہوا مونس مظفر سے آملا۔دونوں نے چالیس ہزار فوج سے قرامطہ پر دھاوا کر کے یوسف کی مخلصی کے لئے سخت جدوجہد کی۔قرامطہ بھی خم ٹھونک کر مقابلہ میںآئے۔گھمسان کی
لڑائی ہوئی۔ بالآخر شاہی لشکر شکست کھا کربھاگا۔ جب قرمطی اسی داروگیر میں مصروف تھے تو یوسف محافظوں کی نظربچا کر نکل بھاگنے کی فکر میںلگا۔اس کے ساتھیوں نے بھی اشارہ وکنایہ سے بھاگ جانے کو کہا۔ مگرسواتفاق سے ابوطاہراس کو بھانپ گیا۔اس لئے یوسف کو بلاکرقتل کرڈالا۔ اس کے بعد اس نے تمام دوسرے قیدیوں کو بھی قید حیات سے سبکدوش کردیا۔
ابوطاہرکی دوسری چیرہ دستیاں اورظلم آرائیاں
۳۱۶ھ میں ابوطاہر انبار سے کوچ کر کے رحبہ پہنچا اوراس پر قبضہ کر لیا۔یہاں بھی شبانہ روز قتل عام کیا۔ آخر اہل شہرنے امان کی درخواست کی جسے ابوطاہر نے منظور کر لیا۔ابوطاہر نے ایک دستہ فوج عربوں پر شبخون مارنے کو جزیرہ کی طرف روانہ کیا۔ اہل جزیرہ جان کے خوف سے بھاگ گئے اورجو بھاگ نہ سکے وہ قرامطہ کی لوٹ مار کی نذرہوئے۔ اس قتل و نہب کے بعد انہوں نے سالانہ خراج دینا منظورکیا جوہرسال ہجر روانہ کیا جاتا تھا۔ تھوڑے دن بعد اہل رقہ نے انحراف کیا۔ ابوطاہر نے یہ خبر پا کر لشکرکشی کردی۔مسلسل تین روز تک لڑائی ہوتی رہی۔آخر اہل شہر نے امان کی درخواست کی۔ابوطاہر نے منظور کر لی۔مونس مظفر نے خلیفہ کے حکم سے ازسرنو لشکر مرتب کر کے بغداد سے رقہ کی طرف کوچ کیا۔ ابوطاہر رقہ چھوڑ کر رحبہ چلا آیا اور جب مونس رقہ پہنچا تو قرمطی رحبہ سے ہیت کو چلے آئے۔ چونکہ اہل ہیت نے قلعہ بندی کر لی تھی اور حفاظت کا انتظام مکمل ہوچکاتھا۔ اس لئے قرامطہ کا دست تعدی اہل ہیت تک نہ پہنچ سکا۔ اپنا سا منہ لے کر کوفہ کی طرف لوٹ آئے۔ جب ان واقعات کی دربار خلافت میں خبر پہنچی تو خلفیہ نے نصر حاجب،ہارون بن غریب اور ابن قیس کو بڑی فوج کے ساتھ قرامطہ کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا۔ اس اثناء میں قرمطی لشکر قصر بن ہبیرہ پہنچ گیا۔ نصر سپہ سالار لشکر علیل ہوگیا۔اس لئے احمد بن کیغلغ کو اپنا نائب مقرر کر کے واپس ہوا اوراثناء راہ میں رہگزائے عالم آخرت ہوگیا۔ خلیفہ نے فوج کی قیادت، ہارون بن غریب کے سپرد کی۔ لیکن اس اثناء میں ابو طاہر اپنے شہر کو واپس چلا گیا اور ہاورن بن غریب نے ۳۱۶ھ بغداد کی جانب معاودت کی۔کچھ دن کے بعد قرامطہ واسط، عین التمر اور سواد کوفہ میں جمع ہوئے اورہر جماعت نے اپنے میں سے ایک ایک شخص کو سردار مقرر کیا۔واسط کی جماعت پر حریث بن مسعود متعین ہوا۔عین التمر کے گروہ پر عیسیٰ بن موسیٰ مامورہوا۔عیسیٰ نے کوفہ کی جانب کوچ کیا اورسواد پہنچ کر عمال خلافت کو نکال دیا اور اخراج ومال گذاری خودوصول کرنے لگااور حریث موفق کے علاقہ کی طرف بڑھا اور اس پر قابض و متصرف ہو کر وہاں ایک مکان بنوایا۔جس کا نام
دارالہجرۃ رکھا۔اب قرمطی آئے دن لوٹ مار سے کام لیتے اور بلاد اسلامیہ کو تہ وبالا کرتے جاتے تھے۔
قرامطہ کی پہلی ہزیمت
خلیفۃ المسلمین کی طرف سے واسط کی سپہ سالاری کا منصب ابن قیس کو مفوض تھا۔ وہ لشکر آراستہ کر کے قرامطہ سے معرکہ آراء ہوا۔مگر ان کی ترقی پذیر قوت سے عہدہ برآ نہ ہوسکا۔ شکست کھا کر بھاگا۔خلیفہ مقتدر نے ہارون بن غریب کو ایک لشکر جرار کے ساتھ ابن قیس کی کمک پر بھیجا اور ان قرامطہ کی سرکوبی کو جنہوں نے کوفہ کی طرف رخ کیا تھا صافی بصری کو روانہ فرمایا۔ چنانچہ ان سپہ سالاروں نے قرامطہ کو ہرطرف سے گھیر کر آتش حرب مشتعل کی۔ قرمطی شکست کھا کر بھاگے۔ لشکر شاہی نے تھوڑی دور تک ان کا تعاقب کیا۔یہ پہلی شکست تھی جو ابوطاہر کے پیرؤوں کو تخت بغداد کے مقابلہ میں ہوئی۔ عساکر خلافت نے ان کے پھریرے چھین لئے۔ یہ پھریرے سفید رنگ کے تھے اوران پر یہ آیت لکھی تھی ’’ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلہم أئمۃ ونجعلہم الوارثین (القصص:۵)‘‘ {اورہمیں یہ منظور تھا کہ جن لوگوں کو سرزمین (مصر) میں ضعیف کیا جا رہاتھا ہم ان پر یہ احسان کریں کہ انہیں دین کا پیشوا اور ملک کا مالک بنادیں۔}
جس وقت یہ لشکر ظرف پیکر مظفر و منصور ان پھریروں کو سرنگوں کئے ہوئے بغداد میں داخل ہوا۔تو وہاں بڑی خوشیاں منائی گئیں۔خواص وعام جوش مسرت سے نعرے بلند کر رہے تھے۔ اس شکست کے بعد قرامطہ کا وہ پہلا سا زور بل نہ رہا اور سواد کوفہ سے ان کا عمل و دخل بالکل اٹھ گیا۔
مکہ معظمہ میں قتل عام
ابوطاہر نے شہر ہجرکودارالحکومت بنانے کے بعد وہاں ایک نہایت عالیشان مسجد تعمیرکرائی تھی۔اس مسجدکواس نے دارالہجرت کے نام سے موسوم کیا۔اب اس پریہ خبط سوار ہوا کہ لوگ کعبہ کا حج اور طواف چھوڑکر اس کے دارالہجرۃ کا حج کیا کریں۔لیکن اس مقصد کے حصول کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔اس لئے اس کے طاغوت آشیاں دماغ نے اسے یہ نادرالمثال ترکیب سوجھائی کہ حجر اسود کو مکہ معظمہ سے منتقل کر کے دارالہجرت میں نصب کردیا جائے۔چنانچہ اس غرض کی تکمیل کے لئے اس نے ۳۱۹ھ میں مکہ معظمہ کی طرف کوچ کیا۔اس سال منصوردیلمی بغداد سے لوگوں کو حج کرانے کے لئے آیا تھا۔حجاج کا قافلہ صحیح وسلامت مکہ معظمہ پہنچ گیا۔ لیکن یوم
ترویہ کو ابوطاہر بہت بڑی جمعیت کے ساتھ مکہ معظمہ آپہنچا اور گھوڑے پر سوار ہو کر تیغ برہنہ مسجد حرام میں داخل ہوا۔یہاں آکر شراب منگوا کر پی اوراپنے گھوڑے کے سامنے سیٹی بجائی تو اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔اس وقت بعض حجاج بیت اللہ کے طواف میں اور بعض نماز میں مصروف تھے اور جامہ احرام کے سواان کے تن پر کوئی کپڑا نہ تھا۔قرمطیوں نے ابوطاہر کے حکم سے زائرین کعبہ پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔جس کسی کا مال واسباب پایا لوٹ لیا۔جس کو دیکھا موت کے گھاٹ اتار دیا۔شہر کے علاوہ مسجد حرام اور خانہ کعبہ میں بھی قتل عام ہوتا رہا۔ ہزارہا جرم نا آشنا زائرین حرم قرمطی تیغ جفا کا نشانہ بن گئے۔شہر میں ہر طرف دجلہ خون روان تھا۔خاص بیت اطہر میں ایک ہزار سات سو طائف اور محرم جام شہادت سے سیراب ہوئے۔ علی بن بابویہ بھی اس داروگیر میں موجودتھا۔ اس نے ہمہ گیر قتل وغارت کے باوجود طواف بیت اللہ قطع نہ کیا اور یہ شعر پڑھا:
تری المجتین صرعی فی دیارھم
کفیتہ الکھف لایدرون کم لبثوا
علی بن بابویہ پرچاروں طرف سے تلواریں پڑنے لگیں اور اس کا طائر روح آناًفاناً قفس عنصری سے پروازکرگیا۔چاہ زمزم اور مکہ معظمہ کے متعدد دوسرے کنوئیں اورندی نالے اورگڑھے شہداء کی لاشوں سے پٹ گئے۔ شہداء کی کوئی تجہیز و تکفین عمل میں نہ آئی۔اس کے بعد ابوطاہر نے کعبہ معلی کے دروازے کو اکھڑوا دیا اور نہایت متکبرانہ لہجہ میں جس سے اس کا دعویٰ خدائی بھی ثابت ہوتا تھا۔بولا:
انا باﷲ و باﷲ انا
یخلق الخلق ویفنیہم انا
اور حجاج کو پکار کر کہنے لگا۔اے گدھو!تم کہتے ہو ’’من دخلہ کان امنا‘‘ {جو کوئی بیت اللہ میں داخل ہو جائے وہ مامون ہے} اب وہ امن کیا ہوا؟۔ہم نے جو چاہا کیا۔جس کو چاہا زندہ رکھا۔جس کو چاہا ہست سے نیست کردیا۔ایک شخص نے اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اورکہنے لگا اس آیت شریفہ کا یہ مفہوم نہیں جو تم سمجھے۔بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جو شخص اس میں داخل ہو جائے اسے امن دو۔ ابوطاہر نے اس کی طرف التفات نہ کیا اور وہ اس کے فتنہ سے مامون رہا۔ ابو محلب امیرمکہ نے دیکھاکہ قرمطی جورو تغلب کا طوفان کسی طرح نہیں تھمتا تو وہ شرفائے مکہ کا ایک وفد لے کر حجاج اور اہل مکہ معظمہ کی سفارش کے لئے ابوطاہر کے پاس گیا۔ اس
سیاہ دل نے قبول شفاعت کی بجائے اپنی فوج کا ان پراشارہ کردیا۔وہ ان ناکردہ گناہوں پر ٹوٹ پڑے۔یہ دیکھ کر ابومحلب نے بھی مقابلہ کیا۔ مگر چند آدمیوں سے کیا ہوسکتا تھا۔ سب کے سب وہیں ڈھیر ہو گئے۔ابوطاہر نے میزاب جو سونے سے مرصع تھا۔اکھڑوانا چاہا۔اس غرض کے لئے اس نے ایک آدمی کو کعبہ معلی پر چڑھایا۔محمد بن ربیع بن سلیمان کا بیان ہے کہ میں اس وقت تھوڑی دور کھڑا دیکھ رہا تھا۔ میرے دل کو سخت ٹھیس لگی۔ میں نے کہا ’’یارب مااحلمک‘‘ (الٰہی تیری بردباری کی کوئی حد نہیں)میرا یہ کہنا تھا کہ قرمطی سرنگوں گرکر ہلاک ہوگیا۔ابو طاہر نے اس کی جگہ دوسرے آدمی کو چڑھنے کا حکم دیا۔وہ بھی گر کر طمعۂ اجل ہوگیا۔ اب تیسرے کو چڑھنے کے لئے کہا۔ لیکن وہ اس قدر خوفزدہ ہوا کہ اسے اوپر چڑھنے کی کسی طرح جرأت نہ ہوئی۔یہ دیکھ کر ابوطاہر وہاں سے علیحدہ ہوگیا۔ قرمطیوں نے غضب آلود ہو کر بیت اللہ کا دروازہ توڑڈالا۔ابو طاہر نے غلاف کعبہ کو اترواکرٹکڑے ٹکڑے کرادیا اور اس کے پارچے لشکر میں تقسیم کردیئے اور بیت اللہ کے خزانہ پر بھی قبضہ کر لیا۔اس سال باستثنائے قدر قلیل حجاج عرفات میں نہ ٹھہرے اور بغیر امام کے ہی حج ادا کر لیا۔
حجراسود کو مکہ مکرمہ سے منتقل کرنیکا خوفناک اقدام
ابوطاہر اس پتھر کو مکہ معظمہ سے ہجر لے جانا چاہتا تھا۔جس پر جناب ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کا نقش پا تھا۔لیکن خادمان کعبہ نے اسے مکہ معظمہ کی گھاٹیوں میں چھپا دیا۔ اس وجہ سے اس پر دسترس نہ پا سکا۔ لیکن حجر اسود کو اس کی جگہ سے نکال لے گیا۔یہ ہولناک واقعہ بروز دو شنبہ۱۴ذی الحجہ۳۱۷ھ کو رونما ہوا۔چونکہ قرمطی ملاحدہ اصنام پرستوں سے بھی زیادہ بے دین تھے اور انہوں نے کعبۃ اللہ سے منحرف ہو کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنا لیا تھا۔ اس لئے ظاہر ہے کہ ابوطاہر کے دل میں بیت اللہ کی کوئی وقعت نہ ہوسکتی تھی۔ بلکہ وہ اپنی شقاوت سے کعبہ معلی کو بیت اللہ ہی نہ سمجھتا تھا۔ اسی بنا پر اس نے کہا تھا:
فلوکان ھذا البیت اللہ ربنا
لصب علینا النار من فوقنا صبا
لانا حججنا حجۃً جاھلیۃ
محللۃ لم تبق شرقاً ولا غرباً
وانا ترکنا بین زمزم والصفا
جنائز لاتبغی سویٰ ربھا ربا
لیکن وہ اس حقیقت حال سے بے خبر تھا کہ خدائے شدید العقاب ابوطاہر جیسے گردن فراز جبابرہ کو عموماً مہلت دیتا اوران کے کفر، ظغیان اور حق فراموشی کو دراز کر دیتا ہے۔چنانچہ فرمایا ہے:
’’فذرنی ومن یکذب بھذا الحدیث۰ سنستدرجہم من حیث لایعلمون۰ واملی لھم ان کیدی متین (القلم: ۴۴،۴۵)‘‘ {اے رسول! نزول عذاب کی تاخیر سے ملول نہ ہوجیئے اور تکذیب کرنے والوں کو ہمارے ذمے رہنے دیجئے۔ ہم ان کو ساعت بساعت جہنم کی طرف اس طرح لئے جا رہے ہیں کہ ان کو اس کا کچھ احساس نہیں۔ ہم ایسے لوگوںکو مہلت دیتے ہیںاورہماری یہ تدبیربڑی زبردست ہے۔}
ابوطاہر نے قبہ زمزم کو مسمارکرا دیا اور چھ یا گیارہ روز تک مکہ معظمہ میں اقامت کر کے ہجرکو لوٹ گیا۔ابو طاہر نے حجراسود کوہجر کی جامع مسجد کی غربی جانب آویزاں کر دیا اور مکہ معظمہ میں حجر اسود کی جگہ خالی رہ گئی۔
عبید اللہ کا خط ابوطاہرکو
مکہ معظمہ سے مراجعت کرنے کے بعد ابو طاہر نے اپنی قلمرو میں حکم دیا کہ عبیداﷲ مہدی کے نام کا خطبہ پڑھا جائے اورعبیداﷲ کو اطلاع دی کہ ہم نے اپنی مملکت میں آپ کے نام کا خطبہ جاری کردیا ہے اوربہت کچھ اظہار عقیدت واخلاص کے بعد لکھا کہ آپ یہ سن کر خوش ہوںگے کہ میں نے مکہ میں(معاذاﷲ) ’’پیروان ضلالت اوراہل فساد‘‘ کا خوب قلع قمع کیا۔یہاں تک کہ مکہ کی سرزمین ان کے خون سے لالہ زار بن گئی۔عبیداﷲ نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہماری طرف خط بھیج کر اپنی بداعمالیوں کی داد چاہنا سخت حیرت انگیز ہے۔بلداﷲ الامین میں تو نے کیا کچھ حرکتیں نہ کیں؟۔ تو نے بیت اللہ کی جوازل سے جاہلیت واسلام میں ہمیشہ محترم رہا، بے حرمتی کی۔اس بقعہ مقدسہ میں مسلمانوں کے خون بہائے۔ حجاج اور معتمرین کو ہلاک کیا اورخانہ خدا میں اس قدر جسارت کا اظہار کیا۔حجر اسود کو اکھاڑ لے گیا۔حالانکہ حجر اسود بسیط ارض پر یمین الٰہی ہے اور لکھا کہ تمہاری اس حرکت کی وجہ سے ہماری جماعت اورہماری سلطنت کے دعاۃ پر کفروالحاد کا اطلاق متحقق ہوگیا ہے اور لطف یہ ہے کہ ان تمام شناعتوں اوربدکرداریوں کے باوجود تجھے اس بات کی توقع ہے کہ ہم تمہاری حرکتوں پر تمہیں خوشنودی خاطر کا تمغہ عطا کریںگے؟۔ فلعنک اللہ ثم لعنک
اللہ والسلام علی من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ! جب ابو طاہر کو یہ خط ملا تو سانپ کی طرح پیچ و تاب کھانے لگا اورعبیداﷲ کی اطاعت سے منحرف ہوگیا۔
دہ سالہ انقطاع کے بعد حج کا اجراء
معلوم ہوتا ہے کہ حج کعبہ ۳۱۷ھ سے ۳۲۷ھ تک یعنی دس سال تک موقوف وملتوی رہا۔ چونکہ امن طریق بھی فرضیت حج کی لازمی شرط ہے اور ابوطاہر کی وجہ سے امن طریق مفقود ہوچکا تھا۔ اس لئے عازمیں حج بحالی امن کے منتظر رہے۔ انہیں ہرسال مایوس ہونا پڑتا تھا۔ دس سال کی طویل مدت اسی انتظار میں گزرگئی۔ آخر۳۲۷ھ میں بو علی عمربن یحییٰ علوی نے جو ابوطاہر کادوست تھا اس کو لکھا کہ ہرحاجی سے پانچ دینار فی شتر محصول لے کر حج کی اجازت دے دو۔ چنانچہ اس نے اس کو منظور کرلیا اور لوگوں کا امن واطمینان کے ساتھ حج کرنا نصیب ہوااوریہ پہلا ہی موقع تھا جبکہ حاجیوں کو حج کا محصول ادا کرنا پڑا۔اس کے بعد خلیفہ کے حاجب محمد بن یاقوت نے ابوطاہر کو ایک خط لکھا کہ اگر تم حجاج سے تعرض کرنا چھوڑ دو اور حجر اسود واپس کردو تو خلیفۃالمسلمین وہ تمام بلاد جو تمہارے زیر نگیں ہیں تمہارے پاس ہی برقرار رہنے دیں گے۔ابوطاہر نے جواب دیا کہ آئندہ حجاج سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔ لیکن حجر اسود کی واپسی کے متعلق اس نے نفیاً یا اثباتاً کوئی جواب نہ دیا۔اس دن سے قرامطہ نے حجاج سے تعرض کرنا چھوڑدیا۔
حجر اسود کی واپسی
ابوطاہر نے بہتیری کوششیں کیں کہ لوگ حجر کی بدولت ہجر کی طرف حج کو آئیں۔لیکن خدائے بزرگ برتر نے اس کی کوششوں کو بارآور نہ ہونے دیا۔کوئی شخص ہجر کی طرف مائل نہ ہوا۔ توتحویل حج سے مایوس ہوگیا۔ خلیفہ وقت مقتدر باﷲ نے پچاس ہزاردرم اس کے عوض میں پیش کئے تھے۔ لیکن ابو طاہر نے دینے سے انکار کیا تھا۔آخر جب دیکھا کہ اس سے کوئی مطلب براری نہ ہوئی۔ تو خلیفہ مطیع اللہ کے عہد خلافت میں تیس ہزار دینارلے کرواپس کردیا۔اوربعض روایتوں میں لکھا یہ ہے کہ انہوں نے کچھ نہ لیا۔بلکہ کہنے لگے کہ ہم نے اسے خدا ہی کے لئے لیا اور خدا ہی کے نام پر واپس کرتے ہیں۔ شبیر بن حسین قرمطی سہ شنبہ ۱۰محرم ۳۳۹ھ کو حجر اسود لے کر مکہ معظمہ پہنچا اور کعبہ معلی میں پھر اپنی جگہ پر نصب کیا گیا۔اب اس کے گرد چاندی کا حلقہ جس کا وزن تین ہزار سات سو ستتر(نصف درم،قریباً چودہ سیر) تھا چڑھا دیاگیا۔حجر اسود قرامطہ کے قبضہ میں چار روز کم بائیس سال رہا۔کہتے ہیں کہ جب قرامطہ حجراسود لے گئے تو ہجر تک پہنچتے پہنچتے چالیس اونٹ اس کے نیچے دب کر مر گئے اور جب واپس لائے تو ایک ہی اونٹ نے مکہ معظمہ تک پہنچا دیا۔
ابوطاہر اس واقعہ کے بعد مرض چیچک میں مبتلا ہوا۔اس مرض نے اس کا ایسا برا حال کردیا کہ جسم ریزہ ریزہ ہوگیا۔ آخر گٹھرکے گٹھر گناہ لے کر بصد حسرت واند وہ اپنے اصلی مستقر کو چلا گیا۔
(الکامل فی التاریخ ج۷ص۱۷،۱۵۴،۲۳۴،تاریخ ابن خلدون عربی ج۳ص۳۷۶،۳۷۸)
تحفظ مذہب کے لئے تلوار کی اہمیت
ابوطاہراوراس کے پیشرو اور پس رہ باطنی و قرمطی دشمنان دین نے اسلام اوراہل اسلام کے خلاف جس شقاوت و سیاہ دلی کا ثبوت دیا۔اس کی یاد ایک مومن قانت کا کلیجہ پاش پاش کردیتی ہے۔ یہ دردناک واقعات ان حقیقت ناآشنا افراد کی آنکھیں کھول دیں گے۔ جو مذہب کے تحفظ وبقا کے لئے سیاسی قوت کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ چونکہ خلافت اسلامیہ کے بازوکمزورہو رہے تھے اور اس وقت تک کوئی اور پرشکوہ اسلامی سلطنت بھی عالم وجود میں نہ آئی تھی جو ابوطاہر اور اس قماش کے دوسرے اعدائے ملت کو کیفرکردار تک پہنچا سکتی۔ اس لئے اسلام کا مرکز و محور بھی اعداء کی دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکا اور دین کی بنیادیں ہل گئیں۔شریعت اور سلطنت کا تعلق دراصل روح اور قالب کا تعلق ہے۔ ان کے انفکاک کی صورت میں دونوں کا وہی حال ہوتا ہے جو وجود انسانی کا روح وقالب کے انفکاک سے متصور ہے۔مذہب نام ہے مجموعہ قوانین کا اور یہ مجموعہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا۔جب تک انسانی ضروریات کے سب اسباب اس میں شامل نہ ہوں۔ان کا اجتماع ہوتا ہے تو حکومت اور سلطنت کی شکل پیدا ہوتی ہے۔سلطنت کے بازو تلوار سے قوت پکڑتے ہیں اور تلوار قانون مذہب کی حفاظت اوراس کے اجراء کا حق ادا کرتی ہے۔ کامل اورمکمل مذہب کے ہمیشہ دورنگ ہوتے ہیں۔ ظاہر اس کاسلطنت ہے اورباطن اس کا روحانیت۔اس کا ایک پہلو دنیا ہے اوردوسرا دین۔ ابنائے تعلیم جدید کا گمان ہے کہ مذہب اورسیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لیکن ایسا خیال سخت جہالت ہے۔ باوجودیکہ آج یورپ اس امر کا مدعی ہے کہ اس نے سلطنت کومذہب کی بندش سے نکال لیا۔لیکن کیا دول یورپ عیسائیت کے علو کے متمنی نہیں ہیں؟۔ کیا تہذیب وتمدن کو مسیحیت کا مترادف قرار نہیں دیاگیا؟۔کیا پادری لوگ مسیحی شریعت کی ترویج کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میںجاتے ہیں تو ان کے پیچھے مسیحی تعلیم کی تشریح کے لئے توپوں اور بمبار طیاروں کا خوفناک سلسلہ نہیں بندھ جاتا؟۔کیا مسیحیت کے پیغام صلح کی تفسیر آگ کی روشنائی اور تپتے ہوئے گولوں کے قلم سے ہلاکت و بربادی کے حروف میں صفحہ عالم پر نہیں لکھی جاتی؟۔ کیا آج دنیا کو تعلیم مسیح کا پیام سترہ سترہ انچ دہانہ کی توپوں کی زبان سے نہیں مل رہا ہے جو ۳۱،۳۱ من کے گولے پھینکتی ہیں؟۔ اگر ایسا ہے اور یقیناً ایسا ہے تو اس حقیقت
کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ شعائر اللہ کا تحفظ بدون کسی زبردست سلطنت کی عون و نصرت کے محال ہے۔یورپ کا مفتون امن کے پیچھے لٹھ لئے پھرتا ہے۔لیکن اتنا نہیں جانتا کہ امن کہتے کسے ہیں؟۔ اس کی تو عمارت ہی کشت وخون کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے جس کے مصالحہ کی تیاری میں لاکھوںگردنیں کٹ جاتی ہیں۔ ہزارہا خاندان تہس نہس ہوجاتے ہیں۔دشمن ہر وقت موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے۔موقع ہاتھ آنے سے پہلے اس کا سر نہ کچل دیا جائے تو اپنی جان ومال عزت وناموس کی خیر نہیں۔فتنہ کو زور پکڑنے سے پہلے ہی دبا دینا عقلمندی ہے۔ جاہل اس کو تعدی سمجھتا ہے۔ لیکن یہ تحفظ کی لازمی شرط ہے۔ اگر قرمطی اور باطنی اشقیاء کو بڑھنے اور پنپنے کا موقع نہ دیا جاتا اور اس فتنہ کو نشوونما سے پہلے ہی پامال کردیا جاتا تو مسلمانوں کو عموماً اور سلاطین اسلام کو خصوصاً ان زہرہ گداز حوادث سے سابقہ نہ پڑتا۔جن میں ان کو ناچار گذرنا پڑا۔
باب۳۰ … حامیم بن من اللہ محکسی
۳۱۳ھ میں ابو محمد حامیم بن من اللہ محکسی نے سرزمین ریف واقع ملک مغرب میں دعویٰ نبوت کیا اور اپنی فریب کاریوں کا جال پھیلا کرہزارہا زوداعتقادی بربری عوام کو اپنا پیروبنا لیا۔ اس نے اپنے پیرووںکے لئے ایک نیا آئین جاری کیا جو اسلامی شریعت سے بہت کچھ بعد رکھتا تھا۔صرف دو نمازوں کا حکم دیا۔پہلی طلوع آفتاب کے وقت اوردوسری غروب کی ساعت میں پڑھی جاتی تھی۔اس نے ماہ رمضان کے روزے اڑا دیئے۔ان کی جگہ رمضان کے آخری عشرے کے تین، شوال کے دواور ہر بدھ اورجمعرات کو دوپہر تک کا روزہ متعین کیا۔جو شخص اس آئین کی خلاف ورزی کرتا۔ اس سے چھ راس مویشی کفارہ یا تاوان وصول کرکے بیت المال میں داخل کیا جاتا۔ اس نے اپنی امت سے حج، زکوٰۃ اور وضو ساقط کر دیا۔خنزیر کو حلال بتایا اور مچھلی حلال کی۔ لیکن بدیں شرط کہ اس کے خانہ ساز شرعی طریقہ سے ذبح کی گئی ہو۔تمام حلال جانوروں کے سر اور انڈے کھانے کی مخالفت کی۔چنانچہ اورعلاقہ کے بربرقبائل آج تک انڈوں کو حرام سمجھ کر ان سے احتراز کرتے ہیں۔ اس کی پھوپھی جس کانام تنجیت یا تابعیت تھا۔کاہنہ اورساحرہ تھی۔یہ بھی نبیہ متصور ہوتی تھی اور اس کا نام نمازوں میں لیا جاتا تھا۔ اسی طرح اس کی بہن ووجوع نام بھی کاہنہ اور ساحرہ تھی۔خانہ ساز نبوت کے درجہ پر فائز تھی۔اس نے اپنے پیرؤوں کی رہنمائی کے لئے بربری زبان میں ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ جسے کلام الٰہی کی حیثیت سے پیش کیا کرتا تھا۔ اس کتاب کے جو الفاظ نماز میں پڑھے جاتے تھے ان کا نمونہ ملاحظہ ہو:
’’ اے وہ جو آنکھوں سے پنہاں ہے مجھے گناہوں سے پاک کردے۔اے وہ جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا سے صحیح وسلامت پار کر دیا۔ میں حامیم پر اوراس کے باپ ابو خلف من اللہ پر ایمان لایا ہوں۔میرا سر اور میری عقل میرا سینہ اور میرا خون اور میرا گوشت و پوست سب ایمان لائے ہیں۔میں حامیم کی پھوپھی تابعیت پر بھی جو ابو خلف من اللہ کی بہن ہے ایمان لایا ہوں ۔‘‘
حامیم کے پیرو امساک باران کے وقت اور ایام قحط میں حامیم کی پھوپھی اور اس کی بہن کے توسل سے دعا مانگتے تھے۔حامیم ایک لڑائی میں مارا گیا جو ۳۱۹ھ یا ۳۲۹ھ میں تبخیر کے پاس احواز میںقبیلہ مصمودہ سے ہوئی۔لیکن جو مذہب وہ قائم کر گیا۔ وہ ایک زمانہ دراز تک عبرت کدہ عالم میں موجود رہا۔حامیم ہی کے خاندان مین عاصم بن جمیل بھی ایک جھوٹا نبی گذرا ہے۔اس کے حالات غیر ضروری سمجھ کر قلم انداز کر دیئے گئے ہیں۔
باب۳۱ … محمد بن علی شلغمانی
ابو جعفر محمد بن علی معروف بہ ابن ابی العزاقر، شلغمان کا رہنے والا تھا جو واسط کے مضافات میںایک گاؤں ہے۔ خدائی کا مدعی تھا۔ابتداء میں شیعہ امامیہ کے فقہائے اکابر میں شمار کیا جاتا تھا اوراس کے مذہب کے اصول پر کتابیں لکھی تھیں۔ لیکن جب ابوالقاسم حسین بن روھ سے جس کو شیعہ لوگ اس خیال سے باب کہتے تھے کہ وہ امام محمد بن حسن عسکریؒ کی طرف سے ان کی غیبوبیت صغریٰ کے زمانہ میں وکیل تھا۔ اس کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تو اس نے خود امام مختفی کے ’’باب‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا اور شیعوں میں ایک ایسا مذہب و مسلک پیدا کیا۔جس کی بنیادیں انتہائی غلو اور تناسخ وحلول ذات باری کی سطح پر قائم تھیں۔ شیعیت سے ترقی کرنے کے بعد اس نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ اللہ عزوجل کی روح آدم علیہ السلام کے جسد میں حلول کر گئی اوران کے بعد شیث علیہ السلام کے جسم میں داخل ہوئی۔اسی طرح ایک ایک کر کے انبیاء واوصیا اور آئمہ کے جسموں میں حلول کرتی رہی۔یہاں تک کہ اس نے حسن بن علی عسکری کے جسم میں حلول کیا۔ ان کے بعد خود اس میں حلول کر گئی۔ ۳۲۰ھ میں شلغمانی بغداد آیا۔ اس وقت خلیفہ قاہر باﷲ آل عباس کے تخت خلافت پر متمکن تھا۔ شلغمانی کہتا تھا کہ میں ہی ظاہروباطن اول وآخر اور قدیم ہوں۔رزاق اور تام ہوں اور تام سے مراد وہ ذات ہے جو ہر صفت سے موصوف ہوسکے۔
سابق وزیراعظم کو شلغمانی ربوبیت کا اعتراف
بغداد کے ہزارہا آدمی اس کے گرویدہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ کئی ایک ذی اقتدار اور صاحب اثر افراد بھی اس کی ربوبیت کا اقرار کر لیا۔جن میں حسن بن قاسم جیسا زیرک و فرزانہ روزگار مدبر بھی جواس سے پیشتر خلیفہ مقتدرباﷲ کا وزیراعظم رہ چکا تھا داخل تھا۔ اسی طرح بسطام کے دونوں بیٹے ابوجعفر اور ابو علی جو امرائے بغداد میں سے تھے وہ بھی (معاذاﷲ) اس کی خدائی پر ایمان لے آئے۔ مگر کسی دوردست مقام پر یا کسی نصرانی حکومت کے زیر حکومت رہ کر خدائی کا یہ جال پھیلاتا تو اس سے کچھ تعرض نہ کیاجاتا اور مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح اسے یہ کہنے کا موقع ملتا کہ چونکہ تیئس سال کی طویل مدت سے بلا مزاحمت اپنے دعویٰ خدائی پر قائم ہوں۔اس لئے سچا خدا ہوں۔ مگر اسلامی سلطنت بالخصوص دارالخلافہ میں اس کی خدائی دیرپا نہیںرہ سکتی تھی۔ جب شلغمانی کا فتنہ حد سے بڑھ چلا اور لوگ جوق در جوق اس کے حلقہ ارادت میں داخل ہونے لگے تو حکومت کو اس کی طرف سے تردد لاحق ہوا۔ خاقانی وزیر اعظم نے اس کے گرفتار کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر شلغمانی کو اس کی اطلاع ہوگئی اوروہ بغداد میں روپوش ہوکر خاموشی کے ساتھ موصل چلا گیا۔ حکومت نے دیکھا کہ یہ فتنہ اب دب دبا گیا ہے۔اس کی گرفتاری کا کچھ اہتمام نہ کیا۔لیکن ڈیڑھ دوسال کے بعد اس نے پھر بغداد میں آکر سر اٹھایا۔خلیفہ الراضی باﷲ نے جو اسی سال خلافت عباسیہ کی مسند پر رونق افروز ہوا تھا۔ اس کی گرفتاری کا مؤکد حکم جاری کر دیا۔ اس وقت ابن مقلہ وزیراعظم تھا۔اس نے بیدارمغزی اور حکمت عملی سے کام لے کر اس نئے ’’پروردگار عالم‘‘ کو گرفتار کر لیا اور قید خانے میں ڈال دیا۔ اس کے گھر کی تلاشی لی گئی تو اس کے مومنین و معتقدین کے بہت سے خطوط اور رقعات برآمد ہوئے۔جن میں شلغمانی کو ایسے القاب سے یاد کیا تھا ۔جن کا اطلاق واستعمال بجز ذات رب العالمین کے بشرخاکی کی نسبت ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ ابن مقلہ نے علماء کو جمع کیا اور شلغمانی کے سامنے وہ خطوط پیش کئے۔ اس نے تسلیم کیا کہ یہ تمام خطوط میرے ہی نام پر بھیجے گئے تھے۔ لیکن تقیہ کر کے کہنے لگا کہ میں بالکل بے قصور ہوں۔ میرے عقیدے وہی ہیں جو دوسرے شیعوں کے ہیں۔میںنے اپنی زبان سے یہ بات کبھی نہیں کہی کہ میں معبود اور رب العالمین ہوں اوران لوگوںنے جو میری نسبت ایسے تعریفی الفاظ استعمال کئے تو یہ ان کی غلطی ہے۔ دوسروںکی غلطی کا الزام مجھ کو نہیں دیا جا سکتا۔ انہی خطوط کی بنا پر اس کے دو معتقد بھی گرفتار کئے گئے۔جو بغداد کے معززین میں سے تھے۔ایک ابن ابی عون اور دوسرا ابن عبدوس۔
شلغمانی اوراس کے غاشیہ برداردربار خلافت میں
اب یہ دونوں غاشیہ بردار اور خود شلغمانی، خلیفہ راضی باﷲ کے دربار میں پیش کئے گئے۔ خلیفہ نے ان دونوں مریدوںکو حکم دیاکہ اگر تم شلغمانی سے اپنی براء ۃ ظاہر کرتے ہوتودونوں زور سے اس کے منہ پر تھپڑ مارو۔پہلے تو اس حکم کی تعمیل سے گریزاں رہے۔ لیکن جب مجبور کئے گئے تو جبراً و قہراً آمادہ ہوئے۔ابن عبدوس نے ہاتھ بڑھا کر تھپڑ مار دیا۔ مگر ابی عون نے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا اس کا ہاتھ کانپ گیا اور ساتھ ہی دلی عقیدت کا جو جوش ہوا تو بڑھ کر شلغمانی کے سر اور داڑھی کا بوسہ لیا اوربے اختیاراس کی زبان سے یہ کلمہ نکلا:الٰہی! و سیدی و رازقی!(اے میرے معبود! میرے سرداراورمیرے رازق)اب کیا تھا خلیفہ کو ایک حجت وبرہان ہاتھ آگئی۔بولاتم توکہتے تھے کہ مجھے دعویٰ الوہیت نہیں تو اس شخص نے تجھے ایسے الفاظ سے کیوں مخاطب کیا؟۔ اس نے جواب دیا کہ قرآن میں ہے۔ ولا تزر وازرۃ وزر اخریٰ!(حق تعالیٰ ایک گناہ کا مواخذہ دوسرے سے نہیں کرتا) میں نے اپنی زبان سے یہ بات کبھی نہیں کہی کہ میں معبود اور رب الارباب ہوں۔ اس پر ابن عبدوس جس نے تھپڑ مارا تھا ۔بولا۔ ہاں یہ الوہیت کے مدعی نہیں۔ان کا تو یہ دعویٰ ہے کہ امام منتظر کے باب ہیں اور ابن روح کی جگہ پر ہیں۔ لیکن اس امر کی متعدد قابل وثوق شہادتیں پیش ہوئیں کہ ماخوذین کا انکار محض دفع الوقتی اور خوف قتل پر مبنی ہے۔ ورنہ شلغمانی بالقطع خدائی کا مدعی ہے اور یہ کہ جب کبھی اس کے پیرووں نے اسے ذات خداوندی سے متصف ومخاطب کیا ہے۔ اس سے اس نے انکار نہیں کیا۔باایں ہمہ خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کے خیالات وعقائد کی مزید تفتیش کی جائے۔آخر معلوم ہوا کہ اس شخص نے ایک نیا دین اورنیا آئین بنا کر لوگوں کی متاع دین وایمان پر بری طرح ڈاکہ ڈالا ہے۔
مشرکانہ وملحدانہ اصول وعقاید
اس کے دین کا پہلا اصول یہ تھا کہ شلغمانی ہی وہ الہٰ الہٰیت ہے جو حق کوثابت کرتا ہے۔ وہی جس کی جانب الفاظ اول، قدیم، ظاہر، باطن، سے اشارہ کیا جاتا ہے۔ذات باری تعالیٰ کے متعلق یہ اعتقاد نہ تھا کہ وہ ہرچیز میں اس کے ظرف و تحمل کے بموجب حلول کرتا ہے اورجب کسی پیکر ناسوتی میں داخل ہوتا ہے تو اس سے ایسی قدرت اورایسے معجزات ظاہر ہوتے ہیں جو اس کے خدا ہونے کی دلیل ہوتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ الٰہی یہ تھا کہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک ضد اس بنا پر ظاہر کی جس کی ضد ہے وہ ثابت ہو جائے۔پس ضد ہی ہرحق کی دلیل ہے۔ اور دلیل حق خود حق سے افضل وبرتر ہوتی ہے۔ہر چیز کے ساتھ جو چیزیں موافق و مشابہ ہوتی ہیں۔بمقابلہ ان کے اس
چیز کی ضد اس سے زیادہ قریب ہوتی ہے اسی کا مظہریہ ہے کہ جب رب العالمین نے ابوالبشر آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو جس طرح وہ خود آدم میں حلول کر کے نمایاں ہوا۔ اسی طرح آدم کے ابلیس یعنی ان کی ضد میں حلول کر کے بھی خود نمودار ہوا اور گو بہ ظاہر دونوں ایک دوسرے کے خلاف نظرآتے تھے۔ مگر دراصل دونوں پیکروں میں خود وہی تھا۔ پھر جب آدم (علیہ السلام) صفحہ ہستی سے غائب ہو گئے تو لاہوت (خدائے برتر) متفرق و منتشر ہو کر پانچ ناسوتیوں میں جدا جدا ظاہر ہوا اور اسی طرح ابلیس پانچ ابلیسوں میں سمٹ گیا۔اب لاہوتیت ادریس علیہ السلام کے پیکر میں جمع ہوگئی۔ یعنی مکمل خدا نے ادریس علیہ السلام میں حلول کیا۔اس طرح وہ ضد بھی پانچ ابلیسوں میں سمٹ کر ادریس علیہ السلام کی ضدیعنی ان کے مخالف و معاصر ابلیس میں مجتمع ہو گئی۔ادریس علیہ السلام اوران کے معاصر ابلیس کے بعد پھر الوہیت دونوں ضدوں کی حیثیت سے ناسوتیوں اور ابلیسیوں میں منتشر ہوئی اور چند روز بعد نوح علیہ السلام اوران کے معاصر ابلیس میں جمع ہوئی پھر منتشر ہوئی۔ چند روز کے بعد ہود علیہ السلام اوران کے ضد ابلیس میں جمع ہوئی۔اس کے بعد حسب معمول منتشر ہو کر صالح اور ان کے ابلیس یعنی عاقر ناقہ میں جمع ہوئی۔ بعدازاں چند روز منتشر رہ کر ابراہیم علیہ السلام اوران کے ابلیس (نمرود) میں جمع ہوئی۔پھر منتشر ہو کر ہارون اور ان کے معاصر ابلیس(فرعون) میں جمع ہوئی۔اب لاہوتییت داود علیہ السلام اوران کے ابلیس جالوت میںجمع ہوئی۔اس کے بعد جو منتشر ہوئی تواس نے سلیمان علیہ السلام اوران کے ابلیس کے پیکروں کو حلول ہونے کے لئے منتخب کیا۔ اس کے بعد منتشر ہوکر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ابلیس میں مجتمعاً ظاہر ہوئی۔ عیسیٰ کے بعد وہ حواریوں میں تقسیم ہو گئی اور چند روز گزار کر حضرت علی مرتضیؓ اور ان کے معاصر ابلیس میں نمودار ہوئی۔ اور اب وہی الوہیت خود شلغمانی اوراس کے معاصر ابلیس میں نمایاں ہے۔شلغمانی کی یہ بھی تعلیم تھی کہ خدائے برتر اپنے آپ کو ہر چیز ،ہر پیکر اور ہر معنی میں ظاہر کرتا ہے اور ہر دل میں جو خیالات موجزن رہتے ہیں اور یہ حالت ہوتی ہے کہ گویا آنکھوں کے سامنے ہیں۔ یہ وہی خدا ہے۔ خدا دراصل ایک معنی کا نام ہے اور لوگ جس کسی کے محتاج ہوں۔وہ اس کا الہٰ (خدا)ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے ہر شخص خدا ہو سکتا ہے۔کیونکہ جس سے کسی کو نفع پہنچے وہ اس کا رب ہے۔ ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ میں فلاں شخص کا رب ہوں۔وہ میرا رب ہے۔ فلاں فلاں کا رب ہے اور فلاں میرے رب کا رب ہے۔یہاں تک کہ ربوبیت کا سلسلہ شلغمانی تک پہنچ جاتا اور وہ دعویٰ کرتا کہ میںرب الارباب ہوں۔ کیونکہ اس کے زمانہ میں (معاذاﷲ) اس سے بڑی اور کوئی ربوبیت نہ تھی۔
بدترین رفض والحاد
شلغمانی کا بدترین رفض اور حضرت علیؓ کی محبت کا غلو یہاں تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ جناب موسیٰ کلیم اور جناب محمد رسول اللہ علیہما الصلوٰۃ و السلام کو(معاذ اللہ)خائن بتاتا تھا اور کہتا تھا کہ ہارون نے موسیٰ کو اور حضرت علیؓ نے جناب محمد(ﷺ)کو لوگوں کی طرف بھیجا کہ ہماری شریعت کی دعوت دو۔ مگر ان دونوں نے ان کے ساتھ خیانت کی اور لوگوں کو غرض ومفوض کی طرف بلانے کی جگہ اپنی دعوت دینی شروع کی۔ اس کے ساتھ ایک عجیب بات یہ تھی کہ شلغمانی کے نزدیک جناب امام حسنؓ اور جناب امام حسینؓ حضرت علیؓ کے فرزند نہ تھے۔ کیونکہ اس کے اعتقاد کے رو سے حضرت علی الہٰ العالمین تھے اور اس کے زعم میں جس پیکر میں ربوبیت مجتمع ہو کر نمودار ہوتی ہے۔ اس کا نہ کوئی باپ ہوتا ہے اور نہ کوئی بیٹا۔وہ تو خدا ہے اور خدا کی شان لم یلد ولم یولد ہے۔شلغمانی کی تعلیم کے بموجب جنت اور دوزخ کا کوئی وجود نہیں۔ بلکہ اس کے مذہب کے ماننے اور اس کی معرفت کا نام جنت تھا۔ اوراس کے مذہب سے انکار کرنے اوراس کے اصول سے جاہل رہنے والے کا نام دوزخ۔ملائکہ سے اس کے زعم میں ہروہ شخص مراد تھا جوعارف حق اور اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو۔شلغمانی کہتا تھا کہ جو شخص اللہ کے کسی دوست کی مخالفت کرے اور اس سے مقابلہ کرتا رہے وہ ماجور ہے۔ کیونکہ ولی کے فضائل کا اظہار اس کے بغیرصورت پذیر نہیں ہو سکتا کہ اس کا کوئی دشمن اس پر لعن طعن کرے۔چنانچہ جب ولی ہدف اعتراضات بنایا جاتا ہے اور لوگ ان اعتراضوں کو سنتے ہیں تو اس کے حالات کی جستجو کرتے ہیں۔ایسی حالت میں یہی مخالفت ظہور فضائل وکمالات کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس لئے مخالف ولی سے افضل ہے۔اسی بناپر وہ جناب موسیٰ کلیم علیہ السلام سے فرعون کو اور حضرت سرور کائنات ﷺ سے (معاذاﷲ) ابوجہل کو اور حضرت علیؓ سے حضرت معاویہؓ کو افضل بتاتا تھا۔
شلغمانی شریعت کے شرمناک احکام
یہ تو شلغمانی کے عقاید تھے۔اب ذرا اس کے آئین مذہب کی شان ملاحظہ ہو۔ اس کا اعتقاد تھا کہ علیؓ نے جناب محمد(ﷺ) کو رسول بنا کر کبراء قریش اور جبابرہ عرب کے پاس بھیجا۔ ان کے دل ٹیڑھے تھے۔ محمد ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ رکوع و سجود کریں۔ نماز پڑھیں۔علیؓ نے محمدﷺ کو اصحاب کہف کی مدت خواب یعنی ساڑھے تین سو سال تک مہلت دے دی اور اس بات کی اجازت مرحمت فرمائی کہ اتنا زمانہ تک محمدﷺ کی شریعت ہی پر عمل کیا جائے۔ لیکن اس مدت کے گزرتے ہی ان کی شریعت مسترد ہو جائے گی اوراس کی جگہ نئی شریعت عرصہ وجود میں آئے گی۔
مگر ساڑھے تین سو سال کی مدت کے پورے ہونے میں ابھی اٹھائیس سال باقی تھے کہ دربار خلافت نے الوہیت کا وہ سارا کھیل ہی بگاڑ دیا جو شلغمانی صاحب کے پیکر ناسوت میں سے عجیب وغریب قسم کی ابلیسی صدائیں بلند کررہی تھی۔ شلغمانی کے مسائل شریعت یہ تھے کہ غسل جنابت اور نماز روزہ بالکل چھوڑ دیا جائے۔ یہ تکلیف محمد ﷺ نے عربوں کو ان دنوں دی تھی۔لیکن عہد حاضر میں اس کی قطعاً ضرورت نہیں۔موجودہ دور میں تو یہ تکلیف لوگوں کے مناسب حال ہے کہ اغیار کو اپنی بیوی سے ہم بستر ہوتے دیکھیں اورغصہ نہ آئے۔ چنانچہ عورتیں مطلقاً ہر شخص کے لئے حلال طیب ہیں۔ بندے پر اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ اس کے لئے دو لذتیں جمع کردیں۔ پس ہر انسان اپنے ذوی الارحام اور محرمات ابدیہ تک کے ساتھ مقاربت کر سکتا ہے۔ بلکہ اہل حق (شلغمانی کے پیرووں) کو چاہیے کہ ہر شخص جو دوسرے سے افضل ہو اپنے سے کم درجہ والوں کی عورتوں سے حسبتہً ﷲ مقاربت کرئے۔ تا کہ ان میں اپنا نور پہنچائے اور جو کوئی اس سے انکار کرے گا۔ وہ کسی آئندہ زندگی میں عورت کے پیکر میں پیدا کیا جائے گا۔شلغمانی نے اس شرمناک موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام کتاب الحساسہ السادسہ رکھا تھا۔غرض شلغمانی شہوت پرستی کے رواج دینے میں اپنے کسی پیش رو سے کم نہیں تھا۔بلکہ غور سے دیکھا جائے تو اس آئین کے رائج کرنے میں اس نے مزدک کے بھی کان کاٹ لئے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس ناہنجار نے فعل خلاف وضع یعنی عمل قوم لوط کو بھی جائز کر رکھا تھا۔اس سے معلوم ہو گا کہ یہ شخص محض زندیق ہی نہیں تھا بلکہ اوّل درجہ کا شہوت پرست اور بدمعاش بھی تھا۔جس کا نصب العین یہ تھا کہ دنیا شہوت پرستی،زناکاری اوراغلام بازی کا گہوارہ بن جائے۔ گو حضرت علیؓ خود بھی ابن ابی طالب تھے۔ لیکن اس لحاظ سے کہ آل ابوطالب میں سے اکثر نے امامت کے دعویٰ کئے تھے۔ شلغمانی کے نزدیک تمام طالبیوںاورعباسیوں کا قتل کرنا موجب ثواب تھا۔ خلاصہ یہ کہ اس شخص نے دین اسلام اور خلافت آل عباس کے استیصال کے لئے بارود بچھانے میں اپنی طرف سے کوئی کسراٹھا نہ رکھی تھی۔
شلغمانی کا قتل
شلغمانی اوراس کے اخص پیروئوں کے مقدمہ کی تحقیقات خاص خلیفہ باﷲ کے دربار میں ہوا کرتی تھی۔ ان صحبتوں میں فقہاء وقضاۃ کے علاوہ بعض سپہ سالار بھی شریک ہوتے تھے۔ آخر فقہا نے فتویٰ دے دیا کہ شلغمانی اور اس کا رفیق ابن ابی عون مباح الدم ہیں اوران کی فرد قرارداد جرم میں برأت کا کوئی پہلو نہیںنکل سکتا۔ چنانچہ شلغمانی اور ابی عون بروز سہ شنبہ ۲ ذی قعدہ
ھ کو مصلوب کئے گئے۔ جب صلیب پر دونوں کی زندگی کا خاتمہ ہو چکا تو لاشیں اتار کر جلا دی گئیں۔ ان کے پیرو بجائے اس کے کہ اٹھائیس سال گذرنے کے بعد اس دن کاجلوہ دیکھیں جس دن (معاذاﷲ) شریعت مصطفوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کو مٹانے کا شلغمانی خواب پورا ہوتا اور اس کی جگہ شلغمانی شریعت جاری ہوتی۔ بھاگ بھاگ کر منہ چھپانے لگے۔ لیکن باوجود اس کے ان کے یقین واذعان میں کوئی فرق نہ آیا۔ شلغمانی کے مصلوب ہوتے وقت اس کا معزز متبع حسن بن قاسم سابق وزیراعظم شہر رقہ میں تھا۔ خلیفہ نے اس کے قتل کا حکم بھیج دیا اور اس کا سر عبرت روز گار بننے کے لئے بغداد لایا گیا۔ ابن ابی عون جس نے تھپڑ مارنے کے عوض شلغمانی کی داڑھی چوم کر اس کو اپنا خالق اور رازق بتایا تھا ۔بہت بڑا ادیب اور بلند پایہ مصنف تھا۔کتاب النواحی والبلدان، کتاب الجوابات المسکتہ، کتاب التشبیہات،کتاب بیت مال السرور،کتاب الدوادین۔کتاب الرسائل اس کی مشہور تصنیفیں ہیں۔
( الکامل فی التاریخ ج۷ ص ۱۰۳،۱۰۵، معجم الادباء لیاقوت حموی مطبوعہ لندن ص۲۹۶،ابن خلدون ج۱ص ۱۹۰)
باب۳۲ … عبدالعزیز باسندی
عبدالعزیز موضع باسند علاقہ صفانیان کا رہنے والا تھا۔اس نے ۳۲۲ھ میں دعویٰ نبوت کر کے ایک پہاڑی مقام میں دام تزدیر بچھایا۔یہ شخص بڑا شعبدہ باز تھا۔پانی کے حوض میں ہاتھ ڈال کر باہرنکالتا تومٹھی سرخ دیناروں سے بھری ہوتی تھی۔اس قسم کی شعبدہ بازیوں اور نظر بندیوں نے ہزار ہا تہی دستان قسمت کے ایمان کو متلاطم کردیا۔ لوگ پروانہ واراس کی طرف دوڑے اوراس کی خاک پا کوسرمہ چشم بنانے لگے۔علمائے امت صدائے انالہ لحافظون کے بموجب لبیک کودوڑے اور گم کردگان راہ میں سے ان لوگوں کو جو صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت واقع ہوئے تھے گرداب ہلاک سے باہر نکال لائے۔لیکن جو لوگ شقی القلب اور دلدادگان زیغ وضلال تھے۔ وہ قبول ہدایت کے بجائے الٹا علمائے حق کو اسی طرح گالیاں دینے لگے جس طرح آج کل کے مرزائی حاملین شریعت اور دوسرے ارباب صدق و صفا کے خلاف زبان طعن و تشنیع دراز کیا کرتے ہیں ۔ ایک حدیث میں حضرت مخبرصادق ﷺ نے ان نفس پرست علمائے مکروخدیعہ کو ’’شر تحت ادیم السماء‘‘ (زیر گردوں بدترین مخلوق) قرار دیا ہے۔ جو مرزائی مولویوں کی طرح دنیا کی خاطر لوگوں کے دین و ایمان پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔ مرزائی علما سوء نے دسٹرکٹ جج بہاولپور کی عدالت میں بھی حسب معتاد ان علمائے حق کی شان میں دریدہ دہنی کی۔ جنہوں نے ان
کے مقتداء مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر و ارتداد کی شہادت دی تھی اور الٹا ان وابستگان اسوہ محمدیﷺ کو شرتحت ادیم اسماء بتایا۔ اس کے متعلق ڈسٹرکٹ جج نے اپنے فیصلہ مقدمہ میں کیا خوب لکھا کہ گواہان مدعیہ(علمائے اہل سنت و جماعت) پر مدعا علیہ (مرزائی) کی طرف سے کنایتہً اور بھی کئی ذاتی حملے کئے گئے ہیں۔مثلاً انہیں علماء سو کہا اور یہ بھی کہا کہ رسولﷺ نے خود ہی ایسے مولویوں کو جو ذریۃ البغایا میں مخاطب ہیں بندراورسورکا لقب دیا ہے اور دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ وہ آسمان کے نیچے سب سے بدتر مخلوق ہوںگے۔لیکن ملاحظہء مسل سے ہر عقلمند آدمی اندازہ لگا سکتا ہے کہ طرفین کے علماء میں ان احادیث کا صحیح مصداق کون ہے؟۔
(فیصلہ مقدمہ بہاولپورص۱۴۲)
باسندی کی صدائے دعوت اس نظام اوربلندآہنگی سے اٹھی کہ اہل شاش اور بہت سے دوسرے لوگوں نے متابعت اختیار کر کے اپنی قسمت اس کے ساتھ وابستہ کردی۔ اب اس نے ان اہل حق کے خلاف ستیزہ کاری شروع کر دی جواس کو نبی نہ تسلیم کرتے تھے۔ہزارہا مسلمان اس کی ظلم رانی کے قتیل ہو کر روضہء رضوان کو چلے گئے۔ جب حکومت کو اس کی فتنہ جوئیوں اور اس کی روز افزوں جمعیت کی طرف سے خطرہ پیدا ہو چلا تو وہاں کے حاکم ابوعلی بن محمد بن مظفر نے اس کی سرکوبی کے لئے ایک جیش روانہ کیا۔ باسندی بلند پہاڑ پر چڑھ کر متحصن ہو گیا۔ لشکراسلام نے محاصرہ ڈال دیا۔ کچھ مدت کے بعد جب سامان رسد اختتام کو پہنچ گیا تو محصورین کی حالت دن بدن ابتر ہونے لگی اور طاقت جسمانی جواب دے بیٹھی۔آخر لشکر اسلام پہاڑ پر چڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔ اور طاغوتیوں کو مارمار کر ان کے دھوئیں بکھیر دئیے۔باسندی کے ہزارہا پیرو نذر اجل ہو گئے۔ خود باسندہ بھی قعر ہلاکت میں پہنچ گیا۔ اسلامی سپہ سالار نے اس کاسر کاٹ کر ابوعلی کے پاس بھیج دیا۔ یہ شخص کہا کرتا تھا کہ مرنے کے بعد میں لوٹ کر دنیا میں آؤں گا۔مدت طویل تک اس کے پیرو مرزائیوں کی طرح اسلام کے شارع عام سے الگ رہ کر کوچہ ضلالت میں سرگشتہ و حیران رہے۔آخر آہستہ آہستہ اسلام میںمدغم ہوگئے اور یہ فرقہ صفحہ ہستی سے بالکل نابود ہو گیا۔
(الکامل فی التاریخ ج۷ ص ۱۰۲)
باب۳۳ … ابوالطیب احمد بن حسین متنبی
ابو الطیب احمد بن حسین اوایل ریعان سے مدعی نبوت تھا۔ ۳۰۳ھ میں کوفہ کے محلہ کندہ میں پیدا ہوا۔ ابوالحسن محمد بن علی علوی کا بیان ہے کہ ابوالطیب کا باپ سقہ تھا جو غیدان کے لقب سے
مشہور تھا۔ وہ ہمارے محلہ والوں کا پانی بھرا کرتا تھا۔ اسی بنا پر کسی شاعر نے متنبی کی ہجو میں کہا ہے:
ای فضل الشاعر بطلب الفضل
من الناس بکرۃً و عشیا
عاش حیناً یبیع بالکوفۃ الما
ؤحینا یبیع ماء المحیا
البتہ متنبی کی دادی صحیتحہ النسب ہمدانیہ تھی۔وہ ہماری ہمسایہ اور کوفہ کی صالحات میں سے تھی۔متنبی اپنے نسب کو چھپانے کی کوشش کرتا تھا اور جب کبھی اس نے نسب کے متعلق سوال ہوتا تو کہہ دیتا کہ بھئی! میں ایک اخبط القبائل شخص ہوں اوراس سے مامون نہیں ہوں کہ کوئی شخص میری جانستانی کا قصد کرئے۔(سراج العیون ص۳۰ تاریخ ابن خلکان جلد اول ص ۳۵)لیکن جب اسے قبیلہ کلب میں جا کر کچھ مدت رہنے کا اتفاق ہوا تو ان دنوں وہ علوی (امیر المومنین علیؓ کی اولاد) ہونے کا مدعی تھا۔(طبقات الادباء ص ۳۶۹)ابوالطیب آغازشباب میں وطن مالوف کو الوداع کہہ کر شام چلا آیا اور فنون ادب میں مشغول رہ کر درجہ کمال کو پہنچا۔اسے لغات عرب پر غیر معمولی عبور تھا۔ بالکل متروک اور غیر مانوس لغات بھی ازبر تھے۔ جب کبھی اس سے لغات کے متعلق کوئی سوال کیا جاتا تو نظم ونثر میں کلام عرب کی بھر مار کر دیتا۔ چنانچہ شیخ ابوعلی فارسی صاحب الایضاح والتکملہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اس سے دریافت کیا کہ فعلیٰ کے وزن پر کتنی جمعیں آتی ہیں؟۔متنبی نے معاً جواب دیا کہ دو۔حجلی اور ظربیٰ۔شیخ ابو علی کا بیان ہے کہ میں اس کے بعد برابر تین دن تک کتب لغت کی ورق گردانی کرتا رہا۔ مگر مجھے ان دو کے سوا اس وزن کی کوئی اور جمع نہ مل سکی۔ حجلی حجل کی جمع ہے۔حجل عربی میں چکور کر کہتے ہیں۔ اور ظربیٰ ظربان کی جمع ہے۔ جو بلی کی قسم کے ایک سخت بدبودارجانور کا نام ہے۔ابوالطیب شعر و سخن کا امام تھا۔ اس کا دیوان متنبی کے نام سے مشہور ہے۔ ہندوستان کے مدارس عربیہ کے نصاب تعلیم میں داخل ہے۔ چونکہ یہ دیوان ہر جگہ موجود ہے۔ اس لئے ابوالطیب متنبی کے کلام کا نمونہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اس کے دو شعر جو شیخ تاج الدین کندی سے مروی ہیں اور دیوان متنبی میں نہیں پائے گئے درج کئے جاتے ہیں۔ ان دوشعروں کی لطافت و غرابت ملاحظہ ہو۔کہتا ہے:
ابعین مفتقرالیک نظرتنی
ناھنتنی وقد فتنی من حالق
لست الملوم انا الملوم لاننی
انزلت مآلی بغیر الخالق
(تاریخ ابن خلکان جلد اول ص۳۶)
دعویٰ نبوت اور امساک باران کا معجزہ
مرزا قادیانی نے ازراہ نادانی اپنے رسالہ’’اعجازالمسیح‘‘ کو معجزہ کی حیثیت سے پیش کر کے علمائے امت سے اس کا جواب لکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس چیلنج کے جواب میں قاضی ظفر الدین صاحب مرحوم جو ہمارے ضلع گجرانوالہ کے رہنے والے تھے اور مولانا اصغر علی صاحب روحی اور بعض دوسرے علماء نے اس سے کہیں بہتر عربی قصائد لکھ کر شائع کر دیئے۔حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ نے دوسرے علمائے حق کی طرح کوئی قصیدہ تو نہ لکھا۔ البتہ ایک مہتم بالشان کارنامہ یہ انجام دیا کہ کتاب سیف چشتیائی میں’’اعجاز المیسح‘‘ کے اغلاط اور مسروقات کا انبار لگا کر مرزائی عربی دانی کی دھجیاں بکھیر دیں۔(سیف چشتیائی ص۷۰،۷۳)اوربدلائل ثابت کر دیا کہ مرزائی کتاب قطعاً اس قابل نہیں ہے کہ اس کا جواب لکھ کر وقت ضائع کیا جائے۔ مرزا قادیانی کے پاس پیر صاحب کے علمی اعتراضات کا تو کوئی جواب نہ تھا۔ اس لئے حسب عادت رسالہ’’نزول المسیح‘‘ اوربعض دوسری تالیفات میں پیر صاحب کی شان میں دریدہ دہنی کر کے اپنی آتش انتقام کے منطفی کرنے کو کوشش کی۔ مرزاقادیانی نے اہل مصر پر اپنی عربی دانی کا سکہ جمانے کے لئے رسالہ’’اعجاز احمدی‘‘ کے چند نسخے مصری جریدہ نگاروں کے پاس بھی بھجوائے تھے۔ وہ لوگ اہل زبان اور جوہر کلام کے صراف ہیں۔ ظاہر ہے کہ محاسن و معائب کلام کو ان سے بڑھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔انہوں نے مرزا قادیانی کے کلام خرافات التیام کا بری طرح مذاق اڑایا۔ مرزا’’مسیح موعود‘‘ قادیانی نے ان کا جواب بھی گالیوں ہی سے دیا اور بد گوئی کے نشتر سے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ لئے۔ ان دلچسپ واقعات کی تفصیل انشاء اللہ العزیز کتاب ’’رئیس قادیاں‘‘ میں جو خاکسار راقم الحروف کی تالیفہ ہے۔ قارئین کرام کی نظر سے گزرے گی۔
ابوالطیب احمد عربی کا بے بدل شاعر اورادب و انشاء میں سرآمد روزگار تھا۔ چنانچہ اسی شعر وسخن اور فصاحت و بلاغت نے اس کو دعویٰ نبوت کی تحریک کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس نے مرزا غلام احمدقادیانی کی طرح اپنے کلام کو معجزہ بتانے کی کبھی جرأت نہ کی۔ البتہ بارش روکنے کا ایک ٹوٹکہ جسے عربی زبان میں ’’صدحۃ المطر‘‘کہتے ہیں۔ کہیں سے سیکھ لیا تھا۔اسی کو ایک مرتبہ معجزہ کی حیثیت سے پیش کیا۔ ابوالطیب متنبی کے ایک پیرو ابوعبداﷲ لاذقی کا بیان ہے کہ ابوالطیب
۳۲۰ھ میں جبکہ اس کا آغاز شباب تھا لاذقیہ آیا۔مجھے اس کی فصاحت و بلاغت کا علم ہوا تو میں ازراہ قدر شناسی عزت و احترام سے پیش آیا۔جب راہ و رسم بڑھی تو ایک دن میں نے اس سے کہا کہ تم ایک لائق نوجوان ہو۔ اگر کسی جلیل القدر والئی ملک کی وزارت تمہیں تفویض ہو تو اس منصب کی عزت و شرف پر چارچاند لگ جائیں۔بولاواہ! تم نے اچھا کیا۔اجی وزارت کی کیا حقیقت ہے؟۔ میں تو نبی مرسل ہوں۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید مذاق کررہا ہے۔ میں نے کہا آج سے پیشتر میںنے تمہاری زبان سے ہزل وسخریت کی کوئی بات کبھی نہ سنی تھی۔ کہنے لگا نہیں واقعہ میں بنی مرسل ہوں۔ میں نے پوچھا تم کسی کی طرف بھیجے گئے ہو ؟۔ کہنے لگا۔ اس گمراہ امت کی طرف۔ میں نے کہا کہ تمہارا لائحہ عمل کیا ہوگا؟۔ بولا جس طرح بسیط زمین ظلم وعدوان سے مملو ہے اسی طرح اس کو عدل و انصاف سے معمورکردوںگا۔ میں نے پوچھا حصول مقصد کی نوعیت کیا ہوگی؟۔ بولا اطاعت شعاروں کو انعام واکرام سے سرفراز کروںگا اور سرکشوں کی گردنیں اڑادوںگا۔ میں نے کہاخوف ہے کہ اس مبادرت پر تم خود ہی قعر عدم میں نہ پہنچا دیئے جاؤ۔یہ سن کر ابوالطیب نے فی البدیعہ یہ اشعار کہے:
ایا عبد الا لہ معاذاتی
خفی عنک فی الھیجا مقامی
ذکرت جسیم مطلبی وانی
اخاطر فید بالحج الجسام
امثلی تاخذ النکبات منہ
ویجزع من ملاقاۃ الحمام
دلوبرزالزمان الیّ شخصا
لخضب شعر مفرقہ حسامی
اذاامتلات عیون الخیل منی
فویل فی التیقظ والمنام
میں نے کہا تمہارا بیان ہے کہ میں اس امت کی طرف نبی مبعوث ہوا ہوں۔اچھا یہ بتاؤ کہ تم پر کوئی وحی بھی نازل ہوئی ہے؟۔کہنے لگا بیشک۔اس کے بعد اس نے اپنا کلام جسے وہ کلام وحی بتاتا تھا پڑھا۔ میں اس کی فصاحت و بلاغت پر عش عش کر گیا۔ میں نے کہا اب تک یہ کلام کتنا نازل ہو چکا ہے؟۔ بولا ایک سو چودہ عبرے۔ میں نے پوچھا عبرہ کتنا ہوتا ہے؟۔ بولا قرآن کی
بڑی آیت کے برابر۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ تم پر کتنی مدت میں یہ کلام نازل ہوا؟۔ کہنے لگا سب دفعتہ بھیجا گیا تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنے کلام کا کچھ اور حصہ جس کو وہ وحی الٰہی سے تعبیر کرتا تھا سنایا۔ میں نے کہا ان عبارتوں میں یہ بھی ہے کہ آسمان تمہارا مطیع ہے۔اس اطاعت کی حقیقت کیا ہے؟۔ کہنے لگا۔میں فاسقوں اور سرکشوں کا رزق بند کرنے کے لئے نزول باران کو روک دیتا ہوں۔میں نے کہا کیا واقعہ تم امساک باران پر قادر ہو؟۔ کہنے لگا ہاں فاطرالسموات کی قسم! میں بارش کو روک سکتا ہوں۔ میں نے کہا اچھا مجھے کسی دن یہ کرشمہ دکھاؤ۔ اگر تم یہ دکھا سکے تو میں تم پر ایمان لے آؤں گا۔ چند روز کے بعد مجھ سے کہنے لگا۔ کیا واقعتہً تمہاری خواہش ہے کہ تمہیں وہ معجزہ دکھاؤں جس کا چند روز پیشتر ذکر آیا تھا؟۔ میںنے اثبات میں اس کا جواب دیا۔ بولااچھا میںاس غلام کو تمہارے پاس بھیجوںگا۔تم فوراً سوار ہو کر میرے پاس پہنچ جانا۔لیکن تنہا آنا۔ چند روز کے بعد مطلع ابر آلود ہوا۔ سرما کا موسم تھا۔اس کا غلام میرے پاس آیا اور کہنے لگا میرا آقا کہتا ہے کہ آپ حسب قرارداد جلد سوار ہو کر آجایئے۔ میں فورا ًسوارہوکراس کے ساتھ روانہ ہوا۔میں نے غلام سے پوچھا کہ تمہارا آقا کہاں ہے۔ بولا صحرا کی طرف گیا ہے۔ اس کے بعد غلام کہنے لگا کہ جلدی کرو۔تا کہ ہم وہاں پہنچ کر بارش سے محفوظ ہو جائیں۔ وہ اس وقت ٹیلے پر ہمارے انتظار میں کھڑا ہے اور بارش سے بالکل محفوظ ہے۔ میں نے پوچھا کہ تمہارے آقا نے بارش سے محفوظ رہنے کے لئے کوئی عمل کیا ہے؟۔ بولا ہاں۔جب سیاہ بادل چاروں طرف محیط ہوئے تو ہاتھ میں ایک کوڑا لے کر کچھ پڑھتا ہوا گھر سے نکلا اور شہر سے نصف فرسنگ دور جا کر فلاں ٹیلے پر جدھر ہم جارہے ہیں۔ چڑھا، پیچھے پیچھے میں بھی چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ہر جگہ موسلادھار بارش ہورہی ہے۔لیکن اس جگہ پر برسات کا کوئی اثر نہیں۔ ابوعبد اللہ لاذقی کا بیان ہے کہ ہم دونوں اس کی طرف گئے۔ اس وقت بارش بڑے زوروں پر تھی۔ پانی میرے گھوڑے کے گھٹنوں تک چڑھ آیا تھا۔ لیکن وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہوں کہ ٹیلے کے چاروں طرف سو سو گز تک بارش کا ایک قطرہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ میں نے اس کے پاس پہنچ کر سلام کیا اور کہا ہاتھ بڑھایئے۔آپ واقعی رسول اللہ ہیں۔ ابوالطیب نے ہاتھ بڑھایا۔ میں نے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے اقرار نبوت کی بیعت کی۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ شام کا ہر شہر ابوالطیب کی نبوت کا قائل ہوکر حلقہ ارادات میں داخل ہو چکا ہے۔
(مقدمہ دیوان متنبی مرتبہ مولانا محمد اعزاز علی صاحب بحوالہ الصبیح المتنبی)
دعویٰ نبوت سے قطع نظر بعض نوادر اور شعبدے بھی تھے جو ابوالطیب کے ہاتھ پر ظاہر
ہوئے اور جن کی بنا پر لوگوں نے اسے متنبی کہنا شروع کیا۔ مثلاً ایک مرتبہ اس سے کہا گیا کہ یہاں ایک اونٹ ہے جو کسی کو سوار نہیں ہونے دیتا۔اگر تم اس پر سواری کر دکھائو تو ہم تمہیں مرسل مان لیں گے۔کہنے لگا بہتر۔ میں دکھا دوںگا کہ کس طرح اس پر سوار ہوتا ہوں۔ چنانچہ ایک دن پیچھے سے جا کر اس پر سوارہولیا۔تھوڑی دیر تو ناقہ نے شوخی اور شرارت کی۔ لیکن پھر سیدھا ہوگیا اورابولطیب نے اسے چاروں طرف خوب چکر دلائے۔ متنبی کے لقب سے مشہور ہونے کی یہ وجہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ابوالطیب ایک آدمی کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ایک کتا ان پر حملہ آور ہوا۔ ابوالطیب اپنے ساتھی سے کہنے لگا کہ ہم واپسی کے وقت اس کتے کو مرا ہوا پائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے مراجعت کے بعد دیکھا کہ واقعتہً وہ مرا پڑا تھا۔
(شرح العیون۱۵،۱۶)
دعویٰ نبوت سے توبہ
بہت کم متنبی ایسے گذرے ہیں۔جنہیں دعویٰ نبوت سے توبہ کرنے کی توفیق نصیب ہوئی ہو۔ ابوالطیب ان بلند طالع افراد میں سے تھا جنہیں جازبہء لطف الٰہی نے دجل وزور سے تائب ہونے کی سعادت کرامت فرمائی۔ جب ابو الطیب نے سمادہ (ملک شام) میں نبوت کا دعویٰ کیا اوربنو کلب وغیرہ قبائل نے اس کی متابعت اختیار کی اور اس کی جمعیت یوماً فیوماً بڑھنے لگی تو امیر لولؤ کی جو اخشیدیہ کی طرف سے حمص کا حاکم تھا۔اس کی طرف سے فکر پیدا ہوئی۔ اس لئے ازراہ مآل اندیشی ضروری جمعیت فراہم کرکے نہایت خاموشی اور رازداری کے ساتھ اس کے سر پر جا پہنچا اوراس کوقید کرلیا۔ بنوکلب،بنوکلاب اور دوسرے قبائل اس کو اسی حالت میں چھوڑ کر کنارہ کش ہوگئے۔اس کے بعد وہ طویل عرصہ تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا۔جب اس کی زبون حالی حد سے بڑھ گئی اور صبروثبات جواب دے بیٹھا تو قیدخانہ میںایک قصیدہ لکھا جس کا مطلع یہ ہے:
ایا خدد اللہ ورد الخد ود
وقد قد ود الحسان القدود
اس قصدہ میں یہ اشعار بھی تھے:
دعوتک لما برا نی البلی
واوھن رجلی ثقل الحدید
وقدکان مشیھما فی النعال
فقد صارمشیھما فی القیود
وکنت من الناس فی محفل
فھا انا فی محفل من قرود
تعجل فی وجوب الحدود
وحدی قبل وجوب السجود
(میں نے تم کو اس وقت پکارا جبکہ طول مکث نے مجھے پارہ پارہ کر دیا اور میرے پاؤں بیڑیوں کے بوجھ سے مضمحل ہو گئے۔ یہ پاؤں جوتیوں میں چلا کرتے تھے۔مگر اب انہیں بیڑیوں میں چلنا پڑتا ہے۔ میں آدمیوں کی محفل میں رہا کرتا تھا۔ لیکن اب ہروقت بندروں کی محفل نصیب ہے۔ توحد جاری کرنے میں عجلت کر رہا ہے۔حالانکہ مجھ پر حدابھی واجب نہیں ہوئی یعنی حد بالغ پر واجب ہوتی ہے اورمیں طفل نابالغ ہوں۔جس پرہنوزنماز ہی فرض نہیں ہوئی)
ان اشعار پر امیرلولؤ کو رحم آگیا اور متنبی سے کہنے لگا۔بہتر ہے کہ تائب ہو کر قیدسے رہا ہوجائو۔ اس نے توبہ و انابت کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا۔آخر اس کی طرف سے ایک دستاویز لکھی گئی جس میں بیان کیا کہ میںاپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا تھا۔نبوت حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی ذات گرامی پر ختم ہوگئی۔ اب میں توبہ کر کے ازسرنو اسلام کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اس وثیقہ پر متعدد سربرآوردہ لوگوں کی شہادتیں ثبت ہوئیں اور متنبی کو قید محن سے مخلصی نصیب ہوئی۔اس شخص نے اپنا ایک قرآن بھی بنا رکھا تھا جس میں بہت سی سورتیں تھیں۔ لیکن تائب ہونے کے بعد اس کوخود ہی تلف کر دیا۔ ایک دن سیف الدولہ کی مجلس میں اس کے خانہ سازقرآن کا ذکر آیا تو وہ اس کے وجود سے بالکل مکرگیا۔اور صاف صاف کہہ دیا کہ مجھ پر کبھی ایک حرف بھی نازل نہیں ہوا۔ ایک مرتبہ ابن خالویہ نحوی اس سے سیف الدولہ کی مجلس میں کہنے لگا کہ بھائی ابوالطیب سخت جاہل آدمی ہے۔ ورنہ متنبی کہلانا کبھی گوارہ نہ کرتا۔کیونکہ متنبی جھوٹے نبی کو کہتے ہیں اور جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ لوگ اے جھوٹا کہتے رہیں۔ وہ جاہل ہے۔ ابوالطیب بولا میں تو متنبی کہے جانے پر خوش نہیں ہوں۔ جو لوگ مجھے اس لقب سے یاد کرتے ہیں۔ وہ میری توہین کی نیت سے ایسا کہتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ میں ایسے لوگوںکی زبان پر پہرے نہیں بٹھا سکتا؟۔
امراء کی قصیدہ خوانی
ابو الطیب نے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح نبوت کی دکان توکچھ کھانے کمانے اورعیش وعشرت کی زندگی بسر کرنے کی خاطر کھولی تھی۔ مگر حالات نے مساعدت نہ کی۔ یہ دکانداری گلے کا ہار بن گئی اور متوقع عیش وطرب کی جگہ مجلس کا خوفناک بھوت چشم نمائی کرنے
لگا۔ اس لئے ابوالطیب نے قید سے نجات حاصل کرنے کے بعد نکبت وادبار میں مبتلا ہونے کے باوجود اس کاروبار کو نسیاًمنسیاً کر دیا اور اس کی جگہ امراء واعیان کی مدح سرائی کر کے بسر اوقات کی ٹھان لی۔ چنانچہ مختلف امرائے شام کی ثنا و منقبت کے راگ الاپتا اورانعام واکرام سے مالامال ہوتا۔ ۳۳۷ھ میں حلب پہنچا اور وہاں کے حکمران امیر سیف الدولہ علی بن حمدان عدوی کی مداحی اور حاشیہ نشینی اختیار کی۔ سیف الدولہ نے اس کی بڑی قدرومنزلت کی۔جاگیر اور خلعتوں اور متفرق ہدایا کے علاوہ تین ہزار دینار سالانہ نقدوظیفہ مقرر فرمایا۔(دینار اس زمانہ میں چونی کے برابر ایک طلائی سکہ ہوتا تھا)ابوالطیب قریباً نوسال تک حلب رہا۔ اس مدت میں بخت رسا نے خوب یاوری کی اورشادمانی وکامرانی کی فضا برابر محیط رہی۔لیکن اس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ ابوالطیب اورابن خالویہ نحوی میں رشک و رقابت کے انگارے بھڑکنے لگے۔سیف الدولہ کے دولت کدہ پر رات کے وقت علماء اور دوسرے اہل کمال کی ایک مجلس منعقد ہوا کرتی تھی۔ ابوالطیب اورابن خالویہ میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ ابن خالویہ نے متنبی کے سر پر کنجی مار دی۔ یہ کنجی بہت بڑی ہوگی۔ کنجی نے سر پھاڑ دیا اور منہ بھی زخمی ہوا۔ ابوالطیب لہولہان ہوگیا۔ کبیدہ خاطر ہو کرحلب کو الوداع کہا اور ۳۴۶ھ میں مصر چلاآیا۔ کیونکہ کہ کافور اخشیدی والئی مصر نے اس سے وعدہ کر رکھا تھا کہ میں تمہیں کسی جگہ کا عامل بنا دوںگا۔ یہاں کافوراخشیدی اور انوجور بن اخشید کی مدح سرائی کا مشغلہ اختیار کیا۔ جب کافور نے اس کی تعلیاں اور لن ترانیاں سنیں تو ایفائے عہد سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ جس شخص نے جناب الخاتم النبین سیدنا محمدﷺ کی بعثت کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کل کو کافور کی مملکت میں شریک وسہیم ہونے کا بھی دعویٰ کرئے۔جب کافور اس طرف سے ناامید ہوا تو ۳۵۰ھ کے اواخر میں مصر سے فارس کا رخ کیا۔ اور کافور کی ہجو کر کے اپنے جذبہ انتقام کو تسکین دی۔ اب فارس پہنچ کر عضداﷲ بن بویہ ویلمی کی عظمت اور جلالت قدر کا نغمہ چھیڑ دیا اورصلہ وانعام سے سرفراز ہوا۔ تین چارسال تک وہیں اقامت گزیں رہا۔
(ابن خلکان جلد اول ۳۶،۳۷)
قتل
لوگوں کی توہین وتفضیح کرنا شعراء کا عام شیوہ ہے۔ کسی کی طرف سے دل میں ذرا بھی غبار کدورت پیدا ہوا۔جھٹ اس کو آسمان عزت سے اتارکر قعر مذلت میں گرانے کی سعی نامشکور میں منہمک ہوئے۔ ابوالطیب نے ایک قصیدہ میں ضبہ بن یزید عینی نام ایک شخص کے خلاف دشنام
طرازی کی غلاظت اچھالی تھی۔اس قصیدہ کا مطلع یہ تھا:
ماانصف القوم ضبہ | وامہ طرطبہ |
(قوم نے ضبہ سے اور اس کی ماں سے جو لٹکے ہوئے پستان والی ہے انصاف نہیں کیا) یہ سارا قصیدہ ہجوودشنام کا طومار ہے۔ ابوالطیب نے اس میں اپنی گندہ دہنی کا مظاہرہ کرکے ضبہ اور اس کے اقرباء کے دلوں میں ناسور ڈال دئیے۔ جب ضبہ کے ماموں نے جس کی ہمشیر کے خلاف دشنام دہی کی گندگی بکھیری گئی تھی۔ یہ قصیدہ سنا تواس کا دل پارہ پارہ ہوگیا۔ اوراس نے انتقام جوئی کا عزم مصمم کر لیا۔ ابونصر محمدعلی کا بیان ہے کہ ضبہ کے ماموں کو ابوجہل فاتک اسدی کہتے تھے۔ وہ میرا دوست تھا۔ایک دن میرے پاس آکر ابوالطیب کا پتہ دریافت کرنے لگا۔میں نے کہا تم اس کے متعلق بہت کچھ پوچھا پاچھی کررہے ہو۔آخر تمہارا ارادہ کیا ہے؟۔ کہنے لگا کوئی برا ارادہ نہیں۔ میں نے کہا تم اس کے قتل کا قصد رکھتے ہو۔ لیکن خونریزانہ اقدام کسی طرح تمہاری شان کے لائق نہیں ہے۔ فاتک کہنے لگا۔واﷲ! جس طرح ممکن ہوگا میں اس کا نقش ہستی مٹا کر رہوںگا۔ ہاں! اگرکوئی ایسی چیزدرمیان میں حائل ہوجائے کہ جس کا دفعیہ میرے امکان سے خارج ہو تو پھرمجبوری ہے۔ میں نے کہا برائے خدا اس خیال کو جانے دو اور اس کا فیصلہ منتقم حقیقی کے عدل وانصاف پر چھوڑ دو۔ کسی شعر کی بنا پر شاعر کی جان لینا کسی طرح روا نہیں۔ عہد جاہلیت میں ملوک کی اوراسلامی خلفاء کی ہمیشہ ہجو کی جاتی رہی۔ لیکن کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کوئی شاعر ہجو کی بنا پر موت کی گھاٹ اتارا گیا ہو۔چنانچہ کسی شاعر نے کہا ہے:
ھجوت زھیراً ثم انّی مدحتہ
وما زالت الاشراف تھجی اوتمدح
کہنے لگا اچھا جو خدا کو منظور ہوگا وہ ہو کے رہے گا۔ اب فاتک ہر وقت ابوالطیب کی مراجعت کے انتظار میں چشم براہ تھا۔ آخر جب معلوم ہوا کہ کوفہ کی طرف واپس آرہا ہے تو فاتک اسدی رمضان۳۵۴ھ میں اپنے اقرباء کی رفاقت میںاس کی جان لینے کے ارادہ سے چل کھڑا ہوا۔ متنبی کے ساتھ بھی بہت سے آدمی تھے ۔راستہ میں مڈبھیڑ ہوگئی۔ فاتک کی جماعت غالب رہی۔ جب ابوالطیب نے دیکھا کہ دشمن نے غلبہ پا لیا اوراس کی جماعت منہزم ہو چلی تو بھاگ کر جان بچانے کا قصد کیا۔اس کے غلام نے کہا۔ دیکھئے آپ کا یہ شعر بہت مشہور ہے:
فالخیل واللیل والبیداء تعرفنی
والحرب والضرب والقرطاس والقلم
(گھوڑے،رات،دشت وبیابان، حرب وضرب، کاغذاورقلم سب مجھے پہچانتے ہیں) اوراب آپ بھاگ رہے ہیں۔ لیکن اطمینان رکھئے۔ میں کسی سے فرار کا تذکرہ نہیں کروںگا۔ یہ سن کر ابوالطیب فرار کا ارادہ فسخ کر کے ازسر نومقابلہ پرآڈٹا اور زخم کھا کر قید حیات سے آزاد ہو گیا۔ اس طرح اس کا شعر ہی اس کی ہلاکت کا باعث بن گیا۔ اس کے بعد فاتک کی انتقام جوئی نے اس کے بیٹے اور غلام کی زندگی کا بھی چراغ گل کر دیا۔ متنبی کی موت پر ابوالقاسم بن علی طبسی نے ایک درد انگیز مرثیہ کہا۔ جس کے یہ اشعار بھی تھے:
(تاریخ ابن خلکان جلداول ص۳۷)
لارعی اللہ سرب ھذا الزمان
اذ دھانا فی مثل ذاک اللسان
مارأی الناس ثانی المتنبی
اے ثان یریٰ لیکرّر الزمان
کان من نفسہ الکبیرہ فی جیش
وفی کبریاء ذے سلطان
ھو فی شعرہ بنی ولکن
ظھرت معجزاتہ فی المعانی
باب۳۴ … ابوعلی منصور ملقب بہ الحاکم بامراﷲ
۱… حاکم کے ذاتی حالات
ابو علی منصور ساڑھے گیارہ سال کی عمر میں مصر کے تخت سلطنت پر بیٹھا اور حاکم بامر اللہ کا خطاب اختیار کیا۔یہ شخص شاہان بنو عبید کا چھٹا فرمانروا تھا۔جو ۳۸۶ھ سے۴۱۱ھ تک برسر حکومت رہا۔علم نجوم میں اسے دخل تام تھا اور اس کے احکام و تاثیرات کو دل سے مانتا تھا۔ظلم وجور کا خوگر تھا۔ سخت گیر اس درجہ کا تھا کہ ارکان سلطنت اس کی ہیبت وجلال سے لرزتے رہتے تھے۔ اس کے عہد سلطنت میں بہت سے شرفاء واعیان بخوف جان وآبرو شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ سیوطی نے اس کو ’’سرتاج زندیقان‘‘کا خطاب دیا ہے اور بعض مورٔخوں نے لکھا ہے کہ فرعون کے بعد مصر کے تخت سلطنت پر حاکم سے بدتر کوئی فرماںروا نہیں بیٹھا۔فرعون کی طرح اس نے بھی ربوبیت کا دعویٰ کیا اور لوگوں سے اپنے تئیں سجدے کرائے۔ اس نے حکم دیا تھا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ بسم اللہ الحاکم الرحیم لکھا کریں۔ حاکم نے بہت سے تملق شعار حاشیہ نشین اپنے گرد جمع کر لئے تھے
جو اسے خدا کہہ کر پکارتے اور اس کی شان میں ’’یا واحد یا احد یا محیی یاممیت‘‘ کا وظیفہ جپتے۔اس کے ایک خوشامدی محمد بن اسماعیل نے ایک کتاب تالیف کی جس میں بیان کیا کہ ابوالبشر آدم علیہ السلام کی روح سب سے پہلے علی علیہ السلام کے جسم مبارک میں منتقل ہوئی۔اس کے بعد حاکم کے جسم پاک میں داخل ہوئی۔ چنانچہ شاہ حاکم خداوند جل وعلا کا ایک مظہر کامل ہے۔ یہ کتاب جامع قاہرہ میں پڑھی گئی۔ اور ممالک محروسہ میں اس کی خوب اشاعت کی گئی۔ ۳۹۲ھ میں حاکم نے حکم دیا کہ جہاں کہیں میرا نام لیا جائے بازار ہو یا کوئی اور مقام سننے والا کھڑا ہو کر معاً سربسجود ہو جائے۔ اسی طرح حکم دیا کہ جب خطیب منبر پر میرا نام لے تو تمام لوگ میرے نام کی عظمت اوراحترام کے لئے سروقد کھڑے ہو جائیں اور صفیں باندھ کر سر سجدے میں رکھ دیں۔
(سنین الاسلام جلد۲ ص ۱۰۱،۱۰۲)
صحابہ کرامؓ کو گالیاں اور علمائے اہل سنت و جماعت کی جانستانی
حاکم کو رفض میں بڑا غلو تھا۔ اس نے نماز تراویح پڑھنے کی ممانعت کردی۔ مساجد کے دروازوں اور شارع عام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں لکھوا کر آویزاں کیں۔ اپنے عمال کو حکم دیا کہ اصحاب رسول اللہ ﷺ کو علی رؤس الاشہاد گالیاں دی جایا کریں۔ اس نے ۳۰۲ھ میں ملوخیہ نام ایک میوہ اور جرجیر(ترہ تیزک) کے کھانے کی ممانعت کردی اور اس نہی کی علت یہ قرار دی کہ امیرمعاویہؓ کو ملوخیہ کھانے کی رغبت تھی اور امیر المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کا میلان طبع جرجیر کی طرف تھا۔ حاکم نے ان مچھلیوں کے کھانے سے بھی لوگوں کو جبراً روک دیا جن پر چھلکے نہ ہوں اور اس حکم کے بعد جن دکانداروں نے ایسی مچھلیاں فروخت کیں انہیں قتل کرادیا۔ علمائے حق سے سخت عناد رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک مکان آراستہ کر کے علمائے اہل سنت وجماعت کو مدعو کیا۔ جب تمام حضرات تشریف لائے تو مکان منہدم کرا دیا۔ تمام فقہاء ومحدثین (کثر اللہ امثالہم) دب کر روضہء رضوان کوچلے گئے۔۳۹۳ھ میں حاکم کے عامل دمشق اسود نام نے اہل سنت وجماعت کے ایک نامور عالم کو جومغربی کے لقب سے مشہور تھے۔ گرفتار کیا اور انہیں گدھے پر سوار کرکے تمام شہر میں تشہیر کیا۔ ایک منادی ان کے آگے آگے ندا کرتا جا رہا تھا کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو ابوبکر اور عمر(رضی اللہ عنہما) سے محبت رکھے۔اس تشہیر کے بعد تیغ خون آشام سے ان کو بکری کی طرح ذبح کردیا گیا۔(الکامل فی التاریخ ج۸ ص۲۶،تاریخ الخلفاء عربی سیوطی ص۳۳۸تذکرہ القادرباﷲ) رب ذوالمنن شہید کو جنت الفردوس میں جگہ دے اورہمیں ان کے قدموں میں اٹھائے ۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آغاز شباب کا عالم ہی اس ظلم آرائی اور خون آشامی کا
جواب دہ تھا۔ ورنہ اس کے بعد جوںجوں عمر اور تجربہ میں پختگی پیدا ہوتی گئی۔ اس قسم کی بیدادگری اور خفیف الحرکتی میں انحطاط پیدا ہوتا گیا۔چنانچہ چند سال کے بعد جب ایک مرتبہ اس سے شکایت کی گئی کہ روافض نے اہل سنت و جماعت سے نماز تراویح اور نماز جنازہ پڑھنے کی حالت میں تعرض کیا اور پتھر برسائے ہیں۔تو اس نے اسی وقت ایک فرمان لکھوایا جو آئندہ جمعہ کو جامع مصر میں پڑھا گیا۔ اس فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ اے گروہ مسلمانان! ہم لوگ آئمہ ہیںاور تم امت ہو۔ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پس اپنے بھائیوں سے میل جول کرو۔ جو لوگ توحید و رسالت کا اقرار کریں اور دوشخصوں میں نفاق نہ ڈالیں۔ وہ سب اسی اخوت اسلامی میں داخل ہیں۔ گذشتہ واقعات کو نسیاًمنسیاً کر دیا جائے۔ صائم اپنے حساب سے روزے رکھیں اور افطار کریں۔اہل روایت روزہ دار ہونے کی وجہ سے افطار کرنے والوں سے تعرض نہ کریں۔نمازچاشت اورنماز تراویح سے کوئی مانع نہ ہوگا۔ نماز جنازہ پر پانچ تکبیریں کہنے والے، پانچ کہیں۔ اور چارتکبیریں کہنے والے، چار سے نہ روکے جائیں۔ مؤذن اذان میں حی علے خیر العمل پکاریں اور جو مؤذن اذان میں یہ کلمہ نہ کہے اسے ستایا نہ جائے۔اصحاب کو گالیاں نہ دی جائیں اور ان کی تعریف کرنے والوں سے مواخذہ نہ کیا جائے۔ اور اس بارہ میں جو شخص ان کا مخالف ہے وہ مخالف رہے۔ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کے اعتقادات میں دست اندازی نہ کرے۔
(تاریخ الخلفاء)
ایک حق پرست عالم کی حق گوئی
اوپر لکھا جا چکا ہے کہ حاکم انتہا درجہ کا متکبر اورجابرتھا۔ لیکن عجائب روزگار دیکھو کہ پختگی عمر کے ساتھ ساتھ تکبروجورکا دریائے جوش بھی سنجیدگی اور رواداری کے بہت سے نشان نیچے اتر آیا۔ قاضی ابن خلکان ناقل ہیں کہ ایک مرتبہ اعیان دولت کے ساتھ بیٹھا تھا۔ایک خوشامدی حاشیہ نشین نے قرآن پاک کی آیت ’’ فلا وربک لایؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما‘‘ {اے رسول! مجھے اپنی ربوبیت کی قسم ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے تمام معاملات ونزاعات میں آپ کو حکم نہ بنائیں اورپھرجوکچھ آپ فیصلہ کریں۔اس میںکسی قسم کی ناگواری بھی محسوس نہ کریں۔ بلکہ کماحقہ اس کوتسلیم کر لیں} اور اس اثناء میں آیت کا پڑھنے والا حاکم کی طرف اشارہ کرتا جا رہاتھا۔جب وہ آیت پڑھ چکا تو ایک حق پرست عالم جنہیں ابن مشجر کہتے تھے کھڑے ہوگئے اور اس خیال کی تردید میں یہ آیت پڑھنے لگے ’’ان الذین تدعون
من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا ولو اجتمعوا لہ۰ وان یسلبہم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہ۰ضعف الطالب والمطلوب۰ماقدرو اللہ حق قدرہ۰ان اللہ لقوی عزیز‘‘ {تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جن کی پرستش کرتے ہو۔ وہ بلاشبہ اپنی اجتماعی قوت سے ایک ادنیٰ سی مکھی تک پیدا نہیں کر سکتے(وہ تو ایسے عاجز ودرماندہ ہیں کہ)اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے جائے تو اس کو واپس نہیں لے سکتے۔ ایسے عابدومعبود دونوں ہی ضعیف و بے بس ہیں۔ ان لوگوں نے خدائے ذوالجلال کا اجلال واحترام ملحوظ نہیں رکھا۔ حق تعالیٰ قوی اور سب پر غالب ہے ۲۲:۷۳،۷۴) یہ سن کر حاکم کا چہرہ متغیر ہوگیا اور ابن مشجر کو سودنیار انعام دینے کا حکم دیا اور خوشامدی کو کچھ نہ دیا۔اس کے بعد ابن مشجر کے ایک دوست نے اس کو رائے دی کہ تمہیں حاکم کے اخلاص کا علم ہے۔گواس وقت تم سے اس نے مواخذہ نہیں کیا بلکہ الٹا انعام دیا ہے۔لیکن اس کے دل میں تمہاری طرف سے بغض و کینہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس لئے اغلب ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی حیلہ بنا کر تمہیں آزار پہنچائے گا۔پس قرین صواب یہ کہ یہاں سے کسی دوسری جگہ چل دو۔ ابن مشجر نے فوراًحج کی تیاری کردی۔ جب جہاز سوار ہو کر جارہے تھے تو راستہ میں غرق ہو گئے۔ ان کے دوست نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ کیا حال ہے؟۔ کہا کہ خدائے غفار نے جمیل نیت اور حسن قصد کی برکت سے میری مغفرت فرمادی۔
(تاریخ ابن خلکان جلد۲ ص۱۲۷)
حاکم کا فرقہ دروز اور اس اس کے عقائد کفریہ
اوپر لکھا گیا ہے کہ محمد بن اسماعیل نام ایک شخص نے یہ عقیدہ اختراع کیا تھا کہ شاہ حاکم خالق کردگار کا مظہر کامل ہے اور اس کی ذات میں الہیت کی شان پائی جاتی ہے۔یہ خوشامد آمیز عقیدت حاکم کو کچھ ایسی پسند آئی کہ اپنی رعایا میں سے بعض لوگوں کو دادودہش سے اور بعض کو اپنی بادشاہی کے زور سے اس مشرکانہ عقیدہ کا پابند بنانے لگا۔ اس طرح جو لوگ محمد بن اسماعیل کے ہم عقیدہ بنائے گئے ان کو دروزکا خطاب دیا گیا۔آہستہ آہستہ یہ لوگ اسی عقیدہ پر راسخ ہوگئے۔وادی تیم میں آج تک بہت سے ایسے دیہات پائے جاتے ہیں جو حاکم کی رجعت کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ حاکم لوٹ کر آئے گا اورروئے زمین کی بادشاہت کرئے گا۔
دروز اپنے لئے موحد کا لقب زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ توحید کو ان کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکا۔۴۰۸ھ میں حاکم کو حمزہ بن علی نام ایک اچھا ایرانی داعی مل گیا۔ یہ شخص نہایت فصیح و بلیغ اور بڑا فطرتی شخص تھا۔ حاکم نے اس کی ذات مین غیر معمولی قابلیت کے جوہر دیکھ کر اسے اپنا وزیر بنا لیا۔ اس نے حاکم کے دعوئوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔اس کی
کوششوں سے شام کے بہت سے لوگ حاکم کو مظہر الٰہی یقین کرنے لگے۔ حمزہ کے مکتوبات کا ایک مجموعہ یورپ میں چھپ چکا ہے جو کتاب الدروز کے نام سے مشہور ہے۔ فرقہء دروز میں یہ مجموعہ قرآن حکیم سے زیادہ مستند اور مقبول ہے۔حمزہ نے دروز کے سامنے جو اصول و عقاید پیش کئے۔ ان میں بعض یہ تھے ۔ خداوند عالم نے اپنے آپ کو دینا میں مختلف اوتاروں کی صورت میں ظاہر کیا جن کی تعداد ستر ہے۔ان میں علی مرتضیٰؓ بھی شامل ہیں اور حضرت محمد مصطفی ﷺ شامل نہیں ہیں۔ ان ستر اوتاروں میں سے آخری اوتار حاکم بامراﷲ ہے۔ اب کوئی نیا اوتار ظاہر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ذات خداوندی نے حاکم کی صورت میں آخری مرتبہ دنیامیں اپنا جلوہ دکھایا۔ لیکن جب اہل عالم کی پریشانیاں اور مشکلات غایت قصوی کو پہنچ جائیں گی۔ تو حاکم دنیا پر حکومت کرنے اور اپنے مذہب کو رائج کرنے کے لئے دوبارہ ظاہر ہوگا اور ابدالآباد فرمان روائی کرے گا۔ اس وقت تمام مذاہب کے پیرو اس کے تابع فرمان ہوں گے۔ مخالف طاقتیں پابجولاں حاضر کی جائیںگی اور ان کو جزیہ دینے پر مجبور کیا جائے گا۔دروز ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد بن عبداﷲ (حضورسید کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام )کے بعد ایمان کو اپنے لئے مخصوص کررکھا ہے۔ ان لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جناب محمد ﷺ (معاذاﷲ) صرف قرآن کی تنزیل۔ یعنی ظاہری اور لغوی معنی کو سمجھ سکے تھے اور اس کے حقیقی اور مرادی معنی صرف حاکم بامراﷲ سمجھا تھا جس میں شان الوہیت پائی جاتی تھی۔ گو دروز مسلمان کہلاتے ہیں۔ لیکن اسلامی شعار سے ان کو بہت کم حصہ ملا ہے۔وہ حضرت سید الاولین و آخرین ﷺ سے کچھ زیادہ حسن عقیدت نہیں رکھتے۔ صوم و صلوٰۃ سے نا آشنا ہیں۔لحم خنزیر اور شراب بے تکلف کھاتے پیتے ہیں ان کے نکاح وازواج میں اسلامی رسوم کی کوئی جھلک نہیں دکھائی دیتی۔ البتہ ختنہ کا رواج پایا جاتا ہے۔
(سنین اسلام مطبوعہ لاہور جلد۲ ص ۱۰۱،۱۰۲وغیرہ)
قتل
حاکم کے قتل کے متعلق روایتیں مختلف ہیں۔ایک یہ ہے کہ اس نے اپنی ہمشیر بنت الملک پر الزام لگایا کہ سپہ سالار سے اس کی آشنائی ہے اور اس کو ڈانٹا اورگالیاں دیں۔ بہن نے اس کے قتل کا عزم مصمم کر لیا۔ چنانچہ حاکم ایک رات سوار ہو کر ستاروں کی تحقیق و تشخیص کے لئے اور بقول خود احکام خداوندی حاصل کرنے کی غرض سے کوہ مقطم پر گیا۔ دفعتہً بنت الملک کے دو حبشی غلاموں نے وہاں پہنچ کر اسے قعر ہلاک میں ڈال دیا اور لاش بنت الملک کے پاس اٹھا لائے۔ اس نے لاش اپنے صحن خانہ میں گاڑ دی۔ابن خلدون اور بعض دوسرے مورٔخوں نے اس کے حادثہ قتل کو یوں لکھا ہے کہ حاکم کے کانوں تک خبر پہنچی کہ اس کی بہن کے پاس اجنبی مرد آمدورفت رکھتے
ہیں۔ اس بناء پر حاکم نے اپنی بہن کو دھمکایا۔ اس نے ناراض ہوکرابن دواس سپہ سالار کو بلابھیجا اوراس سے کہنے لگی کہ میرا بھائی بدعقیدہ ہو گیا ہے اور اس کی بداعتقادی سے مسلمانوں کے قدم ڈگمگا رہے ہیں۔اس لئے بہتر ہے کہ اس کو ٹھکانے لگا دو۔ لیکن خبردار کہ یہ راز افشا نہ ہونے پائے۔ ورنہ تیری اور میری دونوں کی خیر نہیں۔ ابن دواس جو پہلے ہی سے کھٹکا ہوا تھا بے تامل اس کام پر مستعد ہو گیا اور دو شخصوں کو اس کی جانستانی پر متعین کر دیا۔ حاکم عموماًرات کے وقت گدھے پر سوار ہو کر شہر کا چکر لگایا کرتا تھا۔چنانچہ ۱۷شوال ۴۱۱ھ کو حسب معمول رات کے وقت اپنے گدھے پر سوار ہو کر نکلا۔دو سوار ساتھ لئے۔اس نے دونوں سواروں کو یکے بعد دیگرے واپس کر دیا۔ اس کے بعد پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔چند روز تک اراکین سلطنت اس کی آمد کے منتظر رہے۔ بالآخر قاضی مظفر صقلی اور بعض دوسرے مصاحب تلاش کو نکلے اور جب کوہ مقطم پر چڑھے تو اس کی سواری کے گدھے کو دیکھا کہ ہاتھ پاؤں کٹا مردہ پڑا ہے۔آگے بڑھے تو حاکم کا پھٹا کپڑا ملا۔جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ چھریوں کے زخم لگائے گئے ہیں۔جب اس کے قتل میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا تو ارکان دولت جمع ہو کر اس کی بہن بنت الملک کے پاس گئے جو امور سلطنت میں بہت کچھ دخیل تھی۔ پھر ابن دواس حاضرہوا۔
بنت الملک کی رائے سے حاکم کے خوردسال بیٹے علی نام کو سریر سلطنت پر متمکن کیا گیا۔ علی بن حاکم نے بیعت لینے کے بعد’’الظاہر لاعزازدین اﷲ‘‘ کا خطاب اختیار کیا۔ بیعت کے دوسرے دن ابن دواس سپہ سالار دوسرے فوجی سرداروں کے ساتھ بنت الملک کے پاس حاضر ہوا۔ بنت الملک نے اپنے خادم کو اشارہ کر دیا۔ اس نے لپک کر ابن دواس کو تلوار پر اٹھا لیااور انہی عہدہ داروں کی موجودگی میں قعرعدم میں پہنچا دیا۔بنت الملک برابر کہتی جاتی تھی کہ یہ حاکم کے خون کا بدلہ ہے۔یہ حاکم کے خون کا بدلہ ہے کسی نے دم نہ مارا۔
لیکن علامہ مقریزی نے بہن یا سپہ سالار کی شرکت قتل کو بالکل غلط اور بے بنیاد ٹھرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ محرم ۴۱۵ھ میں قبیلہ بنو حسین کا ایک آدمی گرفتار ہوا۔ جس نے اقرار کیا کہ ہم چار آدمیوں نے جو مختلف بلاد میں متشتر ہو گئے تھے۔ حاکم کی جان لی تھی۔ اس نے حاکم کے جسم کے بعض خشک لوتھڑے بھی نکال کر دکھائے۔ اس سے دریافت کیا گیا کہ تم نے اسے کیوں قتل کیا؟۔ تو کہنے لگا کہ اس کی بے دینی کی بنا پر مجھے اللہ اور اسلام کی خاطر غیرت آگئی۔ پھر پوچھا گیا کہ تم نے اسے کس طرح قتل کیا تھا؟۔ تو اس نے ایک چھری نکالی اور کہنے لگا۔ دیکھو میں نے اس کو یوں قتل کیا تھا۔ یہ کہہ کر اس نے چھری اپنے پیٹ میں گھونپ لی اور خودکشی کر کے ہلاک ہو گیا۔ یہ
واقعہ نقل کر کے مقریزی لکھتے ہیں کہ قتل حاکم کا صحیح واقہ یہی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ اس کی بہن نے اسے قتل کرایا بالکل بے اصل اور غیر صحیح ہے۔ علی بن حاکم کی تخت نشینی کے بعد بنت الملک کے مہام سلطنت کی نگران ہوئی اور چاربرس تک زمام حکومت اپنے دست اختیار میں رکھ کر رہگزرائے عالم آخرت ہو گئی۔
(الکامل فی التاریخ ج۸ ص۱۲۸،۱۳۱)
۲…عبیدی قلمرو پر عباسی پرچم
عبید اللہ اوراس کی اولاد واحفاد میں سے تیرہ بادشاہ دوسو ستر سال ۲۹۷ھ سے ۵۶۷ھ تک شمالی افریقہ اور مصر کے فرمانروا رہے۔ جن میں سے حاکم بامر اللہ چھٹا تھا۔ حاکم کے بعد آٹھ اورتاجدار برسر حکومت رہے۔ خلیفہ مستضئی باﷲ عباسی کے آغاز خلافت میں دولت بنو عبید کا ٹمٹماتا ہوا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہوگیا اور ۵۲۷ھ میں خلیفہ عاضد لدین اللہ کے عہد سلطنت میں تمام اختیارات جہانبانی وزیر شادر کے ہاتھ میں تھے اور بادشاہ محض وزیر کے ہاتھ کی کٹ پتلی بنا ہوا تھا۔ اتفاق سے ضرغام نام ایک شخص ۵۵۸ھ میں مصر پر چڑھ آیا اور شاور کو منہزم کر کے خود وزیر بن بیٹھا۔ ضرغام نے عنان وزارت سنبھالتے ہی رعایا پر دست تعدی دراز کیا اور بہت سے امراء اعیان دولت کو اس خیال سے قعر ہلاک میں ڈال دیا کہ کوئی شخص اس سے منازعت کرنے والا باقی نہ رہے۔لیکن اس نے شاہ عاضد سے کچھ تعرض نہ کیا۔ کیونکہ وہ محض وزیر کے ہاتھ کا کھلونا تھا۔
شادرمصر سے بھاگ کر شام پہنچا۔ ان دنوں سلطان نورالدین محمود بن زنگی خلافت مآب کی طرف شام وحلب کا فرمانروا تھا۔شاور، سلطان نورالدین سے بصد منت التماس کرنے لگا کہ اگر آپ اپنے لشکر کی مدد سے مجھے مصر کی وزارت پر بحال کرا دیں تو میں فوجوں کی تنخواہ وضع کرنے کے بعد مصر کے مداخل کا تیسرا حصہ آپ کی نذر کیا کروں گا اور آپ کے فوجی افسرسید الدین شیر کوہ کو مصری افواج کا سپہ سالار بنادوںگا۔ ان ایام میں اسدالدین شیر کوہ اور اس کا بھائی نجم الدین ایوب اور بھتیجا صلاح الدین بن ایوب سلطان نورالدین کی سرکار میں مختلف عہدوں پر ممتاز تھے۔ صلیبی لڑائیاں برپا تھیں اورفرنگیوں نے بلاد اسلامی میں سخت دھما چوکڑی مچا رکھی تھی۔ سلطان نورالدین کی خواہش نہ تھی کہ مصری معاملات میں دخل دے۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ اگر شاور کی درخواست مسترد کر دی تو یہ فرنگیوں سے مدد مانگے گا اوروہ جا کر مصر پر متسلط ہو جائیں گے۔ عون ونصرت کا وعدہ کرلیا۔چنانچہ جمادی الاولی ۵۵۹ھ میں اسدالدین شیر کوہ کو مصر روانہ کیا اورخود فوج لے کر اس احتمال پر دمشق کے مضافات میں چلاگیا کہ اگرفرنگی شیرکوہ سے تعرض کریں تو ان کو مار ہٹائے۔
شاور کی بحالی وزارت اور عہد شکنی
جب ضرغام کو معلوم ہوا کہ شاور سلطان نورالدین کی فوج لارہا ہے تو اس نے اپنے بھائی ناصرالدین کو مصری فوج کے ساتھ مدافعت کے لئے روانہ کیا۔ شیرکوہ فوج لئے شہر بلبیس پہنچا تو ادھر سے ناصرالدین بھی آموجود ہوا۔دونوں فوجوں میں مڈبھیڑ ہوئی اور ناصرالدین نے منہزم ہو کرقاہرہ میں جا دم لیا۔ شیر کوہ نے قاہرہ میں پہنچ کر مصری فوج کودوبارہ ہزیمت دی اور شاور کو کرسی وزارت پر متمکن کردیا۔ لیکن اس کے بعد شاور نے بدعہدی اور بے وفائی کی اور جو وعدے سلطان نورالدین سے کرآیا تھا۔ ان سے تخلف کیا اورجب شیر کوہ نے وعدے یاد دلائے تو جواب تک سے پہلو تہی کی۔اس وقت یورپ کے صلیبیوں نے سواحل مصروشام پر قبضہ جما رکھا تھا۔ اس کے قریب وجوار کے صوبوںکو بھی دبالیا تھا اور مصری مقبوضات میں بھی نفوذ کر رہے تھے۔جب شاور نے دیکھا کہ شیرکوہ شام واپس جانے کے لئے تیار نہیں بلکہ ان وعدوں کے ایفا پر مصرہے جواس نے سلطان نورالدین سے کئے تھے۔تواب یہ احسان فراموش فرنگیوں کے سامنے کچھ شرطیں پیش کرکے ان سے درخواست کرنے لگا کہ وہ آ کر شیرکوہ کو مصر سے نکال دیں۔ اہل یورپ جو مداخلت کے مواقع خود تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اس درخواست پر بہت خوش ہوئے۔اس سے قطع نظر فرنگیوں کو معلوم تھا کہ اگر شیرکوہ نے مصر میں قدم جمالئے تو مصر پر عمل ودخل کرنے کے مسیحی منصوبے خاک میں مل جائیں گے۔ اس دعوت کو لبیک کہا اور جھٹ ایک لشکر جرار لے کر دمیاط آپہنچے۔ شیرکوہ کی جمعیت بہت قلیل تھی۔ اس لئے وہ شہر بلبیس چلاگیا۔ فرنگی اورمصری فوجیں بلبیس پہنچیں اورجاکر شہر کا محاصرہ کر لیا۔ باوجودیکہ نہ کوئی خندق تھی اور نہ شہر پناہ شیرکوہ نے اس بہادری سے مقابلہ کیا کہ ان کے دانت کھٹے کر دیئے۔ جب محاصرہ کو تین مہینے گذرگئے تو محاصرین کے پاس خبرآئی کہ حارم کے مقام پر سلطان نورالدین سے فرنگیوں نے جو معرکہ شروع کر رکھاتھا اس میں فرنگیوں کوہزیمت ہوئی اور سلطان حارم پر قبضہ کرکے قلعہ بانیاس کی طرف بڑھ رہا ہے۔فرنگیوں کو یقین ہوا کہ اب سلطان نورالدین ضرور کمک بھیجے گا یا مدد کے لئے خود آئے گا۔ اس سے قطع نظر انہیںیہ بھی خطرہ تھا کہ سلطان نورالدین حارم کی لڑائی سے فارغ ہو کر کہیں فرنگی مقبوضات پر ہلہ نہ بول دے۔ان وجوہ واسباب کی بناپر محاصرہ اٹھا کر واپس جانے کا قصد کیا اور شیر کوہ کو پیغام بھیجا کہ اگر تم اہل مصر سے کوئی تعرض نہ کرو اور چپ چاپ شام کو واپس چلے جاؤتو ہم محاصرہ اٹھا لیتے ہیں۔ چونکہ سامان رسد اورذخائر ختم ہو چکے تھے اور شیر کوہ کو معلوم نہ تھا کہ سلطان نورالدین نے شام میں فرنگیوں کو ہزیمت دی ہے۔ اس لئے فرنگیوں کی شرط منظورکرلی اور اسدالدین شیرکوہ نے شام کی
طرف مراجعت کی۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ص۴۶۰،۴۶۷)
فرنگیوں کی ہزیمت
شام پہنچ کر اسد الدین شیرکوہ برابر مصر رہا کہ اسے مصر پر تاخت کرنے کے لئے روانہ کیا جائے۔ لیکن سلطان نورالدین رضامند نہ ہوتا تھا۔ کیونکہ خود شام کے اردگرد اہل صلیب سے معرکے برپا تھے۔ آخر ۵۶۲ھ میں سلطان نے شیرکوہ کو دہ ہزار سوار دے کر مصر آنے کی اجازت دی۔ شیر کوہ نے خشکی کا راستہ اختیار کیا اور فرنگی دیار کو داہنی طرف چھوڑ کر غربی جانب سے دریائے نیل کو عبور کیا۔ جب شاور کو معلوم ہوا کہ اسدالدین شیرکوہ آرہا ہے تو اس نے فرنگیوں کو بلا بھیجا۔ وہ اس خوف سے کہ مبادا شیرکوہ مصر پر قبضہ نہ کرلے اور ان کی دیرینہ آرزوئیں طاق اہمال پر رکھی رہ جائیں۔ فوجیں لے کر روانہ ہوئے اور ۲۵جمادی الاخر۵۶۲ھ کو شیر کوہ کے سامنے صف آرا ہوئے۔ شیرکوہ نے جاسوس بھیج کر دشمن کی جمعیت معلوم کرنی چاہی تو بتایا گیا کہ فرنگی افواج کی تعداد کا کوئی حدوحصر نہیں ہے۔ شیرکوہ اپنی قلت سپاہ کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ مقابلہ کرنا چاہیے یا نہیں؟۔ آخر اپنی فوج سے مشورہ کیا۔اکثرنے یہ رائے دی کہ دریائے نیل کوشرقی جانب سے عبورکرکے شام واپس چلے جائیں۔ کیونکہ یہاں کسی کمک کے پہنچنے کی کوئی امید نہیں ہوسکتی۔ اور اگرہم مغلوب ہوگئے تو پھر بھاگ کر جان بچانے کی بھی کوئی جگہ نہیں۔یہ سن کر شرف الدین بغش نام ایک فوجی افسر جو سلطان نورالدین کا مملوک تھا۔ کہنے کہ جو شخص قتل یا قید ہونے سے ڈرتا ہے اسے گھر میں بیوی کے پاس رہنا چاہیے تھا۔اس کے یہاں آنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ اس کے بعد کہنے لگا۔اگر ہم واپس چلے گئے تو سلطان نورالدین کو کیا منہ دیکھائیں گے۔ وہ کہے گا کہ تم مصر کو فرنگیوں کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگ آئے؟۔ شیرکوہ نے کہا یہی رائے صائب ہے اورمیں اسی پر عمل کروں گا۔شیرکوہ کے بھتیجے صلاح الدین نے بھی جو بعدکو سلطان صلاح الدین فاتح بیت المقدس کے نام نامی سے مشہورہوا۔شرف الدین کی رائے کو پسند کیا اور سب لوگ اسی رائے پر متفق ہوگئے کہ نبردآزما ہوئے بغیر واپس نہ جانا چاہیے۔شیرکوہ نے جھٹ لشکر کو آراستہ کیا۔فوج میں جس قدر شجاع اور جنگ آزمودہ سوار تھے۔ ان کواپنے لئے الگ کر لیا۔ صلاح الدین کو عقب لشکر پر متعین کیا اور اس کو سمجھا دیا کہ مصری اورفرنگی یہ سمجھ کرکہ میں قلب میں ہوں قلب پر حملہ آور ہوں گے۔ لیکن تم مقابلہ نہ کرنا۔ بلکہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کر دینا۔ جب میں دیکھوں گا کہ دشمن زد میں آ گیا ہے تو کمین گاہ سے نکل کر ہلہ بول دوںگا۔ اس وقت تم بھی پلٹ کر دشمن پر حملہ کردینا۔ یہ کہہ کر شیر کوہ کارآزمودہ جنگجوؤں کو ساتھ لے کر کمین گاہ میں چلا گیا۔ غرض لڑائی
چھڑی۔فرنگی اورمصری یہ یقین کر کے کہ شیر کوہ قلب لشکر میں ہوگا۔ قلب ہی پر حملہ آور ہوئے۔ صلاح الدین نے برائے نام مقابلہ کر کے نہایت ترتیب کے ساتھ پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ فرنگی اس کے تعاقب میں بڑھے۔یہ دیکھ کر اسد الدین شیر کوہ نے اچانک حملہ کردیا۔ فرنگی اس غیر متوقع حملہ سے بدحواس ہو گئے۔ ادھر سے صلاح الدین کی فوج نے بھی پلٹ کر شمشیرزنی شروع کردی۔ غرض مسلمانوں نے فرنگیوں کر مارمار کر ان کے دھوئیں بکھیر دیئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ فرنگیوں کو ہزیمت ہوئی۔ بے شمار فرنگی عرصہ کارزار کی نذر ہوئے اور سینکڑوں قید کر لئے گئے۔ علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ اتنی قلیل فوج کا اس قدر کثیرالتعداد دشمن کو ہزیمت دینا تاریخ میں بالکل نادروعدیم مثال ہے۔
(الکامل فی التاریخ ج۱۰ص۳،۴)
اسکندریہ پر عمل ودخل
فرنگیوں اور مصریوں کو بھگا کر اسدالدین شیرکوہ اسکندریہ پہنچا۔لوگوں نے پرجوش خیر مقدم کیا۔ شیرکوہ نے اسکندریہ پر قبضہ کر کے صلاح الدین کو وہاں چھوڑا اور خود صعید پر تسلط کر کے سارا رمضان وہاں گزارا۔ادھر ہزیمت خوردہ فرنگی اور مصری قاہرہ پہنچے۔ فوج کو ازسرنو آراستہ کیا اور اسکندریہ جا کر صلاح الدین کا محاصرہ کرلیا۔ صلاح الدین نے سامان رسد وذخائر تھڑ جانے کے باوجود نہایت شجاعت وجانبازی کے ساتھ حفظ ودفاع کا حق ادا کیا۔ جب محاصرہ کو چار مہینے گزرگئے تو صلاح الدین کے عم محترم اسدالدین شیرکوہ نے صعید سے بغرض کمک اسکندریہ کا رخ کیا۔ فرنگیوں نے گھبرا کر مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع کر دی اور کہلا بھیجا کہ آپ کو جو بے شمار مال غنیمت مل چکاہے۔ ہم اس پر پچاس ہزار دینار مستزاد کرتے ہیں۔ شیرکوہ نے کہا کہ میں دوشرطوں پر اس پیشکش کو منظور کرتا ہوں۔ایک تو اسکندریہ ہمارے پاس رہنے دیا جائے۔دوسرے فرنگی کسی ادنیٰ گاؤں پر قبضہ کئے بغیر مصر سے چلے جائیں۔ فرنگیوں نے ان شرائط کو منظورکیا اور محاصرہ اٹھا کر چلے گئے۔ شیرکوہ سالم وغانم ۱۸ذی القعدہ ۵۶۲ھ کو دمشق پہنچا۔مراجعت سے پہلے فرنگیوں نے شاور سے یہ شرطیں منظور کرا لیں کہ قاہرہ کا کوتوال فرنگی ہوگا۔ شہر قاہرہ کے دروازوں کی نگرانی فرنگی سوار کریںگے اوراہل فرنگ کو خزانہ مصر سے ایک لاکھ دینار سالانہ ملتے رہیںگے۔ اس معاہدہ کے بعد فرنگی اپنے چیدہ چیدہ سوار قاہرہ میں چھوڑ کر چلے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ شرطیں فرنگیوں کے قبضہ مصر کی تمہید تھی اور اس طرح دولت بن عبید کا چراغ فرنگی ہوس رانیوں کی پھونکوں سے گل ہوا چاہتا تھا۔ان تمام مفاسد کا محرک اصلی وہی احسان فراموش شاورتھا۔ اس نابکار کی ساری تباہ کاریاں اس خوف پر مبنی تھیں کہ مبادا اسد الدین شیر کوہ اس کی بدعہدی کے انتقام میں مصر
کے عہدہ وزارت پر مستولیٰ و متغلب ہو جائے۔ فرنگی کوتوال اور فرنگی سواروں نے مسلمانوںپر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ انواع واقسام کے ظلم کرنے شروع کئے اور اہل شہر تھوڑے ہی روز میں بلبلا اٹھے۔ اب ان فرنگیوں نے بیت المقدس کے فرنگی فرمانروا کو جس کا نام مرے تھا ترغیب دی کہ فوجیں بھیج کر مصر پر قبضہ کر لیا جائے اور لکھا ہے کہ مسیحی لشکر بلامزاحمت مصر پر قبضہ کر لے گا۔ کیونکہ ہر قسم کے موانع و عوائق اٹھ چکے ہیں۔مرے نے فوجیں بھیج دیں۔ فرنگی افواج شہر بلبیس پر آاتریں اور جبراًوقہراً وہاں قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ بہتوں کو تہ تیغ کیا اور بے شمار مسلمان قید کر لئے گئے۔ جب اہل قاہرہنے سنا کہ فرنگیوں نے بلبیس میں کچھ تعدیاں اور ظلم آرائیاں کی ہیں تو انہیں اپنی جان ومال اورعزت وناموس کا خطرہ محسوس ہوا۔فرنگی فوج ۱۰صفر ۵۵۴ھ کو مصرپہنچی اورآتے ہی قاہرہ کا محاصرہ کر لیا۔اس مرتبہ فرنگی شاور کی دعوت پر نہیں آئے تھے۔ بلکہ ازخود مصر پر عمل ودخل کا تہیہ کر کے ادھر کا رخ کیا تھا۔ شاور نے فرنگیوں کے قابض ہو جانے کے خوف سے شہر مصر میں آگ لگوا دی اور اہل شہر کو حکم دیاکہ سب لوگ قاہرہ کو منتقل ہو جائیں۔ شہر میں بھاگڑ مچ گئی اور لوٹ مار شروع ہوگئی۔ لوگ بالکل تباہ ہوگئے۔جائداد منقولہ لٹ گئی اورغیر منقولہ آگ کی نذر ہوگئی۔ہزارہا خانماں برباد کھلے میدانوں میں پڑے تھے۔چوّن دن تک مصر کی عمارتیں نذر آتش رہیں۔
سلطان نورالدین سے شاہ مصر کی درخواست کہ مصر کو فرنگیوں سے بچایئے
ان دردناک حالات کا مشاہدہ کر کے شاہ عاضد نے سلطان نورالدین کے پاس پیغام بھیجا کہ مسلمان تباہ حال ہیں۔ ان میں فرنگیوں کے اندفاع کی طاقت نہیں اور ساتھ ہی ایک چھٹی زنانہ بال ملفوف کر کے لکھا کہ یہ بال میری بیویوں کے ہیں جو حرم شاہی سے بھیجے گئے ہیں۔وہ آپ سے استغاثہ کرتی ہیں کہ از برائے خدا فرنگیوں کے دست بیداد سے بچایئے۔اب فرنگیوں نے محاصرہ میں بڑی سختی کر دی۔شاور نے فرنگی سپہ سالار کے پاس پیغام بھیجا کہ میں نے پہلے بھی آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور اس وقت بھی میں آپ کا تابع فرمان اور ہر طرح سے بہی خواہ ہوں۔البتہ مجھے نورالدین اور عاضد کی طرف سے کھٹکا ہے۔ اس لئے ازراہ کرم! آپ میری قدیم دوستی کا لحاظ کرتے ہوئے محاصرہ اٹھا لیجئے۔ فرنگیوں کو اس وقت روپیہ کی اشد ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ دیکھ رہے تھے کہ اہل مصر ان کے قبضہ سے نا خوش ہیں اور اگر بالفرض جبراًوقہراً عمل دخل کرلیا تو بھی سلطان نورالدین انہیں مصر سے نکال دے گا۔س لئے مطالبہ کیا کہ اگر ایک لاکھ دینار تاوان دو تو ہم محاصرہ اٹھا کر چلے جاتے ہیں۔شاورنے کہلا بھیجا کہ خزانہ بالکل خالی ہے اور
اتنی بڑی رقم کا فوری انتظام قطعاً ناممکن ہے۔اس لئے اگر آپ محاصرہ اٹھا لیں تومیں اس رقم کی فراہمی کا انتظام کروں۔ فرنگی محاصرہ اٹھا کر شہر سے تھوڑے فاصلے پر چلے گئے اور شاور نے اہل قاہرہ سے زرنقد وصول کرنا شروع کیا۔ مگر اہل مصر میں سے جتنے سرمایہ دار اورآسودہ حال لوگ تھے وہ سب لٹ چکے تھے اور جائیدادیں تباہ ہوچکی تھیں۔یہاں تک کہ نان شبیہ تک کے محتاج ہوگئے تھے اور قاہرہ میںزیادہ تراہل فوج اورغلام لوگ رہتے تھے جن سے کچھ حاصل ہونے کی امید نہ تھی۔ شاور نے فراہمی زر کی بہت کوشش کی۔ مگر پانچ ہزار دینار بھی جمع نہ کر سکا۔اس سے پہلے عمائدواعیان مصر و قاہرہ نے شاور کی بے خبری میں سلطان نورالدین کو لکھ بھیجا تھا کہ اگر آپ ہمیں نصاریٰ کی دستبرد سے بچائیں تو مصر کے تہائی شہرآپ کی نذر کئے جائیںگے۔اور شیرکوہ کو مصری افواج کا قائداعظم بنا دیا جائے گا۔ سلطان نورالدین کو شاہ عاضد کی چھٹی حلب میں پہنچی۔سلطان نے اسدالدین کو مصر آنے کا حکم دیا اور فوجی ملبوسات،سواری اوراسلحہ کے علاوہ لاکھ دینار نقد عطا فرمائے اور چھ ہزارگھڑچڑھے بہادر ساتھ کئے اور اپنی طرف سے ہر سوار کو بیس بیس دینارانعام دیئے اور اسد الدین شیرکوہ کے برادرزاد صلاح الدین یوسف بن ایوب اور بعض دوسرے نامی گرامی اعیان سلطنت کو بھی ساتھ کر دیا۔ شیرکوہ فتح واقبال مندی کے پھریرے اڑاتا ہوا مصر کی طرف بڑھا۔ جب قریب پہنچا تو فرنگی اس کے آنے کی خبر سن کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ شیرکوہ ۷ جمادی الاآخر ۵۶۴ھ کو قاہرہ پہنچا اور شاہ عاضد سے ملاقات کر کے ایک گرانبھا خلعت پیش کیا۔ شیرکوہ کی آمد پر اہل مصر نے بڑی خوشیاں منائی۔اس نے اہل شہر کے زخمی دلوں پر مرہم رکھا اور مصری فوج کوانعام واکرام سے نوازا۔ چونکہ شیرکوہ کے ساتھ بڑی جمعیت تھی۔ شاور کسی طرح دم نہ مار سکا اور جب اسے معلوم ہوا کہ شیرکوہ عاضد اور امراء دولت کی طلبی پرآیا ہے تو تملق وچاپلوسی کا شیوہ اختیار کیا۔ ہر روز سوار ہو کر شیرکوہ کے پاس جاتا اوربہت دیر تک بیٹھا رہتا۔اب شاور نے ارادہ کیا کہ اسد الدین شیرکوہ اوراس کے ساتھیوں کی دعوت کر کے ان کو اسیر کرے اور پھر شامی فوج کو مصری فوج میں شامل کرلے اوراس متحد سپاہ کی مدد سے فرنگیوں کو ماربھگائے۔شاور کا بیٹا بڑا غیور مسلمان تھا۔ اس نے باپ کو سمجھایا کہ اس سودائے خام کو دل سے نکال دو۔شیرکوہ تمہارے دھوکے میں نہیں آئے گا اور اگر وہ اس فریب میں آ گیا اور تم نے اس پر قابو پا کر نذر اجل کر دیا تو پھر اہل فرنگ آکر مصر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیںگے اور تمہیں بجائے لینے کے دینے پڑ جائیںگے۔ شاور نے کہا بیٹا! اگر میں ایسا نہ کروں تو شیرکوہ ہم سب کو ہلاک کر دے گا۔ بیٹے نے کہا بجا ہے۔ لیکن اگر ہم مسلمان ہونے کے باوجود بلاداسلامی میں قتل ہو جائیں تو یہ اس سے کہیں اچھا
ہے کہ ہم شیرکوہ اوراس کے ساتھیوں کی جان لے کر فرنگیوں کو مصر کا مالک بنا دیں۔ جونہی فرنگیوں کو خبر لگے کی کہ تم نے شیرکوہ کو قید کرلیا ہے تو وہ فورا ًآدھمکیں گے۔ایسی حالت میں اگر خود شاہ عاضد بھی جا کر نورالدین سے ہزارمنت سماجت کرے گا تو ایک سوار بھی بھیجنے پر رضامند نہ ہوگا۔ غرض بیٹے کے سمجھانے سے شاوراس خیال خام سے درگذرا۔ اب صلاح الدین یوسف اور بعض دوسرے شامی افسروں نے صلاح کی کہ شاور کا قصہ پاک کر دیا جائے۔ لیکن شیرکوہ نے انہیں اس اقدام سے روک دیا۔ایک مرتبہ شاور حسب معمول اسد الدین کے لشکر میںگیا اور دیکھا کہ شیرکوہ خیمہ میں نہیں ہے۔ شاور نے اس کے متعلق دریافت کیا تو صلاح الدین یوسف اور بعض دوسرے سرداروں نے بتایا کہ وہ امام شافعیؒ کے مزار مبارک کی زیارت کرنے گیا ہے اورہم بھی وہیں جا رہے ہیں۔یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔شاور بھی ساتھ ہو لیا۔ان لوگوں نے راستہ میں شاورکو قید کر لیا۔ شاور کے اردلی بھاگ گئے۔ جب شاہ عاضد کو معلوم ہوا کہ شاور قید کر لیا گیا ہے تو بہت خوش ہوا اور شیرکوہ کے پاس پیغام بھیجا کہ شاور کو قتل کرکے اس کا سر میرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ شاور کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد شیرکوہ قصر شاہی میں گیا۔شاہ عاضد نے خلعت اور قلمدان وزارت پیش کیا اور ’’الملک المنصور امیر جیوش‘‘ کا خطاب دے کر تمام سیاہ و سپید کامالک بنا دیا۔
(الکامل فی التاریخ ج۱۰ ص۱۱،۱۵)
صلاح الدین یوسف کی وزارت مصر
مگر افسوس ہے کہ چشم فلک کو شیرکوہ کی یہ کامرانی ایک آنکھ نہ بھائی اور اس نے دو مہینہ اورپانچ دن کی وزارت کے بعد ۲۲ جمادی الآخر ۵۶۴ھ کو امانت حیات ملک الموت کے سپرد کردی۔ شاہ عاضد نے اس حادثہ کے بعد اس کے لائق برادرزادہ صلاح الدین یوسف بن ایوب کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر مامور کردیا اور ملک ناصر کا خطاب دیا۔ صلاح الدین اور اس کا چچااسدالدین شیر کوہ اپنے تئیں سلطان نورالدین ہی کے نائب تصور کرتے تھے۔ جس نے ان دونوں کو مصر بھیج کر یہیں اقامت گزیں ہونے کی ہدایت کی تھی۔ صلاح الدین یوسف کا باپ نجم الدین ایوب اوراسد الدین شیرکوہ کرد تھے۔ اوائل میں بغداد آکر مجاہد الدین بہروز کوتوال کے پاس نوکر ہوئے تھے۔ مجاہد الدین نے نجم الدین ایوب کو فہم وذکا اور حسن سیرت میں ممتاز پا کر قلعہ تکریت کا محافظ مقرر کر دیا اور شیر کوہ کو بھی ساتھ کر دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد دونوں بھائی سلطان نورالدین کے پاس آملازم ہوئے۔یہاں تک کہ ترقی کرتے کرتے مقربین سلطانی میں داخل ہوگئے۔ الغرض جب صلاح الدین کا قدم استقلال مصر میں اچھی طرح جم گیا تو مخالفوں کی کمر
ہمت ٹوٹ گئی اور شاہ عاضد کے قوائے حکمرانی بالکل مضمحل ہو گئے۔اس وقت صلاح الدین یوسف تو سلطنت کے سیاہ و سپید کا مالک تھا اور اس کا نائب قراقوش خصی تھااور امرائے اسدیہ کے اعیان میں سے تھا۔شاہ عاضد کے محل سرائے پر قابض ومتصرف تھا۔ان ایام میں سلطان نورالدین زنگی نے شام سے یہ پیام بھیجا کہ شاہ عاضد کا خطبہ برطرف کر کے دولت عباسیہ کے نامور تاجدار خلیفہ مستضئی باﷲ کے نام کا خطبہ پڑھاجائے۔صلاح الدین یوسف اس خوف سے کہ مبادا اہل مصر سرتابی کریں اور اس حکم میں لیت ولعل کرنے لگا۔لیکن جب سلطان نورالدین نے اسے ایک عتاب آمیز چٹھی لکھی تو صلاح الدین نے امتثال امرکے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا۔حن اتفاق سے انہی دنوں عاضد کا مزاج اعتدال سے منحرف ہوا اور وہ یکبارگی صاحب فراش ہوگیا۔ صلاح الدین نے اس معاملہ میں امراء واعیان دولت سے مشورہ کیا۔بعض نے موافقت اور بعض نے مخالفت کی۔اتفاق سے امیرالعالم نام ایک عجمی شخص وہاں آ گیا۔یہ لیت ولعل دیکھ کر کہنے لگا۔ لو سب سے پہلے میں اس کارخیر کا افتتاح کرتا ہوں۔ چنانچہ پہلے ہی جمعہ میں خطبہ سے پہلے منبر پر چڑھ گیا اور خلیفہ مستضئی باﷲ عباسی کے حق میں دعائے خیر کرنے لگا۔ کسی نے چوں و چرا نہ کی۔ دوسرے جمعہ میں سلطان صلاح الدین نے خطیبوں کو حکم دیا کہ عاضد کے بجائے خلیفہ بغداد مستضئی باﷲ کے نام کا خطبہ پڑھا جائے۔ چنانچہ حکم کی تعمیل کی گئی۔کسی شخص نے مخالفت کی جرأت نہ کی۔ عاضد کا مرض دن بدن اشتداد پکڑتا گیا۔آخر عاشورہ کے دن داعئی اجل کو لبیک کہہ کر راہی ملک بقا ہوا اور دولت بنو عبید منقرض ہوگئی۔ سلطان صلاح الدین نے قصر شاہی اور اس کے تمام ذخائر ونفائس پر قبضہ کرلیا۔شاہی خزانہ اور قصر شاہی میں اس قدر بیش قیمت اسباب تھا کہ بقول ابن خلدون نہ آج تک آنکھوں نے دیکھا اور نہ کانوں سے سنا۔یاقوت،زمرد، طلائی زیورات ،طلائی ونقرئی ظروف، بیش قیمت ملبوسات کی بڑی بہتات تھی۔ان سب کے علاوہ ایک لاکھ بیس ہزار کتابیں ملیں۔خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ پڑھا جانا کہ دولت عبیدیہ کے آثار نیست ونابود کر دئیے گئے۔ اور خلافت عباسیہ کا پرچم فضائے مصر پر لہرانے لگا۔اس زمانے سے مصر میں حکومت ایوبیہ کی داغ بیل پڑی۔
(الکامل فی التاریخ ج۱۰ ص۱۶،۱۷،۳۳،۳۴)
نوید کامرانی بارگاہ خلافت میں
سلطان نورالدین نے یہ خبر پا کر شہاب الدین مظفر بن علامہ شرف الدین کو اس نوید کے ساتھ بغداد بھیجا اور عبید کاتب کو حکم دیا کہ ایک تہنیت نامہ لکھے جو دارالخلافہ بغداد اورتمام دوسرے بلاد اسلامیہ میں پڑھا جائے۔ اس کا مضمون یہ تھا۔ وہ خداوند ذوالجلال جو حق کو سربلند اور
باطل کر سرنگوں فرماتا ہے۔صد ہزار حمد وشکر کا مستوجب ہے کہ جس کے فضل واحسان نے ان بلاد میںاب کوئی ایسا منبر نہیں چھوڑا جس پر مولانا امام مستضئی باﷲ عباسی کے اسم گرامی کا خطبہ نہ پڑھا گیا ہو۔ تمام مسجدیں عبادت کرنے والوں کے لئے کھل گئیں۔ بدعت کے مرکز ٹوٹ گئے۔ کفر کے مستقر ویران ہوگئے۔ اور جو مقامات قریباً ڈھائی سو سال سے جھوٹے مدعیوں اور کفرپرور دجالوں کے رفض و الحاد کا جولانگاہ بنے ہوئے تھے۔ ان پر آل عباس کی خلافت حقہ قائم ہوگئی جو سنت نبوی کے سچے حامی اور رفض و بدعت کے دشمن ہیں۔الغرض ہمارے تیشہ عدل ودواد نے ظلم وبیداد کی جڑیں کاٹ دیں اور انصاف ودادرسی کا پرچم فضائے مصر پر ازسرنو لہرانے لگا۔ جب یہ پیام سعادت قیام مدینہ اسلام بغداد میں پہنچا تو لوگ جوش ابنساط سے پھولے جامہ میں نہ سماتے تھے۔ ہر طرف خوشی کے چہچہے تھے۔ بڑا شاندار جشن منایا گیا۔ تمام بازار سجائے گئے۔ بغداد ایک طلسم حیرت بنا ہواتھا۔ خلیفہ نے سلطان نورالدین کو خلعت و تشریفات اور صلاح الدین کوعلم و پرچم سے سرفراز فرمایا اور خطیبوں کو بھی انعام واکرام سے سربلند کیا۔علامہ ابن جوزی نے ’’النصر علی مصر‘‘اسی واقعہ کے متعلق ایک مستقل تصنیف کی ہے۔ تھوڑے دن کے بعد باطنیوں اور خاندان بنی عبید کے ہوا خواہوں نے ازسرنو عبیدی سلطنت کی داغ بیل ڈالنی چاہی اور مصر کے چند امراء بھی اس سازش میں شریک ہوگئے۔ لیکن سلطان صلاح الدین کو اس سازش کی بروقت اطلاع مل گئی۔اس نے تمام بدسگال سازشیوں کو قصرین کے درمیان دار پر چڑھا دیا اور اس طرح تمام خرخشے ہمیشہ کے لئے مٹ گئے۔
(تاریخ الخلفاء حالات مستضئی بامراﷲ ص۳۶۲)
سلطان صلاح الدین کا عروج اقبال اور سلسلہ فتوحات
یہاں ضمناً یہ بتا دینا بھی مناسب ہے کہ شاہ عاضدکی موت کے بعد سلطان صلاح الدین کو خودمختار بادشاہ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔جب اقبال یاوری کرتاہے تو ترقی کے اسباب خودبخود جمع ہو جاتے ہیں ۔چند ہی روز میں حجاز کے مقامات مقدسہ سلطنت مصر کے حیطہء اقتدار میں آگئے۔
۵۶۸ھ میں صلاح الدین نے طرابلس کو نارہنوں کے قبضہ سے چھوڑایا۔ ۵۶۹ھ میں اپنے بھائی توران شاہ کو یمن کا گورنر مقرر کیا۔ اس کے بعد اپنے آقائے سابق سلطان نورالدین کے انتقال پر شام اورحلب پر بھی قبضہ کرلیا۔۵۸۱ھ میں موصل فتح کیا۔اور بہت سے چھوٹے چھوٹے تاجداروں نے طوق اطاعت گلے میں ڈالا۔اس طرح سلطان صلاح الدین ان تمام ممالک کا جو آب فرات سے دریائے نیل تک پھیلے ہوئے ہیں۔ باستثناء ان قلعہ جات
کے جو فرنگیوں کے ہاتھ میں تھے فرمانروا بن گیا۔۵۸۳ھ میں سلطان نے فرنگیوں کو بڑی بڑی ہزیمتیں دیں۔بہت سے شہر جن پر انہوں نے قبضہ جما رکھا تھا چھین لیے۔خصوصاً بیت المقدس سے جو اکانوے سال سے فرنگیوں کے قبضہ میں چلا آتا تھا۔ ان کو بے دخل کر دیا۔نصاریٰ نے بیت المقدس میں جو کنیسے بنا لئے تھے۔ ان سب کو گرا دیا اور ان کی جگہ دینی مدارس جاری کردیئے۔البتہ قمامہ کے گرجا کو محض امیرالمومنین فاورق اعظمؓ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے بحال رہنے دیا۔ دول یورپ کو بیت المقدس کے ہاتھ سے نکل جانے کا بڑا صدمہ ہوا۔ چنانچہ اس نقصان کی تلافی کے لئے رچرڈ اول شاہ انگلستان اور فلپ اگسٹس شاہ فرانس بڑی زبردست تیاریاں کر کے بیت المقدس کے چھوڑانے کے لئے روانہ ہوئے۔ڈیڑھ سال تک بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے۔ لیکن ناکام ونامراد واپس جانا پڑا۔ ۵۸۹ھ میں سلطان صلاح الدین نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ خدائے برتر اس نیک نہاد بادشاہ پر اپنی رحمت کاملہ نازل فرمائے۔۔باوجود عالمگیر بادشاہت وحکمرانی کے سلطان صلاح الدینؒ نے انتقال کے وقت ایک گھوڑا،ایک زرہ اورایک دینار اور ۳۳ درم زرنقد چھوڑا۔ اس کے سواء اس سلطان البروالبحر کا کوئی اورترکہ نہیںتھا۔سلطان کی رحلت پر ایک بیٹا عماد الدین عثمان مصر کا بادشاہ ہوا۔ دوسرا بیٹا نورالدین علی شام میں سریر آرائے سلطنت ہوا۔تیسرے غیاث الدین غازی نے حلب کی عنان فرمانروائی ہاتھ میں لی۔ایضاً سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوبؒ نے جس عظیم سلطنت کی بنا ڈالی۔ اس کو ایوبیہ کہتے ہیں۔اس کے نو بادشاہ مصر میں۔تیرہ فرمانروا شام میں اور تین تاجدار حلب میں بادشاہی کرتے رہے۔
۳…صحابہؓ کرام کے فضائل
اوراق ماسبق میں عموماً اوراس باب کی پہلی فصل میں خصوصاً آپ نے پڑھا ہو گا کہ کس طرح مسبوقین کے خبیث النفس افراد نے سابقین امت رضوان اللہ اجمعین کی توہین و تفضیح کرکے اپنے اندر کی غلاظت اور گندگی کا مظاہرہ کیا۔ پاکوں پر ناپاکیوں کے حملے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم کوئی غیور کلمہ گو ایسا نہیں جو اس گندہ دہنی کو سن کر دل قابو میں رکھ سکتا ہو اور کوئی بے حس سے بے حس مومن قانت ایسانہ ملے گا جس کا خون اسلاف کرامؓ کی توہین و تشنیع پر ابلنے نہ لگے۔ لیکن اس خیال سے کہ بعض لوگ بے خبری کے عالم میں بدنفس و سینہ سیاہ اعدائے دین کے شاتمانہ پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر راہ حق کی جبل متین کو ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ جو خیرالبشر ﷺ کے دست وبازو تھے۔ ان کے فضائل مشتے نمونہ خروارے بیان کر دئیے
جائیں۔ پیغمبر خداﷺ کے برگزیدہ دوستوں نے خدمت دین اور نصرت رسول امین علیہ التحیہ والسلام میں جو مالی اورجانی قربانیاں کیں اور ایثارومواخاۃ کے عملی نمونے پیش کئے ان کو میں کتاب’’شمائل النبی‘‘ میں جو زیرتالیف ہے بوضاحت بیان کرچکا ہوں۔ یہاں ان کے صرف وہ فضائل و محائد مختصراً سپرد قلم کرنا چاہتا ہوں جو خود خدائے عزیز و برتر کی لسان وحی نے بیان فرمائے یا حضرت مہبط وحی ﷺ نے امت کی رہنمائی کے لئے ان کی شرح فرمائی۔
صحابی کی تعریف
شیخ ابن حجر عسقلانیؒ کے الفاظ میں صحابی وہ ہے جس نے حالت ایمان میں پیغمبر خداﷺ سے ملاقات کی ہو اور اسلام پر وفات پائی ہو۔ خواہ مجالست کثیر رہی ہو یا قلیل۔ آپ سے کوئی حدیث روایت کی ہو یا نہ کی ہو۔آپ کی رفاقت میں غزا کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ یا وہ جس کو آپ کا شرف روئیت حاصل ہو۔لیکن مجالست میسر نہ ہوئی ہو۔ ایمان لانے کے بعد بے بصری یا کسی دوسرے مانع کی وجہ سے جمال مبارک کی زیارت نہ کرسکاہو۔(مقدمہ اصابہ عربی ص۷)شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ طول صحبت اور آپ سے اخذ علم اور غزوات میں آپ کی رفاقت کو بھی صحابیت کی شرط ٹھرایا ہے اور صحبت کی اقل مدت چھ مہینے قرار دی ہے۔ لیکن معلوم نہیں کہ ۶ماہ کی تعیین کی کیا دلیل ہے؟۔ بہرحال ظاہر ہے کہ وہ اصحاب ان صحابہ کرام کے درجہ کو ہرگز نہیں پہنچ سکتے جنہوں نے حضور سروردوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمیشہ نصرت اور رفاقت کی اور غزوات میںآپ کے شریک حال رہے۔(اشعۃ المعات جلد چہارم) صحابہ کرامؓ کی جمیع تعداد سوا لاکھ سے کچھ کم ہے۔ بعض حضرات نے ایک لاکھ دس ہزار بتائی ہے۔شیخ ابن حجر عسقلانیؒ نے کتاب’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘ میں ان میں سے بارہ ہزار دو سواناسی صحابہؓ کے وقائع حیات درج کئے ہیں۔
پیروان ابن سبا کی حماقت
ابن سبا یہودی کی امت صحابہ کرام پر لعن طعن کرنے کی عادی ہے۔ابوزرعہ رازیؒ نے فرمایا ہے کہ جب کسی کو دیکھو کہ وہ اصحاب رسولﷺ میں سے کسی کی عیب گیری کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے۔(مقدمہ اصابہ ج۱ص۱۰) زندیق شریعت کی اصطلاع میں اس شخص کو کہتے ہیں جس کا زبانی دعویٰ تو اسلام کا ہو۔ لیکن اس کے عقایٔد کفروشرک سے ہمکنار ہوں۔قرآن عزیز میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ جناب سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے لشکر کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہنے لگی کہ اپنے سوراخوں میں گھس چلو۔ ایسا نہ کہ سلیمان علیہ السلام
کا لشکر نادانستہ ہم کو پائمال کر دے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے۔
’’ حتیٰ اذا اتوا علی واد النمل قالت النملۃ یا ایھا النمل ادخلوا مسکنکم لایحطمنکم سلیمان وجنودہ وھم لایشعرون(۲۷:۱۸)‘‘ {جب سلیمان علیہ السلام چیونٹیوں کے ایک میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں سے کہا کہ اپنے اپنے سوراخوں میں جا گھسو۔ ایسا نہ ہو کہ سلیمان ؑ اوران کا لشکر تمہیں بے خبری میں کچل ڈالے۔}
امام فخر الدین رازیؒ نے اس آیت سے ایک عجیب استدلال کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کی چیونٹی آج کل کے رافضی سے زیادہ عقلمند تھی۔کیونکہ اس نے کہا تھا کہ سوراخوں میں گھس چلو کہ کہیں پیغمبر خدا کا لشکر یعنی ان کے اصحاب نادانستہ روند نہ ڈالیں۔ پس چیونٹی کے نزدیک یہ بات محال تھی کہ نبی اللہ کے رفقاء کسی پر عمداً ظلم کریںگے۔ لیکن رافضی کہتے ہیں کہ اصحاب سید المرسلین ﷺ نے دانستہ حضرت علیؓ کا حق پامال کیا اوراہل بیت پیغمبر پر صریح ظلم کیا۔ لیکن روافض اتنا نہ سمجھ سکے کہ پیغمبر علیہ السلام کے اصحابؓ کا ظلم وبیداد پر متفق ہو جانا بالکل محال ہے۔اب ان نفوس قدسیہ کے فضائل پہلے قرآن مجید سے اور پھر احادیث نبویہ سے مختصراً قلمبند کئے جاتے ہیں۔
فضائل صحابہؓ ازروئے قرآن
مہاجرین سید کائنات ﷺ کے وہ تارکان وطن اصحاب ہیں۔ جنہوں نے کفارقریش کے مجبورکرنے پر اپنے آقا ومولیٰ حضرت سید المرسلین کی رفاقت میں اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ کو خیر باد کہا اور مدینہ منورہ میں جا کر سکونت اختیار کی۔ اور انصار مدینہ طیبہ کی وہ مقدس جماعت ہے جس نے مہاجرین کو اپنے یہاں ٹھہرایا اور ہر طرح سے ان کی مالی اور اخلاقی امداد کی۔ رب جلیل نے مہاجرین وانصار کی شان میں فرمایا ہے:
’’والسابقون الاولون من المہاجرین و الانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنہم ورضواعنہ واعدلھم جنات تجری تحتہا الانہٰر خالدین فیہا ابدا۰ ذلک الفوزالعظیم(سورۃ توبہ: ۱۰۰)‘‘ {جومہاجرین اور انصار (ایمان لانے میں سب سے) سابق اور مقدم ہیں اور(امت مابعد کے)جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں۔ اللہ ان سب سے راضی ہے اوروہ اللہ سے راضی ہیں۔حق تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے باغات (جنّٰت) مہیا کر رکھے ہیں کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوںگی اور جن
میں وہ ابدالآباد تک مقیم رہیںگے۔ یہ بڑی کامیابی اور فوزوفلاح ہے۔}
مہاجرین اولین وہ حضرات ہیں۔ جنہوں نے مکہ معظمہ میں پیغمبر ﷺ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ(یا جنگ بدر سے پہلے)مدینہ منورہ کو ہجرت کی۔ جن۷۳(تہتر)صحابہ رضوان اللہ علیہم نے رحمت عالم ﷺ کے ساتھ مدینۃ الرسولؐ کو ہجرت فرمائی۔ میں نے ان کے اسماء گرامی کتاب ’’شمائل النبی‘‘ میں درج کر دیئے ہیں اورانصاری رضی اللہ عنہم کے نام لکھ دیئے۔ جنہوں نے ان کی میزبانی کی۔حضرات مہاجرین اولین میں خلفائے اربعہ اورعشرہ مبشرہ میں سے باقی ماندہ چھ حضرات خاص طور پر ممتاز ہیں۔اس آیت سے جو اوپر درج ہوئی ثابت ہوا کہ خدائے کردگار نے صرف تمام مہاجرین اولین سے خوش ہے۔ بلکہ ان کے پیرووں سے یعنی فرقہ اہل سنت وجماعت سے بھی اظہار خوشنودی فرماتا ہے۔اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرات مہاجرین وانصار جن کو رافضی لوگ گالیاں دیتے ہیں۔ مغفوراورجنتی ہیں۔ پس ظاہر ہے کہ جس جماعت بلند وبالا کو خود خدائے قدوس اپنی رضا مندی کا تمغہ بخشتا اور اس کے جنتی ہونے کی بشارت دیتا ہو۔ اس برگزیدہ جماعت کی شان پاک میں دریدہ دہنی کرنا اور(معاذاﷲ)ایمان سے خارج بتانا اسی حرمان نصیب کا کام ہوسکتا ہے جو خود فاقدالایمان ہو۔
۲… حضرات مہاجرین رضی اللہ عنہم مکہ معظمہ میں عموماً مالدارتھے۔ کفارقریش نے ان کو ہجرت کے وقت لوٹ کر اورزرومال چھین کر بالکل مفلس وقلاش بنا دیا۔رب ذوالمنن ازراہ نوازش ان حضرات کی شان میں فرماتا ہے:
’’للفقراء المہاجرین الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا و ینصرون اللہ ورسولہ ۰اولئک ھم الصادقون (سورہ حشر: ۸)‘‘ {ان نادار مہاجرین کا بالخصوص حق ہے جو اپنے گھروں سے(جبراً وظلماً) خارج اور مال وزر سے محروم کردیئے گئے۔یہ لوگ خدائے کردگار کے فضل و رحمت اور اس کی رضامندی کے طالب ہیں۔یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔یہی صادق لوگ ہیں۔}
اس آیت سے ثابت ہوا کہ (۱) حضرات مہاجرین واقعی قبول ایمان نصرت دین مبین اور تائید رسول امین کے جرم میں ہر قسم کی جائداد منقولہ غیر منقولہ سے محروم کر دئیے گئے۔ (۲)اعدائے اسلام نے ان کو لوٹ کر بالکل مفلس ونادار بنا دیا۔(۳) حضرات مہاجرینؓ کی زندگی کا واحد نصب العین مالک الملک عزاسمہ کی رضا جوئی تھا۔(۴)یہ حضرات صادق تھے اورصادق وہ
ہے جواپنے ہر قول و فعل میں سچا اورحق پرست ہو۔ اب ظاہر ہے کہ جس برگزیدہ جماعت کی عدیم المثال دینی خدمات، حسن کرداراورصدق و صفا کا خود خداوند عالم مدح خواں ہو۔ اس پر تشنیع کی غلاظت اچھالنا اسی شقی کا کام ہو سکتا ہے جوخدا اور اس کے رسول کا اور اوراس کے دین کا دشمن ہو۔ یہاں ناظرین کی بصیرت افروزی کے لئے مہاجرین اولین میں سے چند حضرات کے نام درج کئے جاتے ہیں۔(ا)امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ مع اہل وعیال وخدام (۲)امیرالمومنین عمر فاروقؓ مع اہل وعیال(۳)امیرالمومنین عثمان ذوالنورینؓ مع اہل و عیال و خدام (۴)امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ ٰ(۵)پیغمبر خدا ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن عوامؓ مع اپنی بیوی حضرت اسماء ذات النطاقینؓ کے جو امیر المومنین صدیق اکبرؓ کی بڑی صاحبزادی تھیں(۶) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ (۷) حضرت طلحہ بن عبید اﷲؓ (۸) حضرت سعید بن زیدؓ (۹)حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ (۱۰) حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ (۱۱) حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ (۱۲) امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے بھائی حضرت زید بن خطابؓ (۱۳) حضرت مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبدمنافؓ۔
۳… روافض اور اس قماش کے دوسرے اعداء اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان زولنورین رضی اللہ عنہم اوردوسرے جلیل القدرصحابہؓ جنہوں نے فی سبیل اللہ ہجرت کی اور اعلاء کلمتہ اللہ کی خاطر کافروں سے جہاد کئے۔ یا وہ انصار مدینہ جنہوں نے پیغمبر خداﷺ اور حضرت علیؓ اوردوسرے مہاجرین کو اپنے ہاں جگہ دی اورمیزبانی کا حق ادا کیا ان کو(معاذاﷲ) ایمان واسلام سے کوئی حصہ نہیں ملا۔ ایسے سینہ سیاہ اعدائے دین کی تردید میں رب العزت فرماتا ہے:
’’والذین آمنوا وھاجروا وجاھدوافی سبیل اللہ والذین آوواونصروا اولٓیک ھم المومنون حقا۰لھم مغفرۃ ورزق کریم (انفال: ۷۴)‘‘ {جو لوگ ایمان لائے اور (ہجرت نبویہ کے زمانہ میں) ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے اور جن افراد نے (ان مہاجرین) کو اپنے یہاں ٹھہرایا اوران کی مدد کی۔یہی لوگ اصل مومن ہیں۔ان کے لئے آمرزش اور باعزت روزی (دنیا میں مال غنیمت اور آخرت میں نعیم جنت) ہے۔}
۴… ایک اورآیت میں خدائے قدوس نے رفض وسبائیت کی ان الفاظ میں تردید فرمائی ہے:
’’محمد رسول اﷲ۰والذین معہ اشدآء علے الکفار رحمآء بینہم۰ تراھم رکعاً سجداً یبتغون فضلامن اللہ و رضوانا۰ سیماھم فی وجوہہم من اثر السجود۰ ذلک مثلہم فی التوراۃ و مثلہم فی الانجیل( فتح: ۲۹)‘‘ {محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کفار کے حق میں سخت گیر اور آپس میں شفیق ومہربان ہیں۔تم انہیں اس حال دیکھو گے کہ کبھی رکوع کر رہے ہیں اورکبھی سربسجود ہیں۔یہ لوگ حق تعالیٰ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے جویان ہیں۔ان(کے صلاح وفلاح)کی علامت ان کے چہروں پر(نور کی شکل میں)نمایاں ہے جو سجدوںکی تاثیر ہے(ظاہر ہورہی)ہے۔ان کے یہ اوصاف تورات میں بھی مذکور ہیںاورانجیل میں بھی۔}
اس فرمان خداوندی نے(۱)روافض کے اس قول کی تردید کردی کہ حضرت علیؓ حضرات شیخین(رضی اللہ عنہما) سے (معاذاﷲ) بغض وعنادرکھتے تھے۔(۲) اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اصحاب رسول ﷺ کا مطمح نظر ہرکام میں رضائے خداوندی تھا۔(۳) یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ ہر وقت عبادت الٰہی اور توجہ الی اللہ میں منہمک وسرگرم تھے۔(۴) قرآن حکیم کی طرح تورات اور انجیل میں بھی ان کی مدح و ستائش مذکورہے۔
۵… ایک آیت میں خدائے برتر، صحابہ کرامؓ کو مخاطب کر کے ان الفاظ میں ان کے ایمان وتقویٰ پر مہر توثیق ثبت فرماتا ہے :
’’ولکن اللہ حبب الیکم الایمان و زینہ فی قلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان۰ اولٓیک ھم الراشدون( حجرات:)‘‘ {حق تعالیٰ نے تم کو ایمان کا عشق و شغف بخشا۔اس کو تمہارے دلوںکی زینت بنایا اور تمہیں کفر،فسق،معصیت سے نافرورسیدہ کردیا۔ایسے ہی لوگ خداکے فضل وانعام سے راشد وہدایت یافتہ ہیں۔}
۶… سرور کائنات ﷺ نے حضرت عثمان ذوالنورینؓ کو ایک سفارت پر مکہ معظمہ روانہ فرمایا تھا۔چند روز کے بعد آپ کے لشکر میں یہ ہوائی اڑی کہ حضرت عثمانؓ شہید کر دیئے گئے۔ آپ کو یہ خبر سن کر بڑا صدمہ ہوا۔آپ اس وقت سفر میں تھے۔آپ نے اہل مکہ سے انتقام لینے کا عزم صمیم کرکے فرمایا کہ اب میرے لئے ان سے لڑنا حلال ہوگیا۔ کیونکہ پہل انہوں نے کی ہے۔ چنانچہ اس غرض کے لئے حضور رسالت مآبؐ نے ایک درخت کے نیچے صحابہؓ سے جان سپاری اور فداکاری کی بیعت لی۔مگر بعد کو یہ خبر جھوٹی نکلی۔اس واقعہ کی تفصیل ’’شمائل النبی‘‘ میں درج کر چکا ہوں۔ اس بیعت کو بیعت الرضوان کہتے ہیں۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ کو اس پر رضوان
الٰہی کا مژدہ جان بخش سنایا گیا تھا۔چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
’’لقد رضی اللہ عن المؤمنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ فعلم مافی قلوبہم فانزل السکینۃ علیہم واثابہم فتحاً قریباًومغانم کثیرۃً یاخذونہا(فتح :۱۸)‘‘ {حق تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے اور ان کے دلوں کی (خوشگوار ایمانی) کیفیت بھی خدا کو معلوم تھی۔اس وقت حق تعالیٰ نے ان پر اطمینان قلب کا فیضان فرمایا اورانہیں فتح عاجل اورغنیمت وافر کی کامیابی بخشی۔ جسے وہ (عنقریب)حاصل کریںگے۔}
حدیث صحیح میں ہے کہ بیعت الرضوان کے مبایعین میں سے کوئی شخص داخل جہنم نہ ہوگا۔ حضرت ابو بکرؓ،حضرت عمرؓ اور تمام وہ جلیل القدر مہاجرین اور انصار جن کے خلاف ابن سبا کی امت لعن و طعن کی غلاظت اچھالتی ہے۔بیعت الرضوان میں داخل تھے
صحابہ کرامؓ کی افضلیت ازروئے حدیث
اب یہاں مخبر صادقﷺ کے چند ارشادات گرامی درج کئے جاتے ہیں۔جن سے قارئین کرام پر یہ حقیقت روزروشن کی طرح آشکارا ہو جائے گی کہ فخر انبیاء ﷺ کے دامن فیض میں تربیت پانے والے حضرات امت بابعد کے تمام افراد سے افضل وبرتر ہیں۔
صحابی کے لئے ثواب کی بشارت
صحابہ کرامؓ کی افضلیت کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ جتنا ثواب کسی عمل پر مسبوقین امت کو ملتا ہے۔ اس سے لاکھوں کروڑوں درجہ زیادہ اصحاب پیغمبر خداﷺ کو اسی عمل پر ملتا تھا۔ چنانچہ سروردو جہاں علیہ التحیہ والسلام نے فرمایا کہ میرے اصحاب کو برا نہ کہنا۔اگر دوسرے لوگوں میں کوئی شخص راہ خدا میں کوہ احد کے برابر سونا بھی کیوں نہ خرچ کر دے۔تو بھی کسی حالت میں میرے کسی صحابیؓ کے ایک مد بلکہ نصف مد کے انفاق کی بھی برابری نہیں کرسکتا(بخاری ج۱ ص۵۱۸) مد غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ ہے۔ جس میں قریباًگیارہ چھٹانک گیہوں آتا ہے۔تفاوت ثواب کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے براہ راست شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے علم حاصل کیا تھا۔ یہ حضرات ہروقت کے حاضر باش تھے۔ حضور سرورکائنات ﷺ کے فیض صحبت نے ان کے دلوں میں خلوص خشیت الٰہی، عشق خداوندی اور تعلق باﷲ کی وہ کیفیت پیدا کر دی تھی کہ دوسروں کو ہزارہا ریاضتوں اور مجاہدوں سے بھی میسر نہیں آسکتی۔ چنانچہ شیخ ابو طالب مکی نے فرمایا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے جمال مبارک کی ایک جھلک کا یہ اثر تھا کہ دوسروں کو
ہزاروں چلوں اور ریاضات شاقہ کے بعد بھی وہ دلی کیفیت نصیب نہیں ہوسکتی اور ایمان اعیانی اور یقین شہودی جو صحابہ کرامؓ کو حاصل تھا۔اس میںامت کا کوئی دوسرا شخص ان کا شریک و سہیم نہیں ہے۔اس کے علاوہ اصحاب رضوان اللہ علیہم نے اس وقت راہ خدا میں اپنا مال صرف کیا۔ جبکہ اسلام ابتداء ً نہایت ضعف اور یتیمی وکسمپرسی کے عالم میں تھا۔ان نفوس قدسیہ نے خود پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنا مال ضروریات دین پر خرچ کیا۔ ان حضرات کی جانفشانی،ایثاراورانفاق فی سبیل اللہ ہی کا اثر تھا کہ دین حنیف کا غلغلہ تھوڑے ہی روز میں اقصائے عالم تک پہنچ گیا اور دنیا تشنگی سعادت سے سیراب ہونے کے لئے ہمہ تن متوجہ ہوئی۔
صحابہ کرامؓ سمائے ہدایت کے کواکب درخشاں تھے
جس طرح آسمان دنیا پرآفتاب جہاںتاب ضیاء پاش ہے۔ اسی طرح رسول اکرمﷺ سمائے ہدایت وروحانیت کے نیرّاعظم اور آپؐ کے اصحاب اس کے کواکب درخشان تھے۔ چنانچہ حضرت سیدالاولین والآخرین ﷺ نے فرمایا کہ میںنے اپنے پرودگار سے ان اختلافات کے متعلق دریافت کیا جو میرے وصال کے بعد میرے اصحاب میں رونما ہوں گے۔ رب العزت نے مجھے وحی بھیجی کہ اے محمدؐ! میرے نزدیک آپؐ کے اصحاب آسمان کے ستاروں کا حکم رکھتے ہیں۔ گو بعض ستارے دوسروں سے زیادہ روشن ہیں۔لیکن ہر ایک نجم و درخشاں ضیا پاشی کررہا ہے۔ پس جس کسی نے ان کے اختلافی مسائل پر عمل کیا۔ وہ میرے نزدیک راہ ہدایت پر ہے اور آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے اصحاب بمنزلہ روشن ستاروں کے ہیں۔ ان میں سے جس کسی کی پیروی کروگے۔ منزل ہدایت پر پہنچ جاو گے۔(رزین)علماء نے لکھا ہے کہ ہر صحابی کا سینہ علم دین اور نور ہدایت سے مزین و منور تھا۔ لیکن اگر کبھی کسی سے از راہ بشریت کچھ غلطی ہو گئی تو اس غلطی کا اقتداء درست نہیں۔ کیونکہ ان کی غلطی بالکل خارج از بحث اور ناقابل التفات ہے۔
اصحابؓ امت کے امن عافیت کا باعث تھے
دین حنیف قرون ثلاثہ یعنی اصحاب کرامؓ کے عہد سعادت میں اور اسے کے بعد تابعین اور اتباع تابعین کے قرنہائے خیر میں ہر قسم کے بدعات و محدثات سے محفوظ رہا۔ اس کے بعد دین میںفتنہ انگیزیاںاور رخنہ انگیزیاں شروع ہوگئیں۔اسی حیثیت سے سردار دو جہاں ﷺ نے فرمایا:
’’خیر امتی قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم‘‘ {یعنی بہترین امت میرے اصحابؓ ہیں۔ان کے بعد وہ لوگ ہیں جو اصحاب سے متصل ہیں(تابعین اور ان
کے بعد بہترین امت اس قرن کے لوگ ہیں تابعین سے متقارب و متقارن ہیں۔(بخاری ، مسلم)}
اسی طرح فرمایا کہ میرے اصحاب کا اکرام کرو۔ کیونکہ وہ تم میں سب سے زیادہ افضل و برگزیدہ ہیں۔ان کے بعد وہ لوگ خیارامت ہیں جو ان سے قریب تر ہیں۔پھر جو ان سے متصل ہیں ان کے بعد دروغ (بدعات و محدثات) کا ظہور ہوگا۔ یہاں تک کہ انسان بغیر قسم دئیے جانے کے قسمیں کھائے گا اور بغیر اس کے کہ اس کی شہادت مطلوب ہو۔ شہادت دیتا پھرے گا۔ لیکن جو شخص وسط جنت کے قیام سے بہرہ اندوز ہونا چاہتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت اہل سنت والجماعت کا التزام کرے۔ کیونکہ شیطان تنہا آدمی کی رفاقت اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن دوآدمیوں سے نسبتاً دوررہتا ہے ۔ یاد رہے کہ ان احادیث کا یہ مطلب نہیں کہ قرون مشہودلہا بالخیر کے بعد سلامتی ایمان اور صحت عقاید بالکل اٹھ جائے گی۔ کیونکہ حضرت خیر البشر ﷺ کے ارشاد گرامی کے بموجب خیر الامۃ کا گمراہی پر مجتمع ہونا بالکل محال ہے اور کما حقہ اہل سنت و جماعت کا قیامت تک موجود رہنا بھی لوازمات سے ہے۔ بلکہ ان احادیث کا یہ مفہوم ہے کہ تین ازمنۂ خیر تک اتنی غالب رہے گی۔ اس کے بعد شروروفتن کا غلبہ ہوگا۔ اورسلامتی نسبتاً کم ہو جائے گی۔ اور یہ بھی مخبر صادق ﷺ کا ایک معجزہ تھا جس کی آپ نے پیشین گوئی فرمائی۔ اسی طرح حر ف بحرف ظہور میں آیا۔
یہاں یہ بتا دینا بھی ضرور ہے کہ صحابہ کرامؓ کا عہد مبارک۱۱۰ھ تک، تابعین کا قرن۱۷۰ھ تک اور اتباع تابعین کا زمانہ ۲۶۰ھ تک باقی رہا۔ اس کے بعد بدعتیں نفوذ کرنے لگیں۔ فلاسفہ نے سر اٹھایا ۔معتزلہ نے زبان درازی شروع کی، باطنیہ اور قرامطہ کی فتنہ انگیزیوں کا طوفان عالم پر محیط و متسلط ہوا اور سنت سنیہ کا شغف روبہ زوال ہوا۔
صحابہؓ کاوجود فتح وظفر کا کفیل تھا
صحابہ کرامؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ نہ صرف خود ان کا بلکہ ان کے دیکھنے والوں کا وجود بھی فتح وظفر کا کفیل تھا۔چنانچہ پیغمبر خداﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب کہ مسلمانوں کی ایک جماعت مصروف غزا ہوگی۔ اس وقت ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی موجود ہے۔ جسے پیغمبر خداﷺ کی صحبت نصیب ہوئی؟۔کہا جائے گا ہاں موجود ہے۔پس اصحاب پیغمبرﷺ کی برکت وشوکت سے مجاہدوں کو فتح ونصرت نصیب ہوگی۔اسی طرح پھر ایک زمانہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت جہاد فی سبیل اللہ کا علم بلند کرئے گی۔ اس وقت
سوال کیا جائے گا کہ تمہارے اندر کوئی ایسا متنفس بھی موجود ہے۔ جسے اصحاب رسول ﷺ کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟۔ اس کا جواب اثبات میں دیا جائے گا۔حق تعالیٰ ان(تابعین) کی برکت سے عساکر اسلام کو مظفر و منصور کرے گا۔ اس کے بعد ایک موقع پر مسلمانوں کی ایک جماعت (اعلاء کلمتہ اللہ کی خاطر) جہاد کرے گی۔اس وقت یہ سوال ہوگا کہ کیا لشکر اسلامی میں کوئی شخص ایسا بھی موجود ہے جسے اصحاب رسولﷺ کے دیکھنے والوں کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟۔ جواب ملے گا ہاں موجود ہیں۔ پس حق تعالیٰ ان نفوس قدیسہ (یعنی اتباع تابعین) کی برکت سے مسلمانوں کو فتح دے گا۔(بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں حدیث خیر القرون کے اندر چہارگانہ مراتب بیان کئے گیے ہیں۔یعنی اتباع تابعین کے دیکھنے والوں کی بھی فضیلت مذکور ہے۔
صحابیؓ کے پاس دفن ہونے کی سعادت
بعض روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی صحابی کے پاس دفن ہونے والا مسلمان مغفور ہوگا۔مخبر صادق ﷺ نے فرمایا کہ میرا کوئی صحابی ایسانہیں جو کسی جگہ رحلت کرنے کے بعد قیامت کے دن اس سرزمین کے لوگوں کی (جنت کی طرف)رہنمائی نہ کرے گا اوران کے حق میں نور نہ ہوگا۔(ترمذی)ایک اور حدیث سے اصحاب پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظمت شان یہاں تک ثابت ہوتی ہے کہ ان کے دیکھنے پر دوزخ کی آنچ حرام کردی گئی۔ چنانچہ حضرت جابرؓسے مروی ہے کہ حضرت خیرالبشر ﷺ نے فرمایا کہ اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے (اصحابؓ) کو دیکھا۔
(ترمذی ج۲ ص۲۲۵)
ان احادیث سے ہر شخص بادنیٰ تامل سمجھ سکتا ہے کہ فردائے قیامت کو ان تہی دستان قسمت کا کیا حال ہوگا۔ برگزیدہ حضرات پر زبان دشنام دراز کرنے کو جزوعبادت گمان کرتے ہیں۔ جن کے رخ انور کی طرف حسن عقیدت سے دیکھنا بھی آتش جہنم کو حرام کر دیتا تھا۔
صحابہ کا احترام محلوظ رکھنے کے متعلق سرداردوجہاںؐ کی وصیت
پیغمبرﷺ کو معلوم تھا کہ ایک ایسی بدسگال جماعت اٹھ کھڑی ہوگی جو میرے اصحاب پر سب وشتم کرے گی۔اس لئے آپ نے امت کی رہنمائی کے لئے بطور وصیت فرمایا کہ میرے اصحاب کے حق میں خدا سے ڈرنا(یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ فرمائے) انہیں میرے بعد ہدف ملامت نہ بنانا۔ جو کوئی ان کو دوست رکھتا ہے۔ وہ میری محبت کی وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہے۔ اور جو شخص ان سے بغض رکھتا ہے۔ وہ میرے ساتھ دشمنی رکھنے کے باعث ان سے عناد رکھتا ہے۔ جس نے انہیں رنجیدہ کیا۔ اس نے مجھے رنجیدہ وملول کیا۔ جس نے مجھے ستایا۔ اس نے خدا کو
ایذادی اور جو کوئی خدائے برتر کی ایذائرسانی کا باعث ہوا۔ خدائے قہار اسے بہت جلد عذاب میں گرفتارکرئے گا۔(ترمذی ج۲ ص۲۲۵) اورروافض کی فتنہ انگیزی کے متعلق پیغمبرخداﷺ نے فرمایا کہ جب تم ایسے لوگوں کو پائو جو میرے اصحاب کو گالی دیتے ہیں توکہو کہ تمہاری شرانگیزی پر خدا کی لعنت ہو۔
(ترمذی ج۲ ص۲۲۵)
امام محی الدین نوویؒ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ صحابہؓ کو برا کہنا حرام اورکبیرہ گناہ ہے۔ گو ان میں سے بعض باہم معرکہ آرا ہی کیوں نہ ہوئے ہوں۔ کیونکہ وہ رزم خواہ ہونے میں مجتہد تھے اور مجتہد کی خطا عنداﷲ معاف ہے ۔ جمہور علماء کا یہ مسلک ہے کہ رافضی کو اس کی بدگوئی کی سزا دی جائے۔ لیکن قتل نہ کیا جائے۔اورعلامہ علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ مالکیہ کے نزدیک صحابہ کو برا کہنے والا واجب القتل ہے۔شیخ ابن حجر مکی شافعیؒ نے بھی کتاب صواعق میں یہی فتوی دیا ہے۔
توہین صحابہؓ کے خلاف ریاض آباد کا ایک مقدمہ
لکھنؤ کے رسالہ النجم میں ایک مرتبہ ایک مقدمہ کی دلچسپ روداد شائع ہوئی تھی۔ لکھنؤ میں مقبول احمد نام شیعوں کا کوئی تبرّائی واعظ تھا۔اس نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان پاک میں دریدہ دہنی کر کے فتنہ کی آگ لگائی۔ ایک دفعہ اس جرم میں اس پر فیض آباد میں مقدمہ قائم ہوا۔ مقبول احمد نے عدالت میں بیان کیا کہ اصحاب پر تبرا کہنا ہمارامذہبی شعارہے۔ پس جس طرح تمام دوسرے لوگوں کو اپنے مذہبی فرائض بجا لانے کی پوری آزادی ہے۔ ہمیں بھی علی الاعلان تبرّا کی آزادی ملنی چاہیے۔اس کے جواب میں مسٹر محمد علی بیرسٹر رائے بریلی نے جو اہل سنت وجماعت کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے۔ عدالت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جناب ان کا مذہبی فریضہ پیغمبر خداﷺ کے احباب ورفقاء کو گالیاں دینا ہے اور ہمارا مذہبی فریضہ یہ ہے کہ تبرّا کرنے والے کو قتل کردیں۔ اور اس کے ثبوت میں صواعق محرقہ کی ایک حدیث پیش کی کہ پیغمبرخدا ﷺ نے فرمایا جو کوئی میرے اصحاب کو برا کہے۔ اس کو قتل کردو۔ لہٰذا ملزم کو اسی کے مذہبی فریضہ کی اجازت دی جائے اور ہم کو ہمارے مذہبی فریضہ کی۔ بات نہایت معقول تھی۔ مقبول احمد سے اس کا جواب نہ بن پڑا۔ اور عدالت نے اس بد لگام کو سزا دے دی۔ اس سزا کی اپیل دراپیل ہوتے ہوتے مقدمہ چیف کورٹ لکھنؤ میں پہنچا۔ لیکن سزا آخر تک بحال رہی۔ النجم نے کلکتہ کا یہ واقعہ بھی لکھا واجد علی شاہ والی اودھ لکھنؤ سے نظر بند ہوکر جب میٹا برج (کلکتہ) پہنچا تو واجد علی شاہ کے زیر اہتمام ایک کتاب چھپی جس میں حضرت سالار
انبیاء ﷺ کے دوستوں کے خلاف دشنام دہی کی غلاظت بکھیری تھی۔ان دنوں کلکتہ میں حمید اللہ خان نام ایک بڑے تاجر تھے۔ وہ اس کتاب کو لئے ہوئے وائیسرائے کے پاس چلے گئے اورکہا کہ ابھی تدارک کیجئے۔ ورنہ کلکتہ میں بڑا خون خرابہ ہوگا۔ وائیسرائے نے شاہ اودھ کو ایک چٹھی لکھی کہ جلد سے جلد مسلمانان کلکتہ سے معافی مانگو اوراس کتاب کوتلف کر دو اور آئندہ کے لئے احتیاط رکھو کہ اس قسم کی کوئی حرکت سرزد نہ ہو۔ چنانچہ واجد علی شاہ نے حمید اللہ خان کے نام ایک خط بزبان فارسی لکھا جس میں اپنی غریب الوطنی کا واسطہ دے کر بڑی عاجزی کے ساتھ مسلمانوں سے معافی مانگی اور یہ مصرعہ بھی لکھا: ع بزرگان مسافر بجان پرورند۔
ایران میں بھی تبرّاجرم ہے
النجم کا بیاں ہے کہ خود ایران جو تمام دنیا میں شیعیت کا مرکز مانا جاتا ہے۔ وہاں بھی صحابہ کرامؓ کی شان میں دریدہ دہنی کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ناصر الدین شاہ کے وزیر سلطنت نے ایران کے شاہی قانون پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ’’کتاب الآثار والمآثر‘‘ہے۔اس میں ایک خاص باب اس عنوان سے درج ہے ’’ منع شدید و نہیٔ اکیداز بابت خلفائے راشدین‘‘ اس باب میں بڑی سختی سے شیعوں کے مذہبی مراسم کو جرم قراردیا گیا ہے۔حتیٰ کہ نویں ربیع الاوّل کو امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت کو جو عیدان کے یہاں ہوتی ہے۔ اس کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔اس عید کا اور اس کے خرافات کا تذکرہ کر کے لکھا ہے کہ :بارے بادشاہ اسلام پناہ ایران این فعل جاہلانہ از قلمروخویش!
(النجم لکھنؤ جلد۱۰نبرا،بابت محرم ۱۳۵۱ھ ص۷،۸)
بانئی رفض کی عداوت اسلام
ابن عقیل نے یہ بہت صحیح کہا ہے کہ جس شخص نے رافضی مذہب کی بناء ڈالی۔ اس کا مطمع نظر اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ دین محمدی پر طعن کر کے اس سے (معاذ اللہ) لوگوں کو متنفر کردے۔ ظاہر ہے کہ ہم نے بذات خود حضرت خیرالوریٰ ﷺ کا جمال مبارک نہیں دیکھا اور آپؐ سے براہ راست علم دین کی تحصیل نہیں کی۔پس آپ کی تعلیمات حقہ کا سارا مدار صحابہ کرامؓ کی روایات پر اور زائرین طلعت مبارک سیدالاولین والآخرینﷺ کی جودت نظر پر ہے۔ لیکن رافضی مذہب کے بانی نے مسلمانوں کو یہ بتایا کہ جن لوگوں پر تم اعتماد کرتے ہو۔ انہوں نے پیغمبر علیہ السلام کے وصال کے بعد ایک تو امر خلافت میں اہل بیت نبوت سے بے انصافی کی۔ دوسرے حضورﷺ کی صاحبزادی کو میراث سے محروم رکھ کر اپنی بیدادگری کا ثبوت دیا۔ اوران
من گھڑت دعوئوں سے اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان لوگوں (صحابہ کرامؓ) نے جس ذات برتر کواس کے عین حیات نبی مانا تھا۔ اس سے فی الحقیقت کچھ حسن اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ مصلحتاً رفاقت اختیار کررکھی تھی۔ لیکن جب آپؐ کا وصال ہو چکا تو (معاذ اللہ) ان کا نفاق ظاہر ہوگیا۔ پس جبکہ بانی رفض نے اصحاب رسول اللہ ﷺ کو (معاذ اللہ) ظالم و حق ناشناس ٹھہرایا تو اس شرانگیزی سے اس کی حقیقی غرض یہ تھی کہ جو شریعت مطہرہ مسلمانوں کو صحابہ کرامؓ کے توسط سے پہنچی ہے۔ وہ کسی طرح شائستہ اعتماد نہیں ہے۔(تلبیس ابلیس عربی ص۷۹) غرض رافضی فرقہ کا بانی فی الحقیقت صحابہ کرامؓ سے عناد نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ دراصل خود اسلام کا ایک خطرناک دشمن تھا اوراس کی یہ خواہش تھی کہ اسلام کی جڑیں کھوکھلی کردے اور لوگ دین حنیفہ سے علاقہ توڑ کر کفر وزندیقہ کے آغوش میں چلے جائیں۔
بانئی رفض و شیعیت کی اغوا کوشیاں
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کرام کی بصیرت افروزی کے لئے رافضی فرقہ کے بانی وموسس عبداﷲ ابن سبا کے حالات وواقعات بھی مختصراً عرض کر دیئے جائیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ جب خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم کے عہد سعادت میں یہود و نصاریٰ،مجوس اور بت پرستوں کے بلادوامصارعنایت الٰہی سے صحابہ کرامؓ اوران کے تابعان عظام کے ہاتھ فتح ہوئے اور کفار نگونسار کو قتل۔ اسیری اور نہب و تاراج کی ذلت میں گرفتار ہونا پڑاتو یہ لوگ غیظ و غضب کے عالم میں ماردم بریدہ کی طرح پیچ و تاب کھاتے تھے۔ لیکن کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ حضرات شیخین یعنی امیرالمومنین ابوبکر صدیق اور امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے آوان سعید میں انہوں نے غلبہ حمیت اور شدت عصبیت کی وجہ سے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے اور لڑائیاں کیں۔لیکن چونکہ نصرت الٰہی ہر وقت ملت موحدین کی پشت پناہ تھی۔ ذلت و خسران کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ ناچار خلیفہ ثالث امیرالمومنین حضرت عثمانؓ کے ایام خلافت میں مکر وحیلہ کے اسلحہ سے مسلح ہونے لگے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں بعض اعدائے دین نے کلمہء اسلام پڑھ کر منافقانہ اسلام قبول کیا اور مارآستین بن کر مسلمانوں میں تفرقہ اندازی اور بغض کی آگ مشتعل کرنی شروع کی۔
اس فتنہ گر جماعت کا سرکردہ ایک نہایت عیار شخص عبداﷲ بن سبا نام یمن کا ایک یہودی تھا۔ اس کے سلسلہ تلبیس کی سب سے پہلی کڑی یہ تھی کہ خاندان نبوت اور دودمان مصطفوی (علیہ الصلوٰۃ والسلام) سے انتہائی محبت کا اظہار کیا اور اپنی ساری ہمت اس کوشش میں صرف کردی کہ لوگ اہل بیت اطہار سے محبت کریں اوران کی عون ونصرت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔
چونکہ یہ تحریک اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تھی۔ اس لئے کافہ اہل اسلام میں بہت مقبول ہوئی اورہر خاص وعام نے گمان کیا کہ جو کچھ کہ کہتا ہے خلوص اور خیرخواہی کی راہ سے کہتا ہے۔لیکن اہل حق کو معلوم نہ تھا کہ وہ اسلام کا نہایت خطرناک دشمن ہے اور مسلمانوں کے خلاف نہایت خوفناک جال بچھا رہا ہے۔ جب عبداﷲ بن سبا لوگوں کو اس دام فریب میں گرفتار کرچکا تو اب اس نے لوگوں سے یہ کہنا شروع کیا کہ جناب علی مرتضیٰ ؓ افضل البشر بعدالانبیاء ہیں۔ حضور سیدعالمﷺ کی جناب میں انہیں سب سے زیادہ تقرب حاصل تھا۔اب وہ ان احادیث کے ساتھ جو امیرالمومنین علی مرتضٰیؓ کی شان میں وارد ہیں اپنی طرف سے بہت سی موضوع و مخترع روایتیں شامل کر کے ان کو شہرت دینے لگا۔ اور جب دیکھا کہ اس کے دام افتادہ لوگ خلفائے ثلاثہ پر حضرت علیؓ کی افضلیت کے قائل ہو گئے تو اس نے اپنے احباب خاص کی ایک جماعت کو اپنے اس راز سربستہ کی تعلیم دینی شروع کی کہ جناب علی مرتضٰیؓ پیغمبر خداﷺ کے وصی تھے۔ آنحضرتؐ نے انہیں بنص صریح خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔ لیکن صحابہؓ نے غلبہ پا کر اور(معاذ اللہ) مکروحیلہ سے وصیت نبوی سے بے اعتنائی کی۔ خدا ورسول کی اطاعت سے منہ موڑ کر علی مرتضٰیؓ کا حق غصب کر لیا اور طمع دنیاوی سے مغلوب ہو کر دین سے برگشتہ ہوگئے۔اس کے ساتھ اس نے فدک کے متعلق اس گفتگو میں جو امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ اور سیدۃ النساء جناب فاطمہؓ میں ہوئی اورانجام کار صفائی اور حسن اسلوب سے طے ہوگئی تھی۔رنگ آمیزی شروع کی اوراپنے مخصوص احباب کو تاکید کر دی کہ اس راز کو فاش نہ ہونے دیں اورسمجھا دیا کہ اگر احیاناً لوگوں سے اس قسم کی گفتگو ہو تو میرا نام ہرگز ظاہر نہ کرنا۔ کیونکہ اس جدوجہد سے میری غرض محض اظہار حق ہے۔ نہ کہ نام و نمود۔
ابن سبا کا بصرہ سے اخراج
ابن سبا نے مدینہ منورہ میں اپنی حق فراموش جماعت تیار کرنے کے بعد دوسرے اسلامی بلاد میں جا کر فتنہ انگیزی اور فساد پروری کا قصد کیا۔ ۳۳ھ میں بصرہ پہنچا اور مسلمانوں کو را ہ حق سے منحرف کرنے کی جہدوجہد میں مصروف ہوا اور ان دنوں جناب عبداﷲ بن عامر امیرالمومنین عثمانؓ کی طرف سے بصرہ کے عامل تھے۔انہوں نے سبائی فتنہ انگیزی کے حالات سنے تو ابن سبا کو بلا بھیجا اور پوچھا کہ تم کون ہو؟۔کہنے لگا میں یہودی تھا۔ لیکن اب دین اسلام کو برحق یقین کرکے مسلمان ہو گیا ہوں۔ ابن عامر نے کہا میں نے تمہاری نسبت ایسی ایسی باتیں سنی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم بڑے مفسد اورعدوئے اسلام ہو۔ اس لئے مناسب ہے کہ میرے حدود عمل سے جلد نکل جاؤ۔ ورنہ میں تمہاری گردن ماردوںگا۔اب ابن سبا نے بصرہ سے کوفہ کا
عزم کیا۔ وہاںسے بھی اپنی مغویانہ سرگرمیوں کی وجہ سے نکالا گیا۔ کوفہ سے مصر کی راہ لی۔وہاں پہنچ کر اس نے ایک نیا مسئلہ یہ اختراع کیا کہ جناب مسیح(علیہ الصلوٰۃ السلام) کی طرح حضرت سروردوجہان علیہ التحیہ والسلام بھی دوبارہ تشریف لانے والے ہیں اور کہتا تھا کہ مجھے ان لوگوں کی عقل و فہم پر حیرت ہے۔جوعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کارجوع کرنے کو مانتے ہیں۔لیکن انہیں جناب محمد مصطفی ﷺ کی رجعت سے انکار ہے اورساتھ ہی یہ کہنا شروع کیا کہ ہرنبی کا ایک وصی ہوتا ہے اورمحمد ﷺ کے وصی علیؓ ا بن ابوطالب ہیں اوراس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیںجوعلیؓ ابن ابو طالب کو پیغمبر خدا کا وصی نہیں مانتا۔اس کے بعد یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ عثمان بن عفان ؓ نے (معاذ اللہ) بلا استحقاق خلافت رسول اللہ پر قبضہ جما رکھا ہے۔ دنیا میں بیوقوفوں اورشرارت پسندوں کی کمی نہیں۔ مصر میں بھی اس نے اوباش قسم کے لوگوں کو جمع کر کے ایک جماعت بنا لی۔ خلیفہ رسولﷺ کے خلاف نشریہ کرنے کے لئے مناد تیار کئے اوران کی مختلف دیاروامصار میں بھیجتے وقت ہدایت کی کہ جہاں جائو سب سے پہلے عامتہ الناس کا دل ہاتھ میں لینے کے لئے بظاہر امرمعروف ونہی منکر کا طریقہ اختیار کرو۔ اور جب عوام کی ہمدردی حاصل کر چکو تو امر معروف ونہی منکر کی آڑ میں حضرت عثمانؓ کے عمال کے خلاف بے پناہ پروپیگنڈا شروع کرو۔اسی کے ضمن میں خلیفہ ثالث کے خلاف بھی عام جذبہ منافرت پیداکرتے رہو۔ یہ مناد بصرہ، کوفہ، شام، مصر ہر جگہ پھیل گئے اور امر معروف ونہی منکر کی آڑ میں حکام کے خلاف منافرت پھیلانے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تمام بڑے بڑے شہروں کے باشندے ۳۵ھ میں اپنے اپنے عمال کی شکائتیں لے کر مدینہ منورہ پہنچے اوراہل مدینہ کے پاس اپنی نام نہاد مظلومی کے ٹسوے بہانے لگے۔یہ دیکھ کر امیرالمومنین حضرت عثمانؓ نے تفتیش حالات کے لئے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو بصرہ حضرت عماربن یاسرؓ کو مصر،حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کو شام اور حضرت محمد بن مسلمہ انصاریؓ کو کوفہ روانہ فرمایا۔یہ حضرات تحقیق حالات کے بعد مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے اورآ کر بتایا کہ تمام شکائتیں بے بنیاد اور جھوٹی تھیں۔ہماری تحقیق کی رو سے کوئی معاملہ ایسا پیش نہیں آیا۔ جو قابل اعتراض ٹھرسکے۔
(کتاب الخطط علامہ مقریزی جلد ۴ ص۱۴۶،۱۴۷)
امیرالمومنین علیؓ کی زبان مبارک سے حضرت شیخینؓ کی ثنا ومنقبت
قضائے کردگارسے امیرالمومنین عثمان ذولنورینؓ کے آخری دور خلافت میںمصر کی ایک شوریدہ سرجماعت نے امیر المومنین کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ ابن سبا نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کرآگ پر تیل ڈالنا شروع کیا۔ اور دوسرے دشمنان ملت کو بھی جو کوفہ اور نواح عراق
میں پھیلے ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ میں بلا لیا۔یہاں پہنچ کر انہوںنے فتنہ انگیزی کے وہ ہتھیار جنہیں صولت اسلام کی وجہ سے استعمال نہ کرسکتے تھے۔تیز کرنے شروع کئے اور خلیفہ برحق جناب عثمان ذوالنورینؓ کو جرعہ شہادت پلوا کردم لیا۔ جب امیر المومنین علی مرتضٰیؓ نے اورنگ خلافت کو زینت بخشی تو ان منافقوں نے اپنے تئیں علی مرتضٰی کرم اﷲوجہ کے محبین مخلصین کو جماعت میں لاکھڑا کیا اور اپنے آپ کو شیعان علی ؓ(گروہ علیؓ) کے نام سے ملقب کرنے لگے۔ اب ابن سبا نے اپنے خبث باطن کو بے کھٹکے ظاہر کرنا شروع کیا۔ یہ وہ وقت تھا جبکہ امیرالمومنین علیؓ نے کسی مصلحت سے اپنا دارالخلافہ مدینہ منورہ سے کوفہ کو منتقل کر لیا تھا۔ابن سبا کے وابستگان دامن بھی عسکر خلافت میں شامل ہو کر کوفہ پہنچ گئے۔ اورسبائی تعلیمات کا پروپیگنڈا شروع کردیا۔چند روز کے بعد خود ابن سبا بھی کوفہ پہنچ گیا۔یہاں اس نے سب سے پہلے اس مسئلہ کی تبلیغ شروع کی کہ صحابہؓ میں حضرت علی مرتضٰیؓ سب سے افضل ہیں۔جب ابن سبا نے دیکھا کہ کوفہ کے فوجی سپاہی مسئلہ کو سمع قبول سے سننے لگے ہیں تواس نے امیرالمومنین ابوبکر صدیقؓ وامیر المومنین عمر فاروقؓ رضی اللہ عنہما کیخلاف دریدہ دہنی کا شیوہ اختیار کیا اورحضرات شیخین رضی اللہ عنہما اوردوسرے اصحاب رسولﷺ کے خلاف جذبہ نفرت پھیلانے لگا۔ حضرت سوید بن غفلہؓ کا بیان ہے کہ میں نے کوفہ کے لشکر گاہ میں چند آدمی دیکھے جو حضرات شیخینؓ پر طعن و تشنیع کر رہے تھے۔حضرت علی ؓکی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا۔امیرالمومنینؓ! میں آپ کی فوج میں گیا تو چند آدمیوں کو دیکھا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے حق میں ایسی باتیں کہہ رہے تھے جو ان دونوں بزرگوں کے شایان شان نہیں اورعجب نہیں کہ ان کی یہ جسارت اس خیال پر مبنی ہے کہ آپ کے دل میں بھی شیخینؓ کی طرف سے کچھ غبار کدورت ہے۔ ورنہ کبھی ممکن نہ تھا کہ حضرات شخینؓ کی شان میں یوں علانیہ دریدہ دہنی کی جاتی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ ان حضرات کی طرف سے میرے دل میں کدورت کا کوئی ادنیٰ شائبہ ہو۔میرے باطن میں دونوں حضرات کا وہی جذبہ محبت موجودہے جو خود سرور عالم و عالمیان علیہ الصلوٰۃ والسلام کا موجزن ہے۔اس کے بعد فرمایا کہ خدا اس پر لعنت کرے جس کے دل میں ان حضرات کے متعلق حسن ظن کے سوا کوئی اور جذبہ مخفی ہو۔ یہ دونوں تو پیغمبر خدا ﷺ کے بھائی اور وزیر تھے۔خدا ان پر اپنی رحمت کا مینہ برسائے۔ (تلبیس ابلیس عربی ۸۰)اس کے بعد امیر المومنین علیؓ نے پیروان ابن سبا کی فتنہ انگیزیوں کے خلاف متعدد خطبے دیئے۔ اوراس جماعت کے خلاف ہر طرح سے نفرت و بیزاری کا اظہار فرمایا۔ باوجودیکہ آپ نے بعض فتنہ
انگیزوں کو جسمانی سزائیں دیں اور وقتاًفوقتاً مسلمانوں کی سبائی فتنہ سے دامن کش رہنے کی تاکید فرمائی۔تاہم یہ مفسد جماعت اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہی۔
ابن سبا کے پیرو زندہ آگ میںجلا دیئے گئے
جب ابن سبا نے دیکھا کہ ہزارہا لوگوں نے اس کی پیروی اختیارکی اور بہت سے مسلمان فاسد العقیدہ ہو چکے تو اب اس نے یہ کہہ کر فتنہ انگیزی شروع کی کہ جناب علی مرتضیٰ ؓ سے ایسے ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو مقدور بشری سے خارج ہیں اوربتایا کہ خوارق عادات،قلب اعیان، اخبارغیب، احیائے اموات، بیان حقائق الٰہیہ وکونیہ، محاسبات دقیقہ، جوابات حاضرہ، بلاغت عبارت، فصاحت الفاظ،زہد وتقویٰ،شجاعت مفرطہ وغیرہ امورآپ سے اس کثرت و تنوع سے صادر ہوتے ہیں کہ جن کا مبنیٰ انسان کے مبلغ فہم سے بالاتر ہے۔ اس کے بعد ایک مجلس خاص میں جناب علی مرتضیٰ ؓ کے مناقب میں بہت کچھ رنگ آمیزیاں کیں اور حفظ اسرار کی تاکید کرتے ہوئے اپنے دام افتادوں کو بتایا کہ یہ تمام باتیں جو آپ سے ظاہر ہوتی ہیں۔ آپ کی الوہیت کے خواص ہیں اور لاہوت ناہوت کے لباس میں جلوہ فرما ہیں۔ اس دن سے پیروان ابن سبا حضرت علی مرتضٰیؓ کو (معاذ اللہ) خدا کہنے لگے۔ جب امیر المومنین علی ؓ کو اس سبائی شرانگیزی کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ابن سبا اور اس کے پیرووں کی گرفتاری کا حکم دیا۔کچھ تو بھاگ گئے اور جو مل سکے ان کو آپ نے عبرت روزگار بننے کے لئے زندہ آگ میں جلادیا۔چنانچہ اسی معنی سے آپ نے فرمایا ہے:
لما رایت الامر امر منکراً
اححجت ناری و دعوت قنبراً
(کتاب الخطط جلد ۴ ص۱۸۲)
یہ حرمان نصیب کوفہ سے بھاگ کر مدائن پہنچے۔لیکن وہاں بھی اپنی مفسدہ پردازی سے باز نہ آئے۔ سبائی مناد آزربنجان اورعراق میں پھیل گئے۔چونکہ امیرالمومنین اس وقت مہمات خلافت کے علاوہ خوارج کی سرکوبی اورشامیوں کی لڑائی میں الجھے ہوئے تھے۔ اس بنا پر ان اشرار کی طرف توجہ نہ فرما سکے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ابن سبا کا مذہب ان علاقوں میں جڑ پکڑ گیا اور انجام کار اس نے شیعہ مذہب کے نام سے اپنے تئیں روشناس کرایا۔
لشکر مرتضوی کی چہارگانہ تقسیم
انجام کار امیر المومنین علیؓ کے لشکر سبائی تعلیمات کے ردوقبول کی وجہ سے چارفرقوں میں
تقسیم ہوگئے۔ اول شیعہ مخلصین یعنی اہل سنت و جماعت جو تمام اہل بیت اطہار اورصحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے محبت رکھتے اورازواج طاہرات سے خلوص عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کا آئینہ دل اکابر امت کے غبار کینہ سے بالکل پاک ہے۔ جناب امیرالمومنین علی مرتضیٰ ؓ کی روش پر قائم اور ان کے سچے پیرو ہیں۔ ان کا دامن سبائی خبث کی نجاست سے پاک رہا۔ جناب امیرالمومنین علیؓ نے اپنے خطبوں میں ان حضرات کی مدح و تحسین فرمائی اور ان کی روش کو پسند فرمایا۔ دوسرے شیعہ تفضیلیہ جو جناب علی مرتضٰیؓ کو تمام صحابہؓ پر تفضیل دیتے تھے۔ گو اس فرقہ نے ابن سبا کا اثر پوری طرح قبول نہ کیا۔ تاہم اس کی پیروی کر کے اہل حق کے زمرہ سے خارج ہوگئے۔ جناب علی مرتضیٰ ؓ نے ان کو ہمیشہ تنبیہ کی کہ اگرکسی شخص کی نسبت معلوم ہوگا کہ وہ مجھے شیخین(یعنی امیرالمومنین ابوبکر صدیق اور جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہما) سے افضل کہتا ہے تو میں اس افتراء کی حد اسی کوڑے لگائوں گا۔ تیسرا فرقہ شیعہ یعنی دشنام گو جنہیں تبرّائی بھی کہتے ہیں۔یہ بدنصیب فرقہ تمام صحابہؓ کو ظالم اور غاصب بلکہ کافر ومنافق یقین کرتا ہے اور اس نے تمام اکابر صحابہؓ کو اپنے ناپاک سہام طعن کا ہدف بنا رکھا ہے۔جب کبھی اس گروہ کے خیالات امیرالمومنینؓ کے سمع مبارک تک پہنچتے تو آپ خطبہ دیتے۔ ایسے ناپاک خیالات کی تشنیع فرماتے اوران لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتے۔ چوتھا فرقہ غلات شیعہ ہیں۔ یہی ابن سبا کے شاگرد رشید ہیں۔ یہ لوگ امیر المومنین علیؓ کی خدائی کے قائل ہیں۔ جب مخلصین شیعہ یعنی اہل سنت وجماعت نے ان لوگوں پر بدلائل وبراہین ثابت کر دیا کہ جناب علی مرتضیٰ ؓ میں بے شمار ایسے آثارودلائل موجود ہیں جو الوہیت کے منافی اورآپ کی بشریت کو مستلزم ہیں توبعض غلاۃ نے صریح الوہیت کے عقیدہ سے برگشتہ ہو کر یہ بے ہودہ خیال پیدا کر لیا کہ روح لاہوتی نے جناب علی مرتضیٰؓ کے بدن ناسوتی میں حلول کیا ہے۔
(تحفہ اثناء عشریہ ص۴،۷)
باب ۳۵ … اصفر بن ابوالحسین تغلبی
اصفر بن ابوالحسین تغلبی راس عین کا رہنے والا تھا۔ جو حران اورنصیبین کے درمیان ایک شہر ہے۔اس نے ۴۳۹ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور کہنا شروع کیا کہ کتابوں میں جس موعود کے آنے کی پیشین گوئی ہے۔ وہ میںہی ہوں۔ اس سے اس کی مراد غالباً مسیح موعود ہوگی۔ اصفر نے دعویٰ نبوت کے بعد طرح طرح کے شعبدے دکھا کر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا چاہا۔ بے شمار جہلاء اور تعلیم یافتہ لوگ اس کے حلقہ مریدین میں داخل ہوگئے۔جب جمعیت بڑھنے لگی تو دل میں ملک
گیری کا شوق سرسرایا اورحرب و ضرب کی تیاریوں میں مصروف ہوا۔ اصفر سے پہلے جتنے جھوٹے مدعی گذرے۔ وہ اپنی حربی قوت کو ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام ہی کے خلاف استعمال کرتے رہے۔ لیکن اصفر نے اپنے پیش رووں کا طریقہ چھوڑ کر اپنی سرگرمیوں کا رخ نصاریٰ کی طرف پھیر دیا۔ چنانچہ اس کا لشکر بڑے تزک واحتشام سے رومیوں کے مقابلہ میں روانہ ہوا۔روم کی سرحد پر بڑی گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ جس میں رومیوں کو شکست فاش ہوئی۔اصفر بے شمار مال غنیمت لے کر واپس آیا۔ اوراس کی عظمت کا جھنڈا بڑی شان وشوکت سے اڑنے لگا۔ کچھ عرصہ کے بعد اصفر نے نصاریٰ کے خلاف پھر علم عربدہ جوئی بلند کیا۔ اور رومیوں کو منہزم کرکے واپس آیا۔کچھ دن کے فصل سے پھر عنان عزیمت روم کی طرف موڑی اور رومیوں کو پامال کر کے اتنے مال غنیمت کے ساتھ مراجعت کی کہ جس کی کوئی حدو نہایت نہ تھی۔ ایک مرتبہ اس کی فوج اس کثرت سے رومی عورتوں کو قید کر لائی کہ اس کے لشکر میں بڑی بڑی حسین لڑکیاں تھوڑے تھوڑے پیسوں میں فروخت ہوئیں۔ جب شاہ روم نے دیکھا کہ اصفر ہر مرتبہ چپ چاپ روم پر آ چڑھتا ہے اوراس کے پیشتر کہ مدافعت کے لئے کوئی زبردست فوجی اجتماع عمل میں لایا جا سکے سرحدی شہروں کو تاخت وتاراج کر جاتا ہے تو اس نے نصر الدولہ بن مروان حاکم دیاربکر و سیافارقین کے پاس پیغام بھیجا کہ تم سے ہمارے مراسم اتحاد استوار تھے۔ لیکن اصفر نے تمہاری مملکت میں رہ کر کئی مرتبہ خونریزانہ اقدام کیا ہے اور جو جو ستیزہ کاریاں اور ظلم آرائیاں کی ہیں۔ وہ تم سے مخفی نہیں ہیں۔اگر تم پیمان مودت واتحاد سے دست بردار ہوچکے ہو تو ہمیں اس سے مطلع کردو۔ تا کہ ہم بھی اپنی صوابدید پر عمل کریں۔ ورنہ اس شخص کا کچھ تدارک کرو۔ جس وقت شاہ روم کا ایلچی نصرالدولہ کے پاس پہنچا تو اتفاق سے ٹھیک اسی وقت اصفر کا قاصد بھی ایک خط لے کر نصرالدولہ کے پاس آیا۔ جس میں رومیوں کے خلاف اس کے ترک غزا پر اعتراض کیا تھا۔ نصرالدولہ نے دیکھا کہ اگررومیوں کی شکایت کا کوئی مداوا نہ ہوا تو وہ اس کی مملکت پر چڑھ دوڑیںگے۔اس کے علاوہ ازراہ مآل اندیشی اس مسئلہ پر بھی غور کرنے لگا کہ اگر ابھی سے اصفری فتنہ کا سدباب نہ کیا گیا تو یہی شخص جوآج رومیوں کو پریشان کر رہا ہے۔ کل کو ہمارے گلے کا ہار بن جائے گا۔ یہ سوچ کر بن نمیر کے چند آدمیوں کو بلایا اور انعامات وافرہ سے ممنون احسان کر کے کہنے لگا کہ اصفر نے رومیوں کو ہمارے خلاف برانگیختہ کر دیا ہے اور ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ان سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ اس لئے جس طرح بن پڑے۔ اس کو جا کرٹھکانے لگا دویا زندہ گرفتارکر لاؤ۔ بنو نمیر کے جوان اصفرکے پاس جا کراس کے مریدوں میں داخل ہو گئے اور حاشیہ نشینی اختیار کر کے تھوڑی مدت میں غیر معمولی تقرب حاصل کرلیا۔ ایک
مرتبہ اصفر سوار ہو کر ان کے ساتھ ہو لیا۔ چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں بنو نمیر کے جوانوں کے سوا اس کے ساتھ کوئی اور شخص نہ تھا۔ انہوں نے موقع پر پا کر اس کو گرفتار کر لیا اورپابجولاں نصرالدولہ کے پاس لے آئے۔ نصر الدولہ نے اس کو زندان میں ڈال کر شاہ روم کو اس کی اطلاع دے دی۔(الکامل فی التاریخ ج ۸ ص ۲۷۹)اس کے بعد اس کا کچھ حال معلوم نہ ہوسکا۔قرینہ یہ ہے کہ حالت سجن میں اس سرائے فانی سے منقطع ہو کر دارآخرت کو چلا گیا ہوگا۔
باب ۳۶ … ابو عبداﷲ ابن شباس صیمری
۴۵۰ھ میں ایک شخص جسے ابوعبداﷲ ابن شباس کہتے تھے قصبہ صیمرہ میں ظاہر ہوا۔ جو ولایت بصرہ میں ہے۔ خدائی کا مدعی تھا۔اس کے اباطیل نے نہ صرف عوام کا لانعام کو خیرہ سر کر دیا۔بلکہ اچھے اچھے تعلیم یافتہ اورصحیح العقل انسان بھی ماؤف دماغ ہوگئے۔ خصوصاً اہل صیمرہ تواس کو (معاذ اللہ)خالق کردگار سمجھ کر اس کی پرستش کرتے تھے۔علامہ یاقوت حموی لکھتے ہیں میں نے کتاب ’’المبدء والمآل‘‘ میں ابن شباس کے حالات مفصل درج کئے ہیں۔(معجم البلدان یاقوت حموی جلد ۵ص۴۰۶) لیکن افسوس ہے کہ خاکسار راقم الحروف اس کتاب پر دسترس نہ پا سکا۔ غالباً یہ کتاب آج کل ناپید ہے۔ابن شباس کا باپ ابومحمد علی بن حسین بغدادی معروف بہ شباس ایک مشہور کبوتر بازتھا۔جس طرح ایسوسی ایڈ پریس آف انڈیا کے نمائندے ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں سے خبریں بھیجتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ابن شباس کے آدمی بھی تمام بڑے بڑے اسلامی شہروں میں موجود تھے۔ جو نامہ برکبوتروں کے ذریعہ سے اپنے اپنے شہر کے واقعات لکھ کر ابن شباس کے پاس بھیجتے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایسوسی اٹیڈ نمائندے صرف اہم خبریںبھیجتے ہیں۔ لیکن ابن شباس کے گماشتے بالکل غیر اہم امور کی بھی اطلاع دیا کرتے تھے۔مثلاً جب کوئی شخص ان کے پاس آیا تو انہوں نے جھٹ کاغذ کے ایک پرزہ پر اطلاع لکھ کر فلاں شخص مجھ سے ملنے آیا ہے کسی کبوتر کو اڑا دیا۔ ادھر صیمرہ میں یہ انتظام تھا کہ نامہ بر کبوتر اپنے شہر سے اڑ کر ابن شباس کے مکان کی چھت پرآبیٹھتے۔ شباس کا ایک خادم وہاں ہر وقت موجود رہتا۔وہ کبوتر کے پاؤں سے رقعہ کھولتا اور نیچے آ کر چپ چاپ ابن شباس کو دے جاتا۔اسی طرح سارادن کبوتروں کی ڈاک لگی رہتی تھی۔ اورابن شباس دعویٰ غیب دانی کے ساتھ دن بھر حاضرین کو بلاد و امصار کی خبریں سنایا کرتا اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اچانک پکاراٹھتا کہ فلاں شہر میں یہ حادثہ رونما ہوا۔فلاں فلاں مقام پر یہ واقعہ پیش آیا۔ چونکہ بعد کو یہ اطلاعیں ہمیشہ صحیح
ثابت ہوتی تھیں۔ اس لئے لوگ اس کو علام الغیوب اوررب العالمین یقین کرتے تھے۔ بسا اوقات ایسا ہوا کہ ابن شباس کے کسی نمائندے نے اس کے پاس اپنے شہر سے اطلاع بھیجی کہ فلاں فلاں افراد یا قبائل میں نزاع ہوگئی ہے۔ابن شباس متخاصمین کے نام ایک ایک چٹھی لکھ کر نامہ برکبوتر کے ذریعہ سے اپنے نمائندہ کے پاس بھیج دیتا۔ان چٹھیوں میں لکھا ہوتا تھا تم لوگ آپس میں مصالحت کرلو۔ ورنہ تم پر میرا صاعقہ عذاب نازل ہوگا۔ابن شباس کا نمائندہ یہ چٹھیاں متخاصمین کے پاس پہنچا دیتا۔وہ اپنے خانہ ساز خدا کا فرمان پڑھ کر مرعوب ہوجاتے۔ اور یہ خیال کرکے کہ اگر اپنے ’’خالق ورزاق‘‘ کا امتثال امر نہ کریں گے تو ہلاک و برباد ہو جائیں گے۔ آپس میں صفائی کر لیتے۔(کتاب الدعاۃ مطبوعہ مصر ص ۲۷،۲۸)مگر معلوم نہیں کہ کسی مسلمان حکمران کی شمشیر خاراشگاف نے اس کی خدائی کا خاتمہ کیا تھا یا نہیں؟۔
باب۳۷ … حسن بن صباح حمیری
۱… ابن صباح کے ابتدائی حالات
حسن بن صباح جو مہبط وحی ہونے اور خدا برتر سے احکام پانے کا مدعی تھا۔ایک ایسے خوفناک فرقہ کا بانی ہے کہ جس کی خفیہ سازشوں اور جانستانیوں کا تصور بدن پررونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ یہ شخص شہرطوس میں جو علاقہ خراسان میں ہے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ علی اسماعیلی مذہب کا پیرواورشہر رے میں بودوباش رکھتا تھا۔ جو عراق وعجم کا ایک شہر ہے۔علی کا سلسلہ نسب یہ ہے۔علی بن احمد بن جعفر بن حسن بن صباح حمیری۔چونکہ حسن کا مورث اعلیٰ صباح ایک مشہور آدمی ہو گزرا تھا۔اس نے حسن بن علی کہنے کی بجائے حسن بن صباح کہلانا پسند کیا۔حسن کا باپ علی بڑا شریر اورعیار آدمی تھا۔ان ایام میں رے کی حکومت ابو مسلم رازی کے ہاتھ میں تھی جو ایک نہایت سلیم الفطرت اور متدین حاکم تھا۔ چونکہ علی اپنے خبث باطن اور رفض و زندقہ میں بدنام تھا۔ابومسلم رازی کو جو فرقہء حقہ اہل سنت وجماعت کا پیرو تھا۔ اس سے نفرت تھی اور علی ہر وقت ابومسلم کے سامنے اپنے عقاید کی صفائی ظاہر کرتا اور جھوٹی قسمیں کھا کر اسے یہ باور کرانے کی کوشش کیا کرتا کہ میں ایک صحیح العقیدہ مسلمان ہوں اورمذہب حق اہل سنت وجماعت کا پیرو ہوں۔ ان ایام میں اہل سنت و جماعت کے ایک بڑے عالم امام موفق نیشا پور میں مسند درس و افاضہ پر متمکن تھے اور اطراف واکناف ملک کے لوگ ان کے حلقہ درس میں شریک ہو کر چشمہء علوم وفنون سے سیراب ہورہے تھے۔ علی نے اپنے رفض و الحاد کا الزام دورکرنے کے لئے اپنے بیٹے حسن کونیشا پور لے جا
کر امام موفق کے درس میں داخل کرا دیا۔حسن اس سے پیشتر کئی سال تک عبدالملک بن عطاش نام ایک اسماعیلی سے تحصیل علم کرتا رہا تھا۔ امام موفق کی تعلیم و تربیت میں خدائے برتر نے یہ خوبی رکھی تھی کہ ان کے شاگرد عموماً کسی نہ کسی درجہ پر پہنچ جایا کرتے تھے اور یہ بات عام طور پرمشہورتھی کہ امام موفق کا تلمذ جاہ و حشم کا ضامن ہے۔
کتب کا معاہدہ
خواجہ حسن طوسی(جوبعد کو سلجوقی سلطنت کا وزیراعظم ہو کر نظام الملک کے لقب سے ممتاز ہوا) اور حکیم عمر خیام نیشاپوری بھی حسن بن صباح کے ہم درس تھے۔ ان تینوں میں باہم الفت تھی۔ تینوں ایک ساتھ رہتے اور باہم مل کر سبق کی تکرارکیا کرتے تھے۔ ایک دن حسن بن صباح اپنے دوستوں سے کہنے لگا۔ یہ مشہور بات ہے کہ امام موفق کے شاگرد بڑے رتبہ پر پہنچتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ہم تینوں جاہ ودولت کے مرتبہ پر نہ پہنچیں تو ہم میں سے ایک نہ ایک ضرور پہنچے گا۔ اس لئے آپس میں عہد کریں کہ ہم میں سے حق تعالیٰ جس کو معزز وبامراد کرئے اور عزت وجاہ کے درجہ پر پہنچائے۔ وہ اپنے دونوں رفیقوں کو بھی اپنی دولت میں برابر کا شریک کرے اور کسی معاملہ میں اپنی ذات کو دوسروں پر ترجیح نہ دے۔ تینوں نے یہ معاہدہ بڑی گرمجوشی سے قبول کیا اور باہم عہد وپیمان ہو گئے۔ کچھ مدت کے بعد یہ رفقاء فارغ التحصیل ہو کر مدرسہ سے چلے گئے۔(دلبستان مذاہب ص ۲۸۶)حسن بن صباح اپنے باپ کے پاس رے پہنچا۔تھوڑے دن کے بعد ابومسلم کو معلوم ہوا کہ ابن صباح کے پاس مصر کے عبیدی فرمانرواؤں کے داعیوں کے ایک جماعت آئی تھی۔ ابومسلم نے ابن صباح کی گرفتاری کا حکم دیا۔پولیس نے بہتیری تلاش کی۔ لیکن اس کا کہیں سراغ نہ مل سکا۔ ابومسلم نے بطریق فراست فرمایا کہ یہ شخص عنقریب ضعفائے عوام کو گمراہ کرے گا۔ (الکامل فی التاریخ ج ۹ ص ۳۹)چنانچہ آگے چل کر قارئین کرام کو معلوم ہوگا کہ یہ پیشین گوئی کس طرح حرف بحرف پوری ہوئی۔ نیشا پور سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ہرشخص قسمت آزمائی کے میدان وسیع میں نکل کر سمند تدبیر پر سوار ہوا۔ خواجہ حسن بمقام مرو سلطان ملک شاہ کے دادا چغری بیگ سلجوقی کے دربار میں پہنچا اور رسائی حاصل کر کے ترقی کے زینے طے کرتے کرتے سلجوقیوں کا وزیراعظم ہوگیا۔ اس طرح دنیا کی ایک عظیم الشان سلطنت کی باگ ہاتھ میں رکھ کر نظام الملک طوسی کے معزز لقب سے دنیا میں چمکا۔
سلاطین آل سلجوق
چونکہ اکثر احباب تاریخ آل سلجوق سے نا آشنا ہیں۔ اس لئے یہاں مختصراً یہ بتا دینا
ضرور ہے کہ سلجوقیوں کا عہد حکومت مسلمانوں کے نہایت عروج واقبال کا زمانہ تھا ۔چنانچہ جب خلافت بغداد کا ڈھچر ڈھیلا پڑ گیا تودولت سلجوقیہ ہی خلافت بنی عباس کا نعم البدل ثابت ہوئی۔ خاندان مذکور سلجوق بن پکاک کی نسل سے تھا۔ سلجوق مسلمان ہونے سے پہلے خان ترکستان کے ہاں نوکرتھا۔ خدمت ترک کرکے بخارا چلا گیا۔ جہاں اس نے اوراس کی تمام آل واحفاد نے خلوص دل سے اسلام قبول کیا۔ اسلام کے حلقہ بگوش ہوتے ہی ان کندہ،ناتراش،وحشی اورغیرمہذب ترکوں کی کایا پلٹ گئی۔ گنوار عرصہ تہذیب شائستگی کے شہسوار بن گئے اور خانہ بدوشی مدنیت سے بدل گئی۔ لیکن جس طرح اسلام نے ان کو نعمت ایماں سے مستعد کر کے اور تہذیب و سلیقہ شعاری کے تخت پر بٹھا کر ان پر احسان کیا۔ اسی طرح خود اسلام کو بھی اپنے ان حدیث العہد پیروؤں کے وجود سے بڑا فائدہ پہنچا۔خدائے قدوس اپنے دین کا خود حافظ وناصرہے۔توحید ورسالت کا اقرار کرنے کے بعد ہی اس ذات بے ہمتا نے ان نومسلم ترکوں کووہ قوت وسطوت عطا کی کہ انہوں نے اسلام کی کشتی کو جو تباہی کے ساحل پر پہنچ رہی تھی۔غرق ہونے سے بچا لیا۔ آل سلجوق برق وباد کی سی تیزی کے ساتھ بڑھے اور ایران،الجزیرہ،شام اورایشیا کوچک پر چھا گئے۔ جس ملک نے ان کی مزاحمت کی اسے تاراج کر ڈالا اورجس سلطنت سے مڈبھیڑ ہوئی اسے بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔اس سیل فتوحات کا یہ نتیجہ ہوا کہ اسلامی ایشیا جہاں خلافت آل عباس کی کمزوری کے باعث ایک قسم کی طوائف الملوکی پھیل گئی تھی۔ افغانستان کی مغربی سرحد سے لے کر بحیرہ روم تک ازسرنوواحد بادشاہ کے قبضہ اقتدارمیں آگیا۔جو اجزائے سلطنت بکھر گئے تھے۔ وہ ایک مرتبہ پھر ایک رشتہ میں منسلک ہو گئے۔انہی ترک جنگجوؤں نے یورپ کی پیش قدمی کو روکا اورصلیبی مجاہدوں کی ہزیمتوں اور ناکامیوں کا باعث بھی بہ نسبت کسی اورسلطنت کے زیادہ تر یہی پرجوش نو مسلم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سلاجقہ کو تاریخ اسلام میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ طغرل بیگ محمد اور چغرا بیگ داود دونوں سلجوق کے پوتے تھے۔ چونکہ دونوں بھائیوں میں بیحد محبت تھی اور دونوں کامل اتحاد کے ساتھ مہام سلطنت کو سرانجام دیتے تھے۔ اس لئے دونوں کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ لیکن اخیر دور حکومت انتظاماً چغر بیگ نے مرد (ترکستان) کو اور طغرل بیگ نے نیشاپور (خراسان) کو اپنا دارالسلطنت قراردیا۔جن حضرات کو تاریخ آل عباس پر عبور ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جب ۴۵۰ھ میں بسا سیری نے بغداد پر حملہ کر کے خلیفہ قائم بامراﷲ کو قید کر لیا تھا تو خلیفہ نے طغرل بیگ سلجوقی سے مدد مانگی تھی۔ طغرل بیگ نے بسامیری پریورش کر کے اس کو شکست دی۔ خلیفہ کو قید محن سے چھڑایا اور بسامیری کا سر کاٹ کر خلیفہ کے پاس بغداد بھیج دیا۔ اس واقعہ کے
چارسال بعد خلیفہ قائم نے اپنی بیٹی کی شادی طغرل بیگ سے کردی۔ حالانکہ اس سے پیشتر کبھی ایسا نہ ہواتھا۔کوئی عباسیہ کسی غیر سے بیاہی گئی ہو۔حتیٰ کہ بنی بویہ کو بھی اس کی آرزو ہی رہی۔ مگر ان کی آرزو کبھی پوری نہ ہوسکی۔
طغرل بیگ۔الپ ارسلان اورملک شاہ میں سے ہر ایک بذات واحد اپنی وسیع سلطنت پر مدت تک حکمران رہے۔ لیکن ملک شاہ کے انتقال پر اس کے دو بیٹوں محمد اور برکیارق میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلجوقیوں کی متعدد شاخوں نے اس وسیع وعریض سلطنت کے مختلف حصوں میں علیحدہ علیحدہ خودمختار حکومتیں قائم کر لیں۔ چنانچہ نیشا پور اور مرو کے علاوہ اس خاندان کے گیارہ بادشاہ کرمان میں،چارتاجدار شام میں،نو فرمانروا عراق وکردستان میں اورانیس ملوک ایشیا کوچک میں ۷۰۰ھ تک نہایت شان وشوکت سے حکمرانی کرتے رہے ۔ یہاںتک کہ فضائے روم میںترکان آل عثمان کا پر غرور جھنڈا لہرایا اور سلجوقی اقبال کے نقش مٹ کرحکومت کے بعض حصے عثمانی علم اقبال میں آگئے۔
حکیم عمر خیام
حکیم عمر خیام نیشاپوری جو ایران کا ایک نامور مہندس،ایک زبردست فلسفی اورنہایت بلند پایہ فلسفی شاعر اورمؤرخ گذرا ہے اور جس کی مقبول عالم فارسی رباعیات یورپ کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔قوم کا جولاہا تھا اورجامہ بافی اس کا خاندانی پیشہ تھا۔ چنانچہ خاقانی نے جو حکیم عمر خیام کا برادرزادہ ہے۔ اس بات کی تصریح کی ہے کہ ہمارے آبا واجداد نورباف تھے۔لیکن بعض روایتیں اسبات پر دلالت کرتی ہیں کہ حکیم عمر کے باپ عثمان نے بافندگی کا پیشہ ترک کرکے خیمہ دوزی اختیارکرلی تھی۔ اس وجہ سے جووہ خیام مشہورہوگیا اورگو حکیم عمر کو جودت طبع اور جوہر خداداد نے اسے ایک دن بھی جامہ بافی یا خیمہ دوزی میں مشغول ہونے کی اجازت نہیں دی۔ تاہم اس نے اپنے باپ کے حرفہ کا لحاظ کرتے ہوئے اپنا تخلص خیام یعنی خیمہ دوز رکھ لیا تھا۔
نظام الملک وزیراعظم
معاہدہ طفلی کے کوئی بیس بائیس برس بعد خواجہ نظام الملک طوسی سلطان الپ ارسلان سلجوقی کا مستقل وزیراعظم ہوگیا۔ جب اس کی وزارت کا شہرہ ایران میں پھیلا تو اس کے رفقاء اور ملاقاتی اکناف ملک سے اس کے پاس آنے لگے۔حکیم عمر اس وقت تک بیکارگھر میں پڑا تھا۔اسے نظام الملک سے عہد طفولیت کا عہدوپیمان یاد آیا۔چنانچہ وہ بھی نظام الملک کی ملاقات کے لئے
مرو پہنچا۔ خواجہ نظام الملک اسے بڑے تپاک سے ملااور دل میں ایفائے عہد کا پختہ ارادہ کرلیا۔آخر ایک موقع پر حکیم سے کہا کہ آپ صاحب فضل وکمال ہیں۔ اس لئے آپ کو بھی سلطان کی ملازمت اختیار کرنی چاہئے۔ کیونکہ امام موفق کے درسگاہ میں ہمارا جو معاہدہ ہوا تھا۔ اس کے رو سے میرے منصب میں تمہیں بھی پیہم و شریک کار ہونا چاہیے۔ میں تمہارا فضل ودرایت اس طرح بادشاہ کے ذہن نشین کردوںگا کہ آپ بھی میری طرح رکن سلطنت اوربادشاہ کے معتمد علیہ ہو جائیں گے۔اس کے جواب میں حکیم نے کہا کہ آپ نے جو کچھ فرمایا۔ وہ آپ کی کریم النفسی اور بلندی فطرت پر دلالت کرتا ہے۔ ورنہ یہ خاکسار اس اعزاز واکرام کا کہاں اہل ہے۔ جو وزیراعظم کے طرف سے عمل میںآیا؟۔ میںآپ کے احسانات سے گراںبار ہورہا ہوں اور اگران کا شکریہ ادا کرنا چاہوں تو اس سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔لیکن جس منصب جلیل کے لئے ارشاد ہوا وہ خاکسار کے مناسب حال نہیں ہے۔ ہاں! آپ کی عنایت والتفات سے یہ چاہتا ہوں کہ گوشہء عزلت میں بیٹھ کر علمی تحقیقات میں مشغول رہوں اورآپ کی ترقی عمرودولت کے لئے دست بدعا رہوں۔ نظام الملک نے اس یقین کے بعد کہ حکیم جو کچھ کہہ رہا ہے تکلف و تصنع سے پاک ہے۔ اس کے لئے خزانہ عامرہ سے بارہ سو مثقال سونا(جس کی قیمت آج کل کے حساب سے قریباً سولہ ہزار روپیہ ہوتی ہے) سالانہ وظیفہ مقررکردیا اورحکیم نیشاپور کو رخصت ہوا۔
جب حکیم عمر خیام اپنے رفیق مکتب کی فیاضی کی بادولت فکر معاش سے مطمئن ہوگیا تو وطن مالوف پہنچ کر علمی تحقیقات میں مصروف ہوا اورچند سال کی محنت شاقہ کے بعد جبرومقابلہ میں ایک بے مثال کتاب تصنیف کی اور اظہار عقیدت و شکریہ کے لئے اس کتاب کو خواجہ نظام الملک کے نام نامی سے معنون کیا۔ اس کے کچھ مدت بعد ایک اورکتاب علم المساحۃ والمکعبات میں اور پھر اقلیدس کے بعض نہایت متہم بالشان مسائل کے حل میں ایک بے بہا تصنیف زیب رقم کی۔ان مصنفات نے حکیم کو سارے ایران کی آنکھ کا تارا بنا دیا اوراب سے وہ خراسان میں بوعلی سینا کا ہمسر سمجھا جانے لگا۔خواجہ نظام الملک عمر خیام کے علمی مصنفات کا مطالعہ کرکے نہایت محظوظ ہوا اورایک موقع پربسبیل تذکرہ سلطان ملک شاہ سے خیام کے علم وفضل کا تذکرہ کیا۔ ملک شاہ ارباب علم اوراہل نظر کا قدردان تھا۔ خواجہ کو حکم دیا کہ خیام نیشاپور سے طلب کیا جائے۔ چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی اوردارالسلطنت میں حکیم کواصلاح تقویم کا دفتر سپرد کیا گیا۔ اس نامور مہندس نے تقویم میں جو اصلاحیں کیں اورنیزاس کے ذاتی حالات چونکہ موضوع کتاب سے خارج ہیں۔ اس لئے انہیں قلم انداز کیا جاتا ہے۔
حسن بن صباح اور نظام الملک
جب حسن صباح مدرسہ میںہم مکتبوں سے عہدوپیمان کر کے باہر نکلا تو کچھ مدت تک معاش کی خاطر ملک کے مختلف مقامات میں غریب الوطنی کی خاک چھانتا پھرا۔ مگر کسی جگہ کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا اور نہ کوئی ایسا مشغلہ سمجھ میں آیا جو اس کی اولوالعزمی کا کفیل ہو۔آخر سخت حرمان ویاس کے عالم میں اپنے ہم مکتب نظام الملک کی نسبت سنا کہ وہ خلعت وزارت سے آراستہ ہو کر سلجوقیوں کے سیاہ وسپید کا مالک ہورہا ہے۔ فوراً وہاں پہنچ کر قسمت آزمائی کی ٹھان لی۔ چنانچہ حسن بن صباح خواجہ کے پاس ۴۶۵ھ میں نیشاپورآیا۔ نظام الملک نے اس کی خاطرومدارات میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہ کیا اوربساط میزبانی کو اتنی بلندی پر جا بچھایا کہ اس سے رفیع متصور نہ تھا۔ایک دن حسن بن صباح خواجہ سے کہنے لگا کہ آپ اصحاب یقین اور ارباب تحقیق میں سے ہیں اورخوب جانتے کہ دنیا ایک متاع قلیل ہے۔اس لئے مجھے خوف ہے کہ آپ حظوظہ فانیہ کے جال میں پھنس کر وعدہ خلافی پر نہ اتر آئیں اور ’’ینقضون عھد اﷲ‘‘ کے مرتکب نہ ہوں۔ نظام الملک نے کہا حاشا و کلا میں نقض عہد نہ کروں گا۔ نہ صرف جاہ ومنصب بلکہ میرے تمام املاک میں بھی تم برابر کے حصہ دارہو۔غرض نظام الملک نے اس کی بادشاہ سے ملاقات کرائی اور اس کی عقل ودانش اور فضل و کمال کی تعریفیں کر کے اسے سلطان ملک شاہ کا معتمد خاص مقرر کرادیا۔ نظام الملک کی نیک نفسی دیکھو کہ اس نے اپنے عہد کا کس قدرپاس کیا اور عہد بھی ایسا جو مذاق کے طور پر عالم طفلی میں ہم مکتبوں میں ہوگیا تھا ۔جبکہ انسان پر کوئی تکلیف اور ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ نظام الملک نے جو عہد ابن صباح کو دلایا۔ وہ اختیارواعتبار میں وزارت سے کم نہ تھا۔ لیکن حسن تو ایسے اختیارات چاہتا تھا۔جن میں کسی دوسرے کی شرکت نہ ہو۔ اس لئے اس بات کی تمنا ہوئی کہ خواجہ الملک اسے کسی طرح اپنی وزارت میں شریک کرے۔ تا کہ موقع پا کر خود بلا شرکت غیرے وزیراعظم بن جائے۔ لہٰذا یہ بدسرشت محسن کشی پر اتر آیا اور ہر وقت اسی ادھیڑ بن میں مصروف رہنے لگا کہ کسی طرح نظام الملک کو سلطان کی نظروں سے گرا کر خود اوج حشم پر پہنچ جائے۔
حساب باربرداری
ایک مرتبہ سلطان حلب گیا۔ وہاں ایک قسم کا سنگ رخام پیدا ہوتا تھا جس کے برتن بنائے جاتے تھے۔ سلطان نے حکم دیاکہ پانسو من سنگ رخام اصفہان پہنچایا جائے۔ حلب کے افسر نقل وحمل نے دو عربوں سے جو اونٹوں کے ساتھ اصفہان جا رہے تھے۔ کہا کہ پانسو من سنگ رخام اصفہان لے جاؤ۔ان میں سے ایک کے چھ اور دوسرے کے چاراونٹ تھے۔ انہوں نے
پانسو من پتھر باہم تقسیم کر لیا۔(وہاں کا من چالیس تولہ آٹھ ماشہ کا ہوتا ہے) لیکن ان دونوں پر پہلے بھی پان پانسو من اسباب لدا تھا۔ جب پتھر اصفہان آگیا تو سلطان نے اس بات پر خوش ہوکر کہ اونٹ والے بہت جلد پتھر لے آئے۔ انہیں ایک ہزار دینار انعام دیئے۔انہوں نے نظام الملک سے درخواست کی کہ وہ دونوں میں انعام تقسیم کر دے۔چنانچہ نظام الملک نے چھ اونٹ والے کو چھ سو اور چار والے کو چارسو دینار دے دیئے۔ جب ابن صباح کو اس تقسیم کی اطلاع ہوئی تو کہنے لگا کہ نظام الملک نے تقسیم انعام میں سخت غلطی کی ہے۔ چھ اونٹ والے پر ظلم ہوا ہے ۔ کیونکہ اسے آٹھ سو اور چار اونٹ والے کو دو سو دینا ر ملنا چاہیے تھا۔۔رفتہ رفتہ یہ خبر سلطان تک پہنچی۔ اس نے نظام الملک کو طلب کیا اور اسے دیکھ کر مسکرایا۔ اور ابن صباح سے کہا کہ تقسیم انعام کی توجیہہ کرو۔ ابن صباح نے کہا کہ جہاں پناہ کل اونٹ دس ہیں اور کل وزن پندرہ سو من ہے۔ اس لئے ڈیڑھ سو من وزن ہر او نٹ کے حصہ میں آیا۔ اب جس کے چھ اونٹ ہیں وہ نو سو من لایاجس میں سے پانچ سو من اس کا اپنا اور سو من سرکاری ہے۔ اور ہزار دینار پانسو من کے لئے دیا گیا ہے۔ پس دو سو دینار فی سومن کا صلہ ہوا۔ اس حساب سے چھ اونٹ والے کو آٹھ سو دینار اور چار والے کو دوسو دینار ملنا چاہیے۔سلطان کے دل میں نظام الملک کی بڑی وقعت تھی اور نہ چاہتا تھا کہ وہ ملول اور کبیدہ خاطر ہو۔ اس لئے سلطان نے اس بات کو مذاق میں اڑا دیا۔ لیکن نظام الملک سمجھ گیا کہ ابن صباح کی اس فتح نے سلطان کے دل پر کیا اثر ڈالاہے؟۔
دربار بادشاہی سے اخراج
ایک مرتبہ ابن صباح ارکان سلطنت کے درمیان بیٹھا ہوا مختلف امور پر مبادلہ خیالات کر رہا تھا۔ اس دوران میں کہنے لگا کہ حضرت سلطان المعظم بیس سال سے حکمران ہیں۔ انہیں چاہیے کہ ممالک محروسہ کے جمع و خرچ سے بھی واقف ہوں۔ یہ آواز شدہ شدہ سلطان ملک شاہ کے کان تک پہنچی۔اس بنا پر سلطان نے ایک دن نظام الملک سے پوچھا کہ ایک ایسا مکمل چٹھا کتنے دن میں تیار ہوسکتا ہے۔ جس سے تمام سلطنت کے بست سالہ محاصل و مخارج کی تفصیل معلوم ہوسکے؟۔ نظام الملک کہنے لگا۔خداوند نعمت! حضور کی سلطنت کاشغر سے لے کر روم اور مصر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر میں بڑی کوشش کروں تو دوسال میں مرتب کر سکتا ہوں۔حسن بن صباح حصول تفوق کا یہ موقع غنیمت جان کر کہنے لگا کہ جہاں پناہ میں ایسی فہرست صرف چالیس روز میں پیش کر سکتا ہوں۔ بشرطیکہ دفتر وزارت اور اس کا تمام عملہ میرے سپرد کر دیا جائے۔ ملک شاہ کو تعجب ہوا اور نظام الملک جس نے اس مارآستین کو خود اپنے آغوش عاطفت میں پالا تھا۔ ابن صباح کی
اس مکرر محسن کشی اور غداری پر خون جگر کھاتے ہوئے خاموش رہ گیا اور سلطان نے امتحاناً یہ خدمت ابن صباح کے سپرد کردی۔ چالیس دن کے بعد حسن تمام مسودات لے کر حاضر دربارہوا۔ نظام الملک بیچارہ اسوقت عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔وہ ایک کونے میں سہما ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ اگر یہ چٹھا پسند آ گیا تو میں عہدہ وزارت سے معزول کر دیا جاؤں گا۔ملک شاہ نے مسودات کی ورق گردانی کر کے بعض جزئیات کے متعلق حسن سے سوالات کرنے شروع کئے۔ اور ایسی ایسی موشگافیاں کیں کہ ابن صباح ان کا بالکل جواب نہ دے سکا اور مضطربانہ بادشاہ کے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔ خواجہ نظام الملک موقع کو غنیمت سمجھ کر آگے بڑھا اور عرض کیا۔ خداوند عالم انہی مشکلات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس خاکسار نے دو سال کی مدت مانگی تھی۔ اتنی بڑی وسیع وعریض شہنشاہی کا جمع و خرچ چالیس دن میں صحت کے ساتھ کیونکر مرتب ہو سکتا ہے؟۔ ملک شاہ جو پہلے بھی ابن صباح کے خلاف متعدہ شکائتیں سن چکا تھا اور اس سے متنفر سا ہورہا تھا۔ سخت برہم ہوا اور ارادہ کیا کہ اسے زندان کے عبرت گاہ میں بھیج کر اس کی ناہنجاریوں کی قرار واقعہ سزا دے۔ مگر نظام الملک کی سفارش سے اتنے ہی پر اکتفا کیا کہ سخت بے آبروئی کے ساتھ دربار سے نکلوا دیا۔ لیکن سلطان نہیں جانتا تھا کہ یہی شخص آگے چل کر ااس کے حق میں کس قدر خوفناک دشمن ثابت ہوگا۔ ورنہ اسے مطلق العنان نہ چھوڑ دیتا۔
’’دستورالوزراء‘‘ میں خواجہ نظام الملک نے خود لکھا ہے کہ حسن بن صباح نے حقیقت میں بڑا کمال کیا تھا کہ اتنی قلیل مدت میں تمام ممالک محروسہ کا حساب آمد و خرچ مرتب کرلیا۔ مگر چونکہ اس نے ازراہ حسد و نقض عہد یہ سب کاروائی کی تھی۔ اس لئے خدا کے فضل و کرم سے بادشاہ کے سامنے اسے خجلت اٹھانی پڑی اور اگر وہ خدانخواستہ ملک شاہ کو مطمئن اور شادروح کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو مجھے وزارت سے یقینا سبکدوش کردیا جاتا۔لیکن دلبستان مذاہب میں لکھا ہے کہ خواجہ نظام الملک نے کسی ترکیب سے حسن بن صباح کے یہاں سے کاغذات منگا کر اوراق کو بے ترتیب کر دیا تھا۔ اور صاحب تذکرہ دولت شاہی کا بیان ہے کہ نظام الملک کے رکابدار نے حسن بن صباح کے نوکر کو گانٹھ کر حساب کے اوراق منتشر کرا دیئے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ابن صباح سلطان کے کسی سوال کا صحیح جواب نہ دے سکا۔
ابن صباح مصر میں
حسن ابن صباح کا سلجوقی دربار سے ذلت آمیز اخراج گو اس کے لئے نہایت ہمت شکن تھا۔ لیکن حقیقت میں یہی واقعہ اس کی آئندہ کامیابیوں کا پیش خیمہ تھا۔ ہر چند کہ ابن صباح
کی رقیبانہ حوصلہ مندیوں نے اسے نظام الملک کے مقابلہ میں سخت ذلیل کیا۔ لیکن اس واقعہ نے اس کو نظام الملک اور دولت سلجوقیہ کا دشمن بنا دیا۔ دربار سے نکل کر وہ اصفہان پہنچا اور سلطان ملک شاہ اور نظام الملک کے خوف سے اپنے دوست ابوالفضل اصفہانی کے مکان پر پناہ گزین ہوا۔ ابوالفضل نے میزبانی کا حق ادا کیا اور اس کی دل جوئی اور مدارات میں حتی الامکان کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ایک مرتبہ دوران گفتگو میں ابن صباح ابوالفضل سے کہنے لگا اگر مجھے دو موافق دوست مل جائیں تو ابھی اس ترک (ملک شاہ) کی سلطنت اور اس کے وزیر کی وزارت کا خاتمہ کردوں۔ ابوالفضل سمجھا کہ میرے دوست کو سفر کو صعوبتیں اٹھاتے کسی قدر مالیخولیا ہوگیا ہے۔ دستر خوان پر ایسی غیر معمولی چرب غذائیں لانے کا حکم دیا کہ جن سے دل و دماغ کو تقویت پہنچے۔ ابن صباح اپنے دوست کا مطلب تاڑ گیا اور اصفہان سے چلتا بنا۔(دلبستان مذاہب۲۸۶،۲۸۸ سنین اسلام ص۱۰۴،۱۰۸)حسن اصفہان سے نکل کر عازم رے ہوا۔ رے پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ اسماعیلی مذہب کا داعی الکبیر یہیں رہتا ہے جو اسماعیلی مذہب کی تبلیغ واشاعت کے لئے مبلغ نوکر رکھتا اور اطراف واکناف ملک میں بھیجتا ہے۔ داعی الکبیر سے مل کر درخواست کی کہ مجھے تبلیغ کی خدمت مفوض فرمائی جائے۔ داعی الکبیر نے اسے ذی استعداد دیکھ کر اس خدمت پر مامور کر دیا۔ کچھ مدت کے بعد داعی الکبیر نے اس کو مصر بھیجا۔وہاں ان دنوں عبیدیوں کی سلطنت تھی۔جو بظاہر اسماعیلی اور درپردہ باطنی تھے۔ حسن کی وہاں بہت قدرومنزلت ہوئی۔
مصر سے اخراج
لیکن کچھ دنوں کے بعد وہاں ایک سازش میں ملوث پایا گیا۔ اس بنا پر امیر الجیوش نے اس کو قلعہ دمیاط میں قید کر دیا۔ اتفاق سے اسی دن قلعہ کا ایک نہایت مضبوط برج گر پڑا۔لوگوں نے اس کو حسن کے باطنی تصرف پر محمول کیا۔یہ دیکھ کر امیرالجیوش برافروختہ ہوا اور اس کو قلعہ سے نکال کر چند عیسائیوں کے ہمراہ ایک جہاز پر بٹھلایا اور افریقہ کی طرف خارج کر دیا ۔اتفاق سے سمندر میں طوفان آگیا۔ تمام مسافر عالم سراسیمگی میں موت کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن حسن کے چہرہ پر خوف وہراس کا کوئی اثر نہ تھا۔جہاز کپتان نے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے کہ اور مسافرتو طوفان کی دہشت انگیزیوں سے بے اوسان ہو رہے ہیں۔ تم بالکل مطمئن بیٹھے ہو؟۔ حسن نے جواب دیا کہ مجھے خدا نے اطلاع دی ہے کہ جہاز اور اس کے مکینوں کو کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔تھوڑی دیر میں واقعی سمندر پرسکون ہوا اور طوفان جاتا رہا ۔لوگ حسن کے بڑے گرویدہ ہوئے۔ کپتان بھی بڑا معتقد ہوگیا۔ اور حسن کی خواہش کے بموجب افریقہ لے جانے کے بجائے اسے ساحل شام پر ہی
اتار دیا۔حسن نے فی الحقیقت یہ سوچ کر پیشین گوئی کر دی تھی کہ اگر جہاز غرق ہوگیا تو پھر یہ اعتراض کرنے والا کوئی نہ رہے گا کہ تمہاری پیشین گوئی جھوٹی نکلی اور اگر اتفاق سے سچی ہوگئی تو اپنے تعلق باﷲ کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ جہاز سے اتر کر وہ حلب ،بغداد، خوزستان ہوتا ہوا اصفہان پہنچا اور ان تمام بلاد وامصار میں اسماعیلی مذہب کی دعوت دیتا رہا۔
شاہ ور او ربعض دوسرے قلعوں پر باطنیوں کا قبضہ
اس اثناء میں حسن بن صباح کا استاد زادہ اور بعض دوسرے باطنی چند مضبوط قلعوں پر قابض ہوگئے۔ یہ لوگ سب سے پہلے جس قلعہ پر متصرف ہوئے وہ فارس کے قریب تھا۔جب یہاں ان کی جمعیت بڑھنے لگی تو انہوںنے قافلوں کو لوٹنا شروع کیا۔ چند ہی روز میں ان کی چیرہ دستیاں ان اطراف میں عام ہو گئیں۔ پھر باطنیوں نے قلعہ اصفہان کو دبا لیا۔اس قلعہ کوشاہ ور کہتے تھے۔اسے سلطان ملک شاہ نے تعمیر کروایا تھا۔احمد بن عطاش باطنی نے حاکم قلعہ سے جو سلطان ملک شاہ کی طرف سے وہاں متعین تھا۔ غیرمعمولی راہ ورسم پیدا کی اور اسی کے پاس قلعہ میں رہنے لگا۔ احمد کا باپ عبدالملک بن عطاش ابن صباح کا استاد اور فرقہ باطنیہ کا پیشوا تھا۔ باطنیہ کے دل میں احمد کی اس کے باپ کی وجہ سے بڑی عزت تھی۔یہاں تک کہ انہوں نے بہت سارا روپیہ جمع کرکے اس کی نذر کیا تھا۔ اور نہایت گرمجوشی سے اسے اپنا مقتداء بنایا تھا ۔احمد کی نمایاں خدمات کی وجہ سے والئی قلعہ کی آنکھوں میں اس قدر عزیز و محترم ہوا کہ اس نے اس کو تمام سیاہ و سپید کا مالک بنا دیا۔ جب حاکم قلعہ کا انتقال ہوا تو احمد بن عطاش قلعہ شاہ ور کاوالی ہوگیا۔ اس نے وہاں عمل ودخل کرتے ہی اپنے تمام ہم مذہب جنہیں حکومت نے اس جگہ قید کر رکھا تھا رہا کر دئیے۔ان لوگوں کی آزادی کے بعد ملک کا امن و امان مفقود ہوگیا ۔قافلے دن دیہاڑے لٹنے لگے۔
۲…ابن صباح کی سیاسی سرگرمیاں
قلعہ الموت
حسن بن صباح نے اصفہان آنے کے بعد اپنے چند مناد اس غرض سے قلعہ الموت کی طرف بھیج دیئے تھے کہ اس کے گردونواح میں اسماعیلی مذہب کا نشریہ کریں۔ قلعہ الموت (بروزن جبروت) شہر قزوین اور دریائے خزر کے مابین واقعہ ہے اور یہ علاقہ طالقان کے نام سے مشہور ہے۔ الموت کی وجہ تسمیہ کے متعلق یہ روایت مشہور ہے کہ دیلمی سلاطین میں سے کسی نے شکار کے لئے عقاب اڑا دیا تھا۔ عقاب شکار مار کر بہت بڑی بلندی پر جاگرا۔جب بادشاہ اور اس کے
مصاحب شکار کے تعاقب میں اوپر چڑھے تو اس کو ایک نہایت موزون اور محفوظ مقام سمجھ کر یہاں ایک عالیشان قلعہ تعمیر کروایا اور اس کا نام آلہ موت رکھا جو کثرت استعمال سے الموت ہوگیا۔ ویلمی زبان میں آلہ موت کے معنی ’’عقاب کی تعلیم گاہ‘‘ کے ہیں۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ص۳۸)
قلعہ الموت پر قبضہ
اسماعیلی مناد قلعہ الموت کے چاروں طرف نہایت زبردست نشریہ کر رہے تھے اور خود حسن بن صباح الموت کے قریب قیام کر کے لوگوں کے دلوں پر اپنے ریاکارانہ زہدواتقاء کا سکہ جما رہا تھا۔ ان کوششوں کے ساتھ میں بہت سے لوگ حسن کے تابع و منقاد ہوگئے۔ ہزار ہا آدمیوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جب حسن کی جمعیت زیادہ ترقی پذیر ہوئی۔ تو حاکم علاقہ اس سے بہت متردد ہوا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت قلعہ سے ایک دستہ فوج نکلا اور رات کی تاریکی میں اچانک حسن کو زیر حراست کر کے قلعہ میں لے گیا۔لیکن ابن صباح قلعہ میں داخل ہونے کے بعد ایک ایسی چال چلا کہ حاکم علاقہ جسے مہدی علوی کہتے تھے ۔قلعہ الموت سے بے دخل ہوگیا۔یہ سرزمین جعفری نام ایک امیر کے زیرحکومت تھی جس نے ایک علوی کو اپنی نیابت پر سرفراز کر رکھا تھا۔ابن صباح علوی سے کہنے لگا کہ میرے نزدیک دوسرے شخص کی مملوکہ زمین پر عبادت جائز نہیں ہے اور یہ مقام گوشئہ عافیت میں واقع ہونے کی وجہ سے مجھے بہت مرغوب ہے۔ اس لئے درخواست ہے کہ عبادت الٰہی کے لئے اس قلعہ کی صرف اتنی زمین میرے نام بیع کر دو جس پر بیل کا ایک چرسہ محیط ہوسکے۔میں اس کے لئے تین ہزار دینار سرخ آپ کی نذر کر سکتا ہوں۔ وہ شخص طمع نفسانی سے فریب میں آگیا اور یہ دیکھ کر ایک کھال منگوا کر اس کی نہایت باریک دھجیاں اور تسمے کاٹ کران کو باہم جوڑ دیا اور اتنا بڑا حلقہ بنایا کہ جس نے سارے قلعہ کو احاطہ میں لے لیا۔قلعہ دار یہ پیمائش دیکھ کر حیرت زدہ ہوا اور کہنے لگا یہ تم کیا کررہے ہو؟۔میں نے صرف نماز کے مصلیٰ بچھانے کی خاطر صرف اتنی زمین فروخت کی ہے جو ایک چرسہ کے اندر آجائے۔حسن نے کہا کہ نہیں چرسہ سے یہی مراد تھی کہ جس شکل میں بھی چرسہ جتنی جگہ پر محیط ہوسکے۔ وہ سب اس بیع میں داخل ہے۔ اس کے بعد کہنے لگا کہ میں کوئی ایسا احمق نہیں تھا کہ گز ڈیڑھ گز جگہ کے لئے تین ہزار دینار زرسرخ دینے کو تیار ہوتا۔قلعہ گیر فوج کے بہت سے سپاہی جو درپردہ حسن کے مرید ہوچکے تھے۔ تائید کے لئے کھڑے ہوگئے اور قلعہ دار سے کہنے لگے اتنی بڑی بزرگ ہستی کبھی جھوٹ نہیں بول سکتی۔آپ نے یقینا اتنی رقم میں سارے قلعے کا سودا کیاہوگا۔ الغرض مہدی علوی کو بادل ناخواستہ خاموش ہونا پڑا۔ اب زرثمن کے لئے حسن نے اپنے ایک مرید مظفر نام کو جو رامغا ن
کا حاکم اور درپردہ باطنی تھا۔ لکھ بھیجا کہ میں نے یہ قلعہ مہدی علوی سے تین ہزار دینار میں خرید لیا ہے۔ آپ مہدی کو تین ہزار دینار دے دیجئے۔ چنانچہ مظفر نے قیمت ادا کر دی اور مظفر اور حسن کے دوسرے مریدوں کی کوشش سے قلعہ خالی کرا لیا گیا۔مہدی کے اس چکمہ میں آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک مرتبہ مہدی حسن کے خیالات معلوم کرنے کے لئے باتوں ہی باتوں میں کہنے لگا کہ شرع میں بوقت ضرورت حیلہ کرنا جائز ہے۔ حسن نے جواب دیا کہ شریعت مصطفوی علیہ التحیہ والسلام کا مدارراستی پر ہے۔ اس لئے حیلہ حالت مجبوری میں بھی جائز نہیں اور جو لوگ شریعت میں حیلہ کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ انہیں قیامت کے دن اسی طرح مبتلا ئے محن کرے گا جس طرح دوسرے مجرم کیفرکردار کو پہنچیں گے۔ اس اظہار خیال کی بنا پر مہدی کو حسن کی طرف سے پوری طرح اطمینان تھا کہ اس کے مزاج میں کسی قسم کے شر اور حیلہ وفریب کو دخل نہیں۔(دلبستان مذاہب ص۲۹۰)حالانکہ حسن نے یہ اظہار خیال محض ریاکارانہ اور مہدی کو دام فریب میں پھانسنے کی غرض سے کیا تھا۔ جب ابن صباح کو الموت جیسا مستحکم اور محفوظ قلعہ مل گیا۔ تو اس نے صوبہ رودبار اورقزوین میں بڑے استقلال سے اپنے مذہبی خیالات کی تبلیغ شروع کی۔اس صوبہ کے بہت سے لوگ بطیب خاطر اور بہت سے جبراً و قہراً داخل مذہب کئے گئے اور مذہب کی آڑ میں تمام صوبہ رودبار اور کوہستان میں حسن صباح کی حکومت قائم ہوگئی۔حسن نے قرب وجوار کے بے مصرف قلعوں کو مرمت کرایا ۔بعض مقامات پر جدید قلعے تعمیر کرائے۔ قلعہ الموت کو بحیثیت مستقر حکومت خوب مستحکم کیا اور اس کے چاروں طرف عالیشان محل تعمیر کرائے اور باغات لگوائے۔
ابن صباح کی جنت
قلعہ الموت اور اس کے گردوپیش میں قوت و استقلال حاصل کر لینے کے بعد ابن صباح پر ہر وقت یہ دھن سوار تھی کہ کسی طرح سلطان ملک شاہ اور اپنے محسن نظام الملک طوسی کا قلع قمع کر دے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچتا تھا کہ ایسے جلیل القدر دشمنوں کا استیصال عام مادی اسباب کے ذریعہ سے بالکل محال ہے۔ اس لئے بہت دن تک کسی ایسی تدبیر پر غور کرتا رہا جو حصول مقصد کی کفیل ہو۔ چنانچہ اس نے جانبازوں کی ایک جماعت تیار کی اور اپنے دعاۃ کے ذریعہ سے ان کی لوح دل پر یہ بات مرسم کرا دی کہ شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح تمام دنیا کا مالک اور داردنیا میں بڑا قادرومتصرف اور فعال لما یرید ہے۔اس تعلیم و تلقین کے علاوہ اس نے ایک ایسی تدبیر کی جس کی وجہ سے اس جماعت کو جان سپاری پر آمادہ کرنا بالکل چٹکی بجانے کا کام تھا۔ اس نے قلعہ الموت کے اردگرد نظر فریب مرغزاروں اور خوشنمائی،باغوں اور مرغزاروں کی نزہت و تروتازگی دیکھنے
والے کے دل پر جادو کا اثر کرتی تھی۔ان کے بیچوں بیچ جنت کے نام سے ایک نہایت خوش سواد باغ بنوایا جس میں وہ تمام سامان مہیا کئے جو انسان کے لئے موجب تفریح ہو سکتے ہیں۔ مثلاً اشیائے بدیعہ،ہرقسم کے میوہ داردرخت، پھول،چینی کے خوبصورت ظروف، بلوری،طلائی اور نقرئی سامان،بیش قیمت فرش ورفروش،یونان کے اسباب تعیشات پرتکلف سامان خوردونوش، چنگ و چغانہ نغمہ و سرور۔ جنت کی دیواروں پر نقش ونگار کا نہایت نازک کام بنوایا۔ نلوں کے ذریعہ سے محلات میں پانی،دودھ،شراب اور شہد جاتا تھا۔ان سب لذائذ ونعائم کے علاوہ دل بہلانے کے لئے پری تمثال کمسن نازنینیں موجود تھیں۔ان ماہ وش اچھوتیوں کی سادگی،وضع اور ان کے حسن و جمال کی دلربائی معاً دیکھنے والے کو یہ یقین دلاتی تھی کہ یہ عالم سفلی کے سواکسی اور ہی عالم کے نورانی پیکر ہیں۔ کوشش کی گئی تھی کہ داخلہ کے بعد زائر کے دل پر فرحت وانبساط کا ایسا شیریں اثر پیدا کیا جائے کہ وہ اس فرحت و مسرت کو دنیاوی نہیں بلکہ اخروی یقین کرے۔یہاں کے حوروغلمان کا تمام کاروبار بالکل رازداری سے انجام پاتا تھا۔ ہر وہ چیز جس کے باہرسے مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی تھی اس حسن اسلوب سے فراہم کی جاتی تھی کہ کسی کو کبھی سراغ نہ لگ سکتا تھا ۔حسن نے اپنے مریدوں کو تین جماعتوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک تو داعی و مناد تھے۔ جو دوردراز ممالک میں خفیہ خفیہ لوگوں کو اس کے مذہب کی دعوت دیتے تھے۔ دوسرے رفیق جن کو حسن کا معمد علیہ ہونے کی عزت حاصل تھی۔ تیسرا گروہ فدائیوں کا تھا۔ جس کے لئے یہ جنت بنائی گئی تھی۔
ابن صباح علاقہ لالقان اور رودبار وغیرہ کے خوبصورت تندرست اور قوی ہیکل نوجوان جو سادہ لوح ہوتے اور ان میں ہر بیان کے باور کرنے اور جلد ایمان لانے کی صلاحیت نظر آتی۔ فدائیوں کی جماعت میں بھرتی کرتا۔ ان کا عام لباس یہ تھا ۔سفید پوشاک سرخ دستار اور کمربند، ہاتھ میں تیر یا چھڑی اور کمر میں چھری۔یہ وہ لوگ تھے جو حسن کے ہر ایک حکم کی بلاعذر آنکھیں بند کر کے تعمیل کرتے تھے۔بھنگ جسے عربی میں حشیش کہتے ہیں۔ شاید ان ایام میں ایک غیر معلوم چیز تھی۔ اور غالباً حسن بن صباح ہی پہلا شخص ہے جس نے اپنی دانشمندی سے بھنگ سے وہ کام لیا جو اس سے پہلے شاید کسی نے نہ لیا ہوگا۔ جب فدائی سپاہی امیدداری کا دور ختم کر لیتا تو حسن اسے بھنگ کے اثر سے بیہوش کر کے جنت میں بھجوا دیتا جہاں وہ جہان پرور حوروں کی گود میں آنکھ کھولتا اور اپنے آپ کو ایسے عالم میں پاتا۔جہاں کی خوشیاں اور مسرتیں شاید بڑے بڑے شاہان عالم کو بھی نصیب نہیں۔ یہاں وہ انواع واقسام کی نزہت گاہوں کی سیر کرتا۔حوروں کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا۔ان کی صحبت اس کی جانستانی کرتی۔ان ماہ وشوں کے جھرمٹ میں بیٹھ
کر مئے ارغوانی کے جام اڑاتا۔اعلیٰ سے اعلیٰ غذائیں اور بہترین قسم کے میوے کھاتا اور ہر طرح کے تعیشات میں ڈوبا رہتا۔ ہفتہ عشرہ کے بعد جب ان محبت شعارحوروں کی الفت کا نقش اس کے دل پر اتنا گہرا پڑ لیتا کہ پھر مدت العمر کبھی مٹ نہ سکے۔ تب وہی حوریں بھنگ کا ایک جام پلا کر اسے شیخ الجبل کے پاس بھجوا دیتیں۔جہاںآنکھ کھول کر وہ اپنے تئیں شیخ کے قدموں پر پاتا۔ اور جنت کے چند روزہ قیام کی خوشگوار یاد اس کو سخت بے چین کر دیتی۔ ابن صباح اس کو جنت میں بھیجے جانے کی امید دلاتا اور کہتا کہ جنت کے دائمی قیام کی لازمی شرط جانستانی و جا ں سپاری ہے۔ظاہر ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر گزرے حظوظ و لذات کا اثر اتنا مضبوط پڑ چکتا تھا اور حوروں کی ہم نشینی کی تصویر ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی رہتی تھی۔حسن کے احکام کی تعمیل میں کس طرح کوتاہی کر سکتا تھا؟۔چنانچہ جب ابن صباح کو کسی دشمن کا قتل کرانامنظور ہوتاتھا تو ایک نوجوان کو حکم دیتا کہ جا فلاں شخص کو قتل کرکے قتل ہوجا۔ مرنے کے بعد فرشتے تجھے جنت میں پہنچا دیں گے۔ فدائی امتشال امر میں اپنے حوصلہ سے بڑھ کر سرگرمی اورمستعدی دکھا تا تا کہ کسی طرح جلد جنت میں پہنچ کر وہاں کی مسرتوں سے ہمکنار ہو۔
یہی وہ خطرناک لوگ تھے جن سے خون آشامی کا کام لیا جاتا تھا ۔ان لوگوں کو جس کے قتل کا اشارہ ہوتا۔ وہ وہاں کوئی روپ بھرکر جاتے رسائی اور آشنائی پیدا کرتے۔اس کے معتمد علیہ بنتے اور موقع پاتے ہی اس کا کام تمام کردیتے۔یہی وہ فدائی تھے جن کی وجہ دے دنیا بھر کے امراء وسلاطین ابن صباح کے نام سے کاپنتے تھے۔ان کی قساوت قلبی اور خونخواری کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کو بلی کا گوشت کھلایا جاتا تھا۔ بلی غضب کے وقت آپے میں نہیں رہتی اور مخالف پر سخت بے جگری کے ساتھ حملہ کرتی ہے۔یہی حال فدائین کا تھا کہ جس کے قتل کا ایک دفعہ حکم مل جاتا تھا۔ اس کو کبھی زندہ نہ چھوڑتے تھے۔
(تلبیس ابلیس ص۸۷،۸۸)
میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ فدائیوںکے علاوہ ابن صباح کی دو اور جماعتیں بھی تھیں۔داعی اور رفیق جس طرح فدائیوں کو بلی کوگوشت کھلایا جاتا تھا۔اسی طرح رفیقوں کو بادام، شہد اور کلونجی کا ناشتہ تیار کرایا جاتا۔ جب یہ چیزیں کھا کھا کر رفیقوں کا دماغ گرما جاتا تو ابن صباح ان سے کہتا کہ محمد مصطفیﷺ کے اہل بیت پر ایسا ایسا ظلم ہوا ہے۔ پھر ان کو اہل بیت اطہار کی مظلومی کے سچے جھوٹے قصے سنا کر جوش دلایا جاتا۔ اس کے بعد کہا جاتاکہ خارجیوںکے فرقہ ازاراقہ نے بنو امیہ کے قتال میں اپنی جانیں فدا کیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تم برسر حق ہو کر جان دینے میں بخل کرو اور جان پر کھیل کر اپنے امام کی مدد نہ کرو۔یہ رفیق بھی فدائیوں کی طرح ہر وقت
جانبازی کے لئے کمر بستہ رہتے تھے۔ دونوں جماعتوں میں فرق یہ تھا کہ جہاں تیغ و سنان کی لڑائی ہوتی وہاں رفیق جا کر اپنے امام کی رفاقت کا حق ادا کرتے اور جہاں دھوکے سے جان ستانی مقصود ہوتی وہاں فدائیوں کو بھیج کر مطلب براری کی جاتی۔
سلطان ملک شاہ کی سفارت
جب حسن بن صباح نے قلعہ الموت پر قبضہ کر کے گردوپیش کے شہروں پر اپنا اقتدار قائم کر لیا اور اس کے پیرووں کی جمعیت بھی دن بدن بڑھنے لگی تو سلطان ملک شاہ اورخواجہ نظام الملک کو لامحالہ اپنی توجہ ادھر معطوف کرنی پڑی۔ لیکن نظام الملک نے فوج کشی کے بجائے حکمت عملی سے کام نکالنا چاہا اور اس کی یہ تدبیر کی کہ ۴۸۳ھ میں سلطان کی طرف سے ایک سفارت ابن صباح کے پاس بھیجی گئی۔ جس کا یہ منشاء تھا کہ حسن کو سلطان کی شاہانہ سطوت سے ڈرا کر اطاعت پر آمادہ کیا جائے۔ ایلچی نے الموت پہنچ کر حسن سے گفتگو کی اور اس کو تمام نشیب وفراز سمجھایا۔مگروہ اطاعت پر کسی طرح آمادہ نہ ہوا۔ جب ایلچی بے نیل مرام واپس جانے لگے۔ تو حسن نے ایلچی کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ جا کر ملک شاہ سے کہہ دیجئے کہ ہم کو نہ ستائے اور اس حقیقت کو نظر اندازنہ کرئے کہ ہمارے لشکر کا ہر سپاہی جانبازی میں فرو ہے۔ اس کے نزدیک دوسرے کی جان لینا اور اپنی جان دینا ایک معمولی بات ہے۔یہ کہہ کر حسن نے ایلچی کے سامنے اپنے دعویٰ کا عملی ثبوت پیش کرنا چاہا۔ چنانچہ ایلچی کی موجودگی میں اس قطار سے جو سامنے کھڑی تھی خطاب کر کے کہا میں چاہتا ہوں کہ تمہیں مولیٰ کے پاس بھیج دوں۔ تم میں سے کون شخص اس کے لئے آمادہ ہے؟۔ان میں سے ہر نوجوان جلدی سے آگے بڑھا اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں اس کے لئے آمادہ ہوں۔ سلطان کا ایلچی سمجھا کہ شاید وہ ان کے ہاتھ کوئی پیغام بھیجے گا۔ اب اس نے ایک فدائی سے کہا کہ اپنے آپ کو ہلاک کردو۔ اس نے معاً چھری نکال کر اپنے دل پر ماری اور مردہ ہو کر گرپڑا۔ دوسرے سے کہا کہ اپنے تئیں قلعہ کی فصیل پر سے گرادو۔ وہ قلعہ سے نیچے کود پڑااور پاش پاش ہوگیا۔ تیسرے سے کہا کہ پانی میں ڈوب مرے۔ اس نے بھی فوراً حکم کی تعمیل کی۔غرض تینوںفدائی ایلچی کے دیکھتے دیکھتے جان سپاری کر کے شیخ الجبل پر قربان ہوگئے۔ جب ایلچی یہ ہیبت ناک منظر دیکھ چکا تو حسن نے اس سے سوال کیا کہ کیا ملک شاہ کی فوج میں ایک سپاہی بھی ایسامل سکے گاجو میرے بیس ہزار فدائیوں کی طرح اس درجہ جان نثار ہو؟۔ایلچی نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔لیکن وہ حسن کے پیرووں کی جان بازی پر سخت حیرت زدہ تھا۔ اتنے میں خود حسن کے دو بیٹے کسی مذہبی حکم کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں حسن کے سامنے پیش کئے گئے۔ حسن نے
حکم دیا کہ ان کے کوڑے لگائو۔ معاً اس حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ دونوں اس صدمہ سے ایلچی کے سامنے تڑپ تڑپ کر طعمہ اجل ہوگئے۔ جب ایلچی نے واپس جا کر یہ ہولناک چشم دید واقعات ملک شاہ اور خواجہ نظام الملک سے بیان کئے تو انہوں نے دو سال کے لئے فوج کشی کا خیال ترک کردیا۔ انہی ایام میں اٹھارہ آدمیوں نے ساوہ کی عید گاہ میں نماز عید پڑھی۔ یہ مقام اصفہان کے قریب ہے۔ کوتوال شہر نے بھانپ لیا کہ یہ باطنی ہیں۔ ان کو گرفتار کر کے محبس میں ڈال دیا۔ لیکن جب ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہ ہو سکا تو ان کو چھوڑ دیا۔اس کے بعد انہوں نے ساوہ کے ایک مؤذن کو جو اصفہان میں تھااپنے مذہب کی دعوت دی۔اس نے اس دعوت کو نفرت کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ باطنیوںنے اس خوف سے کہ یہ جا کرحکام سے شکایت لگائے گا اس کو قتل کر دیا۔ جب خواجہ نظام الملک وزیر اعظم کو اس حادثہ کی اطلاع ہوئی تو اس نے کوتوال کو تاکید کی کہ جس طرح ممکن ہو قاتل کا سراغ لگاؤ۔آخرایک باطنی جو بڑھئی کا کام کرتا تھا۔ گرفتار ہوا۔اس کا نام طاہر تھا۔جب جرم ثابت ہوگیا تو اس کو قصاص میں قتل کر دیاگیا۔ اس اثناء میںابن صباح کے پیرووں نے قین کے پاس ایک اور قلعہ پر قبضہ کر کے اس کو مضبوط کر لیا۔ ان ایام میں کرمان کا ایک بہت بڑا قافلہ قائن کی طرف آیا۔ باطنیوں کو اس کا پتہ چل گیا۔ باطنی قلعہ سے نکل کر اس پر حملہ آور ہوئے۔ قتل ونہب کا بازار گرم کیا۔ تمام اہل قافلہ کو موت کے گھاٹ اتار کر تمام مال واسباب قلعہ میں لے آئے۔اہل قافلہ میں صرف ایک آدمی بچ نکلا جس نے اس واقعہ ہائلہ کی اطلاع قائن میں آکردی۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ص۳۷،تلبیس ابلیس عربی ص۸۷)
خواجہ نظام الملک کا حادثہء شہادت
یہ دیکھ کر نظام الملک نے ۴۸۵ھ میں ایک لشکر جرار ابن صباح کی پامالی کے لئے روانہ کیا۔ جب حسن کو اس فوجی نقل و حرکت کا علم ہوا تو اس نے ایک فدائی بھیجا کہ نظام الملک کی جان لے لے۔نظام الملک سلطان ملک شاہ کے ساتھ بغداد جا رہا تھا۔جب نصف مسافت طے ہو گئی توملک شاہ نے چند روز کے لئے نہاوند میں قیام کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ خواجہ الملک نے روزہ افطار کر کے مغرب کی نماز ادا کی اور حسب معمول نما ز کے بعد فقہاء و علماء سے باتیں کرتا رہا۔ اثناء گفتگو میں نہاوند کا تذکرہ شروع ہوا۔خواجہ نے فرمایا کہ یہ مقام۲۰ھ میں امیر المومنین عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں فتح ہوا تھا۔ پھر ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے حالات بیان کئے جنہوں نے معرکہء نہاوند میں جام شہادت پیا تھا۔اس گفتگو کے بعد خواجہ نے نماز تراویح پڑھی اور بعد فراغ ایک محفہ پر سوار ہو کر حرم سرا کو روانہ ہوا۔جب قیام گاہ پر پہنچا تو فرمایا کہ
یہی وہ مقام ہے جہاں ارباب ایمان کی ایک کثیر جماعت جرعہ شہادت پی کر روضہ رضوان کو چلی گئی تھی۔’’ فطوبی لمن کان معہم‘‘ ابھی سویا ہی تھا کہ اتنے میں ایک ویلمی نوجوان محفہ کی طرف بڑھا اور مستغیث کی حیثیت سے اپنی عرضی پھینکی۔جب خواجہ عرضی اٹھا کر پڑھنے لگا تو ویلمی نے خواجہ کے دل میں چھری جھونک دی۔حملہ کے ساتھ ہی تمام لشکر میں کہرام مچ گیا۔ جب یہ غلغلہ سلطان ملک شاہ کے سمع مبارک تک پہنچا تو وہ سخت غم زدہ ہوا۔ روتا ہوا آیا اور خواجہ کے سرہانے بیٹھ گیا۔قاتل جس کا نام ابوطاہر تھا۔حملہ کر کے ایک خیمہ کی آڑ میں چھپ گیا تھا۔ خواجہ کے غلاموں نے اس کو گرفتار کر لیا۔ خواجہ نے حکم دیا کہ اس کو میرے قصاص میں قتل نہ کرنا۔ لیکن غلاموں نے اس کی گردن ماردی۔ تھوڑی دیر میں خواجہ نے بھی وادی مرگ میں قدم رکھ دیا۔بغداد کا شہرہ آفاق مدرسہ نظامیہ جس میں امام محمد غزالی بھی مدرس رہ چکے ہیں ۔اسی نظام الملک مرحوم کا بنوایا ہوا تھا۔۴۵۹ھ میں اس مدرسہ کی تکمیل ہوئی تھی۔خواجہ نظام الملک کے حادثہ قتل پر باطنیہ کی بن آئی اور وہ اس کامیاب تجربہ پر بہت خوش ہو رہے تھے کہ سلاطین اور ارباب اقتدار کے پنجہ تشدد سے محفوظ رہنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ فوجوں سے معرکہ آرا ہونے کے بجائے خود فوجیں بھیجنے والے کی جان لے لی جائے۔
قلعہ الموت پر لشکر کشی
خواجہ نظام الملک ؒ کے واقعہ شہادت سے پہلے قلعہ الموت پر فوج بھیجی جا چکی تھی۔ امیر ارسلان سپہ سالار نے قلعہ کا محاصرہ کر کے اہل قلعہ کو بہت نقصان پہنچایا۔اس وقت قلعہ میں حسن کے پاس صرف ستر آدمی تھے اور قریب تھا کہ وہ گرفتار ہو جائے۔ لیکن اسی وقت ابوعلی نے قزوین سے تین سو باطنی سپاہیوں کی ایک جمعیت بطور کمک روانہ کر دی۔انہوں نے امیر ارسلان کی فوج پر شبخون مارا۔ لشکر سلطانی کو بہت نقصان پہنچا اور باطنیوں نے بہت سا مال غنیمت حاصل کیا۔ جب سلطان ملک شاہ کو اس ہزیمت کی اطلاع ہوئی تو اس نے ایک اور سپہ سالار قزل ساروق کو ایک زبردست فوج کیساتھ روانہ کیا۔قلعہ کے باہر لڑائی ہوئی اور قریب تھا کہ اہل قلعہ حسن کو تنہا چھوڑ کر فرار ہو جائیں۔مریدوں کی بدحواسی دیکھ کر ابن صباح نے کہا کہ وحی الٰہی نے حکم دیا ہے کہ کوئی شخص قلعہ سے باہر جانے کا قصد نہ کرے۔مریدوں نے باہر جانے کا خیال چھوڑ دیا اور از سر نو مدافعت کرنے لگے۔ اس اثناء میں سلطان ملک شاہ کا پیمانہ بھی آب فنا سے لبریز ہوگیا اور جام مرگ نوش کر کے اس سرائے فانی سے رخصت ہوا۔ایک روایت یہ ہے کہ ابن صباح کے ایک فدائی نے زہر دے کر بادشاہ کو شہید کیا تھا۔ ایسی حالت میں جنگ کا جاری رہنا اور قلعہ کو مسخر کرنا مشکل تھا۔ فوجیں
واپس آگئیں۔ اور یہ مہم ناکام رہی۔
(سنین الاسلام مطبوعہ لاہور جلد۲ص۱۱۳)
باطنیہ کا مزید قلعوں پر عمل ودخل
اس کے بعد قلعہ ملاذ خان پر بھی باطنیہ کا قبضہ ہوگیا۔یہ قلعہ جو فارس اور خوزستان کے مابین واقع تھا۔مدت سے رہزنوں اور مفسدوں کا مائمن و ملجا بنا ہواتھا۔قزاق قافلے لوٹ کر اس میں پناہ گزین ہو جایا کرتے تھے۔ آخر عضد الدولہ بن بویہ نے اس قلعہ کو سر کیا اور جس قدر ڈاکو یہاں سکونت پذیر تھے۔ سب کو تہ تیغ کر دیا۔ جب یہ قلعہ سلطان ملک شاہ کے حیطہء تصرف میں آیا تو اس نے ایک رئیس میرانز کو بطور جاگیر مرحمت فرمایا تھا۔ میرانز نے اپنی طرف سے ایک افسر کو اس قلعہ کا حاکم مقرر کردیا۔ باطنیوں نے حاکم قلعہ سے مراسم پیدا کئے۔ اور قلعہ کے فروخت کر ڈالنے کی تحریک کی۔ لیکن جب اس نے بیع سے انکار کیا تو باطنیہ نے خدع کا جال پھیلانا چاہا۔چنانچہ کہلا بھیجا کہ ہم چند علماء کو آپ کے پاس بھیجتے ہیں۔ تا کہ تم پر ہمارے مذہب کی حقیقت آشکار ہو۔ حاکم قلعہ نے یہ درخواست منظور کرلی۔ باطنیوں نے چند جانثار رفیقوں کو علماء کے لباس میں اس کے پاس بھیجا ۔انہوں نے قلعہ میں داخل ہو کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ کلید بردار پر یک بیک ٹوٹ پڑے اور قلعہ کی کنجیاں چھین لی۔اس کے بعد اچانک والی قلعہ کو بھی جا دبوچا اور اسے گرفتار کر کے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔اس کامیابی کے بعد ابن صباح نے قلعہ طبس پر تصرف کر لیا۔پھر قہستان کے دو مشہور قلعوں کی تسخیر کے درپئے ہوا۔ قدرت نے کامیابی کا سامان بھی خود ہی مہیا کر دیا۔حاکم قہستان فاسق اور زانی واقع ہوا تھا۔اس نے منور نام وہاں کے ایک رئیس کی نہایت حسینہ و جمیلہ ہمشیر کو جبراً گھر میں ڈال لینے کا قصد کیا۔منور نے ابن صباح سے مدد مانگی۔ باطنی تو آج کل کے فرنگیوں کی طرح خدا سے چاہتے تھے کہ کہیں مداخلت کا حیلہ ملے، باطنی وہاں اچانک جا پہنچے اور قہستان کے قلعوں پر اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیا۔ اسی زمانہ میں قلعہ خالنجاں پر بھی قابض ہوگئے۔ اس قلعہ کا حاکم ایک ترک سردار تھا ۔ابن صباح کے دو تعلیم یافتہ گرگے حاکم قلعہ کے پاس گئے اور بڑی مستعدی و تن دہی سے اس کی چاپلوسی اور خدمت گذاری اختیار کی۔ رفتہ رفتہ اس قدررسوخ بڑھا لیا کہ حاکم قلعہ کے دل و دما غ پر پوری طرح حاوی ہوگئے۔مآل نا اندیش حاکم نے قلعہ کی کنجیاں ان کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے ابن صباح کو اطلاع دی۔ ابن صباح اپنے استادزادہ احمد بن عطاش کے پاس پیغام بھیجا کہ جا کر قلع پر بحالت غفلت قبضہ کرلو۔احمد لشکر لے کر آپہنچا۔ حاکم قلعہ اس اچانک حملہ سے بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ ابن عطاش نے قلعہ پر قبضہ کرکے تمام قلعہ گیر فوج کو تہ تیغ کردیا۔ اس قلعہ
پر قبضہ ہوجانے کے بعد باطنیہ کی قوت بہت بڑھ گئی۔ اہل اصفہان اس سے دبنے لگے۔یہاں تک کہ باطنیہ کو خراج دینا قبول کیا۔
باطنیہ کے دوسرے قتیل
خواجہ نظام الملک کی جانستانی میں ابن صباح کو جو کامیابی ہوئی۔ اس نے اس کے لئے کامرانیوں کا دروازہ کھول دیا ۔اس شخص نے اعداء کو نیچا دکھانے کے لئے اس ذلیل و شرمناک طرق سے قتل کو نہایت کارگر پایا۔چنانچہ جب اور جہاں کسی نے ذرا مخالفت کی کسی فدائی کی چھری نے اسے حوالہ اجل کر دیا۔ اس طرح مسلمان سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں فدائی خون آشامی کی نذر ہونے لگے۔ان لوگوں کی اذیت تمام ممالک اسلامیہ میں عام ہوگئی۔ کیونکہ ان کا مذہبی اعتقاد یہ تھاغیر مذاہب کے پیرووں کو قتل کرنا بڑاکار ثواب ہے۔اس بنا پر باطنی اشقیاء دنیا کی ممتاز ترین ہستیوں کو صفحہ عالم سے معدوم کرنے لگے۔ اس مقصد کے لئے باطنیوں کا ایک گروہ مکانوں کی دہلیزوںمیں چھپا رہتا اور جب موقع ملتا اپنا شرمناک مقصد حاصل کر لیتا۔ یہ لوگ عامۃ المسلمین سے کہیں زیادہ ملت اسلام کے علماء ،قضاۃ،وزرا اور والیان ملک کی جان کے لاگو تھے۔ چنانچہ ۴۸۹ھ میں ابو مسلم رازی حاکم رے کو خون ہلاک سے گلگوں کیا۔اسی سال امیر اثر ملک شامی، امیر کجش اور امیر سیاہ پوش کو بھی خاک و خون میں تڑپا کر خلد آباد کو بھیج دیا۔
۴۹۰ھ میں طغرل بک کے ندیم امیر یوسف اور سلطان ملک شاہ کے غلام امیر ارعش، سلطان برکیارق کے وزیر عبدالرحمن سمیری، طغرل بک کے ندیم برمق، سلطان برکیارق کے دوسرے وزیرابولفتح دہستانی،امیر عمرزین ملک شامی اور بادی علی گیلانی کی جان لی۔۴۹۱ھ میں سنقرقہ والی دہستان اسکندریہ صوفی قزوینی اور عبدالمظفر مجید فاضل اصفہانی باطنی ستم آرائی کا نشانہ بنے۔ ۴۹۲ھ میں پیروان ابن صباح نے اتامک مودود حاکم دیاربکر، ابوجعفرشاطبی رازی،ابوعبید مستوفی،ابوالقاسم کرخی ، ابوالفرح قراتگین کو قتل کیا۔۴۹۳ھ میں قاضی کرمان ،امیر بلکابک سرمراصفہانی اور قاضی عبداللہ اصفہانی کو دارالآخرت میں بھیجا۔ان جانستانیوں کے لئے باطنی فدائی بہ تبدیل لباس و وضع جاتے اور موقع پا کر اپنے مشارالیہ کو قتل کرکے جھٹ خود کشی کرلیتے۔ ایک چال یہ تھی کہ باطنی کسی امیر کے پاس جا کر ملازمت اختیار کرتا اور جونہی موقع ملتا حملہ کر کے اس کا کام تمام کردیتا ۔باطنیوں نے عساکر اسلامی کے سپہ سالاروں کو بھی دھمکیاں دیں کہ تم لوگ اسماعیلیہ کی مخالفت میں اقدام نہ کرنا۔ ورنہ تمہارا حشر بھی وہی ہوگا۔ جو فلاں فلاں کا ہوا۔ اس بنا پر افسران فوج شب وروز حتیٰ کہ بستر خواب پر بھی مسلح رہنے لگے۔
سلطان ملک شاہ کے تین بیٹے تھے۔برکیارق،محمدار سنجر۔سلطان کے آنکھیں بند کرتے ہی بیٹوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔آخر ۴۹۲ھ میں علماء نے مداخلت کر کے برکیارق اور محمدمیں مصالحت کر ادی۔شام، عراق، موصل آذربیجان اور آرمینیا کی مملکت محمد کے حصہ میں آئی اور بقیہ ممالک برکیارق کے حیطہء تصرف میں آئے۔ ان خانہ جنگیوں کی وجہ سے حسن بن صباح اور زیادہ زور پکڑ گیا۔چنانچہ وہ آٹھ دس سال میں تمام رودبار ،قہستان، خور،خوسف، زوزن اور تون پر قابض و متصرف ہوگیا۔ جب سلطان ملک شاہ کے فرزند اکبر سلطان برکیارق کو خانہ جنگی سے فرصت ملی تو اس نے علماء اور عامہ برایا کی شکایت پر ۴۹۴ھ میں باطنیہ کے قتل کا حکم دیا۔چنانچہ باطنی لوگ ہر جگہ قتل کئے جانے لگے۔ ابن صباح نے سلطان کا یہ حکم سنا تو سانپ کی طرح پیچ وتاب کھانے لگا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کے قتل میں پہلے سے زیادہ مستعدی کا اظہار کیا جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک باطنی کے عوض دس دس مسلمانوں کی جانیں لی گئی۔ تب بھی ابن صباح کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا ۔ یہ زمانہ نہایت خوفناک تھا۔ شیخ الجبل کے جاسوس ہر شہر بلکہ ہر مسلمان خاندان میں پہنچ کر خون خرابہ کر رہے تھے ۔کوئی مخالف ایسانہیں تھا جس کا نام شیخ الجبل کی فہرست مقتولین میں لکھا گیا ہو اور وہ بچ رہا ہو۔ امراء عبا کے نیچے ذرہ پہننے لگے۔یہاں تک کہ خود سلطان نے عمائد سلطنت کو اجازت دے دی کہ وہ دربار میں اسلحہ لگا کر آیا کریں۔ خوف وہراس کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص تنہا گھر سے باہر نہ نکلتا اور اگر کوئی شخص مقررہ وقت پر گھر نہ پہنچتا تو یقین کر لیا جاتا کہ وہ باطنی خون آشامی کا شکار ہوگیا اور لوگ عزاداری کے لئے اس کے مکان پر جمع ہو تے۔
ایک دفعہ ایک مؤذن کو اس کے باطنی ہمسایہ نے پکڑ لیا۔مؤذن کے گھر کی عورتیں چیخنے چلانے لگیں۔باطنی اسے چھری دیکھا کر گھر کی چھت پر لے چڑھا۔مؤذن دیکھ رہا تھاکہ اس کے گھر کی عورتیں واویلا کر رہی ہیں۔ لیکن برہنہ چھری نے اتنا مرعوب کر رکھا تھا کہ ذرا بھی اس کی زبان جنبش نہ ہوئی۔ اتنے میں پولیس ابر رحمت کی طرح آ پہنچی اور باطنی کو گرفتار کر کے مؤذن کو اس کے پنجہ ظلم سے بچایا۔اصفہان میں اس فرقہ نے سب سے زیادہ دھما چوکڑی مچا رکھی تھی۔یہ لوگ مسلمانوں کو اچک کر قتل کردیتے۔اورنعش کو کھتے میں ڈال دیتے۔اصفہان میں مسلمان مفقود ہوتے رہتے تھے۔ لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا تھا۔آخر اہل اصفہان نے ان مقامات کا کھوج لگانا چاہا۔ جہاں باطنی فرقہ نے یہ اندھیر مچارکھا تھا۔ آخرایک مکان میں ایک عورت پائی گئی جو ہر وقت ایک بوریا پر بیٹھی رہتی تھی اور دن بھر وہاں سے ٹلتی نہیں تھی۔آخر لوگوں نے اسے گھسیٹ کر وہاں سے الگ کیااور بوریا اٹھا کر دیکھا تو نیچے ایک گڑھا پایا۔جس میں مسلمانوں کی چالیس نعشیں
تھیں۔ لوگوں نے عورت پر ہلہ بول دیااور اسے دارالبوار میں بھیج کر گھر میں آگ لگا دی۔
(تلبیس ابلیس ص۸۷،۸۸)
اسی طرح کسی باطنی کے مکان پر کسی اجنبی کے کپڑے پائے گئے۔دیکھنے والے لوگوں نے اس کا تذکرہ کردیا۔ہر شخص کو یقین ہوا کہ کسی مقتول مسلمان کے کپڑے ہیں۔شہر میں ہلڑ مچ گیا اور ہر مسلمان انتقام کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ایک جم غفیر نے اس شخص کے مکان پر دھاوا بول دیااور اندر جا کر دیکھا کہ ایک کنواں لاشوں سے پٹ رہا ہے۔ آخر تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کوچہ میں باطنی لوگ بودوباش رکھتے ہیں ۔باہر پھاٹک پر ایک اندھا بیٹھا رہتا تھا۔جب وہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آرہا ہے تو آنے والے سے کہتا کہ ذرا میری لاٹھی پکڑ کر کوچے میں پہنچادو۔ وہ اسے کوچے میں لے جاتا۔ باطنی بھیڑیئے جھٹ اندر کھینچ کر اس کاکام تمام کردیتے اور لاش کنوئیں میںپھینک دی جاتی۔ یہ دیکھ کر شیخ مسعود بن محمد خجندی شافعی انتقام پر آمادہ ہوئے۔ایک جم غفیر ہتھیار لے کر ساتھ ہو لیا۔ خجندی صاحب نے شہر سے باہر گڑھے کھدوائے۔ان میں آگ جلائی گئی۔ باطنی پکڑ پکڑ کر لائے جاتے اور آگ کے گڑھوں میں دھکیل دئیے جاتے۔شہرابہر کے قریب قلعہ دسم کوہ پر بھی باطنیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ یہاں کے کاربند فدائی قلعہ سے نکل کر مسلمانوں کو قتل وغارت کر جاتے اور لوٹ کا مال لے کر قلعہ میں چلے جاتے۔ مظلوموں نے سلطان برکیارق سے فریادکی۔سلطان نے قلعہ کا محاصرہ کیا اور آٹھ مہینہ کی جدوجہد کے بعد اس پر قبضہ کرلیا۔
(الکامل فی التاریخ ج ۹ ص ۳۷،۳۸ )
عراق میں بھی باطنیوں نے بڑی دھما چوکڑی مچا رکھی تھی۔ انہوں نے بے شمار کلمہ گوئوں کو خاک ہلاک میں تڑپا دیا ۔ان شہداء میں اہل سنت وجماعت کے ایک مشہور امام شیخ الشافعیہ ابالفرج رازی ردیانیؒ صاحب البحر تھے۔جنہیں ایک سیاہ دل باطنی نے خاص دارالخلافہ بغداد میں جرعہ شہادت پلایا۔غرض عالم اسلام میں ہر شخص ان کے اچانک حملوں سے خوفزدہ تھا۔ امراء کی طرح اب عامۃ المسلمین نے بھی کپڑوں کے نیچے زرہیں پہننی شروع کر دیں۔
(تاریخ الخلفاء عربی ص۳۴۹)
۴۹۸ھ میں باطنیہ طرثیث سے نکل کر رے پہنچے اور حجاج کے قافلہ کو جس میں خراسان، ماوراء النہر اور ہندوستان کے زائرین حرم تھے لوٹ لیا۔ اس کے بعد مضافات رے میں عام غارت گری شروع کر دی۔اس تاخت و تاراج میں کثیر التعداد مسلمان کام آئے اور بقیۃ السیف کا تمام
مال و اسباب لوٹ لیا۔(ایضاً ج۹ ص۸۴) ۴۹۹ھ میں ایک باطنی ملحد نے قاضی ابوالعلاء صاعد بن محمد نیشاپوری کو جامع مسجد اصفہان میں شہید کیا۔
وزیر فخر الملک کا واقعہ شہادت
حسن بن صباح نے ۴۸۵ھ میں اپنے محسن خواجہ نظام الملک طوسی کی جان لی تھی۔اس کے قریباً پندرہ سال بعد یعنی۵۰۰ھ میں خواجہ مرحوم کے فرزند اکبر فخر الملک ابوالمظفر علی کی زندگی کا چراغ گل کیا جو سلطان سنجرین ملک شاہ سلجوقی کا وزیر تھا۔ عاشوراء کے دن فخر الملک نے روزہ رکھا اور صبح کے وقت اپنے احباب سے کہا کہ آج رات میں نے حضرت حسین بن علی ؓ کو خواب میں دیکھا ہے۔ آپ مجھ سے ارشاد فرماتے ہیں کہ جلدی سے آو۔ تا کہ ہمارے پاس پہنچ کر ہی روزہ افطار کرو۔ اور قضائے کردگار سے چارہ نہیں جو کچھ اس ذات برتر نے مقدر کیا ہے لامحالہ اس کا ظہور ہوگا۔ حاضرین نے کہا خدا آپ کو سلامت رکھے۔ مصلحت وقت یہ ہے کہ آج دن رات کو گھر سے باہر کہیں نہ جائیں۔ خواجہ فخر الملک اس روز برابر نماز اور تلاوت قرآن میں مصروف رہا اور بہت سامال صدقہ و خیرات میں خرچ کیا۔ عصر کے وقت مردانہ مکان سے نکل کر حرم سرائے میں جانے کا قصد کیا۔باہر نکلا تو ایک شخص دردناک آواز میں چلایا کہ بس مسلمان ختم ہو گئے۔ کوئی ایسا نہیں رہا جو مجھ مظلوم کی فریاد رسی کرئے۔ فخر الملک نے ازراہ مرحمت اس کو اپنے پاس بلا کر استفسار فرمایا کہ تم پر کس نے ظلم کیا ہے؟۔ اس نے ایک تحریری عرضداشت نکال کر فخر الملک کے ہاتھ میں دے دی۔ جب اس کا مطالعہ کرنے لگا تو اس نمائشی داد خواہ نے جو ایک باطنی سفاک تھا پیٹ میں چھری گھونپ دی۔وزیر نے اسی وقت جرعہ مرگ پی لیا۔سلطان سنجر کو اس حادثہ ہائلہ کا سخت صدمہ ہوا۔باطنی گرفتار کر لیا گیا۔اب اس باطنی نے دیکھا کہ میں تو مارا ہی جاوںگا کیوں نہ چند اور مسلمانوں کو بھی لے مروں۔جب سلطان سنجر کے سامنے پیش ہوا تو کہنے لگا کہ مجھے تو آپ کے مصاحبوں میں سے فلاں فلاں نے قتل کی ترغیب دی تھی۔ سلطان نے عالم آشفتگی میں پہلے ان جرم نا آشنا مصاحبوں کی جان لی اور پیچھے اس باطنی کو ہلاک کرایا۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ ص۱۰۰)
باطنیہ کی بدحالی اور باطنی قلعہ کا انہدام
ابن صباح کے اسماعیلی استاد کا نام عبدالملک بن عطاش تھا۔اس کا بیٹا احمدبن عبدالملک قلعہ شاہ ور کا حکمران تھا۔ احمد نے بھی مسلمانوں کے خلاف بڑا ادہم مچا رکھا تھا۔ یہ دیکھ کر سلطان محمد نے ۵۰۰ھ میں قلعہ شاہ ور پر جو اصفہان کے قریب واقع تھا بہ نفس نفیس یورش کی ۔اس قلعہ اور پہاڑ کا دور چھ کوس تھا۔ابن صباح نے اس جگہ کو بہت مضبوط کر رکھا تھا۔ سلطان محمد نے
امراء لشکر کو باری باری جنگ پر متعین کیا اور نہایت حزم واحتیاط کے ساتھ مدت تک حملے کرتا رہا۔ باطنی طول جنگ اور شدت محاصرہ سے گھبرا گئے اور فقہائے اہل سنت و جماعت کے پاس اپنے متعلق ایک استفتاء روانہ کیا۔جس کا مضمون یہ تھا:
’’کیا فرماتے ہیں سادات فقہاء ائمہ دین اس گروہ کی بابت جو حق تعالیٰ پر، قیامت پر، اس کی کتابوں پراور رسولوں پر ایمان رکھتا ہے اورماجاء بہ رسول اللہ ﷺ کو حق جانتا ہے اور اس کی تصدیق کرتا ہے۔ لیکن محض مسئلہ امامت پر اختلاف کرتا ہے ۔کیا سلطان وقت کو اس کی موافقت اور رعایت جائز ہے اور اگر وہ فرقہ اطاعت کرے تو کیااس کی اطاعت قبول کرنا اور اسے ہر اذیت سے بچانا شرعاً روا ہے؟۔اکثر علمائے اہل سنت نے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا اور بعض نے توقف اختیار کیا۔آخر فقہائے اہل سنت وجماعت ایک مجلس میں جمع ہوئے۔شیخ ابوالحسن علی بن عبدالرحمن سجانی نے جو شافعی مذہب کے بڑے عالم تھے۔ قتل باطنیہ کے وجوب کا فتویٰ دیا۔ اور برملا کہہ دیا کہ اس فرقہ کی طرف سے محض اقرار بلسان اور تلفظ بالشہادتین کافی نہ ہوگا۔کیونکہ جب ان سے یہ دریافت کیاجاتا ہے کہ اگر تمہارا امام ایسے امور مباح کردے جسے شریعت اسلام نے حرام قرار دیا ہے یا ایسی چیزوں کو ناجائز کہے جسے شریعت مطہرہ حلال اور جائز ٹھہراتی ہے تو کیا تم شریعت کا حکم مانو گے یا اپنے امام کا؟۔ تو وہ صاف لفظوں میں جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنے امام کے حکم کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں باطنیہ کا قتل بالاتفاق مباح ہوجاتا ہے۔ اب باطنیوں نے سلطان سے درخواست کی کہ آپ اپنے علماء کو ہمارے مذہبی پیشواوں سے گفتگو کرنے کے لئے روانہ فرمایئے۔ سلطان نے قاضی ابوالعلاء صاعد بن یحییٰ شیخ الحنیفہ کو جو اصفہان کے قاضی تھے چند دوسرے علماء کے ساتھ روانہ فرمایا۔ مگر چونکہ باطنیہ کا حقیقی مقصد محض قضیہ کو طول دینا تھا۔ اس لئے حیلے حوالے کرنے لگے اور علماء واپس چلے آئے۔
(ایضاً ج ۹ص۱۰۸،۱۰۹)
مسئلہ تکفیر ملحدین
حقیقت یہ ہے کہ فتویٰ ہمیشہ سوال کے تابع ہوتا ہے۔جن علمائے حق نے باطنیہ کی اذیت کو ناجائز بتایایا وہ حاملین شریعت، جنہوںنے توقف اختیار کیا،انہیں سوال کی نوعیت نے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ کیونکہ جو شخص کہے کہ میں خالق کردگار، اس کے رسولوںپر،اس کی کتابوں پراور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوں۔ نافی ء ایمان دلائل کافقدان اس کے مومن قرار دیئے جانے پر مجبورکرتا ہے۔لیکن اگر کوئی شخص ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کرے تو ایسی حالت میں توحید ورسالت کا اقرار اور ملائکہ کتب سماوی بعث بعدالموت کا اذعان اس کے لئے کچھ بھی فائدہ
بخش نہ ہوگا۔ مثلاً ختم نبوت کااقرار ضروریات دین میں داخل ہے۔ اگر کوئی شخص توحید و رسالت کے اقرار کے ساتھ ختم نبوت کا منکر یا مدعی نبوت ہو تو وہ بالاجماع خارج از اسلام ہے۔ چنانچہ علامہ علی قاریؒ لکھتے ہیں:
’’دعوی النبوۃ بعد نبینا صلے اللہ علیہ وسلم کفر بالاجماع‘‘ {ہمارے نبی حضرت خاتم النبین ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔(شرح فقہ اکبر مطبوعہ مجتبائی دہلی ص۲۰۲)}
مرزائیوں نے بھی مقدمہ بہاولپور میں جو ۱۹۲۶ء سے ۱۹۳۵ء تک رہا۔ یہی عذر لنگ پیش کیا تھا کہ ہم خدا پر اور اس کے رسولوں ،کتابوں اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ بہاولپور کے فاضل جج نے دلائل فریقین پر نقد و تبصرہ کرتے ہوئے کس طرح امت مرزائیہ اور اس کے بانی کو مرتد و خارج از اسلام قرار دیا؟۔ باطنیہ اور مرزائیہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔جس طرح باطنی زنادقہ حسن بن صباح کے قول کو حکم شریعت پر ترجیح دیتے تھے۔ اسی طرح مرزائی ملاحدہ بھی اپنے مقتداء کے اوہام باطلہ کے مقابلہ میں حضورسید الاولین و آخرینﷺ کے ارشادات مبارکہ کو کوئی وقعت نہیں دیتے۔ چنانچہ بانی فرقہ مرزا غلام احمد قادیانی نے صاف صاف لکھ دیا ہے کہ جو حدیث رسول اللہ میرے (شیطانی )الہام کے خلاف ہو اسے میں (معاذاللہ) ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہوں۔
(اعجاز احمدی ص۳۰، خزائن ج۱۹ص۱۴۰، تحفہ گولڑویہ ص۱۰، خزائن ج۱۷ ص۵۱)
الغرض جو شخص خدا اور اس کے ملائکہ و رسل ، کتب سماویہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ مسلمان ہے بشرطیکہ اس کے دوسرے عقاید حضرت شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قطع الثبوت والدلالۃ تعلیمات حقہ کے خلاف نہ ہوںورنہ خارج از اسلام ہوگا۔ کیونکہ ’’نؤمن ببعض و نکفر ببعض‘‘ کے اصول پر عمل کرنے والا دائرہ اسلام میں داخل نہیں رہ سکتا۔ میں نے مسئلہ تکفیر ملحدین کو اپنی زیر تالیف کتاب’’فلسفہ اسلام‘‘ میں شرح وبسط سے لکھ دیا ہے۔
ابن صباح کے استاد زادہ کی گرفتاری اور ہلاکت
علماء کی مراجعت کے بعد سلطان محمد محاصرہ میں شدت کرنے لگا۔ بالآخر باطنی امان کے خواستگار ہوئے اور درخواست کی کہ اس قلعہ کے عوض میں انہیں قلعہ خالنجان مرحمت ہو اور قلعہ مذکور سے نکل کر قلعہ خالنجان میں منتقل ہونے کے لئے ایک مہینہ کی مہلت مانگی۔ یہ قلعہ اصفہان سے دس کوس کے فاصلہ پر تھا۔ ایک مرتبہ باطنی اس پر قابض ہو گئے تھے۔ لیکن بعد کو انہیں بے دخل
کردیا گیا تھا۔ سلطان محمد نے اس درخواست کو منظور کر لیا۔ باطنی مال واسباب سمیٹنے میں مصروف ہوئے۔ ہنوز مدت مقررہ پوری نہ ہوئی تھی کہ چند باطنیوں نے سلطان محمد کے ایک افسر پر حملہ کردیا۔ مگر حسن اتفاق سے یہ امیر ان کے حملہ سے بچ گیا۔سلطان محمد کو اس کی خبر لگی تو اس نے ازسرنومحاصرہ کرلیا۔ باطنی اپنی حرکت پر سخت متاسف ہوئے۔ اظہار ندامت کے بعد عفو تقصیر کی التجاء کی اور اس درخواست کے ساتھ قلعہ ناظر و طیس چلے جانے کی اجازت چاہی کہ سلطان محمد اپنے چند فوجی دستے ہمارے ایک حصہ فوج کو قلعہ ناظر پہنچانے پر مامور کرئے۔اور باقی ماندہ اشخاص کو ایک گوشہ میں نظر بند و محبوس رکھے۔جب یہ فوج قلعہ ناظر میں پہنچ جائے تو دوسرے حصہ کو جو قلعہ میں محبوس ہے حسن بن صباح کے پاس قلعہ الموت میں بھیج دے۔سلطان محمدنے اپنی فراخ دلی سے ان کی یہ درخواست منظورفرمائی۔ چنانچہ باطنیوں کا پہلا دستہ فوج شاہی لشکر کی نگرانی میں قلعہ ناظر وطبس کو روانہ ہوا۔ سلطان نے قلعہ کے مسمار کرنے کا حکم دیا۔شاہی فوج نے اس حکم کی نہایت مستعدی سے تعمیل کی۔
ابن صباح کے استاد زادہ کی ہلاکت
حسن بن صباح کے استاد کا بیٹا احمد بن عطاش قلعہ کے ایک برج میں چھپ رہا۔ بعض سپاہی دوڑ کر سلطان کے پاس آئے اور اس محفوظ مقام کا جہاں احمد بن عطاش متمکن وروپوش ہوگیا تھا پتہ بتایا۔ ایک افسر سلطان کے ایماء سے چند سپاہیوں کو لے کر اس برج پر چڑھ گیااور جس قدر باطنی وہاں ملے سب کو قتل کرڈالا۔مقتولوں کی تعداد اسی بیان کی جاتی ہے۔جب احمد گرفتار ہوکر سامنے لایا گیا تو سلطان نے کہا۔تم نے تو پیشین گوئی کررکھی تھی کہ عوام و خواص میرے گرد جمع ہوںگے اور اصفہان میں میری عظمت وشوکت کا نقارہ بجے گا۔ لیکن وہ پیشین گوئی جھوٹی ہوئی۔ احمد نے جواب دیا کہ میری پیشینگوئی صحیح ہوئی۔ لیکن نہ برطریق حکومت بلکہ برطریق فضیحت۔ سلطان ہنس پڑا۔ آخر اصفہان کے کوچہ وبازار میں گشت کرا کر اس کو ہلاک کردیا۔ اس کے ساتھ اس کاجوان بیٹا بھی مارا گیا۔ دونوں کے سر اتار کر دارالخلافہ بغداد بھیجے گئے۔احمد کی بیوی نے یہ حالت دیکھ کر اپنے آپ کو ایک بلند مقام سے نیچے گرا دیااور ہلاک ہوگئی۔(ایضاً)سلطان محمد کا وزیر سعد الملک جو درپردہ احمد کا معین و مددگار تھا ۔سلطان کے قتل کی سازش میں ملوث پایا گیا۔اس لئے اس کوبھی پھانسی دی گئی۔ غالباً وہ باطنی المشرب ہوگا۔ سعید الملک کی ہلاکت کے بعد سلطان نے قلمدان وزارت خواجہ نظام الملک مرحوم کے خلف ابونصر احمد کے سپرد کردیا۔۵۰۳ھ میں ابو نصر بذات خود فوج لے کر قلعہ الموت پر یلغار کرنے کے لئے بڑھا۔ لیکن بوجہ شدت سرما واپس آنے پر
مجبور ہوا۔(ایضاً ج ۹ص ۱۳۷)آٹھ سال کے بعد ۵۱۱ھ میں قلعہ الموت پر مکرر فوج کشی ہوئی۔ اس مہم کا قائد امیر نوشگین شیرگیر تھا۔برابر ایک سال تک محاصرہ جاری رہا۔(ایضاً ج ۹ص ۱۶۸،۱۶۹) جب رسد تھڑ گئی اور اہل قلعہ کی بدحالی ناگفتہ بہ حالت تک پہنچ گئی تو ابن صباح نے عورتوں اور بچوں کو درخواست امان کے ساتھ سلطان محمد کی خدمت میں بھیجا ۔لیکن ابن صباح کی فرد قراردادجرم کچھ ایسی مختصر و خفیف نہ تھی کہ وہ کسی رعایت کا مستحق ہو سکتا ۔ سلطان نے اس درخواست کو مسترد فرمایا۔ لیکن چونکہ قضاوقدر کی قوت قہرمان نے تسخیر قلعہ سے پہلے ہی سلطان محمد کو آغوش لحد میں سلا دیا۔ فوج محاصرہ اٹھا کر واپس چلی آئی۔ اور قلعہ بدستور ابن صباح کے عمل و دخل میں رہ گیا۔
سلطان سنجر کے سرہانے ابن صباح کا خنجر اور خط
سلطان محمد کے انتقال کے بعد۵۱۲ھ میں اس کا چھوٹا بھائی سلطان سنجر صاحب تاج وتخت ہوا ۔سلطان ملک شاہ کے بعد یہ بادشاہ اپنے دونوں بھائیوں سے زیادہ شجاع اور صاحب اقتدار تھا۔ وسعت ملک اورحربی قوت میں بھی ان پر فائق تھا۔سلطان سجر نے ارادہ کیا کہ تسخیر الموت کا جو کام ہر مرتبہ تشنہء تکمیل رہ جاتا ہے۔ اس کو انجام تک پہنچائے۔چنانچہ تجہیز لشکر کا حکم دیدیا۔ اور بذات خود فوج لے کر روانہ ہوا۔ یہ سن کر ابن صباح گھبرایا۔ کیونکہ شاہی لشکر کا مقابلہ اس کے حیطہء امکان سے خارج تھا۔ اس کے فدائی تو چوروں اور رہزنوں کی طرح صرف چھریاں مارنا جانتے تھے۔ لہٰذا حسن بن صباح نے یہ چالاکی کی کہ کسی خاص غلام یا حرم کو گانٹھ کر سلطان کی خواب گاہ کے سرہانے ایک خنجر زمین میں گاڑ دیا۔علی الصباح جب سلطان نے ایک خنجر زمین میں پیوست پایا تو پریشان ہوا کہ یہ کیا ماجراہے؟۔ دستہ خنجر کے اوپر ابن صباح کا ایک خط بھی بندھا ہوا ملا جس میںلکھا تھا:
’’ہاں!سلطان سنجر بہ پرہیز کہ اگر ء رعایت خاطر تو منظور نہ بودے دستے کہ خنجرے برزمین سخت فرو برد و سینہ نرم تو سہل تربود کہ فرد برد‘‘ (اے سلطان سنجر! ہماری اذیت سے باز آؤ۔اگر تمہارے پاس خاطر منظور نہ ہوتا تو سخت زمین میں خنجر پیوست کرنے کی نسبت تمہارے نرم سینہ میں اس کا چبھو دینا زیادہ آسان تھا)
خنجر اور خط کو دیکھ کر سلطان یہ سمجھا کہ میری فوج اور میرے پہرہ داروں میں ضرور ایسے لوگ موجود ہیں۔ جنہیں ابن صباح سے نسبت ارادت حاصل ہے۔ ورنہ کس کی مجال تھی کہ میری خواب گاہ میں قدم رکھتا؟۔ سلطان سنجر خط پڑھنے کے بعددل ہی دل میں کانپ رہا تھا۔وہ اس واقعہ سے اس قدر مرعوب ہوا کہ کسی طرح فوج لے کر پیش قدمی کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ اس
دن ابن صباح کا قاصد بھی لشکر گاہ میںآپہنچا اور صلح کا خواستگار ہوا۔ سلطان پہلے ہی مرعوب ہو چکا تھا۔ لہٰذا جان کے خوف سے جنگ پر صلح وآشتی کو ترجیح دی اور ان معمولی شرطوں پر صلح ہوگئی:(۱) اسماعیلی فرقہ کوئی جدید فوجی عمارت کا اضافہ نہ کرئے(۲) جدید اسلحہ اور منجنیقیں نہ خریدے۔ (۳)آئندہ اس فرقہ میں کوئی نیا شخص مرید نہ کیا جائے۔
(نظام الملک طوسی بحوالہ نامئہ خسروان ص۱۰۸ حالات حسن بن صباح)
لیکن ابن صباح کے لئے یہ شرطیں کسی حیثیت سے بھی مضرت رساں نہ تھیں۔ کیونکہ اس وقت تک پچاس سے زائد قلعے باطنیوں کے قبضے میں آچکے تھے۔ جو سب مستحکم اور کارآمد تھے۔ اس بناء پر ابن صباح کو کسی مزید تعمیر وتشئید کی ضرورت نہ تھی۔دوسری شرط بھی مضر نہ تھی۔ کیونکہ ابن صباح کے باطنی پیرووں کے لئے صرف ایک چھری کافی تھی جو ہروقت کمر میں رہتی تھی۔ اور اس معاہدہ کے بعد بھی رہ سکتی تھی۔ تیسری شرط گو بظاہر سخت تھی لیکن فی الحقیقت اس میں بھی کچھ مضائقہ نہ تھا۔ حسن کاخود پہلے اس پر عمل درآمد تھا۔کیونکہ اسماعیلی داعی ہر شخص سے مخفی بیعت لیتے تھے۔جس کا حال کسی پر کھل نہیں سکتا تھا۔اس کے علاوہ اگر اس دفعہ کی پابندی کی جاتی تو بھی کچھ نقصان نہ تھا۔کیونکہ اس وقت تک باطنی فوج کی تعداد جو قرب وجوار میں پھیلی ہوئی تھی۔ ستر ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
ایک باطنی سفاک کے ہاتھوں وزیر ابوطالب کاقتل
۵۱۶ھ میں سلطان محمود بن سلطان سنجر کا وزیر ابوطالب کمال سمیری باطنی ستم آرائی کا نشانہ بن کر دارآخرت کو چلا گیا۔ابوطالب کمال ہمدان جانے کے لئے سلطان کے ساتھ نکلا تھا۔ بہت بڑا لشکر ساتھ تھا۔ وزیر نے مدرسہ کے راستے سے نکلنے کا ارادہ کیا۔چونکہ راستہ بہت تنگ تھا۔ سوار اور پیادے آگے بڑھ گئے ایک باطنی موقع پا کر وزیر پر حملہ آور ہوا۔پیٹ میں چھری گھونپ دی۔اور بہت سے زخم لگا کر بڑی تیزی سے دجلہ کی طرف بھاگا۔سپاہیوں نے اس کا تعاقب کیا ۔اتنے میں ایک اور مسلمان نے اس کو چھری سے ہلاک کر دیا۔جب سپاہی واپس آرہے تھے تو دو باطنیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ یہ سپاہی ان سے بچ کر واپس آئے تو وزیر کو دیکھا کہ بکری کی طرح مذبوح پڑا ہے۔ اور اس پر تیس سے زیادہ زخم ہیں۔اس کے بعد تمام باطنی گرفتار ہوکر چاہ ہلاک میں ڈال دئیے گئے۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ص۲۱۵،۲۱۶)
موت
ان واقعات کے بعد ابن صباح نے ۲۸ ربیع الآخر ۵۱۸ھ کو جام مرگ نوش کر لیا۔ اس
وقت اس کی عمر ۹۰ سال کی تھی۔ پینتیس سال تک قلعہ الموت پر نہایت کامیابی سے حکومت کرتا رہا۔ابن صباح کے پیروئوں کو جو ترقی نصیب ہوئی۔ تاریخ آل سلجوق اصفہانی میں اس کا باعث محکمہ جاسوسی کا فقدان بتایا ہے اور لکھا ہے کہ سلطان ویلم اور ان سے پیشتر جو حکمران تھے ان کا معمول تھا کہ تمام ملک میں خبررسانی کے لئے جاسوس مقرر کرتے تھے اور ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جس کے صحیح واقعات د مبدم سلطان کے گوش زد نہ ہوتے رہتے ہوں۔مگر سلطان الپ ارسلان نے جو سلطان ملک شاہ کا باپ تھا۔ اپنے عہد میں یہ محکمہ توڑ دیا تھا جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ فرقہ باطنیہ کو اندر ہی اندر ترقی کرتا گیا اور سلطنت کو اس کی سازشوں اور خفیہ کارستانیوں کا اس وقت علم ہوا جب ابن صباح نے قزوین اور رودبار وغیرہ کے قلعوں پر پوری طرح قبضہ کر لیا۔ابن صباح نے اپنے عہد حکومت میں قریباًدو سو قلعوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ جن میں سے یہ گیارہ قلعے نہایت عظیم الشان تھے(۱) الموت(۲)گردکوہ(۳)لامسر(۴)شاہ ور(۵)دسمکوہ(۶)خالنجان(۷)استون آوند (۸) آر دھن(۹)الناظر(۱۰)طنبور(۱۱)خلاد خان۔ان میں سے چوتھاقلعہ اصفہان کے پاس تھا۔ پانچواں شہر ابہر کے متصل۔ چھٹا اصفہان سے پانچ فرسنگ کے بعد پر ۔ساتواں شہر رے اور امل کے مابین۔ نواں خوزستان میں۔ دسواں شہرآرجان کے متصل اور گیارہواں فارس اور خوزستان کے مابین واقع تھا۔ان کے علاوہ صوبہ دوبار اور قہستان وغیرہ میںبہت سے چھوٹے چھوٹے قلعے تھے۔ جن کو ملا کر مجموعی تعداد سو کے قریب بنتی ہے۔
ابن صباح بحیثیت بانئی فرقہ
ان اسماعیلی فرقوں کی تعداد جنہوں نے مختلف ملکوں اور وقتوں میں مختلف ناموں سے خروج کیا۔کم از کم اکیس تک پہنچتی ہے۔ جن میں سے حسن بن صباح کافرقہ حسنی سب سے آخری مسلم آزار فرقہ ہے۔ جس سے عالم اسلام کو سابقہ پڑا۔ پہلا فرقہ ملقب بہ اسماعیلی تو اصل ہے۔ باقی اس کی شاخیں ہیں جواپنے دعاۃ کی طرف منسوب ہو کر یا کسی عقیدے کے ماتحت کسی نام سے شہرت پذیر ہوئیں۔ دوسرا امبار کی جو محمد بن اسماعیل کے غلام مبارک کی طرف منسوب ہوا۔ جس نے کوفہ میں اسماعیلی مذہب کی اشاعت کی۔ تیسرا بابکی جو بابک خرہمی کا پیرو ہے۔ چوتھا محمرہ جوسرخ لباس پہننے کے باعث اس نام سے مشہور ہوا۔ پانچواں میمونی جو عبداللہ بن میمون قداع اہوازی کا پیرو تھا۔چھٹا خلفی جو عبداللہ بن میمون کے نائب خلف کی طرف منسوب ہوا۔ ساتواں قرمطی جو حمدان اشعث معروف بہ قرمط کی طرف منسوب ہے۔ آٹھواں برقعی جو محمد بن علی برقعی سے نسبت رکھتا ہے۔ برقعی نے ۲۵۵ھ میں بمقام اہواز خروج کیا۔ اور خوزستان اور
بصرہ پر قبضہ کر کے ہزارہا لوگوں کو داخل مذہب کرلیا۔ آخر ۲۷۰ھ میںخلیفہ معتضد باللہ کے حکم سے اسے سولی دی گئی۔ اس نے اپنے عقائد میں مزدکی اور بابکی اصول بھی شامل کرلئے تھے۔نواں جنابی جو ابوسعید جنابی کی طرف منسوب ہے۔دسواں مہدوی جو عبید اللہ مہدی بانی دولت بنو عبید کی طرف منسوب ہے۔ اس فرقہ کو سعیدی بھی کہتے ہیں۔گیارہواں فضلی جو علی بن فضل یمنی کی طرف منسوب ہوا۔بارہواں بیضیہ جو ملک شام میں اس نام سے مشہور ہوا۔تیرہواں حسنی جو حسن بن صباح کی طرف منسوب ہوا۔ اسی طرح اسماعیلیوں کے یہ نام بھی مشہور ہوئے۔(۱۴) تعلیمیہ(۱۵) فدائیہ (۱۶) حشاشین (۱۷)باطنیہ(۱۸) صباحیہ(۱۹) حمیریہ(۲۰) ملاحدہ(۲۱) نزاریہ ۔چونکہ عبیدی فرمانروا امستضی والی مصر کے عہد حکومت میں اس کے بیٹے نزار نے اس سے بیعت نہ کرنے پر اسماعیلیہ کے ہوا خواہوں کو قتل کیا تھا اور حسن بن صباح نے جو اس کے پاس رہتا تھا۔ اس کے بعد کے اسماعیلی آئمہ کی امامت سے مصر میں انکار کیا تھا۔ اس بنا ء پر اس کا گروہ نزاریہ کے نام سے موسوم ہوا۔
۳… ابن صباح کے جانشین
ابن صباح کی موت کے بعد قلعہ الموت میں اس کے سات جانشین ایک سو چھتیس سال یعنی ۶۵۴ھ تک حکمران رہے۔ جن کی مختصر کیفیت درج ذیل ہے۔
۱… کیا بزرگ امید
ابن صباح کی وصیت کے بموجب کیا بزرگ امید جو اس کا رفیق تھا۔ ۵۱۸ھ میں شیخ الجبل ہوا۔ابو علی اس کا وزیر قرار پایااور حسن قصرانی سپہ سالار متعین ہوا۔ اس کے عہد میں بہت سے حکمرانوں نے باہم اتفاق کر کے ارادہ کیا کہ باطنی فتنہ کا خاتمہ کر دیں۔ چنانچہ سلطان سنجر کا چچا اور جانشین سلطان محمود قلعہ الموت پر چڑھ گیا او راس کو فتح کر کے باطنیوں کو بری طرح پامال کیا۔مگر سلطان محمود کے انتقال کے بعد کیا بزرگ امید پھر الموت پر قابض ہوگیااور اس کی حکومت قزوین تک پھیل گئی۔اس کے عہد میں تین جلیل القدر بادشاہ باطنی خون آشامی کا شکار ہوئے اور بہت سے دوسرے اکابر ملت بھی عفریت اجل کے حوالے کر کے آغوش لحد میں سلا دئیے گئے۔
شاہ موصل کی شہادت
۵۱۹ھ میں قاضی ابوسعد محمد بن نصیر بن منصور ہروی کو ایک باطنی نے ہمدان میں نذر
اجل کیا۔ اس کے بعد ایک باطنی نے قسیم الدولہ آق سنقر برسقی شاہ موصل ؒ کو اس وقت جامع مسجد موصل میں جام شہادت پلایا۔ جبکہ وہ عامتہ المسلین کے ساتھ نماز جمعہ اداکرنے گیا تھا۔بادشاہ نے شہادت کی رات خواب دیکھا کہ کتے اس پر حملہ آور ہوئے ہیں۔چند کتوں کو تو اس نے ہلاکت کردیا ہے۔ لیکن بعض آ کر زخمی کرگئے ہیں۔ بادشاہ نے صبح کو یہ خواب اپنے مصاحبوں سے بیان کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ چند روز تک محلسرائے سے باہر نہ نکلئے۔بادشاہ نے کہا کہ آج جمعہ ہے۔ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ میں نماز جمعہ نہیں چھوڑوں گا۔ عمائد سلطنت نے بہتیراسمجھایا کہ آپ نماز جمعہ کے لیے نہ جایئے۔محل ہی میں نماز ظہر ادا کرلیجئے۔مگر چونکہ پیمانہ حیات لبریز ہو چکا تھا۔بادشاہ نے منظور نہ کیا اور تلاوت کے لئے مصحف مقدس لے کر بیٹھ گیا۔جب قرآن مجید کھولا توسب سے پہلے اس آیت پر نظر پڑی’’وکان امراللہ قدرامقدورا‘‘ {امرالٰہی پہلے سے مقدر ہوتا ہے۔} سمجھ گیا کہ اب میرا وقت پورا ہوچکا۔تلاوت کے بعدحسب عادت سوار ہو کر جامع مسجد گیا۔ بادشاہ کا ہمیشہ معمول تھا کہ شروع وقت میں جاتا اورپہلی صف میں بیٹھتا۔اس زمانہ میں مسلمان والیان ملک اوران کے امراء ووزرا عموماً خدا پرست،متشرع اور دین دار ہوتے تھے اور ان کے دل میں یہ اعتقاد راسخ تھا کہ موت وقت معہود سے مقدم و موخر نہیں ہوسکتی۔ اس بنا پر وہ اپنی حفاظت جان کے لئے کوئی اہتمام نہ کرتے تھے۔جونہی بادشاہ جامع مسجد میں جا کر بیٹھا اچانک اسی قدر باطنی چاروں طرف سے حملہ آور ہوئے جس قدر کتے بادشاہ نے خواب میں دیکھے تھے۔ان کی تعداد دس سے کچھ زیادہ تھی۔بادشاہ نے بھی مدافعت کی اور تین حملہ آوروں کو زخمی کیا۔لیکن انہوںنے اتنے زخم پہنچائے کہ بادشاہ گر پڑا اور دم بھر میں دم توڑ کے جان دے دی۔ اس وقت جامع مسجد میں خون کا دریا بہہ رہا تھا۔یہ بادشاہ بڑا عابد متقی تھا۔ پانچوں وقت نماز باجماعت ادا کرتا۔تہجد بھی قضا نہ کرتا۔
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں کہ شاہ شہیدؒ کے ایک خادم نے میرے والد مرحوم سے بیان کیا تھا کہ یہ بادشاہ رات کا اکثر حصہ عبادت الٰہی میں گزارتا تھا۔ میں نے ایام سرما میں بارہا دیکھاکہ بستر سے اٹھ کر چپ چاپ ایک کملی اوڑھتا اور لوٹا لے کر پانی کے لئے دریائے دجلہ پر جاتا ۔ میں اصرار کرتا کہ میں پانی لا دیتا ہوں۔مگر مجھے ہر دفعہ یہ کہہ کر سلا دیتا کہ دیکھو اس وقت موصل میں کتنی سردی پڑ رہی ہے ۔میں سو جاتا اور وہ خود ہی جا کر پانی لایا کرتا۔جب بادشاہ نے عالم آخرت کا سفر کیا تو اس وقت شاہزادہ عزالدین مسعود فرنگیوں سے حلب میں لڑ رہا تھا۔ کیونکہ ان دنوںعالم اسلام میں صلیبی لڑائیاں برپا تھیں۔بادشاہ کے مصاحبوں نے اس کے پاس حلب خبر
بھیجی۔ شاہزادہ حلب کا انتظام کر کے موصل پہنچا۔اورتخت نشین ہوا۔ اب عزالدین مسعود نے قاتلوں کا سراغ لگانے کا حکم دیا۔ان کا تو کچھ پتہ نہ چلا۔البتہ یہ ثابت ہوا کہ قاتل فلاں باطنی کے مکان پر آ کر ٹھرے ہوئے تھے۔باطنی کوگرفتار کرکے اس سے بہتیرا پوچھا گیا کہ قاتل کون تھے اور کہاں ہیں؟۔ اس نے مرنا قبول کیا۔ مگر اپنی قوم کا راز افشاء کرناگوارہ نہ کیا۔اس سے انعام و اکرام کے بھی وعدے کئے گئے۔ لیکن اس نے کچھ نہ بتایا۔ آخر اس کی گردن مار دی گئی۔ کاش ہندوستان کے وہ مسلمان اس واقعہ سے سبق آموز ہوں جنہیں خوف وامید کی ادنیٰ ادنیٰ تحریکات قوم فروشی پر آمادہ کر دیتی ہیں۔اور کفر کی خاطر اسلام کو زخمی کرتے ہوئے خدا سے نہیں شرماتے۔ اور بوالعجبی دیکھو کہ ان فرنگی افسروں کو جو حلب میں شاہزادہ عزالدین مسعود سے برسرپیکار تھے۔شاہ موصل کے واقعہ شہادت کا پہلے ہی سے علم تھا۔والی ٔانطاکیہ نے ان سے سن کر عز الدین مسعود کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارے والد محترم پر ایک سخت حادثہ گزرا ہے یا گزرنے والا ہے۔ اس کے بعد موصل سے بھی اس واقعہ ہائلہ کی اطلاع پہنچ گئی۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ ص ۳۳۶،۳۳۷)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فرنگی اور باطنی ہمراز تھے۔اور مسلمانوں کو بیک وقت دو خون آشام دشمنوں کا مقابلہ درپیش تھا۔ایک یورپ کے صلیبیوں کا۔ دوسرے باطنی ملحدین کا۔کچھ دنوں کے بعد سراغ رسانوں نے شاہ موصل کے آٹھ حملہ آوروں کا پتہ لگالیا اور آٹھوں گرفتار ہوگئے۔ سات فدائی مارے گئے۔ مگر ایک بھاگ کر بچ گیا۔اس کی ماں کو پہلے اس کے قتل کئے جانے کی خبر ملی تھی جس پر اس نے بڑی خوشیاں منائیں۔لباس فاخرہ پہن کر خوشبو لگائی اور عید کے سے ٹھاٹھ کے ساتھ بیٹھی ہی تھی کہ معلوم ہوا کہ وہ زندہ ہے۔ فوراً بال نوچ ڈالے۔کپڑے پھاڑ کر پھینک دئیے اور سر پر راکھ ڈال کر کہنے لگی افسوس میرا بیٹا درجہ شہادت سے محروم رہا۔اس کے بعد رو رو کر کہتی تھی کہ ہائے میری کوکھ سے ایسا نالائق فرزند پیدا ہوا جسے شہادت سے جان پیاری ہے۔اس سے ظاہر ہے فریب خوردگان باطنیت اپنے خیالات میں کس درجہ راسخ تھے اور شیخ الجبل نے ان سحر زدگان ضلالت پراپنی مطلب براری کا کیسا افسوں پھونک رکھا تھا۔ کاش ہماری ماؤں بہنوں میں بھی خدمت ملی کا وہ جذبہ پیدا ہوتا جو ایک باطل پرست عورت کے دل میں موجزن تھا۔
(سنین اسلام جلد ۲ ص۱۱۶وغیرہ)
سلطان سنجر کے وزیر اور دوسرے امراء کی جانستانی
۵۲۰ھ میں سلطان سنجر کے وزیر ابونصر احمد بن ضل نے باطنیہ کے خلاف غزا کرنے کا حکم دیا اور فرمان جاری کیا کہ جہاں کہیں کسی باطنی پر قابو ملے اسے نہنگ شمشیر کے حوالے کردیں۔
اور اس کا مال ومتاع لوٹ لیں۔ ابونصر احمد نے ایک لشکر توطریثیت کی طرف بھیجا جو باطنیوں کا اہم مرکز تھا اور ایک جیش ضلع نیشاپور کے موضع بہیق کے خلاف روانہ فرمایا۔جو باطنیوں کا ایک قصبہ تھا اور جہاں کا سردار حسن بن سمین نام ایک نہایت بندباطن باطنی تھا۔وزیر نے دونوں لشکروں کو حکم دیا کہ جو باطنی بھی کہیں مل سکے۔ اسے زندہ نہ چھوڑو۔دونوں لشکر اپنی اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے ۔ لشکر اسلام نے بہیق پہنچ کر وہاں خوب قتل عام کیا۔حسن بن سمین قصبہ سے نکل کر باہر کی طرف بھاگا۔لیکن جب یقین ہوگیا کہ وہ لشکر اسلام سے کسی طرح بچ نہیں سکتا تو ایک مسجد کے مینار پر چڑھ کر زمیں پر کود پڑا اور گرتے ہی پاش پاش ہوگیا۔اسی طرح طریثیت والے لشکرنے بھی وہاں پہنچ کر باطنیوں کو خوب قتل کیا اور بہت سا مال غنیمت لے کر واپس آئے۔
اس واقعہ کے پر باطنیوں کی آتش انتقام شعلہ زن ہوئی۔ابونصر احمد کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی ناپاک کوششیں شروع ہوگئیں۔ آخر ۵۲۱ھ کے اواخر میں باطنیوں کو وزیر ممدوح کی جانستانی کا موقع مل گیا اور وزیر ممدوح کو درجہ شہادت پر فائز ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ (ایضاً ج۹ ص۲۴۴) ۵۲۳ھ میں باطنی فدائیوں نے شیخ عبدالطیف بن خجندی اصفہانی کو جو شافعی مذہب کے ایک ممتاز عالم تھے۔ قتل کر کے اپنی بداعمالیوں میں اضافہ کیا۔ ۵۲۴ھ میں انہوں نے مصر کے عبیدی تاجدارابو علی آمر باحکام اللہ کو خود اس کے دارالسطنت قاہرہ میں عالم فنا میں پہنچا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابن صباح کے پیرو اسے اسماعیلیہ کا جائز وارث وامام تسلیم نہیں کرتے تھے۔ بلکہ وہ نزار کی امامت کے معتقد تھے۔ جیسے بعض سازشوں کی بنا پر مصر کی خاندانی سلطنت حاصل نہ ہوسکی تھی۔ ۵۲۶ھ میں بنو فاطمہ میں سے ابوہاشم نام ایک بزرگ نے شہر گیلان میں امامت کا دعویٰ کیا۔بہت سے آدمیوں نے اس کی متابعت کی۔ کیا بزرگ نے انہیں کہلا بھیجا کہ میری موجودگی میں اس قسم کا دعویٰ تمہیں کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ اس لئے بہتر ہے کہ اس خطرناک دعویٰ سے باز آجاؤ۔ ابوہاشم نے اس پیغام کا جواب درشت لہجہ اور عتاب آمیز الفاظ میں دیا۔کیا بزرگ نے ان پر لشکر کشی کی اور شکست دے کر گرفتار کر لیا۔باطنی بھیڑیوں نے ان کی مشکیں کس لیں۔اور زندہ آگ میں جلا دیا۔(سنین اسلام جلد ۲ص۱۱۳) اسی سال قاضی ابوسعید ہردی باطنیوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ ۵۲۷ھ میں علامہ حسن گورگان بھی ذبح کر دیئے گئے۔ ان کے باطنی قاتل کا نام ابومنصور ابراہیم خیرآبادی تھا۔۵۲۸ھ میں ابوعبداللہ نام ایک باطنی نے سید دولت شاہ علوی حاکم اصفہان کو نہنگ اجل کے حوالے کیا۔اسی سال شمس تبریزی نام ایک عالم نے دو باطنیوں کے ہاتھ سے جن کو ابوسعید قائنی اور ابوالحسن فرمانی کہتے تھے۔ جرعہ مرگ نوش فرمایا۔
نصاری کو دمشق پر قبضہ دلانے کی باطنی سازش
بہرام نام ایک سیاہ دل باطنی بغداد میں اپنے حقیقی مسلمان ماموں ابراہیم اسد آبادی کو جام شہادت پلا کر شام بھاگ گیا تھا۔ وہاں جا کر وہ اسماعیلی مذہب کے مناد کی حیثیت سے کام کرنے لگا اور ادھر ادھر کے اوباشوں اور لفنگوں کو جمع کر کے اپنی ایک جماعت بنا لی۔چونکہ باطنیوں کا معمول تھا کہ ذرا کسی مسلمان سے ان بن ہوئی اور اہل ایمان کے خلاف جورو تطاول کا طوفان برپا کر دیا۔ اس لئے حلب کے حاکم ایلغازی کو مسلمانوں کی جان ومال کے تحفظ کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ بہرام کو دشمن بنانے سے احتراز کرئے اور میل ملاقات کا سلسلہ قائم رکھے۔ اسی خیال کے ماتحت ایلغازی نے بہرام سے درخواست کے بموجب طغتکین عامل دمشق کے پاس سفارش کر دی کہ وہ بہرام کو دمشق میں قیام کرنے کی اجازت دے۔طغتکین نے بہرام کو دمشق آنے کی اجازت دی۔ابوطاہر بن سعد مرغینانی نے بھی بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے بجائے بہرام اور اس کے پیرووں کو ہر طرح کی اخلاقی اور مالی امداد دی۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہرام بڑا زور پکڑ گیا اور اس کی جمعیت پہلے سے دو چند ہوگئی۔ گو حکام نے بہرام اور اس کی جماعت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ۔لیکن عامۃ المسلمین جو فرقہ اہل سنت وجماعت کے پیرو تھے۔ باطنیوں کی آمد سے سخت کبیدہ خاطر تھے۔ مسلمانوں نے باطنیوں کا مقاطعہ کر کے ان کا بری طرح قافیہ تنگ کررکھا تھا اور یہ اعداء اللہ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ بہرام نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کے مقاطعہ اور عدم تعاون نے باطنیوں کو بہت کچھ پریشان کر رکھا ہے۔ تو طغتکین سے کہنے لگا کہ ازراہ کرم مجھے شہر سے باہر کوئی قلعہ دے دو۔ تاکہ میں اور میرے پیرو اس میں اطمینان کی سانس لے سکیں۔ طغتکین نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ قلعہ بانیاس باطنیہ کو دے دیا جائے۔بہرام دمشق میں اپنے مذہب کی دعوت کے لئے ایک باطنی کوجسے مزدقانی کہتے تھے۔ چھوڑ کر قلعہ بانیاس میں چلا گیا۔ قلعہ میں پہنچ کر اس کی قوت اور شوکت میں مزید ترقی ہوئی اور گردونواح کے تمام باطنی اس قلعہ میںآ جمع ہوئے۔تھوڑے دن کے بعد بہرام نے پہاڑی علاقہ میں قدموس اور بعض دوسرے قلعوں پر بھی قبضہ جما لیا۔ بعلبک کے مضافات میں وادی تیم کے اندر ایک بڑی آبادی تھی۔جس میں نصیریہ،دروس،مجوس وغیرہ مختلف مذاہب وادیان کے لوگ آباد تھے۔ان کے امیر کا نام ضحاک تھا۔جب بہرام کی جمعیت بڑھ گئی تو وہ ۵۲۲ھ میںضحاک پر چڑھ دوڑا۔گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ بہرام مارا گیا اور اس کے پیرو بری طرح ہزیمت کھا کر سخت بدحالی کے ساتھ قلعہ بانیاس میں واپس آئے۔ اب اسماعیل نام ایک باطنی اس کا جانشین ہوا۔ مزدقانی نے اسماعیل کی ہر طرح سے اعانت
کی۔ اس اثناء میں مزدقانی نے بھی دمشق میں بہت سے جہلائے مذہب کو مرتد کرکے بہت بڑا جتھا بنا لیا۔ اور شہر میں بڑا اثر ورسوخ پیدا کیا۔ یہاں تک کہ تاج الملوک حاکم دمشق سے بھی اس کا حکم فائق رہتا تھا۔ یہ وہ دن تھے جبکہ صلیبی لڑائیاں برپا تھیں۔ اور یورپ نے ہر ملک سے فوجوں کے بادل اٹھ اٹھ کر اسلامی ممالک کی طرف بڑھ رہے تھے۔ فرنگی بہت دفعہ دمشق پر حملہ آور ہوئے ۔مگر ہر دفعہ مار مار کر ہٹا دیئے گئے۔ اب مزوقانی کی شیطنت دیکھو کہ اس مار آستین نے فرنگیوں سے ساز باز کر کے ان سے کچھ قول و اقرار لیا۔ اوروعدہ کیا کہ تم چپ چاپ دمشق آ جاؤ۔ میں تم کو یہاں قابض کرا دوں گا۔نصرامہ عمل و دخل کے لئے جمعہ کا دن مقرر ہوگیا۔ اب مزدقانی نے یہ انتظام کیا کہ شہر کی باطنی جمعیت کے علاوہ قلعہ بانیاس سے بھی بہت بڑی جمعیت طلب کی اور کہلا بھیجا کہ باطنی لوگ نماز جمعہ کے وقت چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں منقسم ہو کر تمام دروازوں سے شہر میں آجائیں۔تجویزیہ کی کہ جب مسلمان نماز جمعہ کے لئے شہرکی جامع مسجدؤں میں جا چکیں تو باطنی تمام مسجدوں کا محاصرہ کر لیں۔اتنے میں نصاریٰ آ کر شہر پر قبضہ کر لیں۔ اتفاق سے تاج الملوک کو اس سازش کو اطلاع ہو گئی۔اس نے مزدقانی کو بلا بھیجا اور تخلیہ میں لے جا کر اس کی گردن ماردی اور اس کے سر کو قلعہ کے دروازہ پر لٹکا کر منادی کرا دی کہ جو باطنی ملے اسے موت کی گھاٹ اتار دیا جائے۔ مسلمان پہلے ہی باطنی اعدائے دین کے خلاف دانت پیس رہے تھے۔باطنیوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ اس دن سات ہزار باطنی عالم فنامیں پہنچائے گیے۔یہ دیکھ کر اسماعیل باطنی حاکم قلعہ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ مسلمان قلعہ بانیاس پر چڑھ دوڑیں گے اور باطنیوں کو ہلاک کر کے قلعہ چھین لیں گے۔اس نے نصاریٰ کے پاس پیغام بھیج کر قلعہ بانیاس ان کے حوالے کر دیا اور خود اپنی جمعیت لے کر کسی دوسری جگہ چلا گیا۔ اب فرنگی شہر دمشق سے بالکل قریب آگئے اور شہر پر حملہ کرنے کے لئے بہت بڑی جمعیت فراہم کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر تاج الملوک نے عربوںاور ترکمانوں کو مقابلہ کے لئے جمع کیا ۔ آٹھ ہزار سواروں کی جمعیت فراہم ہوئی۔ نصاریٰ ماہ ذی الحجہ میںشہر کی طرف بڑھے۔ اور دمشق کو محاصرہ میں لے لیا۔ لیکن مسلمانوں نے انہیں بہت جلد شہر سے مار بھگایا۔ بیشمار فرنگی ہلاک ہوئے ۔تھوڑے دن کے بعد قلعہ بانیاس بھی ان سے چھین لیا گیا۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ ص۲۵۰)
خلیفہ بغداد کا جاں گسل حادثہ شہادت
باطنی چیرہ دستیوں کا سب سے ہولناک منظر خلیفہ مسترشد باللہ عباسیؒ کا حادثہ قتل ہے۔ یہ خلیفہ ۵۱۲ھ میں مسند آرائے خلافت ہوا ۔بڑا جری، پرشکوہ ،باہیبت اور صاحب الرایٔ تاجدار
تھا۔ امور خلافت کو نہایت حسن اسلوب سے انجام دیا۔ ارکان شریعت کو مضبوط اور سنن نبویہ کا احیاء فرمایا۔ خود بہ نفس نفیس شریک جنگ ہوتا تھا۔ ابتداء میں بہت موٹا لباس پہنتا تھا۔ نہایت عابد وزاہد تھا۔ اپنے محل سرائے میں عبادت کے لئے ایک جگہ بنا رکھی تھی ۔ جونہی امور خلافت سے فارغ ہوتا عبادت خانہ میں آ کر یاد الٰہی میں مصروف ہو جاتا۔ اس کے علم و فضل کی نسبت اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ علامہ ابن الصلاح اور امام تاج الدین سبکی نے اس کو کتاب طبقات الشافعیہ میں زمرہ علماء میں شمار کیا ہے۔ شیخ ابوبکر شاشی نے فقہ شافعی ؒ میں ایک کتاب تصنیف کر کے خلیفہ مسترشدؒ کے نام نامی سے معنون کی اور عمدۃ الدنیا و الدین کا خطاب پایا۔ نہایت خوشخط تھا۔ اس فن میں تمام خلفاء بنوعباس سے گوئے سبقت لے گیا۔اکثر کاتبوں کو اصلاح دیا کرتا اور رعایا کا بڑا محبوب تھا۔ اس کی جرأت ،ہیبت،شجاعت اور اس کے حملے مشہور ہیں۔ ۵۲۹ھ میں خلفیہ اور سلطان مسعودابن سلطان محمد بن سلطان ملک شاہ میں کسی بات پر ان بن ہوئی اور یہاں تک مخالفت بڑھی کہ حرب و قتال تک نوبت پہنچی۔ وایمرج کے مقام پر دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے۔ خلیفہ کی فوج کے بڑے بڑے سپہ سالار سلطان سے مل گئے۔فوج نے نمک حرامی کی اور اکثر نے ساتھ چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلیفہ کو ہزیمت ہوئی۔ لیکن خلیفہ میدان جنگ میں نہایت پامردی سے ڈٹا رہا۔ بھاگ کر جان بچانا قطعاً گوارہ نہ کیا۔آخر خلیفہ اور قاضی القضاۃ علماء اور عمائد سلطنت گرفتار ہو گئے۔ اور ہمدان کے پاس ایک قلعہ میں قید کر دیئے گئے۔ جب یہ وحشت ناک خبر بغداد پہنچی تو اہل شہر اپنے سروں پر خاک ڈالتے اور نالہ وشیون کرتے ہوئے نکلے اور عورتیں سر کے بال کھولے اپنے محبوب اور ہردل عزیز خلیفہ کے لئے بین کرتی پھریں۔ اس روز اضطراب کا یہ عالم تھا کہ بغداد کی کسی مسجد میں نماز باجماعت ادا نہ ہوئی۔ اس روز عراق میں سخت زلزلہ آیا۔ لوگ اس سے اور بھی خوف زدہ ہوئے۔ اس کے بعد پانچ چھ مرتبہ زلزلہ کے زبردست جھٹکے محسوس ہوتے رہے۔ سلطان سنجر نے اپنے بھتیجے سلطان مسعودکو لکھا کہ اس خط کے پہنچتے ہی تم خود خلیفہ کے پاس جاؤ اور زمین خدمت چوم کر اس سے عفو تقصیر کی درخواست کرواور اپنے آپ کو مجرم اور گنہگار ظاہر کرو۔ جس روز سے تم نے خلیفہ کو قید کیا۔ آندھی، بجلی اور زلزلے برپا ہیں۔فوجوں میں سخت تشویش ہے۔بلاد وامصار میں انقلاب عظیم رونما ہے ۔ یہ ایسی ارضی و سماوی علامتیں ہیں کہ جن کے دیکھنے کی مجھ میں تاب نہیں۔ مجھے خدائے قہار کی طرف سے اپنی اور تمہاری جان کا خوف ہے۔ پھر بغداد کی جامع مسجدوں میں نماز جمعہ کا ادا نہ کیا جانا اور خطبوں کا موقوف رہنا کتنا بڑا غضب ہے۔ میں اس بار عظیم کا کسی طرح متحمل نہیں ہوسکتا۔بہتر ہے کہ تم اپنی غلطی کی فوراً تلافی کرو اور خلیفہ المسلمین کو نہایت عزت
واحترام کے ساتھ ان کے مقام پر پہنچاؤ اور جیسا کہ ہمارے آبائواجداد کا معمول رہا ہے۔ خلیفہ کے سامنے جا کر زانوئے ادب تہ کر دو۔ سلطان مسعود نے اپنے چچا کے حکم کی فوراًتعمیل کی۔ خلیفہ کے پاس جا کر زمین خدمت چومی اور گڑگڑا کر معافی مانگی۔ اتنے میں سلطان سنجر نے امیر قزان کو ایک دستہ فوج کے ساتھ اس غرض سے سلطان مسعود کی طرف روانہ کیا کہ وہ سلطان مسعود کو سمجھا بجھا کر خلیفہ کی واپسی کی کوشش کرئے۔باطنی لوگ بہت دن سے خلیفہ المسلمین کی جان کے درپئے تھے۔ لیکن کوئی موقع نہ ملتا تھا۔اس فوج میں جو سلطان سنجر نے روانہ کی۔ چودہ یا سترہ باطنی بھی شامل ہوگئے۔ سلطان مسعود نے خلیفہ اور اس کے ارکان سلطنت کونہایت عزت و احترام کے ساتھ سوار کرا کے بغداد کی طرف روانہ کرنے کا انتظام کیا۔ ابھی چلنے ہی والے تھے کہ اتنے میں خبر پہنچی کہ امیر قزان سلطان سنجر کے قاصد کی حیثیت سے آرہا ہے۔ خلیفہ نے اس کی آمد کے انتظار میں تھوڑی دیر کے لئے روانگی ملتوی کر دی۔سلطان مسعود اور اس کے امراء امیر قزان کی ملاقات میں مصروف ہوگئے۔ خلیفہ کا خیمہ لشکر سے الگ ایستادہ تھا۔باطنی خیمہ میں گھس کر خلیفہ پر حملہ آور ہوئے اور چاروں طرف سے چھریوں کے وار کرنے لگے۔خلیفہ شہید ہوگیا۔ ان نابکاروں نے نہایت بے رحمی سے خلیفہ کی جان لے لی۔اس کے بعد اپنی بہیمیت کا یہ ثبوت دیا کہ ناک اورکان بھی کاٹ لئے اور خلیفہ کو برہنہ چھوڑ دیا۔یہ خوفناک حادثہ۱۷ ذوالقعدہ ۵۲۹ھ کے دن رونماہوا۔لشکر کو اس حادثہ کی اس وقت اطلاع ہوئی جب وہ اپنا کام کر چکے تھے۔آخر سب حملہ آور گرفتار ہو کر قتل کردیئے گئے۔سلطان مسعود تعزیت کے لئے بیٹھا ۔لوگ اتنا روئے کہ شور وواویلا سے ہنگامہ قیامت برپا ہوگیا۔ جب یہ ہولناک خبر بغداد پہنچی تو وہاں کہرام مچ گیا۔ارباب ایمان پر بارالم ٹوٹ پڑا۔ لوگ پا برہنہ کپڑے پھاڑتے اور عورتیں بال بکھیرے گالوں پر طمانچے مارتی ہوئی نکلیں اور شہر میں ہر جگہ صف ماتم بچھ گئی۔
(تاریخ الخلفاء ص۳۵۲ حالات مسترشد باللہ)
خلیفہ مسترشد باللہ کی شہادت کے بعد اس کے فرزند راشد باللہ نے فوج لے کر باپ کا انتقام لینے کے لئے ۵۳۱ھ میں قلعہ الموت پر چڑھائی کی۔ لیکن اثنائے راہ میں دوپہر کے وقت جبکہ وہ اپنے خیمہ میں استراحت فرما تھا۔چار فدائیوں نے خیمہ میں گھس کر اس کا کام تمام کردیا۔قلعہ الموت میں آٹھ روز تک اسی قتل کی خوشی منائی گئی۔ شب وروز ڈھول اور جھانجھیں بجاکیں۔ (الکامل فی التاریخ ج۹ ص۳۰۵)انہی ایام میں دو باطنیوں نے جو محمد کرخی اور سلیمان قزوینی کے نام سے موسوم تھے۔ شہرقزوین کے مفتی اعظم شیخ حسن ابوالقاسم کرخی کو شہید کر کے شہر خموشاں میں بھجوا دیا۔(ایضاً ج۹ ص۳۱۵)کیا بزرگ چودہ برس دومہینہ حکومت کر کے ۵۳۲ھ میں مرگیا۔
۲… محمد بن کیا بزرگ امید
کیا بزرگ کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا محمد جانشین ہوا۔ یہ بالکل جاہل و ناخواندہ تھا۔ لیکن باطنی الحاد و زندقہ کی پیروی میں ابن صباح اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتا تھا۔اس کے عہد میں بھی خونریزی علیٰ حالہا جاری رہی۔ فدائی لوگ جہاں کہیں کسی مسلمان کو پاتے اس کو لوٹ کر قتل کر دیتے۔لیکن یہ لوگ مقتولین کے مال و متال پر خود ہرگز تصرف نہیں کرتے تھے۔ بلکہ جو کچھ ہاتھ لگتا۔شیخ الجبل کے خزانہ عامرہ میں پہنچا دیتے تھے۔اوریہ الفاظ ہر وقت ان کی زبان پر تھے کہ ہم دنیائے فانی اور اس کی لذات فانیہ کے خواہشمند نہیں ہیں۔ بلکہ ہم طالب مولیٰ ہیں۔ صفحہ ہستی کو مخالفوں کے خاروجود سے پاک کرنا ہمارا نصب العین ہے۔ چونکہ قہستان کے قاضی صاحب ہمیشہ باطنیہ کے کفر کے فتوے لکھا کرتے تھے اس لئے ۵۳۳ھ میں ابڑہیم وامغانی نام ایک باطنی نے ان کو وحشت سرائے دنیا سے عالم عقبیٰ میں بھیج دیا۔ تھوڑے دن کے بعد اسی باطنی نے دارلسلطنت جارجیا(گرجستان)کے قاضی تفلیس کو جام شہادت پلایا۔۵۳۴ھ میں ایک باطنی اسماعیل خوارزمی نے ہمدان کے قاضی صاحب کی جان لی۔رحمہم اللہ۔
باطنی مقتولین کی کھوپڑیوں کا منارہ
۵۳۴ھ میں باطنیوں نے سلطان سنجر کے خادم خاص جوہر کو قتل کر کے شرف شہادت پر مشرف کیا۔ جوہر کو سلطنت میں بڑے بڑے اختیارات حاصل تھے۔ تمام فوجی افسر اس کی خدمت کرتے تھے۔بڑے بڑے امراء رؤساء اس کے دروازے پر کھڑے رہتے تھے۔ سلطان نے اپنی مملکت کا بہت سا حصہ اس کی ملک کر دیا تھا۔ عباس حاکم رے جوہر ہی کا غلام تھا ۔چند باطنی زنانہ لباس پہن کر مستغیث کی حیثیت سے جوہر کے دولت کدہ پر آئے۔جوہر ان کو ستم رسیدہ عورتیں سمجھ کر فریاد رسی کے لئے کھڑا ہوگیا۔ وہ موقع پا کر پل پڑے اور چھریاں مار کر ٹھکانے لگادیا۔جوہر کا غلام عباس فوج لے کر باطنیوں پر چڑھ دوڑا۔جو باطنی ملا۔ اس کو ہلاک وپامال کیا۔ عباس نے باطنیہ کے قلع قمع میں جو کام کیا شاید اس سے بڑھ کر کسی اورسے نہ بن پڑاہوگا۔ عباس نے اپنے آقا کے قتل کئے جانے کے بعد باطنیوں کی سرکوبی و پامالی ہی کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے لیا۔ چنانچہ تادم واپسی انہی کے خلاف غزا میں مصروف رہا۔ عباس نے ان کی آبادیوں کو لوٹ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
(ایضاًج۹ ص۳۱۵)
ایک روایت میں ہے کہ امیر عباس نے ہزار ہاباطنی قتل کئے اوران کی کھوپڑیوں کا مینار بنوایا۔جس پر مؤذن اذان دیتا تھا۔ اسی سال باطنیوں نے عین الدولہ خوارزم شاہ کی جان لی۔
۵۳۵ھ میں ایک باطنی نے جس کو حسین کرمانی کہتے تھے۔ امیر ناصر الدولہ بن مہلہل کو خون ہلاک سے گلگوں کیا۔ ۵۳۷ھ میں امیر کرشاشب والی کرمان کر جرعہ شہادت پلایا۔۵۳۸ھ باطنیوں نے سلطان محمد کے پوتے شاہزادہ داود بن سلطان محمود کو چھریاں مار مار کر مار ڈالا۔
امرائے اسلام کے ہاتھوں باطنیوں کی رسوائی وبربادی
محمد بن کیا بزرگ کے آخری ایام میں دولت ہی میں باطنی ترقی کا دورختم ہوگیا اور زوال و انحطاط نے اس کی جگہ لے لی۔ماہ ربیع الآخر ۵۴۹ھ میں سات ہزار اسماعیلی قہستان سے عازم خراسان ہوئے اوروہاں کے حکمران فرخ شاہ بن محمود کاشانی سے چھیڑ خانی شروع کر دی۔ امیر فرخ شاہ نے اپنی حربی کمزوری کا احساس کر کے امیر محمد بن انز کے پاس جو خراسان کے اکابر امراء میں ایک بڑا بہادر حکمران تھا۔باطنیہ کے قلع قمع میں اشتراک عمل کرنے کا پیغام بھیجا۔محمد بن انز اپنی فوج لے کر آپہنچا۔اب فرخ شاہ اور ابن انز نے مل کر باطنیوں کا مقابلہ شروع کیا اور مارتے مارتے ان کا بری طرح صفایا کیا۔ باطنیہ کے تمام سردار مارئے گئے اور لشکر بھی تباہ ہو گیا۔ بقیۃ السیف میں اکثر باطنی قید کر لئے گئے۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ص۳۹۹)
اسی طرح ۵۵۲ھ میں رستم بن علی شاہ مازندران نے اپنی فوج کے ساتھ کوچ کردیا۔ لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ کہاں کا قصد ہے؟۔ شاہ مازندران تنگ راستوں اور غیرمعروف وادیوں میں ہوتا ہوا قلعہ الموت کے پاس جا پہنچا۔ اور باطنیوں کی آبادی میںپہنچ کر قتل و نہب کا بازار گرم کردیا۔ باطنی مقابلہ پر آئے۔ لیکن ذلیل ہو کر پسپا ہوگئے۔۔رستم شاہ کو بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ اس کے علاوہ باطنی عورتیں اور بچے بھی قید کر لئے اور ان سب کو طبرستان لا کر برسر بازار فروخت کیا۔ لیکن اسی سال عالم اسلام میں اس ہولناک خبر سے سناٹاچھا گیا کہ باطنیوں نے کراسان کے عازمان حج کو نہایت بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حاجیوں کا قافلہ خراسان سے روانہ ہوا تھا۔جب یہ حضرات بسطام سے آگے بڑھے تو باطنیوں کی ایک زبردست جمعیت سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ باطنی کثیرالتعداداور سامان جنگ سے آراستہ تھے۔ انہوں نے بے دریغ عازمان حج کو قتل کرنا شروع کیا۔ یہ دیکھ کر حجاج نے بھی مقابلہ کیا۔ بہت دیر تک لڑائی ہوتی رہی ۔جانبین سے بے شمار آدمی مارئے گئے۔آخر عازمان حج مغلوب ہوگئے اور بقیۃالسیف نے امان مانگی۔باطنیوں نے ہتھیار لے کر ان کو قید کرلیا۔ پھر ایک ایک کر کے ان قیدیوں کی گردن مارنی شروع کی۔چند آدمی بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ باقی سب عفریت اجل کے حوالے کر دیئے گئے۔ اس لڑائی میں خراسان کے بہت سے علماء صلحا ء اور زہاد جرعہ شہادت پی کر
ریاض الفردوس کو چلے گئے۔ اس میدان میں جہاں شہداء بے گوروکفن پڑے تھے۔ دوسرے دن ایک پیر فانی آیا اور مقتولین و مجروحین میں چکر لگا کر کہنے لگا۔اے ایمان دارو !اے حاجیو! میں مسلمان ہوں ۔ملحد و بے دین لوگ چلے گئے۔جو کوئی پانی پینا چاہے۔ اسے پلا سکتا ہوں اور ہر طرح خدمت کو حاضر ہوں۔ ان میں سے جو جو ایسے مجروح جن میں کچھ رمق باقی تھی اس سے ہم کلام ہوئے۔ اس بڈھے بھیڑیے کی تیغ جفا کا نشانہ بن گئے۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ ص۴۱۷)
باوجودیکہ باطنی اشقیاء امرائے اسلام کے ہاتھوں ہر جگہ ذلیل و پامال ہو رہے تھے۔ لیکن شر انگیزی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور مسلمانوں کی ایذارسانی اور جانستانی ان کی زندگانی کا اہم ترین مقصد تھا۔ اس لئے فتنہ و فساد سے کسی طرح باز نہیںآتے تھے۔ ان کی فتنہ انگیزی کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔ قہستان میں ترکمانوں کا ایک قبیلہ بودوباش رکھتا تھا۔۵۵۳ھ میں ایک ہزار سات سو باطنی اپنے قلعوں سے نکل کر اس قبیلہ پر حملہ آور ہوئے ۔اتفاق سے قبیلہ کا کوئی مرد اس وقت وہاں موجود نہیں تھا۔ باطنیوں نے وہاں پہنچ کر خوب لوٹ مچائی۔جس قدر اموال کو منتقل کرسکتے تھے۔ ان کو لے چلے اورباقی ہر چیز کو آگ لگا دی اور قبیلہ کی تمام عورتوں اور بچوں کو قید کرکے مراجعت کی۔ جب ترکمان واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ نہ کوئی مکان ہے نہ مکین اور نہ مال مویشی ہیں اور نہ اثاث البیت۔آخر معلوم ہوا کہ باطنی آکر لوٹ مار کر گئے۔ ترکمان ان کے تعاقب میں چلے اور ان کو ایسے وقت میں جا لیا۔جبکہ باہم مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے۔ ترکمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کر کے ہلہ بول دیا اور اس قدر تلوار چلائی کہ باطنیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کررکھ دیا۔ سترہ سو میں سے صرف نو باطنی بچے۔ باقی سب علف تیغ اہل اسلام بن گئے۔ ترکمان اپنے اہل وعیال اور مال و منال کو لے کر مراجعت فرما ہوئے۔(ایضاً ج۹ ص۴۲۵،۲۲۶) محمد بن کیا بزرگ چوبیس برس آٹھ مہینے حکومت کر کے ۵۵۶ھ میں راہی ملک عدم ہوا۔
۳…حسن بن محمد معروف بہ حسن ثانی
محمد بن کیا بزرگ کے بعد اس کا بیٹا حسن محمد بن معروف بہ حسن ثانی نے تاج حکمرانی سرپر رکھا۔یہ شخص چالاکیوں میں ابن صباح کا ہم پایہ تھا۔فرقہ اسماعیلیہ میں حسن ثانی کی اتنی عزت تھی کہ اس کا نام زبان پر لانا بے ادبی خیال کیا جاتا تھا۔ اس لئے نام کی جگہ’’ علی ذکرہ السلام‘‘ کہتے تھے۔ اس نے مسند نشینی کے بعد ۶۷ رمضان ۵۵۷ھ کو دربار عام کرنے کا اعلان کیا اور ان امراء اور ممتاز لوگوں کے نام جو اس کی قلمرو میں سکونت پذیر تھے۔ حکم بھیجا کہ تمام لوگ بلدۃ الاقبال میں جمع ہوں۔(باطنیوں نے قلعہ الموت کا نام بلدۃ الاقبال رکھ دیا تھا) چنانچہ دور و نزدیک کے تمام
بڑے بڑے باطنی جمع ہوئے۔قلعہ کی عید گاہ میں ایک منبر رکھا گیا۔منبر کی چاروں طرف چار علم سرخ، سبز،زرد، اور سفید رکھے گئے۔ حسن ثانی نے منبر پر چڑھ کر ایک خط نکالا اورکہنے لگا کہ یہ خط امام مستور حضرت امام مہدی علیہ السلام نے میرے نام بھیجا ہے۔ اس خط کا مضمون یہ تھا کہ:
’’حسن ہمارا نائب ، ہمارا ایلچی،ہمارا وزیر ہے۔جو لوگ ہمارے مذہب کے پیرو ہیں وہ ہر بات میں اس کی اطاعت کریں۔ خواہ وہ بات روحانی ہو یا جسمانی۔ اس کے حکم کو حکم خدا ور وحی منطوق یقین کریں۔ جس امر سے باز رکھے۔ اس سے اجتناب کریں۔ جس کام کا حکم دے۔ اس کی بلاتامل تعمیل کریں۔ اس کے امرونہی کو یوں سمجھیں کہ گویا ہم بذات خود امرونہی کر رہے ہیں۔‘‘
یہ نامہ پڑھ کر حسن کہنے لگا کہ ان لوگوں پر فضل و رحم کے دروازے کھل گئے ہیں جو میری اقتداء و امتثال امر کریںگے۔ میں امام زمان ہوں۔ میں نے آج کے دن سے تمام تکالیف شرعیہ کو خلق خدا سے اٹھا دیاہے۔ احکام شریعت نابود کردیئے ہیں۔یہ زمانہ قیام قیامت کا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ باطن میں خدا کی محبت رکھیںاور ظاہر میں جو چاہیں کریں۔ کوئی پابندی نہیں۔حسن بن صباح نے اپنے باطنی مسلک میں بعض ظاہری احکام بھی داخل کررکھے تھے۔ چنانچہ یہ لوگ روزہ رکھتے تھے۔ حسن ثانی نے منبر سے اتر کر فریضہ صوم توڑ دیا۔ دوسرے لوگوں نے بھی اس کی پیروی میں روزہ افطار کردیا۔ تمام شرعی قیود اٹھ گئے۔ عید کی سی خوشی منائی گئی اور اس دن کا نام عید القیام رکھا گیا۔ اکثر مؤرخوں کے قول کے بموجب یہ وہی دن تھا جس میں امیر المومنین علی مرتضیٰ و کرم اللہ وجہہ نے کوفہ مین ابن ملجم شقی کے ہاتھ سے جام شہادت نوش فرمایا تھا۔ باطنیہ کے نزدیک حضرت علی مرتضیٰؓ کا یوم شہادت بڑا خوشی کا دن تھا۔ کیونکہ ان کے زعم میںقید خانہ دنیا سے چھوٹ کر عالم عقبیٰ میں جانا ارواح کاملہ کی لذت اور خوشی کا باعث ہے ۔باطنی لوگ قیود مذہب سے پہلے ہی آزاد تھے۔ اس دن سے بالکل مطلق العنان ہو گئے۔ سب لوگوں نے سارا دن طرح طرح کی آزادیوں اور شہوت پرستیوںمیں بسر کیا۔چونکہ ہر قسم کی مذہبی پابندیاں اٹھ چکی تھیں ۔باطنیہ میںفسق و فجور کی گرم بازاری ہوئی۔شراب اور زناکاری گھر گھر پھیل گئی۔ باطنی لوگ حسن ثانی کو قیامت سے بھی تعبیر کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے اعتقاد میں قیامت اسی وقت قائم ہوگی ۔جبکہ رسوم شرعیہ اٹھ جائیں گی اور حسن ثانی نے تمام تکلیفات شرعیہ کا برطر ف کر دیا تھا۔ چنانچہ کسی باطنی شاعر کا قول ہے:
برداشت غل شرع بتائید ایزدی
مخدوم روزگار علیٰ ذکرہ السلام
حسن ثانی چار برس حکومت کر کے ۵۵۹ھ میں اپنے سالے حسن نامور کے ہاتھ سے مارا گیا۔
(سنین اسلام جلد ۲ص ۱۲۰،۱۲۳)
۴…محمد ثانی بن حسن
محمد ثانی بن حسن ثانی نے عنان حکومت ہاتھ میںلیتے ہی اپنے باپ کے قصاص میں قاتل اور اس کے خاندان کے تمام زن ومرد کو ہلاک کرا دیا۔اس کے عہد کا ایک قصہ مشہور ہے کہ امام فخر الدین رازیؒ وعظ میں فرمایا کرتے تھے۔ خلافاًللاہ لاسما عیلیہ لعنہم اللہ وخذلھم اللہ! (اسماعیلی اس مسئلہ کے خلاف ہیں۔ خدا ان پر لعنت کرے اور ان کو ذلیل کرے)جب یہ خبر محمد ثانی کو پہنچی تو اس نے ایک فدائی کو رے بھیجا۔یہ فدائی امام صاحب کے حلقہ درس میں شامل ہوگیا اور برابر سات مہینہ تک دوسرے طلبہ کی طرح درس میں شریک ہوتا رہا۔ سات مہینہ کے بعد اس نے ایک دن امام کو تنہا پایا۔ گرا کر سینہ پر چڑھ بیٹھا اور خنجر گلے پر رکھ دیا۔ امام صاحب سخت پریشان تھے کہ میرے شاگرد نے یہ کیا حرکت کی اور کیوں کی؟۔ امام نے خوفزدہ ہوکر پوچھا۔ آخر تم کیا چاہتے ہو؟۔باطنی فدائی نے کہا سیدنا محمد حسن بعد سلام فرماتے ہیں کہ عوام کے کسی مخالفانہ قول کی ہم کو کچھ پروا نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ عامۃ الناس کی باتیں نقش برآب کا حکم رکھتی ہیں۔مگر آپ جیسے فاضل یگانہ کا ایک ایک مخالفانہ لفظ ہمارے لئے تیر ونشتر ہے۔کیونکہ آپ کا کلام صفحہ روزگار پر ہمیشہ باقی رہے گا۔دوسرے ہمارے بادشاہ نے آپ سے التماس کی ہے کہ آپ ہمارے قلعہ الموت میں تشریف لا کر ملاقات فرمائیں۔ امام فخر الدینؒ نے فرمایا کہ میں قلعہ تو نہیں جا سکتا ۔البتہ یہ وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کوئی کلمہ تمہارے بادشاہ کے خلاف میری زبان پر نہ آئے گا۔ اس کے بعد فدائی امام صاحب کے سینہ سے اترا اور گلے سے خنجر ہٹا کر کہنے لگاکہ تین سو مثقال سونا اور دو یمنی چادریں میرے حجرے میں رکھی ہیں وہ آپ منگا لیں۔ سیدنا محمد بن حسن کی طرف سے یہ ایک سال کا وظیفہ ہے اور آئندہ بھی اسی قدر تنخواہ رئیس ابوالفضل کے توسط سے آپ کو ملتی رہے گی۔ یہ کہہ کر حجرے سے نکلا اور چلا گیا۔ امام زاریؒ نے آخر تک اس عہد کو نباہا۔ باطنیہ کے متعلق امام صاحب کے طرز عمل میں جو غیر معمولی تغیر رونما ہوا۔ اس نے لوگوں میں اشتباہ پیدا کردیا۔ آخر ایک شاگرد نے اس تغیر کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ میں ان لوگوں کو برا کہنا پسند نہیں کرتاجن کے دلائل خاردار اورارادے بہت تیز ہیں۔
(نظام الملک بحوالہ نگارستان صفحہ ۲۳۳)
لیکن میرے خیال میں یہ قصہ بالکل جھوٹ ،افترااور من گھڑت ہے۔اس کا واضع امام زاریؒ کا کوئی عدو یا اہل حق کا دشمن ہے ۔ جس نے اکابراسلام کو بدنام کرنے کے لئے ایسا مضحکہ خیز
افسانہ تراشا۔ہمارے آئمہ مہتدین ایسے کمزور دل نہیں تھے کہ جان بچانے کی خاطر باطل سے دب جاتے۔ ان مقتدایان ملت پر ایسی بدگمانی کرنا سخت معصیت ہے۔جن کی تعلیم و تربیت نے سلطان صلاح الدین جیسے ناموران اسلام پیدا کئے۔
ہاں! مرزا غلام احمد قادیانی یا اس قماش کا کوئی اور مدعی تقدس ہوتا تو اس قسم کا واقعہ بالکل قرین قیاس تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ مسٹر ڈولی ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے جو مرزا قادیانی کو نیلی پیلی آنکھیں دکھائیں تو انہوں نے عدالت میں یہ اقرار نامہ لکھ دیا کہ آئندہ کسی کے خلاف دل آزار پیشین گوئی نہ کروں گا۔کسی کو کافر،دجال اور مفتری اور کذاب نہیںکہوں گا۔(مجموعہ اشتہارات ج۳ص۱۳۴) اور ڈپٹی کمشنر کے سامنے یہ بھی وعدہ کیا کہ آئندہ کسی کے حق میں سخت الفاظ بھی استعمال نہیں کروںگا۔
(ایضاً ج۲ص۴۷۰)
وزیر نظام الملک مسعودکی جانستانی
چونکہ باطنیوں کی سرسبزی اسلام اور اہل اسلام کے زوال و انحطاط کو مستلزم تھی- اس لئے شاہان اسلام ان دشمنان دین کے قلع قمع کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے۔ ۵۹۶ھ میں سلطان خوارزم شاہ نے جو خوارزم ،رے ، خراسان اور شہر ستان کے ان پہاڑی علاقوں کا بادشاہ تھا- جو نیشا پور اور خوارزم کے درمیان واقع ہیں- باطنیوں سے قتال کرنے کا عزم فرمایا۔ قزوین کے پاس باطنیوں کا ایک بڑا قلعہ تھا- جسے ارسلان کشاہ کہتے تھے۔ اس کو فتح کر کے قلعہ الموت کی تسخیر کے لئے روانہ ہوا۔ باطنیوں نے اس کے انتقام میں علامہ صدرالدین محمد بن وزان کو جو رے میں شافعی مذہب کے ایک بڑے امام تھے- جام شہادت پلادیا۔بادشاہ علامہ ممدوح سے بڑا مانوس تھا۔ خوارزم شاہ کو اس واقعہ ہائلہ کا اتنا صدمہ ہوا کہ الموت کا عزم فسخ کر کے خوارزم چلاگیا۔ باطنیوں نے اس کے ساتھ ہی خورزم شاہ کے وزیر نظام الملک مسعود بن علی پر حملہ کر کے اس کو خلد آباد کی طرف روانہ کر دیا۔بادشاہ نے وزیر کے بیٹے قطب الدین کو حکم دیا کہ وہ فوج لے کر جائے اور باطنیوں سے اپنے باپ کا انتقام لے۔ قطب الدین نے چھوٹتے ہی ان کے ایک قلعہ ترشیش کو جا گھیرا۔ جب باطنی محاصرہ سے تنگ آئے تو مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع کی۔ بہت دن تک نامہ و پیام ہوتا رہا۔لیکن قطب الدین نے کسی شرط کو منظور نہ کیا۔انہوں نے کہلا بھیجا کہ اگر محاصرہ اٹھا لوتو ایک لاکھ دینار حاضر کرتے ہیں۔چونکہ اس اثناء میں قطب الدین کو خود ہی واپس جانے کی بعض مجبوریاں پیش آ گئیں۔اس لئے ایک لاکھ دینار لے کر چلاگیا۔
(الکامل فی التاریخ ج ۱۰ ص۲۶۲)
وزیر نظام الملک مسعود بن علی بڑا صالح و متقی اور حسن سیرت میں یگانہ روزگار شافعی المذہب تھا۔پہلے شہر مرو میں صرف حنفی مذہب کی ایک عظیم الشان مسجد تھی۔جسے جامع حنفیہ کہتے تھے۔وزیر الملک نے ایک شافعی مسجد بھی تعمیر کرائی۔وزیر ممدوح نے خوارزم میں بھی ایک جامع مسجد اور شان دار مدرسہ تعمیر کرایا۔جس کے ساتھ ایک بہت بڑا کتب خانہ بھی وقف کیا۔ (ایضاًص۲۶۷) خوارزم شاہ کے حملہ کے چار سال بعد یعنی ۶۰۰ھ میں سلطان شہاب الدین غوری نے علائوالدین محمد بن ابوعلی کو جوبلاد غوریہ کا حاکم تھا۔ باطنیوں کے تہس نہس کا حکم دیا۔علائوالدین نے باطنیوں کے شہر قائن پر تاخت کی اور شہر کو محاصرہ میں لے لیا۔ محصورین کی حالت دن بدن مخدوش ہونے لگی۔ لیکن جب علائوالدین نے سلطان شہاب الدین غوری کے انتقال کی خبر سنی تو ساٹھ ہزاردنیار لے کر صلح کر لی۔یہاں سے محاصرہ اٹھا کر باطنیہ کے قلعہ کاخک پر جا پڑا اور اس کوفتح کر کے بہت سا مال غنیمت اور باطنی قیدیوں کے ساتھ مراجعت کی۔ (الکامل فی التاریخ ج۱۰ ص۲۸۸) یاد رہے کہ یہ سلطان شہاب الدین وہی سلطان شہاب الدین محمد غوری ہے۔ جس نے ۱۱۹۳ء میں راجہ پرتھی راج والیٔ دہلی واجمیر کو شکست دے کر ہندوستان میں اسلامی سلطنت قائم کی تھی۔
اتیمغش اور سلطان جلال الدین کے ہاتھوں باطنی ملاحدہ کی سرکوبی
جب سلاطین آل سلجوق کے نظام حکومت میں اختلال راہ پذیر ہوا اور اتیمغش نے رے اور ہمدان میں چتر حکومت سرپر رکھا تو اس نے سب سے پہلے اپنی عنان عزیمت باطنی ملاحدہ کی سرکوبی کی طرف معطوف فرمائی۔ چنانچہ ۶۰۲ھ میں باطنیوں کے ان قلعوں پر جو قزوین کے قرب ومجاورۃ میں تھے۔ لشکر کشی کی۔ بے شمار ملاحدہ کو قتل کیا اور پانچ قلعوں کو بزور تیغ فتح کر کے قلعہ الموت کا قصد کیا۔ مگر اتفاق سے ایسے عوائق وموانع حائل ہوئے کہ جن کی وجہ سے قلعہ مذکور مسخر نہ ہوسکا۔ اس کے بعد سلطان جلال الدین بن علاء الدین خوارزم شاہ نے ہندوستان سے واپس جاکر ۶۶۴ھ میں باطنیوں پر فوج کشی کی اور جس طرح اس گمراہ فرقہ نے امرائے اسلام کی جان لی تھی۔ اسی طرح اس نے بھی اس فرقہ کے سرداروں کو خوب تہ تیغ کیا اور ان کے آباد شہروں اور قلعوں کو تاخت وتاراج کیا۔ قلعہ الموت کے قرب وجوار کے قلعے اور نیز وہ باطنی قلاع جو خراسان میں تھے جلال الدین کے پیہم حملوں سے تباہ وویران ہوکر کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے۔ جس زمانہ سے تاتاریوں نے خروج کیا تھا۔ انہی ایام سے فرقہ باطنیہ نے بلاد اسلامیہ کی طرف قدم بڑھائے
تھے۔ مگر جلال الدین ان کی سرکوبی کے لئے پردہ غیب سے اٹھ کھڑا ہوا۔ جس کے پیہم حملوں نے باطنیوں کی کما حقہ گوشمالی کر دی اور جسم اسلام کے اس تکلیف ناسور کا قرار واقعی مداوا ہوگیا۔
(الکامل فی التاریخ ج۱۰ ص۳۱۹،۴۷۲)
۵…جلال الدین محمد ثانی ملقب بہ حسن ثالث
حسن ثانی بڑا عیاش اور فاسق حکمران تھا۔ اس لئے اس کے بیٹے جلال الدین محمد ثانی نے اس کو زہردے کر نذر اجل کردیا اور ۶۰۵ھ میں خود قلعہ المُوت میں تخت نشین ہوا۔ اس حکمران نے مسند حکومت سنبھالتے ہی باطنی طریقہ چھوڑ کر مذہب حق اہل سنت وجماعت کی پیروی اختیار کی۔ اسی بناء پر یہ تاریخ میں جلال الدین نو مسلم کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا بیان ہے کہ جلال الدین اوائل ہی سے فرقہ حقہ اہل سنت وجماعت کا پیرو تھا اور باپ کی بداعتدالیوں ہی نے اسے اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ جہاں تک جلد ممکن ہو تخت حکومت کو ایک لامذہب اور فاسد العقیدہ حکمران کے وجود سے پاک کر دے۔ اس نے تخت حکومت پر بیٹھتے ہی اپنے سنی المذہب ہونے کا اعلان کیا اور علمائے اہل سنت کو قلعہ المُوت میں مدعو کر کے ان کی خدمت گذاری کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ اس کے عہد حکومت میں مسجدیں آباد ہوئیں۔ تلاوت قرآن کا چرچہ ہوا۔ تعلیم قرآن کے لئے مدارس ومکاتب جاری ہوئے۔ جلال الدین نے اپنے ہمعصر سلاطین کے پاس ایلچی بھی بھیج کر اطلاع دی کہ میں باطنی طریقہ اور اسماعیلی مسلک سے بیزار اور شریعت اسلامیہ کا سچا پیرو ہوں اور اسی مسلک حق کو اپنی قلمرو میں رائج کر رہا ہوں کہ حضور سید عالمﷺ نے جس کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا بعض علمائے قزوین کو شک ہوا کہ شاید یہ شخص اس اعلان سے مسلمانوں کو دھوکا دے رہا ہو۔ جب جلال الدین کو اس کا علم ہوا تو اس نے علمائے قزوین کو قلعہ میں بلوایا اور مجمع عام میں حسن بن صباح کی تمام کتابیں جن میں کفر وزندقہ بھرا ہوا تھا جمع کر کے آگ میں جلوا دیں۔ یہ خدا پرست حکمران جس طرح خود نماز اور دوسرے ارکان اسلام کا پابند تھا۔ اسی طرح دوسروں کو بھی پابند بنانے میں کوشاں رہا۔ اس نے اپنی والدہ کو سمجھا بجھا کر مسلمان کیا اور والدہ اور بیوی کو اپنے قافلہ کے ساتھ حج بیت اللہ کے لئے مکہ معظمہ روانہ کیا۔ بغداد کے عباسی خلیفہ الناصر لدین اللہ نے اس قافلہ کی یہاں تک عزت کی کہ قلعہ المُوت کا علم شاہ خوارزم جیسے زبردست بادشاہ کے جھنڈے سے بھی آگے کر دیا۔ یہ قافلہ جس قلمرو سے بھی گذرتا وہاں کے حکمران بڑے اعزاز سے اس کا خیرمقدم کرتے۔ اس کے بعد خود جلال الدین نے اسلامی بلاد
وامصار کی سیاحت کی۔ ڈیڑھ سال کی مدت اسی سیاحت کی نذر کردی۔ دوران سفر میں جس ملک میں گیا بڑی عزت کی گئی۔ اس کی اسلام پرستی اور دینداری پر دنیائے اسلام کو تو خاص مسرت تھی۔ لیکن باطنی لوگ دشمن ہوگئے۔ تاہم گیارہ سال تک نہایت شان وشوکت سے حکومت کرتا رہا۔ آخر ۶۱۶ھ میں زہر دے کر دارالجنان میں بھجوادیا گیا۔ (الکامل فی التاریخ ج۱۰ ص۳۵۷) جلال الدین کا عہد حکومت عالم اسلام کے لئے پیام امن تھا۔ چنانچہ اس کے یازدہ سالہ ایام حکمرانی میں کوئی مسلمان کسی باطنی کے ہاتھ سے نذر اجل نہیں ہوا۔
۶…علاؤ الدین محمد ثالث
علاؤالدین محمد بن جلال الدین ملقب بہ محمد ثالث بعمر نوسال حکمران ہوا۔ ایک دفعہ اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں سخت بیمار ہوا۔ کسی ناتجربہ کار طبیب نے فصد تجویز کی۔ فصد میں اتنا خون لے لیا گیا کہ علاؤالدین کو مالیخولیا کی بیماری عارض ہوئی۔ اس بناء پر لہو ولعب اور بے فکریوں میں پڑ گیا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص مہمات سلطنت کے متعلق ایک لفظ بھی زبان پر لاتا تو فوراً خاک ہلاک پر ڈال دیا جاتا۔ اس وجہ سے عنان حکومت ارکان سلطنت کے ہاتھ میں تھی۔ عماید سلطنت نے جلال الدین مرحوم کے انتقال کے بعد شریعت اسلامی کی جگہ ازسرنو باطنی آئین ورسوم جاری کئے۔ ۵۲۴ھ میں باطنیوں نے سلطان جلال الدین بن خوارزم شاہ کے ایک امیر کبیر کو شہید کر دیا۔ سلطان جلال الدین نے اس امیر کو شہر کنجہ اور اس کے مضافات کی حکومت بخش رکھی تھی۔ یہ امیر حسن سیرت اور نیک کرداری میں سرآمد روزگار تھا۔ سلطان جلال الدین کو ہمیشہ مصیبت اور برائی سے باز رہنے کی تلقین کیا کرتا۔ سلطان جلال الدین کو اس کے مارے جانے کا بڑا صدمہ ہوا اور اس کا انتقام لینے کے لئے علاقہ گرد کوہ پر جاچڑھا جو خراسان میں باطنیوں کا مرکزی علاقہ تھا۔ سلطان نے وہاں پہنچ کر ہزاروں باطنیوں کو تہ تیغ کیا۔ ان کے بلاد کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور بے شمار باطنی عورتوں اور مردوں کو قید کر کے مراجعت کی۔ (الکامل فی التاریخ ج۱۰ ص۳۶۲) علاؤالدین قریباً پینتیس سال تک برسر حکومت رہا۔ ۶۵۲ھ میں اس کے ایک خادم حسن ماژندرائی نے اس کو قتل کر دیا۔
۷…رکن الدین خورشاہ
رکن الدین خور شاہ باپ کی ہلاکت کے بعد ۶۵۲ھ میں حکمران ہوا۔ اس کے عہد حکومت میں باطنی اقتدار نے آغوش ادبار میں منہ چھپایا اور بغداد کی عباسی خلافت کا آفتاب
اقبال بھی غروب ہوا۔ ان ایام میں بغداد اور المُوت دونوں جگہ کی سفارتیں شیعی وزیروں کے ہاتھ میں تھیں۔ خلافت آل عباس کی وزارت ابن علقمی کو مفوض تھی اور قلعہ المُوت کا قلمدان وزارت خواجہ نصیرالدین طوسی کے ہاتھ میں تھا۔ ان دونوں حکومتوں کا خود ان کے وزیروں ہی کی سازشوں سے خاتمہ ہوا۔ رکن الدین خورشاہ کو سریر حکومت پر بیٹھے قریباً ڈیڑھ سال ہی گذرا تھا کہ ۶۵۴ھ میں تاتاری افواج کا ٹڈی دل قلعہ المُوت پر چڑھ آیا۔ ان دنوں تاتاریوں کا بادشاہ منقوخان تھا۔ منقو خان نے اپنے بھائی ہلاکو خان کو فوج گراں کے ساتھ باطنیوں کی پامالی کے لئے روانہ کیا۔ ہلاکوخان نے آکر قلعہ الموت فتح کیا اور رکن الدین خورشاہ شیخ الجبل کو گرفتار کر کے منقو خان کے پاس روانہ کر دیا۔ لیکن اثنا راہ میں کسی شخص نے اس کو قتل کر ڈالا۔ تاتاریوں نے قلعہ کے تمام ذخائر جو ابن صباح کے زمانہ سے جمع ہو رہے تھے، لوٹ لئے۔ الغرض تاتاریوں نے باطنیہ کی ایرانی حکومت کا ایک سواکہتر سال کے بعد خاتمہ کر دیا اور ان کے قریباً سوقلعے مسمار کئے۔ اس معرکہ میں بارہ ہزار باطنی قتل ہوئے۔ اسی طرح شام اور مصر میں سلطان ملک الظاہر اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے باطنیوں کا قلع قمع کر دیا اور خدا کا ملک کاربند فدائیوں کی شرانگیزیوں سے مامون ہوا۔ بیان کیا گیا ہے کہ بمبئی کے خوجوں کے امام ہزہائی نیس سرآغا خاں بالقابہ اسی رکن الدین خورشاہ کی اولاد سے ہیں۔
باب۳۸…رشید الدین ابوالحشر سنان
محمد ثانی بن حسن ثانی باطنی کے عہد حکومت میں شام کے اسماعیلیوں نے الموت سے قطع تعلق کر کے رشید الدین ابوالحشر کو جو سنان کے لقب سے مشہور تھا اپنا سردار بنالیا تھا۔ سنان نے خود نبوت کا دعویٰ کیا اور ایک الہامی کتاب بھی معتقدین کے سامنے پیش کی۔ یہ شخص اپنے آپ کو ایک اوتار اور مظہر ایزدی بتاتا تھا۔ باطنی لوگ اس کے بڑے معتقد تھے۔ ایک مرتبہ سنان نے اپنا ایک سفیر بیت المقدس کے عیسائی فرمانروا شاہ اموری کے پاس بھیجا۔ لیکن وہاں ایسی بدنظمیاں پھیل رہی تھیں کہ سفیر متعصب عیسائیوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ سنان نے قاتل کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس سے بھی انکار کیاگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شام کے باطنیوں اور فلسطین کے عیسائی حکمرانوں میں بگڑ گئی۔ اس سے پیشتر باطنی لوگ مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کا ساتھ دیا کرتے تھے۔ اب عیسائیوں کے بھی دشمن ہوگئے اور فدائیوں کی چھریاں ان پر تیز ہونے لگیں۔ اس سلسلہ میں فرانس کا ایک بڑا حاکم کنٹراڈ نام ایک فدائی کے خنجر کا نشانہ بنا۔ اسی طرح یورپ کا ایک نامی گرامی فرمانروا
فریڈرک جب کہ شمالی اٹلی کے شہر میلان کا محاصرہ کئے ہوئے تھا۔ ایک فدائی کی چھری سے مارا گیا۔ کنٹراڈ کی ہلاکت کے دوسال بعد کاؤنٹ شامپین فلسطین کے سفر کو گیا اور اثنائے راہ میں شہر مصیات میں سنان کا مہمان ہوا۔ سنان نے اسے قلعہ کے دھس اور برج دکھائے۔ ایک برج جو سب سے بڑا تھا اس کے ہر زینہ پر دو دو سپاہی ادب سے کھڑے ہوئے تھے۔ فوجی جمعیتوں کے تذکرہ پر سنان نے اپنے مسیحی مہمان سے کہا کہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہمارے جیسے اطاعت شعار اور جانثار سپاہی دنیا کی کسی قوم کو نصیب نہیں۔ یہ کہہ کر سنان نے اپنے دعویٰ کا عملی ثبوت پیش کرنا چاہا اور جھٹ برج کے ایک زینہ کی طرف اشارہ کیا۔ اس اشارہ کے ساتھ ہی دوسپاہی جو وہاں کھڑے تھے نیچے کی طرف کود پڑے اور زمین پر گرتے ہی ہلاک ہو گئے۔ یہ عبرتناک تماشہ دکھا کر سنان بولا کچھ انہی پر منحصر نہیں۔ یہ جتنے سپاہی سفید لباس میں کھڑے ہیں۔ اشارہ کروں تو سب کے سب گرگر کر جانیں دے دیںگے۔ یہ نظارہ دیکھ کر نصرانی حکمران انگشت بدنداں رہ گیا اور کہنے لگا مجھ پر کیا موقوف ہے۔ واقعی دنیا کے کسی تاجدار کو ایسی جانباز رعایا نصیب نہ ہوگی۔ جب کاؤنٹ شامپین مصیات سے رخصت ہونے لگا تو سنان اس سے کہنے لگا اگر آپ کا کوئی دشمن ہو تو بتادیجئے۔ میرے فدائی بہت جلد اس کو ٹھکانے لگادیںگے۔ یہ فدائی سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدسؒ کی جان ستانی میں بہت کوشاں رہے۔ لیکن خدائے عزیز وبرتر نے انہیں کبھی کامیاب نہ ہونے دیا۔ ملک شام میں سلطان صلاح الدینؒ کے فتوحات نے باطنیوں کی قوت کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ اس لئے ان کے نزدیک سلطان ان کے مذہب کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ ایک مرتبہ فدائی خنجر باندھ کے سلطان کی جان لینے کو روانہ ہوئے۔ شہر حلب کے باہر جب کہ سلطان اپنے کیمپ میں قیام فرماتھا۔ یکے بعد دیگرے چار فدائی خنجر لے لے کر جھپٹے۔ لیکن حق تعالیٰ نے ان کو اس ناپاک کوشش میں نامراد رکھا۔ بعض تو ایک مرتبہ بالکل سلطان کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن سلطان نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے۔ بہرحال یہ سلطان صلاح الدین کی کرامت سمجھنی چاہئے۔ ورنہ یہ خونخوار فدائی جس کے پیچھے پڑتے، جان لئے بغیر چین نہ لیتے تھے۔ سلطان صلاح الدین کو فرنگیوں کی جنگ سے فرصت نہ تھی۔ تاہم جب سیاہ دل باطنیوں نے اس کی جان لینے کی کوشش کی تو سلطان نے فرنگیوں کی طرف سے عنان توجہ پھیر کر باطنیوں کی سرکوبی کا قصد فرمایا۔ چنانچہ جاتے ہی باطنیوں کے شہروں کو لوٹ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس کے بعد قتل وغارت کرتا اور ان کی آبادیوں کو خاک سیاہ کرتا مصیات پہنچا اور قلعہ کا
محاصرہ کر لیا۔ قلعہ مصیات الموت کے بعد باطنیوں کا سب سے بڑا قلعہ تھا۔ سلطان نے محاصرہ کر کے منجنیقیں نصب کردیں۔ جب محاصرہ نے طول کھینچا اور محصورین کی حالت زیادہ ابتر ہونے لگی تو سنان نے سلطان صلاح الدین کے ماموں شہاب الدین حارمی والیٔ حماۃ کے پاس پیغام بھیجا کہ ازراہ کرم تم سلطان کے پاس ہماری شفاعت کرو اور بیچ بچاؤ کر کے محاصرہ اٹھوا دو۔ حارمی نے اس درخواست کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اس بے التفاتی پر باطنی قاصد نے حارمی کو قتل کی دھمکی دی اور بولا ہمارا سردار سنان کہتا ہے کہ اگر سلطان صلاح الدین ہماری ایذا رسانی سے باز نہ آیا تو جس طرح بن پڑا ہم اس کے ماموں کی جان لے لیںگے۔ حارمی ان فقروں میں آگیا اور سلطان صلاح الدین کو پیغام بھیجا کہ خدا کے لئے تم ان کا پیچھا چھوڑ دو ورنہ میری جان کی خیر نہیں۔ ماموں کی منت سماجت پر سلطان کا دل نرم ہوگیا اور محاصرہ اٹھا کر مصر چلاگیا۔
باب۳۹… محمد بن عبداﷲ بن تومرت حسنی
فصل:۱…مسئلہ ظہور مہدی علیہ السلام
محمد بن تومرت مہدی موعود ہونے کا مدعی تھا۔ چونکہ بعض لوگ ظہور مہدی علیہ السلام سے انکار کرتے ہیں۔ اس لئے یہاں اس مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا ہے۔ امام محمد بن عبداﷲ معروف بہ مہدی علیہ السلام کا ظہور اوائل اسلام سے آج تک ایک مسلم الثبوت مسئلہ چلا آتا ہے اور علمائے اعلام ائمہ ومجتہدین اور محدثین مہتدین میں سے کسی نے ان کے عقیدۂ قدوم کی صحت سے انکار نہیں کیا۔ محمد بن حسن اسنوی کتاب مناقب شافعیؒ میں لکھتے ہیں کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور اور آپ کے حضرت فاطمہ زہراؓ کی اولاد ہونے کے متعلق حضرت خیرالبشرﷺ سے جو حدیثیں مروی ہیں وہ درجہ تواتر تک پہنچتی ہیں اور رسالہ توضیح میں لکھا ہے کہ قاضی محمد بن علی شوکانی سے بعض علماء نے دریافت کیا کہ وہ حدیثیں جو ظہور مہدی علیہ السلام کے متعلق وارد ہیں متواتر ہیں یا نہیں؟ قاضی شوکانی نے اس کا یہ جواب دیا کہ حضرت مہدی کی حدیثیں بلاشک وشبہ متواتر ہیں۔ کیونکہ جہاں تک تتبع وتلاش کو دخل ہے ان کی تعداد پچاس تک پہنچتی ہے۔ بلکہ اصطلاحات مجردۃ فی الاصول کے بموجب اس سے کم تعداد کے لئے بھی تواتر کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان پچاس حدیثوں میں صحیح حسن، ضعیف ہر قسم کی روایتیں پائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ آثار صحابہؓ بھی جن میں ظہور مہدی آخر الزمان کی تصریح ہے۔ کثیر التعداد ہیں۔ یہ لکھ کر قاضی شوکانی نے ایک ایک اثر کو گنوایا ہے اور ان کی تعداد اٹھائیس تک پہنچا کر لکھا ہے کہ یہ آثار بھی احادیث مرفوعہ کے حکم
میں ہیں۔ کیونکہ واقعات مستقبل کے متعلق اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں۔
(حجج الکرامہ ص۳۹۸،۳۹۹)
غرض حضرت مہدی علیہ السلام کے حق میں جو احادیث وارد ہیں۔ وہ باوجود اختلاف روایات جمہور کے نزدیک مسلم ہیں۔ کافہ اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اخیر زمانہ میں یقینا اہل بیت نبوت میں سے ایک جلیل القدر ہستی ظاہر ہوگی۔ جس کا نام نامی محمد بن عبداﷲ ہوگا۔ وہ ملت اسلام کی تائید کریںگے۔ تخت عدل وانصاف پر بیٹھیںگے۔ممالک اسلامیہ پر انہیں غلبہ حاصل ہوگا اور روئے زمین کے مسلمان ان کی متابعت کریںگے۔ البتہ ابن خلدون مورخ نے احادیث مہدی میں کلام کیا ہے اور بہت سے علماء نے ان کا جواب دیا ہے اور گو ابن خلدون نے اپنے مقدمۂ تاریخ میں ظہور امام سے صراحۃً انکار نہیں کیا۔ تاہم ان کے طرز انتقاد سے ان کا مسلک نمایاں صورت میں واضح ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ابن خلدون کا انکار اس مسئلہ کے صحیح یا غلط ہونے پر اثر انداز ہے یا نہیں؟ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر فن اپنی بحث ونظر کے لئے ایک خاص جماعت رکھتا ہے اور ہر عالم ومصنف کی علمی حیثیت کا ایک خاص دائرہ ہوتا ہے اور اس سے باہر اس کی وہ حیثیت باقی نہیں رہتی۔ امام مالکؒ محدث وفقیہ تھے۔ لیکن مؤرخ نہ تھے۔ پس کسی تاریخی مسئلہ میں انکا قول بمقابلہ مؤرخ ارحج نہ ہوگا۔ امام غزالیؒ فلسفہ وکلام کے ماہر، شریعت طاہرہ کے رازدان، تصوف وسلوک کے بہترین معبر تھے۔ لیکن محدث نہ تھے۔ اس لئے محدثین اور ارباب نقد کے مقابلہ میں ان کا کوئی پایہ نہیں۔ پس فن تاریخ کی بحث ہو تو، ہمیشہ مؤرخین کی سند لائیے۔ ادب کے مسائل میں ائمہ ادب کی طرف رجوع کیجئے۔ اگر کوئی مسئلہ علم حدیث سے متعلق ہو تو اس کی تحقیق وتنقید کے لئے ائمہ، حدیث کا منت کش ہونا پڑے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مسئلہ تو حدیث کا ہو اور اس کے لئے فراد یا سیبویہ کے اقوال تلاش کئے جائیں یا بحث تو منطق وفلسفہ کی ہو اور آپ اس کے لئے امام بخاری ومسلم کی سند تلاش کرتے پھریں۔ بعض لوگ اس نکتہ کو نظر انداز کر جاتے ہیں اور پھر سخت مہلک غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ابن خلدون انشاء وادب اور خصوصاً تاریخ نویسی میں نہایت بلند پایہ رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر آپ بزم تاریخ میں داخل ہوں گے تو وہ آپ کو ہزارہا شرکائے مجلس میں صدر نشین نظر آئیںگے۔ لیکن باوجود اس کمال فن کے انہیں علم حدیث ورجال میں کچھ بھی درجہ امتیاز حاصل نہیں۔ چنانچہ امام سخاویؒ الضوء اللامع فی اعیان القرن التاسع میں ترجمہ ابن خلدون میں لکھتے ہیں: ’’لم یکن ماہراً بالعلوم الشرعیۃ‘‘ ابن خلدون علوم شریعت میں مہارت نہ رکھتے تھے۔
ابن خلدون نے اپنے مقدمہ تاریخ میں ظہور امام کے متعلق لکھا ہے: ’’اعلم ان المشہور بین الکافۃ من اہل الاسلام علیٰ ممرالا عصار انہ لا بد فی اٰخرالزمان من ظہور رجل من اہل البیت یؤید الدین ویظہر العدل ویتبعہ المسلمون ویستولی علی الممالک الاسلامیۃ ویسمی بالمہدی ویکون خروج الدجال وما بعدہ من اشرالساعۃ الثابتۃ فی الصحیح علیٰ اثرہ وان عیسیٰ ینزل من بعدہ فیقتل الدجال اوینزل معہ فیساعدہ علیٰ قتلہ ویأتم المہدی فی صلوتہ ویحتجون فی الباب باحادیث اخرجہا الائمۃ وتکلم فیہا المنکرون لذالک‘‘ مؤرخ کی اس تحریر سے جب یہ بات آشکارا ہوگئی کہ ظہور مہدی علیہ السلام کا مسئلہ آغاز اسلام سے متوارث چلا آتا ہے تو اب یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ہر قول وفعل جو کافۂ اہل اسلام اور اجماع سلف کے خلاف ہو وہ ناقابل التفات ہے۔ ابن خلدون نے ظہور مہدی علیہ السلام کے متعلق چند احادیث نقل کر کے ان میں سے اکثر حدیثوں کے راویوں پر بعض شبہات پیدا کر دئیے ہیں۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ اگر کوئی کہے کہ ایسے شبہات تو بخاری ومسلم کے بعض رواۃ پر بھی پیدا ہوئے ہیں تو خود ہی اس کا یہ جواب دیا ہے کہ شیخین کے رجال پر ایسے جروح شبہات مضر نہیں۔ کیونکہ ان کی حدیثوں کو قبول عام حاصل ہے۔ اس بیان سے مؤرخ کا ایک مسلمہ اور کلیہ قاعدہ یہ نکل آیا کہ اجماعیات میں راویوں کا مجروح ہونا مضر نہیں۔ جس طرح بخاری ومسلم کی حدیثیں اجماعی ہیں۔ اسی طرح ظہور مہدی علیہ السلام کا عقیدہ بھی اجماعی ہے۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ پس احادیث مہدی علیہ السلام پر جروح وشکوک ہرگز مضر نہیں اور جروح بھی ایسے جو محض ظنی واختلافی ہیں۔ یہ اس صورت میں ہے کہ کوئی حدیث بھی جرح سے نہ بچ سکے۔ لیکن حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کے بارہ میں جو احادیث وارد ہیں۔ ان میں کئی ایک ایسی بھی ہیں جن پر ابن خلدون باوجود کوشش وجستجو کے کوئی اعتراض نہیں کر سکے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’وھی کمارایت لم یخلص منہا من النقد الا القلیل‘‘ حضرت مہدی علیہ السلام کی احادیث میں سے ایسی حدیثیں قلیل ہیں جو تنقید سے بچ سکی ہوں۔
گو اس ادعائے قلت سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ابن خلدون کے ان الفاظ سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی اور انہوں نے خود اس کا اعتراف کر لیا کہ بعض حدیثیں اس پایہ کی بھی ہیں جو جرح کی کسی طرح متحمل نہیں۔ رہا رئیس قادیان مرزاغلام احمد قادیانی کا یہ بیان کہ صحیحین
میں حضرت مہدی کے نام کی تصریح نہیں۔ اس لئے حضرت مہدی کا ظہور ایک ظنی چیز ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ظہور مہدی علیہ السلام کی خبر بخاری اور مسلم سے پیشتر صحابہ میں شائع ہوچکی تھی اور قدمائے امت حضرت رسول اکرمﷺ کی اس پیشین گوئی پر بھی ایسا ہی ایمان واعتقاد رکھتے تھے۔ جیسا کہ دوسرے معتقدات ایمانیہ پر۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر بالفرض بخاری ومسلم احادیث مہدی سے بالکل سکوت اختیار کرتے تو بھی کچھ مضائقہ نہ تھا۔ حالانکہ ظہور مہدی علیہ السلام کی روایتیں بخاری ومسلم میں بھی موجود ہیں اور گونام سے ساکت ہیں۔ لیکن ان میں خلیفۂ آخرالزمان کے صفات مذکور ہیں کہ وہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں ظاہر ہوںگے اور جناب مسیح ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز میں ان کا اقتداء کریںگے اور نام کا مذکور نہ ہوتا تو کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کے لئے ظہور امام سے انکار کیا جائے اور شک وشبہ کی گنجائش ہو۔ کیونکہ نام تو کسی ضعیف یا غیرمرفوع روایت سے بھی معلوم ہو جاتا تو کافی تھا۔ لیکن باوجود اس کے خود احادیث صحیحہ میں جو ترمذی اور ابوداؤد نے روایت کی ہیں۔ آپ کا اسم گرامی محمد بن عبداﷲ مصرح موجود ہے۔ غرض نام تو کہیں بھی مذکور نہ ہوتا تو بھی یہ عقیدہ اسی طرح مسلم الثبوت اور یقینی تھا۔ جس طرح اب نام کی تصریح کے ساتھ ہے۔ دیکھو جناب یوسف صدیق علیہ السلام کے جمال جہاں آراء کی قوت جہانگیری نے زلیخا کو کس طرح مغلوب ومقہور کیا تھا۔ اس داستان عشق ومحبت کو وہ غیر معمولی شہرت ونمود حاصل ہے کہ قرآن حکیم جیسی روحانی وآسمانی کتاب بھی اس کے تذکرہ سے خالی نہیں۔ برہان مقدس میں عاشقہ، خستہ جگر کو امرأۃ العزیز (عزیز کی بیوی) کہہ کے یاد کیاگیا ہے۔ زلیخا یا راعیلا نام نہیں بتایا۔ کیا قرآن کی اس عدم تصریح کی وجہ سے زلیخا کے وجود سے انکار کر دوگے؟
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا رسالہ ’’مؤخرۃ الظنون عن مقدمۃ ابن خلدون‘‘ ایک نہایت بیش بہا تصنیف ہے۔ جس میں ابن خلدون کے ہر استدلال کا باحسن وجوہ بطلان ثابت کیا ہے۔ مولانا ممدوح اس رسالہ میں لکھتے ہیں: ’’محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی امر متن یا سند میں مبہم ہو اور دوسری حدیث میں کوئی مفسر موجود ہو اور قرائن قویہ سے دونوں حدیثوں کا متحد اور مترادف ہونا ثابت ہوتا ہو تو مبہم کو مفسر پر محمول کریںگے۔ پس ایسی حالت میں کہ صحیحین کی احادیث میں امام کے صفات تو موجود ہیں۔ نام مذکور نہیں۔ تو غیر صحیحین کی حدیثوں سے جن میں حضرت مہدی علیہ السلام کے صفات کے ساتھ آپ کے نام کی بھی تصریح ہے نام کا بھی علم ویقین ہو جائے گا اور صحیحین اور غیر صحیحین کی حدیثیں ایک دوسری کا عین سمجھی جائیںگی۔ علاوہ
بریں محدثین کرام کا ان مبہم حدیثوں کو باب المہدی میں ذکر کرنا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک بھی بخاری ومسلم کی احادیث غیر مصرحہ باسم المہدی حضرت مہدی علیہ السلام ہی سے متعلق ہیں۔ چنانچہ خود ابن خلدون نے کسی محدث کا قول بھی نقل کیا ہے۔ ’’وقد یقال ان حدیث الترمذی وقع تفسیرً المارواہ مسلم فی صحیحہ‘‘
مہدی علیہ السلام کے علامات مختصّہ
مہدی علیہ السلام کے بھی علامات مختصہ ہیں۔ جن کے ذریعہ سے وہ جھوٹے مہدیوں سے ممیز ہوتے ہیں۔ احادیث صحیحہ کے رو سے سچے مہدی علیہ السلام کی جو علامتیں اور خصوصیتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں۔
۱…ان کا اسم گرامی محمد اور ان کے والد محترم کا نام نامی عبداﷲ ہوگا۔
۲…خاندان نبوت کے چشم وچراغ ہوںگے۔ یعنی حضرت فاطمہ زہراؓ کی اولاد میں سے ہوںگے۔
۳…عرب کے حکمران ہوںگے۔
۴…ان کا ظہور مکہ معظمہ میں ہوگا۔ مسجد الحرام میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی جائے گی۔
۵…بسیط ارض کو عدل وانصاف سے معمور کر دیںگے۔
۶…سات سال تک مسند آرائے خلافت رہیںگے۔
۷…ان کے عہد مبارک میں اسلام کا بول بالا ہوگا اور سطوت اسلام منتہائے عروج کو پہنچ جائے گی۔
۸…داد ودہش میں بے مثل اور ضرب المثل ہوںگے۔ گنتی کئے بغیر مال وزر تقسیم کریںگے۔
۹…ان کے آخری ایام دولت میں مال وزر کی اتنی فراوانی ہوگی کہ کوئی شخص زکوٰۃ کا قبول کرنے والا بھی نہ مل سکے گا۔
۱۰…شہر قسطنطنیہ کو جو اس سے پیشتر نصاریٰ کے عمل ودخل میں چلا گیا ہوگا۔ نصاریٰ سے واپس لیںگے۔
۱۱…یورپ کی مسیحی طاقتوں کے خلاف ان کی بہت سی لڑائیاں ہوںگی۔ جن میں وہ مظفر ومنصور رہیںگے۔
۱۲…حضرت مسیح بن مریم (علیہما السلام) بعد از نزول ان کے پیچھے نماز پڑھیںگے۔
فصل:۲…دعوائے مہدویت اور استعماری سرگرمیاں
محمد بن عبداﷲ بن تومرت ۴۸۵ھ میں سوس میں پیدا ہوا۔ جو بلاد مغرب کا ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ حضرت امام حسن مجتبیٰؓ کی اولاد واحفاد میں سے تھا۔ عالم وفاضل فصیح وبلیغ اور علوم عربیہ کا ماہر تھا۔ عبادت الٰہی میں راغب اور تقشف وانقطاع میں خاص شہرت رکھتا تھا۔ زہد وتبتل کا یہ عالم تھا کہ ہاتھ کی چھڑی اور چھوٹے سے مشکیزے کے سواکوئی چیز اس کی ملک میں نہ تھی۔ باوجود ورع وتقویٰ کے ۵۱۴ھ میں اس نے مہدویت کا دعویٰ کر دیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پرہیزگاری اور عبادت گذاری کا مقصد ہی یہی تھا کہ حب اوج وعروج کو زہد واتقاء کے دامن میں چھپا کر سرسبز کرے۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے علامات مختصہ میں سے جو بارہ مشہور علامتیں فصل سابق میں مذکور ہوئیں۔ مرزاغلام احمدقادیانی کی ذات میں ان میں سے ایک بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ بساط جرأت پر قدم رکھ کر مہدی آخرالزمان بن بیٹھے اور نہایت دیدہ دلیری سے لکھ مارا کہ: ’’وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت تقدیر الٰہی میں مقرر کیاگیا تھا۔ جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔‘‘
(تذکرہ الشہادتین ص۲، خزائن ج۲۰ ص۴۰۳)
تو پھر ظاہر ہے کہ محمد بن عبداﷲ بن تومرت جس کا نہ صرف اپنا اور باپ کا نام ہی حضرت مہدی علیہ السلام اور ان کے والد محترم کے ناموں سے ملتا تھا۔ بلکہ حضرت مہدی علیہ السلام کی طرح اسے بنو فاطمہ میں پیدا ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ وہ بھلا دعویٰ مہدویت سے کیونکر باز رہ سکتا تھا؟ مرزاغلام احمدقادیانی نے محض تنگ دستی اور مفلوک الحالی سے مجبور ہوکر تقدس واتقاء کی دکان کھولی تھی اور اس دکان آرائی سے بجز شکم پری اور زراندوزی کے ابتداء کوئی بلند مقصد ان کے پیش نظر نہ تھا اور وہ بیچارے مدت العمر (۱)خودستائی۔ (۲)انگریز کی خوشامد۔ (۳)حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زمرہ اموات میں شامل کرنے کی ناکام کوشش۔ (۴)علمائے امت کے خلاف سب وشتم۔ (۵)خواہشات نفسانی کی تکمل کے سوا کوئی تعمیری کام نہ کر سکے۔ لیکن بعض جھوٹے مدعی اپنے دعوؤں کی بدولت بڑے عروج کو پہنچے ہیں۔ چنانچہ عنقریب آپ کو معلوم ہوگا کہ محمد بن تومرت نے دعوائے مہدویت ہی کے صدقہ سے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی جو اسلامی تاریخوں میں سلطنت موحدین کے نام
سے مشہور ہے۔ بعض لوگوں نے ابن تومرت کو امام ابو حامد محمد غزالیؒ کا شاگرد بتایا ہے اور لکھا ہے کہ جب امام غزالی مدرسہ تطامیہ بغداد میں مسند درس وافادہ پر سعادت افروز تھے تو ابن تومرت ان کے حلقہ درس میں پہنچا اور تین برس تک آپ کی صحبت میں رہا۔ لیکن علامہ ابن اثیر نے اس بیان کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ امام غزالیؒ سے اس کی ملاقات ہی ثابت نہیں۔
(الکامل فی التاریخ ج۹ ص۱۹۵)
ابن خلکان کا بیان ہے کہ طالب العلمی کے ایام میں ابن تومرت کو علم جفر کی ایک کتاب مل گئی۔ جس کا اس نے نظر تعمق سے مطالعہ کیا۔ جب اس کتاب کے قواعد واحکام پر پوری طرح حاوی ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ سوس میں ایک شخص پیدا ہوگا جو خاندان بنو فاطمہ کا چشم وچراغ ہوگا۔ وہ داعی الیٰ اللہ ہوگا اور اس کا مستقر ایک ایسا مقام قرار پائے گا جس کے نام میں حروف ’’ت ی ن م ل (تینمل)‘‘ ہوںگے۔ اسے ایک شخص کی رفاقت حاصل ہوگی۔ جس کے نام میں حروف ’’ع ب د م و م ن (عبدالمؤمن)‘‘ ہوںگے۔ اس اطلاع کے بعد وہ اس شہر میں اس نام کے آدمی کی تلاش میں ہمہ تن انتظار بنارہا۔ ابن تومرت مضافات سوس میں پیدا ہوا تھا اور اس کی آرزو تھی کہ کسی طرح وہی وہ شخص ہو جو سوس میں پیدا ہونے والا اور فاطمی النسل ہوگا۔
قاہرہ سے اخراج، جہاز رانوں نے سمندر میں لٹکادیا
محمد ابن تومرت نے اپنے مقاصد کی تکمیل کا راز امر معروف ونہی منکر (نیکی کی ترغیب دینا اور برائی سے روکنا) میں مضمر دیکھا اور یہ عمل کچھ تصنع وریاء پر موقوف نہیں تھا۔ بلکہ یہ چیز ابتداء ہی سے فطرۃً اس کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ابن تومرت معاصی ومنکرات کو دیکھ کر آپے سے باہر ہوجاتا تھا۔ ذرا سی غیر مشروع بات پر ارباب ذی الاقتدار اور وابستگان حکومت سے لڑ بیٹھتا۔ بڑے بڑے صاحبان جبہ ودستار سے الجھ جاتا۔ اپنے جذبات کے اظہار میں اس قدر جری تھا کہ نہ کسی والیٔ ملک کا خوف اس کو مرعوب کرتا تھا اور نہ کسی بڑے سے بڑے فاضل کا پاس ولحاظ مانع تھا۔ حکومت مصر نے اسے اسی قسم کی آزادانہ خود سریوں کی بدولت خارج البلد کیا۔ جہاں جاتا ملامتیں سنتا۔ گالیاں کھاتا۔ مگر اپنے کام سے باز نہ آتا۔ عربی میں نہایت فصیح وبلیغ تقریر کرتا تھا۔ جہاں کہیں اس کی مخالفت کا شور ہوتا تھا۔ وہاں ہزارہا حامیان شریعت اس کے طرفدار بھی ہو جاتے تھے۔ متاع دنیوی سے اس درجہ فارغ تھا کہ سفر میں ایک چھڑی اور ایک چھوٹے سے مشکیزے کے سوا کوئی چیز ساتھ نہ ہوتی تھی۔ قاہرہ سے نکالا گیا تو اسکندریہ کی راہ لی۔ وہاں بھی امر
معروف ونہی منکر کے سلسلہ میں کئی واقعات پیش آئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ متولی اسکندریہ نے اسے ان بلاد سے خارج کر دیا۔ وہاں سے جہاز پر سوار ہوکر مغرب کا رخ کیا۔ جہاز میں بھی احکام شرع کے نافذ کرنے میں لوگوں سے اکثر مارپیٹ کی نوبت آئی۔ جہاز میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو فریضہ صلوٰۃ کے پابند ہوں۔ ابن تومرت نے ان سے ترک صلوٰۃ پر لڑنا شروع کیا۔ آخر جہازرانوں نے تنگ آکر اسے سمندر میں لٹکا دیا اور وہ نصف یوم تک پانی میں لٹک کر سمندر کی نیلگوں موجوں سے دوچار رہا۔ مگر قدرت الٰہی سے اسے کوئی گزند نہ پہنچا۔ اہل جہاز نے یہ دیکھا کہ ایک خلاصی کو پانی میں اتارا۔ وہ ابن تومرت کو پھر جہاز میں کھینچ لایا۔ لوگوں نے اس امر کو کرامت پر محمول کیا اور اہل جہاز کے دلوں پر اس کی عظمت وبزرگی کا سکہ جم گیا اور ایسا رعب بیٹھا کہ کسی کو علانیہ مخالفت کی جرأت نہ رہی اور جو کچھ خفیف سی ناراضیاں باقی رہیں وہ بھی آناً فاناً دب گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس روز یہ مہدیہ کے ساحل پر اترا ہے تو جہاز میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو نماز کا پابند نہ ہو یا کسی دن تلاوت قرآن میں ناغہ کرتا ہو۔
مہدیہ میں ورود اور شہر میں ہلچل
ان ایام میں امیر یحییٰ ابن تمیم مہدیہ کا حاکم تھا۔ ابن تومرت نے ایک مسجد میں قیام کیا جو شہر کی ایک سٹرک کے کنارے واقع تھی۔ اب اس نے یہ وتیرہ اختیار کیا کہ مسجد کے ایک جھروکے میں جو سڑک کی طرف تھا بیٹھ جاتا۔ گذرنے والوں کی طرف دیکھتا رہتا اور جہاں کسی کو کسی نامشروع فعل کا مرتکب دیکھتا فوراً اتر کر اس سے دست وگریباں ہوجاتا۔ دوتین دن کے بعد کوچہ وبازار میں آمدورفت شروع کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی روز کے اندر بہتوں کی ڈھولکیں پھاڑ ڈالیں۔ بہتوں کے قرنا،توڑے اور بے شمار تنبورے چھین چھین کر زمین پر دے مارے۔ سیکڑوں شراب کے خم اور دوسرے ظروف چکنا چور کئے۔ غرض سارے شہر میں ایک آفت مچادی۔ ان اولوالعزمیوں سے اس کی شہرت ہوگئی۔ لوگ معتقد ہونے لگے۔ عامۃ المسلمین ازراہ قدرشناسی آنکھوں پر بٹھانے لگے۔ چند ہی روز میں دھوم مچ گئی کہ ایک بڑے عالم متبحر وارد مہدیہ ہوئے ہیں۔ طلبہ نے چاروں طرف سے ہجوم کیا۔ سلسلہ درس وتدریس شروع ہوگیا۔ شدہ شدہ اس کی شہرت حاکم کے کان تک پہنچی۔ اس نے دربار میں بلوایا۔ بڑی قدرومنزلت کی اور بہت کچھ حسن عقیدت کا اظہار کر کے رخصت کیا۔ ابن تومرت کو ایک جگہ قرار نہ تھا۔ کیونکہ وہ تو دراصل علم جفر کے بتائے ہوئے رفیق اور شہر کا متلاشی تھا۔ غرض کچھ عرصہ کے بعد مہدیہ کو الوداع
کہہ کر بجایہ میں پہنچا۔ وہاں بھی تعلیم وتدریس اور وعظ وتلقین کا سلسلہ شروع کر دیا اور امر معروف ونہی منکر پر بڑی سختی سے کاربند ہوا۔ دن بدن جمعیت بڑھنے لگی۔ یہاں تک کہ حاکم بجایہ کو اس کی جمعیت نے بہت کچھ خوف زدہ کر دیا۔ ان دنوں ارباب حکومت ان لوگوں سے عموماً خوف زدہ رہتے تھے۔ جو مرجع انام ہو جاتے تھے۔ حاکم بجایہ نے اسے وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔ وہاں سے نکل کر مغرب کی راہ لی اور ملالہ نام ایک گاؤں میں اترا۔ یہیں عبدالمؤمن سے اس کی ملاقات ہوئی۔ جو طلب علم کے لئے مشرق کی طرف جارہا تھا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ وہ عبدالمؤمن سے اس مقام پر ملا تھا جسے فنزارہ کہتے ہیں۔
عبدالمؤمن کی شخصیت
عبدالمؤمن کی پیدائش موضع تاجرہ میں ہوئی۔ جو تلمستان کے مضافات میں ساحل بحر پر واقع ہے۔ ابن خلکان کا بیان ہے کہ عبدالمؤمن کا باپ علی کمہار تھا جو مٹی کے برتن بنا کر بسراوقات کرتا تھا۔ ایک مرتبہ عبدالمؤمن ایام طفلی میں سورہا تھا اور اس کا باپ برتن بنانے میں مصروف تھا۔ اس اثناء میں علی نے اوپر کی طرف بھنبھناہٹ سی سنی۔ سراٹھا کر کیا دیکھا ہے کہ سیاہ بادل کے چھوٹے سے ٹکڑے کی شکل میں شہد کی مکھیوں کا جھنڈ ٹھیک اس کے مکان کی طرف آرہا ہے۔ مکھیوں نے نیچے آکر عبدالمؤمن کو اس طرح ڈھانپ لیا کہ وہ بالکل نظر نہیں آتا تھا۔ عبدالمؤمن کی ماں یہ دیکھ کر چیخنے چلانے لگی۔ علی نے اس کو خاموش کیا اور کہا کچھ خطرے کی بات نہیں۔ بلکہ میںتو یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوں کہ یہ کیا کرشمۂ قدرت ہے؟ پھر اس نے مٹی اتار کر ہاتھ دھوئے اور کپڑے پہن کر یہ دیکھنے کے لئے کھڑا ہوگیا کہ مکھیوں کی آمد کا کیا انجام ہوتا ہے؟ تھوڑی دیر میں مکھیاں اڑ گئیں اور علی نے لڑکے کو بیدار کیا۔ وہ بالکل صحیح سالم تھا۔ اس کے بعد علی اپنے ایک ہمسایہ کے پاس جو بڑا عالم تھا گیا اور لڑکے پر مکھیوں کی آمد کا ذکر کیا۔ اس عالم نے بتایا کہ کسی دن تمہارا لڑکا بڑا عروج حاصل کرے گا اور جس طرح شہد کی مکھیوں نے اس کے گرد ہجوم کیا ہے۔ اسی طرح اہل مغرب اس کی اطاعت پذیری پر مجتمع ہوںگے۔
(ابن خلکان ج۱ ص۳۱۰)
یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب عبدالمؤمن بڑا ہوا تو فنزارہ میں سے تین لڑکوں کے پڑھانے کی خدمت تفویض ہوئی۔ ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ وہ امیر المسلمین علی بن یوسف کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھا رہا ہے۔ عبدالمؤمن کا بیان ہے کہ میں علی سے زیادہ دیرتک کھاتا رہا اور میں نے محسوس کیا کہ میرا نفس بسیار خوری کی طمع کرتا ہے۔ چنانچہ وہ پیالہ میں نے اس
یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب عبدالمؤمن بڑا ہوا تو فنزارہ میں سے تین لڑکوں کے پڑھانے کی خدمت تفویض ہوئی۔ ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ وہ امیر المسلمین علی بن یوسف کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھا رہا ہے۔ عبدالمؤمن کا بیان ہے کہ میں علی سے زیادہ دیرتک کھاتا رہا اور میں نے محسوس کیا کہ میرا نفس بسیار خوری کی طمع کرتا ہے۔ چنانچہ وہ پیالہ میں نے اس کے سامنے سے اچک لیا اور تنہا کھانا شروع کیا۔ جب بیدار ہوا تو وہاں کے ایک مشہور عالم عبدالمنعم بن عشیر سے وہ خواب بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اہل خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم کسی دن امیر المسلمین پر دھاوا کر کے اس کے کچھ حصہ ملک میں اس کے شریک ہو جاؤ گے اور بعد میں تمام ملک کو مسخر کر کے بلاشرکت غیرے اس کے فرمانروا ہوگے۔ جب ابن تومرت ملالہ پہنچا تو وہاں ایک خوش جمال نوجوان کو سڑک پر جاتے دیکھا۔ جس کے چہرے پر ذہانت وذکاوت کے علاوہ دولت واقبال کا ستارہ بھی چمکتا نظر آیا۔ اس نوجوان کی شکل و صورت میں کچھ ایسی دلفریبی تھی کہ محمد بن تومرت اپنے جذبات کو کسی طرح مخفی نہ رکھ سکا۔ بے اختیار اس کے قریب گیا اور کہا میاں صاحبزادے! تمہارا نام کیا ہے؟ خوش جمال نوجوان نے جواب دیا۔ ’’عبدالمؤمن‘‘ اس نام کے سنتے ہی وہ بے اختیار چونک پڑا اور دل میں کہنے لگا۔ اسی در شاہوار کی تلاش میں مدتوں سے سرگردان ہوں۔ ابن تومرت کو عبدالمؤمن کی دید سے اتنی خوشی ہوئی کہ گویا دونوں جہان کی دولت مل گئی اور اب اسے متوقع دولت وسلطنت کے حصول کا کامل وثوق ہوگیا۔ اب اس نے عبدالمؤمن سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ جواب ملا غریب خانہ کو میہ میں ہے۔ پھر دریافت کیا کہ کہاں کا قصد ہے؟ اس نے بتایا کہ علم کے شوق میں بغداد وغیرہ مشرقی ممالک کو جارہا ہوں۔ ابن تومرت نے کہا صاحبزادے! علم وفضل، دولت وثروت سب چیزیں تمہارے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہیں۔ خدا نے تمہیں دین ودنیا کی دولت بخشی ہے۔ آؤ میرے ساتھ چلو۔ عبدالمؤمن اس سے پیشتر خواب بھی دیکھ چکا تھا۔ جس سے اسے یقین تھا کہ میں کسی دن حکومت وثروت سے ہم کنار ہوں گا۔ ابن تومرت کی باتوں کو نہایت توجہ اور دلچسپی سے سننے لگا۔ ابن تومرت نے کہا تم میرے ساتھ چلو۔ میں وہ باطنی رموز تم پر ظاہر کروںگا کہ تم کو میرے کہنے کا یقین آجائے گا۔ اس کے بعد ابن تومرت نے عبدالمؤمن کو یقین دلایا کہ وہ عنقریب بہت بڑا بادشاہ ہونے والا ہے۔ الغرض عبدالمؤمن نے اپنی تقدیر اس سے وابستہ کر کے اس کی رفاقت اختیار کی۔
بادشاہ کو ابن تومرت کے قتل کردینے کا مشورہ
کچھ دنوں تک ملالہ میں تعلیم وتدریس اور دعوۃ الیٰ الخیر کا سلسلہ جاری رہا۔ ان دنوں کئی آدمی اس کے مرید ہوئے۔ اب اس نے مراکش کا قصد کیا۔ یہی وہ سلطنت تھی جس کو شکار بنانے کا عزم تھا۔ کیونکہ ان دنوں سرزمین مغرب میں اس سے بڑھ کر کوئی پرشکوہ سلطنت نہ تھی۔ حتیٰ کہ اس عہد کے فرمان روایان اسپین بھی مراکش کی عظمت کے سامنے سرجھکاتے تھے۔ محمد بن تومرت اپنے
رفقاء سمیت تلمسان پہنچا جو اس زمانہ میں مراکش کا دارالسلطنت تھا۔ یہاں اپنی عادت کے موافق شہر سے باہر ایک مسجد میں قیام کیا۔ جس کو مسجد عباد کہتے تھے اور اپنی عادت کے بموجب علماء وفضلاء اور حکومت کے عہدہ داروں پر شرعی نکتہ چینیاں شروع کر دیں اور اس کے ساتھ ہی وعظ میں بادشاہ ابوالحسن علی بن یوسف بن تاشقین پر بھی جو نہایت نیک نفس تاجدار تھا۔ لعن وطعن کا دروازہ کھول دیا۔ یہ بادشاہ نہایت صالح، خداترس، قائم اللیل اور صائم النہار تھا۔ یہاں تک کہ بادشاہ کی کثرت عبادت اسے مہمات سلطنت کے سرانجام دینے کی ہی مہلت نہ دیتی تھی۔ اسی بناء پر کچھ دنوں سے نظام حکومت میں قدر اختلال پیدا ہوگیا تھا۔ جب محمد بن تومرت کی سرگرمیاں اور اس کے اقوال ومزعومات مالک ابن وہیب اندلسی وزیراعظم کے گوش زد ہوئے تو اپنے جودت طبع سے ابن تومرت کے دلی ارادوں کا حال معلوم کر لیا اور امیر المسلمین کو اس کے قتل کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ شخص خمیر مایۂ فساد معلوم ہوتا ہے۔ اس کے مکروفریب سے بے خوف نہ رہنا چاہئے۔ مگر خداترس بادشاہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ پھر وزیر باتدبیر نے بادشاہ سے کہا کہ اچھا اگر آپ اس شخص کے قتل پر رضامند نہیں ہیں تو اس شخص کو مدت العمر نظر بند رکھا جائے۔ ورنہ یقین ہے کہ یہ شخص بہت جلد سلطنت میں انقلاب کر دے گا۔ بادشاہ نے کہا ہم کسی شخص کو اس وقت تک نعمت آزادی سے کیونکر محرحوم کر سکتے ہیں۔ جب تک اس کا جرم ثابت نہ ہو؟ اس کے بعد جمعہ کا دن آیا تو محمد بن تومرت مع اپنے مریدوں کے مسجد جامع میں پہنچا۔ اس کے مرید تو ادھر ادھر بیٹھ گئے۔ مگر خود خاص اس جگہ پر جاکے کھڑا ہوا جو بادشاہ کے لئے مخصوص تھی۔ وہ عہدہ دار جس کے ہاتھ میں مسجد کا انتظام تھا۔ ابن تومرت کے پاس جاکر کہنے لگا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یہ جگہ صرف شاہ اسلام کے لئے مخصوص ہے؟ اس پر ابن تومرت نے گھور کر اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’ان المساجدﷲ‘‘ (مسجدیں صرف اللہ کی ہیں) حاضرین اس جسارت پر انگشت بدنداں رہ گئے۔ اب ابن تومرت نے لوگوں کی طرف رخ کر کے ایک پرجوش تقریر شروع کر دی۔ جس میں نامشروع باتوں کی خوب تردید کی۔ یہ تقریر ہو ہی رہی تھی کہ بادشاہ آگیا اور لوگ حسب معمول آداب شاہی بجالنے لگے۔ یہ دیکھ کر محمد بن تومرت بادشاہ کی جگہ پر جہاں کھڑا تھا بیٹھ گیا۔ بادشاہ نہایت عادل اور نیک نفس تھا۔ اس نے اس بات کی کوئی پروا نہ کی اور دوسرے جگہ کھڑے ہوکر نماز پڑھ لی۔ نماز کے اختتام پر جیسے ہی امام نے سلام پھیرا ابن تومرت کھڑا ہوگیا اور بادشاہ کو خطاب کر کے کہنے لگا۔ ’’اے بادشاہ! رعایا پر جو مظالم ہورہے ہیں۔ ان کی خبر لے۔ مانا کہ ان کی آواز
تیرے کان تک نہیں پہنچی۔ مگر فردائے قیامت کو اس احکم الحاکمین کے سامنے تجھے رعایا کے متعلق ہر قسم کی جواب دہی کرنی پڑے گی اور تو یہ کہہ کر ہرگز نہ چھوٹ سکے گا کہ مجھے خبر نہ تھی۔ تو غریبوں اور بیکسوں کی جان ومال کا ہرطرح سے ذمہ دار ہے۔‘‘ بادشاہ نے اس کی تقریر سے خیال کیا کہ شاید کوئی عالم ہے اور کچھ حاجت رکھتا ہے۔ اس بناء پر جاتے وقت حکم دیا کہ اس عالم سے دریافت کرو۔ اگر کوئی غرض ہو تو پوری کی جائے۔ مقروض ہے تو قرض ادا کیا جائے۔ نادار ہے تو بیت المال سے امداد کی جائے۔ بادشاہ کو اس وقت تک معلوم نہیں تھا کہ یہ وہی شخص ہے جس کے قتل کرنے کا وزیر نے مشورہ دیا تھا۔ جب محمد بن تومرت کو بادشاہ کے اس حکم کی اطلاع ملی تو کہنے لگا کہ بادشاہ تک میرا پیغام پہنچا دو کہ میری غرض دنیائے دنی نہیں۔ میرا نصب العین تو مسلمانوں کی بھلائی اور اسلام کی خدمت ہے۔
شاہزادی اور اس کی لونڈیوں کو زدوکوب
ان ایام میں مراکش میں شاہزادیاں بہت کم پردے کی پابند تھیں۔ اس کی شاید یہ وجہ تھی کہ اسپین کے نصاریٰ کا مسلمانان مراکش کے ساتھ بکثرت اختلاط رہتا تھا۔ لیکن کتاب الدعاۃ میں اس چہرہ کشائی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس زمانہ میں وہاں یہ دستور تھا کہ مرد چہروں پر نقاب ڈالے رہتے تھے اور عورتیں بے پردہ پھرتی تھیں۔ گویہ بات قرین قیاس نہیں ہے۔ مگر ممکن ہے کہ صحیح ہو۔ بہرحال ایک دن بادشاہ علی بن یوسف کی بہن اپنی لونڈیوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار بے نقاب شہر کی کسی سڑک پر گذری۔ محمد بن تومرت کی غیرت بھلا اس بے حجابی کو کیونکر گوارا کر سکتی تھی۔ اپنے مریدوں کے جھرمٹ میں سے نکل کر عورتوں کے غول پر باز کی طرح جھپٹا اور اکثر لونڈیوں کو مارپیٹ کر زخمی کر دیا۔ مارتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ مسلمان عورتیں اور یوں بے پردہ سیر کرتی پھریں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ خود شہزادی کے گھوڑے پر اتنے ڈنڈے پڑے کہ وہ بہت زیادہ بھڑکا اور شہزادی اس کی پیٹھ پر سے گر کر زخمی ہوگئی۔ ابن تومرت تو ان کو مارپیٹ کے چل دیا اور لوگ مجروح شہزادی کو اٹھا کر محل سرائے شاہی میں لے گئے۔ یہ خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی اور لوگ ابن تومرت کی جرأت ودلیری پر عش عش کرنے لگے۔ جب بادشاہ کو ابن تومرت کی ان ستیزہ کاریوں کا علم ہوا تو اسے دربار میں بلا بھیجا اور کہا صاحب! آپ نے یہ کیا ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ ابن تومرت نے کہا کہ میں ایک مسکین شخص ہوں۔ آخرت کا طلب گار ہوں۔ امر معروف اور نہی منکر میرا مشغلہ ہے۔ اے بادشاہ! امر معروف اور نہی منکریوں تو ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن آپ
اس کے سبب سے زیادہ مامور ہیں۔ کیونکہ کل قیامت کے دن آپ سے اس کے متعلق سخت باز پرس ہوگی اور میں دیکھتا ہوںکہ آپ کی مملکت میں بدعات ومنکرات کا شیوع ہے۔ اس لئے آپ پر فرض ہے کہ احیاء سنت کریں اور بدعت کو مٹا دیں۔ چنانچہ خود خداوند عالم نے تارکین امر معروف ونہی منکر کے حق میں فرمایا ہے: ’’کانوا لا یتنا ہون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوا یفعلون (۵:۸۰)‘‘ {اس برائی سے جس کے وہ مرتکب ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ ان کا یہ فعل بہت برا تھا۔}
بادشاہ ان کلمات سے بڑا متأثر ہوا اور حکم دیا کہ تمام سربرآوردہ فقہاء اور اصحاب حدیث جمع کئے جائیں۔ جب علمائے دربار جمع ہوئے تو کہا کہ اس سے میرے سامنے مناظرہ کرو۔ تاکہ معلوم ہو کہ ان ہنگامہ خیزیوں سے اس کی کیا غرض ہے۔ محمد بن تومرت دوبارہ دربار شاہی میں بلایا گیا۔ قاضی محمد بن اسود نے ابن تومرت سے کہا کیا یہ صحیح ہے جو مشہور ہورہا ہے کہ تم بادشاہ کو برا بھلا کہتے پھرتے ہو؟ اور بادشاہ بھی وہ جو عدل گستر رعایا پرور، نیک نفس، تقویٰ شعار خواہشات نفسانی کا دشمن اور احکام خداوندی کا پابند ہے؟ اس کے جواب میں ابن تومرت نے کہا۔ واقعی میں نے بادشاہ کے خلاف ایسے کلمات کہے۔ باقی رہا یہ کہ بادشاہ متقی پرہیزگار اور خداترس ہے۔ میں اس کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔ کیا وہ بادشاہ بھی متقی کہلا سکتا ہے۔ جس نے تمہاری باتوں کا اعتبار کر لیا اور جو کچھ تم لوگ کہہ دیتے ہو اسی کو وحی الٰہی سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ خوب جانتا ہے کہ وہ سلطنت کے ہر عیب اور خرابی کا جواب دہ ہے۔ کل قیامت کو بادشاہ یہ کہہ کرنہ چھوٹ جائے گا کہ مجھے اس کی اطلاع نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ابن تومرت نے کہا قاضی صاحب! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اسلامی عملداری میں خنزیر مارے مارے پھرتے ہیں۔ شراب فروخت کی جارہی ہے۔ یتیموں کے مال پر دست نظاول دراز ہے۔ سیکڑوں بیوائیں رات کو بھوکی سوتی ہیں۔ بے شمار یتیم ہیں جن کے سرپردست شفقت پھیرنے والا کوئی نہیں؟ یہ تقریر ایسی مؤثر اور دل دوز تھی کہ بادشاہ نے آبدیدہ ہوکر خجلت وندامت سے سرجھکا لیا اور دل میں کہا واقعی یہ سچ کہتا ہے۔
مراکش سے اخراج
اب ابن تومرت کو تو رخصت کردیا گیا اور علماء اراکین سلطنت میں مشورہ ہونے لگا کہ اس شخص کی شوریدہ سری کا کیا علاج کیا جائے۔ علامہ مالک بن وہیب وزیراعظم نے بادشاہ سے کہا کہ اس شخص کی باتوں سے بوئے بغاوت آتی ہے۔ اس لئے اس کی طرف سے بے اعتنائی نہیں
برتنی چاہئے اور اگر اس کا قتل خلاف مصلحت ہے تو کم سے کم اسے حراست میں رکھا جائے اور اس کے مصارف کے لئے ایک دینار سرخ روزانہ مقرر کر دیا جائے۔ خطرہ ہے کہ کہیں اس کا ہاتھ شاہی خزانہ تک نہ پہنچ جائے۔ ایک اور وزیر نے یہ رائے دی کہ اس کو خارج البلد کر دینا کافی ہے۔ بادشاہ نے آخری رائے سے اتفاق کیا اور کہا میں اس سے زیادہ کوئی سزا نہیں دے سکتا۔ خصوصاً ایسے صاحب علم ناصح کو جس کی ہربات ازروئے انصاف حق وصدق پر مبنی ہے۔ غرض فرمان شاہی کے بموجب ابن تومرت اپنے پیروؤں سمیت مراکش سے خارج کر دیا گیا۔ تلمسان سے نکل کر یہ چھوٹا سا قافلہ شہر اغمات میں پہنچا۔ یہ شہر بھی مراکش ہی کی علمداری میں واقع تھا۔ ابن تومرت یہاں چند روز اقامت گزیں رہا۔ اس جگہ عبدالحق بن ابراہیم نام ایک شخص سے جو شہر کا ایک بڑا رئیس تھا دوستی ہوگئی۔ اس نے مشورہ دیا کہ اگر تم سلطنت کے خلاف کچھ کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اغمات میں نہیں رہنا چاہئے۔ یہ شہر کسی طرح تمہاری حفاظت نہ کر سکے گا۔ ایسی کارروائیوں کے لئے موزوں ترین مقام ایک کوہستانی قصبہ ہے جو پہاڑوں کے دشوار گذار دروں میں واقع ہے اور یہاں سے ایک دن کی راہ ہے۔ ابن تومرت نے اس قصبہ کا نام پوچھا تو رئیس نے بتایا کہ اس کو تین مل کہتے ہیں۔ تینمل کا نام سنتے ہی ابن تومرت کی باچھیں کھل گئیں اور مارے خوشی کے اچھل پڑا۔ کیونکہ یہی اس شہر کا نام تھا جو علم جفر کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا تھا۔ اب اسے حصول مقصد کا یقین ہوگیا۔ فوراً کوچ کیا اور تینمل کی راہ لی۔
مہدویت کا دعویٰ
اہل تینمل نے محمد بن تومرت اور اس کے پیروؤں کو علماء اور درویشوں کے لباس میں دیکھ کر ان کی بڑی تعظیم وتکریم کی اور خاطر مدارت سے پیش آئے۔ یہاں لوگوں کا بکثرت رجوع ہوا۔ قبیلہ المصامدہ کے تمام سردار چند ہی روز کے اندر اس کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے۔ ابن تومرت نے مقامی زبان میں جس میں وہ فصیح ترین شخص مانا جاتا تھا۔ وعظ وتذکیر کا سلسلہ شروع کیا۔ یہاں تک کہ اس کی بزرگی ومشیخت کا سکہ بیٹھ گیا۔ اسی کے ساتھ تعلیم وتدریس کا سلسلہ بھی شروع کرایا۔ جب دیکھا کہ باشندگان تینمل اور اہل مضافات پر اس کا جادو چل چکا تو آغاز دعوت کا عزم کیا اور اپنے مناد بیرونی قبائل کی استمالت قلوب کے لئے روانہ کئے۔ ابن تومرت کے مبلغ تمام کوہستان میں پھیل گئے۔ یہ لوگ وہاں کے باشندوں کے سامنے ہر وقت امام منتظر حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کی روایتیں بیان کر کے ان کی آتش شوق کو مشتعل کرتے اور کہتے کہ
حضرت مہدی علیہ السلام بہت جلد ظہور فرمائیںگے۔ جب یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو ابن تومرت نے جامع مسجد میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ میں وہی محمد بن عبداﷲ المعروف مہدی ہوں جس کے ظاہر ہونے کی صدیوں پہلے جناب خاتم الانبیاءﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی اور میرے سوا کوئی نہیں جس کی ذات پر احادیث مہدی صادق آسکیں۔ یہ سنتے ہی عبدالمؤمن وغیرہ دس خاص مرید تائید کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے حضور! مہدی آخر الزمان کے تمام صفات آپ کی ذات میں مجتمع ہیں۔ آپ حضرت فاطمہ زہراء کی اولاد ہیں۔ نام بھی محمد ہے۔ اب آپ کے سوا کون ہے جو مہدی منتظر ہوسکے۔ یہ کہہ کر ابن تومرت سے مہدویت کی بیعت کرنے لگے۔ دوسرے لوگ بھی بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے۔ ہر شخص بیعت کو ذریعۂ نجات وفلاح دارین یقین کر کے پروانہ وار گرتا تھا۔ اس دن سے ابن تومرت لوگوں سے اپنی مہدویت اور امامت کبریٰ کی بیعت لینے لگا۔ آغاز بیعت کے بعد ابن تومرت اور اس کے منادوں نے جوزبردست پروپیگنڈا کیا اس سے لوگوں کو یقین آگیا کہ ابن تومرت ضرور مہدی موعود ہے۔ چنانچہ تمام قبائل نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور بہت کم لوگ ایسے رہ گئے جنہوں نے اس کو مہدی موعود تسلیم نہ کیا ہو۔ ابن تومرت نے کہا میں اس چیز پر بیعت لیتا ہوں جس پر حضور سید الخلقﷺ نے اصحاب اخیار سے بیعت لی تھی۔ پھر ان کے لئے اپنی دعوت کے متعلق بہت سے رسالے تالیف کئے۔ وہ اکثر مسائل کلامیہ میں امام ابوالحسن اشعری کا پیرو تھا۔ مگر مسئلہ اثبات صفات باری تعالیٰ کی نفی اور چند دیگر مسائل میں معتزلہ کا ہمنوا تھا۔ ابن تومرت اپنے پیرووں کو موحدین کے لقب سے یاد کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ دنیا میں تمہارے سوا کوئی موحد نہیں ہے۔ ان کی دس مختلف جماعتیں قائم کی تھیں۔ جن میں سے اولین جماعت مہاجرین کی تھی جنہوں نے اس کی دعوت کو بلاتوقف لبیک کہا تھا۔ ان کا نام الجماعت رکھا۔ ایک جماعت کو مخمسین کہتے تھے۔ یہ تمام طبقے کسی ایک قبیلہ سے مرتب نہ کئے تھے۔ بلکہ مختلف قبائل پر مشتمل تھے۔ ابن تومرت اپنے پیروؤں کو مؤمنین کہا کرتا تھا اور اس کا بیان تھا کہ سطح ارض پر تمہارے برابر کوئی شخص کامل الایمان نہیں۔ تم ہی وہ جماعت ہو جس کی مخبر صادق حضرت محمد مصطفیﷺ نے اس حدیث میں خبر دی تھی کہ میری امت کا ایک نہ ایک گروہ حق کی حمایت میں قتال کر کے غالب آتا رہے گا اور اسے کوئی ضرر نہ پہنچ سکے گا۔ یہاں تک کہ امر خداوندی آپہنچے۔ تم ہی وہ جماعت ہو جس کے ذریعہ سے حق تعالیٰ کانے دجال کو قتل کرائے گا۔ تم ہی میں وہ امیر ہے جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی سی عبادت
کرتا ہے۔ غرض مصامدہ روز افزوں اعتقاد کے ساتھ ابن تومرت کے مطیع ہوتے گئے۔ ان کے دلوں میں اس کا ادب واحترام اس درجہ راسخ ہوا کہ اگر وہ ان میں سے کسی کو اس کے باپ یا بھائی یا فرزند عزیز کے قتل کرنے کا بھی حکم دیتا تو وہ بے دریغ اس کی تعمیل کرتا۔
ابن تومرت کا ایک دلچسپ معجزہ
جن ایام میں ملالہ کے مقام پر ابن تومرت عبدالمؤمن سے ملاقی ہوا۔ انہی دنوں عبداﷲ ونشریسی نام ایک ذی علم آدمی بھی اس کا شریک حال ہوا تھا۔ کتاب الاستقصاء میں کانام ابومحشر بشیر ونشریسی لکھا ہے۔ لیکن عبداﷲ ونشریسی زیادہ مشہور ہے۔ ونشریسی بڑا ذہین فصیح وبلیغ لغات عرب واہل مغرب کا ماہر اور قرآن مجید اور مؤطا امام مالکؒ کا حافظ تھا۔ ابن تومرت اس کی ذہانت اور جودت طبع دیکھ کر عش عش کرتا تھا اور سوچا کرتا تھا کہ اس شخص کی قابلیت سے کوئی کام نکالنا چاہئے۔ چنانچہ جب دیکھا کہ ونشریسی ہر طرح سے محرم راز ہوگیا تو اس سے کہا کہ وہ لوگوں کے سامنے گونگا بن جائے اور اپنی علمی اور ذہنی قابلیت اس وقت تک ظاہر نہ کرے جب تک کہ بطور معجزہ اس کے اظہار کی ضرورت نہ ہو۔ ونشریسی انتہاء درجہ کا مستقل مزاج تھا۔ اس نے اپنے مخدوم ومطاع کا منشاء معلوم کر کے ایسی چپ سادھی کہ لوگ اسے جاہل مطلق گونگا بلکہ دیوانہ خیال کرتے تھے۔ یہ شخص میلے کچیلے کپڑے پہنے رہتا اور ایسی مکروہ وضع وہیئت بنا رکھی تھی کہ کوئی شخص پاس بیٹھنے کا روادار نہ تھا۔ ابن تومرت کی خواہش تھی کہ تینمل اور اس کے گردونواح میں کوئی شخص ایسا نہ رہ جائے جو اس کی مہدویت کا منکر ہو اور اس آبادی کو ان تمام لوگوں کے خاروجود سے پاک کر دیا جائے۔ جو وحدت قومی کی راہ میں حائل ہیں۔ اس غرض کی تکمیل کے لئے ایک دن ونشریسی سے کہنے لگا اب تمہارے انشائے کمال کا وقت آگیا اور اسے سب تدبیر سمجھا دی۔ چنانچہ جب ابن تومرت نماز صبح کے لئے مسجد میں آیا کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص نہایت فاخرہ لباس زیب تن کئے محراب مسجد میں کھڑا ہے اور اس کی خوشبو سے مسجد مہک رہی ہے۔ اس وقت سیکڑوں کا مجمع تھا۔ پوچھنے لگا حضرت آپ کوں ہیں؟ کہنے لگا کہ یہ خاکسار عبداﷲ ونشریسی ہے۔ پوچھنے لگا آپ کو یہ درجہ کیونکر ملا؟ تم تو گونگے اور مجنون تھے۔ کہا درست ہے لیکن الحمدﷲ آج خدائے قدیر نے مجھے تمام جسمانی وروحانی نقائص سے پاک کر دیا۔ رات کو ایک فرشتہ آسمان سے اتر کر میرے پاس آیا۔ اس نے میرا سینہ شق کر کے ساری کثافتیں اور سارے نقصان نکال ڈالے اور مجھے ملائکہ مقربین کی طرح بالکل معصوم بناکر میرے دل کو علوم وحکمت سے بھر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں جو کل تک جاہل مطلق اور گونگا تھا۔
آج ایک زبردست عالم، کلام پاک اور مؤطائے مبارک کا حافظ ہوں۔ یہ سن کر ابن تومرت مصنوعی ٹسوے بہا کر کہنے لگا میں کس زبان سے اس ارحم الراحمن کا شکریہ ادا کروں کہ اوروں کو تو دعائیں مانگنے اور ایڑیاں اور گھٹنے رگڑنے سے کچھ ملتا ہے۔ لیکن خدائے رحیم ودود اس عاجز کی تمام خواہش بلا طلب پوری فرماتا ہے۔ چنانچہ اس عاجز کی جماعت میں ایسے برگزیدہ لوگ بھی شامل کئے ہیں جن پر ملائکہ مقربین آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور جس طرح ہمارے آقا ومولیٰ جناب احمد مختارﷺ کا سینہ مبارک شق کر کے اس کو علوم وحکمت سے معمور فرمایا گیا۔ اسی طرح اس عاجز کی جماعت کے ایک فرد کا سینہ بھی شق کیا گیا اور رسول پاکﷺ کی طرح اس کا خزینۂ دل بھی قرآن اور حکمت اور علوم لدنیہ سے مالا مال کیاگیا۔ اس کے بعد اپنی سحربیانی سے کام لیتے ہوئے ونشریسی سے کہنے گا۔ بھائی! یہ دعویٰ ایسا نہیں کہ بے تحقیق اور بلا دلیل مان لیا جائے۔ اس کا کوئی ثبوت ہونا چاہئے۔ حاضرین نے بھی اس کی تائید کی۔ اب اس سے امتحاناً چند سورتیں پڑھنے کو کہاگیا۔ اس نے یہ سورتیں نہایت تجوید وترتیل کے ساتھ سنادیں۔ اسی طرح مؤطا وغیرہ کتب حدیث کا امتحان لیا گیا۔ ونشریسی سب میں کامیاب نکلا۔ تمام لوگ جو ونشریسی کو اس کے آغاز قدوم سے برابر گونگا اور دیوانہ اور جاہل مطلق یقین کرتے آرہے تھے۔ اس فوق العادۃ واقعہ پر محو حیرت ہوئے اور اس کو مہدی موعود (ابن تومرت) کے معجزہ کا اثر تسلیم کرنے لگے۔
تین رازدار فرشتوں کا کوئیں میں بٹھایا جانا
اب ابن تومرت نے ونشریسی سے کہا اے بزرگ! یہ تو بتادے کہ میں سعید ہوں یا شقی؟ ونشریسی نے جواب دیا کہ اے ابن تومرت! آپ مہدی قائم بامر اللہ ہیں۔ جو آپ کی پیروی کرے گا وہ سعید اور جو مخالفت کرے گا وہ شقی ازلی اور جہنمی ہے۔ اس کے بعد فاضل ونشریسی نے کہا کہ واہب العطایا نے حضور کے تصدق سے اس خاکسار کو ایک اور نعمت بھی عطاء کی ہے۔ پوچھا وہ کیا؟ عرض کیا کہ خاکسار کے باطن میں ایک ایسا نور رکھ دیا ہے کہ جس سے اہل جنت اور اصحاب نار کو فوراً پہچان لیتا ہوں اور خدائے غیور نے اس نور کے عطاء کرتے وقت یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس مقدس جماعت میں دوزخیوں کا شامل رہنا قطعاً ناروا ہے۔ لہٰذا ارشاد ہوا کہ دوزخیوں میں سے ہر ایک کو فرداً فرداً پہچان کر ہلاک کر دو اور چونکہ اتلاف واستہلاک کا معاملہ نہایت نازک اور قابل احتیاط تھا۔ اس لئے خدائے برتر نے تین فرشتے میری تصدیق کے لئے نازل فرمائے ہیں۔ جو اس وقت فلاں کوئیں میں موجود ہیں۔ یہ سن کر مہدی نے کوئیں پر جانے کا ایک وقت مقرر کر دیا
اور اس غرض کے لئے پہلے سے اپنے تین رازدار مرید اس میں بٹھادئیے۔ ان ارباب ایمان کے اسماء گرامی کی ایک فہرست پہلے سے مرتب کر لی گئی تھی۔ جنہیں ابن تومرت کی مہدویت سے انکار تھا یا اس کی مخالفت کرتے تھے۔ ابن تومرت وقت معہود پر سیکڑوں ہزاروں آدمیوں کے ساتھ کوئیں کی طرف گیا۔ یہ کنواں ایک وسیع میدان میں واقع تھا۔ لوگ ایسی حالت میں کوئیں کی طرف جارہے تھے کہ چہروں کا رنگ فق تھا۔ دل امید وبیم کی کش مکش میں مبتلا تھے اور ہر شخص اس خیال سے خوف زدہ تھا کہ دیکھیں آج کون شخص ذلت ورسوائی سے قتل ہوکر ننگ خاندان ٹھہرتا اور جہنم کے عذاب خلد میں جھونکا جاتا ہے۔ وہ میدان اس وقت عرصۂ قیامت بنا ہوا تھا۔ ہر شخص نفسی نفسی پکار رہا تھا۔ نہ باپ کو بیٹے کی خبر تھی اور نہ بیٹے کو باپ یا بھائی کی اطلاع۔ ادھر قبائل میں کہرام مچا ہوا تھا کہ دیکھیں کوئی مرد اپنے گھر کی خبرگیری کے لئے واپس بھی آتا ہے یا سب دوزخ کو جا آباد کرتے ہیں۔ غرض تمام لوگ کوئیں پر پہنچے۔ مہدی نے پہلے دوگانۂ نماز ادا کیا۔ اس کے بعد ان تین فرشتوں سے جو کوئیں کی تہ میں اترے ہوئے تھے۔ بآواز بلند کہا اے ملائکہ! عبداﷲ ونشریسی کا دعویٰ ہے کہ خدائے برتر نے مجھے جنتی اور دوزخی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت عطاء کر کے حکم دیا ہے کہ تمام دوزخی چن چن کر قتل کر دئیے جائیں۔ کیا یہ بیان صداقت پر مبنی ہے؟ ان تینوں چاہ نشین مریدوں نے پکار کر کہا کہ عبداﷲ نہایت صادق البیان ہے۔ اس جواب سے لوگوں کا اعتقاد اور بھی راسخ ہوگیا۔ ابن تومرت نے دیکھا کہ عالم سفلی کے یہ فرشتے اوپر آگئے تو افشاء راز کا احتمال رہے گا۔ اس لئے ان کو عالم بالا میں بھیج دینا مناسب ہے۔ ونشریسی وغیرہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ یہ کنواں نزول ملائکہ کی وجہ سے مقدس مقامات میں داخل ہوگیا ہے اور اگر یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا تو اس میں ناپاک چیزوں کے گرنے اور اس کے نجس ہونے کا خطرہ رہے گا اور اگر کبھی ایسا ہوا تو قوم پر قہر الٰہی نازل ہوگا۔ اس لئے اس کو پاٹ دینا مناسب ہے۔ چنانچہ سب نے اس خیال کی تائید کی اور سب کے اتفاق رائے سے وہ کنواں فوراً پاٹ دیاگیا جو چاہ بابل کے مفروضہ ملائکہ کی طرح ان بے گناہ فرشتوں کا دائمی محبس قرار پایا۔ معلوم نہیں کہ تینوں رازدار مریدوں کی ہلاکت ان کی رضا مندی سے معرض عمل میں آئی۔ یا ان سے ظلماً وخدعاً ایسا سلوک کیاگیا۔ بصورت اوّل مریدان صادق الاعتقاد کا اس طرح سے جان دینا کچھ تعجب انگیز نہیں۔ چنانچہ حسن بن صباح کے باطنی فداکاروں کے کارنامے اس حقیقت کے گواہ ہیں۔ اب قتل واستہلاک کا خون آشام ہنگامہ شروع ہوا۔ ونشریسی جس کے پاس منکریں ومخالفین مہدی کی فہرست موجود تھی۔ میدان میں کھڑا
ہوگیا اور بہشتیوں اور دوزخیوں کے نام پکارنے لگا۔ یہ شخص اپنے موافقوں اور ہم مشربوں کو جنتی قرار دے کر داہنی طرف کھڑا کرتا اور فہرست سے مخالفوں کے نام دیکھ دیکھ کر انہیں جہنمی کا لقب دیتا اور بائیں جانب کھڑا کرتا۔ کئی جلاد تیغ برہنہ کھڑے تھے جو اصحاب الشمال کو فوراً قتل کر دیتے تھے۔ کئی دن تک یہ قیامت برپا رہی۔ یکے بعد دیگرے ایک ایک قبیلہ بلایا جاتا اور ارباب ایمان جہنمی کے کردار الخلد کو بھیج دئیے جاتے۔ غرض سیکڑوں ہزاروں عاشقان حق تہ تیغ کئے گئے۔ بقیۃ السیف اس کے پکے جان نثار اور مخلص مرید تھے۔
شاہی تحصیل داروں کا قتل عام
اب ابن تومرت نے یہ وتیرہ اختیار کیا کہ ہر وقت سلاطین وقت کو خاطی، ظالم، نابکار اور دشمنان دین وملت ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا اور کہتا کہ انہوں نے احکام الٰہی کے اجراء میں کوتاہی کی ہے۔ اس لئے نہ صرف ان کی اطاعت حرام ہے۔ بلکہ ان کے خلاف غزاد جہاد فرض ہے اور برملا کہتا کہ میں سلطنت مراکش کی اینٹ سے اینٹ بجادوںگا اور یہ کہ جو کوئی دنیا اور عقبی میں سرفراز وکامگار ہونا چاہتا ہے وہ اس جہاد میں میرا ساتھ دے گا۔ اس تحریک کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا عقیدت مند جان بازی وسرفروشی پر آمادہ ہوگئے۔ اب ابن تومرت سلطان مراکش کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے لئے حیلہ تلاش کرنے لگا۔ وہ اکثر دیکھتا تھا کہ خود تو اہل کوہ سانولے ہیں اور ان کی بعض اولاد گریہ چشم اور بھورے رنگ کی ہے۔ ایک دن ان سے دریافت کرنے لگا کہ اولاد اور والدین کے اختلاف رنگ کی کیا وجہ ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے سکوت کیا اور ندامت سے سرجھکالئے۔ جب اس نے زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ سلطان کے غلام ہر سال تحصیل خراج کے لئے ان پہاڑوں پر آتے ہیں جو عموماً یونانی رومی اور افرنجی ہیں۔ بادشاہ کو تو غالباً اس کی خبر نہ ہوگی۔ مگر وہ لوگ ہماری بڑی رسوائی کرتے ہیں۔ آتے ہی ہمیں ہمارے گھروں سے خارج کر دیتے ہیں اور ہماری عورتوں کو بے عزت کر ڈالتے ہیں اور ہمیں ان کی دست برد سے بچنے کی قدرت نہیں۔ اسی وجہ سے ہماری عورتوں کی بعض اولاد ان غلاموں کے رنگ پر ہوتی ہیں۔ ابن تومرت طیش میں آکر کہنے لگا تمہارے لئے ایسی شرمناک زندگی سے مرجانا بہتر ہے اور مجھے حیرت ہے کہ تمہارے ایسے شجاع وجانباز لوگ ایسی بے عزتی اور بے غیرتی پر کیوں کر خاموش رہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں بھلا لشکر سلطانی سے مقابلہ کرنے کا کیونکر حوصلہ ہوسکتا تھا۔ کہنے لگا اچھا اگر کوئی شخص اس بارہ میں تمہاری دادرسی کرے تو اس کا ساتھ دوگے۔
انہوں نے کہا ساتھ دینا کیسا ہم اس کے حکم پر اپنی جانیں نثار کر دیںگے۔ مگر ایسا فریادرس کہاں مل سکتا ہے؟ ابن تومرت تو خدا سے یہی چاہتا تھا ان سے وعدہ کیا کہ میں تم کو اس مصیبت سے نجات دلاؤںگا۔ انہوں نے اس کی سرپرستی نہایت شکریہ کے ساتھ قبول کی۔ ابن تومرت نے ان کو سمجھایا کہ اب کی مرتبہ جب بادشاہ کے غلام یہاں آئیں اور تمہاری عورتوں سے اختلاط کا قصد کریں تو تم ان کے پاس شراب کی بوتلیں رکھ دینا اور جب وہ پی کر نشہ میں سرشار ہو جائیں تو مجھے اطلاع دینا۔ غرض جب بادشاہ کے غلام حسب معمول خراج سلطنت کی تحصیل کے لئے آئے تو انہوں نے ان کو خوب شراب پلائی۔ جب بدمست ہوگئے تو ابن تومرت کو خبر کی۔ اس نے حکم دیا کہ سب کو قتل کر ڈالو۔ چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی۔ سب غلام مار ڈالے گئے۔ البتہ ایک غلام جو حسن اتفاق سے کسی کام کے لئے اپنی فرود گاہ سے باہر گیا تھا باہر ہی خبردار ہوگیا اور بھاگ کھڑا ہوا اور دارالسلطنت میں پہنچ کر بادشاہ کو صورتحال سے مطلع کیا اور یہ بھی بتایا کہ وہی محمد بن تومرت جو یہاں سے نکالا گیا تھا وہاں پہنچ کر سب کا پیشوا بنا ہوا ہے اور اسی کے حکم سے یہ کارروائی عمل میں آئی ہے۔ اب بادشاہ کی آنکھیں کھلیں۔ اپنی مال نااندیشانہ رواداری اور سہل انگاری پر بہت پچھتایا اور تسلیم کیا کہ مالک بن وہیب کی رائے واقعی نہایت صائب تھی۔
شاہی فوج کی ہزیمت
ابن تومرت کو یقین تھا کہ شاہی فوج انتقام کے لئے ضرور آئے گی اس لئے اس نے یہ ہوشیاری کی کہ اپنے پیروؤں کی ایک زبردست جمعیت پہاڑوں پر دروں کی دونوں طرف بٹھادی اور حکم دیا کہ جیسے ہی بادشاہی فوج آئے تم لوگ پوری قوت اور شدت کے ساتھ پتھر لڑھکانا شروع کر دینا اور اتنی سنگ باری کرنا کہ ایک شخص بھی زندہ سلامت واپس نہ جاسکے۔ ابن تومرت کا یہ خیال صحیح نکلا۔ چنانچہ بادشاہ نے اس خونریزی کی سزا دینے کے لئے ایک لشکر جرار روانہ کیا جو فوراً مراکش سے چل کر تینمل کی گھاٹیوں میں گھسا۔ جونہی شاہی فوج دروں میں سے گزرنے لگی اوپر سے اتنی سنگ باری ہوئی کہ ہزارہا سوار پتھروں کے نیچے کچل کچل کر ہلاک ہوگئے۔ اسی حالت میں رات کی سیاہ چادر نے اس ہنگامہ آرائی کو موقوف کردیا اور بچی کھچی فوج نہایت بے ترتیبی کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی۔ جب یہ ہزیمت خوردہ لشکر دارالسلطنت میں پہنچا اور بادشاہ کو اس شکست کی اطلاع ہوئی تو سخت بدحواس ہوا اور اپنی عافیت اسی میں نظر آئی کہ آئندہ ابن تومرت سے کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔ اس شاندار فتح نے موحدین کے دل بڑھا دئیے اور انہیں بیش از پیش اس
بات کا یقین ہوا کہ واقعی ان کا مقتداء سچا مہدی موعود ہے۔ اب ابن تومرت نے موحدین کا ایک لشکر جرار مرتب کیا اور ان سے کہا کہ ان کافروں اور دین مہدی کے منکروں کی طرف جاؤ جن کو مرابطون کہتے ہیں۔ ان کو بدکرداری سے اعراض، اعمال حسنہ کے احیاء، ازالہ بدعت، قیام سنت اور اپنے مہدی معصوم کے اقرار کی دعوت دو۔ اگر تمہاری دعوت کو قبول کریں تو تمہارے بھائی ہیں ورنہ ان کے خلاف جہاد کرو۔ سنت نبویﷺ نے ان کے خلاف جہاد کرنا تم پر فرض کردیا ہے۔ اس نے عبدالمؤمن کو سرعسکر بناکر کہا تم موحدوں کے امیر ہو۔ اس دن سے عبدالمؤمن کو امیر المؤمنین کہنے لگے۔ یہ تمام لشکر مراکش کی طرف روانہ ہوا۔ پرچہ نویسوں نے موحدین کی نقل وحرکت کا سارا حال دارالسلطنت کو لکھ بھیجا۔ چنانچہ ابھی دارالسلطنت سے دور ہی تھے کہ بھیرہ نام ایک مقام پر مرابطون کی ایک فوج گراں آتی دکھائی دی۔ بادشاہ کا بیٹا زبیربن علی اس کا سر عسکر تھا۔ جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں تو عبدالمؤمن نے اپنے مہدی کے حکم سے تمام امور کی دعوت کے لئے اپنا قاصد بھیجا۔ مگر شاہی لشکر نے اس دعوت کو سخت نفرت کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ اب عبدالمومن نے امیر المسلمین علی بن یوسف کو دعوت مہدی کے موضوع پر ایک مراسلہ بھیجا۔ امیرالمسلمین نے اس کے جواب میں مسلمان بادشاہ کی عدول حکمی اور تفرقہ جماعت کی وعیدیں جو احادیث نبویہ میں وارد ہیں۔ لکھ بھیجیں اور خونریزی وفتنہ انگیزی کے بارہ میں خدا یاد دلایا۔ مگر عبدالمؤمن ان باتوں کو کچھ خاطر میں نہ لایا۔ بلکہ اس جواب کو امیرالمؤمنین کی کمزوری پر محمول کیا۔ اب جانبین نے ہتھیار سنبھالے اور لڑائی شروع ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ موحدوں کو سخت ذلت آفرین شکست ہوئی۔ عبدالمؤمن اور چند دوسرے آدمی چھوڑ کر موحدین کا سارا لشکر تہ تیغ ہوگیا۔ جب اس ہزیمت کی خبر ابن تومرت کو ہوئی تو اس نے اپنے مقتولوں کو جنت الفردوس کی بشارت دی اور جب عبدالمؤمن پہنچا تو اس سے کہنے گا کہ لڑائی میں شکست ہوئی تو کوئی مضائقہ نہیں۔ معرکہ ہائے جنگ میں ہمیشہ یہی رہا ہے کہ آج کوئی غالب ہے اور کل کو کوئی اور۔ مگر انجام کار تم ہی غالب رہو گے۔
مردوں سے ہم کلام ہونے کا معجزہ
اب ابن تومرت نے موحدین کو پھر منظم کرنا شروع کیا اور اس کی جمعیت ازسرنو بڑھنے لگی۔ آخر دس ہزار موحدین کے لشکر کے ساتھ بذات خود مراکش پر دھاوا کرنے کا قصد کیا۔ لیکن چونکہ پہلی لڑائی میں شکست ہوئی تھی اور موحدین کی بہت بڑی تعداد میدان جانستان کی نذر ہوئی تھی۔ اس لئے بہت سے لوگ خصوصاً تینمل کے روساء ساتھ جاتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ یہ
دیکھ کر ابن تومرت نے کہا کہ جس کسی کو اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر ہمارا ساتھ دینا منظور ہو وہ ہماری مواقت کرے ورنہ خدا خود حزب اللہ اور مددگار ہے۔ خدائے میہمن اس مرتبہ ہمیں ایسی عظیم الشان فتح دے گا کہ متخلفین بعد کو عدم رفاقت کی وجہ سے سخت شرمسار ہوںگے اور اب کی مرتبہ میدان جنگ میں جاکر ہر شخص خود اپنے کانوں سے سنے گا کہ مردے قبروں میں سے ہمیں فتح کی بشارت دیتے ہیں۔ یہ سن کر وہ لوگ بھی ساتھ چلنے پر آمادہ ہوئے جنہیں شریک جنگ ہونے میں تأمل تھا۔ اب ابن تومرت نے یہ انتظام کیا کہ اس میدان جنگ کے پاس جاکر پڑاؤ ڈالا۔ جہاں اس سے پیشتر اس کے لشکر کو شکست ہوئی تھی اور عبدالمؤمن کے ذریعہ سے چند قبریں کھدوا کر اپنے بعض رازدار پیروؤں کو ان میں زندہ دفن کرادیا اور ہوا کی آمد ورفت کے لئے قبروں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ رکھوادئیے اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم سے تمہارا حال دریافت کیا جائے تو کہہ دینا کہ جن امور کا خدائے برتر نے وعدہ فرما رکھا تھا سب باتیں پوری ہوئیں۔ تم لوگ دشمن کے جہاد میں جانیں لڑادو۔ غرض قبریں کھدوا کر اپنے خاص رازداروں کو دفن کرادیا اور ان سے وعدہ کیا کہ اس کے بعد تمہیں قبروں سے نکال لیا جائے گا اور تمہیں اس خدمت کی وجہ سے بہت بڑا تقرب حاصل ہوگا۔ جب سپیدۂ صبح نمودار ہوا تو ابن تومرت نے اپنے لشکر کو خطاب کر کے کہا اے گروہ موحدین! تم اللہ کا لشکر دین الٰہی کے انصار اور حق کے معاون ہو۔ عنقریب فتح ونصرت تمہارے قدم چومے گی اور اگر تمہیں کچھ تردد ہو تو چلو اپنے ان اہل قبور بھائیوں سے جو پچھلی مرتبہ درجہ شہادت پاکر یہاں دفن ہوئے دریافت کرلیں کہ ان پر خدائے قدوس نے کیا، کچھ نوازش فرمائی؟ یہ کہہ کر قبروں پر آیا اور کہنے گا اے گروہ شہداء! تم لوگوں نے منجانب اللہ کیا کچھ مشاہدہ کیا؟ قبروں میں سے آواز آئی خدا نے ہمیں نوازا اور اتنا بڑا اجر عطاء فرمایا کہ نہ کسی آنکھ نے کبھی دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال ہی گذرا اور اگر تم لوگ بھی ان مدارج علیاء پر فائز ہونا چاہتے ہو تو امام مہدی کی متابعت کرو۔ یہ سن کر دام افتادگان مہدویت کو یقین آگیا کہ واقعی شہداء ان سے ہم کلام ہوئے ہیں۔ اس بناء پر ہر شخص جانبازی پر آمادہ ہوا اور سربکف لڑنے کو نکلا۔ ۳؍شعبان ۵۱۶ھ کو وہاں زبردست لڑائی ہوئی۔ جس میں ابن تومرت کو فتح ہوئی اور بہت سامال غنیمت موحدین کے ہاتھ آیا۔
سلسلۂ فتوحات اور ابن تومرت کا سفر آخرت
جب دارالسلطنت میں اس تخت وتاراج کا علم ہوا تو بادشاہ نے ایک زبردست کمک
روانہ کی۔ لیکن شاہی فوج کو مکرر شکست ہوئی۔ موحدین نے شاہی فوج کا تعاقب کیا اور اس کو مارتے کاٹتے دارالسلطنت کے قریب تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد شہر تلمسان کے قریب جبل کیلز پر حملہ کیا۔ یہ ایک نہایت مضبوط پہاڑی قلعہ تھا۔ ابن تومرت نے اس کا محاصرہ کرلیا۔ اس محاصرہ نے تین سال تک یعنی ۵۱۶ھ سے ۵۱۹ھ تک طول کھینچا۔ آخر ابن تومرت محاصرہ اٹھا کر واپس آگیا۔ لیکن واپسی پر متعدد شہر فتح کر لئے۔ ان مہموں سے فارغ ہوکر ابن تومرت اس غرض سے تینمل چلا آیا کہ لشکر آرام کرے۔ دو مہینہ تک سستانے کے بعد ابن تومرت ازسرنو تیس ہزارفوج کے ساتھ شہر ہزرجہ کی طرف بڑھا۔ اس کو فتح کیا اور خدا کی سیکڑوں بے گناہ مخلوق کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ وہاں سے اہل درن کا رخ کیا۔ اس سرزمین کے سارے قلعے اور حصون فتح کر لئے اور وہاں کے تمام قبائل نے ابن تومرت کی اطاعت کر لی۔ اس کے بعد ابن تومرت تینمل کو واپس چلا آیا تاکہ فوج استراحت کرلے۔ ان تمام معرکوں میں ابن تومرت کا یہ معمول تھا کہ جہاں کہیں کوئی مسلمان نظر آتا اسے محض اس جرم میں گرفتار کر لیا جاتا کہ وہ مہدی موعود کا منکر ہے اور اس پر اس وقت تک رحم نہ کرتا۔ جب تک وہ اس کی مہدویت کو تسلیم نہ کر لیتا اور اگر وہ کسی طرح نہ مانتا تو اسے جرعہ مرگ پلادیا جاتا۔ اس کے بعد ابن تومرت نے عبدالمؤمن کے زیرقیادت ایک اور زبردست فوج مراکش پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کی۔ بادشاہ کا بیٹا ابوبکر بن علی مقابلہ پر آیا۔ لیکن ہزیمت کھائی۔ اس کے بعد موحدین نے جاکر دارالسلطنت کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن آٹھ روز کے بعد محاصرہ اٹھا کر تینمل چلے آئے۔ جب ۵۲۴ھ میں یہ لشکر مظفر ومنصور واپس آیا تو ابن تومرت نے کہا کہ اب میرا پیمانۂ حیات لبریز ہوچکا ہے۔ میں اسی سال رفیق اعلیٰ سے جاملوںگا۔ یہ سن کر سب لوگ رونے لے۔ چنانچہ تھوڑے دن کے بعد مرض موت میں گرفتار ہوا۔ عبدالمؤمن کو اپنا جانشین اور امام صلوٰۃ مقرر کیا اور دنیائے رفتنی وگذشتنی کو الوداع کہہ کر امانت حیات ملک الموت کے سپرد کردی۔ اس نے مرنے سے پہلے عبدالمؤمن کو یہ مژدہ سنایا کہ اقلیم مراکش عنقریب تمہارے عمل ودخل میں آئے گی اور تم تمام اسلحہ وخزائن سلطانی کے مالک ہوگئے۔
ابن تومرت کی قبر پر ایک مرید کی قصیدہ خوانی
ابن تومرت کی موت کے بعد اس کے ایک فراق زدہ مرید نے اس کی قبر پر کھڑے ہوکر ایک قصیدہ پڑھا جس کے چند اشعار ہیں۔
سلام علیٰ قبر الامام المسجد
سلالۃ خیر العالمین محمد
اس صاحب مسجد امام کی قبر پر سلام ہو جو تمام عالموں کے بہترین فرد محمدﷺ کی اولاد میں سے ہے۔
مشبہ فی خلقہ ثم فی اسمہ
وفی اسم ابیہ والقضاء المسدد
اپنے اخلاق، اپنے نام، اپنے باپ کے نام میں اور اپنی قضاء محکم میں ان کے مشابہ ہے۔
ومحییی علوم الدین بعد مماتہا
ومظہر اسرار الکتاب المسدد
جو علوم دین کی موت کے بعد ان کو حیات تازہ بخشنے والا اور کتاب محکم کے اسرار کو ظاہر کرنے والا ہے۔
اثبنابہ البشریٰ بان یملأ الدنیا
بقسط وعدل فی الانام مخلد
ہمیں اس سے یہ خوشخبری ملی ہے کہ وہ مخلوق میں اپنے عدل وانصاف پائندہ سے دنیا کو معمور کر دے گا۔
ویفتح الامصار شرقاً ومغرباً
ویملک عرباً من مغیر ومنجد
وہ مشرق ومغرب میں ہر طرف کے شہروں کو فتح کرے گا اور عرب کے تمام نشیب وفراز کے باشندوں کا مالک ہوگا۔
فمن وصفہ اقنیٰ واجلیٰ وانہ
علاماتہ خمس تبین لمہتدی
وہ جس کی تعریف میں اقنیٰ واجلیٰ کہا گیا ہے۔ اس کی پانچ علامتیں ہیں جو ہر ایک طالب ہدایت کے لئے ظاہر ہیں۔
زمان واسم المکان ونسبۃ
وفعل لہ فی عصمۃ وتاید
زمانۂ، نام، مکان، نسب اور اس کا وہ فعل جو گناہ سے مبرا اور خدا کی مدد سے بہرور ہے۔
ویلبث سبعا اوفتسعاً یعیشہا
کذاجاء فی نص من النقل مسند
صحیح حدیثوں میں لکھا ہے کہ وہ یعنی مہدی سات یا نو سال تک امر حکومت پر قائم رہے گا۔
فقد عاش تسعاً مثل قول نبینا
فذالکم المہدی باﷲ یہتدی
چنانچہ وہ ہماری نبیﷺ کے قول کے بموجب نوسال تک رہا۔ تمہارا وہ مہدی یہی ہے جو اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھا۔
وتتبعہ للنصر طائفۃ الہدی
فاکرم بہم اخوان ذی الصدق احمد
اس کی مدد کے لئے ارباب ہدایت کی ایک جماعت اس کی پیرو ہے۔ یہ اہل صدق کس قدر قابل ستائش ہیں؟
ہی الثلۃ المذکور فی الذکر امرہا
وطائفۃ المہدی بالحق تہتدے
یہی وہ جماعت ہے جس کا امر قرآن میں مذکور ہے۔ یہی مہدی کا گروہ ہے جو حق سے ہدایت کرتا ہے۔
ویقدمہا المنصور والناصر الذی
لہ النصر حزب اذیروح ویغتدے
اور جس کا امام وہ منصور وناصر شخص ہے کہ فتح ونصرت شام وپگاہ اس کے ہمرکاب ہے۔ (منصور اور ناصر اس کے مقدمۃ الجیش ہیں)
ھو المنتقے من قیس عیلان مفخرا
ومن مرہ اہلا الجلال الموظد
وہ بنی قیس عیلان اور اہل جلال بنی مرۃ میں ایک برگزیدہ ہستی ہے اور اس بات پر اسے فخر ہے۔
خلیفۃ مہدی الا لہ وسیفہ
ومن قد غدا بالعلم والحلم مرتدی
وہ مہدی خدا کا خلیفہ اور اس کی تلوار ہے۔ جس نے علم وحلم کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔
بہم یقمع اللہ الجبارہ الالیٰ
یصدون عن حکم من الحق مرشد
انہی کے ذریعہ سے خدا ان جابروں کا قلع قمع کرے گا جو ایک مرشد برحق کے حکم احکام کی پیروی سے روکتے ہیں۔
ویفتتحون الروم فتح غنیمۃ
ویقتسمون المال بالترس عن ید
وہ روم کو غنیمت کے طور پر فتح کریںگے اور اپنے ہاتھ سے ڈھال بھر بھر کر مال تقسیم کریںگے۔
ویغدون للدجال یغزونہ ضحا
یذیقونہ حد الحسام المہند
وہ دجال سے دن دہاڑے جنگ کریںگے اور دجال کو ہندی تلوار کا مزا چکھائیں گے۔
وینزل عیسیٰ فیہم وامیرہم
امام فیدعوہم لمحراب مسجد
عیسیٰ علیہ السلام ان میں نازل ہوںگے اور ان کا امام انہیں مھراب مسجد کی طرف بلائے گا۔
یصلے بہم ذاک الامیر صلاتہم
بتقدیم عیسیٰ المصطفیٰ عن تعمد
مسلمانوں کا امیر مسیح علیہ السلام کی تقدیم کے ساتھ لوگوں کو نماز پڑھائے گا۔
ویقتلہ فی باب لد وتنجلے
مشکوک امالت قلب من لم یوحد
وہ اسے باب لد میں قتل کریںگے اور کفار کے وہ شکوک مٹ جائیںگے جو ان کے دلوں میں موجزن ہیں۔
وما ان یزال الا مرفیہ وفیہم
الیٰ اٰخر الدھر الطویل المسرمد
مسیح علیہ السلام اور مسلمانوں کی یہ حالت آخر دہر تک ایسی ہی رہے گی۔
ابن تومرت کے اخلاق وعادات
محمد بن تومرت فضائل اخلاق کا مجسمہ تھا۔ مال غنیمت، بیت المال اور قومی محاصل ومداخل میں سے اس نے مدت العمر ایک حبہ بھی اپنی ذات پر خرچ نہ کیا۔ بسراوقات کی یہ صورت تھی کہ اس کی بہن چرخہ کاٹ کر سوت بیچا کرتی تھی۔ اسی پر بھائی بہن دونوں کی گذر اوقات کا مدار تھا۔ ابن تومرت اٹھ پہر میں ایک ہلکی سی روٹی پر اکتفاء کرتا۔ جس کے ساتھ تھوڑا سا مکھن یا روغن زیتون ہوتا تھا۔ جب فتوحات کی کثرت ہوئی اور اس کے سامنے مال غنیمت اور مہاصل کے ڈھیر لگے رہتے تھے تو اس وقت بھی اس نے اپنی سابقہ غذا میں کچھ اضافہ نہ کیا۔ مدت العمر حصور رہا اور شادی نہ کی۔ ایسا زاہد اور تارک الدنیا تھا کہ جب اسے ابتداء میں ایک شاندار فتح ہوئی اور اس کے پیروؤں نے امیرانہ ٹھاٹھ بنانا چاہا تو بہت ناخوش ہوا اور تمام مال غنیمت جمع کر کے نذر آتش کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ جو کوئی دنیا کا طالب اور خطوط فانی کا دلدادہ ہے وہ یہاں سے چلا جائے۔ یہاں صرف آخرت ہے جس کا نفع عاقبت میں ملے گا۔ ابن تومرت سنت اولیٰ کی طرح حدود شرعی کی نگرانی میں تشدد پر تلا رہتا تھا۔ شراب خوری پر نہایت سخت سزائیں دیتا۔ ایک مرتبہ ایک شخص حالت بدمستی میں ابن تومرت کے پاس لایا گیا۔ اس نے سزا کا حکم دیا۔ ایک ذی عزت حاشیہ نشین یوسف بن سلیمان نے کہا حضور والا! اگر اس پر اس وقت تک برابر سختی کی جائے جب تک یہ نہ بتادے کہ اس نے کہاں سے شراب لی تو یقین ہے کہ اس فتنہ کا استیصال ہو جائے گا۔ یہ سن کر ابن تومرت نے منہ پھیر لیا۔ یوسف نے مکرر یہی کہا تو پہلے کی طرح پھر روگردانی کی۔ جب اس نے تیسری مرتبہ ایسا ہی کہا تو ابن تومرت نے جواب دیا کہ اگر بالفرض ملزم نے یہ کہہ دیا کہ میں نے یوسف بن سلیمان کے گھر سے شراب پی ہے تو پھر کیا کروگے؟ یہ سن کر یوسف نے سرجھکا لیا۔ لیکن بعد کو یہ راز فاش ہونے پر سب کو حیرت ہوئی کہ یوسف ہی کے نوکروں نے اسے شراب پلائی تھی۔ چنانچہ اس واقعہ کو مہدی (ابن تومرت) کے کشف وکرامت پر محمول کیاگیا۔ ابن تومرت میں جہاں بیسیوں خوبیاں تھیں۔ وہاں دعوائے مہدویت سے قطع نظر اس میں ایک بڑا عیب یہ تھا کہ اس نے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ہزارہا بے گناہ کلمہ گوؤں کو تیغ بے دریغ کے سپرد کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ ابن قیم نے اسے حجاج بن یوسف سے بھی زیادہ سفاک اور جفاکیش لکھا ہے۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ اس نے جو جانشین چھوڑے وہ عدل وانصاف کا پیکر اور ترویج
اسلام میں حضرات خلفائے راشدینؓ کا دھندلا عکس تھے۔ ابن تومرت نے متعدد کتابیں تصنیف کی تھیں۔ ایک توحید اور عقائد پر مشتمل تھی جس کا نام مرشدۃ تھا۔ ایک کا نام کنزالعلوم تھا۔ ایک اعز ما یطلب کے نام سے موسوم تھی۔ مؤخر الذکر کتاب الجزائر میں چھپ چکی ہے۔
عبدالمؤمن کی خلافت
کسی داعی کی وفات کے بعد اس کے پیروؤں کو سب سے پہلی مشکل جو پیش آتی ہے وہ انتخاب خلیفہ کا مسئلہ ہے۔ ابن تومرت کے مرنے پر یہ خطرہ شدت سے محسوس کیا جارہا تھا کہ اس کی جماعت میں تفرقہ پڑ جائے گا۔ وابستگان اسوۂ محمدی (ﷺ) میں عشرہ مبشرہ سب سے زیادہ جلیل القدر وعظیم المرتبہ اصحاب ہیں۔ اسی تعداد کا لحاظ کرتے ہوئے ابن تومرت نے بھی اپنے دس بڑے حواری بنا رکھے تھے۔ اس کے مرنے کے بعد ان دس ممتاز حواریوں میں سے ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ وہ خلیفہ بن جائے۔ یہ سب مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں اپنی اپنی خلافت کے متعلق ’’رسہ کشی‘‘ شروع ہوئی۔ ہر امید وار کا قبیلہ اپنے آدمی کی تائید پر تلا ہوا تھا اور کوئی قبیلہ غیر قبیلہ کی خلافت واطاعت پر راضی نہ تھا۔ آخر بہت سی کش مکش کے بعد عبدالمؤمن پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ ایک تو اس وجہ سے کہ ان کا مہدی اس کو اپنے مرض موت میں نماز کا امام مقرر کرگیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ عبدالمؤمن غریب الدیار تھا۔ قبائل کی باہمی آویزش سے یہی بہتر سمجھا گیا کہ ایک ایسے شخص کو خلیفہ بنا دیا جائے جس کا تعلق کسی قبیلہ سے نہ ہو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عبدالمؤمن نے اپنے خلیفہ بنائے جانے کے متعلق حیلہ سازی سے بھی کام لیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ اس نے ایک طوطا اور شیرپال رکھا تھا۔ طوطے کو اس نے یہ سبق پڑھا رکھا تھا کہ جونہی ایک لکڑی اس کے سامنے کھڑی کی جائے وہ یوں کہنے لگے۔ ’’النصر والتمکین لعبد المؤمن امیر المؤمنین‘‘ (نصرت وتمکین امیر المؤمنین عبدالمؤمن کے ساتھ ہے) اور شیر کو یہ سکھا رکھا تھا کہ جونہی عبدالمؤمن کو دیکھے دم ہلانے اور اس کے پیر چاٹنے لگے۔ جب ابن تومرت کے سپرد خاک کئے جانے کے بعد اس کے تمام پیرو ایک مقام پر جمع ہوئے تو عبدالمؤمن نے ایک خطبہ دیا۔ جس میں موحدین کو اختلاف وانزاع کے خوفناک عواقب ونتائج سے متنبہ کرتے ہوئے محبت وآشتی کی تلقین کی۔ جب عبدالمؤمن خطبہ دے رہا تھا تو اس کے ایماء کے بموجب اس کا سائیس وہاں طوطا اور شیر لے آیا۔ سائیس نے لکڑی اٹھائی تو طوطا عبدالمؤمن کی نصرت وتمکین کی رٹ لگانے لگا اور شیر دم ہلاتا ہوا عبدالمؤمن کی طرف بڑھا اور اس کے پیر چاٹنے شروع کر دئیے۔ یہ دیکھ کر حاضرین
کو سخت حیرت ہوئی اور عبدالمؤمن کی یہ کرامت دیکھ کر سب لوگ اس کی خلافت پر متفق ہوگئے۔
حصۂ دوم … بقیہ تذکرہ محمد بن عبداﷲ بن تومرت حسنی
عبدالمؤمن کے فتوحات اس کی بادشاہی اور سلطنت موحدین
ابن تومرت کی موت کے بعد عبدالمؤمن مدت تک تجہیز لشکر میں مصروف رہا۔ جب تیاریاں مکمل ہوچکیں تو ۵۳۴ھ میں دوبارہ مراکش پر حملہ آور ہوا۔ اس لڑائی میں موحدین کا پلہ بھاری رہا۔ اس وقت سے عبدالمؤمن کے فتوحات کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔ ۵۳۷ھ میں اس نے سپاہ مرابطین کو منہزم کر کے سلطان یوسف بن علی کی زندگی کا چراغ گل کردیا اور دو سال کے بعد اور ان تلمسان فیض، سیوٹ غمات اور سالی پر قابض ہوگیا۔ ۵۴۱ھ میں مراکش کا دوبارہ محاصرہ کر کے خاندان مرابطین کی شاہی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا۔ اس خاندان کا آخری تاجدار اسحاق بن علی بن یوسف موحدین کے ہاتھ سے دار البقا میں جاپہنچا۔ ۵۴۰ھ میں عبدالمؤمن نے ایک لشکر ہسپانیہ (اسپین) بھیجا اور پانچ سال کی مسلسل جنگ آزمائی کے بعد سارا سپین اس کے علم اقبال میں آگیا۔ مراکش اور ہسپانیہ پر قابض ومتصرف ہوکر اس نے اپنی عنان توجہ مشرقی مہمات کی طرف پھیر دی۔ ۵۴۷ھ میں الجزائر کا حمادیہ خاندان بھی عبدالمؤمن کے ہاتھوں تخت دیہم سے محروم ہوا۔ ۵۵۲ھ میں اس نے زیدی خاندان کے جانشین نارمنوں کو ٹیونس (تونس) سے نکال دیا۔ اس کے بعد طرابلس الغرب کو مسخر کیا۔ اس فتح کے بعد سرحد مصر سے لے کر بحرالکاہل کے تمام ساحلی ممالک اور ہسپانیہ پر اس کا پھریرا اڑانے لگا۔ غرض اب عبدالمؤمن سے بڑا کوئی بادشاہ افریقہ میں موجود نہ تھا۔ حضرات! نیرنگ ساز قدرت کی اعجوبہ نمائیاں دیکھئے کہ یہ عبدالمؤمن اسی غریب کمہار کا لڑکا ہے۔ جو مٹی کے برتن بنا کر اپنا اور اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالا کرتا تھا۔
عبدالمؤمن نے ۵۴۷ھ میں ابن رشد اندلسی کو قاضی القضاۃ کا عہدہ تفویض کیا۔ اندلس سے مراکش تک کے تمام علاقے اس کے حدود قضا میں داخل تھے۔ عبدالمؤمن نے ابن تومرت کی موت کے بعد اس کی مہدویت کے سارے افسانے طاق نسیان پر رکھ دئیے اور اپنی سلطنت کو منہاج نبوت پر قائم کر کے خالص اسلامی سلطنت بنادیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابن تومرت کی مہدویت کا دل سے کبھی قائل نہ تھا۔ عبدالمؤمن کے عہد سلطنت میں اور اس کے بعد بھی موحدین کا دربار ہمیشہ فقہا ومحدثین کے ہاتھ میں رہا اور تمام ممالک محروسہ پر اسی مقدس گروہ کے خیالات محیط تھے۔
مصحف عثمانی مراکش میں
عبدالمؤمن نے ۵۲۸ھ ہی سے امیر المؤمنین کا لقب اختیار کر لیا تھا۔ یہ لقب صدر اسلام میں صرف مشرق کے خلفائے بنو امیہ اور بنو عباس کے حق میں استعمال کیا جاتا تھا۔ سب سے پہلے عبید اللہ مہدی نے اس لقب میں مزاحمت کی اور خلفائے بنو امیہ وبنو عباس کی طرح امیرالمؤمنین کہلانے لگا۔ عبیداﷲ کے بعد عبدالمؤمن نے یہ لقب اختیار کیا۔ امیرالمؤمنین حضرت عثمان ذوالنورینؓ نے اپنے عہد خلافت میں قرآن عزیز کی چار نقلیں کراکر مکہ معظمہ، بصرہ، کوفہ اور شام میں بھجوادی تھیں۔ ان میں سے شامی نسخہ قرطبہ اسپین چلاگیا تھا۔ جب عبدالمؤمن نے اسپین پر عمل ودخل کیا تو ۱۱؍شوال ۵۵۲ھ کو یہ نسخہ مراکش لے آیا۔ چونکہ ایک مرتبہ عبدالمؤمن کی جان لینے کی کوشش کی گئی اور قلمرو میں کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جو اس کی حمایت کا دم بھرتا۔ اس لئے اس نے اسی دن ارادہ کر لیا کہ اپنے تمام قرابت داروں کو اپنے دارالسلطنت میں بلالے۔ چنانچہ ۵۵۷ھ میں نہ صرف اس کے دور نزدیک کے تمام رشتہ دار بلکہ ہزارہا اہل وطن بھی تینمل چلے آئے۔ عبدالمؤمن کو ان کی وجہ سے بڑی تقویت ہوئی۔ لیکن اس سے اگلے سال بتیس سال بادشاہی کر کے آغوش لحد میں جاسویا اور تینمل میں ابن تومرت کی قبر کے پاس دفن کیاگیا۔ اس بادشاہ کے اقبال وتجمل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سیکڑوں شہر فتح کئے۔ بیسیوں لڑائیاں لڑیں۔ بڑی بڑی فوجوں سے مڈبھیڑ ہوئی۔ بجز پہلی شکست کے جو ابن تومرت کی زندگی میں کھائی تھی۔ کبھی ہزیمت کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ عبدالمؤمن کی اولاد میں بارہ بادشاہ قریباً ایک سو گیارہ سال تک سریر سلطنت پر متمکن رہے۔ جن میں سب سے پہلا حکمران عبدالمؤمن کا بیٹا یوسف تھا۔ جس نے قریباً بائیس سال تک سلطنت کر کے ۵۸۰ھ میں انتقال کیا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا منصور اورنگزیب شہنشاہ ہوا۔ منصور بھی اپنے دادا کی طرح نہایت عالی حوصلہ اور اولوالعزم بادشاہ تھا۔ موحدین کی سلطنت اس کے عہد حکومت میں منتہائے عروج کو پہنچ گئی تھی۔ یہ بادشاہ سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس کا ہم عصر تھا۔ اس کی طبیعت میں عجب وخود پسندی کا مادہ اس درجہ سرایت کرگیا تھا کہ بعض اوقات اس کے عزم اور عقل وفہم پر بھی غالب آجاتا تھا۔ چنانچہ جن ایام میں شاہان یورپ نے متفق ہوکر بیت المقدس کو اسلام کے اثر سے آزاد کرانا چاہا اور یورپ کے تمام ملکوں سے فوجوں کا سیلاب عظیم بیت المقدس کی طرف امنڈ آیا تو سلطان صلاح الدین نے اسلام کی اخوت عمومی کا لحاظ کرتے ہوئے منصور کو بھی شرکت جہاد کی دعوت دی اور لکھ بھیجا کہ سارا یورپ اسلام کی مخالفت میں اٹھ کھڑا
ا ہوا ہے۔ اس لئے ضرورت کہ تم اپنا لاؤ لشکر لے کر اسلام کی حمایت میں بیت المقدس کی طرف بڑھو۔ گو منصور ہر طرح سے امداد کے قابل تھا اور مدد دینا بھی چاہتا تھا لیکن اتنی سی بات پر برہم ہوکر خدمت اسلام اور تائید ملت سے محروم رہا کہ سلطان صلاح الدین نے اپنے خط میں اس کو امیر المؤمنین کے لقب سے مخاطب نہیں کیا تھا۔
باب۴۰ … ابن ابی زکریا طمامی
ابن ابی زکریا طمامی ایک فاسق فاجر نوجوان تھا۔ جس نے ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ بیرونی نے اس کے کچھ حالات لکھے ہیں۔ مگر نہ زمانہ بتایا ہے اور نہ مقام خروج ہی پر کچھ روشنی ڈالی ہے۔ ابن ابی زکریا کو دعوائے خدائی کے بعد بہت بڑی کامیابی ہوئی۔ بہت لوگ اس کے حلقہ ارادت میں داخل ہوکر اس کو معبود برحق یقین کرنے لگے۔ اس نے جو آئین جاری کیا اس میں حکم تھا کہ تمام مرنے والوں کے شکم چاک کر کے اندر خوب صاف کریں اور اس میں شراب بھر کر سی دیں۔ اس کے مذہبی قوانین کا بانکپن ملاحظہ ہو کہ اس نے آگ بجھانے کی ممانعت کر دی تھی۔ حکم تھا کہ جو کوئی آگ کو ہاتھ سے بجھائے اس کا ہاتھ قطع کیا جائے اور جو پھونک مار کر بجھائے اس کی زبان کاٹی جائے۔ اس کے مذہب میں اغلام یعنی لواطت جائز تھی۔ مگر حکم تھا کہ کوئی شخص اس فعل میں مبالغہ وشدت سے کام نہ لے۔ جو شخص اس فعل میں غیر محتاط ثابت ہوتا اسے زمین پر لٹا کر منہ کے بل بیس گز تک گھسیٹا جاتا تھا اور اس کے آئین مذہب میں لواطت نہ صرف جائز تھی بلکہ واجبات میں داخل تھی اور اس کا تارک قتل کا مستوجب تھا۔ چنانچہ اگر کسی شخص کی نسبت ثابت ہو جاتا کہ وہ اغلام سے پہلو تہی کرتا ہے تو اسے قصاب سے ذبح کرادیا جاتا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ شخص دنیا کو بے حیائی اور فحش کاری کا گہوارہ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے پیروؤں کو آگ کی پرستش اور تعظیم کی بھی تاکید کر رکھی تھی۔ اس شخص کی شیطنت کا ایک نہایت دل آزار پہلو یہ تھا کہ انبیاء سلف اور ان کے اصحاب پر (معاذ اللہ) لعنت کرتا اور کہتا تھا کہ وہ سب گم کردگان راہ اور (عیاذاً باﷲ) پرفن وعیار تھے۔ بیرونی لکھتے ہیں کہ اس قسم کے اس کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں۔ جن کی شرح کتاب اخبار المبیضہ والقرامطہ میں کر چکا ہوں۔ ان بداعمالیوں کو شروع ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ خدائے شدید العقاب نے اس پر ایک ایسے شخص کو مسلط کیا جس نے اس پر قابو پاتے ہی بکری کی طرح ذبح کر دیا اور اس طرح اس کی سیہ کاریوں کا شجر خبیث کشت زار عالم سے بالکل مستاصل ہوگیا۔ اس کے بعد اس کے
پیرو بھی خاک ہلاک پر ڈال کر کیفر کردار کو پہنچادئیے گئے۔
باب۴۱ … حسین بن حمدان خصیبی
حسین بن حمدان ایک خانہ ساز نبی تھا جو خصیب نام عراق کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ کتاب الدعاۃ میں اس شخص کا زمانہ متعین کرنے میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ پہلے تو یہ لکھا ہے کہ دولت عباسیہ کے اواخر میں ظاہر ہوا۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ اس کا ظہور ساتویں صدی کے اوائل یا وسط میں ہوا۔ کیونکہ بغداد کا آخری عباسی خلیفہ مستعصم باﷲ تاتاری غارتگر وں کے ہاتھوں ۶۵۶ھ میں وحشت سرائے عالم سے رخصت ہوا تھا۔ آگے چل کر بتایا ہے کہ امیر سیف الدولہ ابن حمدان نے اس کو قید کیا۔ حالانکہ احمد بن حسین متنبی شاعر کے ممدوح امیر سیف الدولہ بن حمدان نے حسب بیان ابن خلکان ۳۳۸ھ میں انتقال کیا تھا۔ غرض دونوںمدتوں میں قریباً تیس سو سال کا بعد ہے۔ صاحب کتاب الدعاۃ نے حسین بن حمدان کو فرقہ نصیریہ کا موسس بتایا ہے۔ لیکن یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ صواعق محرقہ کے بیان کے بموجب فرقہ نصیریہ کا بانی ایک شخص محمد بن نصیر فہری تھا۔ بہرحال خصیبی کے مختصر حالات یہ ہیں کہ یہ شخص ایک غالی شیعہ تھا۔ اس نے مدعی نبوت ہونے کے بعد بغداد اور بصرہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا۔ حکام نے اس پر سختی شروع کی۔ اس لئے بھاگ کر پہلے سوریہ اور پھر دمشق چلاگیا۔ مؤخر ذکر مقام پر بھی اپنی من گھڑت نبوت کی ڈفلی بجانی شروع کی۔ حکام نے اس کو پکڑ کر قیدخانہ میں ڈال دیا۔ مدت تک قیدوبند کی صعوبتیں اٹھاتا رہا۔ اس دوران میں اس نے داروغۂ جیل پر ڈورے ڈالنے شروع کئے۔ آخر اسے اپنے ڈھب پر لانے میں کامیاب ہوگیا۔ یہاں تک کہ داروغہ اس کی نبوت پر ایمان لاکر ہروقت اس کا کلمہ پڑھنے لگا۔ پھر یہاں تک گرویدہ ہوا کہ نوکری تک چھوڑ دی اور یہ دونوں بھاگ کر حلب چلے گئے۔ ان دنوں حلب امیر سیف الدولہ بن حمدان کے زیرحکومت تھا۔ یہاں بھی اس نے اپنی دعوت کی طرح ڈالی۔ لیکن سیف الدولہ نے اسے زیادہ دن تک اغوا کوشیوں کی مہلت نہ دی۔ چند ہی روز کے بعد گرفتار کر کے سجن میں ڈال دیا حالت قید میں ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ سیف الدولہ کو معلوم ہوا کہ یہ ایک غیر معمولی قابلیت کا انسان ہے۔ قید سے نکال کر اپنے مداحوں اور حاشیہ نشینوں میں داخل کر لیا۔ اس کے بعد خصیبی نے ایک کتاب تالیف کی جس کا نام ہدایہ رکھا اور اس کو سیف الدولہ کے نام نامی پر معنون کیا۔ کتاب الدعاۃ میں اس کے جو حالات درج ہیں ان سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ سیف الدولہ بھی انجام کار اس کے متنبیانہ ہتھیاروں کا گھائل ہوگیا تھا۔ یا کم ازکم اس کی اغوا کوشیوں میں
مداہنت کرتا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف شہر ومضافات حلب میں اس کا مذہب جڑ پکڑ گیا۔ بلکہ کوہ حماہ اور لاذقیہ میں بھی اس کو بڑی مقبولیت نصیب ہوئی۔ یہاں تک کہ اس کے مرنے سے پہلے اس کے پیروؤں کی تعداد تین لاکھ سے بھی متجاوز ہوگئی۔ اس کی موت کے بعد اس کے پیرو بڑھتے بڑھتے پانچ لاکھ تک پہنچ گئے۔ کتاب الدعاۃ میں لکھا ہے کہ اس کے پیرو آج بھی دمشق، حماہ، حلب، عراق، سوریہ اورکیلیکیہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے پیشروؤں کی طرح اس کی تعلیمات بھی الحاد وزندقہ سے ہمکنار ہیں۔ اس نے حج کی فرضیت اڑادی اور بتایا کہ اولاد علیؓ کے سوا کسی کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ میرے پیرو میری تعلیمات کا علی الاعلان اظہار نہ کریں۔ بلکہ نہایت خاموشی اور رازداری کے ساتھ اس کی تبلیغ کریں اور بوالعجبی دیکھو کہ اس نے عورتوں کو اوامر دین سے مطلع کرنا حرام کردیا تھا۔
باب ۴۲ … ابوالقاسم احمد بن قسی
ابوالقاسم احمد بن قسی شروع شروع میں جمہور مسلمین کے مذہب ومسلک پر کاربندتھا۔ لیکن پھر مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح تاویل بازی کی خاک اڑانی شروع کر دی اور عام زندیقوں کی طرح نصوص پر اپنی نفسانی خواہشات کاروغن قاز ملنے لگا۔ آخر بڑھتے بڑھتے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ بہت لوگوں نے اس کی متابعت کی۔ جب علی بن یوسف بین تاشفین شاہ مراکش کو اس کا علم ہوا تو اس نے اسے بلابھیجا۔ وہاں جاکر صاف لفظوں میں اپنی نبوت کا اقرار نہ کیا۔ بلکہ سخن سازی سے کام لے کر بادشاہ کو مطمئن کر کے چلاآیا۔ اس کے بعد اس نے شلبہ کے پاس ایک گاؤں میں مسجد تعمیر کرائی اور اپنے اباطیل کو شہرت دینے لگا۔ جب جمعیت زیادہ ہوئی تو مقامات شلب الیلہ اور مزیلہ پر قبضہ کر لیا۔ لیکن تھوڑے دن کے بعد خود اس کا ایک فوجی سردار محمد بن وزیر نام اس کا مخالف ہوگیا اور فوج لے کر اس نے فرنگیوں سے مدد مانگی۔ اس لئے تمام پیرو اس سے برگشتہ ہوگئے اور اس کے قتل واستہلاک پر اتفاق کرلیا۔ ان ایام میں مراکش کی حکومت علی بن یوسف کے ہاتھ سے نکل کر عبدالمؤمن کے عنان اختیار میں چلی گئی تھی۔ یہ شخص بھاگ کر عبدالمؤمن کے پاس پہنچا۔ عبدالمؤمن نے کہا میں نے سنا ہے کہ تم نبوت کے مدعی ہو؟ کہنے لگا کہ جس طرح صبح صادق بھی ہوتی ہے اور کاذب بھی اسی طرح نبوت بھی دو طرح کی ہے صادق وکاذب، میں نبی ہوں۔ لیکن نبی کاذب ہوں۔ ذہبی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالمؤمن نے اس کو قید کردیا۔ اس کے سوا اس کا کچھ حال معلوم نہیں ہوسکا۔ ابن قسی ۵۵۰ھ اور ۵۶۰ھ کے درمیان کسی سال مر
ہے۔ شیخ ابوالحسن سقہ کا بیان ہے کہ میرے دل میں شیخ ابوالقاسم احمد بن قسی کے خلاف غبار کدورت تھا۔ اس کے مرنے کے بعد ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے ابن قسی کو زدوکوب کرنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہے۔ یہ دیکھ کر ابن قسی نے کہا مجھے چھوڑ دے۔ کیونکہ خدا نے مجھے دو وجہوں سے بخش دیا ہے۔ میں نے پوچھا وہ وجوہ کیا ہیں؟ کہنے لگا ایک تو میں ظلماً قتل ہوا دوسرے کتاب خلع النعلین تصنیف کی۔ اگر یہ بیان صحیح ہے اور خواب بھی سچا تھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن قسی تائب ہوکر مرا تھا۔
باب ۴۳ … علی بن حسن شمیم
ابو الحسن علی بن حسن بن عنبر معروف بہ شمیم مشہور شاعر، ادیب اور نحوی الوہیت کا مدعی تھا۔ اس کا مولد ومشا معلوم نہیں۔ بغداد آکر ابو محمد بن خشاب وغیرہ ادیبوں سے علم ادب کی تحصیل کی۔ اس کو اشعار عرب بکثرت یاد تھے۔ خود بھی شعر خوب کہتا تھا۔ حسب بیان ذہبی ایک ادیب کا بیان ہے کہ میں ۵۹۴ھ میں آمد کے مقام پر پہنچا اور دیکھا کہ وہاں کے لوگ اس کے بڑے گرویدہ ہیں۔ میں اس کے پاس پہنچا اور دیکھا کہ بڑا ضعیف العمر ہے اور جسم بالکل نحیف ہوچکا ہے۔ اس کے سامنے کتابوں کا ایک جزدان رکھا تھا۔ جس میں سب اسی کی تصنیفات تھیں۔ میں سلام کر کے بیٹھ گیا اور کہا کہ میں اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کے علوم میں سے کچھ اقتباس کروں۔ کہنے لگا۔ تمہیں کون سا علم مرغوب ہے؟ میں نے کہا ادب۔ بولا ادب میں میری تصانیف بکثرت ہیں اور حالت یہ ہے کہ پہلے لوگوں نے تو اپنی کتابوں میں دوسروں کے اقوال بھر لئے۔ لیکن میری کتابوں میں جو کچھ درج ہے وہ میرے ہی نتائج فکر ہیں۔ اس کے بعد متقدمین پر طعن تشنیع کرتے ہوئے خودستانی کرنے لگا۔ پہلے لوگوں کے شعر پڑھ پڑھ کر کہتا کہ فلاں گدھے نے یوں بکا اور فلاں کتا اس طرح بھونکا۔ غرض دوسروں کی تفضیح اور اپنی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادئیے۔ میں نے کہا اچھا کچھ اپنا کلام بھی سنائیے۔ اس نے اپنے اشعار پڑھے۔ میں نے خوب داد دی اور تحسین میں بہت مبالغہ کیا۔ چین بجبیں ہوکر کہنے لگا کہ بجز استحسان کے تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا اچھا کیا کروں؟ کہنے لگا یوں کرو اور اٹھ کر رقص کرنے لگا۔ آخر تالیاں بجاتے اور ناچتے ناچتے تھک گیا۔ پھر بیٹھ کر کہنے لگا کہ کائنات میں صرف دو خالقوں کا وجود ہے اور بس۔ ایک خالق آسمان میں ہے اور ایک زمین پر۔ آسمان پر تو اللہ ہے اور زمین پر میں۔ پھر بولا کہ عوام میری خالقیت کو ہرگز نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن حقیقت یہ
ہے کہ کلام کے سوا میں کسی چیز کی تخلیق پر قادر نہیں ہوں۔ ابن النجار کہتے ہیں کہ شمیم بڑا ادیب شاعر اور علوم عربیہ کا ماہر تھا۔ لیکن ساتھ ہی پرلے درجے کا احمق اور بے دین تھا اور لطف یہ کہ مجسمۂ حمق ہونے کے باوجود ہر شخص کا مذاق اڑاتا تھا اور اس کا یہ اعتقاد تھا کہ دنیا میں نہ کبھی میری مثل کوئی پیدا ہوا اور نہ ابدالآباد تک پیدا ہوگا۔
باب۴۴ … محمود واحد گیلانی
جو معاندین اسلام ودشمنان دین خاک ایران سے اٹھے۔ ان میں محمود واحد گیلانی ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شخص موضع مسجوان علاقہ گیلان کا رہنے والا تھا۔ اس نے دعویٰ مہدویت کے ساتھ ۶۰۰ھ میں ظہور کیا۔
ایرانی شجرعناد کا ایک نفرت انگیز ثمر
محمود اپنی ذات کو شخص واحد اور تمام انبیائے کرام یہاں تک کہ مفخر موجودات حضرت سیدالاولین والآخرینﷺ سے بھی افضل بتاتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ جناب محمدﷺ کا دین منسوخ ہوگیا۔ اب یہ محمودی دور ہے۔ ارض وسما میں محمود ہی کا دین چلتا ہے۔ کہتا تھا کہ عربوں کے لئے جناب محمدﷺ کی ذات گرامی باعث صد فخر ومباہات تھی اور اس فضیلت کی وجہ سے اہل عرب کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ لیکن میری بعثت پر عرب کا وہ فخر ایک قصۂ پارینہ ہوگیا۔ چنانچہ بڑے ناز وتبختر سے کہا کرتا تھا ؎
رسید نوبت رندان عاقبت محمود
گزشت آں کہ عرب طعنہ برعجم مے زد
لیکن یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ محمود گیلانی جیسے ہزاروں بوالہوس آسمان شہرت پر نمودار ہوئے اور شہاب ثاقب کی طرح چمک کر آناً فاناً غائب ہوگئے اور بعض ہرزہ درایان کوئے نادانی کسی قدر اوج وعروج سے بھی ہمکنار ہوئے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو کوئے محمدﷺ کے کتوں کی بھی برابری کر سکتا۔ گو محمود خود ستائیوں اور ژاژخائیوں میں مرزاغلام احمدقادیانی سے بھی گوئے سبقت لے گیا تھا۔ لیکن اس کی شہرت اور بقائے دوام کا یہ عالم ہے کہ کوئی شخص اس کے نام تک سے آشنا نہیں۔ لیکن اسی محمود کے ایک ہم وطن حضرت غوث الثقلین سید عبدالقادر گیلانیؒ کو حضور سید کائناتﷺ کے در کی غلامی اور آپ کی کفش برداری کے طفیل وہ مقبولیت عام اور شہرت دوام نصیب ہوئی کہ اٹھ نو صدیاں گذرجانے کے باوجود عرب وعجم میں ان
کی عظمت کا ڈنکہ بج رہا ہے اور ان کے مقابلہ میں کسی شخص کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ محمود گیلانی کس کھیت کی مولی تھا؟ کب پیدا ہوا اور کب مرا؟ محمود کا وجود اور اس کا مذہب دراصل اس قدیم مخالفت وعداوت کا ایک مظہر تھا جو ایرانیوں کو عربوں کے ساتھ تھا۔ علی العموم چلی آتی ہے۔ محمود نے علانیہ کوشش کی کہ عرب کی فوقیت پر خط تنسیخ کھینچ کر ایران کو دنیا کا مذہبی مرجع بنادے۔ اس تحریک کی بنیاد مذہب شیعہ نے جس کا گہوارہ سرزمین ایران ہے۔ پہلے ہی ڈالنی شروع کر دی تھی۔ چنانچہ نجف وکربلا کو حرمین شریفین پر اور آب فرات کو آب زم زم پر فضیلت دے دی گئی۔ جیسا کہ مستند شیعی مجتہدوں کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے۔
محمود کے دوسرے خرافات
اب دوسری محمودی خرافات ملاحظہ ہوں۔ کہتا تھا کہ جب جسد محمدﷺ کمال کو پہنچ گیا تو میں پیدا ہوا۔ چنانچہ قرآن کی آیت ’’عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محمودا‘‘ (اے محمد! آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں جگہ دے گا۔) میں میری ہی بعثت کا ذکر ہے۔ لیکن سنا جاتا ہے کہ میاں محمود احمد قادیانی خلیفۂ قادیان بھی آج کل اپنے تئیں اس آیۃ کا مصداق ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن انہی دو پر کیا موقوف ہے۔ معلوم نہیں ابھی قیامت تک کتنے اور زندیق اپنے آپ کو اس آیۃ کا مصداق ٹھہراتے رہیںگے۔ محمود گیلانی اپنے دعویٰ کی تشریح یہ کرتا تھا کہ عناصر میں قوت پیدا ہوتی ہے تو اسے معدنی صورت حاصل ہوتی ہے۔ پھر اس کی استعداد مزید ترقی کرتی ہے تو اس پر صورت نباتی فائض ہوتی ہے۔ پھر قوت کو اور ترقی ونمو حاصل ہوتا ہے تو اسے صورت حیوانی ملتی ہے۔ پھر ان عناصر کی قوت اس سے بھی اور آگے ترقی کرتی ہے تو اسے انسانی صورت بخشی جاتی ہے۔ پھر ان عناصر نے جن کو صورت انسانی حاصل ہو چکی تھی ایسی ترقی کی کہ اس سے انسان کامل ظہور میں آیا۔ اسی طرح جسد انسانی کے اجزاء حضرات ابوالبشر آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ترقی میں تھے۔ یہاں تک کہ ان کو درجہ محمدی عطاء ہوا۔ اس کے بعد جب یہ اجزاء صاف وشفاف ہوکر انتہائی کمال کو پہنچ گئے تو محمود کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ اسی دعویٰ کی بناء پر کہتا تھا ؎
از محمدؐ گریز در محمود
کاندراں کاست واندرین افرمود
محمود کا بیان تھا کہ سرور عالمﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا تھا۔ ’’انا وعلی من نور واحد‘‘ (میں اور علیؓ ایک ہی نور سے پیدا ہوئے ہیں) اور یہ بھی علیؓ سے فرمایا تھا۔’’لحمک
لحمی وجسمک جسمی‘‘ (اے علیؓ! تمہارا اور میرا گوشت اور تمہارا اور میرا جسم ایک ہی ہیں) یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء واولیاء کے اجزائے اجساد کی صفوت وقوت مل گئی تو اس سے محمدﷺ اور علی کرم اللہ وجہہ کا جسم تیار ہوا۔ پھر ان دونوں بزرگوں کے اجزائے جسم جمع ہوئے تو ان سے جسم محمود بنا۔ محمود خاک کو نقطہ کہتا تھا۔ اس کے نزدیک تمام عناصر خاک سے پیدا ہوئے اور نقطۂ خاک ہی واجب اور مبداء اوّل ہے۔ اس کا یہ بھی قول تھا کہ سورج آگ ہے اور چاند پانی اور آسمان ہوا ہے۔
محمود ہنود کی طرح تناسخ کا قائل تھا اور اس کا اعتقاد تھا کہ آدم اور عالم کے دورے چونسٹھ چونسٹھ ہزار سال میں تمام ہوتے رہیںگے اور کہتا تھا کہ جب ذی روح مرکر مٹی میں مل جاتا ہے تو اس کے بدن کے اجزاء نباتات یا جمادات کی صورت میں ظہور کرتے ہیں اور وہ نباتات انسانی یا جانور کی غذا بن کر پھر وہی حیوان یا انسان پیدا ہوتا ہے اور جب کوئی جسم انسانی سے حیوانی میں اور حیوانی سے نباتی میں اور نباتی سے جمادی میں یا اس کے برعکس تناسخ کرتا ہے تو اس کے اگلے جنم کی باتیں دوسرے جنم میں پہچان لی جاتی ہیں اور اس شناخت کا قاعدہ یہ ہے کہ اس کے پچھلے جسم میں اس کے جو عادات ہوتے ہیں۔ ان سے اگلے جنم کی عادات معلوم ہو جاتے ہیں۔ واحدیہ کی اصطلاح میں ایسی شناخت رکھنے والے آدمی کو محصی کہتے ہیں اور اسی بناء پر انہوں نے یہ قاعدہ مقرر کر رکھا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی مجلس میں آئے اور موالید ثلثہ میں سے جس چیز کا نام اس شخص کے منہ سے نکلے تو سمجھ لینا چاہئے کہ پہلے جنم میں وہ ہی چیز تھا۔ کہتا تھا کہ پیدائش اوّل میں امام حسینؓ، حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے اور یزید فرعون تھا۔ اس جنم میں موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو رودنیل میں غرق کردیا۔ اس پیدائش میں حضرت موسیٰ علیہ السلام امام حسینؓ ہوگئے اور فرعون یزید بنا اور یزید نے امام حسینؓ کو فرات کا پانی نہ دیا اور انہیں شہید کر دیا اور کہتا تھا کہ کتا پہلی پیدائش میں قزلباش تھا اور اس کی ٹیڑھی دم تلوار ہے۔ اس کے نزدیک لوہے کا کمال کو پہنچ جانا یہ ہے کہ اس سے کوئی نبی یا ولی شہید کیا جائے اور کہتا تھا کہ تمام فریب پیشہ حاجی جو عبائی کربلائی (ایک قسم کا دھاری دار کپڑا) پہنے پھرتے ہیں اور مکرو تزویران کا خاصہ ہے۔ جب مریں گے تو آئندہ جنم میں اگر جسم انسانی میں منتقل ہوںگے تو گلہری بنائے جائیںگے اور اگر جسم نباتی میں انتقال کیا تو دھاری دار تربوز بنیںگے اور اگر پتھر کے جسم میں منتقل ہوئے تو سنگ سلیمانی بنائے جائیںگے۔ کہتا تھا کہ کرم شب تاب یعنی جگنو مشعلچی ہے جو بتدریج نزول کر کے اس جسم میں آیا ہے۔ اس کا
دعویٰ تھا کہ حیوانات نباتات اور جمادات میں سے جن کا رنگ کالا ہے۔ وہ پہلے سیاہ فام تھے اور جواب سفید ہیں۔ وہ سپید رو آدمی تھے۔ محمود نے تمام آیات قرآنی کی تاویل وتحریف کر کے اپنے مذہب پر استدلال کیا اور مرزائیوں کی طرح نصوص کی ایسی رکیک اور لچر تاویلیں کیں کہ جن سے سلف اور خلف کے کان ہر گز آشنا نہ تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کی ملحدانہ جسارت ہر دروغ باف مدعی کا خاصہ شاملہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اہل ضلالت کے مذہب کی بنیاد ہی ان بعید تاویلوں پر قائم ہے۔ کیونکہ اگر وہ قرآن وحدیث کے مطلب ومفہوم کے بگاڑنے سے احتراز کریں تو ان کی دکانداری ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔
واحدی لوگ گو خال خال دنیا کے بہت سے حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ مگر ایران میں زیادہ ہیں۔ یہ لوگ اپنے تئیں مخفی رکھتے ہیں۔ ان کا قبلہ آفتاب ہے۔ اس لئے وہ آفتاب کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ ان میں ایک دعا رائج ہے جسے آفتاب رو ہوکر پڑھتے ہیں۔ انکا سلام اللہ اللہ ہے۔ اس فرقہ کے ممتاز آدمی امین کے لقب سے پکارے جاتے ہیں۔ درویش صفا، درویش بقائے واحد، درویش اسمعیل، میرزا تقی، شیخ لطف اﷲ، شیخ شہاب، تراب اور کمال اس فرقہ کے مشہور امین تھے۔ بلکہ جتنے علماء وصلحائے امت محمود کے عہد میں تھے یا جو اس کے بعد ہوئے ان سب کو بھی واحدی لوگ افتراء محمود ہی کے پیرو بتاتے ہیں۔ ایک واحدی کا قول ہے کہ خواجہ حافظ شیرازیؒ کا بھی (معاذ اللہ) یہی مذہب تھا۔ چونکہ محمود زیادہ تر ساحل رودارس پر رہتا تھا۔ خواجہ حافظ نے اپنے اس شعر میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے ؎
اے صبا گر بگذری برساحل رودارس
بوسہ زن برخاک آں وادی ومشکیں کن نفس
شاہ عباس صفوی کے ہاتھوں فتنہ واحدیہ کا قلع قمع
جب واحدیوں کی شرانگیزیاں زیادہ وسعت پذیر ہوئیں تو شاہ عباس بن شاہ خدابندہ صفوی نے داروگیر کا سلسلہ شروع کیا اور ان میں سے ہزاروں کو دارالبوار پہنچادیا۔ واحدی کہتے ہیں کہ باوجود اس اخذ وبطش کے شاہ عباس نے بھی تراب اور کمال سے یہ مذہب حاصل کر لیاتھا۔ مگر پھر دنیاداری اور شہرت کی غرض سے ان دونوں کو مروا ڈالا۔ شاہ عباس اپنے آپ کو پہچان گیا۔ لیکن کامل نہیں تھا۔ کیونکہ اس نے دنیا کی خاطر اور اپنے آپ کو آشکارا کرنے کی غرض سے واحدیوں کو قتل کرادیا۔ لیکن اس کے برخلاف ایک واحدی امین کا مقولہ تھا کہ شاہ عباس امین کامل تھا۔ وہ جس
کسی کو دیکھتا کہ دین واحد میں پوری طرح رسائی نہیں حاصل کرسکتا۔ اسے ہلاک کرادیتا۔ امین مذکور کا بیان ہے کہ شاہ عباس میری صحبت میں رہا۔ ایک مرتبہ کہنے لگا کہ میں آپ کو اصفہان لے چلوں گا۔ میں نے اصفہان جانا پسند نہ کیا تو مجھے سفر ہند کا زادراہ اور توشہ دے کر رخصت کر دیا۔ واحدی کہتے ہیں کہ جب شاہ عباس پیادہ مشہد آیا تو تراب سے کہنے لگا کہ مجھے پیدل چلنے کی وجہ سے بہت تکلیف پہنچ رہی ہے۔ تراب نے جواب دیا کہ یہ تمہاری ونارت طبع ہے۔ کیونکہ یہ امام جس کے لئے تم جادہ پیما ہو۔ اگر پیوسہ بحق ہے تو اسے اس کے مزار میں ناحق تلاش کرتے ہو اور اگر حق سے پیوستہ نہیں تو تم اس سے کیا توقع رکھ سکتے ہو؟ اس سے بہتر یہ ہے کہ تم زندہ امام کی خدمت میں پہنچو۔ شاہ عباس پوچھنے لگا زندہ امام کہاں ہے۔ کمال نے کہا زندہ امام میں ہوں۔ شاہ عباس بولا اچھا میں تجھے نشانۂ بندوق بناتا ہوں۔ اگر گولی نے کوئی اثر نہ کیا تو میں تمہاری طرف رجوع کر لوںگا۔ تراب نے جواب دیا کہ تمہارے امام رضا ایک دانہ انگور سے جاں بحق ہوگئے تھے۔ میں بندوق کی گولی کھا کر کیونکر زندہ رہ سکتا ہوں؟ شاہ عباس نے تراب کو گولی کا نشانہ بنا کر نذرانۂ اجل کر دیا اور چونکہ کمال نے بھی تراب کی ہمنوائی اختیار کی تھی اس کو بھی اسی کے ساتھ ملحق کر دیا۔
(دبستان مذاہب ص۳۰۰،۳۰۳)
باب۴۵ … عبدالحق بن سبعین مرسی
قطب الدین ابو محمد عبدالحق بن ابراہیم بن محمد بن نصر بن محمد بن سبین مرسی نبوت کا مدعی تھا۔ اس کے پیرو سبعینیہ کہلاتے ہیںَ ملک مغرب کے ایک قصبہ مریسیہ میں ظاہر ہوا۔ اکابر صوفیہ کی طرح اس کا کلام بھی بڑا غامض ودقیق تھا۔ چنانچہ امام شمس الدین ذہبی ناقل ہیں کہ ایک مرتبہ قاضی القضاۃ تقی الدین بن دقیق العید چاشت سے لے کر ظہر تک ابن سبعین کے پاس بیٹھے رہے۔ اس اثناء میں وہ مسلسل گفتگو کرتا رہا۔ علامہ تقی الدین اس کلام کے مفرد الفاظ تو سمجھتے تھے۔ لیکن مرکبات ان کے مبلغ فہم سے بالا تر تھے۔ عبدالحق ایک کلمۂ کفر کے باعث ملک مغرب سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ امر نبوت میں بڑی وسعت اور گنجائش تھی۔ لیکن ابن آمنہ (حضرت خاتم الانبیاءﷺ) نے ’’لا نبی بعدی‘‘ (میرے بعد کوئی نبی نہ بنایا جائے گا) کہہ کر اس میں بڑی تنگی کر دی۔ امام سخاویؒ لکھتے ہیں کہ یہ شخص اسی ایک کلمہ کی بناء پر ملت اسلام سے خارج ہوگیا تھا۔ حالانکہ رب العالمین کی ذات برتر کے متعلق اس کے جو خیالات تھے وہ کفر میں اس سے بھی بڑھے ہوئے تھے۔ یہ تو عقائد کا حال تھا۔ اعمال کے متعلق امام سخاویؒ فرماتے ہیں کہ مجھ سے
ایک صالح آدمی نے جو سبعینیوں کی مجلسوں میں رہ چکا تھا۔ بیان کیا کہ یہ لوگ نماز اور دوسرے مذہبی فرائض کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ جب عبدالحق وطن سے نکلا تو اس وقت اس کی عمر تیس سال کی تھی۔ اس وقت طلبہ اور اس کے پیروؤں کی ایک جماعت بھی اس کے ہمراہ تھی۔ جن میں بڈھے بڈھے آدمی بھی داخل تھے۔ جب دس دن کی مسافت طے ہوچکی تو مرید اسے ایک حمام میں غسل کے لئے لے گئے۔ حمام کا خادم اس کے پیر ملتے وقت پوچھنے لگا کہ آپ لوگ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مرسیسہ کے۔ خادم نے کہا وہی مرسیسہ جہاں ابن سبعین نام ایک زندیق ظاہر ہوا ہے؟ ابن سبعین نے اپنے مریدوں کو اشارہ کر دیا کہ کوئی شخص اس سے ہم کلام نہ ہو۔ ابن سبعین نے کہا ہاں ہم اسی مرسیسہ کے رہنے والے ہیں۔ اب یہ خادم ابن سبعین کو گالیاں دینے اور اس پر لعنتیں برسانے لگا۔ ابن سبعین نہایت ضبط وتحمل کے ساتھ خادم سے باتیں کرتا جاتا تھا اور وہ اسے گالیاں دیئے جارہا تھا۔ یہ دیکھ کر عبدالحق کے ایک مرید کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور عالم غیظ میں کہنے لگا۔ تیرا برا ہو تو اسی شخص کو گالیاں دے رہا ہے کہ جس کی تو خدمت میں مشغول ہے اور حق تعالیٰ نے تجھے ایک ادنیٰ غلام کی حیثیت سے اس کے پیروں کے نیچے ڈال رکھا ہے۔ یہ سن کر خادم شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا اور کہنے لگا۔ استغفراﷲ! ابن سبعین میں ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ محتاجوں کا مربی اور مسکینوں کا خدمت گذار تھا اور یتیموں اور بیواؤں کی کفالت میں اسے بڑی دلچسپی تھی۔ زندگی کے آخری دور میں ابن سبعین مکہ معظمہ چلاگیا۔ حاکم مکہ کوکوئی مرض تھا۔ ابن سبعین کے علاج معالجہ سے وہ تندرست ہوگیا۔ اس لئے وہ اس کی بہت کچھ عزت وتوقیر کرنے لگا۔ شیخ صفی الدین ہندی کا بیان ہے کہ ۶۶۶ھ میں اس سے مکہ معظمہ میں میری ملاقات ہوئی۔ علم فلسفہ میں باہم گفتگو رہی۔ مجھے کہنے لگا کہ تمہیں مکہ جیسے مقدس مقام میں نہیں رہنا چاہئے۔ میں نے کہا پھر تم یہاں کیوں اقامت گزیں ہو؟ بولا کہ یہاں کا قیام میرے مقدر ہوچکا ہے۔ کیونکہ حاکم مجھے چاہتا ہے اور شرفائے مکہ سے میرے مراسم قائم ہیں اور حاکم یمن بھی میرا معتقد ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ شخص سیمیا اور کیمیا جانتا تھا اور اس نے سونا بنا بنا کر اسی ہزار دینار اہل مکہ پر خرچ کئے تھے۔ بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ مثلاً (۱)کتاب الاحاطہ۔ (۲)لابد للعارف منہ۔ (۳)رسالۃ العہد۔ (۴)مجلدۃ فی الجوہر۔ ان کتابوں کے الفاظ فصیح اور معنی بلیغ تھے۔ ۶۶۸ھ میں اس نے فصد کھلوایا۔ لیکن خون کو بند نہ کیا۔ آخر اتنا خون نکل گیا کہ جانبر نہ ہوسکا۔
(فوات الوفیات لمحد بن شاکر ج۱ ص۲۴۷، دائرۃ المعارف ج۱ ص۵۰۶)
باب۴۶ … احمد بن عبداﷲ ملّثم
ابوالعباس احمد بن عبداﷲ بن ہاشم معروف بہ ملثم رمضان ۶۵۸ھ میں قاہرہ میں پیدا ہوا۔ جب بڑا ہوا تو ابتدائی تعلیم کے بعد شیخ تقی الدین بن دقیق العید کی خدمت میں فقہ شافعیؒ کی تحصیل اور سماع حدیث میں مشغول ہوا۔ بیس سال تک شیخ تقی الدین کے حلقۂ درس میں حدیث نبوی سنتا رہا۔ علاوہ ازیں انماطی سے صحیح مسلم اور شیخ تقی الدین بن دقیق العید سے متعدد بڑی بڑی کتابیں سنیں۔ ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد اس نے عبادت وریاضت کا طریقہ اختیار کیا۔ جو شخص ریاضت کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ ابلیس کی طرف سے اس کو اپنا آلۂ کار بنانے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔ جنود ابلیس مختلف نوری شکلوں میں رونما ہوتا ہے اور طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر اور مدارج علیا کے مژدے سنا کر راہ حق سے پھیرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر کسی مسیحا نفس مرشد کا ظل عاطفت سر پر پر تو افگن ہو تو عابد شیطانی دام تزویر سے محفوظ رہتا ہے۔ ورنہ وہ ایسی بری طرح پٹخنی دیتے ہیں کہ عابد صراط مستقیم کی حبل متین کو ہاتھ سے چھوڑ کر ہلاکت کے اسفل السافلین میں جاپڑتا ہے۔ اگر عابد کسی ہادی طریقت کے برکت انفاس سے محروم ہو تو جنود ابلیس سے محفوظ رہنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت اور مسلک سلف صالح کی میزان حق کو مضبوطی سے تھامے رہے۔ ہر چیز کو اسی عینک سے دیکھے اور اپنے تمام انکشافات کو منجانب اللہ یقین کرنے سے پہلے اس کسوٹی پر کس کر دیکھ لیا کرے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ بہت سے عابد نوری شکلیں دیکھتے اور طرح طرح کی دل آویز صدائیں سنتے ہیں۔ تو تمام قوائے عقلیہ کھو بیٹھتے ہیں اور کتاب وسنت اور مسلک سلف صالح کے معیار حق کو طاق نسیان پر رکھ کر اپنی بدبختی سے شیاطین کے آگے کٹ پتلی کی طرح ناچنے لگتے ہیں۔ جب احمد پر شیاطین نے حسب معتاد پنجۂ اغوا مارا تو عامۂ عباد کی طرح اس کا مزاج بھی اعتدال سے منحرف ہوگیا۔ چنانچہ ۶۸۹ھ میں بڑے لمبے چوڑے دعوے کر دئیے۔ پہلے تو کہنے لگا کہ میں نے بارہا خداوند عالم کو خواب میں دیکھا ہے۔ یہ تو خیر کچھ بعید نہ تھا۔ کیونکہ اہل اللہ رب العالمین کو خواب میں بے کیف دیکھا کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد اس نے یہ رٹ لگانی شروع کی کہ مجھے حالت بیداری میں ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ میں آسمانوں کو عبور کر کے سدرۃ المنتہیٰ تک اور وہاں سے عرش اعظم تک پہنچا۔ اس وقت جبریل امین اور ملائکہ کا ایک جم غفیر میرے ساتھ تھا۔ خداتعالیٰ مجھ سے ہم کلام ہوا اور مجھے بتایا کہ تم مہدی موعود ہو۔ ملائکہ نے مجھے بڑی بڑی بشارتیں دیں اور خود سرور
کائناتﷺ مجھ سے ملاقی ہوئے اور فرمایا کہ تم میرے فرزند ہو اور تم ہی مہدی موعود ہو۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ اپنی مہدویت کا اعلان کر دو اور لوگوں کو حق تعالیٰ کی طرف بلاؤ۔ جب احمد کے ان بلند بانگ دعوؤں کا شہرہ ہوا تو حاکم قاہرہ نے اس کو گرفتار کر کے زندان بلا میں ڈال دیا۔ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے قید خانہ میں جاکر اس کا گلا گھونٹ دینے کا ارادہ کیا تو اس کا ہاتھ خشک ہوگیا۔ انہی ایام میں اس کے استاد قاضی القضاۃ شیخ تقی الدین بن دقیق العید اس کے پاس محبس ہوگئے اور دیکھا کہ اس نے پانی کا گھڑا اور کھانے کے برتن توڑ دئیے ہیں اور لوگوں پر حملہ آور ہورہا ہے۔ قاضی صاحب نے اس کو دیوانہ قرار دے کر رہا کرا دیا۔ جب شیخ نصیر منجی کو اس کا علم ہوا تو انہیں سخت ناگوار ہوا۔ انہوں نے بیبرس سے جوان کا معتقد تھا۔ اس کی شکایت کی اور اسے مشورہ دیا کہ جام زہر پلا کر اس کا کام تمام کر دیا جائے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس کو کئی مرتبہ زہر دیا گیا۔ مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اس کے بعد اس کو پاگل خانہ میں بھیج دیا گیا۔ وہاں بھی شراب میں ملا کر اس کو زہر دیاگیا۔ لیکن پھر بھی کچھ اثر نہ ہوا اور جب وہی شراب ایک واجب القتل قیدی کو پلائی گئی تو وہ معاً ہلاک ہوگیا۔ لیکن مقام مسرت ہے کہ کچھ زمانہ کے بعد خداتعالیٰ نے اسے توبہ کی توفیق ارزانی فرمائی اور اس نے اعلان کر دیا کہ میں وہ مہدی نہیں ہوں۔ جن کے ظہور کی حضرت مخبر صادقﷺ نے بشارت دے رکھی ہے۔ بلکہ میں صرف مہدی بمعنی ہدایت یافتہ ہوں۔ آخر ۷۴۰ھ میں مرگیا۔ اس وقت اس کی عمر اسی سال سے متجاوز تھی۔
(در رکا منہ الشیخ ابن حجر العسقلانی نسخہ قلمی ج۱ ص۶۲،۶۳)
باب۴۷ … عبداﷲ راعی شامی
یہ ایک شامی چرواہا تھا۔ جس کا نام اور زمانہ معلوم نہیں ہوسکا۔ میں نے اپنی طرف سے اس کا نام عبداﷲ تجویز کر دیا ہے۔ شہر طبریہ میں رہتا تھا اور وہاں کے باشندے اسے عموماً چرواہا کہہ کر ہی پکارتے تھے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں وہی شخص ہوں کہ موسیٰ علیہ السلام کو جس کے ظہور کی بشارت دی گئی تھی۔ علامہ عبدالرحمن بن ابوبکر دمشقی معروف بہ جابری نے لکھا ہے کہ اس کے پاس ایک لاٹھی تھی۔ جس سے خوارق عادات ظہور میں آتے تھے اور ابنائے زمانہ کی عقل ان خوارق پر حیران تھی۔ اس لاٹھی میں متعدد اعجازی تصرفات ودیعت تھے۔ جب اس کو گرمی کے وقت زمین میں گاڑتا تومعاً ایک درخت بن جاتا۔ جس میں آناً فاناً شاخیں اور پتے نمودار ہوتے اور یہ اپنی بکریوں سمیت اس کے سایہ میں بیٹھ جاتا۔ اس کا ایک خاصہ یہ تھا کہ درندوں اور جنگلی جانوروں کو
اس سے ایک شعلہ نکلتا دکھائی دیتا۔ جس کی وجہ سے یہ راعی وحوش اور درندوں کو جدھر چاہتا بکریوں کی طرح ہانک لے جاتا تھا اور شیر چیتا وغیرہ کسی درندہ کی مجال نہ تھی کہ اس کے حکم سے سرتابی کرے۔ عصائے موسیٰ علیہ السلام کی طرح اس لاٹھی میں یہ خاصیت بھی ودیعت تھی کہ جب اس کو زمین پر ڈالتا تو ایک بڑا اژدہا بن کر اس کے سامنے دوڑنے لگتا۔ جابریؒ لکھتے ہیں کہ کوئی شخص اس لاٹھی کاراز معلوم نہیں کر سکا۔
(کتاب المختار وکشف الاسرار قلمی، کتاب الدعاۃ ص۸۲)
باب۴۸ … عبدالعزیز طرابلسی
ابن عماد نے لکھا ہے کہ عبدالعزیز ایک پہاڑی شخص تھا۔ جس نے ۷۱۷ھ میں مہدویت کا دعویٰ کیا۔ بہت سے جہلاء خصوصاً نصیریہ فرقہ کے پیروؤں نے اس کی متابعت اختیار کی۔ یہاں تک کہ اس کی جمعیت تین ہزار تک پہنچ گئی۔ مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح یہ بھی کئی رنگ بدلتا رہتا تھا۔ کبھی تو کہتا کہ میں محمد مصطفی ہوں، کبھی کہتا کہ میں علی مرتضیٰ ہوں اور کبھی مہدیٔ منتظر بن بیٹھتا۔ اس شخص کا دعویٰ تھا کہ نصیریہ کے سوا دنیا بھر کے ادیان باطل ہیں۔ اس کے پیرو نعرہ تکبیر کی جگہ یہ آواز بلند کیا کرتے تھے۔ ’’لا الہ الا علی، لا حجاب الا محمد، لا باب الا سلمان‘‘ (علیؓ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد(ﷺ) کے سوا کوئی حجاب نہیں اور سلمانؓ فارسی کے سوا کوئی دروازہ نہیں) یہ شخص شیخین یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی بے شمار مسجدیں مسمار کر دیں۔ اس کے پیرو مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر اس کے پاس لاتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنے معبود کو سجدہ کرو۔ جو کوئی اس نابکار کے سامنے سربسجود ہو جاتا۔ اس کی جان بخشی کی جاتی۔ ورنہ معاً حلف تیغ بنادیا جاتا۔ جب حاکم طرابلس کو ان واقعات کا علم ہوا تو اس نے اس کی سرکوبی کے لئے لشکر روانہ کیا۔ فوج نے آکر اس کو نہایت ذلت کے ساتھ قتل کیا اور اس کی جماعت کو بھی تباہ وبرباد کر دیا۔
(کتاب الدعاۃ ص۱۱۳،۱۱۴)
باب۴۹ … اویس رومی
علامہ علی قاریؒ نے کتاب ’’المشرب الوردی فی مذہب المہدی‘‘ میں جو انہوں نے ۹۶۵ھ میں مکہ معظمہ میں تالیف کی۔ لکھا کہ ایک شیخ نے جسے اویس کہا کرتے تھے (ترکی) سلطان بایزید کے عہد سلطنت میں مہدویت کا دعویٰ کیا۔ اس کے اسی خلیفہ تھے۔ ایک دن خلفاء کو جمع کر کے کہنے لگا مجھے کشف سے معلوم ہوتا ہے کہ میں مہدی ہوں۔ تم بھی اپنے باطن کی طرف توجہ کرو اور جو کچھ تم پر ظاہر ہو اس سے مجھے اطلاع دو۔ خلفاء اپنی اپنی جگہ توجہ باطنی کرتے رہے۔ آخر سب
نے آکر بیان کیا کہ ہمارے نزدیک آپ اس دعویٰ میں حق پر ہیں۔ اس کے بعض خلفاء نے سلطان بایزید سے یہ واقعہ عرض کیا۔ سلطان بڑا دیندار بادشاہ تھا۔ اس نے سن کر کہا بہتر ہے کہ تم لوگ خروج کرو۔ میں ہر طرح سے تمہارے ساتھ ہوں اور ہر قسم کی مدد دینے کو تیار ہوں۔ لیکن جب اویس نے تھوڑے دن کے بعد ازسرنو باطن کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ الہام ربانی نہ تھا۔ بلکہ القائے شیطانی تھا۔ جھٹ دعوائے مہدویت سے رجوع کیا۔ اپنے خلفاء کو اس کی اطلاع کرائی اور سلطان کو بھی اس سے مطلع کر دیا۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۰۲) تاہم غنیمت ہے کہ جلد سنبھل گیا ورنہ نہ صرف خود ابدالآباد تک ورطۂ خسران میں پڑا رہتا۔ بلکہ جب تک اس کے اغوا واضلال کا کوئی شائبہ معمورہ عالم میں پایا جاتا۔ اس کے پیروؤں کی گمراہی کا وبال بھی اس پر پڑتا۔ لیکن اویس کے مقابلہ میں مرزاغلام احمدقادیانی کی حرمان نصیبی قابل افسوس ہے۔ یہ بیچارے پہلے دن جن بھول بھلیوں میں پھنسے دم واپسین تک انہی میں سرگشتہ وحیران رہے اور ان سے نکلنا کبھی نصیب نہ ہوا۔ بعض لوگ کہیں گے کہ اویس کی ہدایت یابی اور مرزاقادیانی کی شقاوت پسندی قضاء وقدر سے وابستہ تھی۔ میں اس نظریہ کو صحیح تسلیم کرتا ہوں۔ لیکن اتنا ضرور کہوںگا کہ خوبیٔ قسمت کو خلوص وحسن نیت سے اور شومیٔ تقدیر کو سؤنیت سے گہرا تعلق ہے۔ اویس اور مرزاقادیانی کے نصب العین اور زاویہ ہائے نگاہ میں بین فرق تھا۔ اویس بے چارہ، رب غفور کا مخلص بندہ تھا۔ خدائے کروگار کی نصرت بخشیوں نے اس کے خلوص اور حسن نیت کی برکت سے اسے شیاطین کے پنجۂ اغوا سے نجات دلائی۔ لیکن اس کے مقابلہ میں مرزاقادیانی کو للہیت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ان کی زندگی کا نصب العین دنیا پرستی اور عیش وراحت تھا اور وہ ازسرتا بقدم خواہشات نفسانی اور حظوظ فانی کے غلام تھے۔ چنانچہ اس کا اندازہ اس حقیقت سے ہوسکتا ہے کہ مرزاقادیانی نے حسب بیان الفضل کی ایک لڑکی عائشہ بیگم بنت شادی خان کو پیر دبانے پر متعین کر رکھا تھا۔ پلومر کمپنی لاہور سے پورٹ وائن منگوایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود صاحب کے لئے جو پلاؤ تیار کیا جاتا تھا۔ اس میں گھی کی جگہ روغن بادام ڈالا جاتا تھا۔
باب۵۰ … احمد بن ہلال حسانی
احمد بن ہلال حسانی وقت کا ایک مشہور زندیق تھا۔ جو ابن سبعین کے بعد ظاہر ہوا۔ اس نے دمشق میں نشوونما پایا۔ اٹھویں صدی کے اختتام پر حلب پہنچا۔ اور قاضی شرف الدین انصاری سے کتابیں پڑھیں۔ یہاں سے قاہرہ جاکر کچھ مدت اقامت گزیں رہا۔ قاہرہ سے حلب واپس آیا
اور مجتہد مطلق ہونے کا دعویٰ کیا اور ساتھ ہی ائمہ کبار کی شان میں دریدہ دہنی کرنے لگا۔ یہ شخص کہتا تھا کہ میں براہ راست خدائے برتر سے علوم حاصل کرتا ہوں اور میں ہی دائرہ کائنات کا نقطۂ ہوں۔ اس سے بہت سے کفریات صریحہ نقل کئے گئے ہیں۔ کہتا ہے کہ مجھے حالت بیداری میں آسمانوں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ اس کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ تمام انبیاء سے حالت بیداری میں میرا اجتماع ہوتا ہے اور بیداری ہی میں ملائکہ سے ہم کلام ہوتا ہوں اور کہا کرتا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو مقام تکلیم اور محمد(ﷺ) کو مقام تکمیل عطاء کئے گئے۔ لیکن مجھے یہ دونوں مقام بخشے گئے ہیں۔ باایں ہمہ نہ تو نماز کا پابند تھا اور نہ اسے جماعت ہی کی پروا تھی۔ بہت لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی۔ اس کے فتنہ نے نہایت خوفناک صورت اختیار کر لی۔ آخر ۹؍شوال ۸۲۳ھ کو دست اجل نے اس کا ٹینٹوا آ دبایا اور خدا کی مخلوق اس کے فتنہ سے مأمون ہوئی۔
(لسان ایمزان لابن حجر عسقلانی ج۱ ص۳۲۰)
باب۵۱ … سید محمد جونپوری
سید محمد جونپوری مدعی مہدویت کی ولادت ۸۴۷ھ میں بمقام جون پور ہوئی۔ جو صوبہ اودھ کا ایک مشہور شہر ہے۔ اس کے پیرو جو مہدویہ کہلاتے ہیں۔ اپنے مقتداء کو میراں سید محمد مہدی موعود کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ سید محمد کے باپ کا نام سید خاں اور والدہ کے نام بقول مؤلف مطلع الولایت بی بی اخا ملک تھا۔ لیکن متاخرین مہدویہ نے کچھ زمانہ کے بعد جب کہ محمد جونپوری کے آباواجداد کا جاننے والا کوئی نہ رہا۔ محمد کے باپ کا نام سید عبداﷲ لکھنا شروع کر دیا۔ تاکہ سید کا دعویٰ مہدویت حضور سرور کائناتﷺ کی اس پیش گوئی کے رو سے باطل نہ ٹھہرے۔ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ امام آخر الزمان کانام میرے نام سے ملتا ہوگا اور ان کے والد کا نام میرے والد کے اسم گرامی سے مطابقت رکھے گا۔ بلک برہان الدین مہدی مؤلف شواہد الولایت نے تو ماں کا نام بھی آمنہ تجویز کر کے اپنے پیر مغاں کو پوری طرح مہدویت کے قالب میں ڈھال دیا۔ حالانکہ خود سید محمد نے مدت العمر کبھی اس بات کا دعویٰ نہ کیا تھا کہ اس کے والد کا نام عبداﷲ اور ماں کا نام آمنہ ہے۔ بلکہ اس کے برعکس جب لوگوں نے اس سے سوال کیا کہ جناب رسول اﷲﷺ نے تویہ فرمایا ہے کہ: ’’یواطیٔ اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی‘‘ (مہدی علیہ السلام کا نام میرے نام سے اور ان کے والد کا نام میرے والد کے نام سے ملتا ہوگا) اور تمہارے باپ کا نام سید خاں ہے تو جواب دیا کہ کیا خدائے قادرو توانا اس بات کی
قدرت نہیں رکھتا کہ وہ سید خاں کے بیٹے کو منصب مہدویت پر سرفراز فرمائے؟ اسی طرح ایک مرتبہ اس کے ایک حریف نے اسے اپنے زور استدلال سے مغلوب کرنا چاہا تو سید محمد سخت برہمی کے عالم میں کہنے لگا کہ تم خدا سے جنگ کیوں نہیں کرتے کہ اس نے سید خان کے لڑکے کو مہدی بنادیا؟ سید محمد موذوں اندام، کشیدہ، قامت اور نہایت خوبرو تھا۔ بچپن ہی سے طباعی اور فطانت کا جوہر چہرۂ بخت پر چمک رہا تھا۔
اسد العلماء کا خطاب
کہتے ہیں کہ سید نے سات ہی سال کی عمر میں کہ آغاز ادراک وشعور کا زمانہ ہے کلام الٰہی حفظ کر لیا اور بارہ کے سن میں تمام علوم درسیہ سے فراغت پاکر دستار فضیلت باندھ لی۔ سید عنفوان شباب ہی سے برجستہ گوئی اور حسن تقریر میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ شیخ دانیال چشتیؒ اور علمائے وقت نے اس کی دقت نظری اور علمی موشگافیوں کو ملحوظ رکھ کر اسے اسدالعلماء کا خطاب دیا۔ ان ایام میں ہندوستان کی فضاء پر اہل تصوف کے خیالات چھائے ہوئے تھے اور صوفیانہ مذاق کی گرم بازاری تھی۔ اس لئے اب سید کو اہل طریقت کے چشمۂ فیض سے سیراب ہونے کا شوق دامنگیر ہوا۔ چنانچہ شیخ دانیال چشتیؒ کے دست حق پرست پر خانوادہ چشتیہ میں بیعت کی اور ایک مدت تک ریاضات شاقہ اٹھا کر جویائے حق رہا۔ اس ادراک سعادت سے پیشتر تو صرف علوم قالی میں کمال پیدا کیا تھا۔ شیخ کے فیض صحبت نے اس جوہر کو اور جلادے کر علوم حالی میں بھی مالا مال کر دیا۔ اب سید علانق دنیوی سے آزاد ہوکر انتہائی تبتل وانقطاع کے ساتھ ہر وقت یاد الٰہی میں مصروف رہنے لگا۔ ذکر وفکر کے سوا کسی کام کے ساتھ دلچسپی نہ تھی۔ عقیدت مند پروانہ وار ہر طرف سے ہجوم کر کے حلقۂ ارادت میں داخل ہونے لگے۔ یہاں تک کہ سید کی ذات مرجع خواص وعوام بن گئی۔ سید اوائل میں کسی سے ہدیہ ونذرانہ قبول نہ کرتا تھا اور بزرگان سلف کی طرح نہایت عسرت کے ساتھ گزر بسر کرتا تھا۔ اس کی پوشش وخورش فقیرانہ تھی۔ اس کی ہر ادا سے بزرگانہ انکسار اور درویشی کی شان نمایاںتھی اور باوجودیکہ سلاطین اسلام اس کی خدمت وملازمت سے شرف اندوز سعادت ہونا چاہتے تھے اور دعوت دیتے تھے کہ ان کی مملکت میں قدم رنجہ فرمائیں۔ مگر سید نے پیران چشت کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سلاطین اور اہل ثروت سے راہ ورسم پیدا کرنا پسند نہ کیا۔
راجہ دلیپ رائے اور حاکم دانا پور
اس وقت دہلی میں خاندان تغلق کا آفتاب اقبال لب بام تھا۔ احمد آباد گجرات میں
سلطان محمود بیکرہ جیسے بااقبال بادشاہ کی تلوار چمک رہی تھی۔ دکن میں خاندان بہمنیہ کا ستارہ اوج پر تھا۔ مالوہ میں سلطان غیاث الدین اور احمد نگر میں احمد نظام الملک بحری سریرآرائے سلطنت تھے۔ ان کے علاوہ چند دیسی خودمختار ریاستیں تھیں۔ جو زیادہ تر ہندو راجاؤں کے قبضۂ اقتدار میں تھیں۔ جونپور کا علاقہ ریاست داناپور کی عملداری میں داخل تھا۔ ہاں کا مسلمان حاکم ایک ہندو راجہ دلیپ رائے نام کا باجگذار تھا۔ ان ایام میں امیر حسین والیٔ دانا پور کی محبوب ترین خواہش یہ تھی کہ وہ کسی طرح آزادی وخود مختاری کی نعمت سے کامگار ہو اور گونہاں خانۂ دل حریت وخود مختاری کی امنگوں سے لبریز تھا۔ لیکن اپنی بے سروسامانی اور قلت سپاہ کا احساس رکھتے ہوئے کسی طرح سرتابی کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ امیر حسین نے سید محمد کے فضل وکمال کا شہرہ سنا تو دل میں زیارت کا شوق سرسرایا۔ چنانچہ ایک روز سیرو شکار کے بہانے جونپور آیا اور سلک مریدین میں منتظم ہوکر عنایت والتفات میں ممتاز ہوا۔ کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ جونپور آیا اور سید سے کہنے لگا کہ خاکسار کی دلی تمنا یہ ہے کہ حضور کے قدموں میں پڑا رہوں۔ لیکن اس صورت میں امور سلطنت کا انصرام محال ہے۔ چونکہ ایک لمحہ بھی مفارقت گوارا نہیں اس لئے یا تو حکم ہو کہ کسی کو اپنا جانشین مقرر کر کے یہاں چلا آؤں اور حضور کی کفش برداری اختیار کروں اور اگر اس عرضداشت کو شرف پذیرائی نہ بخشا جائے تو پھر درخواست کروںگا کہ حضور پر نور خاکسار ہیچمیرز کے غربت کدہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے منور فرمائیں۔ سید نے اس کے جذبۂ محبت اور اخلاص عقیدت سے متأثر ہوکر مؤخر الذکر التماس کو قبول کر لیا اور اس کے ساتھ دانا پور جاکر ایوان سلطانی میں سکونت اختیار کی۔ سید کو دانا پور میں تبلیغ واشاعت اسلام کا بہت زریں موقع مل گیا۔ چنانچہ اس کی تبلیغی سرگرمیوں کی بدولت تھوڑے ہی عرصہ میں دانا پور اور مضافات کے ہزارہا ہنود شرف اسلام سے مستسعد ہوئے۔ یہ سب خبریں دلیپ رائے کو پہنچتی تھیں۔ لیکن وہ زہر کا گھونٹ پی کر خاموش رہ جاتا۔ دلیپ رائے ایک اعلیٰ درجہ کا منتظم سپہ سالار اور انتہاء درجہ کا مدبر فرمانروا تھا۔ شجاعت وبسالت اس کا ذاتی جوہر تھا۔ دشمن کا خوف وہراس اس کے پاس نہ پھٹکتا تھا۔ لیکن وہ امر جس کی بدولت اس نے نمایاں شہرت حاصل کر رکھی تھی وہ اس کی مذہبی راسخ الاعتقادی اور بت پرستی کا شغف تھا۔ گوہندوستان کے کئی ایک علاقوں میں اسلام کا بڑھتا ہوا سیلاب، کفر ووثنیت کے خس وخاشاک کو بہالے جارہا تھا۔ تاہم اس کی عملداری میں ہر ہندو کا گھر بہت الصنم تھا۔ اس بت پرستانہ رسم کہن کے مؤسس ومؤید برہمن تھے۔ جنہیں مسلمانوں سے دلی نفرت وعداوت تھی۔ کیونکہ اہل توحید نہ صرف شرک اور بت پرستی
کی مذمت کرتے بلکہ جب کبھی موقع ملتا بت شکنی سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ ان ایام میں ہر ایک معرکہ پر جو ہندو راجاؤں اور مسلم سلاطین میں ہوتا مذہبی رنگ چڑھا ہوتا تھا۔ راجہ دلیپ رائے اپنی شجاعت کے نشہ میں چور تھا اور اس کے سپاہی بھی مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے بپھر رہے تھے۔ تاہم اسے اس بات کا یقین تھا کہ جانبازی کے میدان میں اہل توحید سے گوئے سبقت لے جانا کوئی آسان کام نہیں۔ علاوہ ازیں اس کے چاروں طرف مسلمان بادشاہ حکمران تھے جو اسے سراٹھانے کا موقع نہ دیتے تھے۔ دلیپ رائے نے ہزار جتن کئے کہ اس کی قلمرو میں کوئی ہندو حلقۂ اسلام میں داخل نہ ہو۔ لیکن اس کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔
راجہ دلیپ رائے سے جنگ آزما ہونے کی تحریک
ایک دن سید محمد مریدان باصفا کے حلقہ میں بیٹھا ہوا توحید کے محاسن اور کفر وشرک کے قبائح بیان کر رہا تھا۔ اس وقت امیر حسین بھی موجود تھا۔ یک بیک اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور حالت بے خودی طاری ہوگئی۔ اس حالت جذبہ میں حسین کی طرف نظر بھر کر دیکھا اور کہا اے امیر! ارباب حکومت کو خدانے دفع اعداء کے لئے تلوار دی ہے۔ مگر آج صفحہ ہستی پر تجھ سے زیادہ محروم القسمت انسان کوئی نہ ہوگا کہ تیری ذات سے اسلام رسوا ہورہا ہے اور توطاغوت پرستی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا کفر کے غلبہ وتفوق کا باعث بنا ہوا ہے۔امیر سید کو جوش غضب میں دیکھ کر سہم گیا۔ حاضرین بھی عالم ہراس میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ سید کے رخ انور پر ایسا جلال برس رہا تھا کہ نظر اٹھا کر دیکھا نہ جاتا تھا۔ سید نے دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی بوالہوسی کا ذکر کرتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کی فرضیت بیان کرنی شروع کی اور آیات وروایات کے حوالوں سے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے یہ تصویر کھینچ دی کہ مسلمان اس سرائے فانی میں محض اس واسطے بھیجا گیا ہے کہ عزت کے ساتھ غالب رہ کے جیے ورنہ جان دے دے۔ اس کے بعد سید بآواز بلند کہنے لگا اے عیش پرست کاہلو اور اے نفس امارہ کے غلامو! اٹھو اور کمرہمت کو مضبوط باندھو۔ آؤ ہم سب مل کر خدائے برتر کی راہ میں سربکف ہوجائیں اور ملک خدا کو کفر وشرک کی ظلمتوں سے پاک کر کے نور توحید سے منور کردیں۔ا س پیام میں حق وصداقت کی جو روح تھی اس نے بڑا کام کیا۔ تمام حاضرین نے اس پیام کے سامنے سر نیاز جھکا دیا۔ یہ اعلان برقی قوت وسرعت کے ساتھ اکناف ملک میں پھیل گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ تین دن کے اندر تیس ہزار جوانوں کا لشکر جرار امیر حسین کے جنڈے تلے مرنے مارنے کو تیار ہوگیا۔ امیر نے اس جمعیت کے ساتھ گوڑ کی طرف پیش قدمی کی جو دلیپ راؤ کا صدر
مقام تھا۔ سید محمد بھی اپنے ڈیڑھ ہزار نفراء کے ساتھ جنہیں فوج بیراگیاں کہتے تھے۔ عقب لشکر میں روانہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عجلت پسندی اس جوش وولولہ کا نتیجہ تھی جو شوق جہاد میں پیدا ہوگیا۔ ورنہ اگر نوجوان سید ایک تجربہ کار قائد کے اوصاف حزم واحتیاط سے عاری نہ ہوتا تو وہ اس بے سروسامانی کے عالم میں اس قلیل فوج کے ساتھ ایک خوفناک دشمن پر حملہ آور ہونے کی کبھی ترغیب نہ دیتا۔اس میں شبہ نہیں کہ اگر چندے اور توقف کیا جاتا تو اس سے دو گونہ کلمہ گوؤں کی جمعیت شوق شہادت میں فراہم ہوسکتی تھی۔ لیکن سید کا جوش جہاد اسے صبروانتظار کی کشمکش میں پڑنے کی ہرگز اجازت نہ دیتا تھا۔ امیر حسین گوبادی النظر میں اس بات کو سمجھتا تھا کہ دشمن اس کی قلیل التعداد فوج کو مار مار کر بالکل نابود کر دے گا۔ لیکن امیر حسین کی ہمت وجرأت محض خلوص عقیدت پر مبنی تھی۔ وہ لطیفہ غیبی کا منتظر تھا اور اسے اس بات کا کامل یقین تھا کہ سید کا تصرف اسے ضرور فائر المرام کرے گا اور سچ پوچھو تو سید کی نظر بھی فوج اور مادی طاقت پر نہ تھی۔ بلکہ اس کا بھروسہ اس ذات ہیچوں کی غیبی امداد پر تھا کہ فتح وشکست اور عزت وذلت جس کے دست اختیار میں ہے۔ دلیپ راؤ کو بھی اس اعلان جنگ نے چونکا دیا۔ مگر بہادر راجہ کی جبیں استقلال پر ذرا شکن نہیں پڑی۔ اس نے امراء کو جمع کر کے مجلس مشاورت آراستہ کی اور معاً حرب وضرب کی تیاریوں میں مشغول ہوگیا۔ بیدار مغز راجہ کو اس روز سیاہ کا پیشتر ہی سے علم تھا۔ اس لئے وہ ہر وقت فوج کو سروسامان سے آراستہ رکھتا تھا۔ گو اسے اپنی حربی طاقت پر پورا بھروسہ تھا اور کامل امید تھی کہ جس وقت چاہے گاوالی دانا پور کی طاقت کو کچل دے گا۔ مگر جب اس کی نظر چاروں طرف ان ممالک کی طرف اٹھتی تھی جہاں بڑے بڑے پرشکوہ مسلمان بادشاہ برسراقتدار تھے اور باوجود باہمی اختلافات کے ایسے موقع پر متفق ہو جاتے تھے تو اسے سلطان حسین کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ جب راجہ نے حسین کی آمد آمد سنی تو جاسوس دوڑائے اور جب پتہ لگا کہ سلطان حسین تیس ہزار کی جمعیت سے آرہا ہے تو سخت حیرت زدہ ہوا۔ کیونکہ اسے امید نہ تھی کہ امیر حسین جیسا کارآزمودہ حکمران اس قلیل فوج کے ساتھ برسر مقابلہ ہونے کی جرأت کرے گا۔ غرض راجہ نے بھی کالی گھٹا کی طرح اپنی جگہ سے جنبش کی اور والیٔ دانا پور کے مقابلہ میں بڑھتا چلا آیا۔ جب اہل توحید کو معلوم ہوا کہ راجہ کی فوجیں سیاہ آندھی کی طرح بڑھتی آرہی ہیں تو وہ بھی مرنے مارنے پر تیار ہوگئے۔ راجہ کی فوج کا نظارہ نہایت مہیب تھا۔ بہت کوہ پیکر ہاتھی اور ستر ہزار جری سپاہی اور ہزاروں جرار سوار راجہ کے ہمرکاب تھے۔ راجہ کی فوج اس دھوم دھام اور آرائش ونمائش سے نکلی کہ دیکھنے والے محو حیرت رہ
گئے۔ اب دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں اور ہنگامۂ رزم گرم ہوا۔ دونوں طرف کے بہادر دیر تک ایک دوسرے کے مقابلہ میں شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے۔ امیر حسین نے اس جنگ میں بڑے بڑے معرکے کئے اور گو دشمن کی غیر معمولی قوت کو دیکھ کر اس کے اوسان خطاء ہورہے تھے۔ تاہم کمال جانبازی کے ساتھ داد شجاعت دے رہاتھا۔ تھوڑی دیر کے بعد حسین سید کی طرف باربار دیکھ کر زبان حال سے اس کو دشمن کی خوفناک جمعیت اور اس کے جان ستان حملوں کی طرف متوجہ کرنے لگا۔ لیکن سید کی یہ حالت تھی کہ وہ غنیم کی حربی قوت اور شجاعانہ رزم جوئی کو ہرگز خاطر میں نہ لاتا تھا۔
راجہ کا قتل
تھوڑی دیر میں امیر حسین کی کمر ہمت ٹوٹ گئی اور اس کے آدمی دلیپ رائے کے پرزور حملوں کی تاب نہ لاکر نہایت ابتری اور سراسمیگی کے عالم میں پسپا ہونے لگے۔ حسین عالم اضطراب وبدحواسی میں سید کی طرف آیا جو فوج بیراگیاں کو لئے ایک طرف سوار کھڑا تھا۔ فوج بیراگیاں کی ہیئت کذائی گو نہایت مضحکہ خیز تھی۔ لیکن یہی بے سروسامان جماعت دراصل اسلامی جمعیت کی روح ورواں تھی اور یہی وہ مقدس گروہ تھا جس نے امیر حسین کی کشتی اقبال کو ڈوبنے سے بچایا اور اسلام کی لاج رکھ لی۔ حسین نے سید کو اشارہ کیا کہ بھاگ کر جان بچا لیں۔ مگر سید نے خشمناک ہوکر منہ پھیر لیا اور نہایت زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ یہ دیکھ کر ڈیڑھ ہزار صوفیوں نے بھی اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ کوہ ودشت گونج اٹھے۔ یہ لوگ سید کا اشارہ پاتے ہی گھوڑے اٹھا کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور برق خاطف کی طرح پہلے ہی حملہ میں غنیم کے میمنہ کو فنا کر دیا۔ ہزیمت خوردہ اسلامی فوج کے لئے یہ ایک غیبی کمک تھی جس کے گئے ہوئے ہوش ٹھکانے آگئے اور وہ پسپا ہوتے ہوتے پھر ٹھہر گئی اور قوت مجتمع ہوکر حریف کے قلب پر ہلہ بول دیا۔ دیر تک گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی۔ آخر دلیپ راؤ نے اپنے بہادر راجپوتوں کو للکارا اور ایسا پرجوش خطبہ دیا کہ ہر راجپوت اپنا آخری قطرۂ خون بہانے کے لئے تیار ہوگیا۔ آخر دونوں فوجیں لڑتے لڑتے باہم اتنی قریب آگئیں کہ معاملہ تیروتفنگ سے گزر گیا اور دست بدست لڑائی ہونے لگی۔ سید محمد اسی جوش وخروش کے ساتھ غنیم پر حملے کر رہا تھا۔ گو اس کے پیروؤں کی تھوڑی سی جمعیت گھٹتے گھٹتے اب ایک ہزار رہ گئی تھی۔ تاہم اس کے پے در پے حملوں نے غنیم کی صفیں الٹ دیں۔ صوفیوں نے اتنی تلوار چلائی کہ ہنود کی فوج گراں کے دھوئیں بکھیر دئیے۔ آخر سید دلیپ راؤ کے قریب پہنچنے میں
کامیاب ہوگیا۔ اب سید اور راجہ حریف مقابل تھے۔ راجہ کا شمشیر بکف ہاتھ سید پر حملہ کرنے کے لئے بلند ہوا۔ مگر وار خالی گیا۔مہروی کہتے ہیں کہ اس کا ہاتھ ہوا میں ملائکہ نے تھام لیا تھا۔ اس اثناء میں سید نے نہایت پھرتی سے تلوار کا ایک ہاتھ اس زور سے مارا کہ پہلی ہی ضرب نے دلیپ رائے کی قسمت کا فیصلہ کر دیا اور وہ بے جان ہوکر گر پڑا۔ لشکر نے اپنے سرپر راجہ کو نہ دیکھا تو اس میں تلاطم مچ گیا اور سپاہی بے سروسامان بھاگ نکلے۔ امیر حسین نے سجدہ شکر ادا کیا کہ بگڑی بات بنانے والا وہی خدائے کردگار ہے۔ اسلامی سپاہ نے غنیم کو خوب پامال کیا۔ بہت سے امیر اسیر ہوئے اور غنیمت بے شمار اہل توحید کے ہاتھ لگی۔ اس لڑائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ امیر حسین کو نہ صرف اپنی علمداری میں مطلق العنان حکومت نصیب ہوئی۔ بلکہ مقتول راجہ کی تمام ولایت پر بھی اس کا عمل ودخل ہوگیا۔ اب سید محمد کا حلقہ ارادت اس قدر وسیع ہوا کہ چند ہی روز میں اس کے ارادت مندوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہوکر لاکھوں تک پہنچ گئی۔ دلیپ رائے کے اکثر قرابت دار بطیب خاطر مسلمان ہوئے اور سید کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اشاعت اسلام کی راہ میں جس قدر عوائق وموانع تھے اس فتح کے بعد اٹھ گئے۔ اسیران جنگ میں راجہ کا ایک ہمشیر زادہ بھی داخل تھا۔ جو دستگیر کر کے سید محمد کے سامنے پیش کیا گیا۔ چند روز کے بعد راجہ کا خواہرزادہ مشرف باسلام ہوا۔ سید نے اس کا نام میاں دلاور رکھا۔ میاں دلاور کچھ عرصہ ذکر وفکر میں مصروف رہ کر سید کے خرقۂ خلافت سے بھی ممتاز ہوا۔ وقائع حرب کے سلسلہ میں یہ ایک عجیب وغریب حکایت بیان کی جاتی ہے کہ جب سید کی شمشیر خاراشگاف نے راجہ کو موت کے گھاٹ اتارا اور جسم دونیم ہوکر زمین پر گر پڑا تو دلیپ رائے کا دل سینہ سے باہر نکل آیا۔ کہتے ہیں کہ رائے کے دل پر اس بت کی شبیہ منقوش تھی۔ جس کی وہ ہمیشہ عبادت کیا کرتا تھا۔ یہی امر سید کے جذبہ واستغراق کا ذریعہ بن گیا کہ جب معبود باطل اس قدر اثر رکھتا ہے تو معبود حقیقی کی تاثیر کیا کچھ ہونی چاہئے۔ سات برس تک سید کو دنیا ومافیہا کی خبر نہ تھی۔ ہر وقت جذب واستغراق کی حالت طاری تھی۔ البتہ نماز پنجگانہ کے وقت کچھ ہوش آجاتا تھا۔ مہدویہ کہتے ہیں کہ اس سات برس کی مدت میں ایک دانہ اناج اور ایک قطرہ پانی کا سید کے حلق میں نہ گیا۔ واﷲ اعلم بحقیقۃ الحال، مہدویہ کہتے ہیں کہ ایک روز سید کی زوجہ محترمہ نے کہا کیا سبب ہے کہ ہر وقت بیہوش رہتے ہو اور تحمل نہیں کرتے ہو؟ جواب دیا کہ تجلی الوہیت کی اس کثرت سے ہوتی ہے کہ اگر ان بحور تجلیات کا ایک قطرہ کسی ولی کامل یا نبی مرسل کو دیا جائے تو مدت العمر کبھی ہوش میں نہ آئے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ قول جس سے انبیاء کرام کی تنقیص اور
اپنی تفضیل ظاہر ہوتی ہے کسی مہدوی کا دماغی اختراع ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کلمہ بھی مثل دوسرے شطحیات کے سکرو جذب کی حالت میں زبان سے نکلا ہو۔ غرض سات سال کے بعد کچھ ہوش آیا۔ لیکن اب بھی یہ حالت تھی کہ کبھی ہوش آجاتا اور کبھی مدہوشی کی حالت طاری رہتی۔ پانچ سال اسی طرح گذر گئے۔ مہدویہ کا بیان ہے کہ اس پانچ سال کی مدت میں سید نے غلۂ گوشت اور روغن بقدر ساڑھے سترہ سیر کھایا ہوگا۔
دعویٰ مہدویت
اب سیدنے ہجرت کا قصد کیا اور وطن مالوف کو خیرباد کہہ کر زن وفرزند اور چند مریدان جانثار کی معیت میں دشت غربت کی راہ لی اور جہاں گردی اور بادیہ پیمائی کا طریقہ اختیار کیا۔ یہاں سے سید کی زندگی کا نیا دور اور اس کے مشن کا تاریک ترین حصہ شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ سید نے اسی موقع پر دانا پور کے جنگل میں پہنچ کر پہلی مرتبہ اپنی مہدویت کے الہام ہم راہوں سے بیان کئے۔ جنہوں نے بے چون وچرا ان کی تصدیق کی۔ افسوس کہ سید کے رفقائے سفر میں کوئی بھی ایسا ذی علم اور صاحب عقل وخرد نہیں تھا۔ جوحق گوئی سے کام لے کر سید سے کہتا کہ صاحب! آپ کی مہدویت کے جملہ الہامات شیطانی ہیں۔ کیونکہ مخبر صادقﷺ نے سچے مہدی کی جو علامتیں بیان فرمائی ہیں وہ آپ کی ذات میں نہیں پائی جاتیں اور جو ذات شریف آپ کو منصب مہدویت بخش رہی ہے وہ ابن آدم کی بدترین دشمن ہے۔ اس لئے آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنی بیان کردہ مہدویت کو احادیث نبویہ پر پیش کر کے حق وباطل میں امتیاز کرلیں۔
لیکن یہ ضعفائے ایمان آناً فاناً جونپوری رو میں بہ گئے۔ مہدویہ لکھتے ہیں کہ سید نے عالم رویاء یا نیم بیداری کی حالت میں ایک شخص کو دیکھا جس کے چہرہ پر آثار تقدس وبزرگی ہویدا تھے۔ وہ سید کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا کہ تو ہی مہدی موعود ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ سید نے ضرور کسی ایسی ہستی کو دیکھا ہوگا جس کے چہرہ پر تقدس وبزرگی کے آثار ہویدا تھے اور اس نے واقعی سید سے کہا ہوگا کہ تو ہی مہدی موعود ہے۔ لیکن نادان مہدوی اتنا نہیں سمجھتے کہ سید کو مہدویت کی بشارت دینے والا بزرگ صورت اس شیطان رجیم کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ جس نے بنی آدم کو گمراہ کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور جو مختلف رنگوں میں ظاہر ہوکر عباد وزہاد کو راہ حق سے پھیرنے میں ہر وقت منہمک ہے اور اگر کوئی حق فراموش مہدوی اعتراض کرے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اتنا بڑا پیر طریقت شیطان کے دام تزویر میں پھنس کر گمراہ ہو جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عزلت کو
گمراہ کرنا شیطان کا فرض منصبی ہے۔ وہ اضلال واغوا کی ساری صلاحتیں استعمال میں لاتا ہے۔ اس کے پنجہ اغوا سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو اپنے ہر الہام والقاء کو تعلیمات نبویہ کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لے اور جو کوئی اپنے الہامات کو ارشادات نبویہ اور مسلک سلف صالح کے معیار پر پرکھنے کا عادی نہیں۔ ممکن نہیں کہ وہ شیطان کی دستبرد سے بچ سکے۔ خیرالقرون کے بعد حضرت قطب الاقطاب سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ سے بڑھ کر عارف ربانی کون ہوگا؟ شیطان نے ان کو بھی اپنی کمند خدع میں پھانسنا چاہا تھا۔ لیکن وہ صاحب فراست تھے۔ انہوں نے شیطانی آواز کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں جانچا تو معاً ان پر حقیقت حال کھل گئی اور وہ جھٹ ’’اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم‘‘ کہہ کر پناہ خداوندی میں آگئے اور بچ گئے۔ ورنہ شیطان بسا اوقات اچھے اچھے ہادیان طریقت کو پھسلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جب شیخ شیوخ العالم حضرت عبدالقادر جیلانیؒ اس کے پنجۂ اغوا سے بچ نکلے اور اس کا وار خالی گیا تو شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے الفاظ میں شیطان ان سے کہنے لگا۔ اے عبدالقادر! نجات یافتی تواز من بواسطہ علم تو باحکام پروردگار تو وفقہ تو باحوال منازلات خود ومن بمثل ایں واقعہ ہفتادتن از اہل ایں طریق ازراہ بردم کہ یکے ازانہا بجائے خود نایستاد۔ ایں جہ علم وہدایت است کہ حق تعالیٰ ترا عطا فرمودہ۔ شیخ محی الدین عبدالقادر ؒ ’’گفت ﷲ الفضل والمنۃ ومنہ الہدایۃ فی البدایۃ والنہایۃ‘‘ اگر جونپوری بھی نورانی پیکر کو دیکھ کر احادیث نبویہ کی طرف رجوع کرتا تو کبھی ممکن نہ تھا کہ اسے اسلام کے شارع عام سے ہجرو بعد نصیب ہوتا۔ لیکن شیطان کے ایک ہی پرتوجمال سے اس کی آنکھوں میں ان احادیث نبویہ کی طرف سے چربی چھاگئی۔ جن میں حضرت مہدی علیہ السلام کی بہت سی ایسی علامتیں اور خصوصیتیں مذکور ہیں جو سید جونپوری کی ذات میں نہیں پائی جاتی تھیں۔
چندیری، مندو، چمپانیر، اور احمد نگر میں ورود
وطن کو الواداع کہہ کر سید چندیری گیا۔ وہاں کے لوگوں میں اس کے فضل وکمال کا شہرہ پہلے سے ہوچکا تھا۔ اہل چندیری نے بڑی آؤ بھگت کی اور سیکڑوں عقیدت مند اس کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔ مگر جب علماء ومقتدایان ملت کو اس کے دعوائے مہدویت کا علم ہوا تو وہ مخالفت پر کمربستہ ہوئے اور بحث ومناظرہ کا بازار گرم ہوا۔ چونکہ شرع اسلام کی حکومت تھی۔تمام اسلامی ممالک میں احتساب جاری تھا اور ہر شخص کے لئے شریعت کی پابندی لازم تھی۔ اس لئے سید کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ وہاں سے شہر مندو دارالسلطنت مالوہ میں آیا۔ وہاں بھی اس کے وعظ
وبیان میں ہجوم خلائق حد سے زیادہ ہوا۔ سلطان غیاث الدین جسے اس کے فرزند سلطان ناصر الدین نے ان ایام میں قصر شاہی کے اندر نظربند کر رکھا تھا۔ نہایت درجہ کا اعتقاد بہم پہنچا کر سید کا مرید ہوگیا۔ اس نے سید کے دو مریدوں سید سلام اللہ اور ابوبکر کو بلا کر باعزاز تمام رخصت کیا اور بیش قیمت تحائف سید کی خدمت میں بھیجے۔ یہاں سلطان غیاث الدین کا ایک مصاحب الہ داد نام بھی ترک امارت کر کے سید کا مرید ہوگیا۔ وہ سید سے اس درجہ مانوس ہوا کہ سفر وحضر میں تادم مرگ اس کے ہمرکاب رہا۔ الہ داد صاحب تصانیف تھا۔ اس نے رسالہ بار امانت، رسالہ ثبوت مہدوویت، مرثیہ شیخ اور دیوان غیر منقوط لکھ کر فصاحت وبلاغت کو حیات جاوید بخشی۔ یہ شخص سید محمد کا چھٹا خلیفہ شمار کیا جاتا ہے۔ صاحب دیوان مہری بن خواجہ طہ اسی کا شاگرد ہے۔ اسی شہر میں سید محمد کا چھوٹا فرزند سید اجمل کھانے کی دیگ میں گر پڑا اور رہگرزائے عالم بقا ہوا۔ سید محمد نے مندو سے روانہ ہوکر چمپانیر کا عزم کیا جو گجرات کا دارالسلطنت تھا۔ مندو سے بہت سے لوگ معقتد ہوکر سید کے ہمراہ ہولئے۔ یہاں پہنچ کر سید نے جامع مسجد میں قیام کیا۔ یہاں بھی سید کے ترک وانقطاع کا غلغلہ بلند ہوا۔ یہاں تک کہ سلطان محمود بیکرہ ایسے الوالعزم اور خداپرست بادشاہ نے بھی سید کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقۂ مریدین میں داخل ہونے کی ٹھان لی۔ لیکن چند علماء اور مقتدان ملت جو حسب الحکم پہلے آکر سید سے ملاقات کر گئے تھے۔ مانع آئے اور بتایا کہ یہ شخص مہدویت کا مدعی ہے۔ اس لئے بادشاہ نے مرید ہونے کا عزم فسخ کردیا۔ مگر باوجود علماء کرام کی مخالفت کے یہاں کئی شخص سید کے مرید ہوگئے۔ کیونکہ جن محرومان قسمت کا جذبۂ حق فراموشی ضلالت پسندی اور کج روی کے لئے بے قرار ہو وہ کسی طرح ریغ وضلال سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ ان نئے ارادت مندوں میں سے ایک نوجوان طالب علم میاں نظام الدین نام نے زمرۂ خدام میں داخل ہوکر سید کی خدمت ورفاقت اختیار کی اور ہر سفر میں سید کے ساتھ رہا۔ اسی جگہ سید کی بیوی کا پیمانۂ حیات بھی آب مرگ سے لبریز ہوگیا۔ جب راحت جان رفیقۂ حیات نے گرداب فنا کی گود میں جابسیرا کیا تو سید نے امور خانہ داری کے مخمصوں سے نجات پاکر فتوحات میں تقسیم بالسویہ کا طریقہ جاری کیا۔ وہاں سے احمد نگر آیا۔ یہ شہر سلطنت نظام شاہیہ کا پایہ تخت تھا جو دہلی کی پانچ ہمسر اسلامی سلطنتوں میں سے ایک تھی۔ یہ مقام پیشتر ہی مہدویت کی تحریک سے آشنا ہوچکا تھا۔ اس وجہ سے دارالسلطنت احمد نگر میں سید کا استقبال نہایت گرم جوشی سے ہوا۔ لوگوں کے دلوں پر سید کی عظمت یہاں تک چھائی کہ خود سلطان احمد نظام شاہ بحری سید کا مرید ہوگیا۔ کسی بادشاہ کا ایک فقیر بے نوا
ومسافر خستہ پاکے ہاتھ پر بیعت کرنا بہت کچھ اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ بادشاہ کے حسن عقیدت کی وجہ سے سید کا آستانہ مرجع خاص وعام بن گیا۔ قریب قریب ساری رعایا سید کے حلقۂ ارادت میں آگئی۔ بادشاہ کے قبول مہدویت کا ساحرانہ اثر یہاں تک جاری وساری ہوا کہ اچھے اچھے عقلائے دہر اپنے قوائے ذہنیہ کو بدعت وضلالت کے مہدوی مندر پر قربان کر بیٹھے اور مذہب مہدویہ دکن میں بالاستقلال قائم ہوگیا۔ مہدوی لکھتے ہیں کہ بادشاہ اس وقت تک اولاد سے محروم تھا فرزند کی آرزو میں سید کے پاس آکر دعاء کا طالب ہوا۔ سید نے دعاء کی۔ نہال امید بارور ہوا۔ بیگم کو حمل کے آثار نظر آنے لگے اور چند ماہ کے بعد بادشاہ کے پاس یہ نوید جانفرا پہنچی کہ مشکوئے معلی میں وارث تاج وتخت پیدا ہوا۔ یہی مولود بعد کو برہان نظام الملک کے نام سے احمد نگر کے تخت سلطنت پر بیٹھا۔ یہ بادشاہ فرقہ مہدویہ سے کمال حسن اعتقاد رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ سید محمد کے انتقال کے بعد اس نے شاہ نظام، میاں دلاور اور میاں نعمت وغیرہ کو جو سید جونپوری کے اخص مرید تھے گجرات کاٹھیاواڑ سے احمد نگر مدعو کیا اور کمال اعتقاد سے سید محمد کے پوتے میراں جی کو اپنی قمر طلعت لڑکی نذر کرکے اپنی دامادی کا اعزاز بخشا۔ اس کتخدائی سے مہدویہ کا پایۂ رفعت فرق فرقد تک بلند ہوگیا اور مہدویت سلطنت کی آغوش میں تربیت پانے لگی۔ اہل ملک کی اس بے راہ روی کو دیکھ دیکھ کر علمائے حق لہو کے گھونٹ پیتے تھے۔ مگر کوئی بس نہیں چلتا تھا۔
گلبرگہ اور احمد آباد سے اخراج
معلوم ہوتا ہے کہ سید ایک مقام پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ بعض مقامات سے تو وہ خارج البلد کیا جاتا تھا۔ لیکن بعض سے خود ہی رخصت ہوجاتا تھا۔ کیونکہ اس کا نصب العین تو اطراف واکناف ملک میں پھر کر اپنی خانہ ساز مہدویت کی تبلیغ کرنا تھا۔ اس لئے وہ احمد نگر میں بھی نہ ٹھہرا اور یہاں سے کوچ کر کے شہر احمد آباد بیدر پایۂ تخت برید شاہیہ میں آیا۔ اس وقت ملک قاسم برید یہاں کے تخت سلطنت پر جلوہ فرما تھا۔ یہاں ملا ضیاء اور قاضی علاؤ الدین نے بیعت کی اور سید کے ہمراہ ہو لئے۔ یہاں سے سید نے عنان عزیمت گلبرگہ کو پھیردی جو خاندان بہمنیہ کا پایہ تخت تھا۔ یہاں آکر اس نے سید گیسو دراز چشتیؒ کے مزار مبارک پر جو حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلویؒ کے خلیفہ تھے۔ فاتحہ پڑھی۔ ایک مختصر سے قیام کے بعد جب علماء نے سلطان سے شکایت کی کہ اس شخص کے جھوٹے دعوؤں نے ایوان مذہب میں تزلزل ڈال دیا ہے تو یہاں سے بھی اخراج کا حکم ملا۔ گلبرگہ سے روانہ ہوکر قصبہ رائے پاک ہوتے ہوئے بندردابھول پہنچا اور وہاں سے ۹۰۱ھ میں
بیت اللہ کے شوق زیارت میں جہاز پر سوار ہوا۔ بعد طے منازل حرم محترم میں پہنچا۔ یہاں جناب سرور عالمﷺ کی یہ مشہور پیش گوئی یاد آئی کہ لوگ مہدی کے ہاتھ پر رکن اور مقام کے درمیان بیعت کریںگے۔ اس لئے سید محمد نے بھی اس مقام پر کھڑے ہوکر دعویٰ ’’من اتبعنی فہو مومن‘‘ (جس کسی نے میری پیروی کی وہ مؤمن ہے) کا کیا۔ میاں نظام الدین اور قاضی علاؤالدین نے آمنا وصدقنا کہہ کر جھٹ بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا اور اس طرح سید محمد کو اس پیشین گوئی کا مصداق ٹھہرایا گیا۔ یہاں سے سید محمد جناب ابوالبشر آدم علیہ السلام کے مرقد منور کی زیارت کو گیا اور کہا کہ میں نے آدم علیہ السلام سے معانقہ کیا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ خوش آمدی صفا آوردی۔ وہاں سے بندر دیو گھاٹ پر اتر کر شہر احمد آباد گجرات آیا اور مسجد تاج خاں سالار میں فروکش ہوا۔ یہاں ڈیڑھ سال تک رہنے کا اتفاق ہوا۔ اسی مسجد میں ایک روز مجمع عام میں بڑے طمطراق سے دعویٰ مہدویت کیا۔ برہان الدین اور ملک گوہر نے مرید وتارک الدنیا ہوکر رفاقت اختیار کی۔ ملک برہان الدین کو مہدویہ خلیفہ ثالث اور مؤخر الذکر کو خلیفہ چہارم قرار دیتے ہیں۔ ہندوستان کی خاک پرستش وعقیدت کے خمیر سے بنی ہے اور یہاں کے باشندے خوش اعتقادی میں تمام دنیا سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اس لئے سید جہاں جاتا تھا لوگ پروانہ وار ہجوم کرتے تھے۔ احمد آباد میں ہزارہا مردوزن سید کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔ جب اس کے دعوائے مہدویت اور اغوائے خلق کا چرچا زبان زد خاص وعام ہوا تو علماء مشائخ گجرات نے بیحد مناقشہ کیا اور سلطان محمود گجراتی سے شکایت کی کہ ایک شیخ نووارد لوگوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈال رہا ہے اور اس کے وجود سے بے شمار مفاسد ومضار پیدا ہو رہے ہیں۔ بادشاہ نے اخراج کا حکم دیا اور اس طرح ایک بڑھتا ہوا طوفان آناً فاناً رک گیا۔ یہاں سے نکل کر ایک گاؤں سولہ سانیج نام میں اترا۔ یہاں ایک بیباک وسفاک رہزن نعمت نام جو ایک حبشی کو قتل کر کے مفرور ہورہا تھا آکر سید کی جماعت میں داخل ہوا۔
نہروالہ سے اخراج
یہاں سے روانہ ہوکر شہر نہروالہ پیران پٹن علاقہ گجرات میں لب حوض مقام کیا۔ یہاں بھی ڈیڑھ سال تک اقامت گزیں رہا۔ لطف یہ ہے کہ سید جدھر کا رخ کرتا تھا ہر طرف سے طلباء مناظرہ ومباحثہ کے لئے ٹوٹ پڑتے تھے۔ باوجودیکہ سید یہاں مناظرہ میں بری طرح مغلوب ومقہور ہوا۔ تاہم ایک دنیا پرست مولوی میاں خوند میریہیں حاضر خدمت ہوکر مرید وتربیت پذیر ہوا
اور ملک نجن برخوردار اور ملک الہہ داد اور ملک حماد بھی دامن مہدویت سے وابستہ ہوکر ہمراہ ہوئے۔ جب مبارزا الملک نے دیکھا کہ اس کے اکثر اعزاء واقارب سید محمد کے دام تسخیر میں گرفتار ہوگئے اور ہزارہا مخلوق سیل الحاد وبدعت کی نذر ہوئی تو سلطان محمود کی طرف سے ایک فرمان ثانی صادر کراکے پیران پٹن سے بھی سید کو خارج کرادیا اور سید محمد کی عادت تھی کہ جب کسی حاکم کی طرف سے حکم اخراج پہنچتا تو کہنے لگتا کہ مجھے خدا کا حکم یہاں سے رخصت ہونے کے لئے پہلے ہی سے آچکا ہے۔ اس لئے میں خود بخود حسب ارشاد خداوندی جاتا ہوں۔ پیران پٹن سے نکل کر وہاں سے تین کوس کے فاصلے پر قصبہ بدلی میں نزول کیا اور ایک موقع پر کہا مجھے برابر اٹھارہ سال سے خدا کا بلاواسطہ حکم ہوتا رہا کہ مہدویت کا دعویٰ کر لیکن میں حکم الٰہی کو ٹالتا رہا۔ اب مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اے سید محمد مہدویت کا دعویٰ کرو ورنہ تو ظالمان میں شامل کردوںگا۔ اس لئے میں بصحت عقل وحوال دعویٰ کرتا ہوں کہ ’’انا مہدی مبین مراد اﷲ‘‘ اور اپنے جسم کا چمڑا دو انگلیوں سے پکڑ کر کہا کہ جو شخص اس ذات کی مہدویت سے منکر ہو وہ کافر بے دین ہے۔ مجھے خدائے برتر سے بیواسطہ احکام ملتے ہیں۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تجھے علم اوّلین وآخرین اور بیان یعنی معانی قرآن کا فہم اور خزانہ ایمان کی کنجی عطاء کی۔ جو شخص تجھ پر ایمان لایا وہ مؤمن موحد ہے اور جو منکر ہوا وہ کافر ہے۔ اسی طرح بہت سی باتیں رب الارباب کی طرف منسوب کیں۔ اسی دقت مجمع مریدان بااخلاص کی زبان سے آمنا وصدقنا کی صدا بلند ہوئی۔ جب یہ خبر شہر نہروالہ جو وہاں سے تین کوس کے فاصلہ پر تھا۔ زبان زد خاص وعام ہوئی کہ نہروالا سے خارج البلد ہونے کے بعد اب سید قصبہ بدلی میں مہدیت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ تو چند علماء قصبہ مذکور میں آئے اور سید کو بہترا سمجھایا کہ وہ اس ہرزہ درائی سے باز آئے۔ لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ حاملین شریعت مایوس ہوکر احمد آباد آئے اور بادشاہ کو اس قضیہ سے مطلع کر کے یقین دلایا کہ یہ شخص لوگوں کو ضلالت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لئے اس کے شر سے خلق خدا کو بچانا لابد ہے۔ غرض یہاں سے بھی خارج ہوکر آوارۂ دشت ادبار ہوا۔ چلتے وقت عالم آشفتگی میں کہنے لگا کہ اگر میں حق پر تھا تو میرا اتباع کیوں نہ کیا؟ اور اگر باطل پرست تھا تو کیوں قتل نہ کیا کہ جہاں جاؤں گا لوگوں کو گمراہ کرتا پھروں گا اور اس کا وبال ان کی گردن پر رہے گا۔ جو میرے قتل واستہلاک سے مجتنب رہے۔ اب سید جالور پہنچا۔ اس جگہ کے بے شمار باشندے اس کے مطیع ومنقاد ہوگئے۔ جالور سے ناگور اور ناگور سے ولایت سندھ کے شہر نصرپور میں داخل ہوا۔ یہاں پہنچ کر میاں نعمت اور میاں خوند میر کو تو گجرات واپس
جانے کی خود اجازت دی۔ لیکن سید کے کثیر التعداد پیرو جو اس دین جدید کی سختیوں کو جھیلتے جھیلتے سخت بیزار اور بداعتقاد ہوگئے تھے۔ ترک رفاقت کر کے گجرات کو واپس چلے آئے۔ سید محمد نے ان کو لاکھ ڈرایا دھمکایا کہ تم جادۂ سداد سے منحرف ہوکر منافق ومرتد ہوئے جاتے ہو۔ مگر کسی نے ایک نہ سنی اور سیدھا راستہ گجرات کا لیا۔ بی بی شکر خاتون سید کی ایک اہلیہ بھی انہی میں داخل تھی۔
چوراسی مہدویہ کی عالم گرسنگی میں ہلاکت
نصر پور سے شہر ٹھٹہ دارالحکومت سندھ میں آیا۔ چونکہ علمائے سندھ دعویٰ مہدویت کے آغاز سے ہی لوگوں کو جونپوری فتنہ سے متنبہ کر رہے تھے۔ سندھ میں مہدویت کو کوئی فروغ نصیب نہ ہوا۔ بلکہ اس بناء پر کہ سید کے قدوم سے پیشتر ہی یہاں اس کے خلاف غیظ وغضب کی لہر دوڑ رہی تھی اور تعذیب وتعزیر کی تمنا مدت سے بے قرار تھی۔ لوگوں نے سید اور اس کے رفقاء کو فاقوں مارنے کی ٹھان لی۔ اس قرارداد کے بموجب سید کے پاس پیغام بھیجا کہ اہل سندھ کو بے دین کرنے سے باز آؤ ورنہ یاد رکھو کہ اناج کا ایک دانہ بھی تمہارے حلق میں نہ پہنچنے دیںگے۔ سید نے اس پیغام کی کوئی پروا نہ کی اور حسب معتاد لوگوں پر اپنی مہدویت کے جال ڈالنے شروع کئے۔ لوگوں نے عدم تعاون کے اصول پر عمل کرتے ہوئے محدود آرزوقہ کا واحد ذریعہ بھی بند کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سید کے رفقاء میں سے چوراسی آدمیوں نے گرسنگی اور فاقہ کشی کے مصائب میں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے جان دے دی۔ سید نے آتش رنج وغم کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بشارت دی کہ فاقہ کش جان سپاروں کو انبیاء ومرسلین اولوالعزم کے مدارج ومقامات عطاء ہوئے ہیں۔ جب علمائے حق نے دیکھا کہ سید بدستور قوانین الٰہیہ کا نظام درہم برہم کر رہا ہے اور اسلامی جماعت کا شیرازہ بکھیرنے کی کوششیں جاری ہیں تو انہوں نے ناچار بادشاہ سے اس کی شکایت کی۔ شاہ سندھ سید کے ہفوات ومرخرفات کی اطلاع پاکر اس قدر برہم ہوا کہ اس نے سید اور اس کے تمام رفقاء کے حق میں حکم قتل صادر کیا۔ لیکن دریا خان مصاحب سلطانی کی سعی سے فرمان قتل حکم اخراج سے تبدیل ہوگیا۔ مہدویہ نے یہاں جو طرز دعوت اختیار کیا تھا وہ خود ایک خونی منظر کا اشارہ کر رہا تھا۔ مگر غنیمت ہے کہ جان بخشی ہوگئی۔ انجام کا رجب سید نے دیکھا کہ اس پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا۔ لوگ ہر جگہ خشونت ودرشتی سے پیش آتے ہیں اور ہندوستان کی کوئی اسلامی سلطنت اسے اپنے یہاں پناہ دینے پر آمادہ نہیں تو اس نے کسی دوسری ولایت کے آغوش عاطفت میں رہ کر اپنی مہدویت کے زہریلے جراثیم پھیلانے کا قصد کیا۔ چنانچہ سندھ کو الوداع کہہ کر خراسان کا رخ کیا۔
خراسان فارس وعراق کے مشرقی حصہ کو کہتے ہیں۔ مہدویوں کا بیان ہے کہ اس وقت بھی قریباً نو سو آدمی سید کے ہمراہ رکاب تھے۔ جن میں سے تین سو ساٹھ ایسے منتخب تھے جن کا لقب اصحاب ومہاجرین خاص تھا۔ غرض یہ قافلہ بہزار خرابی وبربادی قندھار پہنچا۔ اس وقت سید کی حالت بہت زبون تھی اور کوہ مصائب بادلوں سے بھی بلند تر ہو گیا تھا۔ جب مرزاشاہ بیگ حاکم قندھار سید کے دعاوی سے مطلع ہوا تو حکم دیا کہ سید ہندی کو جمعہ کے دن مسجد جامع میں طلب کر کے علمائے اسلام سے بحث کرائی جائے۔ چنانچہ حسب الحکم پیادے دوڑے اور سید کو کمر بند سے پکڑ کر جبراً وقہراً اس عجلت سے لے چلے کہ جوتا پہننے کی بھی مہلت نہ دی اور جب مریدوں نے ہمراہی کا ارادہ ظآہر کیا تو انہیں سختی سے روک دیا۔ مہدوی لکھتے ہیں کہ جب سید محمد مسجد میں داخل ہوا تو علماء نے نہایت سختی سے گفتگو شروع کی۔ لیکن سید کی طرف سے نہایت عجزوانکسار کے ساتھ جواب دیا گیا۔ شہ بیگ حاکم قندھار جو جوان بست سالہ تھا۔ سید کے بیان پر فریفتہ ہوگیا اور اس کے حسن اخلاق فروتنی اور سحر بیانی سے گرویدہ ہوکر نہایت تعظیم وتکریم سے پیش آیا۔
فراہ میں ورود اور سفر آخرت
سید محمد نے علمائے قندھار کے چنگل سے مخلصی پاکر شہر فراہ کی راہ لی۔ اس وقت سید کے سر پر حزن وغم کے بادل منڈلا رہے تھے اور اس کی بیکسی قابل رحم تھی۔ لیکن ؎
ہر کس کہ چنیں کند چناں آید پیش
فراہ میں بھی نہایت سخت باز پرس ہوئی اور سختی کا برتاؤ کیاگیا۔ پہلے ایک عہدہ دار نے جو نہایت ہیبت ناک اور آشفتہ مزاج تھا آکر سید محمد اور اس کے رفقاء کے تمام اسلحہ چھین لئے اور گوشۂ کمان ہر ایک کے سر پر رکھ کر ایک ایک کو شمار کر کے کہنے لگا کہ کل کے روز تم سب زندان بلا میں ڈالے جاؤ گے۔ تاکہ لوگ تمہارے خبائث ورذائل سے محفوظ رہیں۔ اس کے بعد امیر ذوالنون حاکم شہر سید کی حالت معلوم کرنے کے لئے بذات خود آیا۔ لیکن ملاقات کے بعد سید کا معتقد ہوکر علماء کو اجازت دی کہ اس کی مہدویت کا امتحان کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دفعہ پھر علمائے اسلام سے مناظرہ ومباحثہ کی ٹھہری۔ چنانچہ بہت دن تک آپس میں بحثیں ہوتی رہیں۔ امیر ذوالنون نے یہ تمام ماجرا مرزا حسین بادشاہ خراسان کی خدمت میں لکھ بھیجا۔ بادشاہ نے خراسان کو ہندوستان کی وبائے عالمگیر سے پاک رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے چار سربرآور دہ عالم بغرض مناظرہ روانہ کئے۔ یہ چاروں حضرات علم وفضل کے ستون اور میدان مناظرہ کے شہسوار
ہوں گے۔ لیکن ایسے شخص کے مقابلہ میں جس کی ساری عمر مذہبی اکھاڑوں اور جھگڑوں قضیوں میں گذری تھی اور مرزائی مناظرین کی طرح جس کے چوبیس گھنٹے اسی سوچ بچار میں گذرتے تھے کہ فریق مقابل کے استدلال میں کیاکیا الجھنیں پیدا کی جاسکتی ہیں اور حضرت شارع علیہ السلام کے ارشادات گرامی کو مسترد کرنے کے لئے بساط مناظرہ میں کون کون سے مہرے کام دے سکتے ہیں۔ خود علمائے ہندوستان کے طلب کئے جانے کی ضرورت تھی۔ اگر یہاں سے ایک آدھ مناظر بھی چلا جاتا تو جاتے ہی سید کا ناطقہ بند کر دیتا۔ سید محمد، مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح سخن سازیوں اور تاویل بازیوں کے ہتھیار چلا کر برابر مقابلہ کرتا رہا اور علمائے خراسان اس کو ساکت ومغلوب کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ جب فراہ میں تین مہینے گذر چکے تو خوند میر اور میاں نعمت جو نصر پور سے اپنے وطن کو واپس گیا تھا۔ میاں محمود فرزند سید محمد کے ہمراہ فراہ کو آیا۔ ان کے آنے کے بعد سید چھ مہینے تک اور زندہ رہا۔ آخر وہ دن آگیا جس کا دھڑ کا ہر ایک ذی روح کو اس عالم رفتنی وگزشتنی میں لگا ہوا ہے۔ یعنی سید نے بروز پنجشنبہ ۹۱۰ھ میں جب کہ اس کی عمر تریسٹھ سال کی ہوئی۔ سالہا سال کی خانہ بدوشی کے بعد غریب الوطنی ودرماندگی کے عالم میں توسن حیات کی باگ ملک آخرت کی طرف پھیر دی۔ اس وقت موت کا پیغام سید کے لئے عین نوید حیات تھا۔ کیونکہ سید اپنے دعوائے مہدویت کے بعد سے جسمانی اور روحانی صدمے اٹھاتے اٹھاتے سخت بدحال ہوگیا تھا۔ مصنف شواہد الولایت جو مہدوی ہے لکھتا ہے کہ سید بروز انتقال ایک بیوی کے گھر میں تھا اور عادت یہ تھی کہ نوبت ازواج کی شناخت کے لئے زمین میںمیخیں گاڑ رکھی تھیں۔ جب ان میخوں پر سایہ پہنچتا تھا تو ایک بیوی کے گھر سے دوسرے کے مکان پر جانے کی باری آتی تھی۔ اس روز جب سایہ میخ پر پہنچا تو کہا مجھے بی بی ملکہ کے گھر لے چلو۔ بی بی ملکہ وہاں موجود تھی۔ اس نے عرض کی کہ آپ تکلیف کی حالت میں ہیں اور میں خود یہاں موجود ہوں تاہم میں نے اپنی باری بخش دی۔ آپ یہیں رہیں اور جانے کی زحمت نہ اٹھائیں۔ خدام ومریدین نے بھی نہایت الحاح واصرار کے ساتھ یہی درخواست کی۔
سید نے جواب دیا تم نے تو اپنا حق بخش دیا لیکن شرع محمدی کی حد کو جس کے لئے رب العزت نے حکم فرمایا کون بخش سکتا ہے؟ اس کے بعد دو تین مرتبہ بی بی ملکہ نے بھی نہایت تضرع ودلسوزی سے یہی بات عرض کی لیکن سید نے قبول نہ کی اور کہا کہ برادران ملت ہماری رعایت کرتے ہیں۔ شریعت مصطفوی کا پاس ولحاظ نہیں کرتے۔ غرض نہ مانا اور بہزار دقت وپریشانی اپنے
تئیں بی بی ملکہ کے قیام گاہ پر پہنچایا اور تھوڑی دیر کے بعد شہر خموشاں کی راہ لی جہاں بڑی افسردگی اور بے بسی کے ساتھ کنج لحد میں سلا دیا گیا۔ ایک قوی عذر کی موجودگی میں سید نے شریعت اسلامی کا نام لے کر بی بی ملکہ کے گھر جانے پر جو اصرار کیا اس سے اس واقعہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جب کہ حسب روایت امام بخاریؒ ایک کوفی نے حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تھا کہ اگر کوئی شخص حالت احرام میں مکھی مار دے تو اس پر دم (فدیہ) لازم آتا ہے یا نہیں؟ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ اہل عراق مجھ سے مکھی مارنے کے متعلق دریافت کرتے ہیں اور یہ وہی اہل عراق میں جنہوں نے ابن رسول اﷲﷺ (حضرت امام حسینؓ) کو قتل کیا ہے۔ حالانکہ حضور سید عالمﷺ نے فرمایا تھا کی حسنینؓ میرے باغ دنیا کے دو پھول ہیں۔ جب سید نے اسلام کے شارع عام کو چھوڑ کر اور اسلامی عقائد سے روگردانی کر کے ایک نئے فرقہ کی بنا ڈالی تو ایسے نام نہاد تقویٰ کا اظہار بالکل لایعنی تھا۔ اسی طرح قادیان کے خلیفہ المسیح مرزا محمود احمد قادیانی نے ۱۹۲۷ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے حبیبہ حال میں ایک تقریر کی جس میں انہوں نے مسواک کو سنت رسول اللہ بتاتے ہوئے اس کا فلسفہ بیان کرنا شروع کیا۔ یہ سن کر مجھے ہنسی آگئی کہ سبحان اللہ! مینڈکی کو بھی زکام لگا۔ جب مرزامحمود احمد قادیانی اور ان کے پیروؤں کا باطن ہزارہا کفریات کا منبع ومعدن ہے تو ایک سنت زائدہ کی آڑ لے کر تقویٰ کی نمائش کرنا سخت مضحکہ خیز حرکت ہے۔ انتقال کے بعد سید کی نماز جنازہ پرانی عید گاہ میں پڑھی گئی اور شہر فراہ اور موضع رج کے مابین ایک مقام پر نعش سپرد خاک کی گئی۔ میاں الہ داد بن جنید مہدوی نے سب کے سامنے قبر پر مرثیہ پڑھا جس کا ایک شعر یہ ہے ؎
فضلش کہ برجمیع پیمبر شد از خدا
بادا بروز حشر شفاعت گر از خدا
۹۸۰ھ میں شاہ قاسم عراقی حاکم فراہ نے قبر پر ایک گنبد عالی کی تعمیر وتاسیس شروع کی۔ لیکن گنبد نامکمل رہا۔ اس کے بعد یکان سلطان حاکم فراہ نے اس کی تکمیل کی۔
سید کا جانشین
سید محمد کے فرزند کلاں سید محمود نے ایک سال فراہ کی سختیاں جھیلنے کے بعد گجرات میں آکر مقام بھلوٹ میں توطن اختیار کیا۔ اب سید کے تمام خلفاء ومریدین سید محمود کی طرف رجوع ہوئے۔ اس لئے باپ کے اوائل عہد کی طرح اب اس کا ستارۂ اوج چمکنے لگا۔ جب سلطان محمود بیکرہ کو مہدویہ کے بدعات واستبداد کا حال معلوم ہوا تو سید محمود کواحمد آباد کے محبس میں قید کر
کے نہایت وزنی زنجیر اس کے پاؤں میں ڈلوائی۔ اکتالیس روز کے بعد راجی سون راجی مرادی خواہر ان بادشاہ کی سفارش سے کہ دونوں سید محمد کی معتقد تھیں۔ قید محن سے نجات ملی۔ لیکن زخم زنجیر کی وجہ سے پاؤں سڑ گیا۔ یہاں تک کہ ڈھائی مہینہ کے بعد پاؤں کی تکلیف سے جانبر نہ ہوسکا اور والد کی رحلت کے نو سال بعد ۹۱۹ھ میں جب کہ اس کی عمر پچاس سال کی تھی۔ موضع بھلوٹ میں محنت سرائے دنیا سے رخصت ہوکر ملک بقاء کی راہ لی۔
میاں خوند میر
جب سید محمد خرابۂ دنیا سے معمورۂ عقبیٰ کی طرف روانہ ہوا تو میاں خوند میر نے اپنے پیرومرشد کا دسواں کرتے ہی ایران سے اپنے وطن مالوف گجرات کاٹھیاواڑ کو مراجعت کی اور نہروالا میں قیام کیا۔ خوند میر نے اپنی تعجیل معاودت کا یہ عذر پیش کیا کہ میران محمد کی روح نے اسے بعجلت تمام گجرات جانے کا حکم دیا ہے۔ سید محمود کی رحلت کے بعد یہی خوند میر فرقہ مہدویہ کا سرگردہ اورخلیفہ ثانی قرار پایا۔ اس نے بڑے طمطراق سے مذہب مہدویہ کی تبلیغ شروع کی اور لوگ بڑی تعداد میں اس کے دام تزویر میں پھنسنے لگے۔ تھوڑے دن شہر پٹن میں اقامت گزیں رہا۔ جب وہاں سے خارج کیا گیا تو ملک پیارے نام ایک مہدوی نے اسے اپنی جاگیر موضع کھانبیل میں لاکر رکھا۔ وہاں سے بھی اخراج کا حکم ملا۔ ۹۳۰ھ میں ایک دن اس کو خبر پہنچی کہ شہر احمد آباد کے حاکم نے ایک مہدوی رنگریز کو جرعہ مرگ پلادیا ہے۔ خوند میر نے چار سوار اس غرض سے روانہ کئے کہ جاکر ان علماء کی جان لے لیں۔ جنہوں نے مہدوی رنگریز کے قتل کا فتویٰ دیا ہے۔ یہ سوار علمائے موصوف کو جام شہادت پلا کر موضع بھولارہ میں واپس آئے۔ جب سلطان محمود گجراتی کو اس واقعہ ہائلہ کی اطلاع ہوئی تو اس نے مہدویہ کی سرکوبی کے لئے ایک دستۂ فوج عین الملک کی قیادت میں روانہ کیا۔ کچھ شہری بھی بہ نیت حصول ثواب فوج کے شریک حال ہوگئے۔ انہوں نے پہلے کھانبیل جاکر مہدویہ کے مکانات جلائے۔ اس کے بعد خوند میر اور اس کے پیروؤں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ خوند میر ساٹھ سوار اور چالیس پیادے لے کر مقابلہ کو نکلا۔ اس معرکہ میں مہدویہ کے اکتالیس آدمی کام آئے۔ خوند میر کی ایک آنکھ میں ایسا تیر لگا کہ دوسری آنکھ بھی کاسہ سر سے باہرنکل آئی۔ اتنے میں شرف الدین مہدوی بھی اسی سواروں کے ساتھ کمک لے کر آیا۔ لیکن مہدویہ کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور موضع سدراسن کی طرف جو وہاں سے بارہ کوس کی مسافت پر ہے ہٹ گئے۔ لیکن شاہی فوج نے پیچھا نہ چھوڑا اور سدراسن پہنچ کر خوند میر اور اس کے بیٹے جلال الدین اور داماد وغیرہ
اقرباء اور مریدین کو ملا کر چون آدمی قتل کئے۔ مہدویہ اس معرکہ کو جنگ بدر ولایت سے نامزد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آیت ’’انا عرضنا الامانۃ علے السمٰوٰت‘‘ میں امانت سے یہی جنگ مراد ہے اور انسان سے مراد میاں خوند میر ہے۔
سلطنت احمد نگر سے مہدویہ کا اخراج
جن ایام میں سپاہ گجرات مہدویوں کا ستھراؤ کر رہی تھی۔ انہی دنوں سلطنت احمد نگر میں ان کا طوطی بول رہا تھا۔ سلاطین احمد نگر کو سید اور اس کے پیروؤں سے اس درجہ عقیدت وشیفتگی ہوئی کہ برہان نظام شاہ بحری نے اپنی قمر جمال لڑکی سید محمد جونپوری کے پوتے کے عقد ازدواج میں دے دی۔ جیسا کہ پہلے لکھا گیا۔ لیکن ۹۲۸ھ میں جب شاہ طاہر نام ایک عالم احمد نگر آکر برہان نظام شاہ کے سلک وزارت میں منتظم ہوا تو اس نے بادشاہ کے سامنے حضرت مہدی آخرالزمان علیہ السلام کے متعلق احادیث نبویہ پیش کر کے مہدویت کا سارا طلسم توڑ دیا اور اس مذہب کا بطلان ایسے مدلل پیرایہ میں ثابت کیا کہ برہان شاہ کا مزاج اس فرقہ کی طرف سے سخت برہمہ ہوا اور بادشاہ کو اس عقد سے کہ ایک مہدوی کو اپنی لڑکی دے بیٹھا تھا۔ سخت کوفت وپشیمانی ہوئی۔ بادشاہ نے اس جماعت کو قرب واختصاص سے یکسر محروم کر دیا اور علمائے احمد نگر کو سرزنش کی کہ جس خوبی سے شاہ طاہر نے اس مذہب کا بطلان میرے ذہن نشین کیا ہے تم نے کیوں نہ کیا؟ اب بادشاہ نے سید جونپوری کے پوتے سے اپنی بیٹی کی طلاق حاصل کی اور حکم دیا کہ تمام مہدوی میرے حدود مملکت سے نکل جائیں۔ اس طرح مدت کے بعد سلطنت احمد نگر کو مہدوی شرور وفتن کے گرداب سے نکلنا نصیب ہوا۔ اس وقت مہدویہ کی شکست حالی قابل عبرت تھی۔ مسلمان حکمرانوں نے ان کے خلاف مواخذہ واحتساب کا کوئی پہلو اٹھا نہ رکھا۔ خصوصاً گجرات میں لوگ سب سے زیادہ تشدد وسخت گیری کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ کیونکہ ۹۵۲ھ میں حضرت شیخ علی متقی گجراتیؒ نے جو شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے استاد الاستاد اور حدیث کی مشہور کتاب ’’کنزالعمال‘‘ کے جامع ومؤلف تھے۔ مکہ معظمہ سے ائمہ اربعہ کے مفتیوں کے چار فتوے جن میں ایک فتویٰ شیخ ابن حجر مکی مؤلف صواعق محرقہ کا بھی تھا۔ شاہ گجرات کے پاس بھجوائے۔ ان میں لکھا تھا کہ اگر مہدویہ اپنے عقائد باطلہ سے توبہ نہ کریں تو شاہ اسلام پر (بجرم ارتداد) ان کا قتل واجب ہے۔ شاہ گجرات نے ان فتوؤں کے بموجب سید جونپوری کے خلیفہ شاہ نعمت کی گرفتاری کا حکم دیا۔ جب سرکاری پیادے شاہ نعمت کو گرفتار کر کے لے چلے تو راستہ میں سید علی بن سید محمد جونپوری نے سرکاری پیادوں سے
پوچھا کہ اگر اس بزرگ کے بجائے تمہیں حضرت مہدی علیہ السلام کا فرزند ہاتھ لگے تو اسے رہا کر دوگے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ضرور رہا کریںگے۔ سید علی کہنے لگا کہ میں مہدی علیہ السلام کا فرزند ہوں۔ انہوں نے شاہ نعمت کو چھوڑ کر سید علی کو پکڑ لیا اور گاڑی پر ڈال کر دارالسلطنت میں لائے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے قید محن میں ڈال دو۔ سید زادہ عرصہ تک قید رہا۔ یہاں تک کہ سلطان مظفر نے قضا کی اور سلطان بہادر شاہ تخت نشین ہوا۔ جب بادشاہ نے مہم دکن سے خاطر خواہ فراغت پائی تو ملک پیر محمد مہدی نے جس سے اس جنگ میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں ظہور میں آئے تھے۔ اپنے حسن خدمات کے صلہ میں بادشاہ سے درخواست کی کہ ہمارے پیرزادہ کو جو زمانہ دراز سے شاہی قید خانہ میں محبوس ہے۔ مخلصی بخشی جائے۔ بادشاہ نے صدر خان وزیراعظم کو حکم دیا کہ پیرزادہ مذکور کو رہا کر دو۔ صدر خان نے عرض کیا کہ وہ تو مدت سے نہنگ اجل کا لقمہ بن چکا اور مخفی طور پر اپنے رازدان مصاحب کو دوڑا کر حکم بھیجا کہ مہدی زادہ کو فوراً موت کے گھاٹ اتار دو۔ چنانچہ داروغۂ محبس نے اسے فوراً نیچے اوپر تختے رکھ کر عدم کے تہ خانہ میں پہنچا دیا۔ شاہ نعمت جو اس دن اپنے پیرزادہ کو بطور فدیہ دے کر خود بچ گیا تھا۔ وہ بھی سولہ مریدوں کے ساتھ تیر اجل کا نشانہ بن گیا۔ اس کے بعد سرکاری عہدہ داروں نے ملک الہ داد مرید سید جونپوری سے جو خوند میر کا تربیت یافتہ تھا کہا کہ تم لوگوں نے بادشاہ وقت سے مقابلہ کیا۔ اب تم لوگ اس ملک میں ہرگز اقامت گزیں نہیں ہوسکتے۔ اس لئے ملک الہ داد بھی نہایت اضطراب وپریشانی کے عالم میں وہاں سے نکل بھاگا اور مارواڑ پہنچ کر موضع پاڑکر میں دائرہ باندھ کر رہنے لگا۔ وہاں ان لوگوں کو بڑے بڑے مصائب ونوازل سے سابقہ پڑا۔ یہاں تک کہ فاقوں مرنے لگے۔ لیکن حالت یہ تھی کہ ہر شخص اپنے اپنے احوال ومقامات باطنی کا دعویٰ کر کے ہی تسلی وتثبیت کی آنکھیں روشن کر لیتا تھا۔ شاہان اسلام کے محکمۂ احتساب نے انہیں کبھی ایک جگہ ٹھہر کر اغوا کوشیوں کا موقع نہ دیا۔ اس لئے اطراف واکناف ملک میں منتشر ہوکر دام تزویر بچھاتے اور سادہ لوح عوام کو اپنے تقدس کے سبز باغ دکھا کر گمراہ کرتے۔ لیکن ظاہر ہے کہ شاہان شریعت پناہ اس قسم کے اختلاف انگیز وفتنہ خیز تحریک کا بارآور ہونا کیونکر گوارا کر سکتے تھے۔ جو فساد فی الدین کے ساتھ سیاسیات میں بھی ہلاکت آفرین انقلاب پیدا کر سکتی تھی۔ اس آتش فتنہ کی جنگاریاں گجرات اور دکن سے اڑ اڑ کر دہلی اور آگرہ تک جا پہنچیں۔ بلکہ ایک بگولہ بنگالہ میں بھی گرا۔ لیکن ارباب حکومت کی بروقت مداخلت نے ان شراروں کو زیادہ بھڑکنے کا موقع نہ دیا۔ یہاں ان دو ممتاز وسربرآوردہ مہدویوں کے
حالات درج کئے جاتے ہیں۔جن کے انقطاع ومہاجرت الیٰ اللہ کے واقعات تواریخ ہند کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک عبداﷲ نیازی ہے اور دوسرا شیخ علائی۔
عبداﷲ نیازی افغان
شیخ عبداﷲ نیازی اور شیخ علائی پہلے حنفی چشتی تھے۔ پھر اغوائے شیطانی نے ان کو مہدویت کے پہلو میں لا بٹھایا۔ پس ترک وانقطاع کے متعلق ان کے جو جذبات وامیال تھے وہ خانوادہ چشت کے فیضان صحبت کے شرمندۂ احسان تھے۔ مہدوی لوگ ان حالات کو اتباع مہدویت کا اثر بتایا کرتے ہیں۔ مگر یہ انتہاء درجہ کی کج فہمی ہے۔ اگر ترک وانزوا کی یہ کیفیت انہیں قبول مہدویت کے بعد حاصل ہوئی ہوتی تو اس کو مہدویت کا فیض خیال کیاجاسکتا تھا۔ لیکن یہ تو پہلے ہی سے اس رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ پس میں مہدویہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر کسی مہدوی نے اہل سنت وجماعت کے مشائخ طریقت کی صحبت نہ اٹھائی ہو اور اس کے احوال ومواجید اہل اللہ کے حالات وکیفیات سے مطابقت رکھتے ہوں تو اس کا نام پیش کریں۔ نیازی شیخ سلیم چشتیؒ کے تربیت یافتہ تھے۔ اس طرح علائی بھی پہلے ہی سے فضائل کمالات سے متصف تھا۔ چنانچہ خواجہ نظام الدین احمد طبقات اکبری میں لکھتے ہیں: ’’شیخ علائی کہ ارشد اولاد شیخ حسن بود وبفضائل وکمالات انصاف داشت قائم مقام پدر گشتہ بارشاد طالبان مشغول شد۔‘‘
(طبقات اکبری مطبوعہ کلکتہ ج۲ ص۱۱۵)
پس ان دونوں کی ذات پر فخر کرنا عقل وخرد کا منہ چڑانا ہے۔ بعض حضرات اس حقیقت سے آنکھیں بند کر کے سخت ٹھوکر کھاتے ہیں۔ میاں عبداﷲ نیازی افغان حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے مرید وخلیفہ تھے۔ آپ ہی سے خداشناسی کی آنکھیں روشن کی تھیں۔ عبداﷲ حج بیت اللہ کو گئے۔ واپسی پر جونپوری کے کسی خلیفہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کے فقروں میں آکر مہدوی مذہب قبول کر لیا۔ لیکن یہ ان کی غلطی تھی کہ حضرت سلیم چشتیؒ کو اطلاع دئیے بغیر مہدوی پنتھ اختیار کر لیا۔ اگر ان سے مشورہ لے لیتے یا کم ازکم اپنے شبہات ان کے سامنے پیش کرتے جنہوں نے ان کو ورطہ، ہلاکت اور قعرضلالت میں گرایا تھا تو بچ جاتے۔ آخر خودرائی کا جو نتیجہ ہوسکتا تھا وہ ظاہر ہوکر رہا۔ شیخ عبداﷲ نے مہدوی مذہب اختیار کر کے قصبہ بیانہ ریاست جے پور میں آبادی سے دور ایک باغ کے پاس سکونت اختیار کی۔ دل عشق ومحبت کی حرارت سے گداز اور تصوف سے فطری لگاؤ تھا۔ اس لئے ایک مبتدع فرقہ میں داخل ہو جانے کے باوجود بے نفسی کی اب تک یہ حالت تھی کہ خود حوض
سے گھڑے بھر کر سر پر اٹھالاتے۔ نماز کے وقت راہ گیروں، کسانوں اور دوسرے لوگوں کو جو ادھر آنکلتے جمع کر کے نماز باجماعت ادا کرتے اور جس کسی کو ان کے ساتھ نماز پڑھنے میں تأمل ہوتا اس کی تالیف قلب کے لئے کچھ اپنے پاس سے دے کر اپنے ساتھ نماز پڑھنے کی ترغیب دیتے۔ جب شیک علائی دکن کی طرف جلاوطن کیاگیا۔ چنانچہ آگے چل کر انشاء اللہ بیان کیا جائے گا تو سلطان سلیم شاہ بن شیر شاہ نیازیوں کا فتنہ دفع کرنے کے لئے آگرہ سے پنجاب کی طرف روانہ ہوا۔ جب پیانہ کے بالمقابل بھرسور کی منزل پر پہنچا تو مخدوم الملک مولانا عبداﷲ سلطان پوری نے بادشاہ سے کہا کہ فتنہ صغیر یعنی شیخ علائی سے تو کچھ مدت کے لئے نجات ملی۔ لیکن فتنۂ کبیر یعنی شیخ عبداﷲ نیازی جو شیک علائی کا پیرو اور نیازیوں میں ایک ممتاز سربرآوردہ شخص ہے۔ ہنوز سلطنت کو چشم نمائی کر رہا ہے۔ سلطان، سلیم شاہ نیازیوں کے خون کا پیاسا تھا۔ یہ سن کر اس کی آتش خشم شعلہ زن ہوئی اور حاکم بیانہ کو جو شیخ عبداﷲ نیازی کا مرید تھا حکم دیا کہ وہ شیخ کو حاضر کرے۔ حاکم بیانہ شیخ عبداﷲ کے پاس گیا اور کہنے لگا میری یہ رائے ہے کہ آپ یہاں سے کسی طرف کو چل دیں میں کوئی بہانہ کر دوںگا۔ شاید بادشاہ کو دوبارہ اس طرف آنے کا اتفاق نہ ہو اور آپ کو بھول جائے۔ لیکن میاں عبداﷲ نے اس تجویز کو پسند نہ کیا اور کہا کہ بادشاہ غیور واقع ہوا ہے۔ اگر میں زیادہ دور چلا جاؤں اور وہاں سے میری طلبی ہو تو اور زیادہ پریشانی کا سامنا ہوگا۔ بادشاہ ابھی دس ہی کوس کے فاصلہ پر ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ابھی جاکر ملاقات کر لوں۔ مرضیٔ مولیٰ تو یہاں بھی اور وہاں بھی حال واستقبال میںمساوی ہے۔ غرض شباشب بیانہ سے روانہ ہوئے اور حاکم بیانہ کے ہمراہ علی الصباح بادشاہ کے کوچ کے وقت لشکر سلطانی میں پہنچ گئے۔ اس وقت بادشاہ سوار ہوچکا تھا۔ شیخ عبداﷲ بے باکانہ گردن اٹھائے سامنے جا کھڑے ہوئے اور السلام علیک کہا۔ حاکم بیانہ نے جو شیخ کو بادشاہ کے غضب سے بچانا چاہتا تھا۔ شیخ کی گردن پکڑ کر نیچے کو جھکادی اور کہنے لگا کہ بادشاہوں کو یوں نہیں یوں سلام کرتے ہیں۔ اس پر شیخ عبداﷲ برافروختہ ہو کر کہنے لگے۔ میں تو سلام مسنون کا پابند ہوں۔ اس کے سوا میں کوئی سلام نہیں جانتا۔ لشکریوں نے سلیم شاہ کے ایماء سے شیخ کو پیٹنا شروع کیا۔ جب تک حواس بجا تھے کلام الٰہی کی یہ آیت ورد زبان تھی۔ ’’ربنا اغفرلنا ذنوبنا وثبت اقدامنا وانصرنا علے القوم الکفرین‘‘ سلیم شاہ نے پوچھا کیا کہتا ہے؟ مخدوم الملک نے جواب دیا کہ آپ کو اور مجھے کافر کہتا ہے۔ بادشاہ کو اور زیادہ طیش آیا اور مکرر زدوکوب کا حکم دیا۔ شیخ عبداﷲ کی بہت دیر تک مرمت ہوتی رہی۔ آخر سلیم شاہ لشکر سمیت
روانہ ہوا اور لوگ شیخ عبداﷲ کو اٹھالے گئے۔ شیخ عبداﷲ نے بیانہ کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا۔ اس واقعہ کے تھوڑے ہی دن بعد ہمایوں بادشاہ نے ایران سے مراجعت کی اور خاندان سوری کا چراغ سلطنت گل کر کے ہندوستان کو ازسرنو اپنے حوزہ تصرف میں لایا۔ شیخ عبداﷲ نے بیانہ سے رخصت ہوکر جہاں گردی اختیار کی اور عرصہ تک اطراف واکناف عالم کی سیاحت میں مصروف رہے۔ لیکن انجام کار قائد توفیق الٰہی نے آخر عمر میں مہدویت سے تائب کر کے اہل حق کی صف میں لاکھڑا کیا اور سرہند میں عزلت گزیں ہوکر یاد الٰہی میں مصروف ہوئے۔ اگر شیخ علائی اس وقت تک زندہ ہوتا تو بہت بڑی امید تھی کہ اپنے پیرومرشد کی توبہ وانا بت کے پیش نظر وہ بھی مہدویت سے تائب ہوجاتا۔ لیکن افسوس کہ وہ ایسے وقت میں دنیا سے گذر گیا۔ جب کہ شیخ عبداﷲ ہنوز مہدویت کے گرداب میں غوطے کھا رہے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد جلال الدین اکبر بادشاہ نے شیخ عبداﷲ کو سرہند سے طلب کیا اور تنہائی میں صحبت رکھی۔ بادشاہ نے شیخ عبداﷲ سے ان کے مہدوی ہونے کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے مہدویت سے اظہار برأۃ کی اور کہا کہ شروع شروع میں مجھے یہ فرقہ بہت بھلا معلوم ہوا تھا۔ اس لئے مہدوی طریقہ اختیار کر لیا تھا۔ لیکن کچھ زمانہ کے بعد جب حقیقت حال منکشف ہوئی تو میں بیزار ہوکر علیحدہ ہوگیا۔ بادشاہ نے انہیں اعزاز واکرام کے ساتھ رخصت کیا۔ اس کے بعد ۹۹۳ھ میں جب اکبر بادشاہ عازم اٹک ہوا تو سرہند پہنچ کر شیخ عبداﷲ نیازی کو دوبارہ بلا بھیجا اور کچھ زمین مدد معاش کے طور پر دینی چاہی۔ لیکن انکار کیا۔ اکبر نے زبردستی فرمان معافی لکھ دیا۔ مجبورً فرمان لے لیا لیکن ہمت بلند تھی زمین پر قبضہ کر کے اس سے خود ہرگز متمتع نہ ہوئے اور ساری عمر توکل وقناعت میں گزار دی۔ آخر ۱۰۰۰ھ میں عمر کی نوے منزلیں طے کر کے موت سے ہم آغوش ہوگئے۔
شیخ علائی مہدوی
شیخ علائی کے والد شیخ حسن جو حضرت خواجہ سلیم چشتیؒ کے خلیفہ تھے۔ سلطان سلیم شاہ بن شیر شاہ افغان سوری کے عہد سلطنت میں بیانہ کے اندر سجادۂ مشیخت وارشاد پر متمکن تھے۔ جب ان کا وصال ہوا تو ان کا فرزند شیخ علائی جو علمی وعملی فضائل سے متصف تھا۔ عالم شباب میں باپ کی جگہ مسند ارشاد پر بیٹھا۔ لیکن سوء اتفاق سے انہی ایام میں میاں عبداﷲ نیازی نے مذہب مہدویہ اختیار کرنے کے بعد قصبہ بیانہ میں بودوباش اختیار کر لی۔ ایک دن باغ جوانی کے اس نونہال کا بھی اس باغ کی طرف گذر ہوا۔ جس کے پاس میاں عبداﷲ سکونت پذیر تھے۔ وہاں شیخ عبداﷲ نیازی سے
ملاقات ہوگئی۔ ان کا طور وطریقہ دیکھا تو ترک دنیا کا وہی سماں نظر آیا۔ پہلی ہی نظر میں گھائل ہوکر ان سے بیعت کرلی اور جو کچھ گھر میں تھا سب لٹا دیا۔ اس کے بعد اپنے مریدوں سے کہا کہ میں نے اپنی قسمت حضرت محمد جونپوری مہدی موعود کے دامن سے وابستہ کر لی ہے اور دین وایمان جس چیز کا نام ہے وہ حقیقت میں طریقہ مہدویہ کی پیروی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ خیال کچھ اس سحرزدۂ مہدویت کے ساتھ مخصوص نہیں تھا۔ بلکہ علائی کی طرح ہر باطل پرست دروغ باف اپنے محدث طریقہ کو برسرحق بتاتا ہے۔
مرزائیوں کو دیکھو انہیں اپنی حقانیت اور صداقت کا کس درجہ یقین ہے؟ لیکن ان گم کردگان راہ کومعلوم ہو کہ ہر وہ راستہ جو صحابہ کرامؓ اور سلف صالح کے طریق قویم سے بال بھربھی ہٹا ہوا ہے وہ سیدھا جہنم کو جاتا اور غضب خداوندی کا مستوجب ہے۔ غرض علائی اپنی مسند مشیخت کو نذر آتش کر کے عبداﷲ نیازی کے پاس جارہا اور جاتے وقت اسباب دنیوی جو کچھ تھا یہاں تک کہ کتابیں بھی محتاجوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیں اور بیوی سے کہا کہ اگر فقروفاقہ منظور ہو تو بسم اللہ میری مشایعت کرو۔ ورنہ اپنا حصہ اس مال سے لے لو اور جہاں چاہو جارہو۔ مگر بیوی نے علیحدگی پر غربت ومسکنت کی نعمت گرامی کو ترجیح دی اور شوہر کے ایما سے تمام زر وزیور اہل حاجات میں بانٹ کر اپنا دامن توکل آلائش دنیا سے پاک کر لیا۔ اس کے مریدوں کی ایک بڑی تعداد بھی ساتھ ہولی اور سب کے سب زاویۂ غربت وانفراد میں پڑے۔ بزعم خود تزکیہ نفس میں مصروف ہوئے تو کل وتفویض پر سب کا قدم ہمت استوار تھا اور زخارف دنیا کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا کفر سے بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ شیخ علائی ہرروز نماز صبح کے بعد تفسیر قرآن کے درس وافادہ میں مصروف ہوتا۔ فرشتہ لکھتا ہے کہ طرز بیان ایسا مؤثر ودل نشین تھاکہ جو کوئی ایک دفعہ سن لیتا قطعاً اہل وعیال کو ترک کر کے دائرہ مہدویت میں داخل ہوجاتا۔ بہ شادیٔ، ہست سے دلشاد، نہ غم نیست سے دل فگار کنج عزلت میں آسودہ دل اور بافراغ بیٹھتا۔ اگر زیادہ توفیق نہ ہوتی تو مناہی ومعاصی سے تائب ہوکر سید جونپوری کے قرب روحانی کا معترف اور گرویدہ ہوجاتا۔ باپ نے بیٹے سے بھائی نے بھائی سے اور بیوی نے شوہر سے مفارقت اختیار کر کے فقروقناعت کا شیوہ اختیار کیا۔ علائی کے متوسلین میں سے کسی کو حرفۂ تجارت یا ملازمت سے سروکار نہ تھا۔ اس کے پاس جو کچھ نذر وفتوح آتی اس میں سب خورد وکلاں برابر کے شریک وسہیم تھے اور اگر کوئی کسب معاش بھی کرتا تو اس میں سے کم از کم دسواں حصہ راہ خدا میں صرف کرتا۔ یہ لوگ ایسے متوکل تھے کہ اگر بھوک کے مارے انزہاق
روح تک نوبت پہنچتی تو فاقے کرتے۔ مگر اس کا اظہار نہ کرتے تھے۔ باایں ہمہ فقر وفاقہ سے ہمیشہ مسلح رہتے۔ بازاروں میں امر معروف ونہی منکر کی غرض سے گشت لگاتے۔ شہر کے گلی کوچوں میں یا جہاں کہیں کوئی نامشروع بات دیکھتے پہلے نرمی سے سمجھاتے۔ اگر رفق ومدار مفید نہ ثابت ہوتا تو جبروتشدد کر کے منکرات سے باز رکھتے۔ حکام وروسائے شہر میں جو لوگ ان کے موافق تھے وہ تو ان کی ہر طرح معاونت کرتے۔ لیکن مخالفین جو ان کو اس تشدد آمیز طریق عمل سے روکنے اور مقابلہ کرنے کی طاقت نہ رکھتے وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے۔ اس طرح اندر ہی اندر مخالفت کی آگ سلگتی رہی۔ جب میاں عبداﷲ نیازی نے دیکھا کہ اس کے پیروؤں کا تشدد بہت بڑھ گیا اور عنقریب فساد برپا ہوا چاہتا ہے تو شیخ علائی سے کہا کہ ہجوم خلائق سے میرے اوقات میں خلل واقع ہوتا ہے اور حق گوئی اس زمانہ میں حنظل سے بھی زیادہ تلخ ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ یا تو خاموش رہ کر کنج عزلت اختیار کرو یا سفر حج کی تیاری کرو۔ شیخ علائی زیارت بیت اللہ کے لئے روانہ ہوا۔ ستر گھرانے بھی اس بے سروسامانی کے عالم میں ساتھ ہولئے۔ جب یہ قافلہ خواص پور میں جو جودھ پور کے حدود میں واقع ہے۔ پہنچا تو خواص خاں خیر مقدم کے لئے آیا اور مہدی مذہب قبول کیا۔ لیکن جب چند روز کے بعد مذہب مہدویت کی برائی اس پر روشن ہوگئی تو تائب ہوگیا۔ شیخ علائی نے اس کی برگشتگی کا لحاظ کر کے یہ حلہ تراشا کہ خواص خاں امر معروف ونہی منکر میں میری موافقت واطاعت نہیں کرتا۔ غرض اس سے بگاڑ پیدا کر کے خواص پور سے رخصت ہوا اور سفر حجاز کی عزیمت فسخ کر کے بیانہ کو لوٹ آیا۔
سلیم شاہ سوری بادشاہ دہلی انہی دنوں آگرہ میں اورنگ سلطنت پر بیٹھا تھا۔ مخدوم الملک مولانا عبداﷲ سلطان پوری نے سید رفیع الدین محدث میاں ابوالفتح تھانیسری اور بعض دوسرے علماء کو جمع کر کے بادشاہ سے شیخ علائی کی فتنۂ انگریزیوں کا شکوہ کیا۔ بادشاہ نے شیخ علائی کو آگرہ میں طلب کیا۔ شیخ علائی اپنے مریدوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ جو ہر وقت ہتھیار لگائے رہتے تھے۔ بیانہ سے روانہ ہوکر حاضر دربار ہوا اور بادشاہوں کے رسوم وآداب کو بالائے طاق رکھ کر سنت نبوی کے مطابق تمام حاضرین مجلس کو السلام علیکم کہا۔ سلیم شاہ نے بڑی نفرت واستکراہ کے ساتھ وعلیک السلام جواب دیا۔ شیخ کی یہ جسارت مقربان درگاہ پر سخت شاق گذری۔ اعیان دولت نے سلیم شاہ کے پہلے ہی کان بھر رکھے تھے کہ حضرت مہدی علیہ السلام روئے زمین کی بادشاہت کریںگے اور یہ مبتدع خود بھی مہدویت کا مدعی ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ اس شخص
کی نیت بھی خروج وبغاوت کی ہو۔ عیسیٰ خاں نے جو بادشاہ کے منہ لگا ہوا تھا۔ شیخ علائی کی شکستہ حالی رنگیں کپڑوں اور پھٹی جوتی دیکھ کر پھبتی اڑائی کہ یہ حالت وہیئت اور بادشاہی کی امنگیں؟ اور بادشاہ کو خطاب کر کے کہنے لگا کہ ہم افغان دنیا سے نابود ہوگئے ہیں کہ ایسے ایسے گدا بھی بادشاہی کی ہوس کریں۔ شیخ علائی کے دل پر درباریوں کے طعن وتعریض اور بادشاہ کی برافروختگی کا کوئی اثر نہ ہوا اور مجلس بحث منعقد ہونے سے پہلے بموجب عادت معہود کلام الٰہی کی چند آیتیں پڑھ کر ایک نہایت برجستہ اور فصیح وبلیغ تقریر شروع کر دی۔ جس میں دنیا کی بے ثباتی، احوال حشر ونشر کی تصویر ایسے رنگ میں کھینچی کہ دل پانی ہوگئے۔ سلیم شاہ اور مقربان درگاہ جن کے جذبات سخت مشتعل ہورہے تھے۔ بجائے قہر وغضب کی بجلیاں گرانے کے زاروقطار رونے لگے۔ آخر بادشاہ اٹھ کر محل سرائے میں چلا گیا اور وہاں سے شیخ علائی اور اس کے رفقاء کے لئے خود اپنے سامنے کھانا بھجوایا۔ مگر نہ تو شیخ نے کھانا تناول کیا اور نہ بادشاہ کی آمد پر تعظیم بجالایا۔ اپنے ساتھیوں سے صرف اتنا کہا کہ جس کا جی مانے وہ کھائے۔ جب بادشاہ کا یکساں حق ہے اور تو حکم شرع کے خلاف اپنے حق سے زیادہ پر متصرف ہورہا ہے۔ اس لئے تیرے ہاں کا کھانا حرام وناجائز ہے۔ سلیم شاہ کو غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کیا اور تحقیق مبحث علماء کے سپرد کر دی۔
بعد ازاں وہ علماء جو اپنے تبحر علمی کے نقارے بجایا کرتے تھے۔ شیخ علائی سے مسئلہ مہدویت میں الجھنے لگے۔ میر سید رفیع الدین صفوی نے وہ احادیث بیان کیں۔ جن میں حضرت مہدی علیہ السلام کے علائم وخصوصیات مذکور ہیں۔ شیخ نے جواب دیا کہ تم شافعی المذہب ہو اور ہم حنفی ہیں۔ ہمارے تمہارے اصول میں بڑا فرق ہے۔ اس لئے تمہاری توجیہ وتاویل ہمارے لئے سند نہیں ہوسکتی۔ سید صفوی سے کچھ جواب نہ بن پڑا۔ لیکن سید صاحب کو اس کا یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ ظہور مہدی علیہ السلام کا عقیدہ ان فروعی مسائل میں سے نہیں جن میں حنفی وشافعی مختلف ہیں۔ بلکہ یہ عقیدہ اجماعی اور مسلم الثبوت ہے اور تم حنفیت کی آڑ میں کیونکر پناہ لے سکتے ہو۔ جب کہ تم نے حنفی عقائد سے منہ موڑ کر ایک مبتدع مذہب کی پیروی اختیار کر رکھی ہے۔ مولانا عبداﷲ سلطانپوری المخاطب بہ مخدوم الملک نے جو بادشاہ کے مقربوں میں سے تھے۔ علائی کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ لکھا۔ یہ دیکھ کر علائی دشنام دہی پر اتر آیا اور مخدوم الملک طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ تو سگ دنیا اور خود فاسق وفاجر ہے اور عہدۂ قضا کے کسی طریق لائق نہیں۔ تیری کیا بساط ہے کہ مجھے واجب القتل ٹھہرائے۔ تیرے گھر سے تو علی الاعلان سازوسرود کی آواز سنائی دیتی ہے
اور حدیث صحیح میں آیا ہے کہ نجاست پر بیٹھنے والی مکھی اس عالم سے بدرجہا بہتر ہے۔ جس کا پیشہ سلاطین وامراء کی خوشامد وچاپلوسی ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگر احکام شریعت اور حدود اللہ کے اجراء میں سلاطین اسلام سے تعاون کرنا تملق وچاپلوسی ہے تو ہر شیدائی حق کو اس کا مرتکب ہونا چاہئے۔ عبدالقادر بدایونی نے لکھا ہے کہ آگرہ کا ملا جلال بھی اس مجلس میں موجود تھا۔ بساط جرأت پر قدم رکھ کر وہ حدیث بیان کرنے لگا۔ جس میں جناب مہدی آخر الزمان کا حلیہ مذکور ہے اور اس میں لفظ اجلیٰ الجبہۃ کی بجائے اجل الجبہۃ (بفتح جیم وتشدید لام) جو لفظ جلال سے مشتق اور جلیل کی تفضیل ہے پڑھا۔ شیخ علائی نے مسکراتے ہوئے کہا تو عوام الناس میں اپنے آپ کو بڑا فاضل مشہور کرتا ہے۔ حالانکہ عربی کا ایک فقرہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا۔ تو حدیث کے نکات اور اشارات کو کیا خاک سمجھے گا۔ یہ لفظ اجلی الجبہۃ جلا کی تفضیل ہے۔ نہ کہ تیرے نام جلال کی۔ بیچارہ ملا جلال ایسا خفیف ہوا کہ پھر لب کشائی کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر بدایونی کا یہ بیان کسی طرح قرین قیاس نہیں ہے۔ کیونکہ علم حدیث کا مبتدی بھی جانتا ہے کہ حدیث میں حضرت مہدی علیہ السلام کو اجلی الجبہۃ (روشن پیشانی والا) کہا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ملا جلال جو علائے دربار میں داخل تھے اتنے جاہل نہیں ہوسکتے تھے کہ وہ ایک ایسی معمولی چیز سے بھی بے خبر ہوتے۔ جس کو عربی کے ادنیٰ طالب العلم بھی جانتے ہیں۔ سلیم شاہ سخت ضغطہ میں تھا کہ شیخ علائی کی نسبت کیا حکم صادر کرے؟ آخر شیخ کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر تم جونپوری کو مہدی موعود ماننے سے باز آجاؤ اور آہستہ سے میرے کان میں اس عقیدہ سے اظہار برأت کردو تو اپنی قلمرو میں تمہیں محتسب مقرر کر دیتا ہوں۔ اب تک میری اجازت کے بغیر امر معروف ونہی منکر کرتے رہے۔ اب میرے حکم سے کرتے رہو۔ ورنہ علماء تمہارے قتل وصلب کا فتویٰ دے ہی چکے ہیں۔ گو میں نہیں چاہتا کہ تمہارا خون گراؤں۔ علائی نے جواب دیا کہ تمہارے کہنے سے میں اس عقیدہ کو نہیں بدل سکتا۔ شیخ چند روز آگرہ میں رہا۔ جاسوس سلیم شاہ کو پل پل کی خبریں پہنچا رہے تھے کہ آج فلاں افغان سردار نے مذہب مہدویہ قبول کیا اور آج فلاں امیر نے شیخ کا مرید ہوکر ترک علائق کیا اور آج شیخ کے حلقۂ ارادت کو اس قدر وسعت ہوئی۔ سلیم شاہ مخدوم الملک کے فتویٰ کے باوجود حکم قتل میں مبادرت نہ کرتا تھا۔ آخر بصد مشکل قصبہ ہندویہ کی طرف جو سرحد دکن پر واقع تھا۔ جلاوطنی کا حکم دیا۔ شیخ یہ حکم سن کر بہت خوش ہوا۔ کیونکہ اسے کئی سال سے دکن کی سیر اور ان بلاد کے مہدویہ کی ملاقات کا شوق دامنگیر تھا۔ ہندویہ میں پہلے ہی مہدوی بدمذہبی کی گرم بازاری تھی۔ جب شیخ علائی یہاں پہنچا تو یہاں کا حاکم جس کا
نام بہار خان اور لقب اعظم ہمایوں شروانی تھا۔ اس کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوا اور اس کا تعصب سے زیادہ لشکربھی مہدوی ہوگیا۔ بادشاہ کو جب ان حالات کی اطلاع ہوئی تو بڑا تلملایا۔ مخدوم الملک نے بادشاہ کو یہ صلاح دی کہ علائی کو ہندویہ سے طلب کر کے اس پر شرعی حد لگائی جائے۔ چنانچہ شیخ کو سرحد سے واپس بلالیا گیا۔ اس مرتبہ سلیم شاہ نے علماء کو پھر جمع کر کے اس قضیہ کے متعلق انتہائی تحقیق وتفتیش کا حکم دیا۔ مخدوم الملک نے سلیم شاہ سے کہا کہ یہ شخص خود بھی مہدویت کا مدعی اور حضرت مہدی آخر الزمان روئے زمین کے فرمانروا ہوںگے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور کے لشکریوں کا اس شخص سے اس درجہ شیفتگی ہے۔ حتیٰ کہ حضور کے بہت سے اعزاء واقارب بھی درپردہ اس کے مذہب میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس لئے قوی احتمال ہے کہ اس کی ذات سے نظام سلطنت میں فتور واقع ہو۔
بادشاہ کا خیال تھا کہ مخدوم الملک علائی سے بغض وعناد رکھتا ہے اور ہر طرح سے کوشاں ہے کہ کسی طرح اس کی تخریب وبیخ کنی میں کامیاب ہو۔ اس لئے چاہتا تھا کہ کسی دوسرے عالم بے غرض سے اس قضیہ کا فیصلہ کرائے۔ ان ایام میں دہلی اور آگرہ کے اندر اس پایہ کا کوئی جامع عالم نہیں تھا۔ جس کی طرف رجوع کیا جاسکتا۔ اس لئے بادشاہ نے مخدوم الملک کے فتوائے قتل کو نظر انداز کر کے ۹۵۵ھ میں حکم دیا کہ شیخ علائی کو علامہ بڈھ طبیب کے پاس بہار لے جائیں تاکہ ان کے فتوے کے بموجب عمل کیا جائے۔ ان دنوں علامہ شیخ بڈھ کے علم وفضل کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ شیخ بڈھ صاحب تصنیف تھے۔ قاضی شہاب الدین جونپوری کی کتاب الارشاد پر ایک اچھی شرح لکھی تھی۔ شیرشاہ سوری ان کا ایسا معتقد تھا کہ ان کے پاؤں کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سیدھی کیا کرتا تھا۔ بدایونی لکھتے ہیں کہ جب شیخ علائی بہار پہنچا تو اتفاقاً شیخ بڈھ کے ہاں کوئی خوشی کی تقریب تھی۔ گانے بجانے کی آواز گھر سے آرہی تھی اور ایسے رسوم ادا ہو رہے تھے جو شرعاً ممنوع ہیں اور مسلمانوں نے ہندوؤں کے اثر صحبت سے سیکھے ہیں۔ علائی نے جوش غضب میں آکر شیخ بڈھ کو ملامت شروع کر دی۔ شیخ اس وقت اس قدر معمر اور کہن سال تھے کہ یارائے گفتار بھی نہ تھا۔ علامہ کے بیٹوں نے جواب دیا کہ ملک میں ایسے عادات ورسوم رائج ہیں کہ اگر ان سے روکا جائے تو ناقص العقل عورتیں خیال کرتی ہیں کہ جان یا مال یا بدن میں ضرور کوئی آفت آئے گی اور اگر سوء اتفاق سے کوئی خرابی ظہور پذیر ہو جائے تو کہنے لگتی ہیں کہ سارا وبال فلاں رسم کے ادا نہ کرنے کا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ ایسے عقیدہ پر کافر ہو جاتی ہیں اور کافر ہونے سے ان کا فاسق رہنا غنیمت
ہے۔ شیخ علائی نے جواب دیا کہ عذر گناہ بدتر از گناہ اسی کو کہتے ہیں۔ جب شروع ہی سے یہ اعتقاد ہے کہ گناہ نہ کرنے سے وبال آتا ہے اور سنت نبوی کی پیروی موجب ہلاکت ہے تو ایسا اعتقاد رکھنے والی عورتیں شروع ہی سے کافر ہیں تو پھر ان کے اسلام کا لحاظ کیا ضرور ہے۔ بلکہ ان کی صحت نکاح میں کلام ہے۔ چہ جائیکہ ان کے اسلام کا غم کھایا جائے اور جب ایسے مرجع انام اور فاضل دہر کا یہ حال ہو تو عوام کا تو بس خدا ہی حافظ ہے۔ شیخ بڈھ خوف خدا کا درد دل میں رکھتے تھے۔ استغفار کر کے اشکبار ہوگئے اور شیخ علائی کی تحسین وآفرین کر کے اعزاز واکرام سے پیش آئے۔ حسب بیان عبدالقادر بدایونی شیخ بڈھ نے اب سلیم شاہ کے نام خط لکھا کہ مسئلہ مہدویت ایمان کا موقوف علیہ نہیں ہے اور تعیین علامات مہدی علیہ السلام میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس بناء پر شیخ علائی کے کفر وفسق کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ بہتر یہ ہے کہ شیخ علائی کے شبہات دور کئے جائیں ۔ وہاں علماء کے کتب خانوں میں حدیث کی کتابیں بکثرت ملیں گی۔ احادیث مہدی علیہ السلام نکال کر ان کے ذہن نشین کی جائیں۔ یہاں کتابیں کمیاب ہیں۔ ورنہ میں شیخ پر اس کی غلطی اور کج روی واضح کر دیتا۔ شیخ بڈھ کے لڑکوں نے باپ کو سمجھایا کہ مخدوم الملک صدر الصدرور ہیں۔ ان کے خلاف رائے دینا کسی طرح مناسب نہیں۔ ایسی حالت میں اگر انہوں نے بادشاہ سے کہہ کر آپ کو اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے آگرہ طلب کرایا تو اس پیرانہ سالی میں ناحق سفر کی زحمت اٹھاؤ گے۔ یہ بات بڈھ کے دل پر اثر کر گئی۔ چنانچہ پہلی چٹھی چاک کر کے دوسرا مراسلہ اس مضمون کا لکھ بھیجا کہ مخدوم الملک طبقۂ علماء میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں اور انتہاء درجہ کے محقق ہیں۔ اس لئے ان کا قول اور فتویٰ قابل اعتماد ہے۔
لیکن بدایونی نے منتخب التواریخ کے مختلف مقامات پر مہدویہ کی تعریف میں جس مبالغہ اور رنگ آمیزی سے کام لیا ہے۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ انہوں نے مہدوی گم کردگان راہ کی زبان سے جو کچھ رطب دیا بس سنا اسی کو وحی منطوق سمجھ کر بلا تحقیق اپنی تاریخ میں درج کر لیا۔ خود عبدالقادر کو تسلیم ہے کہ شیخ بڈھ اس وقت اعلم علمائے ہند تھے اور ان کی علمی عظمت اور عملی تقدس کے نقش دلوں پر اس درجہ مرقسم تھے کہ شہنشاہ ہند سلطان شیر شاہ سوری ان کی جوتیاں اٹھا کر ان کے سامنے رکھنے میں اپنا فخر سمجھتا تھا۔ ظاہر ہے کہ اتنا بڑا علامہ دہر ایسی لغو اور تمسخر انگیز بات زبان قلم پر کیونکر لاسکتا تھا کہ تعیین علامات مہدی علیہ السلام میں اختلاف ہے۔ اس سے قطع نظر اتنے بڑے عالم حق اور وارث علوم نبوت سے یہ بھی بعید تھا کہ وہ آگرہ تک کا سفر اپنے دوش ہمت پر قبول نہ
کرے۔ لیکن کسی عالم حق کے بے گناہ ہلاک وبرباد ہو جانے کو چپ چاپ گوارا کرے۔ الغرض شیخ بڈھ کی دو چٹھیوں کا افسانہ محض لغو اور حامیان شریعت کے دشمنوں کا دماغی اختراع ہے۔ خواجہ نظام الدین احمد مؤرخ نے تاریخ طبقات اکبری میں پہلی چٹھی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ملاحظہ ہو لکھتے ہیں: ’’سلیم خان گوش بسخن مخدوم الملک نکردہ باز شیخ علائی رادربہار پیش شیخ بڈھ طبیب دانشمند کہ شیر خاں متعقداد بود وکفش پیش پائے اومی نہاد فرستاد تابموجب فتویٰ او عمل نماید وسلیم خاں بجانب پنجاب توجہ نمودہ بتعمیر قلعہ مانکوٹ مشغول شد۔ چون شیخ علائی بہ بہار رفت شیخ بڈھ موافق فتویٰ مخدوم الملک نوشتہ بقا صدان سلیم خان داد۔‘‘
(طبقات اکبری مطبوعہ کلکتہ ج۲ ص۱۱۷،۱۱۱۸)
اور لطف یہ ہے کہ ایک نام نہاد عالم نے جو الحاد ونیچریت کی طرف مائل ہے۔ بدایونی بیانات کی بنائے فاسد پر دشنام دہی کی بڑی بڑی بلند عمارتیں کھڑی کر لی ہیں اور ملاحدۂ مہدویہ کی تائید میں حامیان شریعت مصطفوی (علیٰ صاحبہا التحیہ والسلام) کو معاذ اللہ علمائے سوء قرار دے کر ایسی شرمناک گالیاں دی ہیں کہ جن کو پڑھ کر ایک غیور مؤمن جسے ماجاء بہ النبیﷺ سے کچھ بھی محبت ہے۔ سخت روحی صدمہ محسوس کرتا ہے اور پھر دیانت داری اور حق پسندی کا کمال دیکھو کہ اس نے نیازی اور علائی کی تعریف میں توزمین آسمان کے قلابے ملائے۔ لیکن مقدم الذکر کی انابت اور رجوع الیٰ الحق کا کہیں بھول کر بھی ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ خود بدایونی نے نیازی کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ: ’’عاقبت بہ سرہند آمدہ ازراہ وروش مہدویہ ابا آوردہ وسائر مہدویہ را ازاں اعتقاد باز داشتہ بروش متشر عان عامہ واہل اسلام سلوک می ورزید۔‘‘
(منتخب التواریخ بدایونی ص۱۱۰، طبع۱۸۶۶ء)
ان دنوں سلطان سلیم شاہ پنجاب آیا ہوا تھا۔ جب شیخ بڈھ کا سربمہر خط بادشاہ کو ملا تو پڑھ کر شیخ علائی کو اپنے پاس بلایا اور نزدیک کر کے آہستہ سے کہا کہ تم تنہا میرے کان میں کہہ دو کہ میں اس عقیدہ سے تائب ہوتا ہوں۔ بس اتنا کہہ کر مطلق العنان اور فارغ البال ہو جاؤَ علائی نے کچھ التفات نہ کیا۔ بادشاہ نے مایوس ہوکر مخدوم الملک سے کہا اچھا تم جانو۔ اس اثناء میں شیخ علائی پر مرض طاعون کا حملہ ہوا۔ جو ملک میں پھیل رہا تھا اور اس کی وجہ سے حلق میں زخم ہوگیا تھا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ میری موجودگی میں تازیانے لگاؤ۔ جلاد نے تیسری ہی ضرب لگائی تھی کہ روح نے تن سے مفارقت کی۔
مہدوی خرافات وکفریات
تیرھویں صدی ہجری کے اواخر میں حیدرآباد دکن کے مہدویہ نے اہل اسلام کی مذمت
میں ایک کتاب شائع کی تھی۔ علمائے امت نے اس کتاب کو ناقابل التفات سمجھ کر اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ مہدویوں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ علمائے اہل سنت نے ہماری کتاب کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ جب ان کی زبان درازیاں حد اعتدال سے متجاوز ہوئیں تو مولانا محمد زمان خان شاہجہان پوری نے جو مولانا عبدالحئی مرحوم لکھنوی کے شاگرد اور اعلیٰ حضرت شاہ دکن کے استاد تھے۔ ۱۲۸۵ھ میں ان کی غرور شکنی اور احقاق حق کا عزم فرما کر ایک کتاب بنام ’’ہدیہ مہدویہ‘‘ تصنیف کی جس میں مہدوی اقوال کو خود انہی کے مسلمات سے مسترد کر کے ان کے مذہب کا بطلان واضح فرمایا۔ یہ ایسی بلند پایہ تصنیف تھی کہ اس نے مہدوی حلقوں میں ہلچل ڈال دی۔ چونکہ مہدویہ کے پاس ہدیہ مہدویہ کی تحریروںکا کوئی علمی جواب نہ تھا۔ انہوں نے زبان قلم کے بجائے زبان تیغ سے اس کا جواب دینا چاہا۔ چنانچہ مہدوی پیشوایان مذہب نے اپنے پیروؤں میں اعلان کیا کہ جو کوئی (مولوی) زمان خاں (صاحب) کو جام مرگ پلائے گا ہم اسے جنت میں مروارید کے دو عالیشان محل اور خرما کے چار سو درخت دیںگے۔ اس ابلہ فریبی پر ایک مہدوی نوجوان مولانا ممدوح کی جان کے در پے ہوا۔ چنانچہ بتاریخ ۶؍ذی الحجہ ۱۲۹۲ھ مولانا زمان خان حسب معمول دوخدمت گاروں کے ساتھ مسجد میں تشریف لے گئے اور بعد نماز مغرب دوزانو بیٹھ کر تلاوت قرآن میں مصروف ہوئے۔ اس وقت مہدوی نوجوان ستون مسجد کی آڑ میں موقع کا منتظر کھڑا تھا۔ جب ایک خدمت گار کسی کام کے لئے مسجد سے باہر گیا تو مہدی نابکار نے بڑھ کر زور سے ایک کٹار مولانا ممدوح کے مونڈھے پر مارا۔ پھر ایک کٹار سر پر اور دو شاہ رگ پر مارے۔ مولانا نے کلام اللہ پر سر رکھ کر شربت شہادت نوش فرمایا۔ یہ فرقہ حیدرآباد دکن ریاست ٹونک، جے پور وغیرہ مقامات میں سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں پایا جاتا ہے اور مرزائیوں کی طرح بڑا مفسد گروہ ہے۔ اس نے گذشتہ زمانہ میں جو جو فساد انگریزیاں کی ہیں۔ اس کی تفصیل کتاب ہدیہ مہدویہ میں موجود ہے۔ اس گمراہ فرقہ کے چند عقائد وخیالات ہدیہ مہدویہ سے ذیل میں نقل کئے جاتے ہیں۔
مہدویہ کہتے ہیں کہ:
۱… سید محمد جونپوری کی مہدویت کی تصدیق فرض ہے اس کا انکار کفر ہے اور ۹۰۵ھ سے جب کہ جونپوری صاحب نے دعوائے مہدویت کیا آج تک جس قدر اہل اسلام دنیا میں گذرے یا قیامت تک پیدا ہوں۔ بہ سبب اس انکار کے کافر مطلق ہیں۔
۲… گوسید محمد جونپوری امت محمدی میں داخل ہیں۔ لیکن خلفائے راشدین اور تمام دوسرے صحابہ سے افضل ہیں۔
۳… سید جونپوری حضرت محمدﷺ کو چھوڑ کر باقی تمام انبیاء ومرسلین حضرت ابراہیم خلیل، حضرت موسیٰ کلیم، حضرت عیسیٰ روح اللہ وغیرہم (علیہ السلام) سے افضل ہیں۔
۴… گوسید محمد جونپوری محمدﷺ کے تابع تام ہیں۔ لیکن رتبہ میں حضرت خاتم المرسلینﷺ کے برابر ہیں۔ دونوں میں سرمو بھی کمی بیشی نہیں ہے۔
۵… احادیث رسول اللہ گو کیسی ہی روایات صحیحہ سے مروی ہوں۔ لیکن وہ اس وقت تک صحیح اور قابل اعتماد نہیں جب تک سید جونپوری کے اقوال، احوال اور الہامات کے مطابق نہ ہوں۔
۶… سید محمد جونپوری اور محمدﷺ پورے مسلمان ہیں۔ ان کے سوا دوسرے لوگ حضرت آدم، ابراہیم، نوح، موسیٰ عیسیٰ (علیہم السلام) ناقص الاسلام تھے۔ کوئی پیغمبر نیم مسلم تھا کوئی ثلث مسلمان کوئی ربع مسلمان۔ چنانچہ کتاب پنج فضائل میں شاہ دلاور نے اپنے مہدی سے روایت کی کہ آدم علیہ السلام ناک کے نیچے سے بالائے سرتک مسلمان تھے۔ نوح علیہ السلام زیر حلق سے بالائے سرتک مسلمان تھے۔ ابراہیم وموسیٰ زیر سینہ سے سرتک مسلمان تھے اور عیسیٰ علیہ السلام زیرناف سے بالائے سر تک مسلمان تھے۔ البتہ عیسیٰ علیہ السلام جب دوسری مرتبہ دنیا میں آئیںگے تو پورے مسلمان ہو جائیںگے اور مہدوی کتاب انصاف نامہ کے بارھویں باب میں لکھا ہے کہ میاں خوند میر نے سید محمد جونپوری سے کہا کہ تمام دنیا میں دو مسلمان معلوم ہوتے ہیں۔ ایک محمد رسول اﷲﷺ اور دوسرے آپ میراں محمد جونپوری نے جواب دیا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ بعض انبیاء کا سر مسلمان ہوا تھا۔ بعض کا داہنا پہلو۔ کسی کے دونوں پہلو۔ مگر دونوں ازسر تاپا مسلمان ہوئے ہیں۔
۷… تصحیح مہدی علیہ السلام کا اعتقاد رکھنا فرض ہے۔ تصحیح کے یہ معنی ہیں کہ انبیاء، رسل، اولیاء اور تمام مؤمنین ومومنات کی روحیں آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک سید جونپوری کے حضور میں پیش کی جاتی ہیں اور وہ ان کا داخلہ اور موجودات دیکھتے ہیں۔ حق تعالیٰ ان ارواح کو حکم دیتا ہے کہ تم نے جس خزانہ سے نور لیا تھا۔ پھر اس محل سے مقابلہ کر کے تصحیح کرو پس جو شخص یہاں مقبول ہوا وہ خدا کے ہاں بھی مقبول ہے اور جو یہاں مردود ہوا وہ عند اللہ بھی مردود ہے
اور کتاب پنچ فضائل میں لکھا ہے کہ سید محمد جونپوری نے اپنے داماد خوند میر سے فرمایا کہ جس طرح بندہ کے پاس ارواح کی تصحیح ہوتی ہے میاں خوندمیر کے پاس بھی ہوا کرے گی۔
۸… سید محمد جونپوری رسول صاحب شریعت ہیں۔ ان کی شریعت شرع محمدی کے بعض احکام کی ناسخ ہے۔
۹… سید جونپوری منصب نبوت ورسالت کے علاوہ بعض صفات الوہیت میں حق تعالیٰ کے شریک ہیں۔ چنانچہ کتاب شواہد الولایت کے اکتیسویں باب میں لکھا ہے کہ مہدی جونپوری نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے اس بندے کو جملہ موجودات کے احوال اس طرح معلوم کرادئیے ہیں کہ جس طرح کوئی شخص رائی کا دانہ ہاتھ میں رکھتا ہو اور اسے ہر طرف پھرا کر کماحقہ، پہچانے اور واقف ہو اور مہدی علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے جملہ موجودات کے احوال اس طرح معلوم ہیں جس طرح صراف سونے چاندی کو ہاتھ میں لے کر ہر طرف پھراتا ہے اور کما حقۂ پہچانتا ہے اور پنج فضائل میں لکھا ہے کہ سید جونپوری نے اپنے خلیفہ میاں دلاور کے حق میں فرمایا کہ میاں دلاور پر عرش سے تحت الثری تک ہر چیز اس طرح روشن ہے جس طرح ہاتھ میں رائی کا دانہ ہو۔
۱۰… عالم کائنات میں بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا خالق خدا نہیں۔ کائنات میں بعض چیزیں من کل الوجوہ غیر مخلوق ہیں۔ بعض من وجہ مخلوق اور من وجہ غیر مخلوق ہیں۔ چنانچہ سید قاسم مہدوی نے لکھا کہ: ’’جوہر اوّل وروح حقیقی وولایت محمدی وجملہ کتب وصحائف ایں ہمہ غیر مخلوق اندومن دون ہذا کل اشیاء بری وبحری علوی وسفلی مخلوق اند اختی خاتمین۔‘‘ (یعنی خاتم الرسالۃ محمد رسول اﷲﷺ وخاتم الولایۃ مہدی جونپوری) ’’فی المعنی غیر مخلوق وفی الصور مخلوق اند پس اہل تمیز ہمہ علمائے اہل شریعت ولایت را مخلوق گویند وہمہ اولیائے اہل حقیقت قدیم وغیر مخلوق گفتہ اند۔‘‘ مہدویہ کا یہ عقیدہ آریوں کے خیال سے ملتا ہے جو روح اور مادہ کو خالق کردگار کی مخلوق نہیں سمجھتے۔ بلکہ ایزدمتعال کی طرح قدیم خیال کرتے ہیں۔
۱۱… مہدی جونپوری کے اصحاب کا درجہ محمد رسول اﷲﷺ کے برابر ہے۔ چنانچہ کتاب شواہد الولایت کے اکتیسویں باب کی سینتیسویں خصوصیت میں لکھا ہے کہ جناب رسالت مآب نے مہدی کے اصحاب کا مرتبہ اپنے مرتبے کے برابر فرمایا ہے اور پنچ فضائل میں لکھا ہے کہ ایک روز میاں عبدالرحمن نے یہ حدیث پڑھی کہ رسول خداﷺ نے فرمایا کہ مہدی کے اصحاب میرے بھائی اور مرتبہ میں میرے برابر ہیں۔ شاہ نظام نے سن کر کہا کہ یہ صفت عوام
اصحاب مہدی کی ہے۔ بڑے اصحاب کا مرتبہ اس سے بھی اور آگے ہے اور پنج فضائل میں لکھا ہے کہ ایک دن سب آدمی صف بستہ بیٹھے تھے۔ شاہ دلاور خلیفہ جونپوری نے اپنی بیوی خوند بواسے کہا دیکھو یہ وہ لوگ ہیں جو مرسلین کا مقام رکھتے ہیں اور کہا کہ مرسل اسے کہتے ہیں کہ مہتر جبرئیل اس پر وحی لائیں۔ لیکن بارہ آدمی ان سے بھی فاضل تر ہیں۔
۱۲… اگر دربار نبوت میں ایک صدیق (حضرت ابوبکرؓ) تھے تو مہدی کے دربار میں دو ہیں۔ سید محمود اور خوند میر اور اگر خلفائے راشدین وہاں چار تھے تو یہاں پانچ ہیں۔ سید محمود، خوند میر، میاں نعمت، میاں نظام اور میاں دلاور اور اگر وہاں عشرہ مبشرہ تھے تو یہاں بارہ مبشر ہیں۔
۱۳… مہدی جونپوری کے نواسے سید محمود بن خوند میر کے ساتھ لڑکپن میں (معاذ اللہ) خدا ہمیشہ کھیلا کرتا تھا۔
۱۴… شواہد الولایت کے آٹھویں باب میں لکھا ہے کہ شیخ مہاجر نے مردہ زندہ کیا اور حضرت مہدی موعود نے اس کو عیسیٰ علیہ السلام کا قائم مقام بتایا۔ مصنف کتاب مذکور لکھتا ہے کہ ذات مہدی کے فیضیاب کو چاہئے کہ مقام عیسیٰ علیہ السلام پر فائز ہونے کے باوجود قم باذن اللہ سے احتراز کرے۔ یہ باب ہدیہ مہدویہ منتخب التواریخ اور دوسری کتابوں سے ماخوذ ہے۔ چونکہ اکثر مندرجات کا مأخذ مہدوی بیانات ہیں۔ اس لئے ان میں مبالغہ کا رنگ نمایاں ہے۔ ہدیہ مہدویہ کے منقولات کتاب مذکور کے صفحات ۳۴،۴۴ پر ملاحظہ ہوں۔
مولانا زمان خاں شہید نے اس قسم کے مہدوی خرافات اور بھی جمع کئے ہیں۔ لیکن میں بصد اختصار انہی پر اکتفاء کرتا ہوں جو حضرات ان کفریات کے جوابات معلوم کرنا چاہیں۔ وہ کتاب ہدیہ مہدویہ (صفحات ۱۶،۳۳) کا مطالعہ فرمائیں۔
باب۵۲ … حاجی محمد فرہی
حاجی محمد فرہی سید محمد جونپوری کا مرید اور مسیح موعود ہونے کا مدعی تھا۔ مہدویہ کی کتاب شواہد الولایت میں لکھا ہے۔ حضرت مہدی موعود (سید جونپوری) نے فرمایا کہ اکثر انبیاء اور اولوالعزم رسول دعاء مانگا کرتے تھے کہ بارخدایا ہمیں امت محمدی میں پیدا کر کے مہدی کے گروہ میں داخل فرما۔ انبیاء میں سے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے سوا کسی کی دعاء قبول نہ ہوئی۔ چنانچہ وہ عنقریب آکر بہرہ یاب ملاقات ہوںگے۔ چنانچہ دیوان مہدی میں جو ایک مہدوی کا کلام ہے۔ لکھا ہے ؎
بل چہ عالم کہ زآدم وموسیٰ | زیحییٰ وخلیل از موسیٰ | |
بودہ غایت بصجتش موسیٰ | ہرچہ ہست از ولایت است ظہور | |
نقطۂ آں دائرہ مفضلاں | شد متمنائے ہمہ مرسلاں | |
خواست زحق ہر یکے ازاولین | رب اجعلنی لمن الآخرین |
اور مہدویہ کی کتاب پنج فضائل میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ میراں (سید جونپوری) قضائے حاجت کے لئے جارہے تھے۔ راستہ میں حاجی محمد فرہی نے پوچھا کہ میراں جیو! خدام تو آئے، عیسیٰ کب آئیںگے؟ میراں نے ہاتھ پیچھے کر کے کہا کہ بندہ کے پیچھے ظاہر ہوںگے۔ اس لفظ کا زبان سے نکلنا تھا کہ حاجی محمد کو حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام کا مقام حاصل ہوگیا۔ حاجی محمد میراں کی زندگی میں تو خاموش رہا اور کوئی دعویٰ نہ کیا۔ مرنے کے بعد سندھ میں نگر ٹھٹھہ کی طرف جاکر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو اپنی مسیحیت کی دعوت دینی شروع کی۔ جب جمعیت بڑھنے لگی تو وہاں کے حاکم نے گرفتار کر کے اس کی گردن ماردی۔ جب حاجی نے مسیحیت کا دعویٰ کیا توسید محمود کو فکر دامنگیر ہوئی کہ کہیں میری دکانداری پھیکی نہ پڑ جائے۔ اس لئے دو آدمیوں کو اس کے قتل کرنے کے لئے بھیجا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ حاجی محمد مارا گیا تو لوٹ آئے۔ شاہ دلاور نے بشارت دی کہ حاجی محمد ایمان سلامت لے گیا۔ غرغرہ کے وقت اس کی توبہ قبول ہوگئی۔ سید محمود کہنے لگا کہ چونکہ مہدی علیہ السلام کی تصدیق کی تھی ضائع نہ ہوا۔
(ہدیہ مہدویہ ص۲۴۴،۲۴۵)
باب۵۳ … جلال الدین اکبر شاہ
جلال الدین اکبر شاہ بھی ان ائمہ فساد میں سے ہے۔ جنہوں نے ملت اسلام میں رخنہ اندازیاں کر کے ناموس شریعت کو چرکا لگایا۔ اکبر ۹۴۹ھ میں سندھ کے ریگستان میں امرکوٹ کے مقام پر اس وقت پیدا ہوا جب کہ اس کا باپ سلطان نصیر الدین ہمایوں بادشاہ سلطان شیرشاہ کے ہاتھ سے آوارۂ دشت غربت تھا۔ ہمایوں بادشاہ خود تو ایران چلاگیا۔ لیکن اکبر کو جو اس وقت پورا برس دن کا بھی نہیں ہوا تھا۔ اپنے بھائی عسکری مرزاحاکم قندھار کے ہاتھ میں چھوڑ گیا۔ اکبر قریباً بارہ سال تک قندھار میں اپنے چچا کے دست اختیار میں رہا۔ جب ۹۶۱ھ ہمایوں بادشاہ فتح وظفر کے پھریرے اڑاتا ہوا ہندوستان کی طرف بڑھا تا اس وقت اکبر بارہ برس ۸ مہینے کا تھا اور جب ۹۶۳ھ میں ہمایوں بادشاہ نے دہلی میں کوٹھے پر سے گر کر دائمی حق کو لبیک کہا اور اکبر تخت نشین ہوا تو اس وقت اکبر کی عمر پونے چودہ سال کی تھی۔ غرض اس بناء سے کہ اکبر کے ایام طفلی میں اس کے
والدین دشت ادبار میں پڑے تھے۔ اس کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ ہوا اور وہ بالکل جاہل وامی رہ گیا۔ تخت نشینی کے بعد اکبر قریباً اکاون سال تک برسر حکومت رہا۔ میں اس زمانہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ پہلا وہ آوان سعید تھا۔ جب کہ اکبربادشاہ دائرہ اسلام میں داخل تھا۔ دوسرا وہ عصر جہل وفساد جس میں اس نے اسلام کاربقۂ عقیدت گلے سے اتار کر کھلم کھلا کفر وارتداد اختیار کیا۔ ان میں سے پہلے زمانہ کا دورہ انیس سال کا تھا اور دوسرے عہد ظلمت کی مدت قریباً بائیس سال تھی۔
فصل:۱…پیروی مذہب کا دور ہدایت
جلال الدین اکبر ابتداء میں ایک خوش عقیدہ مسلمان تھا۔ محمد حسین صاحب آزاد لکھتے ہیں کہ اکبر اوائل میں احکام شرع کو ادب کے کانوں سے سنتا تھا اور صدق دل سے بجالاتا تھا۔ جماعت سے نماز پڑھتا تھا۔ آپ اذان کہتا تھا۔ مسجد میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو دیتا تھا۔ علماء وفضلاء کی نہایت تعظیم کرتا تھا۔ ان کے گھر جاتا تھا۔ بعض کے سامنے کبھی کبھی جوتیاں سیدھی کر کے رکھ دیتا تھا۔ مقدمات سلطنت شریعت کے فتوے سے فیصل ہوتے تھے۔ جابجا قاضی ومفتی مقرر تھے۔ اکبر صوفیانہ خیالات کا دلدادہ اور فقراء واہل دل کا نیازمند تھا۔ ان کے برکت انفاس سے استفاضہ کرتا تھا۔ ۹۶۸ھ میں گوّیوں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے فضائل وکرامات میں گیت گائے۔ اکبر پر ایسا ذوق وشوق طاری ہوا کہ اسی وقت اجمیر کو روانہ ہوا۔ مزار پر بیٹھ کر خواجہ کے توسل سے دل کی مرادیں بارگاہ رب العالمین میں عرض کیں۔ قضائے کردگار سے جو کچھ مانگا تھا اس سے بھی زیادہ پایا۔ اس لئے اس کا اعتقاد پہلے سے دو چند ہوا اور باوجودیکہ ۹۸۲ھ سے جب کہ وہ مرتد ہوا اس کے دل میں حضرت سید اولاولین والآخرینﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ حسن عقیدت کا جذبہ باقی نہ رہ گیا۔ بلکہ حضورﷺ کی شان میں بے ادب ہوگیا تھا۔ لیکن خواجہ اجمیری کے ساتھ مرتے دم تک وہی اعتقاد رہا اور اہل نظر اسے دیکھ کر حیران ہیں کہ خواجہ صاحب کے ساتھ تویہ اعتقاد اور آنحضرتﷺ جن کے دامن کے سایہ سے لاکھوں کروڑوں کو خواجہ معین الدینؒ کا سادرجہ مل جائے ان کی شان میں ایسا سوء اعتقاد۔ اوائل میں اکبر علماء ومشائخ طریقت کی صحبت میں بڑے آداب سے بیٹھتا تھا۔ ان کے ارشادت کو موجب ہدایت وسعادت یقین کرتا تھا۔ ان کو بہت کچھ دیتا تھا۔ ان ایام میں اس کے انعام واکرام اور جودوسخا کی کچھ حد نہ تھی۔ چنانچہ عبدالقادر بدایونی اس کے ارتداد سے پہلے کی کیفیت لکھتے ہیں کہ اگر ہندوستان کے شاہان سلف کی تمام بخشش ایک پلڑے میں رکھی جائے اور اکبر بادشاہ کے انعامات دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو دوسرا پلڑا
جھک جائے گا۔ ۹۷۱ھ میں اکبر حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کے حلقۂ مریدین میں داخل ہوا۔ خواجہ سلیمؒ حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر قدس سرہ کی اولاد تھے۔ ان ایام میں وہ آگرہ سے بارہ کوس کے فاصلہ پر ایک گاؤں میں جسے سیکری کہتے تھے قیام فرماتھے۔ اکبر ۲۷،۲۸برس کی عمر تک لاولد تھا۔ اس لئے اولاد کی بڑی آرزو تھی۔ اکبر خود سیکری جاکر کئی دن رہا اور اولاد کے لئے دعاء کرائی۔
شیخ سلیم چشتیؒ کی پیشین گوئی
سلطان سلیم عرف نورالدین جہانگیر اپنی توزک میں لکھتا ہے کہ ایک دن اثنائے توجہ اور بے خودی کے عالم میں میرے والد (اکبر بادشاہ) نے ان سے پوچھا کہ حضرت میرے ہاں کتنے فرزند ہوںگے؟ فرمایا خدا تمہیں تین فرزند عطاء کرے گا۔ یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ چنانچہ اس کے بعد شہزادہ سلیم ۹۷۷ھ میں، شہزادہ مراد ۹۷۸ھ میں اور شہزادہ دانیال ۹۸۰ھ میں متولد ہوئے۔ سلطان نور الدین جہانگیر توزک میں لکھتا ہے کہ جب شیخ سلیمؒ نے تین فرزندوں کی بشارت دی تو والد نے حضرت شیخؒ سے کہا کہ میں نے منت مانی ہے کہ پہلے فرزند کو آپ کے دامن تربیت اور توجہ میں ڈالوں گا۔ تھوڑے دن کے بعد معلوم ہوا کہ حرم سرا میں فلاں بیگم حاملہ ہے۔ سن کر بہت خوش ہوا اور حرم کو حریم شیخ میں سیکری بھیج دیا۔ خواجہ نظام الدین احمد طبقات اکبری میں لکھتے ہیں کہ شہزادہ سلیم ۱۷؍ربیع الاوّل ۹۷۷ھ کو متولد ہوا۔ حضرت خواجہ سلیم چشتیؒ کے داماد شیخ ابراہیم اس مژدہ کے ساتھ دارالسلطنت آگرہ پہنچے اور مراحم خسروانہ سے سرفرازی پائی۔ بادشاہ نے اس نعمت عظمیٰ اور موہبت کبریٰ کے شکرانہ میں خلائق کو انعامات سے بہرہ مند فرمایا۔ کل ممالک محروسہ کے قیدی آزاد کئے گئے۔ سات دن تک جشن مسرت منایا گیا۔ شعراء نے تاریخ اور قصیدے کہہ کر بڑے بڑے انعام پائے۔ بادشاہ نے اسی دن سے موضع سیکری جارہنے اور اسی کو دارالسلطنت بنانے کا قصد کیا۔ چنانچہ سیکری جاکر شیخ کے لئے ایک نئی خانقاہ اور ایک عالی شان سنگین قلعہ اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرائے۔ امراء واعیان سلطنت نے بھی محل تعمیر کرائے اور وہاں شہر آباد کر کے سیکری کو فتح پور کا خطاب دیا۔ بادشاہ نے یہ نذر مان رکھی تھی کہ اگر خداتعالیٰ فرزند نرینہ عطاء فرمائے گا تو اجمیر تک پیادہ پا جاؤں گا۔ چنانچہ ۱۲؍شعبان ۹۷۷ھ کو دارالخلافہ آگرہ سے پیدل روانہ ہوا۔ اجمیر وہاں سے ایک سو بیس کوس ہے۔ روزانہ چھ سات کوس چلتا تھا۔ شیخ سلیمؒ نے مولود مسعود کا نام اپنے نام پر رکھا تھا۔ لیکن اکبر کی یہ حالت تھی کہ پیر کے نام کا احترام کرتے ہوئے فرزند کو سلیم کہہ کر
نہیں پکارتا تھا۔ بلکہ شیخو جی کہا کرتا تھا۔ جہانگیر توزک میں لکھتا ہے کہ ایک دن کسی تقریب سے میرے والد نے حضرت شیخؒ سے پوچھا کہ آپ کی کیا عمر ہوگی اور آپ کب ملک آخرت کو انتقال فرمائیںگے؟ فرمایا واﷲ اعلم! پھر ایک دن زیادہ اصرار کر کے پوچھا تو میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ جب شہزادہ اتنا بڑا ہوگا کہ کسی کے یاد کرانے سے کچھ سیکھ لے تو سمجھ لینا کہ ہمارا وصال قریب ہے۔ والد نے یہ سن کر تمام خدام کو حکم دیا کہ شہزادہ کو نظم ونثر کوئی کچھ نہ سکھائے۔ اس طرح قریباً ڈھائی سال گذر گئے۔ محلہ میں ایک عورت رہتی تھی۔ وہ دفع نظر بد کے لئے مجھے ہر روز حرمل کی دھونی دے جاتی تھی اسے کچھ صدقہ خیرات مل جاتا تھا۔ ایک دن اس نے خدام کی غیر حاضری میں مجھے یہ شعریاد کرادیا۔
الٰہی غنچۂ امید بکشا
گلے از روضۂ جاوید بنما
اس کے بعد میں حضرت شیخ کے پاس گیا اور انہیں یہ شعر سنایا۔ حضرت مارے خوشی کے اچھل پڑے اور والد بزگوار سے فرمایا لو بھئی وعدہ وصال پہنچ گیا۔ رخصت ہوتا ہوں۔ چنانچہ اسی رات کو بخار ہوا۔ یہاں تک کہ ۹۷۹ھ میں ۹۵برس کی عمر پاکر رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ ۵؍جمادی الآخر ۹۸۱ھ کو بادشاہ نے شہزادوں کے ختنہ کا حکم دیا۔ بہت بڑا جشن ترتیب دیاگیا۔ علماء، سادات، مشائخ، امراء وارکان دولت جمع ہوئے۔ سنت ختنہ ادا ہوئی۔ بادشاہ نے خوب داد دہش اور فیض رسانی کا حق ادا کیا۔ اس کے بعد اسی سال ۲۲؍رجب کے دن ایک بہت بڑی مجلس ترتیب دی گئی اور شہزادہ سلیم کو مولانا میر کلاں ہروی کی خدمت میں بغرض تعلیم لے گئے۔ انہوں نے شہزادہ کو کلمۂ بسم اللہ الرحمن الرحیم جو خزائن ومعارف کی کنجی ہے پڑھائی۔ چاروں طرف سے تہنیت ومبارک باد کا غلغلہ بلند ہوا۔
اتھرون وید میں اصول اسلام کی تائید
سرزمین دکن میں ایک برہمن نے جوبھاون کے نام سے مشہور تھا ایک مرتبہ کسی اسلامی کتاب کا مطالعہ کیا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کے افق دل پر اسلام کا کوکب ہدایت پر توافگن ہوا۔ اس کے بعد اس نے دوسری کتابوں کا مطالعہ کر کے اسلامی تعلیمات میں اچھی بصیرت حاصل کی اور باقاعدہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا۔ یہ دیکھ کر بڑے بڑے برہمنوں نے جن کے علم وفضل کی ملک میں دھوم تھی۔ اس کو ہندو دھرم میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے تمام برہمنوں کو مذہبی
مناظروں میں زک دی۔ قبول اسلام کے کچھ عرصہ بعد یہ نومسلم دارالخلافہ فتح پور سیکری آیا اور بادشاہ کے مقربوں میں داخل ہوگیا۔ ایک دن اکبر نے حکم دیا کہ ہنود کی چوتھی کتاب اتھرون وید کا ترجمہ فارسی میں کیاجائے۔ کیونکہ اس کے بعض احکام ملت اسلام کی تائید کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کی تعمیل ہوئی۔ اس کتاب میں مندرج ہے کہ خدا وحدہ لاشریک ہے۔ جب تک اس کا کلمۂ توحید لا الہ الا اللہ نہ پڑھیں نجات نہیں مل سکتی۔ دوسرا یہ کہ گائے کا گوشت چند شرطوں کے ساتھ مباح ہے۔ تیسرا میت کو دفن کرنا چاہئے جلانا نہ چاہئے۔
کچھ دنوں کے بعد بادشاہ نے ایک عبادت خانہ تعمیر کرایا۔ اس تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ چند سال سے بادشاہ کو پے درپے فتوحات حاصل ہورہے تھے اور دائرہ مملکت دن بدن وسیع ہوتا جارہا تھا۔ چونکہ تمام کام منشاء ومراد کے مطابق روبراہ تھے اور کوئی دشمن ایسا نہ رہ گیا تھا۔ جس میں سر اٹھانے کا حوصلہ ہو۔ اب بادشاہ اپنے اوقات کا بیشتر حصہ قال اللہ وقال الرسول کی علمی مجلسوں میں گزارنے لگا۔ ہر وقت تصوف کی باتیں، علمی مذاکرہ، حکمی وفقہی مسائل کی تحقیق میںمصروف رہتا۔ رات کو اٹھ اٹھ کر عبادت الٰہی کرتا۔ شیخ سلیمؒ کی تلقین کے بموجب یاہو یا ہادی کے ذکر میں مصروف رہتا۔ بادشاہ کی عادت تھی کہ نماز جمعہ شیخ سلیمؒ کی نئی خانقاہ میں پڑھ کر عبادت خانہ میں آتا اور علماء ومشائخ کے ساتھ علمی گفتگو میں مصروف ہوتا۔ اسی طرح جمعہ کی شب کو بھی علماء ومشائخ جمع ہوتے اور ان سے علمی استفادہ کرتا۔ بادشاہ نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ عبادت خانہ کی جنوبی طرف علماء، شمالی جانب مشائخ غربی سمت سادات اور پورب رخ امراء واعیان دولت بیٹھتے تھے اور خود نوبت بہ نوبت چاروں جماعتوں کے پاس جاکر ان کی مصاحبت اختیار کرتا تھا۔ اسی طرح بادشاہ کا معمول تھا کہ کبھی کبھی شیخ عبدالنبی کے مکان پر حدیث سننے کے لئے چلا جاتا تھا اور ان کا اس درجہ احترام کرتا تھا کہ دو ایک مرتبہ ان کی جوتیاں اٹھا کر بھی ان کے آگے رکھی تھیں۔ شہزادہ سلیم ان ہی کے زیر تربیت وتعلیم تھا۔ شہزادہ نے مولانا عبدالرحمن جامی کی چہل حدیث ان سے پڑھی تھی۔ ان حالات واقعات سے معلوم ہوگا کہ اکبر بادشاہ کے سارے طور طریقے اسلامی تھے اور وہ ایک متشرع آدی تھا۔ جس طرح کہ ہر مسلمان کو ہونا چاہئے۔ لیکن اب میں یہ دیکھانا چاہتا ہوں کہ ۹۸۲ھ کے بعد سے جبکہ سرخیل الحاد ابوالفضل داخل دربار ہوا۔ اکبری حکومت کی مذہبی حالت کس حضیض ادبار میں گرنے لگی اور اسلام ابوالفضل اور چند دوسرے دشمنان دین کے ہاتھوں کس طرح مظلومی وبیکسی کی حالت میں مبتلا ہوا۔
فصل:۲…ارتداد وبے دینی کا عصر ظلمت
اوپر لکھا گیا ہے کہ اکبر بادشاہ بالکل جاہل وناخواندہ تھا اور اسے مذہبی امور میں بصیرت حاصل نہ تھی۔ چونکہ اس وقت دربار اہل الحاد کے وجود سے خالی تھا۔ حامیان شریعت اور وابستگان اسوۃ الرسولﷺ بادشاہ کے دل ودماغ پر حاوی تھے۔ بادشاہ بھی ان کے فیض صحبت سے مذہبی رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ لیکن جب ابوالفضل جیسے ملحدوں نے بھی دربار میں بارپایا اور یہ لوگ بادشاہ کو اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کرنے لگے تو وہ بیچارہ سخت کشمکش میں مبتلا ہوا۔ علماء مشائخ اسے دین کی طرف کھینچتے تھے اور اہل الحاد اسے آزادی اور مطلق العنانی کی راہ دکھاتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ آہستہ آہستہ ان کا اثر بھی قبول کرنے لگا اور اس کی طبیعت قیود شریعت کو توڑ کر آزادی کی طرف مائل ہونے لگی۔
جواز متعہ کا فتویٰ
ان ایام میں بادشاہ نے علماء سے کہا کہ میں اپنے حرم شاہی میں کتنی عورتیں رکھ سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا آپ چار تک رکھ سکتے ہیں۔ کہنے لگا میں نے تو ایک مرتبہ شیخ عبدالنبی سے سنا تھا کہ بعض کے نزدیک نو تک کی اجازت ہے۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ اگر راہ خلاف اختیار کی جائے تو بعض لوگوں نے اٹھارہ تک بھی حلال بتائی ہیں۔ بادشاہ نے شیخ عبدالنبی سے دوبارہ پچھوا بھیجا۔ شیخ عبدالنبی نے جواب دیا کہ میں نے چار سے زیادہ کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا تھا۔ بلکہ صرف اختلاف کا ذکر کیا تھا۔ یہ جواب بادشاہ کی طبع پر شاق گذرا اور کہنے لگا کہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ شیخ نے ہم سے نفاق برتا تھا۔ جب کچھ اور کہا تھا اور اب کچھ اور بتارہے ہیں۔ غرض بادشاہ کا دل بہت مکدر ہوا اور اس بات کو دل میں رکھا۔ اب یہ بھی ضرور تھا کہ علماء میں سے جو لوگ دنیا پرست تھے وہ بادشاہ کی خوشنودی خاطر کا لحاظ کرتے ہوئے قانون شریعت کو اس کی خواہش پر قربان کردیتے۔ چنانچہ اس قسم کے مولویوں نے ادھر ادھر سے رطب ویا بس جمع کر کے فتویٰ دیا کہ بادشاہ جس قدر عورتوں کو چاہے بطریق متعہ رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ امام مالکؒ کے مذہب میں متعہ جائز ہے اور شیعہ تو اہل سنت وجماعت کی مخالفت میں منکوحہ بیوی کی اولاد کی نسبت اس اولاد کو عزیز رکھتے ہیں۔ جو متعہ سے پیدا ہوئی ہو۔ نقیب خان مؤطا امام مالکؒ اٹھالائے اور ایک مرفوع حدیث نکال کر دکھائی۔ جس میں صراحۃً متعہ کی ممانعت تھی۔ ابوالفضل متعہ کے جواز پر زور دینے لگا اور رطب ویا بس کے اس انبار کو پیش کیا جو اس کے باپ مبارک نے جواز متعہ میں ترتیب دیا تھا۔ اب اکبر نے
عبدالقادر بدایونی جامع منتخب التواریخ کو بلا کر پوچھا کہ اس بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا کہ اتنی مختلف روایات اور مذاہب گوناگوں کا مآل ایک بات میں تمام ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ متعہ امام مالکؒ کے نزدیک اور شیعوں کے ہاں بالاتفاق جائز ہے اور گو امام اعظم اور امام شافعیؒ کے نزدیک حرام ہے۔ لیکن اگر مالکی مذہب کے قاضی سے فتویٰ لے لیا جائے تو حضرت امام اعظمؒ کے مذہب میں بھی جائز ہوجاتا ہے۔ اس کے سواجو کچھ ہے وہ سب قیل وقال جنگ اورجدال ہے۔ یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔ قاضی یعقوب نے جواز متعہ سے انکار کیا۔ لیکن عبدالقادر بدایونی نے اسے فسوں وفسانہ سے رام کر لیا۔ آخر قاضی یعقوب کہنے لگا میں کیا کہتا ہوں؟ مبارک ہو جائز ہے۔ بادشاہ بولا میں اس مسئلہ میں قاضی حسین عرب مالکی کو منصف ٹھہراتا ہوں۔ قاضی حسین بھی ایک دنیا پرست مولوی تھا۔ اس نے متعہ کے جواز کا فتویٰ دے دیا اور بادشاہ نے ان تمام علمائے حق کو جنہوں نے اسے متعہ کرنے کی اجازت نہیں دی تھی نظروں سے گرادیا۔ یہاں تک کہ ان کے کشت زار پر خزاں اور عہد خریف کی عملداری شروع ہوگئی۔ بادشاہ نے قاضی یعقوب کو گور بھیج دیا اور ان کی جگہ مولانا جلال الدین ملتانی کو آگرہ سے طلب کر کے ممالک محروسہ کا عہدۂ قضا تفویض فرمایا۔ یہاں یہ بتادینا ضرور ہے کہ شیعوں نے تو متعہ جائز کر رکھا ہے۔ لیکن حضرت امام مالکؒ کے مذہب میں متعہ زنا کی طرح قطعاً حرام ہے اور جواز متعہ کے متعلق جو روایت ان کی طرف منسوب کی جاتی ہے وہ یکسر موضوع ومردود ہے۔ غرض ائمہ اربعہ اور اہل سنت وجماعت کے تمام دوسرے امام اس مسئلہ میں متفق ہیں۔
ایک شوریدہ پیر برہمن کا واقعۂ قتل
شیخ عبدالنبی بن شیخ احمد بن شیخ عبدالقدوس گنگوہی چشتیؒ کا اصل وطن اندری علاقہ گنگوہ ضلع سہارنپور تھا۔ کئی دفعہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ گئے۔ وہیں علم حدیث کی تحصیل کی۔ ان کے آباواجداد کی محفل حال وقال میں غنا اور سماع بھی معمول تھا۔ لیکن انہوں نے حرمین سے واپس آکر سماع وغنا کو ترک کر دیا۔ ۹۷۲ھ میں اکبر بادشاہ نے انہیں محکمہ امور مذہبی کا صدر الصدور بنایا۔ علم حدیث کے متعلق ان کا قول حجت مانا جاتا تھا اور چونکہ حضرت امام اعظمؒ کی اولاد تھے۔ اس لئے ان کی موجودگی میں کوئی شخص امامت کا دعویٰ نہ کر سکتا تھا۔ لیکن جب بادشاہ کا مزاج ان سے برہم ہوا تو اعداء جو ہر وقت فرصت کے منتظر تھے۔ ان کی بن آئی۔ خصوصاً ابوالفضل اور فیضی ہر وقت آگ پر تیل ڈالنے لگے۔ اب ایک اور واقعہ ایسا پیش آیا کہ شیخ عبدالنبی کا رہا سہا وقار بھی رخصت
ہوگیا۔ انہی دنوں میں متھرا کے قاضی نے شیخ صدر (شیخ عبدالنبی) کے پاس استغاثہ کیا کہ مسجد کی جگہ پر ایک شورہ پشت برہمن نے قبضہ کر کے شوالہ بنا لیا اور جب روکا گیا تو اس نے پیغمبر خداﷺ کی شان اقدس میں دریدہ دہنی کی اور مسلمانوں کو بھی بہت گالیاں دیں۔ شیخ صدر نے طلبی کا حکم بھیجا وہ نہ آیا۔ آخر نوبت بادشاہ تک پہنچی۔ بادشاہ نے خاص قاصدوں کے ہاتھ اس کو دارالسلطنت میں بلوا بھیجا۔ جب وہ آیا تو معتبر شہادتوں سے ثابت ہوا کہ اس نے واقعی آنحضرتﷺ کی توہین کی ہے۔ چونکہ اسلام میں نبی کی توہین کی سزا قتل ہے۔ اس لئے شیخ صدر بادشاہ سے قتل کی اجازت چاہتے تھے۔ لیکن بادشاہ صاف حکم نہ دیتا تھا۔ اتنا کہہ کر ٹال دیتا تھا کہ شرعی احکام تمہارے متعلق ہیں ہم سے کیا پوچھتے ہو۔ برہمن مدت تک قید رہا۔ محل میں رانیوں نے بھی بادشاہ سے سفارشیں کیں۔ مگر بادشاہ نے منہ میں گھنگنیاں ڈالے رکھیں۔ آخر جب شیخ نے باربار پوچھا تو اکبر کہنے لگا کہ بات وہی ہے جو میں پہلے کہہ چکا ہوں۔ کہ جو مناسب جانو وہ کرو۔ غرض شیخ نے وہاں سے جاکر اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ جب اکبر کویہ خبر پہنچی تو بہت بگڑا۔ اندر سے رانیوں نے اور دربار میں ابوالفضل فیضی اور دوسرے اعداء نے یہ کہنا شروع کیا کہ حضور نے ان ملانوں کو اتنا سرپر چڑھا رکھا ہے کہ اب حضور کی خوشنودی خاطر کی بھی پروا نہیں کرتے اور اپنی حکومت وجلال دکھانے کی خاطر لوگوں کو بے حکم قتل کر ڈالتے ہیں۔ غرض اشتعال انگیزیوں سے اس قدر کان بھرے کہ بادشاہ کو تاب نہ رہی اور جو مواد بادشاہ کے دل میں بہت دن سے پک رہا تھا وہ یکہارگی پھوٹ بہا۔ رات کو انوپ تلاؤ کے دربار میں آکر پھر اس مقدمہ کا تذکرہ چھڑا۔ ابوالفضل اور فیضی نے پھر آتش فتنہ پر تیل ڈالنا شروع کیا۔ بعض نے یہ کہنا شروع کیا۔ شیخ سے تعجب ہے کہ وہ اپنے تئیں امام اعظمؒ کی اولاد کہتے ہیں۔ حالانکہ امام اعظمؒ کا فتویٰ ہے کہ اگر ذمی (یعنی غیر مسلم رعایا) پیغمبر علیہ السلام کی شان میں بے ادبی کرے تو عہد نہیں ٹوٹتا اور ابرا وذمہ نہیںہوتا۔ یہ مسئلہ کتب فقہ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ شیخ نے اپنے جدامجد کی مخالفت کیوں کی؟ بادشاہ نے شیخ عبدالقادر بدایونی کو بلوایا اور پوچھا کہ تم نے بھی سنا ہے کہ اگر ننانوے روایتیں قتل کی مقتضی ہوں اور ایک روایت رہائی کی اجازت دیتی ہو تو مفتی کو چاہئے کہ مؤخر الذکر روایت کو ترجیح دے۔ انہوں نے کہا ہاں درست ہے۔ حدود ادنیٰ شبہات سے مرتفع ہو جاتی ہیں۔ بادشاہ نے افسوس کے ساتھ پوچھا کہ کیا شیخ کو اس مسئلہ کی خبر نہ تھی کہ بیچارے برہمن کو مارڈالا؟ بدایونی نے کہا کہ شیخ بہت بڑے عالم ہیں۔ اس روایت کے باوجود انہوں نے دیدہ ودانستہ قتل کا حکم دیا۔ ضرور کوئی وجہ وجیہ اور مصلحت ہوگی۔
بادشاہ نے پوچھا وہ مصلحت کیا ہوسکتی ہے؟ بدایونی نے کہا یہی کہ فتنہ کا سدباب ہو اور عوام میں جرأت کا مادہ نہ رہے۔ بدایونی نے اس کی تائید میں شفائے قاضی عیاض کی ایک روایت بیان کی۔ ابوالفضل اور فیضی کہنے لگے کہ قاضی عیاضؒ تو مالکی ہیں۔ ان کا قول حنفی ملکوں میں سند نہیں ہوسکتا۔ ہرچند کہ ان عیاروں کو حنفیت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ لیکن چونکہ شیخ صدر کو ذلیل کرانا منظور تھا۔ حنفیت کی آڑ لینے لگے اور اصل یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کے سوا تمام ائمہ اسلام اس امر پر متفق ہیں کہ ذمی پیغمبر خداﷺ کی توہین کرے تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور امام اعظمؒ کے نزدیک بھی ابراء ذمہ نہ ہونے کی یہ شرط ہے کہ ذمی نے سید کون ومکانﷺ کی علی الاعلان توہین نہ کی ہو اور اگر علی الاعلان مسلمانوں کے سامنے ایسا کیا ہو تو امام اعظمؒ کے نزدیک بھی وہ واجب القتل ہے اور متھرا کے برہمن نے حضورﷺ کی علی الاعلان توہین کی تھی۔ اس لئے وہ بالاتفاق گردن زنی تھا۔ بہرحال اکبر نے بدایونی سے کہا کہ تم ان لوگوں کے اعتراض کا کیا جواب دیتے ہو؟ اس نے کہا کہ اگرچہ قاضی عیاض مالکی ہیں۔ لیکن اگر مفتی محقق سیاسی ضروریات کا لحاظ کر کے کسی غیر حنفی امام کے فتوے پر عمل کرے تو شرعا جائز ہے۔ اس وقت بادشاہ غضبناک تھا اور شیر کی طرح اس کی مونچھیں کھڑی تھیں۔ لوگ بدایونی کو پیچھے سے منع کر رہے تھے کہ کچھ مت بولو۔ بادشاہ نے بگڑ کر بدایونی سے کہا۔ تم کیا نامعقول باتیں کرتے ہو؟ بدایونی خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹ گیا۔ اس دن سے شیخ عبدالنبی مسلوب الاختیارات ہونے لگے۔
اکبر بحیثیت مجتہد اعظم
ابوالفضل اور فیضی کا باپ مبارک ناگوری ایک بڑا فتنہ انگیز ملحد تھا۔ عہد اکبری کے اوائل میں جبکہ شیخ الاسلام مولانا عبداﷲ سلطان پوری مخدوم الملک اور شیخ عبدالنبی صدر الصدور کا دربار میں طوطی بول رہا تھا۔ اکبر ان لوگوں کے قلع قمع کی فکر میں تھا۔ جن کی طرف سے کسی فتنہ انگیزی کا احتمال ہوسکتا تھا۔ اس سلسلہ میں مخدوم الملک اور شیخ عبدالنبی اور دوسرے علمائے دربار نے بادشاہ سے کہا کہ مبارک ناگوری مہدوی بھی ایک بڑا الحاد پسند اور مبتدع ہے۔ اس کی ذات سے بہت لوگ گمراہ ہو رہے ہیں۔ غڑض برائے نام اجازت لے کر اس کے رفع ودفع کے در پے ہوئے۔ کوتوال کو حکم دیا گیا کہ مبارک کو گرفتار کر کے حاضر کرے۔ لیکن وہ اپنے دونوں بیٹوں فیضی اور ابوالفضل سمیت روپوش ہوگیا اور کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ اس لئے اس کی مسجد کامنبر ہی توڑ ڈالا گیا۔ شیخ سلیم چشتی ان دنوں جاہ وعظمت کی اوج پر تھے۔ مبارک نے سب سے پہلے ان سے التماس کر
کے شفاعت چاہی۔ انہوں نے کسی خلیفہ کے ہاتھ کچھ خرچ اور پیغام بھیجا کہ تمہارے لئے ان دیار سے چمپت ہوجانا ہی مناسب ہے۔ گجرات چلے جاؤ۔ اس نے ناامید ہوکر مرزا عزیز سے توسل کیا۔ اس نے اکبر کے پاس جاکر مبارک کی ملائی اور درویشی کی تعریف کی اور اس کے دونوں لڑکوں کی فضیلت کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ مبارک ایک متوکل آدمی ہے۔ اسے حضور کی طرف سے کوئی زمین انعام میں نہیں ملی۔ ایسے فقیر کی ایذا رسانی سے کیا فائدہ؟ غرض مخلصی ہوگئی۔ کچھ عرصہ کے بعد مبارک کا بخت خفۃ بیدار ہوا اور پہلے فیضی اور پھر ابوالفضل کی دربار تک رسائی ہوگئی۔ اب تینوں باپ بیٹوں کی یہ حالت تھی کہ شب وروز علماء سے انتقام لینے کے لئے دانت پیس رہے تھے اور ایسے منصوبے سوچتے رہتے تھے کہ مخدوم الملک اور صدر الصدور کو نیچا دکھائیں۔ ان ایام میں مبارک کی بھی دربار میں آمدورفت شروع ہوگئی۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے مبارک سے کہا کہ جہاں علماء باہم مختلف الخیال ہوں وہاں کون سا مسلک اختیار کرنا چاہئے؟ اس نابکار کو شرانگیزی کا سنہری موقعہ ہاتھ آگیا۔ کہنے لگا کہ بادشاہ عادل خود مجتہد ہیں۔ اختلافی مسائل میں حضور جو مصلحت وقت دیکھیں۔ حکم فرمائیں۔ حضور کو ان ملانوں سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اکبر نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر ان ملاؤں سے مجھے کلی نجات دلادو۔ مبارک یہ پٹی پڑھا کر واپس آیا اور جھٹ مسودہ تیار کر کے اکبر کے پاس بھیج دیا۔ اس محضر نامہ میں لکھا تھا کہ عادل بادشاہ مطلقاً مجتہد پر فضیلت رکھتا ہے اور وہ اس بات کا مجاز ہوتا ہے کہ کسی مختلف فیہ مسئلہ میں روایت مرجوح کو ترجیح دے دے۔ معاملات شرعی میں اسے ہر طرح کا تصرف حاصل ہے اور کسی کو اس کی رائے سے اختلاف وانکار کی مجال نہیں۔ کیونکہ امام عادل مذہبی معاملات کو مجتہدین سے بہتر سمجھتا ہے۔ پس جو شخص اس کی رائے سے اختلاف کرے وہ دنیا عقبیٰ میں عذاب وعقاب کا سزاوار ہے۔ امام عادل اپنی طرف سے کوئی ایسا حکم بھی نافذ کرسکتا ہے۔ جو نصوص اور احکام قطعی الثبوت کے خلاف ہو۔ بشرطیکہ اس کی نظر میں اس کے اندر خلق کی رفاہیت ہو اور ایسے اجتہادی احکام میں ہر شخص پر امام عادل کا اتباع واجب ہے اور اس امام عادل سے مراد اکبر کی ذات تھی۔ علماء کو اس محضر نامہ پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا گیا۔ اسلام اور علماء اسلام کے حق میں اس فتنہ کی بھی وہی حیثیت تھی جس میں علماء ماموں عباسی کے عہد میں مبتلا کئے گئے تھے۔ اکبری محضر نامہ پر مخدوم الملک، شیخ عبدالنبی صدر الصدور قاضی القضاۃ قاضی جمال الدین ملتانی، صدر جہاں، شیخ مبارک ناگوری اور غازی خاں بدخشی کی مہریں اور دستخط ثبت کرائے گئے۔ ان میں سے بعض نے تو طیب خاطر اور بعض نے طوعاً
وکرھاً دستخط کئے تھے۔ لیکن وہ علمائے راسخین جن کے دین کی راہ میں قدم ہمت استوار ہے۔ انہوں نے اس کی تصدیق کرنے سے انکار کیا اور انکار کے صلہ میں اپنے تئیں ہر قسم کی جسمانی اور روحانی عقوبتیں سہنے کے لئے پیش کر دیا۔
مجتہد اعظم تھرتھر کانپنے لگا
لیکن اس ستم ظریفی کا بھی کوئی ٹھکانا ہے کہ ایک جاہل مطلق جو لکھنے پڑھنے سے بالکل بے بہرہ ہے۔ مجتہد اعظم بن بیٹھے اور اسے نصوص اور قطعی الثبوت احکام میں ترمیم وتنسیخ کا حوصلہ ہو۔ بعض لوگوں میں علمی بے مایگی کے باوجود خطابت کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ لیکن اکبر اس قوت واستعداد سے بھی قطعاً عاری تھا۔ چنانچہ بدایونی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اکبر نے سنا کہ حضرت ختمی مآبﷺ اور خلفائے راشدین اور بعض سلاطین ذوی الاقتدار مثلاً امیر تیمور صاحبقران اور مرزا الغ بیگ وغیرہم خود خطبہ دیا کرتے تھے۔ اس لئے وہ بھی اپنے مجتہد اعظم ہونے کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لئے غرہ جمادی الاوّل ۹۸۷ھ کو جمعہ کے دن جامع مسجد فتح پور میں جو قصر شاہی کے پاس تھی منبر پر جاچڑھا اور خطبہ دینا چاہا۔ لیکن بمشکل ایک دو لفظ منہ سے نکالے تھے کہ زبان بند ہوگئی اور بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ آخر سخت تشویش واضطراب کے عالم میں تھرتھر کانپتے ہوئے فیضی کے یہ شعر دوسروں کی مدد سے نیم تمام پڑھ کر منبر سے اتر آیا اور حافظ محمد امین خطیب کو امامت کا حکم دیا۔ وہ بیت یہ ہیں ؎
خداوندے کہ مارا خسروے داد
دل دانا وبازوئے قوی داد
بعدل وداد مارا رہنموں کرد
بجز عدل از خیال مابروں کرد
بودوصفش زحد فہم برتر
تعالیٰ شانہ اللہ اکبر
مبارک کا تیار کردہ محضر نامہ اسلامی احکام کے سراسر منافی تھا۔ اس لئے علمائے دربار کا فرض تھا کہ وہ عواقب وتنائج سے خالی الذہن ہوکر اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیتے۔ جان چلی جاتی مگر اس محضر کو مسترد کرتے۔ لیکن انہوں نے اکبر کے دباؤ میں آکر دستخط کر دئیے اور خود اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود لی۔ اس محضر کے رو سے نہ صرف حاملین شریعت عضو معطل بن کر رہ گئے۔ بلکہ
سرے سے شریعت مطہرہ ہی بالائے طاق رکھ دی گئی۔ کیونکہ احکام شرع کی جگہ اکبر کا حکم ناطق ہوگیا۔ یہ پہلی فتح تھی جو مبارک اور اس کے بیٹوں کو اپنے حریف علماء کے مقابلہ میں نصیب ہوئی۔ اس دن سے ابوالفضل اور فیضی دربار کے سیاہ وسپید کے مالک ہوگئے۔ علماء کی مسند عزت الٹ گئی اور مبارک کے گھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔
اسلام سے علانیہ بغاوت
اکبر نے یہ فتویٰ حاصل کر کے نہایت بے باکی کے ساتھ اپنے گمراہ مصاحبوںکی مدد سے احکام الٰہی میں قطع وبرید شروع کر دی اور انسانی عقل نارسا کو وحی الٰہی پر ترجیح دی گئی۔ اسلام پر تعریض کرتے ہوئے دین حق کو تقلیدی مذہب سے تعبیرکرنے لگے اور یہ کہنا شروع کیا کہ اہل علم اور اصحاب بصیرت تمام ادیان میں موجود ہیں اور ارباب ریاضت وکشف وکرامات دنیا کے ہر گروہ میں پیدا ہوتے ہیں اور حق وصدق ہر جگہ دائر وسائر ہے۔ پس اسے ایک ہی دین وملت میں جسے ظاہر ہوئے ابھی ہزار سال کا زمانہ بھی نہیں گذرا کیوں محدود رکھا جائے؟ ایک کے اثبات اور دوسروں کی نفی سے ترجیح بلا مرجح لازم آتی ہے۔ مگر ان نادانوں نے اتنا نہ سمجھا کہ حق وصدق تمام مذاہب میں موجود ہے تو اختلاف کی صورت میں کسی نہ کسی مسلک کو غلط قرار دینا ناگزیر ہوگا۔ مثلاً اہل اسلام مانتے ہیں کہ دنیا کا موجودہ نظام ایک نہ ایک دن تباہ ہو جائے گا اور لوگوں کو عالم آخرت میں ان کے عملوں کی جزا ملے گی۔ ہنود کا خیال ہے کہ اعمال کی جزا دنیا ہی میں بصورت تناسخ ملتی رہتی ہے اور ملتی رہے گی۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں مختلف عقیدوں میں سے ایک نہ ایک ضرور غلط ہے۔ ایسی حالت میں یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ تمام مذاہب سچے ہیں۔ اسی طرح یہ خیال بھی لغو ہے کہ اسلام اس وقت سے عرصۂ وجود میں آیا۔ جب کہ سید العرب والعجم حضرت محمد مصطفیﷺ نے مبعوث ہوکر اس عالم ظلمانی کو منور فرمایا۔ کیونکہ اسلام اس وقت سے چلا آتا ہے۔ جب کہ حضرت ابوالبشر آدم علیہ السلام کو خلافت ارضی کا منصب عطاء فرمایا گیا تھا۔ گمراہی کی طرف ایک اور قدم یہ تھا کہ اکبر کے دل میں صحابہ کرامؓ کی طرف سے سوء ظن پیدا کرنا شروع کر دیا گیا۔ اس فساد عقیدہ کی وجہ یہ تھی کہ ایک شخص ملا یزدی جسے ملا یزیدی کہا کرتے تھے خراسان کی طرف سے آکر حضرات صحابہؓ کے حق میں بہت کچھ دریدہ دہنی کرنے لگا اور کمال ڈھٹائی سے بہت سی ناروا باتیں ان نفوس قدسیہ کی طرف منسوب کیں۔ یہ اتہامات سن کر بادشاہ صحابہ کرامؓ کی طرف سے بدعقیدہ ہوگیا۔ یزدی نے چاہا کہ بادشاہ کو رافضی بنالے۔ لیکن جب ابوالفضل حکیم ابوالفتح اور بیربل کو معلوم ہوا تو
وہ آدھمکے اور بادشاہ سے کہنے لگے جہاں پناہ! آپ سنی شیعہ کے قصوں میں نہ پڑئیے۔ سرے سے نبوت وحی معجزہ کرامت وغیرہ ہی بے بنیاد اور ملانوں کے ڈھکوسلے ہیں۔ یہ سن کر جاہل بادشاہ کو خود مذہب کی طرف سے شک پڑ گیا۔ ابوالفضل نے بادشاہ سے کہا کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سب تقلیدی اور غیر معقول چیزیں ہیں۔ دین کا مدار تو نقل کے بجائے عقل پر ہونا چاہئے۔ لیکن ایسے عقل فروشوں کو معلوم نہیں کہ اگر انبیاء کی تعلیمات سے دست بردار ہو جائیں تو خسران اخروی سے قطع نظر خود دنیا میں بھی انسان بہائم ووحوش سے زیادہ بدتر ہو جاتا ہے ؎
ہر خیالے کہ عقل شاں بندد
چرخ برعقل اہل آن خندد
اور عقل انسانی کی یہ حالت ہے کہ اس کا کوئی صحیح معیار ہی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انسان جس جماعت اور جس قسم کی صحبت میں نشوونما پاتا ہے۔ اسی کے قالب میں اس کے قوائے عقلیہ ڈھل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں وہ نقلی اور تقلیدی ہیں۔ چنانچہ آگے چل کر آپ کو معلوم ہوگا کہ ابوالفضل اور دوسرے اشقاء نے اکبر کو احمق بنا کر جو مضحکہ خیز عقلی مذہب بنام دین الٰہی بنایا تھا اور جس کی بناء محض چند ملحدانہ خیالات اور عقلی ڈھکونسلوں پر رکھی تھی۔ وہ اکبر کی آنکھیں بند ہوتے ہی کس طرح قعر گمنامی میں مستور ہوگیا؟
رنڈیوں کی کثرت
اکبر شاہ نے اپنے جلوس کے اٹھائیسویں سال اعلان کیا کہ بعثت پیغمبرﷺ کو ہزارسال کا زمانہ جو دین محمدی کی مدت بقاء تھی گذر چکا۔ اس لئے (معاذ اللہ) اسلام کے احکام وارکان باطل ہوگئے اور ان کی جگہ اکبری دین کے ضوابط وقواعد نافذ ہوتے ہیں۔ ہجرت کے ہزارویں سال جو سکے تیار ہوئے حکم دیا کہ ان پر ہزارسال کی تاریخ ثبت کریں۔ رعایا کے لئے اکبر بادشاہ کو سجدہ کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ مے خواری جائز ہوگئی۔ لیکن اس جواز کی یہ شرط قرار دی گئی کہ مستی مفرط نہ ہو اور اعلان کیاگیا کہ جو شخص شراب نوشی میں حداعتدال سے تجاوز کرے گا۔ اسے سزا دی جائے گی۔ اعتدال کی رعایت ملحوظ رکھنے کے لئے شراب فروشی کی سرکاری دکان کھولی گئی اور آب حرام کا سرکاری نرخ مقرر ہوگیا۔ باایں ہمہ بڑے بڑے فتنے اور فساد رونما ہوتے رہتے تھے۔ دین اکبری میں زنا بالکل جائز فعل تھا اور اس دور حکومت کی ایک بڑی برکت یہ تھی کہ ہزاروں لاکھوں عورتوں نے عفت وحیا کی چادر اتار کر فاسقانہ زندگی اختیار کر لی۔ چنانچہ
لیلائے اکبر کے قیس جناب محمد حسین صاحب آزاد بڑے فخر سے لکھتے ہیں کہ بازاروں کے برآمدوں میں رنڈیاں اتنی نظر آنے لگیں کہ آسمان پر اتنے تارے بھی نہ ہوںگے۔ خصوصاً دارالخلافہ میں (دربار اکبری ص۷۶) فتح پور میں خلیفۃ المسلمین یہیں رہتا تھا۔ اس لئے دارالخلافت سے آزاد صاحب کی مراد دارالحکومت سمجھنی چاہئے۔ آسمان کے ستاروں کے ساتھ تشبیہ دینے سے آزاد صاحب کی غرض ایک تو اظہار کثرت تھی۔ دوسرے شاید یہ بھی مقصد ہوکہ اکبری دور کی رنڈیاں کوئی تھرڈ کلاس عورتیں نہیں تھیں۔ بلکہ یہ عشوہ فروش جھلملاتے تاروں کی طرح منور ودرخشاں تھیں اور یہ کہ جس طرح ستارے آسمان کی زیبائش کا باعث ہیں۔ اس طرح یہ رنڈیاں اکبری دور حکومت کی زینت وآرائش تھیں۔ میرے خیال میں یہ لکھتے وقت آزاد صاحب کے منہ سے محبت وشیفتگی کی رال ٹپک پڑی ہوگی اور دل سے آرزوے دید کے چشمے پھوٹ پڑے ہوںگے۔ کاش حسرت نصیب آزاد صاحب اپنی تاریخ ولادت سے تین صدیاں پیشتر عالم شہود میں آجاتے۔ تاکہ انہیں اکبری عہد حکومت کے اس خوان یغما سے سعادت اندوز حلاوت ہونے کا موقع مل سکتا۔ الغرض شہر فتح پور سے باہر ایک بازار تعمیر کر کے اس میں رنڈیاں بٹھائی گئیں اور اس چکلہ کا نام شیطان پورہ رکھا گیا۔ اس اہتمام کے لئے ایک داروغہ متعین کیاگیا تاکہ جو کوئی ان سے صحبت کرے یا ان میں سے کسی کو اپنے مکان پر لے جائے اپنا نام درج کرادے۔ اگر کوئی اچھوتی اور مرد نارسیدہ رنڈی چکلے میں داخل ہوتی تھی اور اس کا خواستگار مقربان بارگاہ میں سے کوئی رئیس ہوتا تھا تو اس کے لئے داروغہ کو براہ راست بادشاہ سے اجازت لینی پڑتی تھی۔ ڈاڑھی منڈانا بھی شریعت اکبری کا ایک مؤکد حکم تھا۔ ریش تراشی کی تمسخر انگیز دلیل یہ پیش کی گئی کہ ڈاڑھی خصیوں کی رطوبت جذب کر لیتی ہے اور اس طرح قوت مردانگی کمزور ہوجاتی ہے۔ عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں کہ ابتداء ملازمت میں حکیم ابوالفتح نے میری ڈاڑھی مقدار معہودہ سے چھوٹی دیکھی تو ابوالغیث بخاری کی موجودگی میں مجھ سے کہنے لگا کہ تمہارے لئے ڈاڑھی کا کم کرانا کسی طرح مناسب نہ تھا۔ میں نے کہا کہ حجام نے غلطی سے زیادہ کاٹ دی ہے۔ کہنے لگا اچھا آئندہ کبھی ایسا نہ کرنا کیونکہ نہایت نازیبا حرکت ہے اور چہرہ بدنما ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد خود اس ناصح نے اکبری احکام کے ماتحت ڈاڑھی بالکل صفا چٹ کرادی۔
دین اکبری میں خنزیر کی طرف دیکھنا عبادت تھا
دین اکبری میں کتا اور خنزیر دونوں جانور حلال وطیب تھے۔ یہ جانور حرم سلطانی میں اور
شاہی محل کے نیچے بندھے رہتے۔ ہر صبح ان کی طرف دیکھنا عبادت تھا۔ واقعی یہ لوگ اسی قابل تھے کہ علی الصباح ان کی پہلی نظر کتے اور خنزیر پر پڑتی۔ ہنود نے اکبر بادشاہ کو یقین دلایا تھا کہ خنزیر بھی ایک اوتار ہے اور وہ ان دس مظاہر میں سے ایک ہے جن میں (معاذ اللہ) ذات باری نے حلول کیا ہے۔ بعض امراء کا یہ معمول تھا کہ اپنے کتوں کو دسترخوان پر اپنے ساتھ کھانا کھلاتے۔ درست ہے
کندہم جنس باہم جنس پرواز
اور عقل وخرد کے بعض دشمن بڑے فخر ومباہات سے کتے کی زبان اپنے منہ میں لے کر چوستے تھے۔ مگر یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ کتے کتوں کا منہ چاٹا ہی کرتے ہیں۔
بگوبا میر کاندر پوست سگ داری وجیفہ ہم
سگ از بیرون درگرود تو ہمکاسہ بگردانش
غسل جنابت کی فرضیت بھی اڑادی گئی۔ اس پر دلیل یہ پیش کی گئی کہ انسان کا خلاصہ نطفۂ منی ہے۔ جو نیکوں اور پاکوں کا تخم آفرنیش ہے۔ یہ بالکل بے معنی بات ہے کہ پیشاب اور پاخانہ سے تو غسل واجب نہ ہو اور منی جیسی لطیف شے کے اخراج سے غسل ضروری ہوجائے۔ بلکہ مناسب تو یہ ہے کہ پہلے غسل کریں۔ اس کے بعد مجامعت میں مشغول ہوں۔ اس کے متعلق معلوم ہو کہ طہارت کی تین قسمیں ہیں۔ ایک تو حدث سے پاک ہونا۔ دوسرے بدن یا کپڑے یا جگہ کی نجاست سے پاکیزگی حاصل کرنا۔ تیسرے بدن پر جو چیزیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان سے طہارت حاصل کرنا جیسے موئے زیر ناف ناخن یا میل کچیل۔ شریعت اسلام نے طہارت کبریٰ یعنی غسل کو تو حدث اکبر یعنی جنابت کے لئے اس بناء پر مقرر کیا کہ جنابت قلیل الوقوع اور کثیر التلوث ہے۔ تاکہ نفس کو ایسی ناپاکی میں مبتلا ہونے کے بعد ایک عمل شاقی یعنی غسل سے تنبیہ ہو جائے اور طہارت صغریٰ یعنی وضو کو حدث اصغر یعنی پیشاب پاخانہ کے لئے مقرر فرمایا۔ کیونکہ وہ کثیر الوقوع اور قلیل التلوث ہے اور اس میں نفس کوفی الجملہ تنبیہ ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں انوار ملکیہ کا ظہور ہوچکا ہو وہ ناپاکی اور طہارت کی روح کو خوب متمیز کرسکتے ہیں۔ ان کے نفوس کو خود بخود اس حالت سے جس کا نام حدث ہے نفرت ہوتی ہے اور اس حالت سے جس کو طہارت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ سرور اور انشراح صدر محسوس ہونے لگتا ہے۔ مجامعت کے بعد غسل ایک ایسا عمل ہے۔ جس پر ملل سابقہ یہود، نصاریٰ، مجوس وغیرہ بھی ہمیشہ سے عمل پیرا چلی آئی ہیں۔ پیشاب اور پاخانہ کا تعلق سارے جسم سے نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ مختص المقام فضلات ہیں۔ اس
لئے ان سے فراغت حاصل کرنے کے بعد انہی دو نجس مقامات کا دھولینا کافی سمجھا گیا۔ مگر مجامعت کا تعلق تمام جسم سے ہے۔ اس لئے حکیم یکتا کی حکمت نوازی اس امر کی مقتضی ہوئی کہ اس کے بعد تمام جسم کو دھویا جائے۔ عضو تناسل جو ایک نجس مقام میں داخل ہوکر کثافت آلود ہو جاتا ہے۔ بظاہر اسی کا دھولینا کافی تھا۔ لیکن اس لحاظ سے کہ فعل جماع میں تمام اعضاء برابر کے شریک ہوکر متأثر ہوتے ہیں۔ غسل ضروری قرار دیاگیا۔ اکبری شرع میں خنزیر اور شیر کا گوشت کھانا مباح تھا۔ اباحت کی علت یہ قرار دی گئی کہ ان کے کھانے سے انسان میں شجاعت پیدا ہوتی ہے؟ لیکن یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ کیونکہ شجاعت وبسالت میں خنزیر خور قومیں دوسروں سے فائق نہیں ہیں۔ دنیا میں چین کے اندر خنزیر سب سے زیادہ کھایا جاتا ہے۔ لیکن انکا شمار دنیا کی پست وکم ہمت اقوام میں ہے۔ لحم خنزیر فساد عقل کا مورث ہے اور اس کا کھانے والا دیوث وبے غیرت ہو جاتا ہے۔ اگر یہ اور بہت سی دوسری مضرتیں جو کتب طب میں مذکور ہیں۔ اس میں موجود نہ ہوتیں تو بھی اس کا کھانا کسی طرح روانہ تھا۔ کیونکہ سور نہایت کثیف جانور ہے۔ اس کو نجاست خوری میں جو شغف وانہماک ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے خون کا ہر قطرہ اور جسم کا ہر عضو نجاست ہی سے نشوونما پاتا ہے اور شیر کا گوشت کھانے والا اس حد تک درشت خو، سنگ دل اور قسی القلب ہوجاتا ہے کہ انجام کار اس میں اور خونخوار بھیڑئیے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
اسلامی عبادات کا تمسخر
اکبر کے شریعت گروں نے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ کی بیٹیوں سے شادی کرنا ممنوع قرار دیا تھا۔ کیونکہ اس سے ان کے زعم میں میلان کم ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ مجوس کے بعض فرقوں میں ماں، بہن، خالہ، پھوپھی جیسی محرمات سے بھی شادی جائز ہے۔ اس کے برعکس ہنود میں دور کے رشتہ داروں سے بھی ازدواجی تعلقات قائم نہیں کئے جاتے۔ لیکن یہ دونوں قومیں افراط سے ہمکنار ہیں۔ صحیح اور معتدل طریقہ وہی ہے جس کی طرف اسلام نے رہنمائی فرمائی ہے۔ چچا، پھوپھی وغیرہ کی بیٹیوں کی طرف یقینا میلان ہوتا ہے اور جن عورتوں کی طرف میلان نہیں ہوتا ان سے شادی کرنے کی خود شریعت حقہ نے ممانعت فرمادی ہے۔ آئین اکبری میں مستطیع مردوں کے لئے سونے چاندی کا زیور اور ریشمین لباس ضروری قرار دیا تھا۔ حالانکہ یہ زنانہ زینت کی چیزیں ہیں۔ عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں کہ میں نے ممالک محروسہ کے اکبری مفتی کو دیکھا کہ اس نے خالص ریشمین لباس پہن رکھا تھا۔ میں نے کہا شاید آپ کو اس کے جواز کی کوئی روایت مل گئی
ہوگی؟ کہنے لگا ہاں جس شہر میں ریشمین لباس رائج ہوجائے وہاں اس کا پہننا مباح ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ مفتی مفت خور کا اپنا دماغی اختراع تھا۔ شریعت محمدی نے مرد کے لئے ریشمین لباس کسی حالت میں جائز نہیں رکھا۔ نماز، روزہ، حج، کو پہلے ہی ساقط کیا جاچکا تھا۔ بدایونی لکھتے ہیں کہ ملا مبارک نام ایک ولدالزنا نے جو ابوالفضل کا شاگرد رشید تھا ایک رسالہ لکھ کر نماز وغیرہ اسلامی عبادات کا تمسخر اڑایا۔ اہل ارتداد میں یہ رسالہ بہت مقبول ہوا اور مؤلف پر تحسین وآفرین کے پھول برسائے گئے۔ ہجری تاریخ برطرف کر دی گئی اور ملوک عجم کی طرح اکبر کی ابتداء جلوس یعنی ۹۶۳ھ سے تاریخ شروع کی گئی۔ زریشیوں (پارسیوں ) کی طرح عیدین سال میں چودہ مقرر کی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی عیدوں کی رونق جاتی رہی۔ البتہ جمعہ کادن بحال رہنے دیا گیا۔ تاکہ ضعیف العمر لوگ جاکر اکبر شاہی خطبہ سن لیا کریں۔ برس اور مہینہ کا نام سال الٰہی اور ماہ الٰہی رکھا گیا۔ مہر پر اس غرض سے ہزار کی تاریخ ثبت کی گئی کہ وہ (معاذ اللہ) انقراض دین متین محمدیﷺ پر دلالت کرے۔ عربی زبان فقہ، تفسیر، حدیث کا پڑھنا پڑھانا اور جاننا عیب میں داخل ہوگیا اور علوم نجوم طب ریاضی شعر گوئی، تاریخ وافسانہ کی ترویج ہوئی۔ عربی زبان کے خاص حروف مثلاً ثاخاعین صاد ضاد طاقاف تلفظ سے برطرف کر دئیے گئے۔ عبداﷲ کو ابداﷲ اور قوم کو کوم تلفظ کیاگیا۔ یہ دشمنان دین شاہنامہ کے دو بیت جنہیں فردوسی طوسی نے بطریق نقل درج کیا ہے۔ اپنے استدلال میں پیش کرتے تھے۔
زشیر شتر خوردن وسوسمار
عرب رابجائے رسید است کار
کہ ملک عجم راکند آرزو
تفوباد برچرخ گرداں تفو
تمام اسلامی عقائد مثلاً نبوت، کلام، رویت، تکلیف وتکوین، حشر ونشرسے تمسخر واستہزاء کیا جاتا اور اگر کوئی مسلمان جواب دینا چاہتا تو اکبری ملاعنہ اسے شکنجۂ عذاب میں کس دیتے تھے۔ پیغمبر خداﷺ کی شان پاک میں دریدہ دہنی کی جاتی تھی۔ ارباب تصنیف خطبۂ کتاب میں حمد الٰہی کے بعد بادشاہ کے لمبے چوڑے القاب لکھتے تھے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ حضرت رسالت پناہﷺ کا اسم گرامی لکھ سکے۔ گومذہب کا مذاق اڑایا جاتا تا۔ تاہم اہل سنت وجماعت کے مقابلہ میں رفض کی تائید کی جاتی تھی۔ اس بناء پر شیعہ غالب اور اہل سنت مغلوب تھے اور عام حالت یہ تھی
کہ اخیار خائف اشرار یمن، مقبول مردود، مردود مقبول، نزدیک دور اور دور نزدیک ہوگئے تھے۔ عامۃ الناس بات بات میں اللہ اکبر کہتے تھے اور تکبیر خالق کردگار کی تکبیر نہیں تھی۔ بلکہ اکبر اکفر کے نام کی تکبیر بلند کی جاتی تھی۔
اہل علم وفضل کا میخواری پر مجبور کیا جانا
مجالس نوروزی میں اکثر علماء وصلحاء، قاضیوں اور مفتیوں کو پکڑ پکڑ کر لاتے اور قدح نوشی پر مجبور کرتے تھے۔ رندوں کی بزم میں مے خوار شراب نوشی کے وقت کہتے تھے کہ میں اس پیالہ کو کوریٔ فقہاء کے ساتھ پیتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اکبری دور الحاد میں لوگوں کا ایمان بھی بہت کچھ کمزور ہوگیا تھا۔ گو سرکاری علماء، اوائل میں جام بادہ کو بحالت مجبوری اور سخت نفرت واستکراہ کے ساتھ منہ سے لگاتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ حالت جاتی رہی۔ چنانچہ ابوالفضل اکبر نامہ میں پینتیسویں جلسوس کے زیر عنوان لکھتا ہے کہ اس مہینہ کے جشن میں شراب کا دور چل رہا تھا۔ میر صدر جہاں مفتی میر عبدالحئی اور میر عدل نے بھی ایک ایک ساغر اڑایا۔ یہ دیکھ کر گیتی خدیو (اکبر) نے یہ شعر پڑھا ؎
دردور پادشاہ خطا بخش وجرم پوش
قاضی قرابہ کش شدو مفتی پیالہ نوش
(اکبر نامہ ج۳ ص۳۸۹)
غرض یہ بھی تاثیر زمانہ کا ایک شعبدہ تھا کہ مولوی کہلانے والے لوگ بھی علی رؤس الاشہاد منہیات ومحرمات کے مرتکب ہوتے تھے۔ لیکن یہ وہ علماء جن کے قدم ہمت دین کی راہ میں استوار تھے وہ اب بھی پہاڑ کی چٹان سے زیادہ مضبوط تھے۔
ابوالفضل کی طرح اس کا باپ مبارک بھی بڑا ملحد وبے دین تھا۔ ایک مرتبہ وہ بادشاہ کے سامنے بیربر سے کہنے لگا کہ جس طرح تمہاری کتابوں میں تحریفات ہیں۔ اسی طرح دین اسلام میں بھی بہت تحریفات ہوچکی ہیں۔ اس لئے اسلام شایان اعتماد نہیں رہا۔ لیکن یہ ناہنجار اتنا نہ سمجھ سکا کہ اگر دین اسلام بھی تحریفات سے ہمکنار ہے تو پھر دنیا میں کوئی مذہب بھی ایسا نہیں رہ جاتا جو بے داغ اور قابل اتباع ہو۔ اکبری ملاحدہ نے اکبر شاہی دین اختراع کیا تھا۔ لیکن ہر ذی ہوش اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ وہ محض فواحشات کا مجموعہ اور بدمعاشیوں کا مصدرو معدن تھا۔ اس سال قاضی جلال الدین ملتانی فتح اللہ خاں بدخشی کے ساتھ جو نہایت متعصب اور بدمذہب رافضی تھا۔ بدیں خیال دکن بھیج دیاگیا کہ وہاں کے حکام کو رفض میں بڑا تعصب وغلو ہے۔ وہ لوگ قاضی جلال
الدین کو انواع عقوبت ورسوائی کے ساتھ قصر ہلاک میں ڈال دیںگے۔ لیکن جب انہیں روافض نے دیکھا کہ قاضی جلال الدین اسلام میں راسخ قدم اور کذابوں کے خلاف کلمۂ حق کے اظہار میں سیف قاطع ہیں تو رفض کو چھوڑ کر ان کے معتقد ہوگئے۔ یہاں تک کہ انہیں مدد معاش کے لئے متعدد گاؤں دئیے اور ان کی خدمت گذاری کو سعادت اور ان کی خاک پاکو سرمہ چشم یقین کرنے لگے۔ اکبری دین میں دوسرے فواحش کی طرح جوا بھی حلال تھا۔ دربار میں ایک قمار خانہ قائم کیاگیا اور قمار بازوں کو خزانۂ عامرہ سے سود پر روپیہ قرض دیاجاتا تھا۔ شیخ تاج الدین نام ایک مبتدع کو اہل تصوف کے شطحیات پر بڑا عبور تھا۔ بادشاہ کو اس کا حال معلوم ہوا۔ اس کو بلا بھیجا رات کو اس سے شطحیات سنا کرتا۔ اسی طرح مسئلہ وحدت وجود جو عوام الناس کو اباحت والحاد کی طرف لے جاتا ہے۔ درمیان میں لایاگیا اور اس سے ملحدانہ استدلال کئے جانے لگے اور لطف یہ کہ گم کردگان راہ ان خرافات وکفریات کو دین الٰہی کے نام سے موسوم کرتے تھے ؎
برعکس نہند نام زنگی کافور
لاہور میں خنزیروں کی لڑائی
اکبر نے منادی کرادی تھی کہ کوئی مسلمان پندرہ سال کی عمر سے پہلے اپنے بیٹے کا ختنہ نہ کرے۔ تاکہ اس عمر پر پہنچ کر وہ اپنے لئے جس دین کو چاہے پسند کر لے۔ پادری پییرٔے کا بیان ہے کہ اکبر بادشاہ نے ۳؍ستمبر ۱۵۹۵ء کو پادری پنہیرو کے نام ایک خط لاہور سے بھیجا جس میں لکھا کہ میں نے اس ملک میں اسلام کا نام نشان نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ لاہور میں ایک بھی ایسی مسجد نہیں رہی۔ جسے مسلمان استعمال کر سکیں۔ تمام مسجدیں میرے حکم سے اصطبل اور گودام بنادی گئی ہیں۔ اکبر بادشاہ فتح کشمیر کے بعد لاہور چلا آیا تھا اور سالہا سال یہیں رہ کر فتنۂ انگیزیوں میں مصروف رہا۔ پادری پیئرے لکھتا ہے کہ لاہور میں جمعہ کے دن جو مسلمانوں کا متبرک دن ہے اکبر کے سامنے چالیس پچاس خنزیر لاکر باہم لڑائے جاتے تھے۔ اس نے ان کے اگلے دانتوں پر سونے کے پترے چڑھوا رکھے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سوروں کی لڑائی کا مقصد محض اسلام کی تحقیر تھی۔ کیونکہ مسلمان خنزیر کو نہایت ناپاک سمجھتے ہیں۔
(اکبر اینڈ دی جینرٹس مطبوعہ پلائی ماؤتھ ص۶۷)
یہ بدنصیب جس قعر ہلاک میں خود پڑا تھا دوسروں کو بھی اسی ورطہ میں ڈالنا چاہتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ اکبر اور اس کے ندیم قطب الدین خاں اور شہباز خاں سے جو اعلیٰ عہدہ دار تھے کہنے لگے کہ دین اسلام کی تقلید چھوڑ دو۔ انہوں نے اس سے انکار کیا۔ قطب الدین خاں اکبر سے کہنے لگا کہ دوسرے ملکوں کے بادشاہ مثلاً سلطان روم وغیرہ جو دین اسلام کے عاشق زار ہیں۔ یہ
باتیں سنیں گے تو کیا کہیںگے۔ اکبر کہنے لگا کہ تو سلطان روم کا نمائندہ بن کر اس کی طرف سے ہمیں دھمکی دیتا ہے؟ اور معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں سے جاکر سلطان کے پاس کوئی عہدہ حاصل کر لوگے۔ اگر یہی خیال ہے تو اچھا وہیں چلے جاؤ۔ جب شہباز خاں کو دین اسلام سے دست بردار ہونے کی ترغیب دی گئی تو وہ بڑا بگڑا۔ بیربر لعین دین حنیف کے خلاف زبان طعن دراز کرنے اور علانیہ گالیاں دینے لگا۔ شہباز خاں کی رگ غیرت جوش میں آگئی اور ڈانٹ کر کہا اے کافر ملعون! تو بھی اسلام کو مطعون کرنے کا منہ رکھتا ہے؟ اچھا ہم تجھے سمجھ لیںگے۔ غرض دربار میں بہت ہلچل مچی اور تو تو میں میں ہوئی۔ اکبر شہباز خاں سے بالخصوص اور دوسروں سے بطریق اجمال کہنے لگا کہ میں ابھی حکم دیتا ہوں کہ نجاست بھری جوتی لاکر تمہارے منہ پر ماریں۔ یہ سن کر قطب الدین خاں اور شہباز خاں دربار سے چلے آئے۔ ایک مرتبہ اعظم خاں جو خان اعظم کے لقب سے مشہور تھا۔ گجرات سے فتح پور آیا اور یہ دیکھ کر کہ دربار اکبری کا مذہبی زمین وآسمان ہی کچھ سے کچھ ہوگیا ہے۔ اسے سخت حیرت ہوئی۔ آخر اس سے نہ رہا گیا۔ اہل دربار کے مارقانہ اقوال وافعال پر بے تحاشہ اعتراض کر کے صدق گوئی اور نہی ومنکر کا حق ادا کیا۔ اکبر کو یہ مداخلت سخت ناگوار ہوئی۔ حکم دیا کہ خان اعظم اتنے دن تک کورنش کے لئے نہ آئے اوراس پر اس غرض سے چوکیدار مقرر کر دئیے کہ عماید سلطنت میں سے کوئی اس شخص سے ملاقات نہ کرے۔ اس کے بعد محض اس جرم میں کہ کلمۂ حق زبان پر لایا۔ معزول کر کے اسے آگرہ بھیج دیا۔ وہ بیچارہ دنیا سے الگ تھلگ ہوکر اپنے باغ کے ایک زاویہ تنہائی میں جابیٹھا۔ غرض اس سیل الحاد میں کشتی شکستگان اسلام کا ملجا ومادی بجز ذات رب العالمین کے اور کوئی نہ تھا۔
اکبر کے مرید
اکبر نے مشائخ طریقت کے نام فرمان جاری کیا کہ کوئی شخص کسی سے بیعت نہ لے اور اگر کسی کی نسبت معلوم ہوتا کہ وہ پیری مریدی کرتا ہے یا اس کے ہاں مجلس سماع قائم ہوتی ہے تو گرفتار کر کے قید خانہ میں ڈال دیا جاتا یا بنگالہ کی طرف جو اس زمانہ میں کالے پانی کا حکم رکھتا تھا جلاوطن کر دیا جاتا۔ مشائخ کی جگہ بادشاہ لوگوں سے خود بیعت لینے لگا۔ اکبر کے مرید جو چیلے کہلاتے تھے ترک چہارگانہ کا اقرار کرتے تھے۔ ترک مال، ترک جان، ترک ناموس، ترک دین جو شخص صفات چہارگانہ سے متصف ہوتا تھا وہ اعلیٰ درجہ کا مکمل مرید خیال کیا جاتا تھا اور جس میں ایک یا دو یا تین صفات ہوتے تھے وہ چوتھائی آدھا یا پون مرید ہوتا تھا۔ بیربر کا دعویٰ تھا کہ میں
صفات چہار گانہ کا حامل اور پورا مرید ہوں۔ لیکن اس کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ بہن بیٹی تک سے بھی درگزر نہیں کرتا تھا۔ بارہ بارہ آدمیوں کی ٹولی آکر اکبر کے ہاتھ پر بیعت کرتی تھی۔ بعض مشائخ طریقت میں شجرہ کارواج ہے۔ اکبر شجرہ کی جگہ مریدوں کو اپنی تصویر دیتا تھا۔ اس تصویر کا پاس اور زیر زیارت رکھنا بہت کچھ رشد وسعادت اور ترقی اقبال کا ذریعہ خیال کیا جاتا تھا۔ مرید اس تصویر کو ایک غلاف میں لپیٹ کر جو جواہر سے مرصع ہوتا تھا عمامہ کے اوپر ڈالے رہتے تھے۔ اکبر نے اسلامی سلام کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ سلام کی جگہ معمول تھا کہ جب اکبری مرید آپس میں ملاقات کرتے تو ان میں سے ایک اللہ اکبر کہتا دوسرا اس کے جواب میں جل جلالہ پکارتا۔ یہ لوگ جس وقت اور جہاں کہیں اکبر کو دیکھتے سربسجود ہو جاتے اور صرف انہی ارادت مندوں پر موقوف نہیں۔ رعایا میں سے ہر شخص سجدہ کامامورتھا۔ سجدہ کو یہ لوگ زمین بوس کہتے تھے۔ رعایا کو سجدہ پر سخت مجبور کیا جاتا تھا۔ حالانکہ یہ دنیا کے خالق ورازق اور احکم الحاکمین کا اصل حق ہے۔ اسلام نے مساوات کا جو اصول قائم کیا ہے۔ اس کے رو سے بادشاہ ورعایا امیر وغریب اعلیٰ وادنیٰ سب کا ایک درجہ ہے۔ لیکن اکبر کے دربار میں بجز طریقہ عبودیت کے کوئی شخص کچھ عرض معروض نہیں کرسکتا تھا۔ شعراء اکبر کی مدح وتوصیف کہہ کر لاتے تھے اور اسے خدائے واحد کا ہمسر بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا جاتا تھا۔ اکبر ان لوگوں کو اپنی آنکھوں پر بٹھاتا تھا۔ جو اسے خدائے برتر کا مظہر بتاتے یا دین حنیف سے اظہار برأۃ کرتے تھے۔ انجام کار ارتداد وبے دینی نے یہاں تک خوفناک صورت اختیار کر لی کہ بہت سے اہل ارتداد جیسے مرزاجانی حاکم ٹھٹھہ اور دوسرے اعداء اللہ نے اس مضمون کے خطوط لکھ کر اکبر کے پاس بھیج دئیے کہ میں جو فلاں بن فلاں بن فلاں ہوں۔ طوع ورغبت اور شوق قلبی کے ساتھ دین اسلام سے کہ مجازی اور تقلیدی ہے اور اپنے آباء واجداد سے حاصل کیا تھا۔ اظہار بیزاری کرتا ہوں اور اس سے کلیۃً منقطع ہوکر دین الٰہی اکبر شاہی میں داخل ہوتا ہوں اور اخلاص کے چہارگانہ مراتب ترک مال، ترک جان، ترک ناموس، ترک دین کو قبول کرتا ہوں۔ اس مضمون کے لعنت نامے جن لوگوں نے لکھ کر مجتہد جدید اکبر کو دئیے تھے وہ دربار اکبری میں بڑے معزز ومحترم تھے۔
اکبر کا سب سے بڑا مرید
اکبر کا سب سے بڑا مرید جو فی الحقیقت اس کا گرو تھا۔ ابوالفضل تھا۔ ابوالفضل کا باپ شیخ مبارک ابتدائً سندھ سے نقل مکان کر کے ناگور چلا آیا تھا۔ جو اجمیر سے شمال مغرب میں واقع
ہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد مبارک نے دریائے جمنا کے بائیں کنارے جاکر آگرہ کے بالمقابل بود وباش اختیار کر لی تھی۔ اس کے دونوں بیٹے فیضی اور ابوالفضل یہیں پیدا ہوئے تھے۔ مبارک مذہباً مہدوی تھا۔ یعنی سید محمد جونپوری کو مہدی موعود مانتا تھا۔ فیضی ۵۷۵ھ میں دربار اکبری میں پہنچ کر سلک امراء میں منسلک ہوا۔ اس کے سات سال بعد یعنی ۹۸۲ھ میں فیضی کی سعی وسفارش سے اس کا چھوٹا بھائی ابوالفضل بھی درباریوں میں آشامل ہوا۔ یہی ابولفضل اکبر کا گمراہ کنندہ تھا۔ بدایونی لکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ ابوالفضل سے راستہ میں میری ملاقات ہوئی۔میں نے پوچھا کہ ادیان وملل عالم میں سے کس دین ملت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہے۔ کہنے لگا میری خواہش ہے کہ کچھ عرصہ وادیٔ الحاد کی سیروسیاحت کروں۔ میں نے کہا اگر عقدمناکحت کی قید برطرف کر دو تو کیا مضائقہ ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے ؎
برداشت غل شرع بتائید ایزدی
از گردن زمانہ علیٰ ذکرہ السلام
یہ سن کر ہنس دیا اور جواب دیئے بغیر چلا گیا۔ جس طرح ابو الفضل کے دل میں اہل ایمان کے خلاف غبار کدورت بھرا تھا۔ اسی طرح ارباب ایمان کو بھی اس سے بڑی نفرت تھی۔ چنانچہ حکیم الملک، ابوالفضل کو فضلہ کہا کرتا تھا۔ اکبر کو معلوم ہوا تو اس نے حکیم الملک کے لئے جلاوطن کا حکم دیا۔ بیچارے بری طرح نکالے گئے۔ گو ابولفضل پیروان مذاہب کو اچھا نہیں جانتا تھا۔ لیکن چونکہ اہل سنت وجماعت کا بغض اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اہل سنت کے مقابلہ میں ہر باطل مذہب کی تائید ضروری خیال کرتا تھا۔ ملا احمد نام ایک رافضی ابوالفضل کے متوسلین میں سے تھا۔ جو ابوالفضل کی شہ پر صحابہ کرامؓ کو علی رؤس الاشہاد گالیاں دیتا تھا۔ ایک مرتبہ اکبر لاہور آیا ہوا تھا۔ ملا احمد صحابہ کرامؓ کے خلاف سب وشتم کی غلاظت اچھالنے لگا۔ ایک غیور مسلمان مرزا فولاد بیگ برلاس نے اس کو کسی بہانہ سے بلا کر عفریت شمشیر کے حوالے کر دیا۔ اس واقعہ کی دو تاریخیں نکالی گئیں۔ ایک یہ تھی، ان زہے خنجر فولاد۔ دوسری یہ تھی خوک سقری۔ بدایونی لکھتے ہیں کہ وہ کتا کئی دن تک حالت نزع میں دم توڑ تا رہا۔ اس اثناء میں اس کا چہرہ مسخ ہوکر سؤر کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ بہت لوگوں نے اس کو اس حالت میں دیکھا۔ میں بھی گیا تو اسے خنزیر کی شکل میں پایا۔ اکبر بادشاہ نے حکم دیا کہ مرزا فولاد کو ہاتھی کے پاؤں سے باندھ کر شہر میں پھرائیں۔ اس حکم کی تعمیل ہوئی اور مرحوم نے جنت الفردوس کی راہ لی۔ قاتل مقتول سے تین چار روز پہلے
زیرخاک پہنچا۔ ابوالفضل نے اس کی قبر پر محافظ مقرر کر دئیے۔ باایں ہمہ اہل لاہور نے اس کے جسم ناپاک کو قبر سے نکال کر جلادیا۔ بدایونی لکھتے ہیں کہ ابوالفضل نے علماء، صلحاء، ضعفاء، یتامیٰ، مساکین سب پر چرکے لگائے تھے۔ جس کسی کو سرکار کی طرف سے مدد معاش ملتی تھی اور وظائف مقرر تھے۔ سب بند کرا دئیے۔ اکثر یہ رباعی پڑھا کرتا تھا۔ رباعی
آتش بد ودست خویش درخرمن خویش
چوں خود زدہ ام چہ نالم از دشمن خویش
کس دشمن من نیست منم دشمن خویش
اے وائے من دست این ودامن خویش
فصل:۳…ہندو پن کا اظہار اور مشرکانہ رسوم کی پیروی
اپنے اختراعی دین کے علاوہ اکبر بہت سی باتوں میں ہنود کا ہمرنگ وہمنواء تھا۔ ان کے اصول دھرم اپنے مذہب میں داخل کر لئے تھے۔ پرکھو تم نام ایک برہمن دارالسلطنت میں آیا۔ اکبر اس کو خلوت میں لے گیا اور اس سے موجودات کے ہندی نام سیکھے۔ اس طرح ایک برہمن کو جو مہابھارت کا معبرومفسر تھا۔ ایک چارپائی پر بیٹھا کر اوپر کو اٹھوایا اور اپنی خواب گاہ کے پاس معلق رکھ کر اس سے ہندی افسانے سیکھے اور اس سے بت پرستی، آتش پرستی، آفتاب پرستی اور تعظیم کواکب کی تعلیم لی۔ اسی طرح برہما، مہادیو، بشن، کشن، رام وغیرہ دیوتاؤں کی پوجا کرنے کا طریقہ معلوم کیا۔
آفتاب کی پرستش
بیربر نے یہ بات اکبر کے ذہن نشین کی تھی کہ آفتاب مظہر تام ہے۔ غلہ، زراعت، میوہ اور گھاس وغیرہ نباتات اسی کی تاثیر سے پکتی ہیں۔ دنیا کی روشنی واہل عالم کی زندگی اسی سے وابستہ ہے۔ پس آفتاب سب سے زیادہ عبادت کے لائق ہے۔ عبادت کے وقت مغرب رو ہونے کے بجائے مشرق کی طرف منہ کرنا چاہئے۔ اسی طرف آگ، پانی، پتھر، درخت اور گائے اور اس کے گوبر تک جملہ مظاہر کا احترام اور قشقہ اور زنا کی جلوہ گری چاہئے اور بتایا کہ حکماء وفضلاء کے ارشاد کے بموجب آفتاب نیرّ اعظم، تمام عالم کا عطیہ بخش اور بادشاہوں کا مربی ہے۔ ان باتوں کا اکبر کے دل پر بڑا اثر ہوا۔ اس روز سے نوروز جلالی کی تعظیم ہونے لگی۔ اس دن ہر سال بڑا جشن منایا جاتا تھا۔ اکبر اور اس کے پیرو اس دن ایسا لباس پہنتے تھے۔ جو سبع سیارہ میں سے کسی کو کب کی
طرف منسوب تھا۔ آدھی رات اور طلاع آفتاب کے وقت تسخیر آفتاب کی اس دعاء کا ورد کیا جاتا تھا۔ جو اکبر نے برہمنوں سے سیکھی تھی۔ علی الصباح بیداری کے بعدشرق رویہ کھڑکیوں میں جابیٹھتا تھا کہ پہلے آفتاب کے درشن ہوں۔ حکم دیا تھا کہ تعظیم آفتاب کے لئے مردوں کو قبر میں شرق رویہ رکھیں۔ سلطان خواجہ جو اکبر کے خاص الخاص مریدوں میں سے تھا۔ اس کی قبر ایک خاص وضع پر بنائی گئی اور لاش کو بدیں خیال نیرّ اعظم کے مقابلہ میں رکھا گیا کہ اس کی روشنی جوگنا ہوں کو محو کرتی ہے۔ ہر صبح جسم پر پڑتی رہے۔ کہتے ہیں کہ جب سلطان خواجہ کو قبر میں لٹا چکے تو اس کے منہ پر آگ کا شعلہ بھی پھرایا گیا تھا۔ شاید اس کا یہ مقصد ہوگا کہ آگ ان گناہوں کو جھلس دے جو منہ نے کئے۔ جب اکبر کے پیروؤں کے سامنے آفتاب کا ذکر آتا تھا تو یہ گم کردگان راہ جلت عظمتہ وعزشانہ کہہ اٹھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آفتاب کو خالق کون ومکان یا کم ازکم خالق بیچون کا مظہر گمان کرتے تھے۔ جس طرح ہم لوگ باقاعدہ پانچ وقت خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں۔ اسی طرح دین اکبری کے پیرو روزانہ چار مرتبہ آفتاب کی پوجا پاٹ میں مصروف رہتے تھے۔ یہ چار اوقات یہ تھے۔ سحر، دوپہر، شام اور نیم شب۔ آفتاب کے ایک ہزار ایک ہندی نام دوپہر کے وقت بحضور قلب پڑھے جاتے تھے۔ طریق عبادت یہ تھا کہ دونوں کانوں کو پکڑ کر تھوڑا سا ہینٹھتے تھے۔ پھر بناگوش کومٹھیوں سے آہستہ آہتہ کوٹتے تھے۔ عبادت کے وقت اسی قسم کی بعض اور تمسخر انگیز حرکتیں بھی ان سے ظاہر ہوتی تھیں۔ اکبر اور اس کا ہر چیلا ڈاڑھی منڈاتا اور قدامت پسند ہنود کی طرح پیشانی پر قشقہ لگاتا تھا۔ بھدرا کا بھی پابند تھا۔ محمد حسین صاحب آزاد لکھتے ہیں کہ مریم مکانی بادشاہ کی والدہ مرگئیں۔ امرائے دربار وغیرہ پندرہ ہزار آدمی نے بادشاہ کے ساتھ بھدرا کیا۔ انا یعنی خان اعظم مرزاعزیز کا کلتاش خاں کی ماں مرگئی۔ اس کا بڑا ادب تھا اور نہایت خاطر کرتے تھے۔ خود (اکبر) اور خان اعظم نے بھدرا کیا۔ خبر پہنچی کہ لوگ بھی بھدرہ کروارہے ہیں۔ کہلا بھیجا کہ اوروں کو کیا ضرورت ہے۔ اتنی دیر میں چارسو سر اور منہ صفا چٹ ہوگئے۔
(دربار اکبری ص۸۰)
کاش آزاد صاحب اس وقت فتح پور میں موجود ہوتے اور یہیں محبوب حقیقی اکبر شاہ کے ساتھ بھدرا کرانے کا شرف حاصل ہوسکتا۔ مگر عجب نہیں کہ آزاد صاحب نے اس واقعہ کی یاد میں یہیں لاہور بیٹھے بٹھائے بھدرا کرالیا ہو اور منہ صفاچٹ۔ ہونے کی سعادت تین صدیاں بعد ہی حاصل کر لی ہو۔ آٹھ پہر میں دو مرتبہ نقارہ بجایا جاتا تھا۔ ایک نصف شب میں اور دوسرا طلوع
آفتاب کے وقت مسجدوں اور صعومعوں پر ہندو قابض ومتصرف ہوگئے۔ مساجد میں نماز باجماعت کی جگہ جماع ہوتا تھا۔ جمعہ کے روز جو مضحکہ خیز اذان دی جاتی تھی۔ میں حی علی الصلوٰۃ، حی علیٰ الفلاح کا مذاق اڑانے کے لئے حی علیٰ یللا تللا کہا جاتا تھا۔ اکبر کے چیلے آفتاب کی عبادت کے وقت جب تک جھروکہ میں سے بادشاہ کا چہرہ نہیں دیکھ لیتے تھے مسواک نہیں کرتے تھے اور ہاتھ منہ نہیں دھوتے تھے۔ اس وقت تک پانی اور ناشتہ بھی ان پر حرام تھا۔ ہر کس وناکس کو بارعام تھا کہ وہ بادشاہ کے درشن کے انتظار میں جمع ہو۔ جونہی اکبر نیراعظم کے ہزار اور ایک نام پڑھنے کے بعد برآمد ہوتا۔ تمام لوگ سربسجود ہوجاتے۔ برہمنوں نے اکبر کے بھی ہزار اور ایک نام مدون کر دئیے تھے۔ یہ لوگ اپنے اسلام کی زبانی ہندی شعر پڑھ پڑھ کر اکبر کو سناتے تھے اور ان کا مطلب یہ بتاتے تھے کہ ہندوستان میں ایک عظیم القدر بادشاہ پیدا ہوگا۔ جو برہمنوں کا احترام اور گائے کی محافظت کرے گا اور معمورۂ عالم کو عدل وانصاف سے بھر دے گا۔ بادشاہ بالکل جاہل وناخواندہ تھا۔ وہ بوسیدہ وکرم خوردہ کتابیں لالاکر اسے دکھاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارے بزرگ ان کتابوں میں آپ کی تعریف لکھ گئے ہیں۔ یہ سن کر اکبر کی باچھیں کھل جاتی تھیں۔ اکبر برہمنوں کی تعلیم سے متأثر ہوکر قیامت کا منکر ہوگیا تھا۔ برہمنوں نے اسے یقین دلایا تھا کہ اضمحلال بدن کے بعد طریق تناسخ کے بغیر روح کی بقاء بالکل محال ہے۔
تناسخ کا عقیدہ
جب محرم ۹۹۰ھ میں اعظم خان بنگالہ سے فتح پور وارد ہوا تو اکبر اس سے کہنے لگا کہ ہمیں حقیقت تناسخ کے قطعی دلائل مل گئے ہیں۔ شیخ ابوالفضل وہ دلائل تمہارے ذہن نشین کرے گا۔ یقین ہے کہ تم ان کو سن کر مطمئن ہو جاؤگے۔ لیکن ابوالفضل اسے مطمئن نہ کر سکا اور حقیقت یہ ہے کہ تناسخ کے جو دلائل آریہ لوگ یا ان کے ہم خیال پیش کیا کرتے ہیں وہ تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہیں۔ اکبر تالو کے بال منڈاتا اور دوسرے حصہ سر کے بال رکھتا تھا۔ برہمنوں کی تعلیم کے بموجب اس کا گمان تھا کہ کاملوں کی روح پیشانی کی راہ سے جو وہم وگمان کی گزرگاہ ہے نکلا کرتی ہے۔ برہمنوں نے اکبر کو بتلایا تھا کہ جب تمہاری روح اس کا لبد سے نکلے گی تو ایک شی شوکت صاحب اقتدار حکمران کے جسم میں داخل کی جائے گی۔ عجب نہیں کہ بندہ بیراگی یا گوروگوبند سنگھ کے جسم میں اسی اکبر اکفر کی روح آگھسی ہو۔ چونکہ جوگی لوگ جوق در جوق آتے رہتے تھے اور اکبر ان کے فیض صحبت سے سعادت اندوز ہوتا تھا۔ اکبر نے ان کے قیام کے لئے ایک محلہ آباد
کرادیا تھا۔ جسے جوگی پورہ کہتے تھے۔ بادشاہ رات کے وقت اپنے چند ندیموں کے ساتھ جوگی پورہ جاتا۔ ان کے پاس بیٹھتا اور ان کے مجہولات حقائق اور مخصوص جوگیانہ اشغال سیکھتا۔ سال میں ایک مرتبہ جوگیوں کا میلہ لگتا۔ جسے سیورات کہتے تھے۔ اکبر ان کے پاس جاکر ہم نوالہ وہم پیالہ ہوتا تھا۔ جوگیوں نے اکبر کو یقین دلایا تھا کہ تم عمر طبعی سے چہار چند عمر پاؤگے۔ اکبر نے اس بشارت کے بعد ان کی تقلید وموافقت کے خیال سے اکل وشرب اور مباشرت میں کمی کر دی تھی۔ خصوصاً گوشت کھانا بالکل چھوڑ دیا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ عمر طبعی اسی سال ہی لی جائے تو اکبر عمر طبعی کو بھی نہ پہنچ سکا۔ کیونکہ وہ ۱۵۴۲ء میں پیدا ہوا تھا اور ۱۶۰۵ء میں مرا۔ اس طرح اس نے کلہم ۶۳سال کی عمر پائی۔ یہ صحیح ہے کہ اکل وشرب اور مباشرت کی تخفیف وتقلیل ایسے اسباب ہیں۔ جن کو قیام صحت بقائے جوانی اور قوت جسمانی میں بہت کچھ دخل ہے۔ لیکن یہ چیزیں عمر کو کسی طرح بڑھا نہیں سکتیں۔ ان دنوں گجرات کاٹھیاواڑ میں نوساری نام ایک شہر پارسیوں کا مذہبی مرکز تھا۔ پارسی لوگ زرتشت (یازردشت) کے پیرو ہیں۔ ان لوگوں کو اکبر کی لامذہبی اور الحاد پسندی کا علم ہوا تو وہ اس کوشش میں فتح پور پہنچے کہ اسے پارسی مذہب کا پیرو بنالیں۔ انہوں نے آکر اسے بتایا کہ دنیا میں دین زرتشت ہی حق ہے اور آگ کی تعظیم بہت بڑی عبادت ہے۔ انہوں نے اکبر کو جوزن قحبہ کی طرح اپنے ہر نئے خواستگار سے تعلق پیدا کر لیتا تھا۔ اپنی طرف مائل کر لیا۔
آتش کدہ کا قیام اور آگ کی پرستش
اکبر نے حکم دیا کہ ملوک عجم (مجوسی حکمرانوں) کی روش کے مطابق آتش کدہ قائم کیا جائے۔ چنانچہ ابوالفضل کے اہتمام میں ایک آتش کدہ جاری کیاگیا۔ جس میں رات دن کے چوبیس گھنٹے بدیں خیال آگ محفوظ رکھی جاتی تھی کہ یہ بھی آیات اللہ میں سے ایک آیت اور انوار خداوندی میں سے ایک نور ہے۔ جب سے ہندو راجاؤں کی لڑکیاں حرم میں آئی تھیں۔ محل میں ہوم کا معمول ہوگیا تھا۔ ہوم سے مراد وہ آتش پرستی ہے جو ہندو طریق عبادت کے بموجب ہو۔ پہلے تو اکبر اور اس کے پیروؤں میں صرف آفتاب پرستی معمول بہا تھی۔ لیکن پارسیوں کی آمد کے بعد آگ کی بھی پرستش ہونے لگے۔ چنانچہ پچیسویں سال جلوس میں ایام نوروز کے اندر آفتاب کی طرح آگ کو بھی علانیہ سجدہ کیاگیا۔ تمام مقربان بارگاہ شمع اور چراغ روشن کرتے وقت تعظیماً سروقد کھڑے ہو جاتے تھے۔ معمول تھا کہ آٹھویں سنبلہ کی عید کے دن تمام اعیان دولت ہنود کی رسم کے بموجب پیشانی پر قشقہ لگا کر قصر شاہی میں جاتے۔ وہاں برہمن موجود ہوتے۔ وہ عماید سلطنت
میں سے ہر ایک کو جواہر دار مالا بطورتبرک عطاء کرتے۔ یہ لوگ نہایت حسن اعتقاد کے ساتھ اس کو ہاتھوں پر لپیٹ لیتے۔ اس کے بعد امراء بھی مروارید اور زرد جواہر برہمنوں کی نذر کرتے۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ ہنود عیسائی، پارسی وغیرہ غیر اسلامی ادیان کے مذہبی سرگردہ جو کچھ بھی کہہ دیتے اسے نص قاطع شمار کیا جاتا۔ لیکن ملت حنیفی کے تمام احکام ان سرگشتگان کوئے ضلال کی نظر میں (معاذ اللہ) نامعقول اور ناقابل اتباع تھے۔ جلوس کے چھتیسویں سال کے آغاز میں اکبر نے اعلان کیاکہ گائے بھینس، گھوڑے اور اونٹ کا گوشت حرام ہے۔ کوئی شخص قصاب کے ساتھ کھانا نہ کھائے۔ جو شخص کسی قصاب کے ساتھ کھانا تناول کرے گا اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور اگر قصاب کی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ کھانا کھائے گی تو اس کا انگوٹھا قطع کیا جائے گا۔ یہ بھی اعلان ہوا کہ اتوار کے دن مطلقاً کوئی جانور ذبح نہ ہو۔ ماہ آبان کے اٹھارہ دن اور ہنود کے خاص خاص دنوں میں ممالک محروسہ کے اندر جانور ذبح کرنے کی خاص طور پر ممانعت کی گئی۔ جو کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرتا اس کو عبرت ناک سزا دی جاتی اور اس کا خانماں برباد کر دیا جاتا۔ اکبر نے خود ایک سال تک گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ بتدریج گوشت سے دست بردار ہو جائے۔ اصل یہ ہے کہ بڑے بڑے ہندو راجاؤں کی لڑکیاں جو قصر شاہی کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ اکبر کے مزاج پر حاوی ہوگئی تھیں۔ انہیں گاؤ خوار وریش دار مرد سے سخت نفرت تھی۔ اس لئے ان کے پاس خاطر سے نہ صرف ان چیزوں سے پرہیز کرتا تھا۔ بلکہ ان کی خوشنودیٔ طبع کی خاطر ہنود کے رسم ورواج کا پابند ہوگیا تھا۔ اس جذبہ نے یہاں تک افسوسناک حالت اختیار کر لی تھی کہ محمد، احمد مصطفی اور اس قسم کے دوسرے اسماء گرامی بیرونی ہندووں اور اندرونی اہل حرم کی رعایت سے قابل نفرت ہوگئے تھے۔ مقربان بارگاہ میں سے جن جن لوگوں کے نام اس وضع کے تھے۔ ان کو بدل دیا گیا۔ مثلاً محمد امین کو امین الدین، یار محمد خاں کو یار خاں، اور محمد خاں کو رحمت خاں لکھتے اور بولتے تھے۔ واقعی یہ لوگ اس قابل نہ تھے کہ ان مقدس ناموں سے موسوم ہوتے۔ اچھا ہوا کہ جواہر دلآلی نجاست کی آلودگی سے پاک ہوگئے۔ خنزیر کی گردن میں بیش بہا جواہر کا لٹکانا انتہا درجہ کا ستم ہے۔ یہ بھی حکم تھا کہ ہندو عورت کو مسلمان ہونے سے روکا جائے اور اگر مسلمان ہو جائے تو اسے جبراً وقہراً اس کے ہندو اقرباء کے حوالے کیا جائے۔ اکبر نے جو ہندو پنتھ کی پیروی اور ہندو نوازی کا مسلک اختیار کیا ظاہر ہے کہ اس کے سایہ حمایت ہندوؤں کے تسلط واقتدار اور جوروستم کا مقیاس الحرارت کس درجہ تک پہنچ گیا ہوگا۔ ملک کے پچانوے فی صدی تجارت پہلے ہی ہندوؤں کے ہاتھ میں
تھی۔ اکبر نے انہیں باقی ماندہ پانچ فی صدی بھی حاوی کر دیا۔ ضروریات لشکر کی فراہمی سب ہنود کے ہاتھ میں تھی۔ دوسری سرکاری ضروریات کے بھی ہندو ہی اجارہ دار تھے۔ فرش فروش، سواریاں دربار اور قصر شاہی کے سامان آرائش سب ہندوانے تھے۔ غرض اس نے ہندوانی ریت رسول کا رنگ دے کر ہر چیز کو ہندو بنادیا۔
فصل:۴…دعوائے نبوت ومہدویت اور علماء پر تشدد
اکبر پختہ مغزی کے جوہر سے بالکل عاری تھا۔ جس طرح سرخ کپڑا بیل کو غضبناک کر دیتا ہے۔ اسی طرح کلمۂ حق اس کو ازخود رفتہ اور مغلوب الغضب کر دیتا تھا۔ ایک طویل پر شکوہ فرماں روائی اور تملق شعار مصاحبوں کی خوشامدوں نے اس کا دماغ نشۂ باطل سے معطل اور اس کے جذبات ہیجان خود پرستی سے مجنونانہ کر دئیے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اہل حق میں سے کوئی شخص اس کو دینداری اور توجہ الیٰ اللہ کی ترغیب دینے کا حوصلہ کر بیٹھتا تھا تو یہ عالم غیظ میں نہایت وحشیانہ طریق پر ناصح سے انتقام لیتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ شیخ عبدالنبی نے جن کی نسبت ابوالفضل نے اکبر نامہ میں لکھا ہے: ’’وشیخ عبدالنبی صدر کہ کوس شیخ السالامی بنام اومی زوند۔‘‘
(اکبر نامہ ج۳ ص۱۴۰، مطبوعہ نولکشور)
اور خود اکبر کسی زمانہ میں ان کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سیدھی کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کلمۂ حق اکبر سے کہہ دیا۔ مغلوب الغضب درندے کی طرح شیخ پر جھپٹ پڑا اور سردربار اس زور سے ان کے چہرے پر گھونسے اور مکے مارنے شروع کر دئیے کہ ان کا برا حال کر دیا۔ آخر شیخ عبدالنبی کہنے لگے کہ اس فضیحت سے تو بہت ہے کہ چھری لے کر مجھے ذبح کر ڈالو۔ خدائے احکم الحاکمین دنیاوی حکام کو اس لئے حکومت سپرد کرتا ہے کہ وہ اس کی مخلوق کو اپنے ظل عاطفت میں جگہ دیں۔ لیکن اس کینہ جوبھیڑئیے نے اسی جفا کاری پراکتفانہ کیا۔ بلکہ سالہا سال پیشتر جو رقم حج کے لئے دی تھی نہایت خساست کے ساتھ اس کا حساب مانگنے لگا۔ آخر قید کر دئیے تھے اور ایک رات قیدخانہ میں گلا گھونٹ کر ان کو قید زندگی سے آزاد کر دیا گیا۔
اکبر کی خوشامد پسندی
الغرض یہ کم حوصلہ بادشاہ سچی بات سن کر آپے سے باہر ہو جاتا تھا۔ البتہ فخار اور خوشامد پسند انتہاء درجہ کا تھا۔ اس لئے خوشامدی اہل کار اس کی خوشنودیٔ خاطر کے لئے اسے ہر وقت آسمان رفعت پر چڑھا چڑھا کر بیوقوف بناتے رہتے تھے اور یہ کوڑ مغز خوشامد کو حق الیقین جان کر
اسی پر عمل درآمد شروع کر دیتا تھا۔ چنانچہ بعض عالم نما جہلا نے اکبر سے کہا کہ صاحب زمان مہدی علیہ السلام جو ہندو مسلمان کے اختلاف وانشقاق کو مٹانے کے لئے دنیا میں مبعوث ہونے والے تھے۔ وہ حضرت ہی کی ذات گرامی ہے تو اس پر یقین کر بیٹھا۔ ایک شخص شریف نام نے جو برعکس نہند نام زنگی کافور کا مصداق تھا۔ محمود بسخوانی کے رسائل سے استشہاد کرتے ہوئے اکبر سے کہا کہ ان میں صاف لکھا ہے کہ ۹۹۰ھ میں باطل کا مٹانے والا ظاہر ہوگا۔ چنانچہ شریف نے جو الفاظ پیش کئے ان سے بحساب جمل نوسونوے عدد نکلتے تھے۔ یہ سن کر اکبر کے دل کا کنول کھل گیا اوراس کو انعام واکرام سے بہت کچھ نوازا۔ اسی طرح خواجہ شیرازی لقب ایک جفردان ملحد کہیں سے ایک رسالہ لے آیا اور کہا کہ احادیث صحیحہ کے بموجب ایام دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور چونکہ یہ مدت گذر چکی ہے۔ اس لئے اب حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے ظاہر ہونے کا وقت ہے۔ یہ سن کر اکبر بہت خوش ہوا اور اس کو انعام وبخشش سے مالا مال کر دیا۔ لیکن یاد رہے کہ کسی صحیح حدیث میں مذکور نہیں کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے۔ بلکہ یہ محض اسرائیلی دھکوسلہ ہے۔ شریف نے اکبر کے مہدی موعود ہونے کے موضوع پر ایک رسالہ بھی لکھ مارا۔ شیعوں نے بھی اسی قسم کے بعض خرافات امیر المؤمنین علیؓ سے نقل کر کے اکبر کومہدی بنانے کی کوشش کی۔ بعض لوگوں کی زبان پر یہ رباعی تھی جو حکیم ناصر خسرو کی طرف منسوب ہے۔
ورنہ صد وہشتاد ونہ از حکم قضا
آیند کواکب از جوانب یک جا
درسال اسد ماہ اسد روز اسد
از پردہ بروں خرامدآن شیر خدا
حکیم ناصر خسرو کی یہ رباعی بھی دام افتادگان الحاد کے ورد زبان تھی۔
ورنہ صد وتسعین دوقران می بینم
وزمہدی ودجال نشاں مے بینم
یا ملک بدل گرد دیا گردد دین
سرّے کہ نہاں است عیاں می بینم
کثیر التعداد عورتوں والا مہدیٔ کذاب
محمد شاہ رنگیلے کا نام بوجہ کثرت مے خوری بدنام ہے۔ لیکن میرے نزدیک اکبر اس سے
زیادہ عیاش تھا۔ کتاب ’’اکبر اینڈ دی جینرٹس‘‘ میں لکھا ہے کہ اکبر کی محل سرا میں قریباً سوحرمیں تھیں۔ یہ تو وہ عورتیں ہیں جو باقاعدہ حرم میں داخل تھیں۔ لیکن ان لڑکیوں کا تو شاید کوئی شمار ہی نہ ہوگا۔ جن سے اکبر شیعی اصول کے ماتحت متعہ کرتا رہتا تھا۔ بدایونی لکھتے ہیں کہ عبدالواسع نام ایک شخص کی بیوی حسن وجمال میں بے عدیل تھی۔ اکبر کی اس پر نظر پڑ گئی۔ لٹو ہوگیا۔ عبدالواسع کے پاس پیغام بھیجا کہ اپنی عورت کو طلاق دے دے۔ اس بیچارے نے طلاق دے دی۔ یہ عفیفہ حرم شاہی میں داخل کر لی گئی۔ ایک مرتبہ اکبر دہلی آیا اور دائیوں اور خواجہ سراؤں کو اس غرض سے محلوں میں پھیلا دیا کہ گھروں میں پھر کر صاحب جمال باکرہ لڑکیوں کا پتہ لگائیں۔ بدایونی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ سے شہر میں ہلڑ مچ گیا اور لوگوں پر ہول عظیم طاری ہوا۔ خدا جانے کتنے بیگناہوں پر کیا کچھ آفتیں ڈھائی گئیں ہوںگی اور لوگوں کی عزت وعصمت اور ناموس پر کیا کچھ گذری ہوگی؟ جن ایام میں اکبر کو مہدی بنانے کی کوشش ہورہی تھی۔ ایک دنیا طلب خوشامدی نے کہیں سے حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ کا کوئی پرانا کرم خوردہ رسالہ حاصل کر کے اس پر بخط مجہول لکھ لیا کہ صاحب زمان مہدی علیہ السلام کثیر التعداد بیویاں ہوںگی اور ڈاڑھی منڈائے گا۔ اسی طرح خلیفۃ الزمان علیہ السلام کے بعض اورمن گھڑت صفات درج کر کے اکبر کے حضور میں پیش کیا۔ اکبر بہت خوش ہوا اور اس کو باریافتگان پایۂ قرب کے سلک میں منسلک کر لیا۔ اسی طرح ایک حاجی صاحب نے شیخ امان پانی پتیؒ کے برادر زادہ ملا ابوسعید کی کتابوں میں سے ایک پرانا رسالہ حاصل کیا اور اپنے دماغ سے یہ حدیث گھڑ کر اس میں درج کر لی کہ ایک صحابی کا بیٹا ڈاڑھی منڈوا کر بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوا۔ آنحضرتﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ اہل جنت کی یہی وضع ہوگی۔ بہرحال یہ وہ اسباب تھے جنہوں نے اکبر کو دعوائے نبوت پر مائل کیا۔ چنانچہ وہ مدعی نبوت بن بیٹھا۔ لیکن جس طرح مرزاغلام احمد قادیانی نے ظلی نبی اور بروزی نبی کی من گھڑت اصطلاحوں کی آڑ لے کر دعویٰ نبوت کیا۔ اسی طرح اکبر نے بھی اپنے حق میں کوئی اور لفظ جو نبوت کا مرادف تھا۔ استعمال کرنا شروع کیا۔ ملا شیری نے ایک قطعہ کہا جس کے چند شعر ملاحظہ ہوں ؎
یابزاید ہر زماں کشور برانداز آفتے
فتنہ درکوے حوادث کتخدا خواہد شدن
یا برآید قرض خواہے تیغ در ارباب شرک
بار سراز ذمۂ گردن ادا خواہد شدن
فیلسوف کذب را خواہد گریباں پارہ شد
خرقہ پوش زہد را تقویٰ داخواہد شدن
شورش مغزاست گردر خاطر آرد جاہلے
کز خلائق مہر پیغمبر خدا خواہد شدن
شاہ ما امسال دعویٰ نبوت کردہ است
گر خدا خواہد پس از سالے خدا خواہد شدن
علماء کا قلع قمع اور جلاء وطن
اکبر کی کفر پسندیوں کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ ملک میں آتش غیظ شعلہ افگن ہوتی اور حامیان اسلام اکبر کے خلاف علم مخالفت بلند کرتے۔ چنانچہ غیور مسلمان ملک کے مختلف حصوں میں مدت تک ستیزہ جو رہے۔ لیکن چونکہ حکیم علی الاطلاق جل اسمہ کو یہی منظور تھا کہ اکبری فتنہ کو پوری طرح نشوو نما پانے کا موقع دیا جائے۔ اس لئے کوئی مخالفت سرسبز نہ ہوسکی۔ مخالفت کا سب سے زیادہ زور بنگالہ میں تھا۔ جہاں کے اکبری گورنر مظفر خاں کو قتل کر دیا گیا۔ ۹۸۷ھ میں اکبر نے ملا محمد یزدی کو پوربی اضلاع کا قاضی القضاہ بنا کر جونپور روانہ کیا۔ اس نے وہاں جاکر فتویٰ دیا کہ بادشاہ مرتد ہوگیا ہے۔ اس لئے اس کے خلاف جہاد واجب ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محمد معصوم کابلی، محمد معصوم خاں فرنخودی، میر معز الملک، نیابت خاں، عرب بہادر اور دوسرے عماید اٹھ کھڑے ہوئے اور اکبری حکومت کے خلاف مصاف آرائی شروع کر دی۔ اکبر نے کسی تقریب پر میر معز الملک اور ملا محمد کو جونپور سے فتح پور طلب کیا۔ جس صورت میں کہ وہ اس سے پیشتر علم مخالفت بلند کر چکے تھے۔ کسی طرح مناسب نہ تھا کہ بادشاہ کے بلاوے کی تعمیل کرتے۔ دونوں ازراہ نادانی چل پڑے۔ جب فیروز آباد پہنچے تو اس اثناء میں وہاں اکبر کا حکم پہنچ گیا کہ ان کو سواروں سے علیحدہ کر کے دونوں کوکشتی میں بٹھائیں اور دریائے جمنا میں نکال کر گوالیار کی طرف لے جائیں۔ اس کے بعد اکبر نے دوسرا حکم بھیجا کہ دونوں کو دریا میں ڈبودیں۔ آخر ملاحوں نے دونوں کو ایک پرانی کشتی میں بٹھا کر قعرآب میں پہنچا دیا اور دونوں کی کشتی عمر گرداب فنا میں غرق ہوگئی۔ اس کے بعد اکبر کو ممالک محروسہ کے جن جن علماء سے بے اخلاصی کا ادنیٰ وہم بھی ہوا ان کو نہاں خانہ عدم میں بھیج دیا۔ علمائے لاہور کے لئے جلاوطن کی سزا تجویز کی گئی۔ چنانچہ یہ حضرات لاہور سے اس طرح پراگندہ ومنتشر ہوئے جس طرح تسبیح ٹوٹنے سے اس کے دانے بکھر جاتے ہیں۔ قاضی صدرالدین لاہوری جو علم
وفضل میں مخدوم الملک سے بھی بڑھے ہوئے تھے۔ بھڑوچ کے قاضی بنا کر بھیج دئیے گئے۔ مولانا عبدالشکور لاہوری کو جونپور کی قضا سپرد کی گئی۔ ملا محمد معصوم کو بہار کا قاضی بنایا گیا۔ شیخ منور لاہوری مالوہ کی طرف جلاء وطن کئے گئے۔ شیخ معین الدین لاہوری کو جو مشہور واعظ مولانا معین کے نواسہ تھے۔ کبرسنی کی وجہ سے حکم جلاوطنی سے مستثنیٰ کردیا گیا۔ وہ لاہور ہی میں رہے۔ یہاں تک کہ ۹۵۰ھ میں سفر آخرین اختیار کر لیا۔ حکیم الملک گیلانی کا بھی ان لوگوں میں شمار تھا۔ جو مذہب ومسلک میں ناموافق خیال کئے جاتے تھے۔ ان کو مکہ معظمہ بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد باربار فرامین بھیج کر انہیں واپسی کا حکم دیا۔ لیکن انہوں نے ان فرمانوں کی طرف التفات نہ کیا۔ آخر اسی بلدۂ مطہرہ میں اپنے تئیں حق کے سپرد کر دیا۔ اکبر نے ارباب طریقت کی توہین وایذا رسانی میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ حکم دیا کہ صوفیاء ومشائخ کے دیوان کی پڑتال ہندو دیوان کریں۔ ان پریشانیوں میں وہ بیچارے سب حال وقال بھول گئے۔ چونکہ علمائے امت کی طرح صوفیائے کرام بھی حامیٔ دین تھے۔ حاملین شریعت کی طرح وہ بھی اکبری جوروستم کا تختۂ مشق بنے ہوئے تھے۔ محمد حسین صاحب آزاد نے اس اکبری کارنامہ کو بہت سراہا ہے اور عالم مسرت میں لکھا ہے کہ انہی دنوں میں اکثر سلسلوں کے مشائخ بھی حکومت سے اخراج کے لئے انتخاب ہوئے تھے۔ چنانچہ ان کو ایک قندھاری کارواں کے سلسلے میں روان کر دیا۔ کاروان باشی کو حکم دیا کہ انہیں وہاں چھوڑ آؤ۔ کاروان مذکور قندھار سے ولایتی گھوڑے لے آیا کہ کارآمد تھے اور انہیں چھوڑ آیا کہ نکمے تھے۔ بلکہ کام بگاڑنے والے۔ (دربار اکبری ص۷۲) لیکن اگر یہ حضرات خدانخواسہ الحاد بیدینی میں اکبر کی ہمنوائی اختیار کرتے اور جناب محمد حسین صاحب آزاد کی طرح دین وملت سے آزاد ہوتے تو آزاد صاحب کی بارگاہ معلی سے ان پر تحسین وآفرین کے پھول برسائے جاتے۔ لیکن چونکہ یہ حضرات حامیان دین مبین تھے۔ انہیں اسلام کی توہین گوارا نہ تھی۔ اس لئے یہ آزاد صاحب کی نظر میں سخت نکمے اور کام کے بگاڑنے والے تھے۔ انہی ایام میں اکبر نے ایک شیخ طریقت کو جنہیں شیخ کاسی کہتے تھے پنجاب سے طلب کیا۔ یہ اپنی خانقاہ سے شاہی قاصدوں کے ساتھ بمقتضائے امتثال پیادہ روانہ ہوئے۔ ان کا محفہ ان کے پیچھے لارہے تھے۔ فتح پور میں شیخ جمال بختیار کے ہاں فروکش ہوئے اور اکبر کے پاس پیغام بھیجا کہ آج تک کسی بادشاہ کو میری ملاقات بابرکت اور مثمر خیز ثابت نہیں ہوئی۔ اکبر اس پیغام کو سن کر گھبرایا اور ان کو بغیر ملاقات کے فتح پور سے رخصت کردیا۔ اس باب کی پہلی چار فصلوں کے مضامین زیادہ تر عبدالقادر بدایونی کی منتخب التواریخ سے ماخوذ ہیں۔ دیکھو حالات اکبر شاہ۔
فصل:۵…گو آکا مسیحی مشن اور اس کی ناکام جدوجہد
اگر کوئی نوخیز وطر حدر عورت اپنے شوہر سے قطع تعلق کر کے آوارگی کی زندگی اختیار کر لے تو ہر ناکام محبت کو طمع دامنگیر ہوتی ہے کہ اسے آغوش وصل میں لے کر متمتع وکامگار ہو۔ اکبر نے سعادت اسلام سے محروم ہوکر اس ذات گرامی کے نور سے اقتباس کو چھوڑ دیا۔ جس کی برکت قدوم نے سمک سے سماک تک کفرو ظلمت کا نام نہ چھوڑا تھا تو تمام غیر اسلامی مذاہب کے منہ سے رال ٹپکنے لگی کہ جس طرح ہو اس ترنوالہ کو منہ میں ڈالیں۔ چنانچہ آپ نے اوپر پڑھا کہ کس طرح برہمنوں اور مجوس کے مذہبی مقتداؤں نے اس صید پر توسن ڈال کر اپنے کام ودہان کی تواضع کی؟ بمبئی سے جنوب کی طرف جنوبی ہند کے مغربی ساحل پر گوآنام اہل پرتگال کی ایک مشہور بندرگاہ ہے۔ جب گوآکے پرتگیزی گورنر کو معلوم ہوا کہ اکبر نے اسلام سے علاقہ توڑ کر بدمذہبی کے دامن میں پناہ لی ہے تو اسے بھی یہ ہوس دامنگیر ہوئی کہ اکبر کو نصرانی بنا کر ہندوستان میں تثلیث کی حکومت قائم کرے۔ چنانچہ اس کوشش میں چند پادری دارالسلطنت فتح پور روانہ کئے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جن مغربی اقوام نے ہندوستان آکر اپنی بستیاں قائم کیں۔ ان میں سے اہل پرتگال کو فخر اولیت حاصل ہے۔ پرتگیزوں نے بابر بادشاہ کی چڑھائی سے بھی سولہ سال پہلے یعنی ۱۵۱۰ء میں گوآ پر قبضہ کیا تھا۔ پادریوں کا پہلا مشن ۱۷؍نومبر ۱۵۷۹ء کو گوآ سے چل کر بتاریخ ۲۸؍فروری ۱۵۸۰ء فتح پور پہنچا۔ اس مشن کا سرگروہ پادری مانسیریٹ تھا۔ اکبر نے بڑی گومجوشی سے اس وفد کا استقبال کیا اور ابوالفضل اور حکیم علی جیلانی کو ان کی مہمانداری تفویض کی۔ اکبر نے وفد کو جو اعزاز بخشے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے اپنے منجھلے بیٹے مراد کی اتالیقی مانسریٹ کے تفویض فرمائی۔ یہ وفد تقریباً دو سال تک مصروف دعوت رہا۔ آخر اپریل ۱۵۸۲ء کو بے نیل مرام واپس چلا گیا۔ اس کے بعد خود اکبر نے گورنر گوآ کے نام چٹھی بھیج کر ایک اور وفد بھیجے جانے کی خواہش کی۔ اس درخواست کے بموجب دوسرا مشن ایک سخت بدلگام پادری ریوڈو لفونام کی سرکردگی میں بھیجا گیا۔ اکبر نے پہلی ہی مجلس میں پادری سے کہا کہ میں یہ سن کر حیرت زدہ ہوں کہ آپ لوگوں کے زعم میں ایک خدا کی تین شخصیتیں ہیں اور خدا رحم مادر سے پیدا ہوا اور اسے یہود نے قتل کر دیا۔ پادریوں سے اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ بن پڑا۔ اس لئے انہوں نے رفع خجالت کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات کا نغمہ چھیڑ دیا۔ خیر یہ مجلس تو جوں توں گذری۔ دوسری نشست میں پادری ریوڈو لفو نے اپنی سیاہ باطنی اور بدگوہری کا خوب مظاہرہ کیا اور بجائے
اس کے کہ مسیحیت کی صداقت کا کوئی پہلو پیش کر سکتا۔ اس نے بازاری لفنگوں کی طرح حضرت سرور دو جہاںﷺ کی ذات گرامی کے خلاف دریدہ دہنی شروع کر دی اور حضورﷺ کی شان اقدس میں ایسے ناپاک الفاظ استعمال کر کے اپنی فرومائیگی کا ثبوت دیا کہ کوئی حیادار آدمی کسی معمولی سے مذہبی پیشوا کے خلاف تو درکنار کسی شریف آدمی کے حق میں بھی استعمال نہ کرے گا۔ چہ جائیکہ دونوں جہان کے اس ملجا وماویٰ کی شان اقدس میں گستاخی کی جائے جو دنیا کی نصف ارب آبادی کا محبوب ترین مقتداء ہے۔ عفونت بیان پادری کے اس لفنگا پن کی تصدیق کرنا چاہو تو انگریزی کتاب موسومہ بہ کومینٹری اوف فادر مان سیریٹ مطبوعہ کٹک کا صفحہ۳۷ دیکھ لو۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ مجلس علمائے اسلام کے وجود سے خالی تھی۔ ورنہ پادریوں کی بطالت فروشیوںکی تصویر ہر شخص کے سامنے آجاتی۔ ایسی حالت میں بیچارے پادریوں کی کیا بساط تھی کہ اہل حق کے سامنے لب کشائی کر سکتے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو بادشاہ پادریوں کو اپنے ساتھ لے گیا اور کہنے لگا کہ میں تمہاری باتوں سے بہت مسرور ہوا۔ لیکن میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے لب ولہجہ میں محتاط رہو۔ کیونکہ تمہارے مدمقابل کندۂ ناتراش شریر لوگ ہیں۔ (بجا ارشاد ہوا شریروں کو ہر شخص شریر ہی نظر آتا ہے) شاہ مرتد کی اس نصیحت کا یہ مطلب تھا کہ تم نے جو برسرعام پیغمبر اسلام (ﷺ) کی توہین کی تو آئندہ اس سے باز رہو۔ روڈولف نے کہا کہ ہم آپ کی نصیحت پر عمل کریںگے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ہم مسلمانوں سے ڈرتے ہیں۔ بلکہ محض اس بناء پر کہ آپ کے حکم کی تعمیل ہمارے لئے ضروری ہے۔ اس کے بعد اکبر نے پادری سے کہا کہ تمہاری اور باتیں تو بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بات اب تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ قادر مطلق جو زمین وآسمان اور تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ہے وہ تین بھی اور ایک بھی کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اور اس کے یہاں ایسے فرزند کا تولد کیوں کر ممکن ہے۔ جورحم مادر سے پیدا ہوا ہو؟ پادری یہ سنکر دم بخود رہ گیا۔ آخر کہنے لگا کہ خدا سے دعاء کرو کہ وہ تمہارے دل پر اس مسئلہ کی حقیقت آشکارا کر دے۔ اس جواب سے ظاہر ہے کہ موجودہ مسیحیت کی دیواریں محض خیالی تک بندیوں کی بنیادوں پر کھڑی ہیں اور اس کو صداقت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس کے علاوہ معلوم ہوتا ہے کہ پادری لوگ گوآ جیسے دوردست مقام سے محض گالیوں کے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر ہی اکبر اور اس کے درباریوں کا کشور دل فتح کرنے چلے آئے تھے۔ باوجودیکہ ریوڈولفو نے اکبر سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آئندہ طریق گفتگو میں محتاط رہے گا۔ لیکن اس باحیا پادری نے اس وعدہ کا قطعاً ایفا نہ کیا۔ چنانچہ
آئندہ مجلس میں یہ سینہ سیاہ پادری پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفیﷺ کی شان پاک میں دشنام دہی کی بیش از پیش غلاظت اچھالتا رہا۔ اگر میرے بیان کی تصدیق چاہو تو کتاب مذکور کا انتالیسواں صفحہ پڑھ جاؤ۔ کاش اکبر کی جگہ کوئی مسلمان حکمران ہوتا تو اس بدلگام پادری کو اس کے کیفر کردار تک پہنچائے بغیر دم نہ لیتا اور تعجب ہے کہ حکومت ہند نے اس سخت دل آزار کتاب کو جو اوڑیسہ مشن پریس کٹک میں چھپ کر ۱۹۲۲ء میں شائع ہوئی۔ اب تک ضبط کیوں نہیں کیا؟ ہم اسلام اور داعیٔ اسلامﷺ کے خلاف ہر اعتراض سننے اور اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ بشرطیکہ اعتراض کرنے والا دائرہ انسانیت میں رہ کر اعتراض کرے۔ گو سنجیدہ جواب بدلگامی کا منہ بند نہیں کر سکتا تاہم ہمارا اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم گالیوں کا جواب گالیوں سے دے کر لفنگوں کے ہمناں ہوں۔
آگ میں داخل ہوکر صدق وکذب کے امتحان کا اسلامی مطالبہ
اس وقت یہ حالت تھی کہ ایک طرف تو سیاہ باطن پادری برہان مقدس (قرآن) اور دین حنیف اور دنیا وعاقبت کے سردار سیدنا محمد مصطفیﷺ کی شان اقدس میں بدزبانی کر کے اپنی مسیحیت کی قلعی کھول رہے تھے۔ دوسری طرف مرتدین کا ناپاک گروہ ہر بات میں اہل تثلیث کی تائید کر کے نیشن زنی میں مصروف تھا۔ ایسی حالت میں مظلوم وسینہ ریش مسلمان حاضرین کے لئے بجز اس کے کوئی چارۂ کار نہ رہا کہ صداقت اسلام کے ثبوت میں کوئی ایسا ناقابل اند فاع طریق عمل اختیار کریں جو اہل باطل کی خدع پرور آرزوؤں کا گور غریباں بن جائے۔ مسلمانوں نے حسب بیان پادری مانسریٹ اکبر سے کہا کہ سچے دین اور آسمانی کتاب کی صداقت کے امتحان کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ آگ جلائی جائے۔ ایک پادری بائبل لے کر اور ہم میں سے ایک آدمی قرآن مجید لے کر گھس پڑے اور آگ کے بلند شعلوں میں کھڑا رہے۔ ان میں سے جو شخص اپنی کتاب سمیت زندہ سلامت نکل آیا۔ اس کا دین سچا ہے اور جو وہیں جل کر ہلاک ہوگیا۔ اس کا مذہب جھوٹا ہے۔ اکبر نے اس تجویز کی تائید کی اور پادریوں سے کہا کہ یہ محل امتحان بالکل فیصلہ کن ہے۔ مگر باطل کی کیا مجال تھی کہ اس جان ستان تجویز کو منظور کرتا۔ پادریوں نے کہا کہ مسیحیت کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے کسی اعجازی امتحان کی ضرورت نہیں۔ اکبر نے کہا اچھا جانے دو۔ یہی گفتگو جو ہو چکی کافی ہے۔ حاضرین نے بادشاہ سے کہا کہ آگ میں داخل ہونے کی تجویز نہایت موزوں اور فیصلہ کن ہے۔ اسی پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ ان کی یہ خواہش شاید اس یقین پر مبنی تھی کہ
مسلمان آگ میں جل کر بے نام ونشان ہو جائیںگے اور فتح کا سہرا مسیحیت کے سرپر ہوگا۔ حالانکہ یہ خیال بالکل باطل تھا۔ ایسے نازک امتحان میں خدائے قادر وتوانا بالیقین اپنے سچے دین کی لاج رکھ لیتا۔ آگ آتش نمرود کی طرح مسلمانوں پر ٹھنڈی اور سلامت ہوجاتی اور مشرک عیسائی ہمیشہ کے لئے خاک مذلت میں سلادئیے جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ اہل باطل اس امتحان کے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے اور آگ کا نام سن کر پادریوں کی روح فنا ہورہی تھی۔ پادری ریوڈولفو ایک طویل لاطائل قصہ خوانی کے بعد کہنے لگا۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم لوگ بسااوقات گناہوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور اب بھی گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ہم گنہگار ہیں۔ اس لئے اعجاز نمائی کی جرأت نہیں کر سکتے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ ہمیں معلوم نہیں کہ ہم خدا کے محبوب ہیں یا اس کے راستہ میں روڑے اٹکارہے ہیں۔ اس سے قطع نظر اس امر کا امتحان کرنے کے لئے کہ یہ بائبل کلام الٰہی ہے یا نہیں؟ اس کو آگ میں لے جانا مسیح کی تعلیم اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے خلاف ہے۔ اس لئے اے بادشاہ! آپ کو اعجاز بینی کی خواہش کر کے ان یہودیوں کے نقش قدم پر نہ چلنا چاہئے۔ جن کو مسیح (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں سرزنش فرمائی تھی کہ شریر اور حرامزادے مجھ سے معجزہ لے طلب کرتے ہیں اور یہ مسلمان جو آگ میں داخل ہونے کی شرط لگارہے ہیں۔ مجھے ان کے متعلق یقین ہے کہ ان میں سے ایک بھی اپنے مذہب اور اپنے پیغمبر کا اس درجہ شیدائی اور معتقد نہ ہوگا کہ ایسے جانبازانہ امتحان کو اپنے دوش ہمت پر لے۔ واقعی یہ چیز مسلمانوں کی فطرت میں داخل ہے کہ یہ معجزات کا مطالبہ کریں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر ہمارے مذہب کا کوئی صالح ومتقی آدمی کوئی معجزہ دکھائے گا تو یہ لوگ کہنے لگیں گے کہ یہ تو جادو ہے اور پھر اسے قتل کر دیںگے۔ اکبر نے کہا آپ لوگ مطمئن رہیں۔ آپ کا کوئی بال تک بیکا نہیں کر سکتا۔ اصل یہ ہے کہ یہاں ایک مولوی ہے جو اپنے تقدس کی ڈینگیں مارا کرتا ہے۔ حالانکہ وہ بہت سے گناہوں کا بھی مرتکب ہوچکا ہے۔ اس نے قرآن کی ایک تفسیر بھی لکھی ہے۔ اس لئے میری خواہش ہے کہ میں اس کو اس عجب وپندار کی سزادوں۔ اگر آپ حضرات اپنے مذہب کا کوئی ایسا پیرو پیش کر سکیں جو اس امتحان میں پورا اترے تو مجھے اس سے بڑی خوشی ہوگی۔ میری آرزو ہے کہ آپ لوگ اس خواہش کی تکمیل میں میری امداد کریں۔ پادری ریوڈولفو نے کہا ہم اس کام میں آپ کو کچھ مدد نہیں دے سکتے۔
(کومینٹری اوف فادر ماتسریٹ ص۴۰،۴۳)
اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آگ جلانے کی نوبت نہیں آئی۔ لیکن عبدالقادر بدایونی
نے منتخب التواریخ میں ۹۸۹ھ کے واقعات میں لکھا ہے کہ شیخ قطب حلبیسری نام ایک مجذوب کو شیخ جمال بختیار کے ذریعہ سے بلاکر پادریوں کے مقابلہ میں کھڑا کر دیا گیا۔ بہت سے ممتاز وذی اقتدار لوگ بھی جمع کئے گئے۔ شیخ قطب نے کہا کہ آگ جلاؤ۔ تاکہ میں اور میرا فریق مقابل آگ میں داخل ہوں۔ دونوں میں سے جو زندہ سلامت نکل آئے گا وہ برسر حق ہوگا۔ چنانچہ آگ جلائی گئی۔ شیخ قطب نے جاکر فرنگی پادری کو کمر سے پکڑ لیا اور آگ کی طرف کھینچ کر کہنے لگا کہ ہاں بسم اللہ! چلو آگ میں داخل ہوں۔ لیکن کسی پادری کو آگ کی طرف رخ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ بادشاہ نے غضب ناک ہوکر شیخ قطب اور چند دوسرے فقراء کو بھکر کی طرف جلاوطن کر دیا۔
گرجوں اور تبلیغی مشنوں کا قیام
پادریوں نے اپنی ہزیمت کے بعد بادشاہ سے کہا کہ انہیں اجازت دی جائے کہ جو لوگ عیسائی ہونا چاہیں ان کو عیسائی بنائیں اور نیز ایک خیراتی ہسپتال جاری کریں۔ اکبر نے دونوں درخواستیں منظور کیں اور پادریوں سے کہا کہ اگرکوئی شخص تمہارے کام میں مزاحم ہوتو اسکی اطلاع دو۔ پادری کچھ عرصہ تک اپنے کام میں مصروف رہے۔ اس کے بعد گوآ واپس جانے کی اجازت چاہی۔ لیکن اکبر نے اجازت نہ دی اور کہا میں چاہتا ہوں کہ تمہارے مذہب کی خوبیاں مجھ پر واضح ہوتی رہیں۔ اکبر بہت دن تک پادریوں کو اپنے قبول نصرانیت کے سبز باغ دکھاتا رہا۔لیکن پادریوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود آفتاب پرستی چھوڑ کر دائرہ مسیحیت میں داخل نہ ہوا۔ اس اثناء میں پادریوں نے ملک میں جابجا گرجے اور تبلیغی مشن قائم کئے۔ پانچ سال اسی حالت میں گذر گئے۔ انجام کارگوآ سے پادریوں کے نام حکم آیا کہ تمہیں اکبر بادشاہ کے پاس گئے پانچ سال گذر گئے اور تم نے وہاں کی زبان بھی سیکھ لی۔ اگر بادشاہ دائرہ مسیحیت میں داخل ہوتا ہے تو بہتر ورنہ واپس چلے آؤ۔ یہ لوگ بادشاہ سے ملے اور کہا کہ یہ امر ہمارے لئے سخت تکلیف دہ ہے کہ کوئی کام انجام دئیے بغیر آپ کے دربار میں پڑے رہیں۔ اس لئے درخواست ہے کہ آپ حسب وعدہ دین مسیحیت کو قبول فرمائیے۔ اس پر نہ صرف آپ کی اپنی نجات منحصر ہے۔ بلکہ آپ کو دیکھ کر جو لاکھوں کروڑوں بندگان خدا عیسائی ہوںگے۔ ان کو بھی نجات ابدی نصیب ہوگی۔ اکبر ان دنوں لاہور میں تھا۔ کہنے لگا میں ابھی لاہور سے دکن جارہا ہوں۔ وہاں جاکر گوآ سے بالکل قریب ہی کسی مقام پر فروکش ہوںگا۔ میں اس جگہ دوسرے جھمیلوں سے فارغ رہ کر آپ لوگوں کی طرف زیادہ توجہ معطوف کر سکوںگا۔ لیکن آپ لوگوں نے یہ کیا کہا کہ ہم اتنی مدت تک یہاں بے مصرف
پڑے رہے؟ کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ اس ملک میں اسلامی سلطنت تھی۔ اگر کوئی شخص منہ سے یہ الفاظ نکال دیتا تھا کہ یسوع مسیح (معاذ اللہ) خدا کا بیٹا ہے تو اسی وقت قتل کر دیا جاتا تھا۔ لیکن اب تم نے جابجا گرجے اور تبلیغی مشن قائم کر لئے اور تم لوگ اپنی تبلیغ میں بالکل آزاد ہو اور کسی کی مجال نہیں کہ تمہاری طرف نظر اٹھا کر دیکھ سکے۔ پادریوں نے تسلیم کیا کہ واقعی ہمارے قیام سے مسیحیت کو خاصی رونق نصیب ہوئی۔ پادریوں نے لاہور میں بھی گرجا بنارکھا تھا۔ یہاں ۱۵۹۷ء تک سینتیس آدمی عیسائی بنائے جاچکے تھے۔ جن میں بڑی تعداد جاروب کشوں کی تھی۔
(اکبر اینڈ دی جینرٹس ص۹۱)
فصل:۶…لاہور کی ہولناک آتشزدگی اور اکبر کی موت
متذکرۂ صدر واقعات سے قارئین کرام اس نتیجہ پر پہنچے ہوںگے کہ اکبر کا وجود شریعت الٰہی کی توہین اور دین خداوندی کی سب سے بڑی تذلیل تھا۔ اس نے احکم الحاکمین کے آسمانی آئین سے سرکشی اختیار کر رکھی تھی اور خالق کردگار کو چھوڑ کر مخلوق پرستی کی گمراہی میں گرفتار تھا۔ بادہ سلطنت وفرمانروائی نے اسے اس درجہ متوالا کر رکھا تھا کہ اپنی چند روزہ عظمت کے مقابلہ میں خدا کی کبریائی اور رسولوں کی قدوسیت کو بالکل بھول گیا تھا۔ اس کی مملکت میں خدا کے نیک بندے ستائے جارہے تھے۔ گمراہیاں اور تاریکیاں تمام سطح ارض پر چھائی ہوئی تھیں۔ دین حنیف بیکسی اور مظلومی کی حالت میں مبتلا تھا اور ملک فطرت میں ہر جگہ ابلیس اور نفس شریف کی حکومت جاری وساری تھی۔ اس لئے ضرور تھاکہ مالک الملک عزاسمہ کی طرف سے کبھی نہ کبھی اس کے جسد غفلت وبے حسی پر عبرت کا تازیانہ رسید کیا جاتا۔ چنانچہ ۱۵۹۷ء (۱۰۰۵ھ) سے لے کر یوم مرگ تک وہ برابر ہموم ومصائب میں مبتلا رہا۔ خدا کے وہ بندے نہایت خوش نصیب ہیں جو خدائی تبنیہ کے وقت سنبھل جاتے ہیں اور رب العالمین کے ساتھ اپنا رشتۂ عبودیت استوار کرنے میں توقف واہمال گوارا نہیں کرتے۔ لیکن بدنصیب اکبر ان حوادث ونوازل سے جو اس پر پڑے کچھ بھی سبق آموز نہ ہوا۔ ان پریشانیوں میں جن سے اکبر کو دوچار ہونا پڑا سب سے پہلی لاہور کی آگ تھی۔ ابوالفضل نے اکبر نامہ میں بیالیسویں جلوس کے زیر عنوان اس آگ کا اجمالی تذکرہ کیا ہے۔ لیکن کتاب اکبر اینڈ دی جینرٹس میں اس کو ذرا کھول کر بیان کیا ہے۔ مؤخر الذکر کتاب میں لکھا ہے کہ اکبر لاہور کے قصر شاہی کے برآمدے میں تھا۔ شہزادہ سلیم اور تمام عمائد سلطنت موجود تھے۔ نوروز کا جشن منایا جارہا تھا کہ اتنے میں آسمان کی طرف سے ایک شعلہ نمودار ہوکر قصر شاہی کی طرف آیا۔
سب سے پہلے شہزادہ سلیم کے پرتکلف خیمہ کو اس سرعت کے ساتھ جلا کر خاک سیاہ کیاکہ کسی کو آگ بجھانے کے لئے وہاں تک پہنچنے کی مہلت نہ دی۔ اس کے بعد تمام خیموں کو اور شاہی محل کو جس میں چند تخت اور بڑی بڑی بیش قیمت چیزیں تھیں جلایا۔ ان تختوں میں ایک طلائی تخت بھی تھا۔ جس کی لاگت کا تخمینہ ایک لاکھ اشرفی (سولہ لاکھ روپیہ) کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بادشاہ کے قصر خاص کی طرف بڑھا جو خالص لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس کو آناً فاناً جلا کر کوئلوں کا ڈھیر بنادیا۔ غرض تمام سرکاری عمارتیں آگ بھبھوکا ہوگئیں۔ اکبر کو اس آتشزدگی کا بڑا قلق ہوا۔ کیونکہ تمام خزانے اور جواہرات اور یادگاریں بھی نابود ہوگئیں۔ اس روز چاندی، سونا اور دوسری دھاتیں پگھل پگھل کر لاہور کی گلیوں میں اس طرح بہ رہی تھیں جس طرح پانی بدرو میں چلتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ آگ کئی دن کے بعد بمشکل بجھائی جاسکی۔ اس آگ نے اکبر کو اس درجہ وحشت زدہ کر دیا کہ لاہور سے جھٹ کشمیر کا رخ کیا۔ لیکن وہاں پہنچنے کی دیر تھی کہ کشمیر میں ایسا عالمگیر قحط رونما ہوا کہ ماؤں نے اپنے کمسن بچوں تک کو جدا کر دیا اور چھوٹے چھوٹے لڑکے تھوڑے تھوڑے پیسوں میں فروخت ہونے لگے۔ یہ مصیبت ہنوز دور نہ ہوئی تھی کہ اکبر بیمار پڑ گیا اور زندگی کی طرف ناامیدی ہوگئی۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو پھر لاہور آیا۔ لیکن یہاں آنے کے بعد دکن سے اطلاع آئی کہ اس کا جوان بیٹا مراد جس کی عمر ستائیس سال کی تھی دامن فنا میں غائب ہوگیا۔ اکبر کے دل پر اس کے مرنے کا ایسا گہرا زخم آیا کہ کسی مرہم سے التیام پذیر نہ ہوسکا۔ یہ صدمہ ابھی بھولا نہ تھا کہ ۱۰۱۱ھ میں اکبر کا تیسرا بیٹا دانیال بھی سرائے دنیا کو الوداع کہہ کر داغ مفارقت دے گیا اور پھر انہی ایام میں خبر ملی کہ اکبر کا دست راست ابوالفضل بھی رخت زندگی باندھ کر گٹھر کی گٹھر لعنتیں ہمراہ لے گیا۔ اسے شہزادہ سلیم (جہانگیر) نے قتل کرایا تھا۔ یہ وہ صدمے تھے جنہوں نے اکبر کو بالکل نڈھال کر دیا۔
(اکبر اینڈ دی جینرٹس ص۷۴،۷۷)
لیکن اس کے دل پر بے حسی کی ایسی موٹی تہیں چڑھی ہوئی تھیں کہ توجہ الیٰ اللہ کی توفیق نہ ہوئی اور بدستور اپنی شقاوت پسندیوں کے گرداب میں پڑا رہا۔
عبرتناک حادثہ مرگ
یقینیات میں سے موت سب سے زیادہ یقینی چیز ہے۔ اسی بناء پر قرآن حکیم میں موت کو یقین کے لفظ سے بھی تعبیر کیاگیا ہے۔ پس ہر انسان کا فرض منصبی ہے کہ وہ برائیوں اور بے اعتدالیوں سے اپنا دامن بچائے اور ایسا سرمایہ جمع کرنے میں کوشاں رہے جو وطن اصلی
میں کام آسکے:
اے کہ دستت می رسد کارے بکن
پیش ازاں کز تو نیاید ہیچ کار
پس جو لوگ عیش ونعم کی شدت انہماک میں خدا کو بھول بیٹھے ہیں اور دنیا میں خوف کا بیج بورہے ہیں وہ کل کو خوف کے پھل سے کانپ اٹھیںگے۔ اکبر کو نعیم دنیا نے موت کی طرف سے بالکل اندھا کر رکھا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ موت کا فرشتہ کسی وقت اچانک آنمودار ہوگا اور اس بات کا لحاظ کئے بغیر کہ یہ وقت کا سب سے بڑا بادشاہ ہے۔ اس کا ٹینٹوا دبائے گا۔ عہد اکبری کے تمام مسلمان یا مرتد مؤرخ بدایونی، ابوالفضل، نظام الدین احمد وغیرہم اکبر کے ایام واپسیں سے پہلے پہلے ملک بقاء کا سفر اختیار کر چکے تھے۔ اس لئے ان میں سے کوئی بھی اس کے حالات مرگ قلمبند نہ کر سکا۔ پس میں اس کے لئے ان پادریوں کے بیانات پر اعتماد کرتا ہوں جو اکبر کی موت کے وقت فتح پور میں موجود تھے اور جن میں ایک تو پانچ سال تک سفروحضر میں اس کے ساتھ رہا تھا۔ اکبر نے قریباً بائیس سال تک ایوان مذہب میں تزلزل ڈالے رکھا۔ اس مدت میں کوئی شخص بالیقین معلوم نہ کرسکا کہ یہ شخص کس مذہب ومسلک کا پیرو ہے۔ تناسخ اور بہت سے دوسرے عقائد میں ہنود کا ہمنوا تھا۔ اسے آفتاب پرستی سے زیادہ شغف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی مؤرخ اسے عام طور پر آفتاب پرست لکھتے ہیں۔ بہرحال ۱۷؍اکتوبر ۱۶۰۵ء (۱۰۱۴ھ) کو وہ وقت آن پہنچا جبکہ اس کی اجل گریباں گیر ہوکر کشاں کشاں دار الجزاء میں لے گئی۔ محمد قاسم فرشتہ نے لکھا ہے کہ اکبر کو دوبیٹوں کے مرنے کا اتنا صدمہ ہوا کہ رات دن اسی غم میں گھلتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ کمزور وناتواں ہوتے ہوتے اپنے اصلی مستقر کو چلا گیا۔ لیکن پادری ایگزیویر نے جو چٹھی ۲؍دسمبر ۱۶۰۶ء کو فتح پور سے گوآ بھیجی تھی اس میں لکھا تھا کہ اکبر کی موت زہر سے ہوئی۔ عام خیال یہ ہے کہ اکبر نے وہ جام زہر پی لیا جو اس نے دوسروں کے لئے مہیا کیا تھا۔
اکبر کا خاتمہ کس دین پر ہوا؟
سرٹامس رونے ۱۶۱۶ء میں اجمیر سے اطلاع دی تھی کہ اکبر حالت اسلام میں مرا۔ ان پادریوں نے جو اس وقت فتح پور میں موجود تھے رپورٹ کی تھی کہ مسلمان بوقت نزع اسے کلمۂ شہادت پڑھ پڑھ کر سناتے رہے۔ لیکن اس نے کلمہ نہیں پڑھا۔ البتہ ایک آدھ مرتبہ خدا کا لفظ زبان پر لایا۔ ایک روایت کے بموجب شہزادہ سلیم (سلطان نورالدین جہانگیر) نے بیان کیا تھا کہ
مفتی میراں صدر جہان کی تلقین کے بعد میرے والد نے صاف لفظوں میں زور سے کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام کا اقرار کیا۔ اس کے بعد صدرجہاں اس کے تکیہ کے ساتھ لگے ہوئے۔ سورۂ یٰسین بار بار پڑھتے رہے۔ ایک فرانسی سیاح ہیئررڈڈے لاول نے اکبر کی موت کے چھ سات سال بعد بیان کیاکہ اکبر نے پادریوں سے وعدہ کر رکھا تھا کہ میں عیسائی ہوجاؤں گا۔ بشرطیکہ مجھے تمام عورتیں جن کی تعداد سو کے لگ بھگ تھی رکھنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن ہنوز ایفائے عہد کا وقت نہیں آیا تھا کہ وہ دنیا سے چل بسا۔ پادری انتھونی بوٹلہو جس نے آگرہ اور بیجا پور میں کئی سال گزارے تھے۔ ۱۶۷۰ء میں لکھا تھا کہ بیجاپور میں ہر شخص اس عقیدہ پر راسخ تھا کہ اکبر عیسائی ہوکر مرا۔ چنانچہ سلطان عادل شاہ والی بیجا پور نے ایک مرتبہ پادری مذکور سے کہا تھا کہ کیا یہ بیان درست ہے کہ اکبر عیسائی ہوکر مرا؟ تو پادری نے جواب دیا کہ خدا کرے وہ مسیحیت قبول کر کے مرا ہو۔ لیکن اصل یہ ہے کہ اس نے ہمیں قبول مسیحیت کے وعدوں ہی میں رکھا۔ آخر اس کا خاتمہ دین اسلام پر ہوا۔ لیکن اس کے برخلاف پادری ایگزیوئیر نے ۱۶۱۵ء میں لکھا تھا کہ اکبر بوقت مرگ نہ تو مسلمان تھا اور نہ عیسائی۔ بلکہ ہندو تھا۔ چنانچہ ۱۷۳۵ء تک جب کہ پادری فگرے ڈونے اس موضوع پر ایک مضمون شائع کیا اسی روایت نے عالمگیر حیثیت اختیار کر رکھی تھی کہ اکبر مرتے دم تک ہندو رہا اور اس کا خاتمہ بت پرستی پر ہوا۔
(دی جینرٹس اینڈ دی گریٹ معل سرایڈورڈ میکلیگن ص۶۴،۶۵، مطبوعہ لندن)
بہرحل یہ چیز بالکل مشتبہ ہے کہ مرتے وقت وہ کس دین کا پیرو تھا۔ لیکن خاکسار راقم الحروف کی ذاتی رائے یہ ہے کہ یا تو وہ بدستور آفتاب پرست تھا یا ہر مذہب وملت سے منقطع ہوکر دہریہ قسم کا لامذہب سارہ گیا تھا۔ واﷲ اعلم بحقیقۃ الحال معلوم ہوتا ہے کہ اسے غسل اور کفن بھی نصیب نہیں ہوا۔ بلکہ اس کی لاش محض ایک چادر میں لپیٹ دی گئی۔ بعض لوگوں نے چاہا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔ لیکن مسلمانوں نے نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ نہ تو کوئی مسلمان اسے اپنے مذہب میں داخل کرنے پر آمادہ تھا اور نہ عیسائی یا ہندو ہی اس کی لاش کے دعویدار بنتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ مسلمانوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ کسی ہندو یا عیسائی ہی کی طرف سے کوئی مذہبی رسم ادا ہوئی۔ شہزادہ سلیم اور خاندان کے بعض افراد خود ہی لاش چارپائی پر ڈال کر لے گئے اور باغ میں لے جاکر سپرد خاک کر دیا۔ بہت کم لوگوں نے جنازہ کی مشایعت کی۔ اکبر پر کسی نے ماتم نہ کیا۔ البتہ ایک
شہزادہ نے اسی دن شام تک ماتمی لباس پہنے رکھا۔
فصل:۷…مولوی محمد حسین آزاد کی اکبر پرستی پر ایک نظر
شمس العلماء مولوی محمد حسین صاحب آزاد نے کتاب دربار اکبری میں اکبر کی حمد وثنا میں جن عاشقانہ ووالہانہ جذبات کا اظہار کیا ہے اور جن شاعرانہ مبالغوں سے کام لے کر اسے اوج فرقد تک پہنچایا ہے اس سے مترشح ہوتا ہے کہ آزاد صاحب کے نزدیک رب العالمین عزاسمہ کی طرح (معاذ اللہ) اکبر کی ذآت بھی بالکل بے عیب تھی۔ جس میں کسی انسانی کمزوری کا شائبہ نہ تھا۔ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں اس کی ثناء ومنقبت میں زمین وآسمان کے قلابے ملادئیے۔ وہاں اس کی ایک کمزوری بھی ظاہر نہ کرتے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں معلوم ہوتی کہ عاشق کو محبوب کی ذات یکسر حسن اور سراپا جمال نظر آتی ہے۔
(اکبر اینڈ دی جینرٹس ص۲۰۸)
اس لئے آزاد صاحب کی نظر اس کی کمزوریوں کی دید سے قاصر رہی۔ بلکہ معائب نے بھی ان کی نظر میں محاسن ہی کی جلوہ گری کی۔ اکبر اپنے مداحوں اور خوشامدیوں کا بڑا قدر شناس تھا۔ اگر آزاد صاحب اپنے ممدوح کے عہد سلطنت میں موجود ہوتے تو اس گدایانہ تملق شعاری ار مجنونانہ منقبت خوانی کے صلہ میں انہیں وزارت نہیں تو پنج ہزاری منصب ضرور مل جاتا۔ مگر آزاد صاحب نے اپنے جذبۂ عقیدت اور اخلاص کی سفارش پر اس مداحی کا بظاہر یہی صلہ کافی سمجھا کہ دنیائے الحاد واباحت میں ان کی یادگار رہ جائے اور ملحدین دہر دوچار لفظ ان کی تعریف میں کہہ دیا کریں۔ دربار اکبری کا مطالبہ کرنے سے معاً یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ آزاد صاحب ہندوستان کو لامذہبی کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے اور عجب نہیں کہ وہ اسی خدمت پر مامور ہوں کہ مسلمانوں کی لوح دل سے شیفتگی اسلام کے نفش محو کر دیں اور انہیں ایسی تعلیم دیں کہ جس کی بدولت حمیت ملی اور غیرت دینی کی روح جسے مغربی سیاست دان ’’مذہبی جنون‘‘ سے تعبیر کیا کرتے ہیں۔ ان سے بالکل مفقود ہو جائے۔ آزاد صاحب نے اکبر کی بے دینی کی خوب تائید کی ہے اور ان کے نزدیک اس کے الحاد کے خلاف ایک لفظ بھی زبان پر لانا گناہ ہے۔ انہوں نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اپنی الحاد پسندی کے اقتضاء سے علمائے حق کو نہایت شرمناک طریق پر طعن وتشنیع کا آماجگاہ بنایا ہے۔ حالانکہ حاملین شریعت کا اس سے زیادہ کچھ قصور نہ تھا کہ مرتد بادشاہ اور ان کے بدمذہب مصاحبوں کی کفر پسندیاں ٹھنڈے دل سے گوارا نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس زمانہ میں ہندوستان کے اندر کوئی دین پناہ غیور بادشاہ موجود ہوتا تو وہ مرتدین مارقین کے
خلاف لشکر کشی کرتا اور انہیں تیغ سیاست سے عدم کے تہ خانہ میں پہنچا دیتا۔ پس ظاہر ہے کہ جس جرم پر کسی دیندار بادشاہ کے لئے ان اعدائے دین کا قلع قمع ضروری تھا۔ اگر اسی جرم پر منزل ہدایت کے رہ نور داس حق فروش طائفہ سے برسر خلاف ہوئے تو کیا برا کیا؟ اب میں آزاد صاحب کے عامیانہ خیالات واعتراضات لکھ کر ان کے جواب برسبیل اجمال عرض کرتا ہوں۔
آزاد صاحب کے مزعومات واعتراضات
آزاد صاحب فرماتے ہیں:
۱… نوبت یہ ہوئی کہ شریعت کے اکثر فتوے تجویزات ملکی سے ٹکرانے لگے۔ علماء تو ہمیشہ سے زدروں پر چڑھے آتے تھے۔ وہ اڑنے لگے اور بادشاہ بلکہ امراء بھی تنگ ہوئے۔
(دربار اکبری ص۴۸)
مگر یہ خیال سراسر باطل ہے۔ شریعت کا کوئی فتویٰ مصالح ملک اور مفاد رعایا سے متصادم نہیں ہوسکتا۔ اگر تجویزات ملکی انہی مشرکانہ رسوم کا نام ہے جن پر اکبر عمل پیرا تھا تو پھر واقعی خدا کا لازوال قانون ایسی تجویزات ملکی سے مزاحم ہوگا۔
۲… آزاد صاحب لکھتے ہیں کہ حریف (علماء) کہتے تھے کہ سلطنت شریعت کے تابع ہے۔ اس واسطے صاحب سلطنت کو واجب ہے کہ جو کچھ کرے شریعت کی اجازت کے بغیر نہ کرے۔ اس کے مقابل میں ان (ابوالفضل، فیضی اور دوسرے ملاحدہ) کا دستور العمل یہ تھا کہ صاحب سلطنت خدا کا نائب ہے۔ جو کچھ وہ کرتا ہے عین مصلحت ہے اور جو مصلحت ملکی ہے وہی شریعت ہے۔
(دربار اکبری ص۳۶۲)
اس کے متعلق التماس ہے کہ خدا کے نائب انبیاء کرام علیہم السلام تھے۔ جنہیں وحی الٰہی کی تائید ونصرت حاصل تھی۔ ان کی تمام تر تعلیمات وحی الٰہی کے تابع تھیں۔ نہ کہ دنیوی حکمران جو عامۃ الناس کی طرح تعلق باﷲ اور روحانی قوت سے یکسر محروم ہوتے ہیں۔ ہر حکمران اس بات کا مامور ہے کہ رعایا کے سود وبہبود کے اسباب مہیا کرے اور وہی کام کرے جس میں خلق خدا کی بہتری ہو۔ لیکن اس اٹل اور لازوال قانون فطرت کی خلاف ورزی میں رعایا کی بہتری اور بہی خواہی متصور نہیں جو خود راعی اور رعایا کے خالق ورازق نے انبیاء کرام علیہم السلام کی وساطت سے دنیا میں بھیجا۔ اگر مصلحت ملکی انہی بیہودگیوں کا نام ہے جن کا اکبر مرتکب تھا اور مصلحت ملکی ہی شریعت ہے تو پھر ایسی شریعت، شریعت خداوندی نہیں ہوسکتی جو رب العالمین نے دنیا میں بھیجی۔
بلکہ وہ شیطانی شریعت ہے۔ جو ابلیس رجیم کی طرف سے اکبر اور اس کے ہم مشرب ائمہ تلبیس پر القاء ہوئی۔
۳… آزاد صاحب لکھتے ہیں کہ نیک نیت بادشاہ جو سب سے اعلیٰ رتبے کی بات سمجھتا تھا۔ وہ یہ تھی کہ پروردگار رب العالمین ہے اور قادر مطلق ہے۔ اگر سارا حق ایک ہی مذہب کے حجرے میں بند ہوتا اور وہی خدا کو پسند ہوتا تو اسی کو دنیا میں رکھتا۔ باقی سب کو نیست ونابود کر دیتا۔ لیکن جب ایسا نہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا ایک مذہب نہیں۔ سب اسی کے مذہب ہیں۔
(دربار اکبری ص۶۹)
اس کے متعلق یہ التماس ہے کہ معلوم نہیں آزاد صاحب قرآن کو کلام الٰہی اور جناب محمدﷺ کو خدا کا پیامبر مانتے تھے یا نہیں؟ اگر مانتے تھے تو قرآن میں صاف لکھا ہے:’’ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘ {بلاشبہ سچا دین حق تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔} اور پیغمبر خداﷺ سے بے شمار احادیث صحیحہ اس مضمون کی مروی ہیں کہ جو شخص مجھے نبی نہیں مانتا اور میری شریعت کو منجانب اللہ یقین نہیں کرتا اس کی نجات ممکن نہیں اور اگر آزاد صاحب آئین اسلام سے آزاد وبے تعلق تھے تو پھر اپنے مسلک آزادی کے رو سے بھی وہ غلط رو تھے۔ کیونکہ جب ان کا یہ عقیدہ تھا کہ مسلمان اور ہندو دونوں برسر حق ہیں تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ دنوں کے متضاد ومتبائن دعوؤں میں سے سچے دعوے کس کے ہیں اور جھوٹے کس کے؟ مثال کے طور پر ایک مسئلہ لے لو۔ ہنود کہتے ہیں کہ خدا کے بندے درگاہ رب العالمین میں کبھی پیش نہیں ہوںگے۔ بلکہ انہیں یہیں دنیا میں چپ چاپ ان کے اعمال کا نیک یابد ثمرہ تناسخ کے رنگ میں مل رہا ہے اور ملتا رہے گا۔ لیکن مسلمان اس بات پر جازم ہیں کہ تناسخ کا افسانہ بالکل مہمل ہے۔ دنیا کا موجودہ نظام کسی نہ کسی دن تباہ ہو جائے گا اور انسان یوم الجزاء کو مالک الملک عزاسمہ کے سامنے پیش ہوکر اپنے جزائے اعمال کو پہنچیںگے۔ اب آزاد صاحب اور ان کے پیرو بتائیں کہ ان دونوں نظریوں میں اختلاف وتباین ہے یا نہیں؟ اگر ہے اور یقینا ہے تو ظاہر ہے کہ دونوں نظرئیے صحیح نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے کسی ایک کو غلط قرار دینا پڑے گا۔ پس ثابت ہوا کہ دنیا کے سارے متخالف ادیان وملل سچے نہیں ہوسکتے۔ آزاد صاحب کا بیان بھی سخت لغو ہے۔ کہ اگر سارا حق ایک ہی مذہب کے حجرے میں بند ہوتا اور وہی خدا کی پسند ہوتا تو اس کو رکھ کر باقی سب کو نیست ونابود کر دیتا۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر آزاد صاحب کے نزدیک زنا، اغلا، ڈاکہ، چوری وغیرہ قبیح افعال ہیں تو کیا وجہ ہے کہ
خدائے حکیم ودانا زانیوں، لوطیوں، غارتگروں اور نقب زنوں کو دنیا سے نیست ونابود نہیں کردیتا؟ اصل یہ ہے کہ حکمت خداوندی نے دنیا کو جامع الاضداد بنایا ہے۔ اس لئے کائنات کی ہر چیز خیروشر سے ملی ہوئی ہے۔ خالق کردگارنے نور وظلمت، نیکی وبدی، راحت ورنج، شیرینی وتلخی، شہد وزہر، ہر قسم کی چیزیں بنائی ہیں۔ اگر دنیا کا مزاج ترکیبی سراپا خیر یا سراپا شر ہوتا تو دنیا کا موجودہ نظام کسی طرح قائم نہیں رہ سکتا تھا۔
۴… اور لکھتے ہیں کہ اکبر کو اس بات کا لحاظ بھی ضرور تھا کہ یہ ملک ہندوستان ہے۔ ہندوؤں کو یہ خیال نہ ہو کہ ہم پر ایک متعصب مسلمان حکومت کر رہا ہے۔ اس لئے سلطنت کے آئین اور مقدمات کے احکام میں بلکہ روزمرہ کاروبار میں اس مصلحت کی رعایت ضروری ہوتی ہوگی اور ایسا ہی چاہئے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اکبر شاہ اپنے اسلامی عقائد پر قائم رہ کر بھی ہنود سے بے تعصبی کا سلوک کر سکتا تھا اور انہیں ان کے واجبی حقوق دے کر خوش رکھ سکتا تھا۔ غرض یہ چیز قابل اعتراض نہیں۔قابل ملامت یہ امر ہے کہ اس نے دین حنیف سے سرکشی کی اور راہ حق کو چھوڑ کر کھلم کھلا ارتداد اختیار کر لیا۔
۵… آزاد صاحب رقم فرماہیں کہ مسجدوں کے بھوکوں کو جب ترنوالے ملے اور حوصلے سے زیادہ عزتیں ہوئیں تو گردنوں کی رگیں سخت تن گئیں۔ آپس میں جھگڑنے لگے۔
(دربار اکبری ص۳۸)
اور فرماتے ہیں کہ ان نااہلوں کے کاروبار دیکھ کر نیک نیت بادشاہ کو ضرور خیال ہوا ہوگا کہ حسد اور کینہ وری علمائے کتابی کا خاصہ ہے۔ اچھا انہیں سلام کروں۔
(دربار اکبری ص۶۴)
لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کی طعن وتشنیع کچھ آزاد صاحب پر موقوف نہیں۔ بلکہ یہ اعتراض ابنائے تعلیم جدید میں سے ہر شخص کی زبان پر ہے کہ مولوی لوگ آپس میں جھگڑتے تھے۔ اس لئے اکبر کو اسلام سے نفرت ہوگئی۔ ان اعتراضات کے جواب میں التماس ہے کہ یہ خیال بالکل لغو بیہودہ اور سخت مضحکہ خیز ہے کہ مولویوں کی باہمی آویزش نے اکبر کو مرتد بنادیا۔ کیونکہ پرائے شگون کے لئے کوئی شخص اپنی ناک نہیں کاٹ لیا کرتا۔تعلیم یافتہ لوگوں کے لڑائی جھگڑے کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ سیاسی لیڈروں کو دیکھو۔ ان میں کس طرح سرپھٹول ہوا کرتا ہے۔ جرائد نگار جو قومی کشتی کے ناخدا سمجھے جاتے ہیں۔ کس طرح اپنے معاصرین کی عزت کے خواہاں رہتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی خبریں آپ نے پڑھی ہوںگی۔ وہاں کے ارکان جب آپس میں لڑتے ہیں تو
ایوان کی کرسیاں تک اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے پر مارتے ہیں۔ ہندوستان کی مجالس مقننہ کو دیکھ لو۔ ارکان میں کس طرح تو تو میں میں رہا کرتی ہے۔ کیا ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے کبھی کوئی شخص اپنے مذہبی معتقدات یا سیاسی مسلک سے دست بردار ہوگیا۔ مولوی صاحبان کے باہمی جھگڑے کوئی نئی بات نہیں ہے یہ ہر زمانہ میں برپا رہے اور رہیںگے۔ کیا ان نزاعات کی وجہ سے سلاطین وخلفائے اسلام یا اعیان ملت میں کبھی کسی شخص نے اکبر کی طرح اسلام سے رشتۂ عقیدت منقطع کر لیا؟ ہرگز نہیں۔ اگر علمائے امت نے اہل بدعت اور پرستاران الحاد سے جھگڑا کیا تو انہوں نے اسی طرح اپنا فرض ادا کیا جس طرح پولیس ڈاکوؤں سے مزاحمت کر کے اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآ ہوتی ہے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ خدا کی زمین علماء سوء کے وجود سے بھی خالی نہیں۔ خصوصاً اس کفرزار وغلام آباد ہندوستان میں بہت سے دنیا پرست مولوی اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے اور فساد کی تخم ریزی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن تمام علماء کو مطعون کرنا انتہاء درجہ کی شقاوت وبدنصیبی ہے۔ علماء بشر ہیں وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن ان کی ساری غلطیاں اور کمزوریاں اس ایک خوبی کے مقابلہ میں نظر انداز کر دینی چاہئیں کہ وہ شریعت اسلام کے حامی ہیں اور جب کبھی اہل الحاد اور ارباب نفاق کی طرف سے کوئی فتنہ کھڑا ہوتا ہے تو یہ جھٹ دین حق کی تائید میں سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔
اکبر کے ارتداد کا اصل بانی ومحرک
اکبر کے ارتداد کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بدنصیبی سے ابوالفضل، فیضی اور ان کے باپ مبارک کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ یہ تینوں سخت ملحد تھے۔ یہ لوگ قدیم جذبہ، عناد کی بناء پر جو ہروقت ان کے دل میں مشتعل تھا۔ نہ صرف علماء کے خلاف اکبر کے کان بھرتے رہتے تھے۔ بلکہ انہوں نے اسلامی اصول وعقائد میں الجھنیں ڈال کر بھی اکبر کو اسلام کی طرف سے متنفر کر دیا تھا۔ خود آزاد صاحب کا بیان میرے اس دعویٰ کی تائید کرتا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ ’’ان ہی دنوں میں شیخ ابوالفضل بھی آن پہنچے۔ اس فضیلت کی جھولی میں دلائل کی کیا کمی تھی اور اس طبع خداداد کے سامنے کسی کی حقیقت کیا تھی؟ جس دلیل کو چاہا چٹکی میں اڑادیا۔ بڑی بات یہ تھی کہ شیخ (ابوالفضل) اور شیخ کے باپ (مبارک) نے مخدوم الملک اور صدر الصدور (مولانا عبداﷲ سلطان پوری اور شیخ عبدالنبی) کے ہاتھ سے برسوں تک زخم اٹھائے۔ جو عمروں میں بھرنے والے نہ تھے۔ علماء میں اختلاف وانشقاق کے رستے تو کھل ہی گئے تھے۔ چند ہی روز میں یہ نوبت ہوگئی کہ فروعی مسائل تو
درکنار رہے۔ اصول وعقائد میں بھی کلام ہونے لگے اور ہر بات پر طرہ یہ کہ دلیل لاؤ اور اس کی وجہ کیا؟ رفتہ رفتہ غیر مذہب کے عالم بھی جلسوں میں شامل ہونے لگے اور خیالات یہ ہوئے کہ مذہب میں تقلید (قرآن وحدیث کی پیروی) کچھ نہیں۔ ہر بات کو تحقیق کر کے اختیار کرنا چاہئے۔ ابوالفضل وفیضی کے طرفدار بھی دربار میں پیدا ہوگئے تھے۔ یہ دمبدم اکساتے تھے اور بات بات مین ان (علماء) کی بے اعتباری دکھاتے تھے۔‘‘
(دربار اکبری ص۴۰)
اور لکھتے ہیں: ’’دربار میں بہت عالم ہندوستان، ایران، وتوران کے آکر جمع ہوگئے۔ چار ایوان کا عبادت خانہ علم کا اکھاڑا تھا۔ راتوں کو علمی جلسے ہوا کرتے۔ اکبر خود آکر شامل ہوتا۔ علمی مسائل پیش ہوتے تھے اور دلائل کی کسوٹی پر کسے جاتے تھے۔ جو جو ایذائیں ان بزرگوں کے ہاتھوں (ابوالفضل اور فیضی کے) باپ نے عمر بھر سہی تھیں اور انہوں نے بچپن میں دیکھی تھیں۔ وہ بھولی نہ تھیں۔ اس لئے ہمیشہ گھات میں لگے رہتے تھے اور حریف کی شکست کے لئے ہر مسئلہ میں دلائل فلسفی اور خیالات عقلی سے خلط مبحث کر دیتے تھے۔‘‘
(دربار اکبری ص۳۴۹)
اسی طرح آزاد صاحب رقم فرماہیں۔ ’’عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں کہ ابوالفضل نے تمام مذہبوں کی مخالفت کو اپنا فرض سمجھ لیا ہے اور اس کام پر کس کر کمر باندھی ہے۔ اس نے بادشاہ کی حمایت اور زور خدمت اور زمانہ سازی اور بے دیانتی اور مزاج شناسی اور بے انتہاء خوشامد سے جس گروہ نے چغلیاں کھائیں اور ناروا کوششیں کی تھیں۔ انہیں بری طرح رسوا کیا۔ بحث کے وقت اگر کسی مجتہد کا کلام سند میں پیش کرتے تو کہتا کہ فلانے حلوائی فلا نے موچی فلا نے چرم گر کے قول پر ہم سے حجت کرتے ہو؟ بات تو یہ ہے کہ تمام مشائخ وعلماء کا انکار اسے مبارک ہو۔‘‘
(دربار اکبری ص۴۶۸،۴۶۹)
اور پھر یہ دونوں بھائی بادشاہ اور سلطنت کے بھی خیرخواہ نہیں تھے۔ بلکہ یہ خود غرض مطلب پرست اور عیار تھے۔ اکبر کو بے وقوف بناکر انگلیوں پر نچاتے رہتے تھے۔ چنانچہ خود آزاد صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’فیضی اور ابوالفضل نے بھی بھدرا کیا۔ یہ سب باتیں بادشاہ کی دلجوئی اور اس کی مصلحت ملکی کے لئے تھیں۔ ورنہ فیضی اور ابوالفضل جو اپنی تیزی فکر اور زور زبان سے دلائل فلاطوں اور براہین ارسطو کو روئی کی طرح دھنکتے تھے۔ وہ اور دین الٰہی اکبر شاہی پر اعتقاد لائیںگے۔ توبہ توبہ۔ سب کچھ کرتے ہوںگے اور پھر اپنے جلسوں میں آکر کہتے ہوںگے کہ آج کیا احمق بنایا ہے۔ ایک مسخرہ بھی نہ سمجھا اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے حریف ایسی تجویزوں کے بغیر
ٹوٹ بھی نہ سکتے تھے۔‘‘
(دربار اکبری ص۴۹۱)
غرض دربار اکبری کا مذہبی دنگل دراصل علمائے دربار اور ملاحدہ دربار کا اکھاڑہ تھا۔ جو ایک دوسرے کے حریف مقابل تھے۔ مثل مشہور ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی۔ پس جاتا ہے۔ ابوالفضل نے دربار میں گاؤزوریاں کر کے اور عقائد اسلام پر ملحدانہ اعتراض کر کے اکبر کو بھی اپنی طرح ملحد وبے دین بنادیا۔ اس کی اپنی عاقبت تو تباہ ہی تھی۔ اپنے ساتھ بیچارے اکبر کو بھی لے ڈوبا ار ساتھ ہی ان ہزاروں لاکھوں حرمان نصیبوں کے لئے بھی قبریں کھود ڈالیں۔ جنہوں نے دین حق سے انحراف کر کے کھلم کھلا ارتداد اختیار کر لیا تھا۔ ان تمام تر گمراہیوں کا وبال نکال اسی عدو اللہ ابوالفضل کی گردن پر ہے۔ گوفیضی بھی اس کا شریک کار تھا۔ لیکن اکبر کا اصل شیطان ابوالفضل تھا۔ جسے حکیم الملک فضلہ کہا کرتے تھے۔ اگر اس کی سرشت میں بدی نہ ہوتی تو وہ مخدوم الملک اور شیخ عبدالنبی سے انتقام لینے کے بعد اکبر کو کوئی نیک مشورہ بھی دیتا۔ مگر اس خمیر مایۂ فساد نے اسے ہمیشہ غلط راستہ پر ڈالے رکھا اور کبھی بے لاگ مشورہ دے کر اکبر اور اس کی رعایا کی خیرخواہی نہ کی۔
آزاد کابیان کہ خوشامد کوئی آسان کام نہیں
آزاد صاحب ابوالفضل اور فیضی کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش میں لکھتے ہیں کہ: ’’آج کل کے روشن دماغ کہتے ہیں کہ دونوں بھائی حد سے زیادہ خوشامدی تھے۔ درست ہے مگر انہیں کیا خبر ہے کہ موقع وقت کیا تھا اور ان کا میدان (دربار) کیسے پرانے پرزور اور جنگ آزمودہ دشمنوں (علماء) سے بھرا ہوا تھا۔ یہی آئین جنگ اور یہی توپ وتفنگ (روباہ بازی، عیاری اور خوشامد) تھے۔ جنہوں نے ایسے حریفوں (علماء) پر فتح یاب کیا۔ نئی سلطنت کا بنانا (دربارمیں) اختیارات حاصل کرنا اور اپنے حسب مطلب بنانا (بادشاہ کو اسلام سے متنفر کر کے اپنے ڈھڑے پر لگانا) اور پرانی جڑوں کو زمین کی تہ میں سے نکالنا (بادشاہ کے دل میں علماء کی طرف سے نفرت وعناد کی تخم رانی کرنا اور علماء کو اکھیڑ پھینکنا) انہی لوگوں کا کام تھا۔ جو کر گئے۔ خوشامد کیا آسان بات ہے؟ پہلے کوئی کرنی تو سیکھے۔‘‘
(دربار اکبری ص۳۶۲)
خدا وہ وقت نہ لائے کہ ہماری زبان کبھی کسی کی خوشامد میں متحرک ہو۔ لیکن آزاد صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی بہت بڑا فن ہے اور مقام مسرت ہے کہ آزاد صاحب نے ابوالفضل اور فیضی کی شاگردی میں اس فن شریف میں اچھی دستگاہ حاصل کر لی تھی۔
ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ آزاد صاحب سخت ملحد اور علوم شریعت سے بے بہرہ ہونے کے باوجود شمس العلماء بنا دئیے جاتے۔ میں نے ایک انگریزی کتاب کا مطالعہ کرتے وقت گرگ بن گرگ ابوالفضل کی تصویر دیکھی تھی۔ اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا دنیا بھر کی عیاریاں اور شیطنت کاریاں اس شخص کے دل ودماغ میں جمع ہیں۔
باب۵۴ … سید محمد نور بخش جونپوری
سید محمد نور بخش جونپوری اولیائے مغلوب الحال میں سے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے عالم حال ووجد میں دیکھا کہ شخص خطاب کر رہا ہے۔ ’’انت مہدی‘‘ یعنی تو مہدی ہے۔ وہ یہ سمجھے کہ میں مہدی موعود ہوں۔ مہدویت کبریٰ کا دعویٰ کر بیٹھے اور یہ کہنا شروع کیا کہ میں وہی ہوں۔ جس کی بشارت جناب مخبر صادقﷺ نے احادیث صحیحہ میں دی ہے۔ کچھ زمانہ تک اس دعویٰ پر قائم رہے۔ ہزارہا لوگوں نے ان کی متابعت کی۔ آخر حج بیت اللہ کا قصہ کیا۔ اثنائے راہ میں ان کو کشف ہوا کہ وہ مہدی موعود نہیں۔ بلکہ بایں معنی مہدی ہیں کہ عبادت الٰہی کی طرف خلق خدا کی راہنمائی کرنے میں ہدایت یافتہ ہیں۔ اس کشف کے بعد دعوائے مہدویت سے تائب ہوئے اور اپنے مریدوں اور ہمراہوں کو بھی ہدایت کی کہ اس اعتقاد سے توبہ کریں اور کہا کہ سفر حج سے واپس چل کر اعلان عام کر دوں گا کہ میں مہدی موعود نہیں ہوں۔ لیکن اثنائے سفر میں سفر آخرین اختیار کر لیا۔ وہ مرید جو رفقائے سفر تھے۔ جب وطن کو لوٹے تو انہوں نے آکر بتایا کہ سید نور بخش نے سفر واپسیں سے پیشتر دعوائے مہدویت سے رجوع کیا تھا۔ بعض لوگ اس عقیدہ سے تائب ہوئے اور بعض پہلے عقیدہ پر اڑے رہے۔
(ہدیہ مہدویہ ص۲۰۲، ناقلاً عن معارج الولایت)
مؤخر الذکر جماعت کو نور بخشیہ کہتے ہیں۔ مرزاحیدر نے تاریخ رشیدی میں لکھا ہے کہ پہلے اہل کشمیر تمام حنفی المذہب تھے۔ لیکن فتح شاہ کے زمانہ میں عراق سے ایک شخص جس کا نام شمس الدین تھا۔ کشمیر آیا اور اپنے آپ کو میر محمد نور بخش کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو مذہب نور بخشیہ کی دعوت دینے لگا۔ یہ مذہب کفروزندقہ سے ہمکنار ہے۔ اس کے پیرو روافض کی طرح خلفائے ثلاثہ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو گالیاں دیتے ہیں۔ میر سید محمد نور بخش کو صاحب الزمان اور مہدی موعود یقین کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے تمام عبادات اور معاملات میں بڑے بڑے تصرفات کئے ہیں۔ حالانکہ میں نے بدخشاں وغیرہ مقامات میں جن نور بخشیوں کو دیکھا تھا وہ شریعت ظاہری سے آراستہ اور سنن نبویہ سے پیراستہ تھے۔ وہ لوگ ہر بات میں اہل سنت
وجماعت سے متفق تھے۔ مرزا حیدر لکھتے ہیں کہ میر سید محمد نور بخش کی اولاد میں سے ایک شخض نے ان کا ایک رسالہ بھی مجھے دکھایا تھا۔ اس میں بعض باتیں خوب لکھی تھیں۔ مثلاً یہ کہ سلاطین، امراء اور جہال کا گمان ہے کہ ظاہری سلطنت طہارت وتقویٰ کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ یہ محض غلط ہے کیونکہ اعظم انبیاء ورسلﷺ منصب نبوت کے ساتھ برسر حکومت تھے۔ اسی طرح حضرات یوسف، سلیمان، داؤد علیہم الصلوٰۃ والسلام بھی فرمانروا تھے۔ شمس الدین مذکور نے نور بخشی مذہب میں تصرفات کر کے اپنے مذہب کی جو کتاب کشمیر میں رائج کی۔ اس کو (یااحوطہ) کہتے تھے۔ میں نے یہ کتاب بغرض تنقید کشمیر سے ہندوستان بھیجی۔ علمائے ہند نے اس کتاب کی نسبت یہ رائے ظاہر کی کہ اس کتاب کا مصنف باطل مذہب کا پیرو اور سنت مطہرہ سے دور ہے۔ اسے فرقۂ حقہ اہل سنت وجماعت سے کوئی واسطہ نہیں اور اس کا یہ دعویٰ ’’ان اللہ امرنی ان ارفع الاختلاف من بین ہذہ الامۃ اولا فی الفروع سنن الشریعۃ المحمدیۃ کما کانت فی زمانہ من غیر زیادۃ ونقصان وثانیا فی الاصول من بین الاسم وکافۃ اہل العلم بالیقین‘‘ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ امت کے اختلاف مٹادوں۔
بالکل جھوٹا ہے اس کتاب کا مؤلف زندقہ کی طرف مائل ہے۔ جن لوگوں کو قدرت ہو ان پر لازم ہے کہ اس کتاب کو تلف کر دیں اور اس کے پیروؤں کو اس مذہب باطل سے ہٹا کر حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مذہب حق کی متابعت پر مائل کریں۔ مرزاحیدر لکھتے ہیں کہ جب یہ فتویٰ میرے پاس کشمیر پہنچا اور میں نے اس کا اعلان کیا تو بہت سے نور بخشی تائب ہوکر حنفی مذہب میں داخل ہوگئے اور بعض تصوف کا لبادہ اوڑھ کر صوفی کہلانے لگے۔ حالانکہ وہ قطعاًصوفی نہیں بلکہ ملحد اور زندیق ہیں۔ جن کا کام لوگوں کے متاع ایمان پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔
قومے نہ زظاہر نہ زباطن آگاہ
انگہ جہالت بہ بطالت آگاہ
مستغرق کفرند وحقیقت گویند
لاحول ولا قوۃ الا باﷲ
انہیں حلال اور حرام کی کوئی تمیز نہیں۔ انہوں نے شب بیداری اور کم خواری کو تقویٰ طہارت سمجھ رکھا ہے۔ کرامات کی لاف زنی کرتے ہیں۔ غیب کی جھوٹی خبریں بتایا کرتے ہیں کہ اس سال یوں ہوگا اور فلاں سال یہ ہوگا۔ ایک دوسرے کو سجدہ کرتے ہیں اور باوجود اس رسوائی کے
چلے کھینچتے ہیں۔ علوم شریعت کو نہایت مذموم ومکروہ خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے شریعت سے الگ ہوکر اپنی خانہ زاد طریقت کی راہ اختیار کر رکھی ہے اور کہتے ہیں کہ اہل طریقت کو شریعت سے کیا سروکار؟ ان کی طریقت کو شریعت سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نور کا وجود آفتاب سے وابستہ ہے اور آفتاب ہماری صفائی واقعی عقیدہ سے قائم ہے اور ہمارا وجود اس کی نورانیت کا مرہون منت ہے۔ اگر ہم اپنی صفائی عقیدہ کو مکدر کر دیں تو آفتاب بھی نابود ہو جائے اور اگر آفتاب ہم پرفیض گستر نہ ہو تو وہ بھی قعر عدم میں جا پڑے۔ غرض جس طرح ہم اس کے ساتھ موجود ہیں اس طرح ہمارے بغیر اس کا وجود بھی محال ہے۔ چونکہ اس پر دن کے وقت ہمارے احوال روشن ہیں۔ ہمیں صلاح وخوبی کے سوا کوئی اور کام نہ کرنا چاہئے۔ البتہ جب رات آکر تاریکی کی ساہ چادر تان دیتی ہے تو وہ ہمیں نہیں دیکھتا اور ہمارے احوال پر مطلع نہیں ہوسکتا۔ اس لئے رات کی تاریکی میں جو کچھ بھی کر لیں اس پر کچھ مواخذہ نہیں۔ غرض یہ فرقہ سخت گمراہ ہے۔ ایسے زنادقہ وملاحدہ کسی اور جگہ نہ دیکھے گئے ہوںگے۔
سید محمد نور بخش صاحب تصانیف تھے۔ غیر مسلموں کو ان کی تصنیفات سے کس قدر شغف تھا۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ پارسیوں کا مذہبی پیشوا شیدوش مؤبد جب ۱۰۴۰ھ میں کشمیر میں مرا ہے تو حالت نزع میں اس نے میر نور بخش کے یہ اشعار پڑھنے شروع کئے۔ جس کے آخری مصرعہ پر اس کا دم نکل گیا۔
یکے قطرہ ام از محیط وجود
اگر چندداریم کشف دستور
من از قطرہ کے گشت ام بس نفور
خدایا رسانم بہ دریائے نور
باب۵۵ … بایزید روشن جالندھری
بایزید ابن عبداﷲ انصاری ۹۳۱ھ میں بمقام جالندھر (پنجاب) پیدا ہوا۔ نبوت کا مدعی تھا۔ کہتا تھا کہ جبرائیل امین میرے پاس رب العالمین کی طرف سے پیغام لاتے ہیں اور میں خالق کون ومکان کو اپنی ان دو ظاہری آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور بلا توسل جبریل بھی خدا سے بالمشافہ گفتگو کرتا ہوں۔ بایزید نے اپنا لقب روشن پیر رکھا تھا۔ ایک دفعہ کہنے لگا کہ مجھے غیب سے ندا ہوئی ہے کہ تمہں سب لوگ روشن پیر کہا کریں۔ چنانچہ اس کے پیرو اسے ہمیشہ اسی لقب سے یاد
کرتے تھے۔ مگر عامۃ المسلمین میں وہ تاریک پیر کے نام سے شہرت رکھتا تھا۔ بایزید صاحب تصانیف تھا بہت سی کتابیں عربی، فارسی اور پشتو میں مدون کیں۔ اس کی ایک کتاب کا نام خیرالبیان ہے۔ جسے عربی، فارسی، ہندی اور پشتو چار زبانوں میں لکھا تھا۔ کہتا تھا کہ خیرالبیان کلام الٰہی ہے۔ اس میں صرف وہی باتیں ہیں جو رب العالمین نے مجھے مخاطب کر کے کہیں۔ اسی بناء پر اس کے پیرو اس کے صحیفۂ الٰہی ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے۔ اس کی ایک کتاب کا نام حال نامہ تھا۔ اس میں اپنے سوانح حیات قلمبند کئے تھے۔ بایزید کلام الٰہی کے حقائق ومعارف بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتا تھا اور لوگوں کے دل پر اس کے تبخر علمی کا سکہ جما ہوا تھا۔ اس کے دعویٰ نبوت سے پیشتر مرزامحمد حکیم خلف ہمایوں بادشاہ صوبہ دار کابل نے اپنے دربار میں علماء سے اس کا مناظرہ کرایا۔ فقہائے کابل جو علوم عقلیہ سے بالکل عاری تھے روایتوں کے اسلحہ سے مسلح ہوکر مقابلہ کو آئے۔مگر بایزید کے مقابلہ میں محض منقولات سے کیا کام چلتا تھا۔ علماء نے زک اٹھائی اور صوبہ دار اس کی خوبیٔ تقریر اور زور کلام کی وجہ سے معتقد ہوگیا۔
پیر کے برکت انفاس سے محرومی
بایزید کو خورد سالی سے تحقیق کا شوق تھا۔ اکثر لوگوں سے دریافت کیا کرتا تھا کہ زمین وآسمان تو موجود ہیں۔ مگر ان کا پیدا کرنے والا کہاں ہے۔ ہمدردی ورفاہ خلائق اس کا مایۂ خمیر تھی۔ طفلی میں اگر اپنی زراعت کی نگرانی کے لئے جاتا تو دوسرے کاشتکاروں کے کھیت کی بھی خبر گیری کرتا۔ بیوہ اور بوڑھی عورتوں کو سودا سلف لا دیتا۔ ان کے گھڑے بھرلاتا۔ بیکس دورماندہ لوگوں کو کھانا پکادیتا۔ اگر محتاج ہوتے تو آٹا بھی اپنے گھر سے پہنچا دیتا۔ ادنیٰ، اعلیٰ سب کا خدمت گار تھا۔ کبھی کسی کا سوال رد نہ کیا۔ اس کا مقولہ تھا کہ جس شخص کی ذات سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس میں اور کتے بلی میں کیا فرق ہے؟ یہ شخص اوائل سے متعبد وپرہیز گار تھا۔ ہر وقت یاد الٰہی میں مصروف رہتا تھا۔ ان دنوں میں اس کے اقرباء میں سے خواجہ اسماعیل نام ایک صوفی جالندھر میں مسند ارشاد پر متمکن تھا۔ بہت لوگوں نے اس کی صحبت میں رہ کر فیض باطنی حاصل کیا۔ بایزید نے بھی اس کے حلقۂ مریدین میں داخل ہونے کا قصد کیا۔ مگر اس کا باپ عبداﷲ مانع ہوا اور کہنے لگا۔ میرے لئے یہ ننگ وعار ہے کہ تم اپنے ہی خویشوں میں سے ایک فرومایہ شخص کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ بہتر ہے کہ ملتان جاکر شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کی اولاد میں سے کسی کو اپنا ہادی بناؤ۔ بایزید کہنے لگا کہ شیخی اور بزرگی کوئی
موروثی چیز نہیں ہے۔ غرض کہیں بھی مرید نہ ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان نے اس پر پنجہ اغوا مارا اور تقدس کے دوسرے دوکانداروں کی طرح اس کو اپنے حلقۂ ارادت میں داخل کر لیا۔ اس کے عربی الہام دبستان مذاہب میں درج ہیں۔ جو صاحب ان کو دیکھنا چاہیں وہ کتاب مذکور کی طرف رجوع کریں۔
ملحد کی صحبت کا اثر اور بیٹے پر باپ کا قاتلانہ حملہ
جب بڑا ہوا تو وطن مالوف کو الوداع کہہ کر ماں کے ساتھ اپنے والد کے پاس کالی کرم واقع کوہ ہائے روہ کو چلا گیا۔ وہاں کوئی تجارت شروع کی۔ جب کچھ روپیہ جمع ہوگیا تو گھوڑوں کی خرید وفروخت کے لئے سمرقند گیا اور وہاں سے دو گھوڑے خرید کر ہندوستان لایا۔ کالنجر پہنچ کر ملا سلیمان کالنجری نام ایک ملحد کی صحبت میں رہا۔ ملحد مذکور تناسخ کا قائل تھا۔ بایزید اس کے اثر صحبت سے تناسخی العقیدہ ہوکر نعمت ایمان سے محروم ہوگیا۔ جب کالنجر سے لوٹ کر کالی کرم پہنچا تو اپنے عقیدہ تناسخ کی نشروتوزیع شروع کر دی۔ عبداﷲ کو جو ایک راسخ الاعتقاد مسلمان تھا بیٹے کی یہ حرکت سخت ناگوار ہوئی۔ یہاں تک کہ غیرت دینی سے مجبور ہوکر بیٹے پر چھری سے حملہ کر دیا اور اسے بری طرح مجروح کیا۔ بایزید کالی کرم سے ننگر ہار کو چلا گیا اور وہاں علاقہ مہمند میں سلطان احمد کے مکان پر رہنے لگا۔ جب علماء کو اس کی بدمذہبی کا حال معلوم ہوا تو مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو اس کی طرف سے سخت بدگمان کر دیا۔ اس لئے تمام لوگ اس سے دور دور بھاگنے لگے۔ غرض اس جگہ اس کا کسی پر جادو نہ چل سکا۔ یہاں سے بے نیل ومرام پشاور کی طرف گیا اور غور یا خیل پٹھانوں میں جاکر رہنے لگا۔ چونکہ اس علاقہ میں علماء عنقا کا حکم رکھتے تھے۔ مزاحمت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اسے خاطر خواہ کامیابی ہوئی۔ یہاں تک کہ اس سرزمین میں بلاشرکت غیرے پیری وپیشوائی کا تاج وتخت حاصل کر لیا اور قریب قریب ساری قوم خلیل اس کی مطیع ہوگئی۔ پھر ہشت نگر میں گیا۔ یہاں بھی اس کی مشیخت کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ مگر علماء مباحثہ کرنے کے لئے امنڈ آئے۔ اخوند درویزہ سے اس کا مناظرہ ہوا۔ بایزید مغلوب ہوگیا۔ مگر اس کے مرید ایسے خوش اعتقاد اور طاقتور تھے کہ اخوند درویزہ کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں۔ جب بایزید کی مذہبی غارتگری کا حال محسن خاں نے سنا جو ان دنوں اکبر بادشاہ کی طرف سے کابل کا گورنر تھا۔ تو وہ بہ نفس نفیس ہشت نگر آیا اور اسے گرفتار کر کے کابل لے گیا۔ مدت تک وہاں زندان بلا کی مشقتیں سہتا رہا۔ آخر رہا ہو کر ہشت نگر واپس آیا اور اپنے تمام مریدوں کو جمع کر کے طوطی کے پہاڑوں میں گھس
گیا۔ کچھ مدت تک مورچہ بندیوں میں مشغول رہا۔ وہاں سے تیراہ کی سیاحت کو آیا اور وعظ وتذکیر کے فسوں پھونک کر آفریدی اور ورکزی پٹھانوں کو بھی اپنے دام مریدی میں پھانس لیا۔ اہل سرحد کے دلوں میں اس کی عقیدت کی گرمی اس طرح دوڑنے لگی جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے۔
ایک عالم سے مذہبی چھیڑ چھاڑ
جس طرح ابلیس مرزاغلام احمد قادیانی کو اپنی نورانی شکل دکھایا کرتا تھا اور یہ بیجارے اس کو اپنا معبود برحق یقین کیا کرتے تھے۔ اسی طرح بایزید بھی ابلیس کے رخ انور کے شرف دیدار سے مشرف ہوکر اس کو (معاذ اللہ) خدائے برتر سمجھ بیٹھا تھا۔ چنانچہ اسی اذعان ویقین کی بناء پر لوگوں سے یہ سوال کیا کرتا تھا کہ تم لوگ کلمۂ شہادت کس طرح پڑھتے ہو؟ وہ کہتے ’’اشہد ان لا الہ الا اﷲ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا پرستش کے لائق کوئی نہیں۔
بایزید کہتا کہ جس کسی نے خدا کو دیکھا اور پہچانا نہیں وہ کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں تو وہ اپنے قول میں جھوٹا ہے۔ کیونکہ جو شخص خدا کو نہیں دیکھتا وہ اس کو پہچانتا بھی نہیں۔ مولانا زکریا نام ایک سرحدی عالم نے بایزید سے کہا کہ تمہیں کشف القلوب کا دعویٰ ہے۔ بتاؤ اس وقت میرے دل میں کیا ہے؟ بایزید نے ملحدانہ عیاری سے کام لے کر جواب دیا کہ میں تو یقینا کاشف قلوب اورلوگوں کے خواطر وتخیلات سے آگاہ ہوں۔ لیکن تمہارے اندر تو دل ہی نہیں ہے۔ اگر تمہارے اندر دل موجود ہوتا تو میں ضرور اس کی اطلاع دیتا۔ مولانا زکریا نے کہا اچھا اس کا فیصلہ آسان ہے۔ یہ قوم کے لوگ سن رہے ہیں۔ تم مجھے قتل کردو۔ اگر میرے سینہ میں سے دل برآمد ہوا تو پھر لوگ تمہیں بھی ہلاک کر دیںگے۔ بایزید کہنے لگا کہ یہ دل جس کو تم دل سمجھ رہے ہو۔ یہ تو گائے بکری اور کتے تک میں موجود ہے۔ دل سے مراد گوشت کا ٹکڑا نہیں۔ دل اور ہی چیز ہے۔ چنانچہ رسول عربی(ﷺ) نے فرمایا ہے: ’’قلب المؤمن اکبر من العرش واوسع من الکرسی‘‘ {مؤمن کا دل عرش سے زیادہ بڑا اور کرسی سے زیادہ وسیع ہے۔} مگر بایزید کا یہ بیان بالکل لغو ہے۔ دل وہی گوشت کا لوتھڑا ہے جو صوفیائے کرام کی اصطلاح میں لطیفہ قلب کہلاتا ہے اور حدیث صحیح میں پیغمبر خداﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔ جب اس کی اصلاح ہو جائے تو سارے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے اور جب اس میں فساد رونما ہو تو سارا جسم فاسد ہوجاتا ہے۔ معلوم ہو کہ یہ دل ہے۔ حضرات صوفیہ طرح طرح کے افکار واشغال سے اسی قلب کی اصلاح میں کوشاں رہتے ہیں۔ جب یہ اصلاح پذیر ہو جاتا ہے تو اس پر
تجلیات الٰہیہ کا دردہ ہوتا ہے اور دل معرفت الٰہی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ اسی دل کی آنکھوں سے اہل اللہ خدائے بیچوں کو بے کیف دیکھتے ہیں۔ اسی دل پر خواطر وخیالات اس طرح موجزن رہتے ہیں جس طرح سطح آب پر لہریں اٹھتی ہیں۔ چونکہ بایزید کو کشف قلوب کا دعویٰ تھا۔ مولانا زکریا اس سے اپنے دل کا راز دریافت کرنے میں حق بجانب تھے۔ لیکن بایزید نے جیسا کہ دجالوں کا عام شعار ہے۔ اس سوال کو باتوں ہی میں اڑا دیا۔ مؤمن کے دل کے عرش سے زیادہ بڑے اور کرسی سے زیادہ وسیع ہونے کا مقولہ جو بایزید نے حضرت خیرالبشرﷺ کی طرف منسوب کیا تو یہ محض افتراء ہے۔ یہ پیغمبر خدا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تو ارشاد گرامی نہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ کسی صوفی کا قول ہو۔ اس کے بعد مولانا زکریا نے کہا کہ تمہیں کشف قبور کا دعویٰ ہے۔ ہم تمہارے ساتھ گورستان چلتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ کوئی مردہ تم سے ہم کلام ہوتا ہے یا نہیں؟ بایزید کہنے لگا کہ مردہ تو یقینا مجھ سے ہم کلام ہوگا اور میں اس کی باتیں سنوں گا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ تم کچھ نہ سنو گے۔ اگر تم مردے کی آواز سن سکتے تو میں تمہیں گبر کیوں کہتا؟ اس جواب پر لوگ کہنے لگے کہ پھر لوگ کس طرح یقین کریں کہ تم حق پرست ہو؟ بایزید بولا کہ تم میں سے ایک شخص جو سب سے بہتر اور فاضل ہو وہ میرے پاس رہے اور میرے آئین کے موافق عبادت وریاضت بجالائے۔ اگر اسے کچھ نفع ہو تو پھر میرا مرید ہو جائے۔ مرزاغلام احمدقادیانی نے بھی اسی قسم کی ایک مضحکہ خیز شرط پیش کی تھی کہ جو کوئی میر امعجزہ دیکھنا چاہے وہ قادیان آئے اور نہایت حسن اعتقاد کے ساتھ ایک سال تک قادیان رہے۔ اس کے بعد میں معجزہ دکھادوںگا۔ ملک مرزانام ایک شخص بایزید سے کہنے لگا کہ اے بایزید! لغوبیانی سے باز آؤ اور مسلمانوں کو کافر اور گمراہ مت کہو۔ جو کوئی چاہے تمہاری پیروی اختیار کرے اور جو پسند نہ کرے وہ اپنی راہ پر گامزن رہے۔ بایزید بولا کہ اگر کسی مکان میں جانے کا ایک ہی راستہ ہو۔ بہت سے آدمی اس میں سورہے ہوں اور اس گھر کو آگ لگ جائے۔ اچانک ان میں سے ایک آدمی کی آنکھ کھل جائے۔ کیا وہ دوسروں کو بیدار کرے یا نہیں؟ لیکن یہ تمثیل صحیح نہیں تھی۔ مسلمان تو پہلے سے بیدار تھے ان کو خواب گمراہی کا یہ مست بھلا۔ کیونکر بیدار کر سکتا تھا۔
آنکس کہ خود گم است کرا رہبری کند
لوگوں نے کہا اے بایزید! اگر حق تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے تو بلا تأمل کہو کہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آتے ہیں اور میں مہدی ہوں۔ لیکن مسلمانوں کو کافر اور گمراہ مت کہو۔
اکبر شاہ کا حریف مقابل
سرحدی عقیدت مندوں سے قوی پشت ہوکر بایزید نے سرحد میں اپنے قدم نہایت مضبوطی سے جمالئے۔ یہاں تک کہ اکبر شاہ کی اطاعت سے باہر ہوکر اس کا حریف ومقابل بن گیا اور کھلم کھلا علم سیتزہ کاری بلند کر دیا۔ بایزید اپنی تقریروں میں کہتا تھا کہ مغل ظالم اور جفا پیشہ ہیں۔ انہوں نے افغانوں پر حد سے زیادہ ظلم توڑے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر اکبر بادشاہ سخت بے دین ہے۔ اس لئے اس کی اطاعت ہر کلمہ گو پر حرام ہے۔ ان کی تقریروں کا یہ اثر ہوا کہ ہر جگہ آتش ہیجان مشتعل ہوئی اور اکثر سرحدی قبائل اکبر سے منحرف ہوگئے۔ جب بایزید کی چیرہ دستیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو اکبر کے کان کھڑے ہوئے اور اس نے ایک لشکر جرار اس کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ لیکن شاہی لشکر خود ہی سرکوب ہوکر بھاگ آیا۔ اس فتح سے بایزید کے حوصلے اور زیادہ بڑھے۔ افغانوں کی نظر میں شاہی فوج کی کچھ حقیقت نہ رہی اور سرحدی علاقوں میں اکبری حکومت کے خلاف ایسے ایسے مفاسد پیدا ہوئے جو شب سیاہ سے بھی زیادہ تاریک تھے۔ اکبر یہ دیکھ کر گھبرایا۔ لیکن وہ بھی بساط تدبیر کا پکا شاطر تھا۔ اس نے اہل تیراہ کو زرومال کے اسلحہ سے رام کر کے اپنے ڈھب پر لگالیا۔ اب تیرا ہی ظاہر میں تو بایزید کا کلمہ پڑھتے تھے۔ مگر بباطن سلطنت مغلیہ کے ہوا خواہ تھے۔ جب بایزید کو تیراہیوں کے مکر ونفاق کا علم ہوا تو اس نے بہتوں کو خون ہلاک سے گلگوں کیا اور بعض کو ملک بدر کیا۔ انجام کار اس کے پیرو تیراہ پر پوری طرح متسلط ہوگئے۔ اب اس نے ننگر ہار پر بھی قبضہ کر لیا اور جن بستیوں نے اس کے حکم سے ذرا بھی سرتابی کی انہیں لوٹ کر برباد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ سرحدی میں کسی کو چون وچرا کی گنجائش باقی نہ رہی۔ مگر ان سفاکیوں کی وجہ سے فضائے ملک مکدر ہونے لگی اور بعض قبائل بایزید کی اطاعت سے منحرف ہوگئے۔ مگر چونکہ اس کی شان وشوکت اور وسعت اقتدار غایت درجہ پر پہنچ چکی تھی۔ اس لئے کوئی مخالفت بار آور نہ ہوئی۔ بایزید کا علم یکتائی دن بدن بلند ہوتے دیکھ کر اکبر بادشاہ ہر وقت انتقام کے لئے دانت پیس رہا تھا۔ آخر بایزید کے استیصال کا عزم صمیم کر کے ایک اور فوج گراں روانہ کی اور صوبہ دار کابل کو بھی کابل کی طرف سے یورش کرنے کا حکم دیا۔ محسن خان صوبہ دار کابل جلال آباد سے تیار ہوکر بایزید پر چڑھ آیا اور ادھر سے افواج شاہی نے اس پر یورش کردی۔ غرض ہنگامہ کار زار گرم ہوا اور ہر طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ ہر چند کہ افغانستان کے مختلف حصوں سے سربکف جانباز بایزید کی تائید میں امڈے چلے آرہے تھے۔ لیکن چونکہ بایزید کا ستارہ روبزوال ہوگیا تھا۔
دوطرفہ فوجوں کے مقابلہ سے عہدہ برآنہ ہوسکا اور شکست فاش کھائی۔ اگر بعض اتفاقی امور نے مساعدت نہ کی ہوتی تو بس بایزید کا خاتمہ ہی تھا۔ اس کے اکثر پیرو مارے گئے اور بعض دشوار گذار پہاڑیوں پر چڑھ گئے۔ خود بایزید نے ہشت نگر کی طرف بھاگ کر جان بچائی۔ اب بایزید ازسرنو فراہمی لشکر میں مشغول ہوا۔ مگر عمر نے وفانہ کی اور موت کے فرشتہ نے پیام اجل آسنایا۔ افغانستان کے سلسلہ کوہ میں بھتہ پور کی پہاڑی پر اس کی قبر ہے۔
بایزید کے بعض متصوفانہ اقوال
بایزید کے متصوفانہ اقوال جن کی بناء پر بعض سادہ لوح ظاہر بین اس کو عارف باﷲ یقین کرتے تھے۔ بایزید کی کتاب حالنامہ میں درج ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں زبان سے کلمۂ شہادت کہنا اور اس کی تصدیق کرنا شریعت کا فعل ہے اور زبان کو ہر وقت تسبیح وتہلیل اور ذکر خداوندی میں مصروف رکھنا اور دل کو وساوس وخطرات سے پاک رکھنا۔ طریقت کا فعل ہے۔ ماہ رمضان کا روزہ رکھنا اور کھانے پینے اور جماع سے باز رہنا شریعت کا فعل ہے اور روزہ نفل سیری سے بچنا کم خوری کی عادت کرنا اور جسم کو برائیوں سے محفوظ رکھنا طریقت کا فعل ہے۔ مال کی زکوٰۃ اور عشر دنیا شریعت کا فعل ہے اور فقیر اور روزہ دار کو کھانا کپڑا دینا اور درماندوں کی دستگیری کرنا طریقت کا فعل ہے۔ بیت خلیل کا طواف کرنا اور ہر قسم کے گناہ اور لڑائی جھگڑے سے باز رہنا شریعت کا فعل ہے اور خانہ خدا یعنی دل کا طواف کرنا اور نفس امارہ سے جنگ کرنا اور ملائکہ کی سی اطاعت کرنا طریقت کا فعل ہے۔ دائم یاد حق میں مصروف رہنا ماسوی اللہ کا پردہ دل سے دور کرنا اور جمال دوست کا نظارہ کرنا حقیقت کا فعل ہے۔ نور عقل کے ذریعہ سے اس کو ہر جگہ معلوم کرنا اور مخلوقات میں سے کسی کو مضرت نہ پہنچانا معرفت کا فعل ہے اور حق کو پہچاننا اور تسبیح کی آواز سننا اور اس کو سمجھنا قربت کا فعل ہے اور اپنے وجود کو ترک کرنا اور ہر فعل کا مصدر ذات باری کو یقین کرنا اور فضولیات سے بچنا وصال کو سمجھنا وصلت کا فعل ہے۔ اپنی ذات کو حق مطلق میں فانی کر دینا اور باقی مطلق ہو جانا اور احد کے ساتھ موحد ہو جانا شر سے پرہیز کرنا توحید کا فعل ہے اور مسکن اور ساکن ہونا صفات باری تعالیٰ اختیار کرنا اور اپنے وصف کو چھوڑ دینا سکونت کا فعل ہے اور سکونت سے بالاتر کوئی درجہ نہیں۔ قربت، وصلت، وحدت اور سکونت وغیرہ اصطلاحیں خاص بایزید کی تراشی ہوئی ہیں۔ وحدان مراتب کو شریعت طریقت اور معرفت سے فائق جانتا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ حسب دلخواہ عربی عبارتیں لکھ کر ان کو پیغمبر خداﷺ کی طرف منسوب کر دیتا تھا اور پھر بات بات
میں کہنے لگتا کہ حدیث میں یوں آیا ہے۔ مثلاً کہتا تھا کہ رسول عربی(ﷺ) نے فرمایا ہے: ’’الشریعۃ کمثل اللیل والطریقۃ کمثل النجوم والحقیقۃ کمثل القمر والمعرفۃ کمثل الشمس ولیس فوق الشمس شیٔ‘‘ {شریعت رات کی مانند ہے۔ طریقت ستاروں کا حکم رکھتی ہے۔ حقیقت قمر کی طرح ہے اور معرفت آفتاب کی مانند ہے اور آفتاب سے فائق وبرتر کوئی چیز نہیں۔} حالانکہ یہ دعویٰ بدیہی البطلان ہے کہ شریعت رات کی مانند ہے۔ ان خرافات کا قائل ملحدوں کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ چہ جائیکہ ان کو حضرت شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کیا جاسکے۔
بایزید کی شریعت
یہ تو اس کے متصوفانہ اقوال تھے۔ اب اس کی شریعت کا بانکپن ملاحظہ ہو۔ بایزید مسلمانوں کا ذبیحہ حرام بتاتا تھا اور کہتا تھا کہ جو شخص مجھے میرے تمام دعوؤں میں سچا نہیں جانتا اور وحد ت وجود کے مسئلہ ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں۔ اس لئے اس کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام ونجس ہے۔ بایزید خود نماز کا پابند تھا اور اپنے پیروؤں کو بھی اس کی تاکید کرتا تھا۔ مگر قبلہ کی تعیین کا پابند نہ تھا۔ بلکہ جدھر چاہتا منہ کر کے نماز پڑھ لیتا اور جب اس پر اعتراض ہوتا تو اس آیۃ قرآنی سے استدلال کرتا۔ ’’فاینما تولوا فثم وجہ اﷲ‘‘ {تم لوگ جس طرف منہ کرو ادھر ہی اللہ تعالیٰ کا رخ ہے۔} مگر یہ استدلال قطعاً باطل ہے۔ اس آیۃ کے یہ معنی نہیں کہ ہر شخص مجاز ہے کہ جدھر چاہے منہ کر لیا کرے۔ بلکہ اس آیۃ میں محض یہود کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ آغاز اسلام تک اہل ایمان کا قبلہ بیت المقدس چلا آتا تھا۔ لیکن جب بیت المقدس کی جگہ کعبہ معلی قبلہ مقرر ہوا تو یہود نے تبدیل قبلہ پر اعتراض کیا۔ اس کے جواب میں باری تعالیٰ نے ارباب ایمان سے خطاب کر کے فرمایا کہ جس طرف تم نے اب رخ کیا ہے۔ ادھر بھی اللہ ہی کا رخ ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ جس طرح حق تعالیٰ کی ذات کا پورا ادراک کسی بندہ سے ممکن نہیں۔ اسی طرح اس کے صفات کی حقیقت بھی فہم انسانی سے خارج ہے۔ پس اس ارشاد سے کہ ادھر ہی کو اللہ کا رخ ہے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ حق تعالیٰ کا کوئی جسم ہے یا اس کی ذات (معاذ اللہ) محیط ہے۔ ایسے مضامین پر بالاجمال ایمان لانا چاہئے۔ لیکن اس کی حقیقت کو خدائے برتر کے سپرد کر دینا چاہئے۔ بایزید نے غسل جنابت اڑادیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ پانی کے ساتھ غسل کرنے کی حاجت نہیں۔ ہوا لگنے سے بدن خود بخود پاک ہو جاتا ہے۔ کیونکہ چاروں عنصر پاک کرنے والے ہیں۔ اس کا بیان تھا کہ جو
کوئی خدا کا اور اپنی ذات کا عارف نہ ہو۔ وہ انسان نہیں بلکہ بھیڑئیے، شیر، سانپ، بچھو وغیرہ درندوں اور موذیوں کے حکم میں ہے۔ ایسے شخص کا مارڈالنا واجب ہے اور اگر نیک کردار، عابد اور نماز گذار ہے تو وہ گائے، بکری، بھیڑ کے حکم میں ہے۔ اس کا مارڈالنا جائز ہے۔ مگر واجب نہیں۔ اگر ایسے شخص کو نظر انداز کر دیا جائے تو کوئی گناہ نہیں۔ یہ تو قول تھا لیکن عمل یہ تھا کہ اس کے پیرو ہر اس شخص کی لوح ہستی کو جوبایزید کی خانہ ساز نبوت ومہدویت کا منکر ہوتا نقش حیات سے پاک کر دیتے۔ اس اقدام پر بایزید اس آیۃ سے استدلال کرتا تھا۔ ’’اولئک کالانعام بل ہم اضل‘‘ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔
حالانکہ یہ آیت کفار ومشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھی۔ اگر مسلمان بایزید کے حدود عملداری میں موت کے نقاب میں منہ چھپاتا تو اس کے وارثوں کو اس کا ترکہ نہ دیتا بلکہ متوفی کے وارث اس کے مرید قرار پاتے تھے اور اس ظلم وبیداد کی دلیل جواز یہ بیان کرتا تھا کہ جو کوئی خود شناس نہیں اورحیات جاوید سے بے خبر ہے وہ مردہ ہے۔ ایسے شخص کے وارث وہ لوگ نہیں ہوسکتے جو خود بھی مردہ ہیں۔ بلکہ اس کی میراث زندوں (روشنیوں) کو پہنچتی ہے۔ وہ بسا اوقات مسلمانوں پر خود ناشناس ہونے کا فتویٰ لگا کر ملک عدم میں بھجوا دیتا تھا اور اس کی جائیداد پر خود قبضہ کر لیتا تھا اور اگر اپنے زعم فاسد میں کسی ہندو کو خود شناس پاتا تو خود ناشناس مسلمان پر اس کو ترجیح دیتا۔ اس نے اور اس کی اولاد نے سالہا سال تک مسلمانوں پر لوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔ ڈاکہ زنی اور غارت گری ان کے نزدیک کار ثواب تھا۔ یہ لوگ راستوں میں جس مسلمان کو پاتے لوٹ لیتے۔ بایزید ایسے مال میں سے خمس نکال کر بیت المال میں جمع کرتا۔ بایزید کہا کرتا تھا کہ میں خدا ناشناسوں کے قتل کے لئے منجانب اللہ مامور ہوں۔ حق تعالیٰ نے مجھے تین بار حکم دیا کہ ان لوگوں کو قتل وغارت کروں۔ مگر میں نے ہتھیار نہ اٹھائے۔ آخر جب چوتھی مرتبہ حکم ہوا تو مجبوراً جہاد کو مستعد ہوا۔
بایزید کی اولاد جلالہ کی اکبر شاہی افواج سے معرکہ آرائیاں
بایزید اپنے بعد پانچ لڑکے اور ایک لڑکی چھوڑ کر مرا۔ بیٹوں کا نام شیخ عمر، کمال الدین، خیرالدین، جلال الدین اور نور الدین تھا اور بیٹی کو کمال خاتون کہتے تھے۔ بایزید کے بعد شیخ عمر باپ کا جانشین ہوا۔ پیر روشن کے تمام اصحاب اس کے پاس جمع ہوگئے اور اس کی جمعیت دن بدن بڑھنے لگی۔ چونکہ یوسف زئیوں کے پیشوا اخوند درویزہ تھے۔ اس لئے ان کی اور شیخ عمر کی کچھ زمانہ سے چشمک تھی۔ یوسف زئیوں نے جمع ہوکر دریائے سندھ کے کنارے شیخ عمر پر حملہ کیا۔ اس
معرکہ میں شیخ عمر اور اس کے کئی ایک مخلص احباب کام آئے۔ جلال الدین قید ہوا۔ خیرالدین میدان کارزار میں مردہ پایا گیا بایزید کا سب سے چھوٹا بیٹا نورالدین ہشت نگر کو بھاگ گیا۔ مگر وہاں کے گوجروں نے اس کا بھی کام تمام کر دیا۔ اکبر بادشاہ نے جلال الدین اور اس کے تمام متعلقین کو یوسف زئیوں سے لے کر رہا کر دیا۔ جلال الدین وہاں سے فتح پور گیا اور اکبر سے ملاقات کی۔ اکبر اسے جلالہ کہا کرتا تھا۔ جلالہ فتح پور سے واپس آکر تیراہ کے پہاڑوں میں رہزنی کرنے لگا اور کابل کا راستہ قطعاً مسدود کر دیا۔ یہ دیکھ کر اکبر نے ۹۹۴ھ میں اپنے مشہور سپہ سالار راجہ مان سنگھ کو جو اس کی ایک ہندو بیوی کا بھتیجا تھا چند دوسرے فوجی افسروں کی رفاقت میں جلالہ سے لڑنے کو بھیجا۔ جلالہ کئی سال تک برسر مقابلہ رہا۔ ان محاربات کی تفصیل اکبر نامہ اور منتخب التواریخ وغیرہ کتابوں میں موجود ہے۔ کچھ زمانہ کے بعد جلالہ کا بھائی کمال الدین پکڑا گیا۔ اکبر نے تادم واپسیں اس کو قید رکھا۔ جلالہ علاقہ غزنی میں قوم ہزارہ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ اس کا سر اکبر کے پاس بھیجا گیا۔ اس کے بعد بایزید کا پوتا اجداد بن عمر خلیفہ بنایا گیا۔ احداد ۱۰۳۵ھ میں سلطان نور الدین جہانگیر کے لشکر کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس کے مرید کہتے تھے کہ قران کی سورۂ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ احداد ہی کی شان میں نازل ہوئی تھی۔ ہزارہا افغان اس کے پیرو تھے۔ پھر احداد کا بیٹا عبدالقادر باپ کا جانشین ہوا۔ لیکن یہ ترک مخالفت کر کے سلطان شہاب الدین شاہ جہان کے دربار میں حاضر ہوا اور امرائے شاہ جہانی میں داخل ہوگیا۔ جلالہ کا ایک بیٹا الہداد شاہجہاں بادشاہ کی طرف سے رشید خانی خطاب اور منصب چار ہزاری سے سرفراز ہوا تھا۔
(دبستان مذاہب ص۳۰۴،۳۱۱)
باب۵۶ … احمد بن عبداﷲ سلجماسی
ابوالعباس احمد بن عبداﷲ عباسی سلجماسی مغربی معروف بہ ابن ابی محلی مؤلف کتاب عذراء الوسائل وہودج الرسائل مہدویت کا مدعی تھا۔ ۹۶۷ھ میں بمقام سلجماسہ جو ملک مغرب میں ہے پیدا ہوا۔ عنفوان شباب میں فاس گیا اور ابوالقاسم بن قاسم بن قاضی اور ابوالعباس احمد قدومی اور سید محمد بن عبداﷲ تلمسانی، ابومجیر، ابو محمد شقرون تلمسانی اور دوسرے علماء سے اکتساب علوم کرتا رہا۔ وہاں سے مشرق کا سفر کیا۔ حج کر کے مصر گیا اور سنہوری لقانی طنانی، طہ بحیری اور دوسرے علمائے مصر سے علمی فیوض حاصل کئے۔ اس کے بعد اس نے حضرت مہدی منتظر علیہ السلام کے ظہور کے متعلق ایک کتاب لکھی جس میں ان کے اوصاف اور علامات درج کئے۔ گو اس میں
ضعیف روایتوں کی بھرمار تھی۔ تاہم کتاب من حیث المجموع مفید ثابت ہوئی۔ یہ تالیف گویا دعوائے مہدویت کی تمہید تھی۔ آخر ۱۰۳۱ھ میں دعوائے مہدویت کر دیا۔ ہزارہا لوگوں نے اس کی متابعت کی۔ اس شخص کی عادت تھی کہ روسائے قبائل وعمائد بلاد کی طرف خطوط بھیج بھیج کر ان کو نیکیوں اور سنت پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیتا اور خط کے اخیر میں یہ لکھ دیتا کہ میں وہی مہدیٔ منتظر ہوں جس کے ظہور کی حضرت مخبر صادقﷺ نے پیش گوئی کی تھی جو شخص میری متابعت کرے گا وہ مفلح وکامگار ہوگا اور جو کوئی تخلف کرے گا وہ قعر ہلاک میں جا پڑے گا۔ یہ شخص اپنے حاشیہ نشینوں سے کہا کرتا تھا کہ تم لوگ پیغمبر خداﷺ کے اصحاب سے افضل ہو۔ کیونکہ تم ایک باطل زمانہ میں نصرت حق کے لئے کھڑے ہوئے ہو اور صحابہ کرامؓ زمن حق میں کھڑے ہوئے تھے۔ جب اس کے پیروؤں کی تعداد بڑھ گئی تو اس نے امر معروف اور نہی اور منکر کا وعظ شروع کیا۔ اسی کے ساتھ مریدوں کو ملک گیری کی ترغیب دیتا رہا۔ اس کے بعد اس نے ان مسلمانوں کو ستانا شروع کیا جو اس کی پیروی سے احتراز کرتے تھے۔ بہتوں کو لوٹا اور اکثر کو جلا وطن کردیا۔ جب کوئی کہتا کہ حسب ارشاد نبویﷺ مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامت رہیں تو کہتا کہ میرا غیظ وغضب محض اللہ کے لئے ہے۔
ان ایام میں مراکش کی سرزمین سلطان زیدان کے زیرنگین تھی۔ جب زیدان کے عامل حاج میر نے اس کی روز افزوں چیرہ دستیاں دیکھیں تو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لئے نکلا۔ ابن ابی محلیٰ اس کے مقابلہ میں صرف چار سو مریدوں کو لے کر آیا۔ لڑائی ہوئی جس میں حاج میر کو ہزیمت ہوئی۔ لوگوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ ابن ابی محلیٰ کے پیروؤں پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ غرض دلوں پر اس کا رعب چھاگیا۔ اس فتح کے بعد اس نے بلا مزاحمت سلجماسہ پر قبضہ کر لیا۔ وہاں ہر طرح سے عدل وانصاف کا شیوہ اختیار کیا اور مظلوموں کی دادرسی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رعایا اس کو بہت چاہنے لگی اور اہل تلمسان اور راشدیہ کے وفد اس کو مبارک باد دینے آئے۔ ان وفود میں فقیہ علامہ ابو عثمان سعید جزائری معروف بہ قدورہ شارح مسلم بھی تھے۔ جب سلطان زید ان کو اس ہزیمت کا علم ہوا تو اس نے اپنے بھائی عبداﷲ بن منصور معروف بہ زندہ کو فوج دے کر اس کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ درعہ کے مقام پر دونوں لشکروں کی مڈبھیڑ ہوئی۔ عبداﷲ بن منصور کو شکست ہوئی اور اس کی فوج کے تین ہزار آدمی مارے گئے۔ اس فتح کے بعد ابن ابی محلیٰ کی شوکت ثریا سے باتیں کرنے لگی۔ جب
سلطان زید ان کے سپہ سالار یونس کو اس ہزیمت کی اطلاع ہوئی تو وہ سلطان سے منقطع ہوکر ایک بڑی جمعیت کے ساتھ ابن ابی محلیٰ کے پاس چلاآیا اور اس کو سلطان کے اسرار وخفایا سے مطلع کر کے کہا کہ تم زیدان پر چڑھائی کرو۔ اس کا مغلوب کرلینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ چنانچہ ابن ابی محلیٰ لاؤ لشکر لے کر مراکش پر چڑھ گیا۔ سلطان زیدان ایک لشکر جرار لے کر مقابلہ پر آیا۔ پرتگالی نصاریٰ نے سلطان زیدان کی کمک پر بلاطلب ایک دستہ فوج روانہ کیا۔ سلطان کو اس بات پر غیرت آئی کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار سے مدد لے۔ سلطان حسن سلوک سے پیش آیا اور پرتگالی قیدیوں کو رہا کر کے ان کو دستہ فوج کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ اب لڑائی شروع ہوئی۔ ابن ابی محلیٰ نے اس کو شکست دی اور شہر مراکش میں داخل ہوکر وہاں قابض ومتصرف ہوگیا۔ زیدان جان بچا کر برالعدوۃ کی طرف بھاگ گیا۔
کچھ عرصہ کے بعد سلطان زیدان ایک مشہور عالم فقیہ ابوزکریا یحییٰ بن عبداﷲ دادودمی کے پاس گیا۔ جو کوہ درن میں اپنے والد کی خانقاہ میں مقیم تھے۔ فقیہ یحییٰ کے پیروؤں کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچتی تھی۔ زیدان نے جاکر کہا کہ آپ لوگ میری بیعت میں ہیں۔ ان میں آپ کے پاس اپنی حاجت لے کر آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ دشمن نے مجھے ملک سے بے دخل کر دیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں میری مدد کرو۔ فقیہ ابوزکریا یحییٰ نے اس دعوت کو لبیک کہا اور ہر طرف سے فوجیں جمع کرنے لگے۔ جب تیاریاں مکمل ہو چکیں تو ۸؍رمضان ۱۰۲۲ھ کو مراکش کی طرف کوچ کر دیا۔ علامہ ابوزکریا یحییٰ نے موضع جیلیر مضافات مراکش کے پاس پہنچ کر کوہ مطل پر قیام کیا اور حرب وضرب کی تیاریاں شروع کیں۔ دوسرے دن لڑائی شروع ہوئی۔ فقیہ کا لشکر دشمنوں کی صفوں میں گھس پڑا اور جو سامنے آیا اسے فنا کر دیا۔ غرض نسیم فتح فقیہ کے رایت اقبال پر چلنے لگی۔ ابن ابی محلیٰ کو ہزیمت ہوئی اور وہ میدان جانستان کی نذر ہوا۔ فقیہ ابوزکریا نے حکم دیا کہ اس کا سرکاٹ کر شہر کے صدر دروازہ پر لٹکا دیں۔ معاً اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ اسی طرح اس کی فوج کے سر بھی کاٹ کاٹ کر شہر کے دروازوں پر لٹکا دئیے گئے۔ اس کے بعد فقیہ صاحب مراکش کی مملکت سلطان زیدان کے سپرد کر کے واپس چلے آئے۔ ابن ابی محلیٰ اور اس کے ساتھیوں کے سربارہ برس تک مراکش کے دروازوں پر لٹکے رہے۔ ابن ابی محلیٰ کے پیرو کہتے تھے کہ حضرت مہدی علیہ السلام قتل نہیں ہوئے۔ بلکہ کچھ عرصہ کے لئے نظروں سے غائب ہوئے ہیں۔
شیخ یوسی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابن ابی محلیٰ اپنے استاد ابن مبارک کے پاس بیٹھا تھا۔
اتنے میں اچانک کہنا شروع کیا کہ میں بادشاہ ہوں۔ میں بادشاہ ہوں۔ میں بادشاہ ہوں۔ استاد نے کہا احمد! مانا کہ تم بادشاہ ہو جاؤگے۔ مگر یاد رکھو کہ اس اوج ورفعت کے بعد نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکو گے اور نہ پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکو گے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن ابی محلیٰ صوفیوں کی ایک خانقاہ میں گیا اور کہنا شروع کیا کہ میں سلطان ہوں۔ میں سلطان ہوں۔ ایک صاحب وجد وحال صوفی اس کے جواب میں کہنے لگا تین سال تین سال۔ چوتھا نہیں۔ چنانچہ وہ تین ہی سال تک برسر حکومت رہا اور بیان کیا جاتا ہے کہ جب یہ مکہ معظمہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا تو لوگوں نے اس کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ الٰہی! تو نے کہا ہے اور تیرا قول حق ہے۔ ’’وتلک الایام نداولہا بین الناس‘‘ {اور ہم ان ایام کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔} جب یہ حالت ہے تو بار خدایا! تو مجھے لوگوں میں دولت وحکومت دے۔ ابن ابی محلیٰ نے بارگاہ خداوندی سے زوال پذیر حکومت تو مانگی۔ لیکن حسن عاقبت کا سوال نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حق تعالیٰ نے اسے دولت سے تو چند روزہ سرفرازی بخشی۔ لیکن حسن خاتمہ کا حال معلوم نہیں۔ ابن ابی محلیٰ صاحب تصانیف تھا۔ اس کی مشہور کتابوں کے نام یہ ہیں۔ (۱)منجنیق الصخور فی الروعلیٰ اہل الفجور۔ (۲)وضاح۔ (۳)قسطاس۔ (۴)اصلیت۔ (۵)ہووج۔ (۶)ابوعمروقسطلی کے رسالہ کا رد۔ وغیرذالک!
(کتاب الاستقصاء لاخبار دول المغرب لاقصیٰ ج۳ ص۱۰۷، کتاب الیواقیت الثمینہ فی اعیان عالم المدینۃ تالیف محمد البشیر الازہری ج۱ ص۲)
باب۵۷ … احمد بن علی محیرثی
یمن کے علاقہ میں ایک قصبہ محیرث ہے۔ وہاں کا رہنے والا تھا۔ مہدویت کا مدعی تھا۔ انتہاء درجہ کا ذکی وذی علم تھا۔ پہلے زیدی تھا۔ پھر حنفی ہوگیا۔ صنعاء (یمن) میں عرصہ تک حنفی مذہب کا قاضی رہا ہے۔ لیکن اخیر عمر میں راہ صدق وصواب سے ہٹ کر مہدیٔ منتظر بن بیٹھا۔ بعض شافعیہ سے منقول ہے کہ احمد بن علی کی غیر معمولی ذکاوت ہی نے اس کی عقل ماردی اور جودت طبع ہی اس کے لئے وبال جان بن گئی۔
اے روشنیٔ طبع تو برمن بلاشدی
چنانچہ اس نے یہ کہنا شروع کیا کہ میں ہی وہ مہدی ہوں جس کے ظہور کی پیغمبر خداﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی۔ اپنے ایک قصیدہ میں جو سید احمد بن امام قاسم اور اپنے برادر زادہ حسین کے نام مرقوم تھا۔ لکھتا ہے ؎
من الامام المہدی المرتضیٰ للرشد
الی الملیک احمد ثم الحسین الارشد
اور کبھی مہدویت کا دعویٰ چھوڑ کر وہ دابہ بن بیٹھتا تھا۔ جس کا تذکرہ قرآن حکیم کی اس آیۃ میں ہے۔ ’’واذ اوقع القول علیہم اخرجنا لہم دابۃ من الارض تکلمہم ان الناس کانوا بایتنا لا یؤقنون‘‘ {جب لوگوں پر (قیامت کا) وعدہ (یعنی زمانہ) قریب آپہنچے گا تو ہم ان کے لئے ایک (عجیب وغریب) جانور برآمد کریںگے جو ان سے ہم کلام ہوگا اور کہے گا کہ (کافر) لوگ حق تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے تھے۔}
یہ شخص شعرو سخن میں بھی اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ اس کے دو شعر ملاحظہ ہوں ؎
قاضی الجمال اتی یجرد ذیولہ
کالغصن حرکۃ النسیم الساری
لبس السواد فعاد بدرا فی الدجیٰ
لبس البیاض فکان شمس النہار
آخر عمر میں مکہ معظمہ چلاگیا اور وہیں ۱۰۵۰ھ میں موت کے دامن میں منہ چھپا لیا۔
(خلاصتہ الاثر فی اعیان القرآن الحادی عشر ج۱ ص۲۵۰)
باب۵۸ … محمد مہدی از مکی
برزنجی اشاعہ لاشراط الساعۃ میں لکھتے ہیں کہ جب میں صغیر سن تھا تو کوہ شہر زور کے ایک گاؤں میں جس کا نام ازمک ہے۔ ایک شخص محمد نام ظاہر ہوا۔ جو مہدویت کا مدعی تھا۔ بے شمار مخلوق اس کی پیرو ہوگئی۔ جب یہاں کے امیر احمد خاں کرد کو اس کے دعاوی واباطیل کی اطلاع ہوئی تو فوج لے کر چڑھ آیا۔ خانہ ساز مہدی خود تو بھاگ گیا۔ لیکن اس کا بھائی گرفتار کر لیا گیا۔ احمد خاں کی فوج نے موضع ازمک کو ویران کر کے اس کے بہت سے پیروؤں کو سخت بدحالی کے ساتھ ملک عدم میں بھیج دیا۔ غرض وہ سخت ذلیل ورسوا ہوا اور اس کی جمعیت پراگندہ ہوگئی۔ دعویٰ مہدویت کے علاوہ اس کے مقالات میں سخت الحاد وزندقہ بھرا ہوا تھا۔ اس لئے علمائے کرام اس کے کفر پر مفتق ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد احمد خاں کی فوج نے مہدی ازمکی پر قابو پالیا۔ جب وہ گرفتار کر کے احمد خاں کے سامنے پیش کیاگیا تو اس نے علمائے سے استصواب کیا۔ علماء نے بتایا کہ تجدید ایمان کرے اور بیوی کو ازسر نو عقد نکاح میں لائے۔
چنانچہ اس نے سب کے سامنے اپنے عقائد کفریہ سے توبہ کی اور نکاح دوبارہ پڑھوایا۔ لیکن اس کے بعد اپنے مریدوں سے کہنے لگا کہ میں نے اپنے دل سے رجوع نہیں کیا ہے۔ اوائل میں تو اس کا بھائی جو قید ہوا تھا۔ اس سے بہت کچھ حسن عقیدت رکھتا تھا۔ لیکن جب وہ فوج کے آنے کی خبر سن کر بھاگ کھڑا ہوا اور اس کی بدولت اس کے پیرو اور بستی والے ذلیل ہوئے تو بھائی اس سے بداعتقاد ہوگیا۔ اس کے بعد نہ صرف اس کی صداقت کا منکر تھا۔ بلکہ اسے اس دعویٰ مہدویت اور الحاد پسندی پر سخت ملامت کیا کرتا تھا۔ برزنجی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ۱۰۷۰ھ سے پیشتر میں اسے دیکھنے گیا تھا۔ میں نے اسے بڑا عابد، کثیر الاجتہاد، پرہیزگار، اکل حلال کا پابند، حرام مشتبہ چیزوں سے متنفر اور خلوت گزین پایا۔
باب۵۹ … سباتائی سیوی
۸۹۷ھ میں مسلمانوں کے ساتھ یہود بھی ملک ہسپانیہ (اسپین) سے خارج کئے گئے تھے۔ اس زمانہ میں سلطنت آل عثمان کا اوج وعروج شباب پر تھا۔ یہود نے اسپین کو الوداع کہہ کر ترکی قلمرو کا رخ کیا اور دولت عثمانیہ کے ظل حمایت میں آکر شہر سلونیکا کو اپنا مستقر بنایا۔ چنانچہ آج تک ان یہود کی مادری زبان اسپینی زبان ہے۔ انہی یہودیوں میں سباتائی سیوی یا سباتائی زیبی نام ایک یہودی تھا۔ جو سمرنا میں پیدا ہوا اور ۱۶۶۶ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ سباتائی کا باپ سمرنا میں ایک انگریز تاجر کے کارخانہ کی دلالی کرتا تھا۔ مگر سباتائی کو ایام طفولیت سے تحصیل علم کا شوق تھا۔ اس لئے سلونیکا کے ایک یہودی مدرسہ میں داخل کیاگیا۔ یہاں اس نے توراۃ اور طالمود کے تمام حصے پڑھے اور ہنوز پندرہ ہی سال کی عمر تھی کہ تحصیل علم سے فارغ ہوگیا۔
مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
اب اس نے حصول شہرت کے لئے تذکیر وموعظۃ کا سلسلہ شروع کیا۔ جب اچھی طرح شہرت ہوگئی تو چوبیس برس کی عمر میں یکایک مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور کہنے لگا کہ میں اسرائیلیوں کو اہل اسلام اور نصاریٰ کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ ہزارہا مخلوق اسے مسیحا اور مظہر شان ایزدی تسلیم کرنے لگی۔ لیکن چونکہ اس دعویٰ کے ساتھ ہی سباتائی یہوا نام کا کلمہ علانیہ برسرمجمع عام زبان پر لایا اور یہود میں یہیوا رب العزت کا وہ جلالی نام ہے جسے صرف یہود کا پیشوائے اعظم خاص مقام اقدس میں عید فسخ کے موقع پر سال میں صرف ایک مرتبہ ورد زبان کر سکتا تھا۔ اس لئے یہودی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ جب یہ خبر ریبون کے دارالقضا میں
جو پیشدپن کہلاتا ہے پہنچی تو اس کے چند ارکان دارالقضاء کی جانب سے آکر سباتائی کو ڈرایا، دھمکایا اور کہا کہ اگر یہ گناہ تم سے پھر کبھی سرزد ہوا تو تم جماعت سے خارج کر دئیے جاؤ گے اور جو شخص تمہیں قتل کرے گا وہ عنداﷲ اجر جزیل کا مستحق ہوگا۔ سباتائی بھلا ایسی دھمکیوں میں کب آنے والا تھا؟ کہنے لگا مجھے خدائے اسرافیل نے اپنا مخصوص پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور مجھے خاص طور پر اپنا جلالی نام وردزبان کرنے کا مجاز کیا ہے۔ ربیون نے دیکھا کہ یہ شخص اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا تو اسے اپنی جماعت سے خارج کر کے اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دے دیا۔ اس دن سے سباتائی کے پیرووں مہ (یعنی خارجی یا رافضی) کے مکروہ لقب سے یاد کئے جانے لگے۔ مگر دونمہ خود اپنے آپ کو مؤمن کہتے ہیں۔ اس تسمیہ کی شاید یہ وجہ ہو کہ دونمہ بظاہر مسلمان بنے رہتے ہیں اور انہوں نے بہت سے اسلامی عقائد واصول کو اپنے معتقدات میں داخل کر رکھا ہے۔ جب سباتائی پر کفر کے فتووں کی بھر مار ہوئی اور ہر راسخ العقیدہ یہودی اس کے خون کا پیاسا نظر آیا تو سمرنا کو خیرباد کہہ کر یورپ کا رخ کیا۔ پہلے یورپی ترکی کے شہر سلونیکا میں پہنچا۔ جہاں یہود کی بہت زیادہ آبادی ہے۔ یہاں اس نے کسی قدر کامیابی کے ساتھ اپنے مذہب کی اشاعت کی۔ سباتائی کے بعد مسلک میں اس اصول پر بہت زور دیا گیا تھا کہ جو مرد اپنی بیوی سے ناخوش ہو یا اس کی ہم نشینی مرغوب خاطر نہ ہو وہ اسے چھوڑ کر دوسری شادی کر لے۔ تاکہ یہ خدائی اصول پورا ہوکر شادی کی زندگی خوشگوار اور پرسرور ہونی چاہئے۔ چنانچہ اسی اصول کے ماتحت متعدد گلرخ لعبتان زمانہ خود اس کی سلطنت عشق کی باجگذار بنیں۔ اس کے حلقہ ارادت میں عیش ونشاط کی کھیتیاں ہر طرف لہلہاتی دکھائی دیتی تھیں۔ اس کے مرید پرانی جوروؤں کو طلاق دیتے اور نئے نئے اور درہائے ناسفتہ سے لذت اندوز ہونے کی دھن میں لگے رہتے تھے۔ خود سباتائی بھی نئی نئی دلہنیں بہم پہنچاتا اور پرانی عورتوں کو چھوڑتا جاتا تھا۔ جب اس گروہ میں نکاح وطلاق کی گرم بازاری ہوئی اور مطلقہ عورتوں کے جھگڑے عدالتوں میں جانے لگے تو اس وقت اس مذہب کی حقیقت عالم آشکار ہوئی۔ ترکی حکام نے اس قسم کی طلاقوں پر سخت گیری شروع کی اور بہت سے ملزموں کو عبرتناک سزائیں دیں۔ سباتائی سلونیکا سے یونان گیا۔ وہاں سے اٹلی کی راہ لی اور شہر لیگ ہورن میں ایک اور یہودیہ سے نکاح کیا۔ اس کے بعد اپنے خیالات کی تبلیغ وتلقین کرتا اور طرابلس الغرب اور شام ہوتا ہوا بیت المقدس میں آیا۔
اغیار کی غلامی سے نجات دلانے کے وعدے
چند روز بعد ناتھن نام ایک یہودی سے ملاقات ہوئی۔ جسے ہم مذاق پاکر اسے اپنے
راز میں شریک کر لیا اور اب یہ دونوں اپنی متحدہ کوششوں سے ہمہ تن ایک نیا مذہب قائم کرنے میں مصروف ہوئے۔ چنانچہ ناتھن نے جس میں سباتائی ہی کی سی جودت طبع ودیعت تھی۔ مسیح کا پیش رو بننے کی خدمت اپنے ذمہ لی اور اس سے جدا ہوکر ہر طرف منادی کرنے لگا کہ مسیح موعود کے ظہور کا وقت آن پہنچا۔ دلہا تم ہی میں موجود ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا تھا۔ سنو اب تم لوگ شریعت کے ناگوار احکام سے آزاد ہو جاؤگے۔ نہایت اطمینان اور گرمجوشی کے ساتھ حضرت مسیح موعود کا استقبال کرو۔ ان ایام میں عامۂ یہود کے دل ایک اخلاقی اور مذہبی انقلاب کی طرف مائل ہورہے تھے اور ان میں ۱۶۶۶ء کے سال میں اہم اور عظیم الشان واقعات رونما ہونے کے متعلق بہت سی پیشین گوئیاں چلی آتی تھیں۔ اس لئے بہت سے یہودی جہلا اس کے پیرو ہوگئے۔ دوسری طرف خود سباتائی کو جو شہر غزہ میں اپنے دین کی منادی کر رہا تھا۔ نمایاں کامیابی ہوئی اور اس قرب وجوار کے یہودی غیر مذاہب کی غلامی چھوڑنے اور آل اسرائیل کے جدید اوج وعروج کے اشتیاق میں اپنی معیشت کے مشاغل کو چھوڑ کر زہد اور عبادت گذاری میں منہمک ہوئے اور بڑی بڑی فیاضیاں دکھانی شروع کیں۔ یہاں کے یہود نے قلمروے عثمانیہ کے دوسرے حصوں کے یہود کو مطلع کیا کہ مسیح موعود جس کا انتظار تھا نمودار ہوکر ہم میں موجود ہے۔ ارض شام کے یہود نے جو اس جوش وخروش سے اس دعویٰ کو تسلیم کیا تو سباتائی کا حوصلہ بڑھا اور اب بڑی شان وشوکت سے اپنے وطن سمرنا میں داخل ہوا اور خاص دارالخلافہ قسطنطنیہ کے یہود کو بھی اپنی طرف مدعو کیا۔ ناتھن ان دنوں دمشق میں تھا۔ وہاں سے اس نے سباتائی کو ایک خط لکھا۔ جس میں اسے احکم الحاکمین کے لقب سے خطاب کیا۔ حلب کے یہودیوں کے پاس بھی اس نے ہدایت نامے بھیجے۔ جن کے ذریعہ سے اس کے لوگوں کو اپنے دعوؤں اور مسیح موعود کے اصول سے مطلع کیا۔ اب سلطنت عثمانیہ میں ہر گاؤں اور ہر شہر کے یہودی غیر معمولی خوشیاں اور مجنونانہ مسرتیں ظاہر کرنے لگے اور بچے بچے کا دل قومی امنگوں سے معمور ہوا۔ اس عقیدہ نے کہ اسرائیلیوں کو اغیار کی غلامی سے نجات دلانے والا مسیح موعود مبعوث ہوچکا۔ عام شورش پیدا کر دیں۔ دولت عثمانیہ کی مسلم اور نصرانی رعایا یہود کے اس غیر معمولی جوش وخروش پر سخت حیرت زدہ تھی۔ اس خانہ ساز مسیح موعود پر ایمان لانے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ بعض شہروں میں تجارتی کاروبار بالکل بند ہوگیا۔ یہود اس شوق میں کہ انہیں عنقریب غلامی سے نجات ملے گی اور حضرت مسیح موعود انہیں ساتھ لے کر بیت المقدس میں داخل ہوںگے۔ اپنے دنیوی معاملات اور تجارتی کاروبار سے بالکل دست بردار ہوگئے۔ آخر یہاں
تک نوبت پہنچی کہ سلطنت عثمانیہ میں دول یورپ کے سفیر جو موجود تھے۔ انہیں ان کی سلطنتوں نے حکم دیا کہ اس نئی مذہبی تحریک کے متعلق تحقیقات کر کے کیفیت پیش کریں۔ جس طرح ہندوستان میں تجارت ہنود کے دست اختیار میں ہے۔ اسی طرح عثمانی قلمرو میں یہود کے ہاتھ میں تھی۔ عثمانی عمال نے قسطنطنیہ کے باب عالی میں رپوٹ کی کہ ہماری ولایتوں میں کاروبار تجارت بالکل بند ہوگیا ہے۔ اب یہ تحریک ایک وبائی مرض کی طرح ممالک یورپ کی طرف برھنے لگی۔ اٹلی، ہالینڈ اور جرمنی کے اکثر یہودی اس بات پر آمادہ ہوگئے کہ اپنی جائیدادوں کو بیچ کر یا یونہی چھوڑ کر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ اب ان حالات سے بھی زیادہ خطرناک صورت یہ نمودار ہوئی کہ یہودی ترک حکام کی اطاعت سے باہر ہونے لگے۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ عنقریب مسلمان ہمارے غلام اور محکوم ہو جائیںگے۔
قسطنطنیہ کا محبسبحیثیت زیارت گاہ
انہی ایام میں سباتائی پھر سمرنا آیا۔ وہاں کے مذہبی مقتداء اور ربی سباتائی کو مسیح موعود تسلیم کرنے میں مذبذب تھے۔ آخر سب سے بڑے ربی نے جو خاتم باشی کہلاتا ہے۔ اسے مشورہ کرنے کے بہانے اپنی صحبت میں بلایا۔ سباتائی بلاتأمل اس کے پاس چلاگیا۔ اس کے پیروؤں کا ایک گروہ بھی ساتھ گیا۔ یہ لوگ مکان کے باہر ٹھہرے رہے۔ سباتائی کو بڑے ربی کے گھر سے نکلنے میں زیادہ دیر ہوئی تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید ربی نے مسیح موعود کو زبردستی اپنے مکان میں بند کر رکھا ہے۔ فوراً قاضی کی عدالت میں پہنچے اور کہا کہ ہمارے مسیح موعود کی رہائی کا فوراً بندوبست کیا جائے۔ ورنہ بغاوت ہوجائے گی۔ قاضی نے اس جھگڑے کا انفصال ربیوں ہی کے محکمہ دارالقضا پر متحول کیا۔ بڑا ربی کسی طرح سباتائی فتنہ کا استیصال کر دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے پیروؤں اور حامیوں کی جماعت اس قدر غالب تھی کہ ان کا کچھ زور نہ چلا اور مجبوراً اسے چھوڑتے ہی بنی۔ سمرنا سے اس نے قسطنطنیہ کا رخ کیا۔ وہاں کے یہودی بھی جوش وخروش کے ساتھ اس پر ایمان لانے لگے۔ یہاں ایک ذی علم یہودی نحمیا کوہن نے تخلیہ میں سباتائی سے خواہش کی کہ اپنی مسیحیت میں مجھے بھی شامل کر لو۔ سباتائی نے اس سے قطعاً انکار کیا۔ نحمیا اس کی شکایت لے کر وزرائے سلطانی کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ اگر یہ جعلی مسیح فوراً پامال نہ کر دیا گیا تو سلطنت کے امن وامان میں سخت خلل پڑے گا۔ حکام اس مسئلہ پر پہلے ہی غور کر رہے تھے۔ باب عالی کے حکم سے سباتائی قسطنطنیہ میں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا۔ قسطنطنیہ کا محبس واقع قصرابی دوس اس کے
پیروؤں کے لئے ایک بڑی زیارت گاہ بن گیا۔ ان لوگوں کے غول کے غول آتے اور قیدخانہ کے ترک محافظوں کو بڑی بڑی رشوتیں دے کر اپنے مسیح کی زیارت کر جاتے تھے۔ اب اس کا شہرہ روز بروز بڑھتا جاتا تھا۔ اس نے اسی محبس میں بیٹھے بیٹھے اپنے مذہب کی ازسر نو تدوین کی اور نئے رسوم کو منضبط کیا۔ اس کے پرجوش پیروؤں نے یہ کارروائی کی کہ قدیم الایام سے جتنی پیشین گوئیاں کتابوں میں چلی آتی تھیں۔ سب اسی سے وابستہ کر دیں اور توراۃ کے بہت سے فقروں میں حسب دلخواہ تحریف وتبدیل کر کے ان میں اس کا نام شامل کر دیا اور محرف فقروں کو قطعات کے طرز پر چوکھٹوں میں لگا کر یادوسرے طریقوں میں لکھ کر یہود کے معابد میں آویزاں کیا۔
سلطان المعظم کے سامنے اسلام کا منافقانہ اقرار
یہ سلطان محمد رابع کا عہد خلافت تھا۔ قسطنطنیہ اس وقت تک دارالخلافہ نہیں بنایا گیا تھا۔ سلطان محمد کا مستقر خلافت ان ایام میں اور نہ (اڈریانوپل) تھا۔ جب سباتائی فتنہ نے خطرناک نوعیت اختیار کی تو سلطان المعظم نے سباتائی کے حاضر کئے جانے کا حکم دیا۔ جب وہ ادرنہ کے قصرشاہی میں تخت کے آگے حاضر ہوا تو سلطان نے فرمایا کہ جب تم مسیح موعود ہوتو (مسیح علیہ السلام کی طرح) معجزے بھی دکھاسکتے ہوگے؟ اس نے فوراً جواب دیا کہ بے شک دکھاسکتا ہوں۔ سلطان نے کہا اچھا میں اپنے تیراندازوں کو حکم دیتا ہوں کہ تمہیں ہدف سہام بنائیں۔ اگر تیروں نے تمہیں کوئی صدمہ نہ پہنچایا تو سمجھا جائے گا کہ تم واقعی مسیح ہو۔ کیا تم یہ معجزہ دکھاسکتے ہو؟ بارگاہ خلافت کی یہ جان ربا تجویز سن کر سباتائی کے اوسان خطا ہوئے اور گھبرا کر سوچنے لگا کہ اب بچاؤ کی دو ہی صورتیں ہیں تا تو ترک سپاہیوں کے تیروں کا نشانہ بن کر جان دوں یا اسلام قبول کر کے جان بچاؤں۔ اتنے میں تیراندازوں کا ایک دستہ بھی سامنے آموجود ہوا۔ سباتائی تیراندازوں کو ملک الموت یقین کر کے عرض پیرا ہوا کہ خلیفۃ المسلمین! ان تمام سرگرمیوں سے میرا حقیقی مقصود یہ تھا کہ لوگوں کو خدا کی توحید اور جناب محمد رسول اﷲﷺ کی رسالت کی طرف بلاؤں اور کلمۂ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے ان کو مانوس کروں۔ یہی پاک کلمہ میرا شعار ہے اور میری دلی آرزو ہے کہ روئے زمین کے اسرائیلیوں کو اس کا قائل اور پیرو بنادوں۔ سلطان نے کہا جس قدر اطلاعیں باب عالی میں پہنچیں ان سے تمہارے اس بیان کی تصدیق نہیں ہوتی۔ سباتائی عرض پیرا ہوا جہاں پناہ! میں نے دل میں ٹھان رکھا تھا کہ جس وقت حضرت ظل سبحانی کے دربار میں رسائی ہوگی اس وقت اپنے ایمان کو برملا ظاہر کروںگا۔ آخر سباتائی نے حلف اٹھایا کہ میں مسلمان ہوں اور مسیح موعود
ہونے کا دعویٰ محض ہنگامہ آرائی اور لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے تھا۔ اس کے بیانات سن کر اس کے پیرو متحیر ہوکر سناٹے میں آگئے۔ بعض معتقدین تو منحرف ہوگئے اور جوسادہ لوح آج کل کے مرزائیوں کی طرح زیادہ راسخ الاعتقاد تھے۔ وہ سباتائی کے اس حلفی بیان کی اسی طرح تاویلیں کرنے لگے۔ جس طرح مرزاغلام احمد قادیانی کی عقیدت کیش امت ان کی جھوٹی پیشین گوئیوں کی تاویلیں کیا کرتی ہے۔
قلعۂ بلغراد کے ایام نظر بندی
سلطان نے مستقبل کے ممکن الوقوع فتنہ کی روک تھام کے لئے سباتائی کو بلغراد کے قلعہ میں نظربند رکھنے کا حکم دیا۔ جو آج کل ملک سربیا (سروبیہ یازیچو سلاویہ) کا پایۂ تخت ہے اور ان دنوں ترکی قلمرو میں داخل تھا۔ یہ دیکھ کر کہ سباتائی جان کے خوف سے مسلمان ہوگیا ہے۔ مخالف یہودی اور دوسرے لوگ اس کے عقیدت مندوں پر لعن طعن کرنے لگے۔ مگر سباتائیوں کے دلوں پر اس کی مسیحائی کے نقش کچھ اس طرح مرتسم ہوئے تھے کہ حسن اعتقاد کی رسی کو کسی طرح ہاتھ سے نہ چھوڑا اور کہنے لگے کہ اسلام کا ظاہری اعتراف بھی حضور مسیح موعود کی ایک شان مسیحائی ہے۔ آخر ۱۶۷۶ء میں بلغراد ہی کے قید خانہ میں اپنے مریدوں کو داغ مفارقت دے گیا۔ مگر اس کے معتقدوں میں سے اکثر نے یہ کہنا شروع کیا کہ وہ مرا نہیں بلکہ اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلاگیا ہے اور کسی روز پھر دنیا میں نزول فرماکر اعلائے کلمۃ اللہ کا حق اداکرے گا۔ یہ خیال سباتائیوں کے دلوں میں ایسے وثوق کے ساتھ قائم تھا اور ہے کہ سلونیکا کی زمین دوز مخفی عبادت گاہوں میں جو فرقہ دونمہ نے بنارکھی ہیں۔ ہر وقت ایک خوبصورت صاف اور اجلا بچھونا تیار رہتا ہے کہ ہمارے مسیحا صاحب عالم بالا کے سفر سے مراجعت فرمائیںگے تو انہیں اس قدر طویل سفر کی ماندگی دور کرنے کے لئے استراحت کی ضرورت ہوگی۔ پہلے یہ یقین تھا کہ مسیحا سلونیکا کے پھاٹکوں میں سے باب دردار سے شہر میں داخل ہوگا۔ مگر جس زمانہ سے سلونیکا میں ریل جاری ہوگئی۔ یہ خیال پختہ ہوگیا ہے کہ ان کا مسیحا ریل پر سوار ہو کر آئے گا۔ چنانچہ اب تک سلونیکا کے آخری اسٹیشن پر ہر ریل گاڑی کی آمد کے وقت مسیحا استقبال کے لئے کوئی نہ کوئی دونمہ موجود رہا کرتا ہے۔ بعینہ یہی حالت چند صدیوں پیشتر شیعوں کی صاحب الزمان حضرت مہدی علیہ السلام کے انتظار میں تھی۔ جب کہ بغداد کے قریب شہر سرمن رائے کے غار پر ایک اعلیٰ درجہ کا گھوڑا سازوسامان سے تیار روانہ جلوس اور
باجوں کے ساتھ جاتا اور مغرب کے بعد حضرت امام کے ظہور کا انتظار کر کے نامراد واپس آیا کرتا تھا۔ سباتائی کی ہلاکت کے بعد اس کی ایک بیوہ نے بیان کیا کہ امام سباتائی میرے بھتیجے یعقوب کو اپنا جانشین مقرر کر گیا ہے۔ جسے میں نے دس سال کی عمر میں گود لیا تھا۔ دونمہ نے سباتائی کی جگہ یعقوب کو اپنا پیشوا تسلیم کیا۔ یہ لوگ اسے بھی مظہر ربانی ماننے لگے۔
دونمہ کی مذہبی دورنگی
سلطان المعظم کے سامنے سباتائی کے اسلام قبول کرنے کا یہ انجام ہوا کہ دونمہ تہ خانوں میں عبادت کدے بنا کر وہاں تو اپنی مخصوص عبادت کرتے ہیں۔ مگر بظاہر مسلمان بنے رہتے ہیں۔ مساجد میں جاکر نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے سے نام رکھتے ہیں اور انہی کا سا لباس اور وضع وہیت اختیار کر رکھی ہے۔ عورتوں کی وضع بھی مسلم خواتین کی سی ہے۔ ان کے چہروں پر بھی مسلمات کی طرح نقاب پڑی رہتی ہے۔ غرض ان کے تمدن ومعاشرت میں اسلامی رنگ اس قدر نمایاں ہے کہ تمیز کرنا مشکل ہے۔ اہل اسلام کی طرح سباتائی کے پیرو بھی حج کعبہ ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ یعقوب مذکور اپنے عقیدت مندوں کی ایک جماعت کے ساتھ حج کے لئے مکہ معظمہ آیا اور واپس جاتے ہوئے راستہ میں طعمۂ اجل ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا برشجا مقتدائے امت قرار پایا۔ سباتائیوں نے اسے بھی مظہر شان خداوندی تسلیم کیا۔ سلونیکا میں دونمہ کے قریباً ایک ہزارخاندان موجود ہیں۔ جن کی کل تعداد قریباً دس ہزار نفوس کی ہے۔ یہ لوگ جس طرح اپنے کنیسوں میں عبادت کو جاتے ہیں۔ ویسے ہی مسجدوں میں بھی جاکر نماز پڑھتے اور شریک جماعت ہوتے ہیں۔ سباتائی لوگ روزے بھی رکھتے ہیں۔ ان کے بعض روزے یہودی شریعت کے مطابق ہیں اور بعض اسلامی احکام کے موافق۔ ان کی دوشیزہ لڑکیاں عموماً مسلمان ہمسایوں سے شادی کرنا پسند کرتی تھیں۔ خصوصاً ترکوں کے ساتھ جن کے ہاتھ میں ۱۹۱۲ء کی جنگ بلقان سے پیشتر سلونیکا کی حکومت تھی۔ لیکن انجام کا رجب سباتائیوں کو شدت سے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کچھ زمانہ میں ان کی جماعت مسلمانوں میں مدغم ہوکر بالکل معدوم ہوجائے گی۔ تو انہوں نے نہایت سختی سے اس کی روک تھام کرنی چاہی۔ چنانچہ ساری قوم اس کوشش میں منہمک ہوئی کہ ان کی لڑکیاں دوسری قوموں میں شادی بیاہ نہ کرنے پائیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس بندش کے کچھ عرصہ بعد ایک دونمہ لڑکی کا ایک نوجوان ترک پر بے اختیار دل آگیا۔ ترک بھی شادی کرنے پر راضی ہوگیا۔ لیکن لڑکی کے اعزاؤ اقارب اس تعلق کے اس قدر خلاف تھے کہ جب کوئی
تدبیر نہ بنی تو اس ترک کو چارہزار پونڈ کی گراں رقم بطور نذرانہ دے کر نکاح کے ارادہ سے باز رکھا۔ کہتے ہیں کہ اگر دونمہ لڑکی کسی دوسری قوم والے کے ساتھ نکل جائے تو پہلے اس کے واپس بلانے میں کوئی تدبیر اور کوشش اٹھا نہیں رکھی جاتی اور جب وہ ہاتھ آجاتی ہے تو ایک مخفی قومی عدالت کے سامنے اس کا مقدمہ پیش ہوتا ہے جس میں وہ ملزم ٹھہرائی جاتی ہے اور ارتکاب جرم کی سزا میں اندر ہی اندر اس کا سفینۂ حیات دریائے عدم میں اتار دیا جاتا ہے۔
دونمہ کے تین گروہ اور ان کے بعض معتقدات
جس طرح ہندوستان کے مرزائی دو جماعتوں میںمنقسم ہیں۔ اسی طرح سباتائی، تین متمائز گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ اوّل سمرنی (سمرناوالے) کہلاتے ہیں۔ یہ کرامیہ یعنی معزز وشریف کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔ کیونکہ اسپین سے آنے والے اسرائیلیوں میں سے اکثر معزز اور عالی نسب خاندان اسی جماعت میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کی شناخت یہ ہے کہ ٹھڈیاں منڈاتے ہیں۔ دوسرے یعقوبی جو یعقوب مذکور کی طرف منسوب ہیں۔ تیسرے قونیو۔ اس گروہ کا بانی ایک دوسرا یعقوب ملقب بہ قونیو تھا اور اسلامی نام عثمان تواب سے شہرت رکھتا تھا۔ ہرچند کہ ان تینوں گروہوں میں بالکل معمولی فروعی اختلافات ہیں۔ تاہم ان میں سے ہر ایک دوسرے فرقہ والوں کو اپنی مخفی عبادت گاہوں میں شریک نہیں ہونے دیتا۔ مندرجہ ذیل اصولی عقائد میں تمام دونمہ متفق ہیں۔
۱… تمام انبیائے کرام رب العزت کے مظہر تھے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب محمد رسول اﷲﷺ تک جتنے نبی گذرے اسی ہستی مطلق کے مظہر تھے۔
۲… ان کا عقیدہ تھا کہ ساری دنیا پیروان سباتائی کے لئے ہے اور ترک حکمران صرف اس لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ان کی حفاظت کریں۔ ان کامقولہ ہے کہ کوئی انڈا چھلکے کے بغیر نہیں ہوتا۔ اسی طرح پیروان سباتائی اصل انڈا اور ترک اس کا چھلکا ہیں۔
۳… کہتے ہیں کہ جنت کی بادشاہی کے وارث صرف پیروان سباتائی ہیں۔ دوسرے لوگ جہنم میں جائیںگے اور ابدالاً یاد رہیںگے۔
۴… تمام یہود جواب تک سباتائی پر ایمان لائے اس وقت ایمان لے آئیںگے۔ جب انہیں یہ حقیقت نظر آئے گی کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء سباتائی ہی کی روح کی چنگاریاں تھیں۔
باب۶۰ … محمد بن عبداﷲ کرد
۱۰۷۵ھ میں کوہ عمادیہ علاقہ کردستان میں ایک شخص عبداﷲ نام ظاہر ہوا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سادات حسینی میں سے ہوں۔ اس نے اپنے ایک دوازدہ سالہ لڑکے کا نام محمد اور لقب مہدی رکھ دیا اور کہا کہ یہی مہدی آخر الزمان ہے۔ بیٹے کو مہدویت کی مسند پر بٹھا کر یہ شخص خود اس کی طرف سے بیعت لینے لگا۔ قبائل کے بے شمار لوگ اس کے پیرو ہوگئے۔ جن ایام میں سباتائی یہودی نے مسیحیت کا دعویٰ کر کے ترکی قلمرو میں اودھم مچارکھا تھا۔ انہی دنوں میں مہدی کر دی بھی ظاہر ہوا تھا۔ اس اجتماع غریب سے عامۃ المسلمین سمجھنے لگے کہ شاید قیامت قریب آگئی کہ مسیح اور مہدی دونوں ظاہر ہوگئے۔ اس خیال کی بناء یہ تھی کہ قیامت کے علامات کبریٰ میں سے اوّلین علامت ایک ہی زمانہ میں حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نزول اور جناب مہدی علیہ السلام کا ظہور ہے۔ جب عبداﷲ کی جمعیت زیادہ ہوئی تو اسے استعمار اور ملک گیری کی ہوس ہوئی اور اس نے اچانک دلایت موصل میں چند شہروں اور قصبوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ خبر سن کر والی موصل نے جو سلطان محمد چہارم کی طرف سے اس سرزمین کا حاکم تھا اس پر چڑھائی کی۔ عبداﷲ نے نہایت بہادری سے مقابلہ کیا اور رزم وپیکار میں خون کی ندیاں بہ گئیں۔ انجام کار مہدی اور اس کا باپ منہزم ہوکر گرفتار ہوگئے اور والی موصل نے دونوں کی سباتائی کے اظہار اسلام کے چند ماہ بعد پابجولاں استنبول بھیج دیا۔ جب باپ بیٹا سلطان محمد چہارم کے سامنے پیش کئے گئے تو عبداﷲ روبرو جاتے ہی اپنے اور اپنے بیٹے کے مہدی آخرالزمان ہونے کے دعوے سے دست بردار ہوگیا۔ چونکہ اس نے سلطان کے بعض سوالات کے جواب نہایت معقولیت سے دئیے۔ سلطان نے خوش ہوکر اس کی خطا معاف کر دی اور حکم دیا کہ آئندہ دونوں کو ان کے وطن جانے کی جازت نہ دی جائے۔ کیونکہ انہوں نے مہدویت کا جھوٹا دعویٰ کر کے ہزارہا عوام کو گمراہ کیا اور دین مبین میں رخنہ اندازی کی۔ کچھ دنوں کے بعد سلطان المعظم نے عبداﷲ کو خزانۂ سلطانی کے محافظوں کی جماعت میں منسلک کر دیا۔
باب۶۱ … میر محمد حسین مشہدی
میر محمد حسین رضوی مشہدی معروف بہ نمود وفربود مدعی وحی وبیگوگیت کو سلطان محی الدین عالمگیر اورنگزیب غازیؒ کے آخری دور حکومت میں اسباب غناد ثروت کی تحصیل کا شوق ہندوستان کی طرف کھینچ لایا۔ ان ایام میں عمدۃ الملک امیر خان صوبہ دار کابل کی فیض گستری کا ایران بھر میں
شہرہ تھا۔ میر محمد حسین بھی انہی امیدوں کو لئے ہوئے عازم کابل ہوا۔ علوم متداولہ میں کافی دستگاہ رکھتا تھا۔ اہل کابل نے اسے قدردانی اور مردم شناسی کی آنکھوں پر بٹھایا۔ حسن اتفاق سے عمدۃ الملک کے منشی نے اپنا لڑکا تعلیم وتر بیت کے لئے اس کے سپرد کردیا۔ اس ذریعہ سے عمدۃ الملک تک اس کی رسائی ہوگئی۔ رفتہ رفتہ امراء واعیان کے دل میں اس کے علمی تبحر کی دھاک بیٹھ گئی۔ عمدۃ الملک کی بیوی صاحب جی کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لئے اس نے ایک سید لڑکی لے کر پال رکھی تھی۔ جو عمدۃ الملک کے پاس نوکر تھا۔ صاحب جی نے عمدۃ الملک سے کہہ رکھا تھا کہ اگر کوئی ذی علم ونیک اطوار سید ملے تو اس کے ساتھ اس کی شادی کر دوںگی۔ عمدۃ الملک نے محمد حسین کو اپنی بیوی کے بیان کردہ اوصاف سے متصف پاکر اس سے محمد حسین کے نسب کی بزرگی اور علمی قابلیت کی تعریف کردی۔ صاحب جی یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور لوازمات شادی مہیا کر کے لڑکی کو میر محمد حسین کے حبالۂ نکاح میں دے دیا۔ اس تقریب سے اسے عمدۃ الملک کے دربار میں بھی زیادہ تقرب حاصل ہوگیا اور اہل دربار کی نظر میں اس کی توقیر بڑھ گئی۔ ان تقریبات کی بدولت عمدۃ الملک کے لڑکوں سے بھی اچھے مراسم ہوگئے۔ خصوصاً ہادی علی خان کو تو اس نے کچھ ایسے شعبدے دکھائے کہ وہ جدھر جاتا اس کی تعریف کے راگ گانے لگتا۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ دنوں کے بعد عمدۃ الملک نے دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ اب اس نے ارادہ کیا کہ دہلی چل کر قسمت آزمائی کرے۔ اس مقصد کے لئے اس نے یہ تدبیر سوچی کہ کچھ تحائف دربار شاہی میں پیش کرنے کے لئے فراہم کئے جائیں۔ تاکہ سلطان عالمگیر اورنگزیبؒ خوش ہوکر کوئی منصب عطاء کرے۔ چنانچہ ہزارہا روپے کے نفیس وبیش بہا عطریات کابل اور پشاور سے خرید کر دہلی کو روانہ ہوا۔ لیکن ابھی لاہور ہی میں پہنچ تھا کہ سلطان محی الدین عالمگیرؒ کے رحمت حق میں واصل ہونے کی خبر آپہنچی۔ جس سے اس کی امیدوں کا چراغ گل ہوگیا اور تمام عطریات وروائح طیبہ جو بادشاہ کے لئے فراہم کئے تھے لاہور میں فروخت کر کے فقیری لباس پہن لیا۔
شاگرد سے نیا مذہب اختراع کرنے کی سازش
محمد حسین کا دماغ نخوت وخودبینی سے بھرا ہوا تھا۔ اس لئے رائج الوقت مذاہب کی پیروی کو باعث عاروننگ سمجھ کر ایک نیا ڈھونگ رچانے کا قصد کیا۔ چنانچہ اپنے شاگرد رشید لنشی زادہ سے کہا کہ ایک ایسی مشکل آن پڑی ہے کہ جس کی عقدہ کشائی تمہارے ہی ناخن تدبیر سے ممکن ہے۔ اگر تم تائید ونصرت کا وعدہ کرو تو تم پر وہ راز آشکارا کروں۔ غرض قول وقرار لے کر اس
کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ ہم تم ایک نرالا مذہب جدیدقواعد اور نئی زبان میں اختراع کر کے نزول وحی کا دعویٰ کریں اور ایک نیا مرتبہ تجویز کریں جو نبوت اور امامت کے درمیان ہوتا کہ انبیاء اور اولیاء دونوں کی شان اپنے اندر پائے جانے کا دعویٰ درست ہو سکے۔ زراندوزی کا یہ ایک ایسا ڈھنگ ہے کہ اس سے بہتر اور آسان نسخہ آسمان تخیل سے زمین عمل پر نہیں آسکتا۔ دونوں استاد شاگرد ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ شاگرد نے بڑی گرم جوشی سے اس تجویز کو لبیک کہا۔ اب دونوں کی پستیٔ فطرت اور مفسدہ پردازی کے جواہر اچھی طرح چمکنے لگے اور انہوں نے میدان تزویر میں اپنے اپنے مرکب تدبیر کو چھوڑ دیا۔ محمد حسین نے ایک کتاب لکھی جس کو فارسی کے جدید غریب الفاظ سے مزین کیا۔ اس میں متروک وغیر مانوس الفاظ کی خوب بھرمار کی اور بہت سے پرانے فارسی الفاظ عربی طریقہ پر ترخیم کر کے درج کئے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد نزول وحی اور بیگوگیت کا دعویٰ شروع کر دیا اور بیان کیا یہ رتبہ نبوت اور امامت کے مابین ہے اور کہا کہ ہر پیغمبر اولوالعزم کے نوبیگوگ تھے۔ چنانچہ حضرت خاتم الانبیاءﷺ کے بھی نوبیگوگ تھے۔ اوّل بیگوگ امیر المؤمنین علی کرم اللہ وجہہ تھے۔ دوسرے امام حسنؓ، تیسرے حسینؓ، چوتھے امام زین العابدینؓ، پانچویں امام محمد باقرؓ، چھٹے امام جعفر صادقؓ، ساتویں امام موسیٰ کاظمؓ، آٹھویں امام علی رضاؓ، امام علی رضاؓ تک امامت اور بیگوگیت دونوں جمع رہیں۔ پھر یہ دونوں منصب علیحدہ ہوگئے۔ چنانچہ علی رضا کے بعد درجہ بیگوگیت میری طرف منتقل ہوگیا اور امامت امام محمد تقی کو تفویض ہوئی اورمیں خاتم بیگوگیت ہوں اور بیگوگیت کی تعداد اس ترتیب کے ساتھ کہ جس کا اوپر ذکر آیا۔ شیعہ لوگوں کے سامنے بیان کرتا تھا۔ لیکن جب اہل سنت وجماعت سے ملتا تو خلفائے راشدین اور ان کے بعد بنی امیہ اور بنی عباس کے چار پرہیزگار اور نیک کردار خلفاء کے نام لے کر نواں بیگوگ اپنی ذات کو بتاتا اور کہتا کہ مجھے کسی خاص مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ بلکہ میں تو تمام مذاہب کا چراغ روشن کرنے والا ہوں اور یہ بھی کہا کرتا تھا کہ (معاذ اللہ) حضرت زہرا(رضی اللہ عنہا) کا جو حمل ساقط ہوا تھا اور جس کا نام محسن رکھاگیا تھا وہ میں ہی تھا۔
مذہبی اختراعات ومحدثات
محمد حسین نے چند قاعدے مقرر کر کے بعض ایام مخصوصہ کو عید ہائے اسلام کی طرح قابل احترام اور جشن مسرت قرار دیا اور اپنے پیروؤں کو جن کا لقب فربودی رکھا تھا۔ یہ ہدایت کی کہ ان ایام معدودات کا احترام کریں اور کہا کرتا تھا کہ مجھ پر دو طرح سے وحی نازل ہوتی ہے۔
ایک تو قرص آفتاب پر جب نظر کرتا ہوں تو اس پر کلمات منقوش نظر آنے لگتے ہیں۔ ان سے اکتساب علم کر لیتا ہوں اور آخر کار اس کا نور اس قدر محیط ہوجاتا ہے کہ تحمل وبرداشت مشکل ہو جاتی ہے۔ بلکہ ہوش وحواس ہی بجا نہیں رہتے۔ دوسرے اس طرح کہ ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ چنانچہ وہ کلمات جوارادت مندوں سے بیان کرتا ہوں۔ اسی آواز سے اخذ کرتا ہوں اور جس روز اس کے حسب بیان اس پر پہلی مرتبہ نازل ہوئی تھی۔ اس کا نام روز جشن قرار دیا۔ اس روز نہایت دھوم دھام سے جشن منایا جاتا۔ اس کے پیرو جمع ہوکر خوشیاں مناتے۔ خوشبو اور عبیر ایک دوسرے پر چھڑکتے۔ یہ خود روز جشن کو دو علم ساتھ لے کر تاتاری وضع کی ٹاپی سے کسی قدر اونچی اوڑھتا اور اپنے مریدوں کو ساتھ لئے ہوئے نہایت تزک واحتشام کے ساتھ کوہستان کی جانب جہاں دیول رانی کی عمارات دھوبی بٹھیاری کے نام سے مشہور ہیں۔ جاتا اور عالم مسرت میں جھوم جھوم کر بیان کرتا کہ پہلی مرتبہ مجھ پر خاص اسی جگہ وحی نازل ہوئی تھی اس مقام کو غار حرا سے تشبیہ دیتا اور کہتا کہ یہی تمہارے بیگوگ کا مہبط وحی ہے۔ یہی تمہارے قبلۂ حاجات کے کسب سعادت کا گہوارہ ہے۔ روز جشن سے چھ روز قبل شروع ذوالحجہ سے روزے رکھتا۔ جن میں کسی سے بات تک نہ کرتا۔ تاکہ امم سابقہ کے روزہ صمت سے مشابہت ہو جائے۔ ایسے روزے حضرت زکریا اور مریم علیہما السلام سے بوقت تولد جناب مسیح علیہ السلام بھی مذکور ہیں۔ ساتویں روز جشن کو ختم کر دیتا تھا۔ اس نے اپنے پیروؤں پر نماز پنجگانہ کی جگہ ہر روز تین بار دید یعنی اپنی زیارت فرض کی تھی۔ دید کا پہلا وقت طلوع آفتاب کے بعد تھا۔ دوسرا دوپہر کا وقت جب کہ آفتاب نصف النہار ہو، متعین کیا۔ تیسرا غروب آفتاب کا وقت جب کہ کسی قدر شفق آسمان پر باقی ہو مقرر تھا اور دید کا طریقہ یہ تھا کہ وہ خود مع اپنے خلفاء کے درمیان میں کھڑا ہوجاتا تھا۔ مریدوں کو حکم تھا کہ اس کے چاروں طرف مربع صف بستہ کھڑے ہوں اور اس طرح کہ سب کے منہ ایک دوسرے کے مقابل رہیں۔ پھر ہر صف اس کی طرف منہ کر کے چند کلمے جو اس کے اختراعی تھے پڑھتی۔ اس کے بعد یہ لوگ سرجھکا کر داہنی جانب کو گھوم جاتے تھے۔ اس طرح جو صف شمال کی طرف ہوتی تھی مغرب کی جانب اور مغرب رخ کی صف جنوب رویہ ہوجاتی تھی۔ جب چاروں صفوں کے آدمی چاروں سمتوں کا مقابلہ تمام کر چکتے تو زمین کی طرف دیکھنے لگتے۔ پھر آسمان کی طرف نظر اٹھاتے۔ پھر شش جہت کو دیکھتے۔ اس اثناء میں انہی کلمات کا تکرار کرتے رہتے۔ جو ان کے پیرو مرشد نے ان کے لئے تجویز کر رکھے تھے۔ اب زیارت ختم ہوجاتی اور سب منتشر ہو جاتے۔ محمد حسین نے حضرات خلفاء راشدینؓ کی
نقالی کرتے ہوئے اپنے بھی چار خلیفہ مقرر کئے تھے۔ پہلا خلیفہ وہی منشی زادہ جو اس کا شاگرد قدیم اور محرم راز تھا اور اس کا نام اپنی مخترع زبان میں دوجی رکھا تھا۔ میر باقر اس کانسبتی بھائی دوسرا خلیفہ تھا۔ اسی طرح دو خلیفہ اور تھے اور اپنے نام فربود نمود اللہ اور نمود انمود رکھے تھے۔ اسی طرز پر اپنے اور اپنے پیروؤں کے عجیب وغریب نام تجویز کرتا رہتا تھا۔ جو شخص بھی اس کے حلقہ میں داخل ہوتا اسے اسی طرز کے انوکھے نام سے موسوم کرتا اور اس تسمیہ کو لفظ نشان سے تعبیر کرتا۔ اس کے تین لڑکے تھے۔ اوّل نمانمود، دوم فغار، سوم دید اور دولڑکیاں نمامہ کلاں اور نمامہ خورد کے نام سے موسوم تھیں۔ اقربائے زوجہ کے نام نمایار اور نمودیار اور نماد وغیرہ تجویز کئے تھے اور فغار کے بیٹے کا نام نمودید رکھا تھا اور اس کے بعض عزیزوں کے نام حق نما، نمافر، نمود فرتھے۔ غرض اسی قسم کے اور بھی بہت سے مضحکہ خیزنام رکھے تھے۔
دہلی میں فربودی تحریک کا نشوونمو
فربودی تحریک کے لئے لاہور کی آب وہوا کچھ زیادہ سازگار نہ ثابت ہوئی تو دہلی جاکر دھوبی زمانے کا قصد کیا۔ وہاں پہنچ کر مستقل بودوباش اختیار کر لی۔ ان ایام میں بادشاہ لاہور آیا ہوا تھا۔ دہلی میں بے مزاحمت اپنا رنگ جمایا۔ یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصہ میں دہلی کی مذہبی فضا پر تغیر وانقلاب کا ایک نیا موسم چھاگیا۔ نمود نے ان ایام میں یہ ڈھنگ اختیار کر رکھا تھا کہ کسی سے کوئی نذرونیاز قبول نہ کرتا۔ بلکہ اس رقم خطیر کی بدولت جو لاہور میں عطر کی فروخت سے حاصل ہوئی تھی۔ مدت تک خلق سے مستغنی رہا۔ اپنے کو بڑا متوکل ظاہر کرتا تھا۔ قاعدہ کی بات ہے کہ بے طمع فقیر کو بڑی وقعت واہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے زہدوتقدس کا اعتقاد دونوں پر اس طرح مسلط ہوا جس طرح ابر فضائے محیط پر چھا جاتا ہے۔ اس اثناء میں بہادر شاہ لاہور میں مرگیا اور اس کے بیٹوں میں سلطنت کے متعلق باہم جھگڑے قضئے پڑ گئے۔ ایسی حالت میں اس کے حال سے تعرض کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اب یہ بے دغدغہ اپنے مذہب کی ترقی واشاعت میں مشغول ہوا اور بجائے خاموشی سے کام کرنے کے اپنے دعوؤں کو اظہار واعلان کے ساتھ پیش کرنا شروع کیا۔ بڑے بڑے مستند علماء تو اہل باطل سے الجھنے کے عادی نہیں ہوتے۔ ان علمائے کرام کے عدم توجہ کو دیکھ کر عموماً ضعفائے اسلام ہی میدان مباحثہ میں اترتے ہیں۔ نمود کے مقابلہ میں بھی کم سواد مولوی صاحبان اترتے رہے۔ جنہیں یہ مجادلہ ومکابرہ سے مغلوب کرلیتا۔ اس وجہ سے عوام کا اعتقاد اس کی نسبت اور بھی راسخ ہوگیا۔ علاوہ ازیں امیر خان عمدۃ الملک کا لڑکا ہادی علی خاں جو آج کل دہلی
میں تھا اس کے بڑے ہوا خواہوں میں تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی اچھے اچھے مدعیان بصیرت بھی اس کے گرویدہ ہوگئے تھے اور قاعدہ کی بات ہے کہ بڑے لوگ جس کام کو کرنے لگتے ہیں۔ وہ عوام کے لئے حجت ودلیل راہ بن جاتا ہے۔ ہر طبقہ کے لوگوں میں اس کے تقدس کا کلمہ پڑھا جانے لگا اور رفتہ رفتہ اس کی جماعت بیس پچیس ہزار تک پہنچ گئی۔ اس کی کجروی اور ضلالت پسندی عاقبت میں جو رنگ لائے گی وہ تو ظاہر ہے۔ لیکن دنیاوی اور مادی نقطۂ نظر سے اس نے مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح تقدس کی تجارت سے بہت کچھ نفع عاجل حاصل کیا اور کوے گمنامی سے نکل کر مشاہیر عہد کی صف میں جلوہ گر ہوگیا۔
فرخ سیر بادشاہ کی خوش اعتقادی
اب تو فرخ سیر بادشاہ بھی لوگوں کے جوش عقیدت کو دیکھ کر اس کا معتقد ہوگیا۔ دہلی کے بزرگان دین اور مقتدایان ارباب یقین نے بہتیری جدوجہد کی۔ لیکن لوگوں کے اعتقاد کی گرمجوشی میں ذرا فرق نہ آیا۔ فرخ سیر بادشاہ نے تخت دہلی پر قدم رکھتے ہی اس کی زیارت کا قصد کیا۔ چنانچہ چند امراء کو ساتھ لے کر اس کے کاشانۂ زہد کی طرف روانہ ہوا۔ جب نمود کو اس کی اطلاع ملی کہ بادشاہ وقت بڑے اعتقاد سے ملاقات کو آ رہے تو اس کا ساغر دل خوشی سے چھلک گیا اور بادشاہ اور ارکان سلطنت کے دلوں پر اپنے زہداستغناء کا سکہ جمانے کے لئے جھٹ پٹ اپنے گھر کا دروازہ اندر سے مقفل کر دیا۔ جب امراء نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو جواب دیا کہ جاؤ چلے جاؤ۔ فقراء کو بادشاہوں اور امیروں سے کیا کام؟ تم لوگ کیوں ہمارے مخل اوقات ہوتے ہو؟ جب بادشاہ بہت دیر تک منت سماجت کرتا رہا اور اس کے مریدوں نے بھی بہت کچھ عرض معروض کی تو دروازہ کھول دیا۔ بادشاہ نے بہت جھک کر اس کو سلام کیا اور بمقتضائے ادب دور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ نمود نے ہرن کی کھال بادشاہ کے بیٹھنے کو دی اور یہ شعر پڑھا ؎
پوست تخت گدائی وشاہی
ہمہ واریم آنچہ مے خواہی
فرخ سیر اس کی بے نیازی اور استغناء کو دیکھ کر پھڑک گیا اور ہزارہا روپیہ اور اشرفیاں جونذرانہ کے طور پر لایا تھا پیش کر دیں۔ مگر اس گرگ باراں دیدہ نے ان کو قبول نہ کیا اور کہا کہ کیا مسلمانوں کا بادشاہ ایک عزلت نشین فقیر بے نوا کو زخارف دنیا کی طرف ملتفت کرتے ہوئے خدا سے نہیں ڈرتا؟ غرض نذرانہ قبول نہ کیا۔ آخر بادشاہ کے اظہار خلوص ونیاز مندی پر اپنے ہاتھ کے
لکھے ہوئے مصحف کے عوض میں ستر روپے لئے جو اس کی مقررہ قیمت تھی۔ فرخ سیر نے اس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے مصحف مقدس کو بڑی تعظیم کے ساتھ بوسہ دے کر اپنے سر پر رکھ لیا اور تھوڑی دیر کے بعد رخصت ہوگیا۔ نمود نے بادشاہ کی روانگی کے بعد یہ روپیہ بھی لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ بادشاہ کے حسن اعتقاد اور نمود کے طرز عمل نے لوگوں کو اور بھی زیادہ والہ وشیفتہ بنادیا اور اب اس کے ماننے والوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر کے لاکھوں تک پہنچ گئی۔
گرفتاری کا فرمان اور وزیر کا عارضۂ قولنج میں مبتلا ہونا
فرخ سیر کے بعد محمد شاہ دہلی کے تخت سلطنت پر بیٹھا۔ محمد امین خان اس کا وزیر تھا۔ جب وزیر باتدبیر کو نمود کی اغوا کوشیوں کا علم ہوا اور اس نے ایمان اسلام کی تڑپ رکھنے والے ہزاروں لاکھوں دلوں کو خون ہوتے دیکھا تو اس کو اسیر ودستگیر کر کے ارباب ایمان کی جراحت دل پر ہمدردی کا مرہم رکھنا چاہا۔ چنانچہ اس کو گرفتار کرنے کے لئے پیادے بھیج دئیے۔ لیکن تقدیر الٰہی کی نیرنگیاں دیکھو کہ محمد امین خان اس کی گرفتاری کا حکم دیتے ہی مرض قولنج میں مبتلا ہوگیا۔ لوگ اس علالت کو نمود کی کرامت اور اس کی بددعاء کا اثر سمجھے۔ تاہم کوتوال سپاہیوں کی جمعیت کے ساتھ اس کے دروازے پر پہنچا اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس شخص کو فوراً اندر سے پکڑ لاؤ اور اگر چون وچرا کرے تو دست بدست دگرے پابدست دگرے گھسیٹتے ہوئے باہر لاؤ۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ اس وقت لوگ نمود کے پاس سے چلے جایا کرتے تھے۔ جب سپاہیوں نے اس کی گرفتاری کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ اندر زنان خانہ میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ یہ خبر سنتے ہی دل پر یکایک بجلی گری اور ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ لیکن حتی الامکان استقلال کی باگ ہاتھ سے نہ جانے دی۔ کوتوال کو مکان میں بلایا اور کچھ کھانا بڑے لڑکے کے ہاتھ کوتوال اور سپاہیوں کے واسطے زنان خانہ سے بھجوایا اور کہلا بھیجا کہ جب تم لوگ اس فقیر کے غریب کدہ پر آئے ہو تو کچھ ماحضر تناول فرماؤ۔ تاکہ فقیر داخل اجر ہو جائے۔ کوتوال نے جب اس نوجوان رعنا اور صاحب جمال زیبا کو دیکھا تو اس پر رحم آگیا اور تھوڑی دیر کے لئے اس کے باپ کو مہلت دے دی۔ اس اثناء میں محمد امین خان کا مرض قولنج مشیت الٰہی سے اور زیادہ شدید ہوا۔ اس کی خبر ان سپاہیوں کو جو نمود کے مکان پر اس کی گرفتاری کی غرض سے بیٹھے تھے پہنچ گئی۔ وہ گھبرا کر محمد امین خان کے پاس چلے آئے۔ یہ دیکھ کر فربودیوں کی جان میں جان آئی۔ محمد امین خان کو بدترین قسم کا قولنج یعنی ایلاوس کا عارضہ تھا۔ اس وقت وہ درد کے مارے لوٹ رہا تھا اور عالم مدہوشی طاری تھی۔ جب ذرا افاقہ ہوا تو کوتوال سے پوچھا کہ نمود کو
پکڑ لائے۔ کوتوال نے کہا کہ ہم حضور کی علالت کی خبر سن کر بدحواس ہوگئے اور واپس چلے آئے۔ محمد امین خاں نے غیر متزلزل خود اعتمادی اور ناقابل فتح قوت ارادی کے ساتھ کہا کہ اب تو بے وقت ہوگیا ہے۔ صبح کو ضرور گرفتار کرلانا۔ رات کو بیماری شدت پکڑ گئی اور صبح تک حالت نے ناامیدی کے آثار دکھائے۔ ادھر ہادی علی خاں جو کابل سے اس کا ہوا خواہ چلا آتا تھا۔ لحظہ بہ لحظہ محمد امین خان کے جاں بلب ہونے کی خبریں نمود کو پہنچا رہا تھا۔ پہلے تو نمود نے دہلی سے جانے کا قصد کرلیا تھا۔ مگر اشتداد مرض کی خبریں سن کر رک گیا۔ محمد امین خان کی حالت ساعت بہ ساعت نازک ہورہی تھی اور نمود کا پژمردہ دل دمبدم بشاش ہوتا جاتا تھا۔ جب نمود نے اس کے قریب المرگ ہونے کی خبر سنی تو اپنے مکان سے باہر آکر مسجد میں جو اس کے گھر کے قریب واقع تھی بیٹھ گیا۔ اس کے مرید بھی محمد امین کی بیماری کی خبر سن کے پاس آجمع ہوئے۔
وزیرزادہ کی عذر خواہی اورنمود کا کبر وغرور
قمرالدین پسر محمد امین خان نے جب اپنے والد کا یہ حال دیکھا تو بہت گھبرایا اور یقین ہوگیا کہ یہ نمود کی ناراضی کا اثر ہے۔ اپنے دیوان کے ہاتھ پانچ ہزار روپیہ اس کی نذر کے لئے بھیجا اور عفو تقصیر کی درخواست کے بعد تعویذ کی التجا کی۔ نمود کو پہلے ہی سے محمد امین کی حالت نزع کا علم ہوچکا تھا۔ بڑے غرور سے کہنے لگا کہ میں نے اس کافر کے جگر پر ایسا تیر مارا ہے کہ کسی طرح جانبر نہ ہوگا اورمیں بھی شوق شہادت میں اس مسجد میں آبیٹھا۔ میرے جدبزرگوار (امیرالمؤمنین علیؓ) بھی مسجد ہی میں شہید ہوئے تھے۔ گو میرا شہید ہونا امکان سے باہر ہے۔ کیونکہ ایک دفعہ پہلے ہی شہید ہوچکا ہوں۔ یہ اس طرف اشارہ تھا کہ (معاذ اللہ) حمل سے ایک بار ساقط ہوچکا ہوں۔ دیوان نے وہ روپیہ نمود کی نذر کر کے قمر الدین کی طرف سے محمد امین خاں کے لئے معافی کی درخواست کی اور تعویذ بھی مانگا۔ نمود نے جواب دیا کہ گوشہ نشین گداؤں کو ستانے کا یہی ثمرہ ہے۔ پانی سر سے گذر گیا اور تیر کمان سے نکل چکا۔ اب اس کا واپس آنا غیر ممکن ہے۔ جب دیوان نے بہت منت سماجت کی تو دوجی کو مخاطب کر کے کہا کہ لکھ ’’وننزل من القراٰن ماھو شفاء ورحمۃ للمؤمنین ولا یزید الظلمین الا خسارا‘‘ جب یہ لکھا جاچکا تو دیوان کو دے کر کہنے لگا کہ اسے لے جا۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ جب تک تو وہاں پہنچے گا۔ وہ رخت زندگی باندھ کر ملک عدم کی جانب کوچ کر چکا ہوگا۔ دیوان نے روپیہ لینے کے لئے بہت منت کی مگر قبول نہ کیا اور کہا میں اسے ہرگز نہ لوںگا۔ ہاں اگر فقراء چاہیں تو لے سکتے ہیں۔ مسند نشینوں کے حاشیہ نشین عموماً
حریص ہوتے ہیں۔ کاسہ لیسوں نے اس رقم کو آپس میں بانٹ لیا۔ دیوان چلاگیا تو محمد حسین نمود عقیدت مندوں سے کہنے لگا کہ اس کی نجات کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ خلوص دل سے حلقۂ ارادت منداں میں داخل ہو۔ اگر ایسا کرے تو پھر دیکھنا کہ میری قوت اعجاز کس طرح اس کے قالب بے جان میں ازسرنو زندگی کی روح پھونکتی ہے؟ دیوان ابھی راستہ ہی میں تھا کہ اسے محمد امین کے انتقال کی خبر مل گئی۔ اس حادثہ نے فربودی گم کردگان راہ کے جسموں کو ایک حیات تازہ بخش دی۔ نمود کا کنول دل بھی کھل گیا کہ کشتیٔ عزت ووقار نہ صرف ڈوبنے سے بچی بلکہ اس کی کلاہ عظمت پر مزید چار چاند لگ گئے۔ اس کرامت کا دہلی میں بڑا چرچہ ہوا۔ شجر بدعت والحاد نئے برگ وبار لایا اور اس کے مذہب کی ترقی ساتویں آسمان تک پہنچنے لگی۔ علمائے امت جو جوش دین سے لبریز تھے لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ اس ابلیس آدم رو کی پیروی نہ کرو۔ جس کا نصب العین محض خطام دنیا کا اکتساب ہے اور محمد امین کی میعاد زندگی ختم ہوچکی تھی۔ اس کو نمود کی دعاء سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن عقیدت شعاروں کا پایۂ خوش اعتقادی متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ مضبوط ہوا۔
خلیفہ کا شاگرد کو حصہ دینے سے انکار اور اس کا انجام
نمود کا کوس انا ولاغیری محمد امین کی رحلت کے بعد دو تین سال تک غلغلہ انداز عالم رہا۔ آخر موت نے اسے یہ پیغام سنا کر فضائے پرشوروشیون میں سکون پیدا کر دیا کہ اب میری حکومت ہے۔ نمود کے مرنے کے بعد اس کا بڑا بیٹا نما نمو مسند نشین ہوا۔ اس نے نذر ونیاز کے ان حصوں میں جو دوجی کے لئے کابل میں باہمی تصفیہ سے مقرر ہوئے تھے اور نمود مرتے دم تک باقاعدہ دیتا رہا تھا۔ ازراہ کوتہ اندیشی، دست اندازی کرنی چاہی۔ اس بناء پر دوجی اور نمانمو کی آپس میں بگڑ گئی۔ دوجی نے بہتیری منت خوشامد کی اور لاکھ سمجھایا کہ میرے ساتھ جھگڑا کرنا خوب نہیں۔ مگر نمانمو کے سرپر حرص وطمع کا بھوت سوار تھا۔ کسی بات کو خاطر میں نہ لایا۔ دوجی نے اس نوجوان صاحب سجادہ کو تخلیہ میں یہاں تک سمجھایا کہ اوّل اوّل کابل میں نمود نے کس طرح یہ تجویز پیش کی تھی کہ تقدس کی ایک دکان کھولیں اور ایک نیا مذہب جاری کر کے ذراندوزی کا ڈھنگ نکالیں اور بیان کیاکہ گو میں شروع ہی تمہارے باپ کا شریک کار ہوگیا تھا۔ تاہم بہت دن تک کذب وزور کی تائید کرتے ہوئے ہچکچاتا رہا۔ آخر نفسانی خواہش غالب آئی اور ان حصوں کی طمع دل میں آئی جو شروع میں مقرر ہوئے تھے۔ مدت العمر تمہارے باپ کے جھوٹے دعوؤں کی تائید وتصدیق کرتا رہا اور نمانمو کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو رونق وترقی بھی اس مذہب کو آج تک نصیب ہوئی اس
میں اس خاکسار کی کوششوں کو زیادہ دخل تھا۔ پس ضد چھوڑ کر وہ حصص جو شروع سے میرے لئے چلے آتے ہیں بے تأمل ادا کرنے کا عہد کرو تو بہتر ورنہ ابھی بھانڈا پھوڑے دیتا ہوں۔ لیکن نمانمو نے اس کی نصیحت پر کان نہ دھرے۔ جب دوجی نے نخل آرزو کے تمام رگ وریشے نمانمو کے تیشۂ بیداد سے کٹتے دیکھے توناچار اجتماع جشن کی تقریب پر جب کہ فربودی بکثرت جمع ہوتے تھے اور دوسرے تماشائیوں کا بھی بڑا ہجوم ہوتا تھا۔ کھڑے ہوکر ایک ہنگامہ خیز تقریر کی جس میں فربودی مذہب کی بنیادیں ہلادیں۔ نمود کی عیاری اور اپنی شرکت کا سارا ماجرا اوّل سے آخر تک حاضرین کو سنا کر راز سربستہ کے چہرے سے نقال اٹھادی اور کہنے لگا۔ دوستو! کیا تم میرا اور نمود کا خط پہچان سکتے ہو؟ بہت سے آدمیوں نے اقرار کیا کہ ہم دونوں کا خط پہچانتے ہیں۔ دوجی نے وہ مسودات جو نمود نے اور دوجی نے باہم صلاح ومشورہ سے مرتب کئے تھے اور دونوں نے اپنے اپنے قلم سے ان میں ترمیم کی تھی نکال کر دکھائے اور کہا یہ مذہب محض میری اور نمود کی عیاری سے عرصۂ وجود میں آیا۔ اگر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں کسی اصلاح وترمیم کی گنجائش نہ ہوتی۔ لوگوں نے ان مسودات کو غور سے دیکھا اور حرف بحرف دوجی کے بیان کی تصدیق کی۔ اسی وقت ہزارہا آدمی جن کو خدائے واہب نے فطرت سلیمہ عطاء کی تھی اس باطل مذہب سے منحرف ہوگئے۔ لیکن جو شقی ازلی سحر زدگان قادیان کی طرح پتھر کا دل رکھتے تھے۔ اس زریں موقع سے فائدہ اٹھا کر بھی چشمۂ ہدایت سے سیراب نہ ہوسکے۔ اس واقعہ سے گمراہی کی دکان کا موسم بہار خزاں میں تبدیل ہوا۔ نمانمو یہ کساد بازاری دیکھ کر مایوسیوں اور نامرادیوں کے حصار میں گھر گیا اور جب رہائی کی کوئی صورت نہ نکلی تو مجبوراً دوجی سے ازسرنو رابطہ الفت ویگانگت قائم کرنا چاہا۔ لیکن یہ کوشش بیکار تھی۔ کیونکہ جو خوش نصیب لوگ بے اعتقاد ہو کر دام گمراہی سے نکل چکے تھے ان سے اس بات کی کبھی امید نہ ہوسکتی تھی کہ وہ دوبارہ آکر حلقۂ ہائے دام اپنے پاؤں میں ڈال لیںگے۔ فربودیوں کی جمعیت گھٹتے گھٹتے دس پندرہ ہزار تک رہ گئی اور آمدنی کے ذرائع مسدود ہونے لگے۔ ناچار نمانمو اس گاؤں میں جوہادی علی خاں نے اپنی جاگیر میں دوابہ کے اندر دیا تھا۔ جارہا۔ کچھ دنوں کے بعد نمانمو تیر قضا کا شکار ہوگیا اور فضار اس کا جانشین مقرر ہوا۔ چونکہ اس مذہب کے نیر اقبال کو گہن لگ چکا تھا۔ فضار کی دکان مشیخت کسی طرح نہ چل سکی۔ اکثر فربودی اس مذہب سے بیزار ہوکر اسلام کے سواداعظم سے جاملے۔ آخر نصف صدی سے بھی پہلے یہ مذہب کس مپرسی کی گور میں دفن ہوگیا۔ ’’فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمدﷲ رب العلمین‘‘ فضار کے بعد نمود
کے چند اقرباء دہلی چھوڑ کر بحالت تباہ بنگالہ پہنچے۔ وہاں نواب میرن بن نواب جعفر علی خاں نے جوان ایام میں وہاں کا ناظم تھا۔ ان مسافران خستہ پاکو آل رسول سمجھ کر اپنے آغوش عاطفت میں جگہ دی اور پانچ روپے روزانہ وظیفہ مقرر کر کے بسر اوقات کی سبیل پیدا کر دی۔
(سیر المتأخرین ص۱۲)
باب۶۲ … مرزاعلی محمد باب شیرازی
اگرچہ باطنیت مرتدانہ آزادیوں کا دروازہ کھول کر خود کتم عدم میں مستور ہوگئی۔ مگر اس کا زہریلا اثر بابیت اور مرزائیت کی شکل میں آج تک باقی ہے۔ بابیت اور مرزائیت باطنی اصول زندقہ کے نہایت آزاد مسلک ہیں۔ خصوصاً بابیت تو بالکل باطنیت ہی کے کھنڈروں پر قائم کی گئی تھی۔ بابیت کا بانی مرزاعلی محمد یکم محرم ۱۲۳۵ھ (۲۰؍اکتوبر ۱۸۱۹ء) کو شیراز میں متولد ہوا۔ اس کا باپ مرزامحمد رضا اوائل عمر ہی میں موت کا شکار ہوگیا تھا۔ اس لئے علی محمد اپنے ماموں مرزاعلی کے پاس شیراز ہی میں جوبزازی کا کام کرتا تھا چلا آیا۔ حاجی مرزاجانی کا شانی نے جوباب کے ڈیڑھ دوسال بعد ۱۲۶۸ھ میں مقتول ہوا۔ کتاب نقطۃ الکاف میں لکھا کہ انبیاء کرام امی تھے اور باب بھی امی یعنی ناخواندہ تھا۔
(نقطۃ الکاف ص۱۰۹، مطبوعہ لندن، دور بہائی ص۱۸)
لیکن بہائیوں کی کتاب دوربہائی میں لکھا ہے کہ علی محمد باب نے بچپن میں ابتدائی تعلیم شیخ محمد جس کا لقب عابد تھا حاصل کی۔ تحصیل علم کے بعد جب علی محمد کی عمر اٹھارہ سال کی تھی تو بوشہر میں پہلے ماموں کی شراکت میں تیل کا کاروبار شروع کیا۔ لیکن تھوڑے دن کے بعد ماموں سے علیحدگی اختیار کر کے مستقلاً مصروف تجارت رہا۔ اس نے بوشہر ہی میں شادی کی۔ اس بیوی سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ جو صغر سنی میں مرگیا۔ پانچ سال تک تجارتی مشاغل میں مصروف رہنے کے بعد نجف کا سفر کیا۔ ایک سال وہاں اقامت گزیں رہا۔ نجف سے کربلا جاکر تین مہینے رہا۔ یہاں سے ارض فاء میں وارد ہوا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اس نے بعض محرکات کی بناء پر دعوائے مہدویت کا عزم صمیم کر لیا۔ لیکن یہ سوچ کر کہ ابتداء ہی سے مہدویت کی رٹ لگائی تو شاید لوگ اس کے سننے کے لئے تیار نہ ہوں۔ نہایت ہوشیاری سے ارادہ کیا کہ پہلے صاحب الزمان مہدی علیہ السلام کا واسطہ اور ذریعہ ہوں اور جس وقت اہل ایران اس دعویٰ سے مانوس ہوجائیں تو پھر مہدی موعود ہونے کا اعلان کردوں۔ مرزاغلام احمد قادیانی بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ جب وہ دیکھ لیتے تھے کہ ان کے بندگان مسحور پہلے دعویٰ کے متحمل ہوگئے تو ایک قدم اور بڑھا کر ان کے گلے میں ایک
اور دعویٰ کا طوق ڈال دیتے تھے۔ غرض اس قرارداد کے بعد مرزاعلی محمد ۱۲۶۰ھ میں جب کہ اس کی عمر پچیس سال کی تھی شیراز آیا اور اپنے تئیں باب (دروازہ ) کے لقب سے متعارف کرانا شروع کیا۔ بابیت سے اس کی یہ مراد تھی کہ وہ ایک بزرگوار ہستی (مہدی علیہ السلام) کے فیوض کا واسطہ ہے جو ہنوز پردۂ غیب میں مستور ہے۔ چنانچہ ایک جگہ اسی مستور ہستی کو خطاب کرتے ہوئے لکھا کہ اے خدائے عزوجل کے مظہر! میں تجھ پر فداء تو مجھے اپنے محبت کا غلام اپنی الفت کا بندہ بنالے اور مجھے یہ قوت فہم اور ادراک دے کہ میں خدائے بزرگ وبرتر کو اپنی نجات ابدی کاحاکم ومتولی سمجھوں کہ تو میرے لئے کافی ذریعۂ سفارش ہے اور تیری غلامی میرے لئے باعث فخر اور موجب فوزوفلاح ہے۔
دعویٰ مہدویت
چند روز کے بعد علی محمد نے مہدویت کا دعویٰ کر دیا۔ جب اس کے دعویٰ کو شہرت ہوئی تو عقیدت شعار لوگ اس کے حلقۂ مریدین میں داخل ہونے لگے۔ لیکن جمہور نے اس سے شدید انکار کیا۔ البتہ شیخیہ فرقہ کے شیعوں نے جو حضرت مہدی علیہ السلام کی جستجو میں ہمیشہ سرگردان رہتے تھے۔ ان کو مہدی موعود یقین کیا۔ منجملہ ان لوگوں کے جنہوں نے حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کا فخر اولیت حاصل کیا قابل ذکر یہ لوگ تھے۔ ملا حسین بشرویہ، مرزا احمد ازغندی، ملا صادق مقدس، شیخ ابوتراب اشتہاردی، ملا یوسف اروبیلی، ملا جلیل اور رومی ملا مہدی، کندی، مؤمن ہندی جو اندھا تھا اور علی بسطامی، باب نے ان لوگوں کو اپنے نشریہ کے لئے اکناف ایران میں پھیلا دیا اور خاص خاص قاصدوں کو سلاطین عالم کے پاس بغرض دعوت روانہ کیا۔ اس کے بعد مکہ معظمہ کا قصد کیا۔ مراجعت حرم کے بعد جب اس کے درود ابوشہر کی خبر شیراز پہنچی تو یہاں اس کے خلاف بڑا جوش پھیلا۔ شیعہ مذہب کے علماء نے اس کی تکفیر کی اور قتل وتدمیر کا فتویٰ دیا۔ عامۃ الناس اور طبقہ علماء میں جو برہمی پھیل رہی تھی اسے حسین خان آجود ان حاکم فارس کو اس بات پر آمادہ کیا کہ باب کے سرگرم داعی ملا صادق مقدس کو تازیانہ کی سزادے۔ اس کے علاوہ ملا صادق مرزامحمد علی بارفروشی اور ملا علی اکبر اردستانی تینوں کی ڈاڑھیاں منڈوا کر انہیں کوچہ وبازار میں تشہیر کیاگیا۔ اس کے بعد حاکم فارس نے علماء کی صوابدید پر باب کو طلب کیا اور علماء وفضلاء کی موجودگی میں بڑی سرزنش کی۔ اس کے جواب میں باب نے بھی سخت کلامی کی۔ حاکم نے پیادوں کو اشارہ کر دیا۔ وہ لاتوں اور گھونسوں سے
باب کی تواضع کرنے لگے اور اہانت وتحقیر کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ زدوکوب کا اثر باب کے چہرے پر بھی نمایاں ہوا۔ آخر باب کے ماموں علی بزاز کی ضمانت وکفالت پر اس کو گھر بھیج کر خویش وبیگانہ کی ملاقات سے روک دیا گیا۔ ایک دن شیزاز کے قاضی نے اس کو جامع مسجد میں پاکر اس کو مسجد سے باہر ہو جانے کو کہا۔ مگر باہر نکلنے کے بجائے وہ فوراً منبر پر چڑھ گیا اور ایک تقریر کر کے لوگوں کو اپنی مہدویت کی دعوت دینے لگا۔ بہت سے سامعین وحاضرین نے اس کے ہاتھ پر اسی وقت بیعت کر لی۔
شاہ کا باب کے پاس ایک مجتہد بھیجنا
جب محمد شاہ تاجدار ایران کو باب کے دعویٰ مہدویت اور اس کی روز افزوں جمعیت کا علم ہوا تو اس نے ایک شیعہ مولوی سید یحییٰ دارابی کو اس بات پر متعین کیا کہ شیراز جا کر باب سے ملاقات کرے اور اس کے دعوؤں کی حقیقت معلوم کر کے اطلاع دے۔ یحییٰ دارابی نے باب سے تین ملاقاتیں کیں۔ تیسری صحبت میں اس سے خواہش کی کہ سورۂ کوثر کی تفسیر کرے۔ باب نے اسی مجلس میں سورۂ کوثر کی تفسیر لکھ دی۔ یہ دیکھ کر دارابی اس کا گرویدہ ہوگیا اور مرزا لطف علی پیش خدمت کو تمام واقعات بیان کرنے کے لئے شاہ کے پاس بھیج کر خود ایران کی سیاحت شروع کر دی اور تمام شہروں اور قصبوں میں پھر کر اس طمطراق سے بابی مذہب کا نشر یہ کیا کہ شیعی علماء نے اس کے جنون اور خلل دماغ کا حکم لگایا۔ ان ایام میں زندان میں ملا محمد علی نام ایک شیعی مجتہد کا طوطی بال رہا تھا۔ ملا محمد علی نے اپنے ایک معتمد کو تفحص حالات کے لئے شیراز روانہ کیا۔ اس نے باب کی بعض تالیفات لے کر مراجعت کی۔ جب ملامذکور نے باب کی تحریریں پڑھیں تو اس کا والہ وشیدا ہوگیا اور کتابوں کو طاق میں جمع کر کے کہنے لگا۔ ’’طلب العلم بعد الوصول الیٰ المعلوم مذموم‘‘ (حصول مقصد کے بعد تحصیل علم مذموم ہے) اس کے بعد اپنے تمام مریدوں اور شاگردوں کو جمع کر کے منبر پر چڑھا اور لوگوں کو بابی مذہب کی دعوت دینے لگا اور باب کے نام ایک مکتوب بھیج کر اس کے دعاوی کی تصدیق کی۔ ملا محمد علی کی دعوت وتبلیغ نے اکثر اہل زنجان کو بابیت کا پیرو بنا دیا۔ زنجان کے شیعی علماء لوگوں کو وعظ ونصیحت کی تبریدیں پلاتے تھے۔ مگر اہل زنجان بر ملا محمد علی کا جادو چل چکا تھا۔ ان کی حرارت اعتقاد میں کچھ فرق نہ آیا۔ آخر مجبور ہو کر شاہ سے اس کی شکایت کی۔ شاہ نے ملا محمد علی کو طہران طلب کر کے علماء کی مجلس میں حاضر کیا۔ ملا محمد علی نے آج کل کے مرزائیوں کی طرح خوب کج بحثی کی۔ علماء نے بہتیری کوششیں کیں۔ مگر اس کو مغلوب اور
لاجواب نہ کر سکے۔ یہ حالت دیکھ کر شاہ نے ایک عصا اور پچاس تومان زر نقد دے کر اسے مراجعت کی اجازت دی۔
(بابیوں کی کتاب مفالۂ سیاح مطبوعہ یونیورسٹی پریس کیمرج ص۷،۱۵)
علماء نے حسین خاں حاکم فارس سے کہا کہ تعذیب وتفضیح کا کوئی پہلو اٹھا نہیں رکھاگیا۔ پھر بھی یہ فتنہ کسی طرح دبتا نظر نہیں آتا۔ اب انطفائے فتنہ کی یہی ایک صورت ہے کہ باب کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور یہ اقدام بدیں وجہ اور بھی ضروری ہے کہ باب کی جمعیت بہت بڑھ گئی ہے اور وہ خروج وبغی کا حوصلہ رکھتا ہے۔ حاکم فارس نے عبدالحمید خاں کوتوال کو حکم دیا کہ نصف شب کے وقت باب کے ماموں کے گھر پر ہجوم کر کے باب اور اس کے تمام پیرووں کو گرفتار کر لے۔ کوتوال نے پولیس کی جمعیت کے ساتھ چھاپہ مارا۔ وہاں باب اس کے ماموں اور سید کاظم زنجانی نام ایک بابی کے سوا کوئی نہ ملا۔ یہ تینوں دست بستہ حاضر کئے گئے۔ حسین خاں نے باب کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ شہر سے چلا جائے۔ باب نے شیراز کو الوداع کہہ کر اصفہان کا قصد کیا۔ یہ تو کتاب مقالۂ سیاح میں مذکور ہے۔ لیکن باب کے مرید خاص حاجی مرزاجانی کاشانی نے کتاب نقطۃ الکاف میں لکھا ہے کہ حاکم شیراز نے حکم دے رکھا تھا کہ باب کسی شخص سے ملاقات نہ کرے۔ حمامل کے سوا کہیں باہر نہ جائے۔ نہ کسی کا کوئی نوشتہ وصول کرے اور نہ کسی تحریر کا جواب دے۔ ان امتناعی احکام کے باوجود باب لوگوں سے مخفی ملاقاتیں کرتا اور ہر وقت اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہا تھا۔ جب مخالفوں کو اس کا علم ہوا تو وہ ۲۱؍رمضان کی شب کو اس کے مکان میں گھس پڑے اور دشنام دہی کے بعد باب کو بہت کچھ مارا پیٹا۔ اس کے بعد اس کے پیروؤں کو بھی زدوکوب کیا۔ اس لئے باب نے شیراز کو الوداع کہنے کے قصد سے اپنے ایک مرید آقا محمد حسین اردستانی کو پچاس تومان (قریباً ہزار روپیہ) دے کر تین گھوڑے خریدنے کو کہا۔ اس نے گھوڑے خریدے اور باب نے اپنے دو فدائیوں کے ساتھ شیراز سے اصفہان کا راستہ لیا۔ حاجی مرزاجانی مؤلف نقطۃ الکاف آقا محمد حسین اردستانی کے اخلاص کے متعلق لکھتا ہے کہ تیراسی کے پاس تھے۔ شاہی لشکر نے محمد حسین کو گرفتار کر لیا اور اسے تیروں سمیت اپنے فوجی سردار کے پاس لے گئے۔ بابیوں نے اس وقت ایک قلعہ پر قبضہ کررکھا تھا۔ سردار نے اس سے قلعہ اور قلعہ گیر بابیوں کے حالات دریافت کئے۔ لیکن اس نے کچھ نہ بتایا۔ فوج کے افسروں نے بہتیرا سرمارا لیکن اس نے مہر سکوت نہ توڑی۔ اس سے کہا گیا کہ اگر تو نہیں بتاتا تو ہم ابھی تیری گردن مارے دیتے ہیں۔ کہنے لگا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوگی کہ حضرت قائم علیہ السلام (باب) کی راہ میں مارا جاؤں۔ سردار پوچھنے لگا
اچھا بتاؤ تمہیں کس طرح ہلاک کیا جائے؟ کہنے لگا وہ طریقہ اختیار کرو جو میرے حق میں سب سے زیادہ تکلیف دہ ہو۔ بندوق اس کی داہنی آنکھ کے ساتھ ملاکر چلادی گئی اور اس نے آنا فاناً قضا کا جام پی لیا۔
(نقطۃ الکاف مطبوعہ لندن ص۱۱۵)
حاکم اصفہان کی گرویدگی بابیت
جب باب اصفہان پہنچا تو معتمد الدولہ منوچہر خاں حاکم اصفہان اس کا معتقد ہوگیا اور درپردہ اس کا مذہب قبول کر لیا۔ باب اہل اصفہان کو کھلے بندوں اپنی مہدویت کی دعوت دینے لگا۔ علماء اور تمام حامیان مذہب نے مخالفت کی اور اصفہان میں بڑی شورش برپا ہوئی۔ آخر بعض آدمیوں نے اس کی سرکوبی کا قصد کیا۔ باب کو معلوم ہوا تو وہ ایک سرائے میں چھپ گیا۔ لوگوں نے اس پر قابو پانے کی کوشش کی۔ لیکن معتمد الدولہ نے اس کی ہر طرح سے حفاظت کی۔ چند روز کے بعد معتمد الدولہ نے شیعی علماء کو مغلوب ولاجواب کرانے کے خیال سے ایک مجلس مناظرہ قائم کی۔ شیعوں کی طرف سے مرزاسید محمد آغا محمد مہدی اور مرزامحمد حسن مباحثہ کے لئے منتخب ہوئے۔ آغا مہدی نے باب سے سوال کیا کہ مجتہد لوگ خود ہی قرآن وحدیث سے مسائل استنباط کرتے ہیں۔ لیکن جنہیں اتنی قابلیت نہیں ہوتی وہ کسی مجتہد کی تقلید کرتے ہیں۔ آپ ان دونوں میں سے کس گروہ میں شامل ہیں؟ باب میں کسی کی تقلید نہیں کرتا اور نہ مجتہدین کی طرح قیاس سے کام لیتا ہوں۔ بلکہ میرے نزدیک قیاس فقہی حرام وناجائز ہے۔ آغا مہدی آپ کسی کی تقلید نہیں کرتے جس سے ثابت ہوا کہ آپ مجتہد ہیں۔ لیکن آپ مجتہد بھی نہیں بنتے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ جن مسائل پر آپ کا عمل ہے اور جن کا آپ حکم دیتے ہیں وہ قیاسی نہیں یقینی ہیں۔ لیکن چونکہ خدا کی حجت (مہدی علیہ السلام) غائب ہے۔ لہٰذا جب تک امام آخرالزمان کا ظہور نہ ہولے اور کوئی شخص خود ان کی زبان مبارک سے مسائل فقہ کو نہ سن لے وہ اس امر کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کے مسائل مستخرجہ یقینی ہیں۔ پس آپ پر اپنے مسائل کے یقینی ہونے کا ثبوت لازم ہے۔ باب تیری کیا حقیقت ہے کہ مجھ جیسے شخص سے جس کا مقام قلبی ہے۔ مباحثہ کر سکے۔ یہ باتیں تیری عقل کی رسائی سے دور ہیں۔ پس بجائے اس کے کہ فضول بکواس کرے اپنی جگہ پر خاموش بیٹھا رہ۔ مرزامحمد حسن شاید آپ کو بھی اس امر سے انکار نہ ہوگا کہ جو شخص مقام قلب پر پہنچ جاتا ہے کوئی چیز اس سے مخفی نہیں رہ سکتی۔ جب آپ بھی اس مقام پر پہنچے ہیں تو ضرور ہے کہ جو بات آپ سے پوچھی جائے آپ اس کا جواب دیں۔ باب بیشک تمہارا خیال درست ہے۔ جو پوچھنا چاہو جواب دوںگا۔ محمد
حسین حدیث میں ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ایک ہی رات میں بیک وقت چالیس آدمیوں کے مہمان ہوئے تھے۔ اگر یہ صحیح ہے تو اس کو عقلی دلائل سے ثابت کیجئے۔ اسی طرح چند اور امور کی نسبت جو عقلاً محال ہیں سوال کیا۔ باب یہ باتیں نہایت دقیق ہیں۔ اگر چاہو تو اس کو نہایت تفصیل سے لکھ دیتا ہوں۔ محمد حسن اچھا لکھ دیجئے۔ باب نے لکھنا شروع کیا۔ اتنے میں کھانا آگیا اور سب لوگ کھانا کھانے لگے۔ جس وقت لوگ فارغ ہوکر جانے لگے تو اس وقت باب نے اپنی تحریر ان کے حوالے کی۔ مرزا محمد حسن نے اس کا مطالعہ کر کے کہا کہ یہ تو ایک خطبہ ہے جس میں کسی قدر حمد اور نعت اور باقی مناجات ہے۔ لیکن جن امور کی نسبت سوال کیاگیا تھا ان میں سے کسی کا جواب نہیں۔ بہت سے لوگ تو پہلے جاچکے تھے اور جورہ گئے تھے وہ بھی چلتے پھرتے نظر آئے اور مباحثہ یوں ہی ناتمام رہ گیا۔ لیکن باوجودیکہ اس مباحثہ میں باب کو نیچا دیکھنا پڑا اور وہ ذلت سے ہمکنار ہوا۔ لیکن معتمد اللہ کے پائے اعتقاد میں کچھ بھی تزلزل رونما نہ ہوا۔ چونکہ وہ علانیہ باب کی تائید نہیں کرسکتا تھا اورعوام کا جوش دمبدم ترقی کر رہا تھا۔ اس نے غضب آلود عوام کی تسکین کے لئے بظاہر تو یہ حکم دیا کہ باب کو طہران پہنچایا جائے۔ لیکن درپردہ اپنے چند خاص سواروں کے ساتھ اصفہان سے باہر بھیج دیا۔ جب باب موضع مورچہ خوار میں پہنچا تو مخفی طور پر پھر اصفہان آجانے کا حکم دیا اور اپنی خلوت خاص میں اس کی جگہ دی۔ باب کے چند پیروؤں اور معتمد الدولہ کے بعض خاص معتمد لوگوں کے سوا کوئی شخص اس راز سے آگاہ نہ تھا۔ باب معتمد الدولہ کے پاس نہایت تیعش وراحت کے دن کاٹنے لگا۔ معتمد الدولہ نے باب سے کہہ دیا تھا کہ آپ کو میرے مال واسباب میں ہر طرح سے تصرف کرنے کا حق ہے۔ چار ماہ کی مدت اسی طرح گذر گئی۔ اتنے میں معتمد الدولہ نے ملک عدم کو نقل مکان کیا اور مرنے سے پہلے اپنی ساری جائیداد باب کے نام ہبہ کر گیا۔ جب معتمد الدولہ کے بھتیجے مرزا گرگین خان نائب الحکومت کو جو معتمد الدولہ کے بعد اصفہان کا حاکم مقرر ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ باب خلوت میں موجود ہے تو باب کی موجودگی باب کے نام معتمد الدولہ کے جائیداد ہبہ کر جانے کی کیفیت حاجی مرزا آقاسی وزیراعظم کو طہران لکھ بھیجی۔ وزیراعظم نے حکم دیا کہ باب کو بہ تبدیل وضع وہیئت بھیجا جائے اور معتمد الدولہ کی جائیداد کا اس کو ایک حبہ بھی نہ دیں۔
قلعہ ماہکو میں نظر بندی
مرزاگرگین خاں نے باب کو بلا بھیجا اور کہا کہ یہاں کے لوگ آپ کے دشمن ہوگئے
ہیں۔ خصوصاً طبقۂ علماء آپ کے قیام اصفہان کے خلاف ہے۔ اس لئے قرین مصلحت یہ ہے کہ آپ طہران تشریف لے جائیں۔ باب نے کہا اچھا ہم چلے جائیںگے۔ حاکم نے کہا بہتر ہے کہ آج ہی رات تشریف لے جائیے۔ باب نے کہا کہ اس وقت آدمی موجود نہیں ہیں اور سفر کا تدارک بھی مہیا نہیں ہے۔ حاکم نے کہا میں آدمی آپ کے ساتھ کر دیتا ہوں۔ وہ آپ کو تیاری سفر میں مدد دیںگے۔ غرض حاکم نے بارہ سوار متعین کر کے حکم دیا کہ وہ باب کو جلد اصفہان سے لے جائیں۔ چنانچہ بڑی عجلت کے ساتھ اسباب سفر درست کر کے باب کو رخصت کر دیا گیا۔ باب نے اصفہان میں بھی شادی کر لی تھی۔ اس کو بیوی سے ملنے کی بھی اجازت نہ دی گئی۔ یہ ایسی قہر آمیز اور اندوہناک حالت تھی کہ باب عالم رنج واضطراب میں مقاطعۂ جوعی پر آمادہ ہوا اور کاشان تک کچھ نہ کھایا۔ باب کے چند پیرو جو رفقائے سفر تھے اپنے مقتداء کی فاقہ کشی پر سخت مضطرب ہوئے اور انہیں اندیشہ ہوا کہ کہیں گرسنگی سے ہلاک نہ ہوجائے۔ بڑی منتیں کیں۔ لیکن باب نے کھانا تناول نہ کیا۔ آخر کاشان پہنچ کر شیخ علی خراسانی کی استدعا پر دودن کے بعد کھانا کھالیا۔ جب باب اصفہان سے چلاآیا تو راستہ میں وزیراعظم کی طرف سے باب کو تبریز اور ماہکو لے جانے کا دوسرا حکم آپہنچا۔ باب کو کاشان سے موضع خانلق اور وہاں سے تبریز پہنچایا گیا۔ یہاں آکر باب کو معلوم ہوا کہ ہماری منزل مقصود تبریز نہیں بلکہ ماہکو ہے۔ باب نے اپنا ایک قاصد شہزادہ بہمن مرزاحاکم تبریز کے پاس بھیج کر اس سے درخواست کی کہ وہ تبریز ہی میں قیام کی اجازت دے۔ کیونکہ ہمیں ماہکو کاسفر ناگوار ہے اور ساتھ ہی یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تم انکار کروگے تو خدا تم سے اس کا انتقام لے گا۔ حاکم تبریز نے جواب دیا کہ اس میں میری مرضی کو کوئی دخل نہیں ہے۔ طہران سے جو حکم آتا ہے اس کی تعمیل کی جاتی ہے۔ جب قاصد نے واپس آکر باب کو حاکم کا یہ جواب سنایا تو آہ بھر کر کہنے لگا میں قضائے الٰہی پر راضی ہوں۔ یہ لوگ چند روز تک تبریز سے باہر ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد سواروں نے آکر کہا کہ اٹھیے روانہ ہوجئے۔ باب نے چلنے سے پہلے اپنے قاصد سے کہا کہ ایک دفعہ شہزادہ بہمن مرزا کے پاس دوبارہ جاکر اتمام حجت کردو اور اس سے کہہ دو کہ میں تبریز سے حرکت نہیں کروںگا۔ بجز اس صورت کے کہ مجھے قتل کر کے لے جائیں۔ قاصد نے باب کا پیغام پہنچایا۔ شہزادہ اصلاً خاطر میں نہ لایا اور قاصد افسردہ دل واپس آیا۔ سواروں نے روانگی کے لئے کہا۔ لیکن باب نے چلنے سے انکار کردیا۔ یہ دیکھ کر ایک سوار اس غرض سے آگے بڑھا کہ باب کو پکڑ کر اٹھائے اور گھوڑے پر لادے۔ یہ رنگ دیکھ کر باب چلنے پر آمادہ ہوگیا۔ آخر ماہکو پہنچے اور
اسے پہاڑ کے اوپر ایک قلعہ میں رکھاگیا۔
(نقطۃ الکاف ص۱۲۲،۱۳۰)
مہدی موعود کے اخلاق عالیہ کا نمونہ
بعض احباب مرزاغلام احمد قادیانی کے مغلظات پڑھ کر یہ رائے قائم کیا کرتے ہیں کہ قادیان کے مسیح موعود صاحب فن دشنام گوئی میں لکھنؤ کی بھٹیارنوں سے بھی گوئے سبقت لے گئے تھے۔ لیکن میں ان حضرات کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی دشنام دہی کچھ قادیانی مسیح موعود پر موقوف نہیں تھی۔ بلکہ قریب قریب سارے جھوٹے مدعی گالیوں کے ناقابل مدافعت اسلحہ سے مسلح رہے ہیں۔ حاجی مرزاجانی کاشانی نے جو باب کے ممتاز ترین مریدوں میں تھا۔ کتاب نقطۃ الکاف میں اپنے مہدی موعود کے اخلاق عالیہ کے چند نمونے درج کئے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دن ماہکو کا ایک بہت بڑا عالم باب کے پاس آیا اور اس سے چند باتیں دریافت کیں۔ سوالات کے سلسلہ میں اس کے منہ سے کوئی ایسا لفظ نکل گیا جسے باب نے سؤ ادب محمول کیا۔ باب نے آپے سے باہر ہوکر عصا اٹھایا اور اس کو بے تحاشا پیٹنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ عصاء اس کے جسم پر ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد آقا سید حسین عزیز کو جو ہر وقت حضور میں حاضر رہتا تھا۔ فرمایا کہ اس کتے کو مجلس سے نکال دو۔ وہ عالم مجلس سے نکال دیاگیا۔ حالانکہ وہ بہت بڑا بارسوخ مجتہد تھا اور شہر ماہکو میں جو قریباً تین ہزار خوانین تھے وہ سب اس کا احترام کرتے تھے۔
(نقطۃ الکاف ص۱۳۱،۱۳۲)
حاجی مرزاجانی کاشانی نے ایک اور واقعہ لکھ کر بھی اپنے مہدی موعود کے اخلاق پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ علی خاں حاکم ماہکو نے باب کو لوگوں سے ملنے اور خط وکتابت کرنے کی ممانعت کر دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود باب کے پاس عقیدت شعاروں کی آمدورفت شروع ہوگئی اور باب اپنے مذہب کی دعوت وتبلیغ میں مصروف رہا۔ یہ دیکھ کر حاکم نے حکام بالاکو لکھ بھیجا کہ یہاں باب لوگوں سے کھلم کھلا ملتا ہے اور اس جگہ اس کی حفاظت کے سامان بھی ناکافی ہیں۔ اس لئے اسے کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے۔ چنانچہ باب کو سہ سالہ قیام کے بعد قلعۂ چہریق کو بھیج دیاگیا۔ جب باب ماہکو سے روانہ ہوتے وقت سوار ہوا تو علی خاں حاکم ماہکو معذرت کرنے لگا کہ میری حقیقی خوشی اس میں تھی کہ آپ یہیں رہتے۔ لیکن بعض مجبوریوں کی وجہ سے آپ کو یہاں سے منتقل ہونا پڑا۔ باب نے جواب دیا۔ اے ملعون! کیوں جھوٹ بکتا ہے؟ خود ہی لکھ بھیجتا ہے اور خود ہی عذر کرتا ہے۔ غرض چہریق کا راستہ لیا۔
(نقطۃ الکاف ص۱۳۳)
قلعۂ چہریق شہر ارومیہ کے پاس ہے۔ ارومیہ کے حاکم کا نام یحییٰ خان تھا۔ باب چہریق
لاکر یحییٰ خان کے سپرد کیاگیا۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ مجتہدین کے فتوؤں اور انواع واقسام کی ضرب اور نفی وحبس کے باوجود بابی فرقہ روز بروز ترقی کر رہا تھا۔ کیونکہ حق کی طرح شجرۂ باطل بھی برابر نشوونما پاتا اور برگ وبار لاتا ہے۔ اس وقت ایران میں ہر طرف بحث وجدال کا بازار گرم تھا اور ملک کے طول وعرض میں کوئی مجلس ایسی نہ ہوگی جس میں بابی تحریک کے سوا کوئی اور گفتگو ہوتی ہو۔ اس اثناء میں باب کے پیرووں نے ملک کے مختلف حصوں میں فساد برپا کر کے بعض مقامات پر مسلسل کامیابیاں حاصل کر لی تھیں۔ قلعۂ چہریق کی سہ ماہہ اقامت کے بعد تبریز کے اجلۂ علماء اور فضلائے آزربائیجان نے شاہ اور دوسرے حکام طہران کو باب اور بابیوں پر غیر معمولی تشددکرنے کے لئے لکھا۔ لیکن انہوں نے مناسب خیال کیا کہ باب کو علماء کے مقابلہ میں لاجواب کیا جائے۔ چنانچہ ۱۲۶۳ھ میں یعنی باب کے ادعائے مہدویت کے تین سال بعد محمد شاہ والی ایران نے اپنے ولی عہد ناصر الدین شاہ کو جو اس وقت آزر بائیجان کا گورنر تھا۔ لکھ بھیجا کہ باب کو قلعۂ چہریق سے بلوا کر علماء سے اس کا مناظرہ کراؤ۔ اسی مضمون کا ایک خط حاجی مرزاآقاسی وزیراعظم نے بھی ولی عہد کو لکھا۔ جس میں شاہ کے حکم کی تعمیل پر بڑا زور دیاتھا۔ ولی عہد نے حکم دیا کہ باب کو تبریز میں حاضر کریں۔ جب باب تبریز آیا تو اس سے اتنی رعایت کی گئی کہ قید خانہ میں رکھنے کے بجائے کاظم خان داروغۂ فرش کے مکان میں اتارا گیا۔
مناظرۂ تبریز
دوسرے دن تبریز کا مجتہد اعظم ملا محمود جس کا خطاب نظام العلماء تھا۔ ملا محمد ماما قانی، مرزا احمد امام جمعۂ مرزا علی اصغر شیخ الاسلام اور دوسرے شیعی مجتہدین بھی جمع ہوئے۔ باب بھی بلایا گیا اور مباحثہ شروع ہوا۔ نظام العلماء آپ کس منصب کے مدعی ہیں؟ باب میں وہی ہوں جس کا ہزارسال سے انتظار کیاجارہا تھا۔ نظام العلماء آہا! آپ صاحب الامر (مہدی علیہ السلام) ہیں؟ باب بیشک، نظام العلماء آپ کے مہدی موعود ہونے کی کیا دلیل ہے؟ باب نے اپنی مہدویت کے ثبوت میں قرآن کی بہت سی آیتیں اور بعض دوسری عبارتیں پڑھ دیں اور کہنے لگا کہ صرف یہی نہیں بلکہ قرآن کی ہر آیۃ میرے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہے۔ نظام العلماء آپ کا کیا نام ہے۔ باپ کا کیا نام تھا؟ ولادت کہاں ہوئی؟ عمر کتنی ہے؟ باب میرا نام علی محمد ہے۔ والد کا نام مرزا رضا ہے۔ ولادت شیراز میں ہوئی اور عمر ۳۵سال کی ہے۔ نظام العلماء صاحب الامر کا نام محمد ان کے والد کا نام حسن۔ ان کی جائے ظہور سرمن رائے اور ان کی عمر ہزار سال ہے۔ اس لئے آپ کسی
طرح صاحب الامر نہیں ہوسکتے۔ معلوم ہو کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ شیعوں کا ہے۔ اہل سنت وجماعت کے نزدیک حضرت مہدی علیہ السلام کا نام نامی محمد والد کا نام عبداﷲ ہوگا اور مکہ معظمہ میں ظاہر ہوںگے۔ شیعہ کہتے ہیںکہ مہدی موعود حضرت حسن عسکری کے فرزند محمد ہیں۔ جو بچپن میں لوگوں کی نظروں سے مخفی ہوگئے تھے۔ وہی وقت معہود پر ظاہر ہوںگے۔ لیکن اہل سنت وجماعت کے نزدیک مہدی علیہ السلام ہنوز پیدا نہیں ہوئے بلکہ اپنے وقت پر پیدا ہوںگے۔ لیکن یاد رہے کہ شیعوں نے جو محمد بن حسن عسکری کو مہدی موعود سمجھ لیا تو یہ ان کی من گھڑت تجویز ہے۔ یہ لوگ کسی صحیح روایت سے اس دعویٰ کو ثابت نہیں کرسکتے۔ باب اپنی ذات میں حضرت مہدی علیہ السلام کی کوئی علامت اور خصوصیت ثابت نہ کر سکا۔ ناچار کرامت کی ڈینگیں مارنے لگا اور کہا میں اپنی ایک کرامت تم سے بیان کرتا ہوں۔ کیا تم میری بات کا یقین کروگے؟ حاضرین ہاں، کہئے۔ باب میری کرامت یہ ہے کہ میں ایک ہی دن میں ایک ہزار بیت لکھتا ہوں۔ حاضرین! اگر یہ بات صحیح بھی ہو تو اس سے صرف اتنا ثابت ہوگا کہ تم ایک زودنویس کاتب ہو۔ ناصرالدین شاہ! اگر تم کرامت دکھا سکتے ہو تو نظام العلماء کا بڑھاپا زائل کر کے ان کو جوان کر دو۔ باب سے اس کا بھی کچھ جواب نہ بن پڑا۔ نظام العلماء! صحیفہ سجادیہ کے نام سے جو کتابیں لکھی ہیں کیا وہ فی الواقع تمہاری تصنیف ہیں؟ باب! یہ سب خدا کی پاک وحی ہے جو مجھ پر نازل ہوئی۔ نظام العلماء! جب تم صاحب وحی ہو تو اس آیۃ کی تفسیر کر دو۔ ’’ھو الذی یریکم البرق خوفاً وطمعاً وینشی السحاب الثقال‘‘ (وہی خدائے برتر (بارش کے وقت) تم کو بجلی دکھاتا ہے جس (کے گرنے) کا ڈر بھی ہوتا ہے اور (بارش کی) امید بھی ہوتی ہے اور گراں بار بادلوں کو بلند کرتا ہے اور رعد (کامؤکل فرشتہ) اس کو حمد وستائش کے ساتھ یاد کرتا ہے اور دوسرے ملائکہ بھی رب جلیل کے خوف سے حمد وثناء میں مستغرق ہیں اور وہ (بادل سے نکلنے والی ناری) بجلیاں بھی مسلط کرتا ہے۔ پھر جس کسی پر چاہتا ہے گرادیتا ہے۔ لیکن (باایں ہمہ قدرت) منکر لوگ (پیغمبر خداﷺ سے) خدائے واحد کے متعلق مخاصمت کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ نہایت قوی اور شدید البطش ہے۔)
اور ساتھ ہی اس کی نحوی ترکیب بھی بتاؤ۔ باب سوچنے لگا اور کچھ جواب نہ دیا۔ نظام العلماء! اچھا سورہ ٔ کوثر کی شان نزول بیان کرو اور بتاؤ کہ اس سورۂ سے پیغمبر علیہ السلام کی کیا تسلی ہوئی جس کا سورہ میں ذکر ہے؟ باب سے اس کا بھی کچھ جواب نہ بن پڑا۔ نظام العلماء! علامہ حلی
کے اس قول کا کیا مطلب ہے۔ ’’اذا دخل الرجل علی الخنثیٰ والخنثیٰ علے الانثیٰ وجب الغسل علے الخنثیٰ دون الذکر والانثیٰ‘‘ باب نے اس کا بھی کچھ جواب نہ دیا۔ نظام العلماء! اچھا بتاؤ کہ فصاحت وبلاغت کی کیا کیا تعریف ہے؟ اور ان میں نسب اربعہ میں سے باہم کیا نسبت ہے؟ باب نے کچھ جواب نہ دیا۔ نظام العلماء! اچھا بتاؤ منطق کی شکل اوّل کیوں بدیہی الانتاج ہے۔ باب اس کا بھی جواب نہ دے سکا۔ نظام العلماء! ناصر الدین شاہ سے خطاب کر کے۔ جناب یہ شخص جملہ عادل سے عاری ہے۔ کسی علم سے اس کو مس نہیں۔ ایک مجتہد، باب کو خطاب کر کے کیوں صاحب! خدا نے تو کلام الٰہی میں ’’فان ﷲ خمسہ‘‘ (اللہ کے لئے خمس ہے) فرمایا ہے اور تم نے اپنے کلام وحی میں خمس (پانچواں حصہ) کی جگہ ثلث (تیسرا حصہ) لکھا ہے۔ کیا قرآن کی آیت منسوخ ہوچکی ہے؟ باب ثلث اس وجہ سے کہ وہ خمس کا نصف ہے۔ یہ سن کر تمام حاضرین کھل کھلا کر ہنسے۔ ملا محمد ماما قانی۔ فرض کیا کہ ثلث خمس کا نصف ہے۔ لیکن اس سے سوال کا جواب نہیں نکلتا۔ آپ وجہ بتائیے کہ جب خدائے قدوس نے قرآن میں خمس فرمایا تو پھر ثلث کیوں دینا چاہئے؟ باب میری ایک کرامت یہ ہے کہ میں فی البدایہ خطبہ پڑھتا ہوں۔ یہ کہہ کر پڑھنے لگا۔ ’’الحمد ﷲ الذی رفع السمٰوٰت والارض‘‘ (باب نے ت کو مفتوح اور ض کو مجرور پڑھا۔ حالانکہ صحیح اس کے بالعکس ہے) یہ سن کر حاضرین ہنستے ہنستے لوٹ گئے۔
ناصرالدین شاہ نے کہا اس جہالت وکوری کے باوجود تم صاحب الامر بنے پھرتے ہو؟ تم ایک مخبوط الحواس آدمی معلوم ہوتے ہو۔ لہٰذا میں تمہارے قتل کا حکم نہیں دیتا۔ البتہ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ تم صاحب الامر ہونے کے دعویٰ میں جھوٹے ہو۔ تنبیہ وتادیب لابد ہے۔ یہ کہہ کر پیادوں کو اشارہ کیا۔ حکم کی دیر تھی کہ مارپڑنے لگی۔ باب جان بچانے کے لئے پکارنے لگا توبہ کردم۔ توبہ کردم۔ جب اچھی طرح پٹ چکا تو اس کو دوبارہ قلعہ چہریق میں بھیج دیاگیا۔
۲…بابیوں کی مسلح بغاوتیں اور حربی سرگرمیاں
ایک قلعہ کی تعمیر اور دیہات میں غارتگری
جس زمانہ میں علی محمد باب ماہکو اور چہریق میں نظر بند تھا۔ ان ایام میں اس کے پیروؤں نے خوب ہاتھ پاؤں نکالے اور جان بکف ہوکر مسلح بغاوتیں شروع کر دیں۔ باب نے ملا حسین بشرویہ کو ماہکو سے بغرض تبلیغ خراسان بھیجا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جبکہ محمد شاہ والی ایران ملک بقاء کو انتقال کرگیا تھا اور ناصر الدین شاہ نیا نیا اورنگ نشین سلطنت ہوا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ملا حسین
بشرویہ خراسان سے مازندران کی طرف روانہ ہوا۔ اس وقت دو سو تیس بابی اس کے ہمراہ رکاب تھے۔ راستہ میں فیروز کوہ کے مقام پر فریضۂ نماز ادا کر کے سبز پر چڑھا اور دنیائے دوں کی مذمت کر کے کہنے لگا۔ صاحبو! ہمارا واقعہ حضرت ابوعبداﷲ (امام حسینؓ) کے ماجریٰ سے مشابہت رکھتا ہے۔ شہادت فی سبیل اللہ کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہیں۔ جس کسی نے طمع دنیوی کے لئے ہماری رفاقت اختیار کی ہو وہ وطن مالوف کو لوٹ جائے۔ تمام لوگ یقین رکھیں کہ جونہی ہم مازندران پہنچیںگے۔ تیغ جفا کا لقمہ بن جائیںگے۔ جو شخص جانا چاہے وہ ابھی جاسکتا ہے۔ لیکن جو کوئی شہادت کا آب حیات پینا چاہے وہ ہمارا ساتھ دے۔
(مذاہب اسلام ص۴۴۷،۴۵۱)
یہ سن کر تیس آدمی تو ترک رفاقت کر کے چلے گئے۔ دوسرے لوگوں نے ملا حسین کو یقین دلایا کہ شہادت اور جان نثاری کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہیں۔ ملا حسین اس جمعیت کو ساتھ لے کر بارفروش پہنچا۔ سعید العلماء نے جو حاکم شہر تھا اتنے مسلح بابیوں کو شہر میں داخل ہونے کی ممانعت کردی۔ انہوں نے جبراً شہر میں داخل ہونا چاہا۔ اہل شہر مزاحم ہوئے۔ آخر جھگڑا شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے کشت وخون تک نوبت پہنچی۔ اس ہنگامہ میں تین بابی اور سات شہری کام آئے۔ اس کے بعد ایک اور جھڑپ ہوئی جس میں چند بابی مارے گئے۔ بابی یہاں سے چل کر قلعہ طبریہ کے مقام پر پہنچے۔ اس اثناء میں ملا محمد علی بار فروشی بھی جو بابیوں میں ایک ممتاز شخصیت رکھتا تھا آکر ان سے ملحق ہوگیا۔ محمد علی نے ملا حسین کو مشورہ دیا کہ اپنے ارد گرد ایک قلعہ بنالو۔ چنانچہ اس کے حدود بھی متعین کر دئیے۔ بابیوں نے قلعہ طبریہ کے قریب رات دن کی محنت ومشقت برداشت کر کے چند ہی روز میں ایک مختصر سا قلعہ تعمیر کر لیا۔ اس کے بعد بابیوں نے اردگرد کے دیہات کی بے گناہ رعایا کو لوٹ لوٹ کر دو سال کا آذوقہ قلعہ میں جمع کرلیا۔ ایک قلعہ ہاتھ میں آجانے کے بعد ان کی جرأت یہاں تک بڑھی کہ ایک رات ایک گاؤن پر اچانک یورش کر کے وہاں کے ایک سوتیس جرم ناآشنا باشندوں کو تیغ جفا کی نذر کردیا۔ اس گاؤں کے باشندوں میں سے صرف وہ لوگ بچ سکے جو قتل عام کے وقت گاؤں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ بابیوں کو اناج اور مال واسباب جو کچھ مل سکا اسے قلعہ میں لے آئے۔ اب قلعہ گیر بابیوں کی جمعیت بڑھنے لگی اور سیکڑوں سے ترقی کرکے ہزاروں تک پہنچ گئے۔ جب ان حالات کی اطلاع طہران پہنچی تو شہزادہ مہدی قلی خاں حام مازندران کے نام حکم پہنچا کہ وہ بابیوں پر دھاوا کرے۔ شاہ نے عباس قلی خاں لارجانی کو بھی شہزادہ کی عون ونصرت پر مامور
کیا۔ شہزادہ نے مازندران سے کوچ کیا اور بابی قلعہ سے قریباً دوفرسنگ کے فاصلہ پر موضع وازگرد میں قیام کیا۔ اس کے ساتھ دوہزار سے زیادہ کی جمعیت نہ تھی۔ اس لئے گاؤں کے پاس ٹھہر کر عباس قلی خاں کی کمک کا انتظار کرنے لگا۔ اس اثناء میں شہزادہ نے بابیوں کے نام ایک چٹھی لکھی جس میں نصیحت کی تھی کہ شوریدہ سری سے باز آؤ۔ اس کے جواب میں ملا حسین اور حاجی محمد علی بارفروشی نے لکھا کہ ہمیں دنیا اور اس کے خطوط فانیہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہمارا مقصد محض دینی ہے۔ ہماری جماعت بڑے بڑے علماء، مساوات، حجاج، متقین، نیک کردار اور دوسرے منتخب روزگار حضرات پر مشتمل ہے۔ یہ عاشقان حق راہ محبوب میں دنیا کے تمام مالوفات سے دست بردار ہوگئے ہیں۔ اگر یہ نفوس قدسیہ بھی برسر حق نہیں ہیں تو پھر کون لوگ ایسے ہوسکتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ راہ ہدایت دکھائے گا؟ بہتر ہے کہ ہماری تعذیب وتدمیر سے باز آؤ۔ ورنہ جب تک جسم میں آخری قطرۂ خون موجزن ہے ہم برابر مقابلہ کرتے رہیںگے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم مارے گئے تو شہادت کی موت مریںگے اور ہمارے دشمن سیدھے جہنم میں جائیںگے۔ ناصرالدین شاہ کی بادشاہت باطل ہے۔ اس کے اعوان وانصار جہنم کا ایندھن ہیں۔ یہ سب ابدالآباد آتش الٰہی میں معذب رہیںگے۔ بہتر ہے کہ دنیائے دنی کی طرف سے آنکھیں بند کر کے ہمارے پاس چلے آؤ اور حضرت قائم علیہ السلام (باب) پر ایمان لے آؤ۔ ظالم سے مظلوم بننا بہت اچھا ہے۔
مہدی قلی خاں کے لشکر پر بابیوں کا شب خون
دوسرے دن بابی لوگ تین ہزار کی جمعیت سے مہدی قلی خاں کے لشکر گاہ پر شب خون مارنے کے قصد سے روانہ ہوئے۔ شاہی فوج نے ان کو آتے دیکھ کر گمان کیا کہ عباس قلی خان کمک لے کر آیا ہے۔ بابیوں نے سب سے پہلے اسلحہ خانہ کا رخ کیا اور اس پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد نہایت چابک دستی کے ساتھ سرکاری بارود خانہ کو نذر آتش کردیا۔ یہ دیکھ کر شاہی فوج بدحواس ہوگئی۔ بابی باز کی طرح ان پر چھپٹے اور قتل عام شروع کر دیا۔ اس واقعہ کو مؤلف نقطۃ الکاف ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ ’’صدائے ہائے وہوئے وفریاد الحذر الحذر۔ کفار بگوش افلاک رسید۔ اہل حق شمشیرآن قوم ضلالت گزاردہ تارد پدوجودنا مسعود ایشاں را ازہم دریدند ولشکریان روئے بہزیمیت گذاردہ پس اصحاب محبوسہاے خودرا از قید کفار خلاص نمودہ۔‘‘ اس کے بعد بابیوں نے اس مکان کا محاصرہ کر لیا۔ جس مین ذہادہ مہدی قلی خاں قیام پذیر تھا اور اس پر تیر اندازی شروع کر
دی۔ سؤ اتفاق سے اس مکان میں دو اور شہزادے سلطان حسین مرزا ولد فتح علی شاہ اور داؤد مرزا بن ظل السلطان بھی موجود تھے۔ شہزادہ مہدی قلی تو مکان پر سے کود کر جنگل کی طرف بھاگ گیا اور دوسرے دنوں شہزادے عالم سراسمیگی میں بالاخانہ میں جاچھپے۔ بابیوں کی شقاوت قلبی دیکھو کہ انہوں نے مکان کو آگ لگا کر نہایت بے رحمی سے ان دونوں کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ اب بابیوں نے لوٹ مار شروع کر دی۔ اس اثناء میں ہزیمت خوردہ شاہی فوج پلٹ پڑی۔ مگر صفیں مرتب کرنے کا موقع نہ ملا اور بابیوں نے پھر مار مار کر ان کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ لیکن اس چھڑپ میں ایک تیر بابیوں کے سردار ملا محمد علی بار فروشی کے منہ پر آلگا۔ منہ کے دانت دانہ ہائے انار کی طرح الگ الگ ہوکر گر پڑے اور بار فروشی کا نصف چہرہ مجروح ہوگیا۔ مؤلف نقطۃ الکاف نے شاہی فوج کے نقصانات تین ہزار بتائے ہیں۔ چنانچہ لکھتا ہے۔ ’’داراں کارزار قریب بسے الف نفراز ملاعین رابجہنم فرستادہ بودند۔‘‘
(نقطۃ الکاف ص۱۶۷،۱۶۸)
مگر یہ بیان سخت مبالغہ آمیز ہے۔ کیونکہ اس وقت شاہی فوج کی کل تعداد ہی دوہزار سے کسی طرح متجاوز نہ تھی۔
قشون دولت کا اجتماع اور بابی قلعہ کا محاصرہ
بابی غنیمت سے مالا مال ہوکر فتح وفیروز مندی کے نقارے بجاتے ہوئے اپنے قلعہ میں واپس آئے۔ چند روز میں شہزادہ عباس قلی خاں سات ہزار فوج لے کر آپہنچا اور بابی قلعہ کے سامنے مورچے اور خندقیں بنانے میں مصروف ہوا۔ اس اثناء میں بابیوں سے سرکاری فوج کی متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ ایک رات ملا حسین بشرویہ ملا محمد علی بارفروشی سے کہنے لگا کہ جب آپ کے مجروح چہرے پر نظر پڑتی ہے تو دل دونیم ہو جاتا ہے۔ اس لئے میری خواہش ہے کہ جاکر اس کا انتقام لوں۔ ملا محمد علی ملقب بہ قدوس نے اس کو رزم خورہ ہونے کی اجازت دی۔ ملا حسین اپنی ساری جمعیت لے کر قلعہ سے برآمد ہوا اور آتش حرب شعلہ زن ہوئی۔ بابیوں کی عادت تھی کہ لڑائی کے وقت خدائے کردگار عزاسمہ کی جگہ یا صاحب الزمان اور یاقدوس کہہ کر علی محمد باب اور ملا محمد علی بار فروشی سے مخفی استعانت کیا کرتے تھے۔ ملا حسین بشرویہ آغاز معرکہ ہی میں سینے میں ایک جان ستان تیر کھا کر بری طرح مجروح ہوگیا۔ ملا حسین گھوڑے سے گرا ہی چاہتا تھا کہ جھٹ ایک بابی عقب میں سوار ہوکر اسے میدان جنگ سے نکال لے گیا۔ لیکن جونہی صحن قلعہ میں پہنچا۔ ملا حسین موت کا شکار ہوگیا۔ بابی بھی مرزائیوں کی طرح مبالغہ اور غلط بیانی کے بڑے بہادر ہیں۔
مؤلف نقطۃ الکاف کا بیان ہے کہ پندرہ بابی سواروں نے دشمن کی سات ہزار فوج کو بھگا دیا۔ چنانچہ لکھتا ہے۔ ’’دریں ہنگام پانزدہ سوار از قلعہ برآمدہ وہمچوں اژدھا دہن کشودہ خورا بقلب آں سپاہ دل سیاہ زدہ سی صدتن از ایشاں رابجہنم فرستادہ وتتمۂ ہمچوں روباء فرار برقرار اختیار نمودہ۔‘‘ مؤلف نفطۃ الکاف لکھتا ہے کہ اس کے بعد بڑھی۔ روز مرہ دشمن کے لشکر میں آکر برج کے لئے چہار چوبہ تیار کرتے اور رات کے وقت قلعہ کے پاس لاکر اس کو نصب کرتے تھے۔ اس اثناء میں شاہی فوج کے پاس طہران سے توپ خانہ بھی آگیا۔ چنانچہ توپیں بھی قلعہ کے اردگرد نصب کی جانے لگیں۔ لیکن کسی بابی کو قلعہ میں سے نکلنے کی جرأت نہیں تھی۔ جب تیاریاں مکمل ہوچکیں تو شاہی لشکر نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ اس وقت قلعہ میں بابیوں کے پاس دوسو سے زیادہ گھوڑے، چالیس پچاس گائیں اور تین چار سو بھیڑیں تھیں۔ کچھ مدت کے بعد بابیوں کی رسد ختم ہوگئی اور باہر نکل کر سامان خوراک مہیا کرنے کی بھی کوئی صورت نہ رہی۔ جب گائیں اور بھیڑیں کھا چکے تو مجبوراً گھوڑوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہوگئے۔ آخر چار پاؤں کی طرح گھاس کھانی شروع کر دی۔ مرزا محمد حسین قمی اور بعض دوسرے بابیوں نے عالم اضطراب میں ملا محمد علی بارفروشی سے کہا کہ ہمارے آقا ومولیٰ دعاء فرمائیے کہ رب شدید العقاب کفار بدنہاد (شاہی لشکر) پر عذاب نازل کرے اور ان بلا کشوں کو ان مصائب سے نجات بخشے۔ بارفروشی نے کہا کہ جب حضرت محبوب چاہتا ہے اپنے محبوبوں کے ساتھ شوخی کرتا ہے۔ اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ اس کی مشیت پر راضی رہیں۔ مرزا محمد حسین قمی جسے شروع میں یہ امیدیں دلائی گئی تھیں کہ بابی ظاہری سلطنت پر فائز ہوںگے۔ اس جواب پر مطمئن نہ ہوا اور جب بارفروشی نے کہا کہ سلطنت سے باطنی سلطنت مراد تھی تو محمد حسین پر بابیت کی قلعی کھل گئی اور بارفروشی سے کہنے لگا کہ اگر اجازت ہو تو میں یہاں سے چلا جاؤں۔ یہ کہہ کر محمد حسین چند آدمیوں کو ساتھ لے کر قلعہ سے برآمد ہوا اور لشکر شاہی کے قریب پہنچ کر کہنے لگا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں۔ مجھے شہزادہ کے پاس لے چلو۔ چونکہ یہ شخص صاحب علم وفضل، عالی خاندان اور حاجی سید اسماعیل قمی کا داماد تھا۔ شہزادہ نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی۔ جب اس سے بابیوں کے حالات دریافت کئے گئے تو کہنے لگا کہ بابی لوگ دعویٰ تو بڑے بڑے کرتے ہیں۔ لیکن عمل کسی پر نہیں۔ ان کے عقائد بھی تاویل وباطن کے عقائد ہیں۔ چونکہ مجھے ان کی سچائی اور حقیقت کی طرف سے اطمینان نہ ہوا۔ میں نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی۔
محصورین کی بدحالی قلعہ پر شاہی فوج کا قبضہ
اب بابیوں کے قویٰ سخت مضمحل ہونے لگے اور طاقت جسمانی دمبدم جواب دینے لگی۔ شہزادہ نے قلعہ کی چاروں طرف چار برج تیار کراکر ان پر توپیں چڑھالی تھیں۔ یہ برج اتنے بلند تھے کہ توپ کا گولہ آسانی سے قلعہ میں گر کر پھٹتا اور سخت نقصان پہنچاتا تھا۔ شہزادہ نے قلعہ پر گولہ باری شروع کی تو بابیوں نے زمین کھودنی شروع کر دی اور زیرزمین خندقوں میں چھپنے لگے۔ بدقسمتی سے مازندران کی سرزمین ایسی مرطوب ہے کہ تھوڑی سی زمین کھودنے سے پانی نکل آتا ہے۔ اس لئے بلاکش محصورین کو پانی اور کیچڑ میں بسیرا لینا پڑا۔ گھوڑے اور ان کی گھاس چٹ کرنے کے بعد بابیوں نے درختوں کے پتے کھانے شروع کر دئیے۔ جب وہ بھی ختم ہولئے تو گھوڑوں کی چرمیں زمینیں چبانی شروع کیں۔ جب یہ بھی نہ رہیں تو گرسنگی سے بیتاب ہوکر قلعہ سے باہر نکلنا چاہتے۔ لیکن جب توپوں کی آتش باری اور تیروں کی بارش ان کے استقبال کے لئے آموجود ہوتی تو مجبوراً قلعہ میں لوٹ جاتے۔ انجام کار محصورین نے انیس دن اس مصیبت سے کاٹے کہ آٹھ پہر میں ہربابی کو چائے کی جگہ گرم پانی کا ایک ایک پیالہ ملتا تھا۔ انجام کار ان کے شکم پیٹھ سے جاملے۔ ہر وقت پانی اورکیچڑ میں رہنے کی وجہ سے ان کے کپڑے بھی گل گئے تھے۔ اس لئے سترپوشی بھی مشکل ہوگئی۔ اب شاہی فوج نے یہ کام کیا کہ سرنگ لگا کر برج قلعہ کے نیچے کی زمین کھود ڈالی اور اس میں بارود بھر کر آگ دکھادی۔ برج قلعہ ریزہ ریزہ ہوکر اڑ گیا۔ اسی طرح دیوار قلعہ کے نیچے بھی سرنگ لگا کر اور بارود بھر کر اس کو بھی اڑادیا اور دیوار منہدم ہوگئی۔ ایک بابی آقا رسول بہمیزی شدت گرسنگی کی تاب نہ لاکر اپنے تیس ساتھیوں کے ساتھ قلعہ سے چلا گیا۔ شہزادہ نے سب کو قید کر لیا۔ اب بابیوں کے سردار ملا محمد علی بارفروشی نے شہزادہ کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر ہمیں نکلنے کا راستہ دو تو ہم قلعہ خالی کر کے چلے جائیں۔ شہزادہ نے اجازت دی۔ ملا محمد علی دو سو تیس بابیوں کے ساتھ جو ہنوز زندہ تھے قلعہ سے برآمد ہوا۔ شاہی فوج نے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ شہزادہ تمام بابیوں کو طوق وسلاسل میں جکڑ کر بارفروش لے گیا۔ وہاں منادی کی گئی کہ ملا محمد علی بارفروشی باہر میدان میں ہلاک کیاجائے گا۔ تماشائی ہر طرف سے آمڈ آئے۔ غضب ناک شہریوں میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا اس نے محمد علی کو دو ایک طمانچے یا گھونسے رسید نہ کئے ہوں۔ لوگوں نے اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ مدرسوں کے طلباء آ آ کر اس کے منہ پر تھوکتے اور گالیاں دیتے تھے۔ آخر ہزار ذلت ورسوائی کے بعد اس کا سرتن سے جدا کیاگیا۔ اس کے بعد دوسرے بابی بھی
عنقریب اجل کے حوالے کر دئیے گئے۔ جب باب کو محمد علی بارفروشی کے مارے جانے کی خبر ملی تو انیس شبانہ روز روتا رہا۔ اس مدت میں اس نے غذا بہت ہی کم کھائی۔
(نقطۃ الکاف ص۱۸۶،۲۰۸)
ہنگامہ تبریز
علی محمد با ب نے سید یحییٰ کو بابیت کی تبلیغ کے لئے یزد بھیجا تھا۔ یہ شخص وہاں پہنچ کر بہت دن تک بابیت کی صداقت اور دوسرے ادیان وملل کی بطالت پر تقریریں کرتا رہا۔ جب لوگ شیعہ مذہب چھوڑ چھوڑ کر باب کے حلقۂ مذہب میں داخل ہونے لگے اور فتنۂ عظیم برپا ہوتا نظر آیا تو حاکم یزد نے یحییٰ کو بلا بھیجا۔ اس نے آنے سے انکار کیا۔ پولیس گرفتاری پر متعین ہوئی۔ اس نے جاکر اس کو زیرحراست کرنا چاہا۔ بابیوں نے پولیس پر حملہ کردیا۔ جانبین سے متعدد آدمی مقتول ومجروح ہوئے۔ آخر یحییٰ یزد سے شیراز بھاگ گیا اور وہاں پہنچ کر لوگوں کو اپنے مذہب کی دعوت دینے لگا۔ آخر حاکم شیراز نے گرفتاری کا حکم دیا۔ اس نے یہاں سے بھی راہ فرار اختیار کی۔ اب اس نے تبریز جاکر بابیت کی ڈفلی بجانی شروع کی۔ جب تبریز کی فضا مکدر نظر آئی تو حاکم نے یحییٰ کو حکم دیا کہ وہ تبریز سے چلا جائے۔ اس نے پہلے جانے سے انکار کیا۔ لیکن جب دیکھا کہ اپنی قلیل جمعیت سے حاکم کا مقابلہ نہ کرسکے گا تو مسجد میں چلاگیا اور منبر پر چڑھ کر ایک نہایت فصیح وبلیغ خطبہ دیا۔ جس میں کہا اے لوگو! میں رسول خدا (ﷺ) کا فرزند ہوں۔ آج تمہارے درمیان مظلوم اور ظالموں کے چنگل میں گرفتار ہوں۔ اس لئے تم سے عون ونصرت کا طالب ہوں۔ میرا اس کے سوا کوئی قصور نہیں کہ میں نے اپنی زندگی اعلاء کلمہ حق کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ میں لوگوں کو صحیح معنی میں اسلام وایمان کی طرف بلاتا ہوں۔ آج میری حالت وہی ہے جو جد بزرگوار کی شفاعت سے بہرہ مند ہوگا۔ یحییٰ نے ایسے رقت آمیز کلمات سے اپنا درد دل بیان کیا کہ حاضرین آبدیدہ ہوگئے۔ بعض نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے کہا۔ اے ابن رسول اللہ! ہمارے ماں باپ آپ کی جان اطہر کے قربان ہوں۔ ہم مال، عیال اور جان سے حاضر ہیں۔ اس نواح میں ایک مخروب قلعہ تھا۔ یحییٰ اپنے پیروؤں کو ساتھ لے کر اس قلعہ میں جا ٹھہرا۔ حاکم تبریز کو خبر لگی تو اس نے ایک چھوٹی سے جمعیت کو ان کی گرفتاری پر مامور کیا۔ یحییٰ نے اپنے پیروؤں کو حکم دیا کہ مدافعہ کرو۔ یہ سن کر ہر بابی اس بات کی آواز کرنے لگا کہ وہ راہ محبت کا سب سے پہلا شہید بنے۔ جانبین کے آدمی مقتول ومجروح ہوئے۔ آخر بابیوں نے اعداء کو بھگا کر فتح وفیروزی کے ساتھ قلعہ میں مراجعت کی جب یہ خبر شیراز پہنچی تو
شہزادہ فرہاد مرزا نے فوج لے کر قلعہ کا رخ کیا۔ لیکن تخت سے پہلے یحییٰ کو بلا بھیجا کہ بہتر ہے کہ تم رزم وپیکار سے دست بردار ہوکر قلعہ سے باہر چلے آؤ۔ یحییٰ اپنے پیروؤں کو ساتھ لے کر قلعہ سے برآمد ہوا اور شہزادہ سے آملا وہ دن توعافیت سے گذر گیا۔ لیکن دوسرے دن بابیوں کو خورشید فتنہ افق بلا سے طلوع ہوتا نظر آیا۔ تمام بابی گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتارے گئے اور ان کے سرعبرت روزگار بننے کے لئے شیراز بھیج دئیے گئے۔
(نقطۃ الکاف ص۲۲۳،۲۲۹)
باب کے مشہور عقیدت مند حاجی مرزاجانی کا شانی مؤلف نقطۃ الکاف کا بیان ہے کہ جب سید یحییٰ جسے علی محمد باب نے اپنے مذہب کا نشریہ کرنے کے لئے یزد اور تبریز بھی رکھا تھا۔ گرفتار ہوا تو حسن یزدی نام ایک اور بابی بھی سید یحییٰ کے ساتھ قید تھا۔ یہ دونوں تبریز کے قلعہ میں محبوس تھے۔ جب یحییٰ نے فرار کا ارادہ کیا تو حسن سے کہنے لگا کاش! کوئی ایسا شخص ملتا جو میر اگھوڑا قلعہ سے باہر پہنچا دیتا۔ حسن کہنے لگا جب حکم ہو میں اس خدمت کو انجام دوںگا۔ یحییٰ نے کہا مگر مشکل یہ ہے کہ اس جرم کی پاداش میں تمہاری گردن مار دی جائے گی۔ حسن کہنے لگا کہ میرے لئے حضرت باب اور آپ کی راہ میں جان دینا نہایت آسان ہے۔ بلکہ اس کے سوا تو میری زندگی کا مقصد ہی کچھ نہیں۔ جب حسن نے پہرہ داروں کو غافل پایا تو گھوڑا باہر لے گیا۔ لیکن معاً گرفتار کر لیا گیا۔ جب حاکم کے سامنے لے گئے تو اس نے حکم دیا کہ اس کو توپ سے اڑا دو۔ جب حسن کی پیٹھ توپ کے منہ سے باندھی گئی تو ہاتھ جوڑ کر عرض کرنے لگا کہ یہ میری زندگی کے آخری لمحے ہیں۔ خدا کے لئے میری ایک درخواست قبول کرو۔ انہوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ حسن بولا کہ پیٹھ کے بجائے میرا منہ توپ کی طرف رکھو۔ انہوں نے کہا اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ حسن کہنے لگا میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ توپ کس طرح چلتی اور راہ محبوب میں کس طرح لقمہ اجل بناتی ہے۔
(نقطۃ الکاف ص۱۲۴)
اس قسم کے واقعات سے معلوم ہوگا کہ سچوں کی طرح باطل کے پرستاروں میں بھی فدویت وجاں سپاری کا جوہر ودیعت کیا گیا ہے۔
فتنۂ زنجان
ملا محمد علی زنجانی باب کے ظہور سے پہلے نماز جمعہ ادا کیا کرتا تھا۔ لیکن جب باب نے کتاب فروع دین میں لکھا کہ اب میرے اور اس شخص کے سوا جس کو میں اذن دوں ہر شخص کے لئے (معاذ اللہ) نماز جمعہ حرام ہے۔ تو ملا محمد علی نے نماز جمعہ ترک کر دی۔ لیکن جب باب نے اس
کو اجازت دی تو نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد میں گیا۔ زنجان کے ایک ذی اثر آدمی نے اسے اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی۔ لیکن ملا محمد علی نے اس امتناع کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اس شخص نے جاکر حاکم سے شکایت کی اس نے محمد علی کو بلا بھیجا۔ جب یہ گیا تو حاکم نے اسے حراست میں لے لیا۔ جب بابیوں کو اس کا علم ہوا تو وہ حاکم پر نرغہ کر کے محمد علی زنجانی کو چھڑا لائے۔ جب یہ خبر طہران پہنچی تو وہاں سے چند آدمی اس کی گرفتاری کے لئے بھیجے گئے۔ اس اثناء میں ملا محمد علی نے ہزار آدمی کی جمعیت بہم پہنچا کر رسد اور اسلحۂ جنگ مہیا کر لئے اور زنجان کے قلعہ پر قابض ہوکر متحصن ہوگیا۔ بابیوں نے اس کے علاوہ انیس مورچے بھی بنائے اور نصف سے زیادہ شہر پر قبضہ کر کے ان مورچوں پر انیس انیس آدمی متعین کر دئیے۔ جب ان میں سے ایک ٹولی اللہ ابہیٰ کہتی تھی تو دوسری ٹولیاں بھی خوش الحانی کے ساتھ یہی آواز بلند کرتی تھیں۔ مؤلف نقطۃ الکاف لاف زنی کرتا ہے کہ یہ لوگ ایسے شیر مرد تھے کہ ان میں سے ہر ایک مرد چالیس چالیس آدمیوں کا مقابلہ کرتا تھا اور نہ صرف عورتیں بلکہ ان کے بچے بھی ہر طرح کا محاربین کا ہاتھ بٹارہے تھے۔ عورتیں اور بچے فلاخن اور دوسرے ذرائع سے سنگ اندازی کرتے تھے۔ جب حکام کو ان حالات کا علم ہوا تو بابیوں کی گوشمالی کے لئے فوج بھیجی گئی۔ شاہی لشکر نے آتے ہی بابیوں کو محاصرے میں لے لیا۔ ملا محمد علی نے شاہی فوج کے افسر اعلیٰ کو لکھا کہ نہ تو ہمیں سلطنت کی خواہش ہے اور نہ آپ پر غلبہ پانا مقصود ہے۔ اس لئے سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قدر سپاہ گراں ہمارے سرپر کیوں مسلط کی گئی ہے۔ اس کے بعد لکھا کہ اگر آپ محاصرہ اٹھا کر ہمیں جانے کی اجازت دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ مملکت ایران کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کو چلے جائیںگے۔ قائد فوج نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میرے لئے تمہاری ہلاکت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ محمد علی زنجانی حکام کی طرف سے مایوس ہوا تو اس نے دول خارجہ کے سفراء سے خط وکتابت شروع کی اور ان سے درخواست کی کہ ہمیں اس ورطہ سے نجات دلائیے۔ سفیروں نے فوجی افسروں سے سفارش کی۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ جب بابیوں کا واویلا حد سے بڑھ گیا تو ترکی اور روسی سفیر بابیوں کو دیکھنے آئے۔ ملا محمد علی نے ان سے بیان کیا کہ ہمارے درمیان ملکی منازعت کچھ نہیں۔ بلکہ ہم اہل اسلام ہیں۔ مسلمانوں کا ہزار سال سے یہ عقیدہ چلا آتا تھا کہ ان کا امام مہدی جو غائب ہوگیا تھا۔ ایک دن ظاہر ہوگا۔ کافۂ مسلمین اس کے لئے ہمیشہ چشم براہ تھے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ وہ امام منتظر ظاہر ہوگیا ہے اور وہ مرزاعلی محمد باب ہے۔ لیکن یہ لوگ ہماری تکذیب کرتے ہیں۔ ہم جواب دیتے ہیں کہ جس دلیل
سے تم نے مذہب اسلام قبول کیا ہے۔ اسی دلیل سے تم مرزاعلی محمد باب کا مذہب قبول کرو۔ لیکن کچھ توجہ نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ احادیث ائمہ ہی کو جوباب علیہ السلام کے متعلق وارد ہوئی ہیں۔ محک حق وباطل بنالو۔ مگر کچھ اعتنا نہیں کرتے۔ پھر ہم ان سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اچھا ان حضرات کے علم وعمل، تقویٰ طہارت تدین، توجہ الیٰ اﷲ، زہد وایثار تبتل وانقطاع ہی کو شیعی علماء کے علم وعمل سے مقابلہ کرلو۔ وہ ہمارے اس مطالبہ کا بھی کچھ جواب نہیں دیتے۔ خلاصہ یہ کہ ہم جو بھی تجویز پیش کرتے ہیں وہ اس کی طرف سے کان بہرے کر لیتے ہیں۔ سفراء یہ بیان سن کر چلے گئے۔ اس کے بعد ایک دن ملا محمد علی زنجانی اپنے ایک مورچہ کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس اثناء میں اس کے ایک تیرجان ستان لگا۔ ساتھی اسے قیام گاہ پر اٹھالے گئے۔ آخر تیسرے دن بستر ہلاک پردراز ہوگیا۔ اس کے مرنے کے بعد بابیوں نے اپنے تئیں شاہی فوج کے سپرد کر دیا۔ تمام بابی پابزبخیر طہران بھیج دئیے گئے۔
باب کا اقدام خود کشی
اس وقت بابیوں نے ایران میں ہر جگہ ہل چل ڈال رکھی تھی۔ اس لئے اعیان سلطنت نے فیصلہ کیا کہ باب کو نذرانہ اجل کر دینا چاہئے۔ جب تک یہ زندہ ہے آئے دن فتنے اور فساد ہوتے رہیںگے۔ علماء نے بھی اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دے دیا۔ آخر باب کو چہریق سے تبریز لائے اور مجلس علماء میں دوبارہ حاضر کیا۔ سید محمد حسین عزیز اور آقا محمد علی تبریزی بھی ساتھ تھے۔ علماء نے بہتیرا سمجھایا کہ تم اپنے الحاد وزندقہ اور دعویٰ مہدویت سے توبہ کر کے سیدھا راستہ اختیار کرو۔ مگر اس نے ایک نہ سنی۔ حشمۃ الدولہ نے باب سے کہا کہ تمہیں حامل وحی ہونے کا دعویٰ ہے۔ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو دعاء کرو کہ کوئی آیت نازل ہو۔ باب نے فوراً سورۂ نور کی ایک آیت کا کچھ ٹکڑا سورۃ ملک کی ایک آیت کے ٹکڑے سے ملاکر پڑھ دیا۔ حشمۃ الدولہ نے وہ کلمات لکھوالئے۔ پھر باب سے پوچھا کہ کیا یہ وحی آسمانی ہے؟ بولا جی ہاں۔ حشمۃ الدولہ نے کہا کہ وحی مہبط وحی کے دل سے فراموش نہیں ہوتی۔ اگر فی الواقع یہ وحی ہے تو ذرا دوبارہ پڑھ دو۔ جب باب نے اسے دوبارہ پڑھا تو الفاظ میں ردوبدل ہوگیا۔ حشمۃ الدولہ نے کہا کہ یہ تمہارے جھوٹ اور جعل کی بین دلیل ہے۔
(مذاہب اسلام ص۴۵۱)
آخر اس کے قتل کا حکم صادر ہوا۔ اب یہ صلاح ٹھہری کہ اسے مجمع عام میں قتل کیا جائے۔ کیونکہ اگر اسے علیحدگی میں ہلاک کیا تو عوام دھوکے میں پڑیںگے اور سمجھیں گے کہ خدا نے
اسے آسمانوں پر اٹھالیا۔ ۲۸؍شعبان ۱۲۶۶ھ کا دن قتل کے لئے مقرر کیاگیا۔ باب کو چاہئے تھا کہ ارباب حکومت جس طرح بھی چاہتے اسے موت کے گھاٹ اتارتے۔ لیکن وہ ثابت قدم رہتا اور کسی ذلت وتصدیع کی پروانہ کرتا۔ جب مرنا ہی ہے تو پھر موت سے کیوں ڈرنا؟ مگر باب نے اپنے مریدوں کے ذریعہ سے خودکشی کا قصد کیا۔ مؤلف نقطۃ الکاف لکھتا ہے کہ جس دن باب قتل کیا جانے والا تھا اس سے پہلی رات کو اپنے مریدوں سے کہنے لگا کہ میں صبح بصد ذلت وخواری شہید کیا جاؤں گا۔ اس لئے میری خواہش ہے کہ تم میں سے کوئی شخص میری شہادت میں اقدام کرے۔ تاکہ میں اعداء کے ہاتھوں ذلت نہ سہوں۔ مجھے دوست کے ہاتھ سے مارا جانا اس سے کہیں زیادہ مرغوب ہے کہ دشمن کے ہاتھ سے جرعۂ مرگ نوش کروں۔ آقا محمد علی تبریزی تلوار اٹھا کر آمادۂ قتل ہوا۔ تاکہ الامرفوق الادب پر عمل ہو جائے۔ مگر دوسرے بابیوں نے مضطرب ہوکر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ آقا محمد علی نے کہا کہ میں تو آپ کا حکم ماننے کو تھا۔ چاہتا تھا کہ آپ کو شہید کر کے خود کشی کر لوں۔ لیکن انہوں نے روک دیا۔ باب نے مسکرا کر خوشنودی کا اظہار کیا۔ پھر باب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تقیہ کرو اور مجھ پر لعنت کر کے بچ جاؤ۔ مگر کسی نے منظور نہ کیا۔
(نقطۃ الکاف ص۲۴۶،۲۴۷)
واقعۂ قتل
۲۸؍شعبان کی صبح کو سب سے پہلے آقا محمد علی کو اس غرض سے باندھا گیا کہ اس کو گولیوں کا نشانہ بنایا جائے۔ وہ ایسی جگہ باندھا جارہا تھا۔ جہاں اس کی پیٹھ باب کی طرف ہوگئی تھی۔ اس لئے حکام سے التجا کرنے لگا کہ مجھے ایسی جگہ باندھو جہاں میرا منہ اپنے محبوب (باب) کی طرف رہے۔ اس کی یہ التماس پوری کی گئی۔ اسے ہزار سمجھایا گیا کہ اگر جان عزیز ہے تو توبہ کر کے رہا ہو جاؤ۔ لیکن اس نے توبہ نہ کی اور کہنے لگا عشق حق سے توبہ کرنا بڑا گناہ ہے۔ محمد علی کے اقرباء یہ کہہ کر حکام کی خوشامد کر رہے تھے کہ یہ دیوانہ ہوگیا ہے اور دیوانے کا قتل کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ لیکن وہ ہر مرتبہ اپنے اقارب کے بیان کی تردید کرتا تھا اور کہتا تھا۔ نہیں نہیں میں جوہر عقل سے آراستہ ہوں۔ میں حضرت حق کا دیوانہ ہوں۔مجھے قتل کرو۔ کیونکہ قتل ہی سے حیات ابدی کا مستحق ٹھہرتا ہوں۔ جب باڑھ مار کر ہلاک کیا جانے لگا تو باب نے اس سے خطاب کر کے کہا۔ ’’انت فی الجنۃ معی‘‘ (تو جنت میں میرے ساتھ رہے گا)
(نقطۃ الکاف ص۲۴۵،۲۵۰)
آقا محمد علی تبریزی اور باب دونوں بندھے ہوئے تھے۔ حمزہ مرزا گورنر آذربائیجان
نے ارمن سپاہیوں کو جو عیسوی المذہب تھے۔ حکم دیا کہ باڑھ ماریں۔ یہ لوگ بابیوں کے من گھڑت قصوں اور فسادات سے متأثر تھے۔ گولیاں ہوا میں چلادیں۔ اتفاق سے ایک گولی محمد علی کے جا لگی۔ اس نے مرتے وقت باب سے کہا کہ کیا اب آپ مجھ سے راضی ہوئے؟ اور جان دے دی۔ باب حاضرین کو خطاب کر کے کہنے لگا کہ تم میری کرامات دیکھتے ہو کہ گولیوں کی بوچھاڑ ہے۔ مگر میرے کوئی گولی نہیں لگی۔ ایک گولی باب کی رسی میں لگی تھی۔ اس سے وہ رسی کٹ گئی۔ جس سے باب بندھا تھا۔ باب کھل کر بھاگا اور ایک سپاہی کی کوٹھری میں جاچھپا اور کہنے لگا۔ لوگو! یہ میری کتنی بڑی کرامت ہے کہ ایک گولی بھی نہیں لگی۔ بلکہ میں الٹا رہا ہوگیا۔ اس وقت سیکڑوں عورتیں اور مرد اس میدان میں غل مچارہے تھے کہ باب پر گولیوں کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ یہ دیکھ کر سپاہیوں نے حاکم کے ایماء سے باب کو پکڑا اور چند گھونسے رسید کر کے گولی کا نشانہ بنادیا۔
(مذاہب اسلام ص۴۵۲)
شاہ ایران پر قاتلانہ حملہ
باب کے حادثہ قتل کے بعد بارہ بابیوں نے ناصرالدین شاہ والی ایران سے باب کے قتل کا انتقام لینے کی سازش کی۔ جن میں سے نواخیر وقت میں علیحدہ ہوگئے۔ باقی تین عازمین قتل یہ تھے۔ ملا فتح اللہ قمی، صادق زنجانی اور باقر نجف آبادی۔ بتاریخ ۳۰؍ذیقعدہ ۱۲۶۸ھ مطابق ۱۵؍ستمبر ۱۹۵۲ء، شاہ شکار کے لئے سوار ہوا تو یہ تینوں شاہ کی طرف بڑھے۔ شاہ سمجھا کہ شاید مظلوم وستم رسیدہ لوگ ہیں۔ جو اپنی کوئی درخواست لے کر آئے ہیں۔ اس لئے ان کو نزدیک آنے کی اجازت دی۔ جب قریب پہنچے تو صادق زنجانی نے جیب میں سے پستول نکال کر شاہ پر چلادیا۔ شاہ زخمی ہوا۔ لیکن بدستور گھوڑے پر سوار رہا۔ یہ دیکھ کر فتح اللہ قمی نے اس نیت سے جھپٹ کر شاہ کو گھوڑے سے کھینچا کہ زمین پر گرا کر گلا کاٹ دے۔ شاہ زمین پر گر پڑا۔ یہ دیکھ کر شاہ کے ایک ملازم نے بڑھ کر فتح اللہ کے منہ پر زور سے ایک گھونسا رسید کیا۔ وہ گھونسا کھا کر گر پڑا۔ اب ملازم نے میان میں سے تلوار نکال لی اور صادق زنجانی کی گردن ماردی۔ اس اثناء میں شاہی دربار کا ایک منشی بھی پہنچ گیا اور اس نے اپنے آپ کو شاہ کے اوپر گرا کر شاہ کے جسم کی ڈھال بن گیا۔ اتنے میں اور پیادے بھی پہنچ گئے اور انہوں نے زندہ حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا۔ جب ان سے دریافت کیاگیا کہ تم کون ہو اور تم نے یہ حرکت کیوں کی؟ تو انہوں نے اقبال جرم کیا اور بتایا کہ ہم نے اپنے قائم علیہ السلام (باب) کے قتل کا انتقام لیا ہے۔ صادق زنجانی، ملا شیخ علی بابی کا نوکر تھا۔ جسے بابی
جناب عظیم کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ صادق نے طمنچہ اسی سے لیا تھا۔ شاہ کو گولی کا جو زخم لگا وہ مہلک نہیں تھا۔ قاآنی شیرازی نے شاہ کے زندہ سلامت رہنے کی خوشی میں دوقصیدے لکھے جن میں سے ایک کے دو شعر یہ تھے ؎
آخر شوال خسروشد سوار از بہر صید
آسمانش درعناں وآفتابش در رکاب
کز کمیں ناگہ سہ تن جنبید وافگند ند نہ زود
تیر ہائے آتشین زی خسرو مالک رکاب
دوسرے قصیدہ کے تین شعر یہ تھے۔
آخر شوال راہر سال زیں پس عید کن
چاکران شاہ را دعوت نما از ہر کراں
ہی بگو شاہد بیا زاہد برو خازن بنجش
ہی بگو ساقی بدہ چنگے بزن مطرب نجواں
عید قربان شہش کن نام دہمچون گوسفنہ
دشمناں راسر ببر در راہ شاہ کامراں
اس واقعہ حائلہ پر طہران کی پولیس نہایت مستعدی سے ان تمام مجرموں کی تلاش میں سرگرم عمل ہوئی جو اس سازش سے تعلق رکھتے تھے۔ پولیس نے حاجی سلیمان خان بابی بن یحییٰ تبریزی کے مکان پر چھاپہ مارکر ایک درجن بابیون کو گرفتار کیا۔ اسی طرح طہران میں جہاں کہیں بھی مشتبہ بابی مل سکے۔ ان کو زیر حراست کر لیا گیا۔ اس طرح گرفتاروں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ ان میں سے بعض بابی جو بالکل بے قصور ثابت ہوئے وہ رہا کر دئیے گئے۔ انجام کار اٹھائیس بابیوں پر فرد قرار داد جرم عائد ہوئی اور وہ قتل کئے گئے۔ یہ سب اس سازش میں شریک تھے۔ یا شرکائے سازش کے معاون تھے۔ ناسخ التواریخ میں سب کے نام گنوائے ہیں۔ قرۃ العین بھی انہی مقتولین میں بھی بعض بابی قتل کا حکم سن کر گاتے اور ناچتے تھے جو گیت وہ گارہے تھے ان میں سے دو شعر ملاحظہ ہوں۔
باز آمدم باز آمدم از راہ شیر از آمدم
باعشوہ وناز آمدم ہذا جنون العاشقی
یکدست جام بادہ ویک دست زلف یار
رقصے چنیں میانۂ میدانم آرزوست
(ایپی سوڈ اوف دی باب مطبوعہ کیمبرج ص۳۲۳،۳۲۴)
فصل:۳…باب کے دعاوی کی بوقلمونی
علی محمد بحیثیت باب، ذکر، قائم، مہدی، نقطہ
مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح مرزاعلی محمد باب کے بیانات اور دعاوی میں بھی سخت اختلال واضطراب پایا جاتا ہے۔ پہلے سال اس نے بابیت کا دعویٰ کیا۔ یعنی کہا کہ میں حضرت مہدی علیہ السلام تک پہنچنے کے لئے جن کی آمد کا انتظار ہے۔ صرف دروازہ اور ذریعہ ہوں۔ اس وقت وہ اپنے تئیں اپنے نوشتوں میں باب اور ذکر اور ذات حروف سبعہ (جس کے نام میں سات حروف ہیں) لکھا کرتا تھا۔ دوسرے سال بابیت کا منصب اپنے ایک مرید ملا حسین بشرویہ کو بخش کر خود مہدی موعود بن بیٹھا اور جب ملا حسین مارا گیا تو بابیت کا منصب اس کے بھائی ملا حسن بشرویہ کو عطاء ہوا۔
(نقطۃ الکاف ص۱۸۱)
لیکن یہ منصب علی محمد اور اس کے ان دو ارادت مندوں تک محدود نہ تھا۔ بلکہ کتاب (نقطۃ الکاف ص۹۹،۱۰۰،۱۰۲،۱۳۲) کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حاجی کاظم رشی، شیخ احمد حسائی اور علی خراسانی معروف بجناب عظیم بھی اس منصب پر فائز تھے۔ شاید انہی ایام میں علی محمد نے اپنے لئے قائمیت کا عہدہ بھی تجویز کر لیا۔ لیکن تھوڑے دن کے بعد اپنے ایک خاص مرید ملا محمد علی بار فروشی کو بھی اس منصب میں شریک کر لیا۔ جسے بابی قدوس کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ چنانچہ نقطۃ الکاف میں لکھا ہے کہ جناب قدوس وجناب ذکر (علی محمد باب) دو قائم ہستند دلے ہریک مظہر اسمے از اسماء اللہ می باشند وبحسب قابلیت خلق اظہار می فرمانیند۔
(نقطۃ الکاف ص۲۰۷)
علی محمد باب نقط ہونے کا بھی مدعی تھا۔ حاجی مرزا جانی کاشانی نے کتاب نقطۃ الکاف میں لکھا ہے۔ حضرت نقط درہرزبان یک نفرمی باشد لیکن حاجی جانی کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نقط دراصل ملا محمد علی بار فروشی تھا اور علی محمد باب محض اس کا طفیلی تھا۔ چنانچہ حاجی جانی لکھتا ہے۔ داماد ریں دوکرہ اصل نقط حضرت قدوس (ملا محمد علی بار فروشی) بودند وجناب ذکر (علی محمد باب) باب ایشاں بود، بابیت سے دست بردار ہونے کے بعد علی محمد نے مہدویت کا دعویٰ کیا۔ بابی کہتے تھے کہ جس طرح حضرت موسیٰ کلیم (علیہ السلام) نے حضرت مسیح علیہ السلام کی اور جناب مسیح
نے حضرت محمد بن عبداﷲﷺ کی بشارت دی تھی۔ اسی طرح جناب محمدﷺ نے علی محمد باب کے ظہور کی بشارت دے رکھی تھی۔
من یظہرہ اللہ کی اعجوبۂ روز گار موہوم شخصیت
جس طرح پرانے خیال کے ہندوؤں نے اپنے لئے بشن، اندرمہادیو، وغیرہ موہوم دیوتے تجویز کر رکھے ہیں۔ اسی طرح باب نے بھی ایک موہوم شخصیت کو اپنے قالب خیال میں ڈھال کر اس کے ظہور کی پیشین گوئی کر دی تھی اور جس طرح مرزاغلام احمد قادیانی نے امام الزمان کے صفات کی تشریح میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے۔ اسی طرح مرزا علی محمد باب نے من یظہرہ اللہ (جس کو اللہ ظاہر کرے گا) نام کی ایک شخصیت تجویز کر کے اس کے من گھڑت صفات کی تشریح میں اپنے مرکب قلم کی خوب جولانیاں دکھائیں۔ باب نے کتاب بیان میں من یظہرہ اللہ کے یہ خصائص لکھے ہیں۔ جب من یظہرہ اللہ ظاہر ہوتا ہے تو ان لوگوں کے سواجو اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ ہر شخص کا ایمان سلب ومنقطع ہوجاتا ہے۔
(بیان باب ۳ واحد ۲)
بیان کی قیامت من یظہرہ اللہ کا ظہور ہے۔ (باب۷) اس کے ظہور کا دن سب کا بعث، سب کا حشر اور سب لوگوں کا قبر سے خروج ہے۔ (باب ۹) اس کے ظہور کا وقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (ز۱۰) وہ اللہ کی ذات سے قائم ہے۔ اور دوسری تمام کائنات اس سے قائم ہے۔ (ج۱،۱۳) وہ جب اور جو کچھ کرے کبھی مسئول نہیں ٹھہر سکتا۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے حق میں کیوں اور کس طرح کے الفاظ استعمال کرے۔ (ج۱) وہ ظہور نقطہ کی طرح بغتۃً ظاہر ہوتا ہے۔ (و۹،۱۱) اگر کوئی شخص اس سے ایک آیۃ سن لے یا تلاوت کرے تو بیان کی ہزار مرتبہ تلاوت کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (۸۵،۶) تمام ظہور اور قائم آل محمد کا ظہور من یظہرہ اللہ ہی کی خاطر وجود میں آئے۔ (و۱۲) من یظہرہ اللہ اسماء وصفات الٰہی کا مبداء ہے۔ (۹۵) جو شخص اس کا نام سنے اس پر واجب ہوجاتا ہے کہ ازراہ احترام کھڑا ہو جائے اور جو مجلس بھی منعقد ہو اس کے لئے ایک نفر کی جگہ خالی چھوڑ دی جائے۔ (طہ۱) بیان کی مندرجہ ذیل تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ باب کے نزدیک حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر باب کے ظہور تک عالم کائنات کی مدت بارہ ہزار دو سو دس سال گذری اور جس صورت میں کہ باب کے خیال میں دنیا کی عمر کا ہر ہزار سال ظہورات اور کمال کی جانب ان کے نمو کے ایک سال کے برابر ہے۔ بنابریں وہ آدم علیہ السلام کو (معاذ اللہ) نطفہ سے اور اپنے تئیں دوازدہ سالہ جوان سے اور من یظہرہ اللہ کو طفل چہار وہ سالہ
سے تشبیہ دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ باب من یظہرہ اللہ کا زمانہ اپنے عہد سے دوہزار سال پیچھے فرض کرتا ہے۔ چنانچہ بیان (باب۱۳، واحد۳) میں رقمطراز ہے۔ من ظہور آدم الیٰ اوّل ظہور نقطۃ البیان از عمر این عالم نگہدشتہ الادوازہ ہزار ودویست ودہ سال آن آدم درمقام نطفہ ایں آدم می گردد۔ مثلاً جوانے کہ وازدہ سال تمام ازعمر اوگذشتہ نمی گوید کہ من آن نطفہ ہستم کہ از فلاں سماء نازل در فلاں ارض مستقر شدہ کہ اگر بگوید تنزل نمودہ ونزد اولوالعلم حکم بتما میت عقل اونمی شود۔ ایں است کہ نقطہ بیان نمی گوید امروز منم مظاہر مشیت ازآدم تاامروز کہ مثل این قول ہمیں می شود وازیں جہت است کہ رسول خداﷺ نفر مودہ کہ من عیسیٰ ہستم، زیرا کہ آن وقتے است کہ عیسیٰ از حد خود ترقی نمودہ وبآن حدر سیدہ وہمچنین من یظہر اللہ درحد زمانیکہ محبوب چہاردہ سالہ ذکر می شود لائق ٹیست کہ بگوید من ہماں دوازدہ سالہ بودم کہ اگر بگوید نظر بضعف مردم نمودہ زیرا کہ شیٔ رد بعلواست نہ دنو۔ اگرچہ آن جوان چہاردہ سالہ درحین نطفہ آدم بودہ وکم کم ترقی نمود تاآنکہ امروز دوازدہ سالہ گشتہ دازیں دوازدہ سالگی کم کم ترقی می نماید۔ تاآنکہ بچہاردہ می رسد۔ اگر امروز یکے از مؤمنین بقرآن برخودمی پسند کہ بگوید من یکے ہستم از مؤمنین بانجیل نقطۂ حقیقت ہم برخودمی پسند ووکذالک دربیان وبیان بانسبت بمن یظہرہ اﷲ۔‘‘ باب نے من یظہرہ اللہ کے ظہور کی مدت اپنے بعد ۱۵۱۱ یا ۲۱۰۱ سال جو کلمۂ غیاث یا اغیث اور مستغات کے عدد کے موافق تصور کی۔ چنانچہ کتاب بیان (باب۱۷، واحد ۲) میں لکھتا ہے۔ ’’اگر درعدد غیاث ظاہر گرددو کل داخل شوند احدے درنارنمی ماند واگرالیٰ مستغاث رسدہ کل داخل شوند احدے درنارنمی ماند الا آنکہ کل مبدل می گردند بنور۔‘‘ اور (باب۱۶، واحد۲) میں لکھتا ہے۔ ’’وصیت می کنم کل اہل بیان راکہ اگر درحین ظہور من یظہرہ اللہ کل موفق بآں جنت عظیم ولقائے اکبر گردید طوبیٰ ثم طوبی لکم والا اگر شنید ید ظہورے ظاہر شدہ بآیات قبل از عدد اسم اللہ الاغیث کہ کل داخل شوید واگرنشدہ وبعد واسم اللہ المستغاث منتہی شدہ وشنیدہ اید کہ نقطہ ظاہر شدہ وکل یقین نکردہ آید رحم برانفس خود کردہ وکل بکلیہ درظل آن نقطہ ظاہرہ کہ کل داخل نہ شدہ ابد مستظل گردید۔‘‘
دعوائے اعجاز اور دوسری تعلیاں
علی محمد باب کا مقولہ ہے کہ میں اپنے شؤونات علم میں امی ہوں اور اپنے علم کو چار زبانوں میں ظاہر کرتا ہوں۔ اوّل لسان آیات، دوم لسان مناجات، سوم لسان خطیب، چہارم لسان زیارات وتفاسیرآیات، احادیث، ائمہ اطہار۔ کیونکہ ان کی آیات کی زبان میرا دل ہے
جو ظہور اللہ ہے اور اسے لسان اللہ کہا جاتا ہے اور ان کی مناجات کی زبان عبودیت، محبت اور فنا ہے اور وہ رسول اﷲﷺ کی طرف منسوب ہے۔ اس کا ظہور مرأت عقل میں متصور ہے اور خطبوں کی زبان رکن ولایت کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ اس کا ظہور مرأت نفس میں ہوتا ہے۔ لسان تفاسیر رتبۂ بابیت ہے اور یہ جسم کی طرف نسبت کی گئی ہے۔ لسان اوّل کو عالم لاہوت سے مدد ملتی ہے جو قلم کا مقام ہے۔ اس کا حامل میکائیل ہے جو شییت اشیاء کا ذکر نقطۂ بیضاء میں فرماتا ہے۔ لسان ثانی کو عالم جبروت سے مدد ملتی ہے۔ اس کا سلطان حضرت جبریل ہے کہ عقول کل شییٔ کا رزق جنت صفراء میں دیتا ہے اور مقام لوح ہے۔ لسان سوم کی امداد عالم ملکوت سے ہوتی ہے کہ جسے مقام کرسی کہتے ہیں۔ اس ملک کی سلطنت اسرافیل کے سپرد ہے۔ وہی رزق حیات کا حامل ہے ۔اس کا تاج ہمایوں زمرد کا بنا ہے۔ لسان چہارم عالم ملک ہے جو عالم کثرت ہے۔ اس ملک کا شہر یار حضرت عزرائیل ہے۔ عزرائیل یا قوت سرخ کے تخت پر متمکن ہے۔ باب کا دعویٰ ہے کہ میں ان چاروں زبانوں کے ساتھ ظاہر ہوا ہوں۔ تاکہ خلق خداکو معلوم ہوجائے کہ ان چاروں ملکوں میں میری بادشاہت ہے۔ چاروں جگہ میرا سکہ چلتا ہے۔ تاکہ میں ہر ملک والوں کو ان کا رزق دوں۔
اس کے بعد لکھتا ہے کہ یہ کلمات فصاحت ظاہری وباطنی کے بھی مطابق ہیں۔ فصاحت ظاہری سے مراد عبارتوں کی حلاوت ہے اور فصاحت باطنہ کا مطلب توحید کا بیان اور ظہور اسماء وصفات الٰہی کی معرفت ہے اور میری یہ حالت ہے کہ ان کے مقامات سری میں توجہ کرنے سے پانچ ساعت میں بدوں تفکرو سکوت ہزار بیت لکھ دیتا ہوں۔ تاکہ تمام اہل علم اور ارباب قلم کو معلوم ہو جائے کہ غیر اللہ کو اس قسم کی قدرت نہیں دی گئی ہے اور میں کہتا ہوں کہ یہ آیات منجانب اللہ ہیں۔ ’’ان یا خلق اللہ فأتوا بمثل ہذا ان کنتم صٰدقین‘‘ اللہ کے بندو! اگر تم سچے ہو اور تم میں سے کسی شخص کی حالت یہ ہے کہ میری طرح اس کی آیت علم وعمل ہے۔ میری طرح وہ بھی امی ہے اور میری طرح ان چار زبانوں میں متکلم ہوتا ہے اورچھ ساعت میں بدوں فکرو سکوں ہزار بیت کہہ لیتا ہے اور اپنے علم کو اللہ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ وہ میرے جیسا کلام پیش کرے اور اگر اس کے اندر شرائط مذکور نہ پائے جائیں تو وہ ایتان بمثل نہ ہوگا اور میری حجت ثابت ہو جائے گی۔
(نقطۃ الکاف ص۱۰۷،۱۰۸)
لیکن میں باب کے مقابلہ میں قادیان کے مسیح موعود صاحب کا نام نامی پیش کرتا
ہوں۔ ان کو بھی دعوائے اعجاز تھا۔ اگر یہ دونوں اعجازی پہلو ان ایک زمانہ میں ہوتے تو ان کا دنگل نہایت پر لطف رہتا۔
منکرین سے خطاب
باب کا مقولہ ہے۔ میری ندا خاص اور عام کے کانوں میں پہنچی۔ میرے رد وقبول کے بارہ میں لوگ چند گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ اوّل اہل طلب وانصاف ہیں۔ انہوں نے تفحص کیا اور دیکھا کہ آنجناب کا دعویٰ زمانہ کے مطابق ہے اور جوکچھ کہتا ہوں منجانب اللہ کہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے قبول کیا۔ یہ لوگ فیوض عبادات ومناجات اور جواہر معارف سے فائز ہوئے۔ دوسرا فرقہ علم وعمل میں مستور اور حب ریاست میں گرفتار رہا۔ ان لوگوں نے گوش طلب کو نہ کھولا اور نظر انصاف سے نہ دیکھا بلکہ اس کے برعکس ردواعراض کی زبان کھول دی۔ ان حرمان نصیبوں نے کہا جو کچھ کہ کہا اور کیا جو کچھ کہ کیا۔ رہے عوام ان بیچاروں میں سے بعض تو متحیر رہے اور بعض نے علماء کی تقلید کر کے میری تکذیب کی۔ مقدم الذکر گروہ نے نظر انصاف سے نہ دیکھا کہ وہ جس دلیل سے اپنے تئیں حجۃ الاسلام گمان کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ امام علیہ السلام کی طرف سے والی ہیں۔ وہ سب علم وعمل ہے۔ حالآنکہ وہ لوگوں سے کہا کرتے ہیں کہ یا مقلد بنویا مجتہد اور جب کچھ بھی نہ ہوگے تو تم جہنم میں جاؤ گے۔ گو تمہارے اعمال فی الواقع امر حق کے مطابق ہوں۔ یہ لوگ اتنا نہیں سوچتے کہ جب تم نے تقلید کی تو سب سے بڑے عالم کی تقلید کرو۔ کیونکہ غیر اعلم کی تقلید حرام ہے اور مجتہد علم وعداوت سے پہچانا جاتا ہے اور جب مجھے مجتہد اور اعلم العلماء یقین کرتے ہو تو میں حرام وحلال کے متعلق جو حکم کروں اسے حکم الٰہی یقین کرو اور اس سے انکار واعراض نہ کرو، اور کہتا تھا کہ تم لوگ یہود کی تقلید نہ کرو۔ جنہوں نے مسیح علیہ السلام کو دارپر چڑھایا اور نصاریٰ کی پیروی نہ کرو۔ جو فارقلیط موعود (حضرت سرور کون ومکانﷺ) کے منکر ہوئے اور اہل اسلام کی تقلید بھی نہ کرو۔ جو ہزار سال سے مہدی موعود کے انتظار میں سراپا شوق بنے رہے۔ لیکن جب ظاہر ہوا تو اس کی توہین کی اور زندان بلا میں ڈال دیا۔
(نقطۃ الکاف ص۱۰۸،۱۰۹)
لیکن حضرت مخبر صادقﷺ کی پیشین گوئی کے بموجب جو مہدی علیہ السلام کسی مستقبل زمانہ میں ظاہر ہوںگے ان کا اسم گرامی محمد بن عبداﷲ بتایا گیا ہے۔ ان کا ظہور مکہ معظمہ میں ہوگا اور سیدۃ النساء حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد ہوںگے۔ ایسی حالت میں وہی
شخص باب، مرزائے قادیان اور اس قماش کے دوسرے ملحدین دہر کی پیروی اختیار کر سکتا ہے جو حضرت مخبر صادقﷺ کے ارشادات گرامی کی طرف سے اندھا اور بہرا بن کر فاقدالایمان ہونے کا خواہش مندہو۔
فصل:۴…باب کی تعلیمات اور بابی الحاد پسندیاں
باب نے بیان نام ایک فارسی کتاب لکھی تھی جسے وہ الہامی اور آسمانی کتاب بتاتا تھا۔ بابیوں کا خیال ہے کہ جس طرح قرآن نے انجیل کو اور انجیل نے توراۃ کو منسوخ کیا تھا۔ اسی طرح بیان نے قرآن کو منسوخ کردیا۔ لیکن پروفیسر براؤن نے بابیوں کے اس خیال کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ باب اپنی تحریروں میں مکرراً ومؤکداً اس امر کو اضح کرتا ہے کہ وہ ظہورات مشیت اوّلیہ کا خاتم حلقۂ سلسلۂ نبوت کا آخری شخص نہیں ہے اور اس کی کتاب بھی کتب سماوی کی خاتم نہیں۔ پروفیسر براؤن دوسری جگہ لکھتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ باب اپنے مذہب کو ناسخ دین اسلام اور بیان کوناسخ قرآن سمجھتا تھا اور اس کی ایک تحریر سے جو فصل کے اخیر میں قیامت کی بابی تشریح میں آئے گی۔ بظاہر یہی ثابت ہوتا ہے۔ لیکن باب کے اس قسم کے دعوے بدٔ امر میں تھے۔ بعد میں اس نے اس خیال سے رجوع کر لیا یا کم ازکم اپنی غلطی پر متنبہ ہوکر اس کی علی الاعلان اشاعت سے رک گیا۔
باب کے اصول تعلیم
باب کے اصول تعلیم جو اس کی تحریروں اور خاص کر بیان سے ثابت ہوتے ہیں۔ بالاجمال یہ ہیں۔ خدا ہر چیز کا مدرک ہے۔ لیکن خود حیز ادراک سے باہر ہے۔ ذات الٰہی کے سوا کوئی متنفس اس کی معرفت نہیں رکھتا۔ مدرفت الٰہی سے مراد مظہر الٰہی کی معرفت ہے۔ لقاء اللہ سے لقاء مظہر اللہ اور پناہ بخدا سے پناہ بمظہر خدا مراد ہے۔ کیونکہ عرض بذات اقدس ممکن نہیں اور اس کا لقاء متصور نہیں ہے اور کتب سماویہ میں جو لقاء اللہ کا ذکر پایا جاتا ہے وہ ظاہر بظہور الٰہی کی لقاء کا ذکر ہے۔ (ب۷ ج۷) ملائکہ کے رجوع الیٰ اللہ اور اس کے سامنے پیش کرنے کا مطلب من یظہرہ اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ کیونکہ ذات ازل کی طرف کسی شخص کو کوئی سبیل نہ کبھی تھی اور نہ اب ہے۔ نہ بدء میں نہ عود میں۔ (ب۱۰) جو کچھ مظاہر میں ظاہر ہوتا ہے وہ مشیت ہے جو تمام اشیاء کی خالق ہے۔ اشیاء سے اس کی وہی نسبت ہے جو علت کو معلول سے اور نار کو حرارت سے ہے۔ یہ مشیت نقطۂ ظہور ہے۔ جو ہر کور میں اس کور کے اقتضاء کے بموجب ظاہر ہوتا ہے۔ (ب۱۳ ج۷،۸) مثلاً محمد نقطۂ فرقان ہیں اور مرزاعلی محمد نقطہ بیان ہے اور پھر دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔
(آ۱۵ ھ۲) آدم جو بیان کے بیان کے بموجب (ج۱۳) باب سے ۲۲۱۰ سال پہلے ہوئے ہیں۔ تمام ظہورات کے ساتھ ایک ہے۔ (ز۲) اگر آفتاب کی طرح دوسرے بے تعداد آفتاب طلوع ہوں تو بھی شمس ایک سے زیادہ نہیں ہے۔ تمام آفتاب اسی ایک سورج کے بدولت قائم ہیں۔ (و۱۲،ر۱۵) من یظہرہ اللہ کے بعد دیگر ظہورات بھی بے حدو انتہاء ہوں گے۔ (د۱۲، ز۱۳) بعد کا ہر ظہور ظہور قبل سے اشرف ہوتا ہے۔ (ج۱۳، د۱۲) ہر ظہور ما بعد میں مشیت اولیہ ظہور قبل سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہوتی ہے۔ مثلاً آدم نطفہ کے مقام پر تھے اور نقطۂ بیان دوازدہ سالہ جوانی کے مقام میں اور من یظہرہ اللہ چہاردہ سالہ جوانی کے مقام میں ہے۔ (ج۱۳) ہر ظہور بمنزلہ غرس شجر کے ہے۔ بعد کا ظہور اس درخت کے کمال اور حصول ثمر کے وقت ہوتا ہے۔ اس سے پیشتر وہ حد بلوغ کو نہیں پہنچتا۔ جب درخت درجۂ کمال کو پہنچ گیا اور اس کا پھل کھانے کا وقت آیا تو بغیر کسی لمحہ کی تاخیر کے بعد کا ظہور واقع ہو جائے گا۔ چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے وقت انجیل کا درخت لگایا گیا تھا۔ اس وقت اسے کمال نصیب نہ ہوا تھا۔ البتہ اگر رسول اﷲﷺ کی بعثت ایک روز پہلے ہو جاتی یعنی ۲۷؍رجب کے بجائے ۲۶؍رجب ہوتی تو بعثت کا دن وہی (یعنی ۲۶؍رجب) قرار پاتا۔ قرآن کا درخت تو رسول اللہ(ﷺ) کے زمانہ میں لگا۔ لیکن اس کا کمال (معاذ اللہ) ۱۲۷۰ھ میں (علی محمد باب کے ظہور کے وقت) ہوا۔ (صح الاولیٰ) بابی لوگ اس بیان کو کہ زمان ومکان کے اختلاف اور درجہ شرف وکمال کے تفاوت کے باوجود ظہورات متعددہ حقیقت میں سب ایک ہی کیوں ہوتے ہیں؟ معلم کی مثال سے سمجھایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ شاگردوں کے مختلف طبقے ہوتے ہیں۔ ہر طالب علم سن وسال اور درجۂ فہم میں متفاوت ہوتا ہے۔ معلم درس دیتا ہے۔ معلم ایک ہے اور اس کے علم واطلاع کا اندازہ بھی ایک ہے۔ لیکن سامعین کے درجہ فہم وادراک کے تفاوت کے لحاظ سے وہ مختلف تعبیرات اور اصطلاحیں استعمال کرتا ہے۔ مثلاً اطفال خرد سال کو مخاطب کرتے ہوئے وہ منافع علم کو اس تشریح کے ساتھ بچوں کے ذہن نشین کرے گا کہ علم مطلوب ہے۔ کیونکہ وہ شکر کی طرح میٹھا ہے۔ اس طرز تعبیر کی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کی قوۃ فہم اس درجہ پر نہیں کہ طالبان علم کی اہمیت کو کسی مادی ومحسوس صورت میں سمجھائے بغیر سمجھ سکیں۔ لیکن جب وہی معلم کسی اعلیٰ جماعت کے شاگردوں کو درس دے گا تو ضرورت علم کو اعلیٰ اتعبیرات میں ثابت کرے گا۔ تفاوت ظہورات کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہئے۔ مثلاً جناب محمدﷺ کے مخاطب وحشی اور بدوی لوگ تھے۔ اس لحاظ سے کہ وہ بعث ومعاد جنت ونار وغیرہ امور کا صحیح مفہوم سمجھنے سے
قاصر تھے۔ آنحضرتﷺ ان کے مفہوم مادی صورتوں میں ان کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ وہ آسانی سے سمجھ سکیں۔ لیکن دورۂ بیان میں مخاطب (فرنگیوں کی طرح) دانا اور متمدن لوگ یعنی ایرانی ہیں۔ اس لئے الفاظ اور اصطلاحات مذکورہ کو دوسرے طرز (یعنی باطنی زنادقہ کے رنگ) میں بیان کیاگیا اور ان الفاظ کے ایسے معنی مراد لئے گئے جو (شیطانی) عقل وفہم سے زیادہ قریب تھے۔ مثلاً قیامت سے مراد ہر زمانہ اور ہر نام میں شجر حقیقت کا ظہور ہے۔ یہ ظہور اپنے زمانۂ عروب تک باقی رہتا ہے۔ مثلاً بعثت عیسوی کے دن سے لے کر ان کے یوم عروج تک موسیٰ علیہ السلام کی قیامت تھی اور رسول اﷲﷺ کے یوم بعثت سے آپ کے یوم عروج تک کہ تیئس سال کی مدت تھی۔ عیسیٰ علیہ السلام کی قیامت تھی اور شجر بیان کے ظہور سے لے کر اس کے غروب تک محمد رسول اﷲﷺ کی قیامت ہے۔ (ب۷، ج۳، ط۳) شیعہ لوگ جو قیامت کو مادی معنوں پر محمول کرتے ہیں۔ محض توہم ہے جس کی عنداﷲ کوئی حقیقت نہیں۔ (ب۷) قیامت کے دن کوئی مردہ قبروں سے نہیں اٹھے گا۔ بلکہ بعث یہی ہے کہ اس زمانہ کے پیدا ہونے والے لوگ زندہ ہو جاتے ہیں۔ (ب۱۱) قیامت کا دن بھی دوسرے دنوں کی مانند ہے۔ آفتاب حسب معمول طلوع وغروب ہوتا ہے۔ جس سرزمین میں قیامت برپا ہوتی ہے۔ بسا اوقات وہاں کے باشندے اس سے مطلع نہیں ہوتے۔ (ح۹) اسی طرح نقطۂ ظہور کی تصدیق اور اس پر ایمان لانے کو جنت کہتے ہیں۔ (ب۱، ب۴، ب۱۶) عالم حیات میں تو جنت کی یہ حقیقت ہے۔ لیکن جنت بعد از موت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ (ب۱۶) دوزخ سے مراد نقطۂ ظہور پر ایمان نہ لانا اور اس سے انکار کرنا ہے۔ (ب۱، ب۴) برزخ سے عام لوگ (صحیح العقیدہ مسلمان) تو معلوم نہیں کیا، مراد لیتے ہیں۔ لیکن برزخ حقیقت میں وہ مدت ہے جو دو ظہوروں کے مابین حد فاصل ہے۔ (ب۸) علیٰ ہذا القیاس موت، قبر، قبر میں ملائکہ کا سوال میزان، حساب کتاب، صراط وغیرہ میں سے ہر ایک کے تمثیلی معنی بیان کئے ہیں۔
بابی تحریف کاریاں
حضور مخبر صادقﷺ نے جو مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کی علامتیں بیان فرمائیں تو اس سے حضور کا یہ مقصد تھا کہ جھوٹے مہدی اور جھوٹے مسیح سچون کی مسند عالی پر قدم نہ رکھ سکیں اور امت مرحومہ ہر مدعی کے دعوؤں کو ارشادات نبویہ کی کسوٹی پر کس کراس کے صدق یا کذب کا امتحان کر سکے۔ پس یہ پیشین گوئیاں امت کے حق میں انتہاء درجہ کی
شفقت ورحمت ہیں۔ لیکن حرمان نصیبی اور ضلالت پسندی کا کمال دیکھ کہ جھوٹے مدعیوں کے نادان پیروان ارشادات نبویہ کی مشعل ہدایت کو اپنے لئے دلیل راہ نہیں بناتے۔ بلکہ الٹا ان کو اپنی خواہشات نفسانی کے قالب پر ڈھالنا شروع کر دیتے ہیں اور انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ کہنے لگتے ہیں کہ ان روایتوں کا وہ مطلب نہیں جو ظاہری الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے۔ بلکہ ان کا وہ باطنیء مفہوم مراد ہے جو ہم سمجھتے ہیں۔ جس سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ احکام وحی بھی گویا موم کی ناک ہے۔ جسے جس وقت اور جس طرح چاہا پھیر لیا۔ باب بھی ایک جھوٹا مہدی تھا اور اس کی ذات میں ان علامات کا پایا جانا ناممکن تھا۔ جوسچے مہدی علیہ السلام کے ساتھ مختص ہیں۔ اس لئے ضرور تھا کہ وادیٔ خسران کے راہ نورد ارشادات نبویہ کو کھینچ تان کر اپنے مفید مطلب بنانے کی کوشش کرتے۔ چنانچہ مرزاجانی بابی کتاب نقطۃ الکاف میں کمال بے باکی کے ساتھ لکھتا ہے کہ امام معصوم کی مراد باطنی معنی ہوتے ہیں۔ لیکن اہل ظاہر، ظاہری کلمات کو دیکھتے ہیں۔ اس لئے اس کے مصداق کو نہیں پاتے۔ یہ امر لابد ہے کہ ہر کلمہ کے معنی اس کے باطن میں ملاحظہ کئے جائیں اور باطن کو پالینا ہر بے سروپا کا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک منصب عالی ہے۔ جو فرشتہ یا نبی یا مؤمن ممتحن کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ لیکن آج مؤمن ممتحن کہاں پایا جاتا ہے اور کس کی مجال ہے کہ باطنی معنی جان لینے کا دعویٰ کرے؟ چونکہ ان اکثر احادیث کا جو علامات ظہور مہدی علیہ السلام کے متعلق وارد ہیں۔ باطنی مفہوم مراد ہے اور اہل زمان عموماً ظاہر بین ہیں۔ اس لئے امام کے مقصود کو نہیں پاتے۔
(نقطۃ الکاف ص۱۸۱،۱۸۲)
ائمہ تلبیس کے باب ۱۷ میں باطنی فرقہ کی تحریفات آپ کی نظر سے گذری ہوںگی۔ لیکن عنوان سابق میں آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ تحریف کاری کے فن میں بابی بھی انہی کے شاگرد رشید ہیں۔ گو اوپر بھی بابی باطنیت پر کافی روشنی پڑ چکی ہے۔ لیکن ذیل میں اس کے چند اور نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔
الفاظ | بابی مفہوم |
توحید ذات | ذات مقدس حضرت نقطۂ وجود (باب) کی واحدانیت اور فردانیت کا اقرار۔ |
توحید صفات | حضرت حق کے جمیع اسماء وصفات کا مظہر حضرت نقطۂ (باب) ہے۔ یعنی اس کی مشیت تمام مشیتوں سے بڑھ کر اور اس کا ارادہ عین اﷲ کا ارادہ اس کی زبان اﷲ کی زبان، اس کا ہاتھ اﷲ کا ہاتھ ہے۔ |
توحید افعال | آنجناب (علی محمد باب) کا فعل، اﷲ کا فعل ہے۔ کسی کے لئے اس باب کی گنجائش نہیں کہ اس کے فعل میں چون وچرا کر سکے۔ |
توحید عبادت | اس سرور (باب) کی محبت وعبودیت۔ |
زکوٰۃ | یوم قیام میں خدائے برتر کی ملاکیت کا اقرار کرنا۔ |
روزہ | ان امور سے احتراز کرنا جو آنحضرت کی مرضی کے خلاف ہوں۔ |
حج | خدائے برتر کی مشیت، ارادہ، قضا وقدر کے ارد گرد پھرنا۔ |
بیت اﷲ | (۱)جسم شریف حضرت نقطہ (باب) کے جسم شریف کا مقام استقرار اور (۲) حضرت نقطہ (باب) کا دل۔ |
زم زم | رسول اﷲ (ﷺ) |
صفا | شاہ ولایت۔ |
مشعر | حضرت فاطمہ زہراءؓ |
منیٰ | حضرت امام حسن مجتبیٰؓ (نقطۃ الکاف ص۱۴۸،۱۵۱) |
علی محمد باب قیامت کا بھی منکر تھا۔ اس کے نزدیک جیسا کہ اس نے بیان فارسی (باب۷، واحد۲) میں لکھا ہے۔ یوم قیامت سے مراد شجرۂ حقیقت کا ظہور ہے اور حقیقت اس وقت تک مشاہدہ میں نہیں آسکتی۔ جب تک کوئی شیعہ یوم قیامت کا مفہوم نہ سمجھ لے۔ بلکہ قیامت کے متعلق لوگوں نے جو کچھ موہوماً سمجھ رکھا ہے۔ عند اللہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اللہ کے نزدیک یوم قیامت سے یہ مراد ہے کہ شجرۂ حقیقت کے ظہور کے وقت سے لے کر ہر زمانہ اور ہر اسم میں اس کے غروب تک قیامت کا دن ہے۔ مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کے یوم بعثت سے لے کر ان کے یوم عروج تک موسیٰ علیہ السلام کی قیامت تھی۔ کیونکہ شجرۂ حقیقت ہیکل محمدیہ (علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام) میں ظاہر ہوا تھا اور شجرۂ بیان کے ظہور سے لے کر (معاذ اللہ) رسول اﷲﷺ کی قیامت ہے۔ جس کا قرآن میں خدائے قدوس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اس کا آغاز ۵؍جمادی الاوّل ۱۲۶۰ھ کی رات کو دو ساعت اور گیارہ دقیقہ کے بعد سے ہوا کہ ۱۲۷۰ھ (علی محمد باب) کی بعثت کا سال بنتا ہے۔ یہی قرآن کے یوم قیامت کا آغاز ہے اور شجرۂ حقیقت کے غروب سے لے کر قرآن کی قیامت ہے۔ کیونکہ جب تک کوئی چیز کمال تک
نہ پہنچ جائے۔ اس کی قیامت نہیں ہوسکتی اور دین اسلام کا کمال اوّل ظہور تک ختم ہوگیا اور من یظہرہ اللہ کے ظہور پر بیان کی قیامت آجائے گی۔ کیونکہ اس وقت بیان کا کمال ختم ہوجائے گا۔ جس طرح مرزاغلام احمد قادیانی نے ایک لغو پیشین گوئی کر رکھی ہے کہ تین سو سال کی مدت میں ساری دنیا کا مذہب (معاذ اللہ) مرزائی ہو جائے گا۔ اسی طرح باب بھی کہہ گیا ہے کہ عنقریب سارے ایران کا مذہب بابی ہو جائے گا۔ لیکن یہ خواب نہ اب تک شرمندۂ تعبیر ہوا اور نہ یقینا آئندہ ہوگا۔ اس لئے اس کو اضغاث احلام میں داخل سمجھنا چاہئے۔
آیات قرآنی کو باب پر چسپاں کرنے کی کوشش
مرزاغلام احمد قادیانی کی حق فراموش امت سخت ملحدانہ دیدہ دلیری کے ساتھ بعض آیات قرآنیہ کو مرزاغلام احمد پر چسپاں کرنے کی کوشش کیا کرتی ہے۔ گو اس عیاری میں مرزائیوں کی حیثیت محض ناقلانہ ومقلدانہ ہے اور اس فن میں ان کے اصل گرو بابی لوگ ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک ایسی حرکت ہے جو ان کے فاقد الایمان ہونے مہر توثیق ثبت کرتی ہے۔ بابیوں کی اس الحاد پسندی کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔ ’’ولقد کتبنا فے الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثہا عبادی الصالحون‘‘ کا صحیح مفہوم تو یہ ہے کہ بلاشبہ ہم نے توراۃ کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ اس سرزمین کے مالک میرے صالح وشائستہ بندے ہوںگے۔ یعنی اخیر زمانہ میں بنی آخرالزمان پیدا ہوںگے اور ان کی امت اس زمین پر غالب آئے گی۔ لیکن حاجی مرزاجانی بابی اس کی تفسیر میں یوں گوہر افشانی کرتا ہے۔ ہم نے زبور میں لکھا تھا کہ ذکر یعنی علی محمد باب کے ظہور کے بعد میرے نیک بندے زمین کے مالک ہوںگے اور اگر ذکر سے مراد قرآن لیا جائے تو بھی ظاہر ہے کہ قران کے بعد کتاب بیان ہے۔ جس کے حامل حضرت ذکر (علی محمد باب) ہیں۔ رہا سلطنت الٰہی کا ظہور سو عرض ہے کہ سلطنت الٰہی نے دلوں کی سرزمین میں تجلی فرمائی ہے۔ اسی کائنات قلب وروح میں ایسے ایسے پاکباز لوگ پیدا ہوئے ہیں کہ چشم روزگار نے اس سے پیشتر کبھی نہ دیکھے تھے اور ضرور ہے کہ سلطنت ظاہری بھی ان حضرات کو بہم پہنچے گی۔ گوہزار سال کی مدت ہی کیوں نہ گذر جائے۔ پس اس آیۃ کاجزئی مصداق تو جناب محمد رسول اﷲﷺ ہیں اور کلی طور پر حضرت قائم (علی محمد باب) ہیں اور سچ پوچھو تو حضرت قائم علیہ السلام کا ظہور بھی محمد علیہ السلام ہی کی رجعت ہے۔ عارف باﷲ اور عبدمنصف کے لئے سارا قرآن حضرت قائم کی عظمت شان کی باطنی تفسیر ہے۔
(نقطۃ الکاف ص۲۷۲،۲۷۳)
باب۶۳ … ملا محمد علی بار فروشی
ملا محمد علی بارفروشی جسے بابی لوگ قدوس کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ علی محمد باب کا سب سے بڑا خلیفہ تھا۔ اس کے بعض حالات باب سابق میں سپرد قلم ہوچکے ہیں۔ مقام قدوسیت اور رجعت رسول اﷲﷺ کا مدعی تھا۔ رجعت رسول اللہ سے اس کی یہ مراد تھی کہ آنحضرتﷺ ازسرنو دنیا کے اندر تشریف لاکر (معاذ اللہ) بارفروشی کے پیکر میں ظاہر ہوئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے بارفروشی ہی کے چبائے ہوئے لقمے کو اپنے خوان الحاد کی زینت بنالیا تھا۔ چنانچہ قادیانی صاحب نے ۵؍نومبر ۱۹۰۱ء کے اشتہار میں لکھا کہ: ’’میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیۃ ’’واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم‘‘ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرتﷺ کا وجود قرار دیا ہے۔ پس اس طور سے آنحضرتﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا۔ کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمدﷺ ہوں۔ پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی۔ کیونکہ محمدﷺ کی نبوت محمد تک ہی محدود رہی۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۸، خزائن ج۱۸ ص۲۱۲)
حاجی مرزاجانی کاشانی نقطۃ الکاف میں لکھتا ہے کہ بارفروشی کے حق میں بہت سی حدیثیں آئمہ دین سے وارد ہیں۔ منجملہ ان کے وہ حدیث ہے کہ جب سیاہ جھنڈے خراسان کی طرف سے آتے دیکھو تو سمجھ لو کہ ان میں اللہ کا خلیفہ مہدی ہے۔ ایک وہ حدیث ہے جس میں چار جھنڈوں کا ذکر ہے۔ رایت یمانی، حسینی، خراسانی، طالقانی۔ یہ چاروں جھنڈے حق ہیں اور سفیانی پرچم جوان چاروں کے بالمقابل ہے۔ باطل ہے۔ حاجی مرزاجانی لکھتا ہے کہ اس حدیث میں رایت یمانی سے مراد جناب ذکر (علی محمد باب) ہے اور رایت حسینی سے حضرت قدوس (ملا محمد علی بارفروشی) کا پرچم ہے۔ رایت خراسانی سے سید الشہداء علیہ السلام (ملا حسین بشرویہ) کا جھنڈا مقصود ہے۔ جس نے خراسان سے حرکت کی تھی اور طالقانی جھنڈا سے جناب طاہرہ (قرۃالعین) مراد ہے کہ جس کا باپ طالقانی تھا اور سفیانی جھنڈا ناصر الدین شاہ والی ایران کا پرچم ہے۔ بابیوں نے قائمیت کا منصب دو شخصوں کو دے رکھا تھا۔ ایک مرزاعلی محمد باب کو دوسرا محمد علی بارفروشی کو۔ لیکن بابیوں کی بعض تحریروں میں ملا بارفروشی کو علی محمد باب سے بھی فائق وبرتر بتایا گیا ہے۔ چنانچہ حاجی میرزاجانی کاشانی لکھتا ہے کہ اس دورہ میں اصل نقطہ
حضرت قدوس (ملا بار فروشی) تھے اور جناب ذکر (علی محمد) اس کے باب (وسیلہ) تھے۔ لیکن چونکہ رجعت کا دورہ تھا اور ولایت ظہور میں نبوت پر سبقت لے گئی۔ اس لئے جناب ذکر (علی محمد) پہلے ظاہر ہوکر تین سال تک داعی الیٰ الحق رہا۔ اس کے بعد چوتھے برس حضرت قدوس (ملا بار فروشی) ظاہر ہوئے۔
(نقطۃ الکاف ص۱۵۲،۱۵۳،۲۰۷،۲۰۸)
باب۶۴ … زرین تاج معروف بہ قرۃ العین
زرین تاج عرف قرۃ العین ایک اعجوبۂ روزگار عورت گذری ہے۔ اس کا باپ حاجی ملا صالح قزوین کا ایک مشہور شیعی عالم تھا۔ باپ نے اس کو گھر ہی میں اعلیٰ تعلیم دلائی۔ جب حدیث تفسیر اور فقہ کے علاوہ الٰہیات وفلسفہ میں کامل دستگاہ حاصل کر چکی تو اس کی شادی اس کے حقیقی چچا مجتہد العصر ملا محمد تقی کے فرزند ملا محمد کے ساتھ ہوگئی۔ جو جملہ علوم میں تبحررکھنے کے ساتھ ایک جوان صالح تھا۔ جب زرین تاج نے علی محمد باب کے حالات سنے تو خفیہ طور پر باب کو خط لکھا۔ باب نے اس کے جواب میں جو چٹھی لکھی اس کو پڑھ کر وہ بے دیکھے اس پر ایمان لے آئی۔ قرۃ العین نے چند روز تک اپنی بابیت کو مخفی رکھا اور پوشیدہ ہی پوشیدہ دونوں میں مراسلت رہی۔ آخر جب باب نے دیکھا کہ یہ بحث مناظرہ میں طاق اور اپنی دھن میں پکی ہے تو اسے لکھ بھیجا کہ اب تم ملت بابیہ کی دعوت وتبلیغ شروع کر دو اور اس کے ساتھ باب نے اسے قرۃ العین (آنکھ کی پتلی) کا خطاب مستطاب بھی عطاء کیا۔ قرۃ العین بابیت میں ایسی راسخ العقیدہ نکلی کہ اس نے باب کی راہ محبت میں حب مال وعیال اور اسم ورسم کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لیں۔ حاجی مرزاجانی لکھتا ہے کہ قرۃ العین بابی مسلک کے نشر وابلاغ میں اور براہین وادلہ، مذہب کے پیش کرنے میں اس درجہ پر پہنچی ہوتی تھی کہ باب کے بڑے بڑے پیرو بھی جن میں سے بعض تو صفوۂ دہر اور سرآمد روزگار تھے۔ اس کے ادراک سے عاجز تھے۔ قرۃ العین نے پہلے گھر ہی میں تبلیغ کی طرح ڈالی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میاں بی بی میں بحث چھڑ گئی۔ ملا محمد نے لاکھ سرمارا لیکن بی بی کے خیالات بدلے نہ جا سکے۔ آخر شوہر نے اپنے باپ اور خسر سے شکایت کی۔ انہوں نے بھی قرۃ العین کو بہت سمجھایا۔ مگر وہ کسی طرح قائل نہ ہوئی۔ بلکہ باپ، چچا اور شوہر کی مخالفت پر آمادہ ہوئی۔ قرۃ العین نے شوہر سے ملنا جلنا بات چیت ترک کر دی۔ باپ نے بڑی کوشش کی کہ یہ کسی طرح اپنے میاں ملا محمد سے مصالحت کرے۔ لیکن قرۃ العین نے کسی طرح قبول نہ کیا۔ جب باپ کا اصرار بہت بڑھا تو کہنے لگی کہ میں طاہرہ ہوں۔ (باب نے اس کو طاہرہ کا خطاب بھی دیا تھا) اور میرا شوہر امر حق کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے
خبیث ومردود ہوگیا ہے۔ چونکہ ہمارے درمیان جنسیت نہیں رہی۔ اس لئے یہی باطنی عدم جنسیت طلاق وتفریق کا حکم رکھتی ہے۔ اس کے بعد اپنے باپ سے کہنے لگی کہ عہد رسالت میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ مکہ کی جو عورتیں حضرت رسول اﷲﷺ پر ایمان لائیں اور ان کے شوہر بدستور کافر رہے۔ پیغمبر خداﷺ نے انہیں بے طلاق دوسروں کے عقد ازدواج میں دے دیا۔
پردے کی پابندی
قرۃ العین نے بغیر اس کے کہ شوہر اور خسر کی اجازت یا عدم اجازت کی کچھ پروا کرے اپنے گھر میں ملت بابیہ کی دعوت وتبلیغ کی محفلیں گرم کرنی شروع کر دیں۔ جن میں خلقت کثیر جمع ہو جاتی۔ جب شوہر اور خسر کی طرف سے اس کام میں مزاحمتیں شروع ہوئیں تو کربلا چلی گئی۔ وہاں اس نے ایک مجلس درس قائم کی۔ اس مجلس میں پردے کا بڑا اہتمام تھا۔ مرد پس پردہ اور عورتیں پردہ کے اندر بیٹھ کر استفادہ وعظ کرتی تھیں اور خود بھی پس پردہ بیٹھ کر مصروف درس ہوتی تھی۔
(نقطۃ الکاف ص۱۳۹)
مولوی عبدالحلیم شرر لکھنوی مرحوم نے رسالہ قرۃ العین میں اس کو ایک آزاد خیال عورت بتایا ہے۔ جو برسر عام اپنے حسن کی نمائش کرتی تھی۔ چنانچہ شرر مرحوم لکھتے ہیں کہ: ’’قرۃ العین مزدک کی ہم آہنگ ہوکے کہتی تھی کہ عورتوں کے لئے جائز نہیں کہ کسی ایک ہی کی پابند کر دی جائیں اور دوسرے لوگ اس کے حسن وجمال کی لذت سے محروم کر دئیے جائیں۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور علم وفضل نے اس میں آزادی پیدا کر دی تھی۔ یہ خیال اس کے دل میں پیدا ہوتے ہی ترقی کرتا اور تبحر وتحقیق کے ساتھ بڑھتا گیا۔ اپنی تقریروں میں کہتی تھی کہ اس پردے کو پھاڑ کے پھینک دو۔ جو تمہارے اور تمہاری عورتوں کے درمیان حائل ہے اور انہیں خلوت سے جلوت میں لاؤ۔ عورتیں دنیوی زندگی کے باغ کے خوبصورت پھول ہیں اور پھول صرف اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ آغوش شوق میں رکھے اور سونگھے جائیں۔ وہ گلے لگانے اور لطف اٹھانے ہی کے لئے ہوتے ہیں اور کچھ ضرورت نہیں کہ سونگھنے اور لطف اٹھانے والوں کے لئے کیفیت ومقدار کی قیدیں لگائی جائیں۔ پھول کو جس کاجی چاہے لے اور سونگھے۔ کسی کو روکنے کا حق نہیں ہے۔ تبلیغی محفلوں میں وہ بے نقاب برآمد ہوکے سحربیانیاں کرتی۔ بہت سے لوگ محض اس کے رخ زیبا دیکھنے اور آنکھیں سینکنے کے شوق میں چلے آتے۔ حسن وجمال اور دلفریبی کی یہ حالت تھی کہ جس نے ایک دفعہ صورت دیکھ لی فریفتہ ہوگیا اور اسی کا دم بھرنے لگا۔ بڑے بڑے لوگ رعب حسن سے ایسے مغلوب ہوجاتے کہ اس کے سامنے لب ہلانے کی جرأت نہ ہوئی۔ مگر یہ بیان مبالغہ آمیز ہے۔ بابی مذہب
کی تمام کتابیں اس پر متفق اللفظ ہیں کہ نہ صرف وہ پردہ کی پابند تھی اور اس کے چہرے پر نقاب پڑی رہتی تھی۔ بلکہ وہ دوسری عورتوں کو بھی حجاب وتستر ہی کی تلقین کرتی تھی۔ پروفیسر براؤن لکھتے ہیں کہ میں نے صبح ازل سے پوچھا تھا کہ یہ جو مشہور ہے کہ قرۃ العین نے (دائرہ بابیت میں داخل ہونے کے بعد)برقہ اتار دیا تھا۔ اس میں کچھ صداقت ہے یا نہیں؟ صبح ازل نے جواب دیا کہ یہ غلط ہے کہ اس نے بے پردگی اختیار کر لی تھی۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ تقریروں میں فصاحت وخوش بیانی کی داد دیتے وقت بعض اوقات اپنے جذبات سے اس درجہ مغلوب ہو جاتی تھی کہ وہ چشم زدن کے لئے چہرے سے نقاب الٹ دیتی تھی۔ لیکن پھر معاً چہرہ ڈھانک لیتی تھی۔
(ایپی سوڈ اوف باب ص۳۱۴)
قرۃ العین نے کربلا میں جودرس قائم کر رکھا تھا۔ گو وہ بادی النظر میں مجلس درس وتدریس تھی۔ لیکن فی الحقیقت وہ اس کی آڑ میں بابیت کی تبلیغ کرتی تھی۔ جب کربلا میں اس کی تبلیغی سرگرمیوں کا شہرہ ہوا اور کربلا کے ترک حاکم نے دیکھا کہ اس کے شرکائے درس بابیت میں داخل ہوتے جارہے ہیں تو حاکم نے اس کے گرفتار کرنے کا قصد کیا۔ کہنے لگی میں مقام علم کی مدعی ہوں۔ تم اپنے علماء کو جمع کرو۔ تاکہ میں ان سے گفتگو کروں۔ آخر حاکم کربلا نے حکم دیا کہ جب تک اس کے متعلق بغداد سے حکم نہ آجائے کربلا سے باہر نہ جانے پائے۔ لیکن وہ کسی ترکیب سے کربلا چھوڑنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہاں سے اس نے سیدھا بغداد کا رخ کیا۔
حاجی ملا تقی قزوینی کا قتل
بغداد پہنچ کر اس نے مفتی اعظم سے ملاقات کی اور نہایت قابلیت کے ساتھ بابی تحریک پر روشنی ڈال کر باب کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔ اس کے بعد مفتی اعظم سے درخواست کی کہ وہ انہیں تبلیغ بابیت کی اجازت دیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اسلام کا مفتی بھلا اسے کیونکر اجازت دے سکتا تھا کہ وہ کھلے بندوں مسلمانوں کے متاع ایمان پر ڈاکے ڈالتی رہے۔ مفتی اعظم سے ناامید ہوکر وہ گورنر سے ملی اور تبلیغ کی اجازت چاہی۔ گورنر نے حکم دیا کہ تم ترکی عملداری سے نکل جاؤ۔ ناچار بغداد کو الواداع کہا لیکن بغداد سے نکلتے ہی اس نے بابیت کے ہنگامے برپا کر دئیے۔ وہ پاک کرمان شاہ اور کرمان شاہ سے ہمدان جاتے جاتے اس نے بہت لوگوں کو دائرہ بابیت میں داخل کیا۔ چنانچہ اس نے حسب بیان حاجی مرزاکاشانی توحید کے بعض اسرار ایسے مغلق ومبہم الفاظ میں بیان کئے کہ شیخ صالح عرب، شیخ طاہر واعظ، ملا ابراہیم محلاتی اور آقا سید محمد گلپایگانی ملقب بہ ملیح کے سوا کوئی نہ سمجھ سکا۔ جو لوگ اس کے فہم وادراک سے قاصر رہے۔ انہوں نے زبان رد وطعن دراز
کرتے ہوئے علی محمد باب کے نام شکوۂ آمیز خطوط روانہ کئے۔ باب نے ان شکووں کے جواب میں قرۃ العین کو طاہرہ کے خطاب سے مفتخر کیا اور اس کے آثار توحید کو منتسب الیٰ اللہ گردانا۔ یہ دیکھ کر تمام منکر بابی اپنے کئے پر پشیمان ہوکر توبہ واستغفار کرنے لگے۔ قرۃ العین نے ہمدان سے طہران جاکر محمد شاہ والی ایران کو وعظ ونصیحت کرنے کا قصد کیا۔ جب اس کے باپ حاجی ملا صالح کو اس کا علم ہوا تو وہ بھاگا ہوا آیا اور بیٹی کو اس خیال سے باز رکھ کر قزوین لے گیا۔ قرۃ العین تھوڑے دن توامن وسکون سے رہی۔ لیکن اس نے پھر حسب معمول بابیت کی رٹ لگانی شروع کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خسر اور شوہر میں پھر چپقلش شروع ہوئی۔ اب اس نے فتویٰ دے دیا کہ ملا تقی اور ملا محمد دونوں کافر اور واجب القتل ہیں۔ کیونکہ جو کوئی تبلیغ حق میں مانع ہو اس کا خون حلال ہے۔ یہ فتویٰ سن کر بابیوں میں بلا کا جوش پیدا ہوا اور ہر طرف ایک آگ سی لگ گئی۔ یہاں تک کہ ایک دن نماز فجر سے پہلے ہی چند سربکف بابی فدائی مسجد میں جاکر چھپ رہے اور جیسے ہی قرۃ العین کے خسر ملا محمد تقی محراب مسجد میں نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے بابی کمینگاہ سے نکلے اور نرغہ کر کے انہیں قتل کر ڈالا اور صرف جاں ستانی پر اکتفا نہ کیا۔ بلکہ ناک کان اور تمام اعضاء وجوارح جدا کر کے صورت کو بالکل مسخ کر دیا۔ اس خوفناک حادثہ پر شہر میں آگ سی لگ گئی۔ قرۃ العین کے خلاف ہر طرف طوفان غضب امنڈ آیا۔ لوگ ہتھیار لئے پھرتے تھے کہ قرۃ العین اور اس کے بابی پیروؤں کو جہاں پائیں ٹھکانے لگادیں۔ یہ رنگ دیکھ کر قرۃ العین نے اپنی عافیت اسی میں دیکھی کہ قزوین سے نکل بھاگے۔ چنانچہ جس قدر بابی مل سکے انہیں ساتھ لیا اور عام سڑکوں کو چھوڑ کر غیر معروف اور مجہول راستوں سے بھاگ کر اس مقام پر حدود خراسان میں داخل ہوئی جہاں ملا حسین بشرویہ نے سلطنت کے خلاف ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔
عبرتناک موت
اس اثناء میں اس نے سنا کہ باب کا زبردست داعی ملا محمد علی بارفروشی بھی اپنی جمعیت کے ساتھ اسی طرف آرہا ہے۔ جب بارفروشی وہاں پہنچا تو دونوں بڑی گرم جوشی کے ساتھ ایک دوسرے سے ملے اور باہم مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کارروائی کریں۔ بارہا دونوں میں تخلیہ ہوا اور زرین تاج کمال آزادی سے بارفروشی سے بے حجاب ملتی رہی۔ چنانچہ بابیوں کے اکثر مخالف واقعہ نگار اس کی اور بار فروشی کی تخلیہ کی ملاقاتوں کو ناجائز اور فاسقانہ تعلقات پر محمول کرتے ہیں۔ اب زریں تاج اور ملا بار فروشی نے ایک ہی محمل میں سوار ہوکر آگے کا سفر کیا۔ جب بدشت کے صحرا میں پہنچے تورات کو قزاقوں نے لوٹ لیا اور سب کو لنگوٹیاں بندھوا کے چھوڑ دیا۔ یہاں سے تمام بابی
بحال تباہ متفرق ومنتشر ہوگئے۔ جس کا جدھر سینگ سمایا اس طرف کو چلا گیا۔ اسی افراتفری میں ملا بارفروشی اور زریں تاج کا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔ ملا محمد علی تو بارفروش چلاگیا اور زریں تاج ادھر ادھر سرگردان پھرنے لگی۔ جب بابیوں کے لٹنے اور بحالت تباہ منتشر وپراگندہ ہونے کی خبر مازندران پہنچی تو لوگ بہت خوش ہوئے۔ اب تو یہ حالت ہوگئی کہ بابی جدھر کا رخ کرتے اور جس شہر میں جاتے سخت رسوائی کے ساتھ نکال دئیے جاتے۔ حاکم ساری کو تاج زریں کا حال معلوم ہوا تو پیادے بھیج کر اسے ساری میں طلب کرنا چاہا۔ لیکن وہ نور کو چلی گئی۔ کچھ مدت نور میں رہی۔ آخر باشندگان نور نے اسے گرفتار کر کے حکام کے حوالے کر دیا۔ حکام نے اسے طہران بھیج دیا۔ یہاں وہ محمود خاں کلاں ترکی کی حراست میں رکھی گئی اور اگست ۱۸۵۲ء تک جبکہ وہ قتل ہوئی ہے۔ اسی مکان پر رہی۔ گو محمود خاں کے مکان پر بظاہر نظر بند تھی۔ لیکن وہ مختلف بابیوں کے ساتھ شہر کے مختلف حصوں میں بارہا دیکھی گئی۔ جہاں وہ طرح طرح کے حیلے حوالے کر کے چلی جاتی تھی۔
دوڈھائی سال اسی طرح گذر گئے۔ آخر جب ناصر الدین شاہ پر قاتلانہ حملہ کیاگیا تو یہ بھی ان اٹھائیس ماخوذین میںداخل تھی جو واجب القتل ٹھہرائے گئے تھے۔ تاریخ نگار اس میں باہم مختلف البیان ہیں کہ قرۃ العین کس طرح ہلاک کی گئی؟ بعض کہتے ہیں کہ اس کا گلا گھونٹ کر اس کی نعش جلا دی گئی۔ بعض کا بیان ہے کہ باغ ایلخانی میں لے جا کر تانت سے اس کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے باغ لالہ زار میں ہلاک کیا گیا۔ بعض بیان کرتے ہیں کہ اسے قصر شاہی کے ایک باغ میں جسے نگارستان کہتے تھے لے جاکر دھکیل دیا گیا اور کوئیں کو پتھروں سے پاٹ دیا گیا۔
(ایپی سوڈ اوف دی باب ص۳۱۳، مطبوعہ کیمرج)
ایک بیان یہ ہے کہ اس کی زلفیں چاروں طرف سے کاٹ ڈالی گئیں اور چندیا کے گردا گرد سرمونڈ ڈالا گیا۔ پھر سرکے بیچ کے بال ایک خچر کی دم میں باندھے گئے اور لوگ اس طریقہ سے کھینچتے ہوئے اسے دارالقضا میں لائے۔ محکمہ قضاء نے حکم نافذ کیا کہ زندہ آگ میں جلا دی جائے۔ لیکن قاتلوں نے گلا گھونٹ کے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا اور مرنے کے بعد اس کی لاش آگ میں پھونک دی گئی۔ لیکن میرے نزدیک مؤخرالذکر روایت ناقابل اعتماد ہے۔ شرر مرحوم نے یہ لکھنے میں غلطی کی ہے کہ قرۃ العین علی محمد باب کے مارے جانے سے دوسال پیشتر ہلاک کی گئی۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ باب بتاریخ ۹؍جولائی ۱۸۵۰ء قتل ہوا تھا۔ (ایپی سوڈ اوف دی باب ص۴۵) اور قرۃ العین کو اگست ۱۸۵۲ء میں خاک ہلاک پر ڈالا گیا۔
(ایپی سوڈ اوف دی باب ص۳۱۳)
حضرت فاطمہؓ کے مظہر ہونے کا دعویٰ
قرۃ العین، سیدۃ النساء حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مظہر ہونے کی دعویدار تھی۔ اسے بابیت میں اتنا شغف اور غلو تھا کہ غیر بابیوں کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔ حاجی مرزاجانی کاشانی لکھتا ہے کہ راہ استدلال میں پہاڑ کی چٹان سے زیادہ مضبوط تھی اور اسی کا اثر تھا کہ لوگ اسے بابی مذہب کا رکن رابع یقین کرتے تھے۔ حسب بیان حاجی مرزاجانی قرۃ العین کو کسی امام معصوم کی ایک حدیث پہنچی تھی کہ جو کوئی ہمارے کامل شیعوںکو دشنام سے یاد کرے گا وہ گویا ہم پر سب وشتم کرے گا اور جو ہمیں دشنام دے گا وہ گویا رسول اﷲﷺ کو گالی دے گا اور ایسا شخص ناصبی، کافر اور نجس ہوگا۔ اسی بناء پر وہ بابیوں کے سوا ہر شخص کو کافر اور ناپاک سمجھتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ بازار کی پکی ہوئی چیزیں حرام سمجھ کر نہ کھاتی تھی۔ لیکن اس نے ان مزعومہ حرام ونجس چیزوں کے پاک کرنے کا ایک ڈھکوسلہ بھی بنارکھا تھا۔ چنانچہ کہتی تھی کہ میری آنکھ حضرت سیدۃ النساءؓ کی چشم مبارک کا حکم رکھتی ہے۔ میں جس نجس اور ناپاک چیز پر ایک نظر ڈال دوں وہ پاک وطاہر ہو جاتی ہے۔ کیونکہ مطہرات یعنی پاک کرنے والی چیزوں میں آل اللہ کی نظر بھی داخل ہے۔ چنانچہ اپنے بابی معتقدین سے کہا کرتی تھی کہ جو چیز بازار سے خریدو وہ میرے پاس لے آؤ۔ تاکہ میں اس پر نظر ڈالوں اور وہ حلال وطیب ہو جائے۔
(نقطۃ الکاف ص۱۴۱،۱۴۲)
قرۃ العین بحیثیت قادر الکلام شاعرہ
قرۃ العین بحیثیت شاعرہ ایران میں بڑی شہرت رکھتی ہے۔ پروفیسر براؤن وغیرہ کو باوجود تفحص بسیار اس کے دو ہی قصیدے مل سکے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔ باب نے اس کو طاہرہ کا لقب دیا تھا۔ اس نے اسی کو اپنا تخلص قرار دے لیا تھا۔
قصیدۂ اوّل
نفحات وصلک او قدت جرات شوقک فی الحشا
زغمت بہ سینہ کم آتشے کہ نہ زد زبانہ کماتشا
جذبات شوقک الجمت بسلاسل الغم والبلا
ہمہ عاشقان شکستہ دل کہ دہند جان برہ بلا
لمعات وجھک اشرقت وشعاع طلعتک اعتلیٰ
زچہ روالست بربکم نزنی؟ بزن کہ بلیٰ بلیٰ
اگر آن صنم زرہ ستم پئے کشتن من بے گناہ
لقد استقام بسیفہ فلقد رضیت بما رضیٰ
توکہ غافل ازمے وشاہدی پئے مرد عابد وزاہدے
چہ کنم کہ کافر وجاحدی زخلوص نیت اصطفا
تووملک وجاہ سکندری من ورسم وارہ قلندری
اگرآں خوش ست تودرخوری وگرایں بدست مراسزا
من وعشق آن مہ خوبروکہ چوزد صلاے بلابرو
کہ نشاط وقہقہ شد فرو کہ انا الشہید بکربلاء
بجواب طبل الست توزدلا چوکوس بلیٰ زدند
ہمہ خیمہ زد بدردلم سپہ غم وحشم وبلا
چہ شود کہ آتش حیرتے بزنی بقلۂ طور دل
فصککت ودککت متدکد کا متزلزلا
پئے خوان دعوت عشق اوہمہ شب زخیل کروبیاں
رسد ایں صفیر مہیمنے کہ گروہ غمزدہ الصلا
ہلہ اے گردہ امامیاں بکشید ولولہ رامیاں
کہ ظہور دلبر ماعیاں شدہ فاش وظاہر وبرملا
گرتاں بود طمع بقا درتاں بود ہوس لقا
زوجود مطلق مطلقا برآن صنم بشویدلا
طلعت زقدس بشارتے کہ ظہور حق شدہ برملا
بزن اے صبا توبمحضرش بگروہ زندہ دلاں صدا
چوشنید نالۂ مرگ من پئے ساز من شدو برگ من
فمشیٰ الی مہرولاً وبکیٰ علے مجلجلاً
ہلہ اے طوائف منتظرز عنایت شہ مقتدر
مہ مفتخر شدہ مشہر متبہیا متہللا
دو ہزار احمد مجتبیٰ زبروق آن شہ اصفیا
شدہ مختفی شدہ در خفا متدثراً متزملا
توکہ فلس ماہئے حیرتی چہ زنی زبحر وجود دم
بنشیں چوطاہرہ دمبدم بشنو خروش نہنگ لا
طلعات قدس بشارتی کہ جمال حق شدہ برملا
بزن مے صبا تو بساحتش بگروہ غمزدگان صلا
شدہ طلعت صمدی عیاں کہ بپا کند علم بیاں
زگمان ووہم جہانیاں جبروت اقدس اعتلا
بسریر عزت وفخر شان بنشستہ آں شہ بے نشاں
بزدآں صلا ببلاکشاں کہ گروہ مدعی الولا
چوکسی طریق مرارود کنمش ندا کہ خبر شود
کہ ہر آنکہ عاشق من شود زہد زمحنت وابتلا
کسی نہ کرداطاعتم نہ گرفت حبل ولایتم
کنمش بعید زساحتم دہمش بقہر ببادلا
صمدم ز عالم سرمدم احدم زمنبع اوحدم
پئے اہل افئدہ آمدم ہلم الینا مقبلا
قبسات نار مشیتی نادت الست بربکم
بگذر بساحت قدسیاں بشنوصفیر بلیٰ بلیٰ
منم آن ظہور مہیمنی منم آں منیت بے منی
منم آں سفینۂ ایمنی ولقد ظہرت مجلجلا
شجر مرقع جاں منم ثمرعیاں ونہاں منم
ملک الملکوک جہاں منم ولی البیان وقد علا
شہدائے طلعت نارمن بددید سوئے دیار من
سروجاں کنید شارمن کہ منم شہنشہ کربلا
بزنید نغمہ زہر طرف کہ زوجہ ماطلع ماعرف
رفع القناع وقد کشف ظلم اللیال قد انجلیٰ
برسید باسپہ طرف صنمی عجم صمدے عرب
بدمید شمس ہدیٰ غرب بدوید الیہ مہرولا
فوران نارز ارض فانواران نورزشہرطا
ظہران روح زشطرھا ولقد علاوقداعتلا
طیرالعماء تکفکفت ورق البہاء تصفصفت
دیک الضیاء تذورقت متجملاً متجللاً
ذظہور آن شہ آلیہ زالست آں مہ بار
شدہ آلہہ ہمہ والہہ ننغیات بلیٰ بلیٰ
بتموج آمدہ آں یمے کہ بکر بلاش بحرمے
متظہراست بہردمے دوہزار وادئے کربلا
زکمان آں رخ پردلہ زکمندآں مہ دہ ولہ
دوہزار فرقہ وسلسلہ متفرقاً متسلسلا
ہمہ موسیاں عمائیش ہمہ عیسیان سمائیش
ہمہ دلبران بقائیش متولہا متزملا
بحرالوجود تموجت لعل الشہود تولجت
صعق الحمود تلجلجت بلقائہ متجملا
تلل جمال زطلعتش قلل جبال زرفعتش
دول جلال زسطوش متخشعا متزلزلا
دلم ازدوزلف سیاہ اوز فراق روی چوماہ او
بتراب مقدم راہ اوشدہ خون من متبلبلا
زغم تواے مہ مہربان زفراقت ای شہ دلبران
شدہ روح ہیکل جسمیان متحففا منخلخلا
تودآں تشعشع روے خود توآں ملمع موے خود
کہ رسانیم توبکوے خود متترعاً متعجلاً
نہ چوزلف غالیہ بار اونہ چوچشم فتنہ شعاراو
شدہ نافۂ بہمہ خستن شدہ کافرے بہمہ خطا
سحر آن نگار ستمگرم قدمے نہادہ بہ بسترم
واذا رایت جمالہ طلع الصباح کانما
بمراد زلف معلقی پے اسپ وزین مغرقی
ہمہ عمرمنکر مطلقی زفقیر فارغ بے نوا
بگذر زمنزل ماومن بگزیں بملک فنا وطن
فاذا فعلت بمثل ذا فلقد بلغت بماتشاء
چوشکنج زلف توپرشکن گرہے فتادہ بکارمن
بگرہ کشائی زلف خود کہ زکار من گرہے کشا
ہمہ اہل مسجد وصومعہ پئے درد صبح ودعائے شب
من وذکر طرہ طلعت تومن الغداۃ الی العشا
قصیدہ دوم
گربتوا فتدم نظر چہرہ بچہرہ روبرو
شرح دہم عم ترانکتہ بنکتہ موبمو
ازپے دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام
خانہ بخانہ دربدر کوچہ بکوچہ کو بکو
دوروہان تنگ توعارض عنبریں خطت
غنچہ بغنچہ گل بگل لالہ بلالہ بو ببو
میرود از فراق توخون دل ازدودیدہ ام
دجلہ بدجلہ یم بیم چشمہ بچشمہ جو بجو
مہرترا دل حزیں بافتہ برقماش جاں
رشتہ برشتہ نخ بنخ تار بتار پوبپو
دردل خویش طاہرہ گشت ونیافت جزترا
صفحہ بصفحہ لا بلا پردہ بپردہ تو بتو
یہ قصائد علی محمد باب کی حمد وثناء اور اس کے اشتیاق ملاقات میں کہے گئے ہیں۔ ان اشعار میں جو فصاحت وبلاغت بلند خیالی اور شوکت الفاظ ہے۔ یقین ہے کہ وہ قارئین سے خود خراج تحسین وصول کر لے گی۔
باب۶۵ … شیخ بھیک اور شیخ محمد خراسانی
دومسیحان کاذب
بعض ناواقف گمان کرتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی ہی وہ حضرت ہیں جنہوں نے ہندوستان میں سب سے پہلے علم مسیحیت بلند کر کے خلق خدا کو گمراہ کیا۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ ان سے پہلے بھی سرزمین ہند میں مسیحان کذاب گزر چکے ہیں۔ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ سید محمد جونپوری نام ایک صاحب نے جنہیں ان کے پیرو میراں جی کہا کرتے تھے۔ ۹۰۱ھ میں یعنی آج سے قریباً ساڑھے چار سو سال پہلے ہندوستان میں مہدویت کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کے پیرو مہدوی کہلاتے ہیں۔ احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ظہور مہدی علیہ السلام کے کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح علیہ السلام نازل ہوںگے۔ جب سید محمد جونپوری کو دعوائے مہدویت کئے کچھ عرصہ گذر چکا تو ان کے پیرو حضرت مسیح علیہ السلام کی تشریف آوری کے لئے چشم براہ ہوئے۔ لیکن ان کے خلاف توقع مسیح علیہ السلام نے قدم رنجہ نہ فرمایا۔ کیونکہ ان کی تشریف آوری سچے مہدی علیہ السلام کے ظہور کے ساتھ وابستہ ہے۔ آخر سید جونپوری کے مریدوں میں سے ایک شخص شیخ بھیک نام مسیحیت کا مدعی بن بیٹھا۔ (شیخ بھیک اور شیخ محمد خراسانی کا تذکرہ سید محمد جونپوری کے بعد درج ہونا چاہئے تھا۔ لیکن غلطی سے قلم انداز ہوگیا۔ اس لئے مجبوراً یہاں قلمبند کیاگیا ہے)
لیکن ظاہر ہے کہ جب تک شیخ بھیک کو سید جونپوری کی بارگاہ سے مسیحیت کی سند صداقت نہ ملتی وہ مہدویہ میں سچا مسیح تسلیم نہیں کیاجاسکتا تھا۔ جب شیخ بھیک، میراں جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میراں جی نے فرمایا کہ تجھ کو عیسیٰ کس نے بنایا؟ اس نے کہا اسی نے جس نے آپ کو مہدی بنایا۔ میراں جی نے کہا تو جھوٹا مسیح ہے۔ کیونکہ تیری ماں تو فلانی تھی۔ آنے والے عیسیٰ تو مریم کے فرزند ہوںگے اور ڈانٹ کر کہا کہ اگر تو پھر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ شیخ بھیک پر اس وقت تو اس وعظ کا کچھ اثر نہ ہوا۔ لیکن چند روز کے بعد خود ہی اس دعویٰ سے رجوع کر لیا۔ میراں جی نے کہا کہ اب بالائے آسمان سے کس طرح اتر آئے؟ پھر خود ہی کہہ دیا کہ ہاں یہ بھی ایک مقام تھا۔
(ہدیہ مہدویہ ص۱۷۳)
مہدویہ میں سید محمد جونپوری کی رحلت کے بعد دو اور خانہ ساز مسیحان موعود کا پتہ چلتا ہے۔ حسب بیان مولانا محمد زمان خاں شہید مہدویہ کی ایک کتاب انصاف نامۂ کے اٹھارویں باب میں لکھا ہے کہ سید محمد جونپوری کے ایک خلیفہ خوند میر کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میاں خوند میر نے فرمایا
کہ میں آج رات بتوجہ تمام بیٹھا تھا اور میراں جی کو بچشم خود دیکھتا تھا۔ میں نے پوچھا میراں جی! مہتر عیسیٰ کس وقت آئیںگے؟ فرمایا نزدیک۔ میں نے پوچھا آپ کے ساٹھ سال بعد آئیںگے؟ کہا نزدیک۔ پھر پوچھا آپ کے پچاس برس بعد آئیںگے؟ فرمایا نزدیک۔ پوچھا آپ سے چالیس برس کے بعد آئیںگے؟ کہا نزدیک۔ میں نے دریافت کیا کہ تیس سال بعد آجائیںگے؟ فرمایا نزدیک۔ پوچھا دس سال کے بعد آجائیںگے؟ کہا نزدیک۔ اس کے بعد ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ یہ دیکھو مہتر عیسیٰ حاضر ہیں۔ خود ان سے پوچھ لو۔ میاں خوند میر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی اور بہت سی باتیں دریافت کیں۔ لیکن یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ کب تشریف لائیںگے؟ اس مکاشفہ کے بیس سال بعد جونپوری کے ایک مرید شیخ محمد خراسانی نے سندھ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ اسلامی حکومت تھی۔ اس قسم کی فتنہ پردازی ایک منٹ کے لئے برداشت نہیں کی جاسکتی تھی۔ خراسانی زیر حراست کر لیا گیا اور بادشاہ شریعت پناہ کے حکم سے اس کا سرقلم کیاگیا۔
(ہدیہ مہدویہ ص۱۷۲،۱۷۳)
اسلامی سلطنتوں میں فتنہ پرداز مسیحوں اور خانہ ساز مہدیوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ اسی انجام کے پیش نظر مسیح قادیان نے نہ کبھی حج کے لئے مکہ معظمہ جانے کی جرأت کی اور نہ امیر افغانستان کی دعوت پر سرزمین افغانستان کا رخ کیا۔
ایک اور مسیح دجال
اسی انصاف نامہ میں مذکور ہے کہ جونپوری کے مریدوں میں ابراہیم بزلہ نے بھی عیسویت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس سے بھی یہی کہاگیا کہ آنے والے عیسیٰ تو مریم کے فرزند ہیں اور تیرے ماں اور باپ فلاں ہیں۔
(ہدیہ مہدویہ ص۱۷۳)
معلوم نہیں کہ میاں بزلہ اس کے بعد تائب ہوگیا یا مرزغلام احمد قادیانی کی طرح اپنی ہٹ پر قائم رہ کر بدستور اغوائے خلق میں مصروف رہا؟
باب۶۶ … مؤمن خاں اچی
مؤمن خاں اچی جسے حاجی مرزاجانی کاشنی اور دوسرے بابیوں نے مؤمن ہندی کے نام سے یاد کیا۔ سید جلال الدین بخاریؒ کے خانوادہ میں سے تھا۔ جو اچ میں کاملین عرفاء میں سے گذرے ہیں۔ سات سال کی عمر میں چیچک یا کسی دوسرے عارضہ سے اندھا ہوگیا تھا۔ اس کا رجحان طبع دین کے بجائے
دنیا کی طرف زیادہ تھا۔ اس لئے اوائل عمر میں دینی علوم کی بجائے دنیوی علوم کی تحصیل میں منہمک رہا۔ علم طب، نجوم جفر اور صناعت میں یدطولیٰ رکھتا تھا۔ متعدد زبانیں جانتا تھا۔ بیس سال کی عمر میں حج بیت اللہ کا قصد کیا۔ جب بمبئی پہنچا تو بدنصیبی سے وہاں کسی بابی سے ملاقات ہوگئی۔ اس بابی نے بتایا کہ ایران میں ایک جلیل القدر ہستی نے مقام بابیت کا دعویٰ کیا ہے۔ بابی نے اپنے مقتداء کے من گھڑت فضائل میں اتنا مبالغہ کیا کہ مؤمن دام فریب میں آگیا اور بن دیکھے اس کا والہ وشیدا ہوگیا۔ شومی قسمت نے کہا کہ جس طرح تو آنکھوں کا اندھا ہے۔ اسی طرح دل کا بھی اندھا کر کے چھوڑوںگی۔ سؤ اتفاق سے باب بھی اس سال مکہ معظمہ آیا ہوا تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں اس کو نقد ایمان دے بیٹھا۔ دوسرے لوگ بیت اللہ جاکر کسب سعادت کرتے اور اپنی مغفرت کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ لیکن اس بدنصیب نے وہاں جاکر شقاوت وضلالت سے اپنے جیب وداماں بھر لئے۔ اس نے بابیت کیا پائی، گویا اس کو گم گشتہ جواہر ولآلی مل گئے۔ مراجعت وطن کا خیال ترک کر کے ایران کا قصد کیا اور ہمیشہ کے لئے وہیں کا ہو رہا۔ جن ایام میں بابیوں نے مازندران میں اودھم مچارکھا تھا۔ مؤمن ان دنوں وہاں پہنچا۔ ہر چند کوشش کی کہ قلعہ میں داخل ہوکر بابیوں میں شامل ہو جائے۔ مگر کامیاب نہ ہوا۔ انہی دنوں میں ایک شخص مرزامصطفیٰ کرد مؤمن کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگیا۔ مؤمن نے اس کی رفاقت میں گیلان کا سفر کیا۔ اہل گیلان نے ان کی بڑی مخالفت کی۔ گیلان سے انزلی گئے۔ مؤمن نے وہاں پہنچ کر بڑی سرگرمی سے بابیت کا نغمہ چھیڑ دیا۔ وہاں کے باشندوں کو اس درجہ ناگوار ہوا کہ خوردونوش کے مہیا کرنے سے انکار کردیا۔ جب اس پر بھی اندھا وہاں سے نہ ٹلا تو لوگوں نے آدھی رات کے وقت وہاں سے جبراً نکال دیا۔ یہاں سے قزوین اور قزوین سے طہران گیا۔ وہاں صبح ازل اور بہاء اللہ سے ملاقات ہوئی۔ بہاء اللہ نے یہ دیکھ کر کہ یہ باب کے طریقۂ محبت میں صادق ہے۔ بہت کچھ نوازشیں کیں۔ صبح ازل نے اسے برعکس نہند نام زنگی کافور کے حسب مصداق بصیر (بینا) کے نام سے موسوم کیا۔ کچھ دنوں کے بعد مؤمن رجعت حسنی کا دعویدار ہوا اور اپنے اس دعویٰ کے متعلق صبح ازل اور بہاء اللہ کو اطلاع دی۔ صبح ازل نے اس دعویٰ کی تصدیق کی اور جواب خط میں ابصرالابصر (بیناؤں میں سب سے بڑا بینا) کا خطاب دیا۔ صبح ازل نے اندھے کے نام جو عربی خط لکھا اس میں یہ الفاظ بھی تھے۔’’یا حبیب انا قد اصطفیناک بین الناس‘‘ اے حبیب! ہم نے تمہیں لوگوں میں سے منتخب وبرگزیدہ بنالیا ہے۔ اس دعویٰ کے بعد ارض قاف کا رخ کیا۔ وہاں بھی بہت سی مخلوق اس کی حرارت محبت میں جذب ہوکر گمراہ ہوئی۔
بابیوں کے پروردگار
بابیوں کی ایک نہایت شرمناک کجروی یہ تھی کہ وہ علی محمد باب کو بے تکلف پروردگار عالم اور رب اکبر کے خطاب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ جس سے خیال ہوتا ہے کہ شاید وہ اسی کو اپنا خالق ورازق یقین کرتے ہیں۔ حاجی مرزاجانی لکھتا ہے۔ زمانے کہ حکم از حضرت رب الاعلیٰ یعنی جناب ذکر علیہ السلام (علی محمد باب) صادر شدہ بودکہ اصحاب بخراسان بردند۔
(نقطۃ الکاف ص۲۴۰)
اسی طرح جب کور چشم وکور دل مؤمن ہندی ارض قاف سے چل کر چہریق پہنچا تو اس نے باب کو دیکھتے ہی ہذا ربی (یہی میرا پروردگار ہے) کا نعرہ لگایا اور بے خود ہوگیا اور حسب بیان حاجی مرزاجانی کاشانی گریہ وزاری کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کیا۔ ’’انا القائم الذی ظہر‘‘ (میں قائم ہوں جو ظاہر ہوگیا ہوں) مؤمن چہریق سے سلماس آیا اور قائم ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ سیکڑوں ہزاروں خوش اعتقاد جان نثاری پر آمادہ نظر آئے۔ مؤمن نہایت نظیف لباس پہنتا تھا۔ حسب بیان حاجی مرزاجانی اس نے ایسی لطافت طبع بہم پہنچائی تھی کہ غذا تک نہ کھا سکتا تھا۔ اس کی تقلیل غذا کا یہ عالم تھا کہ چالیس دن کے بعد گلاب اور قند تناول کرتا۔ خلاصہ یہ کہ ان حدود میں اس نے خوب پاکھنڈ رچایا۔ لوگ جوق در جوق آتے اور اس کی کمند خدع میں پھنستے جاتے تھے۔ جب یہ خبر حاکم خوی کو ہوئی تو اس نے اندھے اور اس کے دو مشہور پیروؤں شیخ صالح عرب اور ملا حسین خراسانی کو بلا بھیجا۔ اندھا حاکم کے سامنے جاکر اکڑنے لگا اور قائمیت کا دعویٰ کر کے بولا میں چنیں وچناں کر ڈالوں گا۔ حاکم نے غضبناک ہوکر حکم دیا کہ تینوں کو بید لگائے جائیں۔ چنانچہ حکم کی دیر تھی۔ بید پڑنے لگے۔ جب تک حواس قائم رہے تینوں بید کی ہر ضرب پر ’’انی انا اﷲ‘‘ (بلا شبہ میں خدا ہوں) پکارتے رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف باب ہی ان کا خدا نہ تھا۔ بلکہ وہ نابکار خود بھی (معاذ اللہ) خدا ہی بنے پھرتے تھے۔ صالح عرب کی خدائی کا تو وہیں خاتمہ ہوگیا۔ یعنی پٹتے پٹتے ڈھیر ہوگیا۔ باقی دونوں کو اپنی خدائی دعویٰ سے باز آنے کے لئے باربار کہاگیا۔ مگر وہ ہر دفعہ یہی جواب دیتے تھے کہ ہم منافق نہیں ہیں کہ مار سے ڈر کر اپنے خیالات سے رجوع کر لیں۔ ہم نے جام محبت پیا ہے۔ اس شراب کا نشہ کبھی نہیں اتر سکتا۔ آخر اندھے اور اس کے مرید ملا خراسانی کے سر منڈائے گئے۔ (ڈاڑھیاں شاید پہلے ہی چٹ ہوںگی) اور گدھوں پر سوار کرا کے خوب تشہیر کی گئی۔ غرض ان کی خدائی کی خوب مٹی پلید ہوئی۔ لیکن وہ کسی طرح باز نہ آئے۔ اندھے کو توارزن الروم بھیج دیا گیا۔ دوسرے کا حال معلوم نہیں۔
دو بابی مذہبی پیشواؤں کا دلچسپ جھگڑا
جس طرح دو بادشاہ اپنی اپنی عظمت واقتدار کے لئے لڑتے ہیں۔ ہر ایک دوسرے سے یہ منوانا چاہتا ہے کہ تم چھوٹے اور ہم بڑے ہیں۔ اسی طرح تقدس کے جھوٹے دعویداروں کی ساری کائنات چونکہ زبانی جمع خرچ ہوتی ہے۔ اس لئے وہ بھی باہم دست وگریبان رہتے ہیں اور دوسروں کی نفی کر کے خود بڑا بننا چاہتے ہیں۔ حالانکہ جس کسی کا دل معرفت الٰہی کے نور سے جگمگا رہا ہو وہ ہمیشہ خاکساری کا شیوہ اختیار کرتا ہے اور اپنے آپ کو خدا کی تمام مخلوق سے ادنیٰ اور کمتر سمجھتا ہے۔ مؤمن ہندی اور علی عظیم خراسانی نام ایک بابی میں بہت دن تک چپقلش جاری رہی۔ حاجی مرزاجانی نے اس اختلاف ونزاع کی تفصیل یہ لکھی ہے کہ علی عظیم کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ باب حضریتیں، حبیب ثمرۃ الازلیہ اور سلطان منصور ہے۔ اس لئے تمام مخلوق کا مطاع ہے۔ مؤمن ہندی کہتا تھا کہ تمہاری عزت کا سبب دو چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ تم آنحضرت (علی محمد باب) کی عبودیت اور قرب کے مدعی ہو۔ دوسرے تمہیں یہ دعویٰ ہے کہ تمہارے نفس کے آئینہ عبودیت میں آنجناب (علی محمد باب) کے شمس بابیت کے آثار حقہ ظاہر ہوتے ہیں۔ تمہارے دونوں دعوے حق ہیں اور تمہارے پاس ظاہری نص (علی محمد باب کا فرمان) بھی موجود ہے اور میں بھی ان دونوں باتوں کا مدعی ہوں اور یہ میزان بھی حق ہے۔ لیکن میرا گمان یہ ہے کہ چونکہ اس شمس عزت کے جلال کے پہلو میں میری عبودیت وفنا کا درجہ بڑھا ہوا ہے۔ اس لئے آنحضرت کے آثار ربوبیت جو فطری آیات میں جاری ہوئے ہیں۔ اعظم آیات ہیں۔ چھ مہینے تک دونوں کا جھگڑا چلتا رہا۔ آخر عظیم نے رواداری سے کام لے کر مؤمن کے دعاوی کو تسلیم کر لیا۔
(نقطۃ الکاف ص۲۵۹،۲۶۰)
بابیوں کا عقیدۂ تناسخ
بابی لوگ قیامت کے منکر اور ہنود کی طرح تناسخ ارواح کے قائل تھے۔ ایک مرتبہ کتا بھونک رہا تھا۔ اندھا بے دین کہنے لگا کہ یہ کتا فلاں شخص کی رجعت ہے۔ وہ شخص اس کے پیکر میں معذب ہو رہا ہے۔ حاجی مرزاجانی کاشانی لکھتا ہے کہ اس کے بعد مؤمن ہندی نے اس کے مکان کا پتہ نشان بتا کر کہا کہ اس کا مکان یہاں سے سترہ گھر چھوڑ کر واقع ہے۔ متوفی کے اتنے بیٹے ہیں اور میرے قول کے صدق کی یہ یہ نشانیاں ہیں۔ جب تفحص کیاگیا تو سب باتیں بے کم وکاست صحیح ثابت ہوئیں۔
(نقطۃ الکاف ص۲۵۸)
لیکن میں کہتا ہوں کہ اندھا اور اس کا مداح جانی میاں جو چاہیں کہیں اور لکھیں کوئی کسی کی زبان اور قلم کو روک نہیں سکتا۔ لیکن ظآہر ہے کہ آج تک کوئی شخص اس قسم کے مہمل اور
بعید از قیاس دعویٰ کر کے ان کا کوئی ثبوت کبھی پیش نہیں کر سکا۔ آئے دن لاہور کے ہندو جرائد اس قسم کے من گھڑت افسانے شائع کیا کرتے ہیں کہ فلاں مقام پر ایک خوردسال ہندو لڑکی اپنے پچھلے جنم کے واقعات سناتی ہے۔ لیکن ان سے سوال یہ ہے کہ ہمیشہ ہندو لڑکیاں ہی ایسے مہمل قصے کیوں سناتی ہیں۔ مسلمان یا عیسائی یا یہودی لڑکیاں کیون نہیں سناتیں؟ اور جب ایک بے تمیز خورد سال لڑکی اپنی گذشتہ زندگی کے حالات سناسکتی ہے تو تم باتمیز اور عاقل وبالغ ہوکر اپنی تاریخ کیوں نہیں پیش کردیتے؟ اگر گاندھی جی یا مالوی جی یا منجی جی یا دوسرے ہنود کو اس قسم کا دعویٰ ہو تو وہی اپنی حیات سابقہ کے حالات وواقعات شائع کر دیں۔ اصل یہ ہے کہ تولہ بھر کی زبان ہلا کر یا دو تین ماشہ کا قلم چلا کر بے پرکی ہانک دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ لیکن دیانت داری اور راست بازی کے ساتھ کبھی کوئی شخص اپنی مزعومہ سابقہ زندگی کا ہرگز دعویٰ نہ کر سکے گا۔ اندھے نے کتے کا سابقہ جنم تو بھانپ لیا۔ لیکن اس نے یہ کبھی نہ بتایا کہ خود وہ پہلے کہاں کس پیکر میں اور کس حالت میں تھا؟ جس طرح اندھے نے کسی کتے کو بھونکتے دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ فلاں شخص ہے اور اس کے اتنے بیٹے تھے۔ اسی طرح ہر شخص کسی کتے کو دیکھ کر ازراہ کذب وزور کہہ سکتا ہے کہ یہ فلاں متوفی شخص ہے۔ فلاں گھر میں جو بیوہ ہے وہ اسی کی منکوحہ تھی۔ فلاں گھر کے لڑکے اور لڑکیاں سب اسی کی اولاد ہیں۔ غرض یہ ایک مضحکہ خیز دعوی ہے۔ جسے کوئی ذی عقل وخرد اصلا قابل التفات نہیں سمجھتا۔
اندھے کی اندھی پیشین گوئیاں
حاجی مرزاجانی لکھتا ہے کہ شجرۂ مبارکہ ازلیہ کے ظہورات میں سے دوسرا ظہور آقا سید مؤمن ہندی کا تھا۔ اس کی کوشش سے ترکستان میں بابی مذہب کو بہت کچھ ترقی نصیب ہوئی۔ اس نے جو کچھ دعویٰ اور پیش گوئیاں کیں۔ ان کا ظہور ضرور ہوگا۔ لیکن اگر وہ باتیں اس دورہ میں مقدر نہیں تو پھر کسی دوسرے ہیکل ورجعات میں جو امام کا مظہر ہوگا ظاہر ہوںگی۔ کیونکہ مؤمن نے جو کچھ دعویٰ کئے، لسان حق سے کئے۔ حق ہی اس کے اندر بول رہا تھا۔ پس چونکہ لسان اللہ تھی۔ ’’ان اللہ لا یخلف المیعاد‘‘ کے بموجب وہ خدائی وعدے کسی نہ کسی دن ضرور پورے ہوکے رہیں گے۔
(نقطۃ الکاف ص۲۱۲، ۲۱۴)
لیکن یاد رہے کہ ہندی اندھے کے اندر اسی طرح حق بول رہا تھا۔ جس طرح مرزاغلام احمد قادیانی کے اندر بولا کرتا تھا۔ اس لئے میرے خیال میں مناسب ہے کہ پیشین گوئیوں کے غلط نکلنے پر حضرت مسیح موعود کو بھی مؤمن ہندی کے ساتھ شامل کر دینا چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ جو
کچھ دعویٰ اور پیش گوئیاں ان دونوں نے کیں ان کا ضرور ظہور ہوگا۔ لیکن اگر وہ باتیں اس دور میں مقدر نہیں تو دس بیس ہزار سال بعد ظاہر ہو جائیںگی۔ بابیوں اور مرزائیوں کو گھبرانا نہیں چاہئے۔
باب۶۷ … مرزا یحییٰ نوری معروف بہ صبح ازل
مرزایحییٰ نوری معروف بہ صبح ازل علی محمد باب کا وصی وجانشین تھا۔ موضع نور علاقہ مازندران میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ مرزاعباس جوشاہ ایران کی مجلس وزارت کا ایک رکن تھا۔ مرزابزرگ نوری کے لقب سے مشہور تھا۔ مرزابزرگ نوری کے دو بیٹے تھے۔ جن کی مائیں الگ الگ تھیں۔ بڑے کا نام مرزا حسین علی ملقب بہ بہاء اللہ اور چھوٹے کا نام مرزا یحییٰ ملقب بہ صبح ازل تھا۔ ازل کی ماں اس کی طفولیت میں مرگئی۔ گو اس کے باپ نے اپنی دوسری بی بی کو تاکید کر رکھی تھی کہ ازل کو اپنے بچے کی طرح پرورش کرے۔ مگر وہ اس سے سوتیلی ماؤں ہی کا ساسلوک کرتی رہی۔ حاجی مرزاجانی بابی نقطۃ الکاف میں لکھتا ہے کہ ایک رات اس نے خواب دیکھا کہ حضرت خاتم الانبیاءﷺ اور جناب امیر المؤمنین علیؓ اس کے گھر تشریف لائے۔ ازل کا منہ چوما اور فرمایا یہ طفل ہمارا بچہ ہے۔ اس کی اس وقت تک اچھی حفاظت کرو۔ جب تک وہ ہمارے قائم علیہ السلام (علی محمد باب) کے پاس نہ پہنچ جائے۔ اس رؤیا کے بعد وہ اسے اپنی اولاد سے زیادہ چاہنے لگی۔
(نقطۃ الکاف ص۲۳۸، ۲۳۹)
مگر ظاہر ہے کہ یہ قصہ بالکل من گھڑت اور کسی بابی کا دماغی اختراع ہے۔ کیونکہ علی محمد باب اور اس کے تمام پیرو انتہاء درجہ کے زندیق اور بنائے دین کے منہدم کرنے والے تھے۔ اس لئے یہ قطعاً ناممکن تھا کہ حضور خیر الوریٰﷺ اور امیر المؤمنین علی مرتضیٰؓ کسی رافضیہ کے خواب میں آکر کسی بے دین کی کفالت وخبرگیری کی تاکید فرماتے۔ گو حاجی مرزاجانی نے لکھا ہے کہ صبح ازل ہی من یظہرہ اللہ تھا۔
(نقطۃ الکاف ص۲۴۴)
لیکن معلوم نہیں کہ خود ازل بھی کبھی اس منصب کا مدعی ہوا تھا یا نہیں؟ بابی لوگ مرزایحییٰ کے صبح ازل سے ملقب ہونے کی یہ مضحکہ خیز اور من گھڑت وجہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے صبح ازل سے درخشندگی پائی تھی۔
باب کی جانشینی
صبح ازل نے اپنے بابی ہونے کا حال اس طرح لکھا ہے کہ جن دنوں علی محمد نے باب
ہونے کا دعویٰ کیا۔ میرا آغاز بلوغ تھا۔ ان ایام میں میرے دل میں یہ خیال موج زن تھا کہ کسی عالم دین کی تقلید کروں۔ میں علماء کے حالات کی تحقیق کیا کرتا تھا۔ ان ایام میں باب کے ظہور کا بڑا غلغلہ بلند ہوا۔ میرے بھائی (بہاء اللہ) کو اس تحریک سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ باب کی تحریریں پڑھوایا کرتا اور میں بھی اکثر ان تحریروں کو سنا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ آنحضرت (باب) کی ایک مناجات پڑھی گئی۔ جس میں فاہ آہ یا الٰہی کے الفاظ بکثرت تھے۔ اس کلمہ کی روح نے مجھے اپنی طرف جذب کرلیا اور باب کی محبت دل میں راسخ ہوگئی۔
(نقطۃ الکاف ص۲۳۹،۲۴۰)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح ازل کو اسی مناجات کے الفاظ نے گھائل کر دیا اور اس بدنصیب نے اتنی زحمت گوارا نہ کی کہ باب کے دعوؤں کو پیغمبر خداﷺ کے ارشادات اور ائمہ اہل بیت کی تصریحات کی روشنی میں دیکھ لیتا۔ جب علی محمد نے بابیوں کو خراسان آنے کا حکم دیا تو صبح ازل بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف پندرہ برس کی تھی۔ اس کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ طہران گیا۔ اثنائے راہ میں قرۃ العین سے ملاقات ہوئی۔ جن دنوں ملا محمد علی بارفروشی قلعہ میں تھا۔ اس نے صبح ازل سے مدد چاہی تھی۔ صبح ازل اپنے بھائی اور چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ عون ونصرت کی غرض سے عازم قلعہ ہوا۔ لیکن راستہ میں حاکم آئل نے گرفتار کر لیا۔ جب صبح ازل کو گرفتار کر کے آئل میں لائے تو مشتعل شہریوں نے بازاروں اور کوچوں میں اس کی بڑی فضیحت کی۔ لوگ لعنت کرتے پتھر برساتے اور منہ پر تھوکتے تھے۔ اس کے بعد تھوڑے دن تک قید رکھ کر چھوڑ دیا گیا۔ صبح ازل طہران سے باب کے نام عرائض بھیجتا رہا۔ باب نے اپنا قلم دان کاغذات اور نوشتہ جات، لباس، انگوٹھی اور بعض دوسری چیزیں صبح ازل کے لئے روانہ کیں اور اپنی جانشینی کی وصیت کر کے حکم دیا کہ کتاب بیان کے آٹھ واحد لکھ کر کتاب کی تکمیل کر دے اور اگر من یظہرہ اللہ عظمت واقتدار کے ساتھ ظاہر ہو جائے تو پھر بیان کو منسوخ سمجھے۔ حاجی مرزاجانی لکھتا ہے کہ من یظہرہ اللہ سے خود صبح ازل کی ذات مراد تھی۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی دوسرا شخص اس منصب کا اہل نہیں ہے۔
(نقطۃ الکاف ص۲۴۴)
باب کی ہلاکت کے بعد تمام بابی بلا استثناء صبح ازل کو واجب الاطاعت اور اس کے احکام واوامر کو مفروض الامتثال یقین کرتے تھے۔ صبح ازل ان ایام سے لے کر مذبحۂ طہران کے واقعہ تک جب کہ اٹھائیس عظمائے بابیہ نے اس واقعہ میں شربت مرگ نوش کیا۔ گرمی کا موسم شمیراں میں جو حوالیٔ طہران میں ایک سرد مقام ہے اور موسم زمستان مازندران میں گزارتا تھا اور اپنے تمام اوقات بابی پنتھ کے نشروابلاغ میں صرف کرتا تھا۔
بغداد میں بابی اجتماع
جب بابیوں نے شاہ ایران پر قاتلانہ حملہ کیا اور بابیوں کے خلاف داروگیر کا سلسلہ شروع ہوا تو صبح ازل جو اس وقت نور میں تھا۔ فوراً بہ تبدیل ہیئت بغداد کو بھاگ گیا۔ حکومت ایران نے اس کی گرفتاری پر ہزار تومان انعام کا اعلان کیا۔ ایک سرکاری جاسوس سے اس کی ملاقات بھی ہوئی اور جاسوس نے پہچانے بغیر اس سے بہت دیر تک باتیں بھی کیں۔ تاہم صبح ازل درویشی کے لباس میں عصا وکشکول کے ساتھ حدود ایران سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن اس کا بھائی بہاء اللہ طہران میں قید ہوگیا۔ صبح ازل ۱۲۶۸ھ یا اوائل ۱۲۶۹ھ میں وارد بغداد ہوا۔ اس کے چار ماہ بعد بہاء اللہ بھی زندان طہران سے مخلصی پاکر صبح ازل کے پاس بغداد پہنچ گیا۔ اب دوسرے بابیوں نے بھی آہستہ آہستہ بغداد کا رخ کیا۔ یہاں تک کہ بغداد میں ان کی جمعیت بہت بڑھ گئی۔ انہوں نے ۱۲۷۹ھ تک یعنی دس سال کی مدت عراق عرب میں بسر کی اور جیسا کہ خود بہاء اللہ کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے۔ بہاء اللہ اس عرصہ میں صبح ازل کا تابع فرمان اور مطیع ومنقاد رہا اور گو اس دوران میں چند بابیوں نے مختلف اوقات میں من یظرہ اللہ ہونے کا دعویٰ کیا تو ہم جدید التاسیس بابی مذہب کے پیرو صبح ازل کے جھنڈے تلے متفق الکلمہ اور متحد المقصد رہے اور ان کے درمیان کسی تفرقہ وانقسام کے آثار ظاہر نہ ہوئے۔
خلیفۃ الباب سے بہاء اللہ کی سرکشی
بقول مصنف ہشت بہشت۔ (ہشت بہشت حاجی شیخ احمد کرمانی شہیر بروحی کی تالیف ہے۔ اس کتاب میں بیان کا فلسفہ اور مسلک ازلیاں کی تائید کی گئی ہے) اقامت بغداد کے آخری ایام میں بہاء اللہ کے طرز عمل بہت کچھ تغیرات رونما ہوئے۔ یہ حالت دیکھ کر بعض بابی قدما مثلاً ملا محمد جعفر زاقی ملا رجب علی قاہر، حاجی سید محمد اصفہانی، حاجی سید محمد جواد کربلائی، حاجی مرزا احمد کاتب، حاجی مرزا محمد رضا وغیرہ سخت مضطرب ہوئے اور بہاء اللہ کو اس طرز عمل پر تہدید کی۔ ان لوگوں نے بہاء اﷲکو صبح ازل کا اطاعت شعار رہنے کی اتنی تاکید کی کہ وہ تنگ آکر بغداد سے باہر چلاگیا اور دوسال تک سلیمانیہ کے اطراف میں پہاڑوں میں رہا۔ اس عرصہ میں بغداد کے بابیوں کو ہر گز معلوم نہ تھا کہ بہاء اللہ کہاں ہے۔ آخر جب پتہ چلا تو صبح ازل نے اس کو بغداد مراجعت کرنے کے لئے چٹھی لکھی۔ بہاء اللہ امتثال امر کر کے بغداد واپس گیا۔ انہی ایام میں مرزا اسد اللہ تبریزی ملقب بہ دیان نے کہ باب نے اس کو آیات صبح ازل کا کاتب مقرر کیا تھا اور عبرانی اور سریانی زبانوں ید طولیٰ رکھتا تھا۔ من یظہرہ
اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ بہاء اللہ نے اس کے ساتھ بڑے مناظرے کئے۔ آخر وہ بابیوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ بابیوں نے اس کے پاؤں میں ایک وزنی پتھر باندھ کر اس کو شط العرب میں غرق کر دیا۔ اسی طرح مرزا عبداﷲ غوغا، حسین میلانی معروف بہ حسین جان، سید حسین ہندیانی اور مرزا محمد زرندی معروف بہ نبیل میں سے ہر ایک بابی من یظہرہ اللہ ہونے کا مدعی ہوا۔ آخر بابیوں کے بازار ہوا وہوس میں اس جنس کی اتنی ارزانی ہوئی اور بقول ہشت بہشت معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ ہر بابی جو صبح کے وقت بیدار ہوتا تھا تن کو اسی دعویٰ کے لباس کے ساتھ آراستہ کرنے لگتا تھا۔
بغداد اور ادرنہ سے اخراج
اب بابیوں نے ایران کے ہر گوشہ سے بغداد کا رخ کیا۔ ان کی جمعیت دن بدن بڑھنے لگی۔ کربلا اور نجف کے شیعی علماء یہ دیکھ کر کہ بابی لوگ مشاہد مشرقہ کے قریب آجمع ہوئے ہیں اور ان سے اور عامۂ مسلمین سے ان کے جھگڑے قضیے رہتے ہیں۔ بابیوں کے قیام بغداد کی مخالفت کرنے لگی۔ دولت ایران نے بھی اپنے استنبولی سفیر مرزا حسین خاں مشیر الدولہ کو ہدایت کہ کہ وہ دولت عثمانیہ سے درخواست کرے کہ بابیوں کو بغداد سے کسی دوسرے علاقے میں منتقل کر دے۔ باب عالی نے دولت ایران کی خواہش کی تکمیل کی اور بابیوں کو بغداد سے استنبول چلے آنے کا حکم دیا۔ یہ لوگ چار مہینہ تک قسطنطنیہ میں رہے۔ لیکن چونکہ ان کا قیام امن عامہ کے حق میں سخت مضر ثابت ہوا۔ اس لئے تمام بابی رجب ۱۲۸۰ھ میں قسطنطنیہ سے ادر نہ (اڈریانوپل) بھیج دئیے گئے۔ یہ لوگ ۲۰؍ربیع الثانی ۱۲۸۵ھ تک اورنہ میں رہے۔ ادرنہ میں صبح ازل اور بہاء اللہ میں جھگڑے قضئے برپارہتے تھے اور فریقین میں سے ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ اپنے حریف کو زک دے۔ جب باب عالی نے ان میں ہیجان واضطراب کے آثار مشاہدہ کئے اور یقین ہوا کہ فریقین آمادۂ پیکار ہیں تو دولت عثمانیہ نے اس قصہ میں پڑنے کے بغیر کہ فریقین میں سے برسر حق کون ہے اور خطا کار کون؟ ۱۲۸۵ھ میں تمام بابیوں کو ادرنہ سے کوچ کرنے کا حکم دیا۔ بہاء اللہ اور اس کے پیروؤں کے لئے عکہ علاقہ شام میں قیام کرنے کا حکم دیا اور صبح ازل کو اس کے اتباع سمیت جزیرہ قبرس میں جو اس وقت ترکی علمداری میں داخل تھا قیام کرنے کا فرمان جاری ہوا۔ صبح ازل ۵؍ستمبر ۱۸۶۸ء کو جزیرہ قبرس پہنچا۔ ترکی حکومت کی طرف سے اسے ساڑھے اڑتیس پیاسٹر وظیفہ روزانہ ملتا تھا۔ (یہ واقعات مقدمہ نقطۃ الکاف اور ایپی سوڈ اوف دی باب سے ماخوذ ہیں)
صبح ازل کے مزید حالات انشاء اللہ العزیز بہاء اللہ کے واقعات میں درج کئے جائیںگے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں مرقوم ہے کہ صبح ازل ۱۹۰۸ء تک جزیرہ قبرس میں زندہ سلامت موجود تھا۔
باب۶۸ … بہاء اللہ نوری
مرزا حسین علی معروف بہ بہاء اللہ ۱۸۱۷ء میں موضع نور علاقہ ماندران میں پیدا ہوا۔ اپنے سوتیلے بھائی صبح ازل سے قریبًا تیرہ سال بڑا تھا۔ اس کی ابتدائی ۳۵سالہ زندگی بالکل پردۂ خفا میں ہے۔ بہاء اللہ بھی ان چالیس بابیوں میں تھا۔ جو ناصر الدین شاہ والی ایران پر قاتلانہ حملہ ہونے کے بعد گرفتار ہوئے تھے۔ جب بابیوں نے شاہ کی جان لینے کی کوشش کی تو بہاء اللہ اس وقت موضع افچہ میں تھا جو طہران سے ایک منزل کے بعد پر ہے۔ جب اس حادثہ کی خبر مشہور ہوئی تو بہاء اللہ نیادران کی طرف روانہ ہوا۔ لیکن جھٹ گرفتار کر لیا گیا اور پولیس نے لاکر اسے طہران کے محبس میں ڈال دیا۔ چار مہینہ کے بعد جب ثابت ہوا کہ اسے شاہ کی حملہ آور جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے تو قید خانہ سے مخلصی نصیب ہوئی۔ رہائی کے بعد اپنے بھائی صبح ازل کے پاس بغداد چلاگیا۔ چونکہ باب صبح ازل کو اپنا جانشین مقرر کر گیا تھا۔ اس لئے تمام بابی جو ایران سے بھاگ بھاگ کر بغداد میں جمع ہورہے تھے۔ صبح ازل کے حلقۂ ارادت میں داخل ہونے لگے۔ یہ دیکھ کر بہاء اللہ کو بھی حصول رفعت کی طمع دامنگیر ہوئی۔ اس کے بعد گوبہاء اللہ بہت دن تک بحکم ضرورت بظاہر صبح ازل کا فرمان بردار اور خدمت گذار رہا۔ لیکن دل میں ہر وقت اپنی علیحدہ دکان آرائی کے منصوبے سوچتا رہتا تھا۔ آخر جب علی محمد باب کا ہر ممتاز پیرو من یظہرہ اللہ بننے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگا تو بہاء اللہ نے بھی اس جامہ کو اپنی قامت پر راست کرنا چاہا۔ اتفاق سے بہاء اللہ کو اسی بابی جماعت میں ایک ایسا شخص ہاتھ آگیا جو بہاء اللہ کے ہر قول پر آمنا وصدقنا کہنے پر پوری طرح آمادہ تھا۔ اس شخص کو مرزاآقا جان کاشانی کہتے تھے۔ آقا جان بہاء اللہ کو من یظہرہ اللہ کا دعویٰ کرنے کی ترغیب دینے لگا۔ چنانچہ بہاء اللہ کی طرف سے بھی اس دعویٰ کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ آخر ایک دن برملا کہنے لگا کہ میں ہی من یظہرہ اللہ اور قوموں کا موعود اور نجات دہندہ ہوں۔ روساء وقدمائے بابیہ نے بہاء اللہ کو بہتیرا سمجھایا کہ اس دعویٰ سے دست بردار ہو جائے۔ لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ آخر خود صبح ازل نے بہاء اللہ سے کہا کہ باب نے بیان میں بوضاحت لکھ دیا ہے کہ میرا مذہب اطراف
واکناف ملک میں پھیل جائے گا اور میرے پیرو صاحب حکومت ہوںگے۔ تب کہیں سال غیاث یا مستغاث میں من یظہرہ اللہ ظہور کرے گا اور ابھی ان میں سے کوئی بات پوری نہیں ہوئی۔ اس لئے تمہارا دعویٰ جھوٹا ہے۔ مگر بہاء اللہ پر عظمت واقتدار کا بھوت سوار تھا۔ اپنی ضد سے باز نہ آیا۔ اس اثناء میں تمام بابی بغداد سے قسطنطنیہ بھیج دئیے گئے اور چار مہینہ کے بعد انہیں مؤخر الذکر مقام سے بھی ادرنہ (اڈریانوپل) کو منتقل کردیا گیا۔
خدا کا اوتار ہونے کا دعویٰ
ادر نہ پہنچ کر اس نے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں خطوط واشتہارات بھیج بھیج کر اپنا نشدید شروع کر دیا۔ وہ من یظہرہ اللہ ہونے کے دعویٰ کے ساتھ اس بات کا بھی مدعی تھا کہ خدا کی روح اس میں حلول کر گئی ہے۔
(ایپی سوڈ اوف دی باب ص۳۵۹)
اس پروپیگنڈا کا یہ اثر ہوا کہ بابی لوگ دھڑا دھڑ بہاء اللہ کے دائرہ ارادت میں داخل ہونے لگے اور صبح ازل کی طرح اس کی بھی ایک جماعت بن گئی۔ مثل مشہور ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں اور ایک قلیم میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے۔ صبح ازل اور بہاء اللہ کے پیروؤں میں تصادم شروع ہوا اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوئیں۔ لیکن ان میں سے بہائی بڑے تیز نکلے۔ انہوں نے اپنے دشمنوں کو نیچا دکھانے کے لئے وہی طور طریقے اختیار کئے جو کسی زمانہ میں ان کے پیش روباطنیوں نے اسلام کے خلاف استعمال کر رکھے تھے۔ ازلی مؤرخوں کے بیان کے بموجب صبح ازل کے تمام مشہور حامیوں کی فہرست تیار کی گئی اور دنیا کو ان کے خار وجود سے پاک کر دینے کا فیصلہ کر لیاگیا۔ چنانچہ اس فیصلہ کے بموجب بغداد میں ملا رجب علی قاہر حاجی مرزاحمد، حاجی مرزا احمد رضا اور بہت سے دوسرے ازلی یکے بعد دیگرے بہائی خون آشامی کا شکار ہوگئے اور صرف یہی نہیں بلکہ ہشت بہشت کے مصنف نے مرزا حسین علی (بہاء اللہ) پر اس سے بھی زیادہ سنگین الزام لگایا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ بہاء اللہ نے (کسی حیلہ سے) صبح ازل کو ایک ضیافت پر بلانے کا انتظام کیا۔ بہاء اللہ نے اپنے رازدان مصاحبوں کو سمجھا دیا کہ ہم دونوں ایک ساتھ کھانا کھانے بیٹھیںگے۔ کھانے کی سینی میں ایک طرف مسموم کھانا رکھ دینا اور صبح ازل کو اس کے سامنے بٹھانا۔ جب سب لوگ کھانے کے لئے بیٹھ گئے تو صبح ازل نے اس مسموم سینی کا کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس پلاؤ میں پیاز کا بگھار ہے اور مجھے پیاز کی بو سے طبعی نفرت ہے۔ بہاء اللہ نے یہ سمجھ کر کہ صبح ازل اس کا منصوبہ تاڑ گیا ہے۔ رفع اشتباہ کے لئے سینی کے اس حصہ میں سے بھی تھوڑا سا کھانا کھا لیا جو صبح ازل کی اگلی طرف تھا۔ کھانا کھاتے ہی اس کوقے آنے
لگی اور زہر خوری کے دوسرے آثار ظاہر ہوئے۔ لیکن بہاء اللہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے الٹا یہ کہنا شروع کیا کہ صبح ازل نے مجھے زہر دیا ہے۔
صبح ازل کے خلاف مزید بہائی سازشیں
ازلی تاریخ نگاروں کے بیان کے بموجب اس کے تھوڑا عرصہ بعد بہاء اللہ نے صبح ازل کی جان لینے کی سازش کی وہ یہ تھی کہ محمد علی حجام کو گانٹھ کر اسے اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ صبح ازل کے حلق کے بال مونڈتے وقت اس کا گلا کاٹ دے۔ حسن اتفاق سے صبح ازل پر یہ راز منکشف ہوگیا۔ اور جب حجام اس کے پاس آیا تو اس نے دور ہی سے کہہ دیا کہ میرے پاس نہ آنا۔ اس کے بعد صبح ازل اپنے تمام پیروؤں کو ساتھ لے کر ادرنہ کے کسی دوسرے محلے میں چلا گیا اور بہائیوں سے منقطع ہوکر وہاں بودوباش اختیار کی۔ انہی ایام میں دو بہائیوں نے ادرنہ کے حاکم سے جسے پاشا کہتے تھے اجازت لئے بغیر گھوڑے فروخت کرنے کا حیلہ کر کے قسطنطنیہ کا راستہ لیا۔ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہاں سے صبح ازل کی تردید کے لئے کتاب لائیں اور ازلیوں کے خلاف ایک مذہبی اکھاڑہ قائم کریں۔ پاشا کو معلوم ہوگیا کہ وہ کس غرض کے لئے گئے ہیں؟ پاشا نے فوراً اس منزل پر جہاں سے وہ گذرنے والے تھے تار بھیج کر حکم دیا کہ دونوں کو گرفتار کر لیا جائے۔ چنانچہ وہ گرفتار کر کے ادرنہ واپس لائے گئے۔ بہائیوں نے یہ یقین کر کے کہ صبح ازل نے مخبری کی ہے۔ اس کا انتقام لینے کی ٹھان لی۔ صبح ازل کا ایک ایرانی پیرو آقا جان بیگ قسطنطنیہ کے رسالہ میں ملازم تھا اور رسالہ کے افسروں یا سواروں میں سے کسی کو علم نہ تھا کہ وہ بابی ہے۔ بہائیوں نے پاشا کے پاس مخبری کی کہ قسطنطنیہ کے رسالہ کا فلاں سوار بابی ہے اور وہ نہایت رازداری کے ساتھ بابی مذہب کی تبلیغ کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ قسطنطنیہ میں آقا جان بیگ کاشانی کی تلاشی ہوئی۔ اس کے پاس سے چند بابی کتابیں برآمد ہوئیں۔ اصل میں یہ کتابیں اس کو بغداد بھیجنے کے لئے کسی نے دے رکھی تھیں اور بہت دنوں سے اس کو کوئی ایسا شخص نہ مل سکا تھا جس کے ہاتھ کتابیں بغداد بھیج دیتا۔ اس لئے یہ خیال کر کے کہ کہیں حکام کو ان کتابوں کا پتہ نہ چل جائے۔ ان کے تلف کر دینے کی فکر میں تھا۔ کبھی تو یہ سوچتا تھا کہ انہیں گڑھا کھود کر دفن کر دوں۔ کبھی یہ ارادہ کرتا کہ ساحل بحر پر جاکر سمندر میں پھینک دوں۔ اسی سوچ بچار میں تھا کہ اچانک اس کے قیام گاہ کی تلاشی ہونے لگی اور وہ گرفتار کر لیاگیا۔ آقا جان بیگ کو ترک حکام اور قسطنطنیہ کے ایرانی سفیر کے سامنے پیش کیاگیا۔ اس نے اقبال کیا کہ ادرنہ کی جماعت سے میرا تعلق ہے اور میں بابی المذہب ہوں۔ آقا جان بیگ کوساڑھے چار مہینہ قید کی سزا ہوئی اور وہ نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ آقا جان بیگ کو
اس حادثہ کا اتنا صدمہ ہوا کہ اس کی داڑھی اور سر کے بال قید خانہ میں یک بیک سفید ہوگئے۔ جب قید سے رہا ہوا اور بابیوں کی دونوں حریف جماعتیں جزیرہ قبرص اور عکہ بھیجی گئیں تو آقا جان بیگ کاشانی بھی بہاء اللہ کے ساتھ عکہ روانہ گیاگیا۔ لیکن وہاں پہنچتے ہی بہائیوں نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
(ایپی سوڈ اوف دی باب ص۹۹،۱۰۰)
ایک اور بہائی کی سازش
اب بہاء اللہ نے صبح ازل کے خلاف ایک اور سازش کی۔ مرزا آقاجان مشکین قلم عباس آفندی اور چند دوسرے بہائیوں نے ایک ایک چٹھی ترک عماید سلطنت کے نام لکھی۔ ان چٹھیوں کا مضمون یہ تھا کہ ہم قریباً تیس ہزار بابی شہر قسطنطنیہ اور اس کے مضافات میں بہ تبدیل ہیئت چھپے ہوئے ہیں۔ ہم تھوڑے عرصہ میں خروج کریںگے۔ سب سے پہلے ہم قسطنطنیہ پر عمل دخل کریںگے۔ اگر سلطان عبدالعزیز اور ان کے وزراء نے بابی مذہب قبول نہ کیا تو ہم سلطان اور ان کے اعیان دولت کو علیحدہ کر کے نظام سلطنت اپنے ہاتھ میں لے لیںگے۔ ہمارا بادشاہ مرزا یحییٰ صبح ازل ہے۔ یہ چٹھیاں مختلف دستخطوں سے لکھ کر قصر سلطانی اور تمام بڑے بڑے ارکان دولت کے مکانات پر پہنچائی گئیں۔ ترکی حکومت نے بابیوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی اور اس سے نہایت شفقت آمیز سلوک کیا جارہا تھا۔ حکام ان چٹھیوں کو پڑھ کر ملول ہوئے۔ آخر یہ چٹھیاں قسطنطنیہ کے ایرانی سفیر کے سامنے پیش کی گئیں۔ اس کے بعد ترکی حکام اور ایرانی سفیر کی مشاورت باہمی سے یہ بات طے پائی کہ تمام سرکردہ بابیوں کو دور دست مقامات پر بھیج کر نظر بند رکھا جائے۔
(ایپی سوڈ اوف دی باب ص۳۵۸،۳۶۰)
اس اثناء میں ترکی حکام کو یہ بھی بتایا گیا کہ بابیوں کی دونوں جماعتوں میں بری طرح سر پھٹول ہورہا ہے اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر باب عالی نے فیصلہ کیا کہ مرزا یحییٰ صبح ازل اور مرزا حسین علی بہاء اللہ کو دو مختلف مقامات پر بھیج دیا جائے۔ چنانچہ صبح ازل کے لئے حکم ہوا کہ وہ اپنے اہل وعیال سمیت جزیرہ قبرص کے شہر ماغوسا میں جو اس وقت دولت عثمانیہ کے زیر حکومت تھا۔ جاکر اقامت گزیں ہو اور بہاء اللہ کے لئے یہ فرمان جاری ہوا کہ اسے اس کے اہل وعیال سمیت عکہ (واقع ملک شام) میں بھیجا جائے۔ باب عالی نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ بہاء اللہ کے چار پیرو مشکیں قلم خراسانی مرزا علی سیاح محمد باقر اصفہانی اور عبدالغفار تو صبح ازل کے ساتھ قبرص جائیں اور صبح ازل کے چار پیرو وحاجی پیر محمد اصفہانی آقا جان بیگ کاشانی مرزا رضا قلی تفرشی اور اس کا بھائی مرزا نصراﷲ تفرشی بہاء اللہ کے
ہمراہ عکہ کا رخ کریں۔ اس تدبیر کا مقصد یہ تھا کہ مخالف عناصر دولت عثمانیہ کے لئے جاسوسی کی خدمات انجام دیں اور جو کوئی صبح ازل یا بہاء اللہ سے ماغوسا یا عکہ میں ملاقات کرنے آئے یہ مخالف لوگ اس کے وروو حرکات وسکنات اور خیالات کے متعلق باب عالی کو اطلاع دیتے رہیں۔ لیکن بابیوں کی دونوں حریف جماعتوں نے ابھی ادرنہ سے کوچ بھی نہیں کیا تھا کہ مرزا حسین علی (بہاء اللہ) نے مرزا نصراﷲ تفرشی کو زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ صبح ازل کے باقی تین آدمی بہاء اللہ کے ساتھ عکہ گئے اور انہوں نے چھاؤنی کے پاس ایک مکان لیا۔ لیکن وہ بھی بہت جلد بہائیوں کے ہاتھوں سے نذر اجل ہوگئے۔ بہائیوں نے صرف انہی چار ازلیوں پر ہاتھ صاف نہ کیا۔ بلکہ وہ تمام قدما وفضلائے بابیہ جو صبح ازل کی وفاداری اور پیروی میں ثابت قدم رہے اور جن میں سے بعض تو علی محمد باب کے رفیق خاص تھے۔ ایک ایک کر کے عدم کے تہ خانے میں سلا دئیے گئے۔ آقا سید علی عرب تبریز میں مارا گیا۔ ملا رجب علی کو کربلا میں ہلاک کیاگیا۔ آقا محمد علی اصفہانی اور حاجی مرزا احمد کاشانی بغداد میں اور حاجی مرزا محمد رضا حاجی ابراہم، حاجی جعفر تاجر حسین علی آقا ابوالقاسم کاشانی میرزا بزرگ کرمان شاہی وغیرہ مختلف مواضع میں بہائیوں کے خنجر بیداد کی نذر ہوگئے۔
(ایپی سوڈ اوف دی باب ص۳۶۲،۳۶۳)
ازلی وقائع نگاروں نے بہائیوں کی بے شمار اور بھی خون آشامیاں بیان کی ہیں جو صاحب ان کی تفصیل دیکھنا چاہیں وہ کتاب (ایپی سوڈ آوف دی باب ص۳۶۱،۳۶۴) کا مطالعہ کریں۔ لیکن اگر یہ بیانات واقعیت پر مبنی ہیں تو حیرت ہے کہ ترکی حکومت نے بہاء اللہ اور اس کے خون آشام پیروؤں کو کیفر کردار تک کیوں نہ پہنچایا؟
مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
بہاء اللہ نے من یظہرہ اللہ بننے کے ساتھ ہی مسیح موعود ہونے کا بھی دعویٰ کر دیا تھا۔ یا یوں کہو کہ اس کے نزدیک من یظہرہ اللہ اور مسیح موعود مترادف الفاظ تھے۔ بہاء اللہ نے لوح مبارک میں اپنی ایک وحی لکھی ہے۔ ’’قل یا ملاء الفرقان قد اتیٰ الموعود الذی وعدتم فی الکتاب اتقوا اللہ ولا تتبعوا کل مشرک اثیم‘‘ (کہہ دے کہ اے گروہ فرقان! بیشک وہ موعود آگیا جس کا تم سے کتاب (قرآن) میں وعدہ کیاگیا تھا۔ خدا سے ڈرو اور کسی مشرک گنہگار کی پیروی نہ کرو)
اس الہام میں بہاء اللہ نے ہر مسلمان کو اپنی مسیحیت کی دعوت دی ہے۔ اس دعوت کا جواب یہ ہے کہ کلام الٰہی اور احادیث رسول الثقلینﷺ میں مسلمانوں کو دین اسلام کی تائید کے
لئے جس ذات اقدس کے تشریف لانے کا مژدہ سنایا گیا ہے وہ مسیح ناصری حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں جو قرآن کے رو سے اب تک زندہ موجود ہیں۔ ان کے سوا ہم ہر مدعی مسیحیت کو دجال کذاب یقین کرتے ہیں۔ بہاء اللہ ہو یا غلام احمد ہو یا اس قماش کا کوئی دوسرا خانہ ساز موعود ہو۔ سب جھوٹے مسیح ہیں۔ سچے مسیح کے متعلق بہاء اللہ کے فرزند وجانشین عبدالبہاء صاحب نے لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو نشانیاں اور فوق الفطرت معجزات شہادت دیں گے کہ سچا مسیح یہ ہے مسیح نامعلوم شہر (آسمان) سے آئے گا۔ وہ فولاد کی تلوار کے ساتھ آئے گا۔ (یعنی وہ منکروں کے خلاف غزا وجہاد کریںگے) اور لوہے کے عصا کے ساتھ حکومت کرے گا۔ (وہ کسی کی رعایا نہ ہوںگے بلکہ خود رعب وجلال کے ساتھ حکومت کریںگے) وہ انبیاء کی شریعت کو پورا کرے گا۔ وہ مشرق ومغرب کو فتح کرے گا اور اپنے برگزیدہ لوگوں (مسلمانوں) کو عزت بخشے گا۔ وہ اپنے ساتھ ایک ایسا امن کا راج لائے گا کہ حیوان بھی انسانوں کے ساتھ دشمنی کرنا چھوڑ دیںگے۔ بھیڑیا اور برہ ایک ہی چشمہ سے پانی پئیں گے اور خدا کی سب مخلوق امن سے رہے گی۔
(دور بہائی ص۲، مطبوعہ دہلی)
ظاہر ہے کہ یہ سب علامتیں جو عبدالبہاء نے بیان کی ہیں بہاء اﷲ، مرزاغلام احمد یا کسی دوسرے خانہ ساز مسیح پر صادق نہیں آتیں۔ اس لئے یہ سب جھوٹے مسیح ہیں۔ بہاء اللہ نے (کتاب مبین ص۵۹) میں عیسائیوں کو مندرجہ ذیل الہام میں اپنی مسیحیت کی طرف بلایا ہے۔
’’قل یا ملأ النصاریٰ قد تجلنا علیکم من قبل وما عرفتمونی ہذہ مرۃ اخریٰ ہذا یوم اللہ اقبلوا الیہ انہ قد اتیٰ من السماء کما اتی اول مرۃ‘‘ (اے بہاء اللہ) کہہ دے کہ اے گروہ نصاریٰ! ہم نے پہلی مرتبہ بھی تم پر تجلی فرمائی تھی۔ لیکن تم نے ہمیں شناخت نہ کیا۔ اب یہ آمد ثانی ہے یہ خدا کا دن ہے۔ اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ بیشک یہ (بہاء اللہ) اسی طرح آسمان سے دوسری مرتبہ آیا ہے۔ جیسے پہلے آیا تھا۔
بہاء اللہ نے نصاریٰ کو دعوت دیتے ہوئے ایک مکتوب میں لکھا تھا۔ اے پیروان مسیح! کیا میرا نام (بہاء اللہ) تمہارے نزدیک میری مسیحیت کے منافی ہے؟ تم کس بناء پر شک میں پڑے ہو؟ تم لوگ شب وروز اپنے قادر مطلق (یسوع مسیح) کو پکارا کرتے تھے۔ لیکن جب وہ ازلی آسمان سے کامل جلال کے ساتھ آگیا ہے تو تم اس کے پاس نہیں پھٹکتے اور بے اعتنائی کے عالم میں پڑے ہو۔
(بہائی سکریچرز ص۱۲۴، مطبوعہ نیویارک)
لیکن عیسائی لوگ اس دعوت کا بے تکلف یہ جواب دے سکتے ہیں کہ ہم تو خود ذات
بابرکات حضرت یسوع مسیح کی تشریف آوری کے منتظر ہیں۔ اس لئے ہمیں کسی نقلی اور جعلی مسیح کی ضرورت نہیں ہے۔ بہرحال بہاء اللہ کا دعویٰ مسیحیت آفتاب نصف النہار کی طرح واضح وروشن ہے۔ جس میں کوئی ادنیٰ اخفاء نہیں۔ لیکن تجاہل عارفانہ کا کمال دیکھو کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے انتہائی دیدہ دلیری سے یہ لکھ مارا کہ اس وقت جو ظہور مسیح موعود کا وقت ہے کسی نے بجز اس عاجز کے دعویٰ نہیں کیا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ بلکہ اس مدت تیرہ سوبرس میں کبھی کسی مسلمان کی طرف سے ایسا دعویٰ نہیں ہوا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ ہاں عیسائیوں نے مختلف زمانوں میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور کچھ تھوڑآ عرصہ ہوا ہے کہ ایک عیسائی نے امریکہ میں بھی مسیح بن مریم ہونے کا دم مارا تھا۔ ہاں ضرور ہے کہ وہ ایسا دعویٰ کرتا تا انجیل کی وہ پیش گوئی پوری ہو جاتی کہ بہتیرے میرے نام پر آئیںگے اور کہیںگے کہ میں مسیح ہوں۔ پر سچا مسیح ان سب کے آخر میں آئے گا اور مسیح نے اپنے حواریوں کو نصیحت کی تھی کہ تم نے آخر کار منتظر رہنا۔
(ازالہ اوہام ص۲۷۸،۲۷۹)
مرزاقادیانی نے یہ لکھ کر کہ سچا مسیح جھوٹے مسیحوں کے بعد سب کے آخر میں (یعنی قرب قیامت کو جب کہ عالم کائنات کا سلسلہ قریب الاختتام ہوگا) ظاہر ہوگا۔ خود اپنی جعلی مسیحیت کے شجر کی جڑیں کاٹ دیں۔ مرزاقادیانی کا یہ بیان بھی سخت لغو ہے کہ گذشتہ تیرہ صدیوں میں میرے سوا کسی مسلمان نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ کیونکہ اوّل تو دعویٰ کے لئے اسلام یا کفر کی کوئی خصوصیت نہیں۔ ہر شخص جھوٹا دعویٰ کر کے لوگوں کو گمراہ کر سکتا ہے۔ اس سے قطع نظر میں ۶۵ویں باب میں تین مسلمان جھوٹے مسیحوں کے حالات لکھ آیا ہوں۔ بہاء اللہ کو ملانے سے ان کی تعداد چار تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے باوجود مرزاغلام احمد قادیانی نہایت جسارت اور شوخ چشمی سے لکھتے ہیں کہ مجھ سے پہلے کسی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ بہاء اللہ بابی ہو جانے کے بعد مرتد خارج ازاسلام ہوگیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے وہ غالباً شیعوں کے اس غیر غالی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ جسے علمائے اسلام نے دائرہ اسلام میں داخل کیا ہے۔
اتحاد مذاہب کا بہائی ڈھونگ
میں کتاب رئیس قادیان کے ۸۶ویں باب میں بالتفصیل لکھ آیا ہوں کہ کس طرح حکیم نور الدین بھیروی نے سرزمین کشمیرمیں ایک مرزائی حکومت قائم کرنی چاہی تھی اور کس طرح حکیم مذکور کے اخراج کشمیر کے بعد قیام سلطنت کا خواب پریشان جہاد بالسیف کی حرمت اور سلطنت انگلشیہ کی اطاعت کے وجوب کی شکل میں تبدیل ہوا تھا۔ علی محمد باب نے بھی بابیوں کو یقین دلارکھا تھا کہ عنقریب سارے ایران پر بابی پرچم لہرائے گا۔ لیکن یہ خواب کسی طرح شرمندۂ تعبیر نہ
ہوسکا۔ ایران میں بابیوں کو اس طرح پامال کیاگیا کہ پھر ان کے بڑھنے اور پنپنے کا کوئی موقع نہ رہا۔ ہزارہا بابی خنجر خون آشام کی نذر ہوئے۔ بقیۃ السیف میں سے جس کسی کے جہاں سینگ سمائے وہاں جاکر جان بچائی۔ آخر بہاء اللہ نے دس بارہ سال کے تلخ تجربوں کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح حکومت کی اطاعت اور امن وآشتی کے ظل عاطفت میں پناہ لینا ضروری خیال کیا اور سالہا سال کی بابی مقہوری، جلا وطن اور نظر بندی کے بعد اتحاد بین الملل کا جھنڈا ہلانا شروع کیا۔ اتحاد مذاہب کا لفظ واقعی نہایت دل آویز ہے۔ لیکن عملی نقطۂ نظر سے یہ بالکل مہمل ہے۔ بہائیوں کے مجوزہ اتحاد مذاہب کی نوعیت یہ ہے کہ سچ بھی سچ ہے اور جھوٹ بھی سچ ہے۔ نور بھی نور ہے اور ظلمت بھی نور ہے۔ میٹھا بھی میٹھا ہے اور تلخ بھی میٹھا ہے۔ نیک بھی اچھا ہے اور بد بھی اچھا ہے۔ تندرست بھی تندرست ہے اور کوڑھی بھی تندرست ہے۔ غرض بہائیوں نے بظاہر صدق وکذب اور خیروشر کی تمیز بالکل اٹھادی ہے اور اپنا سارا زور قلم اس مہمل نگاری پر صرف کر رہے ہیں کہ مسلمان، عیسائی، پارسی، ہندو، بدھ سب برسر حق ہیں۔ اس مضحکہ خیز منطق کی تہ میں دراصل یہ جذبہ کام کر رہا ہے کہ ہر مذہب وملت کے لوگ انہیں اچھا جانیں۔
شیخ بھی خوش رہیں اور شیطان بھی ناراض نہ ہو
اور اس طرح ان کے سادہ لوح شکار بے تأمل گردن ڈالے ان کے دام تزویر میں آپھنسیں۔ اب اس گنگا جمنی پالیسی کی ایک جھلک بھی دیکھ لیجئے۔ کوکب ہند نام بہائیوں کا ایک ماہوار رسالہ دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ اس کی (جلد ۱۰ نمبر۸) کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی سورۂ فاتحہ کا تطابق دید منتروں سے اسی جلد کے نمبر اوّل میں دکھایا جاچکا ہے۔ آج سورہ فاتحہ کی مطابقت پارسی مذہب کی مقدس کتاب ’’گاتھا‘‘ سے دکھائی جاتی ہے۔ جس سے طالبان حقیقت بآسانی اندازہ لگالیںگے کہ مقدس کتابوں کے مضامین میں کس قدر زبردست یگانگت ہے۔ حقیقت ایک ہے۔ (ص۱) ویدک دھرم جو پروردگار کا دین برحق ہے اور جس کی مقدس کتاب وید میں پاکیزہ تعلیمات کے جواہر عرصۂ دراز سے چمک رہے ہیں۔ ہر ایک پیغمبر برحق (معاذ اللہ) اس کی تصدیق وتائید میں ہے۔ کسی پیغمبر برحق نے آج تک وید کی تکذیب نہیں کی۔ (ص۳) وہی حقیقت جو ویدک رشیوں کو معلوم ہوئی وہی عرب کے مقدس رسول اور فلسطین کے پیغمبروں پر آشکار ہوئی۔ وہی حقیقت ایران کے (آتش پرست) پیغمبر کو دریافت ہوگئی اور انہوں نے اپنی زبان اور اپنی طرز بیان میں اسے لوگوں تک پہنچایا۔ (ص۴) اس میں شک نہیں کہ ہندو دھرم اور دین اسلام کی موجودہ شکل بالکل علیحدہ ہے۔ مگر حقیقتاً فروعات مسائل کو
چھوڑ کر قرآن شریف کی باتیں (معاذ اللہ) پر ان وانپشد سے ملتی جلتی ہیں۔ (ص۵) مگر میں کوکب ہند کے بد نصیب ایڈیٹر صاحب سے جو اسلام کی راہ ہدایت سے بھٹک کر گمراہی کی ہلاکت آفرین وادیوں میں سرگردان ہیں۔ پوچھتا ہوں کہ جب تمام مذہبی کتابیں منزل من اللہ ہیں اور ہر ایک کے اندر انسان کی رہنمائی کی صلاحیت موجود ہے اور تمام موجودہ ادیان حق اور منجانب اللہ ہیں جو انسان کو ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں تو پھر بہائیت کس مرض کی دوا ہے؟ بہائیت نے آکر دنیا کی کس تشنگیٔ ہدایت وسعادت کو سیراب کیا؟ جب دنیا کے موجودہ مذاہب ہی انسان کی نجات ورستگاری کے لئے کافی ہیںتو پھر بہائیوں کو بہائیت کی الگ بانسری بجانے کی کیا ضرورت ہے؟ دوسرے مذاہب میں کیوں جذب نہیں ہو جاتے؟
باب اور بہاء اللہ کو دوسرے ادیان سے نفرت
مگر میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں۔ اتحاد مذاہب کا ڈھونگ بہائیوں کی ایک منافقانہ چال ہے۔ عوام کے دل مٹھی میں لینے کی ایک عیاری ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بانیان مذہب باب اور بہاء اللہ تو اس نفاق وظاہر داری کے سراسر خلاف لکھ گئے ہیں۔ چنانچہ علی محمد باب نے کتاب بیان کے باب ۶ واحد۲ میں لکھا۔ اگر کسے باشد وداخل میزان بیان نشود ثمر نمی بخشد تقوائے اواورا۔ (جو شخص کتاب بیان کی پیروی نہیں کرتا اس کا تقویٰ اور پرہیزگاری اس کو کچھ نفع نہ دے گی) اور کتاب بیان کے باب واحد۴ میں لکھا۔ ’’من یتجاوز عن حد البیان فلا یحکم علیہ حکم الایمان سواء کان عالماً اورسلطاناً او مملوکاً اوعبداً‘‘ (جو شخص میری کتاب بیان کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرے گا اس کے مؤمن ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ خواہ وہ عالم ہو یا بادشاہ مملوک ہو یا غلام) اور بیان کے باب ۱۱ واحد۸ میں لکھا۔ اگر ورغیر ایمان بیان قبض روح شود اگر عمل ثقلین رانماید نفع بادنمی بخشد۔ (جس شخص کی موت ایسی حالت میں واقع ہو کہ وہ بابی مذہب کا پیرو نہ ہو تو دونوں جہان کے عمل بھی اسے کوئی نفع نہ بخشیںگے) اور بہاء اللہ نے کتاب مبین کے ص۱۸ میں لکھا۔ ’’ارتفع سماء البیان وثبت ما نزل فیہ ان الذین انکروا اولئک فی غفلۃ وضلال‘‘ (کتاب بیان کی عظمت بلند ہوئی اورجو کچھ اس میں اتار ا گیا تھا وہ ثابت ہوگیا اور جو لوگ اس کے منکر ہیں وہ غفلت اور گمراہی میں پڑے ہیں) اور کتاب مبین ص۲۸۳ میں لکھا۔ ’’خسر الذین کذبوا باٰیاتنا سوف تاکلہم النیران‘‘ (جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ خسارہ میں پڑے ہیں۔ عنقریب وہ جہنم کا ایندھن بن جائیںگے) اور بہاء
اللہ کتاب اقدس میں لکھتا ہے۔ ’’والذی منع انہ من اہل الضلال ولو یأتی بکل الاعمال‘‘ (جس شخص نے مجھے قبول نہیں کیا وہ گمراہ ہے۔ اگرچہ وہ دنیا بھر کے حسنات ہی کیوں نہ بجا لائے)
اتحاد مذاہب کی اسلامی تعلیم
بہائیوں کو اس پر بڑا ناز ہے کہ وہ اتحاد مذاہب کے داعی ومناد ہیں۔ حالانکہ اسلام اتحاد مذاہب کی تعلیم بہاء اللہ سے تیرہ سو سال پہلے ہی دے چکا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے۔ ’’قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعًا (…:۱۵۸)‘‘ {اے نبی! آپ کہہ دیجئے اے دنیا جہان کے لوگو! میں تم سب کی طرف اﷲکا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں۔}
اور فرمایا: ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ {اللہ کے سلسلۂ ہدایت کو مضبوط پکڑے رہو اور متفرق نہ ہو۔}
لیکن اتحاد مذاہب کی جو صورت بہاء اللہ نے پیش کی کہ توحید وشرک، اسلام وکفر، ہدایت وضلالت، نور وظلمت میں امتیاز کئے بغیر مذہبی اتحاد ہو جائے۔ یہ بالکل لغو اور بے ہودہ خیال ہے۔ اتحاد بین الملل کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ آدم علیہ السلام کی تمام اولاد اس آسمانی نور کو مشعل ہدایت بنائے جو خالق ناس نے بنی آدم کی رہنمائی کے لئے برگزیدہ خلق سید الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نازل فرمایا۔ جب تک ایسا نہ ہو حق وباطل میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں تمام اہل مذاہب اپنے اپنے دین پر قائم رہ کر بوقت ضرورت کسی سیاسی اور دنیوی مقصد پر متحد العمل ہو سکتے ہیں۔ میں نے ایک بہائی سے پوچھا تھا کہ ہر شخص اپنے سابقہ عقائد وامیال پر قائم رہ کر بہائی ہوسکتا ہے یا بہائی ہونے کے لئے بہائیوں کے مخصوص عقائد کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے؟ اس نے کہا کہ بہائی عقائد اختیار کرنا لابد ہے۔ ورنہ کوئی شخص اپنے سابقہ عقائد پر قائم رہ کر بہائی کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اتحاد مذاہب کا ڈھونگ محض ایک سنہری جال ہے جو چالاک بہائی شکاری نے سادہ لوح عوام کو پھانسنے کے لئے بچھا رکھا ہے۔
شاہ ایران کے نام بہاء اللہ کا مکتوب
بابیوں کی پیہم فتنہ انگیزیوں نے ان کے دامن شہرت پر غداری کے جو بدنما دھبے نمایاں کر دئیے تھے۔ اگر بہاء اللہ استاد زمانہ سے سبق لے کر ان کے دھونے کی کوشش نہ کرتا تو بابیوں کی کشتی ہستی گرداب فنا میں غرق ہو گئی تھی۔ بابی مسلک سے دست بردار ہونے کے بعد بہاء اللہ نے
ایک طویل مکتوب شاہ ایران کے نام لکھ کر بابیوں کے لئے مراجعت ایران کی اجازت طلب کی۔ اس مکتوب میں بابیوں کے موجودہ سیاسی مسلک کی تشریح کی اور اپنے خلوص اور حسن نیت کا یقین دلاتے ہوئے شاہ کے جذبات رحم وکرم سے اپیل کی۔ یہ خط مرزا بدیع نام ایک بابی کے ہاتھ روانہ کیا۔ موکب شہریاری ان ایام میں طہران سے باہر مستقر تھا۔ اس لئے بدیع مذکور سراپردہ شاہی کے بالمقابل ایک پتھر پر جابیٹھا اور تین شبانہ روز مروررکاب شہریاری کا منتظر رہا۔ چوتھے دن ایسے وقت میں جب کہ شاہ دوربین میں اطراف واکناف کی سیر دیکھ رہا تھا اس کی نظر اس بابی پر پڑی ملازمان درگاہ کو تحقیق حال پر مامور کیا۔ جب بابی سے دریافت کیاگیا تو وہ چٹھی دکھا کر کہنے لگا کہ اس عریضہ کو حضور ہمایوں میں پیش کرنا ہے۔ ایک افسر جاکر شاہ کی خدمت میں عرض پیرا ہوا کہ وہ ایک بابی ہے جو جسارت عظیم کا مرتکب ہوا ہے کہ فریق مغضوب کا مکتو ب بلا خوف وہراس حضور بادشاہی میں لایا ہے۔ وزرائے دربار نے عقوبت کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ قید وسلاسل میں جکڑ کر بارحیات سے سبکدوش کردیا گیا۔ شاہ نے حکام کی عجلت پسندی پر تاسف کیا اور کہا کہ بھلا کسی نامہ برسے بھی کبھی مواخذہ ہوا ہے کہ اسے ناحق قتل کردیا۔
(مقالۂ سیاح ص۱۲۷)
معلوم نہیں کہ شاہ نے بہاء اللہ کی عرضداشت پڑھی بھی یا نہیں۔ لیکن اتنا معلوم ہے کہ بہاء اللہ اپنی کوشش میں ناکام رہا اور کسی بابی کو مراجعت ایران کی اجازت نہ دی گئی۔ جو صاحب اس طویل مکتوب کا مطالعہ کرنا چاہیں وہ کتاب مقالہ سیاح ص۱۳۳،۱۷۱ کی طرف رجوع کریں۔
اس کے شروع میں یہ چند عربی فقرے بھی مسطور تھے۔ ’’یا الہی ہذا کتاب ارید ان ارسلہ الیٰ لسلطان وانت تعلم بانی مااردت منہ الاظہور عدلہ لخلقک وبروز الطاف لاہل مملکتک وانی لنفسی مااردت الاما اردتہ ولا ارید بحولک الا ماتردید عدمت کینونۃ تریدمنک دونک فوعزتک رضائک منتہیٰ املی ومشیتک غایۃ رجائی فارحم یا الٰہی ہذا الفقیر الذی تشبث بذیل غناک وہذا الذلیل الذی یدعوک بانک انت العزیز العلیم ایدیا الٰہی حضرۃ السلطان علیٰ اجراء حدودک بین عبادک واظہار عدلک بین خلقک لیحکم علیٰ ہذہ الفئۃ کما یحکم علی مودونہم انک انت المقتدر العزیز الحکیم‘‘
بہاء اللہ سے پروفیسر براؤن کی ملاقات
مسٹر ایڈورڈ جی براؤن پروفیسر فارسی کیمبرج یونیورسٹی نے کتاب نقطۃ الکاف کے دیباچہ میں لکھا کہ مجھے بابی مذہب کے حالات معلوم کرنے کا مدت سے اشتیاق تھا۔ آخر صفر
۳۰۵ھ میں ایسے اسباب فراہم ہوئے کہ میں نے ایران کا سفر اختیار کیا اور قریباً ایک سال تک تبریز، زنجان، تہران، اصفہان، شیراز، یزد،کرمان کی سیاحت میں مصروف رہا۔ اس اثناء میں شیعہ، بابی اور زرتشتی فضلاء سے ملاقاتیں کر کے ان کے مذاہب کے معلومات حاصل کئے۔ آخر پورے ایک سال کے بعد یعنی صفر ۱۳۰۶ھ میں انگلستان کو مراجعت کی۔ اس کے ایک سال بعد یعنی ۱۳۰۷ھ میں جزیرہ قبرص وشہر عکہ کا سفر کیا اور دورقیب بھائیوں مرزا یحییٰ نوری معروف بہ صبح ازل کو قبرص میں مرزاحسین علی نوری معروف بہ بہاء اللہ کو عکہ میں دیکھا۔ جزیرہ قبرص کے شہر ماغوسا میں، میں پندرہ دن تک اقامت گزیں رہا۔ اس اثناء میں ہر روز صبح ازل کی ملاقات کوجاتا رہا۔ میرا معمول تھا کہ ظہر سے غروب آفتاب تک معلومات حاصل کر کے مراجعت کرتا تھا۔ صبح ازل ہر موضع پر نہایت بے باکی اور آزادی سے گفتگو کرتا تھا۔ لیکن جب میں بابیوں کے تفرقہ اور بہاء اللہ اور بہائیوں کا تذکرہ چھیڑتا تھا تو اس کی صفا گوئی مبدل بسکون ہو جاتی تھی۔ میں نے اس حالت سے یہ استنباط کیا کہ اس قسم کے سوالات طبع پر شاق گذرتے ہیں۔ اس لئے حتیٰ المقدور اس موضوع پر گفتگو کرنے سے اجتناب کیا۔ ان مجالس میں اکثر اوقات صبح ازل کے فرزند عبدالعلی، رضوان علی، عبدالوحید اور تقی الدین بھی موجود ہوتے تھے۔ جزیرہ قبرص چند سال سے انگریزی حیطہ تصرف میں آیا ہوا تھا۔ میں نے سرہندی بولور حاکم جزیرہ کی اجازت سے دفاتر حکومت پر نظر ڈالی تو اس سے معلوم ہوا کہ صبح ازل اور اس کے پیرو جزیرہ قبرص میں جلاوطن ہوئے ہیں۔ شہر ماغوسا میں پندرہ دن تک قیام کرنے کے بعد میں نے عکہ کا قصد کیا۔ لیکن پہلے بہائیوں کے پیش کار کی ملاقات کے لئے بیروت گیا۔ کیونکہ معمول یہ تھا کہ جو کوئی بہاء اللہ سے ملاقات کرنا چاہتا۔ اسے پہلے پورٹ سعید، اسکندریہ، یا بیروت کے بہائی عمال میں سے کسی ایک کے پاس جاکر اس خواہش کا اظہار کرنا پڑتا تھا۔ اگر ان کی مرضی ہوتی تھی تو اجازت دے کر ملاقات کے قواعد وآداب سے مطلع کرتے تھے۔ ورنہ انکار کر دیتے تھے۔ میں بیروت پہنچا لیکن سوء اتفاق سے بہائی ایجنٹ اس وقت بیروت میں موجود نہ تھا۔ بہاء اللہ کے پاس عکہ گیا ہوا تھا۔ میں بہت افسردہ ہوا۔ کیونکہ میرے پاس دو ہفتہ سے زیادہ وقت باقی نہ تھا۔ اس کے بعد مجھے دارالفنون کیمبرج کو حتماً مراجعت کرنا تھا۔ بہت کچھ دوڑ دھوپ کرنی پڑی۔ آخر عامل کو چٹھی لکھی۔ جس میں وہ سفارش نامہ بھی ملفوف کردیا جو ایران کے بابی دوستوں نے عامل بیروت کے نام لکھ دیا تھا۔ اس کے چند روز بعد میں نے جوابی تار بھیج کر ملاقات کی اجازت چاہی۔ اگلے دن تار کا جواب آیا۔ جس میں نام اور پتہ کے بعد صرف یہ دو عربی لفظ لکھے تھے۔ ’’یتوجہ المسافر‘‘ میں تار پاتے ہی فوراً روانہ ہوا اور ۲۲؍شعبان ۱۳۰۷ھ
کو وارد عکہ ہوا۔ جب عکہ کے قریب پہنچا تو دور سے نہایت خوشنما منظر دکھائی دیا۔ بڑے بڑے خوبصورت باغ تھے۔ نارنگی اور طرح طرح کے دوسرے میوے عجب بہار دکھا رہے تھے۔ ان باغات نے جو حوالی عکہ میں واقع ہیں مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ کیونکہ ایک ایسے شہر میں کہ جس کو بہاء اللہ اپنے نوشتوں میں ہمیشہ احزب البلاد نام سے یاد کیا کرتاتھا۔ مجھے ایسی طراوت اور نضارت کے دیکھنے کی کبھی امید نہ ہوسکتی تھی۔ عکہ میں دن کے وقت ایک مسیحی تاجر کے ہاں فروکش ہوا۔ لیکن رات ایک محترم بہائی کے ہاں گذاری۔ دوسرے دن بہاء اللہ کا بڑا فرزند عباس آفندی جو آج کل عبدالبہاء کے نام سے مشہور ہے آیا اور مجھے وہاں سے منتقل کر کے قصر بہجہ میں کہ عکہ سے باہر کوئی پندرہ منٹ کی راہ ہے، لے جا کر ٹھہرایا۔ اس کے دوسرے دن بہاء اللہ کا ایک چھوٹا بیٹا میرے پاس پہنچا اور خواہش کی کہ میں اس کے ساتھ چلوں میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ بہت سے ایوانوں اور گزرگاہوں سے ہوتے ہوئے کہ جن کو نظر تعمق سے دیکھنے کی فرصت نہ تھی۔ہم ایک وسیع ایوان میں جس کا فرش سنگ مرمر کا تھا اور اس پر نہایت خوشنما پچیکاری ہورہی تھی پہنچے۔ میرا رہنما ایک پردہ کے سامنے تھوڑی دیر تک ٹھہرا رہا تاکہ میں اپنا جوڑا اتارلوں۔ پردے کو اٹھا کر میں ایک وسیع تالار میں داخل ہوا۔ تالار ان چار ستونوں کو کہتے ہیں جنہیں زمین میں گاڑ کر ان پر لکڑی کے تختے جڑ دئے گئے ہوں۔ تالار کے ایک گوشہ میں گاؤ تکیہ کے ساتھ ایک نہایت پر شکوہ اور محترم شخص بیٹھا تھا۔ سرپر درویشوں کے تاج کی مانند لیکن اس سے بہت بلند ٹوپی تھی۔ جس کے گرد سفید کپڑے کا ایک چھوٹا سا عمامہ لپٹا ہوا تھا۔ اس شخص کی درخشاں آنکھیں لوگوں کو بے اختیار اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ ابروکشیدہ پیشانی چین دار بال سیاہ تھے۔ داڑھی بہت سیاہ گھنی اور اس قدر لمبی تھی کہ قریب قریب کمر تک پہنچ رہی تھی۔ یہی شخص بہاء اللہ تھا۔ میں مراسم تعظیم بجالایا۔ بہاء اللہ نے مجھے بہت کچھ تواضع کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا۔ بہاء اللہ میری طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا۔ الحمدﷲ! کہ تم فائز ہوئے۔ تم اس غرض سے یہاں آئے ہو کہ اس مسبحون منفی سے ملاقات کرو۔ صلاح عالم اور فلاح امم کے سوا ہمای کوئی غرض وغایت نہیں۔ لیکن حالت یہ ہے کہ ہمارے ساتھ ان مفسدین کا سا سلوک کرتے ہیں جو حبس وطرد کے مستوجب ہوں۔ تمام ادیان وملل کو ایک مذہب ہوجانا چاہئے۔ ہماری یہ آرزو ہے کہ تمام لوگوں کو بھائی بھائی دیکھیں۔ بنی نوع انسان میں دوستی واتحاد کا رابطہ مستحکم ہو۔ ان کا مذہبی اختلاف دور ہو۔ قومی نزاع مرتفع ہو۔ بھلا اس میں عیب کی کون سی بات ہے؟ اگر ہماری یہ خواہش بارآور ہو تو یہ بیکار رزم وپیکار اور فضول جھگڑے آج ختم ہو سکتے ہیں۔ کیا تم بھی یورپ میں اس امن وسکون کے محتاج ہو؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسی مقصد عظیم کی
تلقین نہیں کی؟ بجائے اس کے کہ تمہارے مال وخزانے اصلاح بلاد اور آسائش عباد میں صرف ہوں۔ دنیا بھر کے حکمران ان خزائن کو نوع بشر کی تخریب میں صرف کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ یہ نزاعیں، یہ مصاف آرائیاں، یہ خونریزیاں اور اختلاف ختم ہو جائیں۔ تمام لوگ ایک خانوادہ کی طرح زندگی بسر کریں۔ کسی شخص کو اس بات پر فخر نہ کرنا چاہئے کہ وہ وطن دوست ہے۔ بلکہ حقیقی فخر یہ ہے کہ وہ نوع بشر کو دوست رکھے۔ اس کے بعد میں پانچ ہی دن عکہ میں قیام کر سکا۔ اس اثناء میں اپنے تمام اوقات قصر بہجہ میں نہایت خوشی کے عالم میں گذارے۔ میرے ساتھ ہر طرح سے مہربانی کا سلوک کیاگیا۔ اس مدت میں مجھے چار مرتبہ بہاء اللہ کی خدمت میں لے گئے۔ ہر مجلس ۲۰دقیقہ سے نیم ساعت تک رہتی تھی۔ یہ تمام مجلسیں ظہر سے قبل منعقد ہوتی تھیں اور ان میں بہاء اللہ کا ایک نہ ایک بیٹا ضرور موجود رہتا تھا۔
بابیوں اور بہائیوں کے مختلف فرقے
پروفیسر براؤن نے نقطۃ الکاف کے مقدمہ میں بابیوں کے متقدمین اور متاخرین کی تحریروں کا مقابلہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تاریخ میں شاید ہی کوئی مذہب ایسا نظر آئے گا جس کے اندر بابی مذہب کی طرح ۶۹سال (۱۲۶۰ھ، ۱۳۲۹ھ) کی قلیل مدت میں اس قدر تبدیلیاں رونما ہوئی ہوں۔ بابی لوگ دو فرقوں ازلی اور بہائی میں تو پہلے ہی تقسیم ہوچکے تھے۔ دوسرا اختلاف بہاء اللہ کی وفات (۲؍ذیقعدہ ۱۳۰۹ھ) کے بعد خود بہائیوں میں بھی رونما ہوا۔ بعض بہائیوں نے تو بہاء اللہ کے فرزند عباس آفندی یا عبدالبہاء کے ہاتھ پر بیعت کی اور دوسروں نے بہاء اللہ کے دوسرے بیٹے مرزا محمد علی کا دامن پکڑا۔ ان اختلافات کی بدولت بابی آج کل چار گروہوں میں منقسم ہیں۔ اوّل وہ ہیں جو کل شئی کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو باب اور آنے والے من یظہرہ اللہ پر ایمان لائے ہیں۔ انہیں اس قصہ سے کوئی سروکار نہیں کہ باب کا وصی کون ہے۔ یہ لوگ بہت قلیل التعداد ہیں۔ دوسرے ازلی جو مرزا یحییٰ نوری ملقب بہ صبح ازل کو باب کا وصی اور جانشین مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ من یظہرہ اللہ ہنوز ظاہر نہیں ہوا۔ یہ گروہ بھی قلیل التعداد ہے اور ان کی جمعیت دن بدن روبزوال ہے۔ سوم بہائی جو صبح ازل کے بھائی مرزا حسین علی نوری ملقب بہ بہاء اللہ کو من یظہرہ اللہ گمان کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ بہاء اللہ کے بعد کم ازکم ہزار سال تک کوئی نیا ظہور نہیں ہوگا۔ چوتھے وہ بہائی جن کا یہ عقیدہ ہے کہ فیض الٰہی کبھی معطل نہیں رہا اور نہ رہے گا یہ لوگ عبدالبہاء کے دعاوی کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کو مظہر وقت جانتے ہیں۔ بابیوں کی کثرت تعداد آج کل اسی آخری فرقہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ
بات سخت حیرت انگیز ہے کہ صبح ازل اور بہاء اللہ کی تاریخ نے مرزامحمد علی اور اس کے سوتیلے بھائی عباس آفندی کے بارہ میں اعادہ کیا ہے۔ یعنی جس طرح صبح ازل اور بہاء اللہ دونوں بھائی باہم دست وگریبان تھے۔ اسی طرح بہاء اللہ کے دونوں بیٹوں میں جنگ آزمائی ہورہی ہے۔
بہائیوں کی خانہ جنگی
اس کے بعد پروفیسر براؤن لکھتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس آخری تفرقہ اور حسد اور جنگ وجدال نے جو بہاء اللہ کے بعد بہائیوں میں رونما ہوا مجھے بہائی تحریک کی طرف سے کچھ بدظن کر دیا۔ میں اکثر سوچتا اور اپنے بہائی دوستوں سے پوچھا کرتا ہوں کہ وہ نفوذ اور قوت تصرف اور قاہریت جو ان کے عقیدہ میں کلمۃ اللہ کی اولین علامت اور اس کی لاینفک خصوصیت ہے کیا ہوئی؟ اور اسے کہاں تلاش کرنا چاہئے؟ بہاء اللہ کو حکم خداوندی تو یہ پہنچا تھا کہ عاشر وامع الادیان بالروح والریحان (تمام مذاہب سے محبت اور رواداری کا سلوک کرو) اور بہاء اللہ کا مقولہ ہے کہ ہم سب ایک ہی درخت کی شاخیں اور ایک ہی شاخ کے برگ وبار ہیں۔ لیکن خود بہاء اللہ کے جانشینوں کا عمل یہ ہے کہ اپنے ہی خانوادہ کے اعضاء وجوارح کو کاٹ رہے ہیں اور ان میں باہم تلخی وعداوت اس درجہ بڑہی ہوئی ہے کہ کوئی شخص اغیار سے بھی ایسی درندگی کا سلوک نہ کرے گا۔ ان کے مقابلہ میں ایران کی اس وقت یہ حالت ہے کہ اہل سنت اور شیعہ، بالاسری اور شیخی، مسلمان اور یہود، عیسائی اور زرتشتی کے اختلافات مٹ رہے ہیںَ لوگ وطن دوستی کے قدح میں سرشار ہیں۔ ہر طبقہ اور ہر جنس کے ایرانی ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔
(مقدمہ نقطۃ الکاف، از پروفیسر براؤن)
اس سے ثابت ہوا کہ اتحاد مذاہب کا بہائی دعویٰ محض زبانی جمع خرچ اور دھوکے کی ٹٹی ہے۔ جس کی کوئی اصل نہیں۔ عبدالبہاء کا تختہ حیات ۱۹۲۱ء میں کنارۂ عدم کو جالگا۔ اس نے شوقی آفندی کو اپنا جانشین بنایا۔ مرزامحمد علی غالباً اب تک زندہ ہے۔ معلوم نہیں کہ مرزامحمد علی اور شوقی آفندی میں بھی جھگڑے قضیے چلے جاتے ہیں یا فریقین نے لڑتے لڑتے تھک کر خاموشی اختیار کر لی؟۔
مشرکانہ عقائد اور زندقہ نواز شریعت
بہائی لوگ بہاء اللہ کو من یظہرہ اللہ اور مسیح موعود بلکہ کل ادیان کا موعود مانتے ہیں۔ بہاء اللہ کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ خدائی کا بھی مدعی تھا۔ چنانچہ کتاب (اقتدار ص۳۶) میں لکھتا ہے۔ ’’کذالک نطق القلم اذا کان مالک القدم فی سجنہ الاعظم بما کسبت ایدی
الظلمین‘‘ (جب مخلوق کا قدیم مالک ظالموں کے ظلم سے اپنے بڑے قید خانے میں پڑا ہوا تھا تو قلم نے اسی طرح نطق فرمایا)
اور اسی کتاب کے (ص۱۱۴) میں لکھتا ہے۔ ’’اذا یراہ احد فی الظاہر یجدہ علے ہیکل الانسان بین ایدی اہل الطغیان واذا یتفکر فی الباطل یراہ مہیمنا علیٰ من فی السموات والارضین‘‘ (جب کوئی شخص اس کو (بہاء اللہ کو) دیکھتا ہے تو اسے اہل طغیان کے ہاتھوں میں انسانی شکل میں پاتا ہے۔ لیکن جب اس کے باطن پر غور کرتا ہے تو اسے آسمانوں اور زمینوں کی مخلوق کا نگہبان پاتا ہے)
اور کتاب (اقدس ص۲۲۵) میں لکھتا ہے۔ ’’الذی ینطق فی السجن الاعظم انہ لخالق الاشیاء وموجدہا حمل البلاء بالاحیاء العالم وانہ لہو الاسم الاعظم الذی کان مکنوناً فی ازل الازال‘‘ (جو بڑے قید خانے میں بول رہا ہے وہی کائنات کا خالق وموجد ہے۔ وہ دنیا کو زندگی بخشنے کے لئے بلاؤں اور مصیبتوں کا متحمل ہوا۔ وہی اسم اعظم ہے جو ازل سے مخفی تھا)
اور کتاب (مبین ص۲۸۶) میں لکھتا ہے۔ ’’لا الہ الا المسجون الفرید‘‘ (مجھ بہاء اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو منفرد ویگانہ ہوں اور قید کیاگیا ہوں) معلوم ہوتا ہے کہ ان دعوؤں کی وجہ سے اس کے مرید بھی اس کو عموماً خدا ہی کے خطاب سے مخاطب کرتے تھے۔ چنانچہ ایک بہائی شاعر (دیوان نوش ص۹۳) کہتا ہے ؎
رخ سوئے تو آوردم اے مالک جان الٰہی
زاں روکہ تودر عالم معبودی وسلطانی
مرزا حیدر علی اصفہانی بہائی نے کتاب بہجۃ الصدور ص۸۲ میں تصریح کی ہے کہ بہاء اللہ (اپنے دعوائے الوہیت کی وجہ سے) اپنے پیروؤں کا مسجود بنا ہوا تھا اور اسی کتاب کے (ص۲۵۸) میں لکھا ہے کہ زائرین اس کی قبر کو سجدہ کرتے ہیں۔ بہائی کہتے ہیں کہ حدیث ’’لوکان الایمان معلقاً بالثریا لنالہ رجل من ابناء فارس‘‘ (اگر بالفرض ایمان ثریا پر بھی چلاگیا ہوگا تو ابناء فارس میں سے ایک شخص اس کو وہاں سے بھی لے آئے گا) بہاء اللہ کے حق میں پیشین گوئی ہے۔ بہائی شریعت کے وضو میں صرف ہاتھ اور منہ دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ سر کے مسح اور پاؤں دھونے کا حکم نہیں۔ البتہ اسکی جگہ ۹۵مرتبہ اللہ ابہی کا وظیفہ پڑھنا بتایا ہے۔ جاڑوں میں تیسرے دن اور موسم گرما میں ہر روز ایک مرتبہ پاؤں دھونے کا حکم ہے اور ہر نماز کے لئے وضو کی ضرورت
نہیں۔ بلکہ دن بھر میں ایک مرتبہ کافی ہے۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی جگہ پانچ مرتبہ بسم اللہ الاطہر کہہ لینا چاہئے۔ بہائی شریعت میں نماز کا قبلہ کعبہ معلی نہیں بلکہ عکہ اور بہاء اللہ کی قبر ہے اور نمازوں میں قرآن وغیرہ نہیں پڑھاجاتا۔ بلکہ بہاء اللہ کی کتابوں کی بعض عبارتیں پڑھی جاتی ہیں۔ نماز پنجگانہ کی جگہ تین تین رکعت کی تین نمازیں صبح، ظہر، مغرب فرض کی گئی ہیں اور نماز پڑھنے کا طریقہ بھی کچھ اور ہی مقرر کیا ہے۔ ان کے نزدیک نماز باجماعت حرام ہے۔ مریضوں اور بوڑھوں کو نماز بالکل معاف ہے۔ صیام رمضان کی جگہ موسم بہار میں انیس روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ روزے میں صبح صادق کی بجائے کھانے پینے کی ممانعت طلوع آفتاب سے رکھی ہے۔ عید الفطر کی جگہ عید نیروز مقرر کی ہے۔ اس کے علاوہ چار اور عیدیں ہیں۔ اسلام نے زکوٰۃ چالیسواں حصہ مقرر کی ہے۔ لیکن بہاء اللہ نے سو مثقال سونے میں سے انیس مثقال یعنی پانچویں حصہ سے کسی قدر کم مقرر کی ہے۔ بہاء اللہ کے گھر میں دو بیویاں تھیں۔ اسی تعداد کے پیش نظر اس نے دو عورتوں تک سے شادی کرنے کی اجازت دی۔ زیادہ کو حرام کر دیا۔ بہاء اللہ نے کتاب الاقدس میں لکھا۔ ’’قد حرمت علیکم ازواج اباء کم انا نستحی ان نذکر حکم الغلمان‘‘ (تم پر تمہارے باپوں کی بیویاں حرام کی گئی ہیں اور لونڈوں کے احکام بیان کرنے سے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے) بہاء اللہ کا صرف باپ کی منکوحہ عورتوں کی حرمت بیان کرنا اور دوسرے محرمات کو چھوڑ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے نزدیک بیٹی، بہن، خالہ، پھوپھی وغیرہ محرمات سے عقد کرنا جائز تھا اور حسب بیان مرزامہدی حکیم (کتاب مفتاح الابواب) یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ میں بہاء اللہ کے دونوں بیٹوں عبدالبہاء اور مرزا محمد علی میں اختلاف رہا۔ مرزا محمد علی کے نزدیک بہاء اللہ کا یہی منشاء تھا کہ باپ کی بیویوں کے سوا تمام عورتوں سے نکاح جائز ہے اور عبدالبہاء نے بہاء کے حکم میں ترمیم کر کے سخت غلطی کا ارتکاب کیا۔ کتاب بدائع الآثار (ج۱ ص۱۵۴) میں جو عبدالبہاء کا سفر نامہ ہے لکھا ہے کہ عبدالبہاء نے ایک تقریر میں کہا کہ بہائیوں کے لئے ہر مذہب وملت کے مرد کو لڑکی دینا اور ہرمذہب کی عورت سے شادی کرنا جائز ہے۔ بہاء اللہ نے شہروں میں انیس مثقال سونا اور دیہات میں انیس مثقال چاندی مہر مقرر کیا اور اس مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار شہریوں کے لئے ۹۵مثقال سونا اور دیہاتیوں کے لئے ۹۵مثقال چاندی مقرر کی۔ مثقال ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے۔ بہاء اللہ نے مفقود الخبر شوہر کی بیوی کو نومہینہ کے بعد شادی کر لینے کی اجازت دی۔ اس کے نزدیک مرد بیوی کو تین طلاقیں دے کر بھی بلاتکلف رجوع کر سکتا ہے۔ داڑھی اور لباس کے متعلق پوری آزادی دی۔
سرمنڈانے کی ممانعت کی۔ سود لینا اور دینا دونوں جائز کر دئیے۔ گانے بجانے کی بھی عام اجازت دی۔
بہاء اللہ کا طویل مدت دعویٰ
مرزائی لوگ عام طور پر مطالبہ کیا کرتے ہیں کہ کسی ایسے جھوٹے مدعی کا نام بتاؤ جس نے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور وہ مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح تیئس سال کی طویل مدت تک اپنے دعویٰ پر قائم رہنے کے باوجود ہلاک نہ ہوا ہو۔ ہر چند کہ مرزائیوں کا یہ معیار صدق وکذب کتاب وسنت سے ہر گز ثابت نہیں ہوسکتا۔ تاہم مرزائیوں کی ضد پوری کرنے کے لئے لکھا جاتا ہے کہ بہاء اللہ ۲۳سال سے زیادہ عرصہ تک اپنے دعویٰ پر قائم رہا اور ایک طویل عمر پاکر مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح طبعی موت مرا۔ اس میں اختلاف ہے کہ بہاء اللہ نے کس سال مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ حسب تحقیق بہائیاں اس نے ۱۸۶۳ء میں اس وقت دعویٰ کیا جب کہ وہ ہنوز بغداد میں تھا۔ (دور بہائی ص۱۴) لیکن پروفیسر براؤن کی تحقیق کے بموجب اس نے ۱۸۶۴ء میں ادرنہ (اڈریانوپل) پہنچ کر دعویٰ کیا۔ (ایپی سوڈ اوف دی باب ص۳۵۹) تاہم اگر ۱۸۶۴ء ہی کو دعویٰ کا صحیح سال قرار دیا جائے تو بھی ۱۸۹۲ء تک جب کہ اس کی کشتی عمر غرقاب فنا میں چلی گئی۔ اس کی مدت دعویٰ مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ سے پانچ سال زیادہ یعنی اٹھائیس سال بنتی ہے اور پھر بہاء اللہ کی مزید فوقیت وبرتری یہ تھی کہ مرزاغلام احمد قادیانی تو ۲۳سال تک انواع واقسام کی جاں گسل بیماریوں میں مبتلا رہ کر ہمیشہ ابتلاؤں کا آماجگاہ بنارہا۔ لیکن بہاء اللہ نے نہ صرف عکہ میں اپنی ۲۴سالہ نظر بندی کی مدت نہایت عیش وعشرت اور شاہانہ ٹھاٹھ میں گزاری۔ بلکہ ایران کو الوداع کہنے کے بعد وہ ہمیشہ عافیت اور آسودگی کی زندگی بسر کرتا رہا۔ اصل یہ ہے کہ خدائے رؤف ودانا جھوٹے مدعیوں اور انبیاء کی تعلیمات سے روگردانی کرنے والے دوسرے ضلالت پسندوں کو عموماً مہلت دیتا ہے۔ تاکہ آج باز آجائیں۔ کل توبہ کر لیں اور اگر وہ جلد تائب نہیں ہوتے تو خدائے بے نیاز ان کی رسن انانیت کو اور زیادہ دراز کردیتا ہے۔ ان کی خود سری کی پاداش میں توفیق الٰہی ان سے سلب کر لی جاتی ہے۔ انجام کار جب وہ اپنی شیطانی نیابت کا سارا کاروبار پایۂ تکمیل تک پہنچالیتے ہیں۔ تو خدائے شدید العقاب اس شجر خبیث کو یکبارگی باغ عالم سے مستاصل کر دیتا ہے۔ امام فخر الدین رازی آیۃ ’’واملی لہم ان کیدی متین‘‘ (میں ان کو مہلت دیتا ہوں۔ میری یہ تدبیر نہایت زبردست ہے) کی شرح میں لکھتے ہیں۔
’’اے امہلم اطیل لہم مدۃ عمرہم لیتما دوا فی المعاصی ولا اعاجلہم بالعقوبۃ علیٰ المعصیۃ‘‘ میں ان کو مہلت دیتا ہوں ان کی مدت عمر کو دراز کردیتا ہوں۔ ان کی سزا میں جلدی نہیں کرتا تاکہ وہ سرکشی اور شوریدہ سری میں اپنے دل کے حوصلے نکال لیں۔
باب۶۹ … محمد احمد مہدی سوڈانی
محمد احمد ۱۸۴۸ء میں دریائے نیل کے تیسرے آبشار کے قریب موضع حنگ میں پیدا ہوا۔ اس کے باپ کا نام عبداﷲ اور ماں کا نام آمنہ بتایا جاتا ہے۔ عبداﷲ کشتی سازی کا کام کرتا تھا۔ محمد احمد ابھی بچہ ہی تھا کہ والدین جزیرہ ابا کو جو خرطوم سے شمال کی جانب نیل ابیض پر واقع ہے۔ نقل مکان کر گئے۔ محمد احمد نے بارہ برس کی عمر میں کلام الٰہی حفظ کر لیا۔ اس کے بعد جزیرہ شبکہ میں اپنے چچا شریف الدین کے پاس کشتی سازی کا کام سیکھنے کے لئے بھیجا گیا۔ ایک دن چچا نے اسے کسی بات پر پیٹا تو بھاگ کر شہر خرطوم چلاآیا۔ جو سوڈان کا صدر مقام ہے اور عرصہ تک مدرسہ خوجلی میں علوم دین کی تحصیل کرتا رہا۔ یہاں سے بربرگیا اور ایک مدرسہ میں داخل ہو کر علوم دین کی تکمیل کی۔ یہاں سے ارداب پہنچ کر شیخ نور الدائم کا مرید ہوا۔ جو ایک مشہور پیر طریقت تھے۔ وہاں کچھ عرصہ تک علوم حالی کی تحصیل میں مصروف رہا۔ اس کے بعد پھر خرطوم آیا اور شیخ محمد شریف نام ایک پیر کے حلقہ میں داخل ہوکر طریقہ سمانیہ کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ ان دنوں ایک عجیب اتفاق پیش آیا۔ شیخ مذکور کے بچوں کی ختنہ ہوئی اور ان کے شاگردوں نے ایک جلسہ منعقد کر کے رسم ختنہ کی تقریب منائی۔ اس مجلس میں کثرت سے لوگ شریک ہوئے اور رقص وسرود سے دل بہلایا گیا۔ محمد احمد نے لوگوں کو اس خلاف شرع تفریح سے منع کیا اور کہا کہ شریعت حقہ ناجائز فعل کو جائز قرار نہیں دے سکتی اور شیخ، شریعت کے کسی ممنوع فعل کو جائز نہیں کر سکتا۔ شیخ محمد شریف کو جب اس کی خبر پہنچی تو غضبناک ہوکر محمد احمد کو طلب کیا۔ محمد احمد محمد شریف کی خدمت میں حاضر ہوا اور معافی چاہی۔ لیکن شیخ نے معاف نہ کیا اور زجرو تو بیخ کے بعد اس کا نام طریقہ سمانیہ کی فہرست سے خارج کر کے اس کو خانقاہ سے نکال دیا۔ لیکن محمد احمد کی حق گوئی اور جرأت ودلیری نے لوگوں کو بہت متأثر کیا اور اہل سوڈان کے دلوں میں اس کا وقار بہت بڑھ گیا۔ وہاں سے جزیرہ ابا کو مراجعت کی۔ کچھ دنوں کے بعد یہاں ایک غار میں داخل ہوکر ہر وقت ذکر الٰہی میں مصروف رہنے لگا۔ کہتے ہیں کہ غار میں خوشبو جلاکر کسی اسم کا درد کرتا رہا۔ اس عرصہ میں اس کے زہد واتقاء کا غلغلہ اطراف واکناف ملک میں بلند ہوا۔ بارہا لوگ حلقہ مریدین میں داخل ہونے لگے۔ اس کی عظمت یہاں
تک دلوں میں نقش ہوئی کہ بڑے بڑے اصحاب ثروت واقتدار کی جبین نیاز اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوئی۔ یہاں تک کہ بغارا کے مغرور وسرفراز شیوخ نے جو اپنے برابر دنیا میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ بکمال منت اپنی لڑکیاں عقد ازدواج کے لئے پیش کیں۔ جب محمد احمد کے پیروؤں کی تعداد دن بدن بڑھنے لگی تو آخر کار اس مذہبی گروہ پر سیاسی رنگ چڑھنے لگا اور اشاعت اسلام کے پردے میں ملک گیری کے ارادے نشوونما پانے لگے۔ محمد احمد نے جہاد فی سبیل اللہ کا وعظ شروع کیا۔ اس کا قول تھا کہ موت ہمیں اس سے بھی کہیں زیادہ مرغوب ہے۔ جس قدر کہ دولہا کو عروس نو محبوب ہوتی ہے۔ محمد احمد کی دعوت میں کچھ ایسا برقی اثر تھا کہ سیکڑوں آدمی روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہوکر شرکت جہاد پر آمادگی ظاہر کرنے لگے۔ چنانچہ اسلحہ جنگ کی فراہمی شروع ہوئی اور حرب وضرب کی تیاریاں ہونے لگیں۔
دعوائے مہدویت اور گورنر خرطوم کی پریشانی
مئی ۱۸۸۱ء میں محمد احمد نے سوڈان کے تمام ممتاز لوگوں کے نام اس مضمون کے مراسلات بھیجنے شروع کئے کہ جناب سرور عالمﷺ نے جس مہدی کے آنے کی اطلاع دی تھی وہ میں ہوں۔ مجھے خداوند عالم کی طرف سے سفارت کبریٰ عطاء ہوئی ہے۔ تاکہ میں دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دوں اور ان تمام خرابیوں کی اصلاح کروں۔ جو لوگوں نے دین متین میں پیداکر دی ہیں اور مجھے حکم ملا ہے کہ تمام عالم میں ایک مذہب، ایک شریعت، اور ایک ہی بیت المال قائم کروں اور جو شخص میرے احکام کی تعمیل نہ کرے اسے بحرعدم میں غرق کر دوں۔ محمد احمد نے ماہ رمضان میں مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں سوڈان اور مصر کے طول وعرض میں اس کی دعوت کا چرچہ ہونے لگا۔ ماہ جولائی میں رؤف پاشا کو جو خدیومصر کی طرف سے سوڈان کا گورنر جنرل تھا۔ محمد احمد کے دعوائے مہدویت اور اس کی تبلیغی مراسلات کی اطلاع ہوئی تو اس نے اپنے معتمد خاص ابوالسعود کو چار علماء کے ساتھ اس غرض سے محمد احمد کے پاس بھیجا کہ اسے خرطوم لاکر حاضر کریں۔ ابوالسعود جزیرہ ابا پہنچا اور کشتی سے ساحل پر اتر کر بلند آواز سے پکارا کہ مہدی کہاں ہے؟ محمد احمد ساحل پر آیا اور ابوالسعود کے پاس پہنچ کر اس کی مسند پر بیٹھ گیا۔ ابوالسعود نے دریافت کیا، کیا تم ہی نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ محمد احمد نے نہایت متانت سے جواب دیا۔ ہاں میں ہی وہ مہدی ہوں۔ جس کا انتظار کیا جارہا تھا۔ ابوالسعود نے کہا اس دعویٰ سے تمہاری کیا غرض ہے؟ محمد احمد نے جواب دیا کہ خدائے کردگار نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ روئے زمین کو عدل وانصاف سے بھردوں۔ کفر کو سرنگوں اور دین حنیف کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کروں۔ خدا
کی زمین پر خدائے لایزال کا قانون (قرآن) حکمران ہو اور اسلام سربلند دکھائی دے۔ ابوالسعود نے کہا کہ اس ملک کا حکمران بھی تمہاری طرح مسلمان ہے۔ محمد احمد نے جواب دیا کہ یہ بات غلط ہے۔ کیونکہ حکمران نے نصاریٰ کو سیاہ وسپید کا مالک بنارکھا ہے اور وہ جابجا گرجے بناتے اور مسلمانوں کو مرتد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب ابوالسعود سمجھانے لگا کہ گورنمنٹ برطانیہ اور حکومت مصر کی مخالفت اچھی نہیں۔ بہتر ہے کہ بلا انحراف میرے ساتھ خرطوم چل کر رؤف پاشا کی ملاقات کر آؤ۔ محمد احمد نے کہا میں وہاں نہیں جاسکتا۔ ابوالسعود بولا تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ اس سے پہلے ہی اپنے تئیں گورنر خرطوم کے حوالے کر دو۔ جب کہ سرکاری توپیں اور انگریزی جنگی جہاز گولہ باری کر کے جزیرہ ابا کو خاک سیاہ کر دیں۔ محمد احمد نے قبضۂ شمشیر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ کسی بدبخت کی کیا مجال ہے کہ میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے؟ اس کے بعد نہایت درشت لہجہ میں ابوالسعود سے کہا جاؤ۔ میں ہرگز تمہارے ساتھ نہ جاؤنگا۔ ابوالسعود محمد احمد کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر سہم گیا اور اپنی عافیت اسی میں دیکھی کہ وہاں سے چلتا بنے۔ آخر اپنے ساتھیوں کی معیت میں خرطوم پہنچ کر دم لیا اور رؤف پاشا کو صورتحال سے مطلع کر کے کہنے لگا کہ اگر پچاس مسلح آدمیوں کو میرے ساتھ کر دو تو میں اس منافق کو آپ کے پاس گرفتار کر لاتا ہوں۔ بیچارے ابوالسعود کو کیا معلوم تھا کہ میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ بلکہ یہ شخص عنقریب تفوق کے آسمان پر مہر منیر بن کر جلوہ گر ہوگا اور تین سال کے اندر سوڈان کی فضا اس کے پرچم اقبال پر فخر کرے گی۔ رؤف پاشا نے پچاس سپاہی اس کے سپرد کر دئیے۔ وہ اس جمعیت کو لے کر ابا پہنچا۔ خودکشتی میں رہا اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ جزیرہ میں داخل ہوکر خانہ ساز مہدی کو گرفتار کر لاؤ۔ سپاہی ساحل سے بڑھے اور محمد احمد پر حملہ کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ جب محمد احمد کو ان کی آمد کا علم ہوا تو اس نے مریدوں کا ایک غول بھیج دیا۔ وہ یک بیک ان سپاہیوں پر ٹوٹ پڑے اور آناً فاناً سب کو قعر عدم میں پہنچا دیا۔ اس واقعہ سے مہدی کا اثر اور بڑھ گیا اور اس کے دعوائے مہدویت کو بڑی تقویت پہنچی۔ جب رؤف پاشا کو اس واقعہ کا علم ہوا تو سخت پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ اب کیا تدبیر کی جائے؟
محمد احمد کے مقابلہ میں پہلی ناکام مہم
اب رؤف پاشا نے حکومت مصر کی منظوری سے مہدی کے مقابلہ کے لئے تین سو سپاہی اور دوعدد توپیں ایک جنگی جہاز کے ذریعہ سے روانہ کیں۔ یہ دستہ فوج ۱۱؍اگست ۱۸۸۱ء کی صبح کو بہ سرکردگی علی آفندی ابا سے تھوڑے فاصلہ پر اترا۔ علی آفندی نے دیکھا کہ ایک شخص جس کے ارد گرد بہت سے آدمی ہیں۔ ان کی طرف آرہا ہے۔ یہ سمجھ کر کہ یہی شخص مہدی ہے۔ چاہا کہ ایک ہی وار
میں اس کا کام تمام کر دے۔ چنانچہ نہایت تیزی سے اس شخص کے سر پر پہنچ کر کہنے لگا کہ تونے ملک میں کیوں فساد ڈال رکھا ہے؟ اور جھٹ اس کے گولی ماردی۔ مگر مقتول مہدی نہ تھا کوئی دوسرا شخص تھا۔ لیکن پھر مقتول کے ساتھی معاً علی آفندی پر حملہ آور ہوئے اور اس نے آنا فاناً دارالقرار جاوید کو انتقال کیا۔ علی آفندی کو ٹھکانے لگانے کے بعد محمد احمد کے پیرو اس کے ساتھیوں پر ٹوٹ پڑے اور سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس اثناء میں جنگی جہاز کے افسر توپ خانہ کو حکم ہوا کہ وہ مہدویوں پر جو وہاں سے تھوڑے فاصلہ پر نظر آرہے تھے گولہ باری کرے۔ مگر گولہ انداز مہدی کی مقدس وضع دیکھ کر سہم گیا اور آتش بازی میں لیت ولعل کرنے لگا۔ آخر جب سختی کی گئی تو اس نے ہوائی فیر شروع کر دئیے۔ اتنے میں محمد احمد اور اس کے سوار وہاں سے دوسری جگہ کو چلے گئے۔ ابوالسعود نے جو اس فوج کے ساتھ تھا راہ فرار اختیار کی اور شکست خوردہ خرطوم پہنچا۔ اس ہزیمت کا یہ نتیجہ ہوا کہ مہدی کے پیروؤں کی تعداد اور زیاد بڑھنے لگی۔ ان جھڑپوں سے محمد احمد نے جو نتیجہ نکالا وہ دانشمندی پر مبنی تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ مرکز حکومت کے قریب رہنا خطرات سے لبریز ہے۔ اس لئے اس نے جزیرہ ابا پر اپنے ایک مرید احمد مکاشف کو قائم مقام مقرر کیا اور خود کوہ کردو فان جاکر اس کو اپنا مرکز ومستقر بنالیا۔ جزیرہ ابا کے شمال میں پچاس میل کے فاصلہ پر نیل ابیض کے قریب مقام کا دا پر ایک مصری فوج جس میں چودہ سو سپاہی تھی اور جس کا افسر اعلیٰ محمد سعید پاشا تھا پڑی تھی۔ جب محمد احمد کرددد فان پہنچا تو اس لشکر نے محمد احمد کے خلاف جنبش کی۔ یہ دیکھ کر محمد احمد نے جنوبی کردوفان کا رخ کیا۔ مصری لشکر نے تعاقب کیا اور ایک مہینہ تک جنگلوں اور پہاڑوں میں ٹکریں مارتا پھرا۔ لیکن محمد احمد کا پتہ نہ پاسکا۔ آخر اسی تگ ودو میں بھوک پیاس کی شدت سے ہلاک ہوگیا۔ مہدی کے مقابلہ میں دو مہمیں اور بھی بھیجی گئیں۔ لیکن وہ بھی نہ صرف ناکام رہیں۔ بلکہ تمام فوجیں صفحہ ہستی سے بالکل نابود ہوگئیں۔ اب رشید بے حاکم فشود ایک زبردست جمعیت کے ساتھ مہدی کے مقابلہ کو روانہ ہوا اور ۸؍دسمبر ۱۸۸۱ء کو لڑائی ہوئی۔ لیکن یہ لوگ بھی مہدویہ کے نیزوں سے چھد کر عالم آخرت کو چلے گئے اور بہت سا سامان جنگ مہدی کے ہاتھ آیا۔ رؤف پاشا قبل اس سے کہ کوئی اور تدبیر اس آفت کے ٹالنے کی سوچے ۱۸۸۲ء کے آغاز میں عہدہ گورنری سے معزول کر دیا گیا اور عبدالقادر پاشا سوڈان کا گورنر جنرل مقرر ہوکر آیا۔ اس اثناء میں مہدویہ نے مسلسل حملے کر کے تمام سرزمین سنار پر عمل ودخل کر لیا۔ اب شلالی پاشا نام ایک فوجی جرنیل نے مہدی کے خلاف ایک فوج مرتب کی۔ جس کی تعداد چھ ہزار تھی۔ مئی ۱۸۸۲ء میں یہ فوج فشودہ میں داخل ہوئی۔ وہاں سے خشکی کی راہ سے آگے بڑھی۔ آخر آہستہ آہستہ کوچ کرتی ہوئی ۷؍جون کو دشمن کے قریب
پہنچ گئی۔ محمد احمد نے چاروں طرف سے یکبارگی حملہ کر کے اس فوج کو بالکل تباہ وبرباد کر دیا اور مال غنیمت سے خوب ہاتھ رنگے اس حملہ میں سرکاری فوج کے بہت کم آدمی بچ سکے۔ اس فتح عظیم نے مہدی کے اقتدار کو اور زیادہ چمکا دیا۔ اہل سوڈان یہ دیکھ کر کہ مہدی کی مٹھی بھر فوج نے کثیر التعداد سپاہ پر فتح پائی۔ محمد احمد کی مہدویت پر اور زیادہ راسخ الاعتقاد ہوگئے۔ جب یہ خبر خرطوم پہنچی تو عبدالقادر پاشا بیش از پیش تیاریوں میں مصروف ہوا۔ محمد احمد نے اپنے پیروؤں کو درویش کا لقب دیا تھا۔ عبدالقادر پاشا نے اعلان کر دیا کہ جو شخص درویشوں کو قتل کرے گا حکومت کی جانب سے اسے معقول انعام دیا جائے گا۔ یعنی فی درویش دو پونڈ اور فی افسر اٹھارہ پونڈ معاوضہ ملے گا۔ اسی طرح اس مضمون کے اشتہار چھپوا کر محمد احمد کے لشکر میں پھینکوا دئیے کہ جو درویش محمد احمد کی رفاقت ترک کر کے حکومت کی وفاداری کا عہد کریںگے ان کو حکومت کی طرف سے بڑے بڑے انعام ملیںگے۔ لیکن عبدالقادر پاشا کو اس کوشش میں کوئی کامیابی نہ ہوئی۔
ابیض کا محاصرہ اور تسخیر
عبدالقادر فراہمی لشکر میں ہمہ تن مصروف رہا۔ تھوڑے عرصہ میں اس کے پاس بارہ ہزار فوج جمع ہوگئی۔ جس میں سے ایک ہزار اس نے کردوفان کے صدر مقام ابیض کی حفاظت کے لئے بھیج دی۔ اتنے میں محمد احمد فوج لے کر ابیض کی طرف بڑھا۔ جہاں مصر کی طرف سے محمد سعید پاشا حکمران تھا۔ جب محمد سعید پاشا کو اس پیش قدمی کی اطلاع ہوئی تو اس نے تمام اطراف سے فوج جمع کی اور شہر پناہ کے دروازوں کو بند کر کے مقابلہ کے لئے مستعد ہوا۔ ستمبر ۱۸۸۲ء کے شروع میں مہدی درویشوں کی معقول جمعیت کے ساتھ ابیض کے قریب پہنچا اور محمد سعید پاشا کو لکھا کہ وہ شہر کو اس کے حوالے کر دے۔ محمد سعید پاشا نے ارکان واعیان کو جمع کر کے مشورہ کیا۔ سب نے یہی رائے دی کہ مہدی کے قاصد کو واپس کر دیا جائے اور کوئی جواب نہ دیا جائے۔ لیکن شہر کے وہ باشندے جو درپردہ مہدی کی دعوت کو قبول کر چکے تھے اور جن کی مخفی تحریک سے مہدی یہاں آیا تھا۔ شہر سے نکل کر مہدی سے جا ملے۔ ان لوگوں میں ابیض کا سابق حاکم اور کردوفان کا مشہور تاجر الیاس پاشا بھی شامل تھا۔ جو اپنے ساتھ محافظ سپاہ کے کچھ آدمیوں کو بھی لے گیا۔ اب ابیض میں محمد سعید پاشا اور اس کے چند معتمد لوگ تھے جو دس ہزار باشی بزدق لشکر کو شہر کے اندر لئے ہوئے حفظ ودفاع کے لئے سربکف تھے۔ مہدی جو لشکر مقابلہ کے لئے لایا تھا۔ اس میں چھ ہزار صرف سنگین بردار سپاہی تھے۔ جن کے پاس اعلیٰ قسم کی وہ مصری بندوقیں تھیں جو مختلف مواقع پر مصری لشکر سے مال غنیمت میں حاصل کی گئی تھیں۔ اس وقت مہدی کی مجموعی قوت ساٹھ ہزار آدمیوں پر مشتمل تھی۔
۸؍ستمبر ۱۸۸۲ء کو مہدی نے ابیض پر حملہ کیا۔ چونکہ شہر پناہ نہایت مضبوط اور مستحکم تھی۔ مہدی کی سپاہ کو سخت نقصان اٹھانا پڑا اور آخر اس کو شکست ہوئی۔ مصری سپاہ نے تیرہ جھنڈے جن میں ایک جھنڈا خاص مہدی کا تھا اور جس کا نام رایت عورائیل تھا۔ مال غنیمت میں حاصل کئے۔ اس حملہ میں مہدی کے ہزارہا آدمی ضائع ہوئے۔ جن میں اس کا بھائی محمد اور عبداﷲ التعایشی خلیفۂ مہدی کا بھائی یوسف بھی تھا۔ مصری محافظ سپاہ کے صرف تین سو آدمی مقتول ہوئے۔ مہدی پر اس شکست کا بڑا اثر پڑا اور اسے محسوس ہوا کہ مستحکم ومضبوط فصیلوں اور شہرپناہوں پر حملہ کرنے میں کیا خطرات ہیں اور عہد کیا کہ وہ آئندہ مستحکم فصیلوں اور شہرپناہوں پر کبھی حملہ نہ کرے گا۔ بلکہ محصورین کو بھوکوں مار کر حوالگی شہر پر ان کو مجبور کرے گا۔ اس اثناء میں مہدی کو کمک پہنچ گئی اور اس نے ابیض کا سختی کے ساتھ محاصرہ کر لیا۔ آخر ساڑھے چار مہینہ تک محصور رہنے کے بعد اہل ابیض نے تنگ آکر اپنے آپ کو مہدی کے حوالے کر دیا۔ اب تمام کردوفان مہدی کے قبضہ میں تھا۔ ان حملوں اور محاصروں میں محمد احمد کو کثیر مال غنیمت حاصل ہوا۔ سامان جنگ اور اسلحہ بکثرت ہاتھ آئے اور غلہ کی بھی بہت بڑی مقدار ملی۔ سعید پاشا حاکم ابیض اور سرکاری عملہ گرفتار کر لیا گیا۔
نظام حکومت اور فرمان شاہانہ
محمد احمد نے کردوفان پر قبضہ کر کے اس کے انتظام کی طرف توجہ کی۔ اس نے انتظامی صیغوں کو تین محکموں میں تقسیم کیا۔ (۱)سپاہ۔ (۲)قضا۔ (۳)مال۔ سپاہ کا انتظام عبداﷲ تعایشی کے سپرد کیا۔ محکمہ قضا احمد بن علی کے دست اختیار میں دیا۔ یہ شخص پہلے دارفور میں قاضی تھا۔ اس عہدہ کا نام قاضی الاسلام رکھا۔ مالی معاملات کے انصرام کے لئے ایک بیت المال بنایا۔ جس میں ہر قسم کی آمدنی عشور، مال غنیمت، زکوٰۃ، فطرہ اور جرمانوں کی رقمیں جمع ہوتی تھیں۔ جرمانے ان لوگوں سے وصول کئے جاتے تھے جو قانون شریعت کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ محمد احمد نے محکمہ مال کا افسر اعلیٰ اپنے ایک دوست احمد بن سلطان کو مقرر کیا۔ محمد احمد کے اس نظام حکومت پر رعایا بہت خوش ہوئی۔ کیونکہ ہر شخص کو اس کی بدولت آسائش اور راحت وسکون نصیب ہوا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ کسی پر ظلم کر سکے۔ یا عمال حکومت کسی سے ناجائز طور پر ایک حبہ بھی وصول کر لیں۔ محمد احمد کا لباس خوراک، طرز معاشرت ہر چیز سادہ تھی۔ انتہاء درجہ کی زاہدانہ اور متقشفانہ زندگی بسر کرتا تھا۔ اسے ہر وقت احکام شریعت کے اجراء کی دھن تھی۔ اس نے اپنی قلمرو میں وہ تمام حدیں جاری کردی تھیں جو شریعت اسلام نے مقرر فرمائی ہیں۔ اس کے مواعظ کا خلاصہ ترک دنیا اور انقطاع الیٰ اللہ تھا۔ ذیل میں اس کے ایک منشور (فرمان) کے اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔ جو اس
نے ۱۳۰۱ھ میں ابیض سے شائع کیا تھا۔ اس منشور سے اس کی پابندی مذہب اور زاہدانہ خیالات کا اندازہ ہوسکے گا۔ حمد وصلوٰۃ کے بعد لکھتا ہے۔ ’’اے بندگان خدا! اپنے رب بزرگ وبرتر کی حمد کرو۔ اس کا شکر ادا کرو کہ اس نے تم کو مخصوص نعمت سے سرفراز فرمایا۔ وہ نعمت کیا ہے؟ میرا (بحیثیت مہدی) ظاہر ہونا اور یہ تمہارے لئے دوسری امتوں پر شرف خاص ہے۔ میرے دوستو! میرا مطمح نظر یہ ہے کہ تم کو راہ ہدایت دکھاؤں۔ خدا کے راستہ میں مہاجرۃ اختیار کرو۔ جہاد فی سبیل اللہ کو اپنا نصب العین بناؤ۔ دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے منقطع ہوجاؤ۔ یہاں تک کہ راحت وآسائش کا خیال ہی دل سے نکال دو۔ اگر دنیا کوئی اچھی چیز ہوتی تو خدا اس کو تمہارے لئے آراستہ کردیتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ ان لوگوں کو دیکھو جن کو ہر قسم کی دنیوی آسائشیں حاصل تھیں۔ لیکن ایک وقت آیا کہ ان کی تمام راحتیں مصائب سے بدل گئیں اور آسائش زندگی کی شراب تکلیفوں کا زہر بن گئی۔ اگر دنیا کی راحت میں کوئی بھلائی ہوتی تو ایسا کیوں ہوتا؟ اور اسی پر بس نہیں بلکہ آخرت کا دردناک عذاب ان کے لئے باقی ہے۔ تعجب ہے کہ تم یہ سب دیکھتے ہو اور پھر دنیوی راحت وآسائش کی تمنا اور دنیوی زندگی کی آرزو کرتے ہو۔ دنیا کی آسائشوں کو ٹھکرادو۔ خدا سے ڈرو۔ اس کے سچے بندوں کی رفاقت اختیار کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو کہ سچی زندگی یہی ہے۔ خدا کی راہ میں ایک مسلمان کا تلوار کو حرکت میں لانا ثواب میں ستر برس کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ جہاد میں صرف اتنی دیر کھڑے رہنے کا ثواب بھی ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ جتنی دیر میں اونٹنی کا دودھ دوہتے ہیں۔ عورتوں پر بھی خدا کی راہ میں جہاد فرض ہے۔ پس جو عورتیں کہ میدان جہاد میں خدمات انجام دے سکتی ہیں اور شرعاً ان کے لئے گھر سے باہر نکلنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ وہ اپنے ہاتھ پاؤں سے جہاد کریں۔ جو ان اور پردہ نشین عورتوں کا جہاد یہ ہے کہ وہ گھروں میں پاک زندگی بسر کریں اور اپنے نفس سے جہاد میں مصروف رہیں۔ گھر سے بلا ضرورت شرعی باہر نہ نکلیں۔ بلند آواز سے (کہ غیر مرد ان کی آواز سنیں) باتیں نہ کریں۔ نماز کو پابندی کے ساتھ وقت پر ادا کریں۔ اپنے شوہروں کی اطاعت فرض سمجھیں۔ اپنے جسموںکو کپڑوں سے چھپائے رہیں۔ جو عورت کہ جسم کو نہ ڈھکے اس کو سزا دی جائے۔ اگر ایک لحظہ بھی کوئی عورت سرکھول کر بیٹھے تو اس کو ستائیس کوڑوں کی سزا دی جائے اور جو فحش گفتگو کرے اس کے اسی کوڑے لگائے جائیں۔ جو مرد اپنے بھائی (مسلمان) کو کتا یا سور یایہودی یا اسی قسم کے اور الفاظ سے یاد کرے اس کے اسی کوڑے لگائے جائیں اور سات روز کی قید کی جائے اور جو شخص (کسی مسلمان کو) فاجر یا چور یا زانی یا خائن یا ملعون کہے اس کو اسی کوڑوں کی سزا دی جائے اور جو شخص
(کسی مسلمان کو) کافر یا نصرانی یا لوطی کہے اس کو اسی کوڑوں اور سات دن قید کی سزا دی جائے۔ جو شخص کسی ایسی اجنبی عورت سے جس سے اس کا نہ تو کوئی شرعی تعلق ہو اور نہ شرعاً اس سے گفتگو کا جواز ہو، باتیں کرتا ہوا پایا جائے اسے ستائیس کوڑوں کی سزا دی جائے اور جو شخص کسی حرام فعل پر قسم کھائے۔ اس کو تادیباً ستائیس کوڑوں کی سزا دی جائے اور جو شخص حقہ پئے یا تمباکو کسی دوسری طرح کھانے اور پینے کے کام میں لائے تادیبا اسی کوڑوں کی سزا دی جائے اور جس قدر تمباکو اس کے پاس موجود ہو اس کو جلادیا جائے۔ تمباکو کو منہ میں رکھنے، ناک میں چڑھانے اور کسی دوسرے طریقہ پر استعمال کرنے کی بھی یہی سزا ہے۔ جو شخص صرف خرید وفروخت کرتا ہوا پایا جائے اور وہ اس کو استعمال نہ کرتا ہو یا استعمال کا موقع نہ ملا ہو اس کو صرف ستائیس کوڑوں کی سزا دی جائے۔ شراب پینے والے کو خواہ وہ ایک قطرہ کا استعمال ہی کیوں نہ کرتا ہو اسی کوڑے لگائے جائیں۔ اگر شراب خور کا ہمسایہ اس کو سزا دینے کی خود قدرت نہ رکھتا ہو تو امیر شہر کو اطلاع دے۔ ورنہ اس کو اخفائے جرم میں اسی کوڑوں اور سات روز قید کی سزا دی جائے گی تاکہ عبرت پذیر ہو۔ انسان کا اپنے نفس (سرکش) سے خدا کی خوشنودی واطاعت کے لئے جہاد کرنا جہاد بالسیف سے بھی بہتر ہے۔ اس لئے کہ نفس (سرکش) کافر سے زیادہ سخت ہے کافر تو صرف مقابلہ کرتا ہے اور جنگ کے بعد اس سے راحت مل جاتی ہے۔ لیکن نفس ایک ایسا دشمن ہے جس کا مغلوب کرنا نہایت دشوار کام ہے۔ جو شخص قصداً نماز کو چھوڑے گا وہ خدا اور اس کے رسول دونوں کا گنہگار ہوگا۔ بعض ائمہ مجتہدین نے فرمایا ہے کہ تارک نماز کافر ہے اور بعض نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا ہے۔ تارک نماز کا پڑوسی اگر اس کو سزا دینے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو امیر شہر کو آگاہ کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو اس کو اسی کوڑوں اور سات روز قید کی سزا اخفائے جرم کی پاداش میں دی جائے گی۔ اگر کوئی لڑکی پانچ سال کی عمر کو پہنچ گئی اور اس کی ستر پوشی نہ کی گئی تو اس کے وارثوں کو کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ جو عورت کسی ایسے شخص کے ساتھ پائی جائے جس سے اس کی منگنی ہوچکی ہو لیکن عقد نہ ہوا ہو تو اس مرد کو قتل کر دیا جائے گا اور اس کا مال، مال غنیمت سمجھا جائے گا۔
میرے دوستو! تم مخلوق خدا پر شفقت کرو۔ اس کو زہد وترک دنیا کی رغبت دلاؤ اور آخرت کی محبت اس کے قلب میں مستحکم کر کے اسے طلب عقبیٰ کا شائق وگرویدہ بنا دو۔ تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ تم خدا کے بندوں کو عداوت نفس سرکش کی اہمیت جتلا کر اس سے محفوظ رہنے کے طریقے بتلاؤ۔ تم سے انصاف طلب کیا جائے تو پوری طرح انصاف کرو اور مشکلات پر صر واستقامت کی تعلیم دو۔ وہ معاملات جو ۱۲؍رجب ۱۳۰۰ھ سے پہلے کے ہیں۔ سوائے معاملات امانت، قرض اور مال
یتیم کے سب اٹھالئے گئے اور اب ان کے متعلق کسی سے بازپرس نہ ہوگی۔ البتہ ۱۲؍رجب ۱۳۰۰ھ کے بعد اور فتح سے قبل کے معاملات میں دعاوی کی سماعت ہوگی۔ قتل نفس کے مقدمات میں مقتول کے وارث کو قصاص اور دیت کا اختیار دیا جائے گا اور فتح کے بعد کے معاملات میں صرف قصاص کے قضایا طے کئے جائیںگے۔ پس میرے احکام کے مطابق ان کا فیصلہ کرو۔ اسی طرح مقدمات خلع میں مرد جو مال عورتوں سے دخول وتمتع کے بعد حاصل کرتے ہیں وہ ان کو نہ دیا جائے کہ یہ جائز نہیں ہے۔ بلکہ ان کے مقدمات کا فیصلہ قرآن مجید کے احکام کے مطابق کیا جائے۔
میرے دوستو! سمجھ لو کہ اتحاد واستقامت ضروری چیز ہے۔ احکام خداوندی کی مخالفت نہ کرو۔ اوامر کی پابندی لابد ہے۔ میرے احکام کو سنو اور اطاعت کرو۔ تبدیل وتحریک کا خیال بھی دل میں نہ آنے دو۔ خداوند تعالیٰ نے جو نعمت تم کو دی ہے اس کا شکر ادا کرو اور کفران نعمت سے باز رہو۔ عورتوں کے مہر بڑھا کر نہ باندھو۔ دولت مند عورت کا مہر دس ریال مجیدی بلکہ اس سے بھی کم رکھو۔ متوسط الحال اور غرباء پانچ ریال مجیدی (قریباً۸؍ریال) سے زیادہ مہر نہ رکھیں۔ بلکہ اس سے کم رکھیں جو شخص اس کے خلاف بڑے بڑے مہر باندھے اس کو تادیباً کوڑوں اور قید کی اتنی سزا دی جائے کہ وہ تائب ہو جائے یا قید میں مر جائے۔ ایسا شخص ہمارے زمرہ سے خارج ہے اور ہم اس سے بری ہیں۔‘‘
جرنیل ھکس کا قتل، انگریزی اور مصری افواج کی بربادی
محمد احمد نے اپنے بعض معتمد افسروں کو اطراف سوڈان میں تبلیغ ودعوت کے لئے روانہ کیا۔ عثمان دغنہ جو مہدی کا معتمد خاص تھا۔ مشرقی سوڈان پہنچا اور وہاں مہدی کے معتقدین ومتبعین کی ایک سپاہ تیار کرکے اطراف میں مہدی کے منشور شائع کئے اور وہاں کے قبائل کو اپنے اثر میں لانے کی جدوجہد شروع کی۔ ان ایام میں مہدی کی روز افزوں ترقی اور مہموں کی ناکامی سے سرکاری حلقوں میں خلفشار پھیل رہا تھا۔ یہاں تک کہ عبدالقادر پاشا گورنر جنرل سوڈان نے رپورٹ کی کہ جس قدر ملک میرے قبضہ میں ہے وہ نکلا جاتا ہے اور اگر فتنہ کی روک تھام کے لئے کوئی مؤثر کارروائی نہ کی گئی تو تمام ملک پر مہدی کا قبضہ ہو جائے گا۔ اس رپورٹ کے بعد مصرو انگلستان میں ہر طرف افسردگی چھا گئی اور یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ مصر اور انگلستان کو کیا تدبیر اختیار کرنی چاہئے کہ جس سے ملک مہدویہ کی دستبرد سے محفوظ رہ سکے؟ مدت تک یہ سوال زیر بحث رہا۔ آخر یہ قرار پایا کہ مہدی کی گوشمالی کے لئے ایک اور زبردست مہم بھیجی جائے۔ اس تجویز کے بموجب ایک زبردست لشکر ایک کار آزمودہ انگریز سپہ سالار جرنیل ھکس کے ماتحت روانہ کرنے کا
فیصلہ ہوا۔ جرنیل ھکس کے علاوہ نودوسرے جنگ آزمودہ یورپی افسر بھی تیار ہوئے۔ اس وقت عبدالقادر پاشا کی جگہ علائو الدین پاشا خرطوم کا گورنر تھا۔ علاؤالدین پاشا نے اس مہم کے لئے نیل ارزق کے مشرق سے اونٹ جمع کئے اور آخر اگست تک ہر قسم کی جنگی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔ ۸؍ستمبر کو جرنیل ھکس نے فوج کا جائزہ لیا اور ۹؍ستمبر کو یہ سپاہ ام درمان کے مقام سے دوئم کی طرف روانہ ہوئی۔ اس سپاہ میں چار مصری دستے پانچ سوڈانی دستے اور ایک دستہ تو پچیوں اور سواروں کا تھا۔ مصری فوج سلیم بک عونی، سید بک عبدالقادر، ابراہیم پاشا، حیدر اور رجب بک صدیق چار افسروں کے ماتحت تھی۔ سپاہ کی کل تعداد گیارہ ہزار تھی۔ جس میں سے سات ہزار مصری پیدل فوج تھی۔ ساڑھے پانچ ہزار اونٹ، پانچ سو گھوڑے جرمن کارخانہ کروپ کی چار توپیں، دس پہاڑی توپیں اور دس دوسری قسم کی توپیں تھیں۔ ٹائمز ڈیلی نیوز اور لندن کے دوسرے ممتاز اخبارات کے نامہ نگار بھی اس مہم کے ساتھ تھے۔ ۲۰؍ستمبر کو یہ سپاہ دوئم کے مقام پر پہنچی اور علاؤالدین پاشا کی اس فوج سے مل گئی جو پہلے سے وہاں موجود تھی۔ لیکن علاؤالدین پاشا کی فوج کی تعداد معلوم نہیں۔ جرنیل ھکس نے مصری حکومت کو اطلاع دی کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ فوج کو دوئم سے ابیض کی طرف بڑھایا جائے۔ دوئم سے ابیض کا فاصلہ ۱۲۶میل ہے۔ اس مسافت میں چند چوکیاں قائم کی جائیںگی۔ جن پر فوج کی مناسب تعداد رکھی جائے گی۔ تاکہ واپسی کے خطوط محفوظ رہیں اور معاملہ دگرگوں ہونے پر دشمن واپسی کے راستہ کو منقطع نہ کر سکے۔ بہرحال جرنیل ھکس آگے بڑھا۔ ابیض سے تیس میل کے فاصلہ پر مہدی سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ محمد احمد نے بہت بڑا لشکر فراہم کر رکھا تھا۔ اس کی فوج سرکاری سپاہ پر اس طرح ٹوٹ پڑی جس طرح شیر شکار پر گرتا ہے۔ سرکاری فوج میں ایسی بدحواسی چھاگئی کہ اپنے پرائے کی تمیز نہ رہی اور آپس ہی میں لڑنے کٹنے لگے۔ انگریزی اور مصری افواج کی قواعد وپریڈ اور اس کی توپیں کسی کام نہ آئیں۔ مہدی کے پیروؤں نے تھوڑی دیر میں تمام فوج کا صفایا کر دیا۔ جرنیل ھکس اور اس کی ساری فوج تمام یورپی افسر اور لندن جرائد کے نمائندے سب میدان جان ستان کی نذر ہوئے۔ البتہ تین سو آدمی جن میں سے اکثر ضعفاء تھے جان بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان لوگوں نے درختوں کے پیچھے یا لاشوں کے نیچے چھپ چھپ کر جانیں بچائی تھیں۔ انہی لوگوں میں جرنیل ھکس کا خانسامہ محمد نور باروردی بھی تھا۔ اسی شخص کی زبانی ہزیمت وتباہی کے تمام واقعات مصر پہنچ سکے۔ محمد احمد نشۂ فتح میں سرشار یہاں سے برکت کی طرف چلا گیا اور بعض امراء کو مال غنیمت جمع کرنے کے لئے وہیں چھوڑ گیا۔ اس لڑائی سے پہلے سوڈان کے اکثر قبیلے متردد تھے کہ حکومت کا ساتھ دیں یا محمد احمد کا؟ آخر یہ فیصلہ کر رکھا تھا
کہ جرنیل ھکس کی لڑائی کا انتظار کر لیا جائے۔ انجام کار جب قبائل کو معلوم ہوا کہ مہدی نے فتح پائی اور سرکاری فوجیں بالکل تہس نہس ہوگئیں تو انہوں نے اپنی قسمت محمد احمد سے وابستہ کر دی۔
جرنیل بیکر کی ہزیمت
جب مہدی کو ایسی شاندار فتح حاصل ہوئی اور وہ آنا فاناً سارے کروفان پر قابض ودخیل ہوگیا تو مصری سپاہی اسے سچا مہدی سمجھ کر حصول سعادت کے لئے بھاگ بھاگ کر مہدی سوڈانی کی فوج میں شامل ہونے لگے اور افریقہ کے مسلمانوں میں یہ خیال پختہ ہونے لگا کہ صاحب الزمان مہدی علیہ السلام کہ جس کے لوائے سعادت کے نیچے کفار سے جنگ کر کے شہید ہونے والے قیامت کے روز شہدائے احد وبدر کے ساتھ اٹھائے جائیںگے یہی ہے۔ اس اعتقاد ویقین کی تائید ان احادیث سے ہوتی تھی جن میں حضرت مہدی آخر الزمان کا اسم مبارک محمد والد کا نام عبداﷲ مروی ہے۔ چونکہ مہدی سوڈانی کا نام اور اس کے والدین کے نام بھی یہی تھے۔ اس مطابقت اسمی کی وجہ سے اور نیز مہدی کے غیر معمولی فتوحات کے باعث لوگ غلط فہمی میں پڑ گئے تھے۔ لیکن چونکہ آئندہ چل کر بہت سے دوسرے امور احادیث مرویہ کے خلاف ثابت ہوئے۔ رفتہ رفتہ یہ خیال لوگوں کے دلوں سے محو ہوتا گیا اور اصل یہ ہے کہ شروع ہی سے اس کی ذات میں مہدی موعود کی بہت سی نشانیاں مفقود تھیں۔ مثلاً وہ حضرت فاطمہ زہراؓ کی اولاد نہیں تھا۔ اس کا ظہور مکہ معظمہ میں نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلی بیعت رکن اور مقام کے درمیان نہیں ہوئی تھی۔ ان ذاتی خصوصیات کے علاوہ عالم اسلام کے سیاسی حالات بھی اس نہج پر رونما نہیںتھے۔ جو حضرت مہدی علیہ السلام کے زمن سعادت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ جرنیل ھکس کی ہلاکت خیز شکست سے قاہرہ اور لندن میں سخت اداسی چھا گئی۔ ابھی اس تباہی کی مرثیہ خوانی ختم نہ ہوئی تھی کہ ایک دوسری مصیبت کا سامنا ہوا۔ یعنی علاقہ سواکن سے جو بحر قلزم پر واقع ہے مصری ہزیمت کی وحشت ناک خبریں آنے لگیں۔ وہاں عثمان دغنہ ایک مہدوی سپہ سالار نے سنکات اور توکر کی مصری فوجوں پر تاخت کر کے شکست فاش دی اور انہیں چاروں طرف سے گھیر کر بالکل نیست ونابود کر دیا۔ اس ہزیمت کا انتقام لینے کے لئے سواکن سے ایک اور مہم تیار کر کے محمد پاشا طاہر کی سرکردگی میں روانہ کی گئی۔ انگریزی سفیر یعنی ڈاک مانکرف بھی ساتھ تھا۔ لیکن سواکن سے روانہ ہونے کے ایک ہی گھنٹہ بعد ساڑھے پانچ سو آدمی کی اس مہم پر عمثان دغنہ نے صرف ایک سو پچاس آدمیوں سے حملہ کردیا اور شکست فاش دی۔ مصری اکثر تو مارے گئے اور جو بچے انہوں نے بھاگ کر سواکن میں جادم لیا۔ سواکن اور کروفان کی ہزیمتوں نے انگریزوں اور مصریوں کو اور زیادہ مشوش کر دیا۔ آخر
جنرل ویلنٹائن بیکر کے زیر قیادت ایک اور زبردست مہم بھیجنے کی تجویز ہوئی۔ مصری فوجوں کے مسلمان افسر اور سپاہی جو جانے سے علانیہ انکار نہ کر سکتے تھے یہ سن کر کہ انہیں مہدی کے مقابلہ میں سوڈان جانا ہوگا۔ زار زار روتے تھے۔ آخر مہم روانہ ہوئی اور ان میں سے جو لوگ محمد احمد کی مہدویت سے زیادہ شغف وعقیدت رکھتے تھے راہ ہی میں بھاگ کر مہدوی فوج میں جاشامل ہوئے۔ اس مہم میں پیدل اور سوار ہر قسم کی مصری اور انگریزی فوج تھی۔ جن کے سر عسکر علاوہ جرنیل بیکر کے نو اور تجربہ کار انگریز فوجی افسر تھے۔ جرنیل بیکر مع اپنی فوج کے سواکن کے جنوب میں جہازوں سے اتر کر ۴؍فروری ۱۸۸۴ء کو آگے روانہ ہوا۔ جس وقت فوج الطیب کے قریب پہنچی عثمان دغنہ نے صرف بارہ سو آدمیوں کے ساتھ اس پر حملہ کر دیا۔ بیکر نے یہ دیکھ کر رسالہ کو پیچھے ہٹا لیا اور پیدل فوج سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر انگریزی اور مصری سپاہی جن کے دلوں پر پہلے ہی سے مہدی کی ہیبت چھائی ہوئی تھی بالکل وارفتہ ہوگئے۔ فوج میں ابتری پھیل گئی اور پیر اکھڑگئے۔ چار کرپ توپیں پانچ لاکھ کارتوس اور تین ہزار بندوقیں عثمان دغنہ کے ہاتھ لگیں۔ جرنیل بیکر کے سوا تمام انگریز افسر مارے گئے۔ جرنیل بیکر تھوڑی سی پس ماندہ فوج کو لئے ہوئے بحال تباہ سواکن لوٹ آیا۔
محمد احمد کے حدود مملکت
جرنیل بیکر کی شکست سے برطانیہ اور مصر میں اور بھی زیادہ تردد وانتشار پھیل گیا۔ اس وقت درویشوں نے سواکن کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور وہاں کی حفاظت کے لئے بہت تھوڑی جمعیت رہ گئی تھی۔ کروفان اور دارفور (دارفر) ہاتھ سے نکل چکے تھے اور مہدی کی حکومت خرطوم کے پاس سے چھ سو میل کے فاصلے تک پھیل گئی تھی۔ مشرق کی طرف حبشہ تک سنار کا تمام علاقہ اس میں آگیا تھا۔ مغرب کی جانب علاقہ کروفان دار فراور فرتیب اس میں شامل ہوگئے تھے اور شمال مشرق کی طرف سواکن تک اس کی سرحد جاملی تھی۔ تھوڑے دن میں مہدی کا اثر علاقہ الفشیر تک پہنچ گیا۔ یہ دیکھ کر وہاں کا انگریز گورنر سرسلاٹن (جسے معرب کر کے سلاتین پاشا کہتے تھے) سخت بدحواس ہوا۔ خصوصاً اس لئے کہ اس کے افسروں میں بھی باغیانہ خیالات سرایت کر رہے تھے۔ وہ اس بات سے تو قطعاً مایوس ہوچکا تھا کہ جنگ کر کے مہدی سے عہدہ برا ہوسکے گا۔ اس لئے یہ سوچ کر کہ درویشوں میں اس کا رسوخ بڑھ جائے گا اور ملک کی بد نظمی بھی دور ہو جائے گی۔ اس نے منافقانہ طریق پر دین اسلام اختیار کر لیا اور مہدی سے اظہار عقیدت کر کے اپنا علاقہ اس کے حوالے کرنے کی درخواست کی۔ اس سے قبل اس نے ایک چٹھی مسٹر اوگل کے ہاتھ جنرل
ہکس کے نام طلب امداد کے لئے بھیجی تھی۔ لیکن جرنیل ہکس کی ہزیمت اور ہلاکت نے سلاٹن کو ناامید کر دیا۔ اوگل نے وہاں سے واپس آکر سلاٹن کو صلاح دی کہ مہدی کی اطاعت کر لے۔ کیونکہ حالت اس درجہ یاس انگیز تھی کہ مقابلہ کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا تھا۔ غرض سلاٹن اور اوگل دونوں نے مہدی کی اطاعت کر لی۔ مہدی نے سلاٹن کا نام عبدالقادر رکھا اور حکم دیا کہ وہ العبید کو آجائے۔ جہاں اس وقت تک مہدی قابض ہوچکا تھا۔ سلاٹن حسب الحکم العبید پہنچا اور وہاں سے مہدی کے ساتھ خرطوم کی طرف آیا۔ مہدی کی رحلت کے بعد اس کے خلیفہ عبداﷲ نے اسے اپنے باڈی گارڈ میں متعین کر کے ام درمان میں رکھا۔ سلاطین پاشا کچھ مدت کے بعد وہاں سے چھپ کر بھاگ نکلا۔ لیکن پھر گرفتار ہوگیا اور مدت تک درویشیوں کی قید میں رہا۔ جب انگلستان اور مصر کو متواتر فوج کشی اور بے انتہاء مصارف ونقصانات کے باوجود اپنے ارادہ میں کامیابی نہ ہوئی تو جرنیل گارڈن کو خرطوم بھیجنے کی تجویز ہوئی۔ تاکہ وہ سوڈان میں قیام امن کی عملی تدابیر اختیار کرے اور نظر غائر سے دیکھے کہ مہدی کی روز افزوں دولت وقوت کے مقابلے میں کیا تجویز مناسب ہے۔ جرنیل گارڈن اس سے قبل سوڈان میں گورنر جنرل کے عہدہ پر ممتاز رہ کر اپنی لیاقت ومستعدی کا ثبوت دے چکا تھا اور اس ملک سے اچھی طرح واقف تھا۔ جنرل گارڈن لندن سے ۲۷؍جنوری ۱۸۸۴ء کو روانہ ہوا اور اسے ہدایت کی گئی کہ جس طرح بن پڑے وہ تمام سرکاری فوجوں کو جو سوڈان کے مختلف حصوں میں محصور ہیں۔ نکال لائے۔ گویہ نہایت پر خطر اور سخت ذمہ داری کا کام تھا۔ لیکن گارڈن نے نہایت دلیری اور استقلال سے اس اہم کام کا ذمہ لیا۔ جرنیل گارڈن برطانیہ کی طرف سے بحیثیت ہائی کمشنر سوڈان اور خدیو مصر کی طرف سے سوڈان کا گورنر جنرل بنا کر بھیجا گیا تھا۔ جنرل گارڈن نے بربر پہنچ کر آزادی سوڈان کے متعلق ایک اعلان جاری کیا اور تمام محصولات بقدر نصف کے معاف کر دئیے اور تمام باشندوں کی جرم بخشی کی۔ یہاں تک کہ اہل سوڈان کو لونڈی غلام رکھنے اور ان کی بیع وشرا کی بھی اجازت دے دی اور اسی اعلان کے ذریعہ سے محمد احمد مہدی کو سلطان دار فور (دارفر) مقرر کیا اور کچھ تحائف مہدی کی خدمت میں بھیجے۔ مگر مہدی نے ان کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور لکھا کہ میں کفار سے کسی بخشش وعطا کا روادار نہیں۔ محمد احمد نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو اور سچے دین اسلام کے پیرو بن جاؤ۔ جس سے تمہیں دنیا وعقبیٰ میں سرخروئی ہو اور تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی جان بچے۔ ورنہ تم سب ناحق اپنی عزیز جانیں کھو بیٹھو گے۔ اس مراسلہ کا جواب جنرل گارڈن نے یہ دیا کہ اب میں تم سے مزید خط وکتابت نہیں کر سکتا۔
خرطوم کا محاصرہ
جب جنرل گارڈن خرطوم پہنچا تو انگریزی افواج میں مسرت کی ایک غیر معمولی لہر دوڑ گئی۔ سرکاری فوجیں اس وقت سخت ضغطہ کی حالت میں پڑی تھیں۔ نہ تو خرطوم خالی کر کے بھاگ جانے کا کوئی راستہ رہ گیا تھا اور نہ ان میں مہدی کے متوقع حملہ سے عہدہ برآ ہونے کی طاقت تھی۔ جنرل گارڈن نے یہ پر خطر حالت دیکھ کر یقین کر لیا کہ مہدی بہت جلد خرطوم پر حملہ آور ہوکر اس کا محاصرہ کر لے گا۔ اس لئے احتیاطاً اپنے محصور ہونے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ اگر بروقت کمک پہنچ گئی تو محاصرے سے نکل کر غنیم کا آسانی سے مقابلہ کر سکیںگے۔ غرض گارڈن نے کئی مہینے کا سامان جمع کر کے شہر کے مورچوں کو مضبوط کر لیا۔ یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ شہر خرطوم کی جائے وقوع طبعی طور پر کچھ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ وہ ایک نہایت مضبوط قلعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی دو طرفیں شمال اور مغرب دریائے نیل سے محیط ہیں۔ مشرق اور جنوب کی طرف نہایت مضبوط شہر پناہ ہے اور شہر پناہ کے باہر ایک نہایت عمیق خندق ہے۔ قاہرہ کو جو برقی سلسلہ جاتا تھا مہدی نے ۱۸۸۴ء میں اسے کاٹ ڈالا۔ اس لئے آئندہ جنرل گارڈن اور اس کی فوج کے حالات پردۂ خفا میں پڑے رہے۔ چونکہ بہت دن تک جنرل گارڈن کی کوئی خبر قاہرہ نہ پہنچ سکی۔ اس لئے انگریزی اور مصری حلقوں میں دن بدن انتشار پھیلتا گیا۔ جب ردونیل میں طغیانی ہوئی تو جنرل گارڈن نے بذریعہ کشتیوں کے قاہرہ سے سلسلہ خط وکتابت جاری رکھنے کی کوشش کی۔ اس لئے کرنل ہیمل اسٹوئرٹ کے ہاتھ جومسٹر پاور انگریزی سفیر اور موسیو ہرلن فرانسیسی سفیر کے ساتھ جہاز عباس پر سوار ہوکر روانہ ہوا تھا۔ اپنی بدحالی کے متعلق ایک مفصل رپورٹ قاہرہ بھیجی۔ مگر بدقسمتی سے جہاز ایک چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔ کرنل اسٹوئرٹ اور اس کے ساتھی کشتیوں میں سوار ہوکر کنارہ پر لگے اور ایک موضع میں پہنچے۔ جہاں پر گاؤں والوں نے انہیں فرنگی بے دین کا لقب دے کر قتل کر ڈالا۔ اس طرح قاہرہ جاکر جنرل گارڈن کی داستان درد سنانے والا کوئی متنفس باقی نہ رہا۔ اس اثناء میں مہدی کا لشکر خرطوم تک پہنچ گیا اور شہر کو محاصرہ میں لے لیا۔ جب کرنل اسٹوئرٹ اور انگریزی سفیر کے مارے جانے کی خبر لندن پہنچی اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ جرنیل گارڈن اور سرکاری افواج محصور ہیں تو انگلستان میں سخت پریشانی اور بد دلی پھیل گئی۔ یہ دیکھ کر مسٹر گلیڈ سٹون وزیراعظم برطانیہ نے ایک اور مہم لارڈ ولزلی کے زیر کمان جنرل گارڈن کی کمک کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت برطانیہ نے لارڈ ولز لی کو حکم دیا کہ ایک دفعہ جنرل گارڈن اور سرکاری فوج کو کسی طرح خرطوم سے صحیح وسلامت نکال لیا جائے اور اس کے بعد
مہدی سے کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ کیونکہ حکومت برطانیہ نے اس بات کا فیصلہ کر لیا تھا کہ سوڈان کو خالی کر کے اس کی قسمت مہدی کے ہاتھ میں دے دی جائے اور مصر کی سرحد وادیٔ حلفہ تک رہے۔ واقعی اس وقت یہی مناسب تھا۔ کیونکہ مہدی کی قوت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ حکومت برطانیہ کے پاس تخلیہ سوڈان کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا۔ انگلستان نے گذشتہ تین سال کے عرصہ میں ہزاروں جانیں گنوائیں۔ روپیہ پانی کی طرح بہایا اور بے شمار انگریز افسر ہلاک کرائے۔ پھر بھی بجائے ترقی واصلاح کے حالت دن بدن ابتر وزبوں ہوتی جارہی تھی۔
لارڈ ولزلی کی لندن سے روانگی
لارڈ ولزلی لندن سے روانہ ہوکر ۹؍ستمبر ۱۸۸۴ء کو اسکندریہ پہنچا اور وہاں سے قاہرہ آیا۔ جنرل اسٹیفن سن سپہ سالار افواج انگریزی مقیم مصر نے یہ تجویز پیش کی کہ لارڈ ولزلی کی مہم بحیرۂ قلزم کی راہ سے بندرگاہ ٹرنکیٹٹ پر اترے اور وہاں سے براہ سواکن وبربر خرطوم جائے۔ کیونکہ سواکن سے بربر تک براہ خشکی اور بربر سے خرطوم تک براہ رود نیل صرف چار سو اسی میل کا فاصلہ تھا اور قاہرہ سے دریائے نیل میں سے ہوکر خرطوم جانے میں ساڑھے سولہ سو میل کا سفر تھا۔ مگر جب لارڈ ولزلی اور جنرل اسٹیفن سن میں اختلاف رائے ہوا تو حکومت برطانیہ نے اس فیصلہ کا انحصار لارڈ ولزلی کی صواب دید پر رکھا۔ لارڈ ولزلی نے نیل کا راستہ پسند کیا۔ لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ اس میں کون سے فائدے مضمر تھے۔ یہ مہم ۳؍نومبر کو ڈنگولہ پہنچی۔ لارڈ ولزلی نے محمد یاور حاکم ڈنگولہ کو جس نے مہدی کے حملہ کو کامیابی کے ساتھ روکا تھا، کے سی۔ایم۔جی کا خطاب اور تمغہ عطاء کیا۔ محمد یاور نے تمغہ پہنتے وقت گورنمنٹ برطانیہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا یہ اعزاز میری حیثیت اور لیاقت سے فزوں تر ہے۔ مگر جب عطائے خطاب کا جلسہ ختم ہوا محمد یاور نے غسل کیا اور تمام کپڑے بدل ڈالے۔ کیونکہ اس کے اعتقاد میں اس کا جسم عیسائی کا ہاتھ لگنے سے نجس ہوگیا تھا۔ یکم؍نومبر ۱۸۸۴ء کو جنرل گارڈن کا ایک خط قاہرہ میں سرایولن بیرنگ کے پاس پہنچا جو ۱۳؍جولائی کا لکھا ہوا تھا۔ اس خط میں جنرل گارڈن نے لکھا تھا کہ ہم خیریت سے ہیں اور چار مہینہ تک خرطوم کو قبضہ میں رکھ سکتے ہیں۔ جس وقت یہ خط پہنچا چار مہینے گذر چکے تھے۔ اس لئے اور بھی زیادہ فکر پیدا ہوئی۔ دسمبر کے اخیر میں انگریزی افواج مقام کورٹی میں پہنچ گئیں۔ مگر چونکہ خرطوم ابھی بہت مسافت پر تھا۔ اس لئے لارڈ ولزلی نے حکومت کو لکھا۔ یہاں سے روانگی میں اس لئے توقف ہوا کہ کافی سامان رسد کے جمع ہونے میں بڑی دشواریاں پیش آئیں۔ کیونکہ خرطوم کو جو عرصہ سے محصور ہے اور جس میں رسد کی سخت قلت ہے اور گردونواح کا سارا ملک ویران ہوچکا ہے۔ بغیر کافی سامان کے جانا ہرگز مناسب
نہیں ہے۔ لارڈ ولزلی نے کورٹی میں اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک کو کورٹی سے براہ خشکی متمہ جانے اور وہاں سے کشتیوں پر سوار ہوکر خرطوم پہنچنے کا حکم دیا اور دوسرا نیل کی راہ سے بربر ہوکر خرطوم جانے کے لئے تیار ہوا۔ اوّل الذکر دستہ فوج میجر جنرل سرہربرٹ اسٹوئرٹ کے زیر احکام روانہ کیاگیا۔ اس کی فوج کا کچھ حصہ جس میں بارہ سو سپاہی اور دوہزار اونٹ تھے کورٹی سے غدکل کو روانہ ہوا۔ اس اثناء میں لارڈ ولزلی کے پاس کاعذ کے ایک چھوٹے سے پرزے پر جنرل گارڈن کے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ پیغام پہنچا کہ خرطوم میں بہمہ وجوہ خیریت ہے۔
(دستخط) سی۔ جی گارڈن ۱۴؍دسمبر ۱۸۸۴ء
یہ تحریری پیغام محض مغالطہ دہی کے لئے تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اگر قاصد مہدوی لشکر کے ہاتھوں گرفتار ہو جائے تو وہ سرکاری فوج کی کمزوری حالت کا احساس نہ کر سکے۔ اصل پیغام جو زبانی کہنے کے لئے قاصد کو دیاگیا تھا یہ تھا۔ ہماری فوج کو قلت خوراک کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارا سامان خوراک قریب الاختتام ہے۔ یعنی کسی قدر میدہ اور تھورے سے بسکٹ رہ گئے ہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ ہماری مدد کو جلد آؤ۔ جنرل گارڈن نے اس رقعہ کے ساتھ اپنے ایک دوست کے پاس بھی ایک پیغام قاہرہ بھیجا تھا۔ جس کے یہ الفاظ تھے۔ بھائی بس اب خاتمہ ہے۔ یقینی ہے کہ ہفتہ عشرہ میں ہماری نئی مصیبتوں کا آغاز ہوگا۔ اگر اہل ملک ہماری مدد کرتے تو یہ نوبت نہ آتی۔
(سی۔جی گارڈن)
میجر جنرل سرہربرٹ کا مجروح ہونا
۱۶؍جنوری ۱۸۸۵ء کو کرنل بارد نے سرہربرٹ اسٹوئرٹ کو اطلاع دی کہ ابو کلیہ سے شمال مشرق کی جانب پہاڑوں پر مہدی کے آدمی دکھائی دیتے ہیں۔ اسی روز سرکاری فوج ابوکلیہ سے روانہ ہوکر تین میل کے فاصلہ پر پہنچ گئی۔ مہدی کا کمپ وہاں سے دو میل کے فاصلے پر تھا۔ ۱۷؍جنوری کی صبح کو انگریزی سپاہ مہدی کے لشکر سے معرکہ آراء ہوئی۔ جس میں سراسٹوئرٹ ایک زخم کاری سے بیکار ہوکر گر پڑا اور فوج کی کمان سرچارلس ولسن نے لی۔ اس لڑائی میں جانبین کا سخت نقصان ہوا۔ سرچارلس نے ارادہ کیا کہ اس مقام کو محفوظ کر کے تھوڑی سی فوج وہاں چھوڑ دی جائے اور باقی ماندہ فوج کے ساتھ نیل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ مگر مہدویوں کی آتش باری سے تمام مورچے مسمار ہوگئے۔ اس لئے اس ارادے کی تکمیل نہ ہوسکی۔ لندنی اخبارات مارننگ پوسٹ اور اسٹینڈرڈ کے وقائع نگار مسٹر کیمرن اور ہربرٹ بھی اس معرکہ میں کام آئے۔ ۲۱؍ جنوری ۱۸۸۵ء کو چار مصری دخانی جہاز خرطوم کی طرف سے آتے دکھائی دئیے۔ قاہرہ کی انگریزی فوج
نے انہیں دیکھتے ہی خوشی کے نعرے بلند کئے۔ جہازوں کے ایک افسر نے جنرل گارڈن کا رقعہ فوج میں پہنچایا۔ جس میں لکھا تھا۔ ہم خرطوم میں بالکل امن وعافیت سے ہیں اور کئی سال تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔ (سی۔جی گارڈن مورخہ ۲۹؍دسمبر ۱۸۸۴ء) اس رقعہ سے بھی مثل سابق یہ غرض تھی کہ اگر مہدوی لشکر کے ہاتھ لگ جائے تو اسے سپاہ انگریزی کی قوت کا مغالطہ ہو اور خط محاصرہ سے آگے بڑھ کر یک بیک خرطوم پر حملہ آور ہونے کا حوصلہ نہ کر سکے اور حقیقی پیام جو فوج کمک کے افسر اعلیٰ کو بھیجا گیا تھا۔ ’’میں نے خرطوم کو بچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ لیکن اب ماننا پڑتا ہے کہ ہماری حالت بہت نازک ہوگئی ہے اور ہمیں چاروں طرف سے یاس وقنوط نے گھیر رکھا ہے۔ میں یہ بات گورنمنٹ سے ناراضی کی بناء پر نہیں کہتا بلکہ حقیقت حال سے مطلع کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر خرطوم پر دشمن متصرف ہوگیا تو ہم کسالا پر بھی قبضہ نہ رکھ سکیںگے۔‘‘ عبدالحمید بے جہاز بورڈین کے مصری افسر نے سرچارلس ولسن سے بیان کیا کہ محصورین کی حالت بہت نازک ہے اور جنرل گارڈن کی فوج قطعاً مایوس ہوچکی ہے۔ جنرل مذکور نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تم انگریزی فوج کو سوار کر کے دس روز کے اندر اندر واپس نہ آؤگے تو پھر کمک بھیجنا بے سود ہوگا۔ ۲۳؍جنوری کو سارا دن روانگی کی تیاریاں ہوتی رہیں اور ۲۴؍جنوری کو چند جہاز انگریزی فوج کو سوار کر کے خرطوم کی طرف روانہ ہوئے۔
خرطوم پر مہدی کا قبضہ اور جرنیل گارڈن کا قتل
جب محاصرے نے طول کھینچا اور خرطوم میں انگریزی فوج کی حالت زبونی کے انتہائی درجہ کو پہنچ گئی تو اہل شہر نے جو مہدی کی حمایت کا دم بھرتے تھے۔ مہدی کو پیغام بھیجا کہ اب سپاہ انگریزی میں دم باقی نہیں۔ اس لئے شہر پر بغیر مزید توقف کے حملہ کر دینا مناسب ہے۔ اہل خرطوم جو انگریزی فوج کے ساتھ محاصرہ میں تھے۔ برسر بازار انگریزوں کو گالیاں دیتے تھے۔ جنرل گارڈن سب کچھ کانوں سے سنتا مگر اشتعال بغاوت کے خوف سے کسی پر سختی کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ غرض مہدی نے خرطوم پر حملہ کر کے توپوںکے منہ کھول دئیے اور شہر آناً فاناً ایک کرۂ ناربن گیا۔ خرطوم کے ایک عیسائی سوداگر ماروینی نام کا بیان ہے کہ جنرل گارڈن کو اس بات کا یقین تھا کہ کمک جلد آنے والی ہے۔ اس لئے سپاہیوں سے آخری مرتبہ درخواست کی کہ استقلال کو ہاتھ سے نہ دیں۔ مگر افسوس کہ کمک آخر وقت تک نہ پہنچی۔ جس شب کو مہدی نے خرطوم پر قبضہ کیا ہے اس شام کو میں نے جنرل گارڈن سے ملاقات کرنے کا قصد کیا۔ جس کی مجھے اجازت مل گئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ دیوان خانہ میں بیٹھا ہے۔ جب میں اندر داخل ہوا تو مجھ سے کہنے لگا۔
اب میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ سپاہی میرا ہرگز اعتبار نہ کریںگے۔ میں نے انہیں بارہا یقین دلایا کہ مدد آنے والی ہے۔ مگر افسوس نہ آئی۔ اب وہ یہ سمجھ لیں گے کہ کمک کے تمام افسانے من گھڑت تھے۔ جاؤ اور جس قدر آدمی میسر ہوں انہیں ساتھ لے کر اچھی طرح مقابلہ کرو اور مجھے چرٹ پینے دو۔ جنرل گارڈن کے لب ولہجہ سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سخت بدحواس ہے۔ اس کا دل اس قدر بھر آیا تھا کہ منہ سے اچھی طرح بات نہ نکلتی تھی۔ تفکرات کی وجہ سے اس کے تمام بال یک بیک سفید ہوگئے تھے اور جنرل گارڈن کی بے بسی دیکھ کر میری بھی کمر ہمت ٹوٹ گئی تھی۔ غرض جنرل گارڈن نے اپنی شکستہ دل فوج کو ساتھ لے کر آخر مرتبہ مدافعت کی کوشش کی۔ لیکن شکست کھائی اور ۲۶؍جنوری ۱۸۸۵ء کی رات کو مہدی کی فوج نے خرطوم پر قبضہ کر لیا۔ ۲۶؍جنوری کی صبح کو جب کہ سرچارلس ولسن کے جہاز خرطوم کی طرف بڑھ رہے تھے۔ خرطوم پر مہدوی جھنڈا لہرارہا تھا۔ مہدوی فوجیں رات ہی کو شہر میں داخل ہوچکی تھیں۔ اس صبح کو جنرل گارڈن نے دیکھا کہ مہدی کے جھنڈے گورنمنٹ ہاؤس (گورنر کی کوٹھی) کے اردگرد بلند ہورہے ہیں اور ہزاروں آدمیوں کا ہجوم ہے۔ لیکن کوٹھی کے اندر داخل ہونے کی کسی میں جرأت نہ تھی۔ کیونکہ انہیں خوف تھا کہ کہیں کوٹھی میں سرنگ نہ لگ رہی ہو۔ تھوڑی دیر میں چار آدمی جو نہایت قوی ہیکل تھے کوٹھی میں گھس آئے اور بہت سے دوسرے آدمی بھی ان کے پیچھے داخل ہوئے۔ جو اشخاص بعد میں داخل ہوئے وہ چھت پر چڑھ گئے اور پہرہ کے تمام سپاہیوں کو قتل کر ڈالا۔ چار آدمی جو پہلے داخل ہوئے تھے انہوں نے جنرل گارڈن کی طرف رخ کیا۔ قریب پہنچ کر ان میں سے ایک نے کہا’’ملعون الیوم یومک‘‘ (اے ملعون آج تیری ہلاکت کا وقت آپہنچا) یہ کہہ کر جنرل گارڈن کے نیزہ مارا۔ گارڈن نے داہنے ہاتھ سے روکنا چاہا اور پیٹھ پھیر لی۔ اس نے دوسرا وار کیا۔ جس سے ایک مہلک زخم آیا اور جنرل مذکور زمین پر گر پڑا۔ پھر اس کے ساتھیوں نے تلواروں سے اس کا کام تمام کر دیا اور اس کا سرکاٹ کر سلاتین پاشا کو جادکھایا جو مہدی کی قید میں تھا۔ سلاتین پاشا کابیان ہے کہ ۲۶؍جنوری کی صبح کو نہایت بے چین تھا اور اس انتظار میں تھا کہ دیکھوں پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ اس اثناء میں خوشی کے نعرے بلند ہوئے اور فتح کے شادیانے بجنے لگے۔ میرے محافظوں میں سے ایک سپاہی خبر لانے کو دوڑا گیا۔ جس نے چند منٹ میں واپس آکر بیان کیا کہ گذشتہ شب کو حضرت مہدی علیہ السلام نے خرطوم فتح کر لیا ہے۔ تھوڑی دیر میں تین سیاہ پوش سوڈانی میری طرف آئے۔ یہ سپاہی میرے خیمے کے قریب آٹھہرے اور میری طرف گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ ان کے پاس کپڑے میں کوئی چیز لپٹی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ انہوں نے کپڑا کھول دیا
اور جنرل گارڈن کا سر مجھ کو دکھایا۔ یہ وحشت ناک منظر دیکھ کر میرا دماغ کھولنے اور کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ قریب تھا کہ میرے قلب کی حرکت بند ہو جائے۔مگر میں انتہائی ضبط وتحمل کے ساتھ چپ چاپ دیکھنے لگا۔ ایک سوڈانی نے گارڈن کا چہرہ میری طرف کر کے کہا کہ یہ تیرے چچا کا سر ہے۔ جو حضرت مہدی آخر الزمان علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتا تھا۔ میں نے جواب دیا کہ وہ بہادر جرنیل بہت خوش نصیب تھا جس کی موت کے ساتھ اس کے مصائب کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ سوڈانی کہنے لگا واہ خوب اب بھی تم اس ملعون کی تعریف کرتے ہو؟ تم بہت جلدی اپنی شقاوت کا خمیازہ بھگتو گے۔ یہ کہہ کر وہ گارڈن کا سر لئے ہوئے وہاں سے مہدی کے پاس چلے گئے۔ جنرل گارڈن کے قتل سے انگلستان کے سیاسی مطلع پر اداسی اور غم کا ابر چھا گیا اور ہر شخص گورنمنٹ کو اس بات کا ملزم قرار دیتا تھا کہ اس نے امداد مہم کے بھیجنے میں لیت ولعل سے کام لیا۔ گورنمنٹ نے سرچارلس ولسن سے وجہ تاخیر کے متعلق جواب طلب کیا۔ سرچارلس نے جواب دیا کہ جب جہاز ۲۱؍جنوری کو غبات کے مقام پر پہنچے تو میری فوج متمہ میں غنیم کے ساتھ مصروف پیکار تھی اور کثرت اموات کی وجہ سے فوج بہت کمزور ہوگئی تھی۔ علاوہ بریں یہ خبر پہنچی تھی کہ مہدی ایک بہت بڑی جمعیت کے ساتھ ام درمان سے آرہا ہے۔ ایسی حالت میں میں اس بات کا اطمینان کئے بغیر روانہ نہ ہوسکا کہ انگریزی فوج مقابلہ کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں؟ مزید براں اگر میں ۲۲؍جنوری کو غبات سے روانہ ہو جاتا تو بھی ۲۶؍جنوری کی دوپہر سے پہلے ہر گز نہ پہنچ سکتا اور اس سے پیشتر خرطوم پر مہدی کا قبضہ ہونے کے بعد جرنیل گارڈن قتل کیا جاچکا تھا۔
جرنیل ارل کی ہلاکت
امدادی مہم کا جو حصہ کورٹی سے براہ نیل خرطوم کو روانہ ہوا تھا۔ اس سے کربیکان کے مقام پر ایک معرکہ ہوا۔ جس میں جنرل ارل مارا گیا۔ جس وقت لارڈ ولزلی نے تسخیر خرطوم اور جنرل گارڈن اور جنرل ارل کے مارے جانے کی خبریں سنیں تو بعض انگریزی فوجوں کو واپسی کا حکم دیا اور بربر پہنچنے کے تمامتر ارادے فسخ کر دئیے اور حکومت انگلستان سے اس کے آئندہ ارادوں کے متعلق خط وکتابت شروع کی۔ آخر فیصلہ ہوا کہ مہدی کی مزید ترقی کو روکنے کے لئے بربر پر قبضہ کیا جائے۔ غرض اس مہم کے لئے تیرہ ہزار فوج جن میں چار ہندوستانی پلٹنیں، ایک ہندوستانی رسالہ اور آسٹریلیا کی ایک پلٹن بھی شامل تھی۔ مع کثیر التعداد اونٹوں کے تیار کئے گئے اور جنرل جیرلڈ گرہیم کے زیر کمان یہ مہم روانہ ہوئی۔ ان میں سے ہندوستانی فوج جنرل ہڈسن کے ماتحت تھی۔ ۱۲؍مارچ ۱۸۸۵ء کو جنرل گرہیم نے سواکن پہنچ کر اس انگریزی فوج کی کمان لی جو وہاں پڑی تھی۔
اس فوج میں پانچ سو افسر، سوادس ہزار سپاہی، پونے سات ہزار گھوڑے، پونے تین ہزار اونٹ، آٹھ سو خچر اور پونے تین ہزار خدمتگار اور ٹھیکہ داروں کے آدمی تھے۔ جنرل گرہیم کو ہدایت کی گئی تھی کہ سب سے مقدم اور اہم کام عثمان دغنہ کا خاتمہ کر کے جنگل کو ریل کے لئے صاف اور بے خطر بنانا ہے۔ اس کے بعد نہایت مستعدی سے ریل کی لائن تیار کی جائے۔ ۲۰؍مارچ کو جنرل گرہیم دس ہزار سپاہ کے ساتھ ہاشین کو روانہ ہوا جو سواکن کے قریب ہے۔ یہاں مہدی کے لشکر سے ایک معرکہ ہوا۔ نتیجہ کے لحاظ سے یہ لڑائی بھی انگریزوں کے حق میں مضر ہوئی۔ اس محاربہ سے پیروان مہدی کی بہادری کا تازہ ثبوت ملتا تھا۔ کیونکہ جس وقت ہندوستانی پلٹن بنگال لینسرز نے حملہ کیا۔ مہدی کے پیدل آدمی بلا لحاظ اس امر کے کہ ان کے مقابل سوار ہیں۔ اس طرح ٹوٹ پڑے جس طرح شیر شکار پر جھپٹتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے معرکہ میں مہدی کے صرف ڈیڑھ سو آدمیوں نے انگریزوں کے پورے برگیڈ پر حملہ کر کے اس کو نہایت کامیابی کے ساتھ پسپا کر دیا۔ اب جنرل گرہیم نے سرجان میک نیل کے ماتحت کچھ فوج سواکن اور تمائی کے مابین فوج کمپ تیار کرنے کے لئے بھیجی۔ کیمپ کی حفاظت کے لئے چاروں طرف لکڑیوں کا ایک احاطہ تیار کیاگیا۔ مگر ابھی احاطہ کا تھوڑا حصہ ہی تیار ہوا تھا کہ فوجی محافظوں نے یک بیک یہ خبر دی کہ مہدی کا لشکر آرہا ہے۔ یہ سن کر انگریزی لشکر میں سخت ابتری اور سراسیمگی پھیل گئی۔ انگریزی فوج کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ بلکہ جو آدمی میدان جنگ سے بھاگ کر سواکن پہنچے انہوں نے تو یہ مشہور کر دیا کہ انگریزی فوج بالکل تباہ ہوگئی ہے۔
سرجان میک نیل کی ہزیمت، سارا سوڈان مہدی کے علم اقبال میں
۳؍اپریل کو جنرل گرہیم اعلیٰ درجہ کی آٹھ ہزار انگریزی فوج لے کر تمائی کی طرف بڑھا۔ مگر وہ عثمان دغنہ کا کمپ جلانے کے سوا کچھ نہ کر سکا اور گو انتہائی کوشش کی گئی اور فوج کی تعداد بڑھانے کی غرض سے باربرداری کی دقتیں بھی رفع کی گئیں اور سرجان میکنیل کو بھی سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ مگر نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہ نکلا کہ انگریزی سپاہ ایک چھوٹے سے گاؤں کو جلا کر واپس آگئی۔ کیونکہ قلت آب کی وجہ سے آگے بڑھ کر حملہ کرنا ناممکن تھا۔ غرض سرجان میک نیل کی ہزیمت اور بعد کی ناکامیوں سے انگریز افسروں کے دل چھوٹ گئے اور مہم سواکن اور توسیع ریلوے کی داستان یہیں پر ختم ہوگئی۔ عثمان دغنہ اس بلا کا آدمی تھا کہ اس پر قابو پانا کوئی خالہ جی کا گھر نہ تھا۔ انگریز جتنی ریلوے لائن اور تار کے کھمبے تیار کرتے وہ تباہ کر جاتا۔ بالجملہ اس مہم کے افسر اعلیٰ جنرل گرہیم کو سوائے ندامت وشرمساری کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ چنانچہ اسی ناکامی کی وجہ سے لارڈ
ولزلی نے خود سواکن پہنچ کر مہم کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا۔ لیکن اس اثناء میں حکومت برطانیہ نے مہم سواکن کی ناکامی سے سبق آموز ہوکر مجوزہ سواکن بربرریلوے کی تیاری کا ارادہ فسخ کر دیا اور حکم دیا کہ ریلوے لائن کا سارا سامان انگلستان بھیج دیا جائے اور فوج بھی سواکن سے واپس آجائے۔ اس لئے ریلوے کا کام بند کر دیا گیا اور تمام فوج واپس بلالی گئی۔ جس وقت اس فوج کے سامان کی آخری گاڑی روانہ ہوئی۔ عثمان دغنہ کے آدمیوں نے اس کا تعاقب کیا اور ازراہ تحقیر اس کی طرف چند فیر کر کے انگریزی مہم کو خیرباد کہا۔ اس نیرنگ ساز قدرت کی کرشمہ سازیاں دیکھو کہ وہ مغرور وپرشکوہ سلطنت برطانیہ جس کی فوجی طاقت اور جنگی حکمت عملیوں کا لوہا ساری دنیا مانتی ہے۔ اس قدر صرف اور نقصان کے باوجود مہدی کے مقابلہ میں متواتر ہزیمتیں اٹھا کر کس طرح سوڈان خالی کرنے پر مجبور ہوئی؟ حالانکہ مہدی کے پیروؤں کو نہ تو کافی سامان جنگ اور اسلحہ میسر تھے اور نہ ان کے پاس توپیں تھیں۔ گو بعض محاربات میں انہوں نے بندوقیں بھی استعمال کیں۔ لیکن وہ عموماً تلواروں اور نیزوں ہی سے لڑتے رہے اور انہی سے انگلستان، مصر، ہندوستان اور آسٹریلیا کی بہترین قواعد دان اور تربیت یافتہ فوجوں کے چھکے چھڑا دئیے اور ہزیمت یافتہ وہ فوجیں تھیں جن کے پاس اعلیٰ درجہ کا سامان حرب تھا اور انہیں یورپ کے ماہر ترین جرنیل لڑا رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ایک طرف تمام دنیا کا مادی سامان جمع تھا تو دوسری طرف محض توکل علی اللہ اور جوش ایمانی کے ہتھیار تھے اور اس میں شبہ نہیں کہ اگر قائد ازل رہنمائی کرے اور خلوص نیت کارساز ہوتو مادیت روحانیت پر کبھی غالب نہیں آسکتی۔ مہدی کی سلطنت چار سو میل تک بحر قلزم کے کنارے پر پھیلی ہوئی تھی اور اندرون ملک میں بھی اس کا علاقہ ایک طرف تو سرحد حبشہ (ابی سینیا) تک پہنچ گیا تھا اور مغرب کی جانب میدان صحرا حد فاصل تھا۔ پس یوں سمجھنا چاہئے کہ وادیٔ نیل ایک ہزار میل سے زیادہ حکومت مصر سے آزاد ہوگئی اور انگلستان اور مصر کی متحدہ حربی جدوجہد بے نوا فقراء کے مقابلہ میں ناکام ثابت ہوئی۔ جب سوڈان کے صدر مقام خرطوم پر عمل ودخل ہوجانے کے بعد سوڈان کی ساری مملکت محمد احمد کے زیرنگین ہوگئی تو اس کی عظمت وسطوت کا ڈنکہ چار دانگ عالم میں بجنے لگا۔ اب محمد احمد وہ بوریہ نشین محمد احمد نہ تھا۔ جو جزیرہ ابا میں شب وروز ذکر الٰہی میں مصروف رہتا تھا اور ہزارہا مخلوق اس کا وعظ سننے آیا کرتی تھی اور فقر وفاقہ میں گذر بسر کرتا تھا۔ بلکہ اب فقر کے ساتھ بادشاہت بھی جمع ہوگئی تھی۔ اب مہدی پر وہ زمانہ نہ تھا کہ حکومت مصر گورنمنٹ برطانیہ اسے باغی کا خطاب دے سکتی۔ بلکہ اب وہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کا ہمسر ورقیب خیال کیا جاتا تھا اور دول یورپ اسے نہایت قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھتی تھی۔
تعلیمات
محمد احمد تخت سلطنت حاصل کرنے کے بعد بھی شعائر الٰہی کا ویسا ہی پاس ولحاظ کرتا تھا جیسا کہ وہ اپنے آغاز گوشہ نشینی میں کرتا تھا۔ احکام خداوندی کی پابندی میں بڑا سخت گیر تھا۔ شراب خوار کو درے لگواتا، چوروں کے ہاتھ کٹواتا اور زانی پر بھی حد شرع جاری کرتا۔ رمضان المبارک کا اتنا احترام کرتا تھا کہ بے عذر روزہ نہ رکھنے کی سزا اس نے موت مقرر کر رکھی تھی۔ ان تعزیرات کی برکت سے چند ہی روز کے اندر ہر قسم کے فسق وفجور بدمعاشی وبددیانتی کا قلع قمع ہوگیا۔ اس کے انصاف کا ایسا ڈنکہ بجا کہ کوئی شخص بیداد، غصب وبددیانتی میں مبادرت نہ کر سکتا تھا۔ مسجدیں، مصلیوں سے معمور تھیں۔ ہر طرف قال اللہ وقال الرسول کے چرچے تھے۔ جب محمد احمد کہیں جاتا تو لوگ اس کی زیارت کے لئے دیوانہ وار اٹھ دوڑتے تھے۔ بعض ایسے لوگ تھے جنہوں نے مہدی کو سیکڑوں مرتبہ پہلے دیکھا ہوگا۔ لیکن ان کا اعتقاد واشتیاق اس درجہ بڑھا ہوا تھا کہ وہ مہدی کا رخ زیبا دیکھنے سے کبھی سیر نہ ہوتے تھے اور عموماً اس محراب مسجد کے قریب پہنچنے کے لئے آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے۔ جس میں وہ نماز پڑھتا تھا۔ ہزارہا انسانوں کا شور ظاہر کر دیتا تھا کہ اب مہدی کے مسجد میں آنے کا وقت ہے۔ محمد احمد کے مذہبی احکام وتعلیمات کا بیشتر حصہ نظام حکومت اور فرمان شاہانہ کے زیر عنوان اوپر درج ہوچکا ہے۔ مزید تعلیمات ورجحانات ملاحظہ ہوں۔
خلاصۂ تعلیمات
۱… محمد احمد کے مسلک کا ایک بڑا حصہ اس کے منشور میں آچکا ہے۔ اس کی تعلیمات کا لب لباب ترک دنیا اور لذآت دنیوی سے اجتناب تھا۔ اس نے ہر قسم کے القاب برطرف کر دئیے۔ مالدار اور غریب کو مساوی کردیا اور حکم دیا کہ میرے تمام پیرو لباس میں یک رنگی اختیار کریں۔ تاکہ دوسروں سے امتیاز کرنے میں سہولت رہے۔ اس کا ہر مرید خواہ امیر ہو یا غریب ایسا جبہ پہنتا تھا جس میں پیوند لگے ہوتے تھے۔
۲… اس نے چاروں مذاہب حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کو جمع کر دیا۔ فروعی اختلافات کی صورت میں تطبیق کی کوشش کی جاتی تھی اور قدر مشترک کو لے لیا جاتا تھا۔ نماز صبح اور عصر کے بعد ہر روز قرآن کی چند مخصوص آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں۔ اس عمل کو راتب کہتے تھے۔ وضو میں کسی قدر سہولت وتخفیف کر دی۔
۳… بیاہ شادی کی تقریب میں برأت اور ہر قسم کے اجتماع کی ممانعت کی اور حکم دیا کہ شادی کے موقع پر لوگوں کو کھانے کی دعوت نہ دی جائے۔ مہر کی مقدار بھی مقرر کر دی۔ باکرہ کا مہر دس ریال اور وہ بدل مقرر کیا۔ ثیبہ کا اس سے نصف ٹھہرایا۔ جو کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرتا اس کا تمام مال واسباب قرق کر لیا جاتا۔ ولیمہ کا کھانا پکانے کی بھی ممانعت کی اور اس کی جگہ کھجور اور دودھ مقرر کر دیا۔
۴… رقص اور لعب کی بڑی سختی سے بندش کی اور جو کوئی اس کا مرتکب ہوتا اس کے کوڑے لگائے جاتے تھے اور اس کا مال ومتاع ضبط کر لیا جاتا تھا۔
۵… حج کعبہ کی ممانعت کر دی اور یہ ممانعت شاید اس اندیشہ پر مبنی ہوکہ مبادا سوڈان کے باہر کے لوگوں سے اس کے پیروؤں کا خلا ملا اس کی تعلیمات اور اس کے مسلک پر اثرانداز ہو۔ جو کوئی اس کے مہدی موعود ہونے کا انکار کرتا یا شک وتردد کا اظہار کرتا اس کا داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جاتا۔ فرد جرم عائد کرنے کے لئے دو گواہوں کی شہادت کافی تھی اور بعض دفعہ مہدی کا یہ کہہ دینا ہی کفایت کرتا تھا کہ مجھے یہ بات بذریعہ وحی معلوم ہوچکی ہے۔ محمد احمد نے ان تمام کتابوں کو نذر آتش کردیا جو اس کی تعلیمات کی منافی خیال کی گئیں۔ اس سے معلوم ہوگا کہ جہاں اس کی ذات اور اس کی تعلیمات میں بیسیوں خوبیاں تھیں وہاں بہت سے معائب وبدعات بھی موجود تھے۔ خصوصاً حج بیت اللہ سے روکنا بہت بڑی گمراہی تھی۔ اگر یہ امتناع فرضیت حج کے انکار پر مبنی تھا تو محمد احمد اپنی امت سمیت دائرہ اسلام سے خارج تھا۔ ورنہ فسق اور کبیرہ گناہ ہونے میں شک نہیں ہے۔
حرمین اور بیت المقدس پر عمل ودخل کرنے کا خواب پریشان
جب خرطوم فتح ہوگیا اور انگریزی فوجیں سوڈان خالی کر کے مصر چلی آئیں تو ان لوگوں کو بھی محمد احمد کے مہدی موعود ہونے کا یقین ہوگیا۔ جواب تک مذبذب تھے۔ کیونکہ محمد احمد کے مذہبی شغف کے ساتھ یہ حقیقت بھی ان کے پیش نظر تھی کہ اس نے کسی ایسے میدان جنگ میں شرکت نہیں کی جس میں وہ غالب نہ رہا ہو اور کسی ایسے شہر کا محاصرہ نہیں کیا جسے فتح نہ کیا ہو جرجی زیدان نے لکھا ہے کہ جب وہ سوڈان کا بلامزاحمت حکمران ہوگیا تو ڈینگیں مارنے لگا کہ میں جو کچھ کرتا ہوں وحی الٰہی کے حکم سے کرتا ہوں اور کہتا تھا کہ عنقریب مشرق ومغرب میں میری حکومت وسطوت پھیل جائے گی اور روئے زمین کے ملوک وسلاطین میرے سامنے اظہار عجز ونیاز مندی کریںگے۔ اس نے یہ بھی کہہ رکھا تھا کہ میں عنقریب مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس کو فتح
کروںگا۔ پھر کوفہ جاؤنگا۔ اس وقت میرا پیمانۂ حیات لبریز ہو جائے گا اور کوفہ میرا مدفن بنے گا۔ لیکن اس کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔ فتح خرطوم کے چند ہی ماہ بعد وہ بخار یا چیچک میں مبتلا ہوا اور ۲۱؍جون ۱۸۸۵ء کو ملک عدم کی روانگی کے لئے اس کے پاس اجل کا حکم آپہنچا۔ اس وقت اس کی عمر کلہم ۳۷سال کی تھی۔ وفات کے وقت اس کے تینوں خلفاء اور تمام اعیان دولت موجود تھے جب محمد احمد کو یقین ہوا کہ اب دنیا سے کوچ ہے تو حاضرین کو پست آواز میں کہنے لگا کہ پیغمبر خداﷺ نے امیر المؤمنین، ابوبکر صدیقؓ کو اپنا خلیفہ بنایا تھا اور میں عبداﷲ کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہوں۔ جس طرح میری اطاعت کی تھی اسی طرح تمام لوگ عبداﷲ کی اطاعت کریں۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے جان شیریں جہان آفرین کے سپرد کر دی۔ اس واقعہ سے شہر میں کہرام مچ گیا اور لوگ چیخنے چلانے لگے۔ عبداﷲ نے لوگوں کو نالہ وبکاء سے منع کیا اور کہا شریعت مطہرہ نے میت پر رونے کی ممانعت فرمائی ہے اور رونے کی درحقیقت کوئی بات بھی نہیں۔ کیونکہ حضرت مہدی علیہ السلام تو اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے مولیٰ کی دید کے لئے داردنیا سے چلے گئے ہیں۔ ہزارہا آدمی تجہیز وتکفین کے لئے جمع ہوگئے۔ محمد احمد کے ایک قرابت دار احمد بن سلیمان نے اسی پلنگ کے نیچے قبر کھدوائی جس پر اس نے اپنی عزیز جان ملک الموت کے سپرد کی تھی۔ مہدی کا مقبرہ ام درمان کی بہترین سنگین عمارت ہے۔ مگر انگریزی گولہ باری سے بہت کچھ شکستہ اور بدنما ہوگیا ہے۔ اس کا سنگ بنیاد خلیفہ عبداﷲ کے ہاتھ سے رکھاگیا تھا۔ پتھر خرطوم سے لاکر دریائے نیل کے کنارے جمع کئے گئے تھے۔ اس موقع میں قریباً تیس ہزار آدمی کی بھیڑ بھاڑ تھی۔ خلیفہ اس انبوہ کثیر کے ساتھ نیل کے کنارے گیا۔ جہاں پتھروں کے ڈھیر لگے تھے۔ پہلے خلیفہ ایک پتھر مونڈھے پر اٹھا کر قبر کے پاس لایا۔ اس مثال کی پیروی کرتے ہوئے ہر شخص تبرکاً ایک ایک پتھر اٹھالانے کے لئے اٹھ دوڑا۔ اس افراتفری میں بہت لوگ زخمی ہوئے۔ لیکن مجرد حین نے اس تقریب میں صدمہ برداشت کرنے کو اپنی سعادت سمجھا۔ مہدی نے اپنے خلیفہ کو وصیت کی تھی کہ جس طرح بن پڑے انگریزوں کو مصر سے نکال دینا۔ چنانچہ خلیفہ اپنے مخدوم ومطاع کے حکم کے بموجب دو مرتبہ مصر پر حملہ آوار ہوا۔ لیکن دونوں مرتبہ ناکام واپس جانا پڑا۔ مہدی کی وفات کے چودہ سال بعد یعنی ۱۸۹۹ء تک انگریزی مصری افواج سے خلیفہ کی کئی لڑائیاں ہوئیں۔ جن کا نتیجہ خلیفہ کے حق میں نہایت نقصان دہ ثابت ہوا۔ ان محاربات کی وجہ سے اس کی قوت دن بدن روبزوال ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ انجام کار لارڈ کچز نے سوڈان کو دوبارہ فتح کر کے وہاں انگریزی مصری پرچم بلند کردیا اور انگریزوں اور مصریوں کو مہدی اور خلیفہ عبداﷲ کے ہاتھوں سے جوہزیمتیں ہوتی رہی تھیں ان کی
تلافی کردی۔ اسی کے ساتھ مصائب ونوازل کا بھی خاتمہ ہوا جو محمد احمد سوڈانی کے دعویٰ مہدویت کی بدولت اٹھارہ سال سے نازل ہورہی تھیں۔
(یہاں تک کے مندرجات مشاہیر الشرق مؤلفہ جرجی زیدان ج۱ ص۷۵،۱۲۰ اور محاربات مصر وسوڈان مطبوعہ دہلی وغیرہ کتب سے ماخوذ ہیں)
محمد احمد کی مہدویت کے انکار کی سزا
محمد احمد کی زندگی میں اس کی خانہ ساز مہدویت کے انکار کی سزا ایسی سنگین نہیں تھی۔ جتنی کہ خلیفہ عبداﷲ کے عہد سلطنت میں ہوگئی۔ عبداﷲ کی عملداری میں مہدویت کا انکار اور قتل عمد دونوں مساوی جرم تھے۔ بلکہ مہدویت کا انکار ایک حیثیت سے قتل عمد سے بھی بڑھا ہوا تھا۔ کیونکہ اگر قاتل مقتول کے ورثاء کو خون بہادے کر راضی کر لیتا تھا تو قاتل کی جان بخشی کر دی جاتی تھی۔ لیکن محمد احمد کی مہدویت کا انکار بالکل ناقابل عفو جرم خیال کیا جاتا تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی مسلمان ملاح نے دارالخلافہ ام درمان میں کسی درویش کے سامنے کہہ دیا کہ محمد احمد سچا مہدی نہیں تھا۔ کیونکہ سچے مہدی علیہ السلام کے جو علامات وخصائص احادیث نبویہ میں مروی ہیں وہ اس میں نہیں پائے جاتے تھے۔ درویش نے خلیفہ کے پاس جاکر اس کی شکایت کر دی۔ ملزم جھٹ گرفتار کر کے زندان بلا میں ڈال دیا گیا۔ لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ واقعہ کا گواہ صرف ایک تھا۔ جس کے بیان پر سزا نہیں دی جاسکتی تھی۔ خلیفہ عبداﷲ نے قاضی کو بلاکر واقعہ بیان کیا اور پوچھنے لگا کہ شاہد نہ ہونے کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟ قاضی نے کہا میں شہادت کا انتظام کر لیتا ہوں۔ چنانچہ قاضی نے دو آدمی سکھا پڑھا کر قید خانہ میں بھیج دئیے وہ جاکر ملزم سے کہنے لگے کہ تمہارے انکار کے گواہ موجود ہیں اور تم کسی طرح سزا سے نہیں بچ سکتے۔ ہاں اس صورت سے مخلصی پاسکتے ہو کہ ہمارے سامنے صاف لفظوں میں اپنے جرم کا اقرار کر لو اور اپنی حرکت شنیعہ پر اظہار افسوس کرو۔ وہ بیچارہ نہیں جانتا تھا کہ یہ محض اس کے پھانسنے کا جال ہے۔ اس نے ان کے سامنے اقبال جرم کر لیا اور پھر بمنت کہنے لگا کہ جاکر میرے لئے خلیفہ سے معافی مانگو اور جرم بخشی کرادو۔ جب شہادت مکمل ہوگئی تو خلیفہ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔ خلیفہ نے ملزم سے کہا کہ اگر تم نے میری توہین کی ہوتی تو میں معاف کردیتا مگر تم نے حضرت مہدی علیہ السلام کو جھوٹا خیال کیا۔ اس لئے تمہیں کسی طرح معاف نہیں کیاجاسکتا۔ اب طبل بجنے لگا اور اعلان کیاگیا کہ سب لوگ میدان میں آکر منکر مہدی کا عبرت ناک انجام دیکھ لیں۔ تمام اہل شہر میدان میں امنڈ آئے۔ اس کے بعد بھیڑ کی کھال زمین پر بچھائی گئی۔ عبداﷲ اس پر بیٹھ گیا۔ قاضی بھی آگئے۔ اب ملزم کو لاکر عبداﷲ کے سامنے پیش کیاگیا۔ اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے۔ لیکن ملزم بالکل مطمئن تھا
اور اس سے خوف وہراس کی کوئی ادنیٰ علامت ظاہر نہیں ہورہی تھی۔ آخر اسے خلیفہ کے سامنے سے ہٹا کر سوقدم کے فاصلہ پر لے گئے اور احمد والیہ نام جلاد نے اس کی گردن ماردی۔
(فائر اینڈ سورڈ ان دی سوڈان ص۲۵۷، مطبوعہ لندن)
’’انا لللّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘ خدا شہید مظلوم پر اپنی رحمت کا مینہ برسائے۔ آمین!
لاش سے انتقام جوئی
بیان کیا جاتا ہے کہ لارڈ کچز فاتح سوڈان نے تسخیر ام درمان کے بعد مہدی کی قبر اور لاش سے اور مہدی کے مجروح پیروؤں سے نہایت وحشیانہ انتقام لیا۔ محمد احمد کا مقبرہ جو ایک نہایت قیمتی سنگین عمارت تھی اور تمام براعظم افریقہ میں اعلیٰ درجہ کی عمارتوں میں شمار ہوتی تھی۔ توپوں سے اڑایا گیا۔ اس کے مرتفع گنبد پر گولہ باری کی گئی۔ چار دیواری آتش باری کی نذر کی گئی۔ قبر کھدوا کر مہدی کی نعش سے جنرل گارڈن کے خون کا انتقام لیا گیا اور سرکاٹ کر جنرل گارڈن کے بھتیجے کو دیا گیا جو اس وقت انگریزی فوج میں افسر تھا اور مہدی کی نعش ٹکڑے ٹکڑے کر کے دریائے نیل میں پھینک دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لارڈ کچز کی جگہ دنیا کا کوئی اور بہادر اور بہادری کا قدر شناس سپہ سالار ہوتا تو وہ مہدی جیسے مشہور وشجاع آدمی کی قبر پر جو خاک مذلت سے اٹھ کر آناً فاناً سارے ملک کافرمانروا بن گیا تھا زرو جواہر نچھاور کرتا اور اس کے سامنے ادب وتعظیم سے جھک جاتا۔ لیکن برطانیہ کے سب سے ممتاز قائد نے اپنی شجاعت وجوانمردی کا یہ ثبوت پیش کیا کہ جس شخص کی زندگی میں اس پر کوئی بس نہ چلا تھا اس کی وفات کے بعداس کی لاش سے انتقام لے کر کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جرم ناآشنا باشندگان ام درمان سے قرآن مقدس اور تمام دوسری کتابیں چھین لی گئیں اور متواتر تین دن تک شہر میں قتل عام اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ مہدی کا دفینہ جو دامن کوہ میں تھا اور اس میں قریباً بیس لاکھ روپیہ نقد جمع تھا۔ نکال لیاگیا اور کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو غریب سوڈانیوں پر توڑا نہ گیا ہو۔ اسی طرح کنٹمپوری ریویو کے فوجی نامہ نگار مسٹر ای این بیینٹ کے بیان کے بموجب سیکڑوں ہزاروں زخمی میدان جنگ میں پڑے رہے اور مرہم پٹی کر کے ان کی جان بچانے کی کوئی کوشش نہ کی گئی اور نہ صرف یہ بلکہ اکیسویں لینسرز پلٹن کی ایک کمپنی کو حکم دیاگیا کہ تمام مہدوی زخمی جو رستہ میں ملیں موت کے گھاٹ اتاردیں۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی اور ان تمام مجروح درویشوں کو جو زمین پر پڑے کراہ رہے تھے برچھوں، تلواروں اور دوسرے ہتھیاروں سے بارزندگی سے سبکدوش کیاگیا۔
(محاربات مصر سوڈان ص۱۲، مطبوعہ دہلی)
لیکن اگر درندگی وبربریت کے یہ الزام صحیح ہیں تو میرے نزدیک یہ لارڈ کچز کا ذاتی
فعل تھا۔ برطانوی حکومت اور انگریزی قوم اس کی کسی طرح جواب دہ نہیں ٹھہر سکتی۔ چنانچہ لارڈ کچز کی مراجعت لندن کے بعد خود انگریزی قوم کے حساس افراد نے لارڈ کچز پر نہایت سختی سے اعتراض کئے تھے اور کچز نے ان کے جواب دے کر اپنی برأۃ کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ سربارج آرتھر کتاب لائف اوف لارڈ کچز میں لکھتے ہیں کہ انگلستان میں نام نہاد ہمدردان بنی نوع نے لارڈ کچز پر الزام لگائے کہ اس نے سواکن اور ام درمان میں لوگوں پر ظلم توڑے اور سخت گیری کی۔ بڑے بڑے الزامات یہ تھے کہ اس نے اختتام جنگ کے بعد زخمی درویشوں کو قتل کرایا۔ مہدی کی قبر کو مسمار کیا اور اس کی ہڈیوں کونکال لیا۔ لارڈ کچز نے ان الزامات کے جواب میں ایک اعلان شائع کیا جس میں لکھا کہ مجھ پر یہ الزام عائد کئے گئے ہیں۔
۱… میرے زیر فرمان برطانوی، مصری اور سوڈانی فوجوں نے زخمی درویشوں کو قتل کیا اور ایسے وقت میں غیر مسلح درویشوں کی جان لی۔ جب کہ ان کو نقصان پہنچانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
۲… ام درمان پر قبضہ ہو جانے کے بعد وہاں تین دن تک لوٹ مار جاری رکھی گئی۔
۳… جب فوجیں تیزی کے ساتھ ام درمان کی طرف بڑھ رہی تھیں تو جنگی جہازوں نے بازاروں کے پناہ گیر مجمعوں پر آتش باری کی۔
۴… مہدی کی لاش اکھیڑی گئی۔ لیکن یہ تمام الزامات غلط ہیں۔ اس کے بعد کچز نے لارڈ سالسبری کو لکھ بھیجا کہ جنگ ام درمان کے بعد میں نے سیاسی مصالح کی بناء پر یہی مناسب خیال کیا کہ مہدی کا مقبرہ جو زیارت اور مجنونانہ جذبات کا مرکز ہے تباہ کر دیا جائے۔ خود گولہ باری کی وجہ سے مقبرہ اس خطرناک حالت میں تھا کہ اگر اسے اسی حالت میں چھوڑ دیا جاتا تو اس سے نقصان جان کا اندیشہ تھا۔ ان وجوہ کی بناء پر میں ام درمان سے فشودا جاتے وقت مقبرہ کو تباہ کر دینے کا حکم دیتا گیا۔ یہ کام میری غیبت میں انجام پذیر ہوا۔ مہدی کی ہڈیاں دریائے نیل میں پھینک دی گئیں۔ البتہ انہوں نے کھوپڑی کو محفوظ رکھ چھوڑا۔ جو میری مراجعت پر میرے سامنے پیش کی گئی۔ اس کے بعد لارڈ کجز نے لکھا کہ تسخیر ام درمان کے بعد مجھے مصری افواج کے مسلمان افسروں نے مشورہ دیا تھا کہ مہدی کے لاش کو منتقل کر دینا مناسب ہے۔ کیونکہ ایسا نہ کیاگیا تو سوڈانی جہلاء سمجھیں گے کہ مہدی کے تقدس نے ہمیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ اس کے بعد لارڈ کچز نے لکھا مجھے یقین ہے کہ کوئی مسلمان جو اس ملک (انگلستان) میں رہتا ہے اس اقدام سے غیر مطمئن نہ ہوگا کہ ہم نے مہدی کی ساری طاقت کچلنے کے ساتھ اس کے مذہب کو بھی بیخ وبن
سے اکھاڑ دیا۔
(لائف اوف لارڈ کچز مؤلفہ سرجارج آرتھر ج۱ ص۲۵۹،۲۶۰، مطبوعہ لندن)
لارڈ کچز کا یہ فعل محمود تھا یا مذموم۔ مگر خدائے قاہر کی قدرت قہرمان نے بہرحال اس کا خوب انتقام لیا۔ مہدی سوڈانی تو چودہ سال تک ایک گنبد عالی کے نیچے دفن رہنے کے بعد سپرد نیل ہوا تھا۔ لیکن کچز کو ایک منٹ کے لئے بھی مادر گور کی آغوش میں استراحت کرنا نصیب نہ ہوا۔ اگر محمد احمد کی ہڈیاں دریائے نیل میں جس کا پانی شیریں وخوشگوار ہے ڈالی گئیں۔ تو کچز کی لاش تلخ پانی کی نذر ہوئی۔ (۱۹۱۸ء میں جبکہ روس یورپ کی عالمگیر جنگ سے علیحدہ ہوگیا تھا۔ لارڈ کچز کو ایک سفارت پر روس بھیجاگیا۔ راستہ میں کسی جرمن تحت البحر نے جہاز غرق کر کے لارڈ کچز کو کسی نہنگ بھر کا نوالہ بنادیا) کچز کی غرقابی کے وقت مہدی سوڈانی کی روح نے کچز سے جو خطاب کیا اس کو علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی زبان سے سنئے۔ جاوید نامہ میں لکھتے ہیں ؎
گفت اے کچز اگر داری نظر
انتقام خاک درویشے نگر
آسماں خاک تراگورے نہ داد
مرقدے جز دریم شورے نہ داد
باب۷۰ … مرزاغلام احمد قادیانی
مرزاغلام احمد بن حکیم غلام مرتضیٰ موضع قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور (پنجاب) کا رہنے والا تھا۔ مغل خاندان کا چشم وچراغ تھا۔ ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا۔ میں پیشتر رئیس قادیان کے نام سے ایک مبسوط کتاب مرزاغلام احمد قادیانی کے سوانح حیات میں لکھ چکا ہوں۔ اس لئے یہاں ایجاز واختصار سے کام لے کر اجمالی تذکرہ پر اکتفا کروںگا۔
دعوؤں کی کثرت وتنوع
اس کتا ب میں جس قدر بطالت فروشوں کے حالات اوراق سابقہ میں قلمبند ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا دعویٰ بھی درج کر دیا گیا ہے۔ قارئین کرام، کو ان حالات کا مطالعہ کرتے وقت معلوم ہوگا کہ یہ لوگ عموماً ایک ایک منصب کے دعویدار رہے ہیں اور بہت کم مدعی ایسے گذرے ہیں۔ جن کے دعوؤں کی تعداد دو یا تین تک پہنچی ہو۔ البتہ ایک مرزاغلام احمد قادیانی اس عموم سے مستثنیٰ ہے۔ اس شخص کے دعوؤں کی کثرت وتنوع کا یہ عالم ہے کہ ان کا استقصاء اگر دوسروں کے لئے نہیں تو کم ازکم میرے لئے بالکل محال ہے۔ تاہم سطحی نظر
سے قادیانی کے جو دعویٰ اس کی کتابوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی تعداد چھیاسی تک پہنچتی ہے۔ میں نے دو ایک دعویٰ جو سب سے زیادہ دلچسپ تھے اس خیال سے قلم انداز کر دیئے کہ مبادا خلیفہ المسیح میاں محمود احمد قادیانی کی خاطر اطہر پر گراں گزریں۔ باقی چوراسی دعویٰ ہدیہ ناظرین ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ میں محدث ہوں، امام الزمان ہوں، مجدد ہوں، مثیل مسیح ہوں، مریم ہوں، مسیح موعود ہوں، ملہم ہوں، حامل وحی ہوں، مہدی ہوں، حارث موعود ہوں، رجل فارسی ہوں۔ سلمان ہوں، چینی الاصل موعود ہوں، خاتم الانبیاء ہوں، خاتم الاولیاء ہوں، خاتم الخلفاء ہوں، حسین سے بہتر ہوں، حسنین سے افضل ہوں، مسیح ابن مریم سے بہتر ہوں، یسوع کا ایلچی ہوں، رسول ہوں، مظہر خدا ہوں، خدا ہوں، مانند خدا ہوں، خالق ہوں، نطفۂ خدا ہوں، خدا کا بیٹا ہوں، خدا کا باپ ہوں، خدا مجھ سے ظاہر ہوا اور میں خدا سے ظاہر ہوا ہوں، تشریعی نبی ہوں، آدم ہوں، شیث ہوں، نوح ہوں، ابراہیم ہوں، اسحاق ہوں، اسماعیل ہوں، یعقوب ہوں، یوسف ہوں، موسیٰ ہوں، داؤد ہوں، عیسیٰ ہوں، آنحضرتﷺ کا مظہر اتم ہوں، منجی ہوں، ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں، موتی ہوں، حجر اسود ہوں، تمام انبیاء سے افضل ہوں، ذوالقرنین ہوں، احمد مختار ہوں، بشارت ’’اسمہ احمد‘‘ کا مصداق ہوں، میکائیل ہوں، بیت اللہ ہوں، ردرگوپال یعنی آریوںکا بادشاہ ہوں، کلنکی اوتار ہوں، شیر ہوں، شمس ہوں، قمر ہوں، محی ہوں، ممیت ہوں، صاحب اختیارات کن فیکون ہوں، کاسر الصلیب ہوں، امن کا شہزادہ ہوں، جری اللہ ہوں، برہمن اوتار ہوں، رسل ہوں، اشجع الناس ہوں، معجون مرکب ہوں، داعی الیٰ اللہ ہوں، سراج منیر ہوں، متوکل ہوں، آسمان اور زمین میرے ساتھ ہیں۔ وجیہ حضرت باری ہوں، زائد المجد ہوں، محی الدین ہوں، مقیم الشریعہ ہوں، منصور ہوں، مراد اللہ ہوں، اللہ کا محمود ہوں، (یعنی اللہ میری تعریف کرتا ہے) نور اللہ ہوں، رحمۃ للعالمین ہوں، نذیر ہوں، منتخب کائنات ہوں، میں وہ ہوں جس کا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔ میں وہ ہوں جس سے خدا نے بیعت کی۔ غرض دنیا جہان میں جو کچھ تھا مرزا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ؎
یوں تو مہدی بھی ہو عیسیٰ بھی ہو سلمان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
ادھوری تعلیم اور اس کا انجام
مرزاغلام احمد کے ایام طفولیت میں اس کے والد حکیم غلام مرتضیٰ صاحب قصبہ بٹالہ میں مطب کرتے تھے اور غلام احمد بھی باپ ہی کے پاس بٹالہ میں رہتا تھا۔ اس نے چھ سات سال کی عمر
میں قرآن پڑھنا شروع کیا۔ قرآن مجید کے بعد چند فارسی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ابھی تیرہ چودہ سال ہی کی عمر تھی کہ باپ نے شادی کے بندھنوں میں جکڑ دیا۔ یہ پہلی بیوی مرزاقادیانی کے حقیقی ماموں کی بیٹی تھی۔ یہ وہی محترمہ حرمت بی بی خان بہادر مرزاسلطان احمد کی والدہ تھیں۔ جنہیں قادیانی نے معلقہ کر رکھا تھا۔ نہ کبھی نان ونفقہ دیا اور نہ طلاق دے کر ہی بیچاری کی گلو خلاصی کی۔ ابھی سولہ سال ہی کی عمر تھی کہ غلام احمد کے گھر میں مرزاسلطان احمد متولد ہوئے۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں والد نے غلام احمد کو گل علی شاہ بٹالوی نام ایک مدرس کے سپرد کر دیا۔ جو شیعی المذہب تھے۔ ان کے شاگردی میں منطق اور فلسفہ کی چند کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بس یہی قادیانی کی ساری علمی بساط تھی۔ تفسیر، حدیث فقہ اور دوسرے دینی علوم سے قطعاً محروم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بیچارہ ’’نیم ملاخطرہ ایمان‘‘ کے درجہ سے ترقی نہ کر سکا۔ ورنہ اگر صحاح ستہ نہیں تو کم ازکم مشکوٰۃ ہی باقادہ کسی استاد سے پڑھ لی ہوتی تو اس کے دین میں شاید اتنا فتور نہ پیدا ہوسکتا۔ جس قدر کہ بعد میں مشاہدہ میں آیا۔ منطق وفلسفہ کی چند کتابوں کے تعلم کے بعد والد نے طب کی چند کتابیں پڑھائیں۔ مگر چونکہ علم طب کی بھی تکمیل نہ کی۔ اس فن میں بھی بمشکل ’’نیم حکیم خطرۂ جان‘‘ ہی کی حیثیت اختیار کر سکا۔ ورنہ اگر اسی فن میں اچھی دستگاہ حاصل کر لی ہوتی تو ایک معقول ذریعہ معاش ہاتھ آجاتا اور آئندہ تقدس کی دکان کھول کر خلق خدا کو گمراہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ان ایام میں قادیان کے مغل خاندان کو حکومت کی طرف سے سات سوروپیہ سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔ ایک مرتبہ مرزاغلام احمد قادیانی اپنے عم زاد بھائی مرزاامام الدین کے ساتھ پنشن لینے کے لئے گورداسپور گیا۔ سات سو روپیہ وصول کرنے کے بعد یہ صلاح ٹھہری کہ ذرا لاہور اور امرتسر کی سیر کرآئیں۔ دونوں بھائی امرتسر اور لاہور آکر سیر وتفریح میں مصروف رہے۔ باوجودیکہ بڑا ارزانی کا زمانہ تھا۔ سات سوروپیہ کی رقم خطیر چند روز میں اڑا دی۔ حالانکہ متعدد گھروالوں کی معیشت کا مدار اسی پنشن پر تھا۔ رقم تلف کرنے کے بعد غلام احمد نے سوچا کہ قادیان جاکر والدین کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ یہاں سے بھاگ کر سیالکوٹ کا رخ کیا۔
سیالکوٹ کی ملازت مختاری کا امتحان
سیالکوٹ میں ایک ہندو دوست لالہ بھیم سین جو بٹالہ میں ہم سبق رہ چکا تھا موجود تھا۔ مرزاقادیانی کو لالہ بھیم سین کی سعی وسفارش سے سیالکوٹ کی ضلع کچہری میں دس پندرہ روپیہ ماہانہ کی نوکری مل گئی۔ چند سال منشی گری کی ملازمت میں بسر کئے۔ آخر ایک دفعہ معلوم ہوا کہ اس کا دوست لالہ بھیم سین مختاری کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔ اس نے بھی مختاری کا امتحان دینے کا
قصد کیا۔ چنانچہ اسی دن سے تیاری شروع کر دی۔ لیکن جب امتحان ہوا تو لالہ بھیم سین کامیاب اور مرزاغلام احمد قادیانی ناکام رہا۔ اس ناکامی کے بعد شاید خود بخود منشی گری کی نوکری چھوڑ کر قادیان کو مراجعت کی۔ چونکہ قانون کامطالعہ کیا تھا۔ باپ نے اہل پاکر اسے مقدمہ بازی میں لگادیا۔ آٹھ سال تک مقدموں کی پیروی میں کچہریوں کی خاک چھانتا پھرا۔ بزرگوں کے دیہات خاندان کے قبضہ سے نکل چکے تھے اور مقدمہ بازی کے باوجود واپس نہ ملے تھے۔ اس لئے حزن وملال، رنج واضطراب ہر وقت مرزاغلام مرتضیٰ کے رفیق زندگی بنے ہوئے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر مرزاغلام احمد قادیانی رات دن اسی خیال میں غلطان وپیچان رہتا تھا کہ خاندانی زوال کا مداوا کیا ہوسکتا ہے اور ترقی وعروج کی راہیں کیونکر کھل سکتی ہیں؟ ملازمت سے وہ سیر ہوچکا تھا۔ مختاری کے ایوان میں بازیابی نہ ہوسکی تھی۔ فوج یا پولیس کی نوکری سے بھی بوجہ قلت مشاہرہ کوئی دلچسپی نہ تھی۔ تجارتی کاروبار سے بھی قاصر تھا۔ کیونکہ اس کوچہ سے نابلد ہونے کے علاوہ سرمایہ بھی موجود نہ تھا۔ اب لے دے کر تقدس کی دکان آرائی ہی ایک ایسا کاروبار رہ گیا تھا جسے غلام احمد زرطلبی کا وسیلہ بناسکتا تھا اور یہی ایک ایسا مشغلہ تھا جس کی زرپاشیاں حصول عزوجاہ کی کفیل ہوسکتی تھیں۔ اس دکان آرائی کا بڑا محرک یہ تھا کہ ان دنوں میں قادیان کے گردونواح میں چند بزرگ ہستیوں کی طرف بڑا رجوع خلائق تھا۔ مثلاً قصبہ بٹالہ میں سلسلہ عالیہ قادریہ کے مشائخ پیر سید ظہور الحسن اور پیر سید ظہور الحسین صاحبان افادۂ خلق میں مصروف تھے۔ موضع رتر چھتر میں پیر سیدامام علی شاہ صاحب نقشبندی مسند آراء تھے۔ اسی طرح موضع مسانیاں میں بھی ایک بڑی گدی تھی۔ ان حضرات کو مرجع انام دیکھ کر مرزاغلام احمد کے منہ سے بھی رال ٹپک رہی تھی کہ جس طرح بن پڑے مشیخت اور پیری مریدی کا کاروبار جاری کرنا چاہئے۔
لاہور میں مذہبی چھیڑ چھاڑ
غلام احمد ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اتنے میں خبر آئی کہ اس کے بچپن کے رفیق وہم مکتب مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی جو دہلی میں مولانا نذیر حسین (معروف بہ میاں صاحب) سے حدیث پڑھ کر چند روز پیشتر لاہور اقامت گزین ہوئے تھے بٹالہ آئے ہیں۔ غلام احمدقادیانی نے بٹالہ آکر ان سے ملاقات کی اور کہا میری خواہش ہے کہ قادیان چھوڑ کر کسی شہر میں قسمت آزمائی کروں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اگر لاہور کا قیام پسند ہو تو وہاں میں ہر طرح سے تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔ قادیانی نے کہا میرا خیال ہے کہ غیر اسلامی ادیان کے رد میں ایک کتاب لکھوں۔ مولوی محمد حسین نے کہا ہاں یہ مبارک خیال ہے۔ لیکن بڑی دقت یہ ہے کہ غیر معروف مصنف کی کتاب
مشکل سے فروخت ہوتی ہے۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ حصول شہرت کون سا مشکل کام ہے؟ اصل مشکل یہ ہے کہ تالیف واشاعت کا کام سرمایہ کا محتاج ہے اور اپنے پاس روپیہ نہیں ہے۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ تم لاہور چل کر کام شروع کرو اور اس مقصد کو مشتہر کرو۔ میں بھی کوشش کروںگا۔ حق تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔ لیکن یہ کام قادیان میں رہ کر نہیں ہوسکتا۔ غرض لاہور آنے کا مصمم ارادہ ہوگیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے لاہور پہنچ کر مولوی محمد حسین کی صوابدید کے بموجب اپنے مستقبل کا جو لائحہ عمل تجویز کیا اس کی پہلی کڑی غیر مسلموں سے الجھ کر شہرت ونمود کی دنیا میں قدم رکھنا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی ہنگامہ خیزیوں سے ملک کی مذہبی فضا میں سخت تموج وتکدر برپا کر رکھا تھا اور پادری لوگ بھی اسلام کے خلاف ملک کے طول وعرض میں بہت کچھ زہر اگل رہے تھے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی اس وقت اہل حدیث کی مسجد چینیاں لاہور میں خطیب تھے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے لاہور آکر انہی کے پاس مسجد چینیاں میں قیام کیا اور شب وروز تحفۃ الہند، تحفۃ الہنود، خلعت الہنود اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے مناظروں کی کتابوں کے مطالعہ میں مصروف رہنے لگا۔ جب ان کتابوں کے مضامین اچھی طرح ذہن نشین ہوگئے تو پہلے آریوں سے چھیڑ خانی شروع کی اور پھر عیسائیوں کے مقابلہ میں ہل من مبارز (کوئی مقابلہ کرے گا؟) کا نعرہ لگایا۔ ان ایام میں آریوں کا کوئی نہ کوئی پرچارک اور عیسائیوں کا ایک آدھ مشنری لوہاری دروازہ کے باہر باغ میں آجاتا تھا اور آتے ہی قادیانی سے ان کی ٹکریں ہونے لگتی تھیں۔ غرض اسلام کا یہ پہلوان ہر وقت کشتی کے لئے جوڑ کی تلاش میں رہتا تھا اور اسے مجمع کو اپنے گرد جمع کر کے پہلوانی کمال دکھانے کی دھن لگی رہتی تھی۔ قادیانی اپنے مجادلوں اور اشتہار بازیوں میں اپنے تئیں خادم دین اور نمائندہ اسلام ظاہر کرتا تھا اور نہ تو ابھی تک کوئی جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور نہ الحاد وزندقہ کے کوچہ میں قدم رکھا تھا۔ اس لئے ہر خیال وعقیدہ کا مسلمان اس کا حامی وناصر تھا۔ چند ماہ تک مجادلانہ ہنگامے برپا رکھنے کے بعد مرزاغلام احمد قادیان چلاگیا اور وہیں سے آریوں کے خلاف اشتہار بازی کا سلسلہ شروع کر کے مقابلہ ومناظرہ کے نمائشی چیلنج دینے شروع کئے۔ چونکہ بحث مباحثہ مقصود نہیں تھا۔ بلکہ حقیقی غرض نام ونمود اور شہرت طلبی تھی۔ اس لئے آریہ لوگوں کے شرائط کے مقابلہ میں بالکل چکنے گھڑے کا مصداق بنا ہوا تھا۔ ان کی ہر شرط اور مطالبہ کو بلطائف الحیل ٹال جاتا تھا اور اپنی طرف سے ایسی ناقابل قبول شرطیں پیش کردیتا تھا کہ مناظرہ کی نوبت ہی نہ آتی تھی۔ اگر میرے بیان کی تصدیق چاہو تو مرزاقادیانی کے مجموعہ اشتہارات موسومہ بہ تبلیغ رسالت کی جلداوّل کے ابتدائی اوراق کا مطالعہ کر جاؤ۔
الہام بازی کا آغاز
اب مرزاقادیانی نے ان جھگڑوں قضیوں کو چھوڑ کر الہام بازی کی دنیا میں قدم رکھا اور اپنے ملہم ومستجاب الدعوات ہونے کا پروپیگنڈا شروع کیا۔ شہرت تو پہلے ہی ہوچکی تھی۔ اہل حاجات کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ مرزاقادیانی جس بالاخانہ میں بیٹھ کر یا لیٹ کر الہام سوچا کرتا تھا اس کو بیت الفکر (سوچنے کی جگہ) سے موسوم کیاتھا۔ ان دنوں الہامات کی آمد بہت تھی اور ان کا یاد رکھنا دشوار تھا۔ اس لئے اپنے الہام ساتھ ہی ساتھ ایک پاکٹ میں نوٹ کر لیتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک بڑے حجم کی کاپی بنالی اور ایک دوازدہ سالہ ہندو لڑکے شام لال کو الہام نویسی کے لئے نوکر رکھ لیا۔ قادیانی اپنا الہام لکھوا کر اس پرشام لال کے دستخط کرالیتا تھا۔ تاکہ وہ بوقت ضرورت الہام نازل ہونے کا گواہ رہے۔ یہ لڑکا نہایت سادہ لوح تھا۔ مسلمانوں کو چھوڑ کر ایک سادہ لوح نابالغ ہندو لڑکے کو شاید اس لئے انتخاب کیا کہ موم کی ناک بن کر رہے اور اس سے ہر قسم کی شہادت دلائی جاسکے۔ ان دنوں میں لالہ شرمپت رائے اور لالہ ملاوامل نام قادیان کے دو ہندو مرزا کے مشیر خاص اور رات دن کے حاشیہ نشین تھے۔ اب معتقدین کا بھی جمگھٹا ہونے لگا۔ خوشامدی مفت خورے ہاں میں ہاں ملانے والے بھی ہر طرف سے امنڈ آئے۔ لنگر جاری کر دیا گیا۔ تاکہ ہر شخص الہامی کے مطبخ سے کھانا کھا کر جائے اور شہرت ونمود کا باعث ہو۔ چونکہ مستجاب الدعوات ہونے کے اشتہاروں نے اور اس سے پیشتر لاہور کے مناظروں اور اشتہار بازیوں نے پہلے سے بام شہرت پر پہنچا رکھا تھا۔ نذر ونیاز اور چڑھاووں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ رجوعات وفتوحات کا شجر آرزو بار آور ہوا اور تمناؤں کی کشت زار لہلہاتی نظر آئی۔ اب لوگوں نے بیعت کی درخواستیں کیں۔ قادیان کا الہامی ہر ایک کو یہی جواب دیتا تھا کہ ابھی ہم کو کسی سے بیعت لینے کا حکم نہیں ہوا۔ اس وقت تک صبر کرو جب کہ اس بارہ میں حکم خداوندی آپہنچے۔
براہین احمدیہ کی تدوین واشاعت
مرزاقادیانی کا سب سے بڑا علمی کارنامہ جس پر مرزائیوں کو بڑا ناز ہے۔ کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ ہے۔ یہ ۵۶۲صفحات کی کتاب ہے۔ جس کو چار حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ اس ضخامت اور اس موضوع کی کتاب چھ سات مہینہ میں بسہولت لکھی جاسکتی ہے۔ لیکن مؤلف علام پہلے تو کئی سال تک اس کا مواد جمع کرنے میں مصروف رہا۔ اس کے بعد ۱۸۷۹ء سے لے کر کئی سال کی مزید مدت اس کی تالیف وتدوین کی نذر کر دی۔ ۱۸۸۰ء میں پہلے دو حصے شائع کئے۔ ۱۸۸۲ء میں تیسرا حصہ طبع ہوا اور ۱۸۸۴ء میں چوتھا حصہ۔ اس طرح کتاب کے چار حصوں پر جو
۵۶۲صفحات پر مشتمل ہیں چھ سال سے زیادہ عرصہ لگا۔
(حوالہ جات کے لئے کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ کی طرف رجوع کیجئے)
حالانکہ ان صفحات پر جنہیں حصہ اوّل سے تعبیر کیاگیا۔ کوئی علمی مضمون نہیں بلکہ صرف دس ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار نہایت جلی حروف میں پھیلا کر لکھوا دیا اور اسی کو صفحات اور حصص کی تعداد بڑھانے کے لئے پہلا حصہ قرار دے لیا اور پھر جہاں تک خاکسار راقم الحروف کی تحقیق کو دخل ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے اس کتا ب میں اپنی کاوش طبع سے ایک حرف بھی نہ لکھا۔ بلکہ جو کچھ زیب رقم فرمایا وہ یا تو علمائے سلف کی کتابوں سے اخذ کیا یا علمائے معاصرین کے سامنے کاسہ گدائی پھرا کر ان کی علمی تحقیقات حاصل کر لیں اور قادیان کے سلطان القلم نے انہی کو بے حوالہ زینت قرطاس بنالیا۔
(تفصیل کے لئے دیکھو کتاب ’’رئیس قادیان‘‘)
ابھی یہ کتاب زیر تالیف تھی کہ مرزاقادیانی نے اس کی طباعت میں امداد دیئے جانے کے لئے بے پناہ پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ مرزاقادیانی نے اپنے اشتہارات میں وعدہ کیا تھا کہ غیر مسلم اقوام میں سے جو کوئی اس کتاب کا جواب لکھے گا اس کو دس ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ اسلامی روایات میں جوئے کا یہ پہلا موقع تھا جو یورپ کی تقلید سے مذہب کے نام پر کھیلا گیا۔ البتہ اتنی ہوشیاری کی کہ شرطی جوئے کو انعام کے نام سے موسوم کر کے بے خبروں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ دس ہزار روپیہ انعام کا وعدہ پڑھ کر مسلمانوں نے یقین کیا کہ واقعی اسلام کی تائید میں یہ کوئی بہت بڑا توپخانہ ہوگا جو اغیار کے مذہبی قلعوں کو پاش پاش کر دے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چاروں طرف سے روپیہ کی بارش شروع ہوگئی اور مرزاقادیانی کا دل اسکیم کی کامیابی پر کنول کے پھول کی طرح کھل گیا۔ حریص تاجروں کا جذبہ حرص وآز قلیل نفع سے تسکین نہیں پاتا۔ لیکن مرزا ایسا تاجر تھا جو کثیر نفع پر بھی مطئمن نہ ہوا۔ کتاب کی قیمت پہلے پانچ روپے رکھی تھی۔ لیکن جب دھڑا دھڑ روپیہ آنا شروع ہوا تو قیمت پانچ کی جگہ دس روپے کر دی اور صرف یہی نہیں کہ لوگوں سے پیشگی قیمت وصول کی گئی۔ بلکہ والیان ریاست اور اغنیاء سے فی سبیل اللہ امداد کرنے کی بھی درخواستیں کیں۔ چنانچہ نواب شاہ جہاں بیگم صاحبہ والیۂ بھوپال، نوب صاحب لوہارو، وزیراعظم پٹیالہ، وزیراعظم بہاولپور، وزیر ریاست نالہ گڑھ، نواب مکرم الدولہ رکن حیدرآباد دکن اور بہت سے روسا نے ہر طرح سے امداد کے وعدے فرمائے۔ جب تک کے پہلے دو حصے چھپ چکے تو جذبہ زراندوزی میں اور زیادہ تشنگی پیدا ہوئی اور اب اس کی قیمت مرفہ الحال لوگوں کے لئے دس کے بجائے پچیس روپے سے لے کر سوروپیہ تک کر دی۔ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ قیمت وصول
کرنے کے دو ڈھنگ اختیار کئے۔ پہلے تو یہ کوشش کی کہ کوئی شخص قیمت کا لفظ ہی زبان پر نہ لائے بلکہ اندھا دھند اپنے اندوختہ عمری کا بیشتر حصہ خیرات کے طور پر قادیان بھیج دے۔ اگر کوئی شخص اس طرح قابو میں نہیں آتا تھا یا پچیس روپیہ سے بھی کم قیمت دینا چاہتا تھا تو ہوشیار دکاندار کی طرح اس سے کہا جاتا تھا کہ تم ایک پائی نہ دو۔ بلکہ مفت ہی لے لو۔ کیونکہ ہم غریبوں کو مفت بھی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا کون بے حیا مستطیع ہوگا جو غریب بن کر مفت مانگتا یا پچیس روپیہ سے کم قیمت پر کتاب مانگنے کی جرأت کرتا۔ ناچار یہ لوگ بڑی بڑی رقمیں بھیجتے رہے۔ اس اثناء میں بعض حضرات نے یہ کہہ کر صاف گوئی کا حق ادا کیا کہ جس کتاب کے لئے اتنا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس کی اشاعت ہی غیر ضروری ہے۔ مرزاقادیانی نے اشتہاروں میں ان لوگوں کی خوب خبر لی اور فرمایا کہ یہ لوگ منافقانہ باتیں کر کے ہمارے کام میں خلل انداز ہوتے ہیں اور ناحق نیش زنی کرتے ہیں۔ یہاں یہ جتلا دینا ضروری ہے کہ مرزاقادیانی نے جس کتاب کی قیمت پہلے پانچ پھر دس اور پھر مستطیع لوگوں کے لئے پچیس سے لے کر سو روپیہ تک مقرر کر کے پیشگی رقمیں وصول کیں۔ اس کے متعلق وعدہ یہ کیا تھا کہ تین سو جزو یعنی چار ہزار آٹھ سو صفحات کی کتاب ہوگی۔ لیکن کتاب کے ۵۶۲ صفحے شائع ہوچکے تو مرزاقادیانی نے اعلان کر دیا کہ آئندہ کے لئے خود رب العالمین اس کتاب کا متولی ومہتمم ہوگیا ہے۔ اس تولیت واہتمام خداوندی کا یہ مطلب تھا کہ اب میں باقی ماندہ ۴۲۳۸ صفحات کی طبع واشاعت کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ چونکہ ہزارہا روپیہ پیشگی وصول ہو جانے کے بعد خریداروں سے کسی مزید رقم کے ملنے کی توقع نہ تھی۔ اس لئے مرزاقادیانی نے ’’براہین احمدیہ‘‘ کو نظر انداز کر کے اس کی جگہ دوسری کتابیں مثلاً ’’سرمۂ چشم آریہ‘‘ اور رسالہ ’’سراج منیر‘‘ وغیرہ کی طرف عنان توجہ پھیردی اور ستمبر ۱۸۸۶ء میں اپنی نئی کتاب سرمۂ چشم آریہ کے ٹائٹل پیج پر اعلان کردیا کہ الہامات الٰہیہ کی بناء پر کتاب براہین کے تین سو جز کے وعدے پورے نہیں کئے جاسکتے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی نے حقوق العباد سے سبکدوش ہونے کے متعلق جو عملی نمونہ پیش کیا اس کی دلچسپ تفصیل کے لئے کتاب رئیس قادیان کی طرف رجوع فرمائیے۔ کتاب براہین کالب ولہجہ ایسا خراب ہے کہ ممکن نہیں کہ کوئی ہندو یا عیسائی پڑھے اور مشتعل نہ ہو۔ وہی باتیں جو جارحانہ الفاظ اور مبارزانہ انداز میں لکھی تھیں۔ نرم لہجہ اور دلکش الفاظ میں بھی لکھی جاسکتی تھیں۔ اس کتاب نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف آریوں اور عیسائیوں کے دلوں میں عناد ومنافرت کی مستقل تخم ریزی کر دی۔ پنڈت لیکھرام نے براہین احمدیہ کا جواب تکذیب ’’براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ لیکن یہ جواب کیا تھا دشنام
دہی اور بدگوئی کا شرمناک مرقع تھا اور یقین ہے کہ جب سے بنی نوع انسان عالم وجود میں آیا کسی بدنہاد عدوے حق نے خدا کے برگزیدہ انبیاء ورسل اور دوسرے مقربان بارگاہ احدیت کو اتنی گالیاں نہ دی ہوںگی جتنی کہ پنڈت لیکھرام نے اس کتا ب میں دیں۔ اس تمام دشنام گوئی کی ذمہ داری مرزاقادیانی پر عائد ہوتی تھی۔ اسلام کے اس نادان دوست نے ہندوؤں اور ان کے بزرگوں پر لعن طعن کر کے انبیاء کرام کو گالیاں دلائیں۔ براہین احمدیہ میں مرزائی الہامات کی بھی بھرمار تھی اور یہی وہ الہامات تھے جو آئندہ دعووؤں کے لئے عموماً سنگ بنیاد کا حکم رکھتے تھے۔ گوبراہین کی طباعت کے بعد بھی بعض علماء حسن ظن کے سنہری جال میں پھنسے رہے۔ لیکن اکثر علماء ایسے تھے جن کی فراست ایمانی نے اس حقیقت کو بھانپ لیا تھا کہ یہ شخص کسی نہ کسی دن ضرور دعوائے نبوت کرے گا۔
دعوائے مجددیت اور حکیم نورالدین سے ملاقات
ان دنوں میں حکیم محمد شریف کلانوری نے جو مرزاقادیانی کا یار غار تھا امرتسر میں مطب کھول رکھا تھا۔ مرزاقادیانی کبھی قادیان سے امرتسر آتا تو اسی کے پاس ٹھہرا کرتا۔ براہین کی اشاعت کے بعد حکیم مذکور نے مرزاقادیانی کو مشورہ دیا کہ تم مجدد ہونے کا دعویٰ کرو۔ کیونکہ اس زمانہ کے لئے بھی کسی مجدد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے اپنی مجددیت کا ڈھنڈورہ پیٹنا شروع کیا۔ قادیان پہنچ کر بیرونی لوگوں کے پتے منگوائے اور ان کے نام خطوط بھیجنے شروع کئے۔ دول یورپ، امریکہ وافریقہ کے تمام تاجداران اور ان کے وزراء عمال حکومت، دنیا کے مدبروں، مصنفوں، نوابوں، راجاؤں اور دنیا کے تمام مذہبی پیشواؤں کے پاس حسب ضرورت انگریزی یا اردو اشتہارات بھجوائے۔ ان اشتہاروں میں اپنے دعوائے مجددیت کے بعد مکتوب الیہم کو دعوت اسلام دی گئی تھی۔ لیکن مرزائی تجدید کے جذب واثر کا کمال دیکھو کہ بیس ہزار دعوتی اشتہارات کی ترسیل کے باوجود ایک غیر مسلم بھی حلقۂ اسلام میں داخل نہ ہوا۔ ان ایام میں حکیم نورالدین بھیروی ریاست جموں وکشمیر میں ریاستی طبیبوں کے زمرہ میں ملازم تھا۔ یہ حکیم نور الدین ایک لامذہب شخص تھا اور اگر کسی مذہب سے کوئی لگاؤ تھا تو وہ نیچری مذہب تھا۔
(دیکھو سیرۃ المہدی ج۲ ص۵۷)
ان ایام میں سرسید احمد خاں سے حکیم نور الدین کی کچھ خط وکتابت ہوئی۔ جب مرزاغلام احمد قادیانی کو اس خط وکتابت کا علم ہوا تو اسے یقین ہوا کہ اس شخص کی رفاقت ہر طرح سے بام مقصد تک پہنچا سکتی ہے۔ چنانچہ جموں جاکر حکیم سے ملاقات کی اور یہ معلوم کر کے مسرت
کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ حکیم بالکل اسی کا ہم مذاق واقع ہوا ہے۔ ان ایام میں حکیم نورالدین شیخ فتح محمدرئیس جموں کا کرایہ دار تھا۔ یہاں دس بارہ روز تک مختلف مسائل پر گفتگو رہی۔ آخر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیاگیا اور مرزاقادیانی نے قادیان کو مراجعت کی۔ ان واقعات کی تفصیل کتاب رئیس قادیان میں ملے گی۔ کچھ دنوں کے بعد مرزا لدھیانہ گیا اور اپنی مجددیت کا اعلان کیا۔ چنانچہ بہت سے سادہ لوح آدمی حلقۂ مریدیں میں داخل ہوئے۔ مولوی محمد، مولوی عبداﷲ اور مولوی اسماعیل صاحبان نے جو تینوں حقیقی بھائی تھے اور علماء لدھیانہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ کہیں سے کتاب براہین احمدیہ حاصل کر کے اس کا مطالعہ شروع کیا۔ اس میں الحاد وزندقہ کے طومار نظر آئے۔ انہوں نے شہر میں اعلان کردیا کہ یہ شخص مجدد نہیں بلکہ ملحد وزندیق ہے۔ اس کے بعد علماء لدھیانہ نے مرزاقادیانی کی تکفیر کا فتویٰ دیا اور اشتہارات چھپوا کر تقسیم کرائے۔ تھوڑے دن کے بعد علمائے حرمین کی طرف سے بھی مرزاقادیانی کے کفر کے فتوے ہندوستان پہنچ گئے۔ ۱۸۸۴ء میں براہین احمدیہ کا چوتھا حصہ شائع کیا۔ انہی ایام میں مرزاقادیانی نے دہلی جاکر نصرت بیگم نام ایک نوکتخدا لڑکی سے شادی کی۔ پہلی بیوی تو پہلے ہی سے اپنے میکے میں اجڑی بیٹھی تھی۔ دوسری بیوی کی آمد پر پہلی کے آباد ہونے کی رہی سہی امید بھی منقطع ہوگئی۔ جب مرزاقادیانی نے دیکھا کہ علمائے حرمین کا فتویٰ تکفیر، راہ ترقی میں حائل ہورہا ہے تو ۱۸۸۵ء کے اوائل میں اس مضمون کے آٹھ ہزار انگریزی اور شاید ہزارہا اردو اشتہارات طبع کراکر تقسیم کرائے کہ جو شخص قادیان آکر صبر واستقلال اور حسن نیت کے ساتھ ایک سال تک میری صحبت میں رہے گا اسے معجزے دکھائے جائیںگے۔ اعجاز نمائی کے وعدوں کے اشتہار یورپی پادریوں کو سب سے زیادہ بھیجے گئے تھے اور مرزاقادیانی کو یقین تھا کہ کثیر التعداد پادری قادیان آئیںگے۔ اس لئے ان موہوم مہمانوں کے قیام کے لئے اپنے مکان سے ملحق بڑی عجلت سے ایک گول کمرہ تعمیر کرایا۔ لیکن افسوس کہ کسی یورپی پاردی کو قادیان آنے اور اس گول کمرے میں قیام کرنے کی سعادت نصیب نہ ہوئی۔ البتہ پنڈت لیکھرام نے معجزہ دیکھنے کے اشتیاق میں قادیان کے یک سالہ قیام وانتظار پر آمادگی ظاہر کی۔ مرزاقایانی نے اس کے متعلق خط وکتابت شروع کی۔ لیکن پانچ چھ مہینہ کی خط وکتابت کے باوجود کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ انجام کار پنڈت بذات خود قادیان پہنچ کر مرزاقادیانی کے گلے کا ہار ہوگیا۔ آخر مرزاقادیانی نے بہزار مشکل اس جن سے پیچھا چھوڑایا۔ پنڈت لیکھرام کی دلچسپ خط وکتابت کے لئے کتاب رئیس قادیان کی طرف رجوع فرمائیے۔ اسی طرح رسالہ ’’سراج منیر‘‘ اور دوسرے رسالوں کی اشاعت کے سبز باغ دکھا کر مرزاقادیانی نے مسلمانوں سے جو پیشگی رقمیں وصول کیں
اور پھر خواب بے اعتنائی میں سو گیا۔ اس کی دلچسپ تفصیل بھی رئیس قادیان کے پینتیسویں باب میں ملاحظہ فرمائیے۔
ہوشیار پور میں چلہ کشی اور پسر موعود کی پیش گوئی
مرزاغلام احمد قادیانی نے کسی پیر طریقت کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلوک حاصل نہ کیا تھا۔ ہاں ایک مرتبہ چلہ کشی کا ضرور قصد کیا۔ وہ بے چارہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ کسی شیخ کامل کی رہنمائی کے بغیر اس کوچہ میں قدم رکھنا کس درجہ خطرناک ہے؟ بہرحال اس غرض کے لئے تین مریدوں کو ساتھ لے کر ہوشیار پور کو روانہ ہوا اور شیخ مہر علی کے طویلہ میں قیام کیا۔ چونکہ مجدد وقت کا کوئی کام نام ونمود اور شہرت طلبی کے جذبات سے خالی نہ تھا۔ اس لئے چلہ کشی کی نمائش بھی ضروری تھی۔ مرزاقادیانی نے دستی اشتہارات چھپوا کر اپنے چلے کا اعلان کر دیا اور حکم دیا کہ چالیس دن تک کوئی شخص ملنے کو نہ آئے۔ چلہ گذر جانے کے بعد بیس دن تک ہوشیار پور میں قیام رہے گا۔ اس وقت ہر شخص ملاقات کر سکے گا۔ صوفیاء کرام چلوں میں سدر مق سے زیادہ غذا نہیں کھاتے۔ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں۔ لیکن مجدد وقت اپنے نام نہاد چلے میں بھی بدستور کھاتا پیتا رہا۔ معلوم نہیں اس چلہ کی غرض وغایت کیا تھی؟ بظاہر تو شیاطین کو مسخر اور تابع فرمان بنانا مقصود تھا۔ اگر واقعی یہی تھا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش میں مرزاقادیانی کو ضرور کامیابی ہوئی۔ کیونکہ کوئی نورانی ہستی آکر مرزاقادیانی سے باتیں کرتی رہتی تھی۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے ایک دفعہ عبداﷲ سنوری سے جو مرزاقادیانی کو بالاخانہ پر کھانا پہنچانے جایا کرتا تھا کہا کہ خداتعالیٰ بعض اوقات دیر دیر تک مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ اقبال مند بیٹے کے متعلق اسی چلہ میں الہامات ہوئے تھے۔ ان ایام میں نصرت بیگم صاحبہ حاملہ تھیں۔ مرزاقادیانی نے یہ سمجھ کر کہ پسر موعود کے الہام کرنے والا رب العالمین ہے۔ قادیان پہنچتے ہی دھڑلے سے پسر موعود کی پیش گوئی کر دی۔ مگر پیشین گوئی جھوٹی نکلی اور مرزاقادیانی کو بہت کچھ خفت اٹھانی پڑی۔ اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ دیر دیر تک باتیں کرنے والی کون ذات شریف تھی؟ مرزاقادیانی کو اس کے پسر موعود کا نام عنموائیل بتایا گیا تھا۔ ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کو عنموائیل کی موعودہ آمد کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں اپنا یہ الہام درج کیا۔ ’’تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ مبارک ہے وہ جو آسمان سے آتا ہے وہ صاحب شکوہ اور صاحب عظمت ودولت ہوگا۔ وہ اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے لوگوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ علوم ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گا۔ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ فرزند دلبند گرامی
ارجمند مظہر الاوّل والآخر مظہر الحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیںگی۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۰۱،۱۰۲)
ایک پادری نے اس پیشین گوئی کا مذاق اڑایا تو مرزاقادیانی نے ۲۲؍مارچ ۱۸۸۶ء کو ایک اور اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ: ’’یہ صرف پیشین گوئی ہی نہیں بلکہ عظیم الشان آسمانی نشان ہے۔ جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف رحیمﷺ کی صداقت وعظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور درحقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ واولیٰ واکمل وافضل ہے۔ خدا نے ایسی بابرکت روح کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ جس کی ظاہری وباطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی نوبرس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۱۴،۱۱۵)
اس کے بعد ایک اشتہار میں لکھا کہ آج ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کو اللہ جل شانہ کی طرف سے ’’اس عاجز پر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۱۷)
ان ایام میں مرزاقادیانی کے مرید بھی دعائیں مانگ رہے تھے کہ پسر موعود جلد پیدا ہو۔ غرض ہزار انتظار کے بعد وضع حمل کا وقت آیا۔ لیکن پسر موعود کی جگہ لڑکی پیدا ہوئی۔ لوگوں نے مرزاقادیانی کا خوب مذاق اڑایا اور اعتراضات کی آندھیاں افق قادیان پر ہر طرف سے امنڈ آئیں۔ لڑکی کی پیدائش پر استہزاء وسخریت کی جو گرم بازاری ہوئی اس نے قادیان پر بہت کچھ افسردگی طاری کر دی۔ اس لئے مرزاقادیانی ہر وقت دست بدعا تھا کہ کسی طرح بیوی مکرر حا ملہ ہوکر لڑکا جنے اور وہ لوگوں کو عنموائیل کی پیدائش کا مژدہ سنا کر سرخرو ہو سکے۔ آخر خدا خدا کر کے گوہر شاہوار صدف رحم میں منعقد ہوا اور نصرت بیگم صاحبہ نے نو مہینہ کے بعد اپنی کوکھ سے عنموائیل برآمد کر کے مرزاقادیانی کی گود میں ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر مرزاقادیانی کی باچھیں کھل گئیں اور زمین وآسمان مسرت کے گہوارے بن گئے۔ ۷؍اگست ۱۸۸۷ء کو عنموائیل پیدا ہوا اور مرزاقادیانی نے اسی دن خوشخبری کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا۔ جس میں لکھا۔ اے ناظرین میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لئے میں نے ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں پیشین گوئی کی تھی وہ آج ۱۲؍بجے رات کے پیدا ہوگیا۔ فالحمدﷲ علیٰ ذالک! اب دیکھنا چاہئے کہ یہ کس قدر بزرگ پیشین گوئی ہے جو ظہور میں آئی۔ عنموائیل قریباً سوا سال تک زندہ رہا۔ اس کے بعد ۴؍نومبر ۱۸۸۸ء کو طعمۂ اجل ہوگیا۔ اس کے مرنے پر طعن وتمسخر کے طوفان ہر طرف
سے اٹھے۔ لیکن مرزاقادیانی کے لئے خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چونکہ اعتراضات کی آندھیاں برابر چلتی رہتی تھیں۔ اس لئے قریباً سواتین سال کے بعد یعنی جنوری ۱۸۹۲ء کو ایک اشتہار زیرعنوان منصفین کے غور کے لائق شائع کیا۔ جس میں لکھا کہ: ’’میں نے غلطی سے اس لڑکے کو پسر موعود خیال کر لیا تھا۔ اس میں الہام الٰہی کا کوئی قصور نہیں ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۰۹)
اس معذرت خواہی کے ساڑھے سات سال بعد یعنی ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو جب مرزاقادیانی کے گھر میں ایک اور لڑکا مبارک احمد پیدا ہوا تو مرزاقادیانی نے اسی کو عنموائیل قرار دینے کی کوشش کی۔ دیکھو مرزاقادیانی کی کتاب (تریاق القلوب ص۷۱،۷۲، خزائن ج۱۵ ص۲۸۹تا۲۹۱) حالانکہ مبارک احمد نوسال کی مدت معہود کے سواچار سال بعد پیدا ہوا تھا۔ مگر مرزاقادیانی کی بدنصیبی سے یہ لڑکا بھی عالم طفولیت ہی میں داغ مفارقت دے گیا اور اس طرح فرزند موعود کی اقبال مندیوں کے سارے افسانے طاق اہمال پر رکھے رہ گئے۔ آج کل مرزائی لوگ خلیفہ المسیح موعود محمود احمد قادیانی کے سر پر عنموائیلیت کا تاج رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ان کی یہ کوشش بے سود ہے۔ کیونکہ خود مرزاقادیانی نے میاں محمود احمد کو کبھی عنموائیل موعود نہ بتایا۔ مرزامحمود احمد کی پیدائش ۱۸۸۹ء میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی نے ازسر نو عنموائیل کی پیداش کی پیشین گوئی ۱۸۹۱ء میں اس وقت کی جب میاں محمود احمد کی عمر پونے دو سال کی تھی۔ چنانچہ کتاب (ازالہ اوہام ص۱۵۶، خزائن ج۳ ص۱۸۰) میں جو ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’خدا نے ایک قطعی اور یقینی پیش گوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذریۃ سے ایک شخص پیدا ہوگا۔ جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی۔ وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا اور ان کو جو شبہات کے زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظہر الحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء‘‘ (معاذ اللہ) ظاہر ہے کہ اگر میاں محمود احمد عنموائیل موعود ہوتا تو اس پیشین گوئی کا اعادہ ایک لغو حرکت تھی۔ غرض عنموائیل کی پیشین گوئی پر مرزاقادیانی کی بڑی کرکری ہوئی۔ مولوی محمد حسین بٹالوی اور بعض دوسرے مولوی صاحبان نے جو اس وقت تک مرزاقادیانی کا حق رفاقت ادا کر رہے تھے۔ کمال دلسوزی سے مرزاقادیانی کو مشورہ دیا کہ آئندہ اس قسم کی بعید از کار پیشین گوئیاں کر کے خواہ مخواہ ذلت ورسوائی کو دعوت نہ دیا کرو۔ لیکن بجائے اس کے کہ مرزا قادیانی اس خیرخواہانہ مشورہ سے نصیحت آموز ہوتا۔ الٹا صلاح اندیش ناصحین کو ڈانٹنے اور چشم نمائی کرنے لگا اور ان کی نسبت لکھا کہ غفلت اور حب دنیا کا کیڑا فراست ایمانی کو بالکل چٹ کر گیا ہے۔
مسیح بننے کے لئے مضحکہ خیز سخن سازی
مرزاقادیانی نے اوائل میں بہت دن تک دعوائے مجددیت ہی پر اکتفاء کیا تھا۔ مگر چونکہ ہر راسخ العلم قامع بدعات عالم دین مجدد ہوسکتا ہے۔ اس لئے بظاہر اس مصنف کو کچھ غیر وقیع سا سمجھ کر ترقی واقدام کی ہوس دامنگیر ہوئی اور کوئی عظیم القدر ٹھوس دعویٰ کر کے اپنی عظمت کوثریا سے ہمدوش کرنے کا قصد کیا۔ آخر طبیعت نے فیصلہ کیا کہ مسیحیت کا تاج زیب سرکرنا چاہئے۔ لیکن کمال ہوشیاری اور معاملہ فہمی سے کام لے کر یک بیک مسیح نہ بنا بلکہ تدریج کو ملحوظ رکھا۔ سب سے پہلے حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات اور آپ کی آمد ثانی سے انکار کیا۔ حالانکہ کتاب (براہین احمدیہ ص۳۶۱، خزائن ج۱ ص۵۹۳) میں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی حیات اور آمد ثانی کا اقرار کر چکا تھا۔ اس کے بعد یہود ونصاریٰ کی طرح یہ کہنا شروع کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے۔ (نزول المسیح ص۱۸، خزائن ج۱۸ ص۳۹۶) اس کے بعد یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ میں مثیل مسیح ہوں۔ جب مرید اس دعویٰ کے متحمل ہوگئے تو کچھ عرصہ کے بعد یہ کہنا اور لکھنا شروع کر دیا کہ احادیث نبویہ میں جس مسیح کے آنے کی پیش گوئی تھی وہ میں ہوں۔ جب اس سے کہاگیا کہ حدیثوں میں تو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہی کے تشریف لانے کی پیشین گوئی ہے اور تم غلام احمد بن غلام مرتضیٰ ہو تو جواب دیا کہ میں ہی عیسیٰ بن مریم بنادیا گیا ہوں۔ پوچھا گیا کہ ایک شخص دوسری شخصیت میں کیونکر تبدیل ہوسکتا ہے؟ تو کہنے لگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعض روحانی صفات طبع عادت اور اخلاق وغیرہ خداتعالیٰ نے میری فطرت میں بھی رکھی ہیں اور دوسرے کئی امور میں میری زندگی کو مسیح بن مریم کی زندگی سے اشد مشابہت ہے۔ اس بناء پر میں مسیح ہوں۔
(ازالہ اوہام ص۷۸)
لیکن جب کہاگیا کہ جناب عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض روحانی صفات، طبع اور عادت اور اخلاق وغیرہ تو خدائے برتر بہت سے اہل اللہ کی فطرت میں بھی ودیعت فرمادیتا ہے اور ان کی زندگی کو حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی زندگی سے اشد مناسبت ہوتی ہے تو پھر وہ سب حضرات بھی مسیح موعود ہونے چاہئیں۔ اس میں تمہاری کون سی خصوصیت ہے؟ کوئی وجہ نہیں کہ تم تو کسی من گھڑت مناسبت کی بناء پر مسیح بن مریم بن جاؤ اور عارفین الٰہی حقیقی اشتراک صفات کے باوجود مسیح موعود نہ سمجھے جاسکیں۔ بات معقول تھی مرزاقادیانی سے اس کا کوئی جواب نہ بن پڑا۔ آخر گیارہ سال کی سخت دماغی کدوکاوش کے بعد کشتی نوح میں جسے ۵؍اکتوبر ۱۹۰۲ء کو شائع کیا تھا۔ اپنے مسیح بن مریم بن جانے کا یہ ڈھکوسلہ پیش کیا۔ ’’گوخدا نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں
میرا نام مریم رکھا۔ پھر دوبرس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردہ میں نشو ونما پاتا رہا۔ پھر جب اس پر دو برس گذر گئے۔‘‘ تو جیسا کہ براہین احمدیہ کے حصہ چہارم ص۴۹۶ میں درج ہے۔ ’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین کے صفحہ ۵۵۶ میں درج ہے۔ مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘
(کشتی نوح ص۴۶،۴۷، خزائن ج۱۹ ص۴۹،۵۰)
جب مرزا قادیانی بیک جنبش قلم ایک خیالی حمل کے ذریعہ سے مسیح بن مریم بن چکا تو ہر طرف سے مطالبہ ہونے لگا کہ اگر تم سچے مسیح ہو تو تم بھی حضرت روح اللہ کی طرح کوئی مسیحائی دکھاؤ۔ زیادہ نہیں تو مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انہی معجزات میں سے کوئی معجزہ دکھا دو۔ جو قرآن پاک میں دو جگہ مذکور ہیں۔ یہ مطالبہ نہایت معقول تھا۔ لیکن مرزاقادیانی کے پاس سخن سازی کے سوا رکھا ہی کیا تھا؟ سوچنے لگا کہ اب کیا بات بناؤں؟ آخر اس کے سوا کوئی چارۂ کار نظر آیا کہ سرے سے معجزات مسیح علیہ السلام کے وجود ہی سے انکار کر دے۔ واقعی کسی چیز کی ذمہ داری سے بچنے کا یہ نہایت آسان علاج ہے کہ اس چیز کے وجود ہی سے انکار کر دیا جاوے۔ مرزاقادیانی نے معجزات مسیح علیہ السلام کا صرف انکار ہی نہ کیا۔ بلکہ اپنی بدنصیبی سے الٹا ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ حالانکہ یہ معجزات مسیح علیہ السلام کا مذاق نہیں تھا۔ بلکہ فی الحقیقت کلام الٰہی کا مذاق اور انکار واستخفاف تھا۔ انہی ایام میں مولوی محمد حسین بٹالوی سے مرزاقادیانی کی سخت کشیدگی ہوگئی۔ وجوہ مخاصمت کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ میں لکھ دئیے گئے ہیں۔
لاہور، لدھیانہ اور دہلی کے مناظرے
مرزائیت کا اسلام سے پہلا تصادم شاید وہ مناظرہ تھا جو لاہور میں ہوا۔ منشی عبدالحق اکاؤنٹنٹ لاہور، منشی الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ لاہور اور حافظ محمد یوسف ضلعدار محکمہ نہر تینوں اہل حدیث جنٹلمین تھے۔ جو کچھ دنوں سے مرزائی ہوگئے تھے۔ یہ تینوں حضرات مرزائیوں کا بپتسمہ لینے سے پہلے نہایت سرگرم قومی کارکن تھے اور لاہور کی اسلامی تحریکوں میں سب سے پیش پیش رہتے تھے۔ اس لئے مولوی محمد حسین مرحوم بٹالوی کو ان کے مرزائی ہو جانے کا بڑا قلق تھا۔ گوچند سال کے بعد تینوں حضرات مرزائیت سے تائب ہوکر ازسر نو اسلامی برادری میں داخل ہوگئے۔ لیکن اوائل میں یہ سخت غالی مرزائی تھے۔ مولوی محمد حسین نے شروع میں ان کو بہتیرا سمجھایا۔ لیکن یہ کسی طرح مرزائیت سے منقطع نہ ہوئے۔ بلکہ ان تینوں کی یہ بڑی آرزو تھی کہ موقع ملے تو مولوی محمد حسین کو
حکیم نور الدین سے جسے مرزائی لوگ امام فخر الدین رازیؒ سے کسی طرح کم نہیں سمجھتے تھے۔ (خدانخواستہ) ذلیل کرائیں۔ چنانچہ اسی کوشش میں ایک مرتبہ حافظ محمد یوسف ضلعدار اور منشی عبدالحق اکاؤنٹنٹ لاہور سے جموں گئے اور حکیم نورالدین کو مولوی محمد حسین نے مناظرہ کرنے کی تحریک کی۔ لیکن حکیم نے انہیں بلطائف الحیل ٹال دیا۔ کچھ دنوں کے بعد حکیم نورالدین مہاراجہ جموں کے ساتھ لاہور آیا اور ان تینوںنے اسے مولوی محمد حسین سے بھڑا دیا۔ مناظرہ مسئلہ حیات وممات مسیح علیہ السلام پر ہوا۔ مولوی صاحب نے حکیم نورالدین کو بری طرح رگیدا۔ جب مولوی صاحب نے دوران مباحثہ میں حکیم کے سفر کا راستہ بالکل مسدود کر دیا اور اسے یقین ہوگیا کہ وہ آئندہ سوال پر چاروں شانے چت گرا کر چھاتی پر سوار ہو جائیںگے تو حکیم نورالدین کوئی حیلہ تراش کر بھاگ کھڑا ہوا۔ ان ایام میں مرزا اپنے دہلوی خسر کے پاس لدھیانہ میں اقامت گزین تھا۔ حکیم نورالدین نے مرزاغلام احمد کے پاس لدھیانہ میں جادم لیا۔ ۱۵؍اپریل ۱۸۹۱ء کو مولوی صاحب نے مرزاقادیانی کو تاردیا کہ تمہارا حواری مناظرہ سے بھاگ گیا یا تو اس کو مقابلہ پر آمادہ کرو یا خود مناظرہ کے لئے آؤ۔ اس کے جواب میں خود مرزاقادیانی نے مناظرہ پر آمادگی ظاہر کی۔ مگر یہ شرطیں پیش کیں کہ مناظرہ تحریری ہو۔ تم چار ورق کاغذ پر جو چاہو لکھ کر پیش کرو۔ اس کے بعد میں چارورقوں میں اس کا جواب لکھوں۔ بس ان دو پرچوں پر مناظرہ ختم ہو جائے۔ غرض مرزاقادیانی نے مولوی صاحب کو مرزائی دلائل کا بطلان ثابت کرنے کے لئے جواب الجواب کی اجازت نہ دی۔ اس لئے مولوی صاحب نے ایسے مناظرہ کو بے سود سمجھ کر انکار کر دیا۔ ۳؍مئی ۱۸۹۱ء کو مرزاقادیانی نے علمائے لدھیانہ کو تحریری چیلنج دیا کہ تم لوگ مسئلہ حیات وممات مسیح علیہ السلام پرمناظرہ کر لو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے ۱۳۰۱ھ میں فتویٰ دیا تھا کہ مرزاغلام احمد مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ہمارا قطعی اور حتمی فیصلہ ہے کہ جو لوگ مرزاغلام احمد قادیانی کے عقائد باطلہ کو حق جانتے ہیں وہ شرعاً کافر ہیں۔ پس تمہیں لازم ہے کہ پہلے ہم سے اس مسئلہ پر مناظرہ کرو کہ تم دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو۔ اگر تم نے اپنا اسلام ثابت کر دکھایا تو پھر حیات وممات مسیح علیہ السلام پر گفتگو ہوگی۔ جب علماء لدھیانہ کی طرف سے اس مضمون کا اشتہار شائع ہوا تو مرزاقادیانی کے ہوش اڑ گئے کیونکہ اس کے لئے اپنا مسلمان ثابت کرنا ناممکن تھا۔ اس لئے حکیم نورالدین کو لاہور سے مشورہ کے لئے طلب کیا۔ حکیم نورالدین نے لدھیانہ پہنچ کر وہ اشتہار پڑھا جو علمائے لدھیانہ نے شائع کیا تھا اور مرزاغلام احمد قادیانی سے کہا کہ جب ثالث کی موجودگی میں آپ کے ایمان وکفر پر مباحثہ ہوگا اور مخالف لوگ علمائے حرمین کا فتویٰ تکفیر پیش کریںگے تو ثالث
لا محالہ ہماری جماعت پر کفر وارتداد کا حکم لگا کر فریق ثانی کے حق میں فیصلہ کردے گا۔ اس کے بعد ہم سے مسئلہ حیات وممات مسیح علیہ السلام پر بھی کوئی شخص گفتگو نہ کرے گا۔ کیونکہ کسی بے ایمان شخص کا مسیح ہونا دائرہ امکان سے خارج ہے۔ البتہ ان مولویوں سے گفتگو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں جو ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہم ان سے بلاتکلف مسئلہ حیات وممات مسیح علیہ السلام پر بحث کر سکتے ہیں اور بہترین صورت یہ ہے کہ آپ حنفی مولویوں کو چھوڑ کرمولوی محمد حسین سے مناظرہ کریں۔ کیونکہ وہ آپ کے اسلام کا اقرار کر چکا ہے۔ مرزاقادیانی نے علمائے لدھیانہ سے چھیڑ خانی کرتے وقت مناظرہ کا جو چیلنج دیا تھا اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر تم لوگ مناظرہ نہ کرنا چاہو تو اپنی طرف سے مولوی محمد حسین کوکھڑا کر لو۔ جب مولوی محمد حسین کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ لدھیانہ پہنچ گئے اور مولوی محمدحسن کو لدھیانہ کو بھیج کر مناظرہ کی دعوت دی اور موضوع بحث یہ پیش کیا کہ کیا وہ مسیح جس کے قدوم کی احادیث نبویہ میں بشارت دی گئی ہے۔ وہ مرزاغلام احمد قادیانی ہے؟ اس کے جواب میں مرزاقادیانی نے کہا کہ میں اپنی مسیحیت پر گفتگو کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ بلکہ صرف مسئلہ حیات وممات مسیح علیہ السلام پر گفتگو کروںگا۔ کیونکہ میرا دعویٰ اسی بناء پر ہے۔ جب بناٹوٹ جائے گی تو دعویٰ بھی باطل ٹھہرے گا۔ اس کے جواب میں مولوی محمد حسین نے لکھوا بھیجا کہ آپ کے اشتہار میں دونوں دعویٰ موجود ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی رحلت کا دعویٰ اور اپنے مسیح ہونے کا دعویٰ۔ ان دونوں دعاوی میں ایسا تلازم نہیں ہے کہ ایک کے ثبوت سے دوسرا دعویٰ ثابت ہو جائے۔ لہٰذا پہلے تمہارے مسیح موعود ہونے پر گفتگو ہونی چاہئے۔ اس کے بعد مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام زیر بحث آئے اور بحکم اصول مناظرہ ہم کو اختیار ہے کہ آپ کے جس دعویٰ پر چاہیں پہلے بحث کریں۔ ہاں اگر آپ اپنے مسیح موعود ہونے کے دعویٰ سے دستبردار ہو جائیں تو پھر مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام پر گفتگو ہو سکتی ہے۔ مرزاقادیانی نے اس کا جو بودا جواب لکھ بھیجا اس سے ہر شخص نے یقین کر لیا کہ مرزاقادیانی مباحثہ سے گریزاں ہے۔ جب مرزاقادیانی کے پٹیالوی مریدوں کو اپنے مقتداء کی گریز وفرار کا علم ہوا تو انہوں نے لدھیانہ آکر مرزاقادیانی کو مباحثہ پر مجبور کیا۔ آخر مباحثہ ہوا۔ مولوی محمد حسین نے یہ سوال پیش کیاکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی تمام حدیثیں تمہارے نزدیک صحیح ہیں یا نہیں؟ مرزاقادیانی نے ٹال مٹول اور حیلے حوالے شروع کئے اور بارہ دن تک غیر متعلق باتوں میں جواب کو ٹالتا رہا۔ کیونکہ اس نے تہیہ کر رکھا تھا کہ اس سوال کا جواب نہیں دوںگا۔ آخر جب ہر جگہ مشہور ہوا کہ قادیانی اتنے دن سے صرف ایک سوال کا جواب دینے میں لیت ولعل کر رہے ہیں تو مرزاقادیانی اور مرزائیوں کا ہر جگہ مذاق اڑایا جانے لگا
اور بدنامی اور رسوائی ان پر ہر طرف سے مسلط ہوئی۔ جب امرتسر اور لاہور کے مرزائیوں کو معلوم ہوا کہ انکا مسیح بارہ دن سے صرف ایک سوال کا جواب دینے میں لیت ولعل کر رہا ہے تو اس کے ایک حواری حافظ محمد یوسف ضلعدار نے مرزاقادیانی کو پیغام بھیجا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ ان سوالات وجوابات میں تو آپ ذلیل ہو رہے ہیں اور فریق ثانی آپ کی آبرو مٹی میں ملا رہا ہے۔ ان سوالات وجوابات سے مولوی محمد حسین کا یہی مقصد ہے کہ آپ کو ذلیل کرے۔ اس لئے مناسب ہے کہ اس بحث کو جلد ختم کر دیجئے۔ ورنہ اور زیادہ ذلت ہوگی۔ غرض حافظ محمد یوسف کے انتباہ کا یہ اثر ہوا کہ مرزاقادیانی نے بارہویں دن کی تحریر کے ساتھ موقوفی بحث کی درخواست پیش کر کے اپنی جان چھڑا لی۔ لدھیانہ میں ناکامی وہزیمت کا جو دھبہ مرزاقادیانی کے دامن عزت پر لگا۔ مرزاقادیانی ہر وقت اس کے دھونے کی فکر میں تھا۔ اس لئے خیال آیا کہ دہلی چل کر قسمت آزمائی کریں۔ وہاں مولوی محمد حسین بٹالوی کے استاد مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کو دعوت مناظرہ دی جائے۔ وہ اپنی بزرگی اور مرزا کی نااہلی کے پیش کے پیش نظر اپنا مخاطب بنانا گوارا نہ کریںگے اور مفت کی شہرت وناموری حاصل ہو جائے گی۔ چنانچہ ستمبر ۱۸۹۱ء میں دہلی جابراجا اور مولانا نذیر حسین کو مسئلہ حیات وممات مسیح علیہ السلام پر بحث کرنے کا چیلنج دیا۔ اس چیلنج کا جو دلچسپ انجام مرزاقادیانی کی شاندار ہزیمت وپسپائی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ وہ کتاب رئیس قادیان میں ملاحظہ فرمائیے۔ قلت گنجائش کی وجہ سے ان دلچسپ مباحث کو یہاں ترک کرنا پڑا۔ مولانا نذیر حسین کے مقابلہ سے بھاگ کر مرزاقادیانی نے ان کے نامور شاگرد مولوی محمد بشیر سہسوانی سے مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام پر تحریری مناظرہ شروع کیا۔ لیکن جب چھٹے دن جانبین کے تین تین پرچے ہوچکے تو مرزاقادیانی پہلی ہی بحث کو ناتمام چھوڑ کر مناظرہ سے دستبردار ہوگیا اور کہنے لگا کہ میرے خسر صاحب علیل ہیں۔ اس لئے میرا جلد مراجعت کرنا ضروری ہے۔ ان دلچسپ واقعات کی تفصیل بھی کتاب رئیس قادیان میں ملے گی۔
آسمانی منکوحہ کے حصول میں ناکامی
مرزاغلام احمد قادیانی کے ایک چچا کا نام غلام محی الدین تھا۔ مرزاامام الدین، نظام الدین اور کمال الدین اسی چچا کے بیٹے تھے۔ غلام محی الدین کی دختر عمرالنساء مرزااحمد بیگ ہوشیار پوری سے بیاہی ہوئی تھی اور غلام احمد کی حقیقی بہن کی شادی احمد بیگ ہوشیارپوری کے حقیقی بھائی محمد بیگ سے ہوئی تھی۔ ان قرابتوں کے علاوہ احمد بیگ کی حقیقی بہن مرزاغلام احمد قادیانی کے ایک چچازاد بھائی غلام حسین سے بیاہی ہوئی تھی جوقریباً پچیس سال سے مفقود الخبر تھا۔ مرزااحمد بیگ
جو محکمہ پولیس میں ملازم تھا زیادہ تر ہوشیار پور سے باہر ملازمت ہی پر رہتا تھا۔ اس لئے عمر النساء عموماً قادیان ہی میں رہتی تھی۔ اس کا معمول تھا کہ جب کبھی مرزااحمد بیگ چھٹی لے کر ہوشیار پور آتا تو یہ قادیان سے ہوشیار پور چلی جاتی اور جب وہ ہوشیار پور سے اپنی نوکری پر چلا جاتا تو یہ اپنی بیٹی محمدی بیگم اور دوسری اولاد کو لے کر قادیان آجاتی۔ محمدی بیگم ایک نہایت خوش جمال لڑکی تھی۔ چونکہ اس کا نشو ونما قادیان ہی میں ہوا۔ اس لئے یہ ہمیشہ کی دیکھی بھالی تھی۔ غلام حسین مذکور کی زمین سرکاری کاعذات میں اس کی منکوحہ یعنی احمد بیگ کی ہمشیر کے نام درج ہوگئی تھی اور چونکہ وہ اپنے شوہر غلام حسین کی مراجعت کی طرف سے بالکل ناامید ہوچکی تھی اس لئے اس نے ارادہ کیا کہ اپنے مفقود الخبر شوہر کی زمین اپنے بھتیجے (مرزا احمد بیگ کے بیٹے) کے نام ہبہ کر دے۔ چونکہ مرزاغلام احمد قادیانی بھی مفقود کا عم زاد بھائی تھا۔ اس لئے جب ہبہ نامہ لکھاگیا تو احمد بیگ اس ہبہ نامہ پر دستخط کرانے کے لئے مرزاغلام احمد قادیانی کے پاس لے گیا۔ کیونکہ سرکاری قانون کے بموجب اس کی رضامندی کے بغیر ہبہ نامہ جائز نہیں سمجھا جاسکتا تھا۔ ہرچند کہ حقوق قرابت، شرافت نفس، شرف ومجد انسانی اور احسان وایثار اسلامی کا مقتضاء یہ تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی بلامعاوضہ دستخط کر دیتا۔ لیکن اس نے احمد بیگ سے اس سلوک ومروت کا صلہ اس کی لڑکی محمدی بیگم بیاہ دینے کی شکل میں طلب کیا۔ احمد بیگ نے اس مطالبہ کو نفرت کے ساتھ ٹھکرادیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے ہزارجتن کئے۔ لیکن وہ کسی طرح رضامند نہ ہوا۔ آخر مرزاغلام احمد قادیانی نے اسے اپنے من گھڑت الہاموں سے مرعوب کرنا چاہا۔ اس سلسلہ میں ایک یہ الہام شائع کیا۔ ’’اس خدائے قادر مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص (احمد بیگ) کی دختر کلاں (محمدی بیگم) کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان سے کہہ دے کہ تمام سلوک ومروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا… لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے ڈھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا (احمد بیگ) تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی… خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ احمد بیگ کی دختر کلاں کو ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لائے گا… کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے؟ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۷،۱۵۸) لیکن مرزااحمد بیگ اور مرزاسلطان محمد ساکن پٹی ضلع لاہور جس سے محمدی بیگم منسوب تھی اور احمد بیگ کے گھر والے ان الہامی گیدڑ بھبکیوں سے کچھ بھی متأثر نہ ہوئے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے سلطان محمد ساکن پٹی کی میعاد حیات
یوم شادی سے ڈھائی سال تک بتائی تھی۔ اس سے محمدی بیگم کی شادی ۷؍اپریل ۱۸۹۲ء کو ہوئی۔ اس حساب سے مرزاسلطان محمد کی زندگی کا آخری دن ۷؍اکتوبر ۱۸۹۴ء تھا۔ لیکن قادیانی اعجاز کا کمال دیکھو کہ آج ۱۹؍جون ۱۹۳۶ء تک وہ زندہ سلامت موجود ہے۔ یعنی اپنی مدت حیات کے بعد بیالیس سال سے زبردستی گلشن دنیا کی سیر کر رہا ہے۔ جب محمدی بیگم کو مرزاسلطان محمد کے گھر میں آباد ہوئے قریباً ڈھائی سال کی مدت گذر چکی تو مرزاقادیانی نے زوجہ سلطان محمد سے شادی کرنے کی ازسر نو پیشین گوئی کر کے اس فتنۂ خوابیدہ کو بیدار کرنا چاہا۔ چنانچہ ۶؍دسمبر ۱۸۹۴ء کو ایک اشتہار شائع کیا۔ جس میں اپنا ایک الہام لکھا کہ: ’’حق تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کی تکذیب کی اور ان سے ٹھٹھا کیا سو خدا انہیں یہ نشان دکھلائے گا کہ احمد بیگ کی بڑی لڑکی ایک جگہ بیاہی جائے گی اور خدا اس کو پھر تیری طرف واپس لائے گا۔ یعنی آخر وہ تیرے نکاح میں آئے گی اور خدا سب روکیں درمیان سے اٹھا دے گا۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں… اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آنا تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ بھی موجود ہے کہ: ’’لا تبدیل لکلمات اﷲ‘‘ یعنی میری یہ بات ہر گز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے… میری تقدیر کبھی نہیں بدلے گی۔ میں سب روکوں کو اٹھادوںگا… خداتعالیٰ کے غیر متبدل وعدے پورے ہو جائیںگے۔ کیا کوئی زمین پر ہے جو ان کو روک سکے… اے بدفطرتو! لعنتیں بھیجو۔ ٹھٹے کرو۔ لیکن عنقریب دیکھو گے کہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۱تا۴۴) مرزاقادیانی نے اسی سال ۲۷؍اکتوبر کے ایک اشتہار میں لکھا: ’’میں دعاء کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر وعلیم! اگر احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میںآنا یہ پیش گوئی تیری طرف سے ہے تو اس کو ظاہر فرما کر کور باطن حاسدوں کا منہ بند کر دے اور اگر تیری طرف سے نہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔‘‘ اس دعائے غیر مستجاب کے قریباً سوادوسال بعد یعنی ۲۲؍جنوری ۱۸۹۷ء کو مرزاقادیانی نے کتاب ’’انجام آتھم‘‘ شائع کی۔ اس میں لکھا کہ: ’’محمدی بیگم سے میرا نکاح خدائے بزرگ کی تقدیر مبرم ہے اور عنقریب اس کے ظہور کا وقت آجائے گا اور میں اس کو اپنے صدق یا کذب کا معیار ٹھہراتا ہوں۔ میں نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا نے مجھے اس کی خبر دی ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳)۱۹۰۰ء میں مرزاغلا احمد قادیانی کو الہام ہوا۔ ’’ویردھا الیک‘‘ (خدا تعالیٰ محمدی بیگم کو تمہارے پاس واپس لائے گا) مرزاقادیانی نے ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۰ء کو رسالہ اربعین میں اس الہام کی شرح کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’یہ پیشین گوئی اس نکاح کی نسبت ہے
جس پر نادان مخالف جہالت اور تعصب سے اعتراض کرتے ہیں۔‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۳۴ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۳۸۲) اس کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی نے اگست ۱۹۰۱ء میں گورداسپور کی عدالت میں حلفاً بیان کیا کہ احمد بیگ کی دختر جس کی نسبت پیش گوئی ہے۔ مرزاامام الدین کی بھانجی ہے۔ سچ ہے وہ عورت میرے ساتھ نہیں بیاہی گئی۔ مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہوگا۔
غرض مرزاغلام احمد قادیانی اسی طرح محمدی بیگم کی شادی کے بعد دس سال تک برابر پنجے جھاڑ کر اس عفیفہ کے پیچھے پڑا رہا اور اس بیچاری کی فضیحت ورسوائی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ آخر ملا محمد بخش ایڈیٹر جعفر زٹلی نے ایک ایسی تدبیر نکالی جس نے مرزاغلام احمد قادیانی کے دانت کھٹے کر دئیے۔ اس کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی محمدی بیگم سے شادی کرنے کے سارے افسانے بھول گیا اور اس کا نام کبھی بھول کر بھی زبان قلم پر نہ لایا۔ ان دلچسپ واقعات کی تفصیل آپ کو کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ میں ملے گی۔
حکیم نورالدین کا جموں سے اخراج
حکیم نور الدین مہاراجہ جموں وکشمر کا خاص طبیب تھا۔ وہ ریاست سے کیوں خارج کیاگیا؟ اس کی دلچسپ تفصیل آپ کو کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ میں ملے گی۔ مختصر یہ ہے کہ وہ ریاست کشمیر کے علاقہ کشتواڑ میں (جیسا کہ میرے پاس روایتیں پہنچی ہیں) ایک مرزائی سلطنت قائم کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے اسباب مہیا کئے جارہے تھے۔ حکیم نور الدین کی کوششوں سے مرزائیت کو ریاست جموں وکشمیر میں جتنا فروغ نصیب ہوا اس سے کہیں زیادہ اس کا پنجاب میں نشوونمو ہورہا تھا اور جوں جوں یہ جماعت ترقی کرتی جاتی تھی حکام کا سوء ظن بھی بڑھتا جاتا تھا۔ کیونکہ انہیں یہ خوف تھا کہ مبادا مرزاغلام احمد قادیانی بھی محمد احمد سوڈانی کی طرح زور پکڑ کر مشکلات کا موجب بن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ گومرزاقادیانی نے تقدس کی دکان ابتداء میں محض شکم پری کے لئے کھولی تھی۔ لیکن ترقی کر کے سلطنت پر فائز ہونے کا لائحہ عمل بھی شروع سے اس کے پیش نظر تھا۔ آخر کیوں نہ ہوتا مغل اعظم سلطان عالمگیر اورنگزیب غازیؒ کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر افسوس کہ حکیم نور الدین کے اخراج سے مرزائی سلطنت کے بنے بنائے نقش بگڑ گئے اور متوقع سلطنت کی جگہ حکومت کی دشمنی خرید لی۔ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر حکیم نور الدین کو ریاست سے خارج نہ کیا جاتا تو بھی وہ اور مرزاغلام احمد قادیانی قیام سلطنت میں کامیاب نہ ہو سکتے۔ کیونکہ جب مرزاغلام احمد مدت العمر قادیان کی ان مسجدوں کو بھی آزاد نہ کرا سکا جنہیں سکھوں نے اب تک دھرم سالہ بنارکھا ہے۔
(ازالہ اوہام صص۱۳۱، خزائن ج۳ ص۱۶۵)
تو پھر سلطنت کا قیام ایک موہوم چیز تھی۔ لیکن یہ اعتراض صحیح نہیں کیونکہ اگر وہ لوگ کسی طرح قیام سلطنت میں کامیاب ہو جاتے تو قادیان کی مسجدیں خود ہی آزاد ہو جاتیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ حکیم نورالدین کے اخراج کے بعد حکومت وقت حکیم نورالدین اور مرزاغلام احمد قادیانی پر بغاوت کا مقدمہ چلانا چاہتی تھی۔ لیکن انہوں نے کچھ قول وقرار کئے۔ جس کی بناء پر کسی تشدد کی ضرورت نہ رہی۔ عجب نہیں کہ یہ بیان صحیح ہو۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان واقعات کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی کے رویہ میں یک بیک تبدیلی پیدا ہوگئی اور قیام سلطنت کی توقعات کو تین سو سال تک مؤخر کر کے انگریز کی خوشامد اور مدح وتوصیف کا نغمہ چھیڑ دیا اور پھر خوشامد میں اعتدال اور میانہ روی ملحوظ رہتی تو بھی ایک بات تھی۔ لیکن مرزاقادیانی نے اپنی افتاد طبیعت سے مجبور ہوکر تملق وخوشامد کا خوفناک طوفان برپا کر دیا۔ یہاں تک کہ خوشامد ہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ اس خوشامد شعاری کی چند بانگیاں ملاحظہ ہوں۔ لکھتا ہے۔ ’’پھر میں پوچھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے سرکار انگریزی کی امداد اور حفظ امن اور جہادی خیالات کے روکنے کے لئے برابر سترہ سال تک پورے جوش سے پوری استقامت سے کام لیا۔ کیا اس کام کی اور اس خدمت نمایاں کی اور اس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں کوئی نظیر ہے؟ یہ سلسلہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ برابر سترہ سال کا ہے۔‘‘
(کتاب البریہ ص۸، خزائن ج۱۳ ص۸)
’’سول ملٹری گزٹ لاہور میں میری نسبت ایک غلط اور خلاف واقعہ رائے شائع کی گئی ہے… کہ گویا میں گورنمنٹ انگریزی کا بدخواہ اور مخالفانہ ارادے رکھتا ہوں۔ لیکن یہ خیال سراسر باطل اور دور از انصاف ہے… میرے والد نے ۱۸۵۷ء کے غدر میں پچاس گھوڑے خرید کر اور پچاس سوار بہم پہنچا کر گورنمنٹ کی نذر کئے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۹۲، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۲۳،۱۲۴)
’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید وحمایت میں گذرا ہے۔ میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارہ میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچادیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونیں اور مسیح خونیں کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۲۷،۲۸، خزائن ج۲۵ ص۱۵۵،۱۵۶)
’’انگریزوں کا اس ملک میں آنا مسلمانوں کے لئے درحقیقت ایک نہایت بزرگ نعمت الٰہی ہے تو پھر جو شخص خداتعالیٰ کی نعمت کو بے عزتی کی نظر سے دیکھے وہ بلا شبہ بدذات اور بد کردار ہوگا۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۲۵، خزائن ج۱۴ ص۳۶۶)
میں جانتا ہوں کہ بعض جاہل مولوی میری ان تحریرات سے ناراض ہیں اور مجھے علاوہ اور وجوہ کے اس وجہ سے بھی کافر قرار دیتے ہیں۔ لیکن مجھے ان کی ناراضگی کی پرواہ نہیں۔
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۲)
دعویٰ مہدویت
اس وقت تک مرزامسیحیت ہی کا مدعی تھا، مہدی نہیں بنا تھا۔ احادیث نبویہ کے رو سے حضرت مسیح علیہ السلام اور جناب مہدی علیہ السلام ایک ہی زمانہ میں ظاہر ہوںگے۔ ۱۸۹۲ء میں ایک عالم ربانی نے مرزاقادیانی سے پوچھا کہ تم مسیح ہو تو حضرت مہدی علیہ السلام کہاں ہیں؟ جوان کے عہد سعادت میں ظآہر ہونے والے تھے؟ مرزاقادیانی نے کہا وہ بھی میں ہی ہوں۔ لیکن اس کے بعد دعویٰ مہدویت میں مرزاقادیانی کی ہمیشہ گومگو حالت رہی۔ کبھی تو مہدویت کا مدعی بن بیٹھتا تھا اور کبھی حکومت کے خوف سے کانوں پر ہاتھ رکھنے لگتا تھا۔ مسئلہ ظہور مہدی علیہ السلام اور اپنی مہدویت کے متعلق مرزاقادیانی نے جو رنگ بدلے ان کی تشریح ’’رئیس قادیان‘‘ میں دیکھئے۔ چونکہ مرزاقادیانی کو تائید ربانی حاصل نہ تھی اور باوجود بڑی بڑی لن ترانیوں اور خود ستائیوں کے قلم اور زبان کی دنیا سے باہر نکل کر اپنے دعوؤں کی تائید میں کوئی بیرونی شہادت پیش نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے اس کی دکانداری کا سارا مدار سخن سازی پر تھا۔ ایک مرتبہ اسے شوق چرایا کہ اپنے مہدی ہونے کی کوئی بیرونی شہادت پیش کرے۔ اس کوشش میں اس نے ۲۶؍مئی ۱۸۹۲ء کو نشان آسمانی کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا۔ جس میں اپنے مہدی آخری الزمان ہونے کے ثبوت میں شاہ نعمت اللہ کرمانی کا قصیدہ پیش کیا۔ لیکن قصیدہ کا صحیح مصداق بننے کی کوشش میں اس پر تحریف وتبدیل کے کچھ ایسے کند ہتھیار چلائے کہ اس کا حلیہ ہی بگڑ گیا۔ مرزاقادیانی نے نہ صرف قصیدہ کے اشعار کی ترتیب حسب مراد بدل ڈالی اور بعض الفاظ وتراکیب کو مقدم ومؤخر کر دیا۔ بلکہ حضرت مہدی علیہ السلام کے اسم گرامی میں بھی تحریف کر دی۔ ہرشخص جانتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا نام مبارک محمد بن عبداﷲ ہوگا۔ شاہ نعمت اﷲؒ کے قصیدہ میں بھی احادیث نبویہ کے بموجب حضرت مہدی علیہ السلام کا نام نامی محمد ہی مذکور ہے۔ چنانچہ پروفیسر براؤن نے تاریخ ادبیات ایران میں جہاں یہ قصیدہ نقل کیا ہے وہاں یہ شعر یوں درج کیا ہے ؎
میم حامیم دال می خوانیم
نام او نامدار می بینم
لیکن مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو اس بشارت کا مصداق ثابت کرنے کے لئے شعر کو یوں بدل دیا ؎
ا ح م دال می خوانم
نام او نامدار می بینم
مرزائیوں کے سلطان القلم نے شعر میں تصرف تو کیا۔ لیکن تصرف وتحریف کے لئے بھی سلیقہ درکار ہے۔ مرزاقادیانی اس رد وبدل کے وقت اتنا بھی احساس نہ کر سکا کہ اس سے شعر کا وزن درست نہ رہے گا۔ اس نے اپنی کم سوادی سے میم اور الف کو ہموزن سمجھ لیا۔ مفصل بحث کے لئے رئیس قادیان کا مطالعہ فرمائیے۔
آتھم سے مناظرہ
پادریوں کی تبلیغی سرگرمیوں کے جواب میں قصبہ جنڈیالہ تحصیل امرتسر کے بعض مسلمان دین مسیحیت کی کمزوریاں دکھا دکھا کر پادریوں کے دانت کھٹے کرتے رہتے تھے۔ پادریوں نے تنگ آکر مسلمانان جنڈیالہ کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی اپنی صلیب شکنی کا ہمیشہ ڈھنڈورا پیٹا کرتا تھا۔ اس لئے اکثر عوام کے دلوں پر اس کے علمی کمالات کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ اس بناء پر مسلمانان جنڈیالہ نے مرزاقادیانی کو اسلامی مناظر کی حیثیت سے کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا۔ کسی شخص نے مرزاقادیانی کی الحاد پسندیوں پر اعتراض کیا تو کہنے لگے کہ مرزاقادیانی اپنی ذات سے کافر وملحد ہی کیوں نہ ہو۔ مگر امید ہے کہ پادریوں کے مقابلہ میں اسلام کی عزت رکھ لے گا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی کو معلوم ہوا تو انہوں نے مسلمانان جنڈیالہ کو ان کی خود رائی پر ملامت کی اور بتایا کہ مرزاقادیانی میں اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ نصاریٰ کے مقابلہ سے عہدہ برآہوسکے۔ اس کے بعد کہنے لگے کہ اچھا تم ہی بتاؤ کہ قادیانی نے آج تک کس مخالف اسلام سے مباحثہ کرکے اس پر فتح حاصل کی۔ اس کی علمی قابلیت کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ کتاب براہین احمدیہ میں حقیقت اسلام کے تین سو دلائل پیش کروں گا۔ مگر ایک دلیل کی بھی تکمیل نہ کر سکا۔ ہوشیار پور میں ایک آریہ سے مباحثہ کر کے بحث کو دوپرچوں میں محدود کر دیا اور نہ توفریق مقابل کو باقی ماندہ دلائل پیش کرنے اور اپنی طرف سے ان کی تردید کرنے کا موقع دیا اور نہ اپنی طرف سے آریوں کے عقلی دلائل پیش کر کے ان کی تردید کی۔ اسی رسالہ میں تناسخ کی بحث کو چھڑا مگر اس کو بھی
ادھورا چھوڑ دیا۔ مسلمانان جنڈیالہ نے کہا کہ اگر قادیانی مناظرہ کا اہل نہیں ہے تو پھر دوسرا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک نہیں بلکہ لاہور، امرتسر اور دوسرے بلاد پنجاب میں بہت سے علماء ایسے موجود ہیں جو پہلے سے تقریراً وتحریراً پادریوں سے مناظرے کر رہے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لو۔ دور کیوں جاؤ میں خود اس خدمت کے لئے حاضر ہوں۔ انشاء اللہ دیکھ لو گے کہ کس طرح پادریوں کا ناطقہ بند ہوتا ہے۔ لیکن قادیانی پروپیگنڈے سے اثر پذیر ہونے کی وجہ سے حقیقت ناشناس مسلمانان جنڈیالہ پر مرزاقادیانی کا جادو چل چکا تھا۔ انہوں نے مولوی صاحب کی ایک نہ سنی اور مرزاقادیانی ہی کو مناظر اسلام کی حیثیت سے پادریوں کے مقابلہ میں کھڑا کرنا چاہا۔ موضوع بحث پانچ مسائل قرار پائے۔
۱… حضرت مسیح علیہ السلام اور جناب محمد مصطفیٰﷺ میں کون سا نبی اپنی کتاب اور نیز دوسرے دلائل سے معصوم ہے؟
۲… ان دونوں میں سے کس بزرگ ہستی کو زندہ رسول کہہ سکتے ہیں۔ جو الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے؟
۳… ان میں سے کس کو شفیع کہہ سکتے ہیں۔
۴… مسیحیت اور اسلام میں سے زندہ مذہب کون سا ہے؟
۵… انجیل اور قرآن کی تعلیمات میں سے کس کی تعلیم اعلیٰ وبرتر ہے؟
مناظرہ تحریری قرار پایا۔ عیسائیوں کی طرف سے ڈپٹی عبداﷲ آتھم پنشنر جو پہلے مسلمان تھا اور پھر کئی سال سے مرتد ہوگیا تھا۔ مناظر قرار پایا۔ پندرہ دن تک مناظرہ ہوتا رہا۔ لیکن کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ کیونکہ فریقین اپنی اپنی فتح کا ڈنکا بجانے لگے۔ مولوی تاج الدین احمد صاحب لیڈر لاہوری نے اس مناظرہ کے متعلق یہ رائے ظاہر کی کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے مسلمانوں کی اس عزت کو سخت چرکا لگایا۔ جو حافظ ولی اللہ مرحوم کے وقت سے پادریوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو حاصل تھی۔ حافظ ولی اللہ نے ان کو بالکل عاجز ولاجواب کر رکھا تھا اور وہ اسلام کی طرف سے سخت مرعوب تھے۔ لیکن مرزاغلام احمد قادیانی نے اس رعب کو دور کر دیا ہے۔ اس مناظرہ کی ناکامی پر نہ صرف مسلمانان جنڈیالہ کو شرمسار ہونا پڑا۔ بلکہ خود مرزا غلام احمد قادیانی بھی نہایت خفیف ہوا۔ کیونکہ وہ باوجود لمبے چوڑے دعوؤں کے ایک معمولی پادری کو بھی نیچا نہ دکھا سکا۔ اس لئے اس نے رفع خفت کے لئے ۵؍جون ۱۸۹۳ء کو یعنی مناظرہ کے آخری دن بوقت اختتام جلسہ اپنے حریف مقابل مسٹر آتھم کے متعلق یہ پیشین گوئی بھرے جلسے میں بآواز بلند سنائی۔ ’’آج
رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعاء کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں۔ تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنارہا ہے۔ وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب پیشین گوئی ظہور میں آئے گی بعض اندھے سوجاکھے کئے جائیںگے اور بعض لنگڑے چلنے لگیںگے اور بعض بہرے سننے لگیں گے۔ میں حیران تھا کہ اس بحث میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا۔ معمولی بحثیں تو اور لوگ بھی کرتے ہیں۔ اب یہ حقیقت کھلی کہ اس نشان کے لئے تھا میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشین گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خداتعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے۔ روسیاہ کیا جاوے۔ میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ زمین آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیںگی۔‘‘
(جنگ مقدس ص۲۰۹تا۲۱۱، خزائن ج۲۹۱تا۲۹۳)
خدا خدا کر کے سواسال کی طویل مدت گذری اور لوگ یہ دیکھنے کے قابل ہو سکے کہ مرزاقادیانی کی پیشین گوئی سچی نکلتی ہے یا جھوٹی۔معلوم ہوا کہ جس تاریخ کو پندرہ مہینے کی میعاد ختم ہونے والی تھی اس رات قادیان میں کوئی مرزائی نہ سویا۔ مرزاقادیانی اور مرزائی رات بھر سربسجود رہے کہ الٰہی! طلوع آفتاب سے پہلے پہلے آتھم کا کام تمام کر دے۔ مگر خدائے غیور، خانہ ساز مقدسین کی دعائیں قبول نہیں کرتا۔ بلکہ انہیں عبرت روز گار بننے کے لئے ذلت ورسوائی کی چادر اوڑھا دیتا ہے۔ سواسال کی مقررہ میعاد گزر گئی۔ مگر آتھم مذکور نہ مرا اور پیشین گوئی جھوٹی ثابت ہوئی۔ مرزاقادیانی کا بری طرح مذاق اڑایا گیا اور مرزائیوں کی بڑی رسوائی ہوئی۔ تفصیل کے لئے کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ کا مطالعہ فرمائیے۔ جب یہ پیشین گوئی پوری نہ ہوئی تو مرزائی حلقوں میں اضطراب وخلفشار کی لہر دوڑ گئی۔ جو مرزائی بڑھ بڑھ کر باتیں بنایا کرتے تھے وہ شرم کے مارے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ سردار محمد علی مالیر کوٹلوی جسے مرزائی شاید اس بناء پر کہ آئندہ چل کر مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی آٹھ نو سال کی بچی مبارکہ بیگم اس کے حبالۂ ازدواج میں دے کر داماد بنایا تھا۔
اسے نواب محمد علی خاں کہا کرتے ہیں۔ سب سے زایدہ پریشان اور حواس باختہ دکھائی دیتا تھا۔ اس نے اس موقعہ پر اضطراب آفرین لیکن نہایت دلچسپ چٹھی مرزاغلام احمد قادیانی کے نام لکھی وہ کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ میں آپ کی نظر سے گزرے گی۔ مرزاقادیانی نے اس چٹھی کے جواب میں سردار محمد علی کو جو خط لکھا اس میں مرقوم تھا۔ ’’آتھم کے زندہ رہنے کے بارے میں میرے دوستوں کے بہت خط آئے۔ لیکن یہ پہلا خط ہے جو تذبذب اور تردد اور شک اور سؤظن سے بھرا ہوا تھا… بعض لوگوں نے اس موقع پر نئے سرے سے بیعت کی ہے۔ بہرحال آپ کا خط پڑھنے سے آپ کے ان الفاظ سے بہت ہی رنج ہوا۔ جن کے استعمال کی ہرگز امید نہ تھی۔‘‘
(مکتوب احمدیہ نمبرچہارم ج۵ ص۶۵)
آتھم کے مناظرہ کے بعد مرزاقادیانی نے مولوی عبدالحق غزنوی سے امرتسر میں مباہلہ کیا۔ اس کی کیفیت اور انجام معلوم کرنا ہو تو کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ کی طرف رجوع فرمائیے۔ مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری کے مناظرہ سے مرزاقادیانی نے شاندار پسپائی اختیار کی۔ اس کی کیفیت بھی آپ کو اسی کتاب میں ملے گی۔
پنڈت لیکھرام کا قتل
تقدس کے دکاندار اپنی پیشین گوئیوں میں قرائن حالیہ سے بہت کام لیتے ہیں۔ اگر قرنیہ حسب توقع انجام پذیر ہوا تو اپنی صداقت کا ڈنکا بجانے لگتے ہیں اور اگر خلاف مدعا ظاہر ہوا تو تاویل کاریوں اور سخن سازیوں کا دروازہ تو ان کے لئے ہروقت کھلا ہے۔ بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹوں کو آپ دیکھتے ہوںگے کہ وہ زندگی کا بیمہ کرانے والے کا ڈاکٹری معائینہ کراتے ہیں اور اس کی جسمانی حالت اور عمر کا لحاظ کر کے تخمینہ سے کہہ دیتے ہیں کہ تم اتنی مدت کے اندر نہیں مروگے اور اگر مر جاؤ تو ہم اتنے ہزار روپیہ تمہارے ورثاء کی نذر کریںگے۔ پھر جتنی رقم اور مدت کا بیمہ ہوتا ہے اس سے اتنے سال تک کچھ معین رقم سالانہ یا ماہانہ وصول کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح بیمہ کمپنیاں قرائین داخلیہ وخارجیہ کا لحاظ کر کے عموماً کامیاب ہوتی ہیں اور کروڑوں روپیہ اسی ترکیب سے کماتی ہیں۔ مرزاقادیانی بھی قرائن حالیہ کو دیکھ کر پیشین گوئیاں کر دیتا تھا۔ اگر وہ قرینہ صحیح اترتا تو اپنی عظمت وکبریائی کا نقارہ بجانے لگتا۔ ورنہ تاویل کاری اور سخن سازی کا مرزائی میدان تو اتنا وسیع تھا کہ شاید عالم خیال کے جولانگاہ کو بھی اتنی وسعت نصیب نہ ہوگی۔ ان ایام میں برگشتہ بخت لیکھرام کے بہیمی جذبات کا یہ عالم تھا کہ وہ برسر عام پاکوں کے سردار سیدنا احمد مختارﷺ کی شان اقدس میں دریدہ دہنی کر رہا تھا اور کوئی مسلمان ایسا نہ تھا جو اس ابلیسانہ حرکت پر سینہ ریش نہ ہو۔
جس طرح ۱۹۲۷ء میں پنجاب کے ہر مسلمان کو یقین تھا کہ راجپال جلد یا بدیر میں ضرور قتل ہوگا۔ اسی طرح ۱۸۹۲ء کے اواخر اور ۱۸۹۳ء کے اوائل میں ہر شخص دیکھ رہا تھا کہ کسی نہ کسی باحمیت اور غیرت مند مؤمن کی چھری لیکھرام کو ضرور پیام ہلاکت سنائے گی۔ یہ حالت دیکھ کر مرزاغلام احمد قادیانی نے ۲۰؍فروری ۱۸۹۳ء کو پیشین گوئی کر دی کہ: ’’لیکھرام آریہ چھ برس کے اندر اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول خداﷺ کے حق میں کی ہیں۔ عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۰۲، خزائن ج۵ ص۶۵۰،۶۵۱)
جب یہ پیشین گوئی شائع ہوئی تو لیکھرام نے کہا کہ یہ پیشین گوئی میرے قتل کرانے یا زیر دلانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے بعد پنڈت نے مرزاغلام احمد قادیانی کو لکھا کہ میں قتل وغیرہ کی گیڈر بھبکیوں سے نہیں ڈرتا۔ اگر سچ مچ تمہارے اندر کوئی جوہر ہے تو اس قسم کا کوئی معجزہ دکھا کر مجھے قائل کرو۔ مثلاً:
۱… ایک ماہ تک اپنے الہامی خدا سے سنسکرت کی تعلیم حاصل کر کے لیکچر اور وعظ کرنا سیکھو اور آریہ سماج کے مشہور پنڈتوں ودیوت اور شام کرشن کے ساتھ شاستر ارتھ کر کے فتح حاصل کرو۔ یا اس قسم کا کوئی اور معجزہ دکھادو۔ اگر کوئی معجزہ دکھاسکو تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ ورنہ میں کسی حالت میں تمہاری چالوں میں نہیں آسکتا۔ اس کے جواب میں لیکھرام کو ایک سرخ چٹھی موصول ہوئی۔ جس میں لکھا تھا۔ بخدمت پیشوائے گمراہاں افتخار ہنوداں پنڈت لیکھرام مادام فی النار والسقر وغضب اللہ مثل کلب ناپاک بکدام اسلحہ شمارا خواہند کشت۔ پس بہ نہایت مذلت ہنوداں شمارا برچہار چوب برداشتہ کہ اوّل درجہ علامت غضب الٰہی است اور آتش دنیا خواہندسوخت۔ پنڈتا! شیندہ باشد کہ شخصے شیر علی نام گورنر جنرل صاحب بہادر را بے جرم کشتہ بود۔ پس شماچہ منصب ولیاقت دارید کہ بشماآنچناں پے در پے نخواہند کشت۔
(آریہ مسافر لاہور)
الغرض مرزائی پیشین گوئی کے چار سال بعد یعنی ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء کو پنڈت لیکھرام کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مرزاقادیانی نے تو لیکھرام کے قتل کی مدت بڑی لمبی چوڑی رکھی تھی اور قتل ہوتے ہوتے بھی اس نے چار سال لگادئیے۔ لیکن دھرم پال کی ہلاکت کے متعلق بیسیوں مسلمانوں نے مدت قلیل کی پیشین گوئیاں کر رکھی تھیں۔ جو حرف بحرف پوری ہوئیں۔ مرزائی لوگ قتل لیکھرام کی مرزائی پیشین گوئی پر بہت اترایا کرتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ اس پیشین گوئی میں کوئی جدت نہیں تھی۔ قرائن عالیہ کو دیکھ کر تو زید عمر وبکر ہر شخص پیشین گوئی کر سکتا ہے۔ اس سے قطع نظر آریوں نے بوثوق اعلان کیا تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی ہی نے پنڈت لیکھرام کو قتل کرایا ہے اور وہ
بھی اس کی جان کے لاگو ہوگئے۔ چنانچہ وہ برملا کہتے تھے کہ ہم مرزاقادیانی سے اس کا انتقام لیںگے۔ اخبار آفتاب ہند کے ایک نامہ نگار نے لکھا۔ مرزاقادیانی خبردار، مرزاقادیانی بھی امروز فردا کا مہمان ہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر مناسکتی ہے۔ جب اس قسم کے مضامین کی بناء پر مرزاقادیانی کو اپنی جان کا خطرہ ہوا تو اس نے حکومت پنجاب کے نام ایک درخواست بھیج کر اس سے حفاظت جان کی درخواست کی۔
(تبلیغ رسالت، یعنی مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۶۴)
پنڈت لیکھرام کے واقعہ قتل اور نتائج مابعد کی نہایت دلچسپ تفصیلات کے لئے کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ کی طرف رجوع کیجئے۔
حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو دعوت مبارزت
مرزائیت کی تردید میں آج تک جو ہزاروں لاکھوں کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں شاید سب سے پہلی کتاب شمس الہدایہ تھی۔ جو حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے جو علم حدیث میں مولانا احمد علی محدث سہارنپوری مرحوم کے شاگرد ہیں۔ آج سے قریباً چالیس سال پہلے زیب رقم فرمائی۔ اس کتاب میں مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام کو اس طرح منقح کیاگیا ہے کہ اس کے بعد کسی دلیل کی حاجت نہیں رہتی۔ جب یہ کتاب شائع ہوئی تو مرزائی حلقوں میں کہرام مچ گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد مرزاقادیانی نے اپنے حواری خاص مولوی محمد احسن امروہی سے اس کا جواب بنام شمس بازغہ لکھوا کر شائع کیا۔ حضرت پیر صاحب نے شمس بازغہ کی تردید میں کتاب سیف چشتیائی لکھی۔ یہ کتاب آج تک کئی مرتبہ چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ لیکن گذشتہ ۳۸سال کی طویل مدت میں امت مرزائی کو اس کا جواب لکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ جب کتاب سیف چشتیائی نے مرزائیت کے سارے بخئے ادھیڑ دئیے اور مرزائیت کا جنازہ ذلت ورسوائی کے بحر ظلمات میں ڈوبتا نظر آیا تو مرزاغلام احمد قادیانی نے اس تن مردہ میں ازسرنو زندگی کی روح پھونکنی چاہی۔ چنانچہ اس کوشش میں ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء کو ایک مطبوعہ اعلان میں حضرت پیر مہر علی شاہ اور ہندوستان بھر کے دوسرے چھیاسی علمائے کرام وصوفیائے عظام کو لاہور آکر مناظرہ کرنے کی دعوت دی اور لکھا کہ: ’’مہر علی شاہ صاحب اپنی رسمی مشیخت کے غرور سے اس خیال میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح اس سلسلۂ آسمانی کو مٹادیں۔ اس غرض سے انہوں نے دو کتابیں بھی لکھی ہیں جو اس بات پر کافی دلیل ہیں کہ وہ علم قرآن اور حدیث سے کیسے بے بہرہ اور بے نصیب ہیں۔ وہ اپنی کتاب کے ذخیرہ لغویات میں ایک بھی ایسی بات پیش نہیں کر سکے جس کے اندر کچھ روشنی ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف اس دھوکا میں پڑے ہوئے ہیں کہ بعض حدیثوں میں لکھا ہے کہ مسیح موعود آسمان سے نازل ہوگا۔
حالانکہ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کبھی اور کسی زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے اور ناحق نزول کے لفظ کے الٹے معنی کرتے ہیں… اگر مہر علی شاہ اپنی ضد سے باز نہیں آتے تو میں فیصلہ کے لئے ایک سہل طریق پیش کرتا ہوں… اور وہ یہ ہے کہ پیر صاحب میرے مقابل سات گھنٹہ تک زانو بہ زانو بیٹھ کر چالیس آیات قرآنی کی عربی میں تفسیر لکھیں جو تقطیع کلاں کے بیس ورق سے کم نہ ہو۔ پھر دونوں تفسیریں تین عالموں کو جن کا اہتمام حاضری وانتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہوگا۔ سنائی جائیں۔ جس کی تفسیر کو وہ حلفاً پسند کریں۔ وہ مؤید من اللہ سمجھا جائے۔ مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی امرتسری اور مولوی عبداﷲ پروفیسر لاہوری کو یا تین اور مولوی منتخب کر لیں جو ان کے مرید اور پیرو نہ ہوں۔ اگر پیر صاحب کی تفسیر بہتر ثابت ہوئی تو میں اقرار کرتا ہوں کہ اپنی تمام کتابیں جو اپنے دعوؤں کے متعلق ہیں جلا دوںگا اور اپنے تئیں مخذول اور مردود سمجھ لوںگا اور اگر وہ مقابلہ میں مغلوب ہوگئے یا انہوں نے مباحثہ سے انکار کر دیا تو ان پر واجب ہوگا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں۔ میں مکرر لکھتاہوں کہ پیر صاحب مباحثہ میں بالکل ناکام رہیںگے۔ بلکہ مباحثہ کے لئے لاہور ہی نہیں آئیںگے اور میراغالب رہنا اسی صورت میں متصور ہوگا جب کہ پیر مہر علی شاہ صاحب بجز ایک ذلیل اور قابل شرم اور رکیک عبارت اور لغو تحریر کے کچھ بھی نہ لکھ سکیں اور ایسی تحریر کریں۔ جس پر اہل علم تھوکیں اور نفرت کریں۔ کیونکہ میں نے خدا سے یہی دعاء کی ہے کہ وہ ایسا ہی کرے اور میں جانتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کرے گا اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب بھی اپنے تئیں مؤمن مستجاب الدعوات جانتے ہیں تو وہ بھی ایسی ہی دعاء کریں اور یاد رہے کہ خداتعالیٰ ان کی دعاء ہر گز قبول نہیں کرے گا۔کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے مامور مرسل کے دشمن ہیں۔ اس لئے آسمان پر ان کی عزت نہیں۔ یاد رہے کہ مقام بحث بجز لاہور کے جو مرکز پنجاب ہے اور کوئی نہ ہوگا۔ اگر میں حاضر نہ ہوا تو اس صورت میں بھی میں کاذب سمجھا جاؤں گا۔ انتظام مکان جلسہ پیر صاحب کے اختیار میں ہوگا۔ اگر ضرورت ہوگی تو بعض پولیس کے افسر بلا لئے جائیںگے اور لعنت ہو اس پر جو تخلف یا انکار کرے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۲۵تا۳۳۲)
مرزاقادیانی کو پورا اطمینان تھا کہ پیر صاحب جو نہایت معمور الاوقات اور عزلت گزیں بزرگ ہیں اور ذکر الٰہی ان کا دن رات کا مشغلہ ہے۔ مناظرہ کے لئے ہرگز نہیں آئیںگے اور مریدوں کے سامنے یہ شیخی بگھارنے کا موقع مل جائے گا کہ پیر صاحب گولڑوی جیسا فاضل اجل جس کے لاکھوں مرید ہیں۔ میرے مقابلہ کی جرأت نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ دیکھ کر مرزاقادیانی
کی حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ پیر صاحب نے سچ مچ اس کے چیلنج کو منظور کر لیا اور ۲۵؍جولائی۱۹۰۰ء کو لکھ بھیجا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کا اشتہار آج ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء کو نیاز مند کی نظر سے گذرا۔ خاکسار کو دعوت حاضری جلسہ لاہور میں مع شرائط مجوزہ مرزاقادیانی منظور ہے۔ لیکن درخواست ہے کہ میری بھی ایک گذارش کو شرائط مجوزہ کے سلک میں منسلک فرمالیا جائے اور وہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی اجلاس میں پہلے اپنی مسیحیت ومہدویت کے دلائل پیش کریں اور میں مرزاقادیانی کے دلائل کا جواب دوں۔ اگر مرزاقادیانی کے تجویز کردہ تینوں حکم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ مرزاقادیانی اپنے دعویٰ کو پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچا سکے تو وہ میرے ہاتھ پر توبہ کریں۔ میں اپنی طرف سے تاریخ مناظرہ ۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء بمقام لاہور مقرر کرتا ہوں۔
از راہ کرم آپ تاریخ مقررہ پر لاہور پہنچ جائیے۔ لاہور امرتسر اور بعض دوسرے مقامات کے علماء کو ہم خود جمع کر لیںگے۔ دوسرے علماء کے جمع کرنے کا ہم ذمہ نہیں لے سکتے۔ الغرض جب تمام مراحل طے ہوگئے تو حضرت پیر صاحب بروز جمعہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۰ء کو علماء کی ایک جماعت کے ساتھ جن میں سے اکثر کے نام مرزاقادیانی کی فہرست میں درج تھے۔ لاہور تشریف لے آئے۔ مناظرہ لاہور کی شاہی مسجد میں قرار پایا۔ ہر شخص کو یقین تھا کہ قادیانی بھی وقت معہودہ پر پہنچ جائے گا۔ مگر اسے حق کے رعب نے مقابلہ پر آنے کی اجازت نہ دی۔ البتہ اس کی جگہ ایک مطبوعہ اشتہار لاہور میں تقسیم کرادیا کہ پیر صاحب مقابلہ سے بھاگ گئے۔ واقعی یہ بھی مسیح قادیان کا ایک معجزہ تھا کہ قادیان سے قدم باہر رکھنے کی تو خود کو جرأت نہ ہوئی اور مقابلہ سے راہ فرار پیر صاحب نے اختیار کی اور صرف یہی نہیں کہ پیر صاحب کی ہزیمت وفرار کے اشتہار ان کی مراجعت کے بعد شائع کئے گئے ہوں۔ بلکہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری لکھتے ہیں کہ جب یوم مباحثہ کی صبح کو پیر صاحب اور دوسرے لوگ شاہی مسجد کی طرف جارہے تھے تو راستہ میں ہر جگہ نہایت چوب قلم اشتہارات لاہور کی دیواروں پر چسپاں پائے گئے۔ جن کا یہ عنوان تھا پیر مہر علی کا فرار۔ جو لوگ پیر صاحب کو بچشم خود لاہور میں دیکھ رہے تھے وہ بزبان حال کہہ رہے تھے ؎
این چہ می بینم بہ بیداری ست یا رب بخواب؟
آخر جب پیر صاحب ۲۹؍اگست کے روز بعد انتظار بسیار لاہور سے مراجعت فرماہوئے تو مرزاقادیانی کا ایک زرد رنگہ اشتہار جو بزبان حال مرزائی ہزیمت اور زردروئی کی شہادت دے رہا تھا۔ بلاتاریخ نکلا جس میں لکھا تھا کہ پیر صاحب نے ہمارا طریق فیصلہ منظور نہ کیا اور چال بازی کی۔ اس کے بعد ایک اور اعلان بھی شائع کیا جس کا عنوان ’’آخری حیلہ‘‘ تھا۔ گو اس
اشتہار پر تاریخ طبع ۲۸درج تھی۔ لیکن یہ لاہور میں پیر صاحب کی مراجعت کے کئی دن بعد تقسیم ہوا۔ اس میں لکھا تھا۔ ’’اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ لاہور کے گلی کوچوں میں پیر صاحب کے مرید اور ہم مشرب شہرت دے رہے ہیں کہ پیر صاحب تو بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے لاہور میں پہنچ گئے تھے۔ مگر مرزا بھاگ گیا۔ حالانکہ یہ تمام باتیں خلاف واقعہ ہیں۔ بلکہ خود پیر صاحب بھاگ گئے ہیں۔ میں بہرحال لاہور پہنچ جاتا مگر میں نے سنا ہے کہ اکثر پشاور کے جاہل سرحدی پٹھان پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور ایسا ہی لاہور کے اکثر سفلہ اور کمینہ طبع لوگ گلی کوچوں میں مستوں کی طرح گالیاں دیتے پھرتے ہیں اور نیز مخالف مولوی بڑے جوشوں سے وعظ کر رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے تو اس صورت میں لاہور جانا بغیر کسی احسن انتظام کے کس طرح مناسب ہے… اس فتنہ اور اشتعال کے وقت میں بجز شہر کے رئیسوں کی پوری طرح کی ذمہ داری کے لاہور میں قدم رکھنا گویا آگ میں قدم رکھنا ہے۔
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۳۹،۱۴۲، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۵۰تا۳۵۴)
اس اعلان کے متعلق منشی الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ لاہور نے جو سالہا سال تک مرزائی رہنے کے بعد مرزائیت سے تائب ہوئے تھے۔ کتاب عصائے موسیٰ میں لکھا۔ ’’جب مرزاقادیانی لاہور آنے سے ایسے ہراساں وترساں تھے تو اوّل خود ہی اشتہار دے کر اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈالا؟ مرزاقادیانی نے خود ہی تو تمام دنیا کو مقابلہ کے لئے بلایا اور اشتہار پر اشتہار شائع کئے اور جب آپ کے حکم کی تعمیل میں حضرت پیر صاحب اور دوسرے حضرات جمع ہوئے تو فرمانے لگے کہ ایسے مجمع میں جانا تو گویا آگ میں کود پڑنا ہے۔ ذرا غور کرو کہ اللہ کے مرسل تو سچ مچ دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دئیے گئے۔ لیکن حافظ حقیقی نے انہیں ہر طرح سے محفوظ رکھا۔ لیکن آپ محض خیالی اور مجازی آگ میں قدم رکھنے سے بھی ڈر گئے جو خود بدولت ہی کی سلگائی ہوئی تھی۔ سچا مؤمن تو خیر الحافظین کے حفظ وامن اور اس کی نصرت بخشیوں کا بھروسہ کر کے ہر خطرے کا مقابلہ کرتا ہے۔ لیکن منافق لوگ اس طرف قدم رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
کفر ہے محو تماشائی لب بام ابھی
گو مرزاقادیانی کو لاہور آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ لیکن ہر کس وناکس کو مرزاقادیانی کے اس قول کی تصدیق ہوگئی کہ اگر میں حاضر نہ ہوا۔ تب بھی کاذب سمجھا جاؤں گا۔
(عصائے موسیٰ ص۴۲۱)
اس کے بعد مرزاقادیانی نے اپنے رسالہ اربعین کے نمبر۴ مین شکوہ کیا کہ پیر صاحب نے اپنے جوابی اشتہار میں تحریری مقابلہ سے پہلے نصوص قرآن وحدیث کے رو سے مباحثہ کئے جانے کی کیوں خواہش کی؟ افسوس مرزاقادیانی نے یہ شکایت کرتے وقت اتنا انصاف نہ کیا کہ انہوں نے خود ہی پیر صاحب کو علم قرآن وحدیث سے بے بہرہ بتایا تھا اور ان کی کتاب شمس الہدایہ کو جو مرزائیت شکنی میں بہترین کتاب ہے۔ ذخیرہ لغویات قرار دیتے ہوئے ان سے رفع ونزول مسیح علیہ السلام کے دلائل پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حالانکہ پیر صاحب شمس الہدایہ میں اس کے بیسیوں دلائل پیش کر چکے تھے۔ پس اگر پیر صاحب نے تفسیر نویسی کے مقابلہ سے پہلے مرزائی کجروی اور رفع ونزول مسیح علیہ السلام کو قرآن وحدیث سے ثابت کرنے کے لئے تھوڑے سے زبانی مناظرہ کی بھی خواہش کی تو کیا بیجا کیا؟ اور پھر یہ کہ جب مرزاقادیانی نے حضرت پیر صاحب کے مطالبہ کو شرف قبول نہ بخشا تو پیر صاحب نے بھی اس پر کچھ اصرار نہ فرمایا تھا۔ بلکہ مرزاقادیانی کی دس شرطوں کو ہی قبول فرماکر مقابلۂ تفسیر نویسی کے لئے لاہور تشریف لے آئے تھے اور پیر صاحب کے اشتہار مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۰۰ء میں مرزاقادیانی کے تمام شرائط منظور ہوکر ۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء کو جانبین کا لاہور پہنچ جانا قرار پاچکا تھا۔ جس کے لئے مرزاقادیانی کے پاس بشرط انصاف ودیانت کسی عذر خواہی اور حیلہ گری کی گنجائش نہ تھی۔
(عصائے موسیٰ)
بہرحال مرزاقادیانی کی اس شاندار پسپائی نے قادیان کے خلاف شکنجہ ملامت کے بہت سے پیچ کس دئیے اور مرزائیوں کے لئے گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا۔ ۲۸؍اگست کے اشتہار میں تو مرزاقادیانی نے لکھا تھا کہ میں نے سرحدی پٹھانوں کے خوف سے لاہور کا رخ نہیں کیا۔ لیکن کچھ د نوں کے بعد رسالہ اربعین میں یہ لکھ مارا کہ اگر پیر مہر علی شاہ صاحب منقول مناظرہ اور اپنی بیعت کی شرط پیش نہ کرتے تو اگرلاہور اور قادیان میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو میں تب بھی لاہور پہنچتا اور ان کو دکھلاتا کہ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں۔
(اربعین نمبر۴ ص۱۷ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۴۹)
اس کے بعد ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۰ء کو مرزائیوں کی طرف سے شکوہ سنج ہوا کہ باوصف اس کے کہ اس معاملہ کو دو مہینے سے زیادہ عرصہ گذر گیا۔ مگر اب تک پیر مہر علی شاہ کے متعلقین سب وشتم سے باز نہیں آتے اور ہر ہفتہ میں کوئی نہ کوئی ایسا اشتہار پہنچ جاتا ہے جس میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی صاحب کو آسمان پر چڑھایا ہوتا ہے اور مجھے گالیاں دی ہوتی ہیں اور میری نسبت کہتے ہیں کہ دیکھو اس شخص نے کس قدر ظلم کیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے مقدس انسان بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے
صعوبت سفر اٹھا کر لاہور میں پہنچے۔ مگر یہ شخص اس بات پر اطلاع پاکر کہ درحقیقت وہ بزرگ نابغۂ زمان اور سحبان دوران اور علم معارف قرآن میں لاثانی روزگار ہیں۔ اپنے گھر کی کسی کوٹھری میں چھپ گیا۔ ورنہ حضرت پیر صاحب کی طرف سے معارف قرآنی کے بیان کرنے اور زبان عربی کی بلاغت دکھلانے میں بڑا نشان ظاہر ہوتا۔‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴ ص۱۴،۱۵)
بہرحال مرزاقادیانی نے مقابلہ سے فرار کرنے کے متعلق اپنی طرف سے دوگونہ صفائیاں پیش کیں جو اوپر درج کی گئی ہیں۔ لیکن عجب نہیں کہ اس کی ایک تیسری وجہ بھی ہو اور شاید وہی حقیقی وجہ ہو جو خود تقدس مآب مرزاغلام احمد قادیانی نے (تحفہ گولڑویہ ص۹، خزائن ج۱۷ ص۴۹) میں لکھی ہے کہ: ’’میدان میں نکلنا کسی مخنث کا کام نہیں۔‘‘ مگر یاد رہے کہ میں مرزاقادیانی کو خدانخواستہ مخنث یا شغال نہیں کہتا۔ بلکہ شیر سمجھتا ہوں جو اپنے شکار پیر صاحب پر حملہ کرنے کے لئے ڈکارتا ہوا قادیان سے لاہور آپہنچا تھا۔ چنانچہ خود شیر قادیان لکھتا ہے۔ ’’اس وقت مہر علی شاہ کہاں ہے جس نے گولڑہ کو بدنام کیا؟ کیا وہ مردہ ہے جو باہر نہیں نکلے گا؟ اور شیر تو ضرور نعرہ مارتا ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۴۹، خزائن ج۱۹ ص۱۶۱)
بعض لوگ تقدس مآب مرزاغلام احمدقادیانی کے شیر ہونے سے انکار کرتے ہوئے اسے شیر قالین قرار دیںگے۔ لیکن میں ایسے لوگوں سے متفق نہیں ہوں۔ اگر وہ حقیقی شیر غراں نہیں تھا تو کم ازکم چیلنج دینے کا تو شیر تھا۔ اس لئے وہ شیر کا شیر رہا قالین نہ ہوا۔ اصل یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی ذرہ بے قدر اور موربے مایہ ہونے کے باوجود پہاڑ سے ٹکرانے لگتا تھا اور جب لہولہان اور بدحال ہوکر گر پڑتا تو دل میں عہد کرتا کہ اب کسی بڑے پہلوان سے مبارزت خواہ نہ ہوںگا۔ لیکن جب اپنا وحی رساں ٹیچی ٹیچی آکر ایک معبود نما جلوہ دکھاتا تو مقابلہ کی ازسر نو تحریک ہوتی اور خم ٹھونک کر دوبارہ آموجود ہوتا ؎
شب زمے توبہ کنم از بیم ناز شاہداں
بامداواں روئے ساقی باز درکار آورد
حضرت پیر صاحب کے مقابلہ میں مرزاقادیانی کو جو زخم آئے ان کو دو مہینہ تک سینکتا رہا۔ آخر جب زخم اچھے ہوگئے تو پیر صاحب سے ازسرنو مقابلہ کی خواہش کا اظہار کرنے لگا اور لکھا کہ: ’’اگر کشتی دو پہلوانوں کی مشتبہ ہو جائے تو دوسری مرتبہ کرائی جاتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک فریق تو دوبارہ کشتی کے لئے (قادیان کے کونے میں دبکا) کھڑا ہے اور دوسرا جو جیتا ہے وہ مقابلہ پر نہیں آتا۔‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر۴ ص عنوان پیر مہر علی شاہ گولڑوی، خزائن ج۱۷ ص۴۸۱ حاشیہ)
لیکن اگر وہ بیچارہ کسی حقیقی پہلوان ہی سے پوچھ لیتا تو اسے معلوم ہوجاتا کہ غالب اپنے مغلوب پہلوان سے دوبارہ کشتی نہیں لڑا کرتا اور مغلوب بھی وہ جس کا چیلنج محض نمائشی ہو۔ اگر کبھی کوئی سچ مچ سامنے آ موجود ہو تو گھر کے دروازے بند کر کے کسی کونے میں جا چھپے۔
افسوس کہ میں قلت گنجائش کی وجہ سے بیسیوں اہم واقعات قلم انداز کرنے پر مجبور ہوں۔ جو صاحب مسیح قادیان کی اعجوبہ ٔ روزگار شخصیت کو اس کے اصلی رنگ میں دیکھنا چاہیں وہ خاکسار راقم الحروف کی کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ کی طرف رجوع فرمائیں۔
مسیح قادیان کی عربی دانی
مرزاغلام احمد قادیانی کو عربی ادب وشعر گوئی کا پر نوچنے میں بڑا کمال تھا۔ بلکہ یہ کمال اعجازی درجہ تک پہنچا ہوا تھا۔ مرزاقادیانی کی عربی زبان اس قدر لچر ہے کہ اس کے پڑھنے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ علماء اس کی عربی تحریروں میں ہمیشہ غلطیاں نکالتے رہے۔ مگر نصف صدی کا طویل زمانہ گذر جانے کے باوجود یہ سلسلہ ہنوز منقطع نہیں ہوا اور اس پر طرہ یہ کہ مرزائیوں نے اپنے مسیح کو الٹا سلطان القلم کا لقب دے کر علم وادب کا منہ چڑایا ہے۔ مولوی محمد حسین مرحوم بٹالوی شاید سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے مرزاقادیانی کی عربی تحریروں پر تنقیدی نگاہ ڈالی۔ انہوں نے سب سے پہلے مرزاقادیانی کی کتاب دافع وساوس کا مطالعہ کیا اور اس میں چھیاسٹھ غلطیاں نکال کر شائع کیں۔ مرزاقادیانی نے ان اغلاط کو صحیح ثابت کرنے کے بجائے حسب عادت گالیاں دے کر کلیجہ ٹھنڈا کر لیا جو صاحب اس فہرست اغلاط کے دیکھنے کے شائق ہوں وہ رسالہ (اشاعۃ السنہ ج۱۵ ص۳۱۶،۳۲۸) کا مطالعہ فرمائیں۔ مولوی محمد حسین تو ایک بڑے فاضل تھے وہ اس کی عربی تحریروں میں سیکڑوں ہزاروں غلطیاں نکال سکتے تھے۔ مگر بعض غیر علماء بھی اس فرض کی انجام دہی سے قاصر نہ تھے۔ چنانچہ رسالہ کرامات الصادقین کے متعلق مرزاقادیانی نے اعلان کیا کہ جو شخص اس میں سے کوئی غلطی نکالے گا اسے فی غلطی پانچ روپیہ انعام دیا جائے گا۔ بابو احمد الدین کلرک محکمہ انکم ٹیکس سیالکوٹ جنہوں نے محض ایف اے یا بی اے کلاس کی عربی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس خدمت پر کمر بستہ ہوئے اور رسالہ کے چند ابتدائی صفحات کو سرسری نظر سے دیکھ کر جھٹ گیارہ غلطیاں نکالیں اور بذریعہ چٹھی بھیج کر پچپن روپیہ انعام کا مطالبہ کیا۔ لیکن مرزاقادیانی نے نہ صرف وعدہ انعام کا ایفا نہ کیا بلکہ ایسی چپ سادھی کہ گویا اس قسم کاکوئی اعلان ہی نہیں کیا تھا۔
(اہل حدیث امرتسر ۲۵؍اگست ۱۹۱۶ء)
بابو احمد الدین نے وہ غلطیاں اخبار وزیر ہند سیالکوٹ مورخہ ۸؍اگست ۱۸۹۴ء میں چھپوا
دیں۔ اس پر مرزاقادیانی اور اس کے پیروؤں کو بہت خفت اٹھانی پڑی۔
(اشاعۃ السنہ ج۱۶ ص۵۳)
اسی طرح مولوی عبدالعزیز صاحب پروفیسر مشن کالج پشاور نے بڑے طمطراق سے رسالہ کرامات الصادقین کی غلطیاں نکالیں۔ مگر مرزاقادیانی نے ان کو بھی کچھ انعام نہ دیا۔ جو حضرات ان اغلاط کے دیکھنے کے خواہش مند ہوں وہ جریدۂ اہل حدیث (کی ۲۱؍جولائی ۱۹۱۶ء اور ۲۸؍جولائی ۱۹۱۶ء کی اشاعتوں) کا مطالعہ فرمائیں۔ مرزاقادیانی نے ۲۲؍فروری ۱۹۰۱ء کو رسالہ اعجاز المسیح جس میں سخت ملحدانہ انداز میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر لکھی تھی شائع کیا اور اسے قرآن پاک کی طرح معجزہ کی حیثیت سے پیش کیا۔ مرزائیوں نے اس کی اشاعت پر بڑا اودھم مچایا اور کہا کہ قرآن کے بعد اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ علمائے امت نے فرمایا کہ دعوائے اعجاز تو چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ اس کی عبارت تک درست نہیں۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے کتاب سیف چشتیائی میں نہ صرف اعجاز المسیح کی غلطیوں کے انبار لگا کر مرزائیوں کی حماقت ظاہر کی بلکہ یہ بھی دکھا دیا کہ سلطان القلم صاحب نے کس کس کتاب سے کیا کیا عبارتیں چرائی ہیں؟ جو صاحب ان اغلاط ومسروقات کو دیکھنا چاہیں وہ کتاب (سیف چشتیائی ص۷۰،۸۰) کی طرف رجوع فرمائیں۔ حضرت پیر صاحب کو اس تنقید کے انعام میں بارگاہ قادیان سے یہ اعزاز بخشے گئے۔ نادان، چور، کذاب وغیرہ۔
(نزول المسیح ص۷۰، خزائن ج۱۸ ص۴۴۹)
جاہل بے حیا، سرقہ کا الزام دینا تو گوہ کھانا ہے۔
(نزول المسیح ص۶۳، خزائن ج۱۸ ص۴۴۱)
اے جاہل بے حیا! اوّل عربی بلیغ فصیح میں کسی سورۂ کی تفسیر شائع کر پھر حق حاصل ہوگا کہ میری کتاب کی غلطیاں نکالے یا مسروقہ قرار دے۔
(نزول المسیح ص۶۳، خزائن ج۱۸ ص۴۴۱)
غرض مرزاقادیانی نے نزول المسیح کے بیس صفحے (۶۲،۸۱) صرف حضرت پیر صاحب کے خلاف دریدہ دہنی کرنے کے لئے وقف کر دئیے ہیں۔ یاد رہے کہ مولوی محمد حسین صاحب فیضی نے جو موضع بھیں ضلع جہلم کے رہنے والے تھے رسالہ اعجاز المسیح کے مقابلہ میں اس سے ہزاردرجہ بہتر اور فصیح وبلیغ کتاب تصنیف فرمائی تھی۔ مرزائیت کی پامالی میں جو شاندار کارنامے فیضی صاحب سے عرصۂ ظہور میں آئے۔ انہیں رئیس قادیان میں ملاحظہ فرمائیے۔ ۲۹،۳۰؍اکتوبر ۱۹۰۲ء کو موضع مد ضلع امرتسر میں مرزائیوں سے اہل حق کا ایک مناظرہ ہوا۔ جس میں مولوی ثناء اللہ امرتسری نے مرزائیت کو ایسی بری طرح پامال کیا کہ مرزائی لوگ اس کی تلخی آج تک محسوس کر رہے ہیںَ مرزائی مناظر نے جس کا نام سرور شاہ تھا کتاب اعجاز المسیح کو مرزائی معجزہ کی حیثیت سے پیش کیا۔ لیکن مولوی ثناء اللہ نے یہ ثابت کر کے اس کا ناطقہ بند کر دیا کہ اس میں بے شمار اغلاط ومسروقات ہیں
تابہ اعجاز چہ رسد۔ جب شکست خودہ مزائی مناظر نے قادیان پہنچ کر اپنی دردناک داستان ہزیمت مرزاقادیانی کو سنائی تو وہ آپے سے باہرہوگیا اور بزعم خود مولوی ثناء اللہ کے دانت کھٹے کرنے کے لئے ایک رسالہ بنام اعجاز احمدی جس میں کچھ اردو نثر اور کچھ عربی نظم تھی لکھا اور مولوی ثناء اللہ کو چیلنج دیا کہ اگر اسی ضخامت کا ایک رسالہ پانچ دن میں لکھ دکھاؤ تو تم کو دس ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ اس رسالہ سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ جس طرح پیغمبر خداﷺ کو قرآن کا معجزہ دیا گیا تھا اسی طرح رسالہ اعجاز احمدی میرا معجزہ ہے۔ حالانکہ اگر اس میں کوئی اعجازی شان پائی جاتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ جواب کے لئے وقت کی تحدید کی جاتی اور قرآن کی طرح صلائے دام نہ دیا جاتا کہ قیامت تک جو شخص بھی چاہے اس کی مثل پیش کرے۔ اس چیلنج کے جواب میں مولوی ثناء اللہ نے ۲۱؍نومبر ۱۹۰۲ء کو ایک اشتہار میں مرزاقادیانی سے مطالبہ کیا کہ پہلے تم ایک مجلس منعقد کرو۔ جس میں میں اس قصیدے کی صرفی نحوی عروضی ادبی غلطیاں پیش کروں گا۔ اگر تم ان غلطیوں کا جواب دے سکے تو پھر میں زانو بہ زابو بیٹھ کر تم سے عربی نگاری کا مقابلہ کروںگا۔ یہ کیا مضحکہ خیز حرکت ہے کہ خود تو کسی بڑی مدت میں کوئی مضمون لکھو اور اپنے مخاطب کو کسی محدود وقت کا پابند بناؤ۔ اگر تم مؤید من اللہ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ میرے مقابلہ میں برسر میدان طبع آزمائی نہ کرو۔ مگر مرزاقادیانی نے اس مطالبہ کا کچھ جواب نہ دیا اور ایسی چپ سادھی کہ گویا سانپ سونگھ گیا۔ بہرحال یہ رسالہ بھی رسالہ اعجاز المسیح کی طرح اغلاط سے مملو ہے۔ ہاں اگر اس کو اس لحاظ سے معجز وبے مثل کہیں کہ مہمل نگاری میں دنیا کے اندر اس کی کوئی مثل نہیں تو اس کے اعجاز سے کسی کو انکار نہ ہوگا جو حضرات اعجاز احمدی کے اغلاط دیکھنا چاہیں۔ وہ کتاب (الہامات مرزا ص ۹۸،۱۰۲) کا مطالعہ فرمائیں۔ قرۃ العین کے کلام کا نمونہ کسی گذشتہ باب میں معرض تسوید میں آچکا ہے۔ باوجودیکہ وہ بھی مرزاقادیانی کی طرح باطل کی پیرو تھی۔ مگر جہاں مرزاقادیانی کا قصیدہ اعجازیہ پڑھنے سے دل میں سخت تکدر اور انقباض پیدا ہوتا ہے وہاں قرۃ العین کا قصیدہ پڑھتے وقت ایک روحی لذت محسوس ہوتی ہے۔ قصیدہ اعجازیہ میں بھی دوسری مرزائی تالیفات کی طرح گالیوں کی بھرمار ہے۔ مولوی ثناء اللہ کو بھیڑیا، کتا، کمینہ، جھوٹا، کثردم وغیرہ القاب سے یاد کیا ہے۔ اس نام نہاد قصیدہ کے مقابلہ میں قاضی ظفر الدین مرحوم سابق پروفیسر اورینٹل کالج لاہور جو ہمارے ضلع گجرانوالہ کے رہنے والے تھے ایک قصیدہ بنام قصیدہ رائیہ شائع کیا جس کے ۶۲اشعار نمونتہً کتاب (الہامات مرزا ص۱۰۳،۱۰۵) میں نقل کئے گئے ہیں۔ اعجاز احمدی کے جواب میں مولانا غنیمت حسین صاحب مونگیری نے بھی ایک کتاب ابطال اعجاز مرزا دو حصوں میں لکھی۔ پہلے حصہ میں مرزائی نظم کے اغلاط ظاہر کئے اور دوسرے حصہ میں سوا
چھ سو اشعار کا نہایت فصیح وبلیغ عربی قصیدہ لکھا۔ یہ رسالہ چھپ چکا ہے اور پنجاب میں بعض حضرات کے پاس موجود ہے۔ مولانا اصغر علی صاحب روحی سابق پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور نے بھی اعجاز احمدی کے جواب میں ایک قصیدہ شائع کیا۔ اس قصیدہ کا مطلع یہ تھا ؎
تسیر الیٰ ربع الحبیب الزوامل
فیالک شوقاً ہیجتہ المنازل
(اونٹنیاں منزل حبیب کی طرف جارہی ہیں۔ اللہ رے وہ شوق جس کو منازل نے ابھارا ہے)
اسی طرح ایک قصیدہ مولوی محمد حسین فیضی مرحوم متوطن موضع بھین ضلع جہلم نے بصنعت غیر منقوط شائع کیا۔ یعنی اس قصیدہ کے کسی لفظ میں کوئی نقطہ دار حرف نہیں تھا۔ جو صاحب اس قصیدہ کا نمونہ دیکھنا چاہیں وہ رسالہ تازیانہ عبرت ص۴۷،۴۸) کی طرف رجوع فرمائیں۔ فیضی صاحب کا قصیدہ انجمن نعمانیہ لاہور کے ماہوار رسالہ میں شائع ہوا تھا۔ لیکن مرزاقادیانی کی مجال نہیں تھی کہ اس کے مقابلہ میں ایک غیر منقوط فصیح وبلیغ شعر لکھ کر ہی دکھادیتا۔ یہاں یہ بتا دینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ سید رشید رضا ایڈیٹر المنار قاہرہ نے مرزاقادیانی کی عربیت کا مذاق اڑایا تھا۔ مرزاقادیانی نے اس کا جس شکل میں انتقام لیا وہ مرزائی تہذیب کا روشن ترین مرقع ہے۔ اس مرزائی عفونت نگاری کی دلچسپ تفصیل کتاب رئیس قادیان میں آپ کی نظر سے گذرے گی۔ ایک مرتبہ مولانا اصغر علی صاحب روحی نے مرزاقادیانی کی بعض عربی کتابوں میں سے شرمناک قسم کی غلطیاں نکال کر مرزاقادیانی کو لکھ بھیجی تھیں۔ مرزاقادیانی نے اخبار الحکم قادیان میں یہ لکھ کر مولوی صاحب سے پیچھا چھڑایا کہ نہ میں عربی کا عالم ہوں اور نہ شاعر ہوں۔ (اخبار الحکم قادیان مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۳ء ص۵) ایک مرتبہ مولانا اصغر علی صاحب روحی نے مرزاقادیانی کے رسالۃ حمامۃ البشریٰ کی غلطیاں نکال کر مرزاقادیانی کے حواری خواجہ کمال الدین کو خفا کر دیا تھا۔ یہ دلچسپ واقعہ بھی کتاب رئیس قادیان میں ملاحظہ فرمائیے۔
مرزائیت کے ماخذ اور اصول مذہب
مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنا جو پنتھ جاری کیا وہ مختلف ادیان ومذاہب سے ماخوذ تھا۔ اس نے اسلام، آریہ دھرم، یہودیت، نصرانیت، باطنیت، مہدویت، بابیت اور بہائیت کے تھوڑے تھوڑے اصول لے کر ان کو اپنا لیا اور ایک معجون مرکب تیار کر کے اس کا نام احمدیت رکھ دیا۔ ذیل میں آپ کو معلوم ہوگا کہ مسیح قادیان نے کون کون سا عقیدہ کہاں کہاں سے اڑایا؟ اس
نے جو اصول وعقائد اسلام سے اخذ کئے وہ تو ہر ایک کو معلوم ہیں۔ اس لئے ان کا اندراج غیر ضروری ہے۔ البتہ اس نے غیر اسلامی مذاہب کے سامنے کشکول گدائی پھرا کر جو لقمے حاصل کئے ان پر مختصراً روشنی ڈالی جاتی ہے۔
یہود کی پیروی اور ہمنوائی
قادیان کے خانہ ساز مسیح نے جن مسائل میں اسلام کی صراط مستقیم کو چھوڑ کر یہود کی تقلید کی ان میں سے چند امور نمونتہً درج کئے جاتے ہیں۔ یہود حضرت مریم بتول علیہا السلام کو (معاذ اللہ) زانیہ اور حضرت مسیح علیہ السلام کو (خاکم بدہن) ناجائز تعلقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مرزاقادیانی نے بھی ان کی تقلید میں حضرت مریم بتول علیہا السلام کی شان پاک میں وہی گندگی اچھالی۔ چنانچہ ایام الصلح میں لکھا کہ: ’’یہود کی طرح افغانوں میں بھی رواج ہے کہ اگر ان کی لڑکیاں نکاح سے پہلے اپنے منسوب سے میل ملاقات رکھیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے۔ مثلاً مریم صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ اختلاط اور اس کے ساتھ گھر سے باہر چکر لگانا اس رسم کی شہادت دیتا ہے اور بعض پہاڑی خوانین کی لڑکیاں اپنے منسوبوں سے حاملہ بھی ہوجاتی ہیں۔ اس میں کچھ ننگ وعار نہیں سمجھا جاتا۔‘‘
(ترجمہ از ایام الصلح ص۶۶، خزائن ج۱۴ ص۳۰۰)
کشتی نوح میں لکھا: ’’مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم توریت عین حمل میں کیوں نکاح کیاگیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی۔ یعنی باوجودیکہ یوسف نجار کے گھر میں پہلی بیوی موجود تھی۔ پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸)
اور چشمہ مسیحی میں لکھا کہ: ’’جب چھ سات مہینہ کا حمل نمایاں ہوگیا۔ تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام ایک نجار سے نکاح کر دیا اور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کے بیٹا پیدا ہوا۔ وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا۔‘‘
(چشمہ مسیحی ص۲۶، خزائن ج۲۰ ص۳۵۶)
ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ خدا کے ایک برگزیدہ رسول کو غیر طاہر قرار دینے میں مرزاقادیانی نے کس طمطراق کے ساتھ یہود کی ناپاک سنت کی تجدید کی؟ جس طرح یہود حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معجزات کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح مرزاقادیانی نے بھی انکار کیا۔
چنانچہ لکھا کہ: ’’عیسائیوں نے آپ کے بہت سے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ ظاہر نہیں ہوا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
جس طرح یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح قادیانی نے بھی دیں۔ چنانچہ لکھا کہ: ’’ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راست بازوں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۹ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۳)
مرزاقادیانی نے حضرت مسیح علیہ السلام کو جو جو گالیاں دیں۔ ان کو مرزاقادیانی کی کتابوں ضمیمہ انجام آتھم اور دافع البلاء میں دیکھئے۔ خدا کے برگزیدہ رسول حضرت مسیح علیہ السلام کی دشمنی میں مرزاقادیانی کی شدت انہماک کا یہ عالم تھا کہ: ’’اس نے آپ کو خاص وہ گالیاں دینے کے لئے جو تیرہ بخت یہود دیتے ہیں۔ یہود کی کتابیں منگوا کر ترجمہ کرائیں۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ حصہ اوّل ص۵)
جس طرح یہود توراۃ میں تحریف کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ’’ویحرفون الکلم عن مواضعہ‘‘ (کلام الٰہی میں تحریف وتبدیل کرتے تھے) اس پر گواہ ہے۔ اسی طرح مرزاقادیانی نے قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں سیکڑوں تحریفیں کیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کی تحریفات کے نمونے آئندہ صفحات پر حوالۂ قلم ہوںگے۔ حکیم نورالدین کی تحریفات کا نمونہ ملاحظہ ہو۔ ۱۰؍دسمبر ۱۹۱۲ء کو سورۂ صف کے درس میں کسی سامع نے حکیم نورالدین سے درخواست کی کہ اس آیۃ کی تشریح فرمادیجئے۔ ’’ومبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد۰ فلما جاء ہم بالبینت قالوا ہذا سحر مبین‘‘ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول مبعوث ہوںگے۔ جن کا اسم گرامی احمد مجتبیٰﷺ ہوگا۔ لیکن جب آپ معجزات باہرہ کے ساتھ تشریف لے آئے تو کفار کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے) حکیم نور الدین نے سائل سے کہا کہ تم بڑے نادان ہو۔ سنو جس احمد کی بشارت اس آیہ میں دی گئی ہے وہ مثیل مسیح (مرزاغلام احمد قادیانی) ہے۔ اس کے بعد کہا میں اپنی ذوقی باتیں بہت کم بیان کیا کرتا ہوں۔ تم تو صرف احمد کے متعلق تشریح چاہتے ہو۔ یہاں تو خدا نے احمد کے بعد نور کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔ اس کے آگے دین کا لفظ بھی ہے اور اس نور کو نہ ماننے کے متعلق بھی یہ وعید فرمائی ہے۔ ’’ولو کرہ الکفرون‘‘ (القول الفصل ص۳۳) حکیم نور الدین کا نور اور دین کا اشارہ اس آیۃ کی طرف تھا۔ ’’یریدون لیطفوا نور اللہ بافواہہم واﷲ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۰
ھوالذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علے الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘‘ ان تحریفات سے آپ کو معلوم ہوگا کہ مرزائی بدنصیبوں نے یہود کی مانند کس طرح کلام الٰہی احادیث رسول اور آثار سلف کو اپنی نفسانی خواہشوں کا آلۂ کار بنا رکھا ہے۔
نصاریٰ کے خوان شرک سے زلہ ربائی
مسلمانوں کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں چڑھائے گئے تھے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ ’’وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم‘‘ (نہ یہود نے مسیح کو قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو اشتباہ ہوگیا) اس کے خلاف نصاریٰ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہود نے مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا اور لطف یہ ہے کہ باوجود ادعائے صلیب شکنی مرزاقادیانی بھی اس مسئلہ میں نصاریٰ ہی کا پیرو تھا۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ حضرت مسیح بروز جمعہ بوقت عصر صلیب پر چڑھائے گئے۔ جب وہ چند گھنٹہ کیلوں کی تکلیف اٹھا کر بیہوش ہوگئے اور خیال کیاگیا کہ مرگئے تو ایک دفعہ سخت آندھی اٹھی۔
(نزول المسیح ص۱۸، خزائن ج۱۸ ص۳۹۶)
جب مرزاقادیانی نے مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کے عقیدہ میں اہل صلیب کی ہمنوائی اختیار کی تو لاہور کے مسیحی رسالہ تجلی نے لکھا کہ مرزاقادیانی نے مسلمانوں کو کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا۔ بلکہ وہ مسلمان کو اپنے سنہری جال میں پھانس کر ہمیشہ خانہ دوستاں بروب ودردشمناں مکوب کے اصول پر کاربند رہے۔ ہاں عیسائیوں کو ان کی ذات سے بہت فائدہ پہنچا کہ انہوں نے مسیح کے مصلوب ہونے کو قرآن سے ثابت کر دکھایا۔ پس عیسائیوں پر جو نجات کے لئے مسیح کی صلیب کو ضروری خیال کرتے ہیں واجب ہے کہ مرزاقادیانی کی اس صلیبی خدمت پر ان کے مرہون احسان ہوں۔ کیونکہ مرزاقادیانی حقیقی معنی میں صلیب کے زبردست حامی تھے اور انہوں نے عیسائیوں کے خلاف جو کچھ لکھا وہ محض دہریوں کے خیالات کو اپنی طرف سے پیش کر دیا تھا۔ جس طرح نصاریٰ حضرت مسیح بن مریم علیہما السلام کے ابن اللہ ہونے کے قائل ہیں اسی طرح مرزاقادیانی بھی (معاذ اللہ) اپنے تئیں خدائے برتر کی اولاد بتایا کرتا تھا۔ چنانچہ اس کے الہام ملاحظ ہوں۔ ’’انت منی بمنزلۃ اولادی‘‘ (تو بمنزلہ میری اولاد کے ہے)
(الحکم مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۶ء)
’’انت منی بمنزلۃ ولدی‘‘ تو میرے بیٹے کی جگہ ہے۔
(حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹)
’’اسمع یا ولدی‘‘ اے میرے بیٹے سن ۔
(البشریٰ ج۱ ص۴۹)
ان الہاموں میں مرزاقادیانی نے ظاہر کیا ہے کہ حق تعالیٰ نے اسے بیٹا کہہ کر مخاطب کیا۔ ایک اور الہام ’’انت من مائنا وہم من فشل‘‘ تو میرے پانی یعنی نطفہ سے ہے اور دوسرے لوگ مٹی سے بنے ہیں۔ (اربعین نمبر۳) میں مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو معاذ اللہ نطفۂ خدا بتایا ہے۔ ان کے علاوہ لکھتا ہے کہ مسیح کا اور میرا مقام ایسا ہے جسے استعارہ کے طور پر ابنیت سے علاقہ ہے۔
(توضیح مرام ص۲۷، خزائن ج۳ ص۶۴)
حالانکہ ولد اور ابن وغیرہ وہ الفاظ ہیں جنہیں حق تعالیٰ نے قرآن پاک میں شرک قرار دیا ہے اور ان کی پر زور مذمت فرمائی ہے۔ مرزاقادیانی نے اسلام کی پاک توحید کے مقابلہ میں نصاریٰ کی تقلید میں اپنی ایک پاک تثلیث بھی پیش کی تھی۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ: ’’ان دو محبتوں کے کمال سے جو خالق اور مخلوق میں پیدا ہوکر نرومادہ کا حکم رکھتی ہے اور محبت الٰہی کی آگ سے ایک تیسری چیز پیدا ہوتی ہے۔ جس کا نام روح القدس ہے۔ اس کا نام پاک تثلیث ہے۔ اس لئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان دونوں کے لئے بطور ابن اللہ کے ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۲۲، خزائن ج۳ ص۶۲)
ڈاکٹر ایچ ڈی گرس وولڈ سابق پرنسپل فورمن کرسچن کالج لاہور نے لکھا تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی اور پنڈت دیانند سرستی بانی آریہ سماج میں دو امریکساں قابل توجہ اور دلچسپ معلوم ہوتے ہیں۔ دونوں صاحب ذو معنی باتیں کرتے ہیں۔ چنانچہ مرزائے قادیان اپنے مطلب کے مقام پر اوّل درجہ کے لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں اور جب لفظی معنی سے مطلب برآری ہوتی دکھائی نہیں دیتی تو پھر کوئی عبارت ایسی نہیں جس کی وہ حسب مطلب کوئی نئی تاویل وتشریح نہ کر لیتے ہوں۔ اسی طرح وہ استعارات اور تشبیہات کو کام میں لاکر بعض اوقات یہاں تک پہنچتے ہیں کہ تثلیث کی تعلیم میں بھی سچائی اور حقیقت کے کسی حد تک معتقد بن بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی کے نزدیک الٰہی محبت اور انسانی محبت تثلیث کے دوا قانیم ہیں اور وہ جذبات یا جوش جو ان دو کی مخالطت کا نتیجہ ہے۔ ان کے نزدیک اقنوم ثالث ہے۔ اسی طرح پنڈت دیانند نے ویدوں کی جو تفسیر کی ہے۔ اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی مرزاقادیانی کی طرح ذو معنی تفاسیر کے حامی اور غیر محقق آدمی تھے۔
(مرزاغلام احمد ص۳۷)
خواجہ کمال الدین مرزائی ایک ملحد آدمی تھا وہ عیسائی ہونے والا ہی تھا کہ اس اثناء میں مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی مسیحیت کی ڈفلی بجانی شروع کی۔ چونکہ خواجہ کمال الدین کو مرزائیت، مسیحیت کا نعم البدل نظر آئی۔ اس لئے اس نے عیسائی ہونے کا خیال ترک کر کے مرزائیت قبول
کر لی۔ چنانچہ جریدۂ الفضل قادیان نے ۱۸؍نومبر ۱۹۱۶ء کی اشاعت میں لکھا کہ خواجہ کمال الدین صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر حضرت مسیح موعود کا وجود دنیا میں جلوۂ فروز نہ ہوا ہوتا تو میں زمانۂ دراز سے عیسائی ہوچکا ہوتا۔ ڈاکٹر ایچ ڈی گرس ودلڈ کا خیال ہے کہ مرزائیت اسلام اور مسیحیت کے بین بین ہے۔
(مرزاغلام احمد قادیانی مؤلفہ ڈاکٹر گرس ودلڈ ص۴۶)
لیکن ان اوراق کا پڑھنے والا یقین کرے گا کہ مرزائیت کی معجون بے شمار دوسرے اجزاء سے بھی مرکب ہے۔
آریوں سے ہمرنگی
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی نے آریہ دھرم کا صرف ایک اصول اپنے پنتھ میں داخل کیا۔ مگر اس لحاظ سے کہ وہی ایک عقیدہ جس کے لئے مرزائیت آریہ دھرم کی ممنون احسان ہے۔ آریہ مت کی جان اور اس کا بنیادی اصول ہے۔ اس لئے اس کو بمنزلہ کثیر کے سمجھنا چاہئے۔ قدیم وہ ہے جو ازلی ہو یعنی اس کی کوئی ابتداء نہ ہو۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ خالق کون ومکان عزااسمہ کے سوا کوئی چیز قدیم نہیں۔ آریہ لوگ خالق کرد گار کی طرح روح اور مادہ کو بھی قدیم اور ازلی مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلسلۂ کائنات قدیم بالنوع ہے اور خالق کے ساتھ مخلوق کا بھی کوئی نہ کوئی سلسلہ ازل سے برابر چلا آرہا ہے۔ مرزاقادیانی بھی اسی عقیدہ کا پیرو تھا۔ چنانچہ چشمہ معرفت میں لکھتا ہے۔ ’’چونکہ خداتعالیٰ کی صفات کبھی معطل نہیں رہتیں۔ اس لئے خداتعالیٰ کی مخلوق میں قدامت نوعی پائی جاتی ہے۔ یعنی مخلوق کے انواع میں سے کوئی نہ کوئی نوع قدیم سے موجود چلی آئی ہے۔ مگر شخصی قدامت باطل ہے۔‘‘
(چشمۂ معرفت ص۲۶۸، خزائن ج۳ ص۲۸۱)
ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ الحاد میں فلاسفہ سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ کیونکہ وہ صرف آسمان کو قدیم بالنوع خیال کرتے تھے۔ لیکن مرزا نے آریوں کی طرح اس کی تعمیم کر کے تمام مخلوقات کو قدیم بالنوع بتادیا۔ ڈاکٹر گرس وولڈ نے مرزائی جماعت اور آریہ سماج میں ایک عجیب مشابہت اور مطابقت بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’آریہ اور مرزائی دونوں فرقے پنجابی ہیں۔ مرزائی تو صوبہ پنجاب ہی کے باشندے ہیں اور آریہ سماج گو ابتداء بمبئی میں قائم ہوئی تھی۔ تاہم یہ بھی ایک طرح سے پنجابی جماعت ہے۔ کیونکہ اس کا زیادہ زور شور پنجاب ہی میں پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ فرقے علی گڑھ والوں (نیچریوں) اور برہموں سماج والوں سے متفاوت ہیں۔ کیونکہ ان کی پیدائش اور نشو ونمو کا مقام علی الترتیب صوبۂ متحدہ آگرہ اودھ اور بنگال ہے۔ جس طرح اسلام سے علی گڑھ والے (نیچری) اور مرزائی نکلے۔ اسی طرح ہندو دھرم سے بھی دو نئے فرقے یعنی آریہ
سماج اور برہمو سماج پیدا ہوئے۔ جس طرح نیچری آزاد خیال ہیں اور قادیانی محافظ دین ہونے کے مدعی ہیں۔ اسی طرح ہنود میں سے برہمو سماج کا رویہ آزاد نہ ہے اور آریہ سماج دھارک کتابوں کی حامی وحافظ ہونے کی مدعی ہے۔‘‘
(مرزاغلام احمد قادیانی ص۴۴،۴۵)
مرزائیت نے جنم لے کر اسلام کو فائدہ پہنچایا یا آریہ دھرم کو؟ اس کا فیصلہ خود ایک آریہ اخبار کے بیان سے ہوسکتا ہے۔ آریہ ویر نے اپنی ۱۴،۲۲؍مارچ ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں لکھا کہ اسلامی عقائد کو متزلزل کرنے میں احمدیت نے آریہ سماج کو ایسی امداد دی ہے کہ جو کام آریہ سماج صدیوں میں انجام دینے کے قابل ہوتا وہ احمدی جماعت کی جدوجہد نے برسوں میں کر دکھایا ہے۔ بہرحال آریہ سماج کو مرزاقادیانی اور ان کے مقلد ومرید مرزائیوں کا مشکور ہونا چاہئے۔
(قادیانی ہذیان ص۳۸)
مشبہہ، فلاسفہ اور اہل نجوم کے نقش قدم پر
مسیح قادیان نے اپنی عمر کا ایک حصہ علوم نظری کی تو نذر کیا تھا۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ: ’’میں نے گل علی شاہ بٹالوی سے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم حاصل کئے۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۶۲،۱۶۳، خزائن ج۱۳ ص۱۸۰،۱۸۱)
’’لیکن دینی تعلیم کسی سے حاصل نہ کی۔‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۳۵۹)
اگر منطق اور حکمت کے ساتھ دینی علوم کی بھی تحصیل کی ہوتی تو بڑی امید تھی کہ الحاد وزندقہ کی وادیوں میں سرگرداں ہونے کے بجائے اسے فلاح وہدایت کا راستہ مل جاتا ؎
اے کہ خواندی حکمت یونانیان
حکمت ایمانیاں راہم بخوان
دینی تعلیم سے بے بہرہ رہنے کا یہ اثر ہوا کہ جس غیر اسلامی مذہب کا جو عقیدہ بھی من کو بھایا اسی پر ریجھ گیا اور اس کی پروانہ کی کہ غیر اسلامی عقائد کا شغف اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دے گا۔ آپ نے پڑھا کہ اس نے کس طرح یہود، نصاریٰ اور آریوں کے عقیدے اختیار کر لئے۔ لیکن یہ معاملہ ابھی یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا۔ بلکہ آگے چل کر آپ کو یہ حقیقت اور بھی زیادہ عریاں نظر آئے گی کہ اس کے دل ودماغ کو کہیں قرار نہ تھا۔ اس کے قوائے ذہنی باطل قوتوں کے سامنے اسی طرح بے بس تھے۔ جس طرح مردہ غسال کے ہاتھ میں بے بس ہوتا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کے متعلق اس نے مجسمہ سے بھی کہیں بیہودہ اور مضحکہ خیز عقیدہ اختیار کر لیا تھا۔ چنانچہ لکھتا
ہے۔ ’’قیوم العلمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بیشمار ہاتھ، بیشمار پیر اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہاء عرض وطول رکھتا ہے اور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں اور کشش کا کام دے رہی ہیں۔ یہ وہی اعضاء ہیں جن کا دوسرے لفظوں میں نام عالم ہے۔‘‘
(توضیح مرام ص۷۵، خزائن ج۳ ص۹۰)
اور (توضیح المرام ص۳۰،خزائن ج۳ ص۶۶،۶۷) کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلاسفہ کی طرح ملائکہ کا بھی منکر تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ جبرئیل کا تعلق آفتاب سے ہے۔ اس بذات خود اور حقیقی معنی میں زمین پر نازل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے نزول سے جو شرع میں وارد ہے۔ اس کی تاثیر کا نزول مراد ہے اور جبرئیل اور دوسرے ملائکہ کی جو شکل وصورت انبیاء علیہم السلام دیکھتے تھے۔ وہ محض جبرئیل وغیرہ کی عکسی تصویر تھی۔ ملک الموت بذات خود زمین پر آکر قبض ارواح نہیں کرتا۔ بلکہ اسکی تاثیر سے روحیں قبض ہوتی ہیں۔ ملائکہ ستاروں کے ارواح میں وہ سیاروں کے لئے جاں کا حکم رکھتے ہیں۔ اس لئے نہ تو کبھی ان سے جدا ہوتے ہیں اور نہ ذرہ بھر آگے پیچھے حرکت کرسکتے ہیں۔ اس کے خلاف اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ آفتاب، ماہتاب، ستارے، افلاک اور طبائع خالق ارض وسماء کے مطیع فرمان ہیں۔ ان میں بذاتہا کوئی فعل وتاثیر موجود نہیں ہے۔ لیکن طبیبوں اور اہل نجوم کا خیال ہے کہ سبع سیارہ میں سے ہر ایک سیارہ مستقل بالذات ہے۔ تمام موجدات میں انہی کی حرکت مؤثر ہے۔ وہی نفع وضرر پہنچاتی ہے۔ وہی انسانی زندگی اور انسانی تہذیب وتمدن پر اثر انداز ہے۔ بعینہ یہی عقیدہ مرزاغلام احمد قادیانی کا تھا۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ ’’ستاروں میں تاثیرات ہیں اور اس انسان سے زیادہ کوئی دنیا میں جاہل نہیں… جو ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے… یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں… ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں۔ جیسا کہ حکمائے متقدمین نے لکھا ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑیہ ص۱۱۱ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۲۸۲،۲۸۳)
امام محمد غزالیؒ اس مشرکانہ خیال کی تردید میں لکھتے ہیں کہ فلاسفہ اور ان کے پیروؤں کی مثال اس چیونٹی کی سی ہے جو کاغذ پر چل رہی ہو اور دیکھے کہ کاغذ سیاہ ہو رہا ہے اور نقش بنتے جاتے ہیں۔ وہ نگاہ اٹھا کر سر قلم کو دیکھے اور خوش ہوکر کہے کہ میں نے اس فعل کی حقیقت معلوم کر لی کہ یہ
نقوش قلم کر رہا ہے۔ یہ مثال طبیعی کی ہے جو آخری درجہ کے محرک کے سوا کسی کو نہیں پہچانتا۔ پھر ایک اور چیونٹی جس کی بصارت ونگاہ پہلی سے زیادہ تیز ہو اس کے پاس آکر کہے کہ تجھے غلط فہمی ہوئی۔ میں تو اس قلم کو کسی کا مسخر دیکھتی ہوں اور محسوس کرتی ہوں کہ اس قلم کے سوا کوئی اور چیز ہے جو نقاشی کر رہی ہے۔ یہ جتلا کر دوسری چیونٹی نہایت خوش ہوکر کہے کہ میں نے اس کا راز پالیا کہ ہاتھ نقاشی کرتے ہیں نہ کہ قلم۔ کیونکہ قلم توہاتھ کا مسخر ہے۔ یہ مثال نجومی کی ہے کہ اس کی نظر طبیعی سے کسی قدر آگے تک پہنچی اور دیکھا کہ یہ طبائع ستاروں کے تابع فرمان ہیں۔ لیکن وہ ان درجوں پر جو اس سے اوپر ہیں نہ پہنچ سکا۔ پھر ایک تیسری چیونٹی جو قریب ہی موجود ہو ان کی گفتگو سن کر پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم دونوں غلطی پر ہو۔ ذرا نظر اٹھا کر اوپر کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ قلم اور ہاتھ کو حرکت دینے والی کوئی اور ہستی موجود ہے کہ ہاتھ اور قلم جس کے ارادے سے حرکت کر رہے ہیں۔ یہ مثال اہل اسلام کی ہے جو جملہ امور کا فاعل حقیقی اور متصرف بالذات خالق کردگار کو مانتے ہیں۔ ان کی نظر محسوسات وممکنات تک محدود نہیں۔ بلکہ وہ سب سے وراء الوراء اور بزرگ ترین ہستی کو ایجاد وتکوین کا باعث یقین کرتے ہیں کہ آفتاب ماہتاب اور ستارے جس کے حکم پر چل رہے ہیں۔ ’’والشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ‘‘ سورج چاند اور ستارے اسی کے حکم کے موافق کام پر لگے ہیں۔
باطنی فرقہ سے نسبت تلمذ
علماء نے لکھاہے کہ تاویل اس وقت جائز ہے جب کہ ظاہری معنی کے محال ہونے پر کوئی دلیل موجود ہو۔ تاویل کے متعلق قول فیصل یہ ہے کہ جس تاویل کی صحابہ کرامؓ نے صراحت نہیں کی اس کی ایجاد وابداع سے احتراز کیا جائے۔ ظاہر اس کلام کو کہتے ہیں جس کا مطلب صاف ظاہر ہو اور نص وہ ہے جو کسی کلام کی حقیقی غرض وغایت ہو۔ بلکہ بعض لوگ تو ہر کلام صریح وظاہر کو بھی نص ہی کہتے ہیں اور ظاہر اور نص دونوں کی مثال آیۃ ’’احل اللہ البیع وحرم الربوا‘‘ حق تعالیٰ نے بیع کو توحلال کیا اور سود کو حرام ٹھہرایا۔
یہ آیت بیع کی حلت اور سود کی حرمت پر بطور ظاہر کے دلالت کرتی ہے۔ مشرکین عرب کہتے تھے کہ بیع اور سود میں کچھ فرق نہیں۔ یہ آیت اس بات پر نص بھی ہے۔ کیونکہ بیع اور ربا میں حق تعالیٰ کو جو فرق بتانا مقصود تھا اس پر دلالت کرتی ہے۔ تمام علمائے اہل سنت وجماعت اس پر متفق ہیں کہ نصوص ظاہر پر محمول ہیں اور بغیر کسی انتہائی مجبوری کے ان کی تاویل جائز نہیں۔ خود
مرزاقادیانی نے اس اصول کو بارہا تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ: ’’تمام نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ کا یہ حق ہے کہ ان کے معنی ظاہر عبارت کے رو سے کئے جائیں اور ظاہر پر حکم کیا جائے جب تک کہ کوئی قرینہ صارفہ پیدا نہ ہو اور بغیر قرینہ قویہ صارفہ ہر گز خلاف ظاہر معنی نہ کئے جائیں۔‘‘
(تحفہ گولڑیہ ص۲۰، خزائن ج۱۷ ص۱۱۸)
اسی طرح لکھا کہ: ’’یہ معنی نصوص صریحہ بینہ قرآن میں سے ٹھہرگئے۔ جن سے انحراف کرنا الحاد ہوگا۔ کیونکہ مسلم ہے کہ نصوص کو ان کے ظواہر پر ہی محمول کیا جاتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۰، خزائن ج۳ ص۳۹۰)
غرض آیۃ وروایت کے ظاہر الفاظ سے جو مطلب سمجھ میں آتا ہے وہی معنی مراد ہوتے ہیں اور ظاہری معنی سے اعراض کرنا فرقہ باطنیہ اور ان کے ہم مشرب ملاحدہ کا معمول ہے۔ لیکن مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے دام افتادوں کی یہ حالت ہے کہ زبان سے تو یہی کہے جاتے ہیں کہ نصوص ظاہر پر محمول ہیں۔لیکن عملاً باطنیون کے بھی کان کاٹتے ہیں۔ باطنی فرقہ کی تاویلیں آپ عبداﷲ بن میمون اہوازی کے تذکرہ باب۱۷ میں پڑھ چکے ہیں۔ گو مرزاغلام احمد قادیانی فن تاویل کاری میں باطنیوں ہی کا شاگرد رشید تھا۔ لیکن مرزائی تحریفات کو دیکھ کر جو نیچے درج کی جاتی ہیں آپ کو معلوم ہوگا کہ شاگرد استاد سے بھی بڑھ گیا ہے۔
آیت وروایت یا ان کے الفاظ ومفہوم | مرزائی معنی ومفہوم |
دجال | بااقبال قومیں (ازالہ اوہام ص۱۴۷، خزائن ج۳ ص۱۷۴) |
دجال | شیطان۔ (ایام الصلح ص۶۱، خزائن ج۱۴ ص۲۹۶) |
دجال | وہ فرقہ جو کلام الٰہی میں تحریف کرتا ہے۔ (تحفہ گولڑویہ ص۸۵ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۲۳۳) |
دجال | شیطان کا اسم اعظم۔ (تحفہ گولڑویہ ص۱۰۴، خزائن ج۱۷ ص۲۶۹) |
دجال | سونا۔ (تفسیر سورۂ جمعہ از حکیم نور الدین ص۵۷) |
دجال | تجارتی کمپنیاں۔ (ایضاً) |
دجال | نہرورپورٹ۔ (الفضل ۳۰؍اکتوبر ۱۹۲۸ء) |
دجال | عیسائی اقوام۔ (تحریک احمدیت ص۱۲۱) |
دجال کانا ہوگا۔ | پادریوں میں دینی عقل نہیں۔ (ازالہ اوہام ص۵۰۱، خزائن ج۳ ص۳۶۹) |
دجال زنجیروں میں جکڑا ہے۔ | عہد رسالت میں پادریوں کو موانع پیش تھے۔ (ازالہ اوہام ص۴۸۳، خزائن ج۳ ص۳۵۹) |
دجال کے ساتھ اس کی جنت ودوزخ ہوگی۔ | عیسائی قوم نے تنعم کے اسباب مہیا کر لئے ہیں۔ (ازالہ اوہام ص۷۲۸، خزائن ج۳ ص۴۹۱) |
دجال مشرق کی طرف سے خروج کرے گا۔ | پادری ملک ہند میں ظاہر ہوئے۔ (ازالہ اوہام ص۷۲۹، خزائن ج۳ ص۴۹۲) |
عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) | مرزاغلام احمد قادیانی۔ (کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰) |
حضرت مریم بنت عمران (علیہما السلام) | مرزاغلام احمد بن غلام مرتضیٰ۔ (ایضاً) |
حضرت مسیح دجال کو قتل کریںگے۔ | مرزاقادیانی کے زمانہ میں دجالی بدعات دور ہو جائیںگی۔(ایام الصلح ص۶۱، خزائن ج۱۴ ص۲۹۶) |
دجال کا گدھا۔ | ریل گاڑی۔ (ازالہ اوہام ص۱۴۷، خزائن ج۳ ص۱۷۴) |
مسیح علیہ السلام دمشق کے سفید مشرقی مینار پر نازل ہوںگے۔ | مرزاقادیانی کی سکونتی جگہ قادیان کے مشرقی کنارہ پر ہے۔ (ازالہ اوہام ص۷۵ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۳۹) |
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دو زرد چادریں پہن رکھی ہوںگی۔ | مرزاقادیانی کی صحت اچھی نہیں۔ (ازالہ اوہام ص۸۱، خزائن ج۳ ص۱۴۲) مرزاقادیانی دو بیماریوں میں مبتلا ہے۔ (تذکرۃ الشہادتین ص۴۴، خزائن ج۲۰ ص۴۶) |
حضرت مسیح علیہ السلام خنزیر کو نابود کردیںگے۔ | مرزاقادیانی نے بے حیا لوگوں پر دلائل قاطعہ کا ہتھیار چلایا۔ (ازالہ اوہام ص۸۰ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۴۲) |
مسیح علیہ السلام آسمان سے نازل ہوںگے۔ | مرزاقادیانی کی سچائی کے اتنے دلائل جمع ہوئے کہ گویا وہ آسمان ہی سے اترا ہے۔ (تذکرۃ الشہادتین ص۳۷، خزائن ج۲۰ ص۳۹) |
عیسیٰ علیہ السلام صلیب کو توڑیں گے۔ | مرزاقادیانی کی بعثت پر صلیبی مذہب روبزوال ہوا۔ (ایام الصلح ص۵۲، خزائن ج۳ ص۲۸۵) |
عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ دو فرشتوں کے پروں پر ہوںگے۔ | مرزاقادیانی کا ہاتھ دو باطنی مؤکلوں کے سہارے پر ہے۔ (ازالہ اوہام ص۶۹۷، خزائن ج۳ ص۴۷۶) مرزاقادیانی کے ظہور کے ساتھ ملائکہ کے تصرفات شروع ہوگئے۔ (ایام الصلح ص۵۴، خزائن ج۱۴ ص۲۸۷) مرزامحمود قادیانی کے دو ساتھی۔ (الفضل ۲۵؍نومبر ۱۹۲۴ء) |
عیسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوگا کہ اپنے پیروؤں کو کوہ طور پر لے جائیں۔ | مرزاقادیانی کو حکم ہوا کہ مرزائیوں کو ساتھ لے کر پادریوں سے مقابلہ کرو۔ (چشمۂ معرفت ص۸۰، خزائن ج۲۳ ص۸۸) |
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جزیہ کا حکم منسوخ کردیںگے۔ | دل سچائی کی طرف مائل ہو جائیںگے۔ (توضیح مرام ص۱۳، خزائن ج۳ ص۵۷) |
حضرت مسیح علیہ السلام حضرت ختم المرسلینﷺ کے مقبرہ میں دفن ہوںگے۔ | مرزاقادیانی کو رسول اﷲ کا روحانی قرب نصیب ہوا۔ (حقیقت الوحی ص۳۱۳، خزائن ج۲۲ ص۳۲۶) |
حضرت مسیح علیہ السلام خنزیر کو نابود کریںگے۔ | لیکھرام مرزا کی بددعا سے ہلاک ہوا۔ (حقیقت الوحی ص۳۱۲، خزائن ج۲۲ ص۳۲۵) |
لعلم للساعۃ (عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی علامت ہیں) | عیسیٰ اسرائیلیوں کا آخری نبی تھا۔ (ملفوظات احمدیہ ص۱۸۶) |
’’یعیسیٰ انی متوفیک‘‘ اے عیسیٰ میں آپ کو اٹھانے والا ہوں۔ | مرزا کے مخالف مرزا کے قتل پر قادر نہ ہوںگے۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۵، خزائن ج۱۷ ص۷۴) |
اے عیسیٰ میں آپ کو اپنی طرف اٹھالوںگا۔ | اے مرزا! میں واضح دلائل سے تیرا مقرب ہونا ثابت کروں گا۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۵، خزائن ج۱۷ ص۷۴) |
میں آپ کے پیروؤں کو آپ کے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوںگا۔ | مرزائی دوسرے لوگوں پر غالب رہیںگے۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۵، خزائن ج۱۷ ص۷۴) |
مسیح علیہ السلام کے دم سے کافر مریںگے۔ | مخالف کسی بات میں مرزا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ (ازالہ اوہام ص۶۹۹، خزائن ج۳ ص۴۷۷) |
عیسیٰ علیہ السلام حاکم عادل کی حیثیت سے نازل ہوںگے۔ | مرزاقادیانی نے لوگوں کی غلطیاں ظاہر کر دی ہیں۔ (ازالہ اوہام ص۶۹۹، خزائن ج۳ ص۴۷۷) |
دمشق۔ | قادیان۔ (ازالہ اوہام ص۷۲، خزائن ج۳ ص۱۳۸) |
عیسیٰ علیہ السلام نبی ہوںگے۔ | مرزا محدث (فتح دال) ہے۔ |
خدا نے مسیح علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ | ان کا درجہ بلند کر دیا۔ |
مسیح علیہ السلام کے نزول کے وقت تمہارے امام (حضرت مہدی علیہ السلام) تم (امت محمدی) میں سے ہوںگے۔ | مرزاقادیانی امت محمدی میں پیدا ہوا۔ (توضیح المرام ص۱۱، خزائن ج۳ ص۵۶) مرزائی کو مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۸، خزائن ج۱۷ ص۶۴) |
پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ مہدی کا نام میرے نام سے اور ان کے والد کا نام میرے والد کے نام سے ملتا ہوگا۔ | مرزا مثیل مصطفیٰ ہے۔ (ازالہ اوہام ص۱۴۷، خزائن ج۳ ص۱۷۵) |
مہدی علیہ السلام روشن پیشانی ہوںگے۔ | مرزاقادیانی کی پیشانی میں نور صدق رکھا گیا۔ (کتاب البریہ ص۲۶۷، خزائن ج۱۳ ص۳۰۷) |
مہدی علیہ السلام بلند بینی ہوںگے۔ | مرزا اپنی کبریائی کے استغناء سے بلند مزاجی دکھائے گا۔ (ایضاً) |
’’واتخذوا من مقام ابراہیم مصلّٰے‘‘ مقام ابراہیم کی جگہ نماز پڑھا کرو۔ | تمام فرقوں میں سے صرف مرزائی فرقہ نجات پائے گا۔ (اربعین نمبر۳ ص۳۱،۳۲، خزائن ج۱۷ ص۴۲۱) |
’’ولقد نصرکم اﷲ ببدر‘‘ خدا نے تمہیں بدر کے میدان میں فتح دی۔ | مرزا کے زمانہ میں اسلام بدر کامل ہوگیا۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۸۴، خزائن ج۱۶ ص۲۷۵) خدا نے مرزا کو ظاہر کر کے مؤمنوں کی مدد کی۔ (اعجاز المسیح ص۱۸۳، خزائن ج۱۸ ص۱۸۷) |
’’ونفخ فی الصور فجمعناہم جمعاً‘‘ صور پھونکا جائے گا اور ہم سب کو ایک ایک کر کے جمع کر لیںگے۔ | مرزا نے اپنی پر ہیبت آواز لوگوں تک پہنچائی۔ (چشمۂ معرفت ص۸۰، خزائن ج۲۳ ص۸۸) |
’’واذ قتلتم نفساً فادرء تم فیہا‘‘ جب تم میں سے کسی نے ایک آدمی کا خون کر دیا پھر ایک دوسرے کے ذمے لگانے لگے۔ | یہ طریق عمل الترب (یعنی مسمریزم) کا ایک شعبہ تھا۔ (ازالہ اوہام ص۷۵۰، خزائن ج۳ ص۵۰۴) |
ابولہب | جس میں اشتعال کا مادہ زیادہ ہو۔ (تقاریر مسیح موعود ص۵) مولوی نذیر حسین دہلوی۔ (مواہب الرحمن ص۱۲۷، خزائن ج۱۹ ص۳۴۸) مولوی محمد حسین بٹالوی۔ (ضیاء الحق ص۴۶، خزائن ج۹ ص۲۹۴) |
’’حمالۃ الحطب‘‘ لکڑیاں اٹھانے والی عورت۔ | سخن چین عورت۔ (تقاریر مسیح موعود ص۵) |
قرب قیامت کو توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ | لوگ توبہ نہیں کریں گے۔ (ازالہ اوہام ص۵۱۷، خزائن ج۳ ص۳۷۷) |
قرب قیامت کو آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا۔ | اہل یورپ وامریکہ کو اسلام سے حصہ ملے گا۔ (ازالہ اوہام ص۵۱۶، خزائن ج۳ ص۳۷۷) مرزائی تبلیغ مرزائیت کے لئے یورپ گئے۔ (الفضل ۲۹؍جولائی ۱۹۲۴ء) |
رسول اﷲﷺ خاتم النبیین ہیں۔ | آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے۔ (حقیقت الوحی ص۹۷، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰) |
’’انا اعطیناک الکوثر‘‘ اے نبی ہم نے آپ کو حوض کوثر دیا۔ | مرزا کے زمانے میں دینی برکات کے چشمے پھوٹ نکلے۔ (ایک غلطی کا ازالہ ص۱۲، خزائن ج۱۸ ص۲۱۶) |
یاجوج وماجوج۔ | انگریز اور روس۔ (ازالہ ص۵۰۲، خزائن ج۳ ص۳۶۹) دجال۔ (تحریک احمدیت ص۱۱۹) |
دابۃ الارض۔ (زمین کا جانور) | علمائے اسلام۔ (ازالہ ص۵۰۲، خزائن ج۳ ص۳۶۹) طاعون کا کیڑا۔ (نزول المسیح ص۳۹، خزائن ج۱۸ ص۴۱۶) ریل گاڑی۔ (شمس بازغہ ص۱۲۱) |
دخان۔ (دھواں) | قحط عظیم۔ (ازالہ ص۵۱۳، خزائن ج۳ ص۳۷۵) |
قیامت کو قرآن آسمان پر آٹھایا جائے گا۔ | مرزاقادیانی کے زمانہ میں مسلمانوں کے دلوں پر قرآن خوانی کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ (ازالہ اوہام ص۷۲۲، خزائن ج۳ ص۴۸۹) |
حارث | مرزا غلام احمد قادیانی۔ (ازالہ اوہام ص۷۹ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۴۱) |
حارث آل محمدؐ کو تقویت دے گا۔ | مرزاقادیانی اسلام کی عزت قائم کرنے کے لئے کھڑا ہوا۔ (ازالہ ص۹۹، خزائن ج۳ ص۱۴۹) |
’’اذا زلزلت الارض زلزالہا‘‘ جب زمین کو زلزلہ کا سخت جھٹکا آئے گا۔ | مرزا کے وقت میں روحانی مردے زندہ ہونے لگے۔ (ازالہ ص۱۳۶، خزائن ج۳ ص۱۶۹) اہل ارض میں ایک تغیر عظیم آئے گا۔ (شہادۃ القرآن ص۱۸، خزائن ج۶ ص۳۱۴) |
زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی۔ | زمینی علوم اور زمینی مکر ظہور کرے گا۔ (شہادۃ القرآن ص۱۹، خزائن ج۶ ص۳۱۵) |
مسجد اقصیٰ | قادیان کی مرزائی مسجد۔ (تبلیغ رسالت ج۹ ص۴۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۷) |
پیغمبر علیہ السلام کو معراج ہوئی۔ | آپ کو حضرت آدم اور حضرت خلیل علیہم السلام کے کمالات حاصل ہوئے۔ (تبلیغ رسالت ج۹ ص۴۲، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۰) |
آنحضرتﷺ کو مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی گئی۔ | آپ کی ذات میں تمام اسرائیلی انبیاء کے کمالات موجود تھے۔ (تبلیغ رسالت ج۹ ص۴۲مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۰) |
آنحضرتﷺ کا قدم مسجد اقصیٰ تک گیا۔ | آنحضرتﷺ کی کشفی نظر مرزا کے زمانہ تک پہنچ گئی۔ (تبلیغ رسالت ج۹ ص۴۲، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۰) |
آنحضرتﷺ نے قاب قوسین کا مرتبہ پایا۔ | آپ صفات الٰہیہ کے مظہر ہیں۔ (تبلیغ رسالت ج۹ ص۴۲، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۰) |
دمشق کا مینار۔ | مسیح کا نور ظاہر ہونے کی جگہ۔ (تبلیغ رسالت ج۹ ص۴۳، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۲) |
قیامت کو صور پھونکا جائے گا۔ | کوئی مصلح پیدا ہوگا۔ (شہادۃ القرآن ص۱۵، خزائن ج۶ ص۳۱۱) |
’’لیلۃ القدر‘‘ | تاریکی کا زمانہ۔ (شہادۃ القرآن ص۱۷، خزائن ج۶ ص۳۱۳) |
’’واذ الارض مدت والقت ما فیہا وتخلت‘‘ جب زمین کی وسعت بڑھ جائے گی اور وہ اپنے اندر کی چیزوں کو باہر اگل کر خالی ہو جائے گی۔ | ایجادات وفنون زمین سے نکالے جائیںگے۔ (شہادۃ القرآن ص۲۱، خزائن ج۶ ص۳۱۷) |
’’واذالعشار عطلت‘‘ جب قریب الوضع گابھن اونٹنیوں کا بھی کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ | مرزاقادیانی کے زمانہ میں ریل جاری ہوگئی۔ (شہادۃ القرآن ص۲۲، خزائن ج۶ ص۳۱۸) |
’’واذ الصحف نشرت‘‘ جب حساب کتاب کے لئے دفتر اعمال کھولے جائیںگے۔ | مرزا کے وقت میں مطابع اور ڈآک خانے جاری ہوئے۔ (شہادۃ القرآن ص۲۲، خزائن ج۶ ص۳۱۸) |
’’واذ النجوم انکدرت‘‘ جب تارے گدلے ہو جائیںگے۔ | جب علماء کا نور اخلاص جاتا رہے گا۔ (شہادۃ القرآن ص۲۳، خزائن ج۶ ص۳۱۹) |
’’واذا الکواکب انتثرت‘‘ جب تارے جھڑ جائیںگے۔ | جب علمائے ربانی فوت ہوجائیں گے۔ (شہادۃ القرآن ص۲۳، خزائن ج۶ ص۳۱۹) |
’’اذا النفوس زوجت‘‘ جب (قیامت کو) ایک قسم کے لوگ اکٹھے کئے جائیںگے۔ | مرزا کے زمانہ میں بلاد بعیدہ کے نبی آدم کے دوستانہ تعلقات بڑھ گئے۔ (شہادۃ القرآن ص۲۲، خزائن ج۶ ص۳۱۸) |
’’اذا الوحوش حشرت‘‘ جب وحشی جانور گھبرا کر جمع ہو جائیںگے۔ | وحشی قوموں نے تہذیب کی طرف رجوع کیا۔ (شہادۃ القرآن ص۲۲، خزائن ج۶ ص۳۱۸) |
’’اذا البحار سجرت‘‘ جب زمین شق ہو جانے کے بعد سب شیریں اور شور سمندر باہم مل کر ایک ہو جائیںگے۔ | نہریں جاری ہونے سے زراعت کی کثرت ہوئی۔ (شہادۃ القرآن ص۲۲، خزائن ج۶ ص۳۱۸) |
’’اذاالجبال سیرت‘‘ جب پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیںگے۔ | پہاڑوں میں آدمیوں اور ریل کے چلنے کے لئے سڑکیں بن گئی ہیں۔ (شہادۃ القرآن ص۲۲، خزائن ج۶ ص۳۱۸) |
’’والشمس کورت‘‘ جب آفتاب بے نور ہو جائے گا۔ | دنیا پر جہالت اور معصیت کی ظلمت طاری ہوئی۔ (شہادۃ القرآن ص۲۳، خزائن ج۶ ص۳۱۹) |
’’السماء انفطرت‘‘ جب آسمان پھٹ جائے گا۔ | جب مرزا ظاہر ہوا۔ (شہادۃ القرآن ص۲۳، خزائن ج۶ ص۳۱۹) |
’’اذا الرسل اقتت‘‘ جب تمام رسول جمع کئے جائیںگے۔ | جب مرزا بھیجا گیا۔ (شہادۃ القرآن ص۲۳، خزائن ج۶ ص۳۱۹) |
ہامان۔ | مولوی نذیر حسین دہلوی۔ (نزول المسیح ص۱۵۲، خزائن ج۱۸ ص۵۳۰) |
’’یاہامان ابن لی صرحاً‘‘ فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک بلند عمارت بنوا۔ | مولوی نذیر حسین دہلوی نے مرزا کی تکفیر کا فتویٰ تیار کیا۔ (نزول المسیح ص۱۵۲، خزائن ج۱۸ ص۵۳۰) |
’’لیلۃ القدر خیر من الف شہر‘‘ لیلۃ القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ | مرزا کا صحابی اسی برس کے غیر صحابی سے بہتر ہے۔ (فتح اسلام ص۵۵، خزائن ج۳ ص۳۲) |
یہود۔ | علمائے اسلام۔ (ضیاء الحق ص۴۵، خزائن ج۹ ص۲۹۳) |
’’غیر المغضوب علیہم‘‘ ان لوگوں کا راستہ نہ دکھانا جن پر تیرا غضب نازل ہوا۔ | مسلمانوں میں سے یہودی کہلانے والوں نے مرزاقادیانی کی تکذیب کی۔ (تذکرۃ الشہادتین ص۱۴، خزائن ج۲۰ ص۱۶) |
بیت اﷲ۔ | مرزاغلام احمد قادیانی۔ (اربعین نمبر۴ ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۴۴۴) |
’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘‘ تم تمام امتوں سے بہترین امت ہو جو آج تک لوگوں کے لئے ظاہر ہوئیں۔ | اس امت کو دجال (پادریوں) سے مقابلہ پڑے گا۔ (تحفہ گولڑویہ ص۲۱، خزائن ج۱۷ ص۱۲۰) |
ابراہیم علیہ السلام کے بلانے پر چار پرندوں کے اجزاء جمع ہو کر ان کے پاس آگئے۔ | یہ عمل الترب یعنی مسمریزم کا ایک تجربہ تھا۔ (ازالہ اوہام ص۷۵۳، خزائن ج۳ ص۵۰۶) |
اے نبی! آپ ازواج (طاہرات) کی خوشنودی خاطر کے لئے ایسی چیز کو کیوں حرام قرار دیتے ہو جو اﷲ نے آپ پر حلال کر رکھی ہے؟ | مرزا کو پہلے مریم کا رتبہ ملا۔ پھر عیسیٰ کی روح پھونکی گئی۔ تب مریم سے عیسیٰ نکل آیا۔ (تعلیم المہدی ص۲۰) |
’’انی جاعل فی الارض خلیفۃ‘‘ میں زمین میں اپنا ایک نائب مقرر کروں گا۔ | مرزا کو روحانی نیابت عطاء ہوئی۔ (براہین احمدیہ ص۴۹۲،۴۹۳، خزائن ج۱ ص۵۴۵) |
’’حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج وہم من کل حدب ینسلون‘‘ یہاں کہ جب یاجوج ماجوج کھول دئیے جائیںگے تو وہ ہر بلندی کی طرف سے (مور وملخ کی طرح) امنڈ آئیں گے۔ | مرزا کو آدم سے لے کر اخیر تک تمام انبیاء کے نام دئیے گئے تاکہ وعدۂ رجعت پورا ہو۔ (نزول المسیح ص۵، خزائن ج۱۸ ص۳۸۳) |
حق تعالیٰ نے ملائکہ سے فرمایا کہ میں مٹی کا ایک بشر بنانے والا ہوں۔ سو جب اسے پیدا کر کے اس میں روح پھونک دوں تو اس کی طرف سربسجود ہو جانا۔ | ملائکہ کو حکم ہے کہ جب کوئی انسان بقا باﷲ کا درجہ حاصل کرے تو اس پر آسمانی انوار کے ساتھ اترا کرو اور اس پر صلوٰۃ بھیجا کرو۔ (توضیح مرام ص۴۹، خزائن ج۳ ص۷۶) |
’’وبالاٰخرۃ ہم یوقنون‘‘ اور قیامت کے دن پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ | اس وحی پر بھی یقین رکھتے ہیں جو آخری زمانہ میں مسیح موعود (مرزا) پر نازل ہوگی۔ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۱۴۸) |
’’حتیٰ اذا بلغ مغرب الشمس‘‘ جب ذوالقرنین آفتاب کے غروب ہونے کی جگہ پر پہنچے۔ | جب خلیفۃ ثانی محمود احمد نے یورپ کا سفر کیا۔ (الفضل مورخہ ۶؍اگست ۱۹۲۴ء) |
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہیں احمد نام ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں۔ (سورۂ صف) | یہ پیشین گوئی مرزاغلام احمد کے حق میں ہے۔ (ازالہ ص۶۷۳، خزائن ج۳ ص۴۶۳) |
’’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ الٰہی ہمیں یہود ونصاریٰ کا راستہ نہ دکھانا۔ | خدا نے مرزا کے مخالفوں کا نام عیسائی یہودی اور مشرک رکھ دیا ہے۔ (نزول المسیح ص۴، خزائن ج۱۸ ص۳۸۲) |
’’ولہ الحمد فی الاولیٰ والآخرۃ‘‘ اوّل وآخر میں خدا ہی کے لئے حمد ہے۔ | پہلی حمد سے مراد محمد رسول اﷲﷺ اور دوسری سے مرزاغلام احمد۔ (اعجاز المسیح ص۱۳۵، خزائن ج۱۸ ص۱۳۹) |
’’یوم الدین‘‘ قیامت کا دن۔ | مرزاغلام احمد۔ (اعجاز المسیح ص۱۴۳، خزائن ج۱۸ ص۱۴۷) |
’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ الٰہی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ | خدا وندا مجھے احمد بنادے۔ (اعجاز المسیح ص۱۶۳، خزائن ج۱۸ ص۱۶۷) |
شیطان رجیم۔ | دجال لعین۔ (اعجاز المسیح ص۸۳، خزائن ج۱۸ ص۸۵) |
رجل فارس۔ | مرزاغلام احمد قادیانی۔ |
کرعہ۔ | قادیان۔ (تذکرۃ الشہادتین ص۳۸، خزائن ج۲۰ ص۴۰) |
مسیح علیہ السلام نے باذن اﷲ مردے زندہ کئے۔ | یہ عمل مسمریزم اور شعبدہ بازی کی قسم سے تھا۔ (ازالہ ص۳۰۵، خزائن ج۳ ص۲۵۵) |
مسیح علیہ السلام کی مٹی کی چڑیاں۔ | وہ امی ونادان لوگ جن کو حضرت عیسیٰ نے اپنا رفیق بنایا۔ (ازالہ ص۳۰۴، خزائن ج۳ ص۲۵۵) |
مسیح علیہ السلام اندھوں اور جذامیوں اور برص کے مریضوں کو باذن اﷲ اچھے کرتے تھے۔ | یہ مریض تالاب میں غوطہ لگا کر اچھے ہوتے تھے۔ (ازالہ اوہام ص۳۲۱، خزائن ج۳ ص۲۶۳) |
جہاد فی سبیل اﷲ۔ | تریاقی ہوا کی زہریلی ہوا سے روحانی جنگ۔ (ایام الصلح ص۶۱، خزائن ج۱۴ ص۲۹۵) |
ابراہیم علیہ السلام پر آگ سرد ہوگئی۔ | جنگ اور عداوت کی آگ دھیمی ہوگئی۔ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۱۳۲) |
’’ویحبط نبی اﷲ عیسیٰ واصھابہ الیٰ الارض‘‘ اﷲ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیرو کوہ طور سے زمین پر اتریںگے۔ | مرزاغلام احمد کا خلیفہ مرزا محمود احمد اپنے ساتھیوں کے ساتھ لندن میں وارد ہوا۔ (الفضل ۲۵؍نومبر ۱۹۲۴ء) |
عیسیٰ علیہ السلام کے سر سے قطرے ٹپکتے ہوںگے۔ | مرزا معارف قرآنی کا مالک ہوگا۔ (شمس بازغہ ص۹۳) |
عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک دنیا میں قیام فرمارہیں گے۔ | مرزاغلام احمد نے چالیس سال کی عمر میں مجددیت کا دعویٰ کیا۔ (شمس بازغہ ص۹۶) |
مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ | جن لوگوں نے مرزا کی نماز جنازہ نہیں پڑھی وہ مسلمان نہیں رہے۔ (شمس بازغہ ص۹۶) |
عیسیٰ علیہ السلام باب لد کے پاس دجال کو قتل کریںگے۔ | باب لد بیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے۔ (ازالہ اوہام ص۲۲۰، خزائن ج۳ ص۲۰۹) لد بمعنی جھگڑالو مراد لاٹ پادری جسے مسیح موعود (مرزاقادیانی) ہلاک کر رہا ہے۔ (شمس بازغہ ص۱۱۸) |
’’ثم دنا فتدلّٰی‘‘ پھر فرشتہ آپ کے نزدیک آیا۔ اس کے بعد اور قریب ہوا۔ | آنحضرتﷺ اطاعت اور محبت الٰہی میں سراپا محو ہوئے۔ (براہین احمدیہ ص۴۹۳، خزائن ج۱ ص۵۸۶) |
ان اقتباسات سے آپ پر یہ حقیقت آفتاب کی طرح روشن ہوگئی کہ مرزائے قادیان نے کلام الٰہی اور احادیث خیر الانامﷺ کے الفاظ کو علیٰ حالہا رکھ کر کس طرح ان کے مفہوم کو اپنی نفسانی خواہشوں کا بازیچہ بنایا۔ سلطان محمود غزنویؒ نے ہندوستان کی سرزمین کو باطنی فتنہ سے پاک کیا تھا۔ لیکن قریباً ہزارسال کے بعد ایک اور باطنی فتنہ نے قادیان سے آسر نکالا۔ کاش وہ لوگ آنکھیں کھولتے جو مرزائیوں کو دائرہ اسلام میں داخل رکھنے پر مصر رہتے ہیں اور غور کرتے کہ کیا یہود نصاریٰ، آریہ یا دوسرے اعدائے اسلام بھی کبھی دین حنیف کو اتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جس قدر کہ مرزاقادیانی نے پہنچایا؟
خرمن مہدویہ سے خوشہ چینی
مندرجہ ذیل اقتباسات سے آپ کو معلوم ہوگا کہ مرزاقادیانی نے اپنے ذخیرۂ ایمان فروشی میں پیروان سید محمد جونپوری کے خرمن الحاد سے بھی بہت کچھ خوشہ چینی کی اور یہ کہ بہت سے امور میں آج کل کی مرزائیت مہدویت کا صحیح چربہ ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:
مہدوی اقوال | مرزائی اقوال |
مہدوی کہتے ہیں کہ خاتم النبیین سے یہ مراد ہے کہ کوئی پیغمبر صاحب شریعت جدیدہ آنحضرتﷺ کے بعد پیدا نہ ہوگا اور اگر نبی متبع شریعت محمدیہ کا پیدا ہو تو منافی آیۃ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ کا نہیں ہے اور سید محمد جونپوری پیغمبر متبع ہیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۸) | خاتم النبیین سے یہ مراد ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی پیدا نہیں ہوا اور کوئی غیر تشریعی نبی ظاہر ہو تو آیۃ خاتم النبیین کے منافی نہیں اور مرزاغلام احمد قادیانی غیر تشریعی نبی تھے۔ (ریویو آف ریلیجنز ج۲۱ ص۹) |
پنج فضائل وغیرہ کتب مہدویہ میں مذکور ہے کہ سید محمد جونپوری کا نواسہ سید محمود ملقب بہ حسین ولایت شہید کر بلا امام حسینؓ کے برابر ہے یا بہتر ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۳۳) | مسیح قادیان نے (نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷) میں لکھا۔ کربلائے است سیر ہر آنم صد حسین است درگریبانم۔ اور (نزول المسیح ص۴۴، خزائن ج۱۸ ص۴۲۳) پر لکھتا ہے۔ بعض نادان شیعہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ یہ شخص امام حسینؓ سے افضل ہو۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن اور احادیث اور تمام نبیوں کی شہادت سے مسیح موعود حسین سے افضل ہے۔ |
شواہد الولایت میں لکھا ہے کہ سید محمد جونپوری نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے بندہ کو جملہ موجودات کے احوال اس طرح معلوم کرادئیے ہیں کہ جیسے کوئی رائی کا دانہ ہاتھ میں رکھتا ہو اور ہرطرف پھرا کر کما حقہ پہچانے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۹) | مرزائے قادیان نے لکھا کہ مجھے علم غیب پر اس طرح قابو حاصل ہے۔ جس طرح سوار کو گھوڑے پر ہوتا ہے۔ (ضرورۃ الامام ص۱۳، خزائن ج۱۳ ص۴۸۳) |
مہدویہ کا اعتقاد ہے کہ سید محمد جونپوری وہی مہدی ہیں جن کے ظہور کی آنحضرتﷺ نے بشارۃ دی۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۶) | مسیح قادیان نے لکھا۔ اگر خدا کا پاک نبی اپنی پیش گوئیوں کے ذریعہ سے میری گواہی دیتا ہے تو اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو۔ (ایام الصلح ص۹۱، خزائن ج۱۴ ص۳۲۹) |
ایک دن میاں خوند میر (داماد وخلیفہ مہدی جونپوری) نے ایک سنگریزہ ہاتھ میں لے کر مہاجرین وخلفائے مہدی کے مجمع میں کہا۔ دیکھو یہ کیا ہے سب نے جواب دیا سنگریزہ ہے۔ کہا اس کو مہدی موعود علیہ السلام نے جواہر بے بہا کہا ہے۔ تمام مہاجرین وخلفاء نے کہا آمنا وصدقنا۔ ہمارے دیکھنے کا کیا اعتبار ہے کہ جو کوئی فرمان مہدی میں شک کرے یا تاویل کرے وہ آل مہدی میں سے نہیں ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۸) | مولوی نور الدین (خلیفہ اوّل) فرمایا کرتے تھے کہ یہ تو صرف نبوت کی بات ہے۔ میرا تو ایمان ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کریں اور قرآنی شریعت کو منسوخ قرار دیں تو بھی مجھے انکار نہ ہو۔ کیونکہ جب ہم نے آپ کو واقعی صادق اور منجانب اﷲ پایا ہے تو اب جو بھی آپ فرمائیںگے وہی حق ہوگا اور ہم سمجھ لیںگے کہ آیۃ خاتم النبیین کے کوئی اور معنی ہوںگے۔ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۸۱،۸۲) |
انصاف کرنا چاہئے کہ شیخ محمد جونپوری مدعی مہدویت نے کس قدر آیات قرآنیہ کے معنی احادیث صحیحہ اور تفسیرات صحابہ اور جمہور مفسرین کے خلاف کئے ہیں۔ چنانچہ سورۃ جمعہ میں ’’واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم‘‘ کو خاص اپنے فرقہ مہدویہ پر محمول کیا ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۲۴) | قرآن میں یہ پیش گوئی بڑی وضاحت سے آنے والے مسیح کی خبر دیتی ہے۔ ’’واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم وھو العزیز الحکیم‘‘ یعنی ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ وہ بھی اوّل تاریکی اور گمراہی میں ہوںگے اور علم اور حکمت اور یقین دور ہوںگے۔ تب خدا ان کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا۔ یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھائے گا۔ یہاں تک کہ ان کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا اور یہ مسیح موعود کا گروہ ہے۔ (ایام الصلح ص۷۰،۷۱، خزائن ج۱۴ ص۳۰۴) |
مہدی جونپوری لوگوں کو حج بیت اﷲ سے باوجود فرضیت اور استطاعت کے منع کیا کرتے تھے اور اپنے خلیفہ میاں دلاور کے حجرے کو بمنزلہ کعبہ کے ٹھہرایا تھا کہ اس کے تین طواف کعبۃ اﷲ کے سات طواف بلکہ تمامی ارکان حج کے قائم مقام ہے، قرار دیتے تھے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۰۸) | مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا۔ ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لئے اگر یہ بات پیش آجائے کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس سے انتظار ہے تو بموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جاسکتا۔ (تذکرۃ الشہادتین ص۴۷، خزائن ج۲۰ ص۴۹) ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح ہے۔ خدا تعالیٰ نے قادیان کو اس کام (حج) کے لئے مقرر کیا ہے۔ (برکات خلافت ص۵) |
سید محمد جونپوری اس بات کے مدعی تھے کہ وہ دار دنیا میں حق تعالیٰ کو عیاناً سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۴۹) | مسیح قادیان نے امام الزمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھا کہ خداتعالیٰ مجھ سے بہت قریب ہوجاتا ہے اور کسی قدر پر وہ اپنے پاک اور روشن چہرے سے جو نور محض ہے اتاردیتا ہے۔ (ضرورت الامام ص۱۳، خزائن ج۱۳ ص۴۸۳) |
حضرت سید محمد جونپوری کے اصحاب کا اس پر اتفاق ہے کہ محمدﷺ اور حضرت مہدی موعود (سید محمد جونپوری) ایک ذات ہیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۷۹) | مسیح قادیان نے لکھا جس شخص نے مجھ میں اور رسول اﷲﷺ میں کچھ فرق سمجھا نہ تو اس نے مجھے پہچانا اور نہ مجھے دیکھا۔ میرا وجود عین رسول اﷲﷺ کا وجود ہوگیا۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۹) |
مطلع الولایت میں لکھا ہے کہ اوّل بارہ برس تک امر الٰہی ہوتا رہا اور مہدی جونپوری وسوسۂ نفس وشیطان سمجھ کر (حکم خدا) ٹالتے رہے۔ آخر خطاب باعتاب ہوا کہ ہم روبرو سے فرماتے ہیں تو اس کو غیر اﷲ سے سمجھتا ہے۔ اس کے بعد بھی شیخ موصوف اپنی عدم لیاقت وغیرہ کا عذر پیش کر کے آٹھ برس اور ٹالتے رہے۔ بیس | مرزاغلام احمد قادیانی نے (اعجاز احمدی ص۸، خزائن ج۱۹ ص۱۱۴) میں لکھا کہ میں قریباً بارہ برس جو ایک زمانہ دراز ہے۔ بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑے شدومد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور (سیرۃ المہدی ص۳۱) میں ہے کہ وہ الہام جس میں مسیح موعود کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق کے لئے صریح طور پر |
برس کے بعد خطاب باعتاب ہوا کہ قضائے الٰہی جاری ہوچکی۔ اگر قبول کرے گا ماجور ہوگا۔ ورنہ مہجور ہوگا۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۴) | مامور کیاگیا مارچ ۱۸۸۲ء میں ہوا۔ لیکن (باوجود امر الٰہی کے) اس وقت سلسلۂ بیعت شروع نہیں فرمایا۔بلکہ مزید حکم تک توقف کیا۔ (حکم الٰہی کو ٹالتے رہے) چنانچہ جب فرمان الٰہی نازل ہوا تو آپ نے بیعت کے لئے ۱۸۸۸ء میں (یعنی پہلے حکم کے چھ سال بعد) بیعت لینی شروع کی۔ |
جو احادیث رسول خدا کی تفسیر قرآن اگرچہ کیسی ہی روایات صحیحہ سے مروی ہوں۔ لیکن مہدی جونپوری کے بیان واحوال سے مطابق کر کے دیکھیں۔ اگر مطابق ہوں تو صحیح ورنہ غلط جانیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۷) | مرزاقادیانی نے لکھا کہ جوشخص حکم ہوکر آیا ہے اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کرے۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۰، خزائن ج۱۷ ص۵۱) جو حدیث ہمارے الہام کے خلاف ہو اسے ہم ردی میں پھینک دیتے ہیں۔ (اعجاز احمدی ص۳۰، خزائن ج۱۹ ص۱۴۰) |
سید محمد جونپوری سوائے محمدﷺ کے ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، نوح، آدم(علیہم السلام)اور دوسرے تمام انبیاء ومرسلین سے افضل ہیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۷) | نبی کریم کے شاگردوں میں سے علاوہ بہت سے محدثوں کے ایک نے نبوت کا درجہ بھی پایا ہے اور نہ صرف نبی بنا بلکہ اپنے مطاع کے کمالات کو ظلی طور پر حاصل کر کے بعض اولوالعزم نبیوں سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ (حقیقت النبوۃ ص۲۵۷) |
مطلع الولایت میں لکھا ہے کہ سید محمد جونپوری نے فرمایا کہ بندے کے پاس آدم علیہ السلام سے لے کر اس دم تک تمام انبیاء ورسل اولیاء عظام اور تمام مؤمنین ومؤمنات کی روحوں کی تصحیح ہوتی ہے۔ کسی نے پوچھا میراں جی تصحیح کس کو کہتے ہیں۔ فرمایا جب ایک تاجدار کی جگہ دوسرا بادشاہ تخت نشین ہوتا ہے اور اپنے تمام | مرزائے قادیان نے کہا: خدا نے مجھے وہ بزرگی بخشی جو دنیا جہاں کے کسی اور شخص کو نہیں دی۔ (حقیقت الوحی ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰) میرا قدم اس منارہ پر ہے جہاں تمام بلندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ (خطبہ الہامیہ ص۳۵، خزائن ج۱۶ ص۷۰) اور لکھا کہ خدا نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے |
لشکروں کا معائنہ کرتا ہے۔ اسے کیا کہتے ہو؟ کہا بعض داخلہ وموجودات کہتے ہیں اور بعض عرض اور آمدہ نیامدہ بھی کہتے ہیں۔ فرمایا یہی تصحیح ہے۔ آج تین دن ہوئے بالکل فرصت نہیں۔ ہر نماز سے فارغ ہوتے ہی حکم ہوتا ہے کہ سید محمد خلوت میں جاؤ کہ بقیہ ارواح کا بھی جائزہ لے لو۔ انبیاء ومرسلین اور اولیاء واتقاء کی روحیں سب بندے کے حضور میں عرض کی جاتی ہیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۰،۲۴۷) | ہوں۔ اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر تقسیم کئے جائیں تو انکی ان سے نبوت ثابت ہوسکتی ہے۔ (چشمہ معرفت ص۳۱۷، خزائن ج۲۳ ص۳۳۲) اور لکھا کہ میں نور ہوں، مجدد مامور ہوں، عبدمنصور ہوں، مہدی موعود اور مسیح موعود ہوں۔ مجھے کسی کے ساتھ قیاس مت کرو اور نہ کسی دوسرے کو میرے ساتھ۔ میں مغز ہوں۔ جس کے ساتھ چھلکا نہیں اور روح ہوں جس کے ساتھ جسم نہیں اور سورج ہوں جس کو دھواں نہیں چھپا سکتا اور ایسا کوئی شخص تلاش کرو جو میری مانند ہو ہرگز نہیں پاؤ گے۔ (اقتباس از خطبہ الہامیہ ، خزائن ج۱۶ ص۵۱،۵۲) |
مطلع الولایت میں ہے کہ جو شخص مہدی جونپوری کے حضور میں مقبول ہوا وہ خدا کے ہاں بھی مقبول ہے اور جو یہاں مردود ہوا وہ عنداﷲ بھی مردود ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۰) | مسیح قادیان نے لکھا جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔ کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیش گوئی موجود ہے۔ (حقیقت الوحی ص۱۶۴، خزائن ج۲۲ ص۱۶۸) |
پنج فضائل میں ہے کہ ایک روز بعد نماز فجر سب (دینی) بھائی صف بستہ بیٹھے تھے۔ شاہ دلاور خلیفہ مہدی نے اپنی بیوی سے کہا دیکھو یہ وہ لوگ ہیں کہ رسول خدا نے جن کی نسبت فرمایا ہے کہ ہم اخوتی بمنزلتی یعنی وہ میرے بھائی ہیں جو میرے ہم رتبہ ہیں اور ایک روز دکھا کر کہا کہ مرسلین کے درجہ پر ہیں اور مرسل اسے کہتے ہیں کہ مہتر جبریل اس پر وحی لائیں اور بارہ صحابی تو اس سے بھی افضل تر ہیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۴۷) | مسیح قادیان نے لکھا: جو میری جماعت میں داخل ہوا درحقیقت میرے خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۸) |
پنج فضائل میں ہے کہ سید محمود نے اپنے والد سید محمد جونپوری سے روایت کی کہ میراں جی نے فرمایا کہ نہ میں کسی سے جنا گیا اور نہ میں نے کسی کو جنا اور ایک روز ان کے خلیفہ دلاور کے سامنے یوسف نام ایک شخص نے بوقت وعظ سورۂ اخلاص پڑھی۔ جب وہ لم یلد ولم یولد پر پہنچا تو دلاور نے کہا نہیں یلد ویولد یوسف نے کہا نہیں لم یلد ولم یولد۔ دلاور نے کہا یلد ویولد عبدالملک نے یوسف سے کہا بھائی خاموش رہو۔ میاں جی ولایت کا شرف بیان کرتے ہیں جو کہتے ہیں سوحق ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۴۹) | مسیح قادیان نے اپنا ایک کشف بدیں الفاظ بیان کیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بعینہ اﷲ ہوں اور میں نے یقین کر لیا کہ میں اﷲ ہی ہوں۔ اسی حال میں جبکہ میں بعینہ خدا تھا میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہم دنیا کا کوئی نیا نظام قائم کریں۔ یعنی نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں۔ پس میں نے پہلے زمین اور آسمان اجمالی شکل میں بنائے۔ جن میں کوئی ترتیب اور تفریق نہیں تھی۔ پھر میں نے انہیں تفریق کر دی اور جو ترتیب درست تھی اس کے موافق ان کو مرتب کردیا۔ اس وقت میں اپنے تئیں ایسا پاتا تھا کہ گویا میں ایسا کرنے پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا اور کہا: ’’انا زینا السماء الدنیا بمصابیح‘‘ پھر میں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی سے بناتے ہیں۔ (آئینہ کمالات ص۵۶۴،۵۶۵، خزائن ج۵ ص۵۶۴) |
پنج فضائل میں ہے کہ سید محمد جونپوری کے خلیفہ میاں نعمت نے کہا گو میں بندہ، کمینہ نعمت ہوں۔ لیکن کبھی میں خدا بن جاتا ہوں اور کبھی حق تعالیٰ مجھ سے فرماتا ہے۔ ’’انت منی وانا منک‘‘ تو مجھ سے پیدا ہوا اور میں تجھ سے پیدا ہوا۔ (ہدیہ مہدیہ ص۲۵۰) | مسیح قادیان کو الہام ہوا۔ ’’انت منی وانا منک‘‘ اے مرزا تو مجھ میں سے پیدا ہوا اور میں تجھ میں سے پیدا ہوا۔ (حقیقت الوحی ص۷۴، خزائن ج۲۲ ص۷۷) |
پنج فضائل میں ہے کہ سید محمد جونپوری کے خلیفہ شاہ نظام نے اپنا ایک طویل کشف ظاہر کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کبھی اﷲتعالیٰ اپنے کسی بندے کو سرفراز کرنا چاہتا ہے تو مجھ سے دریافت | مسیح قادیان نے لکھا: مجھے خدا کی طرف سے دنیا کو فنا کرنے اور پیدا کرنے کی طاقت دی گئی ہے۔ میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہ ہوگا۔ مگر وہی جو مجھ سے ہوگا اور میرے |
کرتا ہے کہ اگر تو کہے تو یہ درجہ اس کو دوں۔ ورنہ ہرگز نہ دوں۔ پس میں سفارش کر کے اس (ولی) کو درجہ دلا دیتا ہوں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۵۰) | عہد پر ہوگا۔ (کتاب خطبہ الہامیہ ص۳۵، خزائن ج۱۶ ص۷۰) |
مہدوی لوگ سید محمد جونپوری کو رسول صاحب شریعت جانتے ہیں اور ان کے بعض احکام کو شرع محمدی کے بعض احکام کا ناسخ سمجھتے ہیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۴) | مولوی ظہیر الدین مرزائی متوطن اروپ ضلع گجرانوالہ مرزاقادیانی کو صاحب شریعت رسول بتاتے ہوئے لکھتا ہے کہ مرزاقادیانی کے الہاموں میں لفظ رفق (نرمی) آیا ہے۔ جو آنحضرتﷺ کے واسطے قرآن میں نہیں آیا۔ (آئینہ کمالات) بلکہ مرزاقادیانی نے بھی بہت سے احکام اسلامی کو منسوخ قرار دیا اور شرح اس کی آگے آئے گی۔ |
شواہد کے تیرہویں باب میں لکھا ہے کہ مہدویت اور نبوت میں نام کا فرق ہے۔ کام اور مقصود ایک ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۴) ام العقائد لکھا کہ مہدی موعود فرماتے ہیں جو حکم میں بیان کرتا ہوں خدا کی طرف سے بامرخدا بیان کرتا ہوں جو کوئی ان احکام میں سے ایک حرف کا منکر ہوگا وہ عنداﷲ ماخوذ ہوگا۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۵) | مرزاقادیانی نے لکھا لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرتﷺ کے فیض سے علیحدہ ہوکر نبوت کا دعویٰ کرے۔ مگر یہ آنحضرتﷺ کی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت۔ (چشمۂ معرفت ص۳۲۵، خزائن ج۲۳ ص۳۴۱) |
سید جونپوری کو ہندی فارسی عربی اور گجراتی میں الہام ہوتے تھے۔ منجملہ ان کے یہ اردو فقرہ بھی وحی ہوا۔ اے سید محمد دعویٰ مہدویت کا کہلاتا ہوئے تو کہلا نہیں تو ظالماں میں کروںگا۔ چنانچہ شواہد الولایت کے باب ہفدہم میں لکھا ہے۔ واہ کیا فصیح وبلیغ فقرہ اترا کہ تمام اہل ہند | مرزاقادیانی کو بھی کئی زبانوں میں الہام ہوتے تھے۔ چند الہام ملاحظہ ہوں۔ خاکسار پیپر منٹ، پیٹ پھٹ گیا۔ جیتے جیتے جہنم میں چلاگیا۔ خدا قادیان میں نازل ہوگا۔ تہی دستان عشرت را۔ دس ازمائی اینمی، پریشن، بست ویک روپیہ آنے والے ہیں۔ قرآن خدا کی |
کو اس کی فصاحت نے حیران کر دیا۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۶)کو اس کی فصاحت نے حیران کر دیا۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۶) | کتاب اور میرے منہ کی باتیںہیں۔ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری، میں اس گھر سے جانے والی تھی۔ مگر تیرے واسطے رہ گئی۔ (البشریٰ، حقیقت الوحی) |
شواہد الولایت کے چھبیسویں باب میں لکھا ہے کہ سید محمد جونپوری نے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے اس عاجز کے ا وصاف پیغمبروں کے سامنے بیان فرماتے تھے۔ اس لئے اکثر پیغمبروں کو تمنا بھی کہ اس عاجز کی صحبت میں پہنچیں اور اکتیسویں باب میں لکھا ہے کہ اکثر انبیاء ومرسلین اولوالعزم دعاء مانگتے تھے کہ بار خدایا ہم کو امت محمدی میں کر کے مہدی کے گروہ میں کر دے۔ ان میں سے مہتر عیسیٰ کی دعاء قبول ہوئی کہ اب وہ آکر بہرہ یاب ہوںگے۔ چنانچہ دیوان مہدی کا مؤلف سید جونپوری کی نعت میں لکھتا ہے ؎ بل چہ عالم کہ از آدم وعیسیٰ زیحییٰ وخلیل از موسیٰ بودہ غایت بصحبتش ہوسے ہرچہ ہست ازولایت است ظہور نقطۂ آن دائرہ مفضلاں شد متمنائے ہمہ مرسلاں خواست زحق ہریکے ازاولین رب اجعلنی لمن الآخرین (ہدیہ مہدویہ ص۲۴۴) | مسیح قادیان نے لکھا۔ خدا نے مجھے آدم سے لے کر یسوع مسیح تک مظہر جمیع انبیاء قرار دیا۔ یعنی الف سے حرف یاتک اور پھر تکمیل دائرہ کی غرض سے الف آدم سے لے کر الف احمد تک صفت مظہریت کا خاتم بنایا۔ (نزول المسیح ص۲، خزائن ج۱۸ ص۳۸۰) اسی طرح لکھا ؎ آدمم نیز احمد مختار، دربرم جامۂ ہمہ ابرار، آنچہ داداست ہر نبی راجام، دادآں جام را مرابتمام، آن یقینے کہ بود عیسیٰ را، ہر کلامے کہ شدبروالقا، وان یقین کلیم برتوراۃ، واں یقین ہائے سید السادات، کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین، ہر کہ گوید دروغ ہست ولعین، زندہ شدہر نبی بآمدنم ہر رسولے نہاں بہ پیراہنم (نزول المسیح ص۹۹،۱۰۰، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷) مرزامحمود احمد نے کہا کہ مسیح موعود کا ذہنی ارتقاء، آنحضرتﷺ سے زیادہ تھا۔ اس زمانہ میں ذہنی ترقی زیادہ ہوئی ہے اور یہ جزوی فضیلت ہے جو مسیح موعود کو آنحضرتﷺ پر حاصل ہے۔ نبی کریمﷺ کی ذہنی استعدادوں کا پورا ظہور بوجہ تمدن کے نقص کے نہ ہوا اور ناقابلیت تھی۔ (ریویو جون ۱۹۲۹ء) |
پنج فضائل میں ہے کہ مہدی جونپوری قضائے حاجت کے لئے جاتے تھے۔ حاجی محمد فرہی نے پوچھا میراں جی خدام توآئے۔ لیکن عیسیٰ علیہ السلام کب آئیںگے۔ میراں نے ہاتھ پیچھے کر کے کہا کہ بندہ کے پیچھے آئیںگے۔ فوراً حاجی محمد فرہی کو عیسیٰ روح اﷲ کا مقام حاصل ہوگیا۔ میراں (سید جونپوری) کی زندگی بھر تو خاموش رہا۔ ان کی رحلت کے بعد سندھ میں نگر ٹھٹھہ کی طرف جاکر مسیحیت کا دعویٰ کر دیا۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۴۵) | مسیح قادیان نے لکھا۔ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کرسکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں وہ ہرگز نہ دکھلا سکتا۔ (کشتی نوح ص۵۶، خزائن ج۱۹ ص۶۰) اور لکھا کہ ؎ اینک منم بحسب بشارات آمدم عیسیٰ کجاست تابنہد پابمنبرم (درثمین فارسی) |
شواہد الولایت (مہدویوں کی ایک کتاب) کے چوبیسویں باب میں لکھا ہے کہ میراں (سید محمد جونپوری) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے ارواح اوّلین وآخرین کو حاضر کر کے فرمایا کہ اے سید محمد! ان سب ارواح کا پیشوا بننا قبول کر۔ میں نے اپنی عاجزی کا خیال کر کے عذر کیا۔ پھر یہ دیکھ کر کہ عنایت الٰہی میرے حال پر مبذول ہے۔ قبول کر لیا۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۴۵) | مرزاقادیانی نے لکھا۔ خدا عرش پر میری تعریف کرتا ہے۔ (انجام آتھم ص۵۵، خزائن ج۱۱ ص۵۵) میرے آنے سے پہلوں کے سورج ڈوب گئے۔ (خطبہ الہامیہ) زندہ شدہر نبی بآمدنم، ہر رسولے نہاں بہ پیرہنم (درثمین ص۱۶۰) جس طرح پہلی رات کا چاند کمی روشنی کی وجہ سے ہلال اور چودھویں کا کمال روشنی کی وجہ سے بدر کہلاتا ہے۔ اسی طرح رسول اﷲﷺ صدی اوّل میں ہلال اورمیں چودھویں صدی میں بدر منیر ہوں۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۷،۱۸۵، خزائن ج۱۶ ص۲۶۶تا۲۷۶) |
شواہد الولایت کے چھبیسویں باب میں لکھا ہے کہ دونوں محمدوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور فرق کرنے والے کو زیان ہے۔ یعنی جناب محمد مصطفیٰﷺ اور سید جونپوری برابر ہیں اور مہدویہ کی ایک کتاب جو ہرنامہ | مرزاقادیانی نے لکھا کہ جس شخص نے مجھ میں اور رسول اﷲﷺ میں کچھ فرق سمجھا نہ تو اس نے مجھے پہچانا اور نہ مجھے دیکھا۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۹) میرا وجود عین رسول اﷲﷺ کا وجود ہوگیا۔ (ایضاً) میں خود محمد اور |
میں لکھا ہے۔ (دوہرہ) نبی مہدی یک ذات جانو برابر اجتہاد عقلی سوں پاک ظاہر باطن تابع متبوع حق مانو کل ادراک مہدویوں کی ایک کتاب صراط مستقیم میں ہے کہ نبی ومہدی علیہما السلام یک ذات موصوف بجمیع صفات سرتاپا مسلمان ظاہر وباطن کلام اﷲ سوں برابر فرق کردن ہارے کافرمردود۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۴۵،۲۴۶) | احمد بن چکا ہوں۔ خود آنحضرتﷺ نے ہی اپنے دوسرے وجود میں اپنی نبوت سنبھال لی ہے اور محمد کی نبوت محمد ہی کے پاس رہی ہے۔ غیر کے پاس نہیں گئی۔ (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ، خزائن ج۱۸ ص۲۱۶) اﷲتعالیٰ کا وعدہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر خاتم النبیین کو مبعوث کرے گا۔ پس مسیح موعود خود رسول اﷲ تھے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ (کلمۃ الفصل ص۱۵۸) محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیان میں (بدر ج۲ ص۴۳) |
مہدویہ کا اعتقاد ہے کہ سید محمد جونپوری ہی مہدی موعود تھے۔ اب ان کے سوا کوئی مہدی وجود میں نہیں آئے گا اور جو شخص اس عقیدے پر نہیں وہ کافر ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۵۹) | وہ آخری مہدی جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں۔ (تذکرۃ الشہادتین ص۲، خزائن ج۲۰ ص۴) |
مہدویہ کہتے ہیں کہ سید جونپوری وہی مہدی ہے جس کی نسبت محمد بن سیرین نے فرمایا کہ وہ ابوبکر وعمرؓ سے بہتر اور نبیﷺ کے برابر ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ وہ بعض انبیاء علیہم السلام پر بھی فضیلت رکھتا ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۸۲) | مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا۔ میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت محمد ابن سیرین سے سوال کیاگیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر کے درجہ پر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر تو کیا وہ تو بعض انبیاء سے بھی بہتر ہے۔ (معیار الاخیار ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸) |
مہدویہ کہتے ہیں کہ نبوت ورسالت کسبی ہے کہ جب ریاضت ومشقت زیادہ کرتے ہیں تو حاصل ہے۔ غرض ان کے نزدیک شرط استحقاق زیادہ مشقت ہے۔ لیکن یہ اہل ایمان کا یہ مذہب نہیں بلکہ یہ فلاسفۂ یونان کا مشرب ہے۔ (ہدویہ مہدویہ ص۲۷۸) | میاں (محمود احمد قادیانی خلیفہ ثانی) نے زبانی گفتگو میں یہاں تک بھی فرمادیا کہ اگر میں کوشش کروں تو نبی بن سکتا ہوں اور اگر منشی فاضل جلال الدین (راوی) کوشش کریں تو وہ بھی نبی بن سکتے ہیں۔ (النبوۃ فی الاسلام ص۱۷۵) |
سید محمد جونپوری کے پیروؤں نے اپنی دعوت کی بنیاد امر معروف ونہی منکر پر رکھی۔ ان کے طریقہ کی پہلی شرط یہ تھی کہ ہر حالت میں احکام شریعت کی تبلیغ کریں۔ یہ لوگ جہاں کہیں شہروبازار میں کوئی نامشروع دیکھتے تو حق احتساب ادا کرتے۔ شیخ علائی مہدوی خاص طور پر آمر معروف ونہی کے منکر تھے۔ (منتخب التواریخ ص۱۰۷،۱۰۸) | مسٹر محمد علی میر جماعت مرزائیہ لاہور زیرعنوان احمدیت اشاعت اسلام کی تحریک ہے۔ لکھتے ہیں۔ احمدیت کا صحیح مفہوم صرف اسی قدر ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کی ایک زبردست تحریک ہے اور جس قدر اس کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ وہ صرف اسی عظیم الشان غرض کو حاصل کرنے کے ذرائع ہیں۔ یہاں تک کہ خود بانی تحریک کے دعاوی کو ماننا بھی بجائے خود ایک مقصد نہیں بلکہ تبلیغ اسلام کے اہم مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ (تحریک احمدیت ص۱۷۹) |
انصاف نامہ کے باب دوم میں لکھا ہے کہ سید محمد جونپوری نے فرمایا کہ میری مہدویت کا انکار کفر ہے اور ملا احمد خراسانی نے سید محمود فرزند مہدی جونپوری سے پوچھا کہ منکرین مہدی کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں کہا کافر کہتا ہوں۔ ملا احمد نے کہا اگر بالفرض میں انکار کروں کہا کہ اگر سلطان العارفین بایزید بسطامیؒ بھی مہدی کا انکار کرے تو وہ کافر ہو جائے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۹۸) | مسیح قادیان کو الہام ہوا جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا وہ جو تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور جو تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔ (اشتہار معیار الاخیار ۱۸۹۹ء، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۵) مرزاقادیانی نے ڈاکٹر عبدالحکیم خاں مرحوم پٹیالوی کو لکھا تھا۔ ’’خدائے تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ |
مسلمان نہیں ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۶۰۷) ’’جو شخص میرے مخالف ہیں ان کا نام عیسائی یہودی اور مشرک رکھا گیا۔‘‘ (نزول المسیح ص۴ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۳۸۲) | |
انصاف نامہ کے باب سوم میں لکھا ہے کہ مہدی جونپوری نے فرمایا کہ ہمارے منکروں کے پیچھے ہرگز نماز نہ پڑھی جائے۔ اگر پڑھی ہوں تو اعادہ کرے۔ (ہدیہ مہدویہ ۱۹۸) | مرزاغلام احمد قادیانی نے کہا کہ جو شخص ہمارا منکر ہے اس کے پیچھے ہرگز نماز نہ پڑھی جائے۔ (اربعین نمبر۳ ص۳۴ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷) اور (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۲۷۶) میں ہے کہ مسیح موعود نے فرمایا کہ جو شخص حج کو جائے وہ مکہ معظمہ اپنی جائے قیام پر ہی نماز پڑھ لے۔ |
انصاف نامہ کے باب چہارم میں لکھا ہے کہ شہر ٹھٹھہ میں میراں اپنی مہدویت کی تبلیغ کر رہے تھے۔ ایک شخص اپنے لڑکے کے لئے ملتجی دعاء ہوا۔ مہدی جونپوری نے جواب دیا کہ اگر حق تعالیٰ قوت دے تو میں (دعا کی جگہ) تم لوگوں سے جزیہ لوں اور اخوند میر خلیفہ مہدی کہا کرتا تھا کہ منکر لوگ حربی ہیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۹۸) | مرزامحمود احمد خلیفہ ثانی نے اپنی تقریر میں کہا۔ ’’جو شخص احمدی نہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ ہماری بھلائی کی صرف ایک صورت ہے کہ ہم تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھیں تاکہ ان پر غالب آنے کی کوشش کریں۔ شکاری (مرزائی) کو کبھی غافل نہ ہونا چاہئے اور اس امر کا برابر خیال رکھنا چاہئے کہ شکار (مسلمان) بھاگ نہ جائے یا ہم پر ہی حملہ نہ کردے۔‘‘ (الفضل ۲۵؍اپریل ۱۹۳۰ء) ’’ہمارے دشمن مسلمان جنگلوں کے سؤر ہیں اور ان کی عورتیںکتیوں سے بدتر ہیں۔‘‘ (نجم الہدیٰ ص۵۳، خزائن ج۱۴ ص۵۳) |
ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ ہر صدی کے سرپر ایک مجدد ہوگا اور اس کے شارحین اور نووی لکھتے ہیں کہ دسویں صدی کے سر پر مہدی مجدد ہوںگے اور سید جونپوری کی ذات بھی اسی تاریخ پر ہوئی۔ (ہدیہ مہدویہ ص۸۲) | مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’انبیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر مہر لگادی ہے کہ وہ (مہدی) چودھویں کے سر پر پیدا ہوگا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہوگا۔‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۲۳، خزائن ج۱۷ ص۳۷۱) |
سید جونپوری نے حکم دیا کہ کسی کے پاس قلیل مال ہویا کثیر اس کا دسواں حصہ خیرات کرنا اس پر فرض ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۸) | مرزاقادیانی نے حکم دیا کہ: ’’اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو اپنی جائیداد کے دسویں حصہ یا اس سے زیادہ کی وصیت کر دے۔‘‘ (الوصیۃ ص۱۷، خزائن ج۲۰ ص۳۱۹) |
کتب مہدویہ میں لکھا ہے کہ مہدی جونپوری کی عادت تھی کہ جب دعویٰ کرتے تھے تو الفاظ دعویٰ سے تاریخ نکلا کرتی تھی۔ چنانچہ یہاں ’’قال من اتبعنی فہو مؤمن‘‘ (فرمایا جس نے میرا اتباع کیا وہ مؤمن ہے) سے تاریخ ۹۰۱ھ کی عیان ہے۔ (ہدیہ مہدویہ ص۹۵) | مرزائے قادیان کی بھی عادت تھی کہ ایسے الفاظ کے عدد نکالنے کے در پے رہتے تھے۔ جن سے وہ کسی طرح سچے سمجھے جاسکیں۔ (ازالہ اوہام ص۱۸۶، خزائن ج۳ ص۱۸۹،۱۹۰) میں لکھا کہ غلام احمد قادیانی کے اعداد تیرہ سو ہیں اور صرف میرا ہی دعویٰ کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ میں ہی اس صدی میں مسیح ہوکر آیا ورنہ تم آسمان سے مسیح کو اتار لاؤ۔ |
مہدوی لوگ کلام الٰہی کی لفظی ومعنوی تحریف کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ اہل کتاب کا عموماً خصوصاً یہود کا شیوہ ہے اور ہر جگہ تحریف کرتے وقت کہتے ہیں کہ اس سے مراد الٰہی یہ ہے اور تفسیر بالرائے کفر ہے اور ظاہری مطلب کو چھوڑ کر اپنی طرف سے کوئی معنی گھڑ لینا فرقہ باطنیہ کا طریقہ ہے جو نصوص واحکام کو ظاہری معنی پر محمول نہیں سمجھتے۔ بلکہ جو جی میں آتا ہے قرآن وحدیث کے معنی بنالیتے ہیں۔ حالانکہ | مرزا تحریف وتبدیل میں بالکل فرقہ باطنیہ کا نقش ثانی تھا۔ چنانچہ لکھا کہ علماء کو روحانی کوچہ میں دخل ہی نہیں۔ یہودیوں کے علماء کی طرح ہر ایک بات کو جسمانی قالب میں ڈھالئے جاتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرا گروہ (باطنیہ اور مرزائی کا) بھی ہے جو آسمانی باتوں کو آسمانی قانون قدرت کے موافق سمجھنا چاہتے ہیں اور استعارات اور مجازات کے قائل ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ بہت تھوڑے ہیں۔ (ازالہ اوہام |
یہ فرقہ بالاتفاق گمراہ ہے اور لطف یہ ہے کہ فرقہ باطنیہ کو یہ لوگ بھی گمراہ سمجھتے ہیں۔ لیکن تحریف اور تاویل کاری میں ان سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۷۹) | ص۸۴، خزائن ج۳ ص۱۴۵) مسیح قادیان نے کہا میں قرآن کی غلطیاں نکالنے آیا ہوں۔ (ازالہ اوہام ص۷۰۹، خزائن ج۳ ص۴۸۲) |
قرآن حکیم میں ہے۔ اے پیغمبرؐ آپ (جلد یاد کر لینے کی غرض سے وحی کے ساتھ ہی) اپنی زبان کو حرکت نہ دیجئے۔ (کیونکہ آپ کے قلب میں) اس کا جمع کر دینا اور (آپ کی زبان سے) پڑھوا دینا ہمارا کام ہے سو جب جبریل پڑھا کریں تو آپ اس کی متابعت کیجئے۔ پھر (اس قرأۃ کے بعد) اس کا مطلب واضح کرنا بھی ہمارے ذمے ہے۔ جونپوری نے اس آیۃ کی تفسیر میں کہا کہ ثم تراخی کے لئے آتا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا واضح مطلب مہدی کی زبان سے ظاہر ہوگا۔ مہدی جونپوری کے بیان کا ماحصل یہ ہے کہ اے پیغمبر آپ بالفعل الفاظ قرآن کو تو جبریل سے سیکھ لیجئے۔ لیکن قرآن کا مطلب ومفہوم ہم نوسوسال کے بعد سید محمد جونپوری کی زبان سے ظاہر کریں گے اور تمام امت مرحومہ تو صدیوں تک محروم البیان اور خطائے معنوی میں مبتلا رہے گی۔ (ہدیہ مہدویہ ص۱۲۰،۱۲۳) | ’’کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے (جو شارع علیہ السلام اور صحابہؓ سے ارثاً پہنچی تھیں) مولوی لوگوں کو بہت خراب کیا ہے اور ان کے ولی اور دماغی قویٰ پر بہت برا اثر ان سے پڑا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۲۲، خزائن ج۳ ص۴۹۲) ’’میں قرآن شریف کے حقائق ومعارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں۔ کوئی نہیں جو اس میں میرا مقابلہ کر سکے۔‘‘ (ضرورۃ الامام ص۲۶، خزائن ج۱۳ ص۲۹۶) ’’یہ عاجز اسی کام کے لئے مامور ہے تاکہ غافلوں کے سمجھانے کے لئے قرآن شریف کی اصلی تعلیم پیش کی جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲، خزائن ج۳ ص۱۰۳) |
سید جونپوری نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے بندے (جونپوری) کے وصف پیغمبروں سے بیان فرمائے۔ اس لئے اکثر پیغمبروں کی تمنا تھی کہ میری صحبت میں پہنچیں۔ (ہدیہ مہدویہ ص۲۴۴) | مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا۔ ’’اے عزیزو! اس شخص (مرزاقادیانی) مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا۔ جس کے دیکھنے کے لئے بہت سے پیغمبروں نے خواہش کی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۲) |
بابی خوان الحاد سے ریزہ چینی
ہرچند کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے پیشرو مرزا علی محمد باب کے خوان الحاد سے بہت کچھ ریزہ چینی کی۔ لیکن اس نے اپنی عادت مستمرہ کے بموجب احسان شناسی کے فرض سے
ہمیشہ پہلو تہی کی۔ قادیانی تحریک کے متعلق علامہ سید محسن امین عاملی کا ایک مضمون مئی ۱۹۲۵ء میں ہندوستان کے بعض جرائد میں شائع ہوا تھا۔ جس میں صاحب ممدوح نے لکھا تھا کہ جب مرزاغلام احمد قادیانی کا اعجازی کلام دمشق میں پیش کیاگیا تو اہل دمشق نے صاف کہہ دیا کہ قادیان کا سارا علمی سرمایہ اور استدلال بابیوں کا سرقہ ہے اور یہ کہ اہل قادیان بابیوں کی نامکمل نقل ہیں۔ (کوکب ہند ۱۷؍مئی ۱۹۲۵ء) اور ڈاکٹڑ ایچ ڈی گرس وولڈ نے لکھا کہ جہاد سے دست بردار ہونا اور جس سلطنت کے زیر سایہ ہوں اس کے حق میں وفاداری اور خیرخواہی کا اظہار کرنا وغیرہ وغیرہ ایسے امور ہیں جن میں ایران کے موجودہ بابی اور ہندوستان کے مرزائی حددرجہ کی مشابہت اور موافقت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ مشابہت اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ خواہ مخواہ یہی خیال پیدا ہوتا ہے کہ دوسرا فرقہ پہلے کی نقل ہے۔ (مرزاغلام احمد قادیانی مؤلفہ ڈاکٹر گرس وولڈ ص۴۳) اب ذیل میں چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ مرزائیت اور بابیت ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں۔
مرزا علی محمد باب | مرزاغلام احمد قادیانی |
ملا محمد حسین بشرویہ نے کہا کہ مشرق اور مغرب کے تمام سلاطین ہمارے سامنے خاضع وسربسجود ہوںگے۔ (نقطۃ الکاف ص۱۶۲) | مرزاغلام احمد قادیانی نے ایک الہام کے رو سے پیشین گوئی کی کہ: ’’بادشاہ میرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۰۳) |
کتاب بیان میں پہلے سے وہ احکام ودستور العمل درج کر دئیے گئے ہیں۔ جن پر مستقبل کی بابی سلطنت کا عمل درآمد ہوگا اور بیان میں صریحاً مذکور ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ سارا ایران بابی ہو جائے گا اور وہاں کا آئین وقانون کتاب بیان کا قانون ہوگا۔ (مقدمہ نقطۃ الکاف) حضرات بابیہ باطنی وروحانی سلطنت کے حکمران ہیں اور ضرور ہے کہ ظاہری سلطنت بھی ان کو پہنچے گی گو ہزارسال ہی کیوں نہ لگ جائے۔ (نقطۃ الکاف ص۱۸۲،۱۸۳) | مسیح موعود نے کہا کہ ساری دنیا میں احمدیت ہی احمدیت پھیل جائے گی۔ (الفضل ۲۸؍اگست ۱۹۲۴ء) مرزامحمود احمد قادیانی نے کہا مجھے تو ان غیر احمدی مولویوں پر رحم آیا کرتا ہے۔ جب میں خیال کرتا ہوں کہ جب خداتعالیٰ احمدیوں کو حکومت دے گا۔ احمدی بادشاہ تختوں پر بیٹھیںگے۔ الفضل کے پرانے فائل نکال کر پیش ہوںگے تو اس وقت ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا۔ (الفضل ۱۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء) |
مرزا علی محمد باب نے کہا۔ محمد نقطۂ فرقان ہیں اور مرزا علی محمد باب نقطۂ بیان ہے اور پھر دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ (دیباچہ نقطۃ الکاف) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’خداتعالیٰ نے ہر ایک بات میں وجود محمدی میں مجھے داخل کر دیا۔ یہاں تک کہ یہ بھی نہ چاہا کہ یہ کہا جائے کہ میرا کوئی الگ نام ہو یا کوئی الگ قبر ہو۔‘‘ (نزول المسیح ص۳ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱) |
تمام انبیاء کرام امی تھے اور مرزاعلی محمد باب بھی امی تھا۔ (نقطۃ الکاف ص۱۰۹) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’آنے والے کا نام جو مہدی رکھاگیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن وحدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوگا۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۷، خزائن ج۱۴ ص۳۹۴) |
مرزاعلی محمد باب نے کہا۔ علماء علم وعمل میں مستور اور حب ریاست میں گرفتار ہیں۔ ان لوگوں نے گوش طلب کو نہ کھولا اور نظر انصاف سے نہ دیکھا۔ بلکہ اس کے برعکس رد واعراض کی زبان کھول دی۔ ان حرمان نصیبوں نے کہا جو کچھ کہا اور کیا جو کچھ کیا۔ (نقطۃ الکاف ص۱۰۸،۱۰۹) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’یہ مولوی لوگ اس بات کی شیخی مارتے ہیں کہ ہم بڑے متقی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ نفاق سے زندگی بسر کرنا انہوں نے کہاں سے سیکھ لیا ہے۔ کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے انہیں بہت خراب کیا ہے۔‘‘ (ازالہ ص۷۲۶ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۴۹۱) ’’یہ لوگ سچائی کے پکے دشمن ہیں۔ راہ راست کے جانی دشمن کی طرح مخالف ہیں۔‘‘ (کشتی نوح ص۷، خزائن ج۱۹ ص۸) ’’اور لکھا اے بدذات فرقۂ مولویان اے یہودی خصلت مولویو۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۱ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۱) |
مؤلف نقطۃ الکاف نے سید یحییٰ سے دریافت کیا کہ تمہارے والد محترم کا حضرت حق (مرزاعلی محمد باب) کے متعلق کیا خیال ہے؟ سید یحییٰ نے جواب دیا کہ وہ اس وقت تک | ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۰) ’’اگر کسی احمدی کے والدین غیر احمدی ہوں اور وہ مرجائیں تو ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔‘‘ (الفضل مورخہ |
اظہار توقف کر رہا ہے۔ اس کے بعد کہا میں ذات اقدس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میرا والد باوجود اس جلالت قدر کے اس ظہور باہر النور پر ایمان نہ لایا تو میں سبیل محبوب میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوںگا۔ (نقطۃ الکاف ص۱۲۲) | ۲؍مارچ ۱۹۱۵ء) ’’اگر کسی غیراحمدی کا چھوٹا بچہ بھی مرجائے تو اس کی نمازجنازہ نہ پڑھی جائے۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ج ص۳۸۳) ’’مسیح قادیانی کا ایک بیٹا فوت ہوگیا جو زبانی طور پر آپ کی تصدیق کرتا تھا۔ لیکن مسیح موعود نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ص۳۸۱) |
علماء سے مرزاعلی محمد باب نے کہا کہ قرآن کی ہر آیۃ میرے دعووں کی تصدیق کرتی ہے۔ (نقطۃ الکاف ص۱۳۴) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’میں زور سے دعویٰ کرتا ہوں کہ قرآن شریف میری سچائی کا گواہ ہے۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ص۴۲، خزائن ج۲۰ ص۴۴) |
مرزاعلی محمد باب نے اپنی کتاب بیان میں لکھا تم لوگ یہود کی تقلید نہ کرو۔ جنہوں نے مسیح علیہ السلام کو وار پر چڑھایا اور نصاریٰ کی بھی پیروی نہ کرو۔ جنہوں نے محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انکار کیا اور اہل اسلام کی بھی پیروی نہ کرو جو ہزارسال سے مہدی موعود کے انتظار میں سراپا شوق بنے بیٹے تھے۔ لیکن جب ظاہر ہوا تو اس سے انکار کر دیا۔ (دیباچہ نقطۃ الکاف) | مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’تیرھویں صدی میں وہ لوگ جابجا یہ وعظ کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں امام مہدی یا مسیح موعود آئے گا اور کم سے کم یہ کہ ایک بڑا مجدد پیدا ہوگا۔ لیکن جب چودھویں صدی کے سر پر وہ مجدد پیدا ہوا اور خدا تعالیٰ کے الہام نے اس کا نام مسیح موعودرکھا تو اس کی سخت تکذیب کی اور اگر خداتعالیٰ کے فضل سے گورنمنٹ برطانیہ کی اس ملک ہند میں سلطنت نہ ہوتی تو مدت سے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے معدوم کر دیتے۔‘‘ (ایام الصلح ص۲۶، خزائن ج۱۴ ص۲۵۵) |
حضرت قائم علیہ السلام (مرزاعلی محمد باب) کا ظہور بھی جناب محمد رسول اﷲ ہی کی رجعت ہے۔ (نقطۃ الکاف ص۲۷۳) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’میری طرف سے کوئی نیا دعویٰ نبوت اور رسالت کا نہیں۔ بلکہ میں نے محمدی نبوت کی چادر کو ہی ظلی طور پر اپنے اوپر لیا ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱) |
عارف باﷲ اور عبد منصف کے لئے تو سارا قرآن حضرت قائم علیہ السلام (مرزاعلی محمد باب) کی عظمت شان کی باطنی تفسیر ہے۔ (نقطۃ الکاف ص۲۷۳) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’میں زور سے دعویٰ کرتا ہوں کہ قرآن شریف میری سچائی کا گواہ ہے۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ص۴۲، خزائن ج۲۰ ص۴۴) |
اہل ظاہر کی ظاہری الفاظ پر نظر ہوتی ہے۔ اس لئے اس کے مصداق کو نہیں پاتے۔ حالانکہ وہاں اس کا باطن مراد ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باطن تک پہنچنا ہر بے سروپا کا کام نہیں۔ بلکہ یہ ایک جلیل القدر منصب ہے۔ جس کا مقام فرشتہ یا نبی یا مؤمن ممتحن سے قرین ہے اور آج کل مؤمن ممتحن ہی کہاں ملتا ہے اور یہ کس کی مجال ہے کہ اتنا بڑا دعویٰ کرے۔ پس ظہور مہدی علیہ السلام کی جو علامتیں حدیثوں میں مذکور ہیں۔ ان سے ان کا باطن مراد ہے اور چونکہ اکثر اہل آخرالزمان ظاہر میں واقع ہوئے ہیں۔ اس لئے حدیثوں کا مطلب نہیں سمجھتے۔ (نقطۃ الکاف ص۱۸۲،۱۸۳) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’لیکن مشکل تو یہ ہے کہ روحانی کوچہ میں ان (علماء) کو دخل ہی نہیں۔ یہودیوں کے علماء کی طرح ہر ایک بات کو جسمانی قالب میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرا گروہ (مرزائیوں کا) بھی ہے۔ جن کو خداتعالیٰ نے یہ بصیرت اور فراست عطاء کی ہے کہ وہ آسمانی باتوں کو آسمانی قانون قدرت کے موافق سمجھنا چاہتے ہیں اور استعارات اور مجازات کے قائل ہیں۔ لیکن افسوس کہ وہ لوگ بہت تھورے ہیں۔‘‘ (ازالہ ص۸۴، خزائن ج۳ ص۱۴۵) ہر ایک استعارہ کو حقیقت پر حمل کر کے اور ہر ایک مجاز کو واقعیت کا پیرایہ پہنا کر ان حدیثوں کو ایسے دشوار گذار راہ کی طرح بنایا گیا جس پر کسی محقق معقول پسند کا قدم نہ ٹھہر سکے۔ مسیح قادیان نے لکھا۔ میری کلام نے وہ معجزہ دکھلایا کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکا۔‘‘ (نزول المسیح ص۱۳۲، خزائن ۱۸ ص۵۱۰) |
مرزاعلی باب نے کہا میں تفسیر آیات واحادیث ائمہ اطہار کے ساتھ ظاہر ہوا ہوں۔ میرے کلمات فصاحت ظاہری وباطنی کو متضمن ہیں۔ پانچ ساعت میں بدوں تفکر وسکوت ہزار بیت لکھ دیتا ہوں۔ میرے سوا کسی کو یہ قدرت | مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا کہ: ’’خداتعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ میں فصیح بلیغ عربی میں تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے علم دیاگیا ہے کہ میرے بالمقابل بیٹھ کر کوئی دوسرا شخص خواہ وہ مولوی ہو یا گدی |
نہیںدی گئی۔ اگر کسی کو دعویٰ ہو کہ میری طرح وہ بھی امی ہے تو وہ میرے جیسا کلام پیش کرے۔ (نقطۃ الکاف ص۱۰۷) | نشین ایسی تفسیر ہرگز نہیں لکھ سکے گا۔‘‘ (نزول المسیح ص۵۳ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۴۳۱) |
ملا محمد علی محمد نے بیان کیا کہ مسلمانوں کا ہزار سال سے یہ عقیدہ چلا آتا تھا کہ ان کا جو امام غائب ہوگیا تھا وہ ظاہر ہوگا۔ کافر، مسلمین برابر منتظر تھے۔ اب ہم لوگ (بابی) کہتے ہیں کہ امام منتظر ظاہر ہوگیا ہے اور وہ مرزاعلی محمد باب ہے۔ لیکن یہ نادان ہماری تکذیب کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ احادیث ہی کو جو باب علیہ السلام کے حق میں وارد ہوئی ہیں۔ محک حق وباطل بنالو مگر کچھ التفات نہیں کرتے۔ ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ اچھا بابی حضرات کے علم وعمل تقویٰ وطہارت تدین توجہ الیٰ اﷲ زہد وایثار تبتل وانقطاع کو غیر بابیوں کے علم وعمل سے مقابلہ کر لو وہ کچھ جواب نہیں دیتے۔ ہم نے بارہا مباہلہ کی دعوت دی۔ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں مباہلہ جائز نہیں۔ (نقطۃ الکاف ص۲۳۰) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’دیکھو آسمان نے خسوف کسوف کے ساتھ گواہی دی اور تم نے پرواہ نہیں کی اور زمین نے غلبہ صلیب اور نجاست خوروں کے نمونہ سے گواہی دی اور تم نے پرواہ نہیں کی اور خداتعالیٰ کے پاک اور بزرگ نبی کی عظیم الشان پیش گوئیاں گواہوں کی طرح کھڑی ہوگئیں اور تم نے ذرہ التفات نہیں کی۔‘‘ (ایام الصلح ص۹۱، خزائن ج۱۴ ص۳۲۸) ’’بڑا افسوس ہے کہ خدا کی طاقت کھلے طور پر میری تائید میں آسمان سے نازل ہورہی ہے۔ مگر یہ لوگ شناخت نہیں کرتے۔ امت ضعیفہ کی ضرورت پر نظر نہیں ڈالتے۔ صلیبی غلبہ کا مشاہدہ نہیں کرتے اور ہر روز ارتداد کا گرم بازار دیکھ کر ان کے دل نہیں کانپتے اور جب ان کو کہا جائے کہ عین ضرورت کے وقت میں عین صدی کے سر پر غلبہ صلیب کے ایام میں یہ مجدد آیا تو کہتے ہیں کہ حدیثوں میں ہے کہ اس امت میں تیس دجال آئیںگے۔‘‘ (نزول المسیح ص۳۳، خزائن ج۱۸ ص۴۱۱) |
مرزا علی محمد باب کا دعویٰ تھا کہ میں رسول اﷲ کی رجعت اور مہدی موعود ہوں۔ ائمہ دین نے میرے حق میں بہت سی پیشین گوئیاں کی ہیں۔ (نقطۃ الکاف ص۱۵۲) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’ہاں میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا اور پھر خدا نے ان کی معرفت بڑھانے کے لئے منہاج نبوت پر اس قدر نشانات ظاہر کئے کہ لاکھوں |
انسان ان کے گواہ ہیں۔ (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۵۱) | |
امام جامع اصفہان نے مرزاعلی محمد باب سے سوال کیا کہ تمہاری حقیقت کی کیا دلیل ہے؟ کہنے لگا میری آیت صدق یہ ہے کہ میں ہر موضوع پر چھ ساعت میں ہزار بیت قلم برداشتہ بلاغور وفکر لکھ دیتا ہوں۔ امام نے کہا اچھا سورۂ کوثر کی تفسیر ہمارے سامنے لکھو۔ باب نے چھ ساعت میں ہزار بیت لکھ دئیے۔ امام جامع اصفہان کو یقین ہوگیا کہ یہ قوت منجانب اﷲ ہے۔ (نقطۃ الکاف ص۱۱۶) | مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’میں خاص طور پر خداتعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں۔ کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۵۶، خزائن ج۱۸ ص۴۳۴) ’’جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دینی خداتعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی استاد کے جاری کئے ہیں اور جس قدر میں نے باوجود نہ پڑھنے علم ادب کے بلاغت اور فصاحت کا نمونہ دکھایا ہے۔ اس کی کوئی نظیر نہیں۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۵۸، خزائن ج۱۴ ص۴۰۶) |
باب نے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے وقت انجیل کا درخت لگایا گیا تھا۔ اس وقت اسے کمال نصیب نہ ہوا تھا۔ البتہ محمد رسول اﷲﷺ کی بعثت پر اسے کمال نصیب ہوا۔ اسی طرح قرآن کا درخت تو رسول اﷲﷺ کے زمانہ میں لگا۔ لیکن اس کا کمال ۱۲۷۰ھ میں ہوا۔ (مقدمہ نقطۃ الکاف ص الاولیٰ) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’جس طرح پہلی رات کا چاند کمی روشنی کی وجہ سے ہلال اور چودھویں کا کمال روشنی کی وجہ سے بدر کہلاتا ہے۔ اسی طرح رسول اﷲﷺ صدی اوّل میں ہلال اور میں چودھویں صدی میں بدر منیر ہوں۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷۷،۱۸۵، خزائن ج۱۶ ص۲۶۶تا۲۷۶) |
باب کے احکام توحید وتفرید الٰہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تمام مال حضرت باب کے مال ہیں۔ دنیا کے تمام مرد باب کے غلام اور تمام عورتیں آپ کی لونڈیاں ہیں۔ جتنا مال چاہتے ہیں اتنا لوگوں کو عطاء فرماتے ہیں۔ جتنا چاہتے ہیں لے لیتے ہیں۔ ’’قل اللہم مالک الملک | مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا کہ: ’’ریل گاڑی بوجہ ملکیت اور قبضہ اور تصرف تام اور ایجاد دجالی گرو کے دجال کا گدھا کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب کہ مسیح موعود قاتل دجال ہے۔ یعنی روحانی طور پر تو بموجب حدیث ’’من قتل قتیلاً‘‘ کے جو کچھ دجال (انگریز اور دوسری یورپی |
تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء‘‘ (نقطۃ الکاف ص۱۵۱) | اقوام) کا ہے وہ سب مسیح کا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۴۰، خزائن ج۳ ص۵۵۵) |
مرزاعلی محمد باب نے کہا دنیا کے تمام ادیان وملل کو ایک ہوجانا چاہئے۔ ہماری یہ آرزو ہے کہ دنیا کے تمام لوگوں کو بھائی بھائی دیکھیں۔ (دیباچہ نقطۃ الکاف مؤلفہ پروفیسر براؤن) | ’’حضرت مسیح موعود دنیا کو دین واحد پر جمع کرنے کے لئے آئے تھے۔ آپ کے مقصد اتحاد میں لاشرقیہ ولا مغربیۃ کی شان ہے۔ وہاں مشرق مغرب بلکہ کل دنیا کو ایک دین پر جمع کرنا ہے۔‘‘ (الفضل ۲۷؍ستمبر ۱۹۲۴ء) |
مرزا علی محمد باب نے کہا میں جو کچھ کہتا ہوں۔ منجاب اﷲ کہتا ہوں میں حرام وحلال کے متعلق جو حکم کروں۔ اسے حکم الٰہی یقین کرو اور اس سے اعراض وانکار نہ کرو۔ (نقطۃ الکاف ص۱۰۹) | مسیح قادیان نے کہا میری شان میں ہے۔ ’’وما ینطق عن الہویٰ‘‘ یعنی مرزاقادیانی اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتا۔ بلکہ جو کچھ کہتا ہے۔ منجانب اﷲ کہتا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۲،ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۳۸۵) |
جب مرزاعلی محمد باب کے حواری ملا محمد علی کو گرفتار کر کے شہر بار فروش میں لے گئے تو وہ غضبناک شہریوں میں سے جس کسی کے پاس سے گزرتا۔ اسے ایک دو طمانچے یا گھونسے رسید کر دیتا۔ لوگوں نے اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ مدرسوں کے طلبہ آ آکر اس کے منہ پر تھوکتے اور گالیاں دیتے تھے۔ (نقطۃ الکاف ص۱۹۸) | ایک مرزائی نامہ نگار لکھتا ہے کہ: ’’ہم (مرزاقادیانی کے ساتھ) گنتی کے چند آدمی تھے۔ جدھر کو نکلتے لوگ اشارے کرتے اور گالیاں دیتے۔ ہمارے منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ دل بیٹھے جاتے تھے۔ نمازوںمیں چیخیں نکل نکل جاتی تھی۔ زمین درندوں کی طرح کھانے کو آتی تھی۔‘‘ (الفضل ۲۶؍مئی ۱۹۳۱ء) |
ایک بابی کا بیان ہے کہ راستہ میں آنجناب (مرزا علی محمد باب) سے بہت سے خوارق عادات (معجزات) ظہور میں آئے اور خدا کی قسم ہم نے تو خوارق عادات کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں۔ (نقطۃ الکاف ص۱۱۳) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’پنجاب کے لوگوں نے بڑی سنگدلی ظاہر کی۔ خدا کے کھلے کھلے نشان دیکھے اور انکار کیا۔ وہ نشان (معجزات) جو ملک میں ظاہر ہوئے جن کے ہزاروں بلکہ لاکھوں انسان گواہ ہیں جو ڈیڑھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں۔ لیکن اس ملک |
کے لوگ ابھی تک کہے جاتے ہیں کہ کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔‘‘(نزول المسیح ص۲۶، خزائن ج۱۸ ص۴۰۴) | |
مرزا علی محمدباب نے لوگوں کو اپنی مہدویت قبول کرنے کی دعوت دی۔ اپنے قاصد اسلامی بلاد کو روانہ کئے اور سلاطین عالم اور علماء ملل کے نام مراسلے ارسال کئے اور اطراف عالم میں نوشتے بھیجے۔ (نقطۃ الکاف ص۲۰۹،۲۱۲) | مسیح قادیان نے لکھا: ’’بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوت اسلام رجسٹری کراکر تمام قوموں کے پیشوائوں، امیروں اور والیان ملک کے نام روانہ کئے۔ شہزادہ ولی عہد اور وزیراعظم انگلستان گلیڈ سٹون اور جرمن وزیراعظم پرنس بسمارک کے نام بھی روانہ کئے۔ (ازالہ اوہام ص۱۱۴حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۵۶) |
ڈاکٹر گرس وولڈ نے لکھا ہے کہ: ’’ہندوستان کی احمدی جماعت کا کئی حیثیتوں سے بابی جماعت سے مقابلہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ مرزاعلی محمد باب کی دعوت کلہم چھ سال یعنی ۱۸۴۴ء سے ۱۸۵۰ء تک رہی اور یہ چھ برس بھی زیادہ تر قیدخانہ ہی میں گذرے اور آخر کار قتل کیاگیا اور حکومت ایران نے اس کے پیروؤں پر بڑی سختیاں کیں تاہم بابی جماعت اس قدر بڑھی کہ صرف ایران ہی کے اندر بابیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے دس لاکھ تک ہے اور لارڈ کرزن کے نزدیک ان کی تعداد دس لاکھ ہے۔‘‘
(مرزاغلام احمد قادیانی ص۴۲)
بہائی چشمۂ زندقہ سے سیرابی
جس طرح مرزاقادیانی نے مہدویوں اور بابیوں کے چبائے ہوئے نوالوں کو اپنے خوان الحاد کی زینت بنا لیا تھا۔ اسی طرح وہ بہائی سفرۂ زندقہ کے پس انداز سے بھی خوب شکم سیر ہوا۔ ڈاکٹر گرس وولڈ نے لکھا ہے کہ: ’’بہائیوں کے نزدیک بہاء اللہ ہی مسیح موعود ہے۔ جو اپنے وعدے کے موافق دوسری دفعہ آیا ہے اور چونکہ ان کے نزدیک رجعت ثانی ظہور اوّل سے زیادہ کامل ہوتی ہے۔ اس لئے بہاء اللہ مسیح علیہ السلام سے افضل واعلیٰ ہے۔ بہاء اللہ نے ۱۸۹۲ء میں وفات پائی اور اس کا بیٹا عبدالبہاء جو آج کل بہائی جماعت کا سرگروہ ہے۔ اس کا جانشین ہوا۔ عبدالبہاء اس بات کا مدعی ہے کہ میری ہستی وہی ہے جو میرے باپ کی تھی۔ اس لئے اس کے تمام القاب اور کمالات مجھ میں ودیعت ہیں۔ چنانچہ وہ عبدالبہاء اور بہاء اللہ دونوں ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے بھی اس کی دیکھا دیکھی دو گونہ دعویٰ کئے اور اس حیثیت سے عبدالبہاء اور مرزاغلام احمد
قادیانی کے دعوؤں میں بال بھرکا فرق نہیں۔ وہ احمد کا خادم (غلام احمد) بھی ہے اور ساتھ احمد موعود بھی بنتا ہے۔ ایران میں مرزا علی محمد باب نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور بہاء اللہ مسیح موعود ہونے کا دعویدار بنا۔ لیکن مرزاغلام احمد قادیانی نے باب اور بہاء دونوں کے عہدے لے کر مہدویت اور مسیحیت کا مشترکہ تاج اپنے سر پر رکھ لیا۔‘‘
(مرزاغلام احمد ص۴۳،۴۴)
بہرحال مرزاغلام احمد قادیانی نے بہاء اللہ کے بیانات ودعاوی سے جو اکتساب کیا وہ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
بہاء اﷲ | مرزاغلام احمد قادیانی |
اگر کوئی شخص خدا پر افتراء باندھے کسی اپنے کلام کو اس کی طرف منسوب کرے تو خدائے تعالیٰ اس کو جلد پکڑتا اور ہلاک کر دیتا ہے اور مہلت نہیں دیتا اور اس کے کلام کو زائل کر دیتا ہے۔ چنانچہ سورۂ مبارکہ حاقہ میں فرماتا ہے۔ ’’ولو تقول علینا بعض الاتاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین‘‘ اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑتے پھر ان کی رگ جان کاٹ ڈالتے۔ | ’’میرے دعویٰ الہام پر تیئس سال گذر گئے اور مفتری کو اس قدر مہلت نہیں دی جاتی۔ چنانچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ولو تقول علینا بعض الاتاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین‘‘ پھر کیا یہی خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذاب بیباک مفتری کو جلد نہ پکڑے۔ یہاں تک کہ اس افتراء پر تیئس سال سے زیادہ عرصہ گذر جائے۔ توریت اور قرآن دونوں گواہی دے رہے ہیں کہ خدا پر افتراء کرنے والا جلد تباہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱تا۷، خزائن ج۱۷ ص۴۳۰، انجام آتھم وغیرہ) |
حضرت بہاء اﷲ نے علمائے آخر الزمان کے متعلق فرمایا ہے۔ ’’شر تحت ادیم السماء منہم خرجت الفتنۃ والیہم تعود‘‘ علماء آسمان کے نیچے سب سے برے لوگ ہیں۔ انہی سے فتنے اٹھے اور انہی کی طرف عود کریںگے۔ (مقالہ سیاح ص۱۳۳،۱۷۱) | مرزاقادیانی نے لکھا کہ حدیث میں ہے کہ اس زمانہ کے مولوی اور محدث اور فقیہ ان تمام لوگوں سے بدتر ہوںگے جو روئے زمین پر رہتے ہوںگے۔ (تبلیغ رسالت ج۲ ص۱۳۱، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۵۳) ’’اے بدذات فرقۂ مولویان۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۱ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۱) |
خدا کے مظہر برابر آتے رہیںگے۔ کیونکہ فیض الٰہی کبھی معطل نہیں رہا اور نہ رہے گا۔ (مقدمۂ نقطۃ الکاف) قرآن پاک کی آیۃ ’’یابنی اٰدم اما یاتینکم رسول منکم یقصون علیکم اٰیاتی‘‘ میںصراحۃً مستقبل کی خبر دی ہے۔ کیونکہ لفظ یاتینکم کو نون تاکید سے مؤکد کیا ہے اور فرمایا کہ تمہارے پاس ضرور رسول آتے رہیںگے۔ (کتاب الفرائد ص۳۱۴) | سورۂ اعراف میں فرمایا ہے۔ ’’یابنی اٰدم امایاتینکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیاتی‘‘ اے بنی آدم تمہارے پاس ضرور رسول آتے رہیںگے۔ یہ آیۃ آنحضرت پر نازل ہوئی۔ اس میں تمام انسانوں کو مخاطب کیاگیا ہے۔ یہاں یہ نہیں لکھا کہ ہم نے گذشتہ زمانہ میں یہ کہا تھا۔ سب جگہ آنحضرت اور آپ کے بعد کے زمانہ کے لوگ مخاطب ہیں۔ غرض یاتینکم کا لفظ استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ |
’’وبالاٰخرۃ ہم یوقنون‘‘ یعنی اس وحی پر بھی یقین رکھتے ہیں جو اخیر زمانہ میں نازل ہوگی۔ (بحرالعرفان ص۱۴۱) | ’’وبالاٰخرۃ ہم یوقنون‘‘ اس وحی پربھی یقین رکھتے ہیں جو آخری زمانہ میں مسیح موعود (مرزاقادیانی) پر نازل ہوگی۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۱۸۲) |
صحیح بخاری کی حدیث میں ہے ۔ ’’ویضع الحرب‘‘ یعنی مسیح آکر جہاد کو برطرف کر دے گا۔ (عمدۃ التنقیح ص۸۸) بہاء اﷲ کے مرید جہاد کے قائل نہیں اور نہ کسی غازی مہدی پر ایمان رکھتے ہیں۔ (الحکم ۳۱؍مئی ۱۹۰۵ء ص۵) بہاء اﷲ نے قتل کو حرام لکھا ہے۔ (حضرت بہاء اﷲ کی تعلیمات ص۲۲) بہاء اﷲ نے لکھا ہے اے اہل توحید کمر ہمت مضبوط باندھ کر کوشش کرو کہ مذہبی لڑائی (جہاد) دنیا سے محو ہو جائے۔ حباً ﷲ اور بندگان خدا پر رحم کر کے اس امر خطیر پر قیام کرو اور اس نار عالم سوز سے خلق خدا کو نجات دو۔ (مقالہ سیاح ص۹۴) | اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسمان سے نور خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶،۲۷، خزائن ج۱۷ ص۷۷،۷۸) ’’میں کسی خونی مہدی اور خونی مسیح کے آنے کا منتظر نہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۲۳) |
’’لوکان الایمان معلقاً بالثریا‘‘ والی حدیث صاف طور پر حضرت بہاء اﷲ کے متعلق ہے۔ کیونکہ وہ ایران کے دارالسلطنت طہران کے قریب ایک موضع میں جس کا نام نور ہے پیدا ہوئے۔ موضع نور میں ایران کے کیانی بادشاہوں کی نسل میں ایک خاندان آباد تھا۔ بہاء اﷲ اسی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ (کوکب ہند) | میرا ایک الہام ہے۔ ’’خذوا التوحید التوحید یا ابناء الفارس‘‘ توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو۔ اے فارس کے بیٹو۔ دوسرا الہام یہ ہے۔ ’’لوکان الایمان معلقاً بالثریا لنالہ رجل من فارس‘‘ اگر ایمان ثریا سے بھی معلق ہوتا تو یہ مرد جو فارسی الاصل ہے (مرزاقادیانی) اس کو وہیں جاکر لے لیتا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۴۴،۱۴۵، خزائن ج۱۳ ص۱۶۲،۱۶۳) |
مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے اعوان پر نیچریت کا رنگ
جس طرح مرزاغلام احمد قادیانی مہدویت اور بابیت کی نالیوں سے سیراب ہوتا رہا تھا۔ اسی طرح اس نے نیچریت کے گھاٹ سے بھی دہریت کی پیاس بجھائی تھی۔ نیچری مذہب کے بانی سرسید احمد خان علی گڑھی تھے۔ یہ مذہب آج کل ہندوستان میں بالکل ناپید ہے۔ اس کے اکثر پیرو تو مرزائیت میں مدغم ہوگئے اور جو بچے وہ ۱۹۱۲ء،۱۹۱۳ء کی جنگ بلقان کے بعد ازسرنو اسلامی برادری میں داخل ہوگئے۔ نیچری مذہب بالکل دہریت سے ہمکنار تھا۔ مغیبات کا انکار اس مذہب کا اولین اصول تھا۔ وہ عقائد جو اہل اسلام کو مشرکین سے ممیز کرتے ہیں اور جن میں یہود ونصاریٰ بھی مسلمانوں سے متفق ہیں۔ مثلاً وحی، ملائکہ، نبوت، جنت ونار، حشر ونشر، معجزات وغیرہم نیچریوں کو قطعاً تسلیم نہ تھے۔ سرسید احمد خاں نے تفسیر القرآن کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں اسلامی تعلیمات کو موڑ توڑ کریہ کوشش کی تھی کہ اسلام کے ہر عقیدہ واصول کو الحاد دہریت کی قامت پر راست لایا جائے۔ سید احمد خاں نے نبوت اور وحی کو ایک ملکہ قرار دیا۔ چنانچہ لکھا کہ لوہار بھی اپنے فن کا پیغمبر ہے۔ شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے۔ ایک طبیب بھی فن طب کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے اور جس شخص میں اخلاق انسانی کی تعلیم وتربیت کا ملکہ بمقتضاء اس کی فطرت کے خدا سے عنایت ہوتا ہے وہ پیغمبر کہلاتا ہے۔ خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکہ کے جس کو زبان شرع میں جبریل کہتے ہیں اور کوئی ایلچی پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا۔ اس کا دل ہی وہ ایلچی ہوتا ہے جو خدا کے پاس پیغام لے جاتا ہے اور خدا کا پیغام لے کر آتا ہے۔ خود اسی کے دل سے فوارہ کی مانند وحی اٹھتی ہے اور خود اسی پر نازل ہوتی ہے۔ (تفسیر احمدی ج۱ ص۲۴) جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے ان کا کوئی اصل وجود نہیں ہوسکتا۔ بلکہ خدا کی بے انتہاء قدرتوں کے ظہور کو اور
ان قویٰ کو جو خدا نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کئے ہیں۔ ملک یا ملائکہ کہا ہے۔ جن میں سے ایک شیطان یا ابلیس بھی ہے۔ (تفسیر احمدی ج۱ ص۴۲) نبوت بطور ایک ایسے منصب کے نہیں ہے جیسے کہ کوئی بادشاہ کسی کو کوئی منصب دے دیتا ہے۔ بلکہ نبوت ایک فطری امر ہے اور جس کی فطرت میں خدا نے ملکۂ نبوت رکھا ہے۔ وہی نبی ہوتا ہے۔ (تفسیر احمدی ج۳ ص۴۹) مرزاغلام احمد قادیانی بھی سرسید احمد خاں سے استفادہ کرتا رہتا تھا اور میرا خیال ہے کہ ان کے باہم خط وکتابت بھی جاری تھی۔میاں بشیر احمد ایم اے بن مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ مراد بیگ جالندھری نے مرزاقادیانی سے بیان کیا کہ سرسید احمد خان نے توراۃ وانجیل کی تفسیر لکھی ہے۔ آپ ان سے خط وکتابت کریں۔ آپ پادریوں سے مباحثہ کرنا بہت پسند کرتے ہیں۔ اس معاملہ میں آپ کو ان سے بہت مدد ملے گی۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے سرسید کو عربی میں خط لکھا۔ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۱۳۸) مرزاغلام احمد قادیانی نے مرزائیت کا ڈھونگ رچانے کے بعد بجز ان عقائد کے جن کے بغیر تقدس کی دکانداری کسی طرح چل نہیں سکتی تھی۔ تمام نیچری اصول کو بحال رکھا۔ میاں محمد علی امیر جماعت مرزائیہ لاہور نے مرزائیت کو نیچریت سے ممیز کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’عیسائی مؤرخین نے احمدیت کو اسلام پر یورپین خیالات کے اثر کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ مگر ہندوستان کی تاریخ حاضرہ میں ہم کو دو الگ الگ تحریکات نظر آتی ہیں۔ یعنی ایک وہ تحریک جس کا تعلق سرسید احمد خاں سے ہے اور دوسری وہ تحریک جس کا تعلق مرزاغلام احمد قادیانی سے ہے۔ جہاں تک سرسید کے مذہبی خیالات کا سوال ہے اور جن کو تحقیر کے رنگ میں نیچریت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان دونوں تحریکوں میں ایک بین فرق نظر آتا ہے۔ سرسید نے بھی اسلام کے مسائل کو معقولی (یعنی عقلی) رنگ میں حل کرنے کی کوشش کی اور مرزاقادیانی نے بھی ان مسائل کا معقولی رنگ ہی پیش کیا ہے۔ مگر سرسید کی مذہبی تحریک نے یورپین خیالات کی غلامی کارنگ اختیار کر لیا اور مرزاغلام احمد قادیانی کی تحریک یورپ کو اسلام کے ماتحت لانے کے لئے تھی۔‘‘ (تحریک احمدیت ص۲۱۱) مگر مرزا کی تحریک یورپ کو اسلام کے ماتحت کہاں تک لے آئی؟ اس کی تائید ان پچاس الماریوں سے ہو سکتی ہے جو مرزاقادیانی نے اپنے یورپی حکام کی خوشامد میں تالیف کیں۔ میر عباس علی لدھیانوی نے جو مرزائیت کے سب سے پہلے غاشیہ بردار تھے۔ مرزائیت اور نیچریت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا تھا۔ ’’اس وقت جو فیصلہ میری طبیعت نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی صاف اور قطعی طور پر نیچری ہیں۔ معجزات انبیاء وکرامات اولیاء سے مطلق انکار رکھتے ہیں۔ معجزات اور کرامات کو مسمریزم، قیافہ، قواعد طب یا دستکاری پر مبنی جانتے ہیں۔ ان کے نزدیک خرق عادت جس کو سب
اہل اسلام خصوصاً اہل تصوف نے مانا ہے کوئی چیز نہیں۔ سید احمد خاں اور مرزاغلام احمد قادیانی کی نیچریت میں بجز اس کے اور کوئی فرق نہیں کہ وہ بلباس جاکٹ وپتلون ہیں اور یہ بلباس جبہ دوستار (اشاعۃ السنہ) چونکہ سرسید نے اپنے الحاد وزندقہ کی دکان کو خوب آراستہ کر رکھا تھا۔ اس لئے نہ صرف خود مرزاقادیانی کا بلکہ اس کے پیروؤں کا بھی یہ معمول تھا کہ ان ملحدانہ عقائد کی تشریحات کو جو مرزاقادیانی نے سرسید سے لئے تھے سرسید کی کتابوں سے نقل کر کے اپنا لیا کرتے تھے اور اس خوف سے کہ لوگ نیچریت سے مطعون نہ کریں۔ ان مضامین کو سرسید کی طرف منسوب کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ لاہور کے ماہوار مسیحی رسالہ تجلی نے لکھا تھا کہ اس وقت دو قادیانی رسالے ہمارے سامنے ہیں۔ (تشحیذ الاذہان ماہ دسمبر۱۹۰۷ء، ریویو آف ریلیجنز ماہ فروری ۱۹۰۸ء) جن میں بلا اعتراف اور بلا حوالہ وہ ساری بحث سرقہ کر لی گئی جو معجزات مسیح پر سرسید نے اپنی تفسیر میں کی تھی وہی دلائل ہیں۔ وہی اقتباسات، وہی آیات، وہی تاویلات، وہی نتائج ہیں۔ ہاں بدتمیزی وبے شعوری جو اس طائفہ کا خاصہ ہے مزید براں ہے۔ سرسید کی آزاد خیالیوں نے مرزاقادیانی کے لئے اس کا مجوزہ راستہ بہت آسان کر دیا تھا۔ سرسید نے واقعۂ صلیب کاجو نقشہ اپنی تفسیر (ج۲ ص۳۸) میں پیش کیا مرزاقادیانی نے اسی پر وحی الٰہی کا رنگ چڑھا کر اس پر بڑی بڑی خیالی عمارتیں تعمیر کرنی شروع کر دیں۔ جب تک مرزاقادیانی نے یہ تحریریں نہیں پڑھی تھیں۔ براہین کے حصہ چہارم تک برابر حیات مسیح علیہ السلام کا قائل رہا۔ لیکن جب نیچریت کا رنگ چڑھنا شروع ہوا یا یوں کہو کہ نیچریت کا یہ مسئلہ مفید مطلب نظر آیا تو نہ صرف اپنے سابقہ الہامات کے گلے پر چھری چلانی شروع کر دی بلکہ عقیدۂ حیات مسیح علیہ السلام کو (معاذ اللہ) شرک بتانے لگا۔ جس کے یہ معنی تھے کہ وہ پچاس سال کی عمر تک باوجود صاحب وحی ہونے کے مشرک ہی چلا آتا تھا۔ جن مسئلوں میں مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے پیرو نیچریت کے زیربار احسان ہیں۔ ان میں سے چند مسائل ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
سرسید احمد خاں | مرزاقادیانی اور مرزائی |
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیماروں پر دم ڈالتے اور برکت دیتے تھے۔ لوگ ان کے ہاتھوں کو برکت لینے کے لئے چومتے تھے۔ یہ خیال غلط ہے کہ اس طرح کرنے سے اندھے آنکھوں والے اور کوڑھی اچھے ہو جاتے تھے۔ خدا نے | ’’مسیح کے ایسے عجائب کاموں میں اس کو طاقت بخشی گئی تھی۔ وہ ایک فطری طاقت تھی جو ہر ایک فرد بشر کی فطرت میں مودع ہے۔ مسیح سے اس کی کچھ خصوصیت نہیں۔ چنانچہ اس باب کا تجربہ اس زمانہ میں ہورہا ہے۔ حضرت مسیح کے |
انسان میں ایک ایسی قوت رکھی ہے جو دوسرے انسان میں اور دوسرے انسان کے خیال میں اثر کرتی ہے۔ اس سے ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں جو نہایت عجیب وغریب معلوم ہوتے ہیں۔ | مسمریزم سے وہ مردے جو زندہ ہوتے یعنی وہ قریب المرگ آدمی جو گویا نئے سرے سے زندہ ہوتے تھے۔ وہ بلاتوقف چند منٹ میں مرجاتے تھے۔ کیونکہ بذریعہ عمل الترب |
اسی قوت پر اس زمانہ میں ان علوم کی بنیاد قائم ہوئی ہے۔ جومسمریزم اور اسپریچو ایلزم کے نام سے مشہور ہے۔ مگر جب کہ وہ ایک قوت ہے۔ قوائے انسانی میں سے اور ہر ایک انسان میں بالقوہ موجوہ ہے تو اس کا کسی انسان سے ظاہر ہونا معجزہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ تو فطرت انسانی میں سے انسان کی ایک فطرت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تمام لوگوں کو کوڑھی ہوں یا اندھے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کی منادی کی تھی۔ یہی ان کا کوڑھیوں اور اندھوں کو اچھا کرنا تھا۔ (تفسیر احمدی ج۲ ص۱۶۰،۱۶۳) | (مسمریزم) روح کی گرمی اور زندگی صرف عارضی طور پر ان میں پیدا ہو جاتی تھی۔ عمل الترب یعنی مسمریزم میں مسیح بھی کسی درجے تک مشق رکھتے تھے۔ سلب امراض کرنا اپنی روح کی گرمی جماد میں ڈالنا درحقیقت یہ سب عمل مسمریزم کی شاخیں ہیں۔ ہر ایک زمانے میں ایسے لوگ ہوتے رہتے ہیں اور اب بھی موجود ہیں جو اس روحانی عمل کے ذریعہ سے سلب امراض کرتے رہتے تھے اور مفلوج ونیز برص ومدقوق وغیرہ ان کی توجہ سے اچھے ہوتے رہتے تھے۔‘‘ (ازالہ ص۳۰۷تا۳۱۳، خزائن ج۳ ص۲۵۶تا۲۵۹) |
یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پھونکنے کے بعد درحقیقت وہ پرندوں کی مورتیں جو مٹی سے بناتے تھے جاندار ہو جاتی تھیں اور اڑنے بھی لگتی تھیں۔ یہ کوئی امر وقوعی نہ تھا۔ بلکہ صرف حضرت مسیح کا خیال زمانۂ طفولیت میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں تھا۔ مورتیں بناکر پوچھنے والے سے کہتے تھے کہ میرے پھونکنے سے وہ پرند ہو جائیںگے۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ کہنا ایسا ہی تھا جیسے | ’’کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پروازہ کرتا ہے۔ اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو۔ کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز عمل الترب سے |
کہ بچے اپنے کھیلنے میں بمقتضائے عمر اس قسم کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ (تفسیر احمدی ج۲ ص۱۵۲،۱۵۶) | بطور لہوولعب ظہور میں آسکیں۔ جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں۔‘‘ (ازالہ ص۳۰۳ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۴،۲۵۵) |
’’وما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ پہلے مانا فیہ سے قتل کا سلب مراد ہے اور دوسرے سے کمال کا۔ کیونکہ صلیب پر چڑھانے کی تکمیل اسی وقت تھی جب صلیب کے سبب موت واقع ہوتی۔ حالانکہ صلیب پر موت واقع نہیں ہوئی۔ (تفسیر احمدی ج۲ ص۴۵) | ’’قرآن کریم کا منشاء ’’ما صلبوہ‘‘ سے یہ ہرگز نہیں کہ مسیح صلیب پر چڑھایا نہیں گیا۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ جو صلیب پر چڑھانے کا اصل مدعا تھا یعنی قتل کرنا اس سے خدا نے مسیح کو محفوظ رکھا۔‘‘ (ازالہ ص۳۷۸، خزائن ج۳ ص۲۹۴) |
رفع کے لفظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم کا آسمان پر اٹھا لینا مراد نہیں۔ بلکہ ان کی قدو ومنزلت مراد ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی موت سے مرے اور خدا نے ان کے درجہ اور مرتبہ کو مرتفع کیا۔ (تفسیر احمدی ج۲ ص۴۴) | ’’رافعک الیّ‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے تو ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔‘‘ (ازالہ ص۲۶۶، خزائن ج۳ ص۲۳۴) ’’رافعک الیّ‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ (ازالہ ص۵۹۸، خزائن ج۳ ص۴۲۳) |
جس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے وہ جمعہ کا دن اور یہودیوں کی عید فصح کا تہوار تھا۔ دوپہر کا وقت تھا جب ان کو صلیب پر چڑھایا گیا۔ ان کی ہتھیلیوں میں کیلیں ٹھونکی گئیں۔ عید فصح کے دن کے ختم ہونے پر یہودیوں کا سبت شروع ہونے والا تھا اور یہودی مذہب کی روح سے ضرور تھا کہ مقتول یا مصلوب کی لاش قبل ختم ہونے دن کے یعنی قبل شروع ہونے سبت کے دفن کر دی جائے۔ مگر | ’’حضرت مسیح بروز جمعہ بوقت عصر صلیب پر چڑھائے گئے۔ جب وہ چند گھنٹہ کیلوں کی تکلیف اٹھا کر بیہوش ہوگئے اور خیال کیاگیا کہ مرگئے تو ایک دفعہ سخت آندھی اٹھی۔‘‘ (نزول المسیح ص۱۸، خزائن ج۱۸ ص۳۹۶) ’’مسیح یہودیوں کے حوالے کیاگیا اور اس کو تازیانے لگائے اور جس قدر گالیاں سننا اور طمانچہ کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے سے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا۔ سب دیکھا۔ آخر صلیب دینے کے لئے تیار ہوئے۔ |
صلیب پر انسان اس قدر جلدی نہیں مر سکتا تھا۔ اس لئے یہودیوں نے درخواست کی کہ حضرت مسیح کی ٹانگیں توڑ دی جاویں۔ تاکہ وہ فی الفور مر جاویں۔ مگر حضرت عیسیٰ کی ٹانگیں توڑی نہیں | یہ جمعہ کا دن تھا اور عصر کا وقت اور اتفاقاً یہ یہودیوں کی عید فسخ کا دن بھی تھا اور ایک شرعی تاکید تھی کہ سبت میں کوئی لاش صلیب پر لٹکی نہ رہے۔ تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح کو |
گئیں اور لوگوں نے جانا کہ وہ اتنی ہی دیر میں مرگئے۔ جب لوگوں نے غلطی سے جانا کہ حضرت درحقیقت مرگئے ہیں تو یوسف نے حاکم سے ان کے دفن کر دینے کی درخواست کی۔ وہ نہایت متعجب ہوا کہ ایسے جلد مر گئے۔ یوسف کو دفن کرنے کی اجازت مل گئی اور حضرت عیسیٰ صرف تین چار گھنٹہ صلیب پر رہے۔ یوسف نے ان کو ایک لحد میں رکھا اور اس پر ایک پتھر ڈھانک دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر مرے نہ تھے۔ بلکہ ان پر ایسی حالت طاری ہوگئی تھی کہ لوگوں نے ان کو مردہ سمجھا تھا۔ رات کو وہ لحد میں سے نکال لئے گئے اور وہ مخفی اپنے مریدوں کی حفاظت میں رہے۔ حواریوں نے ان کو دیکھا اور پھر کسی وقت اپنی موت سے مرگئے۔ بلاشبہ ان کو یہودیوں کی عداوت کے خوف سے نہایت مخفی طور پر کسی نامعلوم مقام میں دفن کردیا ہوگا۔ جواب تک نامعلوم ہے۔ (تفسیر احمدی ج۲ ص۳۸،۴۱) | صلیب پر چڑھادیا۔ تاشام سے پہلے ہی لاش اتاری جائے۔ مگر اتفاق سے اسی وقت آندھی آگئی جس سے سخت اندھیرا ہوگیا۔ یہودیوں کو یہ فکر پڑی کہ کہیں شام نہ ہو جائے۔ اس لئے لاش کو صلیب پر سے اتار لیا۔ عید فسح کی کم فرصتی، عصر کا تھوڑا سا وقت اور آگے سبت کا خوف اور پھر آندھی کا آجانا ایسے اسباب پیدا ہوگئے۔ جس کی وجہ سے چند منٹ میں ہی مسیح کو صلیب پر سے اتار لیاگیا۔ جب مسیح کی ہڈیاں توڑنے لگے تو ایک سپاہی نے یوں ہی ہاتھ رکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو مر چکا ہے۔ ہڈیاں توڑنے کی ضرورت نہیں۔ اس طور سے مسیح زندہ بچ گیا۔‘‘ (ازالہ ص۳۸۰، خزائن ج۳ ص۲۹۵) ’’اس کے کچھ عرصہ بعد مسیح کشمیر چلا آیا اور یہیں انتقال کیا۔ چنانچہ سری نگر میں شہزادہ یوز آسف کے نام کی جو مشہور قبر ہے وہ اسی کی ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۰۰) |
’’وان من اہل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا‘‘ اور نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر یہ کہ یقین کرے ساتھ اس کے (یعنی حضرت | ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا‘‘ فرمایا کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو ہمارے اس بیان مذکورہ بالا پر ایمان نہ |
عیسیٰ کے صلیب پر مارے جانے کے) قبل اپنے مرنے کے وہ جان لے گا کہ صلیب پر حضرت عیسیٰ کا مرنا غلط تھا اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ ان پر گواہ ہوںگے۔ یعنی اہل | رکھتا ہو۔ قبل اس کے جو وہ اس حقیقت پر ایمان لاوے جو مسیح اپنی طبعی موت سے مرگیا۔ یعنی ہم جو پہلے بیان کر آئے ہیں کہ کوئی اہل کتاب اس بات پر ولی یقین نہیں رکھتا کہ درحقیقت مسیح |
کتاب کا اپنی زندگی میں جو عقیدہ تھا اس کے برخلاف گواہی دیںگے۔ (تفسیر احمدی ج۲ ص۱۰۷) | مصلوب ہوگیا۔‘‘ (ازالہ ص۳۷۲، خزائن ج۳ ص۲۹۱) |
جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں۔ بلکہ خداتعالیٰ کی بے انتہاء قدرتوں کے ظہور کو اور ان قویٰ کو جو خدا نے اپنی مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کئے ہیں۔ ملک یا ملائکہ کہا ہے۔ جن میں سے ایک شیطان یا ابلیس بھی ہے۔ (تفسیر احمدی ج۱ ص۴۲) | دو محبتوں کے ملنے سے جو درحقیقت نر اور مادہ کا حکم رکھتے ہیں۔ ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کا نام روح القدس ہے۔ یہ کیفیت دونوں کیفیتوں کے جوڑسے پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کو روح امین بولتے ہیں۔ اس کا نام شدید القویٰ اور ذوالافق الاعلیٰ بھی ہے۔ (توضیح مرام ص۲۱، خزائن ج۳ ص۶۲) |
’’واذ قتلتم نفساً‘‘ بنی اسرائیل میں ایک شخص مارا گیا تھا اور قاتل معلوم نہ تھا۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ سب لوگ جو موجود ہیں اور انہی میں قاتل بھی ہے مقتول کے اعضاء سے مقتول کو ماریں جو لوگ درحقیقت قاتل نہیں ہیں۔ وہ بہ سبب یقین اپنی بے جرمی کے ایسا کرنے میں کچھ خوف نہ کریںگے۔ مگر اصل قتل بہ سبب خوف اپنے جرم کے جواز روئے فطرت انسان کے دل میں اور بالتخصیص جہالت کے زمانہ میں اس قسم کی باتوں سے ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کرنے کا | ’’واذ قتلتم نفساً فاد رأتم فیہا واﷲ مخرج ما کنتم تکتمون‘‘ ایسے قصوں میں قرآن شریف کی کسی عبارت سے نہیں نکلتا کہ فی الحقیقت کوئی مردہ زندہ ہوگیا تھا اور واقعی طور پر کسی قالب میں جان پڑ گئی تھی۔ یہودیوں کی ایک جماعت نے خون کر کے چھپا دیا تھا اور بعض بعض پر خون کی تہمت لگاتے تھے۔ سو خدا تعالیٰ نے یہ تدبیر سمجھائی کہ ایک گائے کو ذبح کر کے اس کی بوٹیاں لاش پر مارو اور وہ تمام اشخاص جن پر شبہ ہے ان بوٹیوں کو نوبت بہ نوبت اس لاش پر ماریں۔ تب اصل خونی کے |
اور اسی وقت معلوم ہوجاوے گا اور وہی نشانیاں جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھی ہیں لوگوں کو دکھاوے گا۔ اس قسم کے حیلوں سے اس زمانہ میں بھی بہت سے چور معلوم ہو جاتے ہیں اور وہ بسبب خوف اپنے جرم کے ایسا کام جو | ہاتھ سے جب لاش پر بوٹی لگے گی تو لاش سے ایسی حرکات صادر ہوگی جس سے خونی پکڑا جائے گا۔ اس قصہ سے واقعی طور پر لاش کا زندہ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک دھمکی تھی کہ تاچور بے دل ہوکر اپنے |
دوسرے لوگ بلاخوف بہ تقویت اپنی بے جرمی کے کرتے ہیں نہیں کر سکتے۔ پس یہ ایک تدبیر قاتل کے معلوم کرنے کی تھی۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھا۔ (تفسیر احمدی ج۱ ص۱۰۱) | تئیں ظاہر کرے۔ اصل یہ ہے کہ یہ طریق عمل علم الترب یعنی مسمریزم کا ایک شعبہ تھا۔ جس کے بعض خواص میں سے یہ بھی ہے کہ جمادات یا مردہ حیوانات میں ایک حرکت مشابہ بہ حرکت حیوانات پیدا ہوکر مشتبہ ومجہول امور کا پتہ لگ سکتا ہے۔‘‘ (ازالہ ص۷۴۹، خزائن ج۳ ص۵۰۳) |
ہمارے علماء نے لکھا ہے کہ وہ سچ مچ بندر ہوگئے تھے۔ مگر یہ باتیں لغو وخرافات ہیں۔ ان کی حالت بندروں کی سی ہوگئی تھی۔ جس طرح انسانوں میں بندر ذلیل وخوار ہیں۔ اسی طرح تم بھی انسانوں سے علیحدہ اور ذلیل وخوار ہو۔ (تفسیر احمدی ج۱ ص۹۹،۱۰۰) | ’’اﷲتعالیٰ نے نافرمان یہودیوں کے قصہ میں فرمایا کہ وہ بندر بن گئے اور سؤر بن گئے سو یہ بات تو نہیں تھی کہ وہ حقیقت میں تناسخ کے طور پر بندر بن گئے تھے۔ بلکہ اصل حقیقت یہی تھی کہ بندروں اور سوروں کی طرح نفسانی جذبات ان میں پیدا ہوگئے تھے۔‘‘ (ست بچن ص۸۳، خزائن ج۱۰ ص۲۰۷) |
معراج میں آنحضرتﷺ کا بجسدہ بیت المقدس تک جانا اور وہاں سے بجسدہ آسمانوں پر تشریف لے جانا خلاف قانون فطرت ہے۔ اس لئے ممتنعات عقلی میں داخل ہے۔ اگر ہم احادیث معراج کے راویوں کو ثقہ اور معتبر تصور کر لیں تو بھی یہ قرار پائے گا کہ ان کو اصل مطلب کے سمجھنے اور بیان کرنے میں غلطی ہوئی۔ مگر اس واقعہ کی صحت تسلیم نہیں ہوسکنے کی | ’’نیا اور پرانا فلسفہ اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اس خاکی جسم کے ساتھ کرہ زمہریر تک بھی پہنچ سکے۔ بلکہ علم طبعی کی نئی تحقیقاتیں اس بات کو ثابت کر چکی ہیں کہ بعض بلند پہاڑیوں کی چوٹیوں پر پہنچ کر اس طبقہ کی ہوا ایسی مضر صحت معلوم ہوئی ہے کہ جس میں زندہ رہنا ممکن ہیں۔ پس اس جسم کا کرہ ماہتاب یا کرہ آفتاب تک پہنچنا کس قدر لغو خیال ہے؟ اس |
اس لئے کہ ایسا ہونا ممتنعات عقلی میں سے ہے اور یہ کہہ دینا کہ خدا میں سب قدرت ہے۔ اس نے ایسا ہی کر دیا ہوگا۔ جہال اور ناسمجھ بلکہ مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے۔ یا ایک واقعہ ہے جو سوتے میں آنحضرتﷺ نے دیکھا تھا۔ (تفسیر احمدی ج۲ ص۱۲۲) | جگہ اگرکوئی اعتراض کرے کہ اگر جسم خاکی کا آسمان پر جانا محالات میں سے ہے تو پھر آنحضرتﷺ کا معراج اس جسم کے ساتھ کیونکر جائز ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیر معراج (معاذ اﷲ) جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا۔‘‘ (ازالہ ص۴۷، خزائن ج۳ ص۱۲۶) |
یہ واقعہ ایسے وقت میں واقع ہوا تھا۔ جب حضرت نبی ہو چکے تھے۔ اس وقت حضرت عیسیٰ کی بارہ برس کی عمر تھی۔ جب انہوں نے بیت المقدس میں یہودی عالموں سے گفتگو کی۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کی تلقین سے جو خلاف عقائد یہود تھی علماء ناراض ہوکر حضرت مریم کے پاس آئے۔ جس سے ان کی غرض یہ ہوگی کہ وہ حضرت عیسیٰ کو ان باتوں سے باز رکھیں۔ الغرض یہ ایسا معاملہ ہے جو فطرت انسانی کے موافق واقع ہوا۔ شوخ وشریر لڑکے کی ماں سے اس کی شکایت کی جاتی ہے۔ غرض اس سے حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیداہونے پر کسی طرح استدلال نہیں ہوسکتا۔ (تفسیر احمدی ج۲ ص۳۳) | ’’فاتت بہ قومہا تحملہ‘‘ (حضرت مریم انہیں اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں) معلوم ہو کہ حضرت عیسیٰ اس وقت حضرت مریم کی گود میں نہیں تھے۔ بلکہ سوار ہوکر یروشلم میں داخل ہوئے تھے۔‘‘ (بیان القرآن مؤلفہ میاں محمد علی امیر جماعت مرزائیہ لاہور ج۲ ص۱۱،۱۲) ’’حضرت عیسیٰ تیس سال کے نوجوان تھے۔ پرانے بزرگوں کے سامنے وہ بچہ ہی تھے۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ جو ہمارے سامنے کا بچہ ہے ہم اس سے کیا خطاب کریں۔ اس کے سوا ’’من کان فی المہد صبیاً‘‘ کے کچھ معنی نہیں بنتے۔ یہ زمانۂ نبوت کا کلام ہے۔ نہ پیدائش کے فوراً بعد کا۔‘‘ (بیان القرآن ج۲ ص۱۲،۱۳) |
حضرت یونس علیہ السلام کے قصہ میں اس بات پر قرآن مجید میں کوئی نص صریح نہیں ہے کہ درحقیقت مچھلی ان کو نگل گئی تھی۔ ابتلع کا لفظ قرآن میں نہیں ہے۔ التقم کا لفظ ہے۔ جس سے صرف منہ میں پکڑ لینا مراد ہے۔ ’’لبث فی | ’’قرآن مجید میں کسی جگہ مذکور نہیں کہ مچھلی درحقیقت یونس علیہ السلام کو نگل گئی تھی۔ کیونکہ لفظ التقم کا مفہوم نگل جانا نہیں۔ بلکہ صرف منہ میں پکڑنا ہے۔ لین صاحب نے اپنے لغات میں ’’التقم فاھا فی التقبیلہ‘‘ (اس نے |
بطن الحوت‘‘ کی نفی دو طرح پر ہوسکتی ہے۔ اوّل اس طرح پر کہ مچھلی نے نگلا ہی نہیں۔ دوسرے اس طرح کہ نگلا ہو مگر اس کے پیٹ میں نہ ٹھہرے ہوں۔ (تحریر فی اصول التفسیر یعنی مقدمہ تفسیر ص۱۷) | بوسہ کے وقت اس کے ہونٹ منہ میں پکڑ لئے) کی نظیر پیش کی ہے۔ بائبل میں مچھلی کا یونس کو نگل جانا اور پیٹ میں داخل ہونا مذکور ہے۔ لیکن قرآن اس کی تردید کرتا ہے۔‘‘ (ترجمہ قرآن ص۷۶ نوٹ۲۱۲۳، اہل زیغ وضلال |
کے جو خرافات اس باب میں سپرد قلم ہوئے ہیں۔ ان کے جوابات انشاء اﷲ العزیز خاکسار راقم الحروف کی کتاب فلسفۂ اسلام میں قارئین کرام کی نظر سے گذریںگے۔ |
باب۷۱ … قادیان کے برساتی نبی
جب امت مرزائیہ نے دیکھا کہ ان کے پیرومرشد نے نبوت کا دعویٰ کر کے ختم نبوت کی سد اسکندری میں رخنۂ ڈال دیا ہے تو ہر حوصلہ مند مرزائی کو طمع ہوئی کہ موقع ملنے پر اپنی اولوالعزمی کے جوہر دکھائے اور کچھ بن کر مسیح موعود صاحب کی طرح نفع عاجل حاصل کرے۔ چنانچہ قضاء وقدر کے ہاتھوں قادیانی نبوت عظمیٰ کی بساط کے الٹے جانے کی دیر تھی کہ بہت سے مرزائی یاجوج ماجوج کی طرح دعوائے نبوت کے ساتھ ہر طرف سے امنڈ آئے اور اپنے اپنے تقدس کی ڈفلی بجانی شروع کر دی۔ جس طرح برکھارت میں بارش کا پہلا چھینٹا پڑنے کے ساتھ ہی ہرطرف برساتی کیڑے مکوڑے رینگتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ان خود ساختہ انبیاء کی تعداد اتنی کثیر تھی کہ ان پر برساتی انبیاء کا اطلاق بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال ان برساتی نبیوں کے کچھ مختصر سے حالات ہدیۂ قارئین کئے جاتے ہیں۔
چراغ الدین متوطن جموں
چراغ الدین نام جموں کا ایک نہایت بیباک مرزائی تھا۔ اس کی شوخ چشمی کا کمال دیکھو کہ اپنی دکان آرائی کے لئے اپنے مقتداء کی موت کا بھی انتظار نہ کیا۔ بلکہ نہایت بے صبری کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی ہی میں نبوت ورسالت کا دعویٰ کر دیا۔ چونکہ اس دعویٰ سے خود حضرت مسیح موعود کے کاروبار پر اثر پڑنے کا احتمال تھا۔ اس لئے یہ جرم کچھ ایسا خفیف نہیں تھا کہ قابل عفو ودرگذر سمجھا جاتا۔ مرزاقادیانی نے اس کو جماعت سے خارج کر دیا۔ میں اس اقدام
میں مرزاقادیانی کو برسرحق سمجھتا ہوں۔ کیونکہ مرید کو اس درجہ شوریدہ سری کسی طرح زیب نہیں دیتی کہ وہ پیر کے مقابلہ میں کاروبار شروع کر دے اور رقیبانہ چشمک کے سامان پیدا کرے۔ حضرت مسیح موعود صاحب نے اس باغی مرید کے متعلق اپنی کتاب ’’دافع البلاء‘‘ میں جو۲۳؍اپریل ۱۹۰۲ء کو شائع ہوئی۔ لکھا کہ: ’’چراغ الدین کا جو مضمون رات کو پڑھاگیا۔ وہ بڑا خطرناک اور زہریلا اور اسلام کے لئے مضر ہے اور سر سے پیر تک لغو اور باطل باتوں سے بھرا ہوا ہے۔ چنانچہ اس میں لکھا ہے کہ میں رسول ہوں اور رسول بھی اولوالعزم اور اپنا کام یہ لکھا کہ تاعیسائیوں اور مسلمانوں میں صلح کرادے اور قرآن اور انجیل کا تفرقہ باہمی دور کردے اور ابن مریم کا ایک حواری بن کر یہ خدمت کرے اور رسول کہلاوے… یہ کیسی ناپاک رسالت ہے جس کا چراغ الدین نے دعویٰ کیا ہے جائے غیرت ہے کہ ایک شخص میرا مرید کہلا کر یہ ناپاک کلمات منہ پر لاوے۔ ’’لعنۃ اللہ علی الکافرین‘‘ پھر باوجود ناتمام عقل اور ناتمام فہم اور ناتمام پاکیزگی کے یہ کہنا کہ میں رسول اللہ ہوں یہ کس قدر خدا کے پاک سلسلہ کی ہتک عزت ہے۔ گویا رسالت اور نبوت بازیچۂ اطفال ہے۔ میں تو جانتا ہوں کہ نفس امارہ کی غلطی نے اس کو خود ستائی پر آمادہ کیا ہے۔ پس آج کی تاریخ سے وہ ہماری جماعت سے منقطع ہے۔ جب تک کہ مفصل طور پر اپنا توبہ نامہ شائع نہ کرے اور اس ناپاک رسالت کے دعویٰ سے ہمیشہ کے لئے مستعفی نہ ہو جائے۔ افسوس کہ اس نے بے وجہ اپنی تعلی سے ہمارے سچے انصار کی ہتک کی… ہماری جماعت کو چاہئے کہ ایسے انسان سے قطعاً پرہیز کرے۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۹تا۲۲، خزائن ج۱۸ ص۲۳۹،۲۴۲)
منشی ظہیرالدین اروپی
یہ شخص موضع اروپ ضلع گجرانوالہ کا رہنے والا ہے۔ اس کے نزدیک مرزایک صاحب شریعت نبی تھا۔ اس کا خیال ہے کہ قادیان کی مسجد ہی بیت اللہ شریف ہے اور وہی خدا کے نبی کی جائے ولادت ہے۔ اس لئے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی چاہئے۔ لاہوری پارٹی کے جریدۂ پیغام صلح کا مدیر بھی رہ چکا ہے۔ اس نے قادیانی جماعت کے بعض سربرآوردہ افراد کی ہلاکت کی پیش گوئی کی تھی۔ لیکن پوری نہ ہوئی۔ یوسف ہونے کا مدعی تھا۔ لیکن ساتھ ہی تمنی کا بھی اندیشہ لگا رہتا ہے۔ شیطان ورغلاتا ہے اور جو الہامات مجھے ہوئے ان پر عمل درآمد بھی مشکل ہے۔ اس لئے جس قدر طاقت تھی میں نے کام کر دیا۔ اب طاقت نہیں رہی اس لئے اپنے دعویٰ پر زور نہیں دے سکتا۔ یہ سخت ناکام نبی ہے اور غالباً اب تک زندہ ہے۔ اس نے اپنے ایک مضمون میں جولاہوری مرزائیوں کے رسالہ المہدی
میں شائع ہوا لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی تحریروں میں بہت تضاد وتخالف ہے۔
محمد بخش قادیانی
اس شخص کو مدت العمر قادیان میں الہام ہوتے رہے۔ مگر مرزائیت قبول نہ کی۔ لیکن جب قویٰ زیادہ مضمحل ہوگئے اور قوت فکر جواب دے بیٹھی تو مرزائیت کا بتپسمہ لے لیا۔ جس طرح مسیح موعود کا ایک دلچسپ الہام غثم غثم غثم ہے۔ اسی نمونہ کا ایک مضحکہ خیز الہام محمد بخش کا بھی ہے۔ یعنی آئی ایم وٹ وٹ۔ (میں وٹ وٹ ہوں)
مسٹر یار محمد پلیڈر
مسٹر یار محمد وکیل ہوشیار پور کا بیان ہے کہ محمدی بیگم جس کے ساتھ مسیح موعود کا آسمان پر نکاح ہوا تھا اور وہ حقیقت میں میں ہوں اور نکاح سے یہ مراد ہے کہ میں ان کی بیعت میں داخل ہوں گا۔ اسی نے مرزاقادیانی کا ایک کشف بیان کیا تھا کہ گویا رب العالمین (معاذ اللہ) ایک مرد کی طرح مرزاقادیانی سے فعل مخصوص کر رہا ہے۔ یہ مرزاقادیانی کے حقیقی جانشین اور خلیفۂ برحق ہونے کا مدعی تھا اور اعلان کیا تھا کہ مرزاقادیانی کی گدی کا اصل استحقاق مجھے حاصل ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے جو الوصیۃ میں یہ پیشین گوئی کی تھی کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے۔ کیونکہ وہ دائمی ہے۔ جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہ ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی۔ جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن جب میں جاؤں گا تو پھر اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا۔ اس کا صحیح مصداق میں ہوں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود نے یہ بھی کہا تھا کہ قدرت ثانیہ کا مظہر وہ ہوگا جو میری خوبو پر ہوگا۔ سو یہ علامت میری ذات میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ مسٹر یار محمد نے بہت کوشش کی کہ مرزامحمود احمد ان کے لئے مسند خلافت خالی کر دیں مگر وہ کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ سنا جاتا ہے کہ یار محمد میاں محمود احمد کے خلاف چالیس پچاس رسالے شائع کر چکا ہے۔
عبداﷲ تیماپوری
یہ شخص تیمارپور واقع قلمرو حیدرآباد دکن کا رہنے والا ہے۔ پہلے روح القدس کے نزول کا مدعی بنا۔ پھر مظہر قدرت ثانیہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ کہتے ہیں کہ اسے داہنے بازو کی طرف سے الہام ہوتا ہے۔ اس شخص نے انجیل قدسی نام ایک کتاب لکھی ہے جس میں مرزاغلام احمد قادیانی کے ان خطوط کو جو محترمہ محمدی بیگم سے عقد کرنے کے سلسلۂ مساعی میں لکھے تھے پسندیدہ خیال نہیں کیا اور لکھا ہے کہ ان خطوط کے پڑھنے سے دل میں نفرت وکراہت پیدا ہوتی ہے۔ اس بے دین نے
انجیل قدسی کے بعض مندرجات میں سخت جاہلانہ گندہ دہنی کا ثبوت دیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ ’’یفسک الدما‘‘ کے یہ معنی لکھے ہیں کہ حضرت ابوالبشر آدم علیہ السلام نے حکم خداوندی کے خلاف (معاذ اللہ) اپنی زوجہ محترمہ حواء سے خلاف وضع فطرت انسانی فعل کا ارتکاب کیا۔ اس شخص نے پیشین گوئی کی تھی کہ مرزامحمود احمد بہت جلد میری بیعت میں داخل ہو جائے گا۔ لیکن پیش گوئی پوری نہ ہوسکی۔ اس کو سب سے پہلے یہ وحی ہوئی تھی۔ ’’یاایہا النبی‘‘ تیمارپور میں رہیو۔ کتاب محاکمۂ آسمانی میں لکھتا ہے کہ مرزاقادیانی کو صرف مقام شہودی حاصل تھا اور وہ مقام وجودی سے بالکل عاری تھے۔ لیکن مجھے یہ دونوں مقام حاصل ہیں۔ اس لئے میں ظل محمد بھی ہوں اور ظل احمد بھی۔ درجۂ رسالت میں میں اور مرزاقادیانی دونوں بھائی ہیں اور مساوی حیثیت رکھتے ہیں جو فرق کرے وہ کافر ہے۔ مامور من اللہ کو تیس یا چالیس مردوں کی قوت رجولیت حاصل ہوتی ہے اور بلا اجازت فراغت نہیں ہوتی۔ آسی صاحب کاویہ میں لکھتے ہیں کہ اس شخص نے اپنی کتاب قدسی فیصلہ میں اعلان کیا کہ میں نے خدا کے دربار میں حاضر ہوکر درخواست کی تھی۔ الٰہی مسلمان مفلس ہو رہے ہیں۔ اس لئے سود خواری کی ممانعت دور فرمائی جائے۔ جواب ملا کہ ساڑھے بارہ روپے سیکڑہ سود کی اجازت دیتا ہوں۔ اسی طرح حکم ملا کہ رمضان کے تین روزے کافی ہیں۔ عورتیں بے حجاب رہ سکتی ہیں۔ چونکہ میں بروز محمد ہوں۔ اس لئے مجھے شریعت محمدی میں فسخ وتبدیل کا اختیار ہے۔ سنا جاتا ہے کہ پشاور اور کیمبل پور کے بہت سے مرزائی اس کے مرید ہیں۔
سید عابد علی
سید عابد علی نام ایک پرانا مرزائی ملہم قصبہ بدوملہی ضلع سیالکوٹ میں رہتا تھا۔ اسے ایک مرتبہ ایسا دلچسپ الہام ہوا تھا۔ جس سے مرزاغلام احمد کا قصر نبوت بالکل پیوند خاک ہو جاتا تھا۔ لیکن توفیق ایزدی رہنما نہ ہوئی۔ اس لئے باطل سے منہ موڑ کر اسلام کے سواد اعظم کی پیروی نہ کر سکا۔ قادیانی صاحب کی خانہ زاد شریعت میں کسی مرزائی کے لئے جائز نہیں کہ مسلمان کو لڑکی دے۔ لیکن سید عابد علی نے اپنے ایک الہام کے بموجب اس حکم پر خط تنسیخ کھینچ دیا اور مرزائی قیود سے آزاد ہوکر اپنی لڑکی ایک مسلمان کے حبالہ نکاح میں دے دی تھی۔
عبداللطیف گناچوری
یہ بھی ایک مشہور مرزائی ہے۔ مدعی نبوت تھا۔ اس نے اپنے دعویٰ کی تائید میں ایک ضخیم کتاب چشمۂ نبوت شائع کی۔ اس میں لکھتا ہے کہ مرزاقادیانی کا نام زمین پر غلام احمد اور آسمان پر مسیح ابن مریم تھا۔ اس طرح خدا نے زمین پر میرا نام عبداللطیف اور آسمانوں میں محمد بن
عبداﷲ موعود رکھا ہے۔ جس طرح مرزاقادیانی روحانی اولاد بن کر سید ہاشمی بن گئے تھے۔ اسی طرح میں بھی آل رسول میں داخل ہوں۔ نعمت اللہ ولی کی پیشین گوئی کا مصداق میں ہوں۔ احادیث میں جو مہدی آنے کا ذکر ہے وہ میں ہوں۔ دانیال نبی نے میرا ہی زمانہ ۱۳۳۵ھ سے ۱۳۴۰ھ تک بتایا ہے۔ ہم کسی مسلمان کو محض اس بناء پر کافر نہیں کہتے کہ اس نے ہم سے بیعت کیوں نہیں کی۔ کیونکہ اس قسم کی باتیں فروعات میں داخل ہیں۔ احمدیوں کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ مسیح اور مہدی دونوں کی ایک ہی شخصیت ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی فرماچکے ہیں کہ مجھ سے پہلے بھی مہدی آچکے ہیں اور بعد میں بھی آئیںگے۔ ان کے زمانے میں کوئی مہدی نہ تھا۔ اس لئے میں مہدی آخرالزمان ہوں۔مرزاقادیانی کو اٹھارہ سال تک اپنی رسالت کا یقین نہ تھا۔ آخر جب زور سے وحی آنے لگی تو یقین ہوا۔ میرے نوے معجزے ہیں۔ میری پیشین گوئیاں مرزاقادیانی سے بھی بڑھ کر سچی نکلی ہیں۔ چنانچہ ہندوستان میں وبائیں، زلزلے اور سیاسی انقلابات میری پیشین گوئیوں کے مطابق آئے۔ لیکن مرزاقادیانی کی پیشین گوئیاں درست نہ نکلیں۔ اس نے اپنا لقب قمر الانبیاء رکھا ہوا تھا۔
ڈاکٹر محمد صدیق بہاری
مولوی محمد عالم صاحب آسی (امرتسر) نے اپنی کتاب الکاویہ کے چودہ پندرہ صفحے اسی شخص کے حالات کی نذر کر دئیے ہیں۔ میں اس کا اقتباس پیش کرتا ہوں۔ یہ شخص صوبہ بہار کے علاقہ گدک کا رہنے والا مرزائیوں کی لاہوری پارٹی سے متعلق ہے۔ اس نے اپنی کتاب ظہور بشویسور میں لکھا ہے کہ مسیح قادیانی وشنواوتار تھا۔ خلیفہ محمود ابن غلام احمد ویربسنت ہے اور میں چن بشویسور ہوں۔ میرے ظہور کے بعد سات سال کے اندر مرزامحمود مر جائے گا۔ لیکن یہ پیشین گوئی پوری نہ ہوئی۔ مولوی محمد عالم صاحب لکھتے ہیں کہ شاید اس سے اخلاقی موت مراد ہو۔ ڈاکٹر موصوف نے یہ بھی لکھا ہے کہ صوبہ بہار کے ہنود کی مذہبی کتابوں میں دو موعود مذکور ہیں اور ہندو لوگ ان کا سخت بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ کتب ہنود کے علامات مجھ پر صادق آتے ہیں۔میں برہمچاری بن کر علاقہ کرناٹک کو گیا اور آٹھ سال کی غیبوبت کے بعد ظاہر ہوا۔ پیٹھ پر سانپ کے منہ کا نشان بھی موجود ہے۔ ہاتھ میں سنکھ بیل چکر وغیرہ نشانات بھی مجھ میں پائے جاتے ہیں۔ حضرت سرور دوجہاںﷺ کے بعد صرف مجھے صدیق کا درجہ ملا ہے اور صدیق کا درجہ مہدی اور مسیح سے بھی فائق ہے۔ ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کو مرزاقادیانی نے جس پسر موعود کی پیشین گوئی کی تھی وہ میں ہی یوسف موعود ہوں۔ اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اہل قادیان کی اصلاح
کروں۔ قادیان سے آواز آٹھ رہی ہے کہ حضرت خاتم النبیین کے بعد بھی نبوت جاری ہے۔ اسلام میں سرور دو جہاں کی ذات گرامی پر اس سے بڑھ کر اور کوئی حملہ نہیں کہ حضورﷺ کے بعد کوئی اور نبی کھڑا کیا جائے اور بیس کروڑ مسلمانوں کو مرزاقادیانی کی نبوت کا انکار کرنے کی وجہ سے خارج ازاسلام تصور کیا جائے۔ میں اسی توہین آمیز عقیدہ کے مٹانے کی غرض سے مبعوث ہوا ہوں۔ محمودیوں اور پیغامیوں (قادیانی مرزائیوں اور لاہوری مرزائیوں) میں جھگڑا تھا۔ اس لئے میں حکم بن کر آیا ہوں۔ میرے نشانات کئی ہزار ہیں۔ صرف اخلاقی نشان چون ہیں۔ یہ نعمت سیدنا محمدﷺ کی محبت میں فنا ہونے اور قادیان کا خلاف کرنے سے ملی۔ غیرت الٰہی نے میرے لئے مرزاقادیانی کے نشانات سے بڑھ کر نشانات ظاہر کئے۔ میری بعثت کے بغیر قادیان کی اصلاح ناممکن تھی۔ میں نے تلاش حق میں مرزامحمود کے ہاتھ پر بیعت بھی کی تھی۔ لیکن عقائد پسند نہ آنے پر بیعت فسخ کر دی اور قادیان سے نکالا گیا۔ اب میں مسلسل بارہ سال سے محمودی عقائد کی تردید کر رہا ہوں۔
احمد سعید سمنبھڑیالی
سمنبھڑیال ضلع سیالکوٹ کے احمد سعید مرزائی سابق اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس نے بھی قدرت ثانیہ ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنا لقب یوسف موعود رکھا۔ مولوی محمد عالم صاحب آسی لکھتے ہیں کہ اس شخص نے اپنے الہام ’’پیراہن یوسفی‘‘ نام ایک کتاب میں جمع کئے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ میں نہایت غمزدہ رو رہا تھا۔ اس اثناء میں حضرت مریم علیہا السلام تشریف لائیں اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔ بچہ مت رو۔ ایک مرتبہ احمد سعید نے اپنا یہ الہام چوک فرید امرتسر میں بیان کیا تو مسلمانوں نے چاروں طرف سے خشت باری شروع کر دی۔ بے اوسان بھاگا۔ بچوں نے بچہ رونہ بچہ رو نہ۔ کہہ کر اسے چھیڑنا اور ستانا شروع کیا۔ یہ بدبخت حسب بیان آسی صاحب اپنی ایک تصنیف میں لکھتا ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ رشتہ داریاں سب ناجائز ہیں اور (معاذ اللہ) ولد الزنا ہیں۔ آئندہ کے لئے میں حکم دیتا ہوں کہ غیر قوموں سے رشتے ناطے کریں۔ اگر معاذ اللہ تمام مسلمان ایسے ہیں تو معلوم نہیں کہ یہ ناہنجاز ولد الحلال کیسے ہوگیا؟ اس کے گلے میں ایک گلٹی ہے۔ جسے وہ مہر نبوت سے تعبیر کرتا ہے۔
احمد نور کابلی
قادیان کا سرمہ فروش احمد نور کابلی مرزاغلام احمدقادیانی کے حاشیہ نشینوں میں سے تھا۔ مولوی محمد عالم آسی لکھتے ہیں کہ اس کی ناک پر پھوڑا تھا۔ جب کسی طرح اچھا نہ ہوا تو عمل جراحی
کرایا۔ جب ناک کاٹی گئی تو درجۂ نبوت پر فائز ہوگیا۔ اس نے ایک ٹریکٹ زیرعنوان ’’لکل امۃ اجل‘‘ شائع کیا ہے۔ جس میں لکھتا ہے۔ اے لوگو! میں اللہ کا رسول ہوں۔ دین اسلام میری ہی متابعت میں دائر وسائر ہے۔ مجھے نہ ماننا دین سے خارج ہونا ہے۔ میں روحانی سورج ہوں۔ میں رحمتہ للعالمین ہوں۔ میرا نام محمد رسول اللہ ہے۔ میں سفید مینار سے نازل ہوا۔ جملہ انبیاء کا مظہر ہوں۔ قرآن کو ستاروں سے لایا ہوں۔ خدا نے مجھے الہام کیا تھا۔ ’’عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محمودا‘‘ اس الہام میں خدا نے مجھے فرمایا تھا کہ تجھے خلیفہ محمود کے عہد خلافت میں قادیان میں مبعوث کیا جائے گا۔ خدا نے آیۃ ’’ھوالذی بعث فی الامین رسولاً‘‘ میں فرمایا ہے کہ خدا نے افغانوں میں ایک رسول بھیجا ہے۔ میں شرعی رسول ہوں۔ اب خدا نے قرآن مجھ پر نازل کیا ہے۔ مجھے کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ احمد نور رسول اﷲ‘‘ دیاگیا ہے۔ خدا نے میرے ساتھ بکثرت کلام کیا ہے۔ میری وحی کی تعداد دس ہزار تک پہنچتی ہے۔ جو شخص میرا انکار کرے گا وہ لعنت کی موت مرے گا۔ ’’وغیر ذالک من الخرافات‘‘
نبی بخش مرزائی
یہ شخص موضع معراجکے تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ کا ایک پرانا مرزائی تھا۔ اس نے ۱۹۱۱ء میں ایک اعلان شائع کیا۔ جس میں لکھا۔ اے ہر مذہب وملت کے دوستو! آپ پر واضح ہو کہ اس عاجز پرستائیس سال سے اﷲتعالیٰ کی طرف سے الہام کا سلسلہ جاری ہے۔ اس عرصہ میں اس عاجز کی بیشمار پیشین گوئیاں پوری ہوچکی ہیں۔ مجھے ایک روشن نور اپنی طرف کھینچ کھینچ کر مقام محمود کی طرف لے جارہا ہے۔ مجھے سلطان العارفین کا درجہ دیاگیا ہے۔ مجھے چار سال سے تبلیغ کا حکم ہورہا ہے۔ میں نے عرض کیا۔ الٰہی میں امی ہوں۔ حکم ہوا جس طرح محمد رسول اللہ تبلیغ کرتے تھے تو بھی تبلیغ کر اس کے بعد یہ عاجز ان الفاظ سے مخاطب کیاگیا۔ ’’یاایہا الصدیق یوسف انی معک‘‘ اسی طرح باربار حکم ہوتا رہا۔ یہ عاجز فکر مند تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں۔ لیکن مجھے سمجھایا گیا کہ نبوت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ تم دنیا کے طعنوں سے نہ ڈرو۔ نبوت کا تاج تمہارے سر پر رکھ دیا گیا ہے۔ وقت قریب آرہا ہے کہ تجھ سے حکماً تعمیل کرائیںگے۔ نبوت کا تاج تیرے سر پر رکھ دیا گیا ہے۔ دعوائے نبوت کے واسطے تیار ہو جا۔ مدعی نبوت کا فرض ہے۔ میدان میں نکل پڑے۔ میں تیری مدد کے لئے فرشتوں کی فوج تیار رکھوں گا۔ ہر وقت تجھے مدد دیتا رہوںگا۔ موسیٰ مرسل کی طرح میدان میں ہوشیار رہنا، بڑے بڑے فرعون تیرے سامنے آئیںگے۔ مگر سب منہ کی کھائیںگے۔ تیرے خاندان کے لوگ اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کریں
گے۔ مگر کسی کی پروانہ کرنا آنے والی نسلیں افسوس کریں گی کہ لوگ تجھ پر ایمان نہ لائے۔ حالات سن سن کر رویا کریںگے۔ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تو ابراہیمی نسل ہے تو خاندان نبوت سے ہے۔
عبداﷲ پٹواری
چیچہ وطنی ضلع منٹگمری میں عبداﷲ نام ایک مرزائی پٹواری رہتا تھا۔ قادیان کے چشمۂ الحاد سے دجالی کا فیض پانے کے بعد کفریات وشطحیات بکنے میں اپنے پیرومرشد کا ہمسر تھا۔ اس نے اپنا لقب رجل یسعیٰ احمد رسول رکھا تھا۔ اپنے اعلان میں لکھتا ہے۔ میں رسول اللہ بھیجا گیا۔ طرف تمہارے رب تمہارے سے۔ بندے بنواسلام کے پیروں مرشدوں مولویوں کی خود ساختہ شریعت کے پیچھے نہ جاؤ۔ وہ سب احکام بلاوحی ہیں۔ جن کا ثبوت نہ کتاب سے دیتے ہیں۔ یعنی کلمہ درود وسنت نفل نعت غزل مولود نماز تراویح نماز عیدین نماز جنازہ اور عرس مردہ اولیاء پر کھانا کھلانا وغیرہ۔ لاالہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کہنا شرک ہے۔ کتاب ہدایۃ للعالمین میں لکھتا ہے کہ ’’الرسول یدعوکم‘‘ اور ’’اطیئعو الرسول‘‘ میں میری طرف اشارہ ہے اور لکھتا ہے کہ میں نے خواب میں اپنی والدہ مرحومہ کو دیکھا اور کہا کہ خدا نے مجھے مسیح ابن مریم بناکر بھیجا ہے۔ یہ سن کر والدہ حیران رہ گئیں اور کہنے لگیں کہ بیٹا کل تو تویہ کہتا تھا کہ مسیح آئے گا اور آج خود مسیح بن بیٹھا ہے۔ جب بیدار ہوا تو یقین ہوگیا کہ کسی بدروح نے مجھ سے مسیح ہونے کا دعویٰ کرایا تھا۔ اسی خبیث روح نے مرزاغلام احمدقادیانی سے بھی مسیحیت کا دعویٰ کرایا تھا۔ حالانکہ وہ اس سے پیشتر خود لکھ چکے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان سے نازل ہوںگے۔ مجھے الہام ہوا کہ مرزاقادیانی ابن مریم نہیں ہیں اور ان کی آمد کا کوئی حکم نہیں ہے۔ مرزاقادیانی جیسے فرضی مریم بنے۔ اسی طرح ابن مریم بھی بنے۔ جو ماں ہے وہ بیٹا نہیں ہوسکتی اور جو بیٹا ہے وہ ماں نہیں ہوسکتا۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے اور مرزامحمود لکھتا ہے کہ مرزاقادیانی ہی احمد رسول ہیں۔ یہ دونوں باتیں لغو ہیں۔
فضل احمد جنگا بنگیالی
فضل احمد مرزائی موضع چنگا بنگیال ضلع راولپنڈی کا ایک مشہور مرزائی ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ میں مرزاقادیانی کا ظہور ہوں۔ کہتا ہے کہ مرزاقادیانی کی عمر اسی سال کی تھی۔ لیکن جب وہ اپنی عمر کے ساٹھ سال گزار چکے تو باقی ماندہ بست سالہ عمر مجھے تفویض فرماکر واوی آخرت کو چل دئیے۔ اب میں یہی حقیقی مرزاقادیانی ہوں۔ اس شخص کا ایک مضحکہ خیز مضمون جو سراسر تعلیوں لن
ترانیوں اور ملحدانہ خیالات سے مملو تھا۔ ۱۹۳۴ء کے اواخر میں جریدۂ زمیندار میں شائع ہوا تھا۔
غلام محمد مصلح موعود وقدرت ثانی
یہ وہی شخص ہے جس نے ڈیڑھ دوسال پیشتر لاہوری مرزائیوں کے خلاف ادھم مچا رکھا تھا اور مسٹر محمد علی امیر جماعت لاہور کے اسرار وخفایا کو الم نشرح کر کے لاہوری مرزائیوں کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص قادیانی مرزائیوں کا ایجنٹ ہے جو مسٹر محمد علی کی تخریب کے درپے رہتا ہے۔ اس نے اپنے مصلح موعو د اور قدرت ثانی ہونے کے متعلق متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ یہ شخص شروع میں مسلم ہائی سکول لاہور میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے لاہوری مرزائیوں کے اخبار پیغام صلح کی ملازمت میں منسلک ہوگیا تھا۔ مگر اس کے بعد مرزائی ہوا کا رخ پہچان کر اسے ارتقاء منازل کی سوجھی۔ چنانچہ معاً الہامی تالاب میں غوطے کھانے لگا۔
باب۷۲ … یحییٰ عین اللہ بہاری
یہ شخص موضع بھداسی ضلع گیا۔ صوبہ بہار کا رہنے والا ہے۔ خدا کا اوتار اور مسیح منتظر اور مہدی موعود ہونے کا مدعی ہے۔ اپنے تئیں یحییٰ فرمانروا عین اللہ لکھا کرتا ہے۔ خدا جانے یہ کہاں کا فرمانروا ہے؟ شاید عالم خیال کا فرمانروا ہوگا؟ اپنی خانہ ساز الوہیت اور مسیحیت وغیرہ کے متعلق رسالہ انا الحق میں لکھتا ہے ؎
میں جو ہوں اب تک کنوارا مجھ کو جوڑا کب ملا؟ | روح میری اور ہے ظاہر میں ہوں مثل بشر | |
تیرے گھر شادی مری ہو؟ توبہ توبہ اے چھیا | تو ہی کیا اچھا ہے؟ جولاڑو ملے گی خوب تر | |
میں نے حق مارا نہیں ہرگز کسی کا آج تک | میں انا الحق ہوں نہ تم سا ہے انا الباطل کاٹر | |
نور سے ظلمات ہے ظلمات ہی سے نور ہے | وقت پر جو کام لے ہے وہ بہادر سولجر | |
ایسے ہی ہم سے خدا ہے اور ہم ہیں از خدا | عطر اپنا کھینچ کر دیکھا تو پایا روح گر | |
نشأۃ عالم سے لے کر تابہ ایندم کوئی شخص | یہ نہیں دکھلا سکا دیکھو وہ ہے پرمیشور | |
جب کوئی پرمیشور کو ڈھونڈ کر تھک جائے گا | بے شک وشبہ کمر باندھے گا وہ انکار پر | |
میں جو ہوں انساں یہ انسانیت ہے اور کچھ | فوقیت رکھتی ہے جیسے نجم میں شمس وقمر | |
سب انا الباطل کے پیرو ہو جبھی بطلان ہے | میں انا الحق کا ہوں پیرو اس لئے ہے حق ادھر | |
من نمی گویم انا الحق یار مے گوید بگو | گشتہ ایں تعمیل حکمش توچہ دانی اے پسر | |
یاد باشد! ہے یہی یحییٰ بنائے کائنات | ہے یہی یحییٰ امام الکائنات وتاج سر |
اب خدائی کا زمانہ آگیا ہشیار باش | صورت یحییٰ میں گویا ہے وہی اسٹیج پر | |
اس کی مرضی ہے کہ بندہ ہی تو ہونا ہے گناہ | کر ترقی کہ خدا بن بے گناہی ہے ادھر | |
آسماں سے اب ندا آئے گی بعد از قتل عام | ہے یہی یحییٰ کہ جس کی شکل ہے افلاک پر | |
ہے یہی یحییٰ کہ جس کے منتظر مدت سے ہو | مہدی الموعود وعیسیٰ یا مسیح منتظر | |
یا انا تو یہوا ہے تو ہی خدا ہے خود آہے | یہ بندہ کب یحییٰ ہے تو ہی مجھ میں گویا؟ | |
جیسی کرنی ویسی بھرنی | نیک بنو اور ایک بنو | |
یہوا ہی بس یحییٰ ہے، یحییٰ ہی بس یہوا ہے | دونوں یحییٰ یحییٰ ہے یحییٰ کا یہ بھاکھا ہے | |
جیسی کرنی ویسی بھرنی | نیک بنو اور ایک بنو |
رسائل مذکورہ کے علاوہ اس نے فرمان کے نام سے ۸۲۴صفحوں کی ایک ضخیم کتاب بھی لکھی ہے۔ جسے وہ اپنا قرآن بتاتا ہے۔ اس کے شروع میں اس نے ان الفاظ میں اپنا تعارف کرایا ہے۔ اعلیٰ حضرت احدیت مآب فرمانروا سید محمد یحییٰ خان دوران نائب اللہ علی العالمین دی لینڈ لارڈ اوف موضع یحییٰ پر گنہ ارولی ضلع گیا صوبہ بہار اس کتاب میں اپنے دعویٰ کے متعلق یہ لکھ کر اپنی شرافت اور خوش کلامی کی داد دیتا ہے۔ ایسے حرام زادوں پر پھٹکار ہے جو فرمانروا کی پیروی نہیں کرتے۔ اے نمک حرام سؤر کے بچو! تمہیں اب بھی یقین نہ ہوگا۔ حالانکہ تمہارے لئے مالک نے انسانی لباس اختیار کیا ہے۔ کنواری لڑکی سے خود کو پیدا کر دکھلایا۔ مردہ زندہ کیا تیہ میں پھرا۔ امی بن کر اہل فصاحت کو متلجلج کرایا۔ قبل ازوقت پیدا ہوکر ۴۵روز بغیر دودھ کے رہا۔ بچپن میں چنے اور چائے پر گذارہ کیا اور مہینوں لگاتار فاقہ کش کی خواب میں خدائی لباس میں بہتیروں کو دیدار دیا۔ پیشین گوئیاں پوری ہوئیں۔ غیب سے آکر کسی نے کہا کہ یہ خدا کا فوٹو ہے۔ فوٹو گرافر نے ہمارے فوٹو لینے میں ایک درجن شیشے استعمال کئے۔ مگر فوٹو نہ آیا۔ غیب سے میری تصدق کے لئے آواز آئی کہ درست ہے فضائے آسمانی سے یہ آواز آئی کہ حضرت مولانا سید محمد یحییٰ التحیات ’’علیکم وخیر لک من الاولیٰ‘‘ ۲۸؍روز بڑودہ میں فاقہ کش رہ کر لیکچر دیا۔ لوگ مارنے آئے تو ہم نے تلوار دکھائی اور سب لوگ بھاگ گئے۔ مکہ میں لیکچر دیا۔ مدینہ پہنچا تو روضۂ اقدس کانپا اور یاہو کی آواز آئی۔ زنجبار اور بمبئی میں انتقال کیا اور چار گھنٹہ بعد پھر جی اٹھا۔ تم نے کئی بار سنکھیا دیا۔ مگر کچھ نہ ہوا۔ بمقام لندن انڈیا آفس میں خوبصورت تصویر نے جھک کر سلام کیا۔ ایک ہی وقت میں کئی جگہ تم کو نظر آیا۔
(فرمان ص۴۰۵،۴۱۱)
انبیائے سلف میں سے کوئی صفی اﷲ، کوئی نجی اﷲ، کوئی خلیل اﷲ، کوئی ذبیح اﷲ، کوئی روح اللہ اور کوئی حبیب اللہ تھے۔ علیہم الصلوٰۃ والسلام ان کی دیکھا دیکھی یحییٰ نے بھی اپنا ایک کلمہ تجویز کر رکھا ہے اور وہ ’’لا الہ الا اللہ یحییٰ عین اﷲ‘‘ ہے۔
دادرا
پنجاب مارشل لاء کے عہد آشوب کے بعد خاکسار راقم الحروف نے بمبئی سے ایک روازنہ اخبار بنام نصرت جاری کیا تھا۔ انہی ایام میں یحییٰ نے ایک دادرا بغرض اشاعت روانہ کیا اور یہ رقعہ بھی لکھا۔ مہربان من! تسلیم! میں زمانے کے مطابق ایک عرفانی دادرا لکھ کر بھیجتا ہوں۔ یقین ہے کہ آپ اپنے روزنامچہ بنام نصرت میں شائع فرماکر مجھ کو اور سب کو ممنون فرمائیںگے۔ خاص کر رضاکاروں کے لئے جو چرخے کے گیت گاتے پھرتے ہیں۔ زیادہ مفید ہوگا۔ (آپ کا خادم فرمانروا سید محمد یحییٰ عین اللہ) لیکن دادرا شائع نہ کیاگیا۔ اس کے بعد ۱۰؍جنوری ۱۹۲۲ء کو یحییٰ نے انا الحق اور دھرم لوری نام کے دو رسالے بغرض ریویو روانہ کئے اور لکھ بھیجا۔ بجناب برادرنامہربان بعجزوانکسار تعظیم وتکریم کے ساتھ آداب وتسلیم قبول ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ ہمیں جانتے ہیں۔ ہم نے چند بار آپ کے پاس آرٹیکل بھیجے۔ مگر نہ معلوم کیا وجہ ہوئی کہ ایک بھی شائع نہ فرمائی۔ حالانکہ مفید خلائق اور حق بات لکھا کرتے ہیں۔ لیکن آپ کی نگاہ مبارک میں جب لغو دکھائی دیتا ہے تو خیر جزاک اللہ! یہ کتاب ریویو کے لئے بھیجی جاتی ہے۔ اب جیسی آپ کی مرضی۔ اس کے بارے میں لکھئے یا نہ لکھئے۔ سپردم بتومایہ خویش را۔(آپ کا خادم سید محمد یحییٰ) دادرا کا کچھ حصہ قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے درج ذیل ہے ؎
چرخہ گھن گھن گھن بولے ذرا سنو نگر کے لوگ
دورہ ہے ہندوستان کا ہندی ہے اوتار
چمکا چمکا نور چمکا دیکھو دیکھو یار
چرخہ گھن گھن گھن بولے ذرا سنو نگر کے لوگ
جگ میں چمکا جگمگ تارہ جاگو جگ کے لوگ
میں ہی جوگی جگموہن ہوںدیکھو میرا جوگ
چرخہ گھن گھن گھن بولے ذرا سنو نگر کے لوگ
ماتھے پر ہے جگمگ تارہ ماتھا ہے مکھیات
ارے یہی محمد یحییٰ ہے میٹریا اے حضرات
چرخہ گھن گھن گھن بولے ذرا سنو نگر کے لوگ
یحییٰ ہی جگ مانس ہے یحییٰ ہی ہے جگدیو
جیسے مٹی بھیت دوآرا مٹی ہی پھرنیو
چرخہ گھن گھن گھن بولے ذرا سنو نگر کے لوگ
آؤ آؤ! دور نیا ہے ست جگ ہے دنرات
یحییٰ ہی وہ ہادی ہے لونور کی سوغات
چرخہ گھن گھن گھن بولے ذرا سنو نگر کے لوگ
ذیل میں قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے یحییٰ کی ایک دلچسپ نظم درج کی جاتی ہے ؎
راما ہم ہیں مریم ہم ہیں رستم ہم ہیں ہم ہی جم
گویا کہ بس ہم ہی ہم ہیں ہم ہی ہم ہیں ہم ہی ہم
یاد رہے تم سب کو اتنا جب تک ہے اس دم میں دم
بولیں گے ہم بیشک حق حق لاکھ کرو تم ذم پر ذم
یا امی یا امی امی امی امی امیم
مہدی مہدی مہدی مہدی مہدی مہدی ام
ہم ہی صبئی مہدی ہیں گہوارہ میں جو بولے تھے
احمد ہم ہیں موسیٰ ہم ہیں عیسیٰ ہم ہیں یحییٰ ہم
پہلے جو کچھ لائے تھے ہم ویدا کے تم سب کو گئے
تم نے اس کو ایک نہ مانا سیدھے بن کے ہو گئے خم
اب ہم جو کچھ لائے ہیں سو لے لو بھلے منسائی سے
چھوڑو اپنا دھوم دھڑکا چھوڑو اپنا سارا بم
دیکھو کیا ہے شان ہماری سارے احمد حامد ہیں
قال رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ العم
ایلی ایلی ایلی ایلی ولما سبقتنی
ان اللہ معنا پھر کیا ہے ہم کو اس کا غم
سبحنک لا علم لنا الا ما علمتنا
انک انت العلیم میں ہوں تیرا خالی فم
قدرت تیری رنگ برنگی تو قدرت کا مالی ہے
میں ہی تیرا فوٹو ہوں بس مجھ سے ہے عالم البم
ابجد ھوز حطی کلمن سعفص قرشت ثخذ ضغ
سارے علم اسی میں بھرے ہیں ظاء ظہور العالم کم
دیکھو بھاگو بچتے جاؤ چلتی ہے تلوار مری
چھم چھم چھم چھم چھم چھم چھم چھم چھم چھم چھم چھم چھم چھم چھم
خون بہے گا دنیا میں پڑ جائیں گے کہرام بڑے
سوکھی ساکھی دھرتی سب ہو جائے گی اکدم سی یم
لا تبدیل لخلق اللہ سمع اللہ لمن حمدہ
نیتی تل کے مانس کی ہے دیکھو دونو نینا نم
سبحان اللہ تعالیٰ من یخش اللہ یتقہ
جعل لکل شیٔ سبیاً وہ وہ وہ وہ وہ وہ ہم
ھو المہدی ہو الھادی لیس الہادی الا ہو
نازل ہوگا کس جا پر؟ امریکہ میں جو ہے اک تھم
خشعاً ابصارہم یخرجون من الاجداث
لیس لہم من دون اللہ کاشفۃ من ہم الغم
ہادی مہدی نرنرائن دولہا دولہن ایک ہیں
سب کے سب کنگالی ہیں اور اتم جو کھم خالی ہم
مندرجہ ذیل نظم میں اس نے مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح خودستائی کے آسمان میں پیوند لگایا ہے۔
خود بقا اور خود فنا ہوں میں | خود نبی اور خود نبا ہوں میں | |
اختر ومہر وماہ وبرج وفلک | جنت ودوزخ وخلا ہوں میں | |
بحرو بر سبزہ ومکین ومکاں | روح وارواح وبازیا ہوں میں | |
اور ناممکن القیاس جو ہو | وہ بھی میں ہوں بس اب خدا ہو میں | |
بس خدا ہی کا نام یحییٰ ہے | میں نے کچھ یا دعاء یا ہوں میں | |
واہ کیا خوب دلربا ہوں میں | اپنے ہی آپ پر فدا ہوں میں |
ابرو بادو سحاب وقوس وقزح | بارش وبرق وطور وطاء ہوں میں | |
الغرض جملہ کائن وما کان | میں ہی میں ہوں بتاؤ کیا ہوں میں | |
خود سے چھپتا ہوں شرم کے مارے | حی ویحییٰ وبا حیا ہوں میں |
عین اللہ ہونے کے متعلق مضحکہ خیز خیال آفرینی
میں نے کلکتہ میں سنا تھا کہ یہ شخص نہ صرف اردو، فارسی، عربی، ترکی، مشرقی زبانوں میں اچھی دستگاہ رکھتا ہے۔ بلکہ انگریزی جرمن فرانسی وغیرہ مغربی زبانیں بھی بخوبی جانتا ہے۔ زیادہ تر یورپ میں رہتا ہے۔ ایسا نفیس اور بیش قیمت لباس پہنتا ہے کہ اس سے زیادہ قیمتی پوشس کسی والی ریاست کو بھی میسر نہیں آسکتی۔ یہ شخص ۱۹۳۰ء کے اواخر میں لاہور بھی آیا تھا۔ لیکن میں نے اس کے دیکھنے کا قصد نہ کیا۔ نومبر میں اس کا ایک مراسلہ لاہور کے ہندو اخبار ملاپ میں شائع ہوا تھا۔ اس میں اس نے اپنے عین اللہ ہونے کی جو دلیل وبرہان پیش کی وہ جریدہ انقلاب مورخہ ۲؍دسمبر ۱۹۳۰ء سے نقل کی جاتی ہے۔ یحییٰ نے ملاپ میں لکھا تھا کہ: ’’جیسے پرندوں کے پروں کے نلی کے اندر چنیا گھاس کی طرح ایک سہ پہلو ریشہ ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کی ریڑھ کے اندر ایک سہ پہلو چیز ہوتی ہے جو سانپ سے مشابہ ہوتی ہے جس پر انسان کا ڈھانچہ قائم ہے۔ جو خیمے کے بیچ میں ستون کا حکم رکھتا ہے۔ جسے انگریزی میں وریٹبرم کالم کہتے ہیں اور سنسکرت میں یہوا اور عربی میں یوایحییٰ اور عمود الفقری کہتے ہیں۔ جس میں نور پیدا ہونے سے وجدانی وجذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کے پیدا ہوتے ہی جو بات بصیرت وبصارت سے نہیں معلوم ہوسکتی تھی اس کیفیت سے معلوم ہو جاتی ہے۔‘‘ جس کی طرف اس شعر میں اشارہ ہے ؎
بگفتا حال ما برق جہاں است
دمے پیدا ودیگردم نہان است
یعنی کہنے والے نے کہا کہ حال اس کا برق جہندہ کی طرح ہے کہ جس دم وہ چمک کر سانپ کی طرح رواںدواں ہوئی تو اس کی روشنی میں ازل سے ابد تک معلوم ہو جاتا ہے اور اگر نہ چمکی تو کچھ نہیں تو وہ ہمیشہ نہیں چمکتی۔ جس وقت چمک جائے یہ خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ یا وجدانی کیفیت پر۔ چنانچہ اگر وہ عمود الفقری جس کا ذکر اوپر پیش آیا۔ ریڑھ کے اندر سے خارج کر دیا جائے تو فی الفور جسم کا ڈھانچہ بیٹھ جائے گا۔ گویا اس قدر عمود الفقری کی ہستی کی اہمیت ہے کہ وہی بنائے جسم یا بنائے زندگی ہے۔ ایک تو یہ معنی یحییٰ کے ہیں۔ دوسرے یحییٰ کے معنی خدا کے ہیں جو سنسکرت اور عبرانی زبان کے لفظ یہوا سے بنا ہے۔ غرض یہ کہ یحییٰ کے معنی (معاذ اللہ) خدا کے ہیں
اور یحییٰ کے معنی عمود الفقری کے بھی ہیں۔ لہٰذا یحییٰ عین اللہ کے معنی یہ ہوئے کہ خدا عمود الفقری ہے اور عمود الفقری خدا کی آنکھ ہے۔ گویا خود یحییٰ عمود الفقری بھی ہے اور ریڑھ کی ہڈی بھی ہے۔ خدا بھی ہے خدا کی آنکھ بھی ہے۔
مردہ زندہ کرنے کا مطالبہ
میں نے ایک مرتبہ کلکتہ میں سنا تھا کہ یحییٰ کے دعویٰ الوہیت کے بعد کسی نے اس سے پوچھا کہ پنجاب میں مرزاغلام احمد قادیانی جو نبوت کا مدعی ہے وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے یا نہیں؟ بولا وہ جھوٹا ہے۔ میں نے تو اسے نبی بناکر بھیجا ہی نہیں۔ وہ ازخود نبی کس طرح بن بیٹھا؟ اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ قصبہ جہاں آباد ضلع گیا کا ایک ہندو سیٹھ اس کا بڑا معتقد تھا اور یہ اکثر وہاں جاکر اس کی کوٹھی میں ٹھہرا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ سیٹھ کے مکان کے قریب ایک ہندو بیوہ کا اکلوتا بیٹا مرگیا۔ وہ بیچاری مصروف بکا تھی کسی نے آکر اس سے کہا کہ روتی کیوں ہو؟ خدا صاحب آئے ہوئے ہیں وہ ادنیٰ توجہ سے تمہارے فرزند کو زندہ کر دیںگے۔ یہ سنکر غم نصیب بیوہ منتیں کرنے لگی کہ خدا صاحب سے عرض معروض کر کے میرا بچہ زندہ کرادو۔ اس نے کہا اگر فلاں سیٹھ سفارش کر دے تو یحییٰ عین اللہ صاحب تمہارے بیٹے کو ازسر نو زندگی بخش دیںگے۔ لڑکے کی لاش اٹھا کر سیٹھ کے پاس لے جاؤ اور بمنت کہو کہ اس بچے کو زندہ کرادیں۔ عورت نے بچے کی لاش اٹھائی اور سیٹھ کے مکان کی طرف لے چلی۔ سیکڑوں ہزاروں تماشائی پیچھے تھے۔ عورت سیٹھ کے مکان پر پہنچ کر زاروقطار رونے لگی اور ہاتھ جوڑ کر سیٹھ سے عرض پیرا ہوئی کہ مجھ دکھیا بیوہ کی زندگی کا آخری سہارا یہی فرزند تھا۔ جو طعمۂ اجل ہوگیا۔ اس کے بعد میری زندگی محال ہے۔ اگر سفارش کر کے اس کو زندہ کرادو تو ہمیشہ دعاء گو رہوں گی۔ سیٹھ کے دل میں رحم آگیا اور عورت کو ساتھ لے کر یحییٰ کے پاس پہنچا اور کہا کہ یہ ایک بیکس بیوہ ہے اس کا ایک ہی فرزند تھا۔ جس کو دیکھ کر دیدۂ دل روشن کرتی اور زندگی کے دن کاٹ رہی تھی۔ ازراہ کرم اس بچے کو زندہ کر دیجئے۔ سادہ لوح سیٹھ کو یقین تھا کہ جس طرح ہندو دھرم میں رام اوتار، کرشن اوتار، مشہور ہیں۔ اسی طرح یہ بھی (معاذ اللہ) خدا کا کوئی اوتار ہے اور اس میں (معاذ اللہ) رب العالمین کی ذات جلوہ گر ہے۔ یحییٰ یہ بے ڈھب درخواست سن کر بہت گھبرایا۔ اس لئے چاہا کہ حیلے حوالے کر کے بلا کوٹال دے۔ چنانچہ عورت سے خطاب کر کے کہنے لگا کہ بڑھیا! ہم ایک دفعہ مار کر کسی کو دوبارہ زندہ نہیں کیا کرتے۔ کیونکہ اگر ایسا کرنے لگیں تو ہمارا نظام کائنات درہم برہم ہو جائے۔ اس لئے اب تم صبر کرو۔ لوگوں نے عورت کو سمجھا دیا تھا کہ یحییٰ لاکھ انکار کرے مگر تم ایک نہ سننا اور اپنی درخواست پر مصر رہنا۔ عورت
ہاتھ باندھ کر یحییٰ کے سامنے کھڑی ہوگئی اور گڑگڑا کر عرض کرنے لگی۔ خدا صاحب مجھ غریب بیوہ پر رحم کرو۔ اس ایک بچے کو زندہ کر دینے سے تمہارا نظام کائنات نہیں بگڑ جائے گا۔ غرض اس کی منت سماجت اور گریہ زاری حد سے بڑھ گئی اور پاس سے سیٹھ نے بھی زور دیا کہ اس عورت پر رحم فرمایا جائے تو ناچار یحییٰ نے اس کے زندہ کردینے کا وعدہ کر لیا اور عورت سے کہا اچھا اس وقت تو تم لاش کو بحفاظت گھر لے جاؤ۔ صبح سویرے میرے پاس لے آنا میں زندہ کر دوںگا۔ عورت کامل وثوق واطمینان کے ساتھ بیٹے کی لاش گھر اٹھا لائی۔ لیکن یحییٰ اس رات وہاں سے چمپت ہوگیا۔ جس طرح مرزاغلام احمد قادیانی اپنے من گھڑت معجزات کا پروپیگنڈا کرتا رہتا تھا۔ اسی طرح یحییٰ نے بھی اپنا ایک آسمانی نشان بنا رکھا ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ ۲۳؍دسمبر ۱۹۲۰ء کے دن بوقت پانچ بجے شام جو ستارہ ٹوٹ کر سانپ کی شکل پر ہوگیا تھا اس کی نشست میں یحییٰ کا املاء پڑھا جاتا تھا اور اس کی روشنی کے سامنے آفتاب ماند پڑ گیا تھا۔ چنانچہ لکھتا ہے ؎
کیا بخط اژدھا تھا آسمان کی لوح پر؟
صاف تھا املائے یحییٰ پڑھ چکے اہل نظر
شریعت یحیویہ کے اوامر ونواہی
یحییٰ بھی مرزاغلام احمد قادیانی کی طرح انگریز کی رعایا اور اغیار کا محکوم ہے۔ لیکن اس نے اپنی من گھڑت شریعت کے جو مضحکہ خیز احکام کتاب فرمان میں لکھے ہیں۔ ان کا لب ولہجہ ایسا تحکمانہ ہے کہ گویا کسی والی ملک کے حدود وتعزیرات ہیں۔ بہرحال اس کی شریعت کا بانکپن ملاحظہ ہو۔ لکھتا ہے۔ زانی کو کتے سے کٹوا کر ہلاک کر دو۔ پسند کئے بغیر شادی نہ کرو اگر کوئی مزاحم ہو تو اس پر کھولتا ہوا پانی ڈالو کوئی کسی کا منہ چڑائے تو اس کے ہونٹ کاٹ ڈالو۔ ابرو سے اشارہ کرے تو موچنہ سے بال نوچ دو۔ بہتان باندھنے والے کو چونہ کی بھٹی میں بٹھا کر پانی ڈال دو۔ قاتل کو کرسی پر بٹھا کر اس پر برقی رو ڈالو اور ہلاک کر دو۔ جو باغ میں پیشاب کرے اس کے منہ پر پیشاب کرو۔ نطفہ ضائع کرنے والے کا آلۂ تناسل قطع کر دو۔ جو عورت گاجر وغیرہ سے فرزجہ کرے نمک نوشادر اور مرچ سے اس کو فرزجہ کرو۔ جانور سے جماع کرنے والے کا عضو تناسل کاٹ دو جو کوئی زنا بالجبر کرے اس کی جورو یا بیٹی سے برسر بازار زنا کراؤ اور کتے سے اس کی سفرہ کو بی کراؤ۔ پھر تہ خانے میں برف کے نیچے دبا دو۔ زانی کو الٹا لٹکا دو کہ سوکھ سوکھ کر ہلاک ہو جائے یا درندے نوچ کھائیں اور مفعول کو سولی دو۔ زانیہ کو حمل ہو جائے تو اسکو حراست میں رکھو کہ حمل نہ ساقط کر سکے۔ اگر حمل گرائے تو قتل عمد کی سزا دو۔ جو کسی کو عقیم ہونے کی دوا دے یا مخنث بنائے اسے لاکھ کی دیوار
میں چپکا دو۔ آگ لگانے والے کو توپ سے اڑا دو۔ باغی کو بچھوؤں کی خندق میں ڈالو اور زبان کاٹ دو۔ جو شخص برا افسانہ لکھے یا غیبت اور غمازی کرے یا جھوٹی گواہی دے یا جھوٹی مخبری کرے اس کی آنکھ میں چونہ بھر دو۔ انگلی سے بکر نہ توڑو۔ زفاف کا خون نہ دکھاؤ۔ سب اردو بولو۔ یہی ذریعہ تعلیم ہو۔ فرمانروائے کل (یحییٰ) کو قبول کرو۔ جس کے ماتحت فرمانروائے جز ہوں۔ خمس (مال کا پانچواں حصہ) تحصیل کر کے (یحییٰ کے) بیت المال میں جمع کراؤ۔ یہ بیت المال فرمانروائے کل (یحییٰ) کے زیر تصرف رہے گا۔ جو اتحاد میں مزاحم ہو اسے تیزاب میں ڈالو۔ شفایاب ہو جائے تو پھر تیزاب میں ڈالتے رہو۔ بلااستحقاق مال کھانے والے پر وہی مال پگھلا کر ڈالو۔ سرکشی کی سزا چار منجہ ہے۔ جس پر اس کی کھال کھینچی جائے۔ فرمان کے خلاف چلنے والے کو سنگسار کرو۔ جس عضو سے جو برائی ہو وہی کاٹ ڈالو۔ یحییٰ مسیح کا یہی لیکچر ہے جو گرجاؤں میں دہرایا جائے۔ گرجا کو صاف رکھو۔ اتوار کو منبر کے پاس نجور جلاؤ۔ داہنے بائیں مسیح ثانی (یحییٰ) کی دو تصویریں ہوں۔ لوگ سینہ پر ہاتھ رکھ کر سرجھکائیں۔ حکام کے بیٹھنے کے لئے اوپر برآمدہ ہو۔ منبر کے پاس اسٹیج پر خوش آواز باجہ ہو۔ جب فرمان پڑھتے پڑھتے کوئی سرور افزا مقام آجائے تو خوش گلو لوگ باجے کے ساتھ گانے لگیں۔ بیت المقدس کو سید المعابد بناؤ۔ فرمان کی تلاوت ڈیڑھ گھنٹہ سے زیادہ نہ ہو۔ بیچ میں ٹفن کی چھٹی بھی ہو۔ جلسہ برخاست ہونے کے وقت خطیب ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگے۔ اختتام دعاء کے بعد لا الہ الا اللہ یحییٰ عین اللہ کہہ کر سب لوگ سینہ پر ہاتھ رکھ کر سر جھکادیں۔ میت کے غم میں چالیس دن تک ماتمی نشان بازو پر رکھو۔ مردہ کو گاڑی پر لے جاکر مشین کے ذریعہ سے آگ میں پھونک دو۔ بے اجازت گاڑی کے پیچھے بیٹھنے والے کو خوب پیٹو۔ اگرچہ مر جائے۔ اضلاع کی رپورٹیں وائسرائے کے پاس جایا کریں اور وہ فرمانروائے کل (یحییٰ) کے پاس بھیجے۔ مشہور خادم خلق اللہ کا مجسمہ کسی بڑے شہر میں بلند مینار پر نصب کرو۔ لڑکی اپنی تصویریں بھیجے اور لڑکوں کی تصویریں منگوائے۔ پھر قرعہ ڈال کر انتخاب کرے۔ پھر دونوں گرجا میں جاکر شادی کر لیں۔ ٹیلیفون اور تار کے کھمبوں پر صلیب اور چاند ستارہ کی شکل ہو۔ کوئی نن مرلی، جوگی اور سنیاسی نہ بنے۔ کوئی عورت چہرے پر نقاب نہ ڈالے اور پاجامہ نہ پہنے۔ بلکہ گون اور بوٹ اور ساڑھی پہنے۔ کوئی عورت مہندے نہ لگائے۔ سلام کرنے میں ٹوپی اتارو اور سینے پر ہاتھ رکھو۔ مونچھ سے خوبصورتی ہوتی ہے۔ سرمہ نہ لگاؤ۔ پاجی کی خوب خبر لو ورنہ تم سا کوئی ولد الحرام نہیں۔ فرستادۂ خدا (یحییٰ) کے سامنے دلائل پیش نہ کرو۔ کسی کا پس خوردہ پانی نہ پیو۔ گلاس بائیں ہاتھ سے پکڑو۔
اہل ایمان سے عناد
کتاب فرمان کے جو اقتباسات اوپر درج ہوئے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شخص نہ صرف مغربیت کا بہت دلدادہ بلکہ انتہاء درجہ کا مطلق العنان بھی ہے۔ اگر یہیں تک محدود رہتا تو چنداں افسوسناک نہ تھا۔ کیونکہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں ملحد وزندیق موجود ہیں۔ لیکن اس کی سرشاری ضلالت کا ایک نہایت دلفگار پہلو یہ ہے کہ اس نے بے حیائی کا لبادہ اوڑھ کر اصول اسلام کا مضحکہ اڑایا ہے اور اہل ایمان کو ایسی ایسی گالیاں دی ہیں کہ لیکھرام یا کسی بدلگام پادری کو بھی ان کی جرأت نہ ہوئی ہوگی۔ گو ان خرافات کا نقل کرنا جن کو پڑھ کر ایک غیور مسلمان کا خون کھولنے لگتا ہے۔ مجھ پر سخت شاق ہے۔ لیکن یہ دکھانے کے لئے کہ ان شیاطین اخرس کو جو تقدس کے دعوؤں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اسلام اور اہل ایمان سے کس درجہ عناد ہوتا ہے۔ اس کی فحاشی کے چند نمونے پیش کرتا ہوں۔ سلام کے معنی عافیت وسلامتی کے ہیں اور السلام علیکم کے یہ معنی ہیں کہ تم سلامت اور مفلح وکامگار رہو۔ لیکن یہ لعین لکھتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے السلام علیکم کہہ کر یہ بتایا تھا کہ بابا تم کو سلام ہے۔ گویا یہ لفظ لعنۃ اللہ علیکم کا مرادف ہے اور لکھتا ہے کہ اسلام اور مسلم کا لفظ بھی آج نجس معنی میں استعمال ہورہا ہے۔ حالانکہ اس سے بڑھ کر کوئی معزز ومحترم لفظ ہی نہیں۔ کیونکہ اسلام کے معنی تسلیم کرنا اور مسلم کے معنی اطاعت شعار کے ہیں اور لکھتا ہے کہ شریعت قدیم ختم ہوگئی۔ اب شرع جدید پر عمل کرو اس کے خلاف کرنا جرم ہے ورنہ تم واجب التعزیر ہوگے اور تمہارا مال ومتاع چھین لیا جائے گا اور تمہاری جورود بیٹی خواص (لونڈی) بنالی جائے گی۔ پھر تہ تیغ کیا جائے گا۔ رومی، ایرانی، حیدرآبادی اور انگریزی ٹوپی پہنو۔ پگڑی شملہ ابلیس کا لباس ہے اور لکھتا ہے وہ قوم (معاذ اللہ) بڑی حرامزادی مردود ہے۔ جس نے کتابوں (قرآن) کا حرف حرف نقطہ نقطہ اعراب وغیرہ شمار کیا ہے۔ موسیقی بہترین چیز ہے۔ مگر وہ سؤر کے بچے حرامزادے ہیں جو اس نعمت الٰہی کا کفران کرتے ہیں۔ ختنہ نہ کرو۔ حاملہ بیہودہ قیام وقعود اور حرکت بیجا (نماز) کو عبادت نہ سمجھے۔ مثلاً بارہا زمین پر ناک رگڑنا (سجدہ کرنا) اور دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑ دھوپ کرنا، جھوم کھیل کھیل کے روسیاہ پتھر کو چومنا، شیطاین کا ایک مجمع تصور کر کے اینٹ پھینکنا سخت بیہودہ حرکتیں ہیں ۔ وہ حرامزادے ہیں جو عورتوں کو حبس بیجا کرتے (پردے میں رکھتے) ہیں۔ بہت سے مردود لوگ تصویر رکھنا حرام سمجھتے ہیں۔ وہ حرام کے بچے یہ نہیں سمجھتے کہ کوئی چیز تصویر سے خالی نہیں۔ لہٰذا ایسی مادر بخطا مردود حرامزادی قوم جحود کی باتیں نہ سنو۔ یہ ہیں ایسے شخص کے اخلاق عالیہ جسے خدا کا نائب یا (معاذ اللہ) ناسوتی پیکر میں لاہوت ہونے کا دعویٰ ہے اور میرا خیال ہے کہ آج تک
جس قدر لفنگے میدان مذہب میں عقل کے پیچھے لٹھ لئے پھرے۔ ان میں یحییٰ جیسا کوئی بدمعاش نہ ہوگا۔ جس نے اہل حق کو اس طرح سوقیانہ گالیاں دے کر اپنی فرومائیگی کا عملی ثبوت پیش کیا۔ ’’فنعوذ باﷲ من ہذا الشیطان الرجیم وعلیہ لعنۃ اللہ والناس اجمعین الیٰ یوم الدین‘‘
انگریز بہادر کی حمد وثنا
مولوی محمد عالم صاحب آسی امرتسری لکھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد، یحییٰ بہاری اور اس قسم کے دوسرے لوگ جو مامور بن کر آتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مامور من اللہ نہیں ہوتے بلکہ مامور من النصاریٰ ہوتے ہیں۔ جو عیسیٰ اور مہدی کا روپ دھارن کر کے مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو مسیحیت سے مانوس کریں یا کم ازکم انہیں دین نصاریٰ سے برسر عناد وپیکار نہ رہنے دیں۔ میں مولوی صاحب کے اس خیال سے پورا متفق ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ ایسے لوگ مشن کی طرف سے بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں اور یہ صرف کچھ جھوٹے مدعیوں پر موقوف نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو مذہب میں رخنہ اندازی کر کے ملک میں آتش فتنہ مشتعل کرتا ہے وہ بھی نصاریٰ کا ایجنٹ ہے۔ چنانچہ سنا گیا ہے کہ عبداﷲ چکڑالوی بانی فرقہ اہل قرآن نصاریٰ کا گماشتہ تھا اور یہ کہ اسے مشن کی طرف سے اس معاوضہ میں بیش قرار مواجب ملتے تھے کہ اسلام میں الحاد کر کے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالے۔ واﷲ اعلم بحقیقۃ الحال!
مرزاغلام احمد قادیانی نے انگریز کی تعریف میں بقول خود پچاس الماریاں کتابیں لکھی تھیں۔ یحییٰ بہاری پچاس الماریاں لکھنے کی سعادت تو حاصل نہ کر سکا۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے فرض سے قاصر نہیں رہا۔ چنانچہ اس کا رسالہ انا الحق اس حقیقت کا شاہد ہے۔ گو اس نے مقولۂ عوام کے زیر عنوان انگریزوں کی چند کوتاہیاں بھی نقل کی ہیں۔ مگر پھر انگریز کی طرف سے ان اعتراضوں کے جواب دے کر پوری طرح حق وفا ادا کر دیا ہے۔ مقولۂ عوام کے تحت میں لکھتا ہے ؎
میں نے مانا تو بہت اچھا ہے لیکن یہ تو کہہ | اہل امریکہ نے تجھ کو کیوں کیا گھر سے بدر؟ | |
کیوں تجھے صاحب دغا کہتے ہیں سب دنیا کے لوگ | کچھ نہ کچھ تو دال میں کالا ہے یا سب ہے لچر؟ | |
یہ بھی کہہ مجھ کو کہ آئرلینڈ کیوں تجھ سے ہے تنگ | ہے ترا ہمسایہ بلکہ جزو عضو دست وبر | |
کیوں تجارت کے بہانے لوٹتا ہے ملک کو؟ | کورٹ فیس اتنی بڑھائی ہے کہ گویا الحذر! | |
ہے کہیں محصول بیجا ہے کہیں حد سے فزوں | ہے یہ کیوں حشرات برپا؟ کچھ تو اس مالک سے ڈر | |
ایک چٹکی بھی نمک کوئی بنا سکتا نہیں | اس قدر ظلم وتعدی ساری خلق اللہ پر |
صنعت ہندوستان کی تو نے کی مٹی پلید | اور انگوٹھے ان کے کاٹے جو تھے اچھے کارگر | |
تو نے اپنے ملک میں ہندوستانی چھینٹ کو | پاپ ٹھہرایا پہننا واقعہ کو یاد کر | |
کیوں خوشی معدوم ہے؟ میلا جھمیلا کیوں نہیں؟ | کیوں کنوارے اس قدر ہیں؟ کیوں بھکاری اس قدر؟ | |
حالت افلاس میں شادی کبھی جائز نہیں | بانی افلاس کہتے ہیں تجھی کو سب بشر | |
وقت پیری سب کو حاجت ہے کہ وہ عینک لگائے | اس قدر غربت بڑھی کہ لے نہیں سکتا مگر | |
ہیسٹنگ اور واقعات لارڈ کچز یاد ہیں | اور ڈگبی کارپٹ ہے دل میں نقش کا الحجر | |
حسن ملیامیٹ ہے جو نسل ہے برباد ہے | بھوک سے سب مر رہے ہیں اور تو کھائے بٹر | |
اے تو قہر اللہ جلدی آو ظالم کو نکال | ورنہ اے ظالم یہ کہتا ہوں کہ جلدی سے سدھر | |
کیوں نہ تعلیمات جبراً دی کہ سب بنتے عقیل؟ | کیوں نہ کوشش کی کہ ہوتے متحد بایک دگر؟ | |
فرض شاہی کیوں نہیں اچھی طرح پورا کیا؟ | فائدہ اپنا ہی رکھا ہر جگہ مدنظر | |
گیارہ آنے خود لئے تو ایک آنہ دے دیا | یہ کوئی انصاف ہے؟ انسانیت سے غور کر | |
کوئی ہو انساں کی صورت میں اسے بھائی سمجھ | ورنہ اے ساگر! تو بڑھ انگلینڈ کو غرقاب کر | |
یہ نہیں کہ مار ڈالے اونگھنے والے کو تو | یاٹرینوں میں تو بیٹھے آدمی کے پیٹ پر | |
جونک بن کر چوس ڈالے سب بنی آدم کا خوں | اور یہ ظلم وتعدی ہوں عمل میں مستمر | |
اور ہر انساں کو سمجھے بدتر از عبد ورہی | ان سے جو برتاؤ ہو بدتر ہو از کلب وبقر | |
کیس جب اس کا چلے تو نرم کر دے کیس کو | کالے گورے کی لگائے پخ یہ ہے اک ظلم وشر | |
ایسی حالت میں مجھے بے اعتنائی فرض ہے | اس پہ جو عامل نہ ہو گویا ہے مٹی یا حجر | |
اے تم ایسے لوگ! جب دیکھو کہ وہ ایسا کرے | رخ وہیں اپنا بدل دو یہ عمل ہی ہے سپر | |
جب ہوئے معزول اپنے فعل سے سب بادشاہ | یہ نہ کیوں معزول ہو کیا اس میں ہے عنقاء کا پر؟ | |
کیا یہ کہنا ان کا سچ ہے یا فقط ہے اتہام؟ | اس کو جلدی صاف کر یہ کیس ہے بس پر خطر | |
ورنہ تم سے بڑھ کے لچا کوئی عالم میں نہیں | جس قدر ہو ظلم تم پر، عدل ہے بلکہ ہنر | |
ملک لیں شمشیر سے ہم پھیردیں تقریر سے؟ | دشمنوں نے کس طرح ہم سے لیا تھا پیشتر | |
ملک لے کر کرکب دیا تم کو بنی سفیان نے | گرچہ ان پر لعنتیں برسائیں سب نے عمر بھر | |
باپ تک تو جیتے جی دیتا نہیں بیٹے کو ملک | کس طرح سے غیر دے دے؟ ہے کہاں اے بے خبر |
یہ تدبر ہے کہ بچے سے کہیں ہم اے عزیز | کل فجر کو چاند لادیں گے تو سورہ جک نہ کر | |
اب خدا سے رنج ہو جا کیوں مجھے اس نے دیا | میرے کرتب کا یہ پھل ہے خذ صفادع ماکدر | |
اک محلہ چونکہ آئر لینڈ ہے انگلینڈ کا | اس لئے اک گھر میں دو سوراج آفت کا ہے گھر | |
قوم امریکہ نے کب پایا؟ کہ جب لائق بنا | ہاں مگر افسوس ہے کچھ ہوگیا تھا شوروشر | |
ہر جگہ اچھے برے ہیں جاہلوں کو دیکھ لو | اب فرنگی ہو کہ زنگی ہو کہیں کا ہو بشر | |
پس کسی انگریز جاہل نے اگر کی ہے خطا | مت نکالو ایک جاہل کے لئے سب سے کسر | |
ساری دنیا میں سمجھ لینا کہ میں ہی ہوں برا | کیا یہی انصاف ہے اور شیوۂ انصاف ور | |
پہلے ہی سے ہے جہاں میں جنگ وغربت کا وجود | شاہد اس کے ہیں کتاب وآمد پیغام بر | |
پہلے زرکم تھا تو ارزانی بھی تھی چاروں طرف | اب زیادہ زر ہے اس نسبت سے ہے سودا وزر | |
میں نے تجھ کو کب کہا؟ حرفت نہ کر حیوان بن | تو تو خود اس کو برا کہتا ہے خود انصاف کر | |
کیا نہ چوہوں کا کہیں معبد میں ہے بول وبراز | اس سے بھی بدتر ہیں انگریزان اے بیہودہ سر؟ | |
گر یہی انصاف ہے تو پھر ہمیں کیا چاہئے | غالباً یہ چاہئے ہم تجھ کو سمجھیں گاؤ خر | |
ٹھیک ایسا ہی ہے اپنا داخلہ اس ملک میں | جس طرح سے ہند میں آیا کوئی ہندو کے گھر | |
تم تو خود دجال ہو دجال کے ساتھی بنے | ہم پہ الٹا دوش رکھتے ہو کہ ہیں دجال فر | |
صید کو صیاد جو دیتے ہیں دھوکا وقت صید | ہے وہ دھوکا یا کہ حکمت؟ کہ تو اس کو اے بقر | |
میں نے مانا میں فریبی ہوں بڑا مکار ہوں | تم نے کیوں مانا مجھے ہر دم فریبی جان کر | |
میں لڑاتا ہوں تو کیوں لڑتے ہو؟ کچھ ہو مت لڑو | خود تو لڑتے ہو مگر الزام ہے شیطان پر | |
اس لئے نا اہل ہو نادان ہو مردود ہو | ہوش میں اب تک نہ آیا کوئی بھی بکرو عمر | |
ملک کو نہلا دھلا کر صاف ستھرا کر دیا | اس کی مزدوری جولی پبلک ہوئی ناراض تر | |
جب دوا چھوڑی کنوئیں میں تاکہ پانی صاف ہو | لوگ بولے زہر میں نے دے دیا ہے جان کر | |
جب کبھی چاہا کہ اچھی بات کی تعلیم دوں | بول اٹھے بیدین کرنا چاہتا ہے یہ سؤر | |
ایک منسپلٹی جو دی تھی اس کی حالت دیکھئے | جس طرف رہتے ہیں ہم رکھتے ہیں اس کو صاف تر | |
اور جہاں رہتے ہیں خود ہی اس کو رکھتے ہیں کثیف | جب چلے ہم دیکھنے کو کر دیا آب گہر | |
اب کوئی عادل اسے فیصل کرے میں کیا کروں | تنگ آکر میں نے چھوڑا ان کو ان کی رائے پر | |
کیسی ہی سچی خبر دوں یہ نہ مانیں گے کبھی | ہاں اگر میرے مخالف ہے تو ہے سچی خبر | |
ہیکل رانی کو بے حرمت کیا اکثر جگہ | اور اس کے واسطے پیدا کئے والنٹیر |
دشمنوں سے چونکہ دہشت تھی ہمیں ہر سمت سے | اس لئے حفظان ذاتی میں تھے ہم مصروف تر | |
اس میں تھی حاجت زروافر کی ہر اک طور سے | اس لئے کچھ زرکشی زائد ہوئی ہے عفو کر | |
اس کا آگے بندوبست ہوگا کہ ہو آرام جاں | مہربانی کر کے کچھ خاموش رہ جلدی نہ کر | |
بم سے جب مارا تھا دہلی میں وزیر ہندکو | قتل دہلی پر ہوا کب؟ مستعد انگلش پسر | |
کیسے اک مجرم کی خاطر بیگناہوں کا ہوخوں | منہ خدا کو کیا دکھائیں گے کریں ایسا اگر | |
ہم اگر چاہیں تو سارے لیڈروں کو خفیتہ | ایک دم غائب کرا دیں خوف ہے رب سے مگر | |
رحم کھاتے ہیں کہ یہ بچے ہیں سب نادان ہیں | روتے روتے خود ہی چپ ہو جائیں گے سب گھر بہ گھر | |
ہم توزر سے کارخانے کھولتے ہیں ہر جگہ | اور یہ سب زر کو رکھتے ہیں زمیں میں گاڑ کر | |
مفت میں کچھ کام لینا یا مصنف سے کتاب | اس کے معنی یہ ہیں دے دے مفت میں خون جگر | |
برکتیں کیسے ہوں؟ کیسے ہو ترقی علم کی؟ | اہل امریکہ ویورپ بھی ہیں کیا ایسے ہی خر؟ | |
جس کو عیسائی بنایا صاف ستھرا کر دیا | کہ دیالے کھا کما بابا اور اپنا کام کر | |
جس جگہ کثرت سے ہوں گے کاروبار مشغلہ | وقت کب ان کو ملے گا تا کہ ہوں بدکار تر | |
جو نکمے اور مفلس ہیں وہی بدکار ہیں | تاکہ وقت زندگانی ہو کسی گونہ بسر | |
عقل کا مفلس بھی ہے بدکار بیشک ہر جگہ | دیکھ لو دونوں نظریں عقل رکھتے ہو اگر | |
لوگ جب غافل ہوئے انگریز تب بھیجا گیا | شاید عند اللہ ہے دارین کا یہ کسٹمر | |
ایشیا کا ڈوم ہو یا ایشیاء کا ہو چمار | مغربی ڈوموں چماروں کے مقابل میں ہے خر | |
ان کے کھپڑے پھوس کے چھپڑ کو دیکھو غور سے | کیسے ہیں سڈول؟ اب دیکھو الٹ کر اپنا گھر | |
کوئلے سے اور لکڑی سے جہاں کھانا پکے | وہ ہے بہتر یا غلاظت سے ہے پکنا خوب تر | |
ایک منہ میں آم لے کر اس کو چوسے باربار | بے گھنائے اس کو دیکھے اپنے دیدے پھاڑ کر | |
دوسرا چمچے سے کاچھے بعدہ کھائے اسے | کون ان دونوں میں بہتر ہے؟ تو کہہ اے مفتخر | |
پوختہ بر ریختہ دیوار پر اپلے کی تھاپ | یہ تمیز ان کی ہے دیکھو ان کا یہ مکھپات گھر | |
جس گلی کوچے میں جاؤ شور برپا ہے وہاں | ان کی یہ اولاد ہیں اور خود ہیں یہ ان کے پدر | |
ہاتھ باندھیں جا کے یہ حاکم کے آگے کس طرح | یہ نہ فیصل کر سکے تو کیا کریں گے اپنا سر؟ | |
رینگنے جس کو نہ آئے وہ ہو زپلن پر سوار | فرش پر چلنے نہ آیا کیا چلے گا عرش پر؟ | |
گر کبھی زپلن پہ بیٹھے ہوگیا کپڑا خراب | اور چلانے لگے بھیا مرے! جلدی اتر | |
آج تک اچھا نہ دیکھا نظم شادی وبرأت | کیا کریں گے انتظام سلطنت یہ بد گہر |
دیکھ لو نظم ریاست گر نہیں ہے اعتبار | والیان ملک ہیں سب باخبر یا بے خبر؟ | |
کیا نہ دی تھی میں نے تجھ کو اس کے پہلے سلطنت | مل گیا دشمن سے تو اپنے ولی کو چھوڑ کر |
میں نے خوشامد کے طومار میں سے وہ اشعار لے لئے ہیں جو ہندوستانیوں کے لئے سبق آموز اور تازیانہ عبرت ہوسکتے تھے۔ باقی سب چھوڑ دئیے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یحییٰ کے پیروؤں کی تعداد کس قدر ہے؟ سننے میں آیا ہے کہ مسلمان بہت کم اس کے دام تزویر میں پھنسے ہیں اور یہ کہ اس کے پیروؤں کی بہت بڑی اکثریت ہنود ویہود پر مشتمل ہے۔
باب۷۳ … عہد بنو عباس کے برساتی نبی
خلافت عباسیہ کے دور میں جب ایک طرف فلسفہ یونان کا مذاق مسلمانوں میں بڑھتا جاتا تھا اور دوسری طرف مختلف مذاہب کی تاریخ سے اہل عرب آشنا ہونے لگے تھے۔ صدہا لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر ایسے ہی لوگ تھے جو دعویٰ نبوت کرتے ہی پکڑے گئے اور خلیفہ وقت کے سامنے پیش ہونے کے بعد بھی اپنے دعویٰ پر قائم رہے تو ان کی گردن مار دی گئی۔
۱… مامون رشید کے سامنے ایک بار دس مدعیان نبوت ایک ساتھ پکڑ کے لائے گئے۔ قصر خلافت میں آتے وقت جب وہ راستہ میں وقار وتمکنت کی شان سے گذر رہے تھے۔ کیونکہ سب تعلیم یافتہ اور شائستہ صورت کے لوگ تھے تو ایک طفیلی کو جو دعوتوں میں بے بلائے جاکے پیٹ بھرنے کا عادی تھا دھوکا ہوا کہ یہ لوگ کہیں دعوت میں جارہے ہیں اور ان کے غول میں مل گیا۔ مامون کے سامنے جب یہ لوگ پہنچے تو سب لوگ متحیر تھے کہ یہ دس کے گیارہ کیونکر ہوگئے۔ جب تصدیق کے بعد ان کے قتل کا حکم ہوا تو وہ طفیلی گھبرایا اور بولا میں تو یہ سمجھ کے ان کے ساتھ ہولیا تھا کہ یہ کسی امیر کے ہاں دعوت میں جارہے ہیں۔ ورنہ مجھے دعویٰ نبوت سے کیا علاقہ؟ یہ سن کر تمام حاضرین ہنس پڑے اور مامون بھی مارے ہنسی کے لوٹ گیا۔ آخر تمام مدعیان نبوت موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے مدعیان نبوت میں سے بعض خلیفہ کے سامنے کوئی لطیفہ یا مذاق کا فقرہ کہہ کر چھوٹ جاتے تھے۔ جیسا کہ واقعات ذیل سے ظاہر ہوگا۔
۲… خلیفہ مہدی عباسی کے عہد میں ایک شخص نے دعویٰ نبوت کیا۔ جب اسے پکڑ کے دربار خلافت میں لائے تو مہدی نے پوچھا تم نبی ہو؟ بولا جی ہاں۔ پوچھا اور کن لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے ہو۔ بولا تم نے کسی کے پاس ایک گھڑی بھر کے لئے بھی توجانے
نہیں دیا۔ میں نام لوں توکس کا لوں؟ ادھر میں نے دعویٰ کیا اور ادھر تم نے مجھے پکڑ کے قید خانہ میں بندکر دیا۔ یہ جواب سن کر مہدی ہنسا اور اسے چھوڑ دیا۔
۳… ایک شخص نے ایک بار بصرہ میں پیغمبری کا دعویٰ کیا۔ لوگ اسے پکڑ کے حاکم بصرہ سلیمان بن علی کے پاس لائے۔ سلیمان نے صورت دیکھتے ہی کہا۔ تم خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہو؟ بولا جی اس وقت تو قیدی ہوں۔ پوچھا کمبخت تجھے کس نے نبی بنایا ہے۔ بولا بھلا پیغمبروں کے ساتھ ایسی ہی تہذیب سے گفتگو کی جاتی ہے؟۔ اے بے عقیدہ شخص اگر میں گرفتار نہ ہوتا تو جبریل کو حکم دیتا کہ تم سب کو ہلاک کر ڈالیں۔ مگر کیا کروں قید میں ہوں۔ سلیمان نے پوچھا تو کیا قیدی کی دعاء نہیں قبول ہوتی؟ بولا جی اور کیا۔ خصوصاً انبیاء کا تو معمول ہے کہ جب تک قید رہتے ہیں ان کی دعاء آسمان پر نہیں جاتی۔ سلیمان کو اس پر ہنسی آگئی اور کہا اچھا میں تمہیں چھوڑے دیتا ہوں۔ آزادی پانے کے بعد تم جبریل امین کو حکم دو اور اگر انہوں نے تمہارے کہنے پر عمل کیا توہم سب تم پر ایمان لائیں گے۔ یہ سن کے بولا خدا سچ فرماتا ہے۔ ’’فلا یؤمنوا حتیٰ یروا العذاب‘‘ (یہ لوگ جب تک عذاب کو دیکھ نہ لیں گے ایمان نہ لائیں گے) یہ جواب سن کر سلیمان بہت ہنسا۔ پھر اس سے کہا جاؤ۔ پھر کبھی نبی نہ بننا اور اسے چھوڑ دیا۔
۴… مامون کے عہد میں ایک اور شخص نے دعویٰ نبوت کیا اور اس خصوصیت کے ساتھ کہ میں ہی ابراہیم خلیل اللہ ہوں۔ جب وہ مامون کے سامنے پیش کیاگیا تو اس وقت ثمامہ بن اشرس مامون کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ مامون نے اس مدعی نبوت کی کیفیت سن کے کہا میں نے ایسا جری شخص نہیں دیکھا کہ خدا پر بھی تمہت لگائے۔ ثمامہ نے کہا اگر اجازت ہو تو میں اس سے گفتگو کروں۔ اس نے اجازت دی اور ثمامہ نے کہا اے شخص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس تو نبوت کی دلیلیں بھی تھیں۔ تمہارے پاس کون سی دلیل ہے؟ پوچھا ابراہیم علیہ السلام کے پاس کون سی دلیلیں تھیں؟ ثمامہ نے کہا آگ جلائی گئی اور وہ اس میںڈال دئیے گئے۔ مگر آگ ان کے لئے ٹھنڈی اور آرام دہ ہوگئی تو ہم تمہارے لئے آگ جلواتے ہیں اور تمہیں اس میں ڈال دیں گے۔ اگر تمہارے لئے بھی آگ ویسی ہوگئی تو تم پر ایمان لے آئیںگے۔ یہ سن کر وہ بولا یہ زیادہ مشکل ہے۔ اس سے کوئی آسان صورت بتاؤ۔ ثمامہ نے کہا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مانند دلائل نبوت پیش کرو۔ اس نے پوچھا ان کے دلائل کیا تھے؟ کہا ان کے پاس عصا تھا جب اسے زمین پر ڈال دیتے اژدھا بن جاتا۔ انہوں نے اسی عصاء سے مار کر سمندر کو ٹھہرا دیا تھا۔ بولا اس سے بھی آسان صوت نکالئے۔ کہا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دلائل سہی۔ پوچھا وہ کیا تھے؟ کہا مردوں
کو زندہ اور اندھوں، کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے تھے۔ بولا یہ تو سب پر قیامت ہے۔ ثمامہ نے کہا پھر کوئی دلیل نبوت تو ضرور ہونی چاہئے۔ اس نے جواب دیا میرے پاس اس قسم کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے جبریل سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے شیطانوں کے پاس بھیجتے ہو تو کوئی دلیل دو تاکہ میں اسے پیش کروں۔ اس پر جبریل بگڑے۔ خفا ہوئے اور کہا تم نے خود ہی برائی سے اپنے کام کی ابتداء کی۔ جاکے دیکھو تو کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ یہ باتیں سن کے ثمامہ نے مامون سے کہا امیرالمؤمنین اس کا دماغ خراب ہے۔ مامون نے کہا ہاں میں بھی ایسا ہی خیال کرتا ہوں اور یہ کہہ کے اسے نکلوا دیا۔
۵… اسی طرح ایک اور شخص ادعاء نبوت کا مجرم بن کر خلیفہ مہدی کے سامنے پکڑا آیا۔ مہدی نے اس کی صورت دیکھ کے پوچھا تم کب مبعوث ہوئے؟ بولا آپ کو تاریخ سے کیا تعلق؟مہدی نے پوچھا تمہیں کہاں نبوت ملی؟ بولا خدا کی قسم یہاں تو ایسی باتیں پوچھی جارہی ہیں جن کو نبوت سے کوئی علاقہ نہیں۔ اگر آپ میری نبوت مانتے ہوں تو میں جو کچھ کہوں اسے مانئے اور میری پیروی کیجئے اور اگر آپ مجھے جھوٹا سمجھتے ہوں تو اپنے گھر خوش رہئے اور مجھے چھوڑئیے کہ میں اپنا راستہ لوں۔ مہدی نے کہا چھوڑ کیونکر دوں؟ تمہاری وجہ سے دین میں فساد پڑے گا۔ یہ سن کر بولا بڑے تعجب کی بات ہے۔ جب اپنے دین میں خرابی پڑنے کے اندیشہ سے آپ برہم ہوئے جاتے ہیں تو پھر مجھے کیوں نہ غصہ آئے۔ کیونکہ میری تو نبوت ہی کا سارا کاروبار بگڑا جاتا ہے۔ آپ کی ساری شان وشوکت اور یہ سارا جبروت معن بن زائدہ اور حسن بن قحطبہ کے ایسے سپہ سالاروں کے برتے پر ہے۔ اتفاقاً اس وقت قاضی شریک سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ مہدی نے کہا قاضی صاحب آپ اس پیغمبر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ قبل اس کے کہ قاضی شریک لب ہلائیں۔ اس شخض نے کہا آپ نے میرے معاملہ میں ان سے تو مشورہ لیا۔ بھلا مجھی سے کیوں نہ مشروہ لیا؟ مہدی نے کہا اچھا تم ہی بتاؤ کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ بولا میں اپنا فیصلہ ان انبیاء پر چھوڑتا ہوں۔ جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ بس جوان کا فیصلہ ہو اسی پر عمل کیجئے۔ مہدی نے کہا مجھے یہ منظور ہے۔ اب اس نے پوچھا اچھا بتائیے میں آپ کے نزدیک کافر ہوں یا مؤمن؟ مہدی نے کہا تم کافر ہو؟ بولا تو بس قرآن میں موجود ہے کہ ’’ولا تطع الکافرین والمنافقین ودع اذاہم‘‘ آپ کافروں اور منافقوں کی پیروی نہ کیجئے اور ان کے تکلیف دینے کو چھوڑ دیجئے۔ اس لئے آپ نہ میری پیروی کیجئے اور نہ مجھے ستائیے۔ بلکہ مجھے چھوڑ دیجئے کہ غریبوں اور مسکینوں کے پاس جاؤں جو کہ پیغمبروں کے پیرو ہوتے آئے ہیں اور
بادشاہوں اور جباروں کو میں بھی چھوڑ دوںگا جو کہ جہنم کے کندے ہیں۔ یہ سن کے مہدی ہنسا اور اسے تنبیہ کر کے چھوڑ دیا۔
۶… ایک دن عبداﷲ بن حاذم دجلہ کے پل کے پاس اپنی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں لوگ ایک شخص کو پکڑے ہوئے لائے۔ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ انہوں نے اس سے کہا تم پیغمبر ہو؟ بولا جی ہاں۔ پوچھا کس قوم پر مبعوث ہوئے ہو؟ بولا کسی پر ہوا ہوں تمہیں کیا؟ میں شیطان پر مبعوث ہوا ہوں۔ یہ جواب سن کے عبداﷲ ہنسے اور کہا اسے چھوڑ دو کہ شیطان ملعون کے پاس جائے۔
۷… سمامہ بن اشرس کہتے ہیں میں قید تھا کہ کیا دیکھتا ہوں ایک مہذب اور شائستہ اور باوقار شخص قید خانہ میں آیا۔ اس وقت میرے ہاتھ میں شربت کا جام تھا۔ اسے دیکھ کے میں اس قدر متحیر ہوا کہ جام کو منہ سے لگانا بھول گیا اور اس کے کہا آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ لوگوں نے کس گناہ پر آپ کو قید کیا ہے؟ بولا یہ بدمعاش مجھے پکڑ لائے ہیں اور محض اس بناء پر کہ میں نے امر حق کو ظاہر کیا۔ میں نبی مرسل ہوں۔ یہ سن کے میں متعجب ہوا اور اس سے کہا کہ کوئی معجزہ بھی آپ کے پاس ہے۔ بولا جی ہاں۔ میرے پاس تو سب سے بڑا معجزہ موجود ہے۔ پوچھا وہ کیا؟ کہا کسی حسین عورت کو لاؤ۔ دیکھو ابھی حاملہ کرادوںگا۔ پھر اس سے ایک بچہ پیدا ہوگا۔ میری نبوت کی تصدیق کرے گا۔ثمامہ نے یہ سنکر مشکل سے ہنسی روکی۔
۸… محمد بن عتاب نام ایک صاحب کا بیان ہے کہ میں نے ہارون رشید کے زمانہ میں ایک روز شہر رقہ میں دیکھا کہ لوگ ایک شخص کو گھیرے کھڑے ہیں۔ اس کی صورت دیکھی تو بہت مہذب وباوقار شخص نظر آیا۔ پوچھا اسے کیوں گھیرے ہوئے ہو؟ لوگوں نے کہا صاحب یہ پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے۔ میں نے کہا تم غلط کہتے ہو ایسے شخص سے ایسا فعل نہیں سرزد ہوسکتا۔ اس پر اور سب لوگ تو خاموش رہے۔ مگر خود اس نے بگڑ کے مجھ سے کہا تمہیںکیونکر معلوم ہوا کہ یہ مجھ پر جھوٹ لگاتے ہیں؟ میں نے کہا تو کیا تم نبی ہو؟ بولا بیشک میں نے کہا اس کی دلیل؟ بولا دلیل یہ ہے کہ تم ولد الزنا ہو۔ میں نے ضبط کر کے کہا بھلا پاک دامن عورتوں کو زنا سے متہم کرنا پیغمبروں کا کام ہے؟ بولا میں تو خاص اسی غرض کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ میں نے کہا تو مجھے تمہاری نبوت سے انکار ہے۔ بولا انکار ہے تو اپنے گھر خوش رہو۔ اتنے میں کسی نے اسے چند سنگریزے کھینچ مارے۔ جن سے وہ زخمی ہوگیا اور بولا یہ فعل خاص ابن زانیہ کا ہے اور آسمان کی طرف سر اٹھا کے کہنے لگا۔ تم نے میرے ساتھ یہ بھلائی نہیں کی جو ان جاہلوں کے
ہاتھ میں مبتلا کر دیا ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مجنون تھا۔
۹… مامون کے زمانے میں ایک اور شخص نے دعویٰ نبوت کیا تھا۔ مامون نے قاضی یحییٰ ابن اکثم کو ساتھ لیا اور کہا چلو ہم اس شخص سے چھپ کے ملیں اور دیکھیں کہ یہ کیسا شخص ہے اور کیا کہتا ہے۔ چنانچہ دونوں بھیس بدل کے اور ایک خادم کو ہمراہ لے کے اس کی صحبت میں گئے۔ اس نے ان کی کیفیت پوچھی تو کہا ہم دونوں اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ کے ہاتھ پر ایمان لائیں۔ اس نے کہا تو آؤ بیٹھو۔ اجازت پاکے مامون اس کے داہنے جانب اور قاضی صاحب بائیں طرف بیٹھ گئے۔ اب مامون نے پوچھا آپ کن لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے ہیں؟ بولا ساری خلقت اور کل بندگان خدا پر مبعوث ہوا ہوں۔ پوچھا تو کیا آپ پر وحی نازل ہوتی ہے؟ یا آپ خواب دیکھتے ہیں؟ یا دل میں القاء ہو جاتا ہے؟ یا آپ سے فرشتہ آگے گفتگو کرتا ہے۔ بولا فرشتہ گفتگو کرتا ہے۔ پوچھا کون فرشتہ آتا ہے؟ کہا جبریل۔ پوچھا اس سے پہلے کب آئے تھے؟ کہا ابھی تمہارے آنے سے پہلے وہ موجود تھے۔ پوچھا تو تم پر اس وقت کیا وحی آئی ہے؟ بولا یہ کہ عنقریب میرے پاس دو شخص آئیںگے۔ ایک میرے داہنے ہاتھ بیٹھے گا اور دوسرا بائیں پر اور جو بائیں ہاتھ پر بیٹھے وہ دنیا میں سب سے بڑا لوطی ہوگا۔ مامون اس کی یہ وحی سنتے ہی مارے ہنسی کے لوٹ گیا اور بولا ’’اشہد انک رسول اﷲ‘‘ (میں تمہاری رسالت پر ایمان لاتا ہوں)
۱۰… خالد قسری کے زمانے میں بھی ایک شخص نے دعویٰ نبوت کیا۔ لوگ اسے خالد کے سامنے پکڑ لائے۔ پوچھا تم کس بات کے مدعی ہو؟ بولا میں نے قرآن کا جواب دیا ہے۔ قرآن میں ہے۔ ’’انا اعطیناک الکوثر۰ فصل لربک وانحر۰ ان شانئک ھو الابتر‘‘ اور میں کہتا ہوں۔ ’’انا اعطیناک الجماہر۰ فصل لربک دجاہر۰ ولا قطع کل ساحروکافر‘‘ خالد نے برہم ہوکے حکم دیا کہ اسے سولی دی جائے۔ چنانچہ وہ صلیب پر لٹکا دیا گیا۔ اتفاق سے خلف بن خلیفہ شاعر کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے اسے لٹکتے ہوئے دیکھ کے کہا: ’’انا اعطیناک العمود۰ فصل لربک علی عود۰ وانا ضامن ان لا تعود‘‘
۱۱… کوفی کے ایک شخص کا بیان ہے کہ ایک دن میرے ایک دوست آئے اور کہا تم نے کچھ اور بھی سنا؟ یہاں ایک پیغمبر صاحب پیدا ہوئے ہیں۔ چلو ذرا ان سے مل کے دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں۔ میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور ہم دونوں اس نبی کے مکان پر پہنچے۔ وہ دروازے
پر ملا اور بہت کچھ عہد وپیمان لے کر ہمیں اندر لے گیا۔ یہ ایک نہایت ہی کریہہ صورت خراسانی بڈھا تھا اور بھینگا تھا۔حسن اتفاق سے میرے دوست کانے تھے۔ انہوں نے کہا تم چپکے رہو اور مجھے گفتگو کرنے دو۔ میں نے کہا بہتر اب ان دوست نے پوچھا جناب آپ کا کیا دعویٰ ہے؟ بولا میں نبی ہوں۔ پوچھا دلیل؟ کہا دلیل یہ کہ تم کانے ہو اپنی دوسری آنکھ بھی نکال کے اندھے ہو جاؤ۔ اسی وقت میں دعاء کر کے تمہیں اچھا کر دوںگا۔ میں نے ہنسی روک کے اپنے دوست سے کہا۔ پیغمبر صاحب نے بات تو معقول کہی ہے۔ انہوں نے جھنجلا کے کہا تو تم اپنی ہی دونوں آنکھیں پھوڑ کے ان کا امتحان لے لو۔ اس کے بعد ہم دونوں ہنستے ہوئے اپنے گھر آئے۔
۱۲… ایک بار مامون کے سامنے ایک اور مدعی نبوت پیش کیاگیا۔ پوچھا تمہارے پاس کوئی معجزہ بھی ہے؟ کہا جی ہاں جو آپ کے دل میں ہو بتادوںگا۔ مامون نے کہا اچھا بتاؤ۔ میرے دل میں کیا ہے؟ بولا آپ کے دل میں ہے کہ یہ شخص بڑا جھوٹا ہے۔ مامون نے کہا ہاں یہ تو تم نے سچ بتایا اور اسے قید خانہ میں بھیج دیا۔ چند روز بعد پھر سامنے بلوایا اور کہا تم پر کچھ وحی اتری؟ بولا نہیں۔ پوچھا کیوں؟ کہا اس لئے کہ قید خانہ میں فرشتے نہیں آتے۔ اس پر مامون ہنس پڑا اور اسے چھوڑ دیا۔
۱۳… ایک بار مامون کے پاس آذربائیجان سے ایک مدعی نبوت گرفتار کر کے لایا گیا۔ جب وہ سامنے آیا تو مامون نے اپنے داروغہ، محلہ ثمامہ کو حکم دیا کہ اس کا اظہار لے۔ اس نے عرض کیا۔ امیر المؤمنین کیا عرض کروں کہ آپ کے زمانہ میں انبیاء کی کس قدر کثرت ہوگئی ہے۔ پھر اس مدعی نبوت سے کہا تمہاری نبوت کی دلیل کیا ہے؟ کہا ثمامہ تم اپنی جورو کو میرے پاس بھیج دو اور میں تمہارے سامنے اس سے مقاربت کروں۔ اس سے ایک بچہ پیدا ہوگا جو گہوارے ہی میں میری پیغمبری کی تصدیق کر دے گا۔ ثمامہ نے کہا ’’اشہد انک رسول اﷲ‘‘ (میں گواہی دیتا ہوں کہ تم خدا کے رسول ہو) مامون نے کہا تم چھوٹتے ہی ایمان لے آئے! عرض کیا امیر المؤمنین کا کیا بگڑے گا۔ آبرو تو میری جورو کی جائے گی۔ جسے اپنی بی بی سے دست بردار ہونا ہو وہ ان کی نبوت میں شک کرے۔ اس پر مامون بے اختیار ہنس پڑا اور اسے چھوڑ دیا۔
۱۴… ایک بار ہارون رشید کے سامنے ایک مدعی نبوت پیش کیاگیا۔ رشید نے اس سے دریافت کیا تو بولا جی ہاں میں نبی کریم ہوں۔ پوچھا دلیل؟ کہا آپ جو فرمائیں۔ رشید نے کہا میں چاہتا ہوں کہ یہ جتنے مرد غلام کھڑے ہوئے ہیں ان کے اسی وقت داڑھیاں نکل آئیں۔ سوچ کے بولا بھلا اس میں کون سی خوبی ہے کہ ان کے پیارے
پیارے مونہوں پر داڑھیاںنکل آئیں اور ان دلفریب صورتوں کو میں بگاڑ دوں۔ ہاں یہ معجزہ دکھا سکتا ہوں کہ جتنے داڑھیوں والے کھڑے ہیں ان کی داڑھیاں غائب کر دوں۔ یہ سن کر رشید بہت ہنسا اور اس کو نکلوا دیا۔
۱۵… ایک اور مدعی نبوت کو مامون کے سامنے لائے اور معجزہ طلب کیا۔ اس نے کہا میں سنگریزے پانی میں ڈالتا ہوں۔ اگر گھل جائیں تو جانئے میں سچا نبی ہوں۔ مامون نے کہا منظور۔ اس نے ایک کٹورے میں پانی بھر کے سب کے سامنے سنگریزے ڈالے۔، جودم بھر میں گھل گئے۔ لوگوں نے کہا یہ جعلی سنگریزے تھے۔ ہم جو سنگریزے دیں انہیں گھلاؤ۔ تو سند ہے بولا۔ نہ تم فرعون سے بڑے ہو اور نہ میں موسیٰ سے بڑا ہوں۔ فرعون نے موسیٰ سے یہ تو نہیں کہا تھا کہ تمہارے عصا کی سند نہیں۔ ہم اپنا عصا دیتے ہیں۔ اسے اژدھا بناؤ۔ تو جانیں۔ مامون اس لطیفہ پر بہت ہنسا اور اس مدعی نبوت کو چھوڑ دیا۔
۱۶… ایک مدعی نبوت کو لوگ پکڑ کے معتصم باﷲ کے سامنے لائے۔ معتصم نے پوچھا تم نبی ہو؟ کہا جی ہاں۔ پوچھا کس کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے ہو؟ کہا آپ کی ہدایت کے لئے۔ معتصم بولا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ تم رزیل اور احمق ہو۔ بولا جی ہاں یہ تو قاعدہ ہی ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی پیغمبر بھی ان پر بھیجے جاتے ہیں۔ اس جواب پر معتصم شرمندگی سے ہنسا اور اسے رخصت کر دیا۔
۱۷… ایک اور جعلی پیغمبر مامون کے سامنے لایا گیا۔ مامون نے کہا اچھا اسی وقت ایک خربوزہ لا کے پیش کرو۔ اس نے کہا تین دن کی مہلت دیجئے۔ مامون نے کہا مہلت نہ دی جائے گی۔ اسی وقت لاکے حاضر کرو۔ بولا بھلا یہ کون سا انصاف ہے؟ وہ خدائے عزوجل جس نے سارے آسمان وزمین کو چھ دن میں بنایا وہ تو خربوزے کو کم ازکم چھ مہینہ میں پیدا کرتا ہے اور میں اسی وقت پیدا کر دوں۔ اس جواب پر مامون ہنسا اور اسے چھوڑ دیا۔
۱۸… ایک مدعی نبوت متوکل علی اللہ عباسی کے سامنے پیش کیاگیا۔ پوچھا تم نبی ہو؟ بولا جی ہاں۔ کہا دلیل؟ بولا خود قرآن میری نبوت کی تصدیق کر رہا ہے۔ میرا نام ہے نصر اللہ اور قرآن میں موجود ہے کہ:’’اذا جاء نصر اللہ والفتح‘‘ کہا اچھا کوئی معجزہ دکھاؤ۔ کہا کسی بانچھ عورت کو میرے پاس لاؤ۔ میں اسی وقت بچہ پیدا کرا دوں گا۔ جو پیدا ہوتے ہی میری نبوت کی تصدیق کرے گا۔ اتفاقاً حسن بن عیسیٰ کی بی بی بانچھ تھی۔ متوکل نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو کیا
مضائقہ ہے؟ اس کے معجزے کو ضرور آزمانا چاہئے۔ تم اپنی بی بی کو لے آؤ۔ حسن نے کہا حضور اپنی بی بی کو تو وہ لائے۔ جسے ان کی نبوت سے انکار ہو۔ میں تو ان کا یہ معجزہ سنتے ہی ایمان لاچکا اور اقرار کرتا ہوں کہ اشہدانہ نبی اللہ! متوکل اس پر ہنسا اور اسے آزادی دے دی۔
… اسی متوکل کے عہد میں ایک عورت بھی گرفتار کر کے لائی گئی جو پیغمبری کا دعویٰ کرتی تھی۔ متوکل نے پوچھا تو نبیہ ہے؟ بولی جی ہاں۔ پوچھا محمد رسول اﷲﷺ کو بھی نبی مانتی ہے یا نہیں؟ بولی کیوں نہیں؟ بیشک مانتی ہوں۔ کہا تو انہوں نے فرمایا ہے کہ:’’لا نبی بعدی‘‘ (میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا) بولی بے شک فرمایا ہے۔ مگر یہ تو نہیں فرمایا کہ: ’’لا نبیۃ بعدی‘‘ (میرے بعد کوئی نبیہ نہ ہوگی) اس پر متوکل ہنسا اور اسے چھوڑ دیا۔
(تحفۃ الاولی الالباب فی مجالس الاحباب ص۳۷،۳۸، مطبوعہ مصر)
باب۷۴ … عہد حاضر کے دجال کذاب
عہد حاضر کے مرزائی دجالوں کا تذکرہ ۷۱ویں باب میں سپرد قلم ہوچکا ہے۔ اب حال کے دوسرے خود ساختہ مقدسین کے حالات سنئے۔ آج سے کوئی بارہ سال پیشتر کتور ضلع بلگام علاقہ کرناٹک میں ابراہیم خان نام ایک سی سالہ جوان ایف اے فیل نے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنے مذہب کا نام اللہ ازم رکھا۔ اس کے مشن کو اللہ اینڈ برہما مشن کہتے تھے۔ معلوم نہیں یہ شخص ہنوز زندہ ہے یا نہیں؟ اور اس کا مذہب اب تک ملیامیٹ ہوا یا نہیں؟ اس نے اپنی عورت کے متعلق ایک ضخیم کتاب انگریزی میں لکھی اور اس کا خیال تھا کہ اس کے شائع ہوتے ہی تمام مذاہب مندرس ہو جائیںگے اور تمام مخلوق اللہ ازم میں داخل ہو جائے گی۔ اس کا عقیدہ تھا کہ مادہ ہی خدا ہے اور وہی مختلف صورتیں اختیار کرتا ہے۔ اس کی شریعت میں ایک عورت پر بہت سے مرد قناعت کر سکتے تھے۔ حسب خواہش طرفین سب عورت مرد ایک دوسرے سے متمتع ہو سکتے تھے۔ اس سے دریافت کیاگیا کہ اس آزادانہ حرام کاری سے جو پلے پیدا ہوںگے ان کی تربیت وکفالت کون کرے گا؟ تو بولا کہ یہ کام اللہ ازم کا مشن انجام دے گا۔ جب وراثت کے متعلق دریافت کیاگیا تو کہنے لگا کہ جب تمام روئے زمین پر اسی مشن کی حکومت ہو جائے گی تو لوگوں کا ترکہ صرف مشن کو ملے گا۔ کوئی شخص کسی جائیداد کا وارث نہ ہوگا۔ یہ شخص کسی خاص طریقہ عبادت کا قائل نہیں تھا۔ اس کے نزدیک صرف خدا کا خیال دل میں رکھنا کافی تھا۔
(ماخوذ از جریدہ زمیندار لاہور مورخہ ۲۹؍اگست ۱۹۲۵ء)
کرد مسیح موعود
۱۹۲۹ء میں قسطنطنیہ سے یہ خبر آئی تھی۔ کردستان میں احمد نام ایک شخص نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایسا جادو ہے کہ آنکھیں چار ہوتے ہی زائر مطیع ومنقاد ہو جاتا ہے۔ بیشمار زائرین کا بیان ہے کہ احمد نے اپنے ملازموںکو پچیس آدمیوں کا کھانا پکانے کا حکم دیا۔ لیکن وہی کھانا قریباً ڈیڑھ سو نفوس نے کھایا اور پھر بھی پس انداز ہوگیا۔ شیخ اپنے پیروؤں کو قتل، سرقہ اور دوسرے منہیات کی ممانعت کرتا ہے۔ احکام خداوندی کی اطاعت اور ہرحال میں اس سے اعانت خواہ رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس وقت تک پچاس ہزار ترک شیخ کی زیارت کے لئے شام کو طویل سفر اختیار کر چکے ہیں۔ اس وقت تک قریباً اسی قدر ترک اس کے حلقۂ ارادت میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس لئے پولیس نظر غائر سے اس کے طور طریقوں کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ پولیس کا بیان ہے کہ شیخ نے مختلف ترکی اضلاع میں اپنے پروپیگنڈا ایجنٹ مقرر کر رکھے ہیں جو شیخ کو آسمان عظمت پر پہنچا کر لوگوں کو حصول زیارت اور مرید ہو جانے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اسی الزام میں اس کے پانچ سو اسی ایجنٹ گرفتار ہوکر ایک ایک ہفتہ کی سزا کاٹ چکے ہیں۔
(سیاست لاہور مورخہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۲۹ء)
ایک ترک مہدی موعود
۱۹۳۱ء میں قسطنطنیہ سے اناطولیہ میں ایک نئے مہدی کے ظہور کی خبر آئی تھی۔ جس کی مہدویت کی عمر حکومت کے فوری اقدام کے باعث تین دن سے زیادہ ممتد نہ ہوسکی۔ اس مہدی کا بیان تھا کہ دوسال کا زمانہ گذرتا ہے۔ جب کہ جبریل امین نے مجھے بتایا تھا کہ تجھے خدا نے اپنی نبوت کے لئے چن لیا ہے۔ دنیا تیرے ذریعہ سے ہدایت پائے گی۔ لیکن تاحکم ثانی تو بالکل خاموش رہ۔ جب ترکی پولیس نے اسے گرفتار کیا تو اس نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان کیا کہ ابھی پرسوں ہی شب خدا کا حکم نازل ہوا تھا۔ جس کی تعمیل کے لئے میں اٹھ کھڑا ہوا۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ شخص بالکل صحیح الدماغ ہے۔
(زمیندار مورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۳۱ء)
’’ولللّٰہ الحمد والمنۃ علی التمام وعلیٰ نبیہ افضل التحیۃ والسلام واٰلہ وصحبہ البررۃ الکرام وتابعیہ الیٰ یوم القیام۰ وقد فرغت من تسوید ہذا الکتاب بعون اللہ الموفق ببلدۃ لا ھور فی وسط ربیع الثانی ۱۳۵۵ھ علیٰ صاحبھا الف۰ الف تحیۃ وسلام‘‘
آئمۂ
تلبیس
کتاب ختم شدہ